پوسٹ تلاش کریں

وزیرستان محسود ایریا میں مکمل امن ہے، گرمیاں گزارنے کیلئے آئیں، مولانا صالح شاہ قریشی اور عالم زیب خان کی محسود عوام سے اپیل۔

وزیرستان محسود ایریا میں مکمل امن ہے، گرمیاں گزارنے کیلئے آئیں، مولانا صالح شاہ قریشی اور عالم زیب خان کی محسود عوام سے اپیل۔

جنوبی وزیرستان مکین شہر میں تین محسود قبائل کے گرینڈ جرگہ سے جمعیت علماء اسلام کے سابق سینٹر مولانا صالح شاہ قریشی نے کہا کہ آج یہاں پر جو جرگہ ہوا ہے، انکے بلانے پر میں یہاںآیا ہوں اور میں نے یہ بات کی کہ محسود قوم میں کراچی ، ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان اور جہاں پر بھی محسود رہتے ہیں یہ پروپیگنڈہ ہوا ہے کہ یہاں امن نہیں ہے ۔ بدامنی ہے، آپریشن ہے، یہ الٹی سیدھی باتیں میرے وزیرستان کے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔ یہ پروپیگنڈہ غلط ہے۔ آج جب میں اس جرگے میں آرہا تھا تو سامنے ایک شخص نے مجھے چائے کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ کراچی سے ہمیں فون آیا ہے کہ جنڈولہ سے مکین کی طرف توپوں سے گولہ باری کی جارہی ہے۔ بھائی یہ سب ہمارے امن کے خلاف پروپیگنڈے ہیں۔ میری محسود قوم اگر تم یہاں مکین میں ہو یا کراچی میں ہو یا پنڈی اور اسلام آبا د میں ہو ، میں تمہیں وزیرستان سے امن کا پیغام دیتا ہوں۔ میں وزیرستان سے خیر کا پیغام دیتا ہوں۔ اپنا خوف مٹا دو ، یہاں والوں کو بھی کہتا ہوں اور جو باہر ہیں ان سے بھی کہتا ہوں اکا دُکا واقعہ پر آپ اپنے وطن کو چھوڑتے ہو تو پھر ٹانک کو بھی چھوڑ دو۔ پھر کراچی بھی چھوڑ دو اور کل ہی کراچی میں دھماکہ ہوا ہے۔ اگر تم ان واقعات کی وجہ سے وطن چھوڑتے ہو تو پشاور میں بھی ہوتے ہیں اسلام آباد میں بھی ہوتے ہیں ، پنڈی میں بھی ہوتے ہیں ، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہوتے ہیں، بلوچستان میں بھی ہوتے ہیں۔ جب سارا وطن کسی نے ایک بم یا توپ سے نہیں چھوڑا ہے تو تم اپنا وطن کیوں چھوڑتے ہو۔ آج امریکہ میں8افراد مرے ہیں کیا امریکی وہاں سے نکلے ہیں۔ روس میں روزانہ یہ واقعات ہوتے ہیں ۔ قوم کایہ پیغام دیتا ہوں کہ گرمیوں سے خود کو مت مارو، جو مکین ، کڑمہ، خیسور، شکتوئی اور جہاں کا رہائشی ہے اپنی جگہ پر آئے۔ ہمارا وطن سکول، ہسپتال اور کسی چیز سے آباد نہیں ہوتا ہے بلکہ محسود قوم سے ہوتا ہے۔
جبکہPTMکے ہر دلعزیز رہنما عالم زیب خان محسود نے کہا ہے کہ ہم اپنی پوری قوم کو مکین شہر سے میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ قوم اپنے علاقہ میں آجائے۔ جو بھی ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان اور دوسرے شہروں میں رہتے ہیں جو ہرسال روٹین میں گرمیاں گزارنے کیلئے آتے تھے ،ان کو یہ پیغام ہے اور ان سے ہماری یہ درخوست ہے کہ اپنے علاقے میں آجائیں اوران علاقوں کو آباد کریں۔ یہ امن تمہارے ساتھ وابستہ ہے ، جب تم یہاں ہوگے تو امن ہے اور اگر تم یہاں نہ ہو تو امن نہیں ہے۔ ویسے بھی جو جگہ خالی ہوجاتی ہے تو وہاں خاموشی چھا جانے سے بھی دہشت پھیل جاتا ہے اور دہشت ایسی چیز ہے کہ اس کی کوئی مخصوص شکل ہو۔ یہ خاموشی اور تنہائی بھی جب کچھ بھی موجود نہ تو یہ بھی ایک دہشت اور وحشت ہے۔پس تمہارے آنے کی وجہ سے امن اپنی جگہ پر آجائے گا۔ تمہیں یہ انتہائی درخواست ہے کہ ان علاقوں کو آباد کرو۔ یہ اچھا موسم اور یہ میٹھی ہوائیں ان سے اپنے بچوں کو محروم نہ کریں۔ سب آجائیں اور ایسا میں اپنی بات کروں گا ہم نے بھی اپنی فیملی یہاں لائی ہے۔ اس طرح سب سے یہ درخواست ہے کہ اپنی اپنی فیملیاں لائیں تاکہ ہم مستقل اپنے وطن کو آباد کردیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

افغانستان، پاکستان، عراق، لیبیا اور شام تباہ کرنے والا اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ امریکہ دوست لیکن اسرائیل بلیک میلنگ کا ذریعہ؟۔

افغانستان، پاکستان، عراق، لیبیا اور شام تباہ کرنے والا اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ امریکہ دوست لیکن اسرائیل بلیک میلنگ کا ذریعہ؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریک انصاف کی رہنما سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے پاک فوج کو اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے جب اپنا بیان جاری کیا تو میڈیا پر اس سے بھونچال آیا اور تہلکہ مچ گیا۔

جیو نیوز ”آپس کی بات” کے میزبان منیب فاروق نے پاکستانی نژاد امریکنNGOکے وفد اور صحافی احمد قریشی سے پوچھا کہ اسرائیل جانے اور اسرائیلی صدر وغیرہ سے ملاقات کے کیا مقاصد تھے؟

ARYنیوزٹائپ کے صحافی احمد قریشی نے بتایا کہ75سالہ تاریخ میں پاکستان میں پہلی بار کسی یہودی کو پاسپورٹ جاری کیا گیا ہے جس کا کریڈٹ ریاست اور تحریک انصاف کو جاتا ہے

تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے اسرائیل کے حوالے سےISPRپاک فوج کے ترجمان کو دھمکی دی تو عدالت نے باغی ارکان کے ووٹ کاؤنٹ نہ کرنے کا فیصلہ دیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف ریاست کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ جیو نیوز اور صحافیوں کے ایک ٹولے کی طرف سے عمران خان کی حکومت اور پاک فوج پرایک دباؤ اور ن لیگ کو ریلیف اور وکالت کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اب پانسہ پلٹ گیا ہے تو پاک فوج کو عمران خان کے دباؤ سے نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔
اگر شیریں مزاری یہ اعلان کردیتی کہ پاک فوج نے درپردہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا جس کے پیچھے امریکہ تھا اور ہم نے ایسا نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت امریکہ کی ایماء پر ختم کردی گئی تو پاک فوج سے محبت کرنے والے جلاؤ گھیراؤ پر اتر آتے جو کسی طاقت سے پھر سنبھالے نہیں جاسکتے تھے۔ عمران خان نے خوف کے مارے یہ رسک لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج پر عمران خان بھی قربان ہو۔
اسرائیل جانے والے پاکستانی نژاد امریکن وفد میںARYنیوز کے صابر شاکر ٹائپ کے صحافی احمد قریشی نے انکشاف کیا کہ75سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک یہودی کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا جسکا کریڈٹ ریاست اور عمران خان کی حکومت کو جاتا ہے۔ وفد کا مقصد پاکستان کی نمائندگی کرنا نہیں بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی تھا۔ اسرائیلی حکومت کے نمائندوں نے بتایا کہ جس طرح ہم اپنے سخت گیر لوگوں کو سامنا کررہے ہیں جو مسلمانوں اور فلسطینیوں سے تعلق کی بحالی نہیں چاہتے۔ اسی طرح تم لوگوں کو بھی ان شدت پسندوں کا سامنا ہے۔ جب آپ کی طرف سے پیش رفت ہوگی تو ہم بھی اپنے لوگوں کو مطمئن کرسکیں گے۔ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے بعد سب سے زیادہ تعداد ترکیوں کی تھی جن کا50سال سے اسرائیل سے دوستانہ تعلق ہے۔ مصر، عرب امارات، بحرین اور دوسرے مسلم ممالک نے اسرائیل سے تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ منیب فاروق نے پوچھا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری جو تاثر دے رہی ہے کہ ہماری حکومت کی رخصتی کے بعد امریکہ سے پاکستانیوں کا وفد اسرائیل گیا تو کیا اس کے پیچھے عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت قائم ہونے کا کوئی تعلق ہے؟۔ جس کے جواب میں احمد قریشی نے کہا کہ میں ایک صحافی ہوں اورصحافت کا تعلق خبر سے ہوتا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی بھی اسرائیلی سفیر سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں میڈیا پر آئی تھیں۔ عمران خان کے دور میں اسرائیلی جہاز کی آمد کے حوالے سے بھی مذہبی و سیاسی رہنماؤں میں خبر گردش کررہی تھی ۔پاکستان کی ریاست اور عوام کے درمیان گیس بھرے غبارے کا تعلق ہے۔ فضاؤں میں اڑنے والا غبارہ کب پھٹ جائے یا پھر کب گیس خارج ہوجائے؟ یہ ریاست ، سیاست اور صحافت کی بساط پر کھیلنے والے کھلاڑیوں کے بائیں ہاتھ کا ایک کھیل ہے۔ جب مقتدر طبقات، سیاستدانوں اور صحافیوں میں شعور نام کی کوئی چیز نہ ہو تو بے خبر عوام سے کس بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ ذرا سوچئے تو سہی3بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کا بھائی کئی بار کا تجربہ کار وزیر اعلیٰ شہباز شریف اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کررہا ہے؟۔
عوام الناس کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کے مخصوص طبقے کو بھی شعور دینا بہت ضروری ہے۔ پنجاب کی عوام کا حال بھارت کے پسماندہ طبقات سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ جن کو گلی، محلے، علاقے اور سیاسی بدمعاشوں کے علاوہ پولیس، عدالت کچہری اور معاشرتی چوہدریوں کی چودھراہٹ کا سامنا ہے۔ پختونخواہ، سندھ، بلوچستان اور کراچی کے غریب عوام کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تھوڑا سا خوشحال طبقہ برگر کلاس فارمی اور فینسی مرغیاں اور پرندے ہیں۔ بقیہ صفحہ2نمبر3

بقیہ نمبر3…اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بلیک میلنگ
جن کا سیاست ، نظرئیے اور انسانی ہمدردیوں سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ عمران خان جتنے لوگوں کو نظرئیے کے نام پر اکھٹا کرتے ہیں اگر وہ اپنی بیٹی ٹیرن وائٹ کو میدان میں لائیں تو ان سے زیادہ بڑا اجتماع ہوگا۔ جب قوم کو شعور نہیں ملتا تونظریاتی بننے کے بجائے لوگ اُلو بنتے ہیں۔ جمہوریت نے باشعور لوگوں کو عمران خان اور سب جماعتوں کی کارکردگی زبردست طریقے سے دکھادی ہے۔
امریکہ نے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی تباہ کردیا اور پھر عراق، لیبیا اور شام کو بھی تباہ کردیا اور یوکرین روس کے ہاتھوں امریکہ نے ہی تباہ کیا۔ عمران خان کہتا ہے کہ میں غیرت پر جیتا اور مرتا ہوں لیکن جب اس کو خوف تھا کہ اپوزیشن حکومت کیلئے مشکلات پیدا کریگی اور قرار داد لانے پر فرانس کے سفیر کو باہر نکالے گی تو پھر وعدے کے باوجود توہین رسالت کے مرتکب فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہیں کیا۔ عوام نے نہ صرف پولیس والوں اور عوام کو قتل اور زدوکوب کیا بلکہ سری لنکن شہری کو سرِ عام بہیمانہ تشدد سے قتل کرکے جلا ڈالا۔ یہ وہی جذبہ تھا جو عمران خان نے ن لیگ کی حکومت کیخلاف مشکلات کھڑی کرنے کیلئے عوام میں پیدا کیا تھا۔ جس کی پھر عمران حکومت شکار ہوئی۔ اگر امریکہ نے عمران خان کو حکومت سے نکالا اور عمران خان امریکی سفیر کو نہیں نکال سکا تو ایسی بہادری پر پوری قوم نے عمران خان کو مسیحا ماننا ہے کیا؟۔
ہماری ریاست اور متحدہ حکومت کو اصل ڈر عوام کی اس جہالت سے ہے جو انہوں نے اسرائیل وامریکہ کیخلاف اور مذہب کے نام پر خود کاشت کی ہے۔ عمران خان کی ایک خاتونMNAنے اپنے دورِ حکومت میں مرکزی خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے یہ تبلیغ بھی شروع کردی تھی کہ ہم نماز میں یہودیوں پر درود بھیجتے ہیں۔ اسلئے کہ یہود و نصاریٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ، چور مچائے شور کی بہت ساری کہاوتیں مشہور ہیں۔
جب صدر مملکت عارف علوی نے عدالت کو ریفرنس بھیجا کہ باغی ارکان کی پوزیشن واضح کی جائے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں بھی مخمصے کا شکار ہوگئی تھیں کہ اگر اتنے ارکان کی بغاوت ہے تو حکومت کا خاتمہ یقینی ہے۔ لیکن عدالت نے اتنی دیر کردی کہ تحریک انصاف کے اتحادیوں نے راہیں جدا کرلیں۔ جب منظر نامہ بدل گیا تو عدالت کا فیصلہ آگیا۔ اگر عمران خان نے راتوں رات عدالت لگانے پر درست اعتراض کیا تھا تو اس کو چاہیے تھا کہ اعلان کرتا کہ جج صاحبان اس کو رول کرکے اپنی کرسی کے اوپر رکھ لیں ہوسکتا ہے کہ انکے کام آجائے۔ بزدار سے تو ویسے استعفیٰ لیا تھا اور پرویز الٰہی کی بھی مٹی پلید ہوچکی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کا بیٹا وفاقی وزیر ہے۔ پنجاب کی حکومت کا دانہ چگنا ممکن نہیں ۔علیم خان اور جہانگیر ترین بھی مخالف جانب ہیں تو اس گناہ بے لذت حکومت کی بحالی پر عدالت کو خوش آمدید کہنا عقل کی بات نہیں۔
ہندوستان سے علیحدگی کی بنیاد مسلمانوں کا الگ وطن پاکستان تھا۔ اسلام کا نظام اتنا بہترین ہے کہ غریب، امیر اور متوسط طبقات کے علاوہ مسلم اور غیر مسلم سب کیلئے قابل قبول ہے۔ لیکن مذہبی طبقات نے اسلام کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر اسلامی مزارعت کی بنیاد پر سُودی نظام کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے اور محنت کشوں کو اپنی محنت کا پورا پورا صلہ ملے تو دنیا بھر کے کامریڈ اسلامی نظام کیلئے کھڑے ہوجائیں گے اور روس وغیرہ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
14سالہ چھوٹی بچی دعا زہرا کو والدین سے الگ کرکے شریعت کے نام پر نکاح کرنے کی گنجائش مولوی کے خود ساختہ مذہب میں ہے۔ قرآن و سنت میں نہیں ہے۔ میاں بیوی کی ناراضگی کے بعد باہمی صلح کیلئے حلالے اور بے غیرتی کی بنیاد قرآن و سنت نے نہیں ملاؤں نے رکھی ہے۔ جب لوگوں میں غلط فرسودہ حلالے کی روایت کو توڑنے کی غیرت نہیں ہے تو ان سے اور کیا غیرت کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟۔ قرآن نے سورۂ نساء آیت19میں عورت کو خلع اور شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے۔ آج اگر ڈاکٹر عامر لیاقت اعلان کردے کہ میں نے دانیہ سمیت کسی بیوی کو طلاق نہیں دی ہے تو مولوی کے مذہب کے مطابق عدالت کو خلع دینے کا حق نہیں۔ حالانکہ جس طرح شوہر کو طلاق کا حق ہے اسی طرح سے بیوی کو قرآن و سنت نے خلع کا حق دیا ہے۔ جس کیلئے عدالت میں جانے کی بھی ضرورت نہیںہے ۔ جب ہاتھ لگانے سے پہلے شوہر بیوی کو طلاق دے تو پھر بھی مالدار اور غریب کو اپنی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر دینا فرض ہے لیکن جب خواتین سے کئی بچے جنوائے جائیں اور پھر ان کو طلاق دے کر نہ صرف گھروں سے باہر بھگایا جائے بلکہ ان کے بچے بھی چھین لئے جائیں تو ایسا ظلم اسرائیل و امریکہ اور کسی بھی غیر مسلم ملک میں نہیں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ملاؤں کا بگڑا ہوا اسلام درست کرنا ہوگا پھر معاشرہ خود بخود مثالی بنے گا اور ترقی کرے گا۔
قرآن میں معاشرتی مسائل کی زبردست وضاحت ہے جس کی طرف ملاؤں کا دھیان نہیں گیا۔ قرآن میں تسخیر کائنات ہے۔ مسلمان سائنسدانوں نے مختلف شعبوں میں سائنسی ترقی کے حوالے سے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اگر اس روش پر مسلمان قائم رہتے تو آج سائنسی ترقی میں مسلمانوں کا بہت بڑا حصہ ہوتا۔ قرآن نے بادلوں اور بجلی کی تسخیر کابتایا۔غیر مسلموں نے الیکٹرک اور الیکٹرانک سے دنیا کو روشن کردیا لیکن فقہاء غسل کے فرائض کی تسخیر میں لگے ہوئے تھے۔ مولانا شاہ تراب الحق قادری اور دعوت اسلامی کے مفتیوں نے عوام کو ان فقہی مسائل سے آگاہ کیا کہ ”روزے کی حالت میں پاخانہ کرنے کے بعد زور دے کر اپنے مقعد سے نکلنے والی آنت کو باہر رہنے پر مجبور کرو اور دھو کر اس کو کپڑے سے سکھادو نہیں تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور استنجا کرتے وقت اپنی سانس کو بند رکھیں اسلئے کہ مقعد میں پانی چڑھ جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
اللہ تعالیٰ مذہبی طبقات سمیت ہمیں اور سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین ہمیں معلوم ہے کہ بعض قادیانیوں نے شیعوں کے خلاف آگ بھڑکانے میں بڑا کردار ادا کیا اور قادیانی جتنے قابلِ نفرت ہیں تو ان کی اپنی روش اس میں شامل ہے۔ تاہم قادیانی کو صرف اسلئے کہ وہ قادیانی ہے قتل کرنا جائز نہیں ہے ۔ جو اس کو جائز سمجھتا ہے تو بڑے علماء ومفتیان بسم اللہ کریں۔ مولانا فضل الرحمن کے دل کے وال بھی قادیانی ڈاکٹر مبشر نے بدلے تھے۔ اوکاڑہ میں ایک قادیانی کو قتل اور اسکے تین سالہ بچے کو زخمی کرنا ایک مدرسے کے نئے فاضل علی رضا کی طرف سے بہت قابلِ غور معاملہ ہے۔ زندیق کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کی توبہ بھی قبول نہیں۔ اور قادیانیوں کو زندیق قرار دیا گیا ہے۔ پھر جنگ گروپ کے مالک نے قادیانی لڑکی کو توبہ کرواکر کیسے شادی کی ؟۔ نبی ۖ نے نبوت کے دعویدار ابن صائد دجال کو قتل نہیں کیا اور نہ اکابر علماء نے مرزاغلام احمد قادیانی کو قتل کیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

لغت میں خراسان مشرق کو کہتے ہیںاور عرب سے افغانستان،ایران،پاکستان مشرق کی جانب ہیں۔احادیث صحیحہ میںخراسان سے مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے اور دجال کے نکلنے کا بھی ذکر ہے!

