قال رسول اللہ ۖ المہدی منا اہل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة قال ابن کثیر ان یتوب علیہ و وفقہ ویلہمہ و یرشدہ بعد ان لم یکن کذالک
قال رسول اللہ ۖ المہدی منا اہل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة قال ابن کثیر ان یتوب علیہ و وفقہ ویلہمہ و یرشدہ بعد ان لم یکن کذالک
فرمایاۖ” مہدی ہم اہل بیت میں سے ہوگا جس کی اللہ ایک رات میں اصلاح کریگا ”۔ ابن کثیر نے کہا :اس پر توبہ کریگا اور اس کو موافقت ، الہام اور رشددے گااور اس سے پہلے ایسا نہیں ہوگا۔
شجرہ سید محمد ابراہیم خلیل شہرکانیگرم وزیرستان بدست سید ایوب شاہ آغا بزبان سید محمد امیر شاہ بابا
سید ایوب شاہ عرف ”آغا”ابن سید احمد شاہ عرف ”گلا” بن سید محمد حسن شاہ عرف ”بابو” بن سید اسماعیل شاہ بن سید ابراہیم خلیل بن سید یوسف شاہ الخ سید شاہ محمد کبیرالاولیائ…سید عبدالقادر جیلانی۔
اسماعیل شاہ کا عرف ”پیاؤ شاہ ” تھا۔ بنوں میں کچھ سادات ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا نسب کانیگرم کے سید پیاؤ شاہ سے ملتا ہے۔ اگر وہ ہمارے شجرہ کی طرف اپنی نسبت کا دعویٰ کریں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہمارے پاس شجرہ ہے اور مرکز میں بیٹھے ہیں۔ اسی طرح تنگی بادینزئی میں ”یوسف خیل” قبیلہ ہے اور اگر ان کا شجرہ ہمارے ”سیدمحمد یوسف شاہ ” سے ملتا ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کسی اور یوسف کی اولاد ہیں تو ہمیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ سید احمد شاہ عرف گلا کا ایک ہاتھ مسلسل ہلتا رہتا تھا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نے اپنے باپ ”بابو” کی کرامت دیکھ کر کچھ بولا تو ”بابو” نے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے مارا تھا جس کی وجہ سے ہلنا شروع ہوا اور پھر وہ ہلتا ہی رہا کہ ”بابو” کے ضرب کی کرامت تھی اور اس کی نااہلی کا یہ ثبوت تھا کہ جس چیز کو چھپانا تھا تواس میں چھپاکر سنبھالنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اسلئے کہا جاتا ہے کہ ”بابو” کا جانشین پھر سید محمد امیر شاہ بابا بن گئے۔ کانیگرم شہر انگریز کے خلاف بغاوت کا بڑا مرکز تھا۔1898ء میں انگریز نے جہاز سے پرچی کی شکل میں نوٹس گرائے تھے کہ شہر سے نکل جاؤ ،ہم اس کو بمباری کے ذریعے مسمار کریں گے۔
میرے نانا سلطان اکبر شاہ پوتا سبحان شاہ کا پورا خاندان اس وقت میران شاہ منتقل ہوا تھا اسلئے کہ ان کے انگریز سے اچھے تعلقات تھے ۔ میرے دادا سید امیرشاہ بابا کے خاندان نے انگریز کی دھمکی کا مقابلہ ثابت قدمی سے کیا تھا اور شہر خالی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کی ایک بہن پر جہاز کا گولہ بھی گرا تھا جو پھٹ نہیں سکا تھا لیکن زخمی ہوگئی تھیں اور فیروز شاہ کی والدہ تھیں۔ جس کے بیٹے اقبال شاہ اورعبدالرزاق شاہ ہیں۔پیر عبدالغفار شاہ ، حاجی لطیف ،پیر عبدالمنان اور پیر عبدالجبار شاہ فیروز شاہ کے پوتے ہیں۔ فیروز شاہ کے والد سید مظفر شاہ اور اس کا بھائی سید منور شاہ اپر کانیگرم میں چوروں کے خلاف لشکر میں قتل ہوگئے تھے۔ منور شاہ کا بیٹا نعیم اورپوتا پیرخالام تھا جسکے بیٹے عبدالرشید اور گوہر علی ہیں اور مظفر شاہ کے چار بیٹے تھے ۔میر محمد شاہ، فیروز شاہ،سرور شاہ ، پیر کرم حیدر شاہ۔مظفر شاہ مولانا عبد اللہ درخواستی کا پیر بھائی تھا۔ مولانا درخواستی نے پیر عبدالجبار کو دیکھ کرپوچھا تھا کہ مظفر شاہ کا کیا لگتا ہے؟۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ مظفرشاہ قبائلی جنگ میں قتل نہیں ہوا ہے بلکہ اس کو شہید کردیا گیا ہے۔
تیسرے بھائی صنوبر شاہ کا بھی قتل ہوا، جسکے تین بیٹے سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین تھے۔ چوتھے سیداکبر شاہ کا انگریز کی کتابوں میںتذکرہ ہے اور یہ سید سبحان شاہ کی اولاد تھے۔ سید سبحان شاہ کی والدہ شاید کانیگرم کی سید اور دوسرے کزن یوسف خیل کی والدہ محسود ہوگی۔ سید اکبرشاہ کی بیوی کانیگرم کے ”خان” کی بیٹی تھی اور باقی تین بھائیوں منور شاہ، مظفر شاہ اور صنوبر شاہ سید حسن شاہ بابو کے داماد تھے۔ جن کے قتل کے بعد ان کی اولاد کانیگرم منتقل ہوگئی۔ سید حسن شاہ نے رہائش کیلئے مکانات اور کھیتی باڑی کیلئے زمینیں دیں اور ساتھ ساتھ اپنے نواسوں کو اپنا بھتیجا بھی قرار دیا اسلئے کہ کانیگرم میں پہاڑوں کی ملکیت کیلئے بہنوئی اور اس کی اولاد کو وراثت میں شریک نہیں کیا جاسکتا تھا اسلئے سید حسن شاہ کو سید سبحان شاہ بھائی اور اسکے بیٹوں کو بھتیجا قرار دینا پڑاتھا۔ لوئر کانیگرم کے تمام قبائل سید حسن شاہ سے عقیدت رکھتے تھے۔سب نے ایک ایک دو دو خاندان کو اپنے ساتھ قبول کیا ۔ سید حسن شاہ نے ”مرئی غلام قوم” کو بھی جائیداد کا حصہ دار بنادیا تھا۔یہ تو پھر نواسے اور جگر کا ٹکڑا تھے۔
سید سبحان شاہ کا ٹانک میں گھر تھا، حسین شاہ کی پیدائش جہاں1872ء کو ہوئی تھی۔ لارڈ میکالے کا سید سبحان شاہ سے اچھا تعلق تھا اور پھر سید سبحان شاہ اور سید اکبرشاہ پر بھروسہ نہیں رہا تھا۔ شاید اسلئے کہ باقی رشتے سید حسن شاہ بابو کی بیٹیوں سے ہوگئے تھے؟جو انگریز کا حامی کبھی ہوہی نہیں سکتاتھا؟۔
تنگی بادینزئی کے یوسف خیل اور کانیگرم کے سبحان ویل کا شجرہ ملتا ہے؟۔سبحان ویل حقائق کی روشنی میں
تنگی بادینزئی کے یوسف خیل کے ہاں یہ بات ہے کہ وہ اور کانیگرم کے سبحان ویل دو بھائیوں کی اولاد ہیں۔ ان کا تعلق کانیگرم کے ”یوسف” سے ہے۔ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کا تعلق شاہ محمد کبیر الاولیائ کی اولاد میں ”سید محمد یوسف ” سے ہے تو پھر یہ دونوں سادات ہیں مگر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تنگی کے یوسف خیل اپنے آپ کو بادینزئی محسود سمجھتے ہیں اور اپنے عزیز سبحان ویل کو بھی بادینزئی سمجھتے ہیں۔ کانیگرم کے برکی قبائل اور سادات اور پیر بھی ان کو بادینزئی محسود سمجھتے ہیں اور علاقہ گومل کے پڑوسی اور عام لوگ بھی ان کو سادات نہیں سمجھتے ہیں۔ جب کانیگرم کے لاوارث ”خان” کی نوکری پرنقب لگائی تو شمن خیلMNAکل قبائلی ایجنسیوں نے مدد کی پھر مظفر شاہ و منور شاہ کواپر کانیگرم لشکر میں قتل کیا گیا اورصنوبر شاہ عورت کے الزام میں قتل ہوا۔
جب گومل میں جائیداد کی تقسیم ہوئی تو بڑے بھائی صنوبر شاہ کے تین بیٹوں کو پورے تین حصے دئیے گئے ۔ مظفر شاہ کے چار بیٹوں کو مجموعی طور پر چار کی جگہ دو حصے دئیے گئے اور یہ کہا گیا کہ ان بھائیوں کو بہنوں کی طرح شمار کیا گیا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جائیداد کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ایک حصہ ایک بھائی کے چار بیٹوں کو دیا جاتا۔ دوسرا حصہ دوسرے بھائی کے تین بیٹوں کو دیا جاتا۔ اس تقسیم نے نفاق کی بنیاد ڈال دی۔ کیونکہ شریعت اور پشتو میں کہیں اس طرح کی تقسیم نہیں ہے۔
کمزور بھائیوں نے ہندو کی زمین آباد کی تھی تو طاقتوروں نے بندوق کے زور سے قبضہ جمالیا۔ کمزوروں کو اپنی حیثیت انتہائی تذلیل آمیز لگنے لگی اور طاقت کے گھمنڈ نے طاقتوروں کو کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ اپنے عزیزوں سے معمولی مفادات کی وجہ سے ہتک آمیز سلوک روا رکھنا اور طاقت کی بنیاد پر ان کو اپنے حقوق سے محروم کرنا بری بات ہے۔
پیر غفار ولد عبد الرزاق شاہ ولد فیروز شاہ جب کانیگرم سے بلدیاتی انتخابات کیلئے کھڑا کیا گیا تو ایک طرف برکی قبائل تھے جن کی بھاری اکثریت تھی اور دوسری طرف پیر تھے جو اقلیت میں تھے۔ وانا کی طرف سے جاتے ہوئے25کلومیٹر راستہ برفباری کی وجہ سے بند تھا۔ الیکشن میں بہت کم لوگ پہنچے اور پیروں کی عزت رہ گئی۔ ضیاء الدین اور منہاج الدین نے اپنے چاچا سعد الدین لالا کے ساتھ بیٹھ کر مجھے اور ڈاکٹر ظفر علی کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ پیر غفار اپنی جائیداد اور گھر وغیرہ کو بیچے اور اس میں زور زبردستی کیساتھ اس کو مجبور کرنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے، پیر غفار ایڈوکیٹ نہ ہوتا تو اپنے بھائی کیلئے بھی برف میں اتنا لمبا سفر نہ کرتا۔ وہ ہر خدمت میں پیش پیش ہوتا ہے اور یہ بات اسلئے ریکارڈ پر لارہا ہوں کہ ضیاء الدین کہتا ہے کہ چاچا کا دماغ بھانجوں نے خراب کیا ہے جو اس کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیںلیکن یہ بات100%غلط ہے اسلئے کہ دوسرے مواقع پر بھی میں نے ماموں سعد الدین لالا کو روکا تھا تو اس نے میری بات بھی مان لی۔ نسل در نسل بیماری منتقل ہوکر فطرت بنتی ہے اسلئے حدیث میں آتا ہے کہ اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو مان لو مگر انسان اپنی فطرت سے نہیں ہٹ سکتا۔
ہمارے اپنے عزیزوں کیساتھ رشتے چٹائی کے پتوں کی طرح بُنے ہوئے ہیں۔ ہماری فطرت تحمل و بردباری ہے ۔ہمارے عزیز سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے اجداد کی طرف سے مصلہ ملا ہے اور ان کے حصے میں بہادری اور تلوار آئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارا شجرہ نسب بھی دور دور تک نہ ملتا ہو اسلئے کہ حضرت امام حسن نے امیر معاویہ کیلئے خلافت کی مسند چھوڑ دی تھی اور امام حسین نے یزید کے خلاف کربلا میں جدوجہد کی تھی۔ ہم حسنی اور یہ حسینی سید ہوں۔ لیکن اگر ہمارے اجداد نے ان کے اجداد کو کانیگرم میں جائیداد کیلئے بالکل غلط اقدام کرکے اپنے بھتیجے کے درجے پر فائز کیا ہو تو ہم اپنے اجداد کی غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے ہر ممکن طریقہ اپنا سکتے ہیں۔
جب ڈیورنڈلائن سے افغان بادشاہ نے کانیگرم میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت مانگی تھی تو ہمارے اجداد نے کہا تھا کہ مشورہ کرکے جواب دیں گے اور پھر افغان بادشاہ کو منع کردیا تھا۔اب پاک فوج کو کانیگرم کی بڑی زمین دیدی گئی ہے اور وہ زبردستی بھی شہر کے مختلف جگہوں پر قبضہ کررہی ہے۔
جب جنگ بدر میں قریش مکہ کی طرف سے ہندہ کے باپ ، چاچا اور بھائی میدان میں نکلے تو دوسری طرف سے رسول اللہ ۖ نے اپنے دو چاچا حمزہ و حارث اور چچا زاد علی کو میدان میں اتارا۔ جب ان تین مسلمانوں نے تین کفار مکہ کو ٹھکانے لگادیا تو پھر عمومی جنگ چھڑ گئی لیکن اس کی وجہ سے کفار مکہ کے حوصلے پست ہوگئے اور اللہ نے فتح عطا فرمائی لیکن مسلمانوں نے قیدیوں کو فدیہ لے کر معاف کردیا۔ ان قیدیوں میں نبی ۖ کے چچا حضرت عباس بھی شامل تھے۔ عبد اللہ ابن اُبی نے اپنی قمیص دی تھی تو بدلے میں نبی ۖ نے عبد اللہ ابن اُبی کو اپنا کرتا کفن کیلئے دیا تھا۔ اللہ نے قیدیوں کو فدیہ لے کر معاف کرنے پر ناپسندیدگی کا بھی قرآن میں اظہار فرمایا ہے اور پھر فتح مکہ کے موقع پر نبی ۖ نے ابو سفیان کو نہ صرف معاف کیا بلکہ بہت بڑی عزت سے بھی نواز دیا۔
اگر ابوسفیان کی عزت افزائی نہ ہوتی اور عباس کو غزوہ بدر میں تہ تیغ کردیا جاتا تو اسلام پر بنو اُمیہ اور بنو عباس کا خاندانی قبضہ نہ ہوتا۔ اسلام کی نشاة ثانیہ درمیانہ زمانے کے مہدی کے ہاتھوں ہوگی۔ اس کی صفات میں مسلسل ضربوں سے باطل کو نہ صرف پریشان کرنا ہوگا بلکہ عام فطری اخلاقی حدود سے نکل کر مجرموں کی وہ نقاب کشائی کرے گا جس کو لوگ عام طور سے گناہ اور بداخلاقی سمجھ لیں گے اور واقعتا یہ نیکی بھی نہ ہوگی۔ اسلئے انقلاب کی رات اس کی اصلاح ہوجائے گی۔ جتنے خفا لوگ ہوں گے کچھ تو اسلئے خوش ہوں گے کہ وہ انتقام نہیں لے گا اور کچھ اسلئے کہ پہلے سے ان کا حال بھی ایسا کردیا ہوگا کہ مزید ضرب کی گنجائش نہیں ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو اسلام زمین میں جڑ پکڑ لے گا۔ اسلئے کہ مجرموں کیلئے اپنا منہ چھپانے کی کوئی گنجائش بھی نہ ہوگی۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کیا تو صحابہ نے عرض کیا تھا کہ کیا خدا کا تجھے خوف نہیں کہ سخت گیرعمر ہم پر مسلط کرکے جارہے ہو؟۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ خلافت کا بوجھ پڑے گا تو یہ خود بخود نرم ہوجائے گا۔ شاید درمیانہ زمانے کے مہدی پر خلافت کا بوجھ پڑے تو مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ضرب لگانے کی فرصت نہ ملے گی کیونکہ دنیا کے نظام میں محرومیوں کے شکار لوگوں کی داد رسی سے اس کو فرصت نہیں ملے گی اور احادیث صحیحہ کے نقشے میں یہ حقیقت ہے۔ ویسے بھی نیک سیرت اور اخلاق وکردار کا اچھا نہیں ہوگا بلکہ ایک رات میں اس کی اصلاح ہوجائے گی۔
آخری امیر اُمت محمد ۖ نیک سیرت مہدی ہوگا جس کو نشانیوں سے اللہ کے ولی اور علماء پہچان کر منصب امامت پر فائز کریں گے۔ اس کی پہلے سے اصلاح ہوئی ہوگی۔ البتہ یہ بات سمجھنے کی سخت ضرورت ہے کہ درمیانہ زمانے کے مہدی کو ناک ، دانت اور جسم کے نشانیوں سے پہنچاننے کے بجائے وہ اپنا تعارف باطل پر شدید ضربوں سے کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ حق کی طرف رجوع کرلیں۔
مفتی نور ولی محسود امیر تحریک طالبان پاکستان جب طالبان کے قاضی تھے تو اس نے کہا تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے13افراد ہم نے مارے ہیں اور2موقع پر ہمارے مارے گئے تھے ۔ ہم باقی11کی نفری بھی پوری کردیں گے لیکن ان میں کچھ تمہارے اپنے عزیز بھی ہیں جنہوںنے ہمیں غلط گائیڈ کیا تھا۔ اب ان مجرموں تک پہنچنے کیلئے اللہ کی طرف سے کوئی راستہ نکلے تو جنگ کی تمنا نہیں کرنی چاہیے اسلئے کہ عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم بنانا بڑا تکلیف دہ عمل ہے لیکن اگر کہیں مجبوری میں ایسی ٹکر ہوجائے کہ جہاں3افراد مخالفین سے اور3میں اپنے بیٹوں کو میدان میں اتار دوں تو ہوسکتا ہے کہ طالبان کے سہولت کاروں کو بھی ٹھکانے لگانا ہماری قسمت میں آجائے۔ عنوان خواہ کچھ اور ہو ۔
اگر میرے3بیٹے قتل بھی ہوجائیں تو باقی اپنے دشمنوں سے انشاء اللہ حساب لیں گے اور شہداء کے بدلے میں مجرموں کو ٹھکانے لگانے میں دیر نہ لگے گی۔ میرا ایک پرانا شعر ہے ذرا تبدیلی کیساتھ
یا ایھا الجیش من نساء آل سبحان
ان کنتم رجال فتعالو االی المیدان
ترجمہ:” اے سبحان کی اولاد کے عورتوں کا لشکر اگر تم مرد ہو تو پھر میدان میں آجاؤ”۔جنہوں نے چھپ کر طالبان کو گمراہ کیا تو کھل کر مردوں کی طرح میدان میں کیوں نہ آئے؟۔ طالبان کے بڑے دشمن انکے وہ دوست تھے جنہوں نے حقائق جاننے کے باوجود حقائق سے آگاہ نہیں کیا تھا۔علی نے فرمایا
ان القلوب اذا تنافر ودّھا
مثل الزجاج کسرھا لا یجبر
بیشک دلوں کی جب محبت نفرت میں بدلتی ہے
شیشہ ٹوٹنے کی طرح ہے پلاسٹر نہیں ہوسکتا
مجرموں کے چہروں سے نقاب کشائی کیسے ہوگی اور ان کی معافی کیلئے کیا طریقہ ٔ واردات ہوگا؟
طالبان کے حملے کے بعد شہداء کی لاشیں اُٹھائی جارہی تھیں سب عزیز واقارب شریک تھے۔ خطرہ تھا کہ دوبارہ طالبان حملہ اور جنازے پر خود کش نہیں کریں ۔ مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن نے نہ صر ف جنازہ پڑھایا بلکہ مسلسل3دنوں تک تعزیت کیلئے دعا میں ساتھ بیٹھے رہے۔ مولانا فضل الرحمن اگرچہ کچھ مہینے بعد دیر سے آگئے لیکن انہوں نے ٹانک سفیدجامع مسجد (سپین جماعت) میں جمعہ کی تقریر کرتے ہوئے طالبان دہشتگردوں کو ”خراسان کے دجال ”کا لشکر قرار دیا تھا۔
یہ مئی2007ء کی آخری تاریخ رات ایک بجے کے بعد کا واقعہ تھا اور یکم جون2007ء کو بڑی بڑی سرخیاں اخبارات میں لگی تھیں۔ طالبان نے کوڑ میں میٹنگ کا چند دن اہتمام کیا۔ پیرکریم کے بیٹے عثمان نے بتایا کہ پیر عبدالرزاق کے بیٹے ملوث تھے جو پیر عبدالغفار کے سوتیلے بھائی ہیں۔ پیر عبدالغفار واقعہ کے بعد مسلسل ہمارے ساتھ تھا۔ عبدالرزاق کے بیٹوں کی طرح طالبان بھی تقسیم تھے۔بیت اللہ محسود امیر تحریک طالبان کی پوری چاہت تھی کہ اس واقعہ میں ملوث قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کو بدلہ میں قصاص کی بنیاد پر قتل کیا جائے۔ اگر طالبان یہ کرلیتے تو سرحد میں ان کی حکومت قائم ہوسکتی تھی۔
متحدہ مجلس عمل کی حکومت بالکل برائے نام تھی ۔ جب وزیراعلی اکرم خان درانی پر طالبان نے حملہ کیا تھا تو اخبار میں وزیراعلیٰ اکرم درانی نے بیان دیا تھا کہ کوئی صحافی یہ کہے کہ طالبان نے ہم پر حملہ کیا ہے تو اس کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔
پیر رفیق شاہ شہید ولد پیر عالم شاہ خان بابا کے بارے میں ڈاکٹر آدم شاہ کے بھائی پیر ہاشم نے مولانا فتح خان سے پوچھا کہ ”لاش کو غسل دینے کی ضرورت ہے؟ ۔” جس پر مولانا فتح خان نے فرمایا کہ ” یہ اتنے اونچے درجہ کے شہداء ہیں کہ غسل دینا تو دور کی بات ہے ،انکے چہروں سے گرد وغبار بھی مت ہٹائیں”۔ مولانا فتح خان، مولانا عبدالروف، قاری محمد حسن شکوی شہیدگودام مسجد ٹانک ،مولانا عصام الدین محسود، مولانا غلام محمد مکی مسجد امیر ضلع ٹانک مجلس تحفظ ختم نبوت، شاہ حسین محسود سپاہ صحابہ اور شیخ محمد شفیع شہید شیخ گرہ امیرجمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک مولانا سمیع الحق گروپ سمیت تمام علماء کرام اور اکابرین ہماری حمایت کرتے تھے۔
انگریز کے نمک خوار اور پولیٹیکل انتظامیہ کے لفافہ خور پیر منہاج الدین اور سادات خان لنگر خیل عوامی سطح پر سب حقائق سے واقف تھے لیکن جب ریاست طالبان کیساتھ کھڑی تھی تو یہ لوگ بھی اپنا قبلہ نما طالبان کو سمجھتے تھے۔ ان لوگوں میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہوتی تو اپنے دوست طالبان سے کہتے کہ ”تم نے ظلم کیا ہے اور غلط اقدام اٹھایا ہے”۔
مجھے خوشی ہے کہ یہ میرے دشمنوں کے دوست تھے اور کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کرسکے۔ ورنہ جب ہمیں اللہ کوئی عزت دیتا تو سب سے پہلے کسی بڑی تقریب میں یہ بھی بیٹھتے۔ میں نے اپنا تعلق تو اب بھی برقرار رکھا ہے اور آئندہ بھی برقرار رکھ سکتا ہوں لیکن اپنے ساتھیوں، بھتیجوں اور بیٹوں کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھادوں گا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ عزت وتوقیر سے پیش آنے کا نتیجہ آنے والی نسلوں میں خطرناک نکل سکتا ہے۔ حسن نے اقتدار امیر معاویہ کیلئے چھوڑ کر اچھا کیا اور امام حسین نے یزید کے کردار کو نمایاں کرکے بہت اچھا کیا تھا لیکن بنوامیہ اور بنوعباس نے اقتدار پر موروثی قبضہ کیا۔
پیر کریم کے بیٹے عثمان نے ضیاء الحق پر گواہی تو دیدی مگر کیا اس کا اپنا بھائی اس میں ملوث نہ تھا؟۔ مجھے100%یہ یقین ہے کہ اب اگر وہ ہاتھ پیر بھی باندھ کر ہمارے پاس لائیںگے تو ہمارا اپنا طبقہ بھی معاف کردے گا۔ البتہ ماموں سعد الدین لالا2مجرموں کو قتل کریں گے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں اپنے بھتیجے حسام الدین وبھانجے اورنگزیب کا بدلہ لوں گا۔قتل کیلئے ماموں نے استعمال بھی اورنگزیب کے بیٹوں کو کرنا تھا اسلئے کہ اپنے بیٹے اور بھتیجے دن رات طالبان کی خدمت کرتے رہتے تھے۔ جب تک پاک فوج ضیاء الدین کو پکڑکر لے نہیں گئی اور طالبان کی گاڑی کو بارود سے نہیں اڑا دیا تو بہت بے شرمی ، بے ضمیری ، بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ نہ صرف مجرم طالبان کیساتھ کھڑے تھے بلکہ ان کے دفاع کیلئے بھی ہرممکن کوشش بڑی بے غیرتی کیساتھ کی۔ اگر ان پر فائرنگ ہوتی اور واقعہ رونما ہوتا اور میں اپنے گھر میں ان کے دشمنوں کو رکھتا اور ان کی سپورٹ جاری رکھتا تو سیدھا سیدھا مجھے اپنا دشمن قرار دیتے لیکن ان کی رگوں میں پتہ نہیں کونسا خون گردش کررہاتھا کہ جنازہ کے فوراً بعد بھی دشمن انکے گھر پر آئے اورپھر منہاج نے اسرار کیا کہ دعا کیلئے ہمارے گھر پر بیٹھیں گے۔جو طالبان گڑھ تھا اور انہوں نے کبھی احساس نہیں کیا کہ یہ غلطی ہے۔
ظلم اور ظالموں کی داستانیں ایک جیسی رہتی ہیں ،صرف شکلیں مختلف زمانوں میں بدلتی رہتی ہیں اور پھر وہ تاریخ کے پردوں میںگم ہوجاتی ہیں۔
سیدا کبر شاہ ولد سبحان شاہ نے انگریز کیلئے اپنا کردار اداکیا اور کانیگرم کے خان کی بیٹی سے شادی بھی رچائی۔ اس کے کرتوت کا خمیازہ باقی بھائیوں کو بھگتنا پڑگیا تھا۔ تینوں ساز ش سے قتل ہوئے۔ یہ کتنی مغمو م اور مذموم فضائیں تھیں کہ سبحان شاہ کے تین بیٹوں کا سایہ اپنے بچوں سے اُٹھ گیا تھا؟۔
پھر سیداکبر شاہ کے کردار کا فائدہ سلطان اکبر شاہ نے اپنے بیٹے محمود کی وجہ سے اٹھایا جو سیداکبر شاہ کا نواسہ تھا۔ محمود چوروں کے ہاتھ قتل ہوا تو پھر سلطان اکبرشاہ نے ”خان ” کی نوکری سنبھال لی۔
دوسرے چچازاد پیر فیروز شاہ ، میر محمد شاہ، سرور شاہ اور کرم حیدر شاہ کو اس پر بھی تحفظات تھے لیکن سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین شاہ کا کھل کر مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ پولیس کی دو نوکریاں جو انگریز نے سبحان شاہ اور سیداکبر شاہ کو دی تھیں ایک مظفر شاہ کے توسط سے میر محمدشاہ اور اس کی اولاد کو منتقل ہوئی اور دوسری صنوبر شاہ کے توسط سے محمد امین شاہ اور فہیم شاہ تک منتقل ہوئی۔ سرور شاہ کے بیٹے یعقوب شاہ کی نوکری تھی اور ان کا گزر بسر بھی مناسب تھا۔ کرم حیدر شاہ کی بھی نوکری تھی اور گزر بسر اچھی تھی اور بیٹے بھی چھوٹی بڑی نوکری پر لگے۔
فیروز شاہ کے بیٹے اقبال شاہ کی بھی اچھی نوکری اور اچھا رشتہ تھا۔ پیر عبدالرزاق کی شادی اور بچے تو بیٹھ گئے اپنے ماموں کیساتھ۔ پیر عبدالرزاق نے دوسری شادی کی اور بچے بڑے ہوگئے۔ مجھے بھی کہا تھا کہ ایک بیٹا دوبئی بھیج دو۔ میں نے اپنے بھتیجے کامران کو بھی نہیں بھیجا اسلئے کہ کام چور لگتا تھا ، سچ بات ہے کہ عبدالرزاق پر رحم بھی آیا لیکن اس کے بچے بھی زیادہ قابل اعتماد نہیں تھے۔ پھر ساجد کیلئے اورنگزیب بھائی نے کہا کہ میں قرضہ لیکر بھیج دوں گا تو میں نے ساتھی کو دوبئی میں پیغام بھجوادیا کہ ایک بندہ لگانا ہے اور پھر ساجد چھوڑ کر بھی آگیا۔ ہوسکتا ہے کہ عبدالرزاق کے بچوں نے یہ بغض دماغ میں بٹھادیا ہو کہ نالائق کو بھیج دیا اور ہمیں نہیں بھیجاہے۔
عبدالرزاق نے اپنے باپ کیساتھ ہونے والی زیادتیاں بھی دل میں بٹھائی ہوں گی اور بڑی اولاد کا غم بھی دل میں رکھا ہوگا۔ جس کا ذکر اپنے بچوں سے کیا ہوگا۔ جب کانیگرم میں پیر کرم شاہ کے بیٹے اور حاجی عبدالرزاق کے بیٹے ایک دوسرے کیساتھ اسلحہ اور بموں سے لڑائی کے موڈ میں تھے تو میں اور اشرف علی گئے اور ان کو سمجھایا کہ ”اللہ نے والدین اور اقارب کیساتھ انصاف کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ احسان کا حکم دیا ہے”۔ اگر انصاف پر عمل کا مطالبہ ہو تو ایٹم کی تقسیم بھی کرنا ہوگا جس سے ایٹم بم پٹھے گا اور پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ جس پر دونوں راضی ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ اب یہ لڑائی عدالت میں لڑو۔ جس سے فتنہ وفساد کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ پھر الیاس کی طرف سے یہ بات آئی کہ اگر ماموں نے کیس جیتا تو اعلیٰ عدلیہ میں وہ لوگ اپیل نہیں کریں گے۔ میں نے کہا کہ ”جس پر بات ہوئی ، مزید شرائط نہیں لگائیں ، اگر قانون میں اپیل کی اجازت ہے تو پھر اپیل کی اجازت ہوگی”۔ جس پر الیاس نے کہا کہ آپ ان کی وکالت کررہے ہیں۔ مجھے پہلے منان لوگوں نے کہا تھا کہ الیاس چلا جائے تو لڑائی نہیں ہوگی۔ پھر میرا دل کٹھا ہوا ، جب لڑائی ہوئی تو موقع پر ہم پہنچ گئے۔ پیر سجاد کوزور سے تھپڑ لگائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ایک سبب بن گیا ہو کہ عبدالرزاق کے بیٹوں نے سمجھا ہو ”میری ہمدردیاں انکے دشمنوں کیساتھ ہیں اوربات دل میں بیٹھ گئی ہو”۔ جب فاروق شاہ کی زمین پر قبضہ ہورہاتھا تو بھی میرے والد نے فاروق شاہ کو تھپڑ مارے اور گالیاں دیں کہ نہیں جاؤگے ورنہ تو ماردیا جاتا۔
عین جنگ کے موقع پر گولیوں کی بوچھاڑ میں آنے والے بدخواہ نہیں خیر خواہ ہی ہوسکتے ہیں اور میرے اندر بھی صرف خیر خواہی کا جذبہ تھا۔ مجھے ان پر اعتماد تھا کہ پیر فاورق شاہ کے بیٹے کا دل کھلا ہے۔ حاجی عبدالرزاق کے بڑے بیٹوں پر بھی اعتماد تھا۔ بہر حال ہوسکتا ہے کہ چھوٹوں کے دماغ میں بات بیٹھ گئی ہو۔ جب کانیگرم میں دو خاندانوں میں ایسی لڑائی چل رہی تھی کہ پورے شہر میں بھی گولیاں برس رہی تھیں۔ مساجد میں لاؤڈ سپیکر پر اعلانا ت کئے گئے اور پورے شہر کے علماء اور بڑے پہاڑ کی اوٹ میں چھپ کر جنگ بندی کا انتظار کررہے تھے تو میں ایک فریق کے مورچے کی طرف گیا ، سب نے منع کیا کہ گولیاں لگ جائیں گی لیکن میں مورچے تک پہنچ گیا اور اسلحہ چلانے والوں کو گھسیٹ کر منع کیا تو ان کے رک جانے سے دوسرا فریق بھی منع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ میرے مکے یا لاتیں مارنے سے یہ نہیں سمجھا ہوگا کہ ہمارے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔
یہ1991ء کی بات ہے۔ کانیگرم کے علماء اور تبلیغی جماعت کے کردار کو بھی تفصیل سے لکھ دوں گا تو بات سمجھ میں آئے گی۔ میں تبلیغی جماعت کیساتھ مکین بھی گیا تھا۔ علماء کیساتھ بھی رعایت رکھی اور افہام وتفہیم کے آخری حدود تک پہنچادیا تھا لیکن ماموں نے سرکاری انٹیلی ایجنسیہ کا کردار ادا کرتے ہوئے مجھے جیل میں پہنچادیا تھا۔ اس نے میرے بھائیوں سے کہا تھا کہ محسود قبائل حملہ کرکے ہمیں وزیرستان میں تباہ کردیں گے۔ حالانکہ مولانا حفیظ اللہ محسود ( مکین مولانا عصام الدین کے والد) نے علماء سے کہا تھا کہ سید ہیں ، ان کے پیچھے لوگ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یہ گمراہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا ، بہت خوش ہوگئے اور جن علماء نے مجھے آکر پہلے بتایا تھا تو ایک مولانا محمد ولی گر ڑائی لدھاتھا اور دوسرا مولانا محمددین تھا۔ اور دونوں فاضل جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک تھے۔ ایک میرا کراچی میں کلاس فیلو رہاتھا اور دوسرا مولانا محمد دین نرسیس میں جعلم برکی لوگوں کا امام تھا۔ مولانا حفیظ اللہ پہلے کٹر تبلیغی تھا اور بعد میں سیف الرحمن کی بیعت کرکے تبلیغی جماعت کا مخالف بن گیا۔ انکے مرید آتے تھے۔ مولانا محمد دین بھی تبلیغی جماعت کا سخت مخالف تھا۔ اس کی عقل اتنی تھی کہ مجھے کہتا تھا کہ فٹ بال مت کھیلو۔ انگریز نے امام حسین کو شہید کیا تھا اورپھر اس کے سر سے فٹ بال کھیلا تھا اور اب کربلا کی توہین کیلئے یہ کھیل ایجاد کیا گیا ہے۔
مجھے کہتا تھا کہ انگریز تمہیں پیسہ بھیجتا ہے کہ فٹ بال کھیلو اور تم سید ہوکر بھی غلط کرتے ہو۔ عربی لغت کا مولانا محمد دین بہت ماہر تھا۔ اس نے18سال تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے ایک دن مذاق میں کہا کہ میرے دسترخوان پر بیٹھے ہو اور انگریز نے پیسہ بھیجا ہے؟۔ تو کہنے لگا کہ دسترخواں تمہارے باپ کا ہے۔ مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی کہ میرے خاندان پر کتنا اعتماد ہے؟۔ وہ مفتی فرید کے شاگرد تھے۔
کانیگرم میں ہمارے گھر کی چھت پھٹ گئی تھی۔ جس کی وجہ سے تہ خانہ بھی نکل آیا تھا، تہ خانے کی چھت کو بھی بارشوں اور برف باریوں نے گرایا تھا۔ ایک مرتبہ میں چھت کی لیکیج بند کررہاتھا کہ ایک شخص مدد کرنے آگیا۔ میں نے چائے کیلئے کہا۔ جب چائے پی کر وہ نکل گیا تو پھر لوٹ آیا۔ تہ خانے کے بارے میں معلومات لیں ۔ اس کو بتایا کہ شاید انگریز کی بمباری سے بچنے کیلئے بنایا گیا تھا اور پھر اس کو بند کردیا گیا تھا ، میں نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ تو اس نے بتایا کہ یہاں کچھ لوگوں نے آپ کا کہا کہ یہ قادیانی ہے۔ تو میں نے کہا کہ اگر قادیانی ہے تو بھی تم سے اچھا ہے اسلئے کہ اس کا دادا ہے اور تمہارا کوئی دادا نہیں ہے۔ پھر میں نے پوچھ لیا کہ قادیانی کیا ہوتے ہیں؟۔ تو مجھے بتایا گیا کہ ” یہ آدم خور ہیں اور جب لوگ ان کے پاس جاتے ہیں تو پکڑ کر ذبح کردیتے ہیں، گوشت کھالیتے ہیں، ایک کنواں کھود رکھا ہے جس میں ہڈیاں ڈال دیتے ہیں”۔ پہلے تو مجھے یقین نہ آیا لیکن جب چائے پیتے وقت کنویں پر نظر پڑ گئی تو بہت گھبرا گیا۔ جب زندہ سلامت نکل گیا تو پھر خیال آیا کہ یہ لوگ آدم خور نہیں لگتے اسلئے تسلی کرنے کیلئے آگیا کہ یہ کنواں کس چیز کا ہے؟۔
کانیگرم میں ایک ایک گز زمین اور درخت کا پودا بہت قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ اپر کانیگرم میں محسود عورت نے لکڑیاں کاٹی تھیں۔ جھگڑے میں سیدم مارا گیا۔ صلح کے باوجود سیدم کے باپ نے موقع پاتے ہی فائرنگ کی تو آخر کار وہ سامنے آگیا تھا کہ مجھے ماردو تو پھر سیدم کے والد نے معاف کردیا۔
ہمارے ہاں قتل کی معافی ایسی ہوتی ہے کہ قاتل سرنڈر ہوکر موقع فراہم کردے تو پھر معاف ہوسکتا ہے اور قتل بھی لیکن اصل معافی یہی ہوتی ہے۔ ان محسودوں کیساتھ فائرنگ ہوئی تھی تو برکیوں کا ایک بندہ قتل ہوا تھا ۔ میرے والد سمیت کانیگرم شہر کے بڑوں نے مردہ اٹھانے کیلئے جانا چاہا تو انہوں نے فائرنگ کردی اور سب کو پیچھے بھاگنا پڑگیا تھا۔ اس وقت کانیگرم کے قومی جرنیل شادی خان نے لاش اٹھائی تھی۔ والد صاحب کہتے تھے کہ یہ میراثی نہیں ہیں بلکہ اصل درانی ہیں۔ میراثی کی خواتین ڈھول بجانے اور دیگر خدمات کیلئے مشہور ہوتی ہیں لیکن یہ خاندان سب سے زیادہ عزت دار ہے۔ ہمارا کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر ان کو اختیار دیا جائے کہ سبحان شاہ کے خاندان میں ہوتے تو زیادہ پسند تھا ؟۔ تو وہ یقینا کہیں گے کہ ہماری قومی جرنیلی اعزا ز ہے۔
ڈھول کی تھاپ پر جنگیں لڑی جاتی تھیں اور فوج میں بھی ڈھول کا کردار ادا کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ان کی عزت وتوقیر کا مجھے نہیں معلوم ہے البتہ میں کانیگرم کے اس درانی خاندان کی عزت ، غیرت اور حیاء کی اعلیٰ ترین روایات واقدار کو جانتا ہوں ۔ اور آئندہ کی نسل میں ان کے ساتھ رشتوں کے لین دین کو بھی اپنا اعزاز سمجھوں گا۔ حالانکہ کسی اور کیلئے یہ بات میں قطعی طور پر بھی نہیں کرسکتا ہوں۔
میرا باپ یہ دلی خواہش رکھتا تھا کہ اپنے بیٹوں کیلئے کانیگرم کے برکیوں سے رشتہ لے مگر عورتوں کی طرف سے رشتے طے ہوگئے تو باپ غصہ تھا کہ انڈیا کی جنتا پارٹی نے ہمارے گھر پر رشتوں کا قبضہ جمالیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس بات سے ان کی روح کو تسکین ملے گی اور میرا یہ بھی یقین ہے کہ درانی خاندان نے ہمارے اجداد کی وجہ سے ہی یہ خدمت انجام دینے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ اس کا ازالہ کرنا بھی میں اپنا فرض منصبی سمجھتا ہوں۔
جب اسلام کی نشاة اول ہوئی تھی تونبی ۖ نے حضرت زید کے عقد میں اپنی کزن حضرت زینب کا رشتہ دیا تھا۔ لیکن پھر وہ کامیاب نہیں ہوسکا اسلئے کہ اس پر غلامی کا نام تھا۔ قرآن میں صرف حضر ت زید ہی کا نام ہے۔ میری تحریک میں کانیگرم کے صرف بادشاہ خان قومی جرنیل کا نام ہوگا۔ باقی لوگ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ میرے نزدیک کانیگرم ، محسود،وزیر اور پختون کی قدر ومنزلت ہے اور کسی کی تحقیر نہیں۔
سب آدم کی اولاد ہیں ۔ ہابیل قابیل میں کردار کا فرق تھا اور نسل عربی عجمی میں سب برابر ہیں۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv