پوسٹ تلاش کریں

سورة الحجرکی ان آیات میں قوم لوط اور دیگر اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب کا وقت آگیا اصحاب حِجرعقل والوں کو کہتے ہیں۔

سورة الحجرکی ان آیات میں قوم لوط اور دیگر اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب کا وقت آگیا اصحاب حِجرعقل والوں کو کہتے ہیں۔

قال ھٰؤلآء بناتی ان کنتم فاعلینOلعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھونOفاخذتھم الصیحة مشرقینO فجعلنا عالیھا سافلھا وامطرنا علیھم حجارة من سجیلٍOان فی ذٰلک لاٰیات للمتوسلینOوانھا لبسبیل مقیمOان فی ذٰلک لاٰےةً للمؤمنینOوان اصحاب الایکة لظالمینOفانتقمنا منھم وانھا لبامام مبینOولقد کذب اصحاب الحجر المرسلینOواٰتینا ھم اٰیاتنا فکانوا عنھا معرضیںOوکانوا ینحتون من الجبال بیوتًا اٰمنینOفما اغنٰی عنھم ما کانوا یکسبونOو ما خلقنا السمٰوٰت والارض و ما بینھما الا بالحق وان الساعة لاٰتیة فاصفح الصفح الجمیلOان ربک ھو الخلاق العلیمOولقد اٰتیناک سبعًا من المثانی و القرآن العظیمOولاتمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجًا منھم و لاتحزن علیھم واحفض جناحک للمؤمنینOوقل انا النذیر المبینOکما انزلنا علی المقتسمینOالذین جلعواالقرآن عضینOفو ربک لنسئلھم اجمعینOعما کانو یعملونOسورة الحجرکی ان آیات(87تا97)
”(حضرت لوط نے شرپسندوں سے ) کہا کہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کرنے والے ہو۔ (اے محبوب خداۖ) تیری زندگی کی قسم ! کہ بیشک یہ لوگ نشے میں بالکل اندھے ہوچکے تھے۔ پھر صبح کے وقت ان کو عذاب کی چیخ نے پکڑلیا۔ ان کے اُوپر والوں کو نیچے تلپٹ کردیااور ان پررجسٹرڈ سے پتھروں کی بارش کردی۔ ( جس طرح اللہ نے فرمایا کہ کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ کتاب میں لکھا ہوا موجود ہوتا ہے)اس میں وسیلہ پکڑنے والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں( اللہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرواور اس کی راہ میں جدوجہد کرو، ہوسکتا ہے کہ تم فلاح پاؤ۔ المائدہ آیت35)اور بیشک یہ راستے پر قائم ہے۔ بیشک اس میں مؤمنوں کیلئے ضرور نشانی ہے۔ اور بے شک زر خیز باغات والے بھی ظالم تھے۔ پس ان سے ہم نے انتقام لیا اور وہ مین سڑک پر تھے۔اور اہل عقل ودانش نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا۔اور ہم نے انہیں آیات دی تھیں لیکن انہوں نے اس سے اعراض کیا۔ اور وہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے، امن میں رہتے ہوئے۔ (تورابورا بنکروں کی طرح)لیکن جو انہوں نے حاصل کیا تھا وہ ان کے کام نہیں آیا۔ اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں نہیں بنائی مگر حق کیساتھ۔ اور بیشک وقت (انقلاب آنے والا ہے۔ مکہ فتح ہوگا اور سپرطاقتوں کو شکست ہوگی) آنے والا ہے۔پس در گزر کرو ،بہت اچھے انداز کا درگزر۔ ( فتح مکہ کے دن کسی کی ملامت اور بے عزتی نہیں فرمائی) بیشک تیرا رب زیادہ علم رکھنے والا پیدا کرنے والا ہے ( اس نے مؤمنوں ، صدیقوں اور کافروں و جھٹلانے والوں کی شکلیں حکمت سے بنائی ہیں) اور ہم نے آپ کو7(آیات سورہ فاتحہ ) دہرائی جانے والی اور قرآن عظیم عطاء کردیا ہے۔ اور آپ اپنی آنکھیں مت پھیلائیں جو ہم نے ان کو دنیاوی نعمتیں دی ہیں بیگمات ان میں سے۔( یہ سورة مکی ہے۔ نبی ۖ کے پاس ایک زوجہ حضرت خدیجہ ہی تھیں) اور ان پر غم مت کھاؤ ( کافروں کیلئے زیادہ غم کھانے کی ضرورت نہیں کہ حق کو کیوں قبول نہیں کرتے) اور مؤمنوں کیلئے اپنے پر بچھا دیجئے۔اور لوگوں سے کہہ دیں کہ میں کھلا ڈرانے والا ہوں۔ جیساکہ ہم نے بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو۔ جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کردئیے۔ ( یہ قرآن میں آئندہ والوں کو خبر دی گئی ہے ۔ مثلاً طلاق وخلع کی آیات کا کباڑہ کردیا۔ سورۂ تحریم کے ہوتے ہوئے بیوی کو حرام کہنے پر متضاد مسالک بنالئے۔نبی ۖ نے صحابہ سے فرمایا کہ قرآن میں پہلوں کی خبریں بھی ہیں اور آپ کی بھی ہیں اور بعد میں آنے والوں کی بھی ہیں ) پس تیرے رب کی قسم کہ اب سب ضرور پوچھیں گے کہ وہ کیا عمل کررہے تھے؟۔
قرآن کی اس سورہ حجر میں پہلے والوں کا نقشہ بھی ہے کہ جن کو عقل آگئی تھی مگر آیات کو جھٹلایا اورحجر عقل کو کہتے ہیں۔ آج امت مسلمہ نے عقل کی بنیاد پر بہت ترقی کرلی ہے اور اللہ کی آیات کو سمجھنا ان کیلئے مشکل نہیں مگر پھر بھی اعراض کررہے ہیں۔ جس کا منطقی نتیجہ انقلاب کی صورت نکلے گا اور اچھے درگزر کی تلقین بھی ہوگی۔ انشاء اللہ

اسلام کی نشاة اول میں مشرق کی سپر طاقت فارس اور مغرب کی سپر طاقت روم کو ہم نے فتح کیا تو آزاد خواتین کو بھی بہت سارے حقوق سے مالامال کردیا اور غلاموں اور لونڈیوں کو بھی بہت سارے حقوق دیدئیے تھے جس کی بدولت ہم دنیا میں واقعی نمبر1سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب یہودونصاریٰ اور ترقی یافتہ گلوبل ویلج نے مذہب اوررسم وروایت کے نام پر خواتین کش مسائل کا خاتمہ کردیا ہے اور مسلمان اب بھی مذہب اور علاقائی رسم وروایات کے نام پر عورت کیساتھ وہی مظالم روا رکھے ہوئے ہیں جن سے اسلام نے چودہ سوسال پہلے آزادکیا تھا۔
امام ابوحنیفہ و دیگر ائمہ مسالک نے فقہ وعقائد میں اختلاف رکھا اور قرآن وسنت کی حفاظت ایک بازیچہ اطفال بن کررہ گیا۔امام ابن تیمیہ نے چارمسلک کو فرقہ واریت قرار دیا لیکن ان کے شاگرد علامہ ابن قیم نے ”بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر”20اقوال کا اختلاف نقل کیا۔ کوئی اس کو ایک طلاق کہتا، کوئی اس کو تین طلاق، کوئی ظہار اور کوئی حلف کہتا تھا۔ حالانکہ قرآن وسنت میں تحریم کا مسئلہ بالکل واضح تھا لیکن پھر اتنے سارے مذاہب اور فقہی اختلافات کیسے آگئے ؟۔
سورة الحجرکی ان آیات(87تا97)میں قوم لوط اور دیگر اقوام کا ذکر ہے جن پر عذاب کا وقت آگیا۔ اصحاب حِجرعقل والوں کو کہتے ہیں۔ یہ سورة عقل والوں کے نام پر ہے۔ عقل والوں نے اللہ کی آیات سے اعراض کیا۔ یہ لوگ اتنی عقل ومہارت والے تھے کہ پہاڑوں کو تراش کر امن کیساتھ گھر بناتے تھے۔ لیکن پھرفجر میں چنگھاڑ نے گرفت میں لیا۔ اللہ نے ان آیات میں امت مسلمہ کو بھی خبردار کیا ہے کہ جب تم اپنی عقل اور کسی دور میں ترقی پر پہنچ جاؤ اور پھر بھی آیات کی طرف دھیان نہ دو تو پھر گرفت میں آسکتی ہے۔ جب لوگوں کے پاس عقل وترقی نہ تھی تو اپنی کم عقلی کے بدولت اس قرآن کے ٹکڑے کردئیے جس کی7آیات نماز کی رکعتوں میں دھراتے تھے۔ اللہ نے اسلئے واضح فرمادیا کہ
” جیسے ہم نے بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو ، جنہوں نے قرآن کے ٹکڑے کردئیے۔پس تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے ضرور پوچھیں گے۔ جو انہیں یہ عمل کئے تھے”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”قرآن میں پہلے والوں کی خبریں بھی ہیں اور آپ کی خبریں بھی ہیں اور بعدمیں آنے والوںکی خبریں بھی ہیں”۔
جب اسلام کی نشاة ثانیہ پاکستان سے ہوگی تو لوگ فرقہ واریت اور قرآن کا بٹوارہ کرنے والوں کو چھوڑ کر قرآن وسنت کو زندہ کریں گے۔ یہی عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگا۔ جب شاہ فیصل، قذافی ،صدام حسین،خمینی اور بھٹو جیسے لوگ موجود تھے تب بھی اسرائیل کو شکست نہیں دے سکے ۔ اب مفتی تقی عثمانی جو ایک مرغی ہے اس کے آذان دینے سے بھی فلسطین آزاد نہیں ہوگا۔ سودی نظام چھوڑ کر قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہونے اور ان پر عمل سے خلافت قائم ہوگی۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” سوانح قاسمی ” میں مولانا قاسم نانوتوی کی حیثیت ”امام الکبیر” کی قرار دی ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی کہتے تھے کہ میں نے حضرت امداد اللہ مہاجر مکی سے تقویٰ نہیں علم سے متأثر ہوکر بیعت کی ہے۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی نے کہا کہ میں حاجی امداد اللہ کے علم سے نہیں تقوی سے متأثر ہوں۔ دارالعلوم دیوبند کی دونوں بڑی جلیل القدر ہستیاں تھیں۔
مولانا قاسم نانوتوی نے اہل تشیع کے عام لوگوں کا اسلام کے بارے میں عقیدہ وعمل کو بالکل سچا اور درست قرار دیا مگر بعض خواص کے بارے میں بد عقیدہ اور گمراہی کی نشاندہی بھی فرمائی اور اس کیلئے زبردست حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا اسلئے کہ مغل بادشاہوں اور علماء کے خاندان میں شیعہ سنی کی رشتہ داریاں تھیں۔ جس حکمت عملی سے ہوسکے کہ اہل حق کا عقیدہ بھی محفوظ ہو اور شیعہ اپنے گمراہانہ عقائد بھی نہیں پھیلائیں کیونکہ بہت سارے شیعہ کا اعلان نہیں کرتے مگر عقیدہ وہی رکھتے تھے۔ جبکہ مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھ دیا ہے کہ شیعہ سے سنی لڑکی کے نکاح میں دو فتوے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کافر ہیں ۔ ان سے نکاح جائز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ مسلمان ہیں۔ ان سے نکاح جائز ہے اور نکاح کا حکم دونوں صورتحال کے مطابق ہوگا۔میری رائے پہلی والی ہے۔
آج دیوبندی مکتب دو فرقوں میں تقسیم ہے۔ پختونخواہ میں مناظروں نے ماحول کی عجیب کیفیت بنارکھی ہے۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی کے ایک شاگرد مولانا حسین علی تھے ۔ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری ان کے شاگرد تھے۔ دونوں حضرات نے قرآن کے تراجم عام کرنے کی بڑی خدمت کی ہے لیکن شرک کے فتوؤں سے غیر تو غیر اپنوں کو نہیں چھوڑا ہے اور یہی اچھی بات ہے لیکن مولانا حسین علی کی تقریری تفسیر مولانا غلام اللہ خان نے ”بلغہ الحیران” کے نام سے لکھی ہے۔ وہ مولانا غلام اللہ خان جس نے توحید کا ڈنکا بجادیا تھا مگر اس تفسیر میں لکھا ہے نعوذ باللہ من ذٰلک کہ ” میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ۖ گر رہے ہیں اور میں نے آپ ۖ کو تھام لیا”۔ اگر یہی بات کوئی اور لکھتا بلکہ اس طرح بھی لکھ دیتا کہ ”میں گر رہا تھا اور نبی ۖ نے مجھے تھام لیا ”تو اس پر شرک کا فتویٰ لگادیتے۔ اپنی غلط روش کو تبدیل کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
عقیدہ توحید اور معجزات وکرامات میں کوئی تضاد نہیں ہے لیکن یہ دنیا کی ہی پل صراط ہے۔ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزات سے نوازنے کا ذکر ہے لیکن وہ پھر بھی اندر اندر سے خوفزدہ اور فرعون سے بھاگ رہے تھے؟۔ کوئی مشرک ہوتا تو پھر فرعون سے بھاگنے کی ضرورت ختم کردیتا اور توحید کے منافی یہ معجزہ ہوتا تو پھر اللہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بہت سارے معجزات کا ذکر کیوں فرماتا؟۔ شرک سے بڑا گناہ نہیں۔ اہل تشیع جب حضرت علی اور ائمہ اہل بیت کو مظلوم سمجھتے ہیں تو شرکیہ عقیدہ گنجائش ختم کردیتا ہے۔ معجزہ اور کرامت کا عقیدہ بھی شرک نہیں ہے ۔ حضرت ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ مجھے مردہ زندہ کرکے دکھاؤ تو اللہ نے پرندوں کو ٹکڑے کرنے کا حکم دیا اور پھر زندہ کرکے دکھا دئیے۔ توحید اور معجزہ سے عقیدت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔غلام احمد پرویز نے احادیث کے چکر میں قرآنی آیات کی وہ تأویل پیش کردی کہ اس سے قرآن کی آیات بالکل واضح انکار کرنا بھی کم نہیں تھا۔
علماء دیوبند میں مولانا اشرف علی تھانوی نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا مشن آگے بڑھایا اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولانا قاسم ناتوتوی کا مشن آگے بڑھایا تھا۔ شیخ االہند کے مشن کو مولانا محمد الیاس نے تبلیغی جماعت کی شکل میں ہی آگے بڑھایا تھا۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا نے تصوف کا سلسلہ آگے بڑھایا لیکن شیخ الحدیث کے خلفاء اور تبلیغی جماعت میں بہت دوری آگئی۔ تبلیغی جماعت کے مراکز رائیونڈ اور بستی نظام الدین بھی تقسیم ہوگئے۔ مولانا محمد الیاس اور مولانا اشرف علی تھانوی کے باقیات صالحات میں حضرت حاجی محمد عثمان کی حیثیت بھی بالکل ریڑھ کی ہڈی کی تھی۔ حاجی محمد عثمان سے تبلیغی جماعت، دیوبندی ، اہلحدیث ، بریلوی اور شیعہ سبھی متأثر تھے۔ خانقاہ میں لوگوں کے عقائد ونظریات بالکل صحیح ہورہے تھے۔ پنج پیری بھی آپ سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ پاک فوج کے بڑے افسران بھی بیعت تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے فضلاء اور کراچی وپاکستان کے مدارس ومساجد سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی بیعت تھی اور مدینہ منورہ کے سرکاری عربی افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے اور مصر کے عربی عالم بھی بڑی عقیدت ومحبت سے فتوؤں کے بعد حاجی عثمان کے محافل سے استفادہ کردہ کرتے تھے اور انہوں نے کاغذات عربی میں منتقل کرنے کا بڑا کام بھی کیا۔ جب فتوؤں کے بعد حاجی عثمان عمرے پر تشریف لے گئے تو جامعہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن نے ائیرپورٹ پر استقبال کیا اور کہا کہ خواب میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے حکم دیا کہ حاجی محمد عثمان ائیر پورٹ پر آرہے ہیں ،ان کا استقبال کرو۔ حاجی عثمان کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
وہ پر کیف جلوے کے رنگین مناظر نظر میں سمایا تو اچھا نہ ہوگا
گزر جا ہر اک شئے سے دامن بچاکر کہیں دل لگایا تو اچھا نہ ہوگا
غم نیستی ہو کہ نیرنگ مستی تخیل پہ چھایا تو اچھا نہ ہوگا
کوئی بھی نقش ہو عالمِ ما سواء کا تصور میں آیا تو اچھا نہ ہوگا
جھکایا ہے جس سر کو در پہ ہمارے کہیں پر جھکایا تو اچھا نہ ہوگا
کہیں بھول کر غیر کے نقش پاکو جبیں سے لگایا تو اچھا نہ ہوگا
حقیقت کی پنہاں سی بھی ایک جھلک کو فسانہ بنایا تو اچھا نہ ہوگا
ہم ہی ہم ہیں باطن میں لیکن ظاہر یہ پردہ اٹھایا تو اچھا نہ ہوگا
وہ نغمہ جو پچھلے پہر ہم نے سنایا کسی کو سنایا تو اچھا نہ ہوگا
وہ جلوہ جو چھپ کر کبھی ہم دکھائیں تعین میں لایا تو اچھا نہ ہوگا
کسی ڈھنگ سے رہ ، کسی حال میں رہ اگر ہمیں بھلایا تو اچھا نہ ہوگا
ہماری عطا کی ہوئی بے خودی سے کبھی ہوش آیا تو اچھا نہ ہوگا
ہزاروں مصائب ہیں راہ طلب میں اگر ہچکچایا تو اچھا نہ ہوگا
ہو کچھ بھی ہو جو قدم اُٹھ گیا ہے وہ پیچھے ہٹایا تو اچھا نہ ہوگا
تجھے کیا ملا، کیوں ملا، کس نے بخشا کہیں ذکر آیا تو اچھا نہ ہوگا
جو ظاہر میں باطن کی کیفیتوں کا اشارہ بھی پایا توا چھا نہ ہوگا
یہ کہہ کر انہوں نے مجھے راز سونپا کسی کو بتایا تو اچھا نہ ہوگا
جو آنکھوں سے ظاہر ہوا توہی جانے جو ہونٹوں تک آیا تو اچھا نہ ہوگا
علامہ اقبال نے کہا: ”دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلادے”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا رشید احمد گنگوہی نے غیرتمند دیوبندی مدارس کیلئے بڑا الگ فتویٰ جاری کیا ۔بے غیرتوں کیلئے الگ فتویٰ جاری کیا

مولانا رشید احمد گنگوہی نے غیرتمند دیوبندی مدارس کیلئے بڑا الگ فتویٰ جاری کیا ۔بے غیرتوں کیلئے الگ فتویٰ جاری کیا

فتویٰ نمبر1غیرتمندوں کیلئے
جب علماء خود حلالہ سے بچنے کیلئے دلیل طلب کریں تو یہ فتویٰ دیتے ہیں۔
کتاب الطلاق کے مسائل
ایک مجلس میں تین طلاقِ مغلظ ہیں
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء محققین شریعت بیضاء اس مسئلہ میں کہ طلاق ثلاثہ جلسۂ واحدہ میں دفعتہ واحدہ یک لخت کے عند الشرعہ ملت بیضاء میں حرام و ممنوع و بدعت ہے۔ اگر کوئی شخص بایں ہیبت دیوے تو رجعت حالت مذکورِ بالا میں احادیث صحیحہ ہوسکتی ہے یا نہیں؟۔ یا باقاعدہ فقہاء ائمہ احناف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کہ عند الضرورت بہ حسب مذاہب دیگر رجوع کیا جاتا ہے چنانچہ مواقع کثیرہ عدیدہ میں یہ امر مسلم اور جاری ہے۔ خاص کہ مسئلہ ھٰذا میں بھی۔ کذا افتاہ مولانا محمد عبد الحئی المرحوم الکھنوی فی مجموعة الفتاویٰ و کذا فی مسک الختام فی شرح البلوغ المرام نقلہ عن الائمة الحنفیة الرحمہم اللہ تعالیٰ بینوا بالحق و الصواب تواجرو بیوم الفتح و الحساب (اسی طرح مولانا عبد الحئی مرحوم لکھنوی نے مجموعہ فتاویٰ میں فتویٰ دیا ہے اور اسی طرح مسک الختام شرح بلوغ المرام میں ہے۔ جس کو ائمہ احناف رحمہم اللہ تعالیٰ سے نقل کیا ہے۔ حق اور صواب بیان فرمائیے اور روز فتح و حساب اجر حاصل فرمائیے)۔
جواب: ایک مجلس میں تین طلاق دے کر خاوند رجوع کرسکتا ہے۔ کیونکہ حدیث صحیح ہے کہ آنحضرت ۖ اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے شروع زمانہ خلافت میں بھی دستور تھا چنانچہ ابن عباس کی حدیث مندرجہ ذیل صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔ کان الطلاق علیٰ عہد رسول اللہ ۖ و ابی بکر و سنتین من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن خطاب ان الناس قد استعجلوافی امر کانت لہ فیہ اناء ة فلو امضیناہ علیھم فامضاہ علیھم ”حضرت عمر نے جو تینوں کو تین طلاق قرار دیا تو یہ حکم ان کا سیاسی تھا شرعی نہ تھا۔ کیونکہ حضرت عمر کو منصب شریعت نہ تھا۔ و اللہ اعلم بالصواب۔ راقم ابو الوفاء ثنا ء اللہ کفا اللہ امرتسری، ثناء اللہ محمودی الجواب صحیح، ابو تراب محمد عبد الحق۔ جمہور کا تو مذہب یہی ہے کہ تین طلاق پڑ جاتی ہیں مگر بعض محققین جن میں بعض صحابہ، بعض تابعین بھی شامل ہیں فرماتے ہیں کہ تین نہیں بلکہ ایک ہی طلاق ہوگی۔ ان کی دلیل قوی ہے پہلوں کے ساتھ کثرت رائے ہے۔ احمد اللہ ابو عبید محدث امرتسری۔ یہ فتویٰ موافق مذہب بعض اہل علم ازصحابہ و تابعین و محدثین و فقہاء کے ہے۔ جمہور علماء از صحابہ کرام و تابعین و محدثین و فقہاء اس فتویٰ کے خلاف ہیں۔ جمہور کا مذہب اسلم ہے ۔ احتیاط کی رُو سے اور پہلا مذہب قوی ہے دلیل کی رُو سے۔ عبد الجبار بن عبد اللہ الغزنوی
فتاویٰ رشیدیہ (کامل)، صفحہ نمبر461۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی

فتویٰ نمبر2بے غیرتوں کیلئے
جب تبلیغی جماعت والے فتویٰ مانگتے ہیں تو بے غیرت بنانے کیلئے یہ فتویٰ دیتے ہیں
سوال: زید نے اپنی عورت کو حالت غضب میں کہا کہ میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی۔ پس اس تین بار کہنے سے طلاق واقع ہوں گی یا نہیں؟ ۔ اور اگر حنفی مذہب میں واقع ہوں اور شافعی میں مثلاً واقع نہ ہوں تو حنفی کو شافعی مذہب پر اس صورت خاص میں عمل کرنے کی رخصت دی جائیگی یا نہیں؟ وھو المطلوب اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک تین طلاق ہوں گی اور بغیر تحلیل کے نکاح درست نہ ہوگا مگر بوقتِ ضرورت کہ اس عورت کا علیحدہ ہونا اس سے دشوار ہو اور مفاسدِ زائدہ کا خطرہ ہو۔ تقلید کسی اور امام کی اگر کرے گا تو کچھ مضائقہ نہ ہوگا۔ نظیر اس کی مسئلہ نکاح زوجہ مفقود و عدت ممتدة الطہر موجود ہے کہ حنفیہ عند الضرورت قول مالک پر عمل کرنے کو درست رکھتے ہیں چنانچہ رد المختار میں مفصلاً مذکور ہے لیکن اولیٰ یہ ہے کہ وہ شخص کسی عالم شافعی سے استفسار کرکے اس کے فتوے پر عمل کرے۔ حررہ محمد عبد الحئی لکھنوی۔ ابو الحسنات عبد الحئی
جواب:تین طلاقیں اس صورت میں واقع ہوگئیں سوائے حلالہ کے کوئی تدبیر اس کی نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ الاحقر بندہ رشید احمد عفی عنہ گنگوہی
فتاویٰ رشیدیہ (کامل) ، صفحہ نمبر462،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی
محمد علی: کارخانہ اسلامی کتب ، خان محل۔1151/9، دستگیر کالونی۔ کراچی
تبلیغی جماعت اپنے مراکز میں اعلان کردیں کہ مولانا الیاسکے پیر مولانا رشیداحمد گنگوہی کے فتاویٰ رشیدیہ کے پہلے فتوے پر عمل کریں گے اسلئے کہ حلالہ وہ لعنت ہے جس میں بہت بڑی بے غیرتی ہے اور اس میں اللہ کا حکم اور کامیابی کا یقین نہیں نظر آتا ہے۔پورا اخبار پڑھ کر پوری دنیا میں علم کی روشنی عام کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دو اصول قرآن وسنت پر اتفاق ہوتو باقی دو پر ہوجائیگا

دو اصول قرآن وسنت پر اتفاق ہوتو باقی دو پر ہوجائیگا
پہلا:قرآن دوسرا:سنت تیسرا:اجماع چوتھا:قیاس

جاء البرد والجبات ”سردی آئی جبوں کیساتھ” ۔شیعہ کے امام غائب ہیں اپنی کتاب کیساتھ۔اسلئے شیعہ خود متفق نہیں ہوسکتے۔ البتہ یہ بالکل غلط ہے کہ پہلے اپنا مسلک پیش کیا جائے اور پھر قرآن وسنت کو اس پر قربان کیا جائے۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ۖ وابوبکر کے دور اور عمر کے ابتدائی دو سال میں اکٹھی تین طلاق کو ایک سمجھاجاتا تھا۔ پھر عمر نے اکٹھی تین طلاق پر تین کا حکم جاری کیا۔ صحیح مسلم کی اس روایت کو امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور محدثین، صوفیائ، مجاہدین اور فقہائ میں بڑا رتبہ رکھنے والے عبداللہ بن مبارک نے صحیح سند سے نقل کیا۔ حنفی مسلک کواس پر عمل کرنا چاہیے؟۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور علماء دیوبند کے حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب نے اپنی کتاب ” تقلید واجتہاد” میں لکھا ہے کہ حنفی مسلک کا اصل یہ ہے کہ کسی ضعیف حدیث کو بھی مسترد کرنے کے بجائے حتی الامکان اس کی تأویل اور تطبیق کی راہ نکال لی جائے۔
صحیح مسلم کی اس حدیث میں ایک بہت بڑے تضاد کی نشاندہی ہے کہ اکٹھی تین طلاق پر حضرت عمر نے ایک بہت بڑی بدعت کا آغاز کیا ۔ اس تبدیلی کے ثبوت کیلئے قرآن وسنت کی گردن مروڑنے کی جگہ تطبیق کی راہ نکال لی جائے۔
جب حنفی مسلک کے زعماء حضرت عمر کی تائید کرنے پر آتے ہیں تو قرآن کی گردن مروڑنے میں بھی شرم وحیاء ، غیرت وحمیت اور ضمیر کے نقاب سے لیکر اپنا چڈھا تک اتارلیتے ہیں اور الف ننگے ہوکر کھلی ندی میں قرآن کو قمیض اور سنت کو اپنی شلوار سمجھ کر دھوبی کی لکڑی سے کوٹتے ہیں۔ اللہ ان کو غرق کرے ۔ بہت غلط کرتے ہیں۔ تفسیر قرطبی وغیرہ میں اس قسم کے بدبودار گل کھلائے گئے ہیں۔
حالانکہ حنفی مسلک کا اصل تقاضا یہی تھا کہ نبی ۖ، حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے دور میں اس تفریق اور تضاد کو دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کرلیتے۔ کیا ان میں تطبیق نہیں ہوسکتی تھی؟۔ آئیے ہم تمہیں تطبیق بفضل تعالیٰ بتادیتے ہیں۔
رسول اللہ ۖ کے دور سے حضرت عمر کے ابتدائی دو سال تک جیسا مسئلہ بتایا گیا ہے ویسے ہی تھا کہ اکٹھی تین کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عمر نے تبدیلی کا آغاز کیا اور اس آغاز کی وجہ سے حضرت عمر اس لائق ہیں کہ دوست دشمن سب فاروق اعظم کا خطاب دل وجان سے دیں۔ یہ حق وباطل کا زبردست امتیاز تھا۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو اکٹھی تین طلاق دیتا تھا اور دونوں رجوع کیلئے راضی ہوتے تو تین طلاق ایک سمجھی جاتی تھی۔ عدت میں مرحلہ وار تین طلاقیں دی جاتی تھی مگر جب حضرت عمر کے دور میں ایک شخص نے تین طلاقیں دیں اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ فیصلہ عمر کے دربار میں آیا تو حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا۔ تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ اگرحضرت عمر یہ فیصلہ نہ دیتے تو عورت کی کسی صورت شوہر سے جان نہیں چھوٹ سکتی تھی۔
قرآن میں تو اللہ نے واضح فرمایا کہ طلاق کے بعد عدت میں باہمی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا۔ جو کہتے ہیں کہ عورت کی رضا کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے وہ قرآن کو ذبح کررہے ہیں۔ شیعہ ،اہلحدیث یہ مسئلہ قرآن وسنت ، اجماع وقیاس پر پیش کریں تو ان کو شکست فاش ہوگی۔ نبی ۖ نے تین طلاق تو دور کی بات ہے، ایک طلاق پر بھی شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق میں شوہر چھوڑتا ہے اور خلع میں عورت چھوڑتی ہے۔ طلاق کے بعد عورت صلح کیلئے راضی ہو تو شوہر کو صلح واصلاح ، معروف طریقے اور باہمی رضامندی سے عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش اللہ نے بار بارواضح کی ہے۔ اگرعورت راضی نہ ہوتو شوہر مذاق کی طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں کرسکتا۔ اسلئے کہ خلع اور طلاق میں عورت کے حقوق میں بڑا فرق ہے اور یہ مالی معاملہ ہے۔
کسی نے حضرت عمر پر حملہ کیا کہ حج وعمرہ کے اکٹھے احرام پر قرآن و سنت کے برعکس پابندی لگادی تو حنفی و شافعی مخالف و موافق ہوگئے۔حالانکہ یہ شرعی مسئلہ نہیں تھا بلکہ پسینہ کی بدبو سے بچنے کا معاملہ تھا لیکن اسلام کو اجنبی بنادیا گیا۔
روافض نے کہا کہ عمر نے قرآن کے منافی 3 طلاق کو ایک کرنے کی بدعت جاری کردی۔شافعی نے کہا کہ اکٹھی تین طلاق سنت، مباح اور جائز ہیں۔ دلیل یہ پکڑی کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد تین طلاق دیں۔ حنفی ومالکی نے کہا کہ اکٹھی تین طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیں۔ محمود بن لبید کی روایت ہے کہ کسی نے نبی ۖ کو خبر دی، فلاں نے بیوی کو اکٹھی تین طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوکرکھڑے ہوگئے ،فرمایا: میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔
روایات میں واضح ہے کہ طلاق والے عبداللہ بن عمر اورخبر دینے والے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق میں نبی ۖ کا غضبناک ہونا اور رجوع کا حکم دینا واضح ہے ۔سارا گند صحیح بخاری کے مصنف نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی وجہ سے ڈالا۔ کہ رفاعہ القرظی کی طلاق کو اکٹھی تین طلاق اور حلالہ کیلئے گمراہی کی بنیاد بنادیا۔ حالانکہ اکٹھی تین طلاق اور حلالہ کی لعنت کا اس سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔ کیانامرد حلالہ کرسکتا ہے؟۔
حسن بصری نے کہا۔پہلے شخص نے کہا کہ ابن عمر نے تین طلاق دی، پھر دوسرے نے20سال بعد کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔( مسلم) رائے بدلنے کی وجہ یہ تھی کہ جب لفظ حرام تیسری طلاق ہے تو ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے بھی بیوی کو حرام ہی ہونا چاہیے؟۔ نبی ۖ نے اسلام کے عنقریب اجنبی ہونے کی نشاندہی فرمائی تھی تو یہ تصدیق تھی کہ قرآن کو چھوڑ کر رائے عامہ اختلافات کا شکار ہوگئی۔ائمہ اہل بیت نے سمجھادیا تھا کہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق پر گواہ بناؤ تاکہ حلالہ کی لعنت کا نام ونشان نہ رہے۔مگر بعد کے شیعہ حضرات نے طلاق کے مسئلے کو غلط رنگ دیا۔ اہل سنت سدھر جائیں گے تو شیعہ بھی سدھریں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ عویمر عجلانی کی روایت میں لعان کے بعد رجوع معاملہ نہیں تھا اور محمود بن لبید کی روایت میں بھی رجوع کی کوئی وضاحت نہیں ہے اور جہاں تک نبی ۖ کے غضبناک ہونے کا تعلق ہے تو اس سے زیادہ مستند روایت صحیح بخاری میں نبیۖ کے غضبناک ہونے کے باوجود بھی عبداللہ بن عمر سے رجوع کا حکم فرمانا ہے۔ اور ساتھ ساتھ تین مرتبہ طلاق کو عدت کے تین مراحل کیساتھ مخصوص کرنے کی بھی نبیۖ نے وضاحت فرمائی لیکن قرآن وحدیث کی طرف رجوع اسلئے نہیں ہورہاہے کہ مذہب تجارت بن گیا ہے۔ لوگ مذہبی سیاست کو تجارت سمجھتے ہیں لیکن اس کے علاوہ مدارس بھی کاروبار بن گئے ہیں۔
مولانا عبیداللہ سندھی قرآن کی طرف رجوع چاہتے تھے اور علماء دیوبند نے قرآن وسنت کو زندہ کرنا چاہا مگر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حسام الحرمین سے تقلید پر مجبور کردیا،آج دیوبندی بریلوی مل کر اسلام کا نام روشن کرسکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل سنت کے اتحاد کیلئے قرآن وسنت سے رہنمائی !

اہل سنت کے اتحاد کیلئے قرآن وسنت سے رہنمائی !
امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد حنبل

اہل سنت والجماعت چاراماموں کی تقلید کرتے ہیں۔دیوبندی بریلوی کاان پر اتفاق ہے۔ اگرقرآن وسنت کا ایسا آئینہ دکھا دیاجائے کہ جس پر صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے درمیان مسلکی اختلافات کا معاملہ ختم ہوجائے تو پھر دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور اہل حدیث اتفاقِ رائے سے متحدو متفق اور وحدت کے راستے پر چل نکلیں گے۔ پھر اس پر شیعہ کے فرقوں کا اتحاد بھی ہوجائیگا اور دنیا کے سامنے قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل ہوگا تو رشدوہدایت کا راستہ کھلے گا۔
سعودی عرب سے شائع ہونے والی کتاب ”اجتہاد الخلفاء الراشدین ” کے اندر یہ لکھا ہے کہ ”اگر کوئی اپنی بیوی کو حرام کہے تو حضرت عمر کے نزدیک یہ ایک طلاق ہے اور حضرت علی کے نزدیک یہ تین طلاقیں ہیں”۔ جب خلفاء راشدین نے اس پر اختلاف کیا ہو ،ائمہ اربعہ نے بھی آپس میں اس پر اختلاف رکھا ہو، تابعین نے بھی اس پر اختلاف کیا ہو اور صحیح بخاری میں بھی اس پر اختلافات ہوں تو کیا یہ حق نہیں بنتا کہ قرآن وسنت کی طرف اچھی طرح توجہ کی جائے؟۔
پھر اگر قرآ ن وسنت سے تمام اختلافات ختم ہوں اور صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف کی جگہ اتفاق ہوجائے تو امت مسلمہ کیلئے خوشحالی کا مقام نہیں ہوگا؟ اورکیا پھربھی شیر سے بدکے ہوئے گدھوں کو بھاگنے کی کوئی ضرورت ہوگی؟۔
قرآن نے ایلاء اور طلاق کے بعد رجوع کیلئے باہمی صلح کو شرط قرار دیا۔ عورت راضی نہ ہو تو قرآن نے بار بار کہا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ۔ رجوع کیلئے باہمی رضا ، باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع شرط ہے۔ نبی ۖ نے ایلاء کے بعد رجوع کیا تو اللہ نے حکم دیا کہ رجوع سے پہلے اپنی ازواج کو طلاق کا اختیار دے دیں۔ اگر وہ رجوع نہیں کرنا چاہتی ہیں تو رجوع نہیں ہوسکتا ۔
وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور انکے شوہر اس عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں ”۔ (سورة البقرة:آیت:228) یہاں اللہ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کو واضح کیا۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ ( سورة البقرة:آیت:229) یہاں اللہ نے معروف کی وضاحت کیساتھ رجوع کو واضح کیا ہے ۔ اصلاح کی شرط اور معروف کیساتھ رجوع میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی عورت کی رضامندی ضروری ہے۔
مسلکِ حنفی صحابہ کرام کے فتوؤں میں تطبیق پیدا کرنا ہے۔حضرت عمر نے دیکھا کہ جب شوہر نے اپنی عورت سے حرام کہااور پھر عورت رجوع کیلئے راضی ہے اسلئے رجوع کا فتویٰ دیا اور حضرت علی نے دیکھا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہے اسلئے رجوع کا فتویٰ نہیں دیا ۔ عمرو علی میں مسئلے پر اختلاف نہیں تھا۔
قرآن کی سورۂ تحریم میں اللہ نے فرمایا: یاایھاالنبی لم تحرم ما احل لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیمOقدفرض اللہ تحلة ایمانکم واللہ مولاکم وھو العلیم الحکیمO’ ‘ اے نبی ! آپ اس کو اپنے لئے کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کیلئے حلال کیا ہے؟، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ غفور رحیم ہے۔ اللہ نے حلال کیا ہے تمہارے عہد کو۔ اور اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ جاننے والا حکمت والا ہے”۔
جب نبی ۖ نے ماریہ قبطیہ اپنی ازواج کی وجہ سے حرام قرار دے دی اور اللہ نے قرآن سے یہ غلط مذہبی رسم ختم کردی کہ بیوی حرام قرار دینے سے حرام نہیں ہوتی تو پھر حضرت علی نے کیسے اس کو تین طلاق قرار دے دیاتھا؟۔ آج مفتی تقی عثمانی کیسے کہتا ہے کہ حرام کہنے پر بیوی کو طلاق بائن ہوجاتی ہے؟۔ جس میں نئے نکاح کی ضرورت ہوگی؟۔علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے کہاں سے اس پر20اجتہادی مذاہب نقل کرکے مسائل کے ڈھیر لگادئیے؟
صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ بیوی کو حرام کہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ قسم ،نہ طلا ق اور نہ کفارہ۔ یہی نبیۖ کی سیرت کا تقاضا ہے۔
صحیح بخاری میں حسن بصری نے کہا کہ ” حرام سے جو نیت کی جائے وہی حکم نافذہوجاتا ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ بیوی کو حرام کہنا تیسری طلاق ہے ۔ اور یہ کھانے پینے کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ کھانے پینے کو حرام قرار دینے کے بعد وہ کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجاتی ہیں۔ تیسری طلاق سے بیوی حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوتی ہے۔ (بخاری میں یہ دو نوں متضادروایات موجود ہیں )
حسن بصری تابعی تھے اور حضرت علی کی شاگرد ی کا شرف حاصل تھا یا نہیں؟ مگر علماء کی طرف اس اجتہاد کے منسوب کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حضرت علی کے شاگرد مجتہدین علماء سے یہ نقل کررہے ہیں کہ ” بیوی کو حرام کہنا تیسری طلاق ہے”۔ اسلئے کہ حضرت علی کی طرف منسوب ہے کہ وہ تین طلاق سمجھتے تھے۔
اگر شیعہ اور ان کے ائمہ حضرت علی کی طرف یہ نسبت کرتے تو ان کے پھر مولا علی وہی تھے اور تقلید کے پابند تھے لیکن اہل سنت کا مولا قرآن میں اللہ ہے اور اللہ نے جو فیصلہ کیا ہے ، امام ابوحنیفہ نے بھی فرمایا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث کو بھی نہیں مانیں گے اور جب صحیح حدیث کی قرآن کے مقابلے میں تقلید نہیں ہے تو پھر کسی صحابی اور امام مجتہد کی تقلید کیسے جائز ہوسکتی ہے؟۔
اگر اللہ کی کتاب کے مقابلے میں حرام و حلال یہودونصاریٰ تبدیل کریں تو ان پر اتخذوھم احبارھم ورھبانھم اربابًا من دون اللہ کا اطلاق ہوتا ہے تو کیا ہم پر نہیں ہوگا کہ اگر اللہ کی کتاب کے مقابلے میں مولانا تقی عثمانی یا کسی بھی مولانا کی بات قرآن وسنت کے مقابلے میں حلال وحرام کا معیار بنالیں؟۔
حسن بصری ایک مخلص تابعی ، راوی تھے مگر کیاان کی بات غلط نہیں ہوسکتی؟ یہ تو کوئی نہیں کہتا!۔ حسن بصری نے کہا کہ” ایک مستند شخص نے بتایاکہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں( جس پر رسول ۖ نے رجوع کا حکم دیا )20سال تک کوئی اور مستندشخص نہیں ملا ، جو اس کی تردیدکرتا۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی”۔( صحیح مسلم)
جب حضرت علیکے شاگردوں کی طرف سے یہ بات مل گئی کہ حرام کے لفظ کو تیسری طلاق قرار دیا تو پھر کسی اور مستند شخص کی بات بھی حسن بصری نے مان لی کہ رسول اللہ ۖ نے اکٹھی تین طلاق پر عبداللہ بن عمر کو رجوع کا حکم نہیں فرمایا ہوگا بلکہ وہ ایک طلاق دی تھی۔ایک روایت ہے کہ حضرت علی کے بعد امام حسن کو خلافت پر اس کی بیوی نے مبارک باد دی تو امام حسن نے کہا کہ تجھے تین طلاق ۔ پھر فرمایا کہ اگر میں نے اپنے نانا ۖ سے نہ سنا ہوتا کہ رجوع نہیں ہوسکتا تو میں رجوع کرلیتا۔پیرکرم شاہ الازہری نے اپنی کتاب ” دعوت فکر” میں نقل کیا ہے کہ اس کا راوی رافضی ہے جسکے بارے میں لکھا گیا کہ جرو کلب یعنی کتے کا بچہ۔ اگر سنی علماء نے صرف توجہ کی تو مسائل کے حل نکالنے میں ایک رات لگے گی ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

داتا کے نام پر سواریاں بٹھاکر گامے شاہ اتارنے والے منافق ابو طالب کا ایمان ثابت کریں۔پیر سید سیف اللہ قادری

داتا کے نام پر سواریاں بٹھاکر گامے شاہ اتارنے والے منافق ابو طالب کا ایمان ثابت کریں۔پیر سید سیف اللہ قادری
تبصرہ پڑھ کر پیر سیف اللہ داتا صاحب کے بجائے ہیرہ منڈی میں چھپ کر ہی نہ بیٹھ جائے:از طرف نوشتۂ دیوار

امیر البیان ، مفسر قرآن، شارح ادب المفرد مفتی پیر سید سیف اللہ قادری: متفق علیہ مسئلے ہیں آج14سو سال بعد وہ کہہ رہے ہیں کہ نہیں نہیں ابوطالب نبیوں کے بعد سب سے اعلیٰ ہے۔ آخر پہلے بھی تو پوری ملت گزری ہے ناں۔ نہ کسی دیوبندی کو، نہ بریلوی کو، نہ اہلحدیث کو، نہ مالکی، نہ شافعی، نہ حنبلی ، نہ حنفی کو ،14سو سال میں پوری اُمت کویہ یاد نہیں ہے۔ وہ جو ملا دو ٹکے کے ملا ایرانی زرخرید، اور چرسیوں کے چیلے، بھنگیوں کے چیلے بھنگیوں سے مانگ کر کھانے والے، وہ جناب گلی گلی کہہ رہے ہیں کہ یہ تو قرآن سے ثابت ہے۔ یعنی پوری اُمت اندھی آئی ہے۔ حضور ۖ فرمارہے ہیں کہ اس کو جہنم کی جوتیاں پہنائی جائیں گی۔ دماغ یوں کھولے گا جیسے ہڈیاں کھول رہی ہیں۔ اور یہ سمجھ گیا قرآن کو معاذ اللہ حضور نہیں سمجھے؟۔ جن پر قرآن نازل ہوا ہے۔ حضرت علی اپنے سگے باپ کو فرمارہے ہیں انہ مات مشرک یا رسول اللہ ۖ وہ مشرک مرا ہے۔ حضرت علی کو نہیں پتہ تھا کہ قرآن کہاں نازل ہوا ہے؟۔ یہ آج ان کو پتہ چل گیا جن کی کوئی اوقات نہیں جو نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ نہ ادھر کے نہ اُدھر کے ، جنہوں نے لبادہ اہلسنت کا اوڑھا اور جو داتا صاحب کے نام پر سواریاں بٹھا کر گامے شاہ اتارنے والے ۔ وہ منافق اور کذاب ان کو آج یہ مسئلہ سمجھ آیا ہے۔ اور قرآن و حدیث کا صحابہ کو اہل بیت کو، میں چیلنج کررہا ہوں میرے سامنے قرآن پڑا ہے۔ حضرت علی کی کسی اولاد کا فرمان دکھاؤ جو ابوطالب کی شان میں آیا ہو۔ نہیں سمجھے آپ سوئے ہوئے ہیں۔ حضرت علی کے بیٹے ہیں امام حسن ہیں امام حسین ہیں، امام زین العابدین ہیں، آگے امام جعفر صادق ہیں،امام موسیٰ کاظم ہیں، امام نقی ہیں ، امام تقی ہیں، یہ سارے مولیٰ علی کی اولاد ہیں۔ اور ابوطالب ان کے سگے دادا ہیں۔ ان میں سے کسی ایک امام کا فرمان دکھاؤ جنہوں نے ابوطالب کے ایمان پر قول کیا ہو۔ وہ نہیں بولے تو دو نمبر سیدوں1947کے بعد بننے والے کذابوں تمہیں یہ پتہ چل گیا کہ ابوطالب علیہ الصلوٰة و السلام تھا۔13سو آیات اتری ہیں۔ اور یہ ہوا ہے وہ ہوا ہے اور آج پھر تعلی اور تحدی کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ بارہ اماموں میں سے کسی ایک امام کا قول ایمان ابوطالب پر دکھا دو۔ امام حسن کا دکھادو، امام حسین کا دکھادو، چلو مولیٰ علی کا دکھادو۔ مولیٰ علی کے بھائی جعفر کا دکھادو۔ کسی ایک کا دکھادو۔ ہم تمہارے ساتھ چلیں گے بھی نعرہ بھی لگائیں گے اور تمہارے آگے ہاتھ جوڑ کر تم سے بھی معافی مانگیں گے رب اور اسکے رسولۖ سے بھی مانگیں گے۔ اور اگر یہ نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجار کہ ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور تم جیسے انسانوں کو بنایا ہے۔ باز آجاؤ اس حرکت سے اہلسنت کے ایمان اور عقائد خراب نہ کرو اور قرآن و سنت سے یہ کھلواڑ نہ کرو۔ اللہ کہہ رہا ہے والذین سعوا باٰیاتنا اور جو لوگ کوشش کررہے ہیں ہماری آیتوں کی تردید میں اس خیال سے کہ معٰجزین فیھا وہ ہمیں ہرادیں گے قرآن و حدیث کو نیچا دکھلادیں گے اؤلئٰک اصحاب الجحیم یہی لوگ پکے دوزخی ہیں۔ میں نے کہا تھا اسی ڈاکٹر کو رات کو میسج کیا تھا اس کا مجھے میسج آیا کہ میں عرس ابی طالب پر خطاب کرنے لگا ہوں۔ تو میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ایک دعا کرتے ہیں اللہ تیرا حشر ابوطالب کے ساتھ کرے ہمارا مولیٰ علی کے ساتھ کرے۔ میں نے کہا جہاں ابوطالب جائے اللہ کرے تو وہیں جائے۔ اور جہاں مولیٰ علی جائے ہم وہاں جائیں۔ ابھی تک اس کو آمین کہنے کی جرأت نہیں ہوئی اور ہوگی بھی نہیں۔ نہیں آئے میرے ساتھ مباہلہ کرلے جو ایمان ابی طالب کے نعرے لگارہے ہیں میرے ساتھ مباہلہ کرلیں چیلنج کررہا ہوں۔ آئیں ابھی پتہ چل جائے گا۔ وہ پنڈی کا نام نہاد قریشی ہو وہ یہ ہو وہ ہو، ادھر ہو اُدھر ہو۔ اور جتنے نمبر سیانے ہیں ایمان ابی طالب کی آڑ میں حضرت امیر معاویہ پر بھونک رہے ہیں۔ ان سب کو چیلنج کرتا ہوں آؤ ہم اہلسنت تھے جو اعلیٰ حضرت کے ماننے والے ہیں۔ جہاں تمہارا دل چاہے ہمارے ساتھ مباہلہ کرلو اور فیصلہ رب کردے گا۔

____تبصرہ : نوشتہ دیوار____
کچھ لوگ ابوطالب کی مخالفت کی خبط میں مبتلاء ہیں کہ آپ نے اسلام قبول کیا تو نبیۖ نے نام کیوں نہیں بدل دیا؟۔جس کا نام مشرکانہ ہوتا تھا، جیسے عبدالکعبہ کا نام بدل دیا جاتا تھا۔ ابوبکر، عمر ، عثمان،علی، خالد اور سعد بن ابی وقاص کا نام بدلا؟۔ کبھی پوچھنے کی جرأت ہوئی ہے کہ جب قائداعظم کی بیگم رتن بائی نے اسلام قبول کیا تو اس کا نام کیوں نہیں بدلا؟۔
ابوطالب سے اسلئے عقیدت نہیں کہ نبیۖ کے چچا تھے ۔ چچا تو ابولہب بھی تھا جو کفر پر مرا ۔ جس کو انگلی سے پیر کے دن راحت ملتی ہے کہ نبی ۖ کی پیدائش کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تھی۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں اسلئے کہ اللہ نے فرمایا: ” جو ذرہ خیر کرے گا وہ اس کو دیکھے گااور جو ذرہ شر کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا”۔ جبکہ ابوطالب نے تو زندگی نبیۖ کیلئے وقف کی تھی؟۔ بخاری کی حدیث میں آیا کہ ابوطالب جہنم کے نچلے درجے میں تھا اور نبی ۖ کی سفارش سے اوپر آگیا؟۔ اللہ نے مشرک کی سفارش قبول نہیں کرنی تو ابوطالب کی سفارش قبول کی؟۔ ابوجہل جہنم کے نچلے حصے میں نہیں پہنچا اسلئے کہ کافر تھا منافق نہیں تو ابوطالب کیسے پہنچا؟۔ اللہ نے فرمایا کہ” منافقین جہنم کے نچلے حصہ میں ہوں گے؟”۔ منافقت کا ماحول تو مدینہ کی ریاست بننے کے بعد قائم ہوا تھا یا پھر آج ہے۔ ابوطالب نے اپنی بیٹی ام ہانی کا رشتہ کیوں نبیۖ کی جگہ مشرک کو دیا تھا؟۔ تو صلح حدیبیہ کے بعد حضرت عمر نے اپنی دو کافر بیگمات کو اللہ کے حکم پر چھوڑ ا ،اس طرح دیگر صحابہ نے اسلئے کہ پہلے مشرکینِ مکہ سے رشتے ناطے ہوتے تھے۔ بعد میں بھی ان مؤمنات کی وضاحت ہوئی جو مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گئیں کہ ان کو واپس مت لوٹاؤ ، وہ ان مشرک شوہروں کیلئے حلال نہیں اور نہ مشرک شوہر ان کیلئے حلال ہیں۔ لیکن ام ہانی بھاگ کر نہیں آئی تھیں اسلئے ان پر فتح مکہ تک بھی اس کا اطلاق نہیں ہوا۔ اگر ابوطالب کے کفر پر سنی کو اپنا ماحول رکھنے کا حق ہے اسلئے کہ بنوامیہ وبنوعباس نے جو آلودگی پھیلائی تھی تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا تو شیعہ کو اپنے ماحول کی مجبوری کا پورا پورا حق ہونا چاہیے کہ کس کو مسلمان اور کس کو کافر سمجھیں؟۔
جب نبی ۖ نے فرمایا کہ ” قلم اور کاغذ لاؤ۔ایسی چیز لکھ کر دیتا ہوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوگے”۔ حضرت عمر نے کہا کہ ”ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ اگر نبی ۖ وصیت میں یہ لکھ دیتے کہ میرے بعد ابوطالب پر کوئی جھوٹ مت بناؤ لیکن پھر بھی کم بختوں نے اپنی حرکات سے باز نہیں آنا تھا۔ اس میں کوئی شبہ کی بات اسلئے نہیں کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ انک لا تھدی من احببت ” آپ اس کو ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہتے ہوں”۔ پھر یہ آیت حضرت ابوطالب پر فٹ کی گئی ہے۔ قرآن میں یہ آیت جہاں ہے وہاں ابوطالب کے حوالہ سے بھی غور کرو اور ابوسفیان اورامیر معاویہ دونوں کوبھی دیکھ لو اور پھر ایمانداری سے بتاؤ کہ کون کہاں اور کس آیت میں نشانہ بن رہاہے؟۔
ولقد وصلنا لھم القول لعلھم یتذکرونOالذین اٰتینٰھم الکتٰب من قبلہ ھم بہ یؤمنونOو اذا یتلٰی علیھم قالوا اٰمنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمینOاولٰئک یؤتون اجرھم مرتین بما صبروا ویدرء ون بالحسنة السیئة و مما رزقناھم ینفقونOو اذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ و قالو لنا اعمالنا ولکم اعمالکم سلٰم علیکم لا نبتغی الجٰھلینOانک لا تھدی من احببت ولٰکن اللہ یھدی من یشآء وھو اعلم بالمھتدینOو قالو ان نتبع الھدٰی معک نتخطف من ارضنا اولم نمکن لھم حرماً اٰمناً یجبیٰ الیہ ثمرٰت کل شی ئٍ رزقاً من لدنا ولٰکن اکثرھم لا یعلمونOوکم اھلکنا من قریة بطرت معیشتھا فتلک مسٰکنھم لم تسکن من بعدھم الا قلیلاً و کنا نحن الوٰرثینOوما کان ربک مھلک القرٰی حتیٰ یبعث فی اُمھا رسولاً یتلوا علیھم اٰیٰتنا وما کنا مھلکی القرٰی الا و اھلھا ظالمونOوما اوتیتم من شی ئٍ فمتاع الحیٰوة الدنیا و زینتھا وما عند اللہ خیر و ابقٰی افلا تعقلونOافمن و عدنٰہ وعدًا حسنًا فھوا لاقیہ کمن متعنٰہ متاع الحیٰوة الدنیا ثم ھوا یوم القیٰمة من المحضرینOویوم ینادیھم فیقول این شرکآ ء ی الذین کنتم تزعمونOقال الذین حق علیھم القول ربنا ھٰولآ ء الذین اغوینا اغوینٰھم کما غوینا تبرانا الیک ما کانوا ایانا یعبدونOو قیل ادعوا شرکآ ء کم فدعوھم فلم یستجیبوا لھم وراو العذاب لو انھم کانو یھتدونOو یوم ینادیھم فیقول ماذا اجنتم المرسلینOفعمیت علیھم الانبآء یومئذٍ فھم لا یتسآء لونOفاما من تاب و اٰمن و عمل صالحاً فعسیٰ ان یکون من المفلحینOو ربک یخلق ما یشآ ء و یختار ماکان لھم الخیرة سبحٰن اللہ و تعٰلٰی عما یشرکونOوربک یعلم ما تکن صدورھم وما یعلنونOوھواللہ لا الہ الا ھوا لہ الحمد فی الاولیٰ و الاٰخرہ ولہ الحکم و الیہ ترجعونO
اور البتہ ہم ان کے پاس ہدایت بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی ، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جب ان پر پڑھا جاتا ہے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے۔ ہمارے رب کی طرف سے یہ حق ہے، ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں انکے صبر کی وجہ سے دگنا بدلہ ملے گا اور بھلائی سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے ہمارے اعمال تمہارے لئے تمہارے اعمال، تم پر سلام ہو، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔ بیشک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔ اور کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں، کیا ہم نے انہیں حرم میں جگہ نہیں دی جو امن کا مقام ہے جہاں ہر قسم کے ثمرات کا رزق ہماری طرف سے پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے۔ اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کرڈالا جو اپنی معیشت پر نازاں تھے، سو یہ ان کے گھر ہیں کہ ان کے بعد آباد نہیں ہوئے مگر بہت کم، اور ہم ہی وارث ہوئے۔ اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان کے بڑے شہر میں پیغمبر نہ بھیج لے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے، اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اس حالت میں کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں۔ اور جو چیز تمہیں دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اور اس کی زینت ہے، جو چیز اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے، کیا تم نہیں سمجھتے۔ پھر کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو سو وہ اسے پانے والا بھی ہو اس کے برابر ہے جسے ہم نے دنیا کی زندگی کا فائدہ دیا پھر وہ قیامت کے دن پکڑا ہوا آئے گا۔ اور جس دن انہیں پکارے گا پھر کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن کا تم دعویٰ کرتے تھے۔ جن پر الزام قائم ہوگا وہ کہیں گے اے رب ہمارے! وہ یہی ہیں جنہیں ہم نے بہکایا تھا، انہیں ہم نے گمراہ کیا تھا جیسا کہ ہم گمراہ تھے، ہم تیرے روبرو بیزار ہوتے ہیں، یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے۔ اور کہا جائے گا اپنے شریکوں کو پکارو پھر انہیں پکاریں گے تو وہ انہیں جواب نہ دیں گے اور عذاب دیکھیں گے، کاش یہ لوگ ہدایت پر ہوتے۔ اور جس دن انہیں پکارے گا پھر کہے گا تم نے پیغام پہنچانے والوں کو کیا جواب دیا تھا۔ پھر اس دن انہیں کوئی بات نہیں سوجھے گی پھر وہ آپس میں بھی نہیں پوچھ سکیں گے۔ پھر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کئے سو امید ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہوگا۔ اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے، انہیں کوئی اختیار نہیں ہے، اللہ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔ اور تیرا رب جانتا ہے جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے، اور اسی کی حکومت ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (سورة القصص :70-51)
ان آیات میں پہلے اہل کتاب کے بارے میں مقدمہ باندھا گیا ہے کہ ان میں بھی بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں جو حق کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہ کلام ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم تو پہلے سے ہی مسلمان تھے۔ان اہل کتاب کی دو خوبیوں کی وجہ سے ڈبل اجر کے مستحق قرار دئیے گئے ہیں۔ پہلی خوبی ان میں صبر کی اعلیٰ ترین صفت اور دوسری برائی کا بدلہ نیکی سے دینا۔ اس مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر اصل مقصد کی بات واضح کردی ہے کہ جہاں اللہ کسی نبی کو مبعوث فرماتا ہے تو اس میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو جاہلوں سے تصادم کی شکل اختیار کرنے کے بجائے فضول کے بکواسات سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم پر سلام ہو ، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔ دوسری طرف بڑا مفاد پرست ٹولہ ہوتا ہے اور اس کی صفت یہ ہوتی ہے کہ اگر ہم نے حق کو قبول کرلیا تو پھر اس کی پاداش میں ہم اپنی زمین سے اٹھالئے جائینگے۔ حضرت ابوطالب اور حضرت ابوسفیان دونوں میں سے کون کس صف میں کھڑا تھا؟۔ حضرت ابوطالب نے تو شعب ابی طالب میں تین سال کی مشکلات گزار کر ثابت کیا کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو حق کو اسلئے قبول نہیں کررہے تھے کہ اگر حق کو قبول کیا تو اپنی زمین سے اٹھالئے جائیں گے۔ البتہ ابوسفیان جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تو اس دوسری صف میں ہی کھڑا تھا۔دوسری صف کے سرداروں میں زیادہ تر ابوجہل و دیگر مارے گئے اور انہی سرداروں کو چھوٹے مشرک پکڑیں گے کہ تم لوگوں نے ہمیں ورغلایا تھا۔ بت تو کسی کو ورغلانے سے رہے۔ ابوطالب اور ابوجہل بالکل الگ الگ صفوں میں کھڑے تھے اور قرآن کی ان آیات کو بار بار فجر کے وقت تازہ دماغ کیساتھ پڑھ کر دیکھو۔ نبی ۖ نے ابوجہل و عمر بن خطاب کیلئے دعا مانگی تھی۔ اور سردارانِ قریش کیلئے خواہش تھی کہ وہ ایمان لائیں۔ ان پر آیات سے روشنی ڈالنے میں ادھر سے ادھربات نہیں جاسکتی ہے۔ البتہ فتح مکہ کے بعد حضرت ہندہ ، حضرت ابوسفیان ، حضرت معاویہ نے اسلام قبول کیا تو اللہ نے ان الفاظ میں نشاندہی فرمائی ہے۔فاما من تاب و اٰمن و عمل صالحاً فعسیٰ ان یکون من المفلحین ” پس اگر کسی نے توبہ کرلی اور ایمان لایا اور نیک اعمال کئے تو پھر ہوسکتا ہے کہ وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوجائے” لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خلافت کو امارت میں بدل دے اور یزید کو بھی مسلط کرے اور خلافت کو بنوامیہ یا بنوعباس کی لونڈی بنائے تو یہ عمل صالح ہے۔
حضرت امیر معاویہ نے خود اس خدشے کا اظہار کیا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ایسے حکمران ہوں گے جو ہرقسم کی الٹی سیدھی ہانکیں گے لیکن کوئی خوف سے ان کو جواب نہیں دے سکے گا۔ وہ بندر اور خنزیر کی شکل میں جہنم رسید ہوں گے ۔تین جمعہ میں مسلسل کہا کہ بیت المال میرا ذاتی ہے اور اس پر کسی کا حق نہیں ۔ جب تیسرے جمعہ میں کسی نے کہا کہ آپ کا نہیں عوام کا ہے تو ان کی جان میں جان آگئی اور دعائیں دیں کہ اس شخص کی وجہ سے میں وعید سے بچ گیا۔ورنہ مجھے یقین ہوچکا تھا کہ میں ان میں شامل ہوں۔ (عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں ۔مصنف: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید)
والذین اٰمنوا و ھاجروا و جٰھدوا فی سبیل اللہ و الذین اٰووا و نصروا اولٰئک ھم المؤمنون حقاً لھم مغفرة و رزق کریمO(انفال74:) نبی ۖ سے اللہ نے فرمایا کہ الم یجدک یتیمًا فآویٰ ” کیا ہم نے آپ کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ دیا”۔ نصرت اور ٹھکانا دینے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تو قرآن کی آیت میں سچے مؤمنوں میں بھی ابوطالب سر فہرست ہیں۔ بخاری میں رفع الیدین کی روایات مسترد کرتے ہو کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” گھوڑے کی دم کی طرح نماز میں ہاتھ مت ہلاؤ” پھرعید کی نماز میں پاگل گائے کی طرح دم ہلانے سے نہیں شرماتے؟۔ فیصل آباد میں کار والا گدھا گاڑی والے سے کہہ رہا تھا کہ نوازشریف کو ہٹاؤ۔ اس نے دم اٹھاکر دکھائی کہ تیری بہن بینظیر ہے۔ یہ نہ ہو کہ دوسروں کو جعلی سید کہنے والا سیف اللہ قادری خود میراثی نکل آئے۔ علم اورشکل کیساتھ طرزِ گفتگو سے لگتا ہے کہ یہ ہیرہ شیعہ بن کر منڈی میں چھپ جائیگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امام علی کی لکھی ہوئی کتاب مھدی غائب کیساتھ ہے جس میں اسلامی احکام ہیں۔ رسول ۖ، جبریل اور اللہ سے منقول ہیں۔ شیعہ عالم کابڑا سرپرائز

امام علی کی لکھی ہوئی کتاب مھدی غائب کیساتھ ہے جس میں اسلامی احکام ہیں۔ رسول ۖ، جبریل اور اللہ سے منقول ہیں۔ شیعہ عالم کابڑا سرپرائز

شیعہ اسلام کا صحیح تصور امام مہدی غائب کے بغیر ممکن نہیں؟۔ سنی اگر علی وعمر کے اجتہاد اور قرآن پر اتفاق کرلیں تو اچھا ہوگا!

مفتی فضل ہمدرد اور علامہ انور علی نجفی کے انٹرویو میں بڑا انکشاف ہے کہ فقہ، احادیث اور اسلامی احکام کی جو ”کتاب” حضرت علی نے مرتب کی تھی وہ حسن ، حسین، زین العابدین، باقر، امام جعفر.. سے امام مہدی غائب تک منتقل ہوئی۔ جو امام مہدی غائب کے پاس موجود اور محفوظ ہے۔ وہ کتاب کسی امام نے بھی اپنے جانشین کے علاوہ کبھی کسی اور شخص کو نہیں دی ۔
اس کتاب میں امام کے ذاتی اقوال نہیں بلکہ علی کی مرتب کردہ احادیث رسول ۖ ،جبرئیل اور اللہ سے نقل ہیں۔ جس طرح نبی ۖ اپنی طرف سے بات نہیں کرتے وماینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یوحیٰ ”اور آپ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ نہیں ہوتی مگر وحی جو وحی کی جاتی ہے”۔ (القرآن) اسی طرح ائمہ نے بھی وہی نقل کیا ہے۔
رسول خدا ۖ بھی اپنی طرف سے بات کے مجاز نہیں۔ اللہ کے احکام رسول ۖ عوام تک پہنچانے کے پابند ہیں۔ ائمہ اہل بیت بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے بلکہ وہ رسول ۖ ، جبرئیل اور اللہ سے نقل کرتے ہیں۔ اسلئے ائمہ اہل بیت معصوم ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہماری کوئی بات اگر اللہ کی کتاب کے خلاف ہو تو اس کو دیوار پر ماردو۔ یعنی وہ کسی نے ان کی طرف جھوٹ گھڑا ہوگا۔ امام مہدی غائب کے بعد اصل کتاب جو حضرت علی نے لکھ دی تھی، وہ اہل تشیع کے پاس نہیں ہے۔ لیکن اس کتاب سے بہت ساری باتیں ائمہ اہل بیت سے منقول ہیں۔ خاص طور پر امام باقر اور امام جعفر صادق سے۔ جو اہل تشیع کی احادیث کی4کتابوں میں درج ہیں۔
شیعہ اپنے پسِ منظر کی وجہ سے صحابہ سے نفرت کا شکار ہیں تو جب اہل سنت ان کی تائید کرتے ہیں تو بد گمانیوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ مفتی فضل ہمدرد نے بڑا معمہ حل کردیا کہ شیعہ کے امام غائب کیساتھ مسائل کی کتاب بھی غیبت میں ہے۔
شیعہ نہیں کہتے کہ قرآن مہدی کے پاس ہے مگر یہ کوئی اور کتاب ہے۔ مفتی کامران شہزاد نے بتایا کہ علامہ بدرالدین عینی نے لکھاکہ ”سنیوں نے انبیاء کی عصمت کا عقیدہ شیعہ سے بعد میں لیا ہے”۔ علامہ جواد نقوی کی علامہ عارف کاظمی سے لڑائی دو باتوں پر ہے ۔ ایک نماز جمعہ کے قرآنی حکم پر عمل کرنے اور دوسری آیت عصٰی آدم ربہ کے ترجمہ وتفسیر میں۔شیعوں کی لڑائی شدید سے شدید ہے۔ سوشل میڈیا پر مناظر دیکھیں۔
شیعہ اپنے امام اور اپنی کتاب کا انتظار کرنے میں مجبور ہیں۔ حنفی امت مسلمہ کی ایسی رہنمائی کریں گے کہ جس سے نہ صرف مالکی، شافعی ، حنبلی ، اہلحدیث اور علامہ ابن تیمیہ وابن قیم والے متفق ہوں گے بلکہ شیعہ بھی لڑائی چھوڑ دیںگے۔ جن میں امامیہ، آغاخانی، بوہری اورزیدی شامل ہوںگے۔ ذکری، اہل قرآن ، پرویزی بھی متفق ہوں گے ۔ مرزا جہلمی اورغامدی تو غائب ہوجائیں گے اور قادیانی بھی مرزا غلام احمد قادیانی کو جھوٹا دجال کہنا شروع کردیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امارت اسلامیہ افغانستان کی ترقی اورپاکستان کی ترقی کا راز کیا ہوسکتا ہے؟

امارت اسلامیہ افغانستان کی ترقی اورپاکستان کی ترقی کا راز کیا ہوسکتا ہے؟

خبر یہ ہے کہ افغانستان باضابطہ طور پر تیل/گیس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا ۔ اس وقت روزانہ800ٹن تیل نکالا جارہاہے۔ جنوری میں پیدوار بڑھ کر1000ٹن ہوجائے گی۔ یومیہ آمدنی5لاکھ ڈالر ،7مہینوں میں یومیہ تیل نکالنے کی شرح2000ٹن تک بڑھ جائے گی۔2024تک یومیہ آمدن1ملین ڈالر یعنی10لاکھ ڈالر ہوگی۔ افغان طالبان بہت خوش ہوں گے کہ دنیا و آخرت ، غیرت وہمت سب کچھ ہماری قسمت میں آگیا۔ واقعی خوشی کا مقام ہے کہ شریعت بھی نافذ کردی اور افغانستان کو خود کفیل بنانے میں زبردست کردار ادا کیا۔ ہم تہہ دل سے ان کو مشکلات سے نکلنے پر خوش آمد اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ امیر عبدالرحمن بادشاہ سے پہلے ایک افغانی قائد سے12لاکھ سالانہ گرانٹ سے حکومت ہند برطانیہ سے معاہدہ کیا تھا تو افغانستان کی آزادی گروی تھی۔ اب صحافی حامد میرنے انکشاف کیا ہے کہ ملاعمر سے خبر شیئر کی گئی تھی یا نہیں؟۔ لیکن طالبان کو امریکہ نے50لاکھ ڈالر دئیے تھے۔ امریکہ کا اس سے بڑا احسان یہ تھا کہ اپنے ٹاوٹ ممالک پاکستان، عرب امارات ، سعودی عرب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم بھی کروایا تھا۔ آج اگر امریکہ کھل کر حمایت کرے اور پاکستان کو دشمن بنائے تو بھی طالبان اور پاکستان کا خسارہ ہوگا۔حامد میر نے ایسے وقت یہ انکشاف کیا ہے کہ جب پاکستان اور طالبان کو لڑایا جارہاہے؟۔
لیبیا اور عراق بہت خوشحال ممالک تھے مگر تباہ کئے گئے۔افغان طالبان کی پہلی ترجیح اقتصادی حالت کیساتھ ساتھ اصلی شریعت کا نفاذ ہونا چاہیے۔ جب وہ قرآن وسنت کے مطابق عورتوں اور کافروں کے حقوق بحال کر دیں گے تو بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔ پھر یہود ونصاریٰ اور غیرمسلموں کی توجہ کا مرکز افغانستان بن جائے گا اور فلسطین پر اسرائیل بھی مظالم چھوڑ دے گا۔TTPکے امیر مفتی نور ولی محسود اعلان کرے گا کہ” ہماری وجہ سے افغانستان کا معاملہ خراب ہوتا ہے تو میں خود کو اور اپنی جماعت کے سرکردہ لوگوں کوپاکستان کے حوالے کرتا ہوں”۔ غیرتمند محسود ہے۔ جب وزیرستان محسود علاقہ میں کچھ طالبان سرنڈر بن گئے تھے تو ان کو سلنڈر کہا جاتا تھا۔ مکین شہر میں ایک شخص نے دکاندارسے پوچھا کہ سلنڈر ہے؟۔ سرنڈر طالب نے برا منایا کہ مجھے کہا ہے۔تو دوسرے سلنڈر نے کہا کہ ”سلنڈر تو تمہارا باپ بھی ہے ، اس پر لڑنے کی ضرورت نہیں”۔ محسود قوم بڑے اقدار کی مالک تھی۔ طالبان نے خلوص میں آکر بہت کچھ بگاڑ دیا لیکن اس کے فوائد حاصل کئے جائیں تو وزیرستان کے محسود ، وزیر، داوڑ، سلمان خیل اور بنوں، ٹانک، لکی ، ڈیرہ اسماعیل خان کے بیٹنی، مروت ، گنڈاپور، بنوچی اور مقامی جٹ وبلوچ اسلامی احکام کا اعلان کرکے بڑا اسلامی انقلاب بھی برپا کرسکتے ہیں۔
پاکستانی بیڑہ پنجابیوں نے غرق نہیں کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے گماشتے پنجابی جن میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے لوگوں کو صحافی احمد نورانی نے اپنی ویلاگ میں شامل کیا۔ فرعون کی پوری قوم کو الزام دینا غلط تھا۔ فرعون، قارون اور ہامان کا کردار غلط تھا۔ جوریاستی ، سرمایہ داری اور مذہبی روپ میں تھے۔ لیکن موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کا کردار بھی اسی قابل تھا کہ چٹنی بنادیا جاتا۔ نسلی تعصبات نے عاصم سجاد عوامی ورکر پارٹی کو بھیPTMسے بدظن کردیا ۔ شیریں مزاری و ایمان مزاری اچھا کھیلتے ہیں مگرمسائل کا حل نہیں نکال سکتے۔
جماعت اسلامی کیلئے یونیورسٹیوں کے اندر سب سے زیادہ بہترین مواقع ہیں۔ اگر وہ مولانا مودودی کی خلافت وملوکیت چھوڑ چکے ہیں تو کوئی بات نہیں، لیکن قرآنی احکام میں عورت کے درست حقوق کو اٹھائیں تو پھر جماعت اسلامی اس بڑے اسلامی انقلاب میں شریک ہوگی ورنہ تو گم کھاتے میں چلی جائے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کی دعوت کا اسلوب سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت

قرآن کی دعوت کا اسلوب سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت

ولا تستوی الحسنة ولا السیئة ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوة کانہ ولی حمیم

اور اچھائی و برائی برابر نہیں، ٹال دے اچھائی سے تو تیرے اور مخالف کے بیچ دشمنی گویا وہ گرم جوش دوست تھا!

سورہ فصلت یا حم سجدہ آیت:34سے قرآن کی دعوت کے مزاج کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ مشرکینِ مکہ اسلام اور رسول اللہ ۖ کے دشمن تھے۔ ابوسفیان ، ہندہ اور وحشی نے امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا۔ رسول اللہ ۖ چاہتے تو گردن اُڑاتے مگر نبی کریم ۖ نے نہ صرف معاف فرمایا بلکہ عزت وتوقیر سے بھی نواز دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! پہلے سب سے برا چہرہ مجھے آپ کا لگتا تھا۔ آج میرے لئے سب سے پسندیدہ شخصیت آپ ہیں۔
ابوسفیان دشمن سردار تھا۔نبیۖ نے100اونٹ دئیے تو ابوسفیان نے کہا: میرے بیٹے معاویہ ویزید ہیں۔ نبی ۖ نے ان کو بھی100،100اونٹ دئیے۔ دشمنی پھر ایسی گرم جوش دوستی میں بدل گئی کہ رسول اللہ ۖ کے وصال پر ابوسفیان موجود نہیں تھا۔ جب دیکھا کہ ابوبکرخلیفہ نامزد ہوگئے ہیں تو ابوسفیان نے عبداللہ بن عباس سے کہا کہ علی کے ہوتے ہوئے بنی تیم کے ابوبکر خلیفہ بن گئے؟۔اگر علی کی اجازت ہو تو مدینہ کو پیادوں اورسواروں سے بھر دوں؟۔ علی نے کہا کہ ابھی تک اسلام کی دشمنی دل ودماغ سے نہیں نکلی ہے ؟۔ اسلام نے بدر واُحد کے اندر السابقون الاولون من المہاجرین والانصار کی جو تربیت فرمائی تھی اس تک فتح مکہ کے بعد والے صحابہ کرام کی پہنچ ممکن نہیں تھی۔
علی سے جنگیں لڑنے والے معاویہ کے حق میں حسن کی دستبرداری کسی خوف ولالچ کا نتیجہ نہ تھا۔بدبخت تقیہ بازامام حسن کے اقدام کو خوف اوربدبخت لالچی امام حسن کے اقدام کو لالچ سمجھتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”یہ میرا بیٹا سید ہے جو مسلمانوں کی دوبڑی جماعتوں میں صلح کرادے گا”۔
یہ برائی کا بدلہ اچھائی سے تھا۔علی سے جنگ والے معاویہ سے انتقام نہ لیا بلکہ زمام خلافت سپرد کردی ۔مہتمم کے منصب پر لڑکر دارالعلوم دیوبند کودوحصے میں تقسیم اور تبلیغی جماعت وسپاہ صحابہ کے ٹکڑے کرنے والے بیچارے اسلام کی روح سے کیسے واقف ہوںگے؟۔ خانقاہ چشتیہ مسجد الٰہیہ کو18گروہ میں بانٹنے والوں کی خانقاہ اور اسلام سے محبت ہوگی؟۔ دارالعلوم کراچی میں وقف مال ذاتی ملکیت میں بدلنے کیخلاف فتویٰ دینے پر اپنے استاذ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی سخت ترین پٹائی کرنیوالا مفتی تقی عثمانی دشمن کو گرم جوش دوست کیسے بنائے گا؟۔
شاباش یزید کے بیٹے معاویہ پر تخت خلافت کو ٹھکرایا تھا مگرمروان کا حکومت پر یزید کے بعد قبضہ کرنے کا خاندانی حق نہ تھا۔ جو بنوامیہ ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کے خاندانی حق کے قائل ہیں تووہ خلافت راشدہ کی نفی اور شیعہ مؤقف کی تائید کررہے ہیں۔ پھرانکے ہاتھ کے طوطے اُڑ اُڑ کر شیعہ بنتے رہیں گے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے داماد سید زعیم قادری اتنے گستاخ شیعہ بن گئے تھے کہ اس کی کتاب کو دیکھ کر شیعہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوں گے۔ حضرت عمر کے خلاف جنس پرستی کا الزام تک لگادیا تھا ،جس کی وجہ سے کتاب پر پابندی لگی۔ جنس پرستی کا بڑا الزام مامون الرشید پر بھی لگایاگیا ۔ جس نے اپنا جانشین امام رضا کو نامزد کیا تھا۔ شیعہ کو چاہیے کہ دوسروں کی دل آزاری سے گریز کریں۔ تاریخ کی غلط باتوں سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ زد میں پھر سبھی آئیں گے ،ہوا کسی کی نہیں۔
جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی، جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن سے پہلے پنج پیری طلبہ کو مدارس سے نکال دیا جاتا تھا۔ مفتی محمد ولی درویش ہمارے استاذ تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مولانا نورالہدیٰ پنج پیری لائے تھے۔ مفتی درویش کہتے تھے کہ” گمراہی کی پہلی سیڑھی پنج پیریت، دوسری مودودیت، تیسری غیرمقلدیت ،چوتھی لادینیت ہے”۔ مفتی نظام الدین شامزئی شہید نے جامعہ فاروقیہ اور بنوری ٹاؤن کراچی میں پنج پیری طبقہ کیلئے نرم گوشہ پیدا کیا۔ مفتی زر ولی خان نے کہا :” پنج پیری بڑا بھونکتا ہے لیکن اگر ذرا سا پیر اس کی دُم پر رکھ دو تو کتے کے بچے کی طرح پھرکڑنچ کڑنچ کرنا شروع ہوجاتا ہے”۔ مفتی منیر شاکر پنج پیری تھا، پھر سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ یزید کی بڑی ستائش کرتا ہے۔ لیکن جب بیٹے پر تھوڑی سی آزمائش آگئی اور پاکستان کو سر پر اٹھالیا تو مفتی زرولی خان کی بات یاد آگئی۔ مولانا سیدمحمد بنوری جامعہ بنوری ٹاؤن میں شہید کئے گئے تو مفتی محمد ولی درویش واحدشخص تھا جس نے پھوٹ پھوٹ کر روکر کہا کہ” ظالمو! مدرسہ تو اسکے باپ نے بنایا تھا”۔ روزنامہ جنگ نے خود کشی کی جھوٹی خبر دی تھی اور یہ بڑی انوکھی بات تھی کہ سید محمد بنوریاپنے گھر میں شہید کردئیے گئے تو الزام خود کشی کا لگادیا۔ مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی خود کشی کی خبر دوسرے بیٹے نے دی لیکن پھر مولانا طارق جمیل کے بھائی نے اس کو ایک غلطی کی موت قرار دیا۔
ہمیں تو اس یزیدی سے بھی ہمدردی ہے جو عراق وشام کے سرحدی علاقہ میں ہے۔ جس نے اسلام ، مشرکین، یہودیت اور نصرانیت کو ملاکر نئے دین کا ملغوبہ بنایا ہے جس کیساتھ داعش نے زیادتیاں کیں۔ ابن صائد سے لیکر دجال اکبر تک ذاتی دشمنی کا سبق رحمة للعالمینۖ اور قرآن نے نہیں دیا۔ عداوت کو دوستی میں بدلنے کیلئے عمدہ طریقہ برائی کا بدلہ اچھائی ہے۔ یزید کے روحانی فرزندوں اور جسمانی پود سے تیار ہونے والی نسلوں سے ہوسکے تو انشاء اللہ احسان کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جنت میں جتنے زیادہ جوان داخل ہوں گے تو سیدا شباب اہل الجنة حسن و حسین کے پیروکاروں میں اضافہ ہوگا۔ یزید سے بدتر کردار حلالہ کے نام پر قرآن وسنت اور مسلمانوں کی عزتوں سے کھلواڑ ہے۔
قرآن ایک طرف وجادلھم بالتی ہی احسن ” اوران سے احسن طریقے سے لڑو” کا حکم دیتا ہے ۔ دوسری طرف وجاہدالکفار والمنافقین واغلظ علیھم ”اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو” کا بھی قرآن ہی حکم دیتا ہے۔صوفیاء اور شدت پسند خود کش حملے والے دونوں اعتدال سے ہٹ گئے ہیں۔ہمارا مقصد قرآن کی آفاقی تعلیمات کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ہے۔ ابولہب اور اس کی بیگم کا ذکر اور مختلف گروہوں کے تذکرے صرف ماحول کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ہیں۔ ابوجہل کا بیٹا بھی سچا پکا صحابی بن گیا تھا۔ نبیۖ نے تو ابوجہل کیلئے بھی دعا مانگی تھی لیکن بدقسمت نے نبیۖ کی دعا سے بھی اثر نہ لیا۔
الذین ان مکنٰھم فی الارض اقاموا الصلٰوة واٰتوا الزکٰوة و امروا بالمعروف ونھوا عن المنکر و للہ عاقبة الامور (الحج:41) ”جن لوگوں کو ہم زمین میں ٹھکانہ دیں تو وہ نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں اور اللہ کیلئے کاموں کا انجام ہے”۔ نبیۖ کے دور میں فجر کی نماز کیلئے جانے والی عورت کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو نبیۖ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔آیت میں جبری نماز اور جبری زکوٰة مراد نہیں ہے اور سب سے بڑا منکر سودی نظام ہے جو نبی ۖ نے معاف کرنے کا اعلان کیاتھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خلع کے مقدمے میں عورت حق مہر چھوڑنے کی پابند

خلع کے مقدمے میں عورت حق مہر چھوڑنے کی پابند

 

 

السلام علیکم! خواتین کیلئے یہ بہت ہی بری خبر کہ جو حق مہر کا کیس چاہتی ہے عورت خلع میں حق مہر100%چھوڑے گی۔ یہ ججمنٹ شریعت کورٹ سے آئی، آج ایک کیس میں خلع کی ڈگری ہوئی ۔ عورت کو100%حق مہر چھوڑنا پڑا۔ نکاح نامے میں14تولے زیور تھا جو100%چھوڑنا پڑا ۔ اگر وہ وصول کرچکی تو وہ واپس کرنا ہوگا۔ جو عورتیں خلع چاہتی ہیں عدالت سے یہ وہ ذہن میں رکھیں کہ خلع میں عورت کو اپنا حق مہر100%اماؤنٹwaive offکرنا ہوگا۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار:
علماء نے خلع کے وہ تمام حقوق عورت کے غصب کرلئے جو قرآن وسنت نے اسے دئیے ہیں ۔ شریعت وسپریم کورٹ کے ججوں، پڑھے لکھے دانشوروں ، صحافیوں اور سیاستدانوں کو قرآن وسنت اورعقل وفطرت کے مطابق ایک ایک چیز کا بغور جائزہ لیکران مسائل پر نظر ثانی کرنا چاہیے تاکہ عورت کو جائز حق ملے۔
٭٭

نجیب شہید ڈاکٹر نجیب اللہ صدر افغانستان کی بیٹی امریکہ میں پیشہ فوٹوگرافی سے منسلک ہوں محنت سے رزق حلال کماتی ہوں، کرایہ کے گھر میں شکر ادا کرتی ہوں کہ خائن لوگوں کی طرح ہم وطنوں کے خون پسینے سے کمائی ہوئی لوٹی گئی دولت سے خریدی گئی بلڈنگ میں نہیں رہتی۔ فخر ہے کہ میرے بابا نے پیارے وطن افغانستان سے کبھی خیانت نہیں کی اور نہ ہی میں اپنے قومی سرمائے پر گزربسر کررہی ہوں۔
تبصرہ:
ملاعمر کا بیٹا مسکا نجیب سے معافی مانگے یہ ایمانی غیرت کا تقاضا ہے۔ صحافی حامد میرنے انکشاف کیا کہ امریکہ نے طالبان کو کروڑوں ڈالر دئیے تھے!

٭٭

میرا نام تاترہ اچکزئی ہے۔ میں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار کی حیثیت سے پڑھاتی ہوں۔ میں خان شہید کی پوتی ہوں اور محترم مشر محمود خان اچکزئی کی بیٹی ۔میری نظر میں خان شہید تمام نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے ایک بہت بڑے رول ماڈل ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے خان شہید کی تحریک کو زندہ رکھیں۔ خان شہید محض ایک نام نہیں بلکہ یہ ایک بڑی فکر ہے اوربہت بڑی سوچ ہے۔ ہمیں چاہیے جب یہ وطن بڑی مشکل حالات کا سامنا کررہا ہے، تعلیم کی مناسبت سے، حقوق کی مناسبت سے، سیاست کی مناسبت سے ، چاہیے کہ ہم خان شہید (عبدالصمد خان اچکزئی )کی تحریک کو زندہ رکھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پروفیسرشیرعلی کا علماء کے نرغے میںجبری اقرار ڈاکٹرتیمور کااس پر تبصرہ

پروفیسرشیرعلی کا علماء کے نرغے میںجبری اقرار ڈاکٹرتیمور کااس پر تبصرہ

ڈاکٹر تیمور رحمان نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ پروفیسر شیر علی کا وہ ویڈیو جو شاید آپ لوگوں نے بھی دیکھا ہو میرے ذہن میں کئی روز سے گردش کررہا ہے۔ اس ویڈیو میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں ناقل العقل ہیں اور یہ بات حرف آخر ہے۔ پروفیسر شیر علی نے کہا”صنف عورت کی عقل صنف مرد کی عقل سے کم ہے لہٰذا اس بات کو حرف آخر سمجھتا ہوں”۔ یہ بات مجھے عجیب سی اسلئے بھی لگی کہ میں دو بیٹیوں کا باپ بھی ہوں اور میں اپنی بیٹیوں سے بے انتہاء پیار و محبت کرتا ہوں۔ اور میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ کیا میری بیٹیاں ناقص العقل ہیں؟۔ دوسرا میں ایک استاد ہوں بچیوں اور بچوں کو پڑھاتا ہوں جن بچیوں کو پڑھاتا ہوں کیا وہ ناقص العقل ہیں؟۔ اور تیسرا کیا یہ اسلام کا نقطہ نظر ہے کہ خواتین بحیثیت جنس مردوں کے مقابلے میں ناقص العقل ہیں؟۔ میں نے سوچا کہ پروفیسر شیر علی سے بھی یہ سوال کروں آپ سے بھی۔ اب میں یہ تو ماننے کیلئے تیار ہوں کہ ویسٹ کی فلسفے کی تاریخ میں ، رومن اور چرچ کی ہسٹری میں مسلسل وہ یہ بات کہتے آئے ہیں کہ خواتین ناقص العقل ہیں لہٰذا انہیں کسی قسم کی ریاست اور چرچ میں کوئی ذمہ داری نہ دی جائے۔ انکے فلاسفر، وکیل اور چرچ کے فادر بھی یہ بات کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پرPlato(پلیٹو) کہتے ہیں ”وہ مرد حضرات جو بزدل تھے جو کہ حق سچ پر کھڑے ہونے کیلئے تیار نہیں تھے اور بے ایمان تھے وہ اپنی اگلی زندگی میں جب دوبارہ پیدا ہوکر آئیں گے تو وہ عورتیں بن چکی ہوں گی”۔ اسی طرح Aristotle(ارسٹوٹل) کا یہ کہنا تھا Woman is an unfinished man
یا Infertile males۔ عورت نامکمل مرد ہے ۔ اور وہ یہ کہتے تھے ۔
"The male is higher, the female lower, that the male rules and the female is ruled.”
اسٹوٹل کا یہ کہنا تھا کہ مرد اور عورت کا وہی تعلق ہے جو کہ آقا اور غلام کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہمRoman Lawکو دیکھتے ہیں تو بیوی کو شوہر کی مکمل طور پر ملکیت سمجھا جاتا تھا رومن لاء کے اندر۔ جی ہاں! جس طرح میرے پاس کوئی کتا اور بلی گائے بھینس وغیرہ میری ملکیت ہے اسی طرح میری بیوی بھی اگر میں رومن ہوتا تو ان کے قانون کے مطابق تو وہ باقاعدہ میری ملکیت ہوتی اور میرے بچے بھی۔ اسی کو ہم پدرِ شاہی کی کہتے ہیں۔ جس کو ہم اردو میں پدرانہ نظام کہتے ہیں۔ مزید وہ یہ کہتے تھے کہ چونکہ عورت ناقص العقل ہے تو لہٰذا ہم اس کو کسی قسم کا کوئی پبلک آفس نہیں دے سکتے ۔ کوئی پبلک آفس اس کے پاس نہیں ہوگا ریاست میں اس کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ قانون کہ کٹہرے میں جب وہ آئے گی نہ تو وہ گواہ بن سکتی ہے نا کوئی کانٹریکٹ سائن کرسکتی ہے۔ نہ وہ خود کوئی کورٹ کیس کرسکتی ہے۔ اس کی طرف سے شوہر آئے گا تو کورٹ کیس ہوگا۔contractsignہوگا اس کی اپنی گواہیصفر بھی نہیں تھی۔ اسکے کوئی اپنے LegalRightsہی نہیں ہیں اندازہ کریں آپ۔ چرچ نے بھی رومن نکتہ نظر کو آگے پہنچایا مثال کے طور پر کہتے ہیں
"Both nature and the law place the woman in a subordinate condition to the man. Irenaeus”
مرد حاکم ہے عورت محکوم ہے۔ اسی طرح سینٹ آگسٹن کہتے ہیں:
"men should bear rule over women. Augustine”
جو کہ فاؤنڈنگ فادر میں شامل ہیں۔ اسی طرحEpiphanius کہتے ہیں :
"women are a feeble race, untrustworthy and of mediocre intelligence.”
عورت کمزور ہیں، ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ ناقص العقل ہیں۔ لہٰذا ان کو کسی قسم کی ہم نے کوئی پوزیشن نہیں دینی۔Tertullianکا تو یہ بھی کہنا تھا کہ :
"men is made in the image of god, and women is not made in the image of god”
اسی لئے عورت کو اپنا سر ڈھکنے کی ضرورت ہے۔
"Women must cover their heads, because they are not the image of God. Ambrosiaster”
یہ میرا نکتہ نظر نہیں ہے چرچ کے فادرز کا نکتہ نظر تھا۔ اسی طرح سےThomasAquinasکہتے ہیں کہ
"a female is deficient and unintentionally caused.”
عورت نہ صرف نقص سے بنی ہوئی ہے بلکہ غلطی سے بن گئی ہے۔ ان کے قانون آپ دیکھیں جو سن1140سے لیکر سن1916تک یعنی تقریباً آج سے100سال پہلے تک قائم رہے۔اس قانون میں
1:Woman signifies weakness of mind.
پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت ناقص العقل ہے۔
2:In everything a wife is subject to her husband because of her state of servitude.
دوسری بات یہ ہے کہServitudeکا مطلب ہے غلامی۔ کیونکہ وہ ناقص العقل ہے اور اپنے خاوند کی ماتحت ہے تو ہر چیز میں وہ اپنے خاوند کے ماتحت ہے پراپرٹی کے معاملے میں۔ طلاق کی تو اجازت ہی نہیں تھی آپ جانتے ہوں گے۔ شادی اور ہر فیصلے کے معاملے میں ۔ کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ عورت خدا کی صورت میں نہیں بنائی گئی مگر مرد بنایا گیا ہے۔
3:Woman is not created in the image of God.
4:Wives are subject to their husbands by nature.
5:Women may not be given a liturgical office in the church.
6:Women cannot become priests or deacons.
7:Woman may not teach in church.
8:Women may not teach or baptize.
عورتیں نہ تو پادری بن سکتی ہیں نہ ڈیکن بن سکتی ہیں۔ کوئی آفیشل پوزیشن وہ چرچ میں نہیں رکھ سکتیں مگر نن بن سکتی ہیں۔ مگر کوئی ذمہ داری وہ نہیں لے سکتیں کیونکہ وہ ناقص العقل ہیں۔ یہ چرچ کا نکتہ نظر تھا میرا نہیں جو انہوں نے گریکو رومن سویلائزیشن سے حاصل کیا اور1916تک چرچ کا یہ نکتہ نظر رہا۔ اور ہم نے بچپن سے یہ پڑھا کہ اس بالکل یہ بات درست ہے کہ یہ سب قوانین جو ویسٹ نے کبھی خواتین کو نہیں دئیے وہ ہم نے دئیے مسلمانوں نے دئیے۔ یہ بات آپ نے پڑھی ہوگی کہ جو فلاسفر نہیں قبول کرنے کیلئے تیار تھے جورومن لاء نہیں قبول کرنے کیلئے تیار تھا جو چرچ نہیں قبول کرنے کیلئے تیار تھا وہ قوانین اور حقوق اسلام نے دئیے۔ حضور پاک ۖ نے جدوجہد کی اور دور جاہلیت سے انسانیت کو نکالا۔ آپ دیکھیں کہ قرآن کریم میں لکھا ہے :بسم اللہ الرحمن الرحیم
"and when the girl child that was buried alive is made to ask for what crime she had been slain. Quran 81:8-9″.
یہ اتنی ہلادینے والی آیت ہے جس کا حد حساب کوئی نہیں۔ کہ جس بچی کو دفن کیا گیا وہ پوچھے کی روزِ آخرت کو کہ مجھے کیوں دفن کیا گیا؟۔ اور دفن سے مراد میں تو یہ بھی لیتا ہوں کہ کچھ لوگوں کو تو زندہ گاڑھ دیا گیا زمین کے اندر اور کچھ لوگوں کوزندہ ہی دفن کردیا گیا اس سینس میں کہ ان کی زندگی برباد کردی گئی ان سے سارے حقوق چھین لئے گئے ان کو غلام بنادیا گیا۔ وہ بھی تو ایک طرح کیBuriedAliveوالی ہی بات ہے۔ تو اسلام نے کیا کیا؟۔ اسلام نے کہا کہ بچیوں کو بھی حصہ ملے گا باپ کی جائیداد میں سے۔
1:Right to inheritance.
2:Property.
اسلام نے پراپرٹی کا حق دیا ۔ خواتین خود پراپرٹی کی مالک ہوں گی کوئی ان سے چھین نہیں سکتا کوئی لے نہیں سکتا۔
3:Social and marriage rights.
اسلام نے سماجی اور نکاح کے حقوق دئیے۔ اسلام نے کہا کہ کسی خاتون کی زبردستی شادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مزید یہ کہ
4:Right to initiate divorce.
دیا جس کی عیسائیت میں اجازت نہیں ہے۔ عیسائی مذہب میں خاتون طلاق نہیں لے سکتی۔ گریکو رومن ورلڈ میں خاتون طلاق نہیں لے سکتی تھی۔ مگر اسلام کے اندر یہ اجازت تھی کہ خاتون خلع لے سکتی ہے۔اوروہ صرف اس وجہ سے بھی خلع لے سکتی ہے کہ وہ کہے کہ میں خوش نہیں ہوں اپنے مرد کے ساتھ۔ وہ مجھے مطمئن نہیں کرسکتا اسلئے میں طلاق لے رہی ہوں۔ اور آپ بھی جانتے ہوں گے اچھی طرح دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کئی خواتین اسلامک ہسٹری میں کئی آفیشل پوزیشن پر قائم رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ میں کسی وقت پوری لسٹ آپ کو بناکر دوں گا۔
5:Many women have had leading roles in Islam.
تو یہ باتیں ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں ۔ اگر ہم خواتین کو اتنے حقوق دے رہے ہیں تو اس کا مطلب تو یہی ہے کہ ہم شاید یہ نکتہ نظر نہیں رکھتے خواتین کوئی ایسی جنس ہے جو بھیڑ بکریوں کی طرح ہے جوجانوروں کی طرح ہے باتوں کو سمجھ نہیں سکتا ۔ ان کو گواہی کا بھی حق ہے اور بہت سارے حقوق ہیں اسلام کے اندر تو آج ہمیں کیا ہوا ہے؟۔ اب اس حوالے سے میرے ذہن میں تین سوال ہیں۔ الٹ ہوگیا ہے ایک طرح سے کہ ویسٹ خواتین کے حقوق کی بات کررہا ہے جو پہلے بالکل خواتین کے حقوق کے خلاف تھا۔ اور ہم جو بالکل خواتین کے حق میں تھے ، الٹ ہوگیا ہے معاملہ۔ وہ خواتین کے حقوق میں بات کررہے ہیں اور ہم وہ کہہ رہے ہیں جو پہلے کسی زمانے میں وہ کہتے تھے کہ خواتین تو ناقص العقل ہیں لہٰذا انہیں کسی قسم کے حقوق نہ دئیے جائیں۔ اگر خواتین واقعی ناقص العقل ہیں تو میرے ذہن میں سب سے پہلا سوال تو یہ ہوتا ہے کہ
How come they study in the same class and get the same grades.
میری کلاس کے اندر خواتین مرد دونوں ہیں اور دونوں تقریبا ً ہم عمر ہوتے ہیں ۔چلو ایک کلاس میں نہ ہوں تو ایک یونیورسٹی میں ہوتے ہیں چلو یونیورسٹی میں نہ ہوں تو ایک ملک کے اندر ہوتے ہیں۔ کوئی خواتین کی یونیورسٹیز ہوتی ہیں کوئی مردوں کی ہوتی ہیں۔ ایک ہی سلیبس ہم ان کو پڑھاتے ہیں۔ کلاس ون سے لے کر یونیورسٹی تک ایک سلیبس ہوتا ہے ۔ ہم تو نہیں تفریق کرتے کہ یہ تو خاتون ہے تو اس کاBAکا سلیبس تھوڑا آسان ہونا چاہیے ۔ اور دنیا چل رہی ہے اس میں کوئی پرابلم نہیں ہے۔ پوری دنیا میں ایجوکیشن اسٹینڈرڈ چاہے خاتون ہو یا مرد ہو دونوں کے ایک ہی ہیں۔ ایک ہی امتحان دیا جاتا ہے اور وہ امتحان خواتین بھی لیتی ہیں اور مرد بھی لیتے ہیں۔ اور چونکا دینے والے اعداد شمار یہ بتاتے ہیں حقیقت میں دنیا کے اندر الٹ ٹرینڈ چل رہا ہے خواتین زیادہ کالج جارہی ہیں زیادہ پڑھائی کررہی ہیں اور زیادہ گریجویٹ کررہی ہیں۔ اور مرد ، لڑکے کھلنڈرے ہوتے ہیں آپ کو پتہ ہی ہے اگر کالج جاتے ہیں پڑھائی اپنی مکمل نہیں کرتے۔ خواتین مردوں کے مقابلے میں کالج ختم بھی کررہی ہیں اور بہتر رزلٹ لے رہی ہیں۔ اور بھی پروفیسر آپ کو یہ بات بتاچکے ہیں ڈیٹا آپ کے سامنے ہے۔
Women Outnumber Men in College. Women earned 45.1 percent of bachelor’s degrees in business in 1984-5 and 50 percent by 2001-2, up from only 9.1 percent in 1970-1.
یعنی مجموعی طور پر عورت اوپر آرہی ہے ، جیسے ہی موقع دیا ہے خواتین کو ویسٹ نے تو وہ مردوں سے آگے نکل رہی ہیں۔ کتنی چونکا دینی والی بات ہے۔ یہ دیکھیں مزید اعداد و شمار ہیں۔
In 39 out of the 47 UNECE countries with data, more than 55 per cent of tertiary graduates are women.
صرف ازبکستان میں کم ہیں باقی تمام ہی ممالک میں50فیصد سے زیادہ گریجویٹس خواتین ہیں۔ اور کچھ ممالک میں تو جیسے
Iceland, Cuprus, Polandمیں تو65%فیصد گریجویٹس خواتین ہیں اور35%گریجویٹس صرف مرد ہیں۔ تو عورتیں ایجوکیشن میں مردوں سے آگے نکل رہی ہیں پیچھے تو نہیں رہ رہیں۔ اگر وہ ناقص العقل ہوتیں تو یہ ڈیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟۔
دوسرا سوال میرا یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جب ان کو موقع دیا گیا ہے، ویسٹ کے اند ر کتنی صدیوں سے ان کو یہ موقع فراہم نہیں کیا گیا ہے اب ان کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایجوکیشن میں حصہ لیں، یونیورسٹی جائیں، وہ گریجویٹ کریں، وہ سائنٹسٹ بنیں، وہ ڈاکٹرز بنیں، وہ انجینئر بنیں، ٹیچرز بنیں، اسکالرز بنیں، شاعر بنیں جو بھی۔ سب موقع ملا ہے تو اب وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔ آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ یہ ڈیٹا ہے میرے پاس کہ1901سے لیکر2023تک یعنی کہ پچھے122سالوں کے اندر64عورتوں کو نوبل پرائز ملا ہے۔ یہ صرف پیس پرائز کی بات نہیں کررہا جو ملالہ یوسفزئی کو ملا ہے۔ ان میں” نوبل پرائز ان فزکس” ہے، بڑی مشکل مشکل چیزیں یہ کررہی ہیں ۔ کوئی ”الیکٹران ڈائنامک ان میٹر” کررہا ہے کوئی ”سینٹر آف اور گلیکسی” کررہا ہے ۔ کوئی ”الٹرا شارٹ آپٹیکل پلسز” کو سمجھ رہا ہے کوئی ”شیل اسٹرکچر” کو سمجھ رہا ہے ، کوئی ”ریڈی ایشن” کو سمجھ رہا ہے ۔ اتنی مشکل مشکل چیزیں ہیں۔Merie Curieنے تو دو دفعہ نوبل پرائز لیا ہے۔ نوبل پرائز فزکس میں وہ پرائز ہوتا ہے جس سے دنیا بدل جاتی ہے اس سال کی سب سے بڑی یہ ڈسکوری ہوتی ہے ۔
اسی طرح آپ دیکھیں۔ یہ ہے ”نوبل پرائز ان کیمسٹری”۔ میں تو ان کا نام بھی نہیں پڑھ سکتا جو لکھا ہے
"bioorthogonal chemistry”
”بائیو آرتھوگونال کیمسٹری”۔ قسم ہے خدا کی مجھے پتہ ہی نہیں کہ وہ ہے کیا چیز۔ اور اس میں انہوں نے نوبل پرائز حاصل کیا ہوا ہے۔
genome-editingمیں،evolution-of-enzymesمیں، function-of-the-ribosomeمیں،اب مجھے نہیں پتہ کہ ری بو سوم کیا ہوتا ہے۔ biochemical-substancesمیں ، x-rey-techniquesمیں، radioactive-elementsمیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ نوبل پرائز لے رہی ہیں کیمسٹری کے اندر وہ خواتین جو کہ ناقص العقل ہیں۔
یہ ”فزیالوجی اور میڈیسن” میں اتنے سارے نوبل پرائز کی لسٹ ہے۔Malariaکے اوپر، positioning-of-brainکے اوپر،telemersکے اوپر، telomers-and-enzymeکے اوپر، immunodeficiency-virusکے اوپر جسے ہمHIVکہتے ہیں،olfactory-systemکے اوپر، embryonic-developmentکے اوپرکیا کچھ ہے،COVID-vaccinesکے اوپر، میں تو اسکے مقابلے میں جانتا ہی نہیں۔drug-treatmentکے اوپر،growth-factorsکے اوپر،mobile-genetic-elementsکے اوپر،radioimmunoassas of peptide harmonesکے اوپر خدا جانے یہ کیا چیز ہوتی ہے۔catalytic conversion of glycogenکے اوپر ، واقعی سنجیدگی سے میں کچھ نہیں جانتا کیمسٹری کے بارے میں۔ تو یہ ناقص العقل عورتوں نے پتہ نہیں کس طرح نوبل پرائز حاصل کرلیا ہے اس فیلڈ کے اندر۔
یہ ”نوبل پرائز ان لٹریچر” ہے۔ کئی مختلف نوبل پرائزز ہیں لٹریچر کیلئے۔ میں مزید تفصیل میں نہیں جاتا تو64خواتین نے پچھلے100سالوں میں نوبل پرائز حاصل کیا ہے۔
آخری سوال میرا یہ ہے کہ اگر عورتیں ناقص العقل ہیں تو بنگلہ دیش جہاں پر شیخ حسینہ صاحبہ پرائم منسٹر ہیں پچھلے14سال سے اور1990سے سیاست کررہی ہیں بنگلہ دیش میں ۔ مگر وہ پاکستان سے آگے نکل گیا ہے۔ یہ کیسے ہوگیا ہے؟۔ اگر تو وہ ناقص العقل پرائم منسٹر ہیں یا کسی ناقص العقل انسان کو انہوں نے پرائم منسٹر بنایا ہے تو بنگلہ دیش ہم سے آگے کیسے نکل گیا ہے؟ یہ بات مجھ سے ہضم نہیں ہورہی جبکہ ایک ناقص العقل خاتون ان کو لیڈ کررہی ہیں۔
تو میری مدد کیجئے میں کافی کنفیوسڈ آدمی ہوں آپ کو پتہ ہے۔ خاص طور پر میں پروفیسر شیر علی صاحب سے مخاطب ہورہا ہوں کہ میرے ذہن میں جو ابہام ہے وہ یہ ہے کہ کیا خواتین واقعی ناقص العقل ہیں۔ اور کیا یہ حرف آخر ہے اور کیا معاملہ کچھ یہ ہے کہ درحقیقت تاریخ میں خواتین کو مواقع ہی نہیں دئیے گئے ۔
They will deprived of opportunity?
ان کو تعلیم سے محروم رکھا گیا، ان کو عہدوں سے دور رکھا گیا ، ان کو ذمہ داریوں سے دور رکھا گیا، ان کو یونیورسٹیوں، کالجوں ، علم کی دنیا سے دور رکھا گیا، اسی لئے وہ پیچھے رہ گئیں دنیا کی دوڑ کے اندر۔ اور جیسے ہی ان کو موقع ملا کہ وہ تعلیم حاصل کرسکیں کہ وہ ذمہ داریاں لے سکیں گھر سے باہر بھی چاہے وہ حکومت کی ذمہ داریاں ہوں، وہ چرچ کی ذمہ داریاں ہوں، وہ کوئی اور ذمہ داریاں ہوں کسی بھی قسم کی۔ دنیاوی ذمہ داریاں جس کو ہم کہتے ہیں انہوں نے جب لیں تو اس کے اندر انہوں نے یہی ثابت کیا کہ وہ بھی اتنی ہی قابل ہیں جتنے مرد قابل قابل ہیں۔ اور کبھی کبھار تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ کچھ چیزوں میں شاید ہم سے زیادہ ہی قابل ہوں کیونکہ ہم تھوڑے کھلنڈرے ہوتے ہیں۔ تو بہرحال یہ میرے ذہن میں کچھ سوال ہیں تین موٹے موٹے۔
1: اگر وہ ناقص العقل ہیں تو تعلیمی شعبے میں کس طرح سے مردوں کے مقابلے میں پرفارم کررہی ہیں؟۔
2: اگر وہ ناقص العقل ہیں تو اتنے سارے نوبل پرائز انہوں نے کیسے جیت لئے؟۔
3: اگر وہ ناقص العقل ہیں تو وہ ممالک جہاں وہ لیڈ کررہی ہیں تو انہیں پیچھے جانا چاہئے تھا مگر ہمیں ایسے نظر نہیں آرہا بنگلہ دیش کی مثال بھی ہے، اور بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ جب وہ ہیڈ آف اسٹیٹ بنیں شیخ حسینہ تو ملک نے اتنی ترقی کی جس کی نتیجے میں پاکستان بھی پیچھے رہ گیا۔ پلیز! میری مدد کیجئے۔ کنفیوسڈ آدمی ہوں کچھ نہیں جانتا ان چیزوں کے بارے میں آپ ہی بہتر مجھے گائڈ کرسکتے ہیں۔ آپ کی گائیڈنس کا منتظررہوں گا۔ شکریہ۔ ڈاکٹر تیمور رحمان

تبصرہ نوشتہ ٔ دیوار
ڈاکٹر تیمور! پروفیسر شیر علی کو علماء کرام نے مجبور کیا کہ لکھی ہوئی تحریرسنائے! 200احادیث ہیں: ”جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے” ۔ مگر علماء مسلک کی وجہ سے منکر ہیں؟ شاہ عبدالعزیز نے لکھاہے ”اگرکوئی حدیث کا انکاراپنی عقل کی وجہ سے کرے تو اس پر فتویٰ نہیںلگتاہے”۔ پروفیسر شیرعلی پر قاتلانہ حملہ ہوچکا۔PTMپنجابی فوج پر الزام کی جگہ پشتون علماء کا کرداردیکھ لے ۔ اگر علماء کو زبردستی کوئی مجبور کرے گا تویہ مکافاتِ عمل ہوگا؟۔
اگر اسلام کی درست تعلیمات کوPTMکے جوان عام کریں گے تو پشتون معاشرے میں ایک بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔ فوج سے زیادہ خطرناک علماء و مفتیان کا وہ کردار ہے جن کی وجہ سے لوگ حلالہ کی بے غیرتی پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر تیمورنے اگر قرآن وسنت کی طرف توجہ دی توواقعی بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv