پوسٹ تلاش کریں

تین طلاق سے رجوع کی درست تعبیرعلم کی روشنی میں: اداریہ نوشتہ دیوار کالم 1 صفحہ 2 شمارہ اپریل 2018

hazrat-umer-hazrat-ali-imam-abu-hanifa-imam-malik-imam-shafai-imam-hanbal-halalah-teen-talaq-triple-talaq-quran-syed-atiq-ur-rehman-gailani-ibn-e-majah-haiz-allama-ibn-e-qayyim-bakri-doodh

قرآن وسنت میں طلاق و عدت 3 طہرو حیض ہے۔تین دن کے تین روزے کی طرح طلاق 3طہراور عدت 3حیض ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو طلاق وعدت 3 ماہ ہے۔ یہ قرآن و احادیث میں روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ سورہ بقرہ آیت 228، 229 اور سورۂ طلاق آیت1اور2میں کے علاوہ بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں نبیﷺ نے یہ وضاحت فرمائی تھی۔
اُمت نے بدقسمتی سے قرآن وسنت کی طرف رجوع نہ کیا۔ مسالک کی وکالت اور تقلیدجاری رکھی ۔ شاہ ولی اللہؒ نے قرآن و سنت کی ترغیب دی۔ شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے تقلید کو بدعت قرار دیا۔ اکابرِ دیوبند ؒ نے تائید کی اور اعلیٰ حضرت بریلویؒ کی طرف سے ’’حسام الحرمین‘‘ کے فتوے سے مقلد اور حنفی ہونے کی وضاحت کردی۔ نواب صدیق حسن خانؒ نے پھر اہلحدیث مسلک کی بنیاد رکھ دی۔
حنفی مسلک میں تقلید نہیں اس اجتہاد کی تعلیم ہے کہ امام و دیگر شخصیات تو دور کی بات ہے قرآن سے متضاد احادیث کو بھی رد کیا گیا۔ اہل حق کایہ سلسلہ قیامت تک باقی رہیگا۔ حدیث میں رضاعتِ کبیر کی آیات اور انکا نبیﷺ کے وصال پر بکری کے کھا جانے سے ضائع ہونے تک کی باتیں صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں موجود ہیں۔ حنفی مسلک کی تعلیم نے اُمت مسلمہ کو اس حد تک گمراہی میں نہ جانے دیاتھا۔
تین طلاق پر قرآن وسنت میں کوئی ابہام نہیں۔ تین طلاق سے صرف اور صرف تین حیض کی صورت میں تین روزے کی طرح3 طہر مراد ہیں۔حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کا کوئی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا کہ ’’ طلاق سے رجوع کا تعلق عدت سے ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کے اندر بھی باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘۔ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل پر رجوع ہوسکتا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ عدت کی تکمیل کے بعدرجوع اور نکاح ہوسکتا ہے‘‘۔ سورۂ بقرہ کی آیت224سے232تک اور سورۂ طلاق کی پہلی 2 آیات میں جو طلاق سے رجوع کا نقشہ ہے ،اسکے بعد یہ بات تو سمجھ میںآتی ہے کہ حلالہ کا مروجہ مسئلہ قرآن وسنت اور حنفی مسلک کے ہوتے ہوئے نہیں پروان چڑھنا چاہیے تھا مگر یہ سمجھنا ہوگا کہ مغالطہ کیسے پیدا ہوگیا؟۔ جامعہ بنوری ٹاؤن اور دارالعلوم امجدیہ کراچی کے رئیس دارالافتاء اپنی اپنی ٹیموں کیساتھ اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی و مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اپنے نامزد کردہ افراد کو تشکیل دیں۔ انشاء اللہ ان کی تسلی بھی ہوجائے گی اور اگر نہ مطمئن نہیں کرسکا تو ان کا جوتااور میرا سر۔
احادیث صحیحہ میں ایک ایسی حدیت نہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہو کہ ’’ عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ، حلالہ کروانے کا حکم تو بہت دور کی بات ہے‘‘ اگر بالفرض کوئی روایت ہوتی توبھی حنفی مسلک نے اپنی اصولِ فقہ کے تحت اس حدیث صحیحہ کو رد کرنا تھا اسلئے قرآن کی وضاحت کے بعد حنفی مسلک کا یہی تقاضہ ہے۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں اکٹھی تین طلاق پر نبیﷺ غضبناک ہوئے تو غضبناک ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا تھا، اسلئے کہ حضرت ابن عمرؓ کی طرف سے حیض کی حالت میں طلاق دینے پر بھی غضبناک ہوئے اور پھر رجوع کا حکم بھی دیا۔( بخاری)۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمرؓ نے تین طلاق دئیے تھے، جس سے نبیﷺ نے رجوع کا حکم دیاتھا‘‘۔بہر حال یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ نبیﷺ قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے غضبناک ہوئے تھے لیکن یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ’’ اگر کوئی قرآن کیخلاف ایک ساتھ تین طلاق دیگا تو اس کی طلاق واقع ہوگی اور عدت کے بعد عورت کو دوسری جگہ شادی کی اجازت ہوگی‘‘۔ البتہ اس پر غور کرنے کی ضرورت تھی کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی رضامندی سے رجوع پر راضی ہوں تو قرآن نے رجوع کا تعلق میاں بیوی کی رضامندی اور عدت سے جوڑ دیا ہے۔ اس روایت کی کوئی غلط تشریح کی ضرورت نہ تھی کہ نبیﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی تین سال تک ایک ساتھ تین طلاق بھی ایک شمار ہوتی تھی۔ ( صحیح مسلم)۔ جب رجوع کا تعلق باہمی رضامندی سے اصلاح کیساتھ ہو تو یہ گھر کا معاملہ تھا جس کو گھر میں حل کیا جاتا۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق کے خطرہ پر دونوں جانب سے ایک ایک رشتہ دار تشکیل دیا جاتا تھا ۔ جب معاملہ میاں بیوی اور ایک ایک رشتہ دار کے ہاتھوں سے نکل گیا اور صورت اکٹھی 3 طلاق کی تھی۔ ایک طرف لوگوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہے اور دوسری طرف میاں بیوی کے درمیان اکٹھی 3 پر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ آیا تو حضرت عمرؓ نے قرآن کے مطابق ٹھیک فیصلہ دیا کہ ’’ تنازع میں ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع نہیں ہوسکتا ‘‘۔ قرآن میں عدت میں باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کا حق تھا۔ جب تنازعہ ہوا تو حضرت فاروق اعظمؓ نے قرآن کے عین مطابق بالکل ٹھیک فیصلہ دیدیا۔ باب العلم حضرت علی المرتضیٰؓ نے حضرت عمرؓ کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ ’’ ایک ساتھ تین طلاق پر بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن تنازعہ کی صورت میں یہی فتویٰ دیتے تھے کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے‘‘۔ خلفاء راشدینؓ نے قرآن کی روح کے بالکل عین مطابق عمل کیا تھا۔
چاروں امام ؒ نے بھی بالکل 100 فیصد درست فتویٰ دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق نہ صرف واقع ہوتی ہیں بلکہ شوہر کیلئے رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ اگریہ فتویٰ نہ دیتے تو عورت طلاق کے بعد رجوع سے نکاح میں آتی اور زندگی بھر کسی اور سے نکاح نہ کرسکتی۔ حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ اور ائمہ ؒ نے قرآن وسنت کی مکمل پاسداری سے خواتین کے حقوق کی زبردست حفاظت کی ۔ کیونکہ بالا دست مردوں سے رجوع کا حق چھین لیا۔ مرد باہمی سوچ ،سمجھ ، باہوش وحواس تمام مراحل طے کرکے ایسی صورت میں بھی طلاق وعدت کے بعد دوسری جگہ شادی نہ کرنے دیتے تھے جب وہ خود رجوع بھی نہ کرنا چاہتے ہوں اور کوئی رابطہ بھی نہ رکھنا چاہتے ہوں۔ اس خاص صورتحال کی اللہ تعالیٰ نے بھرپور وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر اس صورت میں طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے‘‘۔ مردوں کے پاس اتنی طاقت آج بھی ہے کہ اگر وہ دوسری جگہ بسانے سے روکنا چاہتے ہوں تو عورت کو تین طلاق دینے کے بعد بھی اسکا نکاح کسی سے کروادینگے اور پھر اس کو بٹھادینگے۔ اسلئے نبیﷺ نے بہترین رہنمائی فرمائی کہ نکاح کافی نہیں بلکہ ایکدوسرے کا ذائقہ چکھ لینا بھی ضروری ہے۔حلالہ کے فتوے خواتین کی عزتیں لٹوانے کیلئے نہیں بلکہ مردوں کی بالادستی سے جان چھڑانے کیلئے تھے لیکن قرآن کی طرف رجوع ہوتا تو مروجہ حلالے کا تصور بھی ختم ہوتا۔ نورالانوار میں حنفی مسلک یہی ہے کہ ’’ اس طلاق کا تعلق متصل فدیہ کی صورت ہی کیساتھ ہے‘‘۔ علامہ ابن قیمؒ نے ابن عباسؓ کی یہی تفسیر زادالمعاد میں نقل کی ہے۔ بخاری کی حدیث میں عدت ونکاح کے بعد ذائقہ چکھ لینے کی بات ہے جس کا سورۂ بقرہ کی آیات سے کوئی ٹکراؤ نہیں اور ابوداؤد کی روایت میں تین طلاق اور عدت کے بعد حلالہ کے بغیر نکاح واضح ہے۔ قرآن واحادیث اور اصولِ فقہ کے بنیادی قواعد سے تمام مسائل کا حل نکل سکے گا۔