جب دہشتگردوں نے ہمارے گھر پر حملہ کرکے13افراد کو شہید کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کیلئے آمد کے موقع پر طالبان کو خراسان کادجال قرار دیا لیکن میڈیا نے خبرسنسر کردی تھی

امریکی صدر جوبائیڈن نے اسلام اور مہدی مخفی کا عید الفطر کی مناسبت سے ایک تقریب میں ذکر کیا تو انگریزی، عربی ، اردو سوشل میڈیا میں پذیرائی مل گئی۔ شیعہ عالم دین علامہ یاسر نقوی نے کہا کہ ”امریکی صدر تک نے مہدیٔ غائب کا ذکر کیا۔ جوبائیڈن نے کہا کہ گھرمیں تقابلِ ادیان کی کتابیں ہیں۔ ایک پروفیسر نے اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا اور خفیہ مہدی کا زیادہ معلوم نہیں ۔ کافر نے فطری امام کا نام لیا اور سنی تعصب سے مہدی غائب کا ذکر نہیں کرتے ۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن غیر متعصبانہ علمی حقائق کا تذکرہ کرنا چاہیے”۔ عربی عالم نے کہا کہ” خفی مہدی سے غیرفطری غائب امام مراد نہیں بلکہ سنی امام مہدی مراد ہیں جوانسانوں اور جنات شیاطین کی نظروں سے مخفی ہیں”۔ شیخ محی الدین ابن عربی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے عربی عالم نے کہا کہ ” مہدی کا عوام کی نظروں سے اوجھل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ”لوگ واضح اسلامی احکام کو نہیں سمجھیں گے”۔
میرا عزیز پیر سید زبیرشاہ امریکیوں کا گائیڈ تھا۔ اسامہ بن لادن کیلئے کانیگرم جنوبی وزیرستان بھی امریکی ٹیم لایا تھا۔ سوات میں اس کی طالبان کے ہاتھوں گرفتار ی کی خبر آئی اور ساتھ میں ایک سومرو صحافی بھی تھا جو تاجر کے بھیس میں امریکہ کیلئے جاسوسی کررہے تھے۔ میڈیا پر گرفتاری کی خبر چلتے ہی تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان حاجی عمر نے کہا کہ فوری طور پر چھوڑ دیں گے۔ جس سے امریکہ اورTTPکے تعلق کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میرے ایک اور عزیز نے بتایا کہ وہ زبیرشاہ کیساتھ اسلام آباد میں امریکہ کے کسی بنگلے نما آفس میں گیا اور وہاں اس نے ہمارے نقش انقلاب کو دیکھا تھا جس میں گیارہ افراد کی تصاویر تھیں اور بارویں کا چہرہ مخفی تھا۔ شیعہ نے بارہ اماموں کا نقشہ بنایا ہوگا۔ صدر جوبائیڈن نے مخفی امام کا ذکر شاید اسی حوالے سے کیاہوگا۔
پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک حضرت عیسیٰ اور حضرت خضر کی زندگی کا تصور ہے تو کیا حرج ہے کہ شیعہ کے امام کو ہزارسال سے غائب مانا جائے؟ ۔ میں نے اپنی کتابوں میں سنی وشیعہ کتابوں سے بہت واضح دلائل دئیے کہ مہدی آخری امیر سے پہلے گیارہ ائمہ اہل بیت حکومت کریں گے اور ان پر امت متفق بھی ہو گی۔ عیسیٰ کا نزول ، مہدی کی آمداوردجال کا خروج ہوگاتو پتہ چل جائیگا کہ شیعہ یاسنی مؤقف درست ہے؟۔ پہلے اتحادو اتفاق اور وحدت کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے ۔ایک دوسرے کے دلائل سننا ،سمجھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ فرقہ وارانہ انتشار، قتل وغارتگری اور ایکدوسرے کیلئے عدم برداشت کا رویہ کسی کیلئے بھی کوئی فائدہ مند نہیں۔شیعہ کہتے ہیں کہ” خلافت راشدہ کے دور میں حضرت علی کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ آخرکا ر مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہونا پڑا۔ امام حسن نے مجبوری میں امیرمعاویہ کیلئے منصب چھوڑ دیا اور امام حسین کوشہیدکیا گیا اور باقی ائمہ اہل بیت نے خاموشی اختیار کرلی اور آخری غائب ہوگئے ”تو جب پہلے گیارہ نے کچھ نہ کیا تو بارویں امام سے امید کون لگائے گا؟۔اسلئے امام خمینی نے انتظار کی گھڑیاں ختم کرکے انقلاب برپا کردیا۔ حالانکہ شیعہ حدیث میں تھا کہ ”ہمارے قائم سے پہلے جس نے خروج کیا وہ ایسے طاہر کا بچہ ہوگا جو دوسروں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہوگا”۔ فاطمی خلافت بھی آغاخانیوں اور بوہریوں کے آباء واجداد نے قائم کی تھی لیکن شیعہ امامیہ ان کے خلاف تھے۔ امامیہ شیعہ امام کا لفظ بارہ ائمہ کے علاوہ کسی کیلئے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ایرانی انقلاب شیعہ مسلک سے بہت بڑاانحراف بھی تھا ۔بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ… علامہ طالب جوہری اورکئی دجال و امام مہدی
علامہ طالب جوہری کی کتاب ” ظہور مہدی” میں قیام قائم سے پہلے کئی قیام قائم کا ذکر ہے۔ ایک روایت ہے کہ مشرق سے دجال کے مقابلے میں قائم قیام کریگا جو حسن کی اولاد سے ہوگا۔ کسی روایت میں حسین کی اولادہے لیکن زیادہ روایات میں حسن کی اولاد کا ذکر ہے ،جس سے” سید گیلانی” مراد ہیں۔ علماء کرام علامہ طالب جوہری کی1987ء میں لکھی ہوئی کتاب میں مشرق کے دجال ، حسن کی اولاد میں سیدگیلانی کے حوالے سے معلومات مسلمانوں کے سامنے کھل کر بتادیں۔ بنو امیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ میں موروثی خلافت کا تصور تھا تو فاطمی خلافت اور بارہ ائمہ اہلبیت کا جواز بھی تھا۔ ا
امام ابوحنیفہ کے نزدیک غسل کے تین فرائض تھے ۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، پورے جسم پر پانی بہانا۔ امام شافعی کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنافرض نہیں۔ جبکہ امام مالک کے نزدیک مل مل کر دھونا بھی فرض ہے۔ الغرض کسی بھی فرض پر تینوں کا اتفاق نہیں ہے۔ امام جعفر صادق فرائض کا یہ اجتہاد اور اختلافات کو نہیں مانتے تھے لیکن کسی تسلی بخش جواب سے ان لوگوں کو قائل بھی نہیں کرسکے تھے ۔ جب اہلبیت کے ائمہ کا سلسلہ نہیں رہا تو شیعہ نے بھی اجتہادکا سلسلہ شروع کیا جو اہل تشیع میں آپس کے بھی اختلاف کا باعث بن گیا۔
قرآن میں اللہ نے جنابت سے غسل کا حکم دیا ۔دوسری جگہ پر وضو کے بعد فرمایا کہ ”اگر تم جنبی ہو تو پھر اچھی طرح سے طہارت حاصل کرلو”۔ وضو کے مقابلے میںنہانا یا غسل کرنا ہی اچھی طرح سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ قرآن کو نظر انداز کیا گیا تو لایعنی فرائض کے اجتہادی اختلافات پیداکئے گئے۔
حنفی شافعی اختلاف اجتہاد تک محدود نہیں بلکہ احناف کے نزدیک قرآن سے نام نہادمتصادم خبر واحد کی صحیح حدیث معتبر نہیں اور خبر واحد کی قرآنی آیت معتبر ہے۔ جبکہ شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر کی آیات پر اعتقاد رکھنا کفر ہے جو معتبر نہیں۔ خبر واحد کی حدیث معتبر ہے اور اس کو قرآن سے متصادم قرار دینا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اساتذہ کرام کی تعلیم اور مرشد کی تربیت سے اللہ نے یہ قابلیت دی ہے کہ امت مسلمہ کو تضادات سے نکال سکتا ہوں۔ اگر علماء کرام اور مشائخ عظام نے موقع دیا تو بے دین طبقہ بھی مذہب کے بنیادی اور معاشرتی مسائل کو عالم انسانیت کیلئے بڑا پیکیج سمجھ کر قبول کریں گے اور اسی سے اسلام کی نشاة ثانیہ بھی ہوگی۔
قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون لایستون ”کہہ دیجئے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں علم والے اور جو علم نہیں رکھتے؟۔ وہ برابر نہیںہیں”۔
بعض شیعہ دوٹوک کہتے ہیں کہ علی سے لڑنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، حضرت حسن کو جس نے صلح پر مجبور کیا وہ مسلمان نہیں تھا اور حضرت حسین کو جنہوں نے شہید کردیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل بیت کے مخالف دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو لوگ شیعہ سنی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان پر وہ برستے ہیں کہ تم بھی حق چھپانے کے مرتکب ہورہے ہو اور بقول عمران خان کے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔
شیعہ گمراہی کی وجہ حفظ مراتب کا لحاظ نہ رکھنا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے ایک شیعہ سے کہا کہ تم نے غلط کہا کہ نبی کریم ۖ عرش پر گئے تو علی سے ملاقات ہوگئی ۔ یہ شرک ہے اور ہم مشرک نہیں۔ یہ کہو کہ عرش پر رسول سے اللہ نے علی کے لہجے میں بات کی۔ جس پر اہل محفل نے خوب داد بھی دیدی۔ اگر مان گئے کہ حدود کو پامال کررہے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔ سنیوں کا خطیب کہتا ہے ”جب نبیۖ معراج پر گئے ، جبریل نے کہا کہ اسکے بعد میں نہیں جاسکتا ، میرے پر جل جائیں گے۔ براق آگے جانے کو تیار نہ تھا تو سید عبدالقادر جیلانی غوث پاک نے حضورۖ کو اپنا کندھا پیش کردیا اور نبیۖ غوث پاک کے کندھے پر اللہ سے ملنے عرش پر گئے تھے”۔
جب قرآن میں اتنی بڑی رعایت لکھ دی گئی کہ ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصٰرٰی والصّٰبئین من امن باللہ والیوم الاٰخر وعمل صالحًافلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنونO
”بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، جو لوگ یہودی ہیں اور نصاریٰ ہیں اور الصابئین ہیں جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (البقرہ آیت62)
یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات اسلامی نظام کو دنیا میں غلبہ دلانے اور قابلِ قبول بنانے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔صائبین حضرت نوح کی امت ہندو ہیںجو مشرکین مکہ سے زیادہ گئے گزرے تھے جو خود کو دین ابراہیمی پر سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام ، تابعیناور تبع تابعین میں تیسری صدی ہجری تک تقلید کی کوئی روایت نہیں تھی۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید ایک شرعی فریضہ بن گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ ان کی کتاب کے اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پر علامہ سید محمد یوسف بنوری نے تائیدی تقریظ لکھ دی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے بدعت کی دوقسمیں اعتقادی بدعت اور عملی بدعت لکھیں کہ اعتقادی منافق کافر اور عملی منافق مسلمان ہے جس میں منافق کی علامات ہوں۔ حدیث میں مذمت اعتقادی بدعتی کی ہے۔ عملی بدعتی کی اس طرح مذمت نہیں اور تقلید عملی بدعت ہے۔
اکابر دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تائید کی لیکن جب مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین کے علماء کا فتویٰ لگوا دیا کہ ”یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں ” تو علماء دیوبند نے اس کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کتاب لکھ ڈالی کہ وہ حنفی مسلک کے مقلد اور چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور چاروں تصوف کے سلسلوں کو مانتے ہیں اور خود چشتی مشرب والے ہیں۔
تقلید کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ جب غسل وغیرہ کے فرائض میں اختلا ف ہوا تو پھر کسی ایک کی تقلید کرنی تھی۔ اجتہاد کی صلاحیت سے محروم طبقے پر تقلید فرض کردی گئی ۔ بریلوی عالم دین مولانا امجد علی نے اپنی کتاب ”بہار شریعت” میں لکھا ہے کہ ”یہ اجتہادی فرائض ہیں۔ دلیل کیساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کو تسلیم نہ کرنا گمراہی ہے”۔ دلیل کے ساتھ ان فرائض کو ختم کرنے کا فرض کس نے ادا کرنا ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ ” ہمارے پاس اتنا علم نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ کس کی بات درست اور کس کی غلط ہے۔ امام مہدی آئیں گے تو صائب رائے کو بتائیں گے ، ان کی بات حق ہوگی اور ان کے مخالف کی بات باطل ہوگی”۔ اہل تشیع بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کی بات ٹھیک اور ان کے مخالفین کی بات غلط تھی۔ اہل تشیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی بات میں عقیدے کا اختلاف نہیں شخصیات کا اختلاف ہے لیکن دونوں میں زمینی حقائق کا بڑا فرق ہے۔
حقائق سے مفتی رفیع عثمانی کی بات درست ہے۔ مہدی کے دور میں دین اجنبی ہوگا اور مہدی اجنبیت کا پردہ اٹھائے گا جبکہ صحابہ کرام کے دور میں دین اجنبی نہیں تھا بلکہ اولی الامر کے امور کے اختلاف کا مسئلہ تھا۔ حضرت یوسف کو بھائیوں نے غائب کردیا تو یہ اعتقاد واقتدار کا نہیں بلکہ حسد کا مسئلہ تھا۔
اولی الامر سے قرآن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور اولی الامر کی حیثیت سے نبی ۖ نے اپنے ساتھ اختلاف کا جواز رکھا تھا ،اللہ نے قرآن میں اس گنجائش کی تائید فرمائی ہے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے اپنے شوہر کے بارے میں مجادلہ کیا تو اللہ نے سورہ مجادلہ میں عورت کی تائید فرمائی۔ شیعہ نبیۖ سے اختلاف کی گنجائش کا اعتقاد رکھتے ہیںمگر حضرت علی کیلئے اس اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے اور یہ چھوٹی موٹی گمراہی نہیں بلکہ فقد ضل ضلالا بعیدًاہے۔ نبیۖ سے اختلاف کی قرآن نے گنجائش دی ہو اور حضرت علی سے شیعہ اختلاف کی گنجائش نہ رکھتے ہوں تو شیعہ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ اس پر وہ کیا زورِ خطابت اور داد تحسین اپنے گمراہ لوگوں سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا حق کی بات کہہ کر جوتے کھانے سے ڈرتے ہیں؟۔ یہ ان پر چھوڑدیتے ہیں۔
غزوہ بدر کے قیدیوں پر عمر و سعد نے مشورہ دیا کہ ہر ایک اپنے قریبی رشتہ دار کو تہہ تیغ کردے تو علی ، ابوبکر، عثمان اور دیگر کا مشورہ تھا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبی ۖ نے اکثریت کی رائے پر فیصلہ کیا تواللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہادیتے اور تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ اس شیعہ خطیبوں کو اپنی عوام کے سامنے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اگر عمر کی جگہ علی نے مشورہ دیا ہوتا تو کتوں کی طرح لمبی لمبی زبانیں نکال کر صحابہ کرام کے خلاف بھونکنا شروع کرتے کہ تمہاری بات نبی ۖ نے مان لی تو اللہ نے مسترد کردیا۔ تم دنیا کے طلبار گار اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ جیب گرم ہونے کی توقع نہیں تو پھر آیات کی وضاحت بھی اپنے عوام کے سامنے نہیں کرتے ہیں۔
شیعہ افغانستان اور پاکستان میں مسلم اقلیت ہیں لیکن کچھ لوگ ان کو کافر بنانے کے پیچھے پڑگئے ۔ ان کی قتل و غارتگری پر ہمیں رحم آتا ہے لیکن فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے شیعہ خطیبوں کو ان مظلوموں پر کوئی رحم نہیں آتا ہے ،اسلئے تسلسل کیساتھ اہل سنت کے جذبات بھڑکاتے ہوئے اپنامفاد حاصل کرتے ہیں اور شیعوں کو قتل کروانے میں مدد دیتے ہیں۔
علامہ مجلسی کی کتاب ”بحار الانوار” کے حوالے سے ایک ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جس کا خلاصہ ہے کہ ” انگریز نے بحرین کا بادشاہ ایک متعصب ناصبی کو بنایا تھا جو اہل بیت اور شیعوں کا سخت دشمن تھا اور اس کا وزیر اس سے بھی زیادہ سخت دشمن تھا۔ ایک انار لایا گیا جس پر کلمہ اور ابوبکر وعمر اور عثمان خلیفہ رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ حیران ہوگیا اور وزیر نے کہا کہ شیعہ بڑے گمراہ ہیں ، یہ بھی نہیں مانیں گے۔ ان کا علاج یہ ہے کہ اس کا کوئی معقول جواب دیں ۔ یا پھر تین باتوں میں سے ایک پر عمل کا اختیار ہمیں دیں۔ 1: اپنا مسلک چھوڑ کر سنی بن جائیں۔ 2: کافر بن کر جزیہ دیں۔ 3: انکے مردوں کو قتل، عورتوں کو لونڈی بنائیں گے اور ان کے اموال غنیمت جان کر تقسیم کریں گے۔
جب شیعہ کے سامنے یہ تجاویز پیش کی گئیں تو انہوں نے چند دنوں کی مہلت مانگ لی۔ شیعوں نے نیک وتقویٰ داروں کو جمع کیا اور10افراد کا انتخاب کیا۔ ان میں سے پھر 3افراد چن لئے۔ پہلے ایک کو صحراء میں بھیجا کہ رات کو امام مہدی سے مدد طلب کرو۔ اس نے پوری رات عبادت اور آہ وزاری میں گزاردی مگرمایوس لوٹ آیا۔ پھر دوسرے نے بھی رات گزار دی مگر نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر تیسرے نے امام کو اپنی مشکل میں پکارا تو امام نے جواب دیا اور کہا کہ بادشاہ سے کہو کہ وزیر کے گھر پر اس سوال کا جواب دیں گے۔ وزیر کے گھر میں فلاں کمرے کو دیکھو، وہاں اس جگہ چھپا ہوا ایک سانچہ مل جائے گا جو انار کو اس کے ابتدائی دنوں میں پہنایا جاتا ہے اور جب انار بڑا ہوتا ہے تو اس کی یہ شکل نکل آتی ہے۔ جب بادشاہ نے موقع دیا اور یہ راز کھل گیا تو اس نے شیعوں کا کلمہ پڑھ لیا اور شیعہ بن گیا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برداری اور افغانستان وپاکستان میں آج بھی شیعہ حضرات کیلئے بڑے خطرات ہیں اور متفقہ لائحہ عمل کی سب کو ضرورت ہے۔ مختلف مواقع پر حضرت خضر کی بات سے بھی استفادہ لیا جاتا ہے۔ ہمارے کلاس فیلو مفتی منیر احمد اخون مفتی اعظم امریکہ نے بھی خضر سے چند سکے پانے کا ویڈیو میں ذکر کیا ہے اور مفتی زرولی خان سے بھی کوئی تذکرہ فرمایاہے۔
جب قرآن میں اللہ نے ایک شرعی مسئلے پر نبیۖ کے مقابلے میں ایک عورت کی تائید فرمائی ۔ قیدیوں سے فدیہ لینے پر نبیۖ اور صحابہ کی اکثریت کے مقابلے میں عمر و سعد کی تائید فرمائی تو کیا علی نبیۖ سے زیادہ تھے؟۔ حضرت ہارون نے بنی اسرائیل کو شرک کرتے دیکھ کر نہیں روکا تو حضرت موسیٰ نے ان کو سر اور داڑھی سے پکڑلیا کہ منع کیوں نہ کیا؟۔ حضرت ہارون نے عرض کیا کہ میری وجاہت نہیں کہ منع کرنے سے منع ہوتے۔ بلکہ یہ دوگروہ میں تقسیم ہوکر لڑنے لگ جاتے ۔ایک گروہ بات مان لیتا اور دوسرے کو بھی زبردستی سے منواتا۔ پھر آپ کہتے کہ بنی اسرائیل میں تفریق کیوں ڈالی ؟۔ حضرت موسیٰ نے شرک کو بڑی نافرمانی سمجھ لیا اور حضرت ہارون نے ان میں تفریق وانتشار کو شرک سے زیادہ بڑی برائی سمجھا تھا۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہی ہے کہ ایک طرف شرک کا مسئلہ بنتا ہے تو دوسری طرف تفریق وانتشار کا۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اپنے ساتھی کو شرک سے منع کیا لیکن اگر کوئی ایسا شخص یہی کام کرتا جس کی اتنی وجاہت نہ ہوتی تو انتشار پھیل جاتا۔ یہودی نے علی سے پوچھا کہ نبیۖ کے وصال کے بعد تمہارا خلافت پر جھگڑا ہوا؟۔ حضرت علی نے فرمایا کہ ”خلافت فروعی مسئلہ تھا، دریائے نیل سے پیر خشک نہ تھے تو تم نے حضرت موسیٰ کے ہوتے ہوئے سامری کے بچھڑے کواپنا معبود بنالیا”۔
شیعہ آپس کے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے ہیں تو علی نے زیادہ خوش اسلوبی کیساتھ مسائل حل کئے تھے۔ امام بارگاہوں پر قبضے اور خطابت پر پیسے بٹورنے میں ایکدوسرے سے بغض و عناد رکھنے والے صحابہ کو اپنے او پر قیاس کرتے ہیں۔ حضرت علی کی اولادمیں بارہ ائمہ اہل بیت کو اقتدار ملے گا۔ پہلے بارہ ائمہ اہل بیت کسی درجے کسی سے کم نہ تھے۔ بنی فاطمہ کو اقتدار ملا تو حجراسود خانہ کعبہ سے اٹھالے گئے تھے۔ اگر ان بارہ افراد کو اقتدار ملتا تو بعض معاملات میں ان سے اختلاف کی گنجائش ہوتی اسلئے کہ قرآن میں رسول اللہۖ کے بھی واقعات ہیں۔ سورۂ مجادلہ کا واقعہ، قیدیوں پر فدیہ لینے کا واقعہ، ایک نابینا ابن مکتوم کی آمد پر چین بہ جبیں ہونے کا واقعہ، غزوہ احد میں سخت انتقام لینے کا واقعہ، کل کسی بات کا وعدہ کرنے پر انشاء اللہ نہ کہنے کا واقعہ۔ اس طرح حضرت علی اور ائمہ اہلبیت کے بھی واقعات ہوتے لیکن اقتدار کا موقع نہ ملا۔ جنت ملتی ہے تو بنی آدم کیلئے کوئی نہ کوئی واقعہ جنت سے نکلنے کا ذریعہ بنتا ہے اوریہ عبودیت کا تقاضہ ہے جو الٰہ نہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔
اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان لگا تو کم صحابہ نے قرآن کے مطابق کہا کہ ”یہ بہتان عظیم ہے”۔ حضرت علی کا کردار شیعہ نے اس پر واضح نہ کیا۔ کیا آیات کا انکار ہے؟۔ اتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض الکتاب ”کیا تم بعض کتاب کو مانتے ہواور بعض کو نہیں مانتے ہو؟”۔ اتلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق انتم تعلمون ”کیا تم حق کو باطل کیساتھ خلط ملط کرتے ہواور حق کو چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو”۔( القرآن)
حضرت عثمان کی شہادت کی جھوٹی خبر پر صلح حدیبیہ سے پہلے آیات نازل ہوئیں۔ نبیۖ نے بدلہ کیلئے بیعت لی، اس وقت لڑنا نہیں تھا بلکہ لڑنا اس وقت تھا جب حضرت عثمان کو باغیوں نے مسندِ خلافت پر شہید کردینا تھا۔ اس بیعت سے پیچھے ہٹنے کے لوازمات بھی اللہ نے بیان فرمائے۔ حضرت حسن و حسین نے دوازے پر پہرہ دیا اور سوتیلے بھائی محمد بن ابی ابکر نے گھر میں کود کر حضرت عثمان کو داڑھی سے پکڑا۔ پالا علی نے اور بیٹا ابوبکر کا تھا۔اس تضاد کا حل کس کے پاس ہے؟۔
ہارون کی داڑھی میںہاتھ ڈالنے پر موسیٰ کو تبرا ، گالی گلوچ اور سب وشتم کا نشانہ نہیں بناتے تو محمد بن ابی بکرکی تربیت پر حضرت علی پر بھی سب وشتم نہیں ہونا چاہیے تھا اور شیعہ خود بھی تشریح نہیں کرسکتے کہ یہ کیا ماجراء تھا کہ حضرت حسن وحسین نے پہرہ دیاتو سوتیلے بھائی نے کاروائی ڈالی تھی؟۔ جس طرح سگے اور سوتیلے بھائی بٹ گئے اسی طرح علی کے قریبی پرانے اور نئے ساتھیوں نے حضرت علی کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیا۔ خوارج پہلے شیعانِ علی تھے۔ امام حسن کے ساتھی ورشتہ داروں نے دھوکہ دیکر صلح پر مجبور کیا تو حضرت حسین کہاں تھے؟۔ تاریخ کی سچی جھوٹی باتوں کو اس طرح نہیں لیا جائے کہ قرآن وسنت اور مسلمانوں کا اجماعی معاملہ اور اجتماعی کردار ختم ہوجائے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمدرضا خان بریلوی نے لکھاکہ” اگر شوہر کہے کہ تجھے3طلاق تو3طلاقیں واقع ہوگئیں۔ دوگواہ نہ ہوں تب بھی بیوی حرام ہے۔ شوہر اپنی بات سے مکر جائے تب بھی بیوی حرام ہے لیکن اگرمکرگیا تو عورت کو2گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر عورت کے پاس2گواہ نہ ہوئے تو بیوی اسکے نکاح میں رہے گی اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہیں تو بیوی نکاح میں حرام کاری پر مجبور ہوگی اور مباشرت میں لذت نہیں اٹھائے ورنہ تو گناہگار ہوگی”۔ اس بکواس کا کون دفاع کرسکتا ہے؟۔ مجھے یقین ہے کہ بریلوی دیوبندی فقہ کی بنیاد اس سے دھڑام سے گر جائے گی اور وہ اس پر بہت خوش بھی ہوں گے۔ کیونکہ وہ اختلاف کی گنجائش اور غلطی کااصولی عقیدہ رکھتے ہیں۔
شیعہ کے نزدیک طہر میں طلاق کے صیغے ادا کرنے پر2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر دوسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر تیسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر یہ طلاق ایسی ہوگی کہ اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔ بظاہر شیعہ کا مسئلہ فطرت ،اسلام اور انسانیت کے قریب لگتا ہے لیکن اگر مدلل انداز میں ثابت کیا جائے کہ انسانیت، اسلام اور فطرت کے یہ خلاف ہے تو شیعہ دلائل سمجھ کر مشکل سے اپنا مسلک چھوڑ نے کا اعلان کرینگے۔ کیونکہ تقلید کی روش نے اجتہادی غلطیو ں پر یقین کا سبق نہیں دیا اور انہوں نے اس کو اپنے عقیدے کیساتھ منسلک کردیا ہے۔
سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں عدت کے مطابق تین مراحل میں عملی طلاق دینے کاحکم ہے۔ جہاں الفاظ اور صیغوں پر گواہ مقرر کرنے کی بات نہیں۔دوسری آیت میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنے اور اپنے میں سے2عادل گواہ بنانے کا حکم ہے۔ شیعہ نے سنی کے مقابلے میں طلاق کا مسئلہ زیادہ سخت کیا لیکن اس کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ قرآن میں فیصلہ کن مرحلے کے بعد بالکل آخر میں گواہوں کی بات ہے ۔شیعہ کے کسی امام معصوم کی طرف مسلک کی نسبت ہوئی تو ان کیلئے یہ اس سے انحراف اور قرآن وسنت وفطرت کی طرف آنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی مگرپھر وہ آئیں گے ضرور،انشاء اللہ۔
حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم اسلئے جاری کیا کہ جب بیوی راضی نہ ہو تو ایک طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت228اوردیگر آیات میں رجوع کیلئے صلح، معروف طریقہ اور باہمی رضامندی کی بار بار وضاحت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عورت راضی ہوتو عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعدبھی رجوع کی گنجائش کھلے الفاظ میں واضح ہے اور جب عورت راضی نہ ہو تو کسی طلاق کے بعد بھی اللہ نے کسی آیت میں بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ۔ قرآن کے فطری مؤقف کے مطابق حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا اور ائمہ اربعہ نے ٹھیک فتویٰ دیا تھا کہ عورت کی طرف سے صلح نہ ہونے کی شرط پر اکٹھی تین طلاق پر رجوع کی گنجائش نہیں۔
اجتہاد خلفاء راشدین میں اختلاف کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت علینے ”حرام ”کا لفظ کہنے پرتین طلاق کا فتویٰ دیا تھا اور حضرت عمر نے ایک طلاق کا ۔ قرآن کے منافی یہ لوگ اپنی طرف سے حلال وحرام کے فتوے کیسے دیتے؟۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین کی طرف اتنے بڑے اختلاف کی نسبت گمراہ کن ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق ضعیف روایات کی بھی تطبیق ہونی چاہیے ، اس اختلاف میں تطبیق ہے۔ حضرت عمر سے فتویٰ پوچھا گیا تو بیوی رجوع کیلئے راضی تھی اسلئے قرآن کے مطابق رجوع کا فتویٰ دیااور حضرت علی نے دیکھا کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تو قرآن کے مطابق فتویٰ دیا تھا۔
خلع اور طلاق میں عورت کے حقوق میں کمی وبیشی کا مسئلہ ہے اسلئے جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے اور شوہر اس کا انکار کردے تو فیصلہ حلف اور گواہی پر ہوگا۔ عورت گواہ پیش کرے تو طلاق کے حقوق ملیں گے اور عورت کے پاس گواہ نہ ہوں اور شوہر حلف اٹھالے تو عورت کو خلع کے حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر تین طلاق دے اور پھر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق رجعی قرار دیا جائے تو یہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل منافی اور خواتین کے حقوق پر بہت بڑا ڈاکا ہوگا اسلئے کہ اس نے اپنے شوہر سے جان چھڑانی ہے اور قرآن نے اسکو صلح نہ کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے اور مولوی اس کو ایک طلاق رجعی کہہ کر عورت کے بالکل واضح حق کو غصب کررہاہے۔
دو مرتبہ طلاق رجعی کا حق بھی قرآن نے نہیں دیا ہے اسلئے کہ شوہر ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گااور پھر تیسری طلاق دے گا تو عورت کو تین عدتوں تک انتظار پر مجبور کرنے کا قانونی حق رکھے گا۔ اللہ نے عورت کو ایک عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی نے اپنے مذہب سے اس کو تین عدتوں پر مجبور کرنے کا شوہروں کو ناجائز حق دے رکھاہے۔ اگر اکٹھی تین طلاق کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف عورت کے حقوق کی زبردستی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ دوسرے بھی لامحدود اور ناقابل حل مسائل کے انبار کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہم نے اپنی کتابوں1:” ابر رحمت”۔2:”تین طلاق کی درست تعبیر”۔3:” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4:”عورت کے حق” میں بہت تفصیل کیساتھ بہترین انداز میں یہ مسائل تشفی بخش طریقے سے سمجھائے ہیں اور اپنے ماہنامہ اخبار کے بہت مضامین میں بار بار امت مسلمہ کی جان ان غلط کہانیوں سے چھڑانے کی کوشش کی ہے جس کی تائید دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی کی ہے۔
یہاں پر اہل تشیع اور اہل سنت کے اتحاد واتفاق اور وحدت کی غرض سے کچھ احادیث وروایات کا تذکرہ کردیتا ہوں اسلئے کہ کافی عرصہ سے اس موضوع پر دلائل نہیں دئیے ہیں جس کی وجہ سے اہل تشیع کے بعض علامہ صاحبان امت کو لڑارہے ہیں۔
اہل تشیع نے اپنی کتاب میں لکھا: ” یہ روایت مشہور ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں ،مَیں ہوں اور بیچ میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ”۔ قحطانی نے کہا ہے کہ ہم کلام کو اس بات پر محمول کرسکتے ہیں بایں طور پر کہ اس مہدی سے مراد مہدی عباسی مراد لیں نہ کہ اسے مہدی آخر زمان ” ۔ (الصراط السوی فی احوال المہدی ص357) مہدی عباسی کی وجہ سے یہ امت ہلاکت سے نہیں بچی تھی اسلئے کوئی ایسا فرد مراد لینا ہوگا جو امت کو ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ ہو۔ امت کی ہلاکت جب درمیانہ زمانے سے شروع ہو تو اہل بیت کو نبیۖ نے کشتی نوح قرار دیا ہے۔ درمیانہ زمانے کے مہدی کا تعلق اہل بیت سے ہی ہوگا۔ علامہ طالب جوہری نے مشرق کے دجال کے مقابلے پر امام حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد لیا ہے تو عباسی مہدی سے سید گیلانی اہل تشیع کیلئے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے ۔درمیانہ زمانے کے امام مہدی کے مقابلے میں کج رو جماعت ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: خوشخبری سناؤ۔ خوشخبری سناؤ۔ میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے یہ پتہ نہیں کہ آخری دور والے زیادہ کامیاب ہونگے یا پہلے دور والے؟۔ یا اس کی مثال ایک باغ کی طرح ہے کہ ایک سال اس کا پھل ایک جماعت والے کھائیں اور دوسرے سال اس کا پھل دوسری جماعت کے افراد کھائیں۔ شاید کہ آخری جماعت کی چوڑائی اور گہرائی زیادہ ہو ۔ اور حسن انتظام زیادہ اچھا ہو۔ پس وہ کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جسکا اول میں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور مسیح اسکا آخر ہے؟ لیکن درمیانہ زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور مَیں اس کے طریقے پر نہیں ہوں۔ ( مشکوٰة باب ثواب ہذہ الامة ) مولانا فضل الرحمن نے خراسانی دجال کا لشکرTTPکو قرار دیا تھا ۔جسکے سرپرست تبلیغی جماعت والے تھے اوران کی روپ میں چھپ کاروائی بھی کرتے تھے۔
اہل تشیع نے لکھا ہے کہ ” جس روایت میں مہدی کے بعد چھ افراد اولاد حسن اور پانچ افراد اولاد حسین کا ذکر ہے کہ مہدی کے بعد وہ مالک زمین اور بادشاہ ہوں گے ۔ یہ غلط واہیات ہے اور احادیث صحیحہ کا مخالف ہے ۔ مہدی آخر میں آئیں گے اور عیسیٰ ان کی اقتداء کرینگے ۔ لہٰذا ان کے بعد کسی اور بادشاہ کا آنا خلاف فرض ہے”۔( الصراط السوی فی احوال المہدی357)
اگر درمیانہ زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد اہل بیت کی حکومت مان لی جائے جس پر امت کا اتفاق ہو تو پھر شیعہ سنی کیلئے ان کو اور اپنی مستند کتابوں کو قبول کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے واضح احکام سے علم حاصل ہوتا ہے اور علم گمراہی اور ہٹ دھرمی سے بچنے کا زبردست ذریعہ ہے اور شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث پہلے اس کی طرف توجہ کریں اور معاشرے کو اس جہالت سے نکالنے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں تو طالوت کی طرح اقتداربھی مل جائیگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دو سال پہلے تک فوج نے سیاسی کھیل کھیلا

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دو سال پہلے تک فوج نے سیاسی کھیل کھیلا

نوازشریف ، زرداری، مولانافضل الرحمن کے الزامات کے بعد اب عمران خان کے سخت ترین الزامات میر جعفر،میرصادق کا بھی سامنا ہے

جنرل قمر جاوید باجوہ سے گزارش ہے کہ فوج کی باہمی مشاورت سے اپنے وقت سے پہلے استعفیٰ پیش کریںاور پہلے تین سینئرموسٹ میں کسی کو آرمی چیف بنانے کا اعلان کردیں۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فوجی ترجمان نے کہاکہ دوسال پہلے تک74سالوںسے سیاسی مداخلت کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اشتراک عمل کا نتیجہ تھا ۔جسکی ذمہ دار تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت تمام وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے دُم اٹھاکر ابن الوقتی کا مظاہرہ کیا اور خاص قانون بھی دوتہائی اکثریت سے پاس کردیا جس سے سابقہ شرمناک مداخلت کی توثیق بھی کردی۔ اوریہ ثابت کیا کہ وہGHQکے گیٹ نمبر4کی پیداوار یا لے پالک ہیں۔ اس قانون کی وجہ سے آئندہ کیلئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور سیاست میں مجرمانہ مداخلت کا راستہ کھول دیا گیا۔ جس کی وجہ سے پاک فوج کو بھاری نقصان اٹھانے اور افراتفری کا شکار کرنے کی راہ پر ڈالا گیا ہے۔
عوام کے دل میں یہ بات اُترچکی ہے کہ فوج نے اپنا اندرونی جھگڑا انجام کو پہنچانے کیلئے سیاسی میدان میں کٹھ پتلی سیاستدانوں کو استعمال کیا ۔ اصل مسئلہ آرمی چیف کے ریٹائرمنٹ اورنئے چیف کی تعیناتی کا ہی تھا۔ ن لیگ نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب میں وزیراعلیٰ اسلئے قبول کیا کہ عمران خان کوئی اپنا آرمی چیف نامزد نہ کردیں۔ ورنہ تو شہبازشریف کو مریم نواز وزیراعظم کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتی تھی اور نوازشریف کی چابی مریم نواز کے ہاتھوں میں ہے۔ ن لیگ عثمان بزدارکی کارگردگی اور فرح خان گوگی کے کرتوت سے واقف تھی لیکن مریم نواز کہتی تھی کہ عمران خان کو سیاسی شہید نہیں بننے دیں گے۔ اسی لئے مولانا فضل الرحمن نے پرویز الٰہی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر چوہدری برادران کو حیرانگی ہوئی تھی اور پیپلزپارٹی اور اے این پی کوPDMسے دھکا د کر باہر کیا گیا تھا۔ پہلی فرصت میں آرمی چیف کی مدت توسیع کا قانون ختم کیا جائے اور جنرل قمر جاوید باجوہ استعفیٰ دیکر تین سینئر موسٹ میں سے ایک کا اعلان کردیں۔ جب منصور کو پتھر مارے جارہے تھے تو اس کو کوئی تکلیف نہیں تھی لیکن حضرت شبلی کے پھول مارنے پرتکلیف سے چیخنے چلانے لگے۔ عمران خان کو یوٹرن لینے میں دیر نہیں لگتی ہے اسلئے احمد فراز کے فرزند شبلی فراز کے پھول مارنے سے پاک فوج کی طرف سے ردعمل میں چلا اٹھنے کا کہوںگا۔ وزیرستانی پشتو کی کہاوت ہے کہ ”فقیر نے کہا کہ تمہاری خیرات سے میری توبہ لیکن اپنے کتوں کو روک لینا”۔ فوج کو اپنے پالتوکتوں کو قابو کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان پر قابو پایا گیا توبھی بقول حبیب جالب کے اب عوام میںاپنا اعتماد کھورہے ہیں۔بقیہ صفحہ3نمبر1

بقیہ … پاک فوج اور سیاست کا کھیل
کتا باؤلا ہو توذمہ دار مالک ہے۔74سالوں میںپہلے اصل قصوروار سیاسی قائدین تھے۔ پہلے6وزیراعظم اور گورنر جنرل سے صدر بننے تک جمہوریت نہیں تھی قائداعظم ، قائد ملت لیاقت علی ،محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، خواجہ نظام الدین ،حسین سہروردی ، فیروز خان نون اورصدر سکندرمرزا میں سے کوئی بھی عوام کا منتخب گورنرجنرل،صدراور وزیراعظم نہیںتھا؟۔
مہاتما گاندھی تقسیم ہند کے مخالف تھے۔ انگریزکی عبوری حکومت نے تقسیم ہند کا فیصلہ کرلیا جس کے وزیراعظم نہرواور وزیرخزانہ لیاقت علی خان تھے۔ کانگریس نے گاندھی کو کھڈے لائن لگا دیا تھا۔ مہاتما گاندھی نے فسادات کو روکنے کیلئے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا،لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” میں باقی زندگی پاکستان میں گزاروں گا۔ اگر پاکستان نے اقلیتوں کو حقوق دئیے تو میں پاکستان کے جھنڈے کو سلیوٹ کروں گا۔ اگر اقلیتوں کو حق نہیں دیا تو سلیوٹ نہیں کروں گا۔ بنگال ، لاہور یا(سرحد)پختونخواہ میں رہوں گا”۔ جب کلکتہ میں فسادات ہوگئے۔ ہندوؤں نے تشدد شروع کیا تو حسین شہید سہروردی کی سرکاری رہائشگاہ کلکتہ حیدر آباد ہاؤس میں قیام کیا ۔ جس پر ہندؤوں نے گاندھی کا گھیراؤ کیا اور قتل کی دھمکی دی کہ تم بہار جاؤ،جہاں ہندؤوں کو مسلمان قتل کررہے ہیں، ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔ گاندھی نے کہا کہ قتل کرنا چاہتے ہو تو کرڈالو لیکن میں اپنے مشن سے نہیں ہٹوں گا۔ پھر گاندھی نے بھوک ہڑتال کی تو ہندؤوں سے مذاکرات کامیاب ہوگئے۔
ہندوستان کے اب توسیع پسندانہ عزائم ہوتے تو بنگلہ دیش پر قبضہ کرتا۔ قائداعظم کو گورنرجنرل نامزد کیا۔ ہندوستان نے تجربہ کار انگریز کو نامزد کیا۔ پاک فوج کی کمان پہلے دو انگریز آرمی چیف کے ہاتھ میں تھی۔ جنرل ایوب خان نے جمہوری نظام ختم نہیں کیا بلکہ میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا نے گورنر جنرل کا آئینی عہدہ ختم کرکے صدر کامنصب سنبھال لیاتو تین سالہ مدت میں5وزیراعظم فارغ کردئیے۔ نوابزداہ لیاقت علی خان کا تعلق بھوپال ہند سے تھا اور محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، خواجہ نظام الدین اور حسین سہروردی شہید کا تعلق بنگال سے تھا اور فیروز خان نون کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جس نے گوادر کو کروڑوں ڈالرو ں سے عمان مسقط سے خرید لیا تھا۔
ڈیرہ بگٹی اور چولستان میں پیاس سے لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں تو حکومت وریاست کے مقتدر طبقے پر لعنت کرنے کو جی چاہتاہے جو ایران سے تیل سمگلنگ کرکے ملک کے کونے کونے تک پہنچاسکتے ہیں لیکن ان لوگوں کو پانی کے چند بور نکال کر نہیں دے سکتے ۔ دوسری طرف تعلیمی اداروں کی سخت نگرانی کرنے پر احتجاج کرنیوالے چین کی مہمان خواتین اساتذہ کی بے گناہ موت پر ریلی نکالتے تو چینی اساتذہ واپس نہ جاتے۔ مہمان، خواتین اور اساتذہ پر خود کش بلوچ روایت کے منافی تھا لیکن ہمارا حکمران صرف اسلئے تگڑے بنتے ہیںکہ کوئٹہ کو گوادر سی پیک کے مغربی روٹ سے محروم کرکے تخت لاہور کو نوازے اور بس۔ مریم نواز کو اقتدار کیلئے فوج کیخلاف بکنااور دباؤ ڈالنا ہو تو بلوچی لباس پہن کر مسنگ پرسن کے لواحقین کے سامنے مگر مچھ کے آنسو بہائے۔ ساہیوال میں سی پیک سے پاور پلانٹ لگائے لیکن گوادر کی بجلی ایران سے سپلائی ہوتی ہو۔
توہین عدالت ،توہین ریاست اور توہین فوج کی راہداری پر اب اونٹ کس کروٹ پر بیٹھے گا لیکن دشمن سمجھے جانے والوں سے زیادہ پاک فوج سے دوستی کا وعدہ نبھانے والوں نے کام دکھا دیا ہے۔ جب کھلاڑی عمران خان نے امریکہ ، ہندوستان اور ایران تک اورARYنیوز چینل سے عام میڈیا تک پاک فوج کے خلاف ہر محاذ پر کھل کر بات کی اور پھر اقتدار میں آکر ایک پیج کا خوب ڈرامہ رچایا تو عوام کے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ نوازشریف واقعی جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے نامہ اعمال کی سزا بھگت رہے تھے۔ لندن ایون فیلڈ کے فلیٹ کب اور کس طرح خریدے تھے ،اس کا سارا ریکارڈ عوامی اور سرکاری سطح پر میڈیا میں موجود تھا۔ اگر پاک فوج اس کو ذبح کردیتی تب بھی اس کو پارلیمنٹ میں تحریری وضاحت اور قطری خط کا وہ ڈرامہ نہیں کرنا چاہیے تھا جو اس نے اپنی کم عقلی سے کیا تھا۔
عدالتوں نے سب چیزوں کو فراموش کرکے اقامہ پر سزا دیکر اتنی رعایت کی کہ ججوں کی بدنامی اور بے انصافی کیلئے یہی کردار کافی ہے اور جب اس میں بھی پاک فوج کی پشت پناہی کے باوجود یہ سزا دی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان عدالتوں سے انصاف کی نہیں ظالموں کو تحفظ دینے کی توقع ہی رکھی جاسکتی ہے۔ ہمارے معزز جج اور جرنیل واقعی عزت کے بہت قابل ہیں اور الو کے پٹھے تو غریب عوام ہی ہیں لیکن اپنے نظام کو نہیں بدلا گیا تو عوام کے ہاتھوں بہت برا ہوسکتاہے۔
وزیرستان میں انتہائی معزز رائل قبیلے کا ایک پاگل تھا۔ اس نے اپنے بھائی اور اسکے دوستوں کے سامنے کہا تھا کہ ” اگر میری ماں کرنا چاہے تو کرسکتی ہے”۔ بار بار جملہ دوہرایا تو اس کا بھائی شرم سے پانی پانی تھا اور دوست بھی سکتے میں آگئے تھے کہ یہ اپنی ماں کے بارے میں کیا بکواس کررہاہے۔ آخر میں پاگل کے بھائی نے کہا کہ ” تمہاری ماں بہت بوڑھی ہے ،اب کچھ نہیں کرسکتی ہے”۔ تو پاگل نے کہا کہ ” میرا مقصد برتن دھونا وغیرہ تھا”۔ تو حاضرین مجلس کی سانس میں سانس آئی۔
میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ مارشل لاء لگایا جائے لیکن اگر وہ چاہے تو وسیع البنیاد قومی حکومت کیلئے لاڈلوں کو راضی کرے۔ اخترمینگل، ایاز لطیف پلیجو، محمود خان اچکزئی سے لیکر اپنے لاڈلوں تک سب کو ملا بٹھاکرمشاورت سے اس ملک کو بچانا ہوگا۔ پاک فوج اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
میں چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور وہاں پر ایک تقریری مقابلہ ”عقل وڈی کہ منجھ” ہوا تھا۔ عقل اور منجھ (بھینس) کی بڑی ہونے کی وکالت کرنے والے مقررین کے درمیان مقابلے میں ججوں نے پہلا انعام ”منجھ وڈی”والے کو دیا۔ جس نے کہا تھا ”1965کی جنگ میں بھینس کے دودھ نے یہ جذبہ دیا کہ بھارت کے ٹینکوں کے نیچے جسموں پر بم باندھ کرہم لیٹے اور ملک کا دفاع کیا۔ عقل قربانی نہ دیتی”۔ تباہ حال ملک کا جذباتی طبقہ بھی عقل والوں کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کررہا ہے اور ملک کے ایک مخصوص طبقے کی خوشحالی کے علاوہ کچھ نہیں سوچا جاتا ہے۔
عمران خان اور فوج ایک پیج پر تھے اور عدالتوں سے بھی خوش تھے ۔ نوازشریف کی اسلامی جمہوری حکومت کو1990ء میں لایا گیا اور1992ء میں کرپشن پر ختم کیا گیا۔16سال بعدISIسے پیسہ لینے کے کیس پر فیصلہ ہوا۔ اور1994ء میں لندن فلیٹ کے حوالے سے سرکاری دستاویز سے کرپشن ثابت کی گئی ۔ رحمن ملک ایف آئی اے نے کارنامہ انجام دیا اور پھر پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیف الرحمن نے بھی سرے محل اور سوئیس اکاؤنٹ دریافت کئے ۔ پرویز مشرف کیساتھ نوازشریف کی جلاوطنی کا معاہدہ ہوا اور پھر جب پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو صدر زرداری کو آئین میں استثنیٰ مل گیالیکن وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو آئین اور عدالت میں سے عدالت کے حکم کو نہ ماننے پر نااہل قرار دیا گیا۔ جب نواز شریف کی حکومت آئی تو لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ کا معاملہ اٹھ گیا اور نوازشریف نے پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ2005ء کو سعودیہ کی وسیع اور دوبئی کے مل بیچ کر2006ء میں خریدے۔ الحمد للہ میرے پاس اللہ کے فضل وکرم سے تمام دستاویزموجود ہیں جو عدالت کے سامنے پیش کرسکتا ہوں۔ عدالت نے بلایا تو قطری خط لکھ دیا اور پھر قطری خط سے بھی مکر گیا۔ پھر حقائق کو چھوڑ کر عدالت نے اقامہ پر سزا دیدی تھی۔ جس پر مجھے کیوں نکالا اور ججوں کے بچوں تک کو مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
عمران خان نے جذباتی شور ڈالاتو نتیجہ نکلا کہFIAکےDGاور ذمہ دار افسران کو ہٹانے کا عدالت نے ازخود نوٹس لیا۔ ڈاکٹر رضوان کی موت پر سوالات اٹھائے گئے اور حامد میر نے کہا کہ جوتے میں کوئی چیز رکھ دی جاتی ہے جسکے کچھ دیر کے بعد بلڈ پریشرہائی ہو جاتا ہے اور بندہ طبعی موت مرتا ہے۔ سیٹھ وقار اور دیگر کچھ افراد کو مروانے کے دعویدار اب تمام کیسوں کا جائزہ لیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
پارلیمنٹ نے بڑے چوروں کو پکڑنے اور طاقتور اداروں کے غلط معاملات پر گرفت کیلئے کبھی قانون سازی نہیں کی ہے ، جس کی وجہ سے ریاست کا اپنے آپ سے بھی اعتماد اٹھ گیا ہے اور اب فوج، عدالت اور سیاسی اشرافیہ حیران ہے کہ کیا کرے اور کیا نہیں کرے؟۔ عوام کے اندر افراتفری کی فضاء سے زیادہ نقصان عوام ہی کو پہنچے گا لیکن بچے گا کوئی بھی نہیں ۔ اللہ معاف کرے۔ معاملات نااہلوں نے بہت خراب کردئیے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

پاکستان میں مخدوش سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور اس کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز

پاکستان میں مخدوش سیاسی صورتحال کا تجزیہ اور اس کے حل کیلئے کچھ بنیادی تجاویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” فساد ظاہر ہوگیا بحروبر میں بسبب اس کے جو لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے کمایا ہے”۔ سورہ ٔ نور میں اللہ تعالیٰ نے افواہ کی بہت سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جب صحابہ کرام اور نبی رحمتۖ کے دور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کے خلاف بہتان کی افواہ اُڑی تھی تو اللہ نے اچھے اچھے عقلمندوں اور نیکوکاروں کو تنبیہ فرمائی کہ اگر تم یہ کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے۔ سوشل میڈیا پر خواتین اینکر، سیاستدانوں کی بیٹیوں اور عورتوں کے خلاف کیا سے کیا بیہودہ بہتان طرازیاں نہیں ہورہی ہیں لیکن ہماری ریاستی مشنری کبھی میدان میں نہیں اتری ہے اسلئے کہ وہ پاک فوج زندہ باد کا نعرہ بھی لگا دیتے ہیں۔ اگر ان پر بروقت گرفت کی جاتی تو آج پاک فوج کے خلاف بھی یہ افواہیں پھیلانے کا سلسلہ کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر یہ قانون بنایا جاتا کہ سورۂ نور کے مطابق غریب وامیر اور طاقتور اور کمزور کیلئے ایک قانون ہے تو بھی یہ بد سے بدترین سلسلہ رُک سکتا تھا۔ آج بھی اگر پارلیمنٹ میں برابری کا قانون لایا جائے تو پارلیمنٹ کے نظام کو لاحق خطرات ٹل سکتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے نام پر اقتدار کرنے والے عمران خان اس قانون کو لاتا تو لوگ تبدیلی سرکار کو سلام پیش کرتے۔مولانا فضل الرحمن حکومت کے روح رواں ہیں۔ مذہبی امور کے وزیرمفتی عبدالشکور بیٹنی قرآن وسنت کا واضح خاکہ پارلیمنٹ میں پیش کریںگے تو کام بنے گا۔ جمہوری انداز میں مشاورت کا بہترین موقع ملتا ہے۔ قرآن کے ہتک عزت کے قانون کی حمایت پارلیمنٹ، اشرافیہ، جرنیلوں ، ججوں اور تمام عوام کی طرف سے ہوگی اور یہ جمود کو توڑنے میں ہوا کاپہلا جھونکا ہوگا۔
کسی کی عزت اربوں میں اور کسی کی عزت اتنی بھی نہ ہو کہ وہ عدالت میں وکیل کی فیس کا خرچہ ادا کرنے کے قابل ہو۔ امیر کیلئے10کروڑبھی کوئی سزا نہیں اور غریب کیلئے10لاکھ بھی بڑی سزا ہے لیکن80،80کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر ہے۔ انگریز نے نوابوں ،پیروں، خانوں کو جائیدادیںدی تھیں اور کانگریس کے منشور میں یہ بات شامل تھی کہ بحق سرکار سب زمینیں ضبط کی جائیں گی لیکن مسلم لیگ کو خانوں، نوابوں اور پیروں نے اپنے باطل مقاصد جائیداد کو ضبط ہونے سے بچانے کیلئے سپورٹ کیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ”ہندوستان میں مسلمانوں کی خیر نہ ہوگی اور پاکستان میں اسلام کی خیر نہ ہوگی ” اور ان کی بات بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔ اسلام کا پہلے بھی بہت کباڑہ کیا گیا اور اسلام کی نشاة ثانیہ والوں کو حکومت، عوام اور خواص نے سپورٹ نہیں کیا تھا ۔
نبی ۖ کے زمانے میں یہود ونصاریٰ کے علماء ومفتیان کی اجارہ داری تھی۔ انہوں نے اپنے احبار ورھبان کو اللہ کے علاوہ اپنا ارباب بنالیا تھا۔ اہل کتاب کے مذہبی طبقات نے دین میں تحریف کر ڈالی تھی اور عوام ان کے حلال وحرام کو حلال وحرام سمجھتے تھے اور یہی ارباب بنانا تھا۔ اللہ نے نبیۖ سے فرمایا تھا کہ لن ترضی عنک الیہود والنصاریٰ حتی تتبع ملتھم ”یہود ونصاریٰ آپ(ۖ)سے کبھی راضی نہیں ہونگے یہاں تک آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں”۔ دینِ خالص کے مقابلے میں تحریف شدہ دین کو یہودونصاریٰ کے مذہبی طبقات بھی قائم رکھنا چاہتے تھے۔ فارس وروم دو بڑی سپر طاقتیں تھیں اور مسلمانوں کی ہمدردیاں فارس کے مقابلے میں روم سے تھیں اسلئے کہ آگ کی پوجا کرنے والے ایرانیوں کے مقابلے میں روم کے اہل کتاب عیسائی زیادہ مسلمانوں کے قریب تھے۔ خلافت راشدہ نے دونوں سپر طاقتوں کو شکست دی اور ایرانی سب مسلمان ہوگئے لیکن اٹلی سے اسپین تک مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے کے باوجود گورے عیسائی من حیث القوم مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
ہندوستان کی قوم حضرت نوح علیہ السلام کے امتی تھے۔ اہل کتاب و شرک کے درمیان کھڑے ہندوستانیوں میں کافی تعداد میں لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر بھی بڑی تعداد نے اسلام قبول نہیں کیا کیونکہ ان پر بھی اہل کتاب کے کچھ نہ کچھ اثرات تھے۔ اسلام کی نشاة ثانیہ کے دور میں تمام ہندو وسکھ قوم نے اسلام کو قبول کرنا ہے۔ اسلام کی بگڑی ہوئی شکل کی وجہ سے گرونانک نے ہندو و مسلمان کے درمیان ایک تیسرے مذہب کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اگر اسلام کی صحیح شکل پیش کی جائے تو ہندوستان پورے کا پورا ہندوانہ رسم ورواج کو چھوڑ کر مسلمان بنے گا اور اس کی خوشخبری ہندؤوں کی اپنی کتابوں میں موجود ہے۔
ڈاکٹر شہناز خان اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر لکھتی ہیں کہ ”حکومت مہنگائی کے جن پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس جن کو قابو کرنے کیلئے پہلے کچھ اور جنوں کو جنہوں نے 70سال سے عوام کو مختلف طریقوں سے قابو کیا ہے بند کرنا پڑے گا۔ لیکن کسی میں ہمت ہے کہ یہ بات بھی کرے۔ یہ وہی کرسکتا ہے جس کا ان جنوں سے کوئی رشتہ نہ ہو”۔ سوشلسٹ پاکستان کے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ ”شخصیت پرست قوموں کا زوال ان میں عدم برداشت کے عروج پر پہنچنے سے ہوتا ہے”۔ مزید لکھا ہے کہ ”فسادی ایجنڈہ ؟ عوام کو جذبانی بناؤ ، حقیقی مسائل سے انکی توجہ ہٹاؤ ، انہیں تعمیری کے بجائے تخریبی سرگرمیوں میں الجھاؤ”۔ مزید لکھتے ہیں ”ہر وہ شخص بوڑھا ہوچکا ہے جس کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں اس کی عمر چاہے20سال ہے اور چاہے70اور80۔ لیکن جس کے پاس مقصد موجود ہے وہ جوان ہے اگر مقصد بڑا ہو تو جوانی بھی اتنی تروتازہ ہوگی”۔ پاکستان انقلابی پارٹی۔ مزید لکھتے ہیں ”اگر فسادی نے 4سالہ دورِ حکومت میں فساد کے بجائے درخت ہی لگائے ہوتے تو اس سال گرمیوں نے یوں شعلے نہ بھڑکائے ہوتے”۔ شفیق خنباطی نے فیس بک پر لکھا ہے ”میں نے پوچھا سنی ہو یا شیعہ؟ ۔ بھیانک ترین جواب ملا ، صاحب بھوکا ہوں۔ اگر آپ کا پڑوسی دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ یا کچھ اور ہے تو اس کا حساب وہ خود دے گا لیکن اگر وہ بھوکا مرگیا تو حساب آپ کو دینا ہوگا”۔ ”واجب القتل” کے عنوان سے فیاض صالح حسین لکھتے ہیں کہ ”دیکھو اس کند ذہن دنیا میں آنکھوں پر پٹی باندھ لو اور کولہو کے بیل کی مانند بس ایک ہی دائرے میں چلتے رہو کیونکہ تم اگر سوچو گے تو صاحب عقل ہوجاؤ گے اور واجب القتل ہوجاؤ گے”۔ فوجی وردی میں ملبوس خاتون کی تصویر کے ساتھ لکھا ہے ”اگر بلوچ ماؤں بیٹیوں نے بلوچ جہد آزادی کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھالی تو بلوچ سرزمینوں پر دشمنوں کے نشان تک ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے”۔ فدائی شاری بلوچ۔
فیصل آباد کے علامہ حامد رضا کی تقریر ہے کہ ”فوج ہمیں بتاتی رہی کہ رانا ثناء اللہ بیشمار لوگوں کا قاتل ہے تو آج اس کو قوم پر مسلط کردیا ہے۔ سیکورٹی ایجنسی کے اہلکار ہمیں یہ بتاتے تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں رانا ثناء اللہ نے شہباز شریف کے کہنے پر14بندوں کو شہید کیا ہے۔ داتا دربار اور دیگر بم دھماکوں میں جو بینڈ آرگنائزیشن ہیں اس کا پروموٹر رانا ثناء اللہ ہے۔ آپ ہمیں یہ بھی بتاتے تھے کہ کوئٹہ میں بم دھماکوں میں ملوث کونسے لوگ افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ہمیں ڈاکو منٹس دیتے ہیں۔ میرے والد پرویز مشرف کے خلاف اور نواز شریف کے حامی تھے تو نواز شریف نے حرم کے سامنے بیٹھ کر قرآن کا حلف لیا کہ میں نے کوئی ایگریمنٹ نہیں کیا ہے۔ مجھے وہ ایگریمنٹ آپ نے دے دیا۔ توپھر میرا یہ سوال نہیں بنتا کہ جن لشکرنواز لوگوں کیخلاف جن طالبان کے حامیوں کیخلاف، جن کالعدم تنظیموں کے سرپرستوں کے خلاف ، جن ریاست دشمن عناصر کیخلاف ہمیں ثبوت دئیے گئے آج ان کو ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ آپ ہمیں یہ بتاتے رہے کہ یہ پاکستان کے غدار ہیں۔ اگر یہ پاکستان آگئے تو مودی کا ایجنڈا لیکر آئیں گے۔ تو آج جب وہ یہاں پر آگئے ہیں تو آپ ان کو سیلوٹ کس منہ سے کررہے ہیں؟۔ پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے اندر غیر ملکی طاقتوں اور سامراج کا ایجنٹ بن کر آپ اپنی عزت بھی کرواسکتے ہیں آپ ایوان اقتدار میں بھی پہنچ سکتے ہیں………۔
جنرلز آف پاکستان آرمی کے فیس بک اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ
وردی میں بہتا خون ہی ہے
اس وردی میں پشتون بھی ہے
ہے قوم و ملک کی رکھوالی
وردی میں جوش و جنون بھی ہے
اقبال کا شاہیں وردی میں
سر سید کا مضمون بھی ہے
پنجابی ، سندھی، بلوچی جواں
اس وردی میں مدفون بھی ہے
اس وردی کو گالی نہ دو
اس پر شہداء کا خون بھی ہے
وائس آف امریکہ کی ویب سائٹ پر اسلام آباد میں دھرنے والے افغان مہاجرین کا احتجاج ”ہمیں ماردو ” جاری ہے۔ عبد الستار ایدھی نے کہا تھا کہ حمید گل اور عمران خان میرے پاس آئے تھے اور میرے کندھے پر بینظیر بھٹو کی حکومت گرانا چاہتے تھے جس کا میں نے انکار کیا اور لندن راتوں رات منتقل ہوگیا تھا۔ سوشل میڈیا پر ”انصاف اور اُصول کی جنگ لڑنے والی اُم رباب کے قصے اور عزائم کا اظہار ہے”۔ فضل اکبر نے فیسبک اکاؤنٹ پر ”اپیل ” کے نام سے لکھا ہے کہ ”اگرIMFسے قرض لینا مجبوری ہے اور ملکی مفاد میں ہے تو ضرور لیں لیکن کیوں نہ اس بار اس قرض کا بوجھ عوام پر نئے ٹیکس لگانے کے بجائے یہ کیا جائے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی و سینٹ کے تمام ممبران اور صوبائی و وفاقی وزراء اور وزیر اعظم و صدر ، آرمی چیف اور تمام جج صاحبان اور تمام افسر شاہی سے سوائے اپنی تنخواہ کے علاوہ تمام تر مراعات واپس لے لی جائیں۔ ان کا ہاؤس رینٹ ، بجلی و گیس بل ، ڈیزل و پٹرول خرچ ، ماہانہ لاکھوں الاؤنس اور ریفریشمنٹ خرچ ، گاڑیاں، پروٹوکول، سب کچھ اپنی جیب سے برداشت کریں۔ پھر دیکھتے ہیں مہنگائی کم ہوتی ہے یا بڑھتی ہے۔ ملکی خسارہ کم ہوتا ہے یا بڑھتا ہے۔ ملک پر قرض کا بوجھ کب تک رہتا ہے؟؟؟؟ ”۔
ماہنامہ نوشتہ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا کہ جب تنگی کا زمانہ آتا ہے تو سب سے پہلے ہم اپنے اضافی خرچوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور دال روٹی پر گزارہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ملک میں بڑے بڑے خرچوں کو چھوڑ کر چند سال فیصلہ کرلیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ عوامی اور حکومتی سطح پر خرچوں کو چھوڑ کر ملک کے قرضوں کو چکائیں گے تو بہت جلد سُودی قرضوں سے نجات ملے گی۔
یکم مئی یوم مزدور پر یاور عظیم کا علامہ اقبال کی نظم ”خضر راہ ” سے اقتباس
بندۂ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیغام کائنات
اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تک تیری برات
دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰة
ساحر الموط نے تجھ کو گیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات
نسل ، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مرا نادان خیالی دیوتاؤں کے لئے
سکر کی لذت میں تو لٹواگیا نقد حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھاگیا مزدور مات
سید محمد علی ایڈوکیٹ فیس بک اکاؤنٹ پر لکھتے ہیں ”عمران خان صاحب اور شہباز شریف صاحب جلسوں پر اربوں روپیہ خرچ نہ کریں بلکہIMFکا قرضہ اتارنے کیلئے اپنے اپنے بینکوں سے پیسہ نکالیں اور جو کم پڑے اپنے اپنے ووٹروں سے فی کس1000روپیہ جمع کریں اورIMFکے منہ پر مار کر قوم کو آزاد کرائیں دونوں حضرات کے 2کروڑ سے زیادہ ووٹر ہیں۔ دیکھتے ہیں دونوں میں سے کونIMFکا قرضہ اتار کر عوام کا دل جیت لیتا ہے۔ میں اس سلسلے میں10ہزار روپے دینے کیلئے تیار ہوں۔ صرف اسلئے کہ ہمارے ملک کا قرضہ اترے۔ اور ہم اپنے فیصلے خود کرسکیں”۔
نواز شریف نے کلچر و تہذیب کو بدلنے کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا ہے مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اور ان کی وفات کے بعد جو گالی گلوچ ذو الفقار علی بھٹو کو نواز شریف دیتا تھا اور پھر سعودیہ سے جلاوطنی کے بعد شہباز شریف نے جو کلچر بنایا تھا اور اس کے درمیان جو کچھ بھی شریف برادران کا کردار رہا ہے وہ کسی طرح سے بھی عمران خان سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حیران ہوگی کہ کونسے پتر کے کرتوت پر فخر کرسکتی ہوں؟۔ دونوں نے اسلامی جمہوری اتحاد سے لے کر ریاست مدینہ تک خوب گل کھلائے ہیں۔ ایک نے مولانا سمیع الحق پر میڈم طاہرہ کے اسکینڈل کا الزام اسلئے لگایا کہ سودی نظام کیخلاف مولانا نے اپنا مطالبہ رکھا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے انقلابی شاعر سید امین گیلانی نے عابدہ حسین اور تہمینہ کے خلاف جس دور میں اشعار گائے تھے اس تہذیب کی ادنیٰ جھلک بھی تحریک انصاف میں نظر نہیں آتی۔ عمران خان نے بلاول بھٹو سے لے کر ن لیگ اور اے این پی کے رہنماؤں تک مولانا ڈیزل کہہ کر جرم کیا ؟۔
شیخ رشید کو جس طرح پارلیمنٹ جاتے ہوئے گریبان سے پکڑا جاتا تھا اور جو الفاظ حنیف عباسی شیخ رشید کیخلاف استعمال کرتا ہے کہ50ہزار انعام دوں گا جو اس کی وگ اتار کر لائے۔ گھسیٹنے ، پیٹ چاک کرنے اور چوکوں پر لٹکانے کی بات شہباز شریف کرتا تھا۔ ماڈل ٹاؤن میں پر امن لوگوں کو جس طرح پولیس کے ذریعے شوٹ کیا گیا اتنا تو پاک فوج نے قبائل میں دہشت گردوں کیخلاف کسی آپریشن میں بھی نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں جس طرح کی بدمعاشی کا کلچر ہے اور اس کی سرپرستی ن لیگ کرتی ہے اس کی ادنیٰ مثالISIکے ایک افسر کو پیٹ ڈالنا ہے۔ گاؤں دیہاتوں سے لیکر شہروں تک بدمعاشی کا سلسلہ ہے۔
ڈکیٹیٹر شپ کی پیداوار اور تربیت یافتہ سے جمہوری طرز کی اُمید لگانا اندھے کو کسی آئینے میں منہ دکھانے کی طرح جھوٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان کے اصحاب حل و عقد کو فی الفور اسلامی قوانین کی طرف توجہ کرکے اپنے معاشرے کا رُخ درست سمت میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ بلا ٹل گئی تو پھر اس سے زیادہ بھیانک صورت میں دوبارہ سر اٹھائے گی اور پھر اس پر قابو پانے میں بھی کامیابی کی کوئی گارنٹی مشکل سے دی جاسکے گی۔
ہمارے مرحوم محمد حنیف عباسی نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ میں7نومبر2021کولکھا تھا ” مغربی ممالک میں امیروں کے ٹیکس سے غریبوں کی کفالت ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں غریبوں کے ٹیکس سے امیروں کی کفالت ہوتی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

 

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس مرتبہ دنیا میں تین عیدیں تھیں۔ پہلے دن افغانستان اور بعض ممالک میں عیدالفطر تھی۔ دوسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں عید تھی اور تیسرے دن پاکستان کے باقی صوبوں میں عید تھی ۔
شاید کوئی یہ بات نہیں مانے کہ ٹانک ملازئی میں بھی اسی شام کو بعض لوگوں نے چانددیکھ لیا تھا جس دن پھر افغانستان میں شہادت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ ایک ہندوستانی عالم دین نے ویڈیو جاری کی تھی کہ امارات اسلامی افغانستان میں اس دن چاند آسمان پر نہیں تھا لیکن شہادتوں کو قبول کرنے کی بنیاد پر عید ہوگئی ہے لیکن غلطی یہ ہوئی کہ جب مطلع صاف ہو تو کثیر تعداد میں شہادتوں کی بنیاد پر عید الفطر کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ جس کا جواب بھی افغانستان کی امارت اسلامی کے ایک ذمہ دار شخص کی طرف سے دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے عالم کو غلط فہمیاں ہوگئیں ہیںکہ چاند آسمان پر نہیں تھا۔ حالانکہ ہم نے29روزے رکھے تھے اور وہ اس کو28روزے سمجھ رہا تھا۔ کتابوں کے حوالہ جات بھی درست نقل نہیں کئے ہیں بلکہ بعض ادھوری باتیں نقل کرکے عبارت کی آخری فیصلہ کن بات چھوڑ دی ہے۔
ہم نے بچپن سے دیکھا ہے کہ چاند عوام کو نظر آجاتا تھا لیکن پاکستان سے ہلال کمیٹی کا فیصلہ روزے اور عیدالفطر کے حوالے سے ایک دن بعد میں ہوتا تھا۔ پھر کراچی میں ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے فرمایا تھا کہ ”ہلال کمیٹی نے چاند کو نہیں دیکھا لیکن چاند نے ان کو ضرور دیکھا ہوگا”۔ ملازئی میں جن لوگوں نے چاند افغانستان کے حساب سے دیکھا تھا اور انہوں نے اس دن روزہ بھی نہیں رکھا توایک ذمہ دار ٹیم تشکیل دی جائے جس کے دو مقاصد ہوں ایک چاند کے حوالے سے تاریخ درست کرنے اور دوسرا یہ کہ وہاں ایک پہاڑی علاقے میں تیل وگیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ کافی عرصہ سے آگ خود بخود جل رہی ہے اور معمولی کھدائی سے بھی آگ بھڑک جاتی ہے۔ تاکہ گیس کے اس ذخیرے کو بھی عوام کیلئے کارآمد بنایا جاسکے۔ شہباز شریف نے چینیوٹ میں جن ذخائر کی بات کی تھی تو اس کی سچ اور جھوٹ کی حقیقت بھی عوام کے سامنے لائی جائے۔
ہلال کا فیصلہ کن معاملہ حل کرنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا تھا کہ لوگ ایک دن روزے کی قضاء رکھ لیں اسلئے کہ مرکز میں مفتی منیب الرحمن ہلال کمیٹی کے چیئرمین تھے اور یہ مسلکی جھگڑا بنایا جارہاتھا۔ ہم نے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں مفتی تقی عثمانی کو اس وقت چیلنج کیا تھا کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر فتویٰ دینے والو ؟ تمہارے ایمان کا اس وقت پتہ چلے گا کہ جب مرکز میں عیدالفطر ایک دن بعد میں ہوگی اور متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد میں ایک دن پہلے عیدالفطر منانے کا اعلان کرے گی۔ عید کے دن شیطان کا روزہ ہوتا ہے اور پھر متحدہ مجلس عمل کیساتھ عید نہیں منائی تو سراپا شیطان بننے کا اعزا ز بھی حاصل ہوگا۔ وہ مہینہ تھا اور آج کا دن ہے کہ مفتی محمدتقی عثمانی کے دانت تک تبدیل ہوگئے مگر پھر لب کشائی کی جرأت بھی نہیں ہوئی۔
مفتی منیب الرحمن سے ہمارے ساتھ اشرف میمن کا مکالمہ بھی ہم نے نقل کیا تھا کہ جب سعودی عرب اور امریکہ ولندن میں وقت کا دس بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور پاکستان وسعودیہ میں دو ، ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے۔ اگر یہاں عید کا چاند ایک دن بعد ہوسکتا ہے توپھر وہاں اتنے فرق پر پانچ چھ دن کا فرق ہونا چاہیے تھا؟۔ اور جب محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ اسلام آباد میں فضاء غبار آلود رہے گی اور کراچی میں مطلع صاف رہے گا اسلئے کراچی کے ساحل سمندر سے چاند نظر آنے کا امکان ہے اور اسلام آباد سے چاندنظر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تو کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے کے لئے آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ جس کا مفتی منیب الرحمن نے تاریخی جواب دیا تھا کہ ” میاںیہ پا کستان ہے اس میں انجوائے کرو، انجوائے”۔ جہاز کے ٹکٹ، ہوٹل کے خرچے اور آنے جانے کے ٹی اے ڈی اے۔ پاکستان کا قرضوں سے بیڑہ اسلئے غرق ہوا ہے کہ جب بھی کسی چمتکار کو موقع مل جاتا ہے تو وہ چپت کار بننے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔ جب آزادی ہوگی اور قانون سے پکڑکا خوف نہیں ہوگا تو جنت میں شجرممنوعہ کے پاس جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور بندہ نافرمانی بھی ضرور کرے گا۔
کراچی کی آلودہ فضاؤں میں پہلے دن نہیں دوسرے دن کا چاند بھی نظر نہیں آتا ہے۔ سندھ میں سندھیوں کورمضان کا بھی پتہ نہیں چلتا ہے۔ بلوچستان کے شہر اتنے دور دور ہیں کہ ان کا آپس میں بھی رابطہ نہیں ہوتا ہے تو دوسروں سے کیا رابطہ ہوگا؟۔ پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان جانے رمضان جانے۔ پٹھان کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی ہے۔ تو پھر دو،دو اور تین تین عیدوں کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر دنیا میں ایک خلافت کا نظام ہوگا تو ایک دن میں روزہ اور عیدالفطر کی تاریخ اور شرعی فریضہ ادا کیا جائے گا۔ ملک کا بندر بانٹ اور تقسیم کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب غیراسلامی تقسیم کو علماء ومفتیان ایک درجہ بھی دیتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت بھی قبول کرتے ہیں تو خلافت اسلامیہ کی بات بھی مان جائیں گے۔ اپنا روزہ اور عید درست کرنے کیلئے بھی عالمی خلافت کیلئے اپنا بھرپور زور لگائیں۔ قرآنی آیات کی بھی درست تشریحات کرنی ہوگی۔
رمضان کے بعد عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگردوسرے دن بھی پتہ چل جائے کہ عید کا چاند نظر آیا تھا تو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اگرعید کی نماز کا وقت نکل گیا ہو تو پھر دوسرے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ یہ مسئلہ واضح ہے لیکن ہمارے رات9بجے تک چاند نظر نہ آنے کے بعد اس مرتبہ اعلان کردیا گیا۔ حالانکہ پچھلے سال رات12بجے کے بعد چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس مرتبہ ہلال کمیٹی کے چیئرمین صحافی مجیدنظامی وغیرہ سے کہا کہ9بجے ہم نے اعلان کردیا تھا،اس کے بعد پختونخواہ کی ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ لگتا ہے کہ پچھلے سال پنجاب اور مرکز میں بھی عمران خان کی حکومت تھی اور پختونخواہ میں بھی عمران خان کی حکومت تھی تو ہلال کمیٹی کے چیئرمین کو اپنی نوکری کا ڈر نہیں تھا لیکن اس مرتبہ پنجاب اور مرکز میں عمران خان کی حکومت نہیں تھی اور اگر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی بات مان لیتے تو نوکری جانے کا خطرہ تھا۔ مریم نواز اپنے خاندان کے دورِ حکومت میں ان صحافیوں کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے جن کو سرکاری اشہارات دئیے جاتے ہیں۔ جیو نیوز اور جنگ گروپ اپنے مقاصد کیلئے معاملات کو اٹھاتے ہیں۔ باقی میڈیا کے صحافی حضرات ان کی اتباع یا مخالفت میں اقدامات کررہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” روزوں کو تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے جیسا کہ آپ سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو تم میں سے یا سفر میں ہو تو پھر دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔ اور تم میں سے جو استطاعت رکھتے ہیں تو وہ مسکین کوکھانے کا فدیہ دیدے۔اگر کوئی زیادہ نیکی کرنا چاہے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے ”۔
اس آیت میں روزوں کے دن اور بیماری وسفر کی حالت میں ان کی قضاء فرض کی گئی ہے۔ مریض اورمسافر میں دوقسم کے لوگ ہوتے ہیں ،ایک غریب اور دوسرے امیر۔ غریب تو خود فدیہ کا مستحق ہوتا ہے اور امیر کو روزہ چھوڑنے کی صورت میں ایک مسکین کو کھانے کا فدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سے زیادہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ نے ایک سہولت دی ہے اور اگر مال بھی عطاء کیا ہے تو پھر روزہ چھوڑنے کی صورت میں فدیہ دینے کی ترغیب ایک فطری بات ہے۔ البتہ چونکہ انسان کا نفس مشکلات سے فرار اختیار کرتا ہے اسلئے اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ سفر اور مرض کی حالت میں روزہ رکھ لو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ حیلے بہانے سے روزے چھوڑنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جائیں کہ معمولی مرض اور آسان سفر میں بھی روزہ چھوڑ دیا جائے ۔ جس طرح گدھے کا روزہ چھوڑنے سے انسانوں کو تکلیف نہیں ہے اسی طرح انسانوں کا روزہ چھوڑنے سے اللہ کا بھی کچھ نہیں بگڑتا ہے لیکن بندے کے مفاد میں ہے۔
اس آیت سے علماء ومشائخ نے اپنے مالدار مریدوں، نوابوں، خانون اور بڑے لوگوں کیلئے یہ سہولت نکالی ہے کہ اللہ نے روزہ رکھنے اور فدیہ دینے میں سے ایک کا اختیار دیا ہے۔ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور مرض وسفر کی حالت میں چھوڑنے پر قضا ادا کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر فدیہ اور روزے میں سے ایک کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا؟۔ اگر غریب غرباء کو بھی مساجد میں یہ حیلہ بتادیا جاتا تو ہزار پانچ سو روپے کمانے والا دیہاڑی دار طبقہ بھی کسی کو فدیہ دیکر اپنی مزدوری بہت آسانی سے کرسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں اعتدال پیدا کرنے کیلئے قرآنی آیات کو نازل فرمایا ہے۔ اس آیت میں مسافر ومریض کو بھی ترغیب دی ہے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے تمہارے لئے۔ لیکن بعض لوگ اتنے نادان اور شدت پسند ہوتے ہیں کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے کہ جب سفر ومرض میں بھی روزہ رکھنا اللہ نے بہتر قرار دیا ہے تو پھر بہرصورت اللہ کی بات کو ترجیح دینی چاہیے اگرچہ مرض وسفر میں مرنے جیسی کیفیت تک بات پہنچ جائے اسلئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں پھر روزے کو سفر ومرض میں چھوڑنے کی گنجائش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسلئے کہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کوئی مشکل نہیں ڈالنا چاہتا ہے بلکہ آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دونوں آیات میں اعتدال کا راستہ بتایا گیا ہے۔ ایک طرف حیلہ سازوں نے آیت میں اصل حکم سے ہٹ کر روزے کو عام حالت میں بھی فدیہ کے بدلے میں معاف کرنے کی بات کرڈالی اور دوسری طرف شدت پسندوں نے سفر و مرض میں سہولت کو بھی نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کرلیا ہے۔
طالبان کی افغانستان میں ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں مسافروں کوان کی سواریوں سے اتارکر روزہ نہ رکھنے پر سخت تذلیل کی سزا دی جارہی ہے۔ اگر اللہ نے نماز وروزے پر کسی سزا کا حکم نہیں دیا تو طالبان کو اپنی روش پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔ تصویر اور بے نمازی کیلئے حکم بدل گیا ہے یا حقیقت سمجھ آگئی ہے تو روزے پر بھی ترغیب کی حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ خواتین برقعے کی روایت پنجاب سے منتقل ہوئی ہے۔ بوڑھے افغانیوں سے پوچھا جائے تو وہ بتائیں گے کہ پہلے افغانستان میں کہیں پر بھی برقعے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
میری طالبان سے ہمدردی ہے اور انہوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور پھر آزادی حاصل کی ہے۔ افغان قوم انگریز کے دور سے جن مشکلات کا شکار رہی ہے اس میں بیرونی مداخلت سے زیادہ اندرونی معاملات بھی اہم عنصر رہے ہیں۔ جاندار کی تصویر کی ہم نے طالبان سے زیادہ پہلے مخالفت کی تھی لیکن جب علمی حقائق کا پتہ چل گیا تو ”جوہری دھماکہ ” نامی کتاب میں اس غلط مؤقف کی دھجیاں اڑا دیں۔ طلاق وخلع اور حلالہ کے حوالے سے بھی ہم نے بہت ہی واضح حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگر طالبان نے اس کی طرف دھیان دیا اور پاکستان سے مقتدر علماء کو بھی مجھ سمیت اس پر بحث کیلئے طلب کیا تو افغانستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز میں دیر نہیں لگے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار تسخیر کائنات کی بات کی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں فرائض کی تسخیر اور اختلافات نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے اور تسخیرکائنات کے علوم میں خواتین وحضرات کے اندر برابر کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔ دنیا نے اس تسخیر کے ذریعے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ مسلمان دنیاہر چیز میں ان کا محتاج بن کر رہ گئی ہے۔ قرآن میں جتنے فقہی احکام ومسائل ہیں ان کا احادیث صحیحہ سے کوئی تصادم نہیں ہے لیکن فقہ کی کتابوں میں اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ افغانستان میں پوری دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں کو اپنی اپنی شاخیں کھولنے کی اجازت ،ترغیب اور مکمل تحفظ کی ضمانت دی جائے تو جس طرح چین نے ترقی کرلی ہے اس سے زیادہ افغانستان تعلیمی اداروں کے ذریعے سے دنیا میں ترقی کرے گا۔ افغانستان میں غربت ، بچیوں کی فروخت اور تمام مشکلات کا خاتمہ ہوجائے تو طالبان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔
میرے دادا سیدمحمدامیر شاہ کی قیادت میں1972ء میں ایک محسود قوم کا تین رکنی وفدافغانستان اسلئے گیا تھا کہ انگریز کے خلاف باہمی تعاون کریں گے اور پھر بیٹنی قبائل کا وفد میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا تھا۔جن کے بیٹے سید ایوب شاہ پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے افغانستان میں ایک اخبار بھی نکالا تھا۔ پھر کچھ غلط حاسدین کی شکایت پر ان کو ظاہر شاہ کے والد نادر خان شاہ کے دورِ حکومت میں توپ سے اڑانے کی سزا سنائی گئی لیکن پھر ان کو جلاوطن کردیا گیا تھا۔ ہماری بیٹھک میں افغانستان کے ایک بادشاہ نے تین دن تک قیام بھی کیا تھا۔ امیرامان اللہ خان کیلئے لشکر تشکیل دینے والے پیر سعدی گیلانی عرف شامی پیر کی پہلی مرتبہ میزبانی میرے دادا نے کی تھی ۔ دوسری مرتبہ سیدایوب شاہ نے کی تھی۔ محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے علامہ اقبال نے جو اشعار بنائے ہیں ان میں وزیرومحسود اور دیگر قبائل کے نام بھی ہیں۔ قیامت کے دن تو مجرمین الگ کردئیے جائیں گے لیکن اس دنیا میں بھی مجرموں کو الگ کیا جاسکتا ہے۔ نبیۖ کی فتح مکہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ عزتدار لوگوں میں کوئی دشمن ہو تو بھی اس کو عزت سے نوازا جائے جب وہ دسترس میں آجائے تب۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہمارے ملک کا مین سٹریم میڈیا چنداشخاص کے گرد گھومتا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز، شہبازشریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ۔ مستونگ میں دو،ڈھائی سو بلوچ سراج رئیسانی کیساتھ مارے گئے لیکن میڈیا دکھا رہاتھا کہ نوازشریف اور مریم نواز لاہور ائرپورٹ پہنچ رہے ہیں اور شہبازشریف لاہور کی گلیوں میں جلوس گھمارہے ہیں لیکن اپنے اس ہدف تک نہیں پہنچ پارہے ہیں یا جان بوجھ کر ایک وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود ایک ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ پھر قوم نے انتخابات اور اسکے نتائج دیکھے اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پھرPDMبن گئی، پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی بات سامنے آئی لیکن مریم نواز کیلئے قابل قبول نہیں تھا اسلئے اس نے کھل کر کہا کہ ” عمران خان کو ہم شہید نہیں ہونے دیں گے”۔ پھر اب عمران خان کو بھی شہید کردیا گیا ہے اور پرویز الٰہی کی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے اور حمزہ شہباز بھی بہت تذلیل کیساتھ وزیراعلیٰ کے منصب پر بیٹھ گئے ہیں۔ ان لوگوں کا ماٹو یہ ہے کہ عزت آنی جانی چیز ہے کوئی عہدہ ومنصب ملنا چاہیے۔ اب پیپلزپارٹی، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام ، ایم کیوایم اور بلوچستان کی قوم پرست و باپ پارٹی میں وزارتیں تقسیم ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے بیٹے کیلئے جو وزارت چاہیے تھی اس پر اکرم خان درانی پہلے بھی اپنی کاروائی دکھا چکے ہیں اور اس میں لین دین ، کھانچوں ، مال کمانے اور مفادات اٹھانے کے سارے سربستہ حقائق معلوم ہیں۔ یہ سیاست اور مذہب نہیں بلکہ منافع بخش کاروبارہے۔اس سلسلے کو چلتا اسلئے رہنا چاہیے کہ اب یہ خانوادے اسکے بغیر جی نہیں سکتے ہیں۔

پرویزمشرف نےIMGسے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ آصف زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچادیا اور عمران خان48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ جس کا گردشی سود بھی قریب قریب اپنے ملک کے کل آمدنی ٹیکس کے برابر ہے۔ یہ سارے قرضے ملک کی اشرافیہ کے نذر ہوجاتے ہیں ۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روپیہ کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ سودی قرضوں پر سودی قرضے لینے کے نتائج عوام بھگت رہی ہے لیکن ہماری اشرافیہ اور مقتدر طبقہ ٹس سے مس نہیں ہورہاہے۔ دلّوں اور دلّالوں کو بدلتا ہے لیکن نظام کی تبدیلی کی طرف کوئی توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔
پدو مارنے سے نظام کی تبدیلی ممکن ہوتی تو سب کو بے عزت ہوکر اقتدار سے نکلنا نہ پڑتا۔ جو بھی آئے گا اس کی خیر نہیں ہوگی۔ جب تک کہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف آٹا سستا کرنے کیلئے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کرکے جو ڈرامہ بازی کررہاہے تو اس سے اہل بصیرت کو اندازہ لگانا چاہیے۔
رسول اللہ ۖ نے سود کی حرمت والی آیات کے نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے زمینوں کو کاشتکاروں کیلئے فری کردیا ۔ جس سے دنیا میں غلامی کا نظام دنیا میں قائم تھا۔ جنگ بدر میں70قیدی بنائے گئے مگر کسی ایک کوبھی غلام نہیں بنایا اور نہ غلام بنانے کا سوچا جاسکتا تھا اسلئے جنگی قیدی کو غلام بنانے کا مفروضہ قطعی طورپر غلط ہے۔جنگی قیدی کو قتل کیا جاسکتا ہے، رہاکیاجاسکتا ہے یاپھر قید میں رکھا جاسکتا ہے۔قرآن نے یہ اجازت دی کہ جنگی قیدی کو فدیہ لیکر یا بغیر فدیہ کے احسان کرکے آزاد کیاجاسکتا ہے۔ابھی نندن کو قرآن کے حکم کے مطابق ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمارا کوئی قیدی ہوتا تو تبادلے کی گنجائش بھی موجود ہوتی۔
اسلام دنیا اور مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول نظام ہے لیکن اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیس سال بعد شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور وہ بھی صرف انٹرسٹ (سود) کے لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ لکھنے کیلئے۔ کیس لڑنے اور جیتنے والے جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کو شرم بھی نہیں آتی ہے جو اسلامی بینکاری کے ایجنٹ بن کر کام کررہے ہیں۔ سود کے عملی کام سے زیادہ خطرناک اسکو جواز فراہم کرنا ہے۔ آج ہمارا عدالتی، ریاستی اور معاشرتی نظام تنزل وانحطاط کا شکار ہے اور سب سے عوام کا اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے غلام سرور اور شہر یار آفریدی نے پارلیمنٹ پر خود کش حملے کی بات کردی تھی۔ شاری بلوچ نے خود کش حملہ کردیا۔ مین سٹریم میڈیا چنداشخاص اور مفادات کے گرد گھومتا ہے لیکن وائس آف امریکہ،BBCاور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام کے ذہنوں کو بتدریج بالکل اُلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگرچہ منظور پشتین جیسے لوگ بھی بیرونی میڈیا کی کوریج سے خوش ہوکر طلسماتی دنیا کے شکار ہوگئے ہیں اور عوام کا اصل اعتماد وہ کھوچکے ہیں۔ اگر بلوچستان اور دیگر سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو علی وزیر اور محسن داوڑ کو الیکشن میں حصہ لینے پر فارغ کردینا چاہیے تھا۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی راہیں بھی جدا کردی گئیں اور جب ارمان لونی کے جنازے سے واپسی پر وزیروں کا جلسہ ہوا تھا تو علی وزیر اور محسن داوڑ اس میں جاسکے تھے لیکن منظور پشتین کو اجازت نہیں ملی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کے حامی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف باقی سب کو امریکہ کے ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ANPکے بشیر بلور شہید سمیت کتنے رہنما و کارکن شہید کئے گئے۔آصف علی زرداری،MQM، محمود خان اچکزئی،PTM، مولانا فضل الرحمن ، بلوچ قوم پرست اور فوج کی سیاسی مداخلت پر غدار اور امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ قرار دئیے جاتے تھے اور اب وہی صحافی عمران خان کو دوبارہ لانے کیلئے پاک فوج کو امریکہ ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ کلاچی کے گنڈہ پوروں نے ایک لطیفہ بنایا تھا کہ ایک خاندان کے لوگ تھانیدار سے کسی بات پر نالاں تھے اور انہوں نے اس کی بے عزتی کا فیصلہ کیا۔ دوافراد تھانے میں گئے اور تھانیدار سے ایک نے کہا کہ اس نے میرا گدھا چوری کیا ہے۔ تھانیدار نے دوسرے سے پوچھا کہ سچ ۔ دوسرے نے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہاہے۔ تھانیدار نے پہلے سے کہا کہ تمہارے گدھے کو کیسے چوری کیا ہے؟۔ اس نے کہا صاحب ! بطور مثال یہ سمجھو کہ آپ میرے گدھے ہو اور گند کی ڈھیر پر گوہ کھارہے تھے۔ اس نے تجھے کان سے یوںپکڑا اور چوتڑ پر لاتیں مارتے ہوئے تجھے ہنکاتا ہوا لے گیا۔ دوسرا شخص تھانیدار کے پیچھے کی طرف چلا گیا۔ تو پہلے نے کہا کہ اب تھانیدار کی ….. میں مت گھسو۔ دوسرے نے جواب دیا کہ تھانیدار کی ……میں میرا…… گھس رہا ہے۔ تھانیدار نے یہ دیکھ کر دونوں کو بھگادیا۔ امپورٹ حکومت اور کورٹڈاپوزیشن بھی سوچی سمجھے منصوبے کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی بے عزتی میں لگے ہوئے ہیں۔
پرویزمشرف سے زیادہ ملک کو قرضوں اور مہنگائی کا شکار پیپلزپارٹی نے کردیا تھا اور پیپلزپارٹی کو چوکوں پرلٹکانے ، پیٹ چاک کرنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے والی مسلم لیگ ن کی باری آگئی تو زرداری سے زیادہ سودی قرضے کے تحت ملک وقوم کو پھنسادیا اور پھر عمران خان کی حکومت آئی تو اس سے زیادہ قرضے لے لئے۔ عوام بیوقوف ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارا معاشی نظام سود ی قرضوں پر چل رہا ہے تو بھلائی کے دن ہم کب دیکھ سکتے ہیں؟۔ جو حکومت سے باہر ہوتا ہے تو اس کو دانت نکال کر فوج کو گالیاں دینی پڑتی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ یہ انقلابی بن گیا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ فوج کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جب عمران خان حکومت میں تھا تو نوازشریف اورPDMوالے فوج کو سب سے بڑی خطرناک بیماری کہہ کر جان چھڑانے کی بات کررہے تھے۔ لندن سے راشد مراد کا تعلق ن لیگ سے تھا اور کھریاں کھریاں کے نام سے فوج کی درگت بناتا تھا اور اب عمران خان والے دوسرے پیج پر آگئے ہیں۔ جب گھر میں تنگی ہوتی ہے تو بھائیوں میں بھی لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ جب تک ہمارے ملک کا اپنا معاشی نظام درست نہیں ہوگا تو یہ لڑائیاں، بدتمیزیاں اور بدتہذیباں چلتی رہیں گی۔کوئی بھی کسی اورکا خیر خواہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور فوج کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا لیکن اب معاملہ لگتا ہے کہ بہت خطرناک موڑ پر پہنچ گیا ہے اور بنے گی اور بگڑے گی دنیا یہی رہے گی کا کھیل ختم ہوا چاہتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
ریاست مدینہ نے سودکے خلاف آیات نازل ہونے کے بعد کاشتکاروں کو مفت میں زمینیں دیں تو محنت کش طبقہ خوش حال ہوگیا اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینے کا تاجر بھی خوشحال ہوگیا۔ مزارعین کی محنت کا صلہ دوگنا ہوگیا توپھر مزدور کی دیہاڑی بھی ڈبل ہوگئی۔ مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں ۔ یثرت تجارت کا مرکز بن گیا تو دنیا میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوگیا اور اس ترقی کا سبب جب نبی کریم ۖ ہی تھے تو پیار سے لوگوں نے مدینة النبی کہنا شروع کردیا تھا۔ آج ہندوستان سے الگ ہوئے ہمیں75سال ہوگئے ہیں لیکن ان کے اور ہمارے نظام حکومت کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پختونوں اور بلوچوں سے بڑا برا حال پنجاب اور سندھ کا ہے ، اب ابھی دادو میں زمین کے پانی کے مسئلے پر ایک گاؤں جلایا گیا ، جس میں بہت سارے بچے جھلس کر شہید ہوگئے۔ سندھ کی انقلابی خاتون ام رباب کے پاس باقاعدہ گاؤں کے افراد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ فلاں فلاں افراد نے پہلے دھمکی دی تھی اور پھر گاؤں کو جلا ڈالا ہے۔ جام عبدالکریم کے ہاتھوں ناظم جوکھیو کا بہیمانہ قتل اور مصطفی کانجو کے ہاتھوں ایک بیوہ کے اکلوتے بیٹے کا قصہ ایک مثال ہیں ورنہ سارے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں اور یہی حال ہندوستان کے بہت سے علاقوں کا ہے۔
ہمارے ہاں لسانیت ، فرقہ واریت اور طبقاتی کشمکش نے سر اٹھالیا ہے اور ہماری قومی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے۔ مہاجر، سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی کے علاوہ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کے علاوہ پرویزی ، غامدی اور تبلیغی جماعت، سپاہ صحابہ، جمعیت علماء اسلام اور ایک ایک فرقے میں کئی کئی جماعتیں اور ایک ایک جماعت میں کئی کئی گروہ بندیوں کا تصور عام ہے۔ سیاسی جماعتوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ریاستی اداروں کا حال بھی ویساہی ہے۔
اس مرتبہ ایک منشور کے تحت آزاد ارکان الیکشن لڑیں اور اس منشور میں واضح معاشی اور اسلامی دفعات ہوں۔ جو آزاد ارکان بھی اس منشور پر منتخب ہوں تو وہ ایک آزاد حکومت بنائیں۔ اس منشور کے دفعات بطور مثال یہ ہوں۔
(1:) پورے پاکستان میں مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں اور جہاں جہاں بھی فارغ زمین ہو ،اس پر کھیتی باڑی، باغات اور جنگلی درخت لگائے جائیں جس سے محنت کشوں کو معقول آمدنی ملے گی اورباہمت لوگوں کو بہت بڑا روز گار ملے گا اور کم ازکم اگر دنیا نے امداد روک دی تو لوگ بھوکے نہیں مریں گے۔ بدحال لوگ خوشحال ہوجائیں گے تو پاکستان بننا شروع ہوجائے گا۔
(2:) جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے وہاں ہمارا اتفاق نہیں ہورہاہے اور جس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے وہاں گنجائش کو ختم کرنے میں لگے ہیں۔ جب قرآن میں حضرت آدم سے لیکر خاتم الانبیاء ۖ تک انبیاء میں اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے اپنی آیات سے سورہ مجادلہ میں ایک عورت اور نبیۖ کا مجادلہ ختم کردیا تو ان آیات سے امت مسلمہ کے مسالک کا اتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ فرقہ واریت اور سیاسی معاملات میں اتفاق رائے کی طرف لے جانے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات بھی جلد ازجلد سمندر کی جھاگ کی طرح اُڑیں گے۔
(3:) قرآن میں کسی شادی شدہ عورت پربہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں اور جب نبیۖ کی حرم ام المؤمنین پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے پر ان صحابہ کرام کو80،80کوڑے لگائے گئے جن میں نعت خواں حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بن جحش تھے۔ ہمارے ہاں کسی کی عزت کھربوں اور اربوں میں ہے اور کسی کی عزت کوڑیوں کے دام بھی نہیں ہے۔ اسٹیٹس کو توڑنے کیلئے ٹانگ اٹھاکر پدو مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہماری اشرافیہ کو قربانی بھی دینی پڑے گی ورنہ تو ایسا وقت آئے گا کہ وہ کہیں گے کہ کاش ہم اشرافیہ نہ ہوتے اور غریب لوگوں کی قسمت پر فخر کریں گے۔ محسود قوم اور وزیرستان کے لوگ بڑا خود پر فخر کرتے تھے اور طالبان کے مظالم نے ان کو مزید خراب کردیا تھا مگر جب آزمائش کے دروازے کھل گئے تو کہتے تھے کہ کاش ہم بھاگڑی ہوتے۔
(4:)نکاح وطلاق اور ایگریمنٹ کے مسائل میں اسلام کی تبلیغ اور اس پر عمل کریں گے۔ حلالے کی لعنت کا اسلام نے تصور بھی ختم کردیا تھا لیکن پھر جاہل طبقات کی بدولت یہ رسم رائج ہوگئی۔ ہماری تعلیم یافتہ قوم میں قرآن کے واضح مفاہیم کو سمجھنے کی بڑی صلاحیت ہے اور عورتوں کی عصمت دری کاقرآن نے حکم نہیں دیا ہے۔ اسلام کو غیر فطری بنانے اور سمجھنے والوں کا راستہ روکنا ہوگا۔
(5:) ماں باپ کی جدائی کے بعد بچوں کے مفاد میں قانونی اور معاشرتی بنیاد پر قرآن کے احکام پر عمل در آمد کرائیں گے۔ بچوں کی وجہ سے ماں باپ میں سے کسی کو بھی قرآن کے مطابق تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(6:)عدالت کے نظام کو ظالموں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیں گے اور عدالت کیلئے تاخیری حربوں کا استعمال بالکل ختم کردیں گے۔ آزاد عدلیہ کا اعلیٰ ترین تصور قائم کریں گے جس میں مداخلت کا کسی طرح سے بھی تصور نہیں رہے گا۔
(7:) پاک فوج کو سرحدات کی حفاظت اور جدید اسلحے کی ٹریننگ تک محدود کرنا ہوگا۔ شہروں میںپرتعیش ماحول میں رہنے والے جنگ کے قابل نہیں رہتے ہیں اور تجارتی مقاصد کیلئے فوج کی چھتری استعمال ہونے پر پابندی لگادیں گے۔ ٹول پلازے، روڈ کے ٹھیکے اور رہائشی کالونیاں اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم بن کران کو فائدے دلانے کے معاملات پر پابند ی لگادیں گے۔
(8:) کسی بھی مجرمانہ سرگرمی میں عدلیہ، فوج ، پولیس اور سول بیوروکریسی کا کوئی ملازم ملوث پایا جائے تو اس کو سرِ عام زیادہ سے زیادہ سخت سزا ملے گی۔
(9:) فوج کو پہلے مرحلے میں ڈسپلن قائم کرنے کیلئے ٹریفک پولیس سے لیکر سوشل میڈیا پر جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف استعمال کیا جائے گااور علاقائی بدمعاشوں سے لیکر لینڈمافیا کے خاتمے تک سب معاملات درست کرنے کی کوشش ہوگی۔ ریاستی اداروں کی عزت و توقیر میں کارکردگی کو بنیاد بنایا جائیگا۔
(10:) مساجد کے ذریعے سے معاشرتی مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کیا جائے گا۔ منشیات فروشی کے اڈوں اوران کے سرپرستوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ قوم ، ملک اور سلطنت کو زندہ باد پائندہ باد کی منزل مراد پر پہنچایا جائیگا۔
منشور کے نکات سوچ سمجھ کرباہمی مشاور ت سے طے کئے جائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ نے پاکستان کے سفیر کو دھمکی دے کر اپنی سازش کی تکمیل کا کوئی منصوبہ تو نہیں بنایا؟۔ مذہبی اور لسانی انتہاء پسند و دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں سے ملک و قوم کو اتنا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تھا جتنا ایک خط نے اپنا کرشمہ دکھایا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے افرا تفری کی فضاء پھیل جاتی ہے اور ملک کا استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے تو یہ بڑی کامیاب سازش ہوگی۔ شہبا ز شریف اور عمران خان دونوں اسٹیبلشمنٹ کے سگے ہیں اور دوسروں کو سیکورٹی رسک کہنے والے اب خود سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

سندھ کی معروف شخصیت نورالہدیٰ شاہ کی ٹوئٹ میں پاکستان کی زبردست عکاسی ہے جس میں فرح خان گوگی احتساب کے خوف سے بھاگی ہوئی ہے اور دوسری طرف خود کش بمبار شاری بلوچ نے وکٹری کانشان بنایا ہوا ہے۔
دوسری سائیڈ پر عیدالفطر کے دن کراچی میں بلوچ مسنگ پرسن کیلئے ایک بلوچ خاتون کی وائرل ویڈیو کی تصویر ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ” بلاول بھٹو زرداری کیا جانتے ہیں کہ پرامن جدوجہد، مذمت اور مزاحمت کیا ہوتی ہے اور کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا ہوتا ہے؟۔ جب ماما قدیر اور فرزانہ مجید کیساتھ ہماری خواتین، مردوں اور بچوں نے پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا تو کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ پرتعیش کنٹینر میں شراب پی کر بلاول بھٹو زرداری کراچی سے اسلام آباد مارچ کرتا ہے تو اس کو مذمت اور مزاحمت کا کیا پتہ چلتا ہے۔ پنجاب میں ہماری بیٹیوں ،ماماقدیر اور فرزانہ مجید پر ٹرک چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری میں اگر بلوچ نسل اوپر سے کہیں ملتی ہے تو بلوچیت کا اظہار کرنے کیلئے ہمارے ساتھ یہاں سڑک پر بیٹھ جائیں”۔
جب اتنے بڑے لانگ مارچ کو بھی میڈیا میں کوئی اہمیت نہیں ملی کہ پہلے ماما قدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ ہوا اور پھر جب ان کے مطالبے کو نہیں مانا گیا تو کراچی سے براستہ لاہور اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا تھا لیکن نہ مطالبات مانے گئے اور نہ ہی میڈیا میں کوریج مل سکی تھی۔ شاری بلوچ کا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے ہے اور وہ خود بھی ایک انتہائی پڑھی لکھی خاتون تھی اور ایک خوشحال گھرانے سے اس کا تعلق تھا اور تربت مکران میں سرداری نظام نہیں ہے۔ عوام کی توجہ لکھنے پڑھنے پر ہے۔ جہاں کا ہر لکھا پڑھا بندہ خود ہی سردار ہے۔ غوث بخش بزنجو، میرحاصل بزنجو اورڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق بھی تربت سے ہے اور غوث بخش بزنجو کو بابائے جمہوریت کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچ سٹودنٹ آرگنائزیشنBSOمیں اپنی جوانی گزاری۔ انقلابی سوچ کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کیا اور پھر ڈھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ بھی بن گئے لیکن انقلابی جوانوں میں اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ پنجاب وسندھ ،خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ فرق ہے کہ بے نظیر بھٹو، زرداری، نوازشریف اور عمران خان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلیشمنٹ کیلئے بدترین کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن جونہی اقتدار سے باہر آتے ہیں تو انقلابی بن جاتے ہیں اور ان پر عوام کو بھی انقلابی ہونے کا یقین آجاتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی ایم آر ڈی میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کے دستِ راست غلام اسحاق خان کو اس وقت صدر بنایا تھا کہ جب صدر کے پاس حکومت کو ختم کرنے کے اختیارات تھے۔ نوازشریف نے اقتدار کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ پر حملہ کرکے سپریم کورٹ کے پچھلے دروازے سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکس ٹینشن دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد جونہیPDMکے پلیٹ فارم سے موقع ملا تو آرمی چیف اور ڈی جیISIکو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ مسلم لیگ کے کارکنوں اور پنجاب کی عوام نے مان لیا کہ نوازشریف اب انقلابی بن گیا ہے۔ پھر عمران خان تسلسل کیساتھ فوج کیساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتا رہالیکن اب فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے علاوہ ہر بات کی ذمہ داری فوج پر ڈال رہاہے اور فرح گوگی کی وکالت کررہا ہے تو پھر اس کی اپنی لیڈر شپ کہاں کھو گئی تھی؟۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ جنرل باجوہ اور فوج اگر نوازشریف کے خلاف عدالت کی مانیٹرنگ نہ کرتے تویہ سزا بھی نہیں ہوسکتی تھی جو اقامہ پر دی گئی ہے۔ جب پارلیمنٹ، میڈیا اور قطری خط کے علاوہ ناقابل تردید شواہد سے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ پر عدالت نے کوئی سزا دینے کے بجائے اقامہ پر سزا دی اور اس میں فوج کی پشت پناہی بھی تھی تو ایسے عدالتی نظام سے فرح گوگی کو کیا سزا مل سکتی ہے؟۔
عمران خان نے آخری بال تک مزاحمت کی جگہ آخر میں گورنر پنجاب کو ہٹادیا اور وزیراعلیٰ بزادر کو ہٹادیا اور اسد قیصر سے استعفیٰ دلواکر ایاز صادق کے ذریعے ووٹنگ کروائی۔ اب اس کے سوشل میڈیا کے جانثار عمران ریاض خان گوگی کہتا ہے کہ اب تک نام نہیں لیا نوازشریف تو نام بھی لیتا رہا لیکن جب ضرورت پڑی تو نام لیکر بھی بتائے گا کہ میرجعفر اور میر صادق سے مراد کون ہے ؟۔ اور وقار ملک بتارہاہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ………..یہ سب کچھ کیاہے اور ان کو ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر واپس اس پوزیشن پر جانا پڑے گا۔ حامد میر نے بھی جنرل رانی کے بزدل بچوں کی بات کی تھی ، مولانا فضل الرحمن نے بھی امریکہ کا حشر کرنے کی دھمکی دی تھی اور عمران خان بھی حقیقی آزادی کی بات کررہاہے۔
چہرے بدل رہے ہیں لیکن نظام نہیں بدل رہاہے۔ قرآن نے مردوں کیلئے الرجال قوامون علی النسائ” مرد عورتوں کے محافظ ہیں”کی بات فرمائی ہے۔ ایک دوسرے پر فضیلت کی وجہ تحفظ فراہم اور مال خرچ کرنا قرار دیا ہے۔ اس میں حکمرانی کی بات نہیں ہے۔ ملکہ سبا بلقیس اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے دور کی حکمران تھی جس نے حضرت سلیمان کے خوف سے اطاعت اسلئے قبول کی تھی کہ جب ملوک شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہ امر واقع بیان کیا تھا۔ مرد وں کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے تحفظ اور مال خرچ کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے یہ امر واقع ہے۔ عورت کو بچے جننے ، دودھ پلانے اور پرورش کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا پڑتا ہے اور نازک اندام کی مالک ہوتی ہے اسلئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری کی غیرت اللہ نے مردوں میں ودیعت فرمائی ہے۔ عورت فطری طور پر عاجز، صالحات اور اپنی عزتوں کی غیب میں بھی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حساس قسم کی فطرت رکھی ہوئی ہوتی ہے اور یہ بھی امر واقع ہے جو اللہ نے قرآن کی ایک ہی آیت میں بیان کی ہے۔ نظام کا بنیادی تعلق گھر کے ماحول اور قوانین سے چلتا ہے۔ میاں بیوی اور والدین اور بچوں میں ایک گھر کا ماحول ہوتا ہے تو نظام کیلئے اس سے ملک وقوم کا آئینہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے مگر جب ریاست ڈائن بن جائے تو لوگوں کو ڈراؤنے خواب کے علاوہ کیا دیکھنے کو مل سکتا ہے؟۔ حکمران کا کردار باپ کی طرح ہونے کے بجائے ڈائن کی زن مرید والا بن جائے تو قوم وملک کی اس میں کس طرح بھلائی ہوسکتی ہے؟۔
پاکستان دنیا کا وہ عظیم ملک ہے کہ جس سے پوری دنیا کو بدلنے میں دیر نہیں لگے گی لیکن ہمارا ماحول عمران خان کیساتھ سیتا وائٹ، جمائما، ریحام، پنکی پیرنی اور ان کے بچوں والا بن گیا ہے اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور اس کی بیگمات والا بھی سمجھا جائے تو ٹھیک ہے بلکہ مفتی عبدالقوی اور اسکے سیکنڈلز بنانے والیوں کا سمجھا جائے تو برا نہیں ہے اور یہی حال حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے علاوہ تہمینہ اور شہبازشریف کا تھا۔ اس سے زیادہ کہو تو نعیم بخاری کی اہلیہ طاہرہ سید اور نواز شریف کو چھپاکر مولانا سمیع الحق اور میڈم طاہرہ کا جو سیکنڈل دکھایا گیا تھا۔
حال ہی میں افغان طالبان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں ایک مجاہد کہتا ہے کہ دنیا بھر سے کافروں کا خاتمہ ہمارا مشن ہے، جہاد جس سر زمین پر فرض ہوگا وہاں ہم پہنچیں گے اور جہاد کریں گے۔ ہم نے جہاد سے غیرملکی طاقتوں کو افغانستان سے مار بھگایا ہے لیکن پھر ویڈیو کی آواز میں خلل آگیا اور یہ اس وقت کی ویڈیو ہے کہ جب پاکستان سے افغانستان کو بہت بڑی تعداد میں اناج وغیرہ کا امدادی سامان پہنچایا گیا ۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کو افغانیوں کی مدد کیلئے بڑی رقم جاری کی تھی۔ افغانستان میں داعش کا وجود طالبان اورپاکستان کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان اور داعش کی سوچ یہی ہوسکتی ہے جو ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایک امیرالمؤمنین کو پوری دنیا کیلئے خود ہی نامزد کردیں۔ اگر عیسائیوں کا ایک پوپ ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کا خلیفہ کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم نہیں ہوتا تھا لیکن اچھا یا برا کوئی نہ کوئی خلیفہ ہوتا تھا۔
جب پاکستان کی طرف سے دنیا کیلئے خلیفة المسلمین کا اعلان ہوجائے تویہ ایک اسلامی فریضہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ افغانستان، ایران، سعودی عرب، ترکی اور تمام اسلامی ممالک کو جمہوری اور اسلامی بنیاد پر اس کو تسلیم کرنے کی بھی دعوت دی جائے۔ جو نامعلوم لوگ اپنی طرف سے کوئی خلیفہ مقرر کرکے دہشت مچائے ہوئے ہیں ان سے اس خطے اور مسلم دنیا کی اس فریضے سے جان چھوٹ جائے گی۔ جس طرح خلافت عثمانیہ کے دور میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور ایران ومصر اور حجازوغیرہ آزاد وخود مختار ریاستیں موجود تھیں اسی طرح سے پاکستان سے خلیفہ المسلمین کے تقرری کے بعد تمام ممالک کی خود مختاری کا وجود برقرار رہیگا۔ پھر جمہوری بنیادوں پر نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے سارے انسانوں کو جمہوری بنیادوں پر تابع فرمان بنانے کی کوشش کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام کے فطری نظام کو مسلمانوں سے پہلے مغرب کی حکومتیں قبول کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گی۔ ہماری افواج، سیاسی اشرافیہ اور انقلابی اور باغی لوگوں میں ڈھیر ساری خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ۔ جب خوبیاں ہم اجاگر کریں گے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں گے تو بہترین اور عزتدار انسان بن جائیں گے۔ ہم ایکدوسرے کی مخالفت اور دشمنی میں بہت کچھ کھو رہے ہیں لیکن تنزلی کی شکار قوم کو دلّوں اور دلّالوں سے عروج کی منزل پر نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ اصحاب حل وعقد کو مل بیٹھ کر اسلام کے فطری نظام کے ذریعے سے قوم کی حالت بدلنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی توتب ہی ہمیںکوئی چھٹکارا مل سکے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف

اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کروں گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مریم نوازشریف کو چاہیے کہ چچا کو کپڑے اتارکر بیچنے کے بعد اپنا دوپٹہ لپیٹ دے!

رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا۔ شہبازشریف نے بہت اتار چڑھاؤ دیکھنے کے باوجود بھی اپنی شوبازیاں نہ چھوڑیں!

پنجاب میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں لیکن جنرل جیلانی، جنرل ضیاء الحق ، جنرل حمید گل، جنرل پاشا…… کوشریف برداران اور عمران خان کے علاوہ کوئی نہیںمل سکا؟تاحال یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ جلد انشاء اللہ بند ہوگا اور اچھے لوگ آئیںگے، آنے دئیے جائیں گے اور لائے جائیں گے۔ اسلئے کہ وقت کیساتھ ساتھ حالات بھی بدلتے ہیں اور شعور بھی بدلتا ہے۔نوازشریف اور شہباز شریف کا کردار کھلی کتاب کی طرح ہے۔ آصف علی زرداری نے مغربی کوری ڈور کا افتتاح کردیا تھا جسے کم خرچ اور کم مدت میں مکمل کرکے کوئٹہ اور پشاور کی تقدیر بدل سکتی تھی لیکن گوادر کے سی پیک کو بھی تختِ لاہور کیلئے شریف برادران نے چھین لیا۔ ایران کی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھ چکی تھی لیکن اس پر عمل روکا گیااور قطر سے مہنگی گیس خریدی گئی۔ سی پیک سے ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگایا گیا جوساہیوال کیلئے بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث تھا اور گوادر میں ایران سے بجلی سپلائی ہوتی ہے۔ سی پیک سے نہیں۔ کرک سے تیل کو چھین لینے کی بھرپور کوشش کی اور اس کا نام بھی اٹک رکھ دیا۔ سوات میں محمود خان اچکزئی کے بقول بہت سستی اور وافر مقدار میں اتنی بجلی پیدا ہوسکتی ہے کہ پورے پاکستان کو روشن کیا جاسکتا ہے لیکن وزیراعظم شہبازشریف پختون عوام کو بیوقوف سمجھ کر دھائی دے رہاہے کہ اگر پختونخواہ کی حکومت نے آٹا سستا نہیں کیا تومیں اپنے کپڑے بیچ کر تمہارے لئے آٹا سستا کروں گا۔ اگر مراد سعید، مولانا فضل الرحمن،ANPاور منظور پشتین نے قوم کو شعور دیا ہوتا اور ان میں غیرت اجاگر کی ہوتی تو عوام شہباز شریف کی شوبازی پر نعرے بازی کرنے کے بجائے احتجاج کرتے کہ ہمارے ہاں تمہیں کپڑے اتارنے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے اور اگر پنجاب میں اتارکر بیچ دئیے تو مریم نوازشریف سے گزارش کریںگے کہ اپنے دوپٹے سے اپنے چچا چھوٹے میاں سبحان اللہ کو لپیٹ دینا۔ دوسری طرف عمران خان کا بھی وہی حال ہے۔ پشتوکہاوت ہے کہ گدھے کی سانس نہیں نکل رہی تھی اور کتے کی لالچ نہیں جارہی تھی تاکہ گدھا مرجائے اور اس کو کھا جائے۔ بڑے عرصہ سے شاہ محمود قریشی انتظار میں تھا کہ عمران خان کو نااہل قرار دیکر ہٹایاجائے اور وہ خود وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جائے۔ لیکن نہ رہی بھینس اور نہ بجی بانسری۔ عوام اور مقتدر طبقات کو چاہیے کہ ان دونوں کے بیچ میں فٹ بال نہ بنے اور ایک ایسا انقلاب برپا کردیں جو صحیح معنوں میں اس قوم اور ملک کی تقدیر بدل دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

وزیر اعظم قوم کا باپ ہوتا ہے۔ عمران خان

وزیر اعظم قوم کا باپ ہوتا ہے۔ عمران خان

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

کیا عمران خان نے خودبھی کسی وزیراعظم کو اپنے باپ کا درجہ کبھی دیا ہے؟

دو انتہاؤں کے بیچ میںکھڑے عمران خان کو ایک طبقہ عالم اسلام کا واحد ہیرو اور دوسرا طبقہ یہودی ایجنٹ سمجھتا ہے

سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں سرگرم کرائے کے صحافیوں کیلئے واشروم کے ٹب میں چھپ کر ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ پاک فوج میں تعینات افسروں کی نوکری ، عزت اور زندگی کو خوامخواہ امتحان میں ڈال رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جب مدتِ ملازمت ختم ہورہی تھی تو آئین میں توسیع کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے عمران خان، مسلم لیگ ن کے نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری کے علاوہ ڈھیر سارے سیاسی قائدین اور رہنماؤں نے آئین میں تبدیلی کرکے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو یہ توسیع کیوں دی تھی؟۔ آرمی چیف کی قیادت میں جنرل فیض حمیدDGISIنے فیض آباد دھرنے کا اہتمام کیا تھا؟۔ کھل کر سیاسی مداخلت کی تھی ؟ اور نوازشریف کے کیسوں کو عدالت میں مداخلت کرکے سزا دلوائی تھی؟۔ عمران خان کو ملک وقوم پر مسلط کیا تھا؟۔ پاکستان کو سیاست اور اخلاقیات کے بدترین ادوار میں لاکھڑا کیا تھا؟۔ اس نالائق آرمی چیف کے دور میں تحریک لبیک،PTM، بلوچ دہشتگرد اور پتہ نہیں کیا کیا ہوا تھا ، جسٹس شوکت عزیز، جسٹس ملک، جسٹس فائز عیسیٰ اور بہت سارے معاملات میں فوج نے مداخلت کرکے ن لیگ کیساتھ برا کیا تھا؟۔ نوازشریف کو دباؤ ڈال کر باہر بھجوادیا تھااور عمران خان کے مشن کہ میںNROنہیں دوں گا، پر بھی پانی پھیر دیا تھا۔ امریکہ کو اڈے دینے سے انکار پر قوم کے سیاسی بھگوان عمران خان کو بہت پہلے سے پتہ چل چکا تھا کہ امریکہ کا یہ غلام اب امریکہ کے حکم پر الشیطان الرجیم چینج کرے گا۔ ایسے میں ہزاروں لعنتیں ایسی کہ ہر لعنت پر دَم نکلے کے مستحق آرمی چیف کو عمران خان نے برطرف کیوں نہیں کیا تھا؟۔ نوازشریف نے لندن میں بیٹھ کر توسیع دینے کی حمایت کیوں کی تھی؟۔
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی وکالت کرنے والے بے شرم صحافیوں میں تھوڑی سی بھی حیاء ، غیرت، ضمیر ، اخلاقی قدر اور عزت ہوتی تو ان جماعتوں کی وکالت کبھی نہ کرتے۔ جب آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہورہی تھی تو یہ لوگ اپنی دُم اٹھاکر توسیع کررہے تھے اور جب مدت ملازمت باقی ہے تو اس پر تنقید کے نشتر برسارہے ہیں۔ عمران خان نے کبھی اپوزیشن کو اپنا نہیں سمجھا لیکن جب رخصت ہوگئے تو وزیراعظم کو قوم کا باپ قرار دیدیا۔ پہلے یا بعد والوں کواپنا باپ یا اپوزیشن کو بچہ سمجھا ہو تو کوئی بات ہوتی۔سیتاوائٹ، جمائما، ریحام خان اور بشریٰ بی بی کیطرح اولاد بنناپی ٹی آئی کے کارکنوں کیلئے بھی قابل قبول نہ ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv