پوسٹ تلاش کریں

مہدی منتظر: ایک نوجوان سے جو نہ اپنا کوئی ماضی جانتا ہے ، نہ اس کے پاس کوئی ظاہری دلیل ہے نہ کوئی شیخ ہے نہ اُستاذ، ایک ایسے مرد تک جو دنیا کو بدل دیتا ہے (عنوان کا ترجمہ)

یوٹیوب چینل :عنقاء مغرب

ضروری نوٹ:عربی میں بہت سارے چینل امام مہدی کی حقیقت کتابوں کی روشنی میں اور خوابوں سے بتاتے ہیں۔اب چیٹ GPT وغیرہ سے عربی کا ترجمہ بھی آسان ہے۔شیعہ سمجھ رہا ہے کہ مہدی غائب کا ظہور ہوگا اور سنی سمجھتا ہے کہ گھوڑا سوار نکلے گا۔ اس شخص کی یہ گیارویں ویڈیو ہے۔ اس سے پہلے کی ویڈیوز میں بھی بہت سارے حقائق ہیں۔ اس ویڈیو سے 4دن پہلے کا عنوان ہے ” مہدی منتظر کے وہ کیا گنا ہ ہیں جس کی وجہ سے اصلاح کی رات یعنی انقلاب میں تأخیر ہورہی ہے؟۔ اور اس پر تہمت کیوں لگائی جاتی ہے؟۔اور مہدی نے شیاطین کو کس طرح سے دھوکہ دیا”۔ اس کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں: اس کے کئی نام ہیں۔ معروف بھی اور غیر معروف بھی۔ محققین کے درمیان وہ خود محقق ہے لیکن اس کو چوروں کے درمیان تلاش کیا جاتا ہے۔ اس سے نجباء بیعت کرتے ہیں ابدال اس کی نصرت کرتے ہیںاور ایک جماعت اس کی مددگار ہے…

اس کا معاملہ روشن سورج سے بھی زیادہ واضح ہوتاہے۔وہ اپنے مقام شمشیری سے ظاہر ہوتا ہے مگر روحانی مقام سے مخفی رہتا ہے۔کبھی تم پسند کروگے اور کبھی نفرت کروگے۔کبھی تم اس کی تعظیم کروگے اور کبھی اس سے لاتعلقی ظاہر کروگے۔کبھی تم اس کا اشتیاق کروگے اور کبھی چاہوگے کہ پاس نہ ہو۔ اسلئے اس کی سیرت اور احوال نے اصلاح سے پہلے اولیاء اور علماء کو حیران کررکھا ہے۔ پس اے عزیزو! امام مہدی کی احوال میں عجیب کیفیت ہے۔ وہ خواہش،گناہ اور جذب کی حالتوں میں الٹ پھیرسے گزرتا ہے۔تو مہدی کے گہرے ابتلاء کا راز کیا ہے؟۔

لوگ ایسا مہدی چاہتے ہیں جو ابتداء سے پاک ہو، انبیاء کی طرح معصوم ، خواہش، گناہ، شک اور کمزوری سے خالی ہو لیکن اللہ کی سنت ایسی نہیں ، مہدی ابتلاء کے مقام سے بالاتر نہیں بلکہ ابتلاء کا مرکزہے۔

جس نے یہ نہیں جانا کہ مہدی گمراہی ، ضیاع اور خواہش سے گزرتا ہے اس نے اللہ کے چناؤ کی پہلی شرط کا انکار کیا۔اور شرط یہ ہے کہ انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے۔یہاں تک اس میں کوئی چیز بھی اصلاح کے قابل نہیں رہتی۔ پھر اس کو اللہ کی نگاہ میں نئے سرے سے پیدا کیا جاتا ہے۔مہدی ہر انسان کی طرح پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے دل میں ایک اضطراب ہوتا ہے۔جو کسی اور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ اس پر ایک ایسی قوت مسلط کی جاتی ہے جو اس میں شہوت کو بیدار کرتی ہے، نہ صرف جسمانی بلکہ وجودی معنی میں بھی۔تجربے کی محبت،احساسات کی خواہش،زندگی میں موجود ہر خطرناک ذائقے کا شدید ذوق۔

وہ خواہش میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس میں داخل ہوتا ہے ، چکھتا ہے۔ گرتا ہے اور بار بار گرتا ہے۔پھر وہ دوبارہ گرتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ وہ بائیں جانب والوں اور خواہش پرستوں میں سے ہے اور سمجھتا ہے کہ اس میں کچھ بھی اللہ کو راضی کرنے والا نہیں ہے۔اس کی زبان اس کو دھوکہ دیتی ہے ، نظریں فاش ہوجاتی ہیںاور مٹی (دنیا) کی طرف اس کا میلان بالکل واضح ہوتا ہے ، تأویل کی ضرورت نہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود اسکے اندر کچھ بجھتا نہیں ۔اسکے دل میں ایک روشن نقطہ ہوتا ہے جو کبھی نہیں مرتا، خواہ خواہش غالب آجائے۔گویا خواہش اس کو جلاتی نہیں پاک کرتی ہے۔گویا جو آگ اسے کھاتی ہے وہ اسے فنا نہیں کرتی بلکہ دوبارہ ڈھالتی ہے۔وہ جذب کی حالت میں ہوتا ہے بغیر جانے کیونکہ خواہش انجام نہیں بلکہ ابتداء ہوتی ہے امتحان کی۔

اس کی کچھ خاص نشانیاں ہیں جو بصیرت والے سے پوشیدہ نہیں ۔ جن میں یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے نکلے گا اور مدینہ منورہ جائے گا ، جہاں اہل مدینہ اس کی بیعت کریں گے۔ اسکے پاس ہر دور دراز سے مخلص اور امین لوگ ہوں گے جو دین کی حمایت اور عدل کو قائم کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلیں گے۔ وہ ظالموں اور فساد پھیلانے والوں سے لڑے گا۔ ظالموں کی بالادستی ختم کرے گا۔ زمین پر عدل اور امن قائم کرے گا۔ غربت اور جہالت کا خاتمہ اور مسلمانوں میں اتحاد کا پرچم بلند کرے گا۔ اسکے دور میں علم وثقافت میں ترقی ہوگی ۔ہر حقدار کو ا سکا حق دیا جائیگا۔ انسانی حقوق اور عزت کا احترام ۔ دین محبت، اخوت، برداشت،رحمت اور عدل پر قائم ہوگا۔ جس میں تعصب اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔

اللہ اس کو وسیع موقع عطا کرے گا کہ وہ حکمت اور اچھی نصیحت سے لوگوں کو دین کی دعوت دے، اسکا اثر لوگوں کے دلوں پر گہرا ہوگا۔ وہ صالح علمائ، اولیاء اور مخلص لوگوں کی حمایت حاصل کرے گا جو اس کی عظیم ذمہ داری میں مدد کریں گے۔ لوگوں کے دلوں میں جگہ ہوگی اور دنیا میں اس کی بڑی اہمیت ہوگی۔ وہ ہر آزمائش اور رکاوٹ کے باوجود اپنی راہ پر گامزن رہے گا۔اللہ پر توکل کرے گا صبر و شکر کیساتھ۔نماز و ذکر سے مدد لے گا۔ وہ لوگوں کو ایمان کا اصل معنی سکھائے گا۔سنت نبوی کو زندہ کرے گا۔اللہ کے بندوں کیساتھ عہد کو تازہ کرے گا۔ اللہ کے نزدیک اس کا اجر عظیم ہوگا اور اس کا ذکر زمین وآسمان میں بلند ہوگا۔ وہ لوگوں کو اللہ کی یکتائی پر بلائے گا اور شرک وبدعت سے دور رہنے کی دعوت دے گا۔تاکہ دین صرف اللہ کیلئے خالص ہو۔ وہ غلو اور انتہا پسندی کے نقصانات سے آگاہ کرے گا۔اور دین و دنیا میں اعتدال اور وسطیت کی تلقین کرے گا۔ وہ بکھرے ہوئے دلوں کو جوڑے گا مختلف گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ نزاعات کو ختم کرے گا جو امت کی کمزوری کا باعث بنے۔ اس کی دنیا کے بادشاہوں کے سامنے بڑی عزت ہوگی۔ کوئی بھی اس کی مخالفت یا کام کو روکنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس کی بات نافذ العمل ہوگی کہ اس کا حکم لازمی ہوگا۔ لوگ اس کی سچائی اور اثر کی وجہ سے خوش دلی سے پیروی کریں گے۔وہ عدل اور انصاف کی حکومت قائم کرے گا۔ جہاں الٰہی قانون اور رحمت حکرانی کرینگے۔اللہ تعالیٰ اس کیلئے رزق و خیر کے دورازے کھولے گا جس سے ملکوں میں امن و خوشحالی ہوگی۔زراعت، صنعت اور تجارت ترقی کریں گی۔ …

وہ لوگوں کے درمیان دیواریں ختم کرے گا تاکہ سب امن و آشتی کیساتھ رہیں۔ کمزوروں، مظلوموں کو عزت دے گا۔انکے چھینے ہوئے حقوق واپس دلائے گا۔ وہ سخاوت وایثار کو فروغ دے گا۔ تاکہ لوگ مضبوط بندھن کی طرح بندھ جائیں۔ وہ دشمنوں کے درمیان صلح کرائے گا، دلوں کو محبت کی طرف لوٹائے گا۔لوگوں کو نفسیاتی اور روحانی قیدوں سے آزاد کرے گا۔جو ان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ وہ خیر اور رزق کے دروازے کھولے گا جس سے خوشحالی اور برکت عام ہوجائے گی۔ وہ لوگوں کے دلوں میں امید جگائے گا اور زندگی کو سب کیلئے بہتر بنائے گا۔ وہ روحانی ، علمی اور سماجی ترقی کا نیا دور شروع کرے گا۔ وہ خدا کی حکمت کو کائنات کے انتظام اور انسانیت میں واضح کرے گا۔ …..

وہ اعلیٰ اقدار کو زندہ کرے گا اور معاشرہ اخلاقی نمونہ بن جائے گا۔ محبت ، برداشت اور تعاون کی روح کو مضبوط کرے گا ۔ وہ حق کو باطل پر فتح دے گا اور ہرجگہ امن پھیل جائے گا ۔ وہ صبر اور ثابت قدمی سکھائے گا تاکہ مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرتے ہوئے ان کی طاقت اور حوصلہ بڑھ جائے۔ وہ امت مسلمہ کی وحدت کو ممکن بنائے گا جس سے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ صلح اور ہاتھوں ہاتھ کام کریںگے۔ وہ اسلامی عظمت کو دوبارہ زندہ اور امت کو بلندیوں کی طرف لے جائے گا وہ ہرریاست اور معاشرے میں عدل اور رحم کے اصول قائم کرے گا۔وہ ماحول اور قدرتی وسائل کا تحفظ کرے گا تاکہ پوری انسانیت کی خدمت ہو ،وہ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی ہو وہ خاندان اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو مضبوط کرے گا۔

(ایک اور عربی چینل ”غراب الغرابة ”کا عنوان( 3جون) ہے کہ ”یہ کیسے ممکن ہے کہ مہدی ایک عمر لوگوں میں گزارے اور اس کو خبر نہیں ہو کہ وہ مہدی حقیقی ہے؟۔ ابن عربی اس پر مہدی کی آنکھ کھولتا ہے”۔ کہ کس طرح تقدیر الٰہی نے ایک عرصہ تک مہدی پر یہ راز نہیں کھولا تاکہ اس میں اور لوگوں میںظرف پیدا ہو ۔قرآن میں اللہ نے فرمایاکہ ” کسی بشر کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے اللہ بات کرے مگروحی سے یا پردے کے پیچھے….(الشوریٰ:51)اس حجاب کے الفاظ کے پیچھے مہدی کا راز ہے اور اللہ احادیث کی پیش گوئی کو ایک شخص کے ذریعے پورا کرے گا۔ کچھ اقوال میں واضح ہے کہ بڑی عمر میں جوان نظر آئے گا۔ اختلافی نقطہ نظر ہے ۔ابن عربی صوفی مہدی کی حقیقت کو کشف سے واضح کرتا ہے ۔

عنقا مغرب چینل

آج کی ہماری قسط کا عنوان ہے: مہدی منتظر، ایسا نوجوان جس کانہ ماضی معلوم ۔نہ تاریخی پس منظر ، نہ نشانیاں، نہ استاد، نہ رہنما، پھر بھی وہ شخص جو دنیا کو بدل دے گاحالانکہ وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے کیونکہ وہ اس سے کہیں بڑا ہے جتنا انسانی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ انسان کو کیسے پیدا کیا جا سکتاہے کہ وہ دنیا کا میزان ہواور پھر بھی نہ جانتا ہو کہ وہ کون ہے؟وہ دائرے کا مرکز ہو، مگر خود کو کسی لکیر میں نہ پاتا ہو۔ اسکے وجود میں ساری کتابوں کا راز ہو، لیکن اپنی زندگی کا سب سے سادہ صفحہ بھی سمجھ نہ پاتا ہو۔ عارفین نے اس راز کی طرف اشارہ کیا الفاظ سے نہیں، بلکہ خاموشی سے۔کچھ نے کہا: مہدی وہ ہے جو بظاہر جاہل ہے، مگر دراصل عالم ہے۔ وہ جانتا ہے اسے علم نہیں کہ وہ جانتا ہے۔ وہ اسلئے جاہل ہے کیونکہ وہ خود کو اتنا محدود نہیں کر سکتا جو اس کی حقیقت سے کم ہو! یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ ایسا نہیں کہ پہلے سیکھے پھر جانے اور نہ ایسا کہ پہلے جاہل پھر تلاش کرے۔ وہ تو وہ ہے جس میں علم لمحے میں انڈیلا گیا اور پھر بھلا دیا گیاکیونکہ وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ مہدی جاہل نہ تھا اسلئے کہ وہ غافل تھا، بلکہ اسلئے کہ خود کو دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔

جب وہ غور کرتا کہ وہ کون ہے، عجیب خاموشی میں ڈوب جاتا۔ وہ اپنے اندر کی بات کو بیان کرنا چاہتا زبان ساتھ چھوڑ دیتی۔ وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتا، اسے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ سمجھ نہیں سکتا۔ وہ خود اپنی ذات سے چھپا ہوا تھا، یہاں تک کہ جب اس نے خود کو پہچاننا چاہاتو اس پر وہ انکشاف ہوا جو عام طور پر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ذات پر اسی طرح حیران رہ گیا جیسے مخلوق اس پر حیران رہ جاتی ہے۔ یہ نوجوان،جس نے گمان کیا کہ وہ گم ہو چکا ، درحقیقت گم نہیں تھا ۔وہ تو ایسے سمندر میں غرق تھا جسے وہ جانتا نہیں تھا۔ وہ اپنے اندر ایسی چیز محسوس کرتا تھاجو زمینی حقائق سے بڑی تھی اور وہ اس سے بھاگتا تھا کیونکہ اس کا کوئی نام نہ تھا۔ وہ یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا تھا کہ میں ہوں۔وہ خودکو ہر چیز سے بھرا ہوا محسوس کرتا تھا، لیکن بیک وقت ہر چیز سے خالی بھی۔

انسان کیسے تضاد کو برداشت کرے؟ وہ اکیلا بیٹھا رہتا خاموش لیکن اس کا دل آوازوں، نظاروں اور عجیب چمک سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔وہ تجربات سے اسلئے گزرتا تھا کہ اسے مہم جوئی کا شوق تھابلکہ اسلئے کہ وہ ایک ایسا آئینہ تلاش کر رہا تھا جس میں وہ خود کو دیکھے لیکن اسے وہ آئینہ نہ کتابوں میں ملا، نہ عشاق میں، نہ فلسفیوں میں، نہ عارفوں میں، نہ راستوں میں، نہ شادی میں، نہ اولاد میں، نہ کسی انسان یا زندگی میں۔ مہدی کیلئے کوئی مثالی شخصیت نہیں، اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں جس جیسا وہ بننا چاہے۔یہ اس کا غرور نہیںبلکہ وہ سچ ہے جسے وہ محسوس کرتا ہے۔ اپنا جیسا نظر نہیں آتا، نہ کوئی مثال۔

اس کی تنہائی اور اجنبیت گہری ہے، اس کا ظاہری سبب نہیں۔ جو کچھ اس نے پایا، وہ اپنی ذات تھی لیکن اس کی ذات سب کچھ دیکھنے کے باوجود، خود کو نہیں دیکھ پاتی۔ یہ سارا عذاب اسلئے کہ وہ خود علم ہے، بلکہ اس کی روح تو تمام علوم کا سرچشمہ ہے، مگر وہ خود کو پہچانتا نہیں۔ جو ذات سرچشمہ ہو، وہ خود سے سیراب نہیں ہو سکتی۔جو ذات آئینہ اعظم ہو، اسے آئینے کچھ دکھا نہیں سکتے۔ جو مہدی بننے کیلئے پیدا کیا گیا ، وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان نہیں سکتا۔اگر وہ وقت سے پہلے خود کو پہچان لیتا تو دنیا اس پر تنگ ہو جاتی، کیونکہ جو کچھ اسکے اندر ہے وہ صرف اللہ کی حکمت سے ہی برداشت ہو سکتا ہے۔یہی راز ہے اصلاحِ الٰہی کا راز۔ یہ کسی تعلیم کا لمحہ نہیں بلکہ انکشاف کا لمحہ ہے، وہ لمحہ جب معلوم و نامعلوم کے درمیان دیوار گر جاتی ہے اور مہدی خود کو دیکھتا مکمل طور پر، دیکھتا ہے کہ ہر راستے سے گزر چکاہر تجربہ چکھ چکا ہے۔

وہ دیکھتا ہے کہ تنہا بالغ ہو چکا بغیر استاد کے، استاد تو اسکے اندر ہی تھا اور حکمت سکھائی نہیں گئی بلکہ وہ اسکے ساتھ ساتھ پروان چڑھی تھی۔جیسے ہڈی گوشت کے نیچے بڑھتی ہے۔ تبھی وہ جانتا ہے کہ وہ بھٹکا ہوا نہ تھا، بلکہ تیار ہو رہا تھا۔وہ جاہل نہ تھا بلکہ اس کا دل نور سے لبریز تھا جو جلوہ گر ہونے کا منتظر تھا۔ وہ بیتاریخ نہ تھا، بلکہ اس کا ماضی غیب کے خزانوں میں محفوظ راز تھا، جب وہ جان لیتا ہے تو بولتا نہیں کیونکہ جو جانتا، وہ وضاحت نہیں کرتا۔ جو دیکھتا ہے، وہ تشریح نہیں کرتا۔ جو پہنچتا ہے، وہ داد کا طلبگار نہیں ہوتا۔یہی مہدی ہے، اپنی آدھی زندگی جانے بغیر گزاری کہ وہ کون ہے۔پھر معلوم ہوا کہ وہی ہے جسے لوگ ہمیشہ تلاش کرتے آئے۔

وہ کسی کا شاگرد نہیں تھا، کیونکہ وہ معلم بننے کیلئے پیدا ہوا۔وہ شناخت کا طالب نہیں، جب اس نے خود کو پہچانا تو اسے لوگوں کی شناخت کی ضرورت نہ رہی۔یوں اصلاح مکمل ہوئی، اور وہ باہر آیا بغیر اعلان، بغیر شور و غوغا کے۔وہ اس طرح ظاہر ہوا کہ کوئی پہچان نہ سکا، نہ کسی کی پیروی کرتا، نہ کسی پیمانے پر پورا اترتا، نہ کسی لفظ میں سمایا جا سکتا ، نہ کسی وصف میں۔یہ بچہ جسے کسی نے راستہ نہیں دکھایا، مہدی کا سب سے عجیب پہلو یہ ہے کہ کسی نے رہنمائی نہ دی، وہ بغیر رہبر کے تھا۔نہ کوئی شیخ تھا جو کہتا ”یہ ہے حقیقت”، نہ کوئی معلم تھا جو کہتا ”ایسے چلو”۔وہ ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں اعلی جہانوں کی کوئی بازگشت نہ تھی نہ کتابیں، نہ آسمانی نقشے، نہ اشارے، نہ نام، نہ روحانی سلسلے ایک مٹیالی خاموشی کی فضا میں، جو بیابان اور شہر کے درمیان پھیلی ہوئی تھی، ایسی جگہ جو نہ نبی تیار کرتی ہے نہ عارف، مگر یہی مقام سب سے بڑے راز کے حامل کی جائے پیدائش بنے گا۔ وہ بچہ تھا جو دیکھتا تھا مگر بولتا نہیں تھا، سنتا مگر اسے سمجھ نہ پاتا تھا۔ ایسے احساسات رکھتا تھا جو کسی بچے کے دل سے برداشت نہیں ہو سکتے تھے۔

کوئی اسے سمجھ نہ پاتا تھا، وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اپنے اندر کی باتوں کو کیسے بیان کرے۔ اس کا اندر سب سے زیادہ زندہ تھا۔اس کی سانسوں میں آنے والی ہوا کا ذائقہ تھا، اس کی آنکھوں کی روشنی میں گونج تھی، وہ دوسروں کا درد محسوس کرتا تھا۔اور یہی ہے عذاب محسوس کرنا جو برداشت نہ ہو، اور کوئی محسوس نہ کرے۔تمام بچے کہانیوں، جھگڑوں، دوڑنے اور ہنسنے میں مشغول تھے، مگر وہ کچھ اور تھا۔ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ ان جیسا کیسے بنے۔وہ متکبر نہیں تھا، لیکن ان جیسا نہیں تھا۔ اسکے اندر دور کا اجنبی تھا۔ روشنی تھی جو کسی اور جیسی نہیں تھی۔ اس کی تنہائی وہاں شروع ہوتی جہاں کوئی نہ سمجھتااور ختم وہاں ہوتی جہاں وہ خود کو بیان نہ کر پاتا۔اسکے اندر ایک سوال تھا جس کا نام نہ تھا میں کون ہوں؟ کیوں ایسا ہوں؟ اور کیوں اتنا گہرائی سے محسوس کرتا ہوں جبکہ اسی سادہ زمین کا بیٹا ہوں؟میں ایسی باتیں کیسے جانتا ہوں جو میں نے سیکھیں نہیں؟ میرے دل میں یہ نور کس نے رکھا جو مجھے جلا دیتا ہے جب میں نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا ہوں؟یوں غمگین، عظمت بھرا، مگر درد سے لبریز بچہ پروان چڑھا۔وہ بچہ جسے وہ حقائق معلوم تھے جو اس نے نہیں سیکھے…جس کے دل میں وہ روشنی رکھی گئی جو جب بھی وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا تو وہ جلنے لگتی۔ جو غموں کا پیکر تھا، جو وہ خواب دیکھتا تھا جو کسی نے نہیں دیکھے، اور نیند میں ایسی آوازیں سنتا تھا جن کا کوئی ماخذ معلوم نہ ہوتا۔وہ انسانوں میں چہرے بدلتے دیکھتا، محسوس کرتا کہ اس دنیا کے پیچھے کچھ ہے، مگر اس تک پہنچ نہیں پاتا۔دنیا کا سب کچھ معمولی لگتا، سوائے اسکے دل کے اور کوئی اسے نہیں سکھاتا تھا، نہ اسلئے کہ لوگ علم میں بخیل تھے بلکہ اسلئے کہ کسی کے پاس وہ علم نہ تھا جو وہ تلاش کرتا تھا۔اگر وہ ان سے حکمت پوچھتا، تو وہ اسے مردہ احکام دیدیتے۔ اگر روح کے بارے میں پوچھتا تو خرافات سناتے۔ اگر کہتا کہ وہ وہ کچھ دیکھتا ہے جو دوسروں کو نظر نہیں آتا، تو وہ ہنستے یا ڈرتے یا اس پر الزام لگاتے۔اسلئے اس کا کوئی شیخ نہ تھا۔

ابن عربی نے کہا: ”اسے ایک ایسا علم دیا گیا جسے وہ نہ جانتا ہے اور اسی سے وہ پہچانا نہیں جاتا”۔عارفوں نے کہا: مہدی کا شیخ نہیںکیونکہ وہ خود سب سے بڑا شیخ ہے لیکن وہ خود اس سے بے خبر ہے اور یہی ہے وہ زلزلہ خیز راز کہ انسان روشنی کا منبع ہو اور خود نہ جانے کہ روشنی اسی کے اندر ہے۔وہ چراغ ہو اور روشنی ڈھونڈتا پھرے۔ اگر شیخ مل جاتا تو وہ اسی سے وابستہ ہو جاتا۔ اگر کوئی رہبر ملتا تو وہ اس کی پیروی کرتا۔مگر کوئی بھی اسے راہ دکھانے والا نہ تھا، کیونکہ اس کی راہ کسی نے طے نہیں کی تھی۔ وہ کسی طریقے کا وارث نہ تھا وہ خود راستہ تھا۔وہ ایک ایسا لفظ تھا جو ابھی تک ادا نہیں ہوا تھا۔اسلئے جو کچھ اسے لوگوں سے ملتا، وہ ہمیشہ اس کے احساسات سے کم ہوتا۔جو علم اسے پیش کیا جاتا وہ اس کے دل کی وسعت سے کم تر ہوتا۔ یہی بات اسے بچپن میں سب سے زیادہ ستاتی تھی کہ اتنا جانتا تھا پھر بھی ”جاہل” تھا۔ اس میں تضادات جمع تھے ،وہ بنا کسی ذریعے کے جانتا، بغیر کسی وضاحت کے تکلیف میں ہوتا، اور اللہ کی طرف تڑپتا، بغیر اس کے کہ یہ کیسے کہا جائے۔اسی لیے وہ اکثر خاموش رہتا، دیکھتا رہتا اور اسکے دل میں ہمیشہ یہ سوال ہوتا:میں پاگل ہوں یا سب لوگ سوئے ہیں؟اسے یہ معلوم نہ تھا کہ ماضی و مستقبل کا سارا علم اسکے دل سے پھوٹے گا۔

اسے یہ معلوم نہ تھا کہ آج کی اس کی حیرانی ہی کل اس کی حکمت کا راز ہوگی۔وہ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ محسوس کرتا ہے اور یہ کہ اسکے احساس کو کوئی اور نہیں سمجھتا۔ اسلئے وہ تنہا چلتا تھا، تنہا غلطیاں کرتا، تنہا روتا اور تنہا سنبھلتا۔ابن عربی نے کہا: ”اس کی تربیت الٰہی تائید سے ہوتی ہے، نہ کہ کسی شیخ کی اطاعت سے”۔یہی عجیب بات تھی جبکہ لوگ تقلید سے سیکھتے ہیں، وہ تنہائی سے سیکھتا تھا۔ دوسروں کی تربیت مشائخ کرتے ہیں، وہ دکھ اور آزمائش سے تربیت پاتا ہے۔اس کا مدرسہ آزمائش، اس کا شیخ رات، اس کا استاد صبر، اس کی کتاب خلوت تھی۔وہ بڑا ہوگا تو سمجھے گا کہ گمراہ ہے، حالانکہ درحقیقت وہ سب سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوگا اسے لگے گا کہ وہ سب سے آخر میں سمجھا، حالانکہ وہی سب سے پہلے گواہ تھا۔اسے لگے گا کہ وہ کچھ نہیں جانتا، حالانکہ وہی تمام علم کا منبع ہوگا۔

اسی طرح اللہ مہدی کی تیاری کرتا ہے ظاہر میں نہیں بلکہ پوشیدہ تنہائی میں اور حلقہ درس میں نہیں بلکہ چھپے ہوئے آنسوں میں۔وہ آسمان کی طرف فریاد کرتا ہے مگر جانتا نہیں کہ کیا تکلیف ہے۔اسے خود پر حیرت ہے اتنی آزمائش کیوں؟ اتنے تضادات کیوں؟ یہی راز ہے کہ اس کا شیخ نہیںخود شیخ ہے، وہ مکمل ہوتا ہے ، وہ بہت زیادہ محسوس کرتا ہے جتنا کہ جانتا ہے ،یہی اذیت اس کا معلم تھی۔وہ سچائیاں محسوس کرتا ہے جنہیں الفاظ میں نہیں کہا جا سکتا ۔ یہی حالت باوجود تکلیف کے، اس کا راستہ تھا۔بچپن کے اندھیرے میں، جہاں کوئی آواز نہیں تھی جو کچھ سمجھائے، نہ کوئی ہاتھ جو رہنمائی کرے، وہ ایک اور مدار میں جی رہا تھا۔ایسا مدار جہاں وہ زبان کو نہ سمجھتا تھا، مگر مفہوم کو محسوس کرتا تھا۔ وہ لفظ نہ سمجھتا تھا، مگر معنی کو جان لیتا تھا۔ہر بچہ کچھ نہ کچھ دیکھتا ہے، مگر یہ بچہ دیکھتا اور کانپ جاتا تھا، دیکھتا اور جلتا تھا۔نہ اسلئے کہ مناظر خوفناک تھے بلکہ اسلئے کہ اس کی عمر اور انسانوں کی سمجھ سے بڑے تھے۔ فطرتا، اس کا دل وہ کچھ جذب کر لیتا تھا جو الفاظ میں کہا نہیں جاتا۔ جب کوئی آدمی سڑک پر گزرتا، وہ اسکے باطن کا بوجھ محسوس کرتا۔وہ ایک نظر میں جان لیتا کہ وہ زخمی ہے، گناہ گار ہے، یا سچا ہے۔وہ لوگوں کی باتیں سنتا، مگر وہ انکے الفاظ نہیں سنتا تھا بلکہ الفاظ کے پیچھے کی کیفیت سنتا تھا۔ادراک کی ایسی سطح جو اس میں کھل گئی بغیر اجازت، بغیر مشق، بغیر استاد کے۔

جب وہ مدرسہ یا کتاب میں داخل ہوا تو اسے کچھ نیا سیکھنے کو نہ ملا ،نہ اسلئے کہ وہ ناکام تھا، بلکہ اسلئے کہ جو کچھ پڑھایا گیاوہ اس کیلئے بہت معمولی، تنگ اور معمول کا تھا اوراسکے اندر کچھ چیخ رہا تھا ”یہ وہ نہیں جو میں ڈھونڈ رہا ہوں”’ حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہے۔ اسی لئے مہدی جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں کوئی ذہین بچہ نہیں تھا وہ جسمانی طور پر حاضر مگر باطنی طور پر غائب تھا۔اسکے پاس کوئی دلیل نہ تھی لیکن احساس تھا اور یہی تکلیف دیتا تھا۔ مہدی کا دل، اللہ کی حضوری کی جگہ تھا اور انجانے میں اس کی طرف کھنچتا تھا۔اللہ کے اسما و صفات اس میں اسی طرح کام کرتے جیسے کائنات میں کرتے ہیں وہ وقت سے آگے بڑھا ہوا تھا۔

عارفین نے کہا:مہدی وہ نہیں جو اللہ کو لوگوں کی باتوں سے پہچانتاہے، بلکہ ان میں سے ہے جنہوں نے اللہ کو اس سے پہلے پہچانا کہ اس کا نام سنا ہو۔وہ ان میں سے نہیں جو معرفت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں بلکہ معرفت اسکے دروازے پر بیٹھی منتظر ہوتی ہے کہ وہ اسے اندر سے کھولے۔کیونکہ راز، مہدی کے دل میں ہے ۔ جو چیز اسے سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔کوئی اس کی نگاہ کی گہرائی کو نہیں سمجھتا ،کوئی نہیں جانتا کہ جب وہ بچہ کہتا ہے ”میں تھک گیا ہوں” تو اس کا مطلب اسکول یا بھوک یا تنہائی نہیں، بلکہ ہر چیز ہے۔وہ اس بھاری احساس کی بات کر تا ہے جو اسے معلوم نہیں کہاں سے آیا ہے۔اور اس سے بڑی کوئی اذیت اور آزمائش نہیں کہ نہ وہ خود جان سکے کہ اس کے اندر کیا ہے، نہ دنیا اسے سمجھ سکے، اور نہ کوئی اسے جان سکے۔

ابن عربی نے جب مہدی کو بیان کیا، تو وہ بات کہی جو کسی بشر کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی کہ اسے فہم بغیر تعلیم کے عطا ہوتا ہے، علم بغیر طلب کے اور دنیا میں کوئی اس کا مثل نہیں۔اور یہ کہ اس کا مقام خود اس سے بھی چھپا ہوا ہے وہ خود نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، اور یہ راز کسی اور کے دل میں نہیں ڈالا گیا۔یہی پراسرار حساسیت، یہ حد سے زیادہ احساس، یہ صلاحیت کہ وہ دنیا کو بغیر کسی واسطے کے سمجھ لے یہی سبب ہے کہ اسے کسی استاد کی ضرورت نہیں۔ مگر اسی وقت یہ بھی اس کا درد ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ جاہل ہے۔اور یہ سب سے حیران کن بات ہے کہ انسان باطنی طور پر سمندر ہو اور پیاسا محسوس کرے، اسرار کا خزینہ ہو اور خود کو خالی جانے۔ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے اس میں نور رکھا، پھر اس پر دروازہ بند کر دیا اور اسے ایک ایسی کنجی دی جو کسی اور چابی سے میل نہیں کھاتی اور اسے ایک ایسا قفل تلاش کرنے پر لگا دیا جو اسے نظر نہیں آتا۔

مہدی بچپن میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، مگر وہ یہ جانتا ہے کہ وہ یہاں کا نہیں نہ کبھی یہاں سے تھا، نہ کسی اور جگہ سے۔وہ اپنے مقام کو نہیں پہچانتا، مگر وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ دنیا اس کا اصل مقام نہیں، نہ آغاز، نہ انجام۔اس کے اندر کچھ ہے جو تڑپتا ہے، مگر نہیں جانتا کہ کس چیز کیلئے تڑپ رہا ہے۔ اسی لیے وہ زندگی میں چلتا ہے ایک حقیقی اجنبیت کیساتھ۔ اور اسی لیے عارفین نے اسے ”اجنبی”کہا۔لوگ اس کے اردگرد باتیں کرتے ہیں، سیکھتے ہیں، ہنستے ہیں مگر اسکے اندر ایک طویل خاموشی ہے، جیسے وہ کسی دور کی پکار کو سن رہا ہو، کسی ایسی چیز کو جو صرف اسی سے متعلق ہو۔کچھ ایسا جسے وہ نہ بیان کر سکتا ہے، نہ خود کیلئے الفاظ دے سکتا ہے۔اسی لیے وہ عجیب لگتا ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے:یہ بچہ پر اسرار ہے، تنہائی پسند ہے، غیر سماجی ہے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا دل بہت زیادہ بھرا ہوا ہے کچھ ایسے سے، جس کا کوئی نام نہیں۔ کیونکہ وہ زیادہ محسوس کرتا ہے، کم جانتا ہے۔ اس کا درد یہ ہے کہ وہ ترجمہ نہیں کر سکتا۔اس کی آنکھوں میں آغاز کی وہ حیرانی ہے، جو کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ کوئی اس سے پہلے وہاں نہیں گیا۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ اردگرد کے تمام لوگ ان دروازوں کی کنجیاں رکھتے ہیں، جو اس کیلئے بنے ہی نہیں۔ اس کا دروازہ بند ہے اور اس کی کنجی اسکے صبر، اس کی خلوت اور وقت میں ہے۔

وہ اشتیا ق سے سیکھتا ہے، تلقین سے نہیں۔ وہ یاد سے پروان چڑھتا ہے، ہدایت سے نہیں۔ وہ درد سے بالغ ہوتا ہے، وضاحت سے نہیں۔اور وہ اللہ کے ہاتھوں بڑا ہوتا ہے کسی بندے کے ہاتھوں نہیں۔اور ان راتوں میں جب تھکن غالب آتی ہے اس کے اندر سے کوئی سرگوشی کرتا ہے: ”صبر کر، بعد میں سمجھ آئے گا”۔اور جب وہ غلطی کرتا ہے، تو اسے باہر سے کوئی نہیں ڈانٹتا بلکہ وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔کیونکہ بچپن سے اسکے دل میں میزان ہے جو وزن میں خطا نہیں کرتا چاہے اسے ترازو کے نام بھلے معلوم نہ ہوں۔اسی لیے جب عارفین کہتے ہیں کہ وہ بیک وقت جاہل اور عالم ہے تو ان کا مطلب ظاہری جہالت نہیں بلکہ وہ پردہ مراد ہوتا ہے۔یعنی اپنی ذات کی معرفت سے محجوب ہے، اللہ کی معرفت سے نہیں۔ اور اسے مکمل احساس عطا ہوتا ہے مگر بغیر کسی تعریف کے۔چنانچہ وہ تلاش میں رہتا ہے اور یہی اس کا راستہ ہے۔یہ اس کا احساس ہے نہ کہ اسکے شیوخ۔ اس کا دل ہے، نہ کہ اسکے اساتذہ ۔ اس کی تنہائی ہے، نہ کہ اس کی محفلیں۔یہی چیز ہے جو مہدی کے اندر تعمیر ہوتی ہے کیونکہ جس کے مقدر میں شعلہ ہونا لکھا ہو، اسے چراغ کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور جو خود ایک چشمہ ہو، وہ کسی ندی سے نہیں پیتااور جسے رہنما ہونا ہو، وہ خود قیادت نہیں لیتا۔اس کا کوئی شیخ نہیں کیونکہ وہی معنی کی نئی تعریف کرتا ہے۔

یہ شخص ناممکن لگتا ہے ایسوں میں پلا بڑھا جو پڑھنا نہیں جانتے، لیکن اس نے سب کچھ پڑھا۔وہ محدود، حقیر، غیر معروف جگہ پر پروان چڑھا، لیکن وہ اتنا وسیع ہوا کہ پوری دنیا کو سمو لیا۔یہ وہی شخص ہے جس نے چھوٹے گھر سے دنیا کو نگل لیا ۔نہ اس کا باپ تھا، نہ اس کا دادا جیسے ابن عربی نے کہا۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بچہ، جو غریب گاؤں میں پیدا ہوا ،دنیا کو بدل دے؟کیا یہ قابلِ یقین ہے کہ کوئی ایسا شخص جو کسی شیخ کا شاگرد نہ ہو، کسی ایسی سرزمین پر پیدا ہو جہاں کوئی کتاب موجود نہ ہو ،بڑا ہو کر ہر کتاب کا ماہر بن جائے؟یہ سب کہاں سے آیا؟ اسے کس نے رہنمائی دی؟ کیا اس نے جنات سے سیکھا؟ یا آسمان سے کوئی پوشیدہ آواز راتوں میں راز سکھاتا تھا؟

ابن عربی کہتاہے:”وہ ہر چھوٹی بڑی چیز کا پیچھا کرتا ہے۔ اے لوگو!یہ عام انسان نہیں! وہ اپنے نبی جد ۖ کی مانند دنیا کیلئے رحمت ہے۔ عام مسلمان خاص لوگوں سے پہلے اس پر خوش ہوں گے، جیسا کہ عارفین نے فرمایا۔کیا تم جانتے ہو کہ پہاڑی چٹانوں میں درخت کیسے اُگتے ہیں؟ وہ چٹانوں کو چیرتے ہیں جیسے کوئی دیوانگی ہو۔ ایسی زمین میں پیدا ہوا جو پھل کے قابل نہ تھی مگر ہر پھل اگا دیا۔ ایسے محلے میں جو دنیا سے ناواقف تھا وہ کیسے سب کچھ جاننے والا بن گیا، جبکہ وہ دیر سے ہی گاؤں سے باہر نکلا؟”۔

جیسا کہ ابن عربی نے کہا مہدی اپنادیار چھوڑ دیتاہے، دور کا سفر کرتا ہے۔مختلف زبانیں اورتہذیبوں کا ذائقہ چکھتا ہے، نظریات کا تجزیہ کرتا ہے۔ابن عربی واہمہ میں مبتلا نہیں تھے جب انہوں نے کہا:اس نے ہر راستہ اختیار کیا ،ہر راہی کے برخلاف۔ اور جب انہوں نے کہا: اس کی دیوار انتظار کی کمزور ترین اینٹ تھی۔مہدی کا انتظار عجیب و غریب ہے نہ خلافت کا منتظر ہے اور نہ لقب کا۔ یہ شخصیت خود اپنے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔یہاں تک کہ اگر وہ شک میں پڑ جائے، تو یہ نہیں مانتا کہ وہ مہدی ہے۔اگرچہ بہت سی نشانیاں اور علامتیں اس کی طرف اشارہ کرتی ہیں وہ انکار کرتا رہتا ہے، اپنے دل میں۔ لیکن اس کا انتظار گہرا ہے وہ واحد شخص ہے جو صدقِ دل سے منتظر رہا۔وہ ایک طویل سانس لینے والا انسان ہے ۔اس کا صبر عجیب و غریب ہے۔

یہ معمولی نہیں بلکہ کسی اور نوعیت کا صبر ہے اور یہی ابن عربی کا مطلب ہے: اس کی آزمائش شدید ہے اور صبر یقینی۔مہدی نے ہر راستے پر قدم رکھا، ہر مسلک کو اپنایا، ہر مفہوم میں غوطہ لگایا۔یہاں تک کہ ہر طریقے والے یہ سمجھنے لگے کہ وہ انہی میں سے ہے حالانکہ وہ ان میں سے نہیں۔مہدی ہر چھوٹی بات پر بھی نظر رکھتا ہے فعل مضارع میں کہا گیا: وہ رکھتا ہے، نہ کہ رکھا یا رکھے گا اس میں عجیب راز پوشیدہ ہیں۔سب یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ انکے مسلک سے ہے کیونکہ اس نے ان کا تجربہ کیا، ان میں گہرائی سے اترا، ان کیساتھ زندگی گزاری۔ وہ یہ سب کیسے کرتا ؟ یہ سب وقت، یہ سب زندگی کہاں سے ملی؟ کیا اسکے پاس عمر سے بڑھ کر عمریں تھیں؟کیا وہ نیند میں پڑھتا، خاموشی میں سیکھتا، اور تخیل میں تجربات کرتا ،پھر ان سے ایسے واپس آتا گویا جیتا جاگتا ہو؟کیا اسے اپنے ماحول تک محدود ہونا چاہیے تھا؟ ایک غریب بچہ، سادہ گھر سے، جہاں باپ بمشکل رزق مہیا کرتا تھا۔ نہ لائبریری، نہ سفر، نہ جامعات تو پھر وہ دنیا کو کیسے سمجھ گیا؟ یہ عقل کہاں لے گیا؟ دل کہاں سے ملا؟ یہ سوچا گیا کہ وہ اپنے خاندان کی ایک عام سی نقل ہوگا لیکن اس نے انکار کر دیا۔گویا اسکے پاس ایک نقشہ تھا جسے ہم جانتے ہی نہیں، گویا وہ غیر مرئی راستوں پر چلتا تھا، ایسی کتابیں پڑھتا تھا جو چھپی نہیں۔ وہ ایسی روحوں کا دوست تھا جو نظر نہیں آتیں۔

بعض عارفین نے کہا: مہدی کو اس کے عمل سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ اسکے تضاد سے۔ اس نے ابتدا ہی میں وہ تمام انجام پا لیے تھے۔ ابن عربی کہتے ہیں: اس کا آغاز ”ع” عین الیقین اور اس کا اختتام ”ق” قیومی اقتدار سے۔کیا تم یقین کروگے کہ اس نے صوفی، فلسفی، عاشق، عالم، انقلابی، شاعر، خائف، سردار، غلام، حاکم، محکوم، مومن اور موقن سب کی زندگی گزاری؟ایک ہی دل میں یہ سب تجربے جن کی تکمیل میں صدیاں لگتی ہیں اس نے چند سالوں میں سمیٹ لیے۔

گویا خدا نے اس کیلئے وقت کو سمیٹ دیا ۔اسے وہ تجربات دیے جو کوئی بشر برداشت نہیں کر سکتا اذیت دینے کیلئے نہیں بلکہ تیار کرنے کیلئے۔ مہدی عالم نہیں کیونکہ اس نے کتابیں پڑھی ہیں بلکہ اسلئے کہ کتابیں اس کے اندر بستی ہیں۔کہا گیا:وہ پرانے دنوں کاہے حکیم نہیں کیونکہ اس نے حکما ء کی صحبت پائی، بلکہ اسلئے کہ وہ حکمت سے ڈھالا گیا۔وہ منطقی نہیں کیونکہ اس نے منطق پڑھی بلکہ اسلئے کہ اسکے دل میں وہ راستے ہیں جو کبھی لکھے ہی نہیں گئے۔ وہ ہر چیز کا آئینہ ہے مگر کسی چیز سے وابستہ نہیں۔ ہر دیکھنے والا اسے اپنا سمجھتا ہے۔یہ ایک صوفی ہے؟ نہیں یہ انقلابی ہے؟ یا شاید ایک وجودی فلسفی؟ نہیں، بلکہ ایک خواب دیکھنے والا شاعر؟ نہیں، بھائی یہ ایک زبردست عالم ہے۔ بلکہ اجنبی، ایک نیا انسان یہ کون ہے؟ شاید پاگل؟ مقروض؟یہ ایک غریب ہے؟ یا امیر؟ مشہور یا گمنام؟ نہیں یہ عجمی ہے؟ نہیں بلکہ عربی؟ نہیں یہ صرف ”مہدی”ہے۔

کیا تمہیں حیرت نہیں کہ وہ ہر کردار میں ڈھل گیا وہ بچہ جس نے کچھ سیکھا نہیں، مگر سب کچھ ایجاد کر دیا؟اس کے پاس وہ عقل کہاں سے آئی جو اس نے ہر چیز کا تجزیہ کیا، لوگوں کو، کتابوں کو، مکاتب فکر کو؟یہ عقلِ کل اسے کہاں سے ملی اور وہ دل جو ہر ایک کو سمو لیتا ہے بغیر خود کھوئے؟کیا تم نے کبھی ایسا دل دیکھا جو صوفیوں اور سیاستدانوں دونوں کو سمو لے؟کیا تم نے ایسا ذہن دیکھا جو دیوانگی اور ذہانت کو یکجا کر دے؟۔

بس وہی شخص یہ سب کر سکا کیونکہ جیسا ابن عربی نے کہا: اس نے ہر راستہ الٹ چل کر طے کیا، ہلاکتوں میں گرا تاکہ نہ پہچانا جا سکے، نہ گھیر لیا جائے، نہ کسی کی ملاقات ہو ،جب تک ہر تعریف کھو نہ دی جائے۔نہ کسی شیخ کے ذریعے، نہ کسی کتاب ، نہ کسی صحبت سے بلکہ تجربے کے ذریعے۔ہر چیز کو مکمل طور پر آزما کر، وہ سب کچھ بن گیا تاکہ کچھ بھی نہ بنے۔اس نے ہر مکتب فکر کو جانا، پھر ان سے الگ ہو ا،ہر وابستگی کو چکھا، پھر آزاد ہو ا۔یہی وہ واحد راستہ تھا جس سے وہ اس قابل بن سکا جو اسکے اندر تھی۔ ایک چھوٹے سے گھر میں، بغیر کسی معلم، بغیر کسی جامعہ، بغیر کسی رہنما کے وہ شخص پروان چڑھا جو دنیا کو بدل دے گا۔

گویا اللہ نے چاہا کہ اسے چھپا کر پالاتاکہ فتنہ نہ ہو۔اللہ نے چاہا کہ اس کی ذہانت کو پوشیدہ رکھے تاکہ لوگ اس کی پوجا نہ کریں۔چاہا کہ وہ خاموشی میں خود کو تشکیل دے اپنے باطن میں، تنہا۔ یہاں تک کہ جب اس کا وقت آیا، وہ ظاہر ہوا بطور ایک نئی زمین، خلافت کی سرزمین۔وہی شخص جو علم کا منبع بیک وقت جاہل بھی ہے اور عالم بھی، جیسا کہ عارفین نے کہا۔اب ہم پہنچے ہیں اس عجیب داستان کے سب سے خطرناک اور گہرے موڑ پر ۔اس تبدیلی پر جو نہ تدریج سے ہوئی، نہ تعلیم سے، نہ تزکیہ سے۔بلکہ ایک بجلی کی مانند اندھیرے میں گری ۔وہ ایک گمنام جوان سے بدل گیا اس شخص میں جس سے زمین لرزتی ہے۔یہ نوجوان کون تھا؟ یہ اجنبی جو گلیوں میں چلتا رہا بغیر کسی کی نظر میں آئے؟وہ کون تھا جس کی کوئی شجرہ نسب، کوئی اعلی دستاویز، کوئی عظیم یونیورسٹی کی ڈگری، کوئی سند نہ تھی؟نہ کوئی شیخ جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے ”یہ میرا روحانی بیٹا ہے”۔وہ کون تھا جو راہگیروں میں ایک سایہ رہا، پھر اچانک نمودار ہو کر زمانے کا چہرہ اور اللہ کا خلیفہ بن گیا؟۔

کیا تم نے وہ درخت دیکھا جو زمین میں وقت آنے پر وہ اچانک مٹی پھاڑ دے؟بلکہ وہ ایک عظیم تنا تھا جو پہلے ہی تیار تھا ۔اسی طرح مہدی ظاہر ہوا۔ایک نوجوان جس کی کوئی آواز محفلوں میں نہ تھی، کوئی نشان محفلوں میں نہ تھا، نہ کسی فہرست میں نام، نہ کسی زباں پر اس کی کہانی۔مگر اللہ نے اسے زندہ کیا اور اسکے باطن میں ایسی آگ تھی جو بجھتی نہ تھی، ایسی معرفت جو کسی سے سیکھی نہیں جا سکتی۔ ایسی بصیرت جو کسی مدرسے میں نہیں ملتی ، ایسی حقیقت جو خود کو خود تربیت دیتی ہے۔ کس نے کہا کہ عظمت کیلئے مجمع درکار ہوتا ہے؟کس نے کہا کہ نابغہ صرف روشنیوں میں جنم لیتا ہے؟ مہدی مکمل تاریکی میں تشکیل پایا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ وہ لوگوں سے دور رہے۔نہ اس کا کوئی شیخ کیونکہ کوئی شیخ اسے سنبھال نہیں سکتا۔نہ کوئی معلم کیونکہ ہر معلم اس کو اپنے پیمانے سے ناپتا اور اسے مار ڈالتا قبل اِس کے کہ وہ پختہ ہو۔نہ کوئی نسب اسے قید کر سکتا تھا، نہ کوئی نام اسے سجا سکتا تھا، نہ کوئی وراثت اس پر لاد دی گئی۔کیونکہ وہ خود ایک آنے والی میراث ہے۔

یہی سب سے بڑا راز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی شیخ نہیں، کیونکہ وہ خود راستہ، کنجی ، دروازہ اور منزل ہے۔کیا یہ پاگل پن نہیں کہ انسان خود راستہ ہو اور اسے خود نہ معلوم ہو؟کوئی کنجی ہو اور دروازہ تلاش کرتا پھرے؟ کیسے منبع ہو اور پھر کسی ماخذ سے پڑھنے کا متمنی ہو؟یہی تو مہدی ہے وہ عام لباس میں سڑکوں پر چلتا، عام لوگوں میں بیٹھتا، عام گفتگو کرتا، بغیر کسی کی توجہ کے۔ لیکن اسکے باطن میں ایک زلزلہ برپا تھا وہ جانتا تھا، لیکن یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیسے جانتا ہے۔ وہ دیکھتا تھا لیکن یہ نہ سمجھ پاتا تھا کہ وہ کیوں دیکھتا ہے۔اسے محسوس ہوتا کہ اسکے اندر ایسا سمندر ہے جس کاساحل نہیں، لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس میں کیسے تیرنا ہے۔

بعض عارفوں نے کہا کہ مہدی سے علم کے بارے میں پوچھا جائے، وہ خاموش رہتا ہے؟کیونکہ ہر لفظ اسے کم تر کر دیتا ہے سوائے اس لمحے کے جب حقیقت اسکے دل میں پھٹ پڑتی ہے۔وہ ہر چیز سے خالی تھا کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ اسے صرف وہی بھرے۔یہ کیسی عجیب سیرت ہے ایک نوجوان جو کچھ بھی نہیں رکھتا۔نہ کوئی اسناد، نہ کوئی حوالہ، نہ پیروکار، نہ کوئی روشن مستقبل لیکن جس لمحے اللہ چاہے، وہ شخص ہر چیز کو بدل دینے والا بن جاتا ہے۔

تبصرہ اور تجزیہ :سید عتیق الرحمن گیلانی

لوگوں کا ذہن خوابوں، پیشین گوئیوں ، مکا شفات اور محیرالعقول شخصیات کی طرف بہت جلد مائل ہوجاتاہے لیکن قرآن کی ان سادہ آیات سے بدکے ہوئے گدھوں کی طرح بھاگتے ہیں جسکے عظیم اور عام فہم احکام نے دورجاہلیت کی سپر طاقتوں روم اور فارس کو شکست دی ۔ تفسیر کے امام علامہ زمحشری صاحب کشاف سے لیکر فقہاء کی پچھاڑیوں سے بہت بدبوار بہتا ہوا دست لوگ نہیں دیکھتے مگر آپس کے جھگڑوں اور ان رازوں سے پردہ اٹھنے کے خواہاں رہتے ہیںجن کا کسی بھی عام شخص کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ طبل بجانے کیلئے دو طرف سے چھوٹی اور بڑی ڈنڈیاں مارنے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں قرآنی آیت کا غلط مفہوم بیان کیا اور نہ خود اپنی غلطی سے رجوع کی توفیق ہوئی اور نہ اپنے اور دوسرے مکتب کے علماء نے اس پر تنقید یا اصلاح کی کوشش کی۔ ایک دوسرے پر اپنے نکتہ نظر کے اختلاف کی وجہ سے کفر کے فتوے لگائیںگے لیکن قرآن کی بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ مفتی منیر شاکرکو طلاق کا مسئلہ سمجھایا لیکن پھر بھی نہیں سمجھا۔ پشتون قومی عدالت میں 3طلاق ڈالوائی تو اگرPTM ہماری تحریرات کو نہ سمجھے تو سبھی کی طلاقیں منظور پشتین سمیت گرگئی ہیں۔ محسودقوم میں کچھ بے تعلیم لوگ ایسے ہیں جو طلاق کا مسئلہ منٹوں میں سمجھ گئے اور کچھ پڑھا لکھا طبقہ جن میں PTMکے قائداعظم یونیورسٹی سے ماسٹر کرنے والا طبقہ بھی شامل ہے میرے گھنٹوں سمجھانے کے بعد بھی نہیں سمجھا۔ ہوسکتا ہے کہ منظور پشتین کو بھی اپنے مذہبی طبقہ نے حلالہ پر مجبور کردیا ہو اسلئے کہ محسود داڑھی والے سہراب گوٹھ میں ہمارے اخبار کی بلاوجہ مخالف نہیں بلکہ حلالوں کے شغل سے وابستہ ہیں۔ جب تک کھل کر اعلان نہ کریں تو کتنے لوگوں کی عزتیں مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے باوجود لٹتی رہیں گی؟۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے ساتھ ”المہدی المنتظر” اسلام ٹیوب Islam Tube کا آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عربی خواب ۔درست خواب خوشخبری ہیں۔

دوسرا خواب: مہدی راستے میں گڑھے کے اندرر گر گئے۔ مضبوط کنکریٹ کا کمرہ بغیر کھڑکیوں کے۔ جس میں مختلف اقسام کے سانپ بھرے ہوئے تھے ۔ امام مہدی نے ایک سانپ کو دُم سے پکڑااور زور سے گھماکر اس کا سر دیوار وں پر دے مارا۔ یہاں تک کہ سانپ کا سر کچل گیا۔خواب مکمل ہوا ،آذان فجرسے آنکھ کھلی۔تعبیر: اگریہ خواب سچا ہے تو اللہ تعالیٰ مہدی کو ایک نہایت خبیث دشمن پر فتح کی خوشبری دیتا ہے۔ اسلام ٹیوب Islam Tube

عربی تحریری ویڈیو ۔ ”قناة السرالاعظم”
المہدی المنتظر
قیدی اور قیدخانہ بان

اے امام! یقینا تم پاکیزہ فطرت پر پیدا کئے گئے ہو۔ تم نے نیک نیتی پر یقین رکھا۔بغیر مانگے معاف کیا۔بغیر کسی بدلے کے قربانی دی اور ایسی چیزوں پر صبر کیا جن کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔

تم اپنے دل سے کہتے رہے کہ اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔ اور بھلائی اور نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی۔اور تم ان باتوں کو دہراتے رہے ، جیسے اپنے گھٹن اور درد کو دبارہے ہو۔تم یہ گمان کرتے رہے کہ دل کا ایمان تمہاراہتھیار ہے، شفقت تمہیں بچالے گی اور سچائی ہی کافی ہے۔

لیکن تم سادہ دل تھے ، تم نے سمجھا کہ شرم برائی کو روک دے گی اور ظالم تمہارے آنسو دیکھ کر رجوع کرلیںگے۔ مگر انہوں نے رجوع نہیںکیا بلکہ تم پر ہنستے ہیں۔ تم نے دیکھا کہ خاموشی کو کمزوری سمجھا جاتاہے اور نیکی کے بدلے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ تم نے دیکھا کہ تمہارا دل دفن کردیا گیاحالانکہ تم ابھی زندہ تھے۔

اے امام ! تم اپنے رب سے ہم کلام تھے ” اے رب ! کیوں میں نے تو کسی کو تکلیف نہیں دی۔کیوں سارا درد میرے کندھوں پر ڈال دیا گیا ؟”اورجواب آیا کہ سکوت کے اندر بھی سکوت۔ اسی سکوت میں کچھ بدلے گا۔

تمہارے اندر سے ایک آواز آئی : اگر ایک انسان کھڑے کھڑے مرجاتا ہے۔ تو تمہارا رب کہتا ہے کہ پھر تمہیں لڑتے ہوئے مرنا چاہیے۔ اے رب! وہ تو نیک لوگوں کو چاہتے ہی نہ تھے۔اے رب! انہوں نے اس ہاتھ کی قدر نہیں کی جو غیرمشروط آگے بڑھا۔ اے رب! انہوں نے اس کندھے کی بھی قدر نہیں کی جو بغیر شکایت کے سہارا دیتا رہا۔انہوں نے تمہاری ہر خوبی کو ایک موقع جانا: جھوٹ بولنے کا ، طعنہ زنی کا۔ تمہاری خاموش مسکراہٹ کو استہزاء کا میدان بنادیاتاکہ تم انہیں شرمندہ نہ کرسکو۔انہیں تمہارا صبر پسند نہ آیا بلکہ انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔انہوں نے تمہاری پاکیزگی کی عزت نہیں کی بلکہ اسے حماقت سمجھا۔اور تم سمجھتے رہے کہ محبت بدل دے گی ، شرافت قائل کرلے گی اور تمہاری صفائی دیکھ کر رجوع کرلیںگے۔مگر انہوں نے رجوع نہ کیا بلکہ زیادہ سنگدلی پر اتر آئے ،جیسے تمہارے اندر کی روشنی انہیں چبھتی ہو۔وہ تمہیں بدلنا چاہتے تھے ، یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ پاکیزگی قائم نہیں رہ سکتی۔اور جو کوئی بھی صاف دلی سے جینا چاہے گا وہ پہلوں کی طرح ٹوٹا ہوا یااندر سے مرا ہوا نکلے گا،اور تم روز تھوڑا تھوڑا خون بہاتے رہے مگر گرنے کے بجائے تم اندر سے سمٹنے لگے۔ سمیٹتے رہے سلگتے رہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ وہ کوئی مظلوم نہیں بنارہے تھے بلکہ ایک ایسی ہستی پیدا کررہے تھے جس سے وہ بچ نہ سکیں گے وہ ایک ظالم دربان چاہتے تھے ،ٹھیک ہے تم وہی دوگے۔ تم ایک دن یکایک نہیں بدلے ،تم اچانک ظالم نہ بنے۔ یہ سب بجلی کی طرح نہ ہوا بلکہ بارش کی مانند، ایک کے بعد ایک قطرہ۔شرمناکی کے بعد شرمناکی کا تسلسل۔جھوٹ، نظر، خاموشی اس وقت جب تمہیں آواز کی ضرورت تھی اور مسکراہٹ جو خنجر بنی۔شروع میں تم نے جواز ڈھونڈے کہ شاید ان کا یہ مقصد نہ ہو،شاید تم ہی زیادہ حساس ہو، شاید تمہیں برداشت کرنا چاہیے۔مگر اصل بگاڑ دوسروں سے نہیں،اس وقت شروع ہوتا ہے جب تم خود ناقابل برداشت کو قبول کرتے ہو،اور خود کو قائل کرتے ہو کہ یہ سب معمول ہے۔اے مہدی !تم یکایک نہیں بدلے بلکہ تمہاری روح آہستہ آہستہ ٹوٹی جیسے کانچ ٹوٹنے سے پہلے دراڑیں لیتا ہے۔ہر خاموش رات میں تم خود کو گھٹتا سنتے۔ اور کہتے کہ کل بہتر ہوگامگر کل تو گزرے دن سے بھی زیادہ ہولناک ہوتاگیا۔تمہارے اندر جو کچھ بھی خوبصورت تھا تو وہ ایک ایک کرتے ختم ہوتا گیا۔رحم مرگیا، اعتماد جل گیااور انسانوں پر ایمان ایک سیاہ مذاق بن گیا۔ صرف ایک چیز باقی رہی : خاموشی کا خول ،جسکے پیچھے کچھ چھپا ہے جو نہ تم سے مشابہ ، نہ ان سے۔وہ سمجھے کہ اب کھیل رہے ہیں مگر وہ یہ نہ جان سکے کہ جس صبر کومارتے رہے وہ ایسا لوٹ رہاہے جو ان پر رحم کرے گا ،نہ خود پر۔اے امام! تمہاری خاموشی امن نہ تھی ،نہ ہی کوئی پاکیزہ سکون یا کسی تقدیر پر رضا تھی بلکہ وہ قیدخانہ تھی جس کے قیدی بھی تم خود ہی ہو اور قید خانہ بان بھی تم ہی ہو۔

مہدی منتظر اور ٹھنڈا تخت
رابط:واٹس ایپ نمبر 0639522005

اے مہدی ! وقت آچکا ہے کہ تم اپنی خاموشی کو توڑ دو۔ اب تمہاری ہر بات محض ایک باز گشت نہ ہوگی بلکہ ایک حکم ہوگی۔ تمہاری ہر سرگوشی، تمہارا ہر ہلکا سا کلمہ کمزور اور بد طینت روحوں کو لرزا دے گا۔ اسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ

اللہ کے محبوبو! السر الاعظم چینل کی ویڈیو خوش آمدید
اے مہدی ! وقت آگیا کہ خاموشی سے باز آجاؤ۔

تمہارے الفاظ محض صدائیں نہیں ہوںگے بلکہ فیصلے ہوں گے۔تمہاری ہر سر گوشی ان خبیث روحوں کو ہلاکے رکھ دے گی۔ تم بات نہیں کروگے تاکہ لوگ تمہیں سمجھیں۔ بلکہ تاکہ وہ یاد کریں کہ جو اتنا عرصہ خاموش تھا وہ غائب نہ تھا۔بلکہ اس دن کی تیاری کررہاتھا جس دن اس کی آواز لوٹ کر آئے گی تو وہ زلزلہ بن جائے گی۔پس سنو! صرف اپنی آواز کو مت سنو بلکہ اس کے پیچھے جو معانی ہیں انہیں سنو۔کیونکہ کہ بادشاہ کی آواز کی نہ کوئی وضاحت ہوتی ہے نہ اس سے اختلاف، تم نے تاج نہیں مانگا اور نہ درخواست بھیجی۔نہ خود کو کسی کے متبادل کے طور پر پیش کیا،نہ تمہیں منتخب کیا گیا۔نہ مقرر کیا گیا،نہ تم نے انتظارکیا، تم بس اپنا مقام لے لوگے کیونکہ سربراہی دی نہیں جاتی ،نہ تحفے میں ملتی ہے ، نہ وراثت میں، سربراہی تو چھینی جاتی ہے دانتوں کے بیچ سے، ملنے کی جگہ سے نہیں جہنم کی گہرائیوں سے، جہاں تمہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں دیکھتا، نہ تم محلات سے آئے ہو، نہ ایسے مردوں کے ہاتھوں پر پلے ہو جو تم پر اپنی عظمت نچاور کرتے۔ اے امام! تم نے پتھروں پر تربیت پائی، تم نے غداروں کو جھیلا، بھوک نے تمہیں غذا دی،اس لئے جب تم تخت پر بیٹھوگے تو تکبر نہیں کروگے بلکہ ایک گہرا احساس ہوگا۔احساسِ اہلیت اور استحقاق ۔

تم کسی کے تابع پیدا نہیں ہوئے، نہ تمہاری روح نے رینگنے اور جھکنے کا رنگ اپنایا۔تم نے اپنے پرانے خیالات کی لاشوں پر قدم رکھا۔اندھی اعتماد کی لاشوں پراور خوابوں کی لاشوں پر جو تمہیں بچا نہ سکے۔

اور آج ، آج سربراہی تمہاری ہے۔کیونکہ تم واحد وہ شخص ہو ،جس نے کبھی کسی سے سربراہی نہیں مانگی بلکہ تم نے دل میں کہا : کوئی سلطنت نہیں تو میں خود بناؤں گا۔ شروع میں بہت لوگ تھے ، سب بولتے تھے، نصیحت کرتے ، دعوے کرتے،ہنستے ، پر اعتماد قدموںسے آگے بڑھتے۔ جھوٹی شان وشوکت کے پروٹوکولوں کیساتھ۔ مگر تم اے مہدی! تم گوشے میں بیٹھے رہے…دیکھتے، سیکھتے اور خاموش رہتے۔ ایک ایک کرکے وہ سب گرتے چلے گئے۔کچھ دھوکے کی وجہ سے، کچھ اپنی کمزوری کو نہ ماننے کی وجہ سے اور کچھ اپنی شدید خود غرضی کی وجہ سے۔مگر تم نہ گرے۔نہ اسلئے کہ تم سب سے زیادہ طاقتور تھے بلکہ اسلئے کہ تم نے ایک حقیقت جان لی تھی کہ جو شخص تخت کا طالب ہو ،اسے گرنے کی اجازت نہیں۔

آج کوئی باقی نہ بچا۔چہرے جو منظر پر چھائے تھے، غائب ہوچکے اب تم آواز سنتے ہو اور وہ تمہاری اپنی ہے۔

اب تم آگ کے تخت پر بیٹھنے والے ہو۔تمہارے قدموں تلے جو کچھ ہے اس کی تاریخ تمہارے درد سے لکھی گئی ہے۔تخت پر رکھے جانے والے تمہارے ہر بازو میں کوئی پرانا زخم چھپا ہوگا۔ لوگ سمجھیں گے کہ تخت سکون ہے کہ یہ سفر کا اختتام ہے۔….. مگر وہ نہیں جانتے کہ تخت سر پر سجے تاج کا نام نہیں بلکہ کمر پر رکھے بوجھ کا نام ہے۔

اے مہدی! اب تم محبت نہیں مانگتے ، نہ تمہید، نہ فہم۔ اللہ نے تمہیں چنا ہے کہ وہ بنو ،جو نہ کسی جیسا ہو ، نہ کسی کا انتظار کرے، نہ کسی کا محتاج ہو۔لیکن اس صفحے کو بند کرنے سے پہلے ،میرے سوال کا سچ سچ جواب دو۔اے امام! کیا تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ تم تب بھی بادشاہ بنے رہو جب تخت ٹھندا ہو؟۔کیا تمہارے اندر اتنی ہمت ہے کہ تنہائی ہر فتح سے زیادہ گہری ہو…اور تم پھر بھی باد شاہ رہو؟ الجواب:انسان نعمت پر پہلوتہی برتا ہے مشکل میںمایوس!

المہدی المنتظر اور انسانوں میں شیا طین
قناة السرالاعظم کے معزز ناظرین

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ(3جون۔2025)
(عربی تحریری ویڈیو ۔ رابطہ: 0639522005)

یا مھدی ! ان کا ارادہ تھا کہ تجھے زندہ دفن کریں کہا کہ تم گرچکے ختم ہوچکے ۔ گمان کیا کہ اٹھوگے نہیں مگربھولے کہ اللہ اپنے بادشاہوں کا چناؤ ڈھول اور تالیاں بجانے والوں میں سے نہیں راکھ کے بیچ سے کرتا ہے۔ تجھے اندھیرے میں پھینکا، ہر روشنی بجھ گئی، ہر چہرہ مڑا ،کوئی تیرے پاس آیا نہ ہاتھ بڑھایا، نہ زخم کا پوچھا نہ خلوص سے دعا کی۔ تم مر نہیں بدل گئے۔ سرگوشیاں سنتے تھے کہ ”یہ ختم ہوچکا ٹوٹ چکا،یہ کبھی ویسا نہ بن سکے گاجیسے تھا”۔ ان کی ہر سر گوشی اینٹ بن گئی جس پر تم نے قدم رکھ کر بلند ہونا سیکھا ،اللہ نے آگ سے نکالاتاکہ وہ نہ رہو جو تھے بلکہ وہ بنو جس کیلئے وہ تخت بنا جس کیلئے کوئی اور پیدا نہ ہوا۔ یا مہدی ! تم نے کچھ نہ مانگا، نہ کسی سے امید رکھی نہ جھکے، زمین تمہارے نیچے لرزتی تھی۔ تم نے سر آسمان کی طرف اٹھایا،کہا: ” اے میرے خالق! جس نے مجھے میرے دردسے پیدا کیا مجھے دکھا کہ کیوں اور کیسے؟”۔ پھر اللہ نے تخت دکھایا مگر سونے کا نہیں راکھ کا ۔ تیری ہر گرنے کی تلخی،ہر یاداش جو تجھے دھتکارا۔ ہر خیانت جوتیرے قدموں کے نیچے انہوں نے بنائی۔ آج تم جشن نہیں مناتے، مسکراتے ہو،نہ تالی بجاتے ہو! بیٹھے ہو، اپنے اندر کی آواز سنتے ہو ” تم بادشاہ پیدا نہ ہوئے، تم پیدا کئے گئے کہ کسی کے سامنے نہ جھکو” وہ دیر تک دیکھتے، باتیں سنتے مگر سمجھ نہ سکے۔ تمہارا سکوت کمزوری جانا، خاموشی شرمندگی الفاظ علامت شکست۔مگر وہ نہ جان سکے کہ تلواریں ہمیشہ چمکتی نہیں نیام میں رہتی ہیں جب تک وقت نہ آئے۔ تم گزرتے وہ مسکراتے۔ پیچھے باتیں کرتے، تمہارا اندازہ اپنی مرضی سے لگاتے مگر ہر اندازہ باور کراتا کہ نہیں جانتے کہ تم کس ہاتھ سے بنے؟۔ ضرورت نہ تھی کہ اپنے لئے دلیل یا کچھ ثابت کرو،تم مختلف پیدا کئے گئے ۔ دکھ کی پیمائش پر بنے۔آگ کی روح سے ڈھلے، وہ دیکھ سکے جو جل چکا۔ ہر بار تجھے نظر انداز کیا تو سیکھا بغیر انکے جینا۔ ہر بار کمتر سمجھا تو وہ قدر پیدا کی جو ان کی رائے پر منحصر نہ تھی۔ وہ تمہاراظاہر دیکھتے، اللہ تمہاری نیت کو دیکھتا۔ تمہاری اندورنی آگ کو ، حوصلے کو جو لفظوں میں نہیں بلکہ اس وقت ظاہر ہو جب سب گر چکے ہوں، تم کھڑے رہو۔وہ پھٹی پرانی کتاب کی طرح پڑھتے ، وہ نہیں جان سکے کہ اس کے بیچ میں ایک صفحہ ایسا ہے جو ابھی لکھا جانا باقی ہے۔ایک صفحہ جسے تم خود لکھو گے۔اور اپنے ہاتھ سے ان کے چہروں پر بند کردوگے۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے بعد ”عنقاء مغرب” کا آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امام مہدی کا بھائی

اخو الامام المھدی

السلام علیکم ۔میں ہوں تامر صبری ۔صاحب خواب امام مہدی کو2001ء سے خوابوں میں دیکھتاہے ۔ وہ کہتا ہے کہ یہ پہلی بار تھا کہ ” میں نے دیکھاکہ نبی ۖ اور مہدی دونوںہیں تو مجھے خوف محسوس ہوا یا پھرمجھے یوں لگا کہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے”۔ اس خواب میں مہدی کا بھائی شہید دکھایا گیا ۔ممکن کسی جنگ یا فوجی کاروائی میں ۔ اگر آپ کو خواب کی بہتر تعبیر معلوم ہو تو شیئرکریں ۔

النبی ۖ اور مہدی کے بارے ایک خواب
میں نے مہدی کو بیٹھے ہوئے دیکھا اورگویا وہ اندر سے تکلیف میں تھا،یہ کتنی عجیب بات ہے

بیشک میں نے پہلی بارمحسو س کیا کہ مہدی جس حال میں ہے کہ وہ خوف زدہ تھا یا پھر کوئی بہت بڑا واقعہ عنقریب رونما ہونے والا تھا۔یا پھر وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اور یہ ہے کہ بیشک مہدی نور سے تھا اور اسکے گرد رات یا اندھیرا تھا۔ گویا وہ کوئی چیز اپنے اندر چھپا رہا ہو، جو اسے عمر بھر غمگین رکھتی ہو۔خدا کی عزت کی قسم! ظاہر ہوئی اسکے سرکے اُوپر نبی کریم ۖ کی موجود گی اور نور آپ ۖ سے پھیل رہا تھالیکن نبیۖ کی نظرمیں کوئی غصہ یا کوئی غم لگ رہا تھا۔اللہ بہتر جانتا ہے ،نبیۖ نے مہدی سے فرمایا :”کیا تم نے سمجھا کہ میں اس کا حق چھوڑ دوں؟” پس مقصد مہدی کا بھائی تھا جو مظلوم قتل ہوا تھا۔ پھر مہدی کے چہرے پر اسکے بھائی کی تصویر نمودار ہوئی ۔ایک جوانمرد نہایت خوبصورت،

عظیم جسم والا، سفید رنگت والااوراس کی پشت پر ختم نبوت ۖ کا فیض تھا۔ اللہ کی قسم!جو میں نے دیکھا۔پس اس وقت مہدی رونے والا تھااگر نبی ۖ کی موجودگی میںوہ خود کو نہ سنبھالتا۔ پھر مہدی نے نبی سے عرض کیا: ”آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں تمام جہانوں پر”! نبی ۖ نے فرمایا: ”اور تم اللہ کی نصرت اور فتح ہو”۔تو یہ خواب ختم ہوا۔ مگرابھی تک مہدی خاموش تھا۔ اور نہیں جانتا تھا کہ اللہ بہت زیادہ غضبناک ہے ، اس جوانمردکے قتل پر اہلِ بیت میں سے تھا، توپس مجھے یہ آیتِ کریمہ یاد آئی: بسم اللہ الرحمن الرحیم” اور مت قتل کرو اس نفس کوجس کی اللہ نے حرمت رکھی ہے مگر حق کیساتھ۔ اور جو مظلوم قتل کیاجائے تو ہم نے اسکے ولی کیلئے بدلہ لینے کا اختیار رکھا ہے۔ پس وہ قتل وغارتگری میں حد سے نہ بڑھے، یقینا اس کی مددہو گئی ہے”۔ (الاسرائ:33)

اللہ عظیم نے سچ فرمایا۔یہ خواب معراج کی رات کو دیکھا گیا تھا۔ مجھے یہ آیت بھی یاد آئی:” اور اپنے پاس سے اختیارمیرابنادے مددگار۔(سورہ الاسراء آیت:80)

اور اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی:”وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں،لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر نہیں رہے گااوراگرچہ کافروں کو ناپسند ہو۔(التوبہ:32)
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کرے، چاہے مشرکوں کو ناگوار گزرے”۔(سور التوبہ، آیت:33)

النبیۖ والمہدی رؤیا
رأیت المہدی جالس وانہ یتلم من الداخل یاالعجیب!

انی شعرت لاول مرة ان فیہا المہدی بان خائف او ان ہنا شی ء عظیم سیحدث اوا نہ لا یرید ان یتحدث مع احد ان المہدی من نور وحولہ اللیل او الظلام،ا نہ یخفی شیء بداخلہ یحزنہ طوال عمرہ وعز اللہ ظہر من فوق رأسہ حضر النبی وان النور یشع منہ ولکن ان نظرتہ تدل عل الغضب او الحزن اللہ اعلم وقال للمہدی احسبت ان اترک حقہ فان یقصد اخو المہدی الذی قتل مظلوما فظہر فی وجہ المہدی صور اخیہ شاب فی غایة الجمال عظیم البنی ابیض جدا وفی ظہرہ ختم النبوة واللہ ہذا ما شاہدتہ،فاذا المہدی یبقی لولا ان تمال نفسہ فی حضر النبی فقال المہدی للنبی انت ارحم للعالمین فقال النبی للمہدی وانت نصر اللہ والفتح وانتہت الرؤیا وما زال المہدی صامت ولن یعلم ان اللہ قد غضب غضب شدید لقتل ہذا الشاب من اہل البیت فتذکرت ھذہ الآیة الکریمة بسم اللہ الرحمن الرحیم ولا تقتلوا النفس التِی حرم اللہ ِالا بِالحقِ ومن قتِل مظلوماً فقد جعلنا لِولِیِہِ سلطاناً فلا یسرِف فِی القتل انہ کان منصورًا( الاسراء :33 )

صدق اللہ العظیم الرویا فی لیلةالاسرائ۔وتذکرت ایضًا الآیة: واجعل لِی مِن لدنک سلطٰاناً نصِیرا(الاسراء الآیة80)

وقولہ تعالیٰ: یرِیدون ان یطفِئوا نور اللہِ باِفواہِہِم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولوکرِہ الکٰفرون(سورة التوبہ:32)

ہو الذِی ارسل رسولہ بِالہدٰی ودِینِ الحقِ لِیظہِرہ علی الدِینِ کلِہِ ولو کرِہ المشرکِون (سورة التوبہ:33)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بیشک جنت میں حوراء ہوگی جس کو”کھلونا ”کہا جائے گا

ان فی الجنة حوراء یقال لھا :اللعبة
بیشک جنت میں حوراء ہوگی جس کو”کھلونا ”کہا جائے گا

واخر متشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ: اور اس میں متشابہات ہیں تو جنکے دلوں میں کجی ہے

قرآنی محکم آیات بنیاد ہیں۔ متشابہات کی تفسیر زمانہ کرتا ہے۔ قرآن میں حورو غلمان اور دیگر اشیاء پر مفسرین کی رائے ہے ۔ تاویل کوئی نہیں جانتا تھا مگر اللہ۔ ترقی یافتہ دنیا نے کمال حاصل کیا توپھر بات سمجھ آئی ۔سمندر میں پہاڑ جیسے جہاز آگئے، ترقی یافتہ دنیا نے قرآنی آیت کا متشابہ سامنے لاکھڑا کیا۔

عربی میں گاڑی کو عربہ کہتے ہیں۔ قرآن میں قد کے موافق گاڑی کا ذکر تھا لیکن جب گاڑی کا وجود نہیں تھا تو اس سے ”حور” مراد لی گئی۔ حالانکہ عربی کی کسی لغت، شاعری ، عام زبان اور کہانیوں تک میں حور یا عورت کیلئے عربہ کا تصور نہیں تھا۔ آج دنیا میں گاڑی آچکی ہے لیکن قرآن کی تفسیر غلط کی گئی۔

ما ورد فی حوریات خاصة فی الجنة:ابی دُنیا
فصل:جوخاص جنت کے حوروں کے حوالہ سے آیا:

عن ابن مسعود ،قال: ان فی الجنة حوراء یقال لھا اللعبة کل حور الجنان یعجبین بھا، یضربن بایدھن علی کتفھا ویقلن : طوبیٰ لک یا لعبة ،لویعلم الطالبون لک لجدوا ، بین عینھا مکتوب من کان ینبغی أن تکون لہ مثلی فلیعمل برضا ء ربی عزوجل (ابی دنیا)
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے۔ فرمایاکہ جنت میں حور ہوگی جس کو اللعبة کھیل کہا جائے گا۔ جنت کی تمام حوریں اس پر شیدا ہوںگی۔وہ اپنے ہاتھوں سے اس کے کاندھے پر تھپکی دیں گی اور کہیں گی کہ ” اگر چاہنے والوں کو تیرا پتہ چلے تو وہ ضرور کوشش کرینگے۔ اسکی دونوں آنکھوںکے درمیان لکھا ہوگا کہ ” جو یہ چاہے کہ اس کیلئے میری جیسی ہو تومیرے رب عزوجل کی رضا کیلئے عمل کرے”۔

روایت کے الفاظ سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اس سے دنیا کی کوئی کھلونا حور ہی مراد ہوسکتی ہے اسلئے کہ واضح طور پر اپنی جیسی حوراء کو پانے کیلئے اس کی آنکھوں کے درمیان ترغیب کیلئے ایک تحریر سے واضح کیا گیا ہے۔ قیامت کے بعد اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی اسلئے کہ اعمال کا دروازہ موت کے بعد بالکل بند ہوجاتا ہے تو ترغیب کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ہے۔ دنیا بہت ترقی کرے گی۔ اس میں دو قسم کے افراد کیلئے الگ الگ اقسام کے دو دوباغات ہوں گے جس کا سورہ رحمن،سورہ واقعہ اور دیگر سورتوں میں ذکر ہے۔ اللہ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ قیامت کیلئے خاص جنت کا مزہ دنیا میں بھی انسانوں کوچھکاؤں گا اور بڑے عذاب جہنم سے پہلے چھوٹے عذاب کا دنیا میں مزہ چھکاؤں گا تاکہ وہ آخرت کیلئے تیاری کرلیں۔ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اسلئے اللہ دنیا میں آخرت کا نقشہ اس طرح لوگوں کے دلوں میں بٹھائے گا کہ آخرت کی تیاری میں اس کیلئے وہ مددگار ثابت ہو۔ دنیا میں دو دو باغ اور دو دو چشمے اور دودو فوارے کا تعلق آخرت کی جنت سے نہیں ہوسکتا ہے جو بہت وسیع ہوگی۔

عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:بے شک میں اس کو جانتا ہوں جو اہل دوزخ میں سب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور جنت والوں میں سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ وہ ایسا آدمی ہے جو ہاتھوں اور پیٹ کے بل گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ جا جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ جنت میں آئے گا تو اسے یہ خیال دلایا جائے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ وہ واپس آکر عرض کرے گا : اے میرے رب !مجھے تو وہ بھری ہوئی ملی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے فرمائیگا : جا جنت میں داخل ہوجاؤ۔آپۖ نے فرمایا : وہ (دوبارہ) جائے گا۔تو اسے یہی لگے گا کہ وہ بھری ہوئی ہے۔ وہ پھر واپس آکر کہے گا کہ اے میرے ربّ! میں نے تو اسے بھری ہوئی پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا کہ جا ؤ ، تیرے لئے دنیا کی طرح اور اس سے دس گنا جگہ ہے۔آپ ۖ نے فرمایا کہ وہ شخص کہے گا کہ میرے ساتھ مذاق کرتے ہو اور میری ہنسی اڑاتے ہو اورحالانکہ آپ تو بادشاہ ہو؟۔عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو دیکھا کہ ہنس دئیے یہاں تک کہ آپ کے پچھلے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ یہ شخص سب سے کم مرتبہ کا جنتی ہوگا۔

روایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنت میں جن خادموں اور حوروں کا ذکر ہے وہ انسان نہ ہوںگے بلکہ خدمت کیلئے کسی اور مادہ سے بنے ہوں گے اور اصل حیثیت اشرف المخلوقات بنت حواء کی ہوگی۔

جب دنیا میں جزاو سزا ہوگی تو پھر اس جہنم سے نکلنے والے آخری شخص کو پہلے کے مقابلے میں دس گنا جگہ مل جائے گی۔ جس کا اس کو یقین بھی نہیں آتا ہوگا اسلئے کہ بدلی ہوئی دنیا اس نے نہیں دیکھی ہوگی۔ قیدیوں کیساتھ سزا والا سلوک ہوگا لیکن انسانوں کو جنت اور دوزخ کا مزہ دنیا میں ملے گا۔

اگر دنیا اور آخرت کا صحیح تصور پیش کیا جائے تو مسلمانوں کی خواتین کو بہت زیادہ اطمینان ملے گا۔ قرآن میں دنیا کے اندر چھوٹے عذاب کا ذکر ہے بڑے عذاب سے پہلے اور دنیا ہی میں مؤمنوں کو وہ نعمتیں دینے کا ذکر کیا جو قیامت کیساتھ خاص ہیں۔ عرب ملحد نے حور کا مذاق اڑانے کیلئے پستانوں کی لمبائی چوڑائی کا ذکر کیا ۔ توجاہل واعظ کو روایت لگی۔ عمرشریف نے کہا کہ بیت الخلاء کو عربی رسم الخط میں دیکھ کر جاہل قرآن سمجھتے ہیں۔ لاہور کا واقعہ بھی مشہور ہوا کہ ڈیزائن کے کپڑوں کو قرآن کی گستاخی سمجھ لیامگر فقہاء کا پتہ نہیں کیا گل کھلائے؟ ۔
٭٭

صحیح وضعیف احادیث کے معاملات

رسول اللہ ۖ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک لمحہ دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تمہارے ایک کمان یاایک قدم کی جگہ جنت کی بہتر ہے دنیا سے اور جو کچھ ہے اس میں ۔اگر جنت کی ایک عورت دنیا کو جھانک کر دیکھ لے تو اس میں جو کچھ ہے وہ سب روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے دوپٹے کا پلو دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری)

یہ دنیا کی ان عورتوں کی شان بتائی گئی ہے جن کا رہن سہن اور اوڑھنا بچھونا جنت کماتے گزرتا ہے۔
جن روایات میں ہے کہ حوروں کی طرف سے استقبال میں گانے ہوں گے کہ ہمیشہ کیلئے ہیں، کبھی ناراض نہیں ہوں گی۔اللہ نے تمہارے لئے بنایا اور ہم خوش رکھیں گی اور نافرمانی نہیں کریں گی ۔اماں عائشہ نے فرمایاکہ جنت کی حوریں مقالہ پڑھیں گی تو مؤمنات جواب دیں گی کہ ہم نمازی ہیں اورتم نے نماز نہ پڑھی،ہم نے روز ہ رکھا اور تم نے روزہ نہ رکھا۔ہم نے وضو کیا اور تم نے وضو نہ کیا اور ہم نے صدقے دئیے اور تم نے صدقہ نہ دیا تو ان پر غالب آجائیں گی (تفسیر قرطبی جلد 17صفحہ 187)

اسلام ویب میں سوال اور جواب

سوال:وجدت لفظا غریبا عن ابن عباس بخصوص الحوراء لعبة فی کتاب” تبیہ الغافلین” للسمرقندی: ان فی الجنة حوراء یقال لہا : لعبة خلقت من اربعة اشیاء : من المسک والعنبر ،والکافوروالزعفران و عجن طینھا بماء الحیوان فقال العزیز : کونی فکانت وجمیع الحور عشاق لہا ولوبزقت فی البحر لعذ ب ماء البحر ، مکتوب علی نحرھا : من أحب أن یکون لہ مثلی فلیعمل بطاعة ربی۔ ھل حذہ روایة ثابتة؟۔ وان کانت کذلک فما معنی أن الحور یعشقنھا؟فان العشق بحسب اللغة مرتبط بالشھوة فھل یعقل أن فیہ اشارة للسحاق؟

سوال : سمرقندی کی ”تنبیہ الغافلین” میں ابن عباس نے کہا کہ جنت میں حور ہوگی …… پھر عزیز اس کو کہے کا کہ ہوجاؤ تو وہ ہوجائے گی۔ اس سے تمام حوریں عشق کریں گی۔اگر سمندر میں تھوکے تو سمندر کا پانی میٹھا ہوجائے۔ اس کی گردن پر لکھا ہے کہ جو چاہے کہ اس کیلئے میری جیسی ہو تو میرے رب کی اطاعت کا عمل کرے ۔ کیا یہ روایت مستند ہے؟۔اگر ہے تو حوروں کے عشق کا کیا معنی ہے؟۔ عشق لغت میں شہوت سے تعلق رکھتا ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ ہم جنس پرستی کی طرف اس کا اشارہ ہے؟۔

الاجابة : فالجدیر بالذکر ابتداء : التنبیہ الی ان کتاب تنبیہ الغافلین مع جلالة مصنفہ ملی ء بالأحادیث الضعیفة والموضوعة المکذوبةعلی النبی ۖ وذلک لعدم درایة المصنف بعلم الحدیث و ما یصح منہ ومالا یصح وقال عنہ الذہبی فی السیر: تروج علیہ الاحا دیث الموضوعة وقال عنہ فی تاریخ الاسلام : وفی کتابہ تنبیہ الغافلین موضوعات کثیرة فینبغی لمن لایمیز بن الصحیح والسقیم من الأحادیث أن یبتعد عن مطالعة مثل ہذہ الکتب ۔

والحدیث المذکور فی سؤال لیس حدیثا عن النبی ۖ وانما ذکر فی تنبیہ الغافلین موقوفا علی ابن عباس …..
وقدورد مسندا بألفاظ قریبة عن ابن مسعود وابن عباس فقد روی ابن ابی الدنیا فی صفة الجنة موقوفا علیہ …….
وھذہ لآثار الموقوفة لیس فیہا من ذکر العشق والعشق فی لغة العرب أصلہ : فرط الحب وان اطلق علی ما یتعلق بالشہوة وحاشا للہ أن یکون فی الجنة شی ء مما تسا ئلت عنہ فی السؤال ۔وللہ تعالیٰ اعلم

جواب : ”تنبہ الغافلین کتاب کا مصنف عالی المرتبت ہونے کے باوجود ضعیف ومن گھڑت روایات بھی درج کرچکا اسلئے کہ اس کو احادیث میں مہارت نہ تھی۔جس کو علم نہ ہو تو ان کتابوں سے دور رہے۔ اس روایت کی نبیۖ سے کوئی سند نہیں بلکہ ابن عباس سے بھی نہیں ،البتہ ابن مسعود و ابن عباس سے اسکے قریب کے الفاظ کی سند ہے۔

عشق عربی میں محبت کی شدت کو کہتے ہیں اس کا اطلاق شہوت سے متعلق پر بھی ہوتاہے۔ جس سوال کا آپ نے پوچھا ہے تو جنت میں ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ باقی درست حقیقت کو اللہ ہی جانتاہے”۔

عینی نے بخاری کی شرح میں ابوہریرہ سے نقل کیا ” جنت میں حوراء ہوگی جس کو عیناء کہا جائے گا ، جب وہ چلے گی تو اسکے دائیں 70 ہزار اور اسی طرح بائیں جانب 70ہزار وصیف( لونڈیاں و غلمان) ہوں گے اور وہ کہے گی کہ کہاں ہیں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے والے”۔اگر چین بنالے تو پاکستان میں دنیا بھر سے سیاح دیکھنے آئیں گے۔
٭٭

مولانا طارق جمیل اور جنت کی حوریں

مولانا طارق جمیل جامعہ بنوری ٹاؤن میں تبلیغی جماعت کا وعظ کرنے آتاتو حوروں کا بلوپرنٹ پیش کرتاتھا۔ خواتین کے بعد ہجڑے جماعتی ہوگئے۔ مشہور ڈانسر مہک ملک زنانہ لباس میں مردوں سے معانقہ کرتی پھررہی ہے۔ گل چاہت پشتون خواجہ سرا کا چرچا گزرگیا۔ جو مسجد کی منبروں پر بیان اورجماعتوں میںنکل کر تبلیغ کرتی تھی۔ وزیرستان کے لوگوں کی کہاوت ہے کہ ” مور پلور مے مڑہ کہ مو وترانجے تا لایہ کے ” (میرے والدین مریں تاکہ میں اچھل کود کیلئے فارغ ہوں) گل چاہت نے اپنا نام معاویہ رکھ دیا لیکن داڑھی نہیں رکھی اور عورت کا روپ دھارے رکھا۔ پھر بتایا کہ کسی نے نہ چھوڑا۔ تبلیغی جماعت نے حاجی عثمان جیسے اکابر کھودئیے تو ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی اور اوباشی کرتی پھرتی ہے۔

حدیث ہے کہ ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کا پوچھا جائے گا”۔

طالبان شیخ عبدالحمیدحماسی نے لڑکوں کو عورت کے حکم میں شمار کیا توداڑھی منڈے میک اپ نسوانی لباس اور حسن النساء کی زینت کیساتھ خواجہ سراؤں کو تبلیغی جماعت میں کیسے گھمایا جارہاہے؟۔

قوم کی حالت بڑی ناگفتہ بہ ہے ۔ساس ، بہو، ماں ، بہن اور بیٹی کے واقعات کو میڈیا میں رپورٹ کیاجارہاہے۔باخبردلے بیوی کوچھوڑ یں نہ باپ کو ماریں۔ جبری جنسی زیادتی کی بڑھتی واراداتوں کو روکنا معاشرے اور حکومتی دسترس سے باہرلگتا ہے۔ چین کو اگر مصنوعی جنسی پیاس بجھانے کا راستہ سوجھا ہے تو محرمات اور جبری جنسی زیادتی کا سد باب بھی ہوسکتا ہے۔ مفتی طارق مسعوداور مولانا منظور مینگل سوشل میڈیا پر بڑے فحش عنوانات لگاتے ہیں ۔

انور مقصود نے مولانا فضل الرحمن کا کہا کہ بغیر ماں کے باپ سے پیدا ہوا، اسلئے کہ تحریک انصاف کی عورتوں کو تتلیاں اور پاؤں کے تلوؤں کو گال کی طرح نازک کہا تھا۔ مفتی منظور مینگل کی بیوہ ماں نے یتیم بچے کو فحش گالیاں دینے کیلئے نہیں پالا ….”۔

خلافت کمالات کا آئینہ ہوگا۔ اللہ رؤف و رحیم اور نبی ۖ بھی مؤمنوں پر رؤف و رحیم تھے۔ خلیفہ ارضی نے علم الاسماء سے فرشتوں کو شکست دی تھی۔ تسخیرارض و سماء نے پھر ورتہ حیرت میں ڈالنا ہے۔ الم اقل لم انی اعلم مالا تعلمون ” کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے”۔

سورہ بقرہ کی پہلی آیت الم O کے معنی کیا نہیں؟ الم نشرح ،الم ترکیف،الم تعلم ان اللہ ، الم تر الی الذین خرجوا ،الم ..بہت کچھ…

باچا خان نے لکھا ” قرآن پڑھنا بڑامشکل تھا ” الف لام میم الفابیٹ کی رہنمائی تھی۔ اردو، سندھی کی الفا بیٹ انگریز نے شروع کی ۔ حروف مقطعات حروف تہجی کے رہنماتھے ،نالائقی انگریز نے ختم کی۔

کن فیکون کی تفسیر دنیا اس طرح سے سمجھے گی کہ مصنوعی حور کو عزیز یعنی خدا کا خلیفہ بندہ جو حکم بھی دے گا تو وہ تعمیل کرے گی۔ کسی روایت میں ہے کہ اس لعبہ حور کی آنکھوں کے درمیان یہ لکھا ہوگا تو کسی میں گردن یعنی گلے پر لکھائی کا ذکر ہے۔ دونوں قسم کی حوروں کا ہونا تضاد نہیں بلکہ نوشتۂ دیوار ہے۔

اصول فقہ میں سمندری انسان سے نکاح ناجائز قراردیا ۔ جل پری کا افسانوی کردار فقہاء نے سچ سمجھ لیا لیکن واضح کردیا کہ کسی اور جنس کی مخلوق سے نکاح نہیں ہوسکتا ۔ گائے کا بیل، بھینس کا سانڈھ سے جنسی تعلق ہوتا ہے، بھینس سے بیل کا نہیں اور انسان کو قرآن نے جانور سے بھی بدتر قرار دیا ہے تو انسان کہاں سے کہاں پہنچتاہے؟۔

دنیا کی جنت اور آخرت کی جنت میں حور کا تعلق ربوٹ سا ہوگا۔ مستند حدیث میں دنیا کی آدم زاد عورتوں کی فضیلت ہے اور حوراء عربی میں بیگم ہی کو کہتے ہیں۔ روایت میں کھلونا حوراء واضح ہے۔ یہ نام نہیں جنس ہے ۔ بڑھیا نے پوچھا کہ جنت جاؤں گی؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ ”جنت میں بوڑھی عورتیں نہیں ہوں گی” ۔ تو وہ رونے لگی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جوان بن کر جاؤگی تو وہ خوش ہوگئی”۔ آخری جنتی کیساتھ مزاح کا حدیث میں ذکر ہے اور یہی مزاح جنتی عورتوں کیساتھ حوروں کے لشکروں کی صورت میں ہوگا۔ جس میں مکالمہ ہوگا لیکن پھر پتہ چلے گا کہ یہ سوکنیں نہیں بلکہ کھلونے ہیں۔

مزاح خوشیوں کو دوبالاکرتا ہے۔ خوف، غم اور مشکل کے بغیر امن، خوشی اور آسانی کا تصور ادھورا ہے ۔رات کے بغیر دن کی نعمت کا پتہ نہیں چلتا۔ مفتی اعظم وشیخ الاسلام نے تصویر اور سود کو جواز بخش دیا لیکن حلالہ کیخلاف دلائل قبول نہیں کرتاہے؟۔

تفسیربیضاوی میں الم پر تضاد ۔ شیعہ نے ال محمدۖ مراد لیا ۔پروفیسر نے اللہ، لوح محفوظ ،محمدۖ مراد لیا۔

جب نیٹ کا کورڈ میپ دنیا دکھاتا ہے تو قرآن کا کورڈ بولتی کتاب بن کر درخت کا پتہ پتہ گرنے تک سب کچھ دکھائے گا ۔بے انتہا ء علوم کا راز کھلے گا۔ انجو گرافی اورMRIسے زیادہ ترقی ہوگی مگر قرآن دل کا نفاق اور ذخیرہ آخرت کا نقشہ بھی دکھائے گا۔
٭٭

ایک دفعہ پھر بہت بڑا اسلامی عروج آرہا ہے
جس میں پاکستان کو حیثیت حاصل ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر

فرمایا:” پس نہیں ! قسم کھاتاہوں ستاروں کے واقع ہونے کی جگہوں کی اور بے شک ہے اگر تم سمجھ لو تو یہ بڑی قسم ہے۔ بیشک یہ عزت والا قرآن ہے۔ تکوینی امور کی کتاب میں ہے۔ اس کو چھونہیں سکتے مگر پاکیزہ لوگ۔ اتارا گیا ہے پروردگار عالم کی طرف سے۔ کیا اس کلام کے ساتھ بھی تم حقائق کو نظر انداز کرنے کے مرتکب ہو؟اور اپنا رزق بناتے ہو، بیشک تم ہی اس کو جھٹلارہے ہو۔ پس کیوں نہیں تمہاری روح گلے تک پہنچتی اور جب تم اس وقت دیکھ رہے ہوگے۔ ( سورہ واقعہ 75تا84)

سورج نظام شمسی کیساتھ ایک بونا ستارہ ہے اور ہمارے کہکشاں میں کھربوں ستارے ہیں اور پھر کھربوں کہکشاں ہیں۔ ایک بلیک ہول کا ستارہ سورج سے کئی کئی گناہ بڑا ستارہ ہڑپ کرلیتا ہے۔

سائنسی ترقی نے قرآنی آیات کی افادیت واضح طور پر ثابت کردی ہے۔ پہلے لوگوں کو علم نہیں تھا مگر جب علم ہوگیا تو واقعی یہ بہت بڑی قسم ہے۔

سائنسی ترقی سے قدرت اور قرآن وحدیث میں موجود تکوینی امور کے راز کھل رہے ہیں۔ آج ایک آدمی گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون پر بات کرتا ہے اور ٹریفک پولیس کو دیکھ کر موبائل ران پر رکھ دیتا ہے۔ آج سے 40سال پہلے بھی یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لائیو موبائل پر بات ہوگی۔ حدیث میں14سوسال پہلے سے ہے کہ آدمی اہل خانہ سے اپنی ران کیساتھ بات کریگا۔ نیٹ نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ دنیا کے بہت بڑے نقشے تک بھی لائیو رسائی حاصل ہے۔ ChatGPT سے انٹیلی جنس معلومات لی جاتی ہیں تو اگر قرآن کے الفاظ کا آئینہ کھل گیا تو دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی؟۔

حوروں کا نقشہ سائنس نے پیش کرنا ہے جس سے آخرت کی وسعتوں کا انسان کی محدود سوچ کو یقین آجائے گا اسلئے کہ نبوت اور وحی کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ علماء و مشائخ اپنی ذات ، فرقہ اور مسلک کی طرف بلارہے ہیں اور پستی وزوال کی انتہاء پر مسلمان پہنچ گئے۔ ہمارے اساتذہ کرام کی آنکھوں میں آنسو آتے تھے کہ نبیۖ کی نعمت بھی پیسوں کی خاطر کوئی پڑھتا ہے ۔ اب غزہ کا غم کھانے کی جگہ اپنے ہجوم کا جشن شادی کی طرح مناتے ہیں۔

ابن عربی نے فرعون کے جنتی ہونے کا ذکر کیا ہے۔بعض علماء نے لکھا کہ دنیا کی زندگی محدود ہے تو لامحدود سزا کیسے کسی کو مل سکتی ہے؟۔ جہاں لامحدود کا ذکر ہے تو زیادہ عرصہ مراد ہے۔ بالفرض فرعون کو ہی آخری جنتی تصور کیا جائے تو بیگم آسیہ جنت پہنچ گئی ہوگی تو فرعون کو جنت میں عورت ملے گی؟۔ کوئی جنتی عورت اس کی زوجیت چاہے گی بھی نہیں۔ آخری جنتی کو اس دنیا کی ڈبل جنت کا ذکر ہے۔ اگر وہ فرعون ہوا تو روایات میں حوروں کا ذکر ہے۔اور حور سے 70سال تک جماع ہوگا اور ایکدوسرے سے نہ بھریںگے۔ کیا پتہ یہ فرعون سے متعلق ہو۔

دنیا میں مسلمانوں کی فرعونیت بھی فرعون سے کم تو نہیں ہے جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ایک دن جنت میں ضرور جائیںگے۔ رسول اللہۖ کے والد حضرت عبداللہ کی قبر جب منتقل کی گئی ،اس وقت جن لوگوں نے دیکھا تو اس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک عالم دین اب بھی زندہ ہیں اور اس نے بتایا کہ حضرت عبداللہ بالکل سلامت تھے۔ اور جب قرآن کی واضح آیات کا انکار کرنے، ان کو روند نے اور ان کو چھپانے کے مجرم مسلمان ہیں تو جنہوں نے قرآن کو دیکھا اور سمجھا نہیں ہے تو پھر وہ کیوں کافر اور جہنم کی سزا کے مستحق ہیں؟۔

مولانا فضل الرحمن منصورہ حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کے پاس گئے اور عمران خان سے سیاسی تعلق کی بحالی کیلئے کہا کہ میں شدت پسندی کی سیاست نہیں کرتا۔ تلخیوں میں برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ کو ایجنٹ قرار دینا معمول کی بات ہے۔

مذہبی منافرت کی جگہ ایک اچھے ماحول کی بڑی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے نفرت اور ان کے بارے میں غلط سوچ کا مرتکب رہنے سے بہتر یہ ہے کہ اپنے اعمال اور ایمان پر نظرکریں ۔

دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اگرچہ ابن عربی کی کتابوں میں تحریفات بھی کی گئی ہیں تاہم ان کے مقابلے میں پروفیسر احمد رفیق اختر کا یہ کہنا زیادہ معقول ہے کہ اسلام کو دوبارہ پھر عروج ملے گا اور پاکستان کا اس میں مرکزی کردار ہوگا۔ ہمیں انکے اس مؤقف سے مکمل اتفاق ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورۂ النباء میں فتح مکہ،دنیا کی جنت وعذاب اور عذابِ قبرکا ذکر

عم یتساء لون O عن النباالعظیمO
”کس چیز کے بارے میں آپس میں سوال کر رہے ہیں؟۔ ایک بڑی خبر کے بارے میں۔جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ ہر گز نہیں ! عنقریب جان لیں گے ، ہرگز نہیںعنقریب جان لیں گے”۔

مکہ فتح ،سپر طاقتوں کی شکست اور طویل عرصہ مسلمانوں کی خلافت قائم رہی اور پھر انقلاب عظیم آنے کو ہے۔ نبیۖ کی قوم سمجھ رہی تھی کہ قرآن میں خوشخبریاں ہیں جو قیامت سے پہلے آئیں گی۔

مشرکین مکہ کہتے تھے کہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ؟۔دنیا کے عظیم مذاہب عیسائیت ، یہودیت اور مجوسیت ہیں۔ عظیم سلطنتیں سپر طاقتیں روم اور فارس ہیں۔ کہاں حجاز کے پسماندہ ان پڑھ باسی اور کہاں بڑی تہذب وتمدن کی حامل بڑی قومیں؟۔

اللہ نے اسی کا جواب اسی زبان میں دیا ہے۔

فرمایا:” کیا ہم نے زمین جھولا نہیں بنایا؟۔ اور پہاڑوں کو میخیںاور تمہیں مختلف اقسام کا بنایا۔ اور تمہارے لئے نیند کو آرام کا باعث بنایا اور رات کو پردہ پوش بنایا اور دن کو کمانے کیلئے بنایا اور تم پر سات سخت(محافظ فضائی زون) بنائے اورجگمگاتاچراغ بنایا۔ اور بادلوں سے موسلادھار بارش برسائی۔ تاکہ ہم اس کے ذریعے اناج اور نباتات اگائیں اور گھنے باغات۔ (سورہ النباء:6سے16)

جب انسانوں کے مختلف اقسام اور نظام ہستی چلانے والا مالک کائنات ہے تو پھر اللہ کیلئے مشکل کیا ہے جو تم سمجھ رہے ہو؟۔ پھر حتمی فیصلہ بتاتا ہے۔

فرمایا:”ان یوم الفصل کان میقاتًا Oیوم ینفخ فی الصور فتأتون افواجًا O
بے شک فیصلے کا دن معین ہوچکا جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم فوج در فوج آؤگے۔ (17،18)
(حج اور عمرے والے میقات کو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مخصوص طریقہ کی حد بندی اور حد فاصل ہے)

فتح مکہ کا صور پھونکا گیا تو فرمایا: ” جب اللہ کی مدد اور نصرت آجائے اور دیکھ لو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیںتواپنے رب کی تسبیح کریں اس کی تعریف کیساتھ اور استغفار کیجئے، بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے”۔(سورہ نصر)

انقلاب پر مسلمان اور کافرکا کیا حال ہوگا؟۔ کسی کولیلة القدرکی طرح آسمان کھلا ہوا قطار اندر قطار فرشتے اور اللہ کی رحمتیں اترتی دکھائی دیں گی تو کہیں پہاڑکے مانندمضبوط لوگ چلتے سراب بن جائیں گے۔

وفتحت السماء فاکانت ابوابًا O و سیرت الجبال فکانت سرابًا O

”اور آسمان کھلے گاتودروازہ درواہ بن جائے گا اور پہاڑ دوڑائے جائیں گے تو سراب بن جائیں گے”۔ (النباء:19،20)”جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھراس پرثابت قدم رہے ،ان پر فرشتوں کو اتاراکہ تم خوف نہ کھاؤاور نہ غم کھاؤ۔جنت کی بشارت پر خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا”۔ (سورہ حم سجدہ:30) ابوجہل بدر میں کتنا جم کر لڑا؟۔ فتح مکہ کے وقت اس کا بیٹا عکرمہ بھی لڑا مگر پھر خالد بن ولید کے مقابلے میں ساتھیوں سمیت بھاگا۔

پہاڑ وں کو میخیں قرار دیا تو سائنسی بنیاد زمین کو زلزلوں سے بچانے میں پہاڑ وں کا کردار کشتیوں کی تختوں کو کیلوں سے مضبوطی و مربوطی جیساہے۔

فرعون میخوں والے کاا قتدارپہاڑجیسا تھا۔ نبیۖ کے دور میں رومن امپائر پہاڑ کی طرح تھا، جب مدینہ پر 40 ہزار کا لشکر لیکر حملہ آور ہونا چاہا تو شام کے قریب غسانی عیسائی حکمران بھی اسکے زیر اثر تھا اور دیگر عرب قبائل نے بھی ساتھ دیا تھا مگر نبیۖ غزوہ تبوک میں30 ہزار کا لشکر لیکر گئے اور ایک مہینے وہاں پڑاؤ کیا تو رومیوں کی ہمت نہ ہوئی اورپہاڑ کی طرح لوگ کسک کر واپس چلے گئے۔

پھر کافروں کیلئے اللہ نے سزا کا ذکر کیا ہے۔

” بیشک جہنم گھات لگائے بیٹھی ہے۔سرکشوں کیلئے ٹھکانہ ہے۔وہ اس میں مدتوں پڑے رہیں گے۔ وہ نہ ٹھنڈ کا مزہ چکھیں گے اور نہ پینے کا۔ مگر گرمی اور پیپ۔پورا پورا بدلہ ۔بیشک یہ لوگ امید نہیں رکھتے تھے حساب کا۔اور ہماری آیتوں کو بہت جھٹلاتے تھے۔ اور ہم نے ہرچیز اعمالنامہ میں شمار کررکھا ہے۔پس تم چکھو ،سو ہم تمہارے لئے نہیں بڑھائیں گے مگر عذاب کو۔(النباء:21تا30)

حقب 80 سال، قبر کا عذاب مدتوں کاہے۔ آخرت کاعذاب الگ ہے۔فتح مکہ پر کافرکو پانی پیپ لگتا تھا اور عالم برزخ میں شہداء اور مؤمنوں کو رزق دیا جاتا ہے اور کافروں کوبھی رزق دیا جائیگا۔

تفسیر عزیزی میں عذاب قبر کے انکار کا مفتی اعظم مفتی ولی حسن سے پوچھا توکہا:تم پنج پیری ہو؟ میں نے کہا: حاجی عثمان کا مرید ۔ حاجی عثمان پر فتوی لگا تو مولانا شیرمحمدامیر JUI کراچی نے کہا کہ میرا استاذ لیکن اپنے دوست پر گدھے نے فتویٰ لگایا اور میرا کہا کہ ”پہاڑوں سے ٹکر لی ہے اسلئے کہ مدارس پہاڑہیں” ۔ مولانا یوسف لدھیانوی اہل خانہ کے ساتھ آتے اور مولانا سلیم اللہ خان نے مسجدالٰہیہ کی آمد سے عملی معذرت کا کھل کر اظہار کردیا تھا۔

آگے اللہ نے متقیوں کیلئے انعام کا ذکرکیا۔

” بیشک پرہیزگاروں کیلئے کامیابی ہے۔ باغات اور انگور ہیںاور خوشیں ہو نگے قد کی برابر۔ اور پیالے چھلکتے ہوئے۔ نہیں سنیں گے اس میں لغو بکواس اورنہ ہی جھٹلانے والے ۔بدلہ ہوگا تیرے رب کی طرف سے حساب کے مطابق نوازشات”۔

سورہ النباء میں آیت 31 سے 36 تک دنیا میں ملنے والی کامیابی اور انعامات کا ذکر ہے۔صحابہ کرام اور مسلمانوں نے کامیابی سمیٹ کر سب کچھ حاصل کرلیا۔ باغات اور انگور کے مالک بن گئے اور انگور کے خوشے پہنچ سے باہر نہیں تھے ۔ لومڑی کی پہنچ سے باہرتھے توکہا کہ انگور کٹھے ہیں۔ عربی میں ٹخنے، عورت کے سینوں کے اُبھار اور اُبھری ہوئی چیز کو ”کعب” کہتے ہیں۔ پھلوں اورانگور کا ذکر تھا تو خوشے کا قدکے برابر ہونا واضح کردیا۔ پھل اور انگور کے خوشے بھی ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

حور کا ذکر نہیں تو صفات کا بیان بغیر موصوف کے کیسے مراد لے سکتے ہیں؟۔دوسری سورتوں سے ایک ایک بات کی زبردست وضاحت بھی ہے لیکن ہمارے علماء ومفتیان قرآن پر تدبر نہیں کرتے ۔

اس کے بعد اللہ نے پھر فتح مکہ اور انقلاب عظیم کا ذکر بہت وضاحت کیساتھ کردیا ہے۔

” اس دن جبریل اور ملائکہ صفوں میں کھڑے ہوں گے ۔کوئی بات نہیں کرسکے گا مگر جس کو رحمن اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کرے گا۔ یہ دن حق ہے۔ پس جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنا ٹھکانہ بنالے۔بیشک ہم نے تمہیں ڈرایا قریب کے عذاب سے۔جس دن آدمی دیکھے گا جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا۔اور کافر کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا”۔(سورہ النباء: 38، 39، 40 )

جس طرح لیلة القدر میں جبریل اور فرشتے اترتے ہیں۔ اسی طرح فتح مکہ اور انقلاب عظیم کے وقت بھی فرشتے جبریل کیساتھ صفوں میں کھڑے ہوں گے۔ فتح مکہ کے وقت سردارانِ قریش بولنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے لیکن جس کیلئے اللہ اپنے خلفاء الارض صحابہ کرام کے دل میں ڈالتے تھے۔

قرآن سمجھ آیا تو دنیا جمہوری خلافت پر متفق ہوگی ۔مفتی منیر شاکر شہید کی آخری تقریرسن لیں۔

خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پا س تجھے ہے کہ نہیں
یہ شکایت نہیں ،ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بیچارے مسلمان کو فقط وعدہ حور

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ رحمن میں عظیم خوشخبری

رحمن سکھاتاہے!

الرحمٰنOعلّم القراٰن

”رحمان نے قرآن سکھایا”۔(الرحمن:1،2)

سوال : اللہ رحمن نے قرآن کیسے سکھادیا؟۔

جواب:

1: تلاوت میں ترتیل وتدبرمگرغلوسے بچنا۔ الرحمن

Oآیت بسملہ اور فاتحہ میں الرحمن ….. الرحیم اور ایک ایک لفظ کو وقف کیساتھ پڑھ سکتے ہیں۔

فی بحرٍلُّجِّیٍّ یَّغشٰہُ

قرأت معانی نہیں ترنم کیلئے مگر کتنی مشکل؟

آسان:

فی بحرٍ…لُجّیٍ…یغشٰہُ وقف سے پڑھنا۔

من یقول ائذن لی من۔۔یقول..اِئذن..لی

تبت..یدا…ابی لھب… و… تب

الرحمٰنOالگ تاکہ تلاوت اور معانی دونوں فطری وآسان۔مدارس اور سکول کالج کے طلبہ کیلئے نہ صرف قرآن آسان ہوگا بلکہ بہترین عربی سیکھ لیں گے۔ اللھم …صلِ… علی…محمد…بغیر تنوین وملاپ۔ زیدو عقیل وجعفر بغیرتنوین واؤ ملائے پڑھنا فطری سہل ہے۔ علی گڑھ ” محمڈن کالج” تنوین سے تھا۔ اللہ نے کئی سارے علوم سکھائے۔

2: محکم آیات واضح ہیں۔ عبداللہ بن عمر طلاق کو نہ سمجھ سکے تونبیۖ نے غضبناک ہوکر سمجھادیا۔

3: متشابہ آیات زمانہ کیساتھ پہاڑ جیسے جہاز، لھوالحدیث ،عربة گاڑی اور سائنسی علوم وغیرہ۔

4: برزخ ، قیامت، انقلابی الساعہ جیسے فتح مکہ اور انبیائ کے ادوارمیں انقلابات آئے۔ قرآن پھر انقلاب عظیم کی خبر دیتاہے۔ 1924 تک خلافت تھی۔ انقلاب دنیا کی قیامت۔

5: موبائل کا نیٹ بولتی کتاب اور اس سے زیادہ کتاب ینطق قرآن بولتا ذرہ ذرہ کی خبردیتا ہے۔

قال ۖ انہ لاتقوم الساعة حتی یکلم الرجل فخذہ بماصنعہ اہلہ وحتی تکلم الرجل عذبة سوطہ بماصنعہ اہلہ (ترمذی)
”بیشک قیامت نہیں آئے گی حتی کہ آدمی اپنی ران سے باتیں کرے گا۔جو اس کی اہل کیساتھ ہوا اور حتی کہ آدمی اپنے ہینٹر سے بات کرے گا جو اس کی اہل کیساتھ ہوا”۔ وائرلیس جدید سائنسی ترقی۔

عالمی کانفرنس میںانٹیلی جینس ٹیکنالوجی خطرہ سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق ہواہے۔
دنیا کو درپیش مسائل میں تباہ کن ہتھیار ہیں۔جو ایمن الظواہی کو کابل ، اسماعیل ہنیہ کو تہران اور حسن نصراللہ کو لبنان میں نشانہ بناسکتے ہیں۔ دنیا کو خوف ہے کہ ایٹمی اور جدید ہتھیار اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھ میں نہ لگ جائیں۔ اگر یقین ہو کہ مسلمان اس کے شر بچنے کا روحانی، قانونی، اخلاقی تدارک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو دنیاامام بنالے۔
دنیا کو درپیش مسائل میں ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی میں طوفانی ہواؤں، بارشوں، خشک سالیوں ، سخت گرمی اور سخت ٹھند کا سامنا کرناانتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سمیت پورے ملک کے گٹر اور حیات آباد پشاور کارخانو کا کیمیکل سمیت پورے ملک کی فیکٹریوں کا کیمیکل یا تو پینے کے صاف پانی دریاؤں میں جارہاہے یا پھر زیر زمین پانی کے ذخائر کو تباہ کررہاہے۔ ہندوستان اور چین کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ پروفیسر اورنگزیب حافی نے اس پر بڑا علمی کام کیا ہے جس کو ملک وقوم اور خطے کیلئے سب سے زیادہ تباکن قرار دیا ہے۔
کراچی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، لاہور، کوئٹہ اور تمام شہری زندگی آلودگی کا شکار نظر تی ہے۔ ایران کو اپنا دارالخلافہ تہران سے ایرانی بلوچستان مکران میں منتقل کرنا پڑرہاہے۔ جب زلزلہ آتا ہے توتباہی مچ جاتی ہے۔ قدرتی آفات اب اللہ کا عذاب نہیں۔ ہمارے اعمال کے نتائج ہیں۔ پہاڑ گنجے کردئیے۔ اسلام آباد میں25ہزار درختوں کی کٹائی کی شکایت وزیرداخلہ محسن نقوی سے کی گئی ہے۔

 

ولاتخسروا المیزان

اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمان اور دیگر سورتوں میں میزان کا ذکر کیا ہے۔ انسانی فطرت اور کائنات کی ہر چیز میں اعتدال اور توازن ہے۔ جس کو بگاڑنے سے روکا گیا ہے۔ انسان میں طاقت ہو تو پھر ہاتھ سے منکر کو بدل سکتا ہے اور اگر اتنی طاقت نہ ہو توپھر زبان کی طاقت سے منکر کو بدل سکتا ہے اور اگر اتنی طاقت بھی نہ ہو تو دل کی طاقت سے بدل سکتا ہے اور اس کے بغیر رائی کے دانہ کی طرح بھی کسی میں ایمان نہیں ہوسکتا ہے۔ ہاتھ کی طاقت سے کسی منکر کو بدلنے کی مثال طاقتور ترین حکمران طبقے کی ہے۔ زبان سے منکر کوبدلنے کی مثال ایک طاقتور اپوزیشن اور طاقتورصحافی حضرات وغیرہ ہیں۔ دل سے بدلنے کی مثال ایک بالکل ہی کمزور طبقہ ہے۔

حضرت داؤد کی99بیویاں تھیں اور اس کے مجاہد اوریا کی ایک بیوی تھی۔ انسان کمزورہے اور اس کا دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ داؤد کا دل جب مجاہد کی بیگم پر آگیا تو اس نے نیت کرلی کہ مجاہد سے کہنے کی دیرہے۔ فرشتے اچانک محراب میں داخل ہوگئے، حضرت داؤد پر گھبراہٹ طاری ہوئی، انہوں نے کہا فکر مت کرو مسئلہ پوچھنے آئے ہیں۔یہ میرا بھائی ہے اور باتوں میں مجھ پر بھاری ہے۔اسکے پاس99دنبیاں اور میرے پاس ایک دنبی ہے ۔ یہ ایک بھی مجھ سے چھین لینا چاہتا ہے۔ داؤد نے کہا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو بڑی زیادتی ہے اور اکثر شرکاء یہ کام کرتے ہیں مگر مؤمنوں میں سے کم لوگ۔ پھروہ سمجھ گئے اور اللہ سے اپنی مغفرت مانگ لی تو اللہ نے اس کو معاف کردیا۔(سورہ ص آیات20تا24تک )

جب حکمران کے پاس طاقت ہوتی ہے تو اس کو بسا اوقات اپنی غریب رعایا کے حقوق کا خیال تک نہیں آتا ہے اور سب کچھ چھین لینے سے بھی وہ بھرتا نہیں ہے۔ بیویاں تک بھی چھین لیتا ہے ۔اس طرح کے واقعات پاکستان میں بھی ہیں کہ ایک کی بیوی پسند آگئی تو اس کو سفیر بناکر دور بھیج دیا اور خود جہاز میں پھر اس کی بیوی سے رنگ رلیاں منا تا رہا اور پائلٹ کو اس کے نشہ میں ٹن ہونے کی وجہ سے جہاز فضا میں ہی کافی دیر تک رکھنا پڑا ۔ آج پاکستان کی عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر سچ تو سچ جھوٹ پھیلاکر بھی نفرت کا بازار گرم کیا جاتا ہے اسلئے کسی سے معمولی بھی زیادتی کے بجائے سب کا دل جیت لینا وقت کی ضرورت ہے ۔ جہاں بڑی مشکل ہو تو بجائے حکمران پر کھلی تنقید کرنے کے اس طرح اپنے اوپر بات رکھ بھی ظلم بدلنے کیلئے ایک زبردست کردار ادا ہوسکتا ہے۔ جہاں صحافی حامد میر کہے گا کہ شرٹ اتاری۔ پھر پینٹ اتاری اور آخر میں ایک نیکر رہ گئی تھی، جب اس کو اتارنے لگے تو میں نے کہا کہ سورس بتاتا ہوں ، یوں بچ گیا تھا۔

تحریک انصاف کے رہنما، کارکن، خواتین اور بزرگ بہت رونا روئیں گے۔ شہباز گل جلسہ عام میں جھوٹ یا سچ مگر کہے گا کہ ہمارے مخصوص اعضاء کی تصویریں زوم کرکے نکالی گئیں اور کیا میں اور اعظم سواتی اب شلوار پہن لیں؟ ۔ بلوچ ، سندھی ، پشتون ، مہاجر اور سرائیکی اپنا رونا روئیں گے۔

پھر ہتھیار اٹھانے والوں کو مذہبی اور قومی جذبہ کی بنیاد پر بہت لوگ مل سکیںگے۔ اگر کرایہ پر بھی کافی لوگوں کو بھرتی کریں تو جس طرح فوجی جوان ، کشتی میں مرنے اور کنٹینروںمیں گھٹنے والے اپنی مجبوری سے خطرات مول لیتے ہیں تو جہاں غریبوں کو کچھ ملتا ہو تو پھر بھرتی ہوجاتے ہیںاسلئے کہ پاک فوج کے جوانوں سے زیادہ وہ محفوظ ہوتے ہیں۔
بڑے لوگوں کو قتل وغارت کی قیمت کا پتہ اسلئے نہیں چلتا کہ ان کے اپنے بچے نہیں مرتے۔اپنے بچے مرتے تو پھر یہ جنگیں کب سے ختم کردیتے۔

 

یرسل علیکما شواظ من نارٍ ونحاس فلا تنصران

اللہ نے عالمی قوتوں کو ایٹمی جنگ سے ڈرایا کہ: ”تم پر ایک دوسرے پر برسنے والے بغیر دھویں کے آگ کے شعلے بھیجے جائیں گے اور دھواں ! پھر تمہاری دونوں کی مدد نہیں ہوگی۔(الرحمن:35)

ایٹم بم سے پہلے بغیر دھویں کی آگ پھر دھواں پھیل جاتاہے۔ قرآن ذرہ برابرظلم وجبر کا روادار نہیں۔ہر بے اعتدالی اور عدم توازن کو روکتا ہے۔
وکنتم علی شفا حفرةٍ من النار فانقذکم منھا ” اور تم آگ کے گڑھے کے کنارہ پرتھے تو اس نے تمہیں نکال دیا اس سے” (آل عمران:103) ہم سیاسی، معاشی، معاشرتی ، ریاستی، لسانی، مذہبی، بین الاقوامی اور علا قائی دہشتگردی کے شکار ہیں۔

رسول اللہ ۖ اورحضرت ابوبکر نے ضرورت سے زیادہ مال نہیں رکھا۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا خرچ کریںتو اللہ فرمایا” کہہ دو ضرورت سے زیادہ”۔ حکمرانوں کو چھوڑو، علماء نبیۖ اور خلفاء راشدین کے جانشین بھی غریب غرباء کی زکوٰة خیرات سے بڑی بڑی گاڑیوں اور جائیداد کے مالک بن گئے۔اشرافیہ پر ناجائز دولت اور طاقت کے حصول کا بھوت سوار ہو تو معاشرہ تباہ ہوجاتا ہے۔ پھر غریب انکے نقش قدم پر چلتا ہے ۔ مملکت خداداد پاکستان تو شروع دن سے اس راہ پر گامزن ہے اور معاملہ دہشتگردی تک پہنچ چکا ہے۔

علاج قرآن وسنت میں سود ، مزارعت کا خاتمہ ہے ۔ منصب کے بھوکے کو محروم کرنے کی احادیث ہیں۔اسی نے قوم کو تباہ کیا ہے۔
نبیۖ نے مزارعین کی دنیا جنت بنائی اور انکی دولت نے تاجروں کو بادشاہ بنادیا۔ شاہ عنایت کو سندھ میں ہزاروں ساتھیوں سمیت اسلئے شہیدکردیا گیا کہ یہ نعرہ لگایا تھاکہ” جو بوئے گا وہ کھائے گا”۔

مبارک علی نے کہا: ”یوپی کے ملازم اور سندھ کے جاگیردارطبقہ نے مفاد کیلئے پاکستان کو سپورٹ کیا تھاتاکہ اقتدارتک رسائی اور جاگیرمحفوظ ہو”۔

رسول اللہ ۖ نے سود کو ختم کرنے کا خطبہ حجة الوداع میں اعلان فرمایا۔ سب سے پہلے چچا عباس کاسود ختم کردیا۔ ایک عورت دونوں ہاتھ اور پیروں سے کھلی جگہ ناچ رہی تھی۔تماش بینوں میں نبیۖ شریک ہوگئے۔ عمر کی آمد پر عورت بھاگی تو نبیۖ نے فرمایا: شیطان عمر سے بھاگتا ہے۔(مشکوٰة)

منبر پرچندہ کیلئے اسلام کا حلیہ بگاڑنے والوں سے بہتر تومغرب کی سڑکوں پرڈانسر بھکارن ہیں۔

اگر سود ختم ہوا تو امریکہ، روس، چین، بھارت، جاپان سب اسی خاتون کی طرح رقص کریں گے۔ پھر ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے سبھی اپنی خدمات انجام دیں گے اور دو دوباغ والے گھر، سردی گرمی سے بچاؤ کیلئے عالم انسانیت دنیا کو جنت بنانے پر متفق ہوجائے گی۔
بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم اور ہر شعبہ زندگی کے ماہرین دنیا کی تباہی وبربادی نہیں فلاح وبہبود کیلئے اپنی اپنی صلاحیتوں کا استعمال بھی کریں گے اور دنیا و آخرت میں عزت پائیںگے۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہوگا۔ مرد سے زیادہ عورت کو تحفظ کیلئے قرآن نے حقوق دئیے ۔ مفتی طارق مسعود نے کہا ” بیوی کسی اور سے منہ کالا کرتی ہے اور پھر عدالت سے خلع لیتی ہے”۔کوئی اتنا بھی دلا ، بے غیرت ہوگا کہ بیوی کسی اور سے منہ کالا کرے یا اس کو یقین یا گمان ہو اور پھر بھی بیوی سے چمٹارہے؟۔ بیوی کو عدالت نہیں ویسے اسلام نے خلع کا حق دیا ہے۔
سورہ النسائ19تا21میں خلع وطلاق کا اختیار اورعورت کے حق کو مالی تحفظ دیا گیاہے ۔اسرائیل فلسطین کیساتھ وہ ظلم وجبر روانہیں رکھتا ہے جو عورت سے اسلام کے نام پر فقہاء نے جاری رکھاہواہے۔ قرآن چھوڑ کر علماء بھول بھلیوں میں پھنس گئے ۔

 

لمن خاف مقام ربہ جنتان

قدرتی نظام میں پانی کا60فیصد سمندر کو جانا چاہیے ۔ موسمیاتی تبدیلی کے شکار40ملین سال کی جگہ ہم2سوسال میں پہنچے۔ اثریٰ حق و احمد سعید کیساتھ آبی ماہر ڈاکٹر حسن عباس کو سن لیں۔ چین، بھارت، پاکستان اورافغانستان کو سونے سے زیادہ قیمتی دریائے سندھ اور اس کی شاخوں سے وسط ایشا تک کوجنت بنایا جاسکتاہے۔اگر پائپ سسٹم سے دریا سے پانی نکالا جائے توپانی کا40فیصد چین، بھارت، افغانستان اور پاکستان کے علاوہ دریائے سندھ سے وسطی ایشائی ممالک کی تمام ضروریات نہ صرف پوری ہوں گی بلکہ بڑے ڈیم کی تمناؤں کو بھی زبردست طریقے سے پورا کیا جاسکتاہے۔

اگر سورہ رحمن کے مطابق پائپ نظام سے دودو باغ دودو چشموں اور دو دوفواروں والے گھروں کو ڈیزائن کرکے آبادی کو منصوبہ بندی سے پھیلائیں اور ترتیب کیساتھ زرعی زمین، باغات اور جنگلات کے بعد انڈسٹریل زون ہوں تو بغیر موٹر کے پانی ٹینکوں میں چڑھایا جاسکتاہے۔
جدید تعمیراتی نظام سے سردی گرمی سے بچاؤ ، بجلی کا کم سے کم استعمال، ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان دنیا میں امام بن سکتاہے۔ ملازمین اور ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے دیانت اور قربانی کی بدولت اعلیٰ کوالٹی کے مستحق ہوں ۔ غریب ،باصلاحیت اور مخلص لوگ ریاست کیخلاف پھر ہتھیاررکھ دیںگے۔

مولانا فضل الرحمن نے افغانستان ، قبائلی علاقہ جات اور خیبرپختونخواہ میں دو قسم کی معدنیات کا ذکر قومی اسمبلی میں کیا۔ ایک پیٹرول، گیس، چاندی اور سونا وغیرہ۔ اور دوسری دھات جو خلائی شٹل میں بھی استعمال ہوتی ہے جو ساڑھے4سو کی ہیٹ پر تحلیل نہیں ہوتی اور اتنی ہی ٹھنڈ میں منجمد نہیں ہوتی۔ جس دن سب کو اچھے حال اور مستقبل کی نوید سنادی گئی تو ہتھیار سے لیس طبقہ بھی ہتھیار رکھ دے گا اور سرکاری ملازمین بھی دلجمعی کیساتھ کام کریں گے اور ہرشعبہ زندگی کے افراد کے مردہ جسم میں نئی روح آجائے گی۔مردہ زمین کی طرح شادابی آتی ہے۔

تسخیر کائنات کا داعی قرآن خلائی شٹل سے دنیا کو زمین اور آسمانوں کے کناروں سے نکلنے کا پیغام سلطان سے دے گیا۔ پاکستان میں کہیں تو ایک شہر کی زمین اسکوائر فٹ میں لاکھوں تو کہیں کوڑیوں کے بھاؤ ہے۔جب گھروں کو پھیلایا جائے تو پورا پاکستان سونے کی قیمت کا ہوگا۔ بحریہ ٹاؤن نہیں پورا پاکستان امریکہ سے زیادہ قیمتی بن جائے گا۔ ڈیفنس کراچی میں پانی ٹینکروں سے جاتا ہے لیکن جب ہر گھر کے دوباغ اور دو فوارے یا چشمے ہوں گے ۔تو ملیر اور لیاری کی ندیاں شفاف دریاؤں کی طرح بہہ رہے ہوں گے۔

جب پانی کا نظام صحیح ہوگا تو وافر مقدار میں بجلی بھی پیدا ہوگی اور ٹریفک کا سارا نظام پیٹرول کی جگہ الیکٹرک پر کردیا جائے تو فضائی آلودگی ختم ہوجائے گی۔ پھر قدرت کا پورا نظام دوبارہ لوٹ آئے گا۔

زمین پر فضا میں سات زون ہیں اللہ نے فرمایا: وجلعنا فوقکم سبعًا شداد”اور ہم نے تم پر سات سخت(زون) بنادئیے ہیں”۔(سورہ نبائ)

1: ٹروپو: زمین پر8سے15کلومیٹرتک ہے جہاں موسمی نظام بادل بارش طوفان ہوتا ہے۔

2: سڑیٹو: 15سے50کلومیٹر خطرناک سورج کی شعاعوں کو جذب کرتی ہے۔اس طرح مزید

ٹروپواورسٹریٹو پر اثرات:کاربن ڈائی اکسائیڈ، میتھین اور دیگرگرین ہاؤس گیسیزکی زیادتی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہاہے۔ کلوروفلورو کاربنز اور دیگر کیمیکلز کی وجہ سے جلد

کے کینسر اور آنکھوں کی بیماریاں بڑھ رہی ہے۔

 

و من دونھما جنتان

نبی ۖ نے خلافت کی پیشگوئی فرمائی جس پر آسمان اور زمین والے دونوں خوش ہوں گے۔
پاکستان کی سیاسی ، فوجی، مذہبی، قومی، لسانی اور تعلیمی لیڈر شپ کے علاوہ تمام ماہرین فن کو میدان میںلاکر تعمیر نو کا اعلان کریں۔ کسی ایک بندے کو اپنا خلیفہ مقرر کیا جائے۔ جس کو بھلے مغرب میں رکھیں تاکہ کسی کو خدشات اور خطرات لاحق نہیں ہوں۔

پھردنیا کے تمام مسلم ممالک اور غیرمسلموں کیلئے خلافت میں شمولیت کی اوپن ممبر شپ رکھی جائے۔ مسلم سالانہ2.50فیصد زکوٰة اور غیرمسلم اتناہی ٹیکس دیں۔ مزارعت میں سالانہ20اور10فیصد خمس وعشر وصول کیا جائے۔کراچی کے میمن نے کہا کہ ہم تربوز،کیلا، مالٹا اور سبزیاں خریدتے ہیں تو انکے چھلکے3سے10فیصد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ پھرسالانہ ڈھائی فیصد زکوٰة میں کیا مشکل ہے؟۔ امیروں سے غریبوں کے کھاتے میں جائے گاتو پھر غریب غریب بھی نہیں رہے گا ۔ دنیا میں زکوٰة لینے والا ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔

اگر خلافت راشدہ کے دورمیں مسلمانوں کے اندر فتنہ وفساد اور لڑائی جھگڑے نہ ہوتے ۔ خلافت مورثیت میں نہ بدلتی تو اسلام غلامی کو ختم کردیتا۔

جب سود کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تونبی کریم ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا۔ جس کی وجہ سے جاگیردار محنت کش بن گیا اور محنت کے ہاتھ میں دولت آگئی۔ غیر آباد زمینیں بھی آباد ہوگئی تھیں۔ جس نے نبیۖ سے زمین مانگ کر لی اور آباد نہیں کی تو حضرت عمر نے اس سے وہ زمین چھین لی۔ مفتی منیر شاکر کی ایک ویڈیو میں ہے کہ میراث کی آیات قرآن میں ہیں اور حضرت ابوبکر نے نبیۖ سے سنا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی تو قرآن کو چھوڑ کر نبیۖ کی خبر واحد پر عمل کیا تھا۔

حالانکہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ خبر واحد پر بھی قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا ہے اور ہونا یہ چاہیے کہ قرآن سے متصادم میں خبر متواتر کی بھی حیثیت نہیں ہو اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبیۖ قرآن کی مخالفت کریں؟۔ اس پر قرآن میں واضح وعیدیں ہیں۔

جب قرآن کو معیار بنایا جائے گا اور حدیث اس کی تائید وتشریح کیلئے ہو تب مسلمانوں میں تفریق و انتشار بھی ختم ہوگا اور قرآن پر عمل بھی ہوگا۔ اگر کوئی بڑی ڈاڑھی رکھ کر آنسو بہاتا ہو لیکن جھوٹ، تعصب اور بدکرداری میں غرق ہو تو وہ اللہ سے نہیں ڈرتا۔ حقوق العباد کا تحفظ کرنے والا اللہ سے ڈرتا ہے۔

جب اچھے کردار والے تمام لوگوں کو دنیا میں دو دوباغات کے گھروں کا مالک بنایا جائے گا تو پھر یہ ماحولیاتی آلودگی کو قابو کرنے میں زبردست معاون ثابت ہوگا۔ سورہ رحمان میں جن نعمتوں کا ذکر ہے ، سورہ واقعہ میں بھی اصحاب الیمین کیلئے بہت سی نعمتوں کا ذکر ہے جن میں قد کے برابر گاڑی ہیں۔

زمین پر سات زون کا ذکر قرآن میں بھی ہے ۔

3:میسو: یہ50سے85کلومیٹر کی بلندی پر ہوتی ہے۔اس میں درجہ حرارت بہت کم ہوتا ہے اور زیادہ تر شہاب ثاقب اسی میں جل جاتے ہیں۔

4:تھیریمو: 85 سے600کلومیٹر کی بلندی پر اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوسکتا ہے اسلئے کہ سورج کی شعاعیں براہ راست اس پر پڑتی ہیں۔ اس میں آئنو شامل ہوتی ہے جو ریڈیو ویوز کو

نعکس کرتی ہے۔

5: ایکسو: 600سے10,000کلومیٹر۔یہ آخری تہہ یہاں ہوا کے ذرات کم ہیں۔ جو خلا میں تحلیل ہوتی ہے۔ اضافی طور پر دواور زون شامل ۔

6: آئنو: 60سے1000کلومیٹر، برقی چارج ذرات ریڈیو سگنلز کی مدد گار۔

7: میگنیٹو یہ زمین کے مقناطیسی اثر کا علاقہ ہے۔جو زمین کو شمسی طوفافوں اور مہلک تابکاری سے بچاتاہے۔

 

یعرف المجرمون بسیما

”مجرم اپنے نشان سے پہچانے جائیں گے تو ان کو پکڑلیا جائے گا پیشانی کے بالوں اور قدموں سے”
پوری دنیا مجرموں کے مجرمانہ جرائم سے تنگ ہے لیکن عدالتی نظام مجرموں کو طاقت اور پیسوں کی بنیاد پر کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے سہولت کار بن چکا ہے۔ ایسے میں غریب طبقات کے مجرم بھی سہولت پالیتے ہیں۔ مجرم مجرم ہوتا ہے خواہ وہ کوئی طاقتور ہو، امیر ہو یا پھرغریب ۔مفتی منیر شاکر شہید کو آج بھی ایک مولوی اس بنیاد پر واجب القتل کہتا ہے اور اس کا قتل غیرت کا تقاضہ سمجھتا ہے کہ حضرت عائشہ کی6سالہ عمر میں نکاح اور9سال میں شادی کو کیوں نہیں مانتا؟۔ اگر انصاف کی عدالت قائم ہو تب بھی یہ پتہ نہیں چل سکے گا کہ دہشت گردی کے قتل میں اس کے خیالات اور جذبات مجرمانہ ہیں یا صداقت کا تقاضہ ؟۔لیکن کوئی نظام انصاف ہوتا تو پھر دلائل وبراہین سے گفتگو ہوتی اور جرم کو پکڑنے کیلئے جدید نظام کا سہارا لیا جاتا۔ قرآن نے دنیا کی زندگی میں بھی رو بہ عمل ہونا ہے۔

جب پوری دنیا میں بااثر اور چھپے ہوئے مجرموں کو بھی کٹہرے میں لایا جائیگا۔ کسی کو طاقتور ملک اور ریاستی ادارے کا تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ مذہب کے نام کوئی اپنی مجرمانہ سر گرمیوں کو معصومیت کے لہجے میں نہیں چھپا سکے گا۔ کونے کھانچے سے بھی مجرم کو نکالا جائے اور اس کو قرار واقعی سزا دی جائیگی اور کرپشن کا راستہ مکمل رک جائے گا۔ پھر ان کے ٹھکانے دنیا میں انڈیسریل زون میں ہوں گے۔

جب دنیا کی آبادی تین حصوں میں تقسیم ہوگی ۔ دوقسم ایک ایک گھر کے دودو باغ اور تیسری قسم کے لوگ انڈیسٹریل زون میں رہیں گے تو موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کے علاوہ جزا اور سزا کی زبردست تعبیر بھی سامنے آجائے گی۔

گاڑیوں سے دھویں کے اخراج اور فیکٹریوں سے نکلنے والے آلودہ ذرات سے اسموگ بنتی ہے۔ جو انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ جس کا حل یہ ہے کہ صاف توانائی (شمسی،ہوا اور ہاہیڈرو پاور) کا استعمال بڑھایا جائے۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں کے اخراج کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں۔اور درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ تعمیرات میں ایسی جدت لائی جائے جہاں سردی اور گرمی سے قدرتی طور پر زیادہ سے بچنے کا انتظام ہو۔کم آلودگی والی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔

الیکٹرک گاڑیوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور کم سے کم انرجی لینے والی گاڑیوں کا استعمال یقینی ہو۔

باغات اور جنگلات اور جنگلی حیات کا بہت بڑا ماحول بنایا جائے۔ اور ماہرین فن کے ذریعے نئی نئی تحقیقات اورایجادات سے فضائی آلودگی اور آنے والی نسلوں کو نت نئی بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے اور پانی کی مقدار، رفتار اور کوالٹی کو بھی یقینی بنانے میں ایک زبردست نظام تشکیل دیا جاسکتاہے۔

غسل خانوں اور گٹر لائن کو الگ کیا جائے تو پھر گٹر کو صاف کرنے والے کیڑوں کی بقاء سے گٹر کا پانی بھی خودکار انتظام سے صاف رہتا ہے۔ سبزی اور جنگلات کیلئے گھروں سے نکلنے والے پانی کا بھی زبردست انتظام ہوسکتا ہے۔ کانیگرم وزیرستان کی بڑی آبادی کا ایک قطرہ بھی آلودہ پانی نالے اور ندی میں نہیں جاتا تھا ۔پاکستان کو واقعی پاک بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر ہر چیز میں پاکیزگی لانی ہوگی۔

جب کھانے پینے اور ہگنے موتنے کا نظام ایک ہوجائے تو کہاں سے اچھی ذہنیت والے لوگ پیدا ہوں گے؟۔ جب اپنے محلات، بینک بیلنس، ھل من مزید کی حرص، بیرون ملک اثاثے کی دوڑاور زمینیں اور جائیدادیں بڑھانے کی حرص دل ودماغ پرسوار ہو تو قوم وملک کی ترقی کا خواب پورا نہ ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

درباری علماء کے سرکاری مدارس VS علماء حق کا مساجد میں درس

فقہ وفتاویٰ اور مدارس میںدرباری علماء کا کردار کچھ اور تھا

 

دنیا کامشہور مدرسہ ”جامعہ الازہرمصر”

اسماعیلی شیعہ فاطمی حکومت نے قائم کیا تھا ۔ پھر جب صلاح الدین ایوبی نے فاطمی حکومت کا خاتمہ کردیا تو جامعہ الازہر سنی مکتب کے زیر اثر آگیا۔1960تک خالص مذہبی مضامین مختلف فقہی مسالک اور عربی علوم کے فنون پڑھائے جاتے تھے لیکن1961میں اس کے اندر جدید تعلیم بھی شروع کی گئی۔

خطہ بہاولپورصدیوں تہذیب کا مرکز ،تاریخی قصبہ اُوچ دینی تعلیمی اداروں کا گہوارہ رہا ۔مشرق وسطیٰ ،سینٹرل ایشیاء سے آنے والے تشنگانِ علم کی آبیاری کرتا رہا۔ ریاست بہاولپور نے جامعہ پنجاب،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، ندوة العلماء اعظم گڑھ ، طیبہ کالج دہلوی ، اسلامیہ کالج پشاور،کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کی امداداور معاونت کی ۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی بنیاد1879میں مدرسہ دینیات کے طور پر رکھی گئی۔1925میں مدرسہ عباسیہ کی بنیاد رکھی گئی۔1963میںفیلڈ مار شل جنرل ایوب نے جامعہ کا دورہ کیا۔
نواب سر صادق عباسی30ستمبر1904کو بروز جمعہ پیدا ہوئے۔ 2سال کی عمر میں والد کیساتھ اکلوتے فرزند نے سفر حج کیا۔ والدکی وفات پر15مئی1907کو سرصادق کو حکمران بنانے کا اعلان کیا گیا مگر ریاست کے انتظام اور سرصادق کی تعلیم وتربیت کیلئے حکومت برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر سررحیم بخش کی سربراہی میں کونسل آف ریجنسی قائم کی۔ ابتدائی عربی، فارسی اور مذہبی تعلیم نامور علمی شخصیت علامہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی ۔3سال کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت نکھارنے کیلئے مذہبی ، تعلیمی ، فوجی اور انتظامی تربیت کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ صرف 7سال کی عمر میں اپنی فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہ برطانیہ جارج پنجم کے سامنے دہلی میںپیش ہوئے۔

 

حرمین شریفین حجاز اور برصغیرپاک وہند

فاطمی خلافت اسماعیلی شیعہ مگرشیعہ امامیہ عباسی خلافت کیساتھ ، مامون الرشید کے امام رضا جانشین تھے۔ خادم الحرمین شریفہ مکہ اسماعیلی تھا پھر خلافت عثمانی کے زیر تسلط آیا۔برصغیر کی مساجد میں کہیں عباسی ، کہیں فاطمی خلافت کا خطبہ تھا۔1906آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا صدر محمد شاہ آغا خان سوم اسماعیلی نذاری تھا۔
1908میں ندوة العلماء لکھنوکو نواب کی والدہ نے50ہزار روپیہ مالی امداد دی، علامہ شبلی نعمانی کے شکریہ کا خط محکمہ دستاویزات بہاولپور میں آج محفوظ ہے۔
کچھ تعلیمی و فلاحی اداروں کی نواب صادق نے مستقل سرپرستی و مالی معاونت کی۔ انجمن حمایت اسلام لاہور، علیگڑھ یونیورسٹی، ندوة العلماء لکھنو، دارالعلوم دیوبند،مظاہرالعلوم سہارنپور،جامعہ عثمانیہ حیدر آباد، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، گنگ ایڈورڈ کالج لاہوراور انجینئرنگ کالج لاہوران میںخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

 

1935 میں کوئٹہ زلزلہ زدگان کیلئے امدادی ٹرین روانہ کی ۔اسی سال حج کیلئے تقریباً100افراد اور سامان کیلئے فوجی گاڑیاں، کاریں بحری جہاز پرساتھ لے گئے جو سعودی حکومت کو بطور تحفہ دیں۔ مسجد نبویۖ میں قیمتی فانوس لگوائے۔ اسی سال جامع مسجد دہلی کے طرز پر ”جامع مسجدالصادق” کی ازسرنو تعمیر کی۔ جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ جمعہ المبارک کا سب سے بڑا اجتماع جامع مسجد الصادق میںمنعقد ہوتا اور بلاتخصیص مسلک سب لوگ اس میں نماز جمعہ کی ادائیگی کو ترجیح دیتے تھے۔ حضرت شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی تمام عمر جمعہ کی نماز جامع مسجد اور عیدین کی نمازمرکزی عیدگاہ میں (باوجودمسلکی فرق کے) آخری شاہی خطیب حضرت مولانا قاضی عظیم الدین علوی کی امامت میں ادا کرتے رہے۔ قائداعظم اورعلامہ اقبال نواب صادق کے قانونی مشیر تھے ۔
٭

 

مساجد میں درس و تدریس والے علماء حق کا کردار کچھ تھا!

 

امام مالک، جعفر صادق،ابوحنیفہ، شافعی
جن ائمہ کے نام سے مختلف ومتضاد فقہی مسالک منسوب ہیں یہ سبھی علماء حق درباری علماء نہیں تھے ۔ انہوں نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور ان میں قرآن واحادیث پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ انکے نام پر درباری علماء نے اپنی طرف سے فقہی مسالک بناکر امت مسلمہ کو قرآن سے دور کردیاہے۔
تیسری صدی ہجری تک کوئی تقلید نہ تھی۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید کے نام پر مستقل اور قرآن وسنت سے منحرف مسالک کی ترویج کی گئی لیکن علماء حق نے درس وتدریس اور قرآن وسنت کی تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھاہے۔

 

امام ابوحنیفہ نے عباسی خلیفہ کا دل اپنے باپ کی لونڈی پر آنے کے بعد نکاح کی اجازت نہیں دی تو قاضی ابویوسف نے معاوضہ لیکر جواز بخش دیا۔ پھر حرمت مصاہرت کے نام پر ایسے بکواس من گھڑت مسائل بنائے گئے جن سے ابوحنیفہ کو بدنام کرنا مقصد تھا۔ جس کی مثال یہ بن سکتی ہے کہ1990کی دہائی میں کچھ اخبارات میں ” خلائی مخلوق کی انسانوں سے ملاقات” کی خبریں چھپتی تھیں۔ مغرب کے اخبارات میں لکھا ہوتا تھا کہ یہ مزاحیہ دل لگی کی باتیں ہیں لیکن پاکستانی اخبارات خبریں بناکر چھاپتے تھے۔ اسی طرح مسائل امام ابوحنیفہ کی شخصیت کا مذاق اڑانے کیلئے گھڑے گئے لیکن کم عقل فقہاء نے سچ سمجھ لیا تھا۔

اورنگزیب عالمگیر نے ملا جیون جیسوں کو رکھا۔ فتاویٰ عالمگیریہ اور نورالانوار کو رائج کیا۔ جب اورنگزیب بادشاہ نے ایک عالم حق کو خطیررقم پیش کی تو اس نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں ۔ جب اصرار بڑھ گیا تو عالمِ ربانی نے کہا کہ مزارع طبقہ سے جو ٹیکس وصول کرتے ہو ،جتنا مجھے ہدیہ دینا چاہتے ہو اتنا کم کرلو۔ تاکہ وہ اپنی محنت کی کمائی سے اپنے بال بچوں کو درست طریقے سے پال سکیں۔

 

کانیگرم وزیرستان میں ہماری مسجد درس
کانیگرم میں ہماری مسجد کا نام درس پڑا۔ سید کبیر الاولیاء سے دادا سیدامیر شاہ امام وخطیب نے درس دیا۔پھر مولانا اشرف خان فاضل دارالعلوم دیوبند آگئے۔ جس کی دکان تھی اور درزی تھے اور مولانا الیاس کاندہلوی سے بھی ملاقات تھی۔ میرے والد پیر مقیم شاہ نے کہاکہ ”مولوی اشرف بہت اچھا آدمی ہے مگر ساری زندگی یہ کہا کہ نبی کریمۖ نے فرمایا …. مگر کیا فرمایا ؟ یہ کسی نے سنا اور نہ سیکھا ”۔

سیل استاذ برکی کانیگرم میں ناظرہ پڑھاتا تھا۔ اپنے لئے اپنی زبان میں اپنا درود شریف ایجاد کیا تھا ، بیٹے کا نام جاجت تھا۔بچے بلند بہ آوازبلند پڑھتے۔
جاجت پہ برکت ،خدایا استاذ کم ریری، تہ جنت الوئی نیامت ۔
جاجت پر برکت ہو ۔ یا خدا! میرے استاذ کو دیدے ۔جنت کی بڑی نعمت ۔

 

سیل استاذ برکی کی آنکھیںTTPامیر مفتی نور ولی محسود سے ملتی تھیں۔ درس نظامی کی لغو کفریات کو سمجھنے اور بیان کرنے سے علماء ومفتیان آج بھی قاصر ہیں۔ جب تک دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ مدارس چندے کھانے کا گڑھ نہیں بنے تو عوام کو علماء حق درس وتدریس کے ذریعے اسلام سے روشناس کراتے رہے۔ پھر سعودیہ و امریکہ نے کرایہ کے جہاد اور مدارس کو عروج بخشا تو علماء دمدار ستارے کی طرح ڈنک پھیلانے کی طرف آگئے ۔ خوارج کی ذہنیت نبیۖ کے دور میں تھی مگر خروج حضرت علی کے دور میں ہوا۔ ملاعمر کی حکومت قائم ہونے سے پہلے میری کتاب ”ضرب حق ” میں تبلیغی جماعت پر خوارج کی احادیث کو اسلئے فٹ کیا کہ ان کی ذہنیت خوارج کی تھی۔ دہشتگرد عوام کو مارہے تھے تومولانا طارق جمیل نے سلیم صافی سے کہا ” ہم اوروہ ،ہماری منزل ایک ہے، راستہ جدا ہے”۔ آج نظام الدین مرکز اور رائیونڈ مرکز ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔
٭

 

درباری علماء کا ہمیشہ سے طریقۂ واردات ایک رہاہے
حضرت سید عبدالقادر جیلانی پر فتویٰ لگایا کہ مسلک حنفی کو تبدیل کرکے حنبلی بن گیا۔ یہ جھوٹ بھی پھیلا دیا کہ فاطمی خلیفہ عبیداللہ مہدی نے ان کی لاش کو مسجد کے احاطہ سے نکال کر دریا میں بہادیا تھا۔ کراچی کے درباری علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا: ”جنرل ضیاء الحق کے ریفرینڈم کوووٹ دینا فرض ہے”۔ لیکن حاجی محمد عثمان نے فرمایا کہ ”فتویٰ پر مت جاؤ۔ اگر ضمیر نہیں مانتا توووٹ مت دو”۔مولانا فضل الرحمن پرMRDمیں شمولیت کی وجہ سے ”متفقہ فتویٰ” کے عنوان سے کفر کا فتویٰ لگایا۔مولانا علاء الدین کے فرزند مسعودالرؤف سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دارالاقامہ میں فتویٰ پر لڑائی ہوئی تھی۔جو میں نے اشعار لکھ کر دفن کردیا۔ جب مدارس کے اساتذہ اور طلبہ نے مولانا فضل الرحمن کا طویل دورے کے بعد اپنے قید علماء چھڑانے کیلئے ائیرپورٹ پر استقبال کیا تھا تو انصارالاسلام فورس کا وجود نہ تھا اور فورس کی ڈیوٹی اکیلے میرے سپرد تھی۔ حاجی عثمان پر فتویٰ لگا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ” یہ70کا فتویٰ لگتا ہے علماء ومفتیان نے پیسہ کھایا ہوگا”۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء نے فتوے میں شکست کھائی تو مولانا فضل الرحمن شرمندہ ہوکر گھر پر پہنچ گئے۔

 

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا ورنہ خود دار مسافر ہوں گزر جاؤں گا

 

درباری سے کاروباری تک مگر پھر درس کا اہتمام کرو!
مدینہ : شہر ۔ یثرب: مدینہ ۔ حاجی عثمان یثرب پلازہ کے باسی۔ کانیگرم شورہ: شہر ۔ کوفہ وبصرہ مکاتب فکر یونانی علم الکلام سے بن گئے تھے۔ اصحاب صفہ سے کانیگرم درس تک فرائض غسل، وضو ، نماز اور بسم اللہ پرکوئی اختلاف نہیں تھا نہ یہ کہ تحریری قرآن کلام اللہ نہیں؟۔ مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ نے مجھے کہا کہ ” باتیں بالکل درست لیکن اتنی خطرناک کہ اگر مقتدر ہ کو پتہ لگا تو غائب یا چھٹی کرادی جائے گی”۔ اسلامی نظر یاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور قبلہ ایاز بھی بات سمجھ گئے لیکن جرأت نہ کرسکے۔ تنظیم فکر شاہ ولی اللہ کے مولانا عبدالخالق اور مفتی عبدالقدیر کی جان نکل گئی۔ ڈاکٹر اسرار نے کہا تھاکہ ”امام ابوحنیفہ نے اہل بیت کی خاموش حمایت کی، خاموش حمایت کروں گا” ۔ مولانا فتح خان ٹانک اور علامہ شاہ تراب الحق قادری کراچی نے کہا تھا کہ” درس نظامی کی تعلیم غلط مگر جرأت نہیں”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے کئی ممالک کے سفر،قیام حرم اور طویل جلاوطنی کے بعد واپسی پر فرمایا کہ” درس نظامی کی جگہ شہروں میں غریب بچوں کو سکول کی تعلیم کیلئے رہائش، کھانا اور درس قرآن دو۔پھر یہی لوگ حکومت اور ریاست کا ڈھانچہ بن کر اسلام کو نافذ کریں گے”۔

حاجی عثمان نے ایمان کی تجدید کی ۔ علم نہیں بدلتا ہے ۔البتہ بگڑے ہوئے فہم کی تشکیل جدید ہوتی ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لا الٰہ اللہ

 

علماء نے لاؤڈ اسپیکر کے مسئلے پر خیانت سے کام لیا

دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ تھا کہ ”لاؤڈاسپیکر پر نماز، آذان اور اقامت نہیں ہوتی” پھر گاجروں کے لطیفے پر عمل کیا۔ کسی نے جنگل میں گاجر وں پر پیشاب کیا، بھوک لگی تو ایک طرف کے گاجر کھا گیا کہ اس پر پیشاب نہیں کیا۔ پھر بھوک لگی تو دوسری طرف اور آخر سب کھا گیا۔ لاؤڈاسپیکر دھیرے دھیرے جائز قرار دیا لیکن تبلیغی جماعت کو70سال تک پتہ نہ چلا۔ میں نے1991میں ”تصویر کے عدم جواز”پر لکھا کہ ”اگر علماء و مفتیان مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مودودی کھینچواتے ہیں تو ان کا فعل جواز نہیں نافرمانی ہے”۔ تصویر کی کھلے عام مخالفت سے مذہبی طبقے کا رُخ بدل گیا ۔ جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا کہ ”گروپ فوٹو نہیں کھینچوائیں گے”۔جب میرا دماغ کھلا تو ”جوہری دھماکہ” میں تصویر کے جواز پرلکھا۔پھر فضا ایسی بدل گئی کہ تبلیغی جماعت، علماء اور طالبان بدل گئے۔ اکابرکی بھی تصاویر منظر عام پر لائی گئیں۔ مفتی شفیع نے کہا تھا کہ ”مدارس بانجھ ہیں”۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسکے بانجھ پن کا علاج ہو مگر اتنے بے غیرت نہیں کہ اسلام کو بدلیں۔

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

اقبال سود کو جواز بخشنے پر مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا فضل الرحمن، جاوید غامدی، انجینئرمحمدعلی مرزا، شیعہ علماء اور ذاکر نائیک کو بے توفیق کی جگہ” زندیق” کہتا۔جیسے حضرت مولانا مدنی کو ابولہب قرار دیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حلالہ کے مر یض اورعلماء حق, نشاہ ثانیہ کی عظیم خوشخبری, نعمتیں ہی نعمتیں ملک کبیر

حلالہ کے مر یض اورعلماء حق

فرمایا:”اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی تمنا ڈال دی تو اللہ مٹاتا ہے جس کو شیطان نے ڈالا ہوتا ہے پھر اپنی آیات کو مستحکم کرتا ہے۔اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے”۔ (سورہ حج آیت52)
اس آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے : جب کوئی رسول اور نبی اللہ کی طرف سے طوق و سلاسل سے آزادی دلاتا ہے توکچھ عرصہ بعد نالائق اور نا خلف ان کی تمنا میں اورخوابوں میں شیطانی تمنا ڈال دیتے ہیں ۔ اسلام نے حلالہ کی لعنت کا طوق ختم کیا لیکن نالائق یہ طوق پھر لائے ۔ اسلئے اللہ ان شیطانی تمناؤں کو مٹاتا ہے اور اپنی آیات کو استحکام بخش دیتاہے۔

 

حلالہ شجرہ ملعونہ اور شیطان کی ڈالی ہوئی تمنا :
” تاکہ جو شیطان کا ڈالا ہوا ہے وہ آزمائش بن جائے ان لوگوں کیلئے جنکے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں۔ اور بیشک ظالم بڑی دور کی بدبختی میں پڑے ہیں”۔(سورةالحج:53)
دل کے مریض وہ لوگ ہیں جن کو حلالہ کی لعنت نے لت لگائی ہے تو ان کو کوڑوں کے زور پر سیدھا کرنا ممکن ہے۔ سخت دل وہ لوگ ہیں جنکے مذہبی طبقات سے ایسے مفادات وابستہ ہیں کہ اللہ کے دین اور لوگوں کی عزت وناموس کو بچانے کیلئے وہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں بدبخت معذور ہیں۔
حلالہ کی لعنت کے مخالفین علماء حق کیلئے خوشخبری:
” اور تاکہ جان لیںجن لوگوں کو علم دیا گیا ہے کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے۔ پس اس پر ایمان لائیں ، پس اس کیلئے انکے دل جھک جائیں اور بیشک اللہ ایمان والوں کی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے ”۔ (سورہ الحج آیت:54)

آج دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ کی اچھی خاصی تعداد نے مسلکوں کی زنجیریں توڑ کر اور اپنا بوجھ اتار کر قرآن کی رہبری قبول کی ہے چنانچہ شیعہ پر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق اور گواہوں کے باوجود بھی ایسا وقت آتا ہے کہ ان کا فقہ اجازت نہیں دیتا لیکن قرآن کے مطابق رجوع کرلیتے ہیں۔ دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث کی بڑی تعداد بھی شیطانی تمناؤں کو خاک میں ملاکر حق اور قرآن کی تائید کررہے ہیں۔ اگر پاکستان میں بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے عمل کیا جائے تو پھر شیطان کی زنجیروں اور طوقوں سے امت کو چھٹکارا مل جائے گا۔

نشاہ ثانیہ کی عظیم خوشخبری:

” اور جنہوں نے انکار کیا وہ اس سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک وقت (انقلاب اصلاح مہدی ) آئے گا یا پھر ان پر بانجھ پن کا عذاب آئے گا( صاحبزادگان کی مفت خوری کا خاتمہ ہو گا)۔ اس دن ملک صرف اللہ کیلئے ہوگا انکے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پس جو ایمان اور عمل صالح والے ہیں نعمتوں والے باغات میں ہونگے اور جنہوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیات کو تو ان کیلئے ذلت کا عذاب ہے۔اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر وہ قتل کئے گئے یا فوت ہوگئے ہم ان کو ضرور اچھا رزق دیں گے اور بیشک اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ ہم ضرور ان کو وہاں داخل کریں گے جہاں پسند کرتے ہیں اور بیشک اللہ جاننے والا بردبار ہے۔ بات یہ ہے کہ جس نے اس قدر بدلہ لیا جس قدر اس کو تکلیف دی گئی تھی پھر اس پر اگر حملہ کیا گیا تو ہم ضروراس کی مدد کریں گے۔ بیشک اللہ معاف کرنے والا مغفرت والا ہے ۔ یہ اسلئے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور بیشک اللہ سننے جاننے والا ہے ۔ یہ اسلئے کہ اللہ حق ہے اور اس کے علاوہ جس کو پکارا جائے وہ باطل ہے۔ اور بیشک اللہ بلند بڑا ہے۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے تو زمین اس سے سرسبز و شاداب بن جاتی ہے۔ بیشک اللہ بہت باریک بین خبر رکھنے والا ہے”۔(سورہ الحج آیت55تا63)
ان آیات میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے انقلاب کی خبر ہے۔ جب طالبان کو غلط فہمیوں کا شکار کرکے ہم پر حملہ کروایا گیا تو محرکات بیان کرنے پر مجھے کرایہ کے قاتلوں سے قتل کرنے کا پلان بنایا گیا۔ طالبان نے معافی مانگ لی تھی لیکن جن رشتہ داروں نے ان کو غلط فہمی میں ڈال کر استعمال کیا تھا تو اس کے حقائق ضرور سامنے آئیں گے۔ انشاء اللہ

 

نعمتیں ہی نعمتیں ملک کبیر

گیس آخرت کی جنت میں نہیں ہوگی ۔دنیا میں بادی کیلئے ادرک زنجبیل کی ضرورت ہوگی۔ خلافت قائم ہوگی تو ملک کبیر ہوگا جو قرآن میں واضح ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ ” پس اس دن کی مصیبت سے اللہ ان کو بچائے گا۔ایسی حالت میں کہ ان پر تازگی اور خوشی ہوگی اور ان کو صبر کے بدلے باغ اور ریشم دیئے جائیں گے۔ وہ تختوں پر بیٹھے ہوں گے ۔وہ سورج ( گرمی) اور سردی کو نہیں دیکھیں گے۔ ان پر اسکے سائے جھکے ہوں گے اور پھل کے خوشے لٹکے ہوں گے اور ان پر چاندی کے برتن اور خاص پیالے گردش کریں گے۔ اور وہ ایسے پیالے پئیں گے جن کا مزاج ادرک کا ہوگا۔ ایسا چشمہ جس کا نام سلسبیل رکھا جائے گا۔ اور ان پر24گھنٹے لڑکے گھومتے ہوں گے جب آپ ان کو دیکھو تو گمان کرو کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں اور جب آپ دیکھو اور پھر دیکھو تو نعمتیں ہی نعمتیں اور بڑا ملک ہوگا۔ ان پر سبز موٹے اور باریک ریشم کے لباس ہونگے اور چاندی کی گھڑیاں پہنائی جائیں گی اور انہیں اللہ پاک پانی پلائیگا۔ بیشک یہ تمہارے لئے بدلہ ہے اور تمہاری کوشش مقبول ہوئی۔ (الدھر11سے22)
طلبہ چند گھنٹے اخراجات کیلئے کام کرتے ہیں ۔24گھنٹے نوکری جاری رہتی ہے۔ جیسے یورپ میں پاکستانی ، افغانی ،ایرانی اور ہندوستانی لڑکے ویٹر کا کام ہوٹلوں پر کرتے ہیں۔ یہی مناظرہوں گے۔

 

الحدید کی” بھرپور دعوت”

فرمایا: ”کیا ان لوگوں پر جو ایمان لائے ابھی وقت نہیں آیا کہ انکے دل اللہ کے ذکر کیلئے خشیت اختیار کرلیں اور جو اللہ نے حق میں سے نازل کیا ؟ اور ان لوگوں کی طرح نہ بن جائیں جن کو کتاب دی گئی اس سے قبل۔پھر ان پر لمبی عمر گزر گئی اور انکے دل سخت ہوگئے اور ان میں اکثر فاسق ہیں ۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد بیشک ہم نے تمہارے لئے آیات کو واضح کیا ہوسکتا ہے کہ تم سمجھ سکو”۔(سورة الحدید:16)
سورہ حدید میں امت کیلئے رحمت کے دو حصوں کا ذکر ہے۔ سوسال ہوئے کہ خلافت ختم ہوگئی اور اب دوبارہ قائم ہوگی تو یہ دوسرا حصہ ہے۔ اللہ نے اہل کتاب کے عروج کے بعد امت کو عروج دینے کی سورہ حدید کے آخر میں وضاحت کی ہے۔ شروع میں فتح مکہ سے پہلے و بعد والے مسلمانوں کیلئے درجات میں تفاوت اور سب کو خوشخبری ہے۔ پھر مؤمنوں اور منافقین کے درمیان آخر میں فرق کا ذکر ہے جہاں دونوں میں دیوار حائل ہوگی اور اس کا گیٹ بھی ہوگا۔ اندر سے رحمت باہر سے عذاب، جیساکہ ملیر کینٹ اور باہر کے ماحول میں واضح فرق ہے۔جنوبی افریقہ میں کالے اور گوروں کی آبادیاں الگ الگ ہیں۔ مجرموںکو کرتوت پرہی سزاہوگی۔

 

حاجی عثمان نے فرمایا:
الھم صل علی سیدنا و شفیعنا و حبیبنا و مولانا محمد و علیٰ آلہ و اصحابہ… اقیموا الصلاة و اٰتوالزکوٰة صدق اللہ العظیم دوستو بزرگو! اللہ کے امر کی عظمت اور بڑائی اگر دل میں نہ سمائی ہوئی ہو تو اس کا عمل اکثریت میں وجود میں نہیں آتا اور اسکے فوائد اور حقیقت بھی نہیں کھلتی۔ مثال نہ دی جائے مگر جیسے تخلیق ہے کہ سر اٹھائیں تو آسمان ہے لیکن اس کی وسعت اللہ کی تخلیق کا کمال دل میں سمویا ہوا نہیں ہے اسلئے انسان اس کو سرسری سمجھتا ہے شاید کوئی اہمیت دے کہ بڑی تخلیق ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کا امر نماز جو عام زبان پر ہے نماز اور اس کی حیثیت اور عظمت کا امت میں یہ گرا ہوا مقام ہے کہ علماء کے سروے میں96فیصد مسلمان نماز نہیں پڑھتے اور یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس امر کی کوئی حقیقت، راز اور انقلاب نہیں۔ برعکس اسکے جس چیز کی اہمیت بیٹھی ہوئی ہے جیسے مال ہے تو تقریبا سو فیصد تو نہ کہا جائے اسلئے کہ اہل اللہ بھی ہیں لیکن اکثریت کے دلوں میں اس کی اہمیت ہے اور اس سے کام بنتے نظر آتے ہیں اسلئے ایک روپے کا نوٹ پھٹنا پسند نہیں کرتا یہ واضح دلیل ہے کہ امت اصلاح سے بہت دور ہے۔ حالانکہ اگر غور کریں اور اس کو روزمرہ کے اعتبار سے حیثیت نہ دیں ۔ اللہ کا جو امر اس کی ذات سے نکلے وہ اتنا اونچا ہے جتناکہ اللہ کی شان ۔ مثال نہ دی جائے سورج کی شعائیں ہیں انسان کو اس کا تجربہ ہے کہ کتنی تیز ہوتی ہیں۔ اگر یہ قریب آ جائے تو پورے عالم کو جلا کر خاک کر دے اسکے درمیان میں بڑے بڑے اللہ نے پانی کے ذخیرے بنائے۔ چھن کر یہ شعاعیں آتی ہیں یہ سائنسدانوں کی نہیں اہل اللہ کی تحقیق ہے ۔ وہ قریب آجائے تو جلا کے رکھ دے۔ حالانکہ یہ امر اللہ کا نہیں بلکہ حکم کی تخلیق اور مخلوق ہے۔ اس کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ جس میں اللہ کی تعریف ہے یہ خود بنایا ہوا نہیں اللہ نے بنایا لیکن ہر شخص تسلیم کرتا ہے اسکے نکلنے کے ساتھ زندگی کے حالات میں بڑا فرق آجاتا ہے گرمی ہونے لگتی ہے گیلے کپڑے سوکھتے ہیں کھیتیوں کو اللہ چاہے تو نفع پہنچاتا ہے ۔ اس کی تخلیق کے فوائد جو اللہ نے مرتب کی ہے اس کا ہر ایک قائل ہے۔ لیکن اللہ کا امر کتنا انقلاب رکھتا ہے ۔اس کا ثبوت مسلم عمل سے اپنا کرنہیں دیتا۔ زبان سے کہتا ہے کہ ٹھیک ہے لیکن عمل سے ثابت کرتا ہے کہ کتنا بے حیثیت ہے؟۔ خدا کی قسم انسان کی زندگی میں انقلاب لانے کیلئے تمام برائیوں سے بچنے ،ناشائستہ فحش باتوں سے بچنے کیلئے تمام خیریں سمیٹنے کیلئے حضور کی شفاعت کو پانے، انوارات کو لینے ،قلب کو اجاگر کرنے، روح کو ترقی دینے ، نفس کی اصلاح کیلئے یعنی آپ جتنے اخروی اور دنیاوی نفع گنوا سکیں اس سے بالاتر اللہ نے نماز میں رکھا ہے۔ مسلم اول تو نماز نہیں پڑھتا اور جب پڑھتا ہے تو اس کو مرتب صحیح نہیں کرتا اسلئے اسکے سامنے اللہ کے وعدے نہیں آتے تو یہ بھی اس کی اہمیت کو توڑ دیتا ہے۔ اس کی اہمیت کو کسی درجے یہ بھی کھو لیتا ہے اور یہ اس نماز پہ آ جاتا ہے جو رسمی ہوتی ہے۔ امت کی اکثریت میں یہ بات گھر کر گئی اسلئے آپ کسی بزرگ کے پاس جائیے اور آپ کو کہے کہ نوافل پڑھو تو آپ کو یوں ہوگا کہ میاں کوئی خصوصی ذکر دو کوئی خاص بات بتائیے۔ جی ہاں حالانکہ اللہ رب العزت کی عادت شریفہ ہے اور عطا کا مقام ہے کہ خاص چیز اللہ چھپاتے نہیں بلکہ جو نکمی چیز ہے اس کو چھپاتے ہیں دنیا میں نکمی چیز اگر ایک اعتبار سے کیمیا ہے اور اللہ کے ہاں کیمیا کی کوئی قیمت نہیں۔ سونا اللہ کے نزدیک گھٹیا ہے اسلئے اس کو زمین میں چھپا دیا۔ معدنیات اللہ کے نزدیک سب گھٹیا ہے زمین میں چھپا دیا اور اگر یہ عمر بھر نہ نکالے تو اسکے بغیر انسان چل سکتا ہے سونے کے بغیر زندگی دوبھر نہ ہوگی چلے گی یہ پکی بات لیکن مادے کی لائن میں جو اہم چیزیں ہیں اللہ نے عام کر رکھاہے جیسے ہوا کو اس انداز سے بنایا کہ کسی کے ہاتھ نہ پڑے کہ کوئی ذخیرہ کر لے۔ اسلئے کہ مادے کی لائن میں اس کی عطا بڑی اہم ہے اور اس کو اللہ نے قطعاً فری رکھ دیا۔ پانی ، مٹی، آگ کو درجہ بدرجہ اللہ نے انسان کے مفاد کیلئے فری رکھ دیا۔ اللہ رب العزت جو سب سے بڑھ کر نفع بخش ہے وہ چیز عام کرتاہے موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے درخواست کی تھی اے اللہ تو مجھے ایسا ورد دے جو تیرے پاس خاص ہو اللہ رب العزت نے فرمایا اے میرے کلیم لا الہ الا اللہ پڑھو…….

مجھ سے رہا نہ گیا یہی میری مصیبت ہے ۔ حق تکلیفوں کو دعوت دیتا ہے جس نے حق کی بات کی وہ پس گیا تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں سب سے زیادہ انبیاء پس جاتے اسلئے حق سناتے ہیں یہ کسی کی رعایت نہیں کرتے۔… اماں جان نے کہا کہ صحابہ کرام کی گھوڑے پہ نماز کیسی ہو گئی؟۔ میں نے کہا گھوڑے کے سم زمین پہ لگے ۔ ہوائی جہاز کے پہئے نہیں لگتے ، زمین پہ لگنا شرط ہے اگر اہتمام صلاة کے اعتبار سے نماز پڑھ لو لیکن دوہرانا ضروری ہے۔ مولانا محمد شفیع نے فرمایا کہ ہوائی جہاز میں نماز پڑھ لو پھر دہرا لو تو ہم بیٹھے تھے تو مولانا بنوری نے کہا کہ میاں دوہرانی ہے توخواہ مخواہ ڈبل تکلیف کیوں اٹھائیں؟۔ بڑوں کی تکرار ہوتی ہے۔ ماشااللہ

 

تبصرہ : سیدعتیق گیلانی
منہاج الشریعة سراج الطریقة، معراج الامة اور مجدد دین وملت حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ اللہ والے میرے پیر ومرشد اور روحانی مربی تھے۔
اہتمام نماز پر کانٹ چھانٹ کر ان کی تقریر سے کچھ مواد پیش کردیا۔ قارئین یوٹیوب پر سن سکتے ہیں جس سے زندگیوں میں ایک انقلاب آئے گا۔
حاجی عثمان کے مرید قاری جنیدالرحمن بڑے عالم خانقاہ میں فقہی مسائل کا حلقہ لگاتے تھے۔ اگر نماز کیلئے زمین کیساتھ لگنا شرط تھا اور علامہ بنوری بے خبرتھے؟۔ باجماعت نماز کیلئے ایک مکان کا ہونا شرط ہے۔ دو صفوں سے زیادہ فاصلہ نہیں ہو ۔خانقاہ چشتیہ مسجدالٰہیہ میں خواتین کا فاصلہ زیادہ تھا تو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فتویٰ لایاپھر فاصلہ ختم کیا مگر خانہ کعبہ جانا ہواتو وہاں کافی فاصلہ ہوتا تھا۔ گومل شہر مولانا تاج محمد کو جمعہ کے دن لکھ دیا تواس نے اپنے مقتدی بلالئے تھے۔ اگر جہاز میں نماز قضا ہو تو کیا نماز قضا کرنے کی قیمت پر جہاز کا سفر جائز ہوگا؟۔ پھر اس کی وعید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا؟۔

کیا دلیل کہ زمین پر لگنا شرط ہے؟۔ عرش تک کعبہ ہے!۔ریح خارج کرکے نماز کی تکمیل غلط تھی۔
تصویر، حلالہ اور بیوی کو حرام کہنے وغیرہ پر لاکھوں طوق وسلاسل نے فقہاء نے بنائے ہیں۔ قل من حرم زینت اللہ اخرج لعبادہ والطیبٰت من الرزق (سورہ الاعراف32)
جیسا کہ کمپنی موبائل کے بٹن میں ذرا تغیر بھی توازن کو بگاڑ دے۔ چہرے کا حسن اگلے دو دانتوں میں اس وقت ہے کہ جب قدرتی شاہکار ہوں۔ دانتوں کے مصنوعی فاصلہ سے حدیث میں اسلئے منع کہ قدرتی حلیہ بگڑتا تھا۔ مفتی شفیع عورتوں کو بخاری کا حوالہ دیکر منع کرتا تھا مگر مفتی تقی عثمانی نے اپنے دو دانت اڑادئیے ،جو بدصورت تھے مگر بدصورتی بڑھ گئی۔ بڑے بڑوں نے بڑوں پر اعتماد کرکے اسلام کا بیڑہ غرق کردزیا اور بڑ اریورس گیر لگانا پڑے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ فروری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

” اس دن کسی انس و جن سے اسکے گناہ کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا۔ پھر تم اپنے رب……۔ مجرم اپنے نشان سے پہچانے جائیں گے۔….پس ان کو پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ ا جائیگا۔….یہ ہے وہ جہنم جس سے مجرم لوگ جھٹلاتے تھے۔ وہ چکر لگائیں گے اسکے اور گرمی کے درمیان اس وقت”۔الرحمن39تا44

سورہ رحمن میں مجرموں کو پیشانی اور پاؤں کے ذریعے پکڑنے کا ذکر ہے اور سورہ االاعرف میں ریاستی رجال ”عراف” کے کردار کا بھی واضح ذکر ہے۔

پاکستان قیام کے25سال بعد ٹوٹا تو فوج، سیاستدان اور لسانی تعصبات کو ذمہ دار سمجھاگیامگر اس سے بڑا واقعہ25سال بعد ریاست مدینہ میں پیش آیا ۔ خلیفہ سوم عثمان40دن محاصرے میں رہے اور گھر سے مسجد تک بھی نہیں جاسکے۔ پھرمسند پرشہید کیا گیا۔ وجوہات تاریخ میں ہیں لیکن اصل بات کی طرف دھیان نہیں گیا۔ حضرت عمر نے مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف تین گواہوں کو کوڑے لگائے اور پھر پیشکش کی کہ اگر کہہ دو کہ جھوٹ بولا تھا تو آئندہ تمہاری گواہی قبول ہوگی۔ واحدگواہ صحابی ابوبکرہ نے پیشکش کو مسترد کیا اور دوسرے دو غیر صحابی گواہوں نے یہ پیشکش قبول کی۔ امام ابوحنیفہ نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآن کے خلاف قرار دیکر مستردکیا اور باقی تینوں مسالک مالکی، شافعی اور حنبلی نے مسلک بنالیا۔ امام ابوحنیفہ بلاوجہ جیل میں شہید نہ کئے گئے لیکن کہانیوں میں حقیقت گم ہوگئی۔

حضرت عمر نے معاملہ کی سنگینی کو بھانپ لیا اورعدالتی نظام کو الگ کردیا۔ ایک پروفیشنل اور ذہین جج قاضی شریح کو عدالتی امور سپرد کردیں۔ حضرت عمر کے دور میں قاضی شریح سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی۔ حضرت عثمان حیادار انسان تھے مگر فاروق اعظم کی طرح فتنوں کیلئے بند دروازہ نہیں تھے۔ قاضی شریح نے بڑے باریک طریقے سے ایسی ناانصافی شروع کردی کہ قانون کے اندر ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانا شروع کردیا۔ جس پر کوئی احتجاج بھی نہیں کرسکتا تھا۔ جس کا یہ بھانک نتیجہ نکل آیا کہ حضرت عثمان خلیفہ وقت کے خلاف بغاوت ہوگئی۔

حضرت عثمان کی شہادت سے جو فضا بنی تو آج تک امت کے معاملات اپنی جگہ پر نہ آسکے۔ یزید کو حسین کے خلاف فتویٰ درکار تھا تو قاضی شریح نے پہلے منع کیا پھر رشوت سے فتویٰ دیا۔ یزید کی فوج نے بھی طمع ولالچ رکھی ہوگی لیکن اصل کردار قاضی شریح کا تھا۔ اگر کسی کو اس سے تکلیف ہے تو چاہیے کہ وہ جمعہ کے خطبہ میں ارحم امتی بامتی ابوبکرو اشدھم فی امر اللہ عمر واصدقھم حیائً عثمان واقضاھم علی میں اقضاھم علی کی جگہ اقضاھم واکبرھم قاضی شریح ”امت میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا قاضی شریح تھا”۔ تاکہ اہل بیت سے نفرت رکھنے والوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے۔چیف جسٹس امام ابویوسف سے جسٹس مفتی تقی عثمانی تک سب نے اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے۔
قاضی شریح چیف جسٹس نے عدالتی نظام کا ستیاناس کردیا تھا ۔قرآن کو نہ صرف ذبح کردیا بلکہ قصائی کی طرح اس کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ امت نے چھوڑ دیا۔ سورہ تحریم کی واضح آیت کو چھوڑ کر بیوی کو حرام کہہ دیا تو اس پر20اجتہادی مسالک بن گئے۔ اگر قرآن کو دودھ دینے والی بھینس فرض کرلیا جائے تو کیا قصائی کے ٹکڑے کرنے کے بعد بھی اس سے دودھ نکالا جاسکے گا؟۔

ہمارے قابل استاذلورالائی کے مفتی عبدالمنان ناصرمدظلہ العالی نے بتایا تھا کہ عورتیں بغیر محرم حج کیلئے جاتی تھیں تو ان کا مرغ سے نکاح کردیا جاتا تھالیکن فتاویٰ عالمگیریہ میں بادشاہ پرچوری، قتل، ڈکیتی اور زنا کی حدیں جاری نہیں ہوتی ہیں اور مفتی تقی عثمانی نے جو سود کی حرمت ختم کردی ہے ۔دارالعلوم کراچی شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین پر70سے زیادہ گناہوں کی حدیث سناتا تھا جس میں کم ازکم اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے سود پر سگی ماں سے خانہ کعبہ میں36مرتبہ زنا کا بتایا۔
قرآن وحدیث میں واشگاف الفاظ میں واضح ہے کہ ” طلاق عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ کا فعل ہے”۔ ایسا نہیںہوسکتا کہ طلاق مکمل ہو اور عدت باقی رہے اور نہ ایسا ہوسکتا ہے کہ عدت مکمل ہو اور دوطلاقیں جیب میں رہ جائیں۔ جتنی احادیث ہیں وہ سب صحیح ہیں اور ان میں تطبیق موجود ہے لیکن مولوی حلالہ کی لعنت کو ختم اسلئے نہیں کرتا ہے کہ اس میں غیرت، عزت، فطرت، انسانیت، اخلاق اور کردار سب ختم ہوچکا ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی علی صاحبہا الصلوةوالسلام کے آئینہ میں” علماء ومفتیان اپنا چہرہ دیکھ

چکے تھے اسلئے مقبول کتاب مارکیٹ سے غائب کردی گئی۔
قرآن وحدیث میں داؤد اور سلیمان کے واقعات ثبوت ہیں کہ جج کا کام ایسا اجتہاد ہے کہ انصاف کی روح معاشرے میں زندہ ہو ۔ فصل اور جانور کی قیمت برابر تھی لیکن داؤد کے فیصلے کو سلیمان نے اس انصاف پر نہیں چھوڑا اسلئے کہ ایک قوم کا معاش ختم ہوجاتا تو یہ انصاف کے خلاف تھا اور وہ چوراور ڈکیٹ بن جاتی۔ ایک قوم کو محنت پر لگادیا کہ فصل اپنی جگہ تک پہنچاؤ اور دوسری کو جانور سپرد کردئیے کہ اسکے دودھ، اون، کھاد سے جب تک فائدہ اٹھاؤ۔ دونوں کو پورا انصاف ملا ،مجرم کو سزا ہوئی اور مظلوم کو ریلیف ملا۔ پھر اپنی اپنی جگہ پر بھی آگئے۔ جو عورت بچے کی ماں تھی تو اس کو انصاف بھی اس طرح دیا کہ دونوں کی حقیقت بھی سامنے آگئی۔ قاضی شریح نے عدل کی بنیاد غلط رکھی۔ اسلئے مسلم اقتدار دنیا کیلئے قابل تقلید نہیں ہے۔ اگر اسلامی نظام کا ٹھیک خاکہ ہوتا تو اسلامی ممالک میں وہی نافذ ہوتا لیکن مولوی محکمات کی آیات کونہیں سمجھتا تو اجتہادی مسائل کا کیا بنے گا؟۔پہلے علماء میں صلاحیت نہیں تھی مگر اب نیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔

قاضی شریح فقہ کا ماسٹر مائنڈ تھا۔کونسا فقہ ؟ جو یہود کی میراث تھا۔ سورہ تحریم میں بیوی کو حرام کہنے کا مسئلہ حل ہے لیکن بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر حضرت عمر سے ایک طلاق رجعی کا قول منسوب ہوا، حضرت علی سے تین طلاق کا۔ حضرت عثمان سے ظہار کا۔ بخاری کی روایات میں تضادات ہیں اور چار ائمہ کا لفظ حرام پر اختلاف ہے ۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے”زاد المعاد” میں اس پر20اجتہادی مسالک نقل کئے۔ قرآن کو سازشی فقہ نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ جوقرآن میں واضح ہے اور نبیۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اورعنقریب یہ پھر اجنبی بن جائے گا خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ اب اپنا مفاد اور ماحول چھوڑ کر اسلام کے صحیح فہم کا اظہار کرنا چاہیے۔ مدارس فراڈ اور گمراہی کے قلعے بن چکے ۔ جان بوجھ کر اب حق کو قبول نہیں کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے میری کبیرپبلک اکیڈی کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اس خاندان کے بزرگوں کی دینی خدمات ہیں اور اس میں عتیق جیسا اہل علم ہے”۔ پاکستان، افغانستان، ایران، عربستان ، ہندوستان میں علم سے انقلاب آئے گا۔ غریب فوجی اور جنگجو عناصر حالات کی بہتری کے بعد قربان نہیں ہوں گے۔
٭

ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمن)

”اور جو اپنے رب سے ڈرا تو اس کیلئے دو جنت باغ ہیں”۔(الرحمن:46)
دوبئی میں میرے ساتھی ناصر علی کی رہائش جبل علی گارڈن میں تھی۔ غریبوں کیلئے وہ بھی جنت سے کم نہیں ہے۔ گارڈن اردو میں باغ اور عربی میں جنت۔ خلافت قائم ہوگی تو دنیا بھر میں اہل لوگوں کیلئے درجہ دوم کے دودوباغ بنانے کا سلسلہ ہوگا اور اچھے اور اہل لوگوں کیلئے دنیا جنت نظیر بن جائے گی۔

ذواتآ افان ” اس کی بہت شاخیں ہوں گی”۔( سورہ رحمان:آیت48)

بغیر شاخوں کا باغ نہیں ہوتا۔ اس لفظ کے کئی معانی ہیں۔ مناسب ترجمہ ہو۔ ان میں کمال کا فن ہوگا۔ پیرس میں ”ڈنزی لینڈ” کی فن کاری کا کما ل ہے۔ دوبئی برج خلیفہ نے اونچائی سے دنیا کو نیچے دکھایا ۔ خلافت میں فن کاری کا کمال ہوگا اور معنی یہ بھی ہے کہ یہ فانی دنیا کے باغات ہیں، دائمی نہیں ہونگے۔

”ان دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے”۔ خوبصورتی کا حسین نظارہ ہوگا۔

” ان دونوں میں ہر پھل کی دودو قسمیں ہوں گی”۔ جیسے شوگر اور شوگر فری۔ ”وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے فرشوں پر جن کا غلاف ریشم کا ہوگااور دونوں باغوں کے جھکے ہوئے پھلوں کو توڑیںگے”۔ سورہ واقعہ میں اونچے فرشوں کو واضح کیا۔

فیھن قاصرات الطرف لم یطمثھن انس ولاجان

” ان میں ڈبہ پیک چیزیں ہوں گی جن کو کسی انس وجن نے چھوا نہیں ہوگا”۔پہلے ڈبہ پیک ان ٹچ موبائل،ٹی وی، کرارکری، گھڑی، گاڑیاں برینڈ یڈ چیزوں کا تصور نہیں تھا۔ یہ باغ کی چیزوں کی صفات ہیں۔ قاصرات الطرف (مختصرچھپی)۔ مفسرین نے ایک طرف نوعمر بچیاں لکھا تو دوسری طرف نوخیز دوشیزاؤں کی عمر33سال؟۔

قرآن اللہ نے سکھانا ہے اور ہرانسان کو کھل کر ایک ایک بات سمجھ آئے گی۔
پہلے درجہ کے جنتیوں کیلئے صحیح حدیث میں دو حوراء کا ذکر ہے۔ حور حورا ء کی جمع بھی ہے۔ معزز شہری عورت کو عرب حوراء کہتے ہیں۔ ہندوستان کے علماء نے میم کو معزز سمجھ لیا تھا اسلئے کہ انگریز حکمران طبقہ تھا اور مقامی لوگوں کو انکے مقابلہ میں اچھوت تصور کیا جاتا تھا اسلئے اس کو ”گوری عورت” کا نام دیا ہے۔

ھل جزاء الاحسان الا الاحسان ” نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے”۔

سورہ الرحمن کی آیت60تک اصحاب الیمین کے دوباغ کا ذکر ہے جو فرش پر بیٹھیں گے۔جو بڑی تعداد میں ہونگے اور مزاج بھی فرش پر بیٹھنے کا ہوگا جبکہ دو السابقون کیلئے قالین کا ذکر ہے جو تھوڑے ہیں اور زیادہ عزت ملے گی۔

جو یہاں بیگم سے ڈر کر دوسرا نکاح نہیں کرتے ۔ حقائق کا پتہ چلے تو نہ صرف عورتوں بلکہ مرد وں کی طبیعت کا بوجھ ہلکا ہوگا۔ مولانا طارق جمیل کو چین کی120فٹ کی حوردلادیں جس کی پنڈلی کو نہ پہنچ سکے۔بہت افسوس! دنیا کی عورت کی توہین کرکے اس جنت میں جائے گا ؟جو اسی ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔

وطلح منضود ”اور تہ بہ تہ کیلے ہوں گے”۔ (سورہ الواقعہ آیت:29)

 

ومن دونھما جنتان(الرحمن62)

” اور ان دو کے علاوہ دوباغ اور ہونگے”۔ یہ درجہ اول السابقون کیلئے ہیں۔

”دونوں گہرے سبز ہونگے”۔ کانیگرم اور گومل کے دھتورے میں سبز رنگ کا فرق ہے۔ ” دونوں میں دو فوارے ”۔ ” دونوں میں پھل، کھجور یں اور انار ”۔
درجہ اول میں فوارے اور انار لیکن درجہ دوم میں چشمے ،بیر اور کیلے کاذکر ہے۔

فیھن خیرات حسان ” ان میں خصوصی خوبصورت چیزیں ہوں گی”۔

جیسے عمران خان کیلئے سعودی عرب نے خصوصی گھڑی تیار کرکے دی تھی جس کو بیچنے پر عدالتوں سے سزا ہوئی۔ ایک وہ چیز ہوتی ہے جو کمپنی مارکیٹ میں بیچنے کیلئے بناتی ہے۔ جس کے ڈبہ پیک ہونے کا ذکر دوسرے دوباغوں میں کیا گیا۔ دوسری ایسی چیز جومارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ سورہ واقعہ میں بھی حفظ مراتب کے لحاظ سے السابقون اور اصحاب الیمین کے باغوں میں فرق ہے ۔

اگر مقربین کیلئے خاص اہتمام ہرچیز منفرد ہو۔ گاڑی، کراکری، موبائل اور الیکٹرانک والیکٹرک کی چیزوں سے عزت افزائی ہوگی جو مارکیٹ میں نہ ہونگی۔

حور مقصورات فی الخیام ” حور خیموں میں ہوں گی”۔ خیموں میں سردی کا پھل ”مالٹا ”موسم گرما میں اورگرمی کا پھل ”آم” سرمامیں مصنوعی ٹمپریچر سے پکتاہے۔ہائی بریڈ پھل یاقوت و مرجان کی طرح جھلکتا ہے۔ مشین سے کٹتا، پیک ہوتا ہے اسلئے ہاتھ نہیں لگتا۔ یہ عورتوں کی توہین ہے کہ ان کو دوسروں کے ہاتھ میں استعمال ہونے والیاں کہا جائے۔ قرآن کی درست تفسیر کی جائے ۔

حور کے معانی

1: ہلاکت۔
2:کمی:انہ فی حوروبور اسے کوئی اچھا کام نہیں آتا۔ وہ گمراہی میں ہے۔ الباطل فی حور : باطل ہمیشہ نقصان میں ہے۔

نبی ۖ نے پناہ مانگی ”کور کے بعد حورسے” خوشحالی کے بعد بد حالی سے۔ انہ فی اہلہ مسرورًاOانہ ظن ان لن یحور ”بیشک وہ اپنے اہل میں خوش تھااور سمجھا کہ خوشحالی کے بعد بدحال (حور) نہ بنے گا”۔(سورہ الانشقاق) قدرتی کے مقابلے میں ہائی بریڈ پھل اور جانور کی حالت بدلی ہوئی ہوتی ہے۔
”قالینوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جو سبز اور یونیک نفیس ہوں گی”۔

سورہ رحمن آیت76تک دو اعلیٰ درجہ کے جنتوں (باغوں) کا ذکر ہے۔

عربة:

جمع عُرُب ، عربیات ۔ عربة عربی میں یوٹیوب پر کلک ۔تمام اقسام کی گاڑیاں ۔

عربًااترابًا

”قد کے برابر گاڑی”۔ عورت کیلئے عربة کا لفظ نہیں تھا۔ تفسیر ی اقوال تأویلات ہیں، عرب نے اپنی نقل مکانی پر گاڑی کا نام عربة رکھا۔ دنیا کے جنت کی طرف دھیان نہیں گیا اسلئے تفسیر نہ سمجھ سکے۔ گاڑی اور دنیا کی جنت نہیں تھی توآیت متشابہات میں تھی۔ عربة گاڑی سے تفسیر زمانہ نے کردی۔ الرحمن علم القرآن۔ رحمن نے قرآن سکھایا۔قرآنی معجزہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کو قرآن کے ترجمہ پر واجب القتل کہاپھر انگریز کی ٹانگوں میں لٹکے۔ فقہاء نے محکم آیات کو اجنبی بنادیا ۔ غامدی بھی فراہی اور اصلاحی کی بکواسات میں لگاہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ فروری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اذا وقعت الواقعةOلیس لوقعتھاکاذبةOخافضة الرافعة….وکنتم ازواج ثلاثةO(سورہ الواقعہ) جب واقع ہونے والی واقع ہوگی ۔نہیں اسکے واقع ہونے کا جھوٹ۔ پست کرنے والی بلند کرنے والی…اور تم تین قسم پر ہوگے۔

مؤمن کو قیامت کی خاص چیز دنیا میں کافرکو چھوٹا عذاب

قیامت سے پہلے دنیا میں مؤمن کیلئے

فرمایا:” اللہ کی زینت کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کیلئے نکالی اور رزق میں سے پاک چیزیں۔کہہ دو کہ ایمان والوں کیلئے دنیا میں بھی وہ ہے جو اللہ نے قیامت کے دن کیلئے خاص کیاہے۔ اسی طرح ہم آیات کو تفصیل سے جاننے والی قوم کیلئے بیان کرتے ہیں”۔(اعراف:32)
1:جو زینت اللہ نے اپنے بندوں کیلئے نکالی ہے اس کو حرام قرار دینا۔
2:ایمان والوں کیلئے دنیا میں بھی وہ ہے جو اللہ نے قیامت کیلئے خاص کیا ہے۔ قرآن کی منظر کشی کو قارئیں بہت شوق اور دلجمعی سے ملاحظہ فرمائیں۔

 

بڑے عذاب سے دنیا میں چھوٹا عذاب

فرمایا:” اور ہم چھوٹا عذاب بڑے عذاب سے پہلے ان کو چھکائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ رجوع کرلیں۔ اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس کو اس کے رب کی آیات سے سمجھایا جاتا ہے پھر وہ اس اعراض کرتا ہے۔ بیشک ہم مجرموں سے انتقام لیں گے۔(سورہ سجدہ آیات:21اور22)
”اور کہتے ہیں یہ فتح کب ہوگا اگر تم سچے ہو؟۔ کہہ دو کہ فتح کے دن کافروں کو ان کا ایمان فائدہ نہیں دے گا۔اور نہ ان کو مہلت ملے گی۔ پس ان سے کنارہ کرو اور انتظارکرو ، بیشک وہ بھی انتظار کررہے ہیں”۔(سورہ سجدہ29،30)
٭٭

 

تین اقسام: السابقون، اصحاب المیمنہ اور اصحاب المشأمة

 

جنت والوں کی دواقسام سے کون مراد؟

پہلی قسم سبقت لے جانے والوں کی ہوگی جو پہلوں میں بہت ہوں گے اور آخر والوں میں تھوڑے ہیں۔ پہلوں میں السابقون الاولون مہاجر وانصار تھے جن کی گواہی قرآن میں اٹل ہے۔ آخر میں طرز نبوت کی خلافت قائم کرنے میں پہل کرنے اور اسلام کی نشاة میں اپنا کردار ادا کرنے والے اجنبی ہوں گے۔
دوسری قسم دائیں جانب والوں کی ہوگی جن میں فتح مکہ کے بعد صحابہ کرام کی بہت بڑی تعدادکے علاوہ تابعین، تبع تابعین اور علمائ، محدثین اور نیک لوگ بھی شامل ہوں گے اور آخرین میں بھی دائیں جانب والوں کی بڑی تعداد ہوگی۔

 

اصحاب المشأمة سے کون مرادہیں؟

پہلے والوں میں ظالم حکمران اور وہ مذہبی طبقات جنہوں نے انسانیت کیلئے دنیا کو جحیم بنادیا تھا۔ جو نبی اکرم ۖ کی دعوت حق اور عالم انسانیت کے منشور کی مخالفت اور تکذیب کرتے تھے اور جنہوں نے خلافت راشدہ کے عادلانہ نظام کو بدل ڈالا تھا۔ آخر والوں میں تمام ظالم وجابر حکمران، لوگوں اور دنیا پر جبر وظلم کے نظام کو مسلط کرنے والے اور انکے آلۂ کار دہشت گردوں کا ٹولہ، سیاست وتجارت کے لبادے میں مافیاز کا کردار ادا کرنے والے منشیات فروش، انسانیت کے دشمن اور اپنے مفادات کیلئے سب کچھ کرگزرنے والے سب شامل ہیں۔

 

السابقون الاولون کیلئے دنیا میں ولدان و حور عین

” لگے تختوں پرآمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے۔ ان پر24گھنٹے لڑکے طواف کرینگے۔ گلاس اور جگ اور خاص قسم جوس کے پیالے لئے ۔ نہ سر میں درد ہوگا اور نہ دماغ چکرائیگا۔ پھل جو چنیں۔ پرندوں کا گوشت جو چاہیں۔ بڑی آنکھوں والی بیویاں۔جیسے بطور مثال وہ چھپے موتی ہوں۔یہ بدلہ ہوگا بسبب وہ جو عمل کرتے تھے۔ نہیں سنیں اس میں لغو اور نہ گناہ۔ مگر سلام سلام کہنا”۔ (سورہ الواقعہ:آیات:15تا26)

فرمایا:” ” بیشک جو پرہیز گار ہیں وہ باغات اور نعمتوں میں ہونگے۔ محظوظ ہونگے جو اللہ نے ان کو عطا کیا اور انکے رب نے ان کو جحیم کے عذاب سے بچایا ۔ کھاؤ اور پیو مزے لیکر بسبب جو تم نے عمل کیا۔ تکیہ لگائے چارپائیوں پر قطاروں میں ہونگے۔ ان کا بیاہ کرینگے بڑی آنکھوں والیوں سے اور جنہوں نے ایمان لایا اور انکے پیچھے چلے ان کی اولادیں ایمان کیساتھ۔ ان کی اولاد کو بھی ہم نے ملادیا اور ہم نے انکے عمل میں کچھ کم نہ کیا۔ہر شخص اپنے کئے کیساتھ وابستہ ہے اور ہم نے مدد کی ان کی پھلوں اور گوشت سے جو وہ چاہتے تھے۔ وہ ایکدوسرے سے پیالہ پرلڑیں گے جس میں نہ لغو بات ہوگی اور نہ گناہ اور ان پر غلمان چکر لگائیں گے خدمت کیلئے جیسے چھپے موتی ہوں۔ وہ ایک دوسرے سے متوجہ ہوکر آپس میں پوچھیں گے ۔ کہیں گے کہ بیشک ہم اس سے پہلے اپنے خاندان میں مشکلات میں تھے تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں گرم لو کے عذاب سے بچایا ۔ بیشک ہم اس سے پہلے اسی کو پکارتے تھے۔ بیشک وہ نیکی کرنے والا رحم والا ہے۔ پس نصیحت کرتے رہیے! آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیںاور نہ مجنون ۔ کیا وہ کہتے ہیں کہ شاعر ہے ،ہم اس پر گردش کے منتظر ہیں۔کہہ دو کہ انتظار کرو،ہم بھی ساتھ منتظر ہیں۔ کیا یہ انکا خواب ہے یاوہ سرکش قوم ؟۔ یا کہتے ہیں کہ یہ اس نے گھڑا ؟۔ بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے ۔ پس اس جیسا کلام لائیں اگر سچے ہو تم ۔ (سورہ طور:17تا35)

امام حسین کی حوراء شہربانو اور اس کی بہنوں زوجہ محمد بن ابی بکر وزوجہ عبداللہ بن عمرکی طرح فارس و روم کی فتح کے بعد صحابہ کرام اور ان کی اولاد سے اس حور وقصور کا وعدہ پورا ہوا جس کا علامہ اقبال نے شکوہ کیا اور پہلے دور میں غلامی کا دور دورہ تھا لیکن آپ دیکھ لو غلمان اتنے خوش تھے جیسے دنیا کے جہنم سے جنت آئے ہوں۔اور یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ حضرت عمر نے پابندی لگائی کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح نہیں کیا جائے اسلئے کہ وہ ”حور عین” تھیں اور عرب کی اپنی عورتوں سے پھر کون شادی کرتا۔ اب عرب کی عورتوں میں بھی خوبصورت حور عین ہیں ۔ہمارا ایک ساتھی عرب سے رشتہ مانگ تھا تو نہیں مل رہا تھا تو اس نے کہا کہ پھر تم پیش کروگے۔
اسلام کی نشاة اول میں ان کی گوشت سے مدد کی گئی جیسا ایک مچھلی پورے مہینے کھائی اور بعد میں رزق کی فروانی ہوئی۔اسلام کی نشاة ثانیہ میں السابقون الاولوں بہت کم ہونگے اور ان کو پرندوں کا گوشت اور مرضی کا پھل ملے گا۔خدمت باوردی اسٹودنٹ24گھنٹہ اپنی تنخواہ اور خوشی سے کرینگے۔جیسا دنیا میں رواج ہے۔

 

اصحاب الیمین کیلئے دنیا میں کیا انعامات ہوں گے ؟

” وہ بے کانٹوں کے بیروں میں اور تہ بہ تہ کیلوں میںاورلمبے سائے میں اور پانی کے آبشاروں میںاور بہت سارے پھلوں میںجو نہ ختم ہوں گے اور نہ ان پر روک ٹوک ہوگی اور اونچے فرشوں میں۔بیشک ہم نے ان چیزوں کی خاص نشو ونما کی اور ان کو بالکل نیا کردیا۔ ایسی سواریاں جو قد کاٹ کے بالکل برابر ہوں گی”۔ (سورہ واقعہ28تا37) ۔ نعمتوں کی فروانی کانظارہ ہو گا۔ جب شوہر اور بیوی خوشحال ہوتے ہیں تو بڈھے بھی جوان بن جاتے ہیں۔ میک اپ اور بہترین غذائیت سے بھرپور کھانے سے انسان کی دنیا بدلتی ہے۔
اب تو بڑے لوگوں کو پرندوں اور جنگی جانور مارخور، ہرن اور بارہ سینگا وغیرہ کا گوشت ملتا ہے جبکہ متوسط اور غریب طبقات فارمی مرغیوں کے گوشت کو بھی ترستے ہیں۔ اصحاب الیمین کی بہت بڑی تعداد ہوگی ۔دنیا میں انقلاب عظیم آئے گا تو وائلڈ لائف جنگلی حیات کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔ بھارت میں گائے کا گوشت نہیں کھاتے ۔ درندوں اور چرندوں کی بہتات ۔ جبکہ کئی ممالک میں درندے انسانوں سے مانوس ہوچکے ہیں۔ انقلاب عظیم کے بعد دنیا جنگلی حیات کے تحفظ کی وجہ سے درندوں ، چرندوں اور پرندوں سے آباد ہوگی۔ ایسی ترتیب سے شہروں، باغات، کھیتوں اور جنگلات کو آباد کیا جائیگا کہ روئے زمین پر ماحولیاتی آلودگیوں کا مکمل خاتمہ ہوجائے اور سائنسی ایجادات کو تباہی ، انسانوں کو غلام بنانے اور غلط مفادات حاصل کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگا نفع بخش چیزیں بنانے کیلئے ماہرین اور ماہرات کو جدید ترین ایجادات پر لگایا جائے گا۔
جب ہندو، یہود، نصاریٰ ، بدھ مت، پارسی اور دنیا بھر کے مذاہب وممالک کو قرآن کے عظیم منشور کا پتہ چل جائے گا تو طرزنبوت کی خلافت قائم کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی۔ انشاء اللہ العزیز القدیرالمتکبر

چین سے افغانستان اور پاکستان تک دریائے سندھ میں گند کا ایک قطرہ بھی نہیں گرنے دیا جائے گالیکن ضرورت کے مطابق اس پر بڑے ڈیم اور پانی کے ذخائر ترتیب دئیے جائیں گے۔ بجلی اور پانی کی فروانی کا فائدہ یہ ہوگا کہ روشنی و ہوا کی طرح محنت کش طبقات سمیت سب کو بنیادی سہولیات فری ملیں گی۔ مزارعت اور سود کا خاتمہ کرکے رسول اکرم ۖ نے دنیا کو جنت بنانے کی بنیاد رکھ دی تھی مگر صحابہ کی خوشحال اولاد یزید اور قاضی شریح جیسے حکمرانوں اورقاضیوں نے اسلامی نظام عدل کو نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھادیا تھا۔ سورہ الحدید میں لوہے کو جنگ اور نفع بخش قراردیا ۔مسلمان نفع بخش کیلئے استعمال کرینگے تو معاملہ بدلے گا۔ ربما یودالذین کفروا لوکانوا مسلمین ” کبھی ہوگا کہ کافرپسند کریں کہ وہ پہلے مسلمان ہوتے”۔
قیامت سے پہلے دنیا میں مؤمن کوجنت کا مزہ چکھائیں گے حفظ مراتب کا لحاظ ہوگا۔ تفصیل سورہ رحمن، الاعراف، الحدید،المرسلات اور دیگر سورتوں میں موجود ہیں۔” بیشک متقی لوگ چھاؤں اور چشموں میں ہوں گے اور پھلوں میں جو وہ چاہیں گے۔کھاؤ، پیو خوشی سے بسبب جو تم عمل کرتے تھے”(المرسلات41تا43)

 

اصحاب الشمال کیلئے دنیا میں کس قسم کا جہنم بنے گا؟

” وہ گرم ہواؤں اور گرمی میں ہونگے اور سیاہ دھوئیں کے سایہ میں ہونگے۔ جونہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ ہی عزت دینے والا۔ بیشک اس سے پہلے خوشحال تھے اوربڑی کرپشن پر تسلسل سے لگے تھے”۔ ( الواقعہ:42تا45)

جنرل اختر کے بیٹوں، نوازشریف، زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن وغیرہ تمام ریاستی اداروں، حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی طبقات کی خوشحالی غریب اور پسے ہوئے طبقے کی تباہی کا سبب ہے توپھر ان کا کڑا احتساب کرکے صدائے جہنم کی تخریب کاریوں سے انسانیت کو تحفظ دیا جائے۔
یوم نقول لجھنم ھل امتلأت و تقول ھل من مزیدO(سورہ ق آیت:30)

ترجمہ:”اس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تم بھر گئی ہو؟۔ اور وہ کہے گی کہ کیا مزید اور بھی ہیں”۔
مسلمانوں کی زکوٰة ،خیرات، برطانیہ ، امریکہ ، جاپان ، سعودی عرب ، دوبئی اور دنیا بھر کی امداد بھی تعلیمی اداروں سے لیکر پولیو کے قطروں تک تمام شعبوں میں کرپٹ لوگوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ سورہ واقعہ کی مندرجہ بالا آیات میںدنیا کا عذاب ہے اور پھر اسکے بعد قیامت کے عذاب کا ذکر الگ سے ہے۔ فرمایاکہ ” کہہ دو کہ پہلے گزرنے والے اور بعد والے۔ضرور اکٹھے ہیں ایک معلوم دن میں ایک جگہ پر ۔پھر بیشک تم اے گمراہو! جھٹلانے والو !۔ضرور کھاؤگے زقوم کے درخت سے ، پھر اس سے پیٹ بھرنے ہوں گے۔ پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا ۔پھر پینا ہوگا اُونٹوں کا سا۔ یہ قیامت کے دن ان کی مہمانی ہوگی” ۔(سورہ واقعہ49تا56) ”بیشک یہ قرآن عظیم ہے۔ تکوینی کتاب میں ۔ نہیں چھوتے اس کو( عمل نہیں کرتے) مگر پاک لوگ۔ رب العالمین کی طرف سے نازل ۔ کیا تم اس بات میں مداہنت کرتے ہو؟۔ اور تم بناتے ہو اپنی روٹی روزی؟۔ بیشک تم ہی جھٹلارہے ہو۔ پس جب پہنچے گی تمہارے گلوں تک اور اس کو تم دیکھو گے۔(سورہ واقعہ77تا84)

”پس اگر مقربین میں سے ہیں۔(توا ن کے کیا کہنے) راحت، خوشبو اور عیش کے باغ میں ہوں گے۔ اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے ہیں تو تیرے لئے سلام اصحاب الیمین کی طرف سے( نبیۖ پر درود اور سلام کی شاندار محفلیں جمائیں گے۔اسلئے ان کی برکت سے دنیا میں جنت مل جائے گی)پس اگر وہ جھٹلانے والوں میں سے ہیںتو ان کا ٹھکانہ گرمی میں ہوگااور جحیم میں پہنچنا ہوگا۔بیشک یہی حق الیقین ہے۔ پس اپنے رب کی پاکی بیان کیجئے جو بہت عظیم ہے”۔(سورہ واقعہ88تا96)۔ یہ تینوں طبقات کے احوال ہیں ۔
”کھاؤ اور چند روزہ فائدہ اُٹھاؤ۔بیشک تم ہی مجرم ہو۔ اس دن جھٹلانے والوں کیلئے تباہی ہے۔ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ رکوع کرو(حق کے سامنے جھکو) نہیں جھکتے تھے۔اس دن جھٹلانے والوں کیلئے تباہی ہے۔ پس اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیںگے”۔ المرسلات:46تا50) قرآن کی آیات میں دنیا کے اندر عذاب کا تصور الگ دیا گیا ہے اور آخرت میں الگ۔ جو لوگ تدبر کرکے بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ فروری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv