پوسٹ تلاش کریں

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
ماہ رنگ بلوچ کو پرواہ نہیں شہادت کی
اس کی جدوجہد میں خوشبو ریاضت کی
بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال دیا
بلوچوں کو غلامی سے نکالنے کی عبادت کی
مظلوم کمزوروں کو لے کر شہر اقتدار پہنچی
اس نے بے بسوں کی خوب قیادت کی
بلوچوں نے مارا بھی اور مار کھائی بھی
76 سالوں میں داد نہ پائی سیادت کی
ماہ رنگ کی چادر سے دنیا میں دھوم مچی
مبارک ہو مبارک نئی مقبول ولادت کی
بدقسمت قوم ریاست کی مار کھار ہی تھی
تصویر دکھا دی شقاوت کی عداوت کی
وہ مارچ پہ مارچ کئے جارہی تھی آخر
منزل پالی ہے راحت کی سعادت کی
اب کوئی بھی ظلم کی جرأت کرے گا نہیں
شرارت ختم ہوئی لگڑ بگڑ کی خباثت کی
ہر قوم نے پیش کردیا ہے خراج تحسین
بلوچ شیرنی زینت بن گئی ریاست کی
پولیس کی روش کسی کے لئے بھی ٹھیک نہیں
وہ مظلوم ماری ہوئی تھی دور کی مسافت کی
اگر ان پر ظلم نہ ہوتا تو ہمدردی نہ ملتی
ظالم جابروں کا شکریہ اچھی ضیافت کی
ایک شرمائے دوسرا ٹانگ اٹھا کے پدو مارے
بلوچ پنجابی پیداوار الگ الگ ثقافت کی
دو لتی اُٹھاکے مارنا گدھے منحوس کی فطرت
کتابیں لاد کے رکھنا نشانی ہے جہالت کی
گدھے رہیں گے گدھے یا آدمی بنیں گے؟
ظلم قائم رہے گا یا باری آئے گی عدالت کی
اگرحافظ آرمی چیف واقعی ہے سید واجہ
توپھر رکھ لے گا لاج فوجی بسالت کی
سب قوموں کے لئے قابل فخر ہے یہ بات
بلوچ رانی نے پائی ہے داد شجاعت کی
نہ گالی نہ گلوچ کیا طرزِ عمل ہے واہ بلوچ
ادا تجھ سے کوئی سیکھ لے بڑی بغاوت کی
میرا ایک دوست تھا عبدالقدوس بلوچ
مثالی یادیں چھوڑیں جس نے رفاقت کی
بالاچ کے باپ نے فواد حسن کی ٹھوڑی پر
ہاتھ رکھ کر بڑی عزت سے منت سماجت کی
بلوچ روایت میں معزز کے لئے یہی دستور
ماہ رنگ سے برداشت نہ ہوئی ادا لجاجت کی
حکومتی وفد کے سامنے کہہ دیا کہ تم بیٹھ جاؤ
دکھادی اپنی اوقات بلوچی شانِ وجاہت کی
قوم بھوک افلاس اور بیروزگاری سے مری
سیاسی پارٹیوں میں جنگ ہے رقابت کی
دشمنی، بداخلاقی، افواہیں اور بہت کچھ
لیاقت ضائع ہے فصاحت کی بلاغت کی
مسائل کا حل قرآن میں منہاجِ نبوت
لوگ منتظر ہیں آئے گی ندا خلافت کی
جب تک حقیقی اسلام کی سمجھ نہ آئے گی
کربلا سے کشتی پار نہ لگے گی صداقت کی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ حامد میر

بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ حامد میر

جو سن1916سے اب تک جاری ہے اور ختم نہیں ہورہا ہے۔
رانا ثناء اللہ اور عطا تارڑ نے مجھ سے بلوچ لاپتہ افراد کی لسٹ منگوائی اس کے بعد اس لسٹ سے بلوچوں کو نکال نکال کر مارنا شروع کردیا

حامد میر نے کہا کہ ایک واقعہ کا میں عینی شاہد ہوں، پروسیس میں شامل تھا۔ مجھے کہا گیا کہ جن کو آپ چاہتے ہیں کہ رہا کردیا جائے یا کورٹ میں پیش کردیا جائے۔ تو میں نے ادھر اُدھر سے پوچھ پاچھ کے صرف50لوگوں کی لسٹ دی، پولیٹکل ورکر یا اسٹوڈنٹ تھے یا کوئی شاعر تھا یا ادیب تھا۔ پچھلی حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ ، وزیر قانون عطا ء تارڑ اور کچھ دیگر حکام۔ تو انہوںنے نام نکال نکال کر مارنا شروع کیا۔ آپ پر اعتبار کون کرے؟ اسلئے عورتیں اور بچے کدھر جائیں؟۔ یا تو علیحدگی پسندوں کیساتھ شامل ہوجائیں۔ یہ آتے ہیں اسلام آباد، آپ ان کو دھتکار دیتے ہیں۔ تو بلوچستان کا مسئلہ جنرل ڈائیر ہے۔ اس نے سن1916میں بلوچستان میں جو خانہ جنگی، مارپیٹ شروع کی جو بلوچ کو تقسیم کرو اورحکومت کرو کی پالیسی کے تحت مرواناشروع کیا آپس میں دشمنیاں پیدا کیں شیعہ سنی فساد کروائے۔ وہ کام ہوتا جارہا ہے ہوتا جارہا ہے۔ خان آف قلات ،اکبر بگٹی ، خیر بخش مری سب نے کوشش کی پاکستان کیساتھ چلیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت نہیں آتی ۔ ایوب خان ، یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف آجاتا ہے پھر یہ لوگ بلوچستان میں اپنے فیورٹ تلاش کرلیتے ہیں اور انکے ذریعے بلوچستان کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو اگر آپ اپنے منتخب شدہ لوگوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کریں گے تو بلوچستان تو نہیں چلے گا۔ تو بلوچستان کو حقیقی جمہوریت دینی ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں الیکشن نہیں فراڈ ہوتا ہے۔ ابھی بھی الیکشن نہیں ہوگا ایک فراڈ ہوگا۔ اور کوشش کی جائے گی اس فراڈ میں بھی کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرو اور ماورائے عدالت قتل بند کرو۔ کوشش کی جائے گی کہ وہ لوگ اسمبلیوں میں نہ پہنچیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پنجاب سب سے زیادہ مظلوم ہے:قاری حنیف ڈار

پنجاب سب سے زیادہ مظلوم ہے:قاری حنیف ڈار

ہر وہ ظلم جو غیر پنجابیوں کیساتھ ہوتا ہے وہ پنجابیوں کیساتھ بھی ہوتا ہے۔مگر دوسروں کو غم ہلکا کرنے کیلئے پنجابیوں کو گالی دینے کا ہاجمولا دستیاب ہے، پنجابی لاشیں اٹھاکر کسی کو گالی نہیں دے سکتا ۔ غزوہ احد میںرسول اللہ ۖ نے حضرت حمزہ کا غم یوں منایا کہ70شہداء کے ہر جنازے کیساتھ حمزہ کا جسد خاکی ساتھ رکھ کر جنازہ پڑھایا۔ اُحد سے واپسی پر مدینہ کے ہر گھر سے شہداء کے ماتم کی آہ و بکا سن کر رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اما الحمزة فلا بواکی لہ ” ہائے حمزہ تیری تو کوئی رونے والی بھی نہیں ”۔اس پر صحابہ کرام نے اپنے گھر والیوں سے کہہ دیا کہ جاکر نبی ۖ کے حجرے کے باہر حمزہ کا ماتم کرو۔رسول اللہ ۖ نے شور سنا تو باہر نکل کر پوچھا کہ کیا ماجراء ہے؟۔ خواتین نے عرض کیا کہ ہم حمزہ کا ماتم کرنے آئی ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے ماتم سے روک دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ماتم کو حرام قرار دیا ہے۔ پنجابیوں کے خلاف بدبودار مہم پڑھتا ہوں تو رسول ۖ کا وہ جملہ یاد آتا ہے اور بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ پنجابیوں تمہیں کوئی رونے والا نہیں ۔ پنجابیوں کا کوئی نصاب نہیں۔ پنجابیوں کا کوئی رسم الخط نہیں ۔ پنجابی طلبہ کیلئے مادری زبان کا کوئی پیپر نہیں۔ پنجابیوں کی مادری زبان کے کوئی مارکس نہیں۔ جتنے غیر پنجابی گمشدہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ تو پنجابی شناختی کارڈ دیکھ کرگاڑی سے اُتارکر مار دئیے جاتے ہیں مگر کوئی لاش رکھ کر ٹریفک جام نہیں کرتا۔ وزیراعظم سے ملاقات اور مذاکرات کا مطالبہ نہیں کرتا۔ گویا پنجابی نے معاملہ رب کی عدالت پر چھوڑ دیا۔ پی ٹی آئی کے خلاف مہم میں سب سے زیادہ پنجابی خواتین قید وبندو استحصال سے گزری ہیں مگر کوئی ملک توڑنے اور پاکستان کے خاتمے کی بات نہیں کرتا۔پنجابی پاکستان کی سب سے شاکر قوم ہے۔
تبصرہ :فرعون: محمداجمل ملک
قاری محمد حنیف ڈار کا بیان ”پیج فرعون” پر آیا ہے اور اس نے لکھا کہ ” پنجابی پاکستان کی سب سے شاکر قوم ہے”۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم کیا تو بنی اسرائیل میں بھی برائیاں تھیں۔ اسلئے جو فرعون سے بچ جاتا تھا اس کو خضر مار دیتا تھا۔ فرعون کو جب تک اللہ نے غرق نہیں کیا تو وہ صابر شاکر ہی تھا۔ زرداری نے مولانا فضل الرحمن کیساتھ سی پیک کی مغربی سڑک کا افتتاح کیا لیکن نوازشریف نے پھر کوئٹہ اور پشاور سے چھین کر لاہور کی طرف موڑ دیا۔ اگر وہ روٹ ہوتا تو چین کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہوتا اور قرضہ بھی اتاردیتے۔ حکمرانوں کے کرتوت پر شکر کرتے کرتے کہیں بنگال کی طرح غرق نہ ہوں!

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سن2024کے اندر یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منتخب آزاد ارکان کی تعداد تمام پارٹیوں سے بھی بہت زیادہ ہوگی

سن2024کے اندر یقین کیساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منتخب آزاد ارکان کی تعداد تمام پارٹیوں سے بھی بہت زیادہ ہوگی

بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد ارکان کی تعداد پارٹیوں کے مقابلہ میں زیادہ تھی۔ عمران خان پرویزمشرف کے ریفرینڈم کا حامی اور تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان ریفرینڈم کا مخالف تھا۔ یہ جمہورت کا وہ گھناؤنا چہرہ تھا جس کا عوام کو آج تک شعور نہ مل سکا ہے پھر انتخابات ہوئے تو عمران خان صرف اپنی سیٹ پر جیت سکا۔ پرویزمشرف اس کو وزیراعظم بناسکتا تھا لیکن عمران خان نے اچھا کیا کہ نہیں بنا تھا اور پھر بلوچستان سے مرحوم ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنایا گیا۔
ظفر اللہ جمالی میں جمہوریت، اسلام اور انسانیت تینوں چیزیں واضح مقدار میں تھیں لیکن مولانا فضل الرحمن کے مقابلہ میں ایک ووٹ سے وزیراعظم بن گیا تھا۔ اس وقت اس ایک ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔جس کے ذریعے سے ظفراللہ جمالی وزیراعظم اور مولانا فضل الرحمن میں کانٹے دار مقابلہ تھا۔ عمران خان نے اپنا ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق نے اپنا ووٹ ظفراللہ جمالی کو دیا۔ درست و صحیح صحافت کا ایک پروگرام ڈان نیوز میں وسعت اللہ خان، ضرار کھوڑو اور مبشر زیدی کا ” ذرا ہٹ کے” تھا۔ جس میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ظفراللہ جمالی کو زیادہ ووٹوں سے بھی منتخب کروایا جاسکتا تھا لیکن فوج نے جمہوریت کو طاقتور نہیں ہونے دینا تھا اسلئے کچھ ووٹ چھپا ئے تھے۔ ظفراللہ جمالی ایک ووٹ سے کمزور وزیراعظم بنادیا گیا تاکہ جب فوج کو ضرورت ہو تو ایک ووٹ کو ادھر سے ادھر کرکے جمالی کو اتاردیا جائے۔ حالانکہ یہ بات اس وقت کی جاتی کہ اگر جمالی کے پاس اپنے علاوہ کوئی دوسرا ووٹ بھی ہوتا۔
اگر درست جمہوری تصور ہو تو طاقتور کے مقابلے میں کمزور لوگ بھی اقتدار میں آسکتے ہیں۔افغانستان میں طالبان طاقت کے ذریعے سے اقتدار تک پہنچے اگر جمہوریت نہیں آتی توپھر وہاں تبدیلی طاقت کے بغیر نہیں آسکتی ہے لیکن پاکستان میں یہ نہیں ہے کہ بندوق اٹھائی جائے تو تبدیلی آسکتی ہے۔
رسول اللہ ۖ نے اقتدار کیلئے جنگ نہیں کی تھی مکہ والوں نے مجبور کیا تو ہجرت کی اور مدینہ میں جمہوری اقتدار کی بنیاد رکھ دی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” قلم اور کاغذ لاؤ۔ میں ایسی چیز لکھ کر دیتا ہوں کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے”۔ حضرت عمر نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ نبیۖ نے اپنا ایجنڈہ زبردستی نہیں منوایا اور یہ جمہوریت کی بنیاد تھی۔
قوم پرست انصار نے کہا کہ ہم خلافت کے حقدار ہیں۔ نبی ۖ کے عزیز واقارب بھی تھے۔ اگرچہ ووٹ کا نظام نہیں تھا لیکن جمہورکی بنیاد پر حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ منتخب ہوگئے۔ پہلا خلیفہ انصار بنتا تو قوم پرستی کی بنیاد مضبوط ہوجاتی۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی نامزدگی جمہوری بنیاد پر کی تھی ورنہ ایک احتجاج کی صورت پیش آتی۔ حضرت عثمان کا انتخاب بھی شوریٰ نے جمہوری اور اکثریت کی بنیاد پر کیا تھا اور اس کی وجہ سے سب نے سرتسلیم خم کیا۔پھر حضرت علی خلیفہ بن گئے تو حضرت عائشہ کی قیادت میں مسلح جنگ ہوئی اور وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان کے قاتلوں کا بدلہ لیا جائے۔ پھر حضرت علی کے بعد امام حسن نے امیرمعاویہ سے معاہدہ کیا اور30سالہ خلافت راشدہ کے بعد امارت کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد ایک غیر صحابی یزید سے خاندانی بادشاہت کا آغاز ہوگیا اور یزید ہی باطل نظام کا ایک استعارہ بن گیا۔آج ہم آزاد ا رکان کا اقتدار قائم کرکے پاکستان میں خلافت راشدہ لاسکتے ہیں۔ حضرت علی نے مدینہ کی جگہ کوفہ کو دارالخلافہ بنایا اور ہم اسلام آباد کی جگہ ڈیرہ غازی خان کو دارالخلافہ بنائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز
پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ کے آزاد ارکان اپنا ایک مختصر منشور شائع کریں۔ پھر کامیاب ارکان آپس میں ہی اتحاد کرکے ایک شخص پر ووٹنگ کرکے اتفاق کرلیں۔ پہلے سب میں جن جن کوبھی ووٹ مل جائیں اورپھر زیادہ ووٹ لینے والا منتخب نہ ہو بلکہ کم ووٹ لینے والوں کو درمیان سے نکال کر زیادہ ووٹ لینے والوں کے درمیان ایک ہی مجلس میںمقابلہ ہو اور پھر پہلے تین پوزیشن حاصل کرنے والوں کے درمیان ووٹنگ کرائی جائے۔ پھر پہلی دو پوزیشن میں ووٹنگ کرائی جائے۔
پھر جس کے زیادہ ہوں اس پر سب متفق ہوں۔ جمہوریت کا ایک نیا طریقہ کار رائج کرنے کی ضرورت ہے جس میں پیسہ خرچ اور ایکدوسرے کے خلاف غلط پروپیگنڈے کا موقع بھی نہ دیا جائے۔ اگر آزاد ارکان خود جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو اپنے منشور کے تحت کسی اور پارٹی کو جتوائے لیکن قرآن وسنت کے بنیادی معاشرتی ڈھانچے کو نافذ کرنے کیلئے اپناکردار ادا کرے۔خلع وطلاق کے مسائل ۔ خلع وطلاق کے حق اور نکاح اور حق مہر کے معاملات قرآن میں بالکل واضح ہیں لیکن علماء و مفتیان نے مسخ کرکے رکھ دئیے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اسلام کی طرف نہیں جارہاہے۔ جمہوریت کے دور میں سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ ہم غلطیوں کو ٹھیک کرکے اس پر مرہم و پٹی رکھ سکتے ہیں۔ شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث کے متفق ہونے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔ اسلام روشنی ہے جو اندھیروں کو کسی طاقت کے بغیر بھی بالکل اڑادیتا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سینیٹر جماعت اسلامی مشتاق احمد خان

اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سینیٹر جماعت اسلامی مشتاق احمد خان

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے دھرنے میں پہنچ کر کہاکہ اپنی بیٹی اور بلوچ بیٹی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں سچی بات یہ ہے کہ جس بہادری، جرأت کیساتھ اس نہتی بچی ماہ رنگ بلوچ نے ریاستی جبر، پولیس دہشتگردی کا مقابلہ کیا ہے اس نے تمام جمہوریت پسند انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سر فخر سے بلند کر دیے، حوصلہ بڑھا دیا تو بیٹے میںآپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، شاباش دیتا ہوں، آپ کیساتھ ہوں اورفرحت اللہ بابر آپ کیساتھ ہیں ،تمام جمہوریت پسند انسانی حقوق کے علمبردار وہ آپ کیساتھ ہیں۔ پریس، سٹریٹس اور پارلیمنٹ میں انشااللہ میں آپکی آواز بنوں گا۔ لانگ مارچ اسلئے ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ ختم کیا جائے، ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ بالاچ بلوچ جیسے واقعات ہماری سرزمین پر نہ ہوں، ہماری مٹی کو ہمارے خون سے رنگین نہ کرو، ہمارے نوجوانوں کو قتل نہ کرو اور جبری گمشدگی لوگوں کو غائب کرنا۔ یہ اپنے درد کی وجہ سے آئی ہے پانچ بہنیں ایک بھائی کیلئے جو عشروں سے لاپتہ ہے یہ ریاستی دہشتگردی ہے۔ آئین قانون پارلیمنٹ دستور کی موجودگی میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ دستور کی خلاف ورزی پاکستان سے غداری ماہ رنگ نہیں کر رہی وہ لوگ کر رہے ہیں جو ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ جو جبری گمشدگی کر رہے ہیں،آرٹیکل16،17،19،9،10میں وہ ساری باتیں ہیں جوماہ رنگ بلوچ کرتی ہے۔ پولیس ،نگران اورریاستی اداروں، اسلام آباد انتظامیہ کو شرم آنی چاہیے رات ایک بجے ٹھنڈے پانی واٹر کینن سے ان پر پھینکتے ہیں ۔ سادہ کپڑوں میں ڈنڈوں سے بچوں بچیوں کو مار رہے ہیں شرم نہیں آتی یہ دہشتگردی ہے میں سینٹ آف پاکستان میں ان کو بے نقاب کروں گا اسلئے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ معافی مانگے وفاقی حکومت اس بچی سے اس لانگ مارچ کے شرکا سے اسلام آباد انتظامیہ معافی مانگے جن لوگوں نے یہ کام کیا ہے ان کوقرارواقعی سزا ملنی چاہیے اس حکومت نے اس انتظامیہ سے عدالتوں کے اندر جھوٹ بولا انہوں نے رہائی بھی نہیں دی ،تذلیل بھی کی، بدترین قسم کا وائلنس بھی کیا ہے۔ تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔اور جو مطالبات انہوں نے اٹھائے ہیں میں حکومت سے ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ جائز ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے کہتا ہوں کیا انصاف صرف اشرافیہ، بالادست طبقے کیلئے ہے مظلوموں، بلوچوں، جبری گمشدہ ،ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کے شکار کیلئے نہیں ہے ؟ میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس لانگ مارچ پر تشدد کا بھی نوٹس لیں لانگ مارچ کو انصاف دو لانگ مارچ کے مطالبات پورے کرو بلوچستان میں50ہزار لوگوں کو بیروزگار کیا، خیبر پختونخوامیں بدامنی کی لہر ہے ۔ منظور پشتین آواز اٹھاتا ہے تو اس کو جیل میں بند کر دیا یعنی جو بندہ امن، اپنی مٹی، عوام کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ، جبری گمشدی کے خلاف بات کرتا ہے ریاست کے بے لگام کو لگام دینا چاہتے ہیں ان کو جیل ،تشدد، ریاستی اداروں کوانکے خلاف استعمال کرتے ہیں تو یہ نہیں چلے گا۔ اب عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ میں نے ابھی ایک پارٹی کنونشن میں آپ کی بات کی تو لوگوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں ہر محلے، ہر شہر سے آپکی حمایت ہے بلا تفریق کراچی سے چترال تک ماہ رنگ بلوچ آپنے لوگوں کو جگا دیا، مظلوم آپ کیساتھ ہے آپ مظلوموں دردمندوںاور تکلیف کے ماروں کی آواز ہیں۔ ڈٹی رہو، بہادری اور ہمت کے ساتھ اپنی اس جدوجہد کو جاری رکھو ہم آپ کے ساتھ ہیں فتح آپ کی ہے انسانی حقوق، جمہوریت کی ہے بشری حقوق کی ہے امن کی ہے اور شکست دہشت گردی کی ہوگی انشااللہ میں اور فرحت اللہ بابر صاحب تو سپریم کورٹ کے اندر بھی اکٹھے گئے ہیں اور ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ کے اندر بھی جائیں گے ہم انشااللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کال کریں ہم دیکھتے ہیں کہ کون آتا ہے؟۔ اُم حسان

کال کریں ہم دیکھتے ہیں کہ کون آتا ہے؟۔ اُم حسان

جامعہ حفصہ کی خواتین نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے دھرنے میں آکر یکجہتی کا اظہار کیا
یہ صحافی نہیں میراثی ہیں یہ پیسے کے پتر اور پجاری ہیں۔ جو پیسہ دے اس کی خبر لگاتے ہیں

السلام علیکم ورحمة اللہ، میں جامعہ حفصہ سے اُم حسان ہوں اصل میں جس دن ان پر رات کے وقت انہوں نے ظلم کیا، زیادتی کی اس وقت تو ہمیں نہیں پتہ لگ سکا بعد میں میں نے اس ساری جگہ چکر لگایا تو ان کی جگہ پولیس بیٹھی ہوئی تھی۔ ماشاء اللہ دونوں گراؤنڈ بھرے تھے ہمارے جوانوں سے ،جن کی جوانیاں شاید اسی لئے وقف ہیں کہ مظلوموں پر ڈنڈے برسائے جائیں اور ان پر ظلم کیا جائے ،زیادتی کی جائے۔ تو انکے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے آئے ہیں اور ہم نے انہیں کہا کہ جب کوئی پولیس یا انتظامیہ آپ کو دھمکی دے ہمیں کال کریں ہم آپکے شانہ بشانہ کھڑیں ہوں گے اور دیکھتے ہیں کون آتا ہے اور انہیں ہاتھ لگاتا ہے۔ کسی کو انہیں ہاتھ نہیں لگانے دیں گے۔ یہ اس ملک کا وطیرہ بن گیا کہ جو ظالم ہے وہ ظلم کرتا چلا جاتا ہے ، اس کا کوئی ہاتھ نہیں روکتا۔ ہم انشاء اللہ تعالیٰ ہاتھ روکیں گے بھی اور توڑیں گے بھی۔صحافی آواز اٹھائیں گے، پہلے مظلوم کا ساتھ دیا؟۔ جامعہ حفصہ آپریشن میں یہ سب اور اکبر بگٹی کو بھی مروانے میں پیش پیش تھے۔ یہ لاشوں پر دھمال ڈالنے والے پیسے کے پتر پجاری ہیں۔ جو پیسہ دیتا ہے اس کی ڈفلی بجاتے، راگ گاتے ہیں۔ تو ان بیچاروں کے پاس پیسہ تو نہیں تو میڈیا والے بات کریں گے۔ پاکستانی میڈیا کوئی میڈیا ہے؟۔ یہ مراثیوں کا گڑھ ہے۔ سارے مراثی بیٹھے ہیں جس مراثی کو پیسے مل جاتے ہیں اسی کے حساب سے زبان چلتی ہے اسی کے حساب سے اس کے ٹھمکے لگتے ہیں بات ختم۔
سوال: آپ کب تک اظہار یکجہتی کریں گے؟۔
اُم حسان: جب تک یہ یہاں پر ہیں۔ جب یہ چلے جائیں گے تب بھی۔ پاکستان میں، دنیا بھر میں کہیں پر بھی کوئی مظلوم ہے اسکے لئے ہم آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ ہم نے ظلم خود برداشت کیا ہے اور آج تک کررہے ہیںلیکن اب بہت ہوچکا۔ جیسے اسلام آباد پولیس نے ان کو مارا ہے وہ بہت ہی شرمناک عمل ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اکثریت کو اقلیت دباکر بیٹھی ہے ہدیٰ بھرگڑی

اکثریت کو اقلیت دباکر بیٹھی ہے ہدیٰ بھرگڑی

کیا یہ ملک فوج اورمسلح افراد کیلئے بناہے؟اس میںبلوچ، سندھی ، پشتون کے حقوق ہیں یا نہیں ؟

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی حمایت عورت مارچ کی خواتین اسلام آباد پریس کلب میں پہنچ گئیں۔ ہدی بھرگڑی نے کہا:یہ جو دو قومی سلسلہ رہا ہے، تمام کے تمام عوام جو کہ میجورٹی آف پاکستان ہے اس میجورٹی کو ایک مائنورٹی کئی عرصے سے کئی سالوں سے دبا کے رکھ کے بیٹھی ہوئی ہے تو یہ سوال ہم پہ بطور پاکستانی بنتا ہے آواز اٹھائیں کہ پاکستان آخر بنا کس کیلئے ہے کیا یہ فوجیوں کیلئے بنا ہے کیا یہ مسلح افراد کیلئے بنا ہے کیا یہ صرف ایک طبقے کیلئے بنا ہے کیا یہ بلوچوں کا سندھیوں کا خیبر پختونخواہ میں پشتون کیا انکے حقوق ہیں کہ نہیں ہیں تو پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ہمیں دوبارہ سے واضح کرنا ہوگا کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟، کیا پاکستان بلوچ عوام کیلئے ہے یا نہیں؟ پاکستان کا اب مطلب کیا ہے؟۔نعرے ہر جبر سے لیں گے آزادی ، ہر قہر سے لیں گے آزادی،زنجیر سے لیں گے آزادی، زندان سے لیں گے آزادی، جینے کی لیں گے آزادی، احتجاج کی لیں گے آزادی ، سی ٹی ڈی سے لیں گے آزادی ، آمر ریاست سے آزادی، فوجیوں سے آزادی ، ٹینکوں والوں سے آزادی، بوٹوں والوں سے آزادی، بندوق سے آزادی، ظالم سے لیں گے آزادی، جابر سے لیں گے آزادی، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، عورت کا نعرہ آزادی، ہے حق ہمارا آزادی ، نہیں بھیک میںلیں گے آزادی، نہیں جھک کرلیں گے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، للکار کے لیں گے آزادی، جو تم نہ دو گے آزادی، سی ٹی ڈی تو سن لے آزادی، ڈی سی تو سن لے آزادی، پولیس تو سن لے آزادی، کاکڑ توسن لے آزادی، وردی والے توبھی سن لے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، للکار کے لیں گے آزادی، ہم لیکر رہیں گے آزادی، بلوچستان سے جاگی عورت جاگی، جی پی سے جاگی عورت جاگی، کے پی سے جاگی عورت جاگی، اسلام آباد سے جاگی عورت جاگی، جاگی جاگی عورت جاگی، ظلم کے نظام کو ہم نہیں مانتے، ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد تیز ہو، پولیس گردی کیخلاف جدوجہد تیز ہو، ظالمو! جواب دو خون کا حساب دو۔ بلوچ کو جواب دو خون کا حساب دو، ماہ رنگ کو جواب دو ظلم کا حساب دو، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، ہر جبر سے لیں گے آزادی، ہر ظلم سے لیں گے آزادی، ہر تیر سے لیں گے آزادی، تلوار سے لیں گے آزادی، بندوق سے لیں گے آزادی، ٹینکر سے لیں گے آزادی، بلوچ کا نعرہ آزادی، ماہ رنگ کا نعرہ آزادی، عورت کا نعرہ آزادی، لال سلام لال سلام ،ماہ رنگ کو لال سلام۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

میں بولتی ہوں کہ اگر اس قوم کیلئے لاکھوں بچیاں بھی یتیم ہوجائیں تو کم ہے۔ماہ رنگ بلوچ

ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
بلوچ قوم کی اس عظیم قومی تحریک کے قریب بھی کسی دوسری قوم کی تحریک نہیں پہنچی ہے، ہمارے علماء اور مدارس کے طلبہ بھی کھاد کی مشین نہیں انقلابی بنیں۔عتیق گیلانی
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس تقریب سے یہ تحریر پڑھ کر خطاب کیا تھاجس کی کچھ جھلکیوں سے ان کے فکر وعمل کو سمجھنے میں قارئین کو آسانی ہوگی کہ اتنے حوصلے اور جرأت کے پیچھے کیا اصل عوامل کارفرماہیں۔ یہ حوصلے کی ایک چٹان کیوں ہیں؟۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے8مہینے پہلے اپنے خطاب میں کہا تھا: صباح اسلئے صباح تھا کہ اپنے آپ کو اجتماع سے جوڑ دیا۔ صباح نے وہ جو روایتی دانشور کی تعریف سے خود کو نکال کر وہ اپنی عوام کے ساتھ رہا۔ اس نے کہا کہ اگر میری کلاس کا ایک اسٹوڈنٹ اغوا ہورہا ہے تو میں اپنی کلاس میں بیٹھوں گا ہی نہیں جب تک کہ وہ رہا نہیں ہوجائے۔ جب بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ صباح نعرے نہ لگاتا تو صباح صباح نہ ہوتا۔ تو آپ بتائیں کہ اگر آپ نے ایکٹیو ازم کو محدود کردیا ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ قوم کیلئے کام تو ناکارہ شخص ہی کرے گا تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ ایک ڈاکٹر ڈاکٹری کرے، ایک وکیل وکالت کرے، ایک استاد اپنی استادی کرے تو پھر قومی تحریک چلائے گا کون؟۔ کیا یہ کوئی آسان کام ہے؟۔ یہ سب سے مشکل کام ہے۔ سب سے ذہین اور سب سے جرأتمند لوگ قومی تحریکیں چلاتے ہیں۔ یہ کسی عام کسی ڈرپوک شخص کا کام ہے ہی نہیں کہ اتنے بڑے کلیم کو لے کر آگے چلے اور اپنی زندگی اور سب کچھ قربان کردے۔ میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قربانیاں تو اتنی ہیں کہ اس تحریک کا کوئی ادارہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ وہ شہداء کی لسٹ بناسکے۔ تعلیم ہی اپنی کوکھ سے علم کو جنم دیکر کردار میں عملی نکات پیدا کرے تو وہ شعور اور تبدیلی کہلائی جاسکتی ہے۔ صرف تعلیم حاصل کرنے اور اپنے پاس رکھنے سے کوئی بھی طالب علم نوکری اور کاروبار تو کرسکتا ہے مگر اپنے سماج میں تحریک پیدا نہیں کرسکتا اور نا ہی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ کوئی بھی تحریک جسکے مقاصد متعین نا ہوں تو جدوجہد علمی ہو، نظریاتی ہو، تعلیمی ہو، فکری ہو وہ وقتی جدوجہد تو بن سکتی ہے مگر اسے مستقل جدوجہد نہیں کہا جاسکتا۔ جیسا کہ البرٹ کامیوس نے کہا کہ حقیقی مایوسی طاقتور دشمن کا سامنا کرنے سے پیدا نہیں ہوتی اور نا ہی جدوجہد میں ناکامی تھکاوٹ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب ہمیں اپنی جدوجہد کا ادراک نہیں ہوتا ہے۔ ہم یہ بھول چکے ہوتے ہیں کہ یہ جدوجہد کس لئے شروع کی گئی تھی۔ یہ جدوجہد قومی شناخت کی جدوجہد ہے۔ قومی بقاء کی جدوجہد ہے۔ یہ کچھ آسامیوں، نوکریوں، وسائل اور صوبائی حق خود داریت کی جدوجہد ہے ہی نہیں۔ قومی تحریکیں اشرافیہ اور طاقتور لوگوں کے بجائے عام لوگوں کی جدوجہد سے بنتی ہیں۔ وہ لوگ جن کی ہر سوچ اجتماعی ہے اور وہ اجتماعی سوچ کی بنیاد پر بولتے ہیں اور اپنے قول کو عمل میں تبدیل کرنے کی جرأت رکھتے ہیں جیسا کہ گرامسچی نے کہا: ”قبضہ گیر ریاستیں تشدد اور معاشی استحصال کیساتھ اپنے اداروں کے ذریعے ریاستی نظرئیے کو محکوم اقوام پر مسلط کرتی ہیں اور ایسے سماج میں انقلاب لانا مشکل ہوجاتا ہے جہاں محکوم حاکم کو حکمرانی کرنے کا حقدار سمجھتا ہو”۔ مگر سوال یہ ہے، آج کل ایسی سازش میں بلوچ طلبہ کو ڈالا جارہا ہے ،کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل تعلیم ہے۔ کونسی تعلیم اور تعلیم کس کیلئے ؟۔ کیا پروفیشنل ازم قومی خدمات کے برابر ہوسکتی ہے؟۔ ہماری جد و جہد کے اہم مقاصد کیا ہیں؟۔ قومی جدوجہد پر کمپرومائز کرنے والی قوتیں کون سی ہیں؟۔ جو نام نہاد قوم پرست پارٹیاں بناچکے ہیں وہ نام نہاد قوم پرست تو کہلائے جاسکتے ہیں، لیکن انہوں نے اصل مقصد اور قومی شناخت کے بجائے کچھ وسائل کو ہی جدوجہد کا نام دے رکھا ہے۔ بلوچ قوم کو ہر اس دھوکے کو پہچاننا ہوگا، سوال کرنا ہوگا کہ وہ کونسے مقاصد ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ہماری قومی شناخت کی جنگ ہے اور ہمارے آباء و اجداد اور ہزاروں شہیدوں نے اپنی جان کی قربانی صوبائی خود مختاری ، چند اسامیوں اور تعلیم کیلئے نہیں دی ہے ۔ ہمارے نوجوان اسلئے پڑھتے ہیں کہ کل وہ اچھے ڈاکٹر بن جائیں ایک اچھے وکیل بن جائیں ؟ ،کسی پروفیشن میں ان کا نام ہو؟، ایک اچھے استاد اور لیکچرار بن جائیں؟ اور کل کواگر انہیں ایک پروٹوکول چاہیے تو وہ جاکر سول سروس میں،PCSاورCSSکرکے اپنے آپ کو علاقے کا سب سے معتبر اور سب سے تعلیمی، شعوری انسان ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچو! قومی جدوجہد کی راہ انتہائی کٹھن ہے اس میں بے پناہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اور یہ کسی بھی انسان کی قوت کا کام نہیں کہ وہ اکیلے انقلاب لا سکے۔ انقلاب کیلئے ہمیشہ عوام کی ضرورت ہوتی ہے، قوم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب پوری قوم ایک تبدیلی کیلئے اپنی صبح شام لگاتی ہے ،اپنی جانوں کی قربانیاں دیتی ہے تبھی وہ کام آسان ہوسکتا ہے ایک فرد انقلاب نہیں لاسکتا۔ بھگت سنگھ کی ایک تحریر میں نے پڑھی تھی وہ انہوں نے اپنی پھانسی سے چند دن پہلے لکھی تھی انقلابیوں کے نام۔ کچھ ایسے الفاظ تھے جو مجھے سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں ہم سب کو کیونکہ ہم سب جو سطحی سیاست کا حصہ ہیں یا جہاں ہم سیاست کر رہے ہیں اس میں میں بذات خود بھی شامل ہوں اس میں میں اپنے آپ کو بورژوا نیشنلسٹ سمجھتی ہوں۔ کیونکہ میں قوم پرستی کے اس قول کو تو مانتی ہوں لیکن عملی طور پر میں ابھی تک اس میں شامل ہی نہیں ہوئی یا ہم سب اس میں شامل ہی نہیں ہوئے تو بھگت سنگھ نے کہا کہ اگر آپ ایک بزنس مین اور ایک اچھے ڈاکٹر ہیں اور اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے جدوجہد پر بے بنیاد تنقید اور تقریروں میں صرف کرتے ہیں اور صبح ریاستی مشینری کو مستحکم کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ برائے مہربانی آگ سے مت کھیلیں۔ ایک انقلابی ورکر کے طور پر آپ کسی بھی تحریک کیلئے کار آمد نہیں ہوسکتے۔ انقلاب کیلئے ہمیں پیشہ ورانہ انقلابیوں کی ضرورت ہے۔ تحریک کے وہ کارکن جن کی زندگی کا مقصد تحریک کو آگے بڑھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو ، تحریک کیلئے جذبات قابل قدر ہوسکتے ہیں مگر تحریکیں مستقل مزاج کارکنوں کی مسلسل جدوجہد، مصیبتوں کا سامنا کرنے اور بے پناہ قربانیوں سے کامیاب ہوتی ہیں۔ راستے کی کوئی تکلیف آپ کی جدوجہد کو کم نہیں کرسکتی۔ اور اگر دشمن آپ پر وار کرتا ہے تو اس پر آپ اپنا سر پکڑ کر نہیں بیٹھیں گے کہ اُف یہ کیا ہوگیا؟ یہ تو ہم برباد ہوگئے، اب تو یہ ہماری عورتوں تک آپہنچا ہے۔ سب سے پہلے تم اپنے کلیم کو تو دیکھو کہ تم کیا مانگ رہے ہو؟۔….. میں کہتی ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔………..
ایک ماں کا وہ پہلا خیال جس نے سوچا ہوگا کہ وہ اپنے وطن کیلئے قربان ہوگی ناں۔ وہ خیال ہی اس قوم کو ہزار سال حوصلہ دینے کیلئے کافی ہے۔ اس کی قربانی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس قوم کی شناخت کی بقاء ہی اس میں ہے اس قوم کی جو جدوجہد ہے جس مقصد کیلئے شروع ہوئی تھی اس کو وہاں تک پہنچایا جائے۔ کوئی بھی ڈائیورژن ان قربانیوں کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہوگی۔….تبصرہ: مولانا عبید اللہ سندھی نے کہا کہ عرب کے بعد عجم قرآن کو سمجھ کر انقلاب لائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ!

پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ!

دنیا کی محفلوں سے اکتاگیا ہوں یارب !
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو
سُرخی لئے سنہری ہر پھول کی قباء ہو
راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم
اُمید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو
بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھادے
جب آسماں پر ہر سُو بادل گھرا ہوا ہو
پچھلے پہر کی کوئل وہ صبح کی مؤذن
میں اس کا ہمنوا ہوں وہ میرا ہمنوا ہو
اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے
تاروں کے قافلوں کو میری صدا درا ہو
ہر درد مند کو رونا مرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے

پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ ۔ اقبال سے آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر تک عوام کے کانوں نے یہ گونج سنی ہے لیکن اس پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی قابلیت میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ریاست کے بیانیہ کو اسنے صحافیوں کے سامنے پیش کردیا ہے اور دوسری طرف ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی پہلی مرتبہ اپنا بیانیہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے میں بھرپور طریقے سے کامیاب ہوئی ہے۔ اگر ہماری ریاست اب تک اپنا عدالتی نظام درست نہیں کرسکی ہے تو اس سے ریاست کا بیانیہ کمزور ثابت ہوتا ہے۔ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ہرطرح کے تشدد کی مذمت کرتی ہیں اور معصوم لوگوں کو مارنے کا رونا روتی ہیں اور کہتی ہیں کہ میڈیا پر وہ خبریں بھی نہیں آتی ہیں جن میں معصوم عورتوں ، بچوں اور طالب علموں کو شہید کیا جاتا ہے تو ان کا گلہ بجا ہے۔ اگر کوئٹہ اور بلوچستان سے معصوم لوگوں کے قتل کی خبریں شائع نہ ہوں اور اسلام آباد میں آتے وقت بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جائیں تو یہ ریاست پر سوالیہ نشان بنتے ہیں۔ اگر نگران وزیراعظم کا کام نہیں ہے کہ عدالتی نظام کو اس نے ٹھیک کرنا ہے اور عدالتی نظام قابل اعتماد نہیں ہے تو پھر قصور کس کا ہے؟۔ کیا طالبان یاBLAکے لوگ قانون سازی کرکے دیںگے؟۔ پاکستان کی معروف تین قومی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ آصف علی زرداری کہتا ہے کہ جیل میں دن رات دونوں شمار ہوتے ہیں اور مجھے محض الزام پر11سال جیل میں رکھا جو22سال بنتے ہیں لیکن عدالتوں نے باعزت بری کردیا۔ نوازشریف کو دو بار عدالتوں نے سزا دینے کے باوجود بری کردیا اور اب عمران خان کیساتھ جو کچھ ہورہاہے اس سے پہلے کبھی کسی کیساتھ ایسا نہیں ہوا ہے اور اگر ہوا ہے توبھی شرمناک ہے۔
اگر جمہوریت والے، مذہبی پارٹیاں، جہادی تنظیمیں اور قوم پرست پارٹیاں سب کی سب پاک فوج کے خلاف ہوں اور عدالتی نظام بھی درست نہ ہو تو پھر کیا اس ملک کے بقاء کی امید ہوسکتی ہے؟۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جو مقدمہ لڑرہی ہے وہ اس کا اپنا مسئلہ ہے لیکن جب مسلم لیگ ن کے راشد مرادMRTVلندن یہ پنجابی اور اردو میں کہتا ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول کے بچوں کو فوج نے خود ہی مارا ہے تو اس کا بیانیہ زیادہ خطرناک ہے جس کو اقتدار میں لانے کیلئے سہولت کار بن گئے ہیں ؟یا ڈاکٹر ماہ رنگ کا یہ مطالبہ زیادہ خطرناک ہے کہ بالاچ بلوچ کو جج نے ریمانڈ کیلئےCTDپولیس کے حوالے کیا۔ جس نے جعلی مقابلے میں قتل کیا اور تربت میں7دنوں تک اس کی لاش کو احتجاجاً رکھا گیا اور پھر جس دن عدالت میں بالاچ بلوچ کوCTDپولیس نے پیش کرنا تھا تو اس دن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ماما قدیر وغیرہ نے اس کی لاش کو جج کے سامنے پیش کیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ درست کہتی ہیں کہ ہمیں اسلام آباد تک لانگ مارچ کے بجائے اس عمارت کے باہرہڑتال کرنا تھی جسے آپ عدالت کہتے ہیں ،جس نے ریمانڈ کیلئے پولیس کو ملزم حوالے کیا اور پولیس نے اس کو جعلی مقابلے میں ماردیا۔ اگر وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کہتا ہے کہ ریاست کو اپنی عدالت پر اعتماد نہیں ہے ملزموں کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر قصور نگران وزیراعظم کا نہیں ، ریاست کا بھی نہیں تو پھرکس کا ہے؟
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ درست کہتی ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ریاست طاقت کا استعمال نہ کرے۔ ریاست طاقت کا استعمال ضرور کرے لیکن اس کا احتساب بھی ہونا چاہیے اور اگر وہ طاقت کا غلط استعمال کرتی ہے تو اس کی گرفت بھی ہو۔ اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ ۔ طوطے کی طرح رٹ اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ایک پہاڑ ہے جس سے جو بھی سر ٹکراتا ہے تو اپنا سر توڑتا ہے۔ فوجی آمر، عدالت کا جج، طالبان، قوم پرست اورسیاستدان کسی کے پاس اس لاعلاج کینسر کی کوئی دوا نہیں ہے۔ بنگلہ دیش بن گیا تو وہ یتیم اور بے سہارا نہیں ہوا بلکہ ہم سے زیادہ خوشحال ہے۔ سندھی، بلوچ اور پشتون میں بھی یہ سوچ پختہ ہوگئی ہے کہ اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے تو ہوسکتا ہے کہ خوشحالی آجائے۔ قرضوں اور کرپشن کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا ڈیٹا لیک کرنے پر صحافی شاہد کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کئی صحافی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ارشد شریف کو آواز اٹھانے پر شہید کیاگیا اور عمران ریاض خان کو لاپتہ کرکے اس کی زبان خراب کردی گئی ہے۔ قرآن تو ایک انسان کے بیگناہ قتل کو ایسا قرار دیتا ہے جیسے تمام انسانوں کو قتل کیا ہو۔
ریاست بھی ظالم ہے اور مذہبی وقوم پرست تنظیمیں بھی ظالم ہیں ۔ فرعون کا ظلم قرآن میں ہے اور بنی اسرائیل کے کرتوت بھی قرآن میں ہیں۔ فرعون کے ہاتھ سے جو بچتا تو قرآن میں ہے کہ خضر علیہ السلام نے بھی بچے کو قتل کیاتھا۔ ان معصوم لوگوں کے قتل اور آپس کی لڑائی میں بھی بسا اوقات خیر ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی سے پکڑلیا تو اسکے پیچھے ایک بڑے فلسفے کا سبق قرآن میں قیامت تک عوام کو مل گیا۔ حضرت موسیٰ شرک کے خلاف تھے اور حضرت ہارون نے تفریق کو شرک سے بڑا جرم سمجھ لیا۔
اگر ہماری قوم پر سختیاں نہ آتیں تو ہم بھی یورپ اور ترقی یافتہ دنیا کی طرح فحاشی کے سیلاب میں غرق ہوجاتے اور پھر اس سے نکلنا زیادہ مشکل ہوتا۔ تھوڑی بہت آزمائش سے ہماری قومیں بڑی مصیبت سے بچ گئی ہیں۔
اگر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو آزمائش کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو اس کی صلاحیتوں میں کبھی ایسا نکھار نہیں آسکتا تھا۔ باپ پر تشدد اور مسخ شدہ لاش نے دل چھنی کردیا لیکن رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” اللہ کو ٹوٹے ہوئے دلوں میں تلاش کرو”۔ ماہ رنگ بلوچ کی وجہ سے لاکھوں خواتین اور بچیوں کے رحجانات ، جذبات اور کردار کا رُخ زندگی میں مقصد اور انقلاب کی طرف مڑ گیا ہے۔ تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی ، مدارس اور جماعت اسلامی بہت زیادہ عملی صلاحیتوں اور خیرات ،زکوٰة، صدقات اور چندوں کی رقم خرچ کرکے بھی ایک ماحول تو دے سکے ہیںلیکن ان کو مقصدیت کی طرف نہیں لاسکے ہیں۔ ایک نظریہ انسان کو مقصدیت دیتا ہے۔ جب عورت مارچ کے خلاف پوری ریاست کھڑی تھی۔ سیاسی جماعتیں، جامعہ حفصہ و لال مسجد والے اور مذہبی شدت پسند تنظیموں کو حکومت نے سڑک کی ایک طرف اشتعال انگیز جلسے کی اجازت دی تھی اور دوسری طرف عورت مارچ نے وہاں سے گزرنا تھا تو بیچ میں کنٹینر بھی کھڑے ہوتے تو پاک فوج کے جرنیلوں کی بھی اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہاں سے گزرتے لیکن پولیس کوچھوٹی اسٹک دے کر ٹینٹ کے کپڑے کی دیوار کیساتھ کھڑا کیا گیا تھا۔ تاکہ آسانی سے عورت مارچ کی خواتین کو ہدف بنائیں۔ جب خواتین پر حملہ کیا گیا تو ٹرک میں وہ اپنے تحفظ کی خاطر اپنے سروں کو بھی کپڑوں سے بچانے کی کوشش کررہی تھیں اور ہنس بھی رہی تھیں۔ جس خوف پر انہوں نے کنٹرول کیا تھا وہ ان کی نظریاتی پختگی کا کمال تھا۔ ان کے خلاف جس طرح کا غلیظ پروپیگنڈہ کیا گیا وہ بھی شرمناک تھا۔
اگر ہدی بھرگڑی ، فرزانہ باری ، عصمت شاہ جہان اور دوسری بہادر خواتین اس مارچ کی قیادت کرکے کامیاب نہ بناتیں تو شاید بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت بھی آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی جگہ کسی جوانمرد کے ہاتھ میں ہی ہوتی۔ میرے خیال میں آصف علی زرداری کی خواہش پرPDMکی حکومت بننے کیلئے سب سے بڑی ڈیمانڈ یہ رکھی گئی تھی کہ بلاول بھٹو8مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوگا اور عورت مارچ کی کہانی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا اسلئے کہ باقی پارٹیاں تحریک انصاف، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی اور سب جماعتوں کے قائدین نے عورت مارچ کی بہت کھل کر مخالفت کی تھی لیکن بلاول بھٹو زرداری کی پیپلزپارٹی نے اس کو زبان کی حد تک سپورٹ کیا تھا اور اس کا پھر پیپلزپارٹی نے جب کفارہ ادا کیا توPDMکے دورمیں وزیرخارجہ بن گئے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو پتہ نہیں کہ پختون بے غیرت اپنی بہن بیٹی کا حق مہر بھی کھا جاتا ہے۔سندھی وراثت کے ڈر سے اس کی قرآن سے شادی کراتاہے اور پنجابی بے غیرت حق مہر تو دور کی بات جہیز بھی مانگتا ہے۔ بلوچی سماج الحمدللہ ان برائیوں سے پاک ہے اسلئے انگریز نے اس کو سب سے زیادہ عزتدار قرار دیا ہے۔ جب اپنی بہن بیٹی اور بیوی کے معاملات میں عزت نہ ہو تو پھرکہاں سے عزت آئے گی؟۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ریاست سے پہلے سماج کی جنگ لڑے۔ سماج سے زیادہ مذہبی طبقات نے عورت کو اپنے حقوق سے محروم کیا ہے۔ اگرچہ ریاست نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے لیکن مولوی اس حق کو شرعی نہیں مانتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بلوچ قوم پاکستان سے آزادی چاہتی ہے؟۔ یہ بہت بڑا سوال ہے اور اس پر بلوچ قوم تقسیم ہوسکتی ہے اور متفق بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن کیا عورت اپنے شوہر سے خلع لے سکتی ہے؟۔ بالکل لے سکتی ہے۔ ریاست نے بھی اس کو خلع کا حق دیا ہے اور شریعت نے بھی دیا ہے لیکن مولوی اس حق کو نہیں مانتا ہے۔ اگر عورت عدالت سے خلع لے لیتی ہے تو مولوی کا فتویٰ ہے کہ یہ خلع معتبر نہیں ہے۔ جب تک شوہر راضی نہ ہو تو عورت کو عدالت خلع نہیں دے سکتی ہے۔ بالفرض ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ریاست شوہر ہے اور عوام اس کی بیوی ہے اور بیوی کو عدالت پورا پورا حق دیتی ہے کہ وہ جدا ہوجائے ۔ لیکن ریاست نہیں مانتی ہے تو اس کو اپنا حق حاصل کرنے کیلئے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، بلوچ یکجہتی کمیٹی اورBLAوغیرہ مذہبی لوگ نہیں مگر بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی تو مذہبی طبقات ہیں۔ پاکستان کا مطلب کیاہے؟ لاالہ الا اللہ ! ۔ آرمی چیف سید عاصم منیر آج بھی یہی کہتا ہے لیکن یہ ایک فرد سے تو معاملہ نہیں بن سکتا ہے۔ آرمی چیف بدل جائے لیکن باقی ساری مشینری کھڑی ہو تو جس طرح ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بدل جانے سے بھی بلوچ نہیں بدلے گا اسی طرح ریاست کے ایک دوافراد کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
جس دن بلوچ قوم نے قرآن کی بنیاد پر مولوی کو بدل دیا تو نہ صرف اپنے پاکستان میں بلکہ ایران وافغانستان میں بھی بلوچ کو حقیقی آزادی مل جائے گی۔ جس کے اثرات پوری دنیا کے مسلمانوں اور عالم انسانیت پر بھی پڑیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گولی اور گالی سے زیادہ افہام وتفہیم سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
پاکستان اور دنیا کی سطح پر ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کے مرید جن میں کورکمانڈر سندھ جنرل نصیراختر اور آرمی چیف جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ کے علاوہ بہت سارے فوجی افسران شامل تھے ۔ مفتی تقی عثمانی کے استاذ ، دارالعلوم دیوبند کے فضلاء اور بڑے مدارس کے اساتذہ اور ائمہ مساجد کے علاوہ تبلیغی اور بہت بڑی تعداد میں مختلف طبقات کے لوگ شامل تھے۔ پشتون، پنجابی، سندھی، بلوچ اور مہاجر سب قومیتوں کے لوگ بھی تھے۔ لیکن آزمائش کے وقت سب کی اوقات کا پتہ چل گیامگر کچھ لوگ تمام قوموں میں ایسے نکلے جنہوں نے حالات کا مقابلہ کیا۔ فوجی ٹرکوں میں ہمارے ساتھیوں کو پکڑ کر پولیس تھانے لے جاتی تھی پھر تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایک انقلاب برپا کیا ہے۔
جب ایک مسجد پر قبضہ ہورہاتھا تو جن لوگوں نے ہم پر فتوے لگائے تھے اس مسجد کے امام سے ہمارا کہا گیا کہ ”اگر یہ لوگ ساتھ دیں تو یہ مسجد بچ سکتی ہے”۔ جب وہ ہمارے پاس آیا تو ہم نے نہیں کہا کہ جنہوں نے بیہودہ فتوے دئیے ہیں اب مدد مانگنے کیلئے آگئے؟۔ البتہ ان کو جماعت کی بنیاد پر نہیں ذاتی طور سے مد د کا وعدہ دیا۔ وہاں پہنچے تو مسجد میں تقریر کی اور لوگوں سے کہا کہ کچھ غیرت کرو۔ مسجد کے امام اور اپنی مسجد کو بچاؤ۔ اس دوران ایک فوجی کیپٹن اور اس کے ساتھ سنی تحریک کے معروف کردار وحید قادری آگئے۔ کیپٹن نے بھی ہری پگڑی پہن رکھی تھی۔ پھر اس نے کہا کہ میں کیپٹن ہوں اور ہمیں اپنے ساتھ لے گیا۔ جب ان سے بات ہوئی تو میں نے کہا کہ ” یہ سار ا فساد ہماری ریاست اورحکومت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک مسلک کے لوگ مسجد بنالیتے ہیں اور پھر دوسرے مسلک کے لوگ حکومت وریاست کی طاقت سے یا اپنی اکثریت اور طاقت سے قبضہ کرلیتے ہیں۔ جس میں فتنہ وفساد برپا ہوتا ہے اور حقدار بھی اپنے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اگر ریاست کی یہ پالیسی ہو کہ جہاں جس مسلک کی اقلیت ہو تو وہاں پر اس کو مسجد کی تعمیر کی اجازت نہ ہو یا پھر اس کی رجسٹریش ہو اور دوسرے اس پر قبضہ نہ کرسکیں تو یہ معاملات نہیں بگڑیں گے”۔ اس دوران فولڈنگ والی کرسی میرے نیچے بیٹھ گئی اور میری ایک ہاتھ کی انگلی بھی کچل گئی۔ فوجی نے مرہم پٹی کی اور ہمیں عزت کیساتھ چھوڑدیا اور پھر کراچی میںمساجد کی رجسٹریشن بھی ہونے لگی اور فسادات کا مسئلہ حل ہوگیا۔ اگر لاٹھیوں اور گولی کا سلسلہ چلتا رہتا تو کراچی کی مساجد میں ایک نہ رکنے والے فساد کی وجہ سے نقصان جاری رہتا۔
ہم مسلک ، قوم اور ملک کی بنیاد پر کسی کا ساتھ دینے کے قائل نہیں ہیں بلکہ حق اور باطل ، ظالم اور مظلوم ، طاقتور اور کمزور کو دیکھ کر اپنی فطرت کے مطابق ہی ساتھ دیتے ہیں۔ باطل ، ظالم اور طاقتور کا ساتھ دینا بہت فضول سی بات ہے۔
جب عورت مارچ کی سبھی مخالفت کررہے تھے تو بھی ہم نے اپنی اوقات کے مطابق ساتھ دیا۔MNAعلی وزیر کی طرح تقریر کرکے رفو چکر نہیں ہوئے بلکہ میڈیا اور میدان میں بھرپور ساتھ دینے کیلئے آخری وقت تک ساتھ دیا۔ ان پر پریس کلب سےDچوک جاتے ہوئے حملہ ہوا تو بھی ہمارے ساتھی ساتھ تھے اور جب واپسی گاڑی اٹھانے کیلئے جارہے تھے تو بھی ان کے ساتھ رہے۔
اپنے اخبار اور کتاب میں بھی ان کو بھرپور کوریج دی۔ اگر وہ ہمارا مشن لیتے تو عورت کے حقوق کی حقیقی جنگ بھی جیت چکے ہوتے مگر انکے شاید این جی اوز کے بھی کچھ اپنے مسائل ہیں۔ ان کوسنجیدہ حقوق سے زیادہ کچھ اور آزادی چاہیے لیکن وہ کمزور اور مظلوم تھیں اسلئے ہم نے بھرپور ساتھ دیا تھا۔PTMکے مشکل وقت میں بھی ہم نے میدان میں اخبار میں بھرپور ساتھ دیا مگر تعصبات کو ہوا دینا اچھا نہیں لگتا ہے۔ لوگوں کو اپنی قوم ، اپنے علاقہ اور اپنی زبان سے محبت ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اسلام بھی اس کی ترویج کرنے کاحکم دیتا ہے مگر اپنی قوم سے محبت اور دوسرے سے نفرت غلط ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان چلنا دنیا میں پل صراط اور کان کے پردے سے زیادہ باریک ہے۔
میرا بھائی ذوالفقار علی بھٹو سے بڑی محبت رکھتا تھا ،لیہ پنجاب میںSDOواپڈا اور پھر ایکسین کے عہدے پر ترقی ہوئی تو اپنے آفس میں تین نوکریوں پر وہاں محسود قوم کے افرادواپڈا دفتر لیہ پنجاب میں لگائے۔باپ عبدالرحیم (ادرامی)چوکیدار،ایک بیٹا جلات خان چپڑاسی، دوسرا سٹور چوکیدارلگادیاتھا۔ لیکن جب ٹانک شہر میں تبادلہ ہو ا تھا تو ایک سرائیکی بھی بہت مشکل سے لگایا تھا جس کی اوپر سے سفارش تھی مگرسفارش کا لحاظ نہیں رکھنا تھا بلکہ حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے چپڑاسی لگادیا۔ وہMSCکیمسٹری تھا اور اس کا دوسرا بھائیMSCفزکس تھا جو میرے سکول میں ٹیچر تھا ۔حالانکہ ٹانک شہر اور اس کے آس پاس کا علاقہ بھی اصل میں سرائیکیوں کا ہے۔ میرے بھائی نے کہا کہ کالے سرائیکی کی جگہ سرخ وسفید پشتون کو لگاتا لیکن حافظ تھا اسلئے اس کو نوکری دے دی۔ ہمارے خاندان کا تعلق قوم پرست جماعتوں سے بھی نہیں رہاہے لیکن پھر بھی یہ ہوگیا۔
قرآن میں انصار ومہاجرین کی تعریف ہے لیکن خلافت کے مسئلے پر انکے اختلاف کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انصار میں اوس و خزرج اور قریش میں بنوامیہ اور بنی ہاشم میں ٹھن گئی تھی۔ بنوامیہ و بنوعباس کی خلافت کا سلسلہ تعصبات کا نتیجہ تھا۔ شیعہ اور سنی فرقوں کے مستقل اپنے اپنے عقائد اور نظریات ہیں۔
حامد میر کو اللہ خوش رکھے۔ بلوچ خواتین کیلئے بہت بڑا سہارا بن گئے ۔جس کی وجہ سے لسانی نفرتوں پر مثبت اثر پڑا ہے۔ بلوچ کی نفسیات کو سمجھے بغیر اس کی سپورٹ اچھی بات ہے لیکن اس کی نفسیات کو سمجھ کر پھر سپورٹ کرنے کا مسئلہ ہی کچھ اور ہے۔ حامد میر نے کہا کہ جب مجھے گولیاں ماری گئیں تو میرا گارڈ بلوچ تھا اور ڈرائیور پٹھان تھا۔ پٹھان نے کہا کہ لیاقت ہسپتال لے جاتے ہیں وہ قریب ہے اور بلوچ نے کہا کہ یہ وہاں بھی پیچھا کریںگے۔ میں نے کہا کہ پھر آغا خان لے جاؤ۔ جب میری گاڑی یوٹرن لے رہی تھی تو مجھے ٹوٹے ہوئے شیشہ کی وجہ سے قریب سے پیٹ میں گولی ماری گئی ”۔ حامد میر کو معلوم نہیں کہ لیاقت نیشنل بھی آغا خان کیساتھ بالکل لگاہوا ہے۔ پٹھانوں اور بلوچوں کو خوش کرنا اچھا ہے۔
حامد میر نے کہا ”خیر بخش مری فاطمہ جناح کے چیف سکیورٹی گارڈ تھے” اور اس خیر بخش مری کو ہی ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ اپنا آئیڈل سمجھ رہی ہے۔ خیر بخش مری ایک نواب تھا ۔ سردارسے بڑا درجہ نواب کا ہوتا ہے اور نواب سے بڑا درجہ خان کا ہوتا ہے۔ رحمن ڈکیٹ بینظیر بھٹو کا چیف سکیورٹی گارڈ تھا اورپیپلزپارٹی نے اس کو ”سردار عبدالرحمان بلوچ” کا سٹیٹس دیا تھا۔ بلوچ اس کو سردار تو نہیں سمجھتے تھے مگر بینظیر بھٹو کو سکیورٹی فراہم کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ڈکیت اورنواب میں بڑا فرق ہے۔ نواب خیر بخش مری کا دادا بھی نواب خیر بخش مری اول تھا اور اس نے انگریزکی فوج کے خلاف تحریک اٹھائی تھی کہ بلوچ بھرتی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ خان آف قلات نے اس کے خلاف بغاوت کے مقدمات قائم کئے۔ انگریز اور خان آف قلات کی قربتیں تھیں۔ نواب خیر بخش مری کے دادا خیربخش مری انگریز کے باغی تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو نواب آف قلات نے اپنا ملازم لیگل ایڈوائزر رکھا تھا۔ جنرل ایوب خان وردی میں فاطمہ جناح کیخلاف الیکشن لڑرہاتھا تو بلوچ ،پشتون، پنجابی، سندھی اور بنگالیوں کی مشترکہ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور نواب خیربخش مری پارٹی کے بڑے اہم رہنما تھے اور فاطمہ جناح کو فوج سے تحفظ دیا تھا ۔ اس کو چیف سکیورٹی گارڈ کا نام دینا ان کی توہین ہے۔ ایک دوسرے بلوچ اہم رہنما غوث بخش بزنجو بابائے جمہوریت کہلاتے تھے۔ عبدالقدوس بلوچ کے رشتہ دار یوسف نسکندی ان سے کہتے تھے کہ جمہوریت چھوڑ دو اور بندوق اٹھاؤ۔ شیر محمد مری بندوق اٹھانے سے مایوس ہوکر بیٹھ گئے تھے جس کا سن 1980میںBBCپر انٹرویو موجود ہے۔ اور اس نے کہا تھا کہ ایک دن پوری بلوچ قوم پاکستان کے خلاف اٹھے گی۔
ہمارے اخبار اور کتابوں میں پروفیسر غفور احمد، ڈاکٹر اسرار، جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف ، صوبائی امیر مولانا امان اللہ ، جمعیت علماء پاکستان شاہ فرید الحق ، علامہ طالب جوہری سے لے کر بڑے چھوٹے مدارس ، ضلع ٹانک کے اکابر علماء ، چیف سیکرٹری سندھ ، آئی جی پولیس ، ڈی آئی جی اور تمام مکاتب فکر اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کا بیان چھپتا تھا لیکن جب یوسف نسکندی کا بیان چھپ گیا تو میرے بھائی پیرنثار نے کہا کہ صرف اسی شخص نے تمہاری تحریک کو سمجھ لیا ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ بلوچ کو سادہ مت سمجھو ۔ ان کی تحریک بہت مضبوط اور نظریاتی بنیادوں پر کھڑی ہے اور یہ چیف سکیورٹی گارڈ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ پاکستان کی ریاست نے جبری غلام بنایا ہے اور جان چھڑانی ہے۔
ہمارے قریب میں جو شیرانی قبیلہ ہے وہ کان کو ہاتھ لگانے کو برا سمجھتا ہے۔ پنجابی کھلے عام پدو مارنے کو برا نہیں سمجھتے اور دوسرے سمجھتے ہیں لیکن ان چیزوں کو تعصبات کا رنگ بھی نہیں دینا چاہیے اور ایک دوسرے کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو یتیم کی طرح رل نہیں گیا بلکہ خوشحال ہوگیا۔ بلوچ اور سندھی انگریز کی فوج میں بھرتی کے خلاف تھے۔ یوسف مستی خان سندھی بلوچ اتحاد کے حامی اور خیربخش مری کے ساتھی تھے۔تربت و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پنجابی اور پشتون اسلئے مارے گئے کہ قوم پرست سمجھتے تھے کہ یہ جاسوس کا کام کرتے ہیں۔ پٹھان اور پنجابی انگریز کی فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ اگر اسلام کی بنیاد پر کچھ معاشرتی مسائل حل ہوجائیں تو پھر قوموں اور ریاست کی تمام مشکلات حل ہوسکتی ہیں۔ کسی کو شوق نہیں ہے کہ حلالہ کی لعنت سے اپنی بیگم کی عزت خراب کرے لیکن جب مذہب مجبور کرتا ہے توپھر پٹھان، بلوچ، پنجابی ، سندھی اور مہاجر سب بے غیرتی پر مجبور ہوتے ہیں۔
قرآن وسنت میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے ۔ گھر کا ماحول ایک چھوٹی ریاست کا ہوتا ہے اور جب صنف نازک عورت کو تحفظ قرآن نے دیا ہے مگر ہمارا مولوی اور ہمارامعاشرہ عورت کے حق کو نہیں مانتا۔ شوہر عورت کو چھوڑنے کے بعد ماں کا لخت جگر چھین لیتا ہے۔ جب تک سماج کو مردوں کی غلط بالادستی سے عورتوں کو تحفظ نہیں ملتا ہے تو قرآن کے مطابق معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا ہے ۔
عورت صنف نازک ہے مگر مضبوط اعصاب کی مالک بھی ہے اور اس سے مردوں کے مقابلے نرمی اور عزت سے پیش آنے کا معاملہ بھی فطری ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچ قومی تحریک کا رخ بدل دیا ہے۔ اگر حضرت عائشہ نے حضرت علی کے خلاف حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے کا مطالبہ نہیں کیا ہوتا تو لوگ حضرت عثمان کی مظلومیت کے بجائے اس کے فسادی ہونے پر یقین کرتے اور اگر کربلا کے بعد حضرت زینب حسین کی مظلومیت پر آواز نہ اٹھاتیں تو امام حسین پر بھی فسادی کے الزام لگتے ،اسلئے کہ حضرت علی ، حسن اور بعد کے ائمہ اہل بیت نے وہ اقدام نہیں اٹھایا جو حسین نے اٹھایا۔ علماء نے باغی قرار دینا تھا۔
اہل سنت کے امام ابوحنیفہ ، مالک، شافعی اور ابن حنبل نے مقتدر طبقے سے مار کھائی لیکن شاگردوں نے اسلام کو بگاڑ دیا۔ جب تک نظام درست نہیں ہوگا تو قربانیاں تاریخ کا حصہ بن سکتی ہیں لیکن معاشرے کو ظلم وجبر سے نکالنا مشکل ہے اور جب نظام کو بنیاد سے ٹھیک کیا جائے تو پوری دنیا میں انقلاب آسکتا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بلوچستان میں دہشت گرد مسلح تنظیمیں مسئلہ ہیں۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ

بلوچستان میں دہشت گرد مسلح تنظیمیں مسئلہ ہیں۔ وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ

(اسلام آباد) وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پریس بریفنگ کے دوران جواب دیتے ہوئے بہت کچھ کہا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں بلوچستان سے آئے ہوئے احتجاجی بلوچوں سے ہماری بھی ہمدردیاں ہیں۔ بلوچستان میں ؒٓBLAوغیرہ کی دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ ان دہشت گردوں کے لواحقین اور بچے بھی ہوتے ہیں اور اپنے دہشت گرد باپ، بیٹے، بھائی اور رشتہ داروں سے محبت ہمدردی ہوتی ہے۔ ہمیں اس چیز کا بھی احساس ہے۔ جو لوگ مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں اور ان کے حق میں کالم لکھ رہے ہیں۔ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کھل کر پھر بندوق اٹھائیں اور دہشت گردوں کیساتھ مل کر ریاست کے خلاف لڑیں۔سن1970میں کالم نگار (نجم سیٹھی) ان کیساتھ لڑنے کو پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے جن کا میں نام نہیں لوں گا۔
ہمارا عدالتی نظام ایسا ہے کہ ہزاروں افراد کے قاتلوں کو سزا نہیں دے سکا۔ نگران وزیراعظم کا یہ کام نہیں کہ نظام کو درست کرے۔ دہشتگردوں نے بلوچوں کو بھی مارا۔یہ مجھے بھی ماردیں گے۔ دو فیصد بیرونی فنڈز سے دہشتگردی کرتے ہیں۔98فیصد بلوچ ریاست کیساتھ ہیں۔ریاست نمٹ سکتی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv