پوسٹ تلاش کریں

سیاست کاتقاضہ اور دستور کابڑا بنیادی نکتہ!

سیاست کاتقاضہ اور دستور کابڑا بنیادی نکتہ!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

معراج محمد خان مرحوم تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری تھے تو عمران خان پرویزمشرف کے ریفرینڈم کی حمایت اور معراج محمد خان مخالفت کررہے تھے اور اس دوران یا اس سے پہلے یا بعد میں میری ان سے ایک نشست ہوئی۔ میں نے عرض کیا کہ کہاں آپ اور کہاں عمران خان ؟۔ یہ عجیب اتفاق نہیں ؟۔ جس پر انہوں نے گردش دوران کی اس مجبوری پر اپنا سر سرور سے دھنا تھا۔ پھر وہ تحریک انصاف چھوڑ چکے تھے تو ایک بار پھر ان سے ملاقات کا شرف ملا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میری اماں پٹھان تھیں اور میں علماء حق کے پیروں کا غبار اپنے لئے سعادت سمجھتا ہوں لیکن علماء سو سے میری نہیں بنتی ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی پارٹی کیلئے ایک دستور (آئین) لکھ دیتا ہوں۔ تحریک انصاف کا دستور بھی میں نے لکھا ہے اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کو میں نے بہت کارکن اور رہنما دئیے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی مہربانی لیکن عمران خان نے بھی شاید اس دستور کو پڑھا اور سمجھا تک بھی نہ ہو۔ میرے پاس قرآن وسنت ہی کے ایسے آئینی نکات ہیں جس کو پڑھ اور سمجھ کر بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔
جب لوگوں اور لوٹوںکو پیسوں سے خریدا جائے اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر چلنا دشوار ہو تو پھر پنجہ آزمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کافی عرصہ سے میرے ذہن میں تمام پارٹیوں کیلئے قرآن وسنت کے مشترکہ نکات اٹھانے پر اتفاق رائے کی خواہش تھی لیکن کسی پارٹی نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی ہے۔
عمران خان نے پارٹی اور ادارے بنانے کی بات کی تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ واقعی وہ پاکستان کو پولیس اسٹیٹ اور ایجنسی اسٹیٹس سے نکال کر ایک بہت بڑا صاف شفاف نظام بنائیں گے۔ لیکن پہلے اس نے معراج محمد خان ، جاویدہاشمی، بڑے وکیل رہنما اورجسٹس وجیہہ الدین وغیرہ کو کھودیا اور پھر اپنی نئی ٹیم سے بھی محروم ہوتے گئے۔ اب فوج کو نیوٹرل ہونے کے بعد خصی جانور کہنے کے چرچے ہیں۔ اتحادیوں سے بے نیاز اب اتنے نیاز مند ہوگئے ہیں کہ اتحادیوں کی خاک چاٹ رہے ہیں۔ جمہوریت بہترین انتقام کیساتھ ساتھ تزکیہ نفس کابھی بہت بڑا چارہ بن گیا ہے۔ اسلئے جمہوریت زندہ باد اور اسے برباد کرنے والے مردہ باد۔
جب مولانا فضل الرحمن نے جنرل سیکریٹری کی جگہ جمعیت علماء اسلام کا امیر بننا چاہا تو پہلے امیر کی جماعت میں کوئی زیادہ حیثیت نہیں تھی۔اسلئے کہ جماعت کاقائد جنرل سیکریٹری کہلاتا تھا۔ جیسے پاکستان میں وزیراعظم کی حیثیت ہے اور صدر کی اب کوئی حیثیت نہیں ہے اور جب صدر مضبوط ہوتا تھا تو پھر وزیراعظم کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ جیسے پرویزمشرف اور جنرل ضیاء الحق دور میں۔
قرآن وسنت اور سیرت وتاریخ کی کتابوں کا معالعہ ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم نے نبیۖ کے حوالے سے کئی باتوں میں اپوزیشن جیسا کردار ادا کیا اور نبیۖ نے ان کی حوصلہ شکنی نہیں حوصلہ افزائی فرمائی تھی اور اللہ نے بھی قرآن میں حوصلہ افزائی کی آیات نازل کیں۔ نبیۖ اگر اپنے باصلاحیت ساتھیوں کو کنارے لگادیتے تو قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو فتح کرنا ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ جب قائد اپنا بیٹا، بیٹی، بھائی ، بہن اور اپنے قریبی عزیز کوکھڑا کردے یا پھر اپنا وزن کسی ایک کٹھ پتلی کے پلڑے میں ڈال دے تو کارکنوں کا برین واش کرنا بھی جمہوریت کی نفی ہے۔ مشاورت کا وسیع میدان ہو اور جس کی اکثریت ثابت ہو، اس میں خفیہ رائے شماری بھی اسلئے ہوتی ہے تاکہ کوئی کسی کا لحاظ رکھنے کے بجائے اپنی مخلصانہ رائے سے کسی کا انتخاب کرے۔
مختلف پارٹیوں میں بہت مخلص سیاسی رہنما اور کارکن ہیں لیکن ان کی کوئی بات چلتی نہیں ہے۔ اگر ایک ایسی پارٹی تشکیل دی جائے جس میں انتخابات کی روح کے مطابق کارکنوں میں الیکشن ہوجائے اور پھر مختلف سطح پر قیادتیں ابھر کر آجائیں تو ایک مضبوط پارٹی وجود میں آسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں مختلف پارٹیاں بھی اپنے رویوں کو درست کرکے میدان میں کھیل سکتی ہیں۔ عوام کو کس قسم کی تکالیف کا سامنا ہے؟۔ روٹی ، کپڑا ، مکان کا نعرہ لگانے اور اسٹیبلشمنٹ کی زیادہ سے زیادہ خدمت اور حمایت کرنے سے بات ابھی کافی آگے نکل چکی ہے اور عوام کو مایوسی سے نکالنے کیلئے ان کے ضمیر خریدکر تسلیاں دینے سے کام بالکل بھی نہیں چلے گا۔ پارٹی بنانے کا طریقۂ کار اور ایک ایسے منشور کی ضرورت ہے کہ جس سے عوام کو حکومت میں آنے سے پہلے بھی بہت زیادہ ریلیف مل جائے۔
حضرت عمر نے جب یہ قانون بنایا کہ عورت کا حق مہر کم ہوگا تو ایک عورت نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تم کون ہوتے ہو۔ ہمارے لئے قانون بنانے والے؟۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کوئی قانون نہیں بنایا۔ حسن نثار معروف صحافی نے کہا کہ” الماس بوبی ( لاہور میںہجڑوں کی معروف شخصیت) کے پیٹ میں رسولی ہوسکتی ہے لیکن بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد کیا ہوگا؟۔ اگر کامیاب ہوجائے تو اپوزیشن کے آزمائے ہوئے قائدین سے کیا انقلاب کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ سب ایک چیز ہیں۔ جب امریکہ سے واشروم کی سینٹری کا سامان آیا تھا تو بنگال مشرقی پاکستان نے کہا کہ کچھ ہمیں بھی دینا ۔ جس پر ہمارے والے ہنستے تھے کہ تم نے واشروم کی سینٹری کو کیا کرنا ہے؟۔ باتھ روم کی ضرورت صرف ہمیں ہے۔ تمہارے ہاں کھیتی اور جنگلات ہیں وہاں فارغ ہونے کیلئے چلے جایا کرو۔ آج وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ بہت زیادہ وہ ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ ہمارے پاس ایک فوج کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ہماری فوج کو دنیا میں نمبر ایک مانا جاتا ہے۔ باقی ہر چیز میں تنزلی ہورہی ہے۔ فوج کو بالکل بھی غیرجانبدار نہیں رہنا چاہیے کیونکہ ابھی ہم اس قابل نہیں ہیں۔ جب ہم اس قابل بن جائیں گے تو پھر اس کو غیرجانبدار بننا چاہیے”۔
حسن نثار ایک جذباتی اور فلاسفر ٹائپ کے اچھے صحافی ہیں۔ کسی دور میں وہ الطاف حسین، آصف علی زردای کی بھی تعریف کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کیلئے اس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جیل بھی کاٹی ہے۔ عمران خان کی بہت تعریف اور بڑی مذمت بھی کرچکے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش نے اپنی جان اس فوج سے چھڑائی ہے تبھی تو اس نے ترقی کی ہے۔ اگر وہ اپنی کمزور فوج سے ترقی کرسکتے ہیں تو ہم ایک مضبوط فوج کے سائے میں محرومیاں کیوں دیکھتے رہ جائیں۔ بلوچستان، پختونخواہ اور سندھ میں پہلے بھی شعور تھا اور اب تو پنجا ب بھی جاگ چکاہے۔ ایسے صحافیوں کے بارے میں اب لوگوں کی رائے یہ بن رہی ہے کہ الماس بوبی بچہ نہیں جن سکتی ہے لیکن بعض لوگوں کو ان کی ماؤں نے پیچھے کے راستے سے جن لیا ہے۔ یکطرفہ بولنے پر وہ صحافی نہیں رہتا ۔مظہر عباس معروف صحافی نے کہا کہ ” صحافی نظر آنا چاہیے کہ وہ غیرجانبدار ہے”۔
نبیۖ نے سود کے حرام ہونے کی آیات کے نزول کے بعد کاشتکاروں کو بٹائی، کرایہ اور ٹھیکے پر زمین دینے کو سود قرار دے دیا۔ فرمایا کہ مفت زمین دو، یا پھر اپنے پاس فارغ رکھ لو۔ اس سے مدینہ میں بہت بڑا انقلاب برپا ہوگیا ،جس نے مشرق ومغرب کی سپرطاقتوں ایران وروم کو فتح کرنے میں بھرپور کردارا دا کیا تھا۔ مدینہ کے محنت کش غریب لوگوں میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینہ کے بازار عالمی منڈی کا سماں پیش کررہے تھے۔ تاجر کہتے تھے کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو سونا بن جاتا ہے۔ غزوہ بدر میں 70دشمن قیدی بنائے گئے لیکن کسی نے بھی ان کو غلام بنانے کی تجویز پیش نہیں کی۔ اور نہ ہی دشمنوں سے غلام کا کام لیا جاسکتا تھا۔ کلبھوشن اور ابھی نندن کو کون اپنے گھرمیں غلام کی طرح رکھ سکتا تھا؟۔
مزارعت ہی غلام اور لونڈیاں بنانے کا واحد نظام تھا۔ جس کی جڑ ہی اسلام نے کاٹ دی تھی۔ چاروں فقہ کے امام حضرت امام ابوحنیفہ ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل اس بات پر متفق تھے کہ مزارعت سود اور حرام ہے لیکن اپنے اپنے دور کے بعض مفتی اعظم اور شیخ الاسلام نے جس طرح آج سودی نظام کو جائز قرار دیا ہے جس سے کارخانے، فیکٹریاں، ملیں اور کمپنیاں غلام بنائے جاتے ہیں بلکہ پورے پورے ملک بھی غلام بنائے جاتے ہیں اور قرآنی آیات اور دوسرے علماء ومفتیان کے فتوؤں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سے وقت کیساتھ ساتھ مزارعت کو بھی جوازفراہم کیا گیا تھا۔ اگر قرآن واحادیث اور ائمہ کے متفقہ فتوؤں سے انحراف نہ برتا جاتا تو غلامی کے نظام کو ختم کرنے کاکریڈٹ اسلام کو جاتا۔ آج روس اس پر ہمارے ساتھ کھڑا ہوجائے گا۔جاگیردار اگر کاشتکاروں اور مزارعین کو مفت زمین نہیں دیں تو ان کا ووٹ بھی قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ مجبور اور غلام کی اپنی کوئی رائے بھی نہیں ہوتی ہے۔ جب لوگ خوشحال ہوکر زمینوں کی کاشت کو چھوڑ رہے تھے تو یہ المیہ بن رہاتھا کہ پھر اناج کا کیا بنے گا۔ آخر کار غیر مسلموں کو یہ کام سپرد کردیا گیا تھا۔ مسلمان زکوٰة وعشر کے نام پر حکومت کو کچھ حصہ دیتے تھے اور غیرمسلم ٹیکس وجزیہ کے نام سے وہی کچھ دیتے تھے۔ جاگیردار آج اپنی زمینیں خود کاشت کرنا شروع کریں تو اللہ کے ولی اور حبیب بن جائیں گے۔ نبیۖ نے فرمایا تھا کہ الکاسب حبیب اللہ ”محنت کرنے والا اللہ کا حبیب ہے”۔بہت لوگوں کیلئے کاشتکاری کے ذریعے سے نہ صرف روزی کے دروازے کھل سکتے ہیں بلکہ دنیا کی تقدیر بھی بدلی جاسکتی ہے۔ امیر اور سرمایہ دار تو کام کریں گے نہیں۔
حضرت عمر نے اپنے دور میں پابندی لگائی تھی کہ کوئی اپنا پیشہ نہیں چھوڑے گا تاکہ معاشرے میں کسی چیز کی کمی نہ ہو اور ترقی کا سفر جاری رہے۔ حضرت داؤد بھی زرے بنانے کی صنعت سے وابستہ تھے۔ اگر نوازشریف اور شہبازشریف کو جرنیل سیاست میں لانے کے بجائے اتفاق ٹریکٹر بنانے دیتے تو آج وہ ترقی کرکے پورے ملک میں ریل گاڑی اور جہاز بنانے کے کارخانے بھی بناتے اور ملک وقوم کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں زبردست کردار ادا کرتے۔ اسی طرح آصف زرداری ، عمران خان اور مختلف محکموں سے ریٹائرڈ ہونے والے حضرات بھی سیاست میں آنے کی جگہ اپنی اپنی فیلڈ میں کام کرتے۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے اپنے باصلاحیت کارکنوں کو کنارے لگاکر نالائقوں کیلئے دروازہ کھولنے میں اپنا کردار اداکیا اور طلبہ تنظیموں کی سیاست پر پابندی لگائی گئی۔
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگادو کاخِ امراء کے درو دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کو جلادو
مفت میں زمینیں کاشت کیلئے مل جائیں گی تو بڑے بڑے جاگیرداروں کی ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ پانی پر اپنا ناجائز قبضہ جمائیں۔ عدل وانصاف سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ حل ہوگا۔ پھر اتنے باغات اُگائے جائیں گے کہ پاکستان کی تمام زمینیں باغ ہی باغ اور جنت کا منظر پیش کریں گی اور اس میں محنت مزدوری کرنے والوں کو بھی روز گار ملے گا۔ جب کھیت میں پوری پوری محنت کا پوراپورا صلہ مل جائے گا تو مزدور کی دیہاڑی بھی خود بخود دگنی ہوجائے گی۔ پھر سب سے پہلے سودی قرضوں کا خاتمہ ضروری ہوگا کیونکہ ہماری ریاست کی آمدن سے بھی زیادہ پیسے سودکی ادائیگی میں جارہے ہیں۔ جب محنت کشوں کو درست معاوضہ ملے گا تو وہ تعلیم وتربیت کیلئے اپنے بچے بھیجنا شروع کریں گے جن سے بہت ہی لائق قسم کے ڈاکٹر، فوجی، سائنسدان اور ہر شعبے میں مہارت رکھنے والے پیدا ہوںگے۔ نالائق سیاستدانوں ، ججوں، جرنیلوں اور افسروں کے نالائق بچوں کو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری میں مزہ بھی آئے گا اور صحت بھی اچھی رہے گی۔
سفارش کی جگہ میرٹ اور افراتفری کی جگہ ڈسپلن اس قوم کا پھر شعار بن سکتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ فلسفہ پیش کیا تھا کہ ” جو قومیں اپنے ان افراد کو محنت مزدروی کے کام پر لگاتی ہیں جن میں ذہنی صلاحیت ہوتی ہے اور جن میں ذہنی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ان کو دماغی کام پر لگادیتی ہیں تو وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔ اور جو لوگ ذہنی صلاحیتوں سے مالامال لوگوں کو ذہنی صلاحیتوں کی ذمہ داریوں پر لگادیتی ہیں اور ہاتھ پیر کی صلاحیت رکھنے والوں کو مزدوری اور ہاتھ پیروں کے کام پرلگایا جائے تو وہ قوم بہت ترقی کرتی ہے”۔ جب تک قوم کو مواقع فراہم نہ کئے جائیں تو ایسا کرنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے مگر بہت ہی مشکل ضرور ہے۔ جب زمینداری کے مسئلے میں اسلام کے اصل حکم کو عملی جامہ پہنایا جائے تو پھر بہت ہی تیزی کیساتھ معاشرے میں محنت کشوں کی کایا پلٹ جائے گی۔ معیشت کیلئے یہ ایک بہت بڑا بنیادی فلسفہ ہے اور پاکستان میں اس پر عمل کرنابڑا آسان ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

اسلام میں نہ صرف جمہوریت کی گنجائش ہے بلکہ دنیا میں جمہوریت کا حقیقی سہرا قرآن وسنت اور اسلام کے سرپر ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایا اور پھر کچھ عرصہ بعد جنرل ضیاء الحق کے مخالفین نے تحریک شروع کردی تو لاہور میں دیوبندی مکتبۂ فکر کے بہت بڑے عالم دین مولانا محمد مالک کاندھلوی نے کہا تھا کہ ” پہلا مارشل لاء حضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا”۔ موصوف کے والد مولانا ادریس کاندھلوی بڑے درجے کے عالم تھے لیکن اتنے سادہ لوح تھے کہ بیٹا محمد مالک اپنے باپ مولانا ادریس سے سائیکل چلانے کیلئے پیٹرول کے نام پر پیسے لیتا تھا۔ ملاجیون سے لیکر بہت بڑے بڑے علماء کی سادہ لوحی کے قصے زبان زد عام ہیں، اسلئے ملادوپیازہ کے نام سے بھی لطیفوں کی کتابیں مارکیٹ کی زینت بنتی رہی ہیں۔
اسلام کا بنیادی کردار یہی تھا کہ اولی الامر سے قرآن نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے جس سے جمہوری ذہن کا راستہ ہموار ہواہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ کا بہت زیادہ ذکر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر سے اختلاف کیا تھا۔ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون کی داڑھی اور سر کے بال پکڑے تھے اور فرشتوں نے آدم کو زمین کا خلیفہ بنانے پر اعتراض اٹھایا کہ زمین میںخون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا۔ جب اسلام نے اختلاف کے تقدس کا دنیا میں ڈنکا بجادیا تو اختلاف کو جمہوریت کا حسن قرار دیا جانے لگا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ جب نبی ۖ نے بدر کے قیدیوں پر مشاورت فرمائی تو اکثریت کی رائے فدیہ لیکر چھوڑ دینے کی تھی اور حضرت عمر اور حضرت سعد نے مشورہ دیا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔ نبیۖ نے اکثریت کا مشورہ مان کر فدیہ لیکر چھوڑ دینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس فیصلے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی تدبیر فرمائی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن میں اقلیت کے مشورے کی زبردست الفاظ میں تائید بھی فرمادی تھی، جس کی درست تفسیر کرنے سے ہمارے علماء بالکل قاصر نظر آتے ہیں اور اول فول باتیں بکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک طرف ان آیات کے ذریعے سے اکثریت کی رائے کو صائب اختلاف کے باوجود بھی قابلِ عمل ٹھہرا دیا تھا تاکہ قیامت تک ایک طرف کثرت رائے اور جمہوریت کی بنیاد پڑ جائے اور دوسری طرف افراد کے اختلاف کو اقلیت کے باوجود بھی بالکل کم اہمیت کا حامل نہ سمجھا جائے۔ بلکہ اس بات کا سوفیصد امکان رہے کہ اقلیت کی بات درست اور اکثریت کی بات غلط بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں سیرت النبیۖ کے ذریعے بہترین جمہوریت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ شیعوں کے اسلام اور نظریۂ امامت میں جمہورکی گنجائش نہیں ہے اسلئے اپنے بارہ اماموں کے مثبت کردار کو بھی منفی پروپیگنڈے سے بڑا بدنام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ائمہ اہل بیت کے مثبت اور صائب کردار نے اُمت کو جمہوری مزاج پرقائم رکھنے کا کردار اداکیا۔ اگر حضرت علی چاہتے تو ابوسفیان کی پیشکش قبول کرکے حضرت ابوبکر کی خلافت کو ناکام بناتے۔ پھر حضرت عمر کی نامزدگی اور حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ میں کثرت رائے کے ذریعے انتخاب بھی ممکن نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت علی کے کردار پر ماتم کرکے سینہ کوبی اور زنجیر زنی کی جگہ فخر کرنے کی ضرورت ہے۔ علامہ سیدجوادحسین نقوی ایک کٹر شیعہ ہیں اور اس طرح کے دیگر بہت سارے شیعہ علماء بھی ہیں جو ائمہ اہل بیت کے درست تشخص کو اجاگر کرکے ان اہل تشیع کی اصلاح کررہے ہیں جن کو جہالتوں نے بگاڑ دیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں سے شیعہ اور خوارج کا ایک دوسرے کے خلاف استدلال پکڑنے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا ایک دوسرے کے خلاف نقصان ہے۔ ہمارے ایک دوست کے دوست فرمان ایک کٹر شیعہ ہیں۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ حضرت خدیجہ بالکل کنواری اور جوان تھیں جب نبیۖ نے شادی کی تھی اورچاروں بیٹیاں حضرت خدیجہ سے تھیں،کیونکہ یہ نبیۖ کی شان کے خلاف ہے کہ خود کنوارے ہوں اور کسی بیوہ سے شادی کریں۔ دوسری طرف اس کو جب بتایا کہ شیعوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت فاطمہ کے علاوہ نبیۖ کی اور کوئی حقیقی صاحبزادی نہیں تھی تواس نے کہا کہ یہ شیعوں کا مؤقف نہیں ہے۔
اہل سنت اور اہل تشیع دونوں اپنے بادام اور اخروٹ کے مغز کو چھوڑ کرچھلکوں کیساتھ کھیل رہے ہیں۔ صحابہ کرام اور اہل بیت عظام دین کے مغز پر قائم تھے اور لوگ فرقہ فرقہ اور چھلکا چھلکا کھیل رہے ہیں اور فرقہ واریت کی آگ کوانہی چھلکوں سے بھڑکارہے ہیں۔ میں جاہل خطیبوں کی جہالت بھری خطابت پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا لیکن ساہیوال کے ایک گاؤں میں گیا تھا اور وہاں میرے ساتھ مولانا منظور احمد نے بھی خطاب کیا تھا۔ان کا یوٹیوب پر نام دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کی کہ یہ وہی صاحب ہیں یا کوئی اور ہیں؟۔ اس نے تقریر میں صحابہ کرام کے متعلق قرآنی آیات سے زبردست استدلال پیش کیا اور پھر ان کے اتباع پر اپنے لئے بھی خوشخبری کی بات قرآن سے سنائی اور ساتھ میں قرآن کے الفاظ کو بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ ” اے اللہ ! جو ہم سے پہلے ایمان کے ساتھ گزر چکے ہیں۔ ان کیلئے ہمارے دل میں کھوٹ پیدا نہ فرما”۔ پھر آخر میں عبادت گزار لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے چوہدریوں کی بھی تعریف کی جن کی مدد سے مساجد اور مدارس میں علماء وطلبہ کی روزی روٹی چل رہی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ”ان چوہدری کی مخالفت کرکے نمک حرام مت بنو”۔
پھر علامہ جعفر حسین قریشی پر نظر پڑی تو اس کی تقریر بھی سن لی جو بہت زیادہ پیاری لگی۔ جب میں نے اوکاڑہ میں تقریر کی تھی تو نعت خوانوں کی نعتوں میں اہل سنت کا رنگ نظر نہیں آرہا تھا۔ علامہ جعفر حسین قریشی نے اپنوں کا یہ رنگ دیکھ کر فرمایا ہے کہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ جس کی تقریر کے ایک حصے کو سنیوںاور دوسرے حصے کو شیعوں نے کاٹ پیٹ کر لگایا ہے۔ میری تقریر کے بعد سامعین میں سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ شیعہ تو نہیں؟۔ جبکہ مجھے ان میں سنیت کا احساس اجاگر ہونے پر خوشی ہوئی۔ کسی محلہ دار اہل تشیع نے میری تقریر سن کر کہا تھا کہ پہلی مرتبہ کسی اچھے علمی شعور والے بندے کو لائے ہو۔ اقبال نے پنجابی مسلمان کے نام سے خوب لکھا ہے کہ ”تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا” ۔
مولانا منظور احمد نے میری تقریر کے بعد جلسہ عام سے خطاب میں کہا تھا کہ ”میں نے آج تک ایسے علمی نکات نہیں سنے ہیں لیکن عوام کو یہ باتیں سمجھ میں مشکل سے آتی ہیںاسلئے کہ وہ خطیبوں کی سریلی آوازوں کی زبان سمجھتے ہیں”۔
علامہ عابد رضاعابدی کینیڈا سے سوشل میڈیا پر اہل سنت کی کتابوں سے بڑا مواد پیش کررہے ہیں اور اگر وہ ایک مہربانی کریں کہ حضرت علی کی بہن حضرت ام ہانی کی پوری کہانی بھی اہل تشیع کی کتب سے پیش کردیں ۔ جس نے ہجرت نہیں کی تھی اور حضرت علی فتح مکہ کے بعد اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہتے تھے ۔ پھر اس نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ لی تھی۔ جو اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ جب نبیۖ نے ان کے شوہر کے جانے کے بعد نکاح کی دعوت دی تو اس نے اپنے مشرک شوہر سے محبت اور اپنے بچوں کی خاطر انکار کردیا۔ نبیۖ نے اس پر ان کی تعریف کی۔حضرت ام ہانی کا رشتہ حضرت ابوطالب سے پہلے بھی نبیۖ نے مانگا تھا لیکن حضرت ابوطالب نے اپنی لڑکی کا رشتہ نہیں دیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اے نبی! ہم نے آپ کیلئے حلال کیا ہے ان چچا اور خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے”۔ حضرت ام ہانی کا نام علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی ازواج میں داخل کیا ہے۔ حالانکہ اللہ نے قرآن میں نبیۖ کو ام ہانی سے رشتے کو منع کرنے کے بعد دوسری بھی تمام خواتین سے رشتہ کرنے کو منع کردیا اور پھر ایگریمنٹ کی اجازت دیدی۔ قرآن کی ان آیات اور حضرت علی اور آپ کی بہن حضرت ام ہانی کے واقعہ سے اہل تشیع کی کتابیں ساقط نہیں ہوں گی اور اس سے اہل تشیع کے لوگوں میں بہت شعوروآگہی اور علم وفہم پھیلے گا۔ ان کے آپس کے جھگڑے بھی اس سے ختم ہوجائیں گے۔ اماموں نے اپنی ساری زندگی جمہوری طرز پر گزاردی لیکن کاروباری چالاک لوگوں نے مذہب کو دھندہ بناکر اپنا اُلو بھی سیدھا کرنا تھا۔
جمہوریت کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو منع کردیا کہ مشرکات سے نکاح نہ کریں ،ان سے مؤمنہ لونڈیاں اچھی ہیں اگرچہ وہ مشرکات تمہیں بھلی لگیں اور مؤمنات کا مشرکوں سے نکاح نہ کریں،ان سے غلام مؤمن اچھے ہیں اگرچہ وہ مشرک تمہیں بھلے لگیں۔ پھر اللہ نے ہجرت کا حکم دیا۔ حضرت ام ہانی نے اپنے مشرک شوہر سے اپنا نکاح برقرار رکھا اور دین کے حکم پر ہجرت بھی نہیں کی لیکن اس کے باوجود ان کی عزت وتوقیر کرنا ایک فرض ہے اور قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی درست توجیہات کو توہین و بے توقیری سے مشہور کرنا انتہائی غلط اور بددیانتی ہے۔ ایک شیعہ شاید یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ حضرت علی نے اپنے مشرک بہنونی کو قتل کرنے کا کوئی پروگرام بنایا ہو اور پھر نبیۖ نے حضرت ام ہانی کی سفارش پر منع کیا ہو۔ یہ ان کو امام کی عصمت کے خلاف لگتا ہے۔ وہ اپنے مؤقف کو اپنی کتابوں سے پیش کریں تو ہم وہ شائع کر دیں گے۔ قرآن میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش ہے۔ نبیۖ کی سیرت اور قرآن کا یہ معجزہ تھا کہ اولی الامر کی حیثیت سے نبیۖ سے صحابہ کرام نے اختلاف کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سورۂ مجادلہ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور دیگر مسائل پر قرآنی سورتوں میں واضح آیات ہیں۔ جب نبیۖ سے بھی قرآن میں اختلاف کی گنجائش کا واضح ذکر ہے تو کوئی اولی الامر کیسے ایسا ہوسکتا ہے کہ جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہو؟۔ حالانکہ قرآنی آیت میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کی گنجائش بالکل زبردست طریقے سے واضح کی گئی ہے۔
نبیۖ سے حدیث قرطاس کے معاملے پر حضرت عمر کے اختلاف کا واقعہ قرآن اور سیرت النبی میں کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ قرآن وسنت نے قیامت تک جمہوریت کی روح عالم انسانیت کو سکھادی ہے۔ جمہوریت میں سب سے بڑا فائدہ رائے کی آزادی اور ووٹ کے حق کا آزادانہ استعمال یقینی بنانا ہے۔
آج نام نہاد اور بے روح کاروباری جمہوریت کا یہ حال بن چکاہے کہ قوم ، حکومت، ریاست اور سیاسی پارٹیوں کے درمیان بدترین تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ ایک حدیث ہے کہ اتبعوا السواد الاعظم ” اعظم جماعت کا اتباع کرو” جس سے اکثریت کے پیچھے چلنے کیلئے سمجھا جاتا ہے۔ اچھے علماء نے لکھا ہے کہ ”اس سے مراد اکثریت نہیں کیونکہ عربی میں اقل کے مقابل اکثر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد زیادہ عظمت والی جماعت ہے”۔ وزیروں کی اکثریت ہوتی ہے لیکن وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے اور ایک ہی کی بات مانی جاتی ہے۔
جب مختلف پارٹیوں اور جماعتوں میں ہر ایک کو اپنے اپنے ذہن کے مطابق عظمت والی جماعت کو ووٹ دینے اور اس کے پیچھے چلنے کی آزادی ہو تو یہی اس جمہوری نظام کو کہتے ہیں جو موجودہ دور میں رائج ہے۔ اسلام میں جمہوریت نہیں ہوتی تو مختلف فرقے بھی نہیں بن سکتے تھے اور فرقوں پر پابندی لگائی جاتی تو اس کو مذہبی آزادی اور جمہوریت کی روح کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کاروبار ی شکل نہ اختیار کرتی اور مذہب وسیاست کے نام پر کاروبار نہ ہوتا تو پاکستان سے انسانیت کیلئے عالمی انقلاب کا آغاز ہونے میں دیر نہ لگتی۔
شیعہ سنی افکار اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن جب تک ایک مضبوط بیانیہ حکومت، اپوزیشن، ریاست اور عوام کے سامنے نہیں آتا ہے تو یہ ملک وقوم تباہی کی طرف بہت تیزی سے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندر کا بیانیہ شروع سے یہ تھا کہ ہماری35سیٹیں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں ہروائی ہیں اسلئے کہ اگر ہم اتحادی بیساکھیوں کے بغیرحکومت بناتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہماری محتاجی ختم ہوجاتی۔ جن میں ایک سیٹ وہ فیصل جاوید کے مقابلے میں خواجہ آصف کی بتاتے ہیں۔35پنچر سے بڑا معاملہ یہی ہے۔ دنیا دیکھ رہی تھی کہ اتحادیوں کے سہارے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت ایک اشارے سے گر سکتی ہے اور PDMنے اسٹیبلشمنٹ میں آرمی چیف اورDG آئی ایس آئی کا نام لے لے کر عوام میں تقریریں کیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ ہم غیرجانبدار ہیں۔ پھرDGISIپر حکومت اور فوج میں ناراضگی کا معاملہ آیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے اندورنی اختلافات کی وجہ سے مرکز اور پنجاب میں تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی تھی اور الزام پیپلزپارٹی پر لگایا گیا کہ استعفے ، لانگ مارچ کے بعد اس کا دھرنے دینے پر اتفاق نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی قابل اعتبار نہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا فارمولہ تھا کہ پہلے تحریک عدم ِ اعتماد کا آئینی فارمولہ آزماتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب اور شہبازشریف کو مرکز سپرد کریں گے۔ پھرجب PDMنے ایک لمبی مدت 23مارچ کی دیدی لیکن اسٹیبلشمنٹ کے خوف سے لانگ مارچ کرسکتے تھے اور نہ اپنی بات سے پھر سکتے تھے اسلئے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ کر جھوٹے دعوے شروع کردئیے۔ خرید وفروخت کے ذریعے یہ ممکن بھی تھا اور مشکل بھی تھا لیکن PDMکی قیادت سنجیدہ نہیں لگ رہی تھی۔ اسلئے کہ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ارکان کو بغاوت پر اکسانے اور یقین دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ن لیگ پنجاب میں وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے میں گومگو کا شکار تھی۔ اب سندھ ہاؤس اسلام آباد سے بھانڈہ پھوٹ چکا ہے۔
عمران خان نے 10لاکھ کا اجتماع D چوک پر کرنے کا اعلان کیا تو PDM نے بھی23مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کیا۔ جس پرکور کمانڈر کانفرنس میں تلخ پیغام دیا گیا اور شیخ رشید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ماؤزے تنگ نہیں ایک عالم دین ہیں ، مولا جٹ بننے کی کوشش کاسودا مہنگا پڑسکتا ہے۔ مریم نواز اور شہباز کی قیادت میں لاہور سے نکلنے والے جلوس اورPDMنے23مارچ کی جگہ25 مارچ کا اعلان کردیا کہ غیرملکی مہمانوں کا ہمیں بھی احترام ہے لیکن اصل خوف ریاست کے میزبانوں سے ہے۔ دیکھئے سیاسی دنگل کا آخری نتیجہ کچھ تو نکلے گا۔
ہڑتال و احتجاج کی کال سے عوام کو باخبر رکھا جائے تو عوام اپنے مفاد میں اس کو کامیاب بناتے ہیں۔ سیاسی حکمت اور غیرت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ عوام کو ان کی مرضی کے بغیر مشکلات میں ڈالنا انتہائی درجے کی بے غیرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے جب سے پیشگی کال کے بغیر کارکنوں کے ذریعے عوام کو تکلیف دینا شروع کی ہے توعوام کو ان جماعتوں اور قائدین سے نفرت ہونے لگی ۔ اچانک روڈ اور تجارتی مراکز بند کرانے سے بچے اور خواتین بھی پھنستے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ریاست عوام کے حقوق کی حفاظت نہ کرسکتی ہو تو تنگ آمد بجنگ آمد لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کو بند کرنیوالے سیاسی کارکنوںکو مارنے کیلئے اپنی گاڑیوں میں سرئیے ، ڈنڈے اور اسلحے رکھنے شروع کردیں۔ ایک مرتبہ نوشہرہ اور دوسری مرتبہ کراچی میں لوگوں کو جمعیت علماء اسلام کے احتجاج پر بہت گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے سنا ۔ عاقل کو اشارہ کافی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عربی میں عبد غلام کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوکسی دوسرے کی غلامی کیلئے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اپنی خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ زمین میں انسانوں کی خلافت کیا ہے؟۔ بیوی بچوں ، جانور، پرندے اور درخت کھیتی وغیرہ کی پرورش کی ذمہ داری اُٹھاناروئے زمین میںاسلامی خلافت کا ایک چھوٹا ساآئینہ ہے۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے فرمایا کہ ” اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس گناہ کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے”۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر نے ایک چڑیا کو دیکھ کر فرمایا کہ ” یہ کتنی خوش قسمت ہے کہ جوابدہی کے غم سے آزاد ایک جگہ سے دوسری جگہ اُڑتی پھرتی ہے”۔ اپنے بال بچوں کی ذمہ داری اٹھانا کتنا مشکل ہے لیکن پورے ملک وقوم کی ذمہ داری اٹھانا پھر کتنا مشکل کام ہے؟۔
اگر موجودہ جمہوری سیاست میں اسلام کی روح ہوتی تو کیا اقتدار کے حصول کیلئے قائدین اس طرح اپنی الٹی سیدھی حرکتیں کرکے مررہے ہوتے؟۔ حضرت سعد بن عبادہ انصار کے سردارنے خلیفہ بننا چاہا تو حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے بہت خطرناک رحجان کو دیکھ کرثقیفہ بنی سعدمیں یہ اقدام اٹھانے سے روک دیاتھا اورہنگامی بنیاد پر حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر حضرت عمر نے بیعت کرلی۔ جس کے بعد انصار و مہاجرین کی اکثریت بھی ان کی خلافت پر متفق ہوگئی۔ حضرت سعد بن عبادہ نے آخری عمر تک نہیں مانا اور حضرت علی وابن عباس اور اہل بیت کے افراد کو بھی اس اقدام پرایک عرصہ تک بہت سخت قسم کے تحفظات تھے۔
پھر حضرت عمر نامزدہوئے اور حضرت عثمان کا انتخاب چند برگزیدہ ہستیوں نے کثرت رائے سے کردیا۔حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علیکا فیصلہ بھی ہنگامی صورتحال میں کیاگیا تھا۔ چاروں خلفاء راشدین کی نامزدگی جمہوری نظام کے تحت نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے فیصلے مشاورت سے ہواکرتے تھے۔پھر اس کے بعد خلافت کا نظام خاندانی اقتدار میں بدل گیا۔ پھربنوامیہ کی حکومت جبر سے ختم کی گئی اور ان کے افراد کو عبرتناک انجام تک پہنچایا گیا۔ پھر بنوعباس کا بھی کافی عرصہ بعد حشر نشر کیا گیا اور پھرسلطنت عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اور پھر اس کا بھی خاتمہ 1924ء میں کردیا گیا۔ برطانیہ وامریکہ اور مغرب نے جمہوری نظام کا آغاز کیا جس میں خون خرابے کے بغیر انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جاتا ہے۔
کیا جمہوری نظام غیراسلامی ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ” اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے”۔ (صحیح مسلم )
مغرب نے دنیا کو جس طرح کا جمہوری نظام دیا ،اگرجمہوری روح کے مطابق اسلامی دنیا میں اس پر عمل ہوجائے تو یہی اسلام کا تقاضہ ہے۔ جب دنیا میں پرامن انتقال اقتدار کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا تو انقلابی جدوجہد میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوجاتی تھی۔ ایرانی بادشاہت خونریزی سے ختم ہوئی اور عرب و دیگر بادشاہتوں کو تصادم اور خونریزی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں انتقال اقتدار کیلئے جمہوریت ہے اور ڈکٹیٹروں نے ریفرینڈم بھی کرائے ہیں۔ مکہ خونی تصادم کے بغیرفتح ہوا تھا اور اس سے پہلے صلح حدیبیہ کا زبردست معاہدہ ہوا تھا۔
خلافت راشدہ کے دور میں جمہوری نظام نہیں تھا لیکن جمہوریت کی روح موجود تھی ۔ حضرت عثمان اورحضرت علی کی شہادت کے بعدآخری خلیفۂ راشد امام حسن نے حضرت امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ی اختیار کرلی اور پھر امارت کا دور شروع ہوا۔ جس کے بعد جب تک خاندانوں کو نیست ونابود کرکے نہیں رکھ دیا جاتا تھا اس وقت تک خاندانی بادشاہتوں کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تھا۔
آج پاکستان میں جمہوریت ہے مگر جماعتوں میں جمہوریت کی روح نہیں ہے۔ ڈکٹیٹروں کی پیداوار قیادتوں سے جمہوری مزاج اور جمہوری نظام کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟۔ خاندانوں اور خانوادوں کی سیاست ہے اور اس سے بدتر حالت قائدین اور قیادتوں کی ہے۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم گورنر جنرل بن گئے اور قائدملت وزیراعظم بن گئے اور اپنی بیگم راعنا لیاقت علی خان کو اعزازی فوجی جرنیل کا عہدہ دے دیا۔ پھر کون کون اور کس طرح وزیراعظم بن گیا؟۔ اس کی ایک بہت بھیانک اور مخدوش تاریخ ہے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی کا اقتدار پر قبضہ تھا۔ آخر کار جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ عوام پہلے انگریز کے جس نظام اور جن لوگوں کی غلام تھی تو انگریز سرکار کے تشریف لے جانے کے بعد اس کی باقیات کا قبضہ جوں کا توں تھا۔
جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مادرملت فاطمہ جناح نے الیکشن لڑا تھا تو مشرقی ومغربی پاکستان کی زیادہ تر سیاسی و قومی جماعتوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا لیکن اس کو دھاندلی سے شکست دے دی گئی تھی۔ جنرل ایوب خان کی کوکھ سے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا تھا۔ پھر جب جنرل یحییٰ خان نے الیکشن کرایا تو مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی لیکن بھٹو نے جرنیلوں کیساتھ مل کر مجیب الرحمن کو جمہوری بنیاد پر قتدارسپرد نہیں کیا جس کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کا سانحہ پیش آیا تھا۔ پھر بھٹو نے پاکستان میں سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا منصب سنبھال لیا ۔ بنگلہ دیش میں پاک فوج سے ہتھیار ڈالوانے سے پہلے اقوام متحدہ کی فوج بھی تعینات ہوسکتی تھی لیکن بھٹو نے پاک فوج کو ذلیل کرکے اقتدار پر اکیلا مسلط ہونے کیلئے اقوام متحدہ کی اسمبلی میںاس قراردادکے کاغذ پھاڑ دئیے تھے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جگہ بھارت نے بنگلہ دیش پر قبضہ کرکے پاک فوج اور سول بیوروکریسی کے 93ہزار قیدی بنالئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام پارٹیوں کی مدد سے ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا تھا لیکن اس کوخود معطل کرکے بھی رکھ دیا تھا۔ لاڑکانہ سے کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ بھٹو کے مقابلے میںاپنے کاغذات بھی کوئی داخل کراتا۔ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی نے انتخابی دنگل میں لاڑکانہ سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس کو بھٹو نے کمشنر خالد کھرل کے ذریعے اغواء کیا تھا۔ یہ وہ خالد کھرل تھا جس کے دادا نے برصغیر پاک وہند کے سب سے بڑے انگریز مخالف انقلابی قائد احمد خان کھرل کی مخبری کرکے نقدی اور سرکاری اراضی کا انعام کمایا تھا۔
بھٹو نے پنجاب وسندھ کو قابو کیا ۔ پہلے پنجاب اور ہندوستان کے مہاجروں کا عوام پر راج ہوتا تھا۔ بھٹو نے ہندوستانی مہاجروں کی سول بیوروکریسی کی ایک بڑی تعداد کو جبری ریٹائرڈ کرکے سندھ اور پنجاب کے اقتدار کی بنیاد رکھ دی تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں اپنااقتدار حاصل کیا تھا۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام نے زیادہ بڑی اکثریت حاصل کرلی تھی اور خیبرپختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی۔ جس میں خان عبدالولی خان، محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی ، بلوچ قیادت نواب خیربخش مری، سردارعطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجوتمام قوم پرست تھے۔ لیکن قوم پرستوں نے جمہوریت کے سر کے بال اور جمعیت علماء اسلام نے اسلام کی داڑھی مونڈھ دی تھی اسلئے کہ جہاں بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کو اسلام کے نام پر عوام نے بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے سردار عطاء اللہ مینگل کو وزیرااعلیٰ بنادیا گیا تھا اور جہاں سرحد(خیبرپختونخواہ )میں نیشنل عوامی پارٹی کو قوم پرستی کے نام پر بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے مولانا مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا تھا۔جس سے اسلام اور جمہوریت دونوں کی بیخ کنی کی گئی تھی۔اگر وزیراعلیٰ بلوچستان جمعیت علماء اسلام سے بنادیا جاتا تو بلوچستان ہمیشہ کیلئے اسلام اور جمعیت علماء کا قلعہ بن جاتالیکن جعل سازی اور سودابازی کے ذریعے بلوچ قوم پرست سردارعطاء اللہ مینگل کو بنایا گیا تو آج تک بلوچستان کی سیاست ، حکومت اور بلوچ عوام اس کے مضراثرات کے متأثرین ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ سرحد(خیبر پختونخواہ) اس وقت مفتی محمود کی جگہ کسی قوم پرست کو بنادیا جاتا تو خیبر پختونخواہ سازشی علماء اور دہشت گردوں کی جگہ قوم پرستوں کا مرکز بن جاتا۔
پنجاب مسلم لیگ بلکہ موسم لیگ اور سندھ پیپلزپارٹی کا قلعہ ہوسکتا ہے تو پھر بلوچستان اسلام اور جمعیت علماء اسلام اور خیبر پختونخواہ قوم پرستوں کا مرکز کیوں نہیں بن سکتا تھا؟۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ اپوزیشن کی سیاست کا مرکز تھے ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی نام نہاد جھوٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تو قوم پرستوں کے سہارے کھڑے وزیراعلیٰ مفتی محمود کو بھی استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ پھر بھٹو کے مقابلے میں قومی اتحاد کے نو ستاروں کی تحریک چلی تھی جس میں جعلی قوم پرست اورجعلی اسلام پرست شامل تھے اور اس کوتحریکِ نظام مصطفی کا نام دیا گیاتھا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی پہلے جمعیت علماء اسلام کے قائد کی حیثیت سے ایک مودودی سو یہودی کے نعرے لگواتے تھے لیکن پھر اس کی توپوں کا رُخ مفتی محمود کی طرف ہوگیا تھااور ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دے رہے تھے۔بعض علماء اس 9قومی ستاروں کے اتحادکو ان 9افراد کا ٹولہ قرار دے رہے تھے جن کا قرآن میں ذکر ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلارہے تھے۔
پھر جب اس قومی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگا تو کچھ عرصے تک جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا گیا لیکن پھر جماعت اسلامی مارشل لائی بن گئی اور کچھ دیگر جماعتوں نےMRDکے نام سے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی ۔ جمعیت علماء اسلام کا فضل الرحمن گروپ اسکا حصہ بن گیا اور درخواستی گروپ مخالف بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے مولانا غلام غوث ہزاروی کی قبر پر اپنے باپ کے رویے پر معافی مانگی تھی کہ بھٹو کیخلاف جماعت اسلامی کیساتھ ہم غلط استعمال ہوگئے تھے۔ پھر جب جنرل ضیاء الحق حادثے کا شکار ہوگئے تو MRD میں شامل جماعتوں نے1988ء کے الیکشن میں فیصلہ کیا کہ قائدین کو اسمبلی تک پہنچانے کیلئے کسی کو بھی کھڑا نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن ، ولی خان وغیرہ کوسب نے مل کر جتوایا تھا لیکن بینظیر بھٹو کیخلاف ڈاکٹر خالد محمود سومرونے جمہوری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن لڑا تھا،جس سے مولانا فضل الرحمن کی ناک کٹ گئی تھی۔ ڈاکٹر خالد سومرو ایک طرف جے یوآئی کا نمائندہ تھا تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد پر پیپلزپارٹی کیخلاف قوم پرستوں کا مہرہ تھا۔ مفتی محمود اور ولی خان بھائی بھائی تھے تو ڈاکٹر خالد سومرو اور سندھی قوم پرست بھائی بھائی کیوں نہیں بن سکتے تھے؟۔پھر بینظیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو مسلم لیگ سے وزیراعظم عمران خان کے موجودہ سسر کے باپ غلام محمد مانیکا وغیر ہ بک گئے تھے۔ پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نیشنل پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام درخواستی گروپ وسپاہ صحابہ وغیرہ نے حصہ لیا اور جب اگلی باری پھر پیپلزپارٹی کی آئی تو مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔
PDMمیں پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام ساتھ تھے تو بھی گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں مریم نواز سمیت PDMکے تمام قائدین نے شرکت کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن نے علامہ راشد محمود سومرو کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ ایک طرف جمعیت کے سومرو برادران لاڑکانہ میں تحریک انصاف کے اتحادی تھے تو دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان میں باپ کی اتحادی تھی۔ پیپلزپارٹی کی چاہت تھی کہ شہبازشریف کو وزیراعظم اور پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے لیکن ن لیگ نے اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کیلئے اسمبلیوں سے استعفیٰ اوراسلام آباد لانگ مارچ کے بعد دھرنا دینے کا بہانہ بناکرپیپلزپارٹی اور اے این پی کو PDMسے آوٹ کردیا تھا۔
پھر جمعیت علماء اسلام اور ن لیگ نے اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے کی ایک لمبی مدت کے بعد23مارچ کی تاریخ دیدی۔ جس میں PDM نے لانگ مارچ کیساتھ دھرنا بھی دینا تھا اور اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے تھے۔ جب مارچ آگیا تو پھرPDMنے اپنے وعدوں سے مکر جانے کیلئے جھوٹا شوشہ چھوڑ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے ہمارے نمبر پورے ہیں۔پیپلزپارٹی سے بھی رابطہ کرلیااور چوہدری برادران سے بھی رابطے کرلئے لیکن اصل مقصد لانگ مارچ، اسلام آباد دھرنے اور استعفیٰ دینے کے وعدوں سے توجہ ہٹانی تھی۔ مسلم لیگ ن نے میڈیا ٹیم کے ذریعے سے یہ افواہیں چھوڑ دیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 3طلاق دیدئیے ہیں اور ن لیگ سے درپردہ حلالہ بھی ہوگیا ہے اسلئے مریم نواز خاموشی سے اپنی حکومت آنے کا انتظار کررہی ہیں۔دوسری طرف تحریک عدم اعتماد سے گھبرا کر عمران خان نے اول فول بکنا شروع کردیا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کی بات پر حسن نثار جیسے صحافیوں نے کہا کہ فوج بالکل غیرجا نبدار نہ رہے، ہماری جمہوریت اس کی متحمل نہیں یہاں خریدوفروخت کی چھانگا مانگا میں منڈیاں لگتی ہیں۔ وزیراعظم عمران نے کہا کہ ”غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے”۔ پہلے کہاتھا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھے گی ، پھر کہا کہ ایمپائر سے مراد اللہ تھا۔ اب کہہ سکتے ہیں کہ ”غیر جانبدار جانور سے آرمی چیف نہیں ڈائنوسار مراد تھا”۔
قائداعظم گورنر جنرل تو آرمی چیف انگریز ، وزیرقانون ہندو اوروزیر خارجہ قادیانی اور پاکستان کا آئین اسلامی اور جمہوری نہیں تھا۔ پھر جنرل ایوبی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو قائدعوام اور محمد خان جونیجو قائدِ جمہوریت کہلایا ۔ جنرل ضیاء الحق کی کوکھ سے جنم لینے والا نوازشریف جمہوری قائد بن گیا ۔عمران خان کو ٹی وی کے اسکرین پر مرغا بن کر اعلان کرنا چاہیے کہ اپنے بچوں کی ماں جمائما خان کو چھوڑ کر پرائے بچوں کی ماں بشریٰ بی بی کو اپنی بیگم بنایااور یہ جائز تھا لیکن اپنے ٹائیگروں کو چھوڑ کر دوسرے کے بھگوڑوں کو ٹکٹ دینا بہت بڑی غلطی تھی۔ معافی مانگتا ہوں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، مفتیان عظام اور جدید اسکالروں سے دو ٹوک انداز میں ایک ہی سوال اور اس کا جواب

تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، مفتیان عظام اور جدید اسکالروں سے دو ٹوک انداز میں ایک ہی سوال اور اس کا جواب

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورہ توبہ کی آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مشرکوں ، زکوٰة نہ دینے والوں اور نماز نہ پڑھنے والوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے
بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں لکھا ہے کہ مفتی شفیع نے حنفی مسلک کے خلاف یہ تفسیر لکھی ہے اسلئے کہ بے نمازی کا قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
جب بریلوی دیوبندی ایک دوسرے کو گستاخ اور مشرک کہتے ہیں اور گستاخوں اور مشرکوں کو قتل کرنا نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے تو دہشت گردوں کو دہشت گردی کا جذبہ ٹھیک لگتا ہے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے والد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں سورہ توبہ کی آیات کے ضمن میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو قرآن میں قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن جب وہ ایمان لائیں ، نماز ادا کریں اور زکوٰة دیں تو اس صورت میں ان کو معاف کرنے کا حکم ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نماز نہ پڑھنے والے اور زکوٰة نہ دینے والے مسلمان بھی واجب القتل ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے ساتھی حضرت مولانا غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں مفتی محمد شفیع کے اس مؤقف کو حنفی مسلک کیخلاف قرار دیا ہے۔ لکھا ہے کہ حنفی مسلک میں بے نمازی کو قتل کرنے کی سزا نہیں ہے۔ شافعی مسلک والے حضرت ابوبکر صدیق کے اس اقدام کو دلیل بناتے ہیں کہ زکوٰة نہ دینے والے صحابہ کرام کو قتل کیا گیا تھا مگر زکوٰة کے مانعین کو قتل کرنے کے اقدام سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں اور بے نمازی کو قتل کرنے کا مسلک رکھتے ہیں ۔ شافعی علماء کے نزدیک نماز نہ پڑھنے سے مسلمان مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہے۔ جبکہ مالکی علماء کے نزدیک نماز نہ پڑھنے کی سزا قتل ہے۔ حنفی علماء کے نزدیک بے نمازی کو زدوکوب اور قید کی سزا ہے، اسلئے مفتی شفیع کا استدلال غلط ہے۔ (تبیان القرآن)
طالبان نے افغانستان میں حکومت قائم کرنے کے بعد حنفی مسلک کے مطابق بے نمازیوں کو زدوکوب کی سزائیں دی تھیں لیکن اب وہاں بھی مسلک حنفی پر عمل درآمد کو معطل کردیا گیاہے۔ دہشت گردوں کی ذہنی تربیت کا مرکز ہی تبلیغی جماعت تھا۔ مولانا طارق جمیل کی یہ تقریر آج بھی دوران سفر بسوں میں بڑی بڑی داڑھی والے ڈرائیور عادل شاہ کوچ میں ڈیرہ اسماعیل خان تا کراچی چلاتے ہیں کہ لوگ صرف جمعہ کی نماز پڑھنے کیلئے وہ بھی بہت کم تعداد میں آتے ہیں۔ نماز کا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے۔ نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے۔ نماز کا چھوڑ دینا چوری سے بڑا جرم ہے۔ نماز کا چھوڑ دینا شرک سے بڑا جرم ہے۔ شیطان نے ایک سجدے کا ہی تو انکار کیا تھا۔ کیا شیطان نے کوئی قتل کیا تھا؟، کیا کوئی زنا کیا تھا؟، کیا شیطان نے کوئی چوری کی تھی؟، کیا شیطان نے کوئی ڈکیتی کی تھی؟،کیا شیطان نے کوئی شرک کیا تھا؟۔ شیطان سجدے کا انکار کرکے ہمیشہ کیلئے مردود ہوا تھا اور آپ لوگ روزانہ سجدوں کے حکم کی خلاف ورزی کرکے شیطان کی طرح دن میں کئی بار مردود نہیں ہوجاتے؟۔
مولانا طارق جمیل نے سلیم صافی کے پروگرام میں کہا تھا کہ میں دہشتگردوں کی مذمت نہیں کرسکتا۔ ہماری منزل ایک ہے لیکن راستے جدا جدا ہیں۔ ایک خمیر اور ایک عقیدہ و نظریہ سے تعلق رکھنے والے ایک طرف معزز بن کر حکومتوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ ریاست ان کو اداکاراؤں کے ساتھ قومی اعزازات سے صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے سے نوازتی ہے اور دوسری طرف اس کا رویہ دہشت گردوں کے ساتھ آخری حد تک رعایت والا ہوتا ہے۔ احسان اللہ احسان کو ریاستی پروٹوکول میں رکھ کر فرار کروادیا جاتا ہے۔ جس نے دہشت گرد تنظیم کی دہشتگردانہ کاروائیوں کی الیکٹرانک میڈیا پر بار بار ذمہ داری قبول کی تھی۔ پاک فوج میں نچلی سطح کے سپاہی اور افسران ہمیشہ دہشتگردوں کیخلاف فرنٹ پر لڑتے ہیں۔ کسی قومی ، مذہبی اور سیاسی قیادت کے ہاں اتنی جرأت نہیں ہے کہ دہشت گردی کی فضاؤں میں اپنے بچوں کو فوج میں بھرتی کریں۔ منظور پشتین نے علی وزیر کیلئے کراچی میںدھرنا دیا تو اسکے قریبی ساتھی نور اللہ ترین اور منظور پشتین کی موجودگی میں مولانا قاضی طاہر محسود نے کہا کہ ”جو نعرہ لگائے کہ یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے وہ ہمارا ساتھی نہیں بلکہ دشمن ہے”۔ آج جو پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ہیں تو یہ بھی فوج کی پیداوار ہیں۔ ”یہ جو سیاست گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے”۔ کا نعرہ کیوں نہیں لگتاہے ؟۔
ہم نے پی ٹی ایم اسلام آباد کے پہلے دھرنے میں واضح طور پر جو بات سمجھادی تھی تو آج پی ٹی ایم اسی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ دہشتگردی کے پیچھے سیاست گردی اور ملا گردی کا بھی ہم نے نعرہ لگایا تھا۔ نواز شریف ، شہباز شریف اور عمران خان کے علاوہ مولانا فضل الرحمن ، تبلیغی جماعت ، جماعت اسلامی اور کالعدم سپاہ صحابہ کی وہ ذہنیت بھی دہشت گردی کے پیچھے تھی جس کی سزا پوری قوم نے اچھی طرح سے بھگت لی۔ جب تک پوری قوم کو سورہ توبہ کا درست ترجمہ اور تفسیر نہیں سکھائی جائے گی تو یہ خطہ دہشت گردی سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند میں 800 سال تک حکومت کی لیکن کسی ہندو مشرک اور عیسائی مشرک کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ سورہ توبہ میں قتل کا حکم جنگ بندی کی مدت ختم کرنے کے بعد دیا گیا ہے اور اس میں گرفتار کرنے کا حکم بھی ہے۔ جس سے صرف قتل کرنے کی بھرپور نفی ہوتی ہے۔ اور پھر اسکے بعد کی متصل آیت میںیہ حکم دیا گیا ہے کہ” جب کوئی مشرکین میں سے پناہ لینے آئے تو ان کو پناہ دے دینا۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کی آیات کو سن لیں۔ اور پھر ان کو وہاں پر پہنچادیا جائے جہاں ان کے امن کے ٹھکانے ہیں۔ اسلئے کہ یہ قوم علم نہیں رکھتی ہے”۔ (سورہ توبہ)۔ اللہ تعالیٰ کے اس واضح حکم کی جس طرح غلط تفسیر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور دیگر مفسرین کے ہاں کی گئی ہے جب تک اس کا درست ترجمہ و تفسیر جاہل دہشت گردوں کو اچھی طرح سے سمجھا نہ دیا جائے اس وقت تک یہ دہشتگردی کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھیں گے اور اپنی پشت میں بارود بھر کر بازاروں ، مساجد ، درگاہوں اور امام بارگاہوں پر خود کش کرینگے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جمہوری قیادت ناکام کیوں؟

جمہوری قیادت ناکام کیوں؟

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل اور قائد ملت لیاقت علی خان کو چاہیے تھا کہ انتخابات کراتے اور عوام سے منتخب قیادت سامنے آتی۔ گدھے کو کہا گیا کہ مارتا کہاں پر ہوں اور آواز کہاں سے نکلتی ہے؟ جن لوگوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تقسیم ہند کو ووٹ دیا تھا انہی کے ذریعے سے جمہوری قیادت سامنے آنی چاہیے تھی۔ قائدین سے محمد علی بوگرہ ، آئی آئی چندریگر، حسین شہید سہروردی اور سکندر مرزا تک کسی نے بھی عوامی رائے سے قیادت کا انتخاب نہ کیا۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو جمہوریت کی سوجھی اور فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرادیا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کو علماء و مفتیان نے بھی سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ فقہ کے نام پر خرافات در خرافات کی نقب لگانے والوں کی تقلید کی۔ اسلام کے معاشی نظام سے بھی کوئی سبق سیکھنے کے بجائے حیلہ سازی کا مشق ستم جاری رکھا۔ آج اسلامی انقلابی نظام آسمانوں سے دستک دے رہا ہے اور زمین کا فریبی نظام دنیا سے ملیا میٹ ہورہا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

(نوٹ: خبر کے آخر میں تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ پڑھئے۔ یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا بڑا فیصلہ
چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کا مقدمہ ان کے خلاف ہونا چاہیے جو طلبہ کی آواز کو دباتے ہیں۔یہاں پر ایک آئین ہے،عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھنے پر درج FIR کے مطابق یکم مارچ کوپولیس پر پتھر برسائے۔ کیمپ دادشاہ، ایمان مزاری ،قمربلوچ اور200طلبہ بلوچ اسٹودنٹ کونسل نے لگایا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ایمان مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان طلبہ کی آواز دبائی، یہاں پر ایک آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کرے گی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی اور وکیل ایمان مزاری کی درخواست پر پولیس کو آئندہ سماعت تک گرفتاریوں سے روک دیا۔وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب پر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ اور ایمان مزاری سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے خلاف ایمان مزاری نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔جس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر درج ہوئی ہے؟ جس پر ایمان مزاری کی وکیل نے آگاہ کیا کہ ہماری معلومات کے مطابق ایف آئی آر درج کر کے سیل کر دی گئی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کیا ہو رہا ہے، احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبا کی بات سنی جانی چاہیے۔طلبا کے احتجاج پر آپ بغاوت کے مقدمے درج کر دیتے ہیں، بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان کی آواز دبائی۔ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ طلبہ کے احتجاج میں پولیس کے تین اہلکار زخمی ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی حدود میں کسی کی آواز دبائی جائے، کسی کی بھی بالخصوص بلوچستان کے طلبا کی آواز دبانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزیدکہا کہ طلبہ کی آواز دبانا درحقیقت بغاوت ہے، ساتھ ہی استفسار کیا کہ کتنے طلبا زخمی ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ یہ عدالت ایک کمیشن تشکیل دے، یہاں پر آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کرینگے۔ ضروری نہیں کہ پولیس ہر ایک کو گرفتار کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔بعدازاں سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تینوں افسران 7 مارچ کو عدالت کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ عدالت نے آئندہ سماعت تک پولیس کو مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا اور صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے معاونت طلب کر لی۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی وکیل ایمان مزاری نے اندراج مقدمہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے FIRکی کاپی فوراً فراہم کرنے اور اسکا آپریشن معطل کرنے کی استدعا کی اور استدعا کی گئی کہ FIRسیل کرنا اور کاپی فراہم نہ کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا جائے اور FIRکی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔درخواست میں ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ سیل کی گئی FIRکا آپریشن معطل کیا جائے تاکہ کوئی زیر التوا کیس کے دوران ہراساں نہ کرے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیاکہ بلوچ طلبا پر پریس کلب کے سامنے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پھر مجھ سمیت سب پرFIR درج کی۔ان کا کہنا تھا کہ پریس کلب کے باہر طلبہ جبری گمشدگیوں کیخلاف اور اپنے حقوق کیلئے احتجاج کر رہے تھے، آزادی رائے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی تھی۔ پریس کلب کے باہر پولیس نے پرامن طلبہ پر لاٹھی چارج کیا پھر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ FIRمیں بغاوت کی دفعات شامل ہیں، پولیس FIRکی کاپی فراہم کرنے سے بھی انکاری ہے اور مجھے گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔ درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا۔
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے طلبہ پر FIR درج کی گئی تھی،FIR کے مطابق مظاہرین نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے اور کیمپ کے باہر پولیس پر پتھر برسائے، کیمپ داد شاہ، ایمان مزاری اور قمر بلوچ کی سربراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل نے لگایا تھا جس میں 200 طلبہ شریک تھے۔طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کیخلاف احتجاج کررہے تھے۔
مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس کے انتباہ کے باوجود مظاہرین نے ٹینٹ لگایا جو پولیس کو بزور طاقت اپنے قبضے میں لینا پڑا جسکے نتیجے میں جھڑپ ہوئی۔بعد ازاں طلبہ پولیس کو دھکیلتے ہوئے چائنا چوک پہنچے اور دھرنا دے دیا جہاں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین گتھم گتھا ہوگئے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے موقع پر پہنچ کر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے طلبہ سے مذاکرات کیے۔پولیس اور طلبہ کی جھڑپ کے دوران 6 طالب علم اور انسداد فسادات یونٹ کے 2 افسران بھی زخمی ہوئے۔

تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ
یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔ قدوس بلوچ کی زندگی پرامن احتجاج کے ذریعے ظالم کے خلاف مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے سے عبارت ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے ظالم بادشاہوں کیخلاف پہلے مرحلے میں پرامن طریقے سے کلمہ حق بلند کرنے کے ذریعے سے جدوجہد کی تھی اور نبی کریم ۖ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ زندگی بھر کیلئے کیا تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے اس کو توڑ دیا۔ فتح مکہ میں حضرت خالد بن ولید کے ذریعے قیس عبدالرشید کی قیادت میں پختون قبائل کے لشکر نے بھی مدد کی تھی لیکن جب خالد بن ولید کے ظالمانہ طرزِ عمل کا پتہ چلا تو نبی کریمۖ نے تین دفعہ آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ”اے اللہ !میں خالد کے فعل سے بری ہوں”۔ پختونخواہ کے کوہ سلیمان کی چوٹی سلیمان تخت پر قیس عبدالرشید کی قبر آج بھی موجود ہے۔
قدوس بلوچ کی زندگی تضادات کا بالکل بھی شکار نہیں تھی۔ وہ بلوچوں کیلئے اگر مسلح جدوجہد کے حامی ہوتے تو زبانی جمع خرچ سے حمایت کرنے کے بجائے سرماچاروں کیساتھ بذات خود بھی شریک ہوتے اور اپنے بچوں اور احباب کو بھی شریک کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ ” افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے”۔ بلوچ اسلام کیلئے کبھی عرب گئے تھے لیکن امام حسین کی شہادت سے بد دل ہوگئے تھے۔ آج بھی عرب میں البلوشی کے نام سے بلوچ موجود ہیں جن کا بڑا نمایاں تاریخی کردار ہے۔عراق کے عرب البوشی نے ہی پہلی مرتبہ سرعام بازاروں میں کربلا کے شہداء کیلئے اس احتجاج کی جرأت کی تھی ورنہ تو پہلے چاردیو اریوں کے اندر احتجاج ہوتا تھا۔
منظور پشتین نے آواز لگائی کہ ”جو بھی ظلم کرے ، ہم اس کے خلاف ہیں”۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ بھی مسلح جدوجہد چھوڑ کر اپنے حق کیلئے بہت پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ قدوس بلوچ کا پروگرام تھا کہ 15مارچ سے اسلام آباد میں اپنی تحریک کے ساتھیوں اور احباب کیساتھ مشن کیلئے مستقل کام کریں۔ قدوس بلوچ نے بلوچ اسٹودنٹ کی طرف سے پرامن جدوجہد کے نتیجے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو ایک بہت مثبت پیش رفت قرار دیا ۔ آپ نے یہ مہینہ انقلاب کیلئے فیصلہ کن بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ اپنے بھانجے احسن بلوچ کو بھی دعوت دی کہ اسلام آباد میں ڈیرہ لگانے کیلئے ساتھ چلوگے۔
قدوس بلوچ کی علالت کے سبب عورت مارچ سے پہلے نوشتۂ دیوار کراچی کیلئے لاہور ، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں باقاعدہ جماعتیں نکالنے کا کام نہیں ہوسکا۔ امید تھی کہ قدوس بلوچ صحت یاب ہوکر جماعت کی قیادت بھی کریں گے۔ ہمارے ساتھی جمہوری طریقے سے امیر منتخب ہوتے ہیں اور جب تک اس کی کوئی شکایت یا سست روی کا رویہ سامنے نہیں آئے تو اس کو عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ اپنے اور پرائے ظالم کی کھل کر مخالفت کریں تاکہ منزل آسان ہو اور بے گناہ مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ صحافت کے ذریعے مخصوص طبقے کی حمایت اور مخالفت صحافت کے تقدس پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ اچھی صحافت سے ملکوں اور قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پشاور شیعہ مسجد میں دہشت گردی کے بعد انجینئر محمد علی مرزا کے چینل پر دیوبندی عالم دین کا بیان

پشاور شیعہ مسجد میں دہشت گردی کے بعد انجینئر محمد علی مرزا کے چینل پر دیوبندی عالم دین کا بیان

دیوبندی عالم کیساتھ مرزا محمد علی نے اپنے چینل پر مفتی محمد تقی عثمانی کی تصویر بھی لگائی ہوئی ہے۔جسکا کہنا تھا کہ پشاور بم دھماکے میں ہماری ہمدردیاں شیعوں کیساتھ ہیں لیکن وہ کافرہیں!
سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، آئین پاکستان اور سعودی عرب میں حرم کے حدود میں داخل ہونے والے شیعہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟۔لوگوںکو ضرور آگاہ کیا جانا چاہیے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ سید جواد نقوی جامعہ عروة الوثقٰی لاہور کے ہاں دیوبندیوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدر کے فرزندعلامہ زاہدالراشدی، بریلوی اور اہلحدیث جاتے ہیں۔ ایک طرف شیعہ شدت پسند عناصر علامہ سید جواد نقوی پر شیعہ سے خارج ہونے اور دیوبندی ہونے کا فتویٰ لگارہے ہیں تو دوسری جانب دیوبندی شدت پسند عناصر کا رویہ شیعوں کے معاملے میں سخت ہے۔ جب سپاہ صحابہ کے شدت پسندوں کے عروج کا دور تھا تو جمعیت علماء اسلام کے تمام دھڑے اور اکثر دیوبندی مکتب کے مدارس مولانا حق نواز جھنگوی اور مولانا ایثارالحق قاسمی کیساتھ کھڑے تھے۔بنوری ٹاؤن اور مدارس کا متفقہ فتویٰ آج بھی موجودہے۔
ہواؤں کا رُخ دیکھ کر بدلنے والے علماء ومفتیان کے تیورحالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن شیعہ شدت پسندوں اور دیوبندی شدت پسندوں کو ایک مؤقف پر اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک غلط فہمیاں دور نہیں ہوتی ہیں توکم ازکم دہشتگردی کے خلاف اتفاق رائے بہت ضروری ہے کیونکہ دہشت گرد مسلک وفرقے سے بالاتر سبھی کونشانہ بناتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے محسود اور وزیر علماء ایم این ایز مولانا نور محمد وزیر اور مولانا معراج الدین محسود کو شیعہ نے نہیں دیوبندی دہشتگردوں نے نشانہ بنایا تھا۔اگر شیعہ کافر ہیں تو آئین پاکستان پر ان کی اتفاق رائے ضروری تھی؟ اور آج اسلامی نظریاتی کونسل میں دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث علماء اہل تشیع کیساتھ کیوں بیٹھتے ہیں؟۔ کیاقادیانیوں کیساتھ بھی بیٹھ جائیں گے؟۔ اگرشیعہ کافر ہیں تو حرم کے حدود میں کافروں کا داخلہ ممنوع ہے۔ پھر کیوں شیعوں پر حرم کے حدود پابندی نہیں ہے؟۔ مولانا حق نواز جھنگوی نے مولانا فضل الرحمن کے پلیٹ فارم سے شیعہ کا فر کا نعرہ نہیں لگایا۔ مولاناحق نواز جھنگوی کے بعد سپاہ صحابہ جے یو آئی ف سے علیحدہ ہوگئی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے شیعہ بیگم عابدہ حسین کی حمایت سے مولانا ایثار الحق قاسمی نے وہ سیٹ جیت لی جس پر بیگم عابدہ حسین نے مولانا حق نوازجھنگوی کو شکست دی تھی۔ کیا اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے سپاہ صحابہ کا اہل تشیع کے ساتھ اتحاد درست تھا؟۔ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل میں شیعہ سنی ایک پلیٹ فارم پر کیوں متحد تھے؟۔ کیا قادیانی بھی ہوسکتے ہیں؟۔ اتحاد تنظیمات المدارس میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کیوں اکٹھے ہوگئے تھے؟۔
علامہ سیدجواد نقوی کہتے ہیں کہ ”مشرک شیعہ نصیری کافر ہیں۔ ان کو شیعوں کی صفوں سے نکالو”۔ دارالعلوم دیوبند کے قاری طیب نے رسول ۖ سے استدعا کی تھی کہ میرے دیوبندی دشمن سے انتقام لے لو تو کیا ا ن پر شرک وکفر کا فتویٰ لگتا ہے، بریلویوں پر لگتا ہے؟۔ کس کس پر لگتا ہے بتائیے گاضرور!
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ سارے فرقہ پرستوں کا ایکدوسرے کو کافر کہنے پر اتفاق ہے لیکن ریاستی ایجنسیاں اس کا نوٹس نہیں لیتی ہیں۔ شیعہ پر کفر کا فتویٰ تین وجوہات سے لگایا گیاتھا۔ قرآن کی تحریف، صحابہ کی تکفیر اور عقیدۂ امامت۔ جب تک بڑے پیمانے پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر قرآن سے متعلق سنی شیعہ دونوں طرف کی مستندکتابوں پر بحث نہیں ہوگی تو کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔
شیعہ سنی اختلافات بہت پرانے ہیں۔ سپاہِ صحابہ وسپاہ محمد نے اتنے شیعہ سنی علماء وعوام کو نہیں مارا ہے جتنے حضرت علی کے دور میں جنگ جمل وصفین میں قتل و غارتگری ہوئی تھی۔پہلے دور میں ہمارا عقیدہ ہے کہ ان جنگوں میں خلوص تھا لیکن آج فرقہ پرستی کا ماحول، ذاتی مفادات اور عالمی قوتوں کی مداخلت کا بھی معاملہ ہے۔ درسِ نظامی میں قرآن وسنت کی تعریف اور احکام میں حنفی ، شافعی اور مالکی مسالک کے درمیان فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو پھر اصلاح کی طرف لوٹنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔ علامہ جواد نقوی اپنوں کو ذوالجناح و زنجیر سے نکال رہے ہیں ۔ ہم بھی ذرا سوچیں تو سہی!۔ مالکی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں اور شافعی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا بھی حصہ ہے اور سورۂ فاتحہ کا بھی۔ حنفی مسلک میں خبر آحاد کی آیات قرآن کا حصہ اور شافعی مسلک میں قرآن پر اضافہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔ حنفی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے لیکن اس میں شبہ ہے جس کی وجہ سے اس کامنکر کافر نہیں ۔ اگر بسم اللہ مشکوک ہو اور قرآن کے باہر آیات کو مانا جائے تو قرآن میں شک اور کمی بیشی کا عقیدہ پیدا ہوتاہے۔اگر قرآن پر صحابہ کے اختلاف کا عقیدہ رکھا جائے توپھر سنی شیعہ کس بات پر لڑیںگے؟۔کیا سنی مل بیٹھ کر قرآن اور اسکے واضح احکام پرا تفاق اور عمل کیلئے تیار ہیں؟۔جب سنی اپنی خرافات کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کرینگے تو شیعہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جن کو پنجتن سے پیار نہیں ان کے کلمے کا اعتبار نہیں

جن کو پنجتن سے پیار نہیں ان کے کلمے کا اعتبار نہیں

ایک شعر صدیق اکبر کی تعریف میں بھی پڑھ لیتے ۔شرم نہیں آتی حضر ت اماں عائشہ لباس ہیں آمنہ کے لعل ۖکا۔

ایک گھنٹہ ہوگیا ہے کہ میں بیٹھا ہوں اور آنے کیساتھ ہی پرچی مل گئی کہ یہ پڑھنا ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ ذکر بہت پیاراکرتے ہو۔ یہ نہیں کہ علی علی ہم کرتے ہیں تو دوسروں کاذکر ہمیں نہیں آتا۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ علی علی کرتے ہیں ۔ ابھی آپ مجھے ہوٹل پر لیکر گئے تو وہاں کئی قسم کے کھانے تھے سب حلال تھے، چاول بھی تھے، قیمہ بھی تھا، کباب بھی تھے۔ سارے ہی کھائے نا ۔ ہم حضور ۖ کے یاروں کے بھی نوکر ہیں اور پانچ بارہ کے بھی نوکر ہیں۔ مجھے گھنٹہ ہوگیا آپ سب کے نام لے رہے ہو ایک شعر نعت خوان صاحبان صدیق اکبر کا بھی پڑھ لو۔ اگر تمہیں واہ واہ نہ ملے اور پیسے نہ ملیں تو ایک ہی کام میں لگے رہو گے؟۔ مہربانی کرو، رازق خدا ہے۔کمال ہے تمہارا یہ نہ کرو ،ون سائڈڈ مت ہو۔ یہ نہ عابد کا عقیدہ ہے نہ طفیل مرحوم کا عقیدہ تھا۔ ہومیو پیتھک بھی رہتا ہے ماناوالا میں، ایلوپیتھک بھی رہتا ہے، قرشی والا بھی ہے۔ جن کو قرشی سے شفاء ملتی ہے وہ ہومیوپیتھک کو گالیاں نہیں دیتا۔ اس کو ڈاکٹر مانتا ہے، جو قطرے پیتا ہے وہ ٹیکہ لگانے والوں پر فتوے نہیں لگاتا ۔ جہاں سے شفاء ملتی ہے تم وہیں لگے رہو کسی کو ڈی گریڈ نہ کرو۔ ان کو اگر علی مل گیا تو یہ ان کی اپنی قسمت ہے علی بھی شان والا ہے اور انکے یار بھی شان والے ہیں۔ نعرہ رسالت (یا رسول ۖاللہ)۔ بیکار مت بنو ۔اپنا عقیدہ اچھے انداز میں بیان کرو، مجھے ایمانداری سے بتاؤ کہ جو قرآن کا غلاف ہے وہ پاک ہے یا نہیں؟ اگر قرآن کا غلاف میلا ہو تو قاری صاحب بچے کو کہتا ہے کہ اس کو دھو کر آجاؤ ۔ تو اس کی امی پہلے غلاف کو چومے گی اور پھر چھت پر لے جائے گی۔ پھر اس کو اسپیشل سرف سے دھوئے گی۔ اس کو واشنگ مشین میں نہیں ڈالے گی۔ کیونکہ یہ کپڑا اور ہے اور وہ کپڑے اور ہیں۔ شرم نہیں آتی ہے اللہ فرماتا ہے کہ ھن لباس لکم و انتم لباس لھن تمہاری بیویاں لباس ہیں تو تم بیویوں کے لباس ہو۔ تیری بیوی تیرا لباس ہے میری بیوی میرا لباس ہے اماں عائشہ میرے نبی ۖ کا لباس ہیں۔ ایمان سے بتاؤ اماں عائشہ لباس ہیں آمنہ کے لعل کا۔ یہ میرے سامنے رحل پڑی ہے خدا کی قسم آپ اس کو لاکھ میں بھی نہیں بیچیں گے کیو نکہ اس میں قرآن رکھا ہے۔ میرا نبی جب دنیا سے جارہا تھا ،جس طرح رحل پر قرآن ہے اسی طرح اماں عائشہ کی جھولی میں میرے نبی کا سر مبارک تھا۔ الحمد للہ ہم حضورۖ کے بھی نوکر ہیں اور حضور کے یاروں کے بھی نوکر ہیں۔ مجھے وہ بندہ سنے جو حضور کے یاروں کے ساتھ پیار کرتا ہے ، حضور کے خاندان کے ساتھ پیار کرتا ہے۔ میرے ہاتھ میں قرآن ہے اگر مجھے عابد پیارا ہے تو اس کا باپ بھی پیارا ہے، اسکے یار بھی پیارے ہیں۔ عابد کے دوست ملتان آئیں گے تو میں ان کو رہائش بھی دوں گا اور یہ بھی کہوں گا کہ کوئی خدمت ہے تو بتاؤ۔ مہربانی کرو جن کا کلمہ پڑھا ہے ان کے بھی یار ہیں۔ بیٹا آپ سبحان اللہ کیوں نہیں کہہ رہے ہیں؟۔
اس کا مطلب ہے کہ جو حق چار یار ہیں وہ بھی تمہیں پتہ ہیں خم غدیر کیا ہے ؟ ولیوں کا پیر کیا ہے؟ ۔اللہ نے اس خاندان کو بڑا حسن دیا ہے۔ محمد کریم بھی بہت سوہنا، علی بھی سوہنا، حسن بھی سوہنا، حسین بھی ، سجاد بھی، باقر بھی، جعفر صادق بھی علی رضا بھی، علی تقی بھی، علی نقی بھی، حسن عسکری بھی۔ مسجد میں نبی کے منبر پر بیٹھا ہوں، نیشا پور ایران میںامام علی رضا جب آئے تھے تو آپکے چہرے پر نقاب تھا، چالیس ہزار عالم قلم لیکر کھڑا تھا کہنے لگے علی رضا ذرا چہرے سے کپڑا تو اٹھاؤ، تجھے دیکھیں تو سہی تو کتنا حسین ہے؟۔ جب علی رضا کا چہرہ دیکھ لیا تو چالیس ہزار بندہ بے ہوش ہوگیا۔ جب علی رضا اتنا سوہنا ہے تو مصطفی کتنے سوہنے ہونگے؟۔
لوہا ر مشہور ہیں لوہے کی وجہ سے، سنار مشہور ہیں سونے کی وجہ سے، مستری مشہور ہیں تعمیر کی وجہ سے، کمہار مشہور ہیں برتنوں کی وجہ سے، تو میرے نبی ۖ کا خاندان کیوں مشہور ہے میں تم سے نہیں پوچھتا قرآن سے پوچھتا ہوں۔ میں مولوی سے کیوں پوچھوں ؟ ہوسکتا ہے وہ صدقے کا بکرا کھا کر کسی اور طرف لے جائے۔ میں کسی مجتہد سے نہیں پوچھتا ہوسکتا ہے وہ فنڈ شنڈپی کے ہونٹ نہ ہلائے۔ میں اندھا نہیں ہوں کیونکہ میرا علی قرآن کیساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔ میں قرآن کے پانچویں پارے سے پوچھتا ہوں نمازیں پانچ ہیں، پاکوں کی تعداد پانچ ہے، حواس خمسہ پانچ ، اسلام کے بنیادی ارکان پانچ ہیں۔
جن کو پنجتن سے پیار نہیں ان کے کلمہ پر بھی اعتبار نہیں
پارہ ہے پانچواں، سورت ہے نسائ، آیت نمبر ہے 54، پہلے لکھو گے 5پھر 4، اسکا مطلب ہے کہ پانچ کے نوکر اور چار کے نوکر ہیں۔ اللہ میرے نبی کے خاندان کی تعریف بیان کرتا ہے۔ فرماتا ہے کہ ان سے جلو مت، ام یحسدون الناس علیٰ ما اتاہم اللہ من فضلہ اے لوگو! جو میں نے فضل کیا ہے ابراہیم کے خاندان پر تم جلتے کیوں ہو؟۔ میں نے نبی کے خاندان پر ابراہیم کی آل پر فضل کیا ہے تم جلتے کیوں ہو؟۔ فضل میں نے کیا ہے جلتے تم ہو۔
اللہ کیوں فرماتا ہے ؟ فرمایا وقد اٰتینا اٰل ابراہیم الکتاب و الحکمة و اٰتیناھم ملکًا عظیمًاہم نے ابراہیم کی آل کو کتاب اور حکمت دی ہے اور ہم نے ملک عظیم کی بادشاہی بھی دی ہے۔ بیٹا میری طرف دیکھو! بندے بابر اعظم کا چوکا مس نہیں کرتے تم نبی کی آل کا ذکر مس کررہے ہو۔ میرا تجربہ ہے اندھے کو شیشہ دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ گنجے کو کنگا دینے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ بھینگے کو سرمہ لگانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ لنگڑے سے دوڑ لگوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ منکر کو اہل بیت کا ذکرسنانے کا بھی کوئی بقیہ صفحہ 3نمبر1پر

بقیہ نمبر1 … مولانا جعفر حسین قریشی
فائدہ نہیںہے۔خدا کی قسم نبی کے خاندان کو اللہ پاک نے پانچ چیزیںایسی بخش دی ہیں جو کسی کو نہیں دی ہیں۔ میں میٹرک اس وقت کرسکتا ہوں جب دس سال لگاؤں گا، FAاس وقت کرسکتا ہوں کہ جب بارہ سال لگاؤں گا۔BA اس وقت کرسکتا ہوں جب کہ چودہ سال لگاؤں گا۔MA اس وقت کرسکتا ہوں جب سولہ سال لگاؤں گا۔ جب تک میں اسٹڈی نہیں کروں گا پڑھ نہیں سکوں گا۔ یہ ہے علم کسبی۔ اللہ نے پانچ چیزیں خود دی ہیں۔ بتاؤ پہلی چیز کیا دی ہے؟۔ پہلی چیز اللہ نے حسن دیا ۔ یوسف علیہ السلام حسین تھے۔ اور جس کو دیکھ کر قدم رک جائیں اس کو یوسف کہتے ہیں، اور جس کو دیکھ کر یوسف خود رک جائیں اسے محمد کہتے ہیں۔ جس کو دیکھتے ہوئے عورتیں انگلیاں کاٹ ڈالیں اسے یوسف کہتے ہیں، اور جسے دیکھ کر گردنیں کٹ جائیں اسے آمنہ کا لعل کہتے ہیں۔ میرا نبی سوہنا، میرے نبی کا بابا عبد اللہ کتنا سوہنا تھا؟ بیٹا تقریر تحفہ ہے اسے قبول کرو۔ آپ کا بابا تھا مکے کا چاند، عبد اللہ کا نکاح جب بی بی آمنہ کیساتھ ہوا تو مکے کی دو سو کنواری بچیاں مر گئیں کہ ہائے یہ ہمارا دولہا ہوتا۔ دوسری چیز اللہ نے نبی کے خاندان کو دی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے ان کو علم عطا فرمایا ہے۔ ابرہہ جب ہاتھی لیکر آیا تھا تو سارا مکہ تھر تھر کانپ رہا تھا کہ آگیا آگیا۔ حضور کے دادا نے کہا کہ آگیا تو پھر کیا ہوا میں ہوں ناں۔ یمن کا بادشاہ ہاتھیوں کیساتھ آیا خانہ کعبہ کو گرانے کیلئے تو آپ ابراہہ کے پاس چلے گئے۔ جب ابرہہ نے حضور کے دادا کو دیکھا تو اٹھ کھڑا ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آپ بادشاہ ہیں تو اس نے کہا کہ میں بادشاہ نہیں اسکے چہرے سے نور ٹپک رہا ہے یہ بادشاہ ہے۔ ابرہہ اس طرح سے کانپ رہا تھا۔ اگر ڈی سی کے سامنے کوئی جائے تو ساری باتیں بھول جاتا ہے۔ عبد المطلب سامنے گیا اور فرمایا ابرہہ ! کہا جی! ۔ فرمایا میرے اونٹ مجھے واپس کر۔ یہ ہے علم ۔ گاڈ گفٹ جن کو وہ پڑھائے، یونیورسٹیوں میں یہ علم نہیں ملتا۔ ابرہہ نے کہا کہ لو جی بابے کے کام دیکھو۔ میں آیا ہوں کعبے کو گرانے کیلئے اور تم اپنے اونٹ مانگ رہے ہو؟ ۔ یہ ہے علم۔ آپ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ اے ابرہہ! اونٹ میرے ہیں کعبہ ہے خدا کا ، تو مجھے میرے اونٹ دے۔ کعبہ جانے اور کعبے کا خدا جانے۔ جب نجاشی کے دربار میں جعفر خطبہ دے رہے تھے۔ یہ کونسا آکسفورڈ کا پڑھا ہوا تھا۔ یہ کونسا ایچی سن کالج کا پڑھا ہوا تھا؟۔ نجاشی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور کہا کہ مکہ کے چوہدریوں چلے جاؤ اپنے تحفوں سمیت ، جعفر بھی ٹھیک ہے اس کا نبی بھی ٹھیک ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

شیخ رشید وزیر داخلہ ، عمران خان وزیر اعظم ہو تو پھر ملک کا یہ حال ہوگا۔ آرمی چیف کو مولانا فضل الرحمن کا فون

شیخ رشید وزیر داخلہ ، عمران خان وزیر اعظم ہو تو پھر ملک کا یہ حال ہوگا۔ آرمی چیف کو مولانا فضل الرحمن کا فون

پارلیمنٹ ، PTVپر حملہ کرنے والوں کو عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا کردیا ہے جن میں صدر مملکت بھی شامل تھے اوراب کیا سندھ ہاؤس پر دھاوا بولنے والوں نے بھی ہمت پکڑ لی ؟

مولانا فضل الرحمن اپوزیشن میں اہم کردار ادا کررہے ہیں جس کے فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کیایہ اس خواب کی تعبیربھی ہوسکتی ہے؟

رسول اللہ ۖ کا خواب مولانا فضل الرحمن کی شکل وصورت میں آمد اور بیٹھ کرروئی سے گند صاف کرنے کی کیا تعبیر ہے؟۔ پچھلی بار مولانا فضل غفور نے کسی عالم دین کا خواب بیان کیا، جس پر موافق ومخالف علماء نے کہرام برپا کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے حضرت آدم علیہ السلام سے ٹیلی فونک گفتگو کا خواب بھی بیان کیا۔ آدم نے پوچھا کہ چاہتے کیا ہو؟۔ مولانا نے جواب دیا کہ ”امن ”۔
وزیرداخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ” مولانا فضل الرحمن نے تیل میں ڈنڈے بھگو کر رکھے ہیں، ایک عالم دین ہیں، ماؤزے تنگ نہیں۔ مولا جٹ نہ بنیں”۔ ڈنڈے کا جواب ڈنڈے اور پتھر کا جواب پتھر سے دینے پر قرآن نے کہا ہے کہ ”جتنی انتقامی کاروائی کا نشانہ تمہیں مخالف بنائیں تم بھی اتنا کرسکتے ہو”۔
مولانا فضل الرحمن حلیہ وزبان سے نبی کریم ۖ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُمت پر موت کی کیفیت ہے اور میت کا گند روئی سے صاف کیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے مخالفین کہتے ہیں کہ ملا کا کام میت کو غسل دینا اور عبادات ہیں تو سیاست میں یہ کیوں آئے ہیں؟۔ مولانا کے حامی کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک کا سہرا مولانا فضل الرحمن کے سر پر سج گیا ہے۔ میرے بھائی پیر نثار احمد شاہ پہلے مولانا فضل الرحمن کے عقیدتمند اور کارکن تھے اور اب عمران خان سے خیر کی اُمید رکھتے ہیں۔ کسی کا اپنے مفاد کیلئے ساتھ دیا اور نہ کسی کے کہنے پر چلتے ہیں۔
اگر اس وقت عمران خان کا میں کارکن ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کیلئے مجھے گریبان سے پکڑتے کیونکہ جب عمران خان سیاست میں نہیں تھے تو اخبار میں اسلام کے حوالے عمران خان کے اچھے مضامین دیکھ کراس نے پیشگوئی کی تھی کہ ”یہودی لابی اس کو سیاست میں لاکر اقتدار پر مسلط کرے گی”۔ لیکن آج اگر عمران خان کیخلاف مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا تو ممکن ہے کہ میرے گریبان میں ہاتھ ڈال دے۔ جلیل القدر پیغمبر موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کو داڑھی اور سرکے بالوں سے پکڑاتھا تو ہماری کیا اوقات ہے؟۔ نبی کریم ۖ نے انصار کے اوس وخزرج اور انصار ومہاجرین کو بھائی بھائی بنادیا۔ مؤمنین ومنافقین کو بھی لڑنے نہ دیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے مخلص صحابہ تھے۔ تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے مشرک عیسائی اور حضرت عیسیٰ و مریم کیخلاف گستاخانہ عقائد رکھنے والے یہود کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی۔ تزکیہ ،کتاب و حکمت کی تعلیم، بدرو احد، حنین وخیبر ، صلح حدیبیہ وفتح مکہ اور میثاق مدینہ سے دنیا کو وہ پیغام پہنچایا کہ مشرق ومغرب کی سپر طاقتیں اس قوم کے سامنے سر نگوں ہوگئیں جو پہلے ان پڑھ اور جہالتوں سے مالامال تھی۔آج ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ پڑھے لکھے طبقے کو بھی جہالت وہٹ دھرمی کی طرف دھکیل کر اپنی مشکلات کا خیال رکھے بغیر اپنے تھوڑے سے وقتی اور غیر یقینی مفادات کی بھینٹ چڑھارہے ہیں۔
خان حکومت اتحادیوں اور لوٹوں سے بنی تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر، باہرندیم افضل چن اور ترین گروپ کے علاوہ حفیظ شیخ کا سینیٹ الیکشن ہارنا بھی حکومت کا اخلاقی جواز ختم کرنے کیلئے کافی تھا۔ اپنوں کی وفاداری بدلیں اور اتحادیوں کے پاس جانے کی سبکی بھی اٹھانی پڑی۔ اگر عمران خان نے پھر بھی ہتھکنڈے استعمال کرنا نہیں چھوڑے تو ٹائیگروں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ دودھ کے دھلے دوسرے سیاستدان بھی نہیں البتہ اس حکومت کی مخالفت پر کمر کس لینا جس کی پشت پناہی ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو بڑا کریڈٹ جاتا ہے۔
نیوٹرل کوجانور کہنا بزدلی اور بدمعاشی سے اقتدارپر جمے رہنا حماقت ہے۔ مولانا کیوجہ سے خانی توپوں کا نشانہ اسٹیبلشمنت کے بجائے سیاستدان بن گئے۔ استحکامِ پاکستان نبیۖ کا فیضان اور فیضان کے مظہرمولانا فضل الرحمن ہیں؟۔

عقیدت مندعلماء کی طرف سے ویڈیوپیغام
خواب دیکھا کہ نبی کریم ۖ مولانا فضل الرحمن کی شکل میں موجود ہیں
میں تو اس کو چھپارہا تھا لیکن ساتھیوں کے اصرارپر بیان کررہا ہوںتاکہ دوسرے بھی مطلع ہوں۔ دودن پہلے رات ساڑھے چار بجے کے وقت یہ خواب دیکھا کہ نبی کریم ۖ مولانا فضل الرحمن قائدJUIکی شکل و صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ آپ ۖ کھڑے ہیں لیکن شکل و صورت کپڑے لباس سب مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ پھر وہ نیچے بیٹھ جاتے ہیں انکے ہاتھ میں بہت ساری روئی ہے اور نیچے زمین پر کوئی گند پڑا ہوا ہے اس روئی سے اس گند کو صاف کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں اس گند کو صاف کرونگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

نشتہ دیور کے کالم نگار عبدالقدوس بلوچ انتقال کر گئے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون
بطلِ حریت، شیر یزداں، کوہِ استقامت، بحر عزیمت، طوفانِ عظمت
عبد القدوس بلوچ انتقال کرگئے

بہت میر پھر ہم جہاں میں رہیں گے اگر رہ گئے آج شب کی سحر تک
دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عہدساز شخصیت ، قہاری و غفاری و قدوسی وجبروت چار عناصرکابڑا نمونہ عبدالقدوس بلوچ علالت کے باعث اپنے ربّ کے حضور پہنچ گئے جس منزل کی طرف کشاں کشاں ہم سب رواں دواں ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون
وفات سے ایک رات پہلے قدوس بھائی سے ہسپتال میں کافی دیر گپ شپ لگی ۔ماجد بھائی نے بتایا کہ آج صبح خواب دیکھا کہ” رسول اللہ ۖ، حضرت علی ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے خیمے لگے ہیں۔ہم کئی ساتھی بھی حاضر ہیں پھرسب کو جانے دیا گیا اور قدوس بھائی کو اپنے پاس روک دیا گیا اورپہلے قدوس بھائی کا چہرہ کچھ بجھا سا تھا پھر بہت زیادہ ہشاش بشاش ہوگیا”۔ میں نے باقی تین خلفاء راشدین کے نام سن لئے مگر حضرت علی کے نام کو نہیں سنا تو ماجد بھائی سے پوچھا کہ کیا حضرت علی خواب میںنظر نہیں آئے؟۔ ماجد بھائی نے بتایا کہ کیوں نہیں۔سب سے پہلے تو علی ہی کا نام لیا ہے۔ خواب کا مطلب تو بالکل واضح تھا کہ قدوس بھائی کا بلاوا ا گیا ہے۔ قدوس بھائی بہت زیرک انسان تھے۔ اشارہ سمجھتے تھے۔ میں نے کہا کہ انشاء اللہ اس رمضان میں قدوس بھائی خانقاہ میں ذکر کرائیں گے۔ میں نے قدوس بھائی کی زبردست خدمات کو انکے سامنے خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے مجھ سے اظہارِ عقیدت کیا۔ میں نے کہا کہ آپ نے عمر میں بڑے ہونے کے باجود بھی ہمیشہ جس طرح کی خدمت کی۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہردَم ، ہر وقت اور ہرلمحے جب ضرورت پڑ گئی تو نامعلوم منزل کی جانب ساتھ چلنے کیلئے تیار ہوگئے۔ساری زندگی وقف کی تھی، اپنے والدین، بہن بھائی، عزیزواقارب ، بیوی بچوں ، اپنے کاروبار اوراپنے گھر ووطن سب ہی پر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ترجیح دی تھی۔ صفحہ3 بقیہ نمبر2

بقیہ نمبر2…… عبد القدوس بلوچ کی وفات پر تعزیتی پیغام
اللہ نے قرآن میں فرمایا قل ان کان اٰباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموھاوتجارة تخشون کسادھا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامرہ واللہ لایھدالقوم الظٰلمینO ”کہہ دیجئے (اے حبیب ۖ) کہ تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیگمات اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارا وہ مال جو تم نے اکٹھا کررکھا ہے اور تمہاری وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہواور تمہارے وہ ٹھکانے جہاں تم رہنا پسند کرتے ہو۔تمہیں زیادہ محبوب ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو پھر انتظار کرو !، یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم لیکر آجائے اور اللہ ہدایت نہیں دیتا ہے اس قوم کو جو ظلم والے ہیں”۔ اور اللہ نے فرمایا وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھواجتبٰکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج ملة ابیکم ابرٰھیم ھو سمّٰکم المسلمین من قبل وفی ھٰذالیکون الرسول شہیدً١علیکم وتکونوا شہداء علی الناس فاقیموالصلوٰة واٰتوا الزکوٰةواعتصموا باللہ ھومولٰکم فنعم المولیٰ ونعم النصیرO ”اور اللہ (کے احکام) میں جہادکا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیا ہے،اور دین (پر چلنے)میں تمہارے لئے کوئی مشکل نہیں رکھی ہے۔تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو اور اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ۔پہلے بھی اور اس دور میں بھی۔تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ بنے اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ پس نمازقائم کرو، زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو تھام لو،وہ تمہارا مولیٰ ہے اچھا مولی اور اچھا مددگار ”۔ ان آیات کی بنیاد پر ہم نے تحریک کا آغاز کیا ہے۔
حضرت حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں 35برس گزارے۔ چار ماہ،سالانہ چلہ، ماہانہ سہ روزہ ، ہفتہ میںدو گشت اپنے محلے اور دوسرے محلے میں۔ اپنے خلفاء اور ہم مسلک دوست علماء نے فتویٰ لگانے میں دشمنوں کا کردار ادا کیا تو بہت لوگ چھوڑ کر گئے۔ محدود لوگ رہ گئے جن میں عبدالقدوس بلوچ بھی شامل تھے۔ میرے بھائی سیدامیرالدین اس وقت مجسٹریٹ تھے جو بعدمیں اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ، اسسٹنٹ پولیٹکل آفیسر، پولیٹیکل ایجنٹ، DSOہنگو، کمشنر بنوں اور سیکریٹری کے عہدوں پر فائز ہوکر ریٹائرڈ ہوگئے۔
مجسٹریٹ کی تنخواہ ڈھائی ہزار تھی تو اسوقت عبدالقدوس بھائی پانی کے جہاز میں40ہزار مہینہ لیتے تھے۔ حاجی محمد عثمان پر آزمائش آئی تو قدوس بلوچ نے نوکری چھوڑ کر سیکیورٹی سنبھال لی تھی۔ الائنس موٹرز کے مالکان اور خلفاء کی جگہ لینے کے خواہشمند ہرنائی چائے کے ہارون نے عبدالقدوس بلوچ کی جمع پونجی سے گاڑی لی اور پھر وہ لوگ بھی بھاگ گئے تھے۔ پھر عبدالقدوس بلوچ کی شادی ہوگئی۔ یثرب پلازہ شو مارکیٹ میں رہائش پذیر حاجی محمد عثمان کی چوکیداری کرنے والے عبدالقدوس بلوچ کے پاس کبھی کبھارہفتوں بعد گھر جانے کیلئے بھی کبھی کرایہ ہوتا تھا اور کبھی نہیں ہوتا تھا۔نوکری ، کلاکوٹ لیاری کاگھر، والدین ، بہن بھائی سب ہی چھوڑ دئیے تھے۔ بیگم صاحبہ آخر کار اپنے والدین کے گھر میں بیٹھ گئیں۔ چھوٹے بچے فضیل کیساتھ علیحدگی کا معاملہ تھا کہ میں نے قدوس بھائی کو سسرال پہنچادیا اور قدوس بھائی کو مجبور کیا کہ اپنا آنا جانا رکھے۔
قدوس بھائی کی ایک ہمشیرہ محمد علی سوسائٹی میں رہتی ہیں۔ جب میں 2004ء میں نرسری کے اندر ایک مرتبہ کی چھٹیاں گزارنے کیلئے گھروالوں کیساتھ آیا تو میری ہمشیرہ سے قدوس بھائی کی ہمشیرہ نے کہا تھا کہ ”آپ کے بھائی کیساتھ قدوس بھائی کی دوستی پر ہم بہت خوش ہیں۔جب قدوس بھائی بہت ہی چھوٹا بچہ تھا تو اس نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی قمیض اتارکر آگ میں ڈال دی تھی۔ غصے کے اتنے تیز تھے کہ معمولی معمولی بات پر طوفان کھڑا کردیتے تھے۔ ہم ہروقت انکے رعب سے سہمے رہتے تھے۔اب بہت نرم مزاج اور اچھی طبیعت کے ہوگئے ہیں”۔ یہ قدوس بھائی کی بہن کا اظہارِ تشکر اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ ہمارے بھائیوں میں جو سب سے زیادہ کمانے والا تھا، جس نے لیاری کلا کوٹ کا آبائی گھر تعمیر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا، جس کے بچوں کو سسرال میں رہنا پڑگیا مگر اس تما م قربانیوں کے باوجود بھی ہم آپ کے بھائی سے ناراض نہیں بلکہ خوش ہیں۔ قدوس بھائی کے چھوٹے بھائی کی ناراضگی کا یہ عالم ہے کہ قدوس بھائی کی وفات کا بھی مسجد میں اعلان کروادیا مگر قدوس بھائی کے جنازے پر نہیں آیا۔ لوگ اس کو پیرجی کہتے ہیں۔ دوسرے بھائی بھی سخت ناراض تھے لیکن ایک بھائی وہاب بلوچ بہت ملنسار ہیں اسلئے گاہے بگاہے وہ چکر لگاتے رہتے تھے۔ جب قدوس بھائی کی والدہ کا انتقال ہوا تھا تو ہمارے دوست اشرف میمن جو دنیا کی مختلف خوشبوؤں کے شوقین اور پہچان میں بہت مہارت رکھتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ قدوس بھائی کی والدہ کی میت اور قبر سے ایسی خوشبو آرہی تھی کہ کبھی اس طرح کی خوشبو نہیں سونگھی ۔ یہ دنیا کی خوشبو نہیں تھی اور قدوس بھائی کی ساس کے انتقال پر اشرف میمن آئے تو کہہ رہے تھے کہ اب بھی وہی خوشبو آرہی تھی۔ جب قدوس بھائی کے والد صاحب ہمارے پاس گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے پروگرام میں آئے تو میرے بڑے بھائی ایکسین واپڈا نے کہا کہ ”ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس عتیق کی وجہ سے ایسے ایسے لوگ آتے ہیں ورنہ ہمارے پاس کتنی بھی دولت، خاندانی وجاہت اور دنیا کا اقتدار ہوتا تو ہمیں یہ سعادت نہیں مل سکتی تھی”۔ قدوس بھائی کے والد صاحب کے پاس رحمان ڈکیٹ پہنچا تھا کہ ”میرے سر پر ہاتھ رکھ لو” انہوں نے فرمایا کہ ”دفع ہوجاؤ!تمہارے سر پر شیاطین کا نزول ہورہاہے؟”۔ بینظیر بھٹو پر کراچی میں خود کش حملہ ہوا تھاتو رحمان ڈکیٹ نے ہی بحفاظت پہنچایا تھا۔ قدوس بھائی کہتے تھے کہ لیاری کے بلوچ تمام بلوچوں میں سب سے زیادہ اچھے تھے۔ اقدار کے پابند، قوم پرستی اور تعصبات سے پاک اوربہت ملنسارا ورزبردست روادار لیکن پیپلزپارٹی نے بدمعاشوں اور منشیات فروشوں کی سرپرستی کرکے ان کا بیڑہ غرق کردیا اور حلیہ بگاڑ دیا۔ جس کی وجہ سے لیاری کے لوگ بدنام ہوگئے ۔ قدوس بلوچ کے بھائی وہاب بلوچ لیبر یونین کے رہنما تھے۔ عزیزمیمن اور وہاب بلوچ ایک گروپ میں تھے اور ہمارے دوست محمداجمل ملک پنجابی گروپ میں تھے۔ وہاب بلوچ نے بتایا کہ جب ہمارے گروپ کے دوبندوں کی باہر کے بدمعاشوں سے پٹائی لگوائی گئی تو میں نے لیاری کے مشہورزمانہ بدمعاش رحمن ڈکیت کے باپ دادل سے کہا کہ ہمیں مسئلہ ہے۔ دادل نے کہا کہ آپ نے کبھی خدمت بتائی نہیں ۔ لیاری سے لڑکوں کا ٹرک بھرکر پہنچا دیا۔ مخالفیں سارے بھاگ گئے۔ ایک شخص مل گیا تو اس کی صحیح طریقے سے پٹائی لگادی۔ اسکے بعد رعب جم گیا اور کسی نے الجھنے کی ہمت نہیں کی۔ دادل وہی بدمعاش تھا جس کے ذریعے ذوالفقارعلی بھٹو نے جے رحیم کیساتھ جیل میں بہت برا کروایا تھا۔ عزیز میمن نے بینظیر بھٹو کے جلسوں اورشادی کے اخراجات ککری گراؤنڈ میں اٹھائے تھے۔
حاجی محمد عثمان کے دور میں ایک مرتبہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کے کارندوں نے ہمارے ساتھیوں سے لڑائی کی تو دونوں طرف والوں کو لاک اپ میں بند کردیا گیا۔ مخالف جانب سے لشکر جھنگوی کے مشہور زمانہ ملک اسحاق نے رعب جھاڑنے کیلئے کرتب دکھانا شروع کیا تو قدوس بھائی نے اس کو ڈانٹ کر کہا کہ پہلے پنچ بنانا تو سیکھ لو۔ جس کے بعد وہ ایک کونے میں بالکل دُبک کر بیٹھ گیا۔ وہاب بلوچ نے مشہور رہنما سلیم اختر کو مدد کیلئے بھیج دیا تو اس نے کہا کہ قدوس بلوچ کو لاک اپ سے نکلوانے کی سفارش کی لیکن قدوس بھائی نے لاک اپ سے اکیلے نکلنا قبول نہیں کیا۔ بھتیجے کے محسود دوست نے اسلام آباد میں لال مسجد کے غازی عبدالرشید سے پوچھا تھا کہ وزیرستان کے ایک سید عتیق الرحمن گیلانی عالم دین ہیں ،اس کو آپ جانتے ہیں؟۔ اس نے کہا تھا کہ وہ عالم دین نہیں بلکہ کراچی میں نمبر ایک بدمعاش اور غنڈہ گرد ہے۔ ایک مرتبہ جب خانقاہ میں حالات کچھ مخدوش ہوگئے تھے تو قدوس بھائی کے چھوٹے بھائی لیاری سے ایک ٹیم لڑنے کیلئے لائے تھے۔ لیکن اگر ہم چاہتے تو اس وقت مذہبی شخصیات کی کوئی سیکیورٹی نہیں ہوتی تھی اور بہت کچھ کرسکتے تھے مگر کچھ نہیں کیا۔
جب عبدالقدوس بلوچ کی قیادت میں ڈیرہ اسماعیل خان کے اندر ہمارے ساتھیوں پر سپاہ صحابہ والوں نے ڈنڈوں، زنجیروں اور ہنٹروں سے حملہ کیا تو نہتے عبدالقدوس بلوچ نے پہلے مکوں سے کئی افراد کا کام کردیا اور پھر ہوٹل سے لکڑی اٹھاکر ایک کا سر پھاڑ دیا اور باقی سب بھاگ گئے۔ گومل کے رہائشی نے کسی کو بتایا کہ میں نے سوچا کہ اچھا موقع ہے کہ ان لوگوں کو میں بھی ماروں۔ جب مجھے چھوٹے قد کے بوڑھے آدمی نے مکا مارا تو مجھ سے زمین غائب اور آسمان گم ہوگیا۔ درد کی شدت سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کس طرف بھاگ رہا ہوں۔ قدوس بھائی نے بتایا کہ ایک شخص سرائیکی میں کہہ رہا تھا کہ ”میں کس کو ماروں؟”۔ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں مارتا تو ایک مکا اس کو ماردیا، جس سے وہ بیہوش ہوکر زمین پر گر گیا۔ اس لڑائی میں عارف بھوجانی، حافظ شاہد جمال اور شاہ وزیر اور دوسرے کئی ساتھی جم کر لڑے اور کچھ ساتھی جوتے چھوڑ کر بھاگ بھی گئے تھے۔ پھر نہ صرف جھوٹی ایف آئی آر درج کروائی بلکہ پولیس کی تحویل میں ساتھیوں کو سپاہ صحابہ والوں نے مارا پیٹابھی ۔ خلیفہ عبدالقیوم کو ہم نے گھر سے اٹھایا اور اسکا اسلحہ خود لے لیا، کیونکہ دہشت گردوں کے آنے سے پہلے اعتبار میں دشمن کو دھوکہ دینا پشتوروایت وحمیت کے خلاف تھا۔سول ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان کی مسجد میں خلیفہ عبدالقیوم کے دوسرے ساتھی بھی پہنچ گئے۔ خلیفہ عبدالقیوم نے بتایا کہ” ہمارے ساتھی استعمال ہوگئے، اصل منصوبہ دوسرے علماء کا تھا۔مجھے آپ سے ملاقات کرنے کا شوق تھا۔دوسرے علماء سے آپ ملتے تھے لیکن ہم سے کبھی ملاقات نہیں کی۔میں آپ کی علمی صلاحیت کا بہت معترف ہوں”۔
میرے سکول کا افتتاح مولانا فضل الرحمن نے کیا ۔ الیکشن میں جلسہ تقسیم انعامات میں سکول کے بچوں کی بہترین کارکردگی دیکھ کر جمعیت علماء اسلام ف اور س کے ضلعی امیروں مولانا عبدالرؤف گل امام اور شیخ الطریقت مولانا شیخ محمد شفیع نے اپنی طرف سے نقد انعامات دئیے اور پھر ٹانک کے تمام اکابر علماء نے ہماری تحریری تائید کی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے کچھ علماء نے دیکھ کر کہا تھا کہ اگر یہ ہے تو ہم بھی تائید کریںگے۔ پھر ہم نے ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء کا مشترکہ پروگرام بنایا مگر ڈیرے والے نہیں آسکے اور ٹانک والوں نے بہت کھل کرتائید فرمائی۔پھر سکول کے جلسۂ عام میں ٹانک کے اکابر علماء نے زبردست تائید کی ، جو ماہنامہ ضرب حق میں شہہ سرخیوں کیساتھ بیانات لگے۔ جس سے مولانا فضل الرحمن کے پیٹ میں جلن اور مروڑ پیدا ہواتھا اور اخبار واسکٹ کی جیب میں لیکر اس دن ٹانک کے اکابر علماء کے پاس جاکر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تھی کہ تم نے ایسی تائید کیوں کی ہے؟۔ جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر مولانا عبدالرؤف نے کہا تھا کہ ” اگر پیر عتیق الرحمن گیلانی میں کوئی خامی ہے تو مجھے بتاؤ، میں مقابلہ کرونگا لیکن اگر خواہ مخواہ حسد ہے تویہ غلط ہے”۔پھر ایک ایسا وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن نے مولانا فتح خان ،مولانا عبدالرؤفاور مولانا عصام الدین محسود جیسے علماء کو کنارے لگاکر مولوی شریف الدین جیسوں کو قیادت سونپ دی تھی، جس میں چمچہ گیری اور مفاد پرستی کے علاوہ شکل وصورت اور علم وعمل کی کوئی معمولی سی معمولی خوبی بھی نہ تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو مولانا عبدالرؤف نے بجلی کے فیڈر کا افتتاح کرنے سے روک دیاتو مجلس عمل کی حکومت بھی کام نہیں آئی۔
سپاہ صحابہ کے ایک جوشیلے کارکن نے کہا کہ تم شیعہ کو کافر کہتے ہو یا نہیں؟۔ میں نے کہا کہ کفر کی وجہ بتاؤ تو اس نے کہا کہ شیعہ قرآن کو نہیں مانتے۔ میں نے کہا کہ قرآن کو اگر سنی نہیں مانتے تو وہ بھی کافر ہیں۔ پہلے آپس کی نشست ہوجائے کہ قرآن کو وہ نہیں مانتے یا درسِ نظامی میں قرآن کی تحریف پڑھائی جارہی ہے۔ پھر اس پر اتفاق ہوا کہ ایک نشست ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء کی رکھیں گے اور پھر مقررہ وقت پر علماء کرام کیساتھ نشست کی فضاء بھی خراب کردی گئی تھی اور پھر فتویٰ لگایا گیا، پھر فتوے لگانے والوں نے معافی طلب کی اور مولانا فضل الرحمن اس کے بعد گھر پر تشریف لائے اور کہا کہ میں ہمیشہ سے آپ کی حمایت کرتا رہا ہوں لیکن حقائق اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے اور عوام کو بھی معلوم ہیں۔ مجھے پیر عبد الغفار ایڈوکیٹ اور جلال محسودکی طرف سے سپاہ صحابہ والوں کو سیدھا کرنے کی پیشکش کی گئی لیکن میں نے ان کو کاروائی سے روک دیا تھا۔
عبد القدوس بلوچ کی زندگی جدوجہد کا حق ادا کرنے والوں کی قیادت سے عبارت ہے، پاکستان کے تمام صوبوں اور بہت سے شہروں تک پیغام حق کو پہنچایا۔ جماعت کا امیر کبھی کوئی ہوتا اور کبھی کوئی ہوتا تھا اور ایسا بھی ہوا کہ امیر نے عبدالقدوس بلوچ کی جماعت میں روٹی کھانے پر پابندی لگاکر فاقہ کشی کی سزا تک دی ۔ قدوس بھائی نے ساری زندگی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لازوال قربانیاں دی ہیں جو تحریر کے الفاظ میں ہرگز ہرگز نہیں آسکتی ہیں۔ تاہم وہ ایک انسان تھے جس میں غلطی کا امکان نہ ماننا کفر ہے مگر اللہ کی راہ میں جدوجہدکا حق ادا کرنے والے قدوس بلوچ کی شخصیت بہت ہی قابلِ رشک تھی۔ میں نے کئی ماہ پہلے لاعلاج مرض کی خبر سن کر سوگ کے لمحات اس امید سے گزاردئیے کہ جانبر ہوگئے ۔زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے؟
اللہ نے قرآن میں فرمایا :” جدوجہد کرنے والے بعض اپنی قضاء کے ہدف کو پہنچ گئے اور کچھ انتظار میں ہیں”۔ عارف بھوجانی، محمد مالک، چچا اصغر علی،اشفاق صدیقی، چاچا اسرار ، غلام محمد جی ایم ، حنیف رکشے والا ، محمد حنیف نمک والا، ذوالفقار،محمد نعیم، اعظم بلوچ اور دیگر کئی ساتھی داغ مفارقت دے گئے اور ایک ایک کی زندگیاں کردار ہی کردار سے عبارت ہیں اوران کے عجیب واقعات اپنی اپنی جگہ پر بہت بڑی یادگارہیں۔
عبدالقدوس بلوچ ستاروں میں چودھویں کے چاند اور میری جان تھے۔ جماعت کے روح رواں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک آزمائش ان پر ڈالی اور وفات سے پہلے اس کا بوجھ بھی اتاردیا۔ جماعت نے جمہوریت کے طرز پر مشاورت کرکے عبدالقدوس بلوچ کو جماعت کا امیر بنادیا تھا۔ یقینا اس خلاء کو دوسرا ساتھی پورا نہیں کرسکتا ہے اور مجھے اس بات کا پتہ ہے کہ عبدالقدوس بلوچ امارت کا بوجھ اٹھانے پر راضی نہیں تھے لیکن جب خدمت ان پر ڈالی گئی تو انکار بھی نہیں کرسکتے تھے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ ”جو اپنی خواہش سے عہدہ طلب کرکے اس کا بوجھ اٹھاتا ہے تو اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے لیکن جس کی خواہش نہیں ہوتی ہے اور اس پر کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ مدد بھی کرتا ہے”۔ ہمارا ایک ساتھی مختار سائیں جماعت کا امیر بننا چاہتا تھا اور ساتھیوں نے بنادیا۔ پھر تو اس کا وہ حشر ہوا کہ پیروں میں پڑکر معافیاں مانگتا تھا کہ مجھ سے اس بوجھ کو خدا کیلئے ہٹادو۔ میں نے کہا کہ دوسرے امیروں کو آپ نے کم تنگ کیا تھا؟۔ اس نے کہا کہ ”میں بہت کوچڑائی کرتا تھا اور اب بہت بھگت چکاہوں”۔ خلفائے راشدین نے اپنے اور اپنی اولاد کیلئے کبھی بھی امارت کی خواہش نہیں رکھی لیکن جب اپنے اور اپنی اولاد اور خاندان کیلئے امارت کی خواہش کا آغاز ہوگیا تو خلافت کا نظام امارت اور بادشاہت میں بدل گیا۔ ہماری سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ خلافت راشدہ کے طرز پر اپنی جماعتوں کو چلارہے ہیں یا آمریت ویزیدیت کا جھنڈا بلند کررہے ہیں؟۔
عبدالقدوس بلوچ قلیل من الاٰخرینسورہ ٔ واقعہ اور واٰخرین منھم لما یلحقوبھمسورۂ جمعہ کا مصداق تھے۔ امیر حمزہ، حضرت زیداور شہدائے بدر واُحد کی طرح کئی صحابہ نے فتح مکہ کا منظر نہیں دیکھا۔ جسکے بعد دشمنوں کے سردار ابوسفیان، بیگم ہند اور بیٹے معاویہاور حمزہ کے قاتل وحشی نے سرنڈر ہونے کا فیصلہ کرکے اسلام قبول کرلیااور عزت بھی کمائی۔اسلئے ہمارے دشمنوں کوکبھی ہم سے کوئی خوف نہیں کھانا چاہیے۔ ہماری جماعت نے کم تعداد اور کمزور سے کمزور تر ہونے کے باوجود ایک بہت بڑاانقلاب برپا کردیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv