پوسٹ تلاش کریں

بھارتی پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش،پاکستان،افغانستان ، سری لنکا کا نقشہ اکھنڈ بھارت کاحصہ؟

بھارتی پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش،پاکستان،افغانستان ، سری لنکا کا نقشہ اکھنڈ بھارت کاحصہ؟

اسرائیل سودی نظام کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کو اپنے ہاتھوں میں نچارہاہے اور فلسطین وعرب کو تباہ وبرباد کررہاہے ۔برما کے مسلمانوں پر بھی شدید مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں!

برما میں اراکانی مسلمانوں کو مذہبی طبقے نے تعصبات سے بھر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں ان غریبوں پرکوئی بھی توجہ نہیں دیتا،ان کو مشکلات سے نکالنا ایک اہم فریضہ ہے

نریندرمودی سے تعصبات کو ہوا مل گئی۔ ہم اکھنڈ بھارت کے نقشے میں بنگلہ دیش،پاکستان اور افغانستان کا علاقہ شامل کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان نے ہندوستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کیاتھا، جس میں لاکھوں جانیں گئیں اور عزتیں پامال ہوگئیں۔ مشرقی ومغربی بنگال ، پنجاب، کشمیراور ہندوستان کی تقسیم سے ہم نے بھارت میں مسلمانوں کو ہندؤوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں کی جان ومال اور عزتوں کو خطرات کا سامنا ہے۔ اگر پاکستان بنگلہ دیش اور افغانستان تک کا علاقہ پھر گریٹر بھارت میں ضم کردیا گیا تو ایک طرف قرضوں اور دہشتگردی سے جان چھوٹ جائے گی اور دوسری طرف مجاہد متعصب ہندؤوں کو سبق سکھا دیں گے۔ لتاحیاء جیسی شاعرہ کی بات بالکل درست ہے کہ ”اسلام وہی تو ہے جو حضرت نوح پر اترا تھا اور جو ویدوں میں موجود ہے”۔ جس طرح ہندؤوں نے اپنے دین کو مسخ کردیا ہے اسی طرح مسلمانوں نے اسلام کے ساتھ وہی سلوک کیا۔ بھارتی مسلمان دھڑلے سے کہتا ہے کہ
میں اللہ کے نبی کا باغی نہیں ہوں
میں ہندو تو ہوں وہابی نہیں ہوں
جنرل ضیاء الحق وانہ جنوبی وزیرستان میں آئے تھے تو نامور عالم دین مولانااحمد حسن لسوندی سے پوچھا کہ”یہ لوگ پگڑیاں سروں پر ہلاتے ہیں تو میری بات سمجھ بھی آتی ہے یا نہیں؟۔ مولانا احمد حسن نے کہا: ایک پٹھان نے فارسی بان عورت سے شادی کی تھی تو اس خاتون نے اپنا یہ دکھڑا سنایا تھا کہ
یارمو افغان شد من نہ دانم چہ کنم
او بگوید دلتہ راشہ من نہ دانم چہ کنم
”میرا شوہر افغان ہے۔ میں نہیں جانتی ہوں کہ میں کروں کیا؟۔ وہ کہتا ہے یہاں آؤ اور میں نہیں جانتی کہ کیا کروں”۔
جس پر جنرل ضیاء الحق اپنے پروٹول کو نظرانداز کرتے ہوئے خوب کھلکھلاکر ہنس پڑے تھے۔ یہی حال ہمارے عجم کے مسلمانوں کا بھی ہے کہ قرآن وحدیث کی زبان عربی ہے اور ہمارا مذہبی طبقہ کچھ کا کچھ مفہوم لیتا ہے لیکن سمجھتا نہیںہے۔
جنرل ضیاء الحق نے قبائلی عمائدین سے پوچھا کہ روس آپ کے پڑوس میں آیا، تمہیں پریشانی تو نہیں ؟۔ مولانا احمد حسن نے کہا کہ ”ہم بہت خوش ہیں”۔ یہ خلافِ توقع جواب سن کر جنرل صاحب نے پریشانی سے پوچھا کہ کیوں؟۔ مولانا احمد حسن نے جواب دیا کہ ”قبائل بہادر قوم ہے۔ اسکے پاس اسلحہ نہیں ہے لیکن ہم روسی ہتھیار چھین کر یہاں سے مار بھگائیںگے”۔ جس پر جنرل ضیاء الحق بہت زیادہ خوش ہوگئے۔ بھارت اگر توسیع پسندانہ عزائم رکھتا ہے اور افغانستان تک اس نے قبضہ کرنا ہے تو نیٹو سے اس نے سبق سیکھ لیا ہے۔ اس کو پاگل کتے نے نہیں کاٹا ہے لیکن ہم اپنی فوج کی خوشنودی کیلئے یہ نہیں کہتے۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو جب اس فوج سے آزاد کردیا تو بنگال سے نکل گیا۔ فوج کو چاہیے کہ اس قوم کو اس حد تک نہ لے جائے کہ لوگ اپنی جان چھڑانے کیلئے لڑیں اور پھر باہر کی افواج عوام کی مدد کو پہنچ جائیں۔ غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارا کوئی بھی ایسا ریاستی ادارہ اور سیاسی پارٹی نہیں جس پر عوام کو اعتماد ہو اور ملک وقوم کو مشکل صورتحال سے نکال سکے۔ سراج الحق دوفیصد سودی اضافے کو اسلامی بینکاری قرار دیتا تھا اور لوگوں میں سود کے خلاف وہ مذہبی جذبہ بھی ابھارتا تھا جس کو گالی کہہ سکتے ہیں مگر باشعورعوام نے بالکل مسترد کردیا تھا۔
جب برما کے مسلمان بڑے پیمانے پر بنگلہ دیش پہنچ گئے تو حامد میر سے ن لیگی وزیر خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارے جہاز تیار کھڑے ہیں صرف اجازت دیں تو پاکستان لے آئیں۔ یہ میاں محمد شریف کے نام لیوا ہیں جس نے بوسینیا کے مسلمانوں کی مدد کی لیکن آج یہ کچے کے ڈاکو کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ّّحکومت اقتدار چھوڑ دے اگر تحریک انصاف کی اکثریت ہے تو اقتدار سپرد کردو ، سیاستدانوں کو اختیار نہیں بدنامی ملتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی کو اپنی گھن گرج سے بہت گرم کردیا

ّّحکومت اقتدار چھوڑ دے اگر تحریک انصاف کی اکثریت ہے تو اقتدار سپرد کردو ، سیاستدانوں کو اختیار نہیں بدنامی ملتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی کو اپنی گھن گرج سے بہت گرم کردیا

شوہر بیوی کو3طلاق دے تو عدت و حلالہ کے بعد دوبارہ پہلے شوہر کے پاس آسکتی ہے۔ مطیع اللہ جان نے وسعت اللہ خان سے کہا تھا کہ نوازشریف بھٹو ثانی نہیں؟۔وسعت نے کہا کہ کس کو کس سے ملارہے ہو؟۔ ن لیگی اور پیپلزپارٹی قیادتیں کہتی ہیں کہ جب ہم دو بیویاں پہلے سے موجود تھیں تو تیسری کو کیوں لائے ہو؟۔PDMمولانا فضل الرحمن کا کارنامہ تھا۔ اب مولانا نے دھیمے، میٹھے اور بڑے تیکھے لہجے میں میڈیا کے بعد پارلیمنٹ اجلاس میں پورے پاکستان کی توجہ کا میلہ لوٹ لیا ہے۔2مئی کو کراچی اور9مئی کو پشاور میں جلسہ عام سے ایک بھونچال برپا کردیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مفتی محمود نے اپوزیشن کی قیادت کی تھی تو ضیاء مارشل لاء میں بینظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کا سب سے زیادہ مولانا نے ساتھ دیاتھا۔ مولوی صاحبان نے ان پر کفر تک کے فتوے لگادئیے لیکن مولانا ڈرا نہیںاور جھکا نہیں اسلئے کہ1970میں جمعیت علماء اسلام پر بھٹو کی حمایت کی وجہ سے فتوے لگ چکے تھے۔ پھر مولانا نے اسلامی جمہوری اتحاد کے فتوؤں کا بھی مقابلہ کیا جس میں شیعہ و سپاہ صحابہ والے جماعت اسلامی کیساتھ اکٹھے ہوگئے تھے۔ پھر جب ن لیگ اسٹیبلیشمنٹ کی کھلاڑی بن گئی تو بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِحکومت میں مولانا نے کھل کر پیپلزپارٹی کا ساتھ دیا۔ پھر جب ن لیگ کو2تہائی اکثریت سے1997میں لایا گیا تو مولانا نے انتخابی سیاست چھوڑ کر انقلابی سیاست کا اعلان کردیا۔ پھر جب فوج نے نوازشریف کو ہٹایا تو مولانا نے نوازشریف کا ساتھ دیا۔ پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا تو سب سے جاندار مخالفت کی آواز مولانا کی تھی۔ عمران خان نے ریفرینڈم میں ساتھ دیا جیسے جماعت اسلامی نے ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ جنرل مشرف نے ق لیگ کو کھڑا کیا تو اپوزیشن مولانا نے کی۔پیپلزپارٹی نےNROکیا۔ پھر بے نظیر شہید کی گئی تو زرداری کہتا تھا کہ میری لاش جائے گی مگر استعفیٰ نہیں دوں گا۔ مولانا نے ساتھ دیا۔ پھر نوازشریف پر طاہرالقادری اور عمران خان نے لشکر چڑھادیا تو مولانا نے کہا کہ میرا لشکر آیا تو تمہاری خیر نہیں ہوگی۔جب تحریک انصاف سے نکاح ہوا ، پھر طلاق ہوگئی تو عدت گزرنے کے بعد مولانا پھر حلالہ کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔مولانا کا حلالہ حکومت اور اپوزیشن کو ماننا پڑے گا۔
5ماہ قبل قیدی نمبر804کے چہیتےISIکے فیض حمید کے خلاف بڑی کہانی سامنے آئی،اب فوجی ٹرائیل کی بازگشت تازہ ہوگئی ۔ اگر اسلام آباد ٹاپ سٹی کا ثابت ہو کہ اصل مالکن پاکستانی برطانوی شہری تھی ۔ کاروبارMQMکے غنڈوں نے چھین لیا اور معیز خان ایک ملازم تھا۔ پھر12مئی2017کوISIکےGDCجنرل فیض حمید نے معیز خان سے کاروبار چھیننے کیلئے بھیانک ریڈکیاتھاتوپھر پاکستان صحیح سمت چلنا شروع ہوگا۔
س: مریم نواز نے پولیس کی وردی کیوں پہنی ؟ سائرہ بانو نے جواب دیا کہ ” پولیس کو یہ دکھانے کیلئے کہ بہاولنگر کے واقعہ میں جتنے تم مجبور ہو، اتنے ہم مجبور ہیں”۔ پولیس نے کہا کہ ”ہم نے دو ڈاکو پکڑ لئے تو یہ سزا مل گئی کہ تھانوں میں مارپیٹ ہوئی، ہسپتالوں میں بھی نہیں چھوڑا، ننگاکیا گیا ”۔ پولیس نے پاک فوج زندہ باد اور فوج نے پنجاب پولیس زندہ باد کا نعرہ لگایا مگر حقائق سامنے نہ آسکے ۔ مریم نواز نے بے نظیر بھٹو کی نقالی کی تھی جس نے اپنے باپ کی سیاست کیلئے قربانیاں دی تھیں ۔ اسی طرح شہر بانو نے جب اچھرہ لاہور میں خاتون کی جان بچانے میں بہت کردار ادا کیا تو پنجاب پولیس کو عزت مل گئی۔
جنرل فیض حمید نے رینجرز اہلکاروں کے ذریعے اتنی بڑی وارادات کی تھی اور عمران خان نے بشری بی بی کی رپورٹ پر جنرل عاصم منیر کوDGISIکے عہدے سے فارغ کیاتھا تو یہ انتقامی کاروائی نہیں بلکہ اس میں بڑا دم خم ہے۔ اگر ٹاپ سٹی میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں تو لوگوں کو اپنی زمینیں مل جائیں۔ خاتون مالکن مظلوم کو انصاف مل جائے۔ جنرل فیض حمیدکو سزا ملے تو پاکستان بھر میں ہر جگہ ظالم ظلم سے توبہ کریں گے۔ پاکستان میں یہ بھی ممکن ہے کہ جنرل فیض حمید کو ٹرائیل کرنے کیلئے فوجی ملازمت پر بحال کیا جائے۔ عمران خان وزیراعظم بن جائے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ہٹاکر پھر جنرل فیض حمید ہی کو آرمی چیف بنادیا جائے۔ جنرل باجوہ کو توسیع دینے سے پہلے سارے جنرلوں کو اسی قانون ہی کے تحت مدت ملازمت میں توسیع دی گئی تھی کہ نہیں؟۔
جب طالبان منظم اور ٹرینڈ نہیں تھے توGHQتک پر قبضہ کرلیا تھا۔ISIدفترملتان ، مہران ائیربیس، کراچی ائیر پورٹ اور پشاور ائیرپورٹ سے لیکر کیا کچھ نہیں کیا؟۔سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو ملتان اور سلمان تاثیر کے بیٹے کو لاہور سے اغواء کرکے افغانستان پہنچادیا گیا تھا۔ پاکستان پر ڈالروں کی برسات جاری تھی لیکن اب طالبان ٹرینڈ ہیں اور پاکستان کی معاشی حالت ابتر ہے۔ چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی کہہ رہاہے کہ طالبان سے مذاکرات کریں۔
مولانا فضل الرحمن نے2007میں طالبان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا۔ لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں یہ خبر کسی نے بھی شائع نہیں کی ۔ ایک مرتبہ حامد میر نے بھی مولانا فضل الرحمن کو دھمکی دی تھی کہ اسامہ بن لادن نے کہا کہ ”میں مولانافضل الرحمن کو نہیں چھوڑوں گا”۔ پھر اب جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی مقبولیت تھی تو حامد میر نے کہا تھا کہ بلوچ مسنگ پرسن کی لسٹ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے مانگی ۔ میں نے50ایسے بلوچ مسنگ پرسن کی لسٹ دیدی جن میں صحافی ، طلبہ اور ادیب تھے تو فوج نے ان سب کو قتل کرکے پھینک دیا۔ رانا ثناء اللہ نے اس وقت تو جواب نہیں دیا لیکن الیکشن کے بعد حامد میر کی اس بات کو جھوٹ قرار دے دیا اور چیلنج کیا کہ اپنے جیو چینل کے صحافیوں کو تحقیقات کیلئے مقرر کردیں۔
سچ اور جھوٹ کے مخلوط نظام صحافت وریاست نے سب کا بیڑق غرق کیا۔ قرآنی اور فطری احکام کے ٹھوس شواہد کی روشنی میں پاکستان کی بچت ہوسکتی ہے ورنہ اب عوام ہی نہیں اپنے مقتدر طبقات کی بھی خیر نہیں ہے۔ مسلسل گرداب میں پھنسنے کا سلسلہ جاری ہے ۔اب خدانخواستہ بھارت پاکستان سے لڑنے اور لڑانے کیلئے ٹریننگ دینے بھی میدان میں اترے گا اور اس اندھی جنگ میں بنگلہ دیش کی طرح ریاست کا برا حشر ہوگا؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

موٹی موٹی باتوں سے مسلمان اپنے مشکل ترین مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

موٹی موٹی باتوں سے مسلمان اپنے مشکل ترین مسائل سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟

اسلام کا معاشی نظام ایک طرف مفت کی مزارعت اور دوسری طرف سود سے پاک تجارت، تیسری طرف اپنے وسائل کا صحیح استعمال، چوتھی طرف مٹی کو سونا بنانے کے طرز پر منصوبہ سازی!

جدید تعلیم سے تسخیر کائنات کا قرآنی فلسفہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ سورج، ہوا ، پانی اور ایٹمی پلانٹ سے بجلی پیدا کرنے کے سستے ترین منصوبے وقت کی اہم ضرورت ہیں جس سے انقلاب آئیگا

شاہد خاقان عباسی ، مصطفی نواز کھوکھر، لشکر رئیسانی ، محمود خان اچکزئی ، ڈاکٹر مالک بلوچ اور لطیف ایاز پلیجو اور تمام کے تمام سندھی ، بلوچ، سرائیکی ، پنجابی اور پشتون قیادت سے اہم لوگوں کو لیا جائے۔ ایک بڑی اور ایسی نظریاتی پارٹی بنائی جائے جس سے نظام کا پہیہ درست سمت چلنے لگے۔
پارٹی ایسے جمہوری اصولوں پر ہو ،جس میں عوام کے حق انتخاب کو درست نمائندگی دی جائے۔ جو پہلے لوگوں کو حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن کرنے کے آداب سکھائے اگر پنڈی اسلام آباد کے ریجن سے عوامی الیکشن ہو اور کوئی نئی قیادت عوام نے منتخب کی ہو تو شاہد خاقان عباسی اور مصطفی نواز کھوکھر منصبوں کا چکر چھوڑ کر صحت مند اپوزیشن کے ذریعے نئے لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں۔ جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ ایک ایک ووٹ سے ہارنے والے بھی نہ صرف ایمانداری سے اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں بلکہ اپنے مدمقابل کو ایک ایسے قائد کی طرح عزت دیتے ہیں جیسے سیاسی پارٹیاں اپنے بانی قائدین کو دیتی ہیں تو ہماری سیاست کی روش پر ا سکا اچھا اثر پڑے گا۔
ایک ایسی فضاء بن جائے کہ کارکن قیادت کریں اور قائد کارکن کی طرح کام کرے تولوگوں میں جمہوریت کی اصلی اور حقیقی روح بیدا ہوگی۔ حضرت خالد بن ولید نے قیادت کا بھی حق ادا کیا اور جب قیادت سے اتارا گیا تو کارکن بن کر بھی وہ کام کیا جو ایک اچھا کارکن کرسکتا ہے۔ قوم اسی سے قوم بنے گی اور ہمیں اپنی قوم کو بنانے کیلئے ایک زبردست کردار ادا کرنا ہوگا۔ امریکہ کے صدر جب اپنے منصب سے ہٹ جاتے ہیں تو بازار میں پھل کی ریڑھی لگانے پر بھی نہیں شرماتے ہیں۔
اگر ٹریفک کا نظام ٹھیک ہوجائے تو بڑے لوگ بھی عوامی بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے سے نہیں کترائیں گے۔ اب تو پاکستان کی سڑکیں موت کے کنویں کی ٹریننگ کراتی ہیں اور یہ خوف لگارہتا ہے کہ کب ٹریفک کی گاڑیاں ایک دوسرے پر خود کش کرتی ہیں اور انسانوں اور مسافروں کا خون بہتا ہے؟۔
پاک فوج کے اہلکاروں کو ایک دفعہ ٹریفک کے نظام کیلئے استعمال کرنا پڑے گا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور جب بگڑے لوگ سدھر جائیں گے تو ٹریفک کا نظام بہت زبردست ہوجائے گا۔ سب سے پہلےNLCکے ڈرائیوروں کو انسان کا بچہ بنانا ہوگا جن سے لوگ اتنے خوف کھاتے ہیں کہ گویا وہ موت کے شکار کیلئے سڑکوں پر نکل کھڑے ہیں۔ امید ہے کہ پاک فوج اپنے ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہوئےNLCکودرست ہدایات جاری کرکے ایک بنیاد فراہم کرے گی۔
سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقہ میں دریائے سندھ کا بڑا ڈیم اور پانی کا ذخیرہ بناکر اس میں بڑے پیمانے پر مچھلیاں چھوڑ دیں تو لوگوں کو اتنا روزگار مل جائیگا کہ اغواء برائے تاوان کو چھوڑ کر اپنے بچوں کو تعلیم وہنر پر لگادیں گے۔ پنجاب اور سندھ کے یہ پسماندہ ترین علاقے ہیں اور پسماندہ لوگوں میں بہت صلاحیتیں ہوتی ہیں اور اقدار کے بھی پابند ہوتے ہیں۔
علماء ، ومشائخ اور دعوت اسلامی وتبلیغی جماعت کو وہاں پر تعلیم بالغاں کی خدمات سپرد کی جائے تو یہاں سے ڈکیٹ نہیں اولیاء اللہ اور علماء کرام پیدا ہوں گے۔ اگر ریاست بھی لاتعلق ہو اور لوگ بھی ان سے نفرت کریں گے تو ان کی حالت کبھی بھی نہیں بدلے گی۔ اگر زکوٰة وخیرات میں ان کو بھی ان کا حصہ دیا جاتا تو ڈکیٹ کی جگہ وہاں اچھے کاروباری انسان دوست لوگ بستے۔ اب یہ لوگوں کو سستی گاڑیوں، مرغوں اور لڑکیوں کا روپ دھار کر بلاتے ہیں اور پھر کئی کئی مہینوں تک یرغمال بناتے ہیں۔ غریب ،متوسط طبقے اور امیر لوگوں سے مال کھینچتے ہیں۔
اسی طرح طالبان کو بھی باعزت روزگار دیا جائے اور ان کو لوگوں پر چھوڑنے اور ریاست کے خلاف استعمال ہونے کے بجائے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشنا س کرایا جائے۔اسی طرح بلوچ شدت پسندوں کو بھی اس خطے کی تعمیر وترقی کیلئے وہ اطمینان بخش مقام دیا جائے کہ بلوچ عوام کوخود اسٹیک ہولڈر سمجھ لیں اور مثبت سرگرمیوں میں لگ جائیں۔ جب پورا بلوچستان ہم نے سمگلستان بنادیا ہے تو وہاں ایک طرف سمگلر ہوں گے اور دوسری طرف پسماندہ نظریاتی کارکن اپنی آزادی کی جنگ لڑیں گے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو اسمگلنگ سے وہ عزت نہیں مل سکتی ہے جو نظریاتی کارکن ، رہنما اور قائد کی حیثیت سے مل گئی ہے۔ ایک لیڈی ڈاکٹر اپنی باعزت نوکری پر سیاسی کارکن اور مشکل حالات میں سیاسی قیادت کو اسلئے ترجیح دیتی ہے کہ وہ اپنی قوم کی مشکلات کو حل کرنا چاہتی ہے۔ آج بلوچستان کا حال ٹھیک نہیں ہے تو کل سندھ کے حالات اس سے بدتر ہوں گے اور پھر پنجاب میں بھی یہ ساری بیماریاں پھیل جائیں گی۔
محمود خان اچکزئی نے درست کہا ہے کہ ہمیں اپنے بلوچ بھائیوں سے ، سندھی بھائیوں سے ، سرائیکی بھائیوں سے اور پنجابی بھائیوں سے شکوہ ہے کہ ہم پشتون چالیس سالوں سے بارود ، جلاوطنی، ڈرون اور جیٹ جہازوں کی بمباری کے اندر مشکلات کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن انہوں نے ہمارے لئے کبھی احتجاج نہیں کیا ہے۔ لیکن وہ بیچارے تو احتجاج کیا کرتے وہ تو پشتون قوم پر رشک کررہے تھے کہ عالمی قوتوں کو شکست دے رہے ہیں۔ وہ تو سمجھ رہے تھے کہ پشتون امریکی غداروں کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔ ان کو کیا پتہ تھا کہ پشتون کو جب موقع ملتا ہے تو وہ اپنے پشتون بھائیوں کو مارنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
محسود قوم نے طالبان کی شکل میں بیٹنی قوم کو مارا اور پھر بیٹنی قوم نے طالبان کی شکل میں محسود قوم کو مارا۔ عزیزواقارب بھی ایک دوسرے کو ماررہے تھے۔دشمن اور عزیز اقارب کے حوالے سے پختون قوم کا ماحول کیسے اچھائی میں بدل سکتے ہیں جب خواتین کے حوالے سے اسلام اور پشتو کے نام پر عورت کو انسانیت اور بنیادی حقوق سے محروم رکھاجائے؟۔ افغانستان کے طالبان سے دنیا اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتی ہے بلکہ وہ افغان خواتین کیلئے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے لیکن طالبان جس اسلام اور جس پشتون ولی کے ماحول میں رہتے ہیں وہ حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ ایک اعلیٰ نسل یا ادنیٰ نسل کے کتے اور جانور کو بھی جب تک ایک خاص تعلیم وتربیت نہیں ملتی ہے تو وہ اچھے چال چلن سے محروم ہوتا ہے اور انسان جب اچھی تعلیم وتربیت سے محروم ہوتا ہے تو وہ جانور سے بدتر ہوتا ہے۔ قرآن نے اس کی نشاندہی بھی کردی ہے۔
پاکستان میں بلوچ، سندھی اور پشتون کے مقابلے میں ہمارے پنجابی بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم وتربیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اور پاک فوج اور پنجاب پولیس کو بڑا اعلیٰ مقام حاصل ہے۔
حال ہی میں بہاولنگر پولیس اور پاک فوج کے درمیان جو تنازعہ اور جھگڑا ہوا ہے اس سے معاشرے کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ پولیس نے عوام الناس کیساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھنے کا وطیرہ بنایا ہوا تھا، پھرSSGفوجی کمانڈو کے گھر کے ساتھ بھی وہی کیا تو پاک فوج نے بہاولنگر تھانوں کی پولیس کیساتھ وہ کیا جس کی تاریخ میں شاید کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
مارکٹائی کیساتھ ساتھ ان کی ویڈیوز بھی وائرل کردی گئیں تاکہ پنجاب اور ملک بھر کی پولیس اور عوام یاد رکھے کہ ایسا بھی ہوتا ہے؟۔ لگتا یہ ہے کہ9مئی کو جناح ہاؤس لاہورکور کمانڈر کے گھر ، میانوالی ،GHQاور کرنل شیر خان شہید سمیت ملک بھر میںPTIکے کارکنوں نے جس طرح کا ردِ عمل دیا تھا اور پاک فوج نے باقاعدہ اظہار بھی کیا تھا کہ آئندہ اس قسم کوئی حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔ پاک فوج نے اس کا بدلہ پنجاب پولیس سے بہاولنگر میں لے لیا ہے۔ پنجاب پولیس کی شاید اس میں غلطی بھی نہ ہو لیکن پنجاب پولیس نے بھی بہت سارے بے گناہوں کو ایسا رگڑادیا تھا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ہمیں آگ کو بڑھاوا دینے کے بجائے حقائق کے تناظر میں معاملات کو حل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
جناح ہاؤس لاہور کے ایک قیدی کی ویڈیو واٹس ایپ پر وائرل کی گئی تھی جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ ” میری شلوار نکال کر پیچھے سے ٹیوب ڈالی گئی جس سے بہت شدید جلن ہوئی”۔ اس ویڈیو کو دیکھ کر1سیاسی کارکن سے بہت لوگوں کو انسانی ہمدردی ہوسکتی ہے لیکن جب کورکمانڈر ہاؤس پر دھاوا بول دیا گیا تھا تو اس کی سزا بھی بنتی تھی۔ اگر لوگوں کو اجازت دی جائے تو پھر یہ حقیقت ہے کہ شرپسند عناصر سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
گناہگاروں کیساتھ جو ہونا تھا وہ ٹھیک ہوا لیکن بے گناہ کیوں رگڑے میں آگئے؟۔ اس کی بھی ایک وجہ تھی کہPTIکا رہنما، کارکن اور ہمدرد پہلے پاک فوج سے جتنی محبت رکھتاتھا تو بھی مثالی تھی اور جب معاملہ الٹ ہوگیا تو بغض بھی مثالی تھا۔ جب مریم نواز کے ہوٹل کا دروازہ توڑا گیا تھا تو سندھ پولیس نے استعفیٰ دینا شروع کردیا۔PTIکے ہمدرد کہہ رہے تھے کہ پاک فوج کو چاہیے کہ سندھ پولیس ہی نہیں پورے پاکستان کی پولیس کی چھٹی کرکے تھانوں میں خود بیٹھ جائے۔ پولیس ظالم ہے اور پاک فوج خود انصاف فراہم کرسکتی ہے۔ پولیس کا رویہ بھی ٹھیک نہیں ہوتا ہے لیکنPTIکے کارکنوں کی پاک فوج سے لازوال محبت دیدنی ہوا کرتی تھی۔ پھر جب اس محبت کا پانسہ پلٹ گیا تو پاک فوج کی ساری اچھائیاں برائیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ عمران خان نے میرجعفر اور میر صادق کا نام لیا اور پھر کہا کہ میری مراد پاک فوج کی قیادت نہیں تھی بلکہ سیاسی قیادت زرداری اور شہباز شریف کو یہ القاب دے رہا تھا لیکن ارشد شریف شہید نے عمران خان کی محبت میں ملک کے کونے کونے سے16مقدمات کا سامنا کیا۔ آخر کار دیار غیر میں وہ جان کی بازی بھی ہارگئے مگر اپنے مؤقف سے باز نہیں آئے ۔
عمران ریاض خان کا پیمانہ بھی الٹ گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے بھی معافی مانگ لی۔ مولانا فضل الرحمن پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جھوٹا الزام لگایا تھا تو مولانا سے بھی معافی طلب کرنی چاہیے۔ جب اسد علی طور نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے انٹرویو لیا تو مسلم لیگ ن کی ہمدردیاں ختم ہوگئیں کہ بلو چ باغی کو اہمیت کیوں دی ؟۔ پھر اسدطور کھڈے لائن لگا دیا ہے۔
محلہ داری سے لیکر قوموں ،قبیلوں اور ملکی سطح پر ایسا ہلا بول دیا جاتا ہے جس طرح پاک فوج کے اہلکاروں نے بہاولنگر میں پنجاب پولیس کیساتھ کیا ہے لیکن اصل معاملہ نظر انداز کرنے کے لائق نہیں ہے۔ صحافی عمر چیمہ نے بتایا کہ پولیس نے ناکہ لگایا تھا اور ایک موٹر سائیکل سوار کو ڈاکو کے خطرناک علاقہ سے پکڑلیا جس سے اسلحہ پکڑا گیا اور دوسرا موٹر سائیکل والافرار ہونے میں کامیاب ہوا جس کا پیچھا کیا تو وہ فوجی افسر کا گھر تھا اور وہاں پولیس کو یرغمال بنالیا گیا۔ پھر پولیس نے اپنا سخت رد عمل دکھایا اور فوجی اہلکاروں کو تھانے میں بند کردیا۔ پھر فوج کی طرف سے ردعمل میں پولیس پر تشدد کیا گیا۔ پولیس کے خلاف پرچہ کٹ گیا لیکن فوجی اہلکاروں کے خلاف پرچہ نہیں کٹا۔
پولیس کی طرف سے یہ آڈیو وائرل ہورہی ہے کہ دو فوجی ڈاکو کیساتھ برا سلوک کرنے پر ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے اور اس بات کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔ جب سکیورٹی اہلکار پولیس اور فوجی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں تو پھر اس ملک کو بچانا بہت مشکل ہے۔ عوام سے لیکر خواص تک ، سپاہیوں سے لیکر افسران تک اور اداروں سے لیکر سیاسی پارٹیوں تک کا ضمیر جب مرجائے تو ایک بڑے انقلاب کی ضرورت پیش آتی ہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
ہماری مین اسٹریم میڈیا تک رسائی نہیں ہے۔ پولیس اور فوج سے لیکر سرکار کے تمام اداروں میں بہت اچھے لوگ موجود ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں ، رہنماؤں اور قائدین میں اچھے لوگ ہیں۔ سب کی خوبیاں اب خامیوں میں اسلئے بدل رہی ہیں کہ اس نظام میں بہت زیادہ خرابیاں ہیں۔ چاپلوسی کی انتہاء کرنیوالے صحافتی اداروں کو نوازا جائے گا تو اخلاقیات کی تباہی نہیں ہوگی تو پھر کیا ہوگا؟ سارے میڈیا کو ببانگ دہل اس بات کی ضرورت تھی کہ بہاولنگر واقعہ کے حقائق کو عوام الناس کے سامنے لایا جائے اور اصل مجرموں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔ مٹی پاؤ کی پالیسی سے یہ ملک تباہی کی طرف جائیگا۔
مذہبی شخصیات ، مسالک اور فرقوں کو ایک دوسرے سے قریب لایا جائے۔ سیاسی پارٹیوں میں دوری کی فضاء ختم کردی جائے۔ غلطیوں کو برملا مانا جائے اور سرعام توبہ کی جائے۔ اس ملک وقوم میں جزا وسزا کا یکساں قانون بنایا جائے۔ رسم رواج اور طاقتوروں کا لحاظ کرنے کے بجائے جس کی زیادہ ذمہ داری ہو تو اس کو زیادہ بڑی سزا دی جائے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے لیکن اسلام کے رکھوالوں نے اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے۔
اگر بیداری کی لہر نہیں دوڑائی گئی تو پھر ملک وقوم کی موت واقع ہوجائے گی۔ اب مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے جب بھی ملک کو قرضہ ملتا ہے تو اشرافیہ کے اللے تللے بڑھ جاتے ہیں اور عوام پر مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔ اگر عوام آپے سے باہر ہوگئی تو پھر کوئی سیاسی قیادت، ادارہ اور مذہب اس کو سہارا نہیں دے سکے گا اسلئے ہمیں اصلاحِ احوال کی طرف آنا پڑے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

فلسطین : فلس(پیسہ)جمع فلوس ،طین (مٹی) بچوں اورخواتین کو مرواکر پیسہ بٹورنے کا نام

فلسطین : فلس(پیسہ)جمع فلوس ،طین (مٹی) بچوں اورخواتین کو مرواکر پیسہ بٹورنے کا نام

اسرائیل کے وجود سے بہت پہلے جب بیت المقدس عیسائیوں کا مرکز تھا تو اللہ اپنے بندے رسول اللہ ۖ کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جہاں کا ماحول بڑابابرکت تھا

اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھاجس کا معنی اللہ کا بندہ۔ آج اسرائیل بیت المقدس کو اپنے مذہبی رنگ میں رنگ رہا ہے اور سعودی عرب اپنی حکومت کو مغرب سے رنگ رہا ہے

آج دنیا میں بڑا مسئلہ فلسطین ہے۔ دوسرا شیعہ سنی تنازعہ ہے۔ تیسرا مذہبی و سیکولر طبقات کے درمیان چپقلش ہے۔ چوتھا مسالک کے درمیان قرآن وسنت پر لڑائی ہے۔ ……….
جب برصغیر پاک وہند میں ہندو مذہب اپنے ویدوں اور مسلمان قرآن سے ہٹ گئے تو بابا گروہ نانک نے نئے الہامی مذہب کی بنیاد ڈالی ،پھر30لاکھ سکھوں نے7کروڑ لوگوں پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ جن میں مسلمان اور ہندو شامل تھے۔
آج اسرائیل فلسطین پر مظالم کے پہاڑ ڈال رہاہے لیکن مسلمان بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے اسلئے کہ اسرائیل کی پشت پر امریکہ اور مغربی ممالک کھڑے ہیں۔ افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ کیا گیا تو بھی مسلم ممالک مغربی ممالک کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے۔
فلس عربی میں پیسے و کرنسی کو کہتے ہیں جس کی جمع فلوس ہے اورطین مٹی کو کہتے ہیں۔ فلسطین کے معنی کرنسی کی مٹی ہے۔ جب مسلمان اپنی زمینیں فلسطین میں یہودیوں کو بیچ رہے تھے تو یہود اپنے مذہب کیلئے قربانی دے کر زمینیں بہت مہنگی قیمت میں ہی خرید رہے تھے اور مسلمان مہنگی قیمت وصول کرکے اپنی زمینوں کو بیچ رہے تھے۔ یہود محنت کرکے زمینوں کو آباد کررہے تھے مگر مسلمان امام مہدی کی توقع پرہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے تھے۔ عبدالغفار خان نے فلسطینیوں کو پٹھانوں کی طرح قرار دیا تھا۔
علامہ اقبال نے مسلمانوں کو جگانے کیلئے بہت نصیحت کی کہ ”تو خود تقدیر یزداں ہے” مگر کسی نے کان نہیں دھرے، ہم نے اسلام کے نام پر ہندوستان کو تقسیم کردیا،پھرآدھا پاکستان بھی ہاتھ سے نکل گیامگر کوئی سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
جب امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا تو پاکستان اور ایران نے کیا کردار ادا کیا؟۔ سنی اور شیعہ دونوں امریکہ ہی کیلئے استعمال ہوگئے۔ پاکستان اور ایران سے فلسطین کیلئے کسی قسم کی کوئی توقع رکھنا دل بہلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پاک فوج کی چھاؤنیوں کے پاس انگریز دور میں لال کرتیاں بنائی گئی تھیں جن میں غریب نائی، دھوبی، موچی وغیرہ رہائش پذیر ہوتے تھے اور فوج کے افسروں و سپاہیوں کو خدمات مہیا کرتے تھے۔ جیسے بڑے شہروں میں غریبوں کی کچی آبادیاں ہوتی ہیں اور وہاں سے امیر طبقے کومزدور، چوکیدار اور ماسیاں ملتی ہیں۔
فلسطین دو حصوں میں تقسیم ہے۔ بیت المقدس کے پاس فلسطین کا بڑا حصہ ہے اور غزہ کی پٹی فلسطین کا چھوٹا حصہ ہے۔ جب1948میں عسقلان شہر میں مسلمان اپنا گھر بار، زمینیں اور کاروبار بیچ باچ کر مکمل طور پر چلے گئے تو اسرائیل نے اس کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا ۔اس سے پہلے بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی اکثریت اس شہر میں موجود تھی ،عسقلان غزہ کی پٹی کے بالکل قریب ہے،عسقلان میں شراب وکباب اور فحاشی کی سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمانوں نے وہاں سے جانا پسند کیا تھا۔
غزہ کی پٹی سے مسلمانوں نے ایک طرف یہودیوں کے ہاں کلاس فور ٹائپ کی نوکریاں تلاش کرنی شروع کیں اور پھر دوسری طرف اچانک بڑے پیمانے پر حملہ کر کے اسرائیل کے یہودیوں کو موقع فراہم کردیا کہ اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے عالم انسانیت اور مسلمانوں کا ضمیر چیلنج کردے۔ عیسائی ممالک میں طاقت ہے لیکن وہ اسرائیل کیساتھ کھڑے ہیں اور مسلمانوں کا دل خون کے آنسو روتا ہے مگر طاقت نہیں رکھتے۔
آج اگر اسرائیل اعلان کردے کہ مفتی محمد تقی عثمانی وغیرہ کو جہاد کیلئے ہم غزہ جانے کی اجازت دیتے ہیں یا خود ہی پہنچا دیتے ہیں تو صورتحال بہت واضح ہوجائے گی لیکن ایک طرف سودی بینکاری سے اسلامی بینکاری کے نام پر مسلمانوں کو مکمل غلامی کی طرف دھکیلا جارہاہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کا خون بہا کر انسانیت کے ضمیر کو مارا جارہا ہے۔ آج عیسائیوں کو اپنے بیت المقدس اور حضرت عیسیٰ و حضرت مریم کے خلاف یہود کے گھناؤنے عزائم پر غیرت نہیں آرہی ہے تو کل جب وہ مدینہ اور مکہ پر قبضہ کرلیں گے تو مسلمانوں کیلئے کیوں غیرت آئے گی؟۔ عالمی اسلامی خلافت کے قیام کا خوف اہل مغرب کے دلوں میں چھایا ہواہے اسلئے وہ مسلمانوں کو انکے مراکز مکہ ومدینہ سے محروم کرنے کے درپے ہوگئے ہیں۔
وزیرستان میں ایک ایسی قوم یا قبیلہ یا شاخ ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ”وہ کسی کی بھی زمین پر اپنی حق ملکیت کا دعویٰ کرنے کیلئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہاں ہمارے اجداد کی بیٹھک رہی ہے”۔ ایک طرف مسلمانوں کی روایات میں ہے کہ کچھ عرصہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہاہے اور پھر انہوں نے اپنا رخ اللہ کے حکم سے کعبہ شریف کی طرف پھیر دیا۔اس بنیاد پروہ بیت المقدس کو اپنا قبلہ اول قرار دیکر اس پر اپناہی حق سمجھتے ہیں۔پھر بات یہاں تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ وہ تمام غیر مسلم افراد کی بیگمات کو بھی چھین لینے اور ان کو اپنی لونڈیاں بنانے کا شرعی حق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حال یہ ہے کہ افغانستان و دیگر ممالک میں مسلمان اپنی خواتین کی عزتیں نہیں بچاسکے ہیں اور اگر معاملات بگڑگئے تو بہت خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
شیعہ سنی تنازعہ اس حد تک ہوتا کہ انصار وقریش میں جب مسئلہ خلافت پر اختلاف جائز تھا اور پھر خاندانی بنیادوں پر یزید اور بنوامیہ وبنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کا قبضہ رہا تھا تو حضرت علی اور آپ کے خانوادے کا خلفاء راشدین ابوبکر، عمر اور عثمان سے بھی زیادہ حق تھا تو بات بالکل جائز اور قابل فہم ہے اسلئے کہ جب انصار خلافت سے اس بنیاد پر محروم ہوگئے کہ قریش نہیں تھے تو باقی قریش کے مقابلے میں علی کے حق کی بات بھی اسلامی تعلیمات اور صحابہ کرام کی ذہنیت کے خلاف نہیں ہے۔
البتہ جب مسلمانوں کے اقتدار کی نفی کردی جائے کہ علی کی جگہ کفار نے خلافت پر قبضہ کرلیا تو پھر اللہ نے جو اہل ایمان سے وعدہ کیا تھا اور اہل ایمان صرف اہل بیت اور چند صحابہ تھے اور میرے نصیب کی بارش کسی اورکے چھت پر برس گئی تو اس سے قرآن اور اسلام کی بالکل نفی ہوجاتی ہے جس میں اہل بیت نہ صرف مظلوم بلکہ شریک جرم بھی جاتے ہیں۔ حسن اللہ یاری کا اپنا شجرہ معلوم نہیں اور دوسروں سے تعارف کو ضروری سمجھتا ہے لیکن اس کو شیعہ بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ قرآن سے دُوری ہے اور قرآن سے دوری کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عام مسلمان اس کے مجرم اور قصور وار ہیں۔ غلام احمد پرویز اور مولانا طاہر پنج پیری کے شاگرد لوگوں کو قرآن کی طرف دعوت دیتے ہیں لیکن اسکے باوجود بھی امت مسلمہ راہِ ہدایت کی طرف نہیں آسکتی ہے اسلئے کہ اصل معاملہ قرآن کی معنوی اور لفظی تحریف ہے۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے لکھاہے کہ ” قرآن کی معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لفظی بھی ہوئی ہے یا تو انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے یا مغالطہ سے ”۔ اس پر قاضی عبدالکریم کلاچی نے مفتی فرید اکوڑہ خٹک سے سوال پوچھا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔
قرآن میں لفظی تحریف کی مثال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ نے زانیہ اور زانی کیلئے100،100کوڑوں کی سزا کا حکم دیا ہے، علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے کہ آیت رجم الشیخ والشیخة اذا زنیا فرجموھما ”جب بوڑھا اور بوڑھی زنا کریں تو دونوں کوسنگسار کرو”سورہ احزاب میں تھی اورسورہ بقرہ جتنی سورہ احزاب بھی تھی۔ پھر کم ہوتے ہوتے آدھی رہ گئی۔
ابن ماجہ میں ہے کہ آیت رجم اور بڑے شخص کا کسی عورت کا دودھ پینے پر رضاعت ثابت ہونے کی آیات نبی ۖ کے وصال کے وقت چارپائی کے نیچے پڑی تھیں اور بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ (کتاب رضاعت کبیرابن ماجہ)
علامہ غلام رسول سعیدی نے نعم الباری شرح صحیح البخاری کتاب الخلع میں یہ بھی لکھا ہے کہ ” شافعی مسلک کے معروف عالم کے نزدیک آیت خلع سورہ بقرہ:229منسوخ ہوگئی ہے سورہ النساء آیت:20آیت طلاق کی وجہ سے ”۔
مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان اور مفتی ولی حسن ٹونکی مفتی اعظم پاکستان نے لکھا ہے کہ ” سورہ النساء میں اللہ نے عورتوں پر فحاشی کے ارتکاب میں چار گواہوں کے بعد گھروں میں بند رکھنے کا حکم دیا ہے تو اسی سے سنگساری کا حکم ثابت ہوتا ہے”۔
قرآن کے تراجم اور تفاسیر ایسے کئے گئے ہیں کہ علماء کرام کو خود بھی ان سے راہ ہدایت نہیں ملتی ہے اسلئے وہ امام مہدی کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ آئیں گے تو ہدایت نصیب ہوگی۔

شریعت اور بربریت
جب تک قرآن کی درست تعلیمات کو فروغ نہیں بخشیں گے اس وقت تک مسلمانوں کے اپنے حالات بھی نہیں سدھر سکیں گے اور غیر مسلم بھی اسلام اور مسلمانوں کے دشمن رہیں گے اسلئے بہت ضروری ہے کہ عالم اسلام کے مسلمانوں کو ہمارا باشعور طبقہ قرآن وسنت کو سمجھ کر جاہلیت سے نکال باہر کرے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں چند وضاحتیں کردی ہیں۔
1: وانزلنا الکتاب تبیانًا لکل شئی ” اور ہم نے کتاب کو نازل کیا ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔
2:ولوکان من عندغیراللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا ”اور اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں وہ بہت سارا اختلاف (تضادات) پاتے”۔
3: وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہٰذا القراٰن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ”۔
4:قل انی انا النذیرالمبینOکما انزلنا علی المقتسمینOالذین جعلوا القراٰن عضینOلنسئلنھم اجمعینO” کہہ دو کہ میں کھلا ڈارنے والا ہوں۔ جیسا کہ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے بٹوارہ کرنے والوں پر۔ جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا ۔ہم ضرور ان سب سے پوچھ لیں گے”۔
ہمارے ہاں کی فرقہ واریت اور مسلک سازی کے نام پر تباہ کاری اور ہلاکت خیزی کی مِلیں اور فیکٹریاں بن گئی ہیں۔ شیعہ سنی، حنفی شافعی ، مقلدو غیر مقلد اور اہل حدیث واہل قرآن کے نام پر بہت سارے فرقے اور مسالک نے اسلام کا بیڑہ غرق کردیا ہے اس کی ایک ادنیٰ مثال سمجھنے کی کوشش کریں!

نکاح وطلاق میں کھلواڑ
اللہ تعالیٰ نے نکاح اور طلاق کے مسائل قرآن میں واضح انداز میں بیان کئے ہیں لیکن نکاح وطلاق کے حوالے سے ہمارا مسلمان عورت کیساتھ اسلام کے نام پر جتنے مظالم روا رکھتا ہے اور جس طرح کے ظالمانہ وجابرانہ مسائل ایجاد کئے ہوئے ہیں ان کا تصور بھی بہت بھیانک ہے۔ جب ایک پٹھان اپنی بساط سے بڑھ کر20،25لاکھ میں ایک بیوی خرید لیتا ہے تو پھر اس کیلئے ناممکن بن جاتا ہے کہ وہ یہ تصور بھی رکھے کہ اس کو خلع کا حق دے۔ اگر ایسا ہوگا تو پھر لوگ عورت کو کاروبار بناکر پیسے بٹوریںگے اور نکاح وخلع کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اسلئے وہ ایک ہی بار میں سودا کرلیتے ہیں۔ ابھی بعض لوگوں نے یہ بھی سلسلہ شروع کردیا ہے کہ لڑکی کو بیچ کر کئی کئی بار واپس لینے کیلئے اور بار بار بیچنے کو دھندہ بنالیا ہے۔ پنجاب میں جہیز بھی دیا جاتا ہے اور حق مہر بھی برائے نام ہوتا ہے لیکن عورت کو پھر بھی خلع کا حق حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ایک شوہر جب چاہتا ہے تو زندگی بھر کیلئے عورت کو بسانے اور طلاق دینے سے محروم رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ عورت کیساتھ اسلام کے نام پر وہ ظلم وجبر ہوتا ہے جو فلسطین اور کشمیر کے مسلمان یہود اور ہندو سے اس طرح کا ظلم وجبر روا رکھنے کا چتصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ جب میاں بیوی راضی ہوتے ہیں تو پھر پٹھان اور پنجابی کے غلط رسومات خاطر میں نہیں لائے جاتے ہیں لیکن جب معاملہ لڑائی جھگڑے اور طلاق تک پہنچ جاتا ہے تو پھر ان ظالمانہ وجابرانہ مسائل کا تصور سامنے آتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک اور مذہب میں اس کا تصور بھی کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ عورت کو بلیک میل کرکے خلع کے نام پر اس سے منہ مانگی رقم بٹوری جاسکتی ہے۔ اس کو طلاق نہ دینے کی صورت میں زندگی بھر رلایا جاسکتا ہے۔ باپ اپنی کم سن لڑکی کا نکاح کرے تو بلوغت کے بعد بھی اس کی مرضی سے چھٹکارا نہیں ملتا ہے۔ باپ کے علاوہ کوئی کم سن لڑکی کا نکاح کردے تو بلوغت کے فورًا بعد اس کو اختیار مل جاتا ہے لیکن بر وقت اس کو معلوم نہ ہو اور اپنے اختیار کا استعمال نہ کرے تو زندگی بھر وہ حق سے محروم ہوجاتی ہے۔ اگر زبردستی سے اس کا نکاح کیا جائے اور اس کا کوئی عربی خاندان نہ ہو تو اس کیلئے شوہر سے طلاق لئے بغیر چارہ نہیں ہے ۔اگر شوہر3طلاق دے اور مکر جائے تو عورت کیلئے2گواہ لانا لازم ہیں۔ اگر گواہ نہ ہوئے تو عورت کو خلع لینا لازم ہے لیکن شوہر خلع نہ دے تو عورت حرام کاری پر مجبورہے ۔پھر وہ مباشرت میں لذت نہ اٹھائے ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

افغانستان پر امریکی ڈرون پرواز وں کی بازگشت سے تیسری عالمی جنگ کے خطرات ہیں؟

افغانستان پر امریکی ڈرون پرواز وں کی بازگشت سے تیسری عالمی جنگ کے خطرات ہیں؟

افغانستان کی سرزمین پر روس اور امریکہ کے بعد چین نے بڑ ے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کردیا ہے تو کیا اب روس و امریکہ کے بعد تیسری عالمی طاقت چین کیخلاف جنگ ہوگی؟

پاکستان کا پلیٹ فارم افغانستان میں تیسری بار چین کے خلاف استعمال ہوگا تو افغان طالبان اور پاکستان کی فوج کو شدید خطرات کا سامنا ہوگا اسلئے باہمی صلح و اصلاح کا ماحول قائم کرنا ہوگا

جب امریکہ نے روس کے خلاف جہاد کے نام پر پاکستان کو استعمال کیا تو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر ہمارا مقدر ٹھہر گیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اس وقت افغان جہاد کو پاکستان کیلئے سونے کی چڑیا قرار دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کو افغان جہاد کا مخالف اور مولانا سمیع الحق شہید ومولانا عبداللہ درخواستی کو حامی سمجھاجاتا تھا۔ خاموش مجاہدISIچیف جنرل اخترعبدالرحمان نے اپنے بیٹوں کے نام پر اس وقت آف شور کمپنیوں کے نام پر کروڑوں ڈالر بیرون ملک رکھے ہوئے تھے۔ جماعت اسلامی کو جہاد کی وجہ سے واحد ایماندار اور جمہوری پارٹی قرار دیا گیا۔ حالانکہ میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے اس کواپنا ماموں بنایا تھا۔
گلبدین حکمت یار کو ہمیشہ پروامریکہ اور پرو پاکستان پیش کیا گیا اور باقی مجاہدین لیڈر شپ کو میدان میں لڑایا گیا لیکن ان پر کبھی اعتماد نہیں کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن اپنے باپ مفتی محمود کے فوت ہونے کے بعد سے ہمیشہ یہ کہتا رہاہے کہ پاک فوج ہماری آنکھوں کی پلکیںہیں جو زینت اور حفاظت کا واحد ذریعہ ہیں لیکن پلکوں کا ایک بال بھی آنکھیں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتیں تو ساری پلکیں آنکھوں میں کیسے برداشت ہوسکتی ہیں؟۔ مولانا نے ہمیشہ پاک فوج کے خلاف جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا۔MRD،MMAاورPDMتک ہمیشہ اس کے خلاف سیاسی جدوجہد کی جو سیاسی جماعت پاک فوج کیلئے کٹھ پتلی کا کردار ادا کررہی تھی۔ اگر مولانا فضل الرحمن کو آج کہیں سے وزیراعظم کی پیشکش آجائے تو قبول نہیں کریں گے۔ آج وہ عمران خان کیساتھ تلخ مخالفت کی یاد گار کو بھلاکر اپوزیشن بھی کرسکتے ہیں لیکن عمران خان کے نام جب قرعہ نکلے گا تو اس پر یہ اعتماد کرنا مشکل ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کرے گا۔
عمران خان اور مولانا فضل الرحمن دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل پرویزمشرف کی طرح امریکہ کا آلہ کار بن کرہم کوئی کردار ادا نہیں کریں۔ حالانکہ دونوں پرویزمشرف کیساتھ ظاہروباطن میں اچھے تعلقات کیلئے بھی بدنام تھے لیکن ق لیگ کے خلاف دونوں ایک ساتھ کھڑے تھے۔ اپوزیشن و حکومت آج اگر دونوں مل جائیں تو بھی استحکام نہیں آسکتا ہے اسلئے کہ سیاسی استحکام کیلئے معاشی استحکام ضروری ہے اور معاشی استحکام کیلئے پڑوسی ممالک چین، افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی بہت سخت ضرورت ہے۔ جب بھی اس طرف قدم اٹھنے کو ہوتا ہے تو ہمارے اندر کسی نہ کسی طرح کوئی غیرت کے نام پر بے غیرتی کو جگاتا ہے۔ بھارت کیساتھ بھی اچھے تعلقات ضروری ہیں۔ دوبئی بھارت کیساتھ سمندر میں جو بہت بڑی قیمت پر سرنگ بنارہاہے اور ہم ایک کلچر وپڑوسی سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے تو کشمیر کے نام پر ہمیں امریکہ ہی لڑاتا ہے۔ ہندوستان کی چین ، ایران ،دوبئی اور سعودی عرب کیساتھ بڑی تجارت ہے مگر پاکستان سے نہیں۔ ایران و سعودیہ کے تعلقات درست ہوگئے لیکن ہم ایران سے تیل وگیس نہیں لے سکتے۔ بھارت افغان طالبان سے اچھے تعلقات رکھ سکتا ہے۔ چین افغان طالبان سے اچھا تعلق رکھ سکتا ہے لیکن صرف پاکستان چین، افغانستان اور ایران سے اچھے تعلقات نہیں رکھ سکتا ہے؟۔ امریکی صدر فلسطین پر رحم نہیں کھاتا لیکن پاکستان کا ماما بنتا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کو اسلئے حکومت سے باہر کیا گیا کہ امریکی مفادات کیلئے پاکستان استعمال نہیں ہوسکتا تھا۔ پنجاب اور سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں سے جب وزیراعظم شہباز شریف اور صدر زرداری لڑنے کو تیار نہیں ہیں تو امریکی جنگ کیلئے کس طرح دونوں نے لنگوٹ باندھ لی ہے؟ جو اترسکتی ہے۔ طالبان بھی کھلم کھلا اعلان کریں کہ ہم نے کسی صورت بھی نہیں لڑنا ہے ورنہ پاک فوج اور افغان طالبان کو تباہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی ۔ اللہ سب کی حفاظت فرمائے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امریکہ نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو کسی طرح بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ایٹمی پاور ہے، چین سے قریبی تعلق ہے اس کی فوج پریشان کرسکتی ہے۔ اس کو ترقی اور مسلم ممالک کی قیادت نہیں کرنے دینی!

امریکہ نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو کسی طرح بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ایٹمی پاور ہے، چین سے قریبی تعلق ہے اس کی فوج پریشان کرسکتی ہے۔ اس کو ترقی اور مسلم ممالک کی قیادت نہیں کرنے دینی!

امریکی مصنف نے پاکستان کو تباہ وبرباد رکھنے کی وجوہات بیان کی ہیں۔معاشی وسیاسی عدم استحکام کیساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی دنیا اور اپنی عوام کی نظروں سے گرانے کی منصوبہ بندی ہوئی تھی

پاک فوج ایسی کمزور منّی نہیں ہے جس کو دوسرے بدنام کرسکیں مگر اپنے کردار کی بدولت اس کو بدنام کیا گیا۔ امریکہ شمالی اتحاد کے علاقہ میں اپنے اڈے بناسکتا تھا مگر پاکستان کو بدنام کرنا تھا!

امریکی مصنف ڈینیل مارکی اپنی کتاب نو ایگزٹ فرام پاکستان میں لکھتے ہیں کہ ہم امریکن پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے اس کی تین بڑی وجوہات ہیں پہلی وجہ پاکستان کا نیوکلیئر میزائل پروگرام اتنا بڑا اور ایکس ٹینسو ہے کہ اس پر نظر رکھنے کے لیے ہمیں مسلسل پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا پڑے گا۔ دوسری وجہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے چین کی سول وملٹری قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں چین پر بھی نظر رکھنے کیلئے پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج ہے کہ نہ صرف ریجن کو بلکہ پوری دنیا کو ڈی سٹیبلائز کر سکتی ہے۔ پاک فوج پر نظر رکھنے کے لیے بھی پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا ضروری ہے وہ مزید لکھتا ہے کہ ہم نے72سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو ڈیویلپ ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور پاکستان کو اسلامک دنیا کو بھی لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کیلئے ہم نے کچھ طریقے اپنائے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اتنا ڈی سٹیبلائز کرو کہ ہم اسے مینج کر سکیں جس طرح اس وقت وہ وہاں پہ بیٹھ کے مبینہ طور پر پاکستان کو مینج کر رہے ہیں اور ڈی سٹیبلائز اس طرح کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی لیڈرز کو خرید لیتے ہیں جن میں پولیٹیکل لیڈرز سول بیوروکریسی کے لیڈرز اور افسران اور اس کے علاوہ جرنلسٹ بھی شامل ہیں اور میڈیا ہاؤسز بھی اس میں شامل ہیں ڈینیل مارکی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے لیڈرز اپنے آپ کو بہت تھوڑی قیمت میں بیچ دیتے ہیں اتنی تھوڑی قیمت کہ انہیں امریکہ جانے کا ویزہ مل جائے یا امریکہ میں ان کے بچوں کو سکالرشپ مل جائے اور اتنی چھوٹی چیز پر وہ پاکستان کے مفادات بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں دوستو یہ تھے کچھ پوائنٹ ڈینیل مارکی کی کتاب ”نو ایگزیکٹ فرام پاکستان” کے کچھ پوائنٹس جس سے آپ کو پتہ چلا کہ امریکہ مبینہ طور پر پاکستان کو کن تین وجوہات کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتا ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے

مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے

جمعیت علماء اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے ، مذہبی کاز کیلئے اقدامات اٹھانے میں ہی اس کی مقبولیت ہے

حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کے خلاف اقدام اٹھایا تھا تو یہ اسلامی خلافت کا پہلا جبر تھا جس کا سامنا رسول اللہ ۖکی وفات کے بعد عوام نے کیا تھا۔ حضرت عمر نے آخری وقت اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ! ہم نبی ۖ سے تین چیزوں کا پوچھتے۔ ایک آپ کے بعد خلفاء کی فہرست۔ دوسری زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال اور تیسری کلالہ کی میراث۔
اہل سنت کے چاروں امام متفق ہیں کہ مانعین زکوٰة کے خلاف قتال نہیں ہے۔ البتہ دیگر مسالک میں بے نمازی کے قتل کا حکم ہے اور انہوں نے زکوٰة کے مانعین کے خلاف قتال کو دلیل بنایا ہے۔ جس کی تردید حنفی مسلک والوں نے یہ کہہ کر کردی ہے کہ جب تمہارے ہاں حضرت ابوبکر کے فیصلے سے اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن میں زکوٰة اور نماز پر قتال کا حکم جاری کیا گیا ہے جس کی تردید میں علامہ غلام رسول سعیدی نے ” تبیان القرآن” میں لکھا ہے اور اگر مولانا فضل الرحمن مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن و مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد تقی عثمانی کو بٹھاکر فیصلہ کریں تو اس کے زبردست نتائج نکل سکتے ہیں۔ داعش اور طالبان خود کش حملے اسلئے کرتے ہیں کہ غلط تفاسیر سے مغالطہ کھاتے ہیں۔
جب صحافیوں سے کہا جاتا ہے کہ افغانستان،پاکستان اور ایران میں الگ الگ شریعت کی گنجائش ہے تو لوگوں کویہ بات ہضم نہیں ہوتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی شریعت میں کیا فرق ہے؟۔ کیا بندوق کے زور کی شریعت الگ اور جمہوریت کی شریعت الگ ہوسکتی ہے؟۔ نہیں بالکل نہیں ۔ہرگز نہیں۔
جنرل ضیاء الحق نے زکوٰة کا آردنینس نافذ کیا تھا جس کی مفتی محمود نے سخت مخالفت کی تھی۔ اگر بینک میں10لاکھ ہوں اور اس پر سال میں ایک لاکھ روپے بینک کی طرف سے سود مل جائے۔ اور بینک زکوٰة کے نام پر25ہزار روپے کاٹ لے ۔ جب اصل رقم10لاکھ بھی محفوظ ہوں اور75ہزار سود کے بھی مل جائیں تو زکوٰة کیسے ادا ہوگی؟۔ اسلئے مولانا فضل الرحمن کہا کرتے تھے کہ ”مدارس اس زکوٰة سے اجتناب کریں۔ یہ زکوٰة نہیں سود ہے اور شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ہے”۔
جب پاکستانی قوم سے زکوٰة کا مسئلہ چھڑادیا گیا ہے تو پھر ہماری معیشت کیسے تباہ وبرباد نہیں ہوگی؟۔ کہاں حضرت ابوبکر کا مانعین زکوٰة کیخلاف قتال اور کہاں ہمارے ملک میں سودی نظام کے ذریعے زکوٰة کا بہت بڑا خاتمہ ؟۔ ذرا سوچو تو سہی!۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے جو مزارعت پر تحقیق کی ہے۔اس کی مولانا فضل الرحمن تائید کرچکے ہیں۔ اگر بھول گئے ہیں تو دوبارہ دیکھ لیں۔ اگر زمین کو جاگیردار طبقہ مزارعین کومفت میں دے تو ہماری معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ جب محنت کش کسانوں میں حوصلہ پیدا ہوگا تو پاکستان کی ساری بنجر زمین کو خود آباد کردیں گے ۔ جس سے لکڑی ، اناج اور پھل کی پیدوار میں اچھا خاصا اضافہ ہوگا اور محنت کشوں کے ذہنی طور پر تندرست بچے سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل بن جائیں گے اور ملک کو چلانے کیلئے باصلاحیت طبقہ میسر آجائیگا۔ اندرون وبیرون ملک یہی طبقہ پاکستان کا نام روشن کرے گا۔ سودی گردشی قرضوں سے ملک وقوم کو چھٹکارا مل جائے گا۔ پاکستان کے اداروں سے بھی اسمگلر طبقے کا خاتمہ ہوجائے گا اور اچھے لوگ آجائیں گے۔
ہرشعبے اور میدان میں صحت مند اور توانا لوگوں کی آمد ممکن ہوسکے گی۔ رسول ۖ نے سود کی آیات نازل ہونے کے بعد مزارعت کو بھی سود قرار دے دیا اور اس پالیسی کی وجہ سے پھر وہ یثرب گاؤںدنیا کا ترقی یافتہ شہر ”مدینہ ” بن گیا۔ جہاں سے یہ انقلاب پھر پوری دنیا میں پھیل گیا تھا لیکن خلافت کی جگہ جب آمریت نے لے لی تو پھر دین کی ہر تعبیر کا بیڑا غرق کردیاگیا۔
آج جب سودی بینکاری کا نام اسلامی بینکاری رکھ دیا ہے تو پھر آخر غیر اسلامی کیا ہے؟۔ جب سود بھی اسلامی بن گیا؟۔ اسلامی بینکاری کانفرنس میں اسحاق ڈار نے خوب کہا تھا کہ جب تم عام سودی بینکاری سے اسلام کے نام پر2فیصد زیادہ سود لو گے تو کون اس کی طرف آئے گا؟۔ حالانکہ اسلام کے نام سے کالے دھن کو سفید کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے۔ جس میں ایک طرف سودی بینکاری کو مکمل تحفظ مل جاتا ہے اور دوسری طرف کالے دھن کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں لے سکتا ہے۔
جب کوئی کالے دھن کی پراپرٹی اسلامی بینک کے نام پر منتقل کی جاتی ہے تو اس کا مالک بینک بن جاتا ہے اور پھر اس کو فرضی کرایا کی صورت میں سود کیساتھ ایڈ جسٹ کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی احتساب کا ادارہ تفتیش کرلے کہ یہ پراپرٹی کس کی ہے؟ تو وہ بینک کے نام ہوتی ہے اور اس کا محاسبہ نہیں ہوسکتا ہے اور جب کوئی شخص دیوالیہ ہوجائے تو پراپرٹی بینک کے نام ہوگی اور بینک کو نقصان بھی نہیں ہوگا۔ کراچی ائیر پورٹ سے لیکر کیا کیا پراپرٹیاں فرضی کرائے کی مدد میں ہم بیچ چکے ہیں؟۔ اگر کوئی بحران کھڑا ہوگیا تو سب کچھ اغیار کی تحویل میں دیا جائیگا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کو بھی مذہبی طبقے نے بہت بگاڑا ہے اور اگر ایک ایک بات کو صحیح معنوں میں اجاگر کیا جائے تو پھر لوگوں میں اسلام کی سمجھ پیدا ہوگی اور مذہب سے بیزار طبقہ اسلام کی خدمت کرنے لگ جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم سے قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات کا معاملہ پھیلے گا تو جمعیت والوں میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔
مولوی طبقے نے ہمیشہ اسلام کے نام پر اپنی اجارہ داری کا نفاذ قائم کیا ہے لیکن اب لوگ مذہب بیزار ہوگئے ہیں ۔ پہلے سے زیادہ آج علماء ومفتیان کی عزت وتوقیر میں اضافہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے لئے ہٹ دھرمی نہیں اسلام کی اصل تعلیمات کو پیش کرنا ہوگا۔ مفتی منیر شاکر ایک باصلاحیت اور بہادر آدمی ہے اور ان کے ساتھ جمعیت علماء اسلام کی ایک ٹیم تشکیل دے کر پورے پختونخواہ ، بلوچستان اور افغانستان میں ایک تحریک شروع کردی جائے تو بہت جلد اس کے بہترین نتائج نکل سکتے ہیں۔ کامریڈ اور لامذہب طبقہ بھی اسلام کی حمایت میں بالکل پیش پیش ہوگا لیکن جب ہم سودی نظام کو اسلامی قرار دیں اور ماں بہنوں کی عزتیں حلالہ کی لعنت سے لٹوائیں اور توقع رکھیں کہ عوام ہمیں اقتدار کی دہلیز تک پہنچائے گی تو اس خام خیالی کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر دنیا میں اقتدار اور دولت مل بھی گئی مگر آخرت میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اسلام کی درست تعلیم کا نتیجہ ہندوستان اور اسرائیل پر بھی مرتب ہوجائے گا۔ پورپ و امریکہ میں بھی اسلام کا ڈنکا بج جائے گا۔ مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں اسلام کی فطرتی تعلیم سے منزل مل سکتی ہے ۔
مولانا فضل الرحمن نے رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں جو تقریر فلسطین کے حق میں کی وہ بھی بہت اچھی بات ہے لیکن یہ سعودی عرب کے شاہ سلیمان کیلئے سپاس نامہ زیادہ تھا اور عالم اسلام کیلئے رابطے کی اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ جب ہم اسلام کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے کو پیش کریں گے تو عالم اسلام کے تمام حکمران اس کی طرف بن بلائے بھی توجہ دیں گے۔ اسلام کے اندر یہ کمال ہے کہ مردہ قوموں میں اس کے ذریعے زندگی کی روح دوڑانے کی صلاحیت اللہ نے رکھی ہے۔ امید کرسکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اس کیلئے اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات پیش کریں گے۔ ان کی شخصیت کو حکومت،ریاست اور اپوزیشن میں قبولیت کا جودرجہ حاصل ہوا ہے اس موقع پر وہ دین کی درست خدمات انجام دے کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا احساس کریں گے۔ انشاء اللہ العزیز

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے

حکومت وریاستIMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے

پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ نوازشریف ،زرداری ، فائز عیسیٰ، جنرل قمر جاوید باجوہ اور تمام سیاستدان ، صحافی، جرنیل، جج اورسول بیوروکریٹ اپنے بیرون ملک کے اثاثوں کو قربان کردیں

پختونخواہ وبلوچستان سے اسمگلنگ کے بجائے سستی اشیاء اور گیس وپیٹرول کا فائدہ عوام تک براہ راست پہنچائیں تو لوگوں کو روزگار ملے گا اور کاروبارِحکومت بھی اچھی طرح سے چل جائیگا

سندھ حکومت دریائے سندھ ضلع و ڈویژن کی سطح پر مناسب بند تعمیر کرے جس میں سیلاب کے پانی کو بڑے پیمانے پرذخیرہ کرکے رکھا جاسکے۔ اس پر لوکل پن بجلی بنانے کا انتظام کرے تو سندھ جنت نظیر بن جائے گا۔ ہاریوں کو مفت میں زمینیں دینے سے سندھ پاکستان میں اس انقلاب کا سب سے بنیادی ذریعہ بن جائے گا جو پاکستان سے پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔
بلوچستان مرکز سے فنڈز لینے کے بجائے ایرانی پیٹرول کا کاروبار اپنے ہاتھ میں رکھ لے۔ پورے ملک کو سستے پیٹرول کی سپلائی بھی کرے ۔ خود بھی کمائے ،لوگوں کو بھی سہولت کی فراہمی یقینی بنائے۔ بلوچستان سے اسمگلر اور مافیاز کا خاتمہ ہوجائے گا تو امن وامان کی صورتحال میں بہت بہتری آجائے گی۔ ایران اور افغانستان سے سمگلنگ نے معاملات کو بہت بگاڑا ہے۔
پنجاب اور سندھ ہندوستان سے گائے اور گوشت درآمد کرنا شروع کریں اور دوسری سستی اشیاء دالیں، چاول،ادویات اور ہندوستان میں بننے والی چیزوں کی درآمد شروع کریں اور اپنی چیزیں ان کو برآمد کریں تو لوگوں میں خوشحالی کا دور آجائے گا۔ پنجاب اور سندھ کے عام لوگ بھی کم پسماندہ نہیںہیں۔ سندھ کی طرح پنجاب میں بند بنائے جائیں اور بجلی پیدا کی جائے۔
میانوالی سے ملتان موٹر وے بنے تو اسلام آباد،پشاور اور پنجاب وپختونخواہ کا زیادہ ٹریفک سکھر تک موٹر وے پر آجائیگا۔ میانوالی و ڈیرہ اسماعیل خان عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے حلقے ہیں۔ مریم نواز اور شہبازشریف اس تھوڑے خرچہ پر بہت لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں جس میں جنوبی پنجاب کا بڑا حصہ بھی آجائیگا۔ کراچی آنے جانے والوں کو سہولت ہوگی۔
خیبر پختونخواہ میں پن بجلی لگائے جائیں تو وفاق سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ماربل اور کاپر کیلئے انڈسٹری لگائی جائے ۔خام مال کو بیرون ملک سستا بیچنے والے پاگل کے بچے تھوڑی شرم وحیاء بھی نہیں رکھتے۔اگر وطن سے ہمدردی ہوتی تو آج مقروض نہ ہوتے اور نہ ملک وقوم کو ان مشکلات کی دہلیز پر پہنچاتے۔ مقتدر طبقہ لوٹا ہوامال واپس کرکے قرضہ چکائے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ”ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟ ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

ملک کا سیاسی استحکام معاشی استحکام سے وابستہ ہے لیکن سیاسی پھنے خان نہیں سمجھ سکتے ہیں؟

پاکستان ایک طرف سودی قرضوں میں گھرا ہوا ہے اور دوسری طرف کاروبار زندگی اتنا خراب ہے کہ اپنا وزن نہ سلطنت میں اٹھانے کی صلاحیت ہے اور نہ عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی گنجائش!

اپنے اپنے ذاتی ، سیاسی اور صوبائی مفادات سے بالاتر ہوکر ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچنا ہوگا کہ اگر ملک بحران کا شکار ہوگیا تو پھر عوام میں سے ہر ایک اس کی سزا ضروربھگت لے گا

نوازشریف کے سابق دورِ حکومت میںIMFو چین وغیرہ سے بڑاقرضہ لیا جارہاتھا تو ہم نے شہہ سرخیوں کیساتھ اتنباہ کیا کہ ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں کہ بین الاقوامی مالی ادارے ہمارے ملک کے مقتدر طبقے سے اختیار اپنے ہاتھ میں لیکر ملک چلانے کی شرط پر قرضہ دیں۔1914میں صحافی امتیاز عالم سے بھی مولانا فضل الرحمن نے کھل کر کہا تھا کہ ”ہماری پارلیمنٹ برائے نام ہے ، سیاسی، فوجی اور معاشی لحاظ سے بیرونی قوتیں جو فیصلہ کرتی ہیں وہی ہم پارلیمنٹ میں بروئے کار لاتے ہیں، ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے”۔ یہ ہم نے شائع بھی کیا ہے۔
اگر مولانا فضل الرحمن کوبھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی طرح اقتدار کا حصہ بلوچستان میں دیا جاتا تو شاید انقلاب کی باتیں نہ ہوتیں۔ بلوچستان سے جمعیت علماء اسلام کے مالی مفادات وابستہ تھے اسلئے پہلے مولانا محمد خان شیرانی کو ہٹایا گیا اور اب وہاں حکومت میں حصہ دار بنانے سے ن لیگ نے بھی معذرت کرلی کہ ”بڑی دیر کردی مہرباں آتے آتے” تویہ محرومی مولانا فضل الرحمن کو ہضم نہیں ہورہی ۔ تحریک انصاف کو پختونخواہ اور ملک بھرمیں مظلومیت کا ووٹ ملا ہے لیکن اس کی نااہلی یہ تھی کہ جب خلائی مخلوق نے اس کو مسلط کیا تو اچھل کود کررہی تھی ۔ اب سہنے کی سکت نہیں رکھتی ۔ قاسم سوری کو بالکل ناجائز طریقے سےPTIسے جتوادیا گیا تھا تو اس کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بنادیا گیا پھر اس نے عمران خان کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد سے بچنے کیلئے اسمبلی کو توڑنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ عزت اور وقار کا راستہ یہی تھا کہ جب زرداری سے ملکر تحریک انصاف نے بلوچستان باپ پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور باپ کا چئیرمین سینٹ لایا گیا اور پھر جبPDMکی اکثریت کے باوجود اس کو نہیں ہٹایا جاسکا اور جب یوسف رضا گیلانی جنرل سیٹ پر حفیظ شیخ کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہوگئے تو عمران خان اقتدار سے الگ ہوجاتے۔ لیکن حکومت ملی بھی لوٹا کریسی اور بیساکھیوں کے سہارے تھی چلائی بھی خلائی مخلوق کے سہارے اور نوازشریف کے لوگوں کو توڑنے کیلئے محکمہ زراعت کا استعمال ہوا کیونکہ منے کے ابے کا نام لینے کی کسی میں جرأت نہیں تھی۔
پھر جو امریکہ مخالف کارڈ استعمال کرکے سائفر لہرایا تھا تو اسکے نتائج بھگتنے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ امریکہ کو بڑی دلچسپی ہوگی کہ پاکستان میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے والوں کا اقتدار نہ آئے مگر عمران خان کیساتھ ایسا کچھ ہوا یا نہیں ؟ اس کی وجہ مذہبی کارڈ بالکل نہیں تھا۔ جب عمران خان نے روس کا دورہ کیا تھا اور اسکی وجہ سے امریکہ کو ناراض سمجھ رہا تھا تو عمران خان نے واضح کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے باہمی مشاورت کیساتھ روس کا دورہ کیا تھا۔جنرل باجوہ کا اعتراف آیا تھا کہ امریکہ نے ہم سے آنکھیں پھیریں تو ہمیں دوسری قوتوں کی طرف دیکھنا پڑا۔
اگر مولانا فضل الرحمن نے انقلاب برپا کرنا ہے تو اجنبیت کے ماحول میں دین کے معاشرتی اور معاشی معاملات کواُجاگر کریں۔مذہبی بلیک مارکیٹنگ کا راستہ تباہی کا راستہ ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا سسر قادیانی تھا۔ ن لیگی صحافی ابصار عالم نے اسلئے نوازشریف کے ذریعے آرمی چیف تعینات کرایا تھااور ن لیگ نے جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قومی اسمبلی سے قادیانیوں کے حق میں وہی بل پاس کیا جو سینیٹ میں حافظ حمداللہ کی وجہ سے ناکام ہوا ۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا پر قاری حنیف جالندھری کی موجودگی میںکہا کہ” شکر ہے کہ سینیٹ سے بل پاس نہیں ہوا تھا ورنہ مجھے ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کی حیثیت سے دستخط بھی کرنے پڑتے اسلئے کہ چئیرمین اس دن موجود نہ تھا۔ حکومت جب کسی بل کو منظور کرنا چاہتی ہے تو اگر قومی اسمبلی یا سینیٹ میں سے کسی ایک میں پاس نہیں ہوتا تو پھر مشترکہ اجلاس میں اس کو لاکر پاس کرتی ہے”۔ پھر مشترکہ اجلاس میں شیخ رشید نے جمعیت علماء اسلام کو پکارا کہ سید عطاء اللہ بخاری کو تم کیا جواب دوگے۔ ختم نبوت کیلئے بڑی قربانیوں کا کیا ہوگا؟۔ شیخ رشید نے کہا کہ علماء مجھے مارنے کیلئے دوڑے تھے البتہ جماعت اسلامی نے شیخ رشید کا ساتھ دیا تھا۔
فیض آباد دھرنا ہوسکتا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی رحم اللہ نے کسی کے اشارے پر ہی دیا ہو لیکن قصور پارلیمنٹ ہی کا تھا۔ افتخار محمد چوہدری سابق چیف جسٹس نے میڈیا پر بتایا کہ” جب مرزائیوں کیلئے اسمبلی میں بین الاقوامی سازش ہورہی تھی تو اس وقت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حافظ حمد اللہ نے آواز حق اٹھائی تھی”۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ ” ہم نے عمران خان پر بیرونی ایجنڈے کیلئے کام کرنے کا الزام لگایا تھا تو وہ مشن پورا نہیں ہوا تھا اور اب آپ نے دیکھا کہ چیف جسٹس نے ایک کیس میں قادیانی کے حق میں کیسے ریمارکس دئیے؟”۔
لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ فیض آباد دھرنا ، عمران خان اور خفیہ طاقتیں اس وقت اس سازش کے خلاف کھڑی تھیں اور ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن جنرل قمر جاوید باجوہ کے سسرال کیلئے ہی دوسری طرف کھڑے تھے۔ اب اگر چیف جسٹس فائز عیسیٰ اور ن لیگ پھر ایک طرف کھڑے ہوگئے ہیں تو اس کا ادراک بھی مولانا فضل الرحمن کو ہوسکتا ہے لیکن وہ کھل کر بات کرے۔ اس کے پسِ پردہ حقائق اب تک کھل کر سامنے نہیں آسکے ہیں۔
ابصار عالم کو گولی ماری اور اسکے بیٹے کو اپاہج بنادیا تھا تواس کا الزام کسی اور پر لگانے کے بجائے ابصار عالم نے اعتراف جرم کرلیا کہ اگر میں قادیانی سسر کی وجہ سے جنرل باجوہ کوISIاور فوج کی طرف سے مشکلات میں دیکھ کرخود یہ مشورہ نہ دیتا تو نوازشریف اس کو آرمی چیف نہ بناتے۔ پھر مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا تو آرمی چیف نے میری کوئی مدد نہیں کی تھی۔
جب نوازشریف نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنادیا تھا تو ایک تقریب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا فضل الرحمن سے مذاق میں اس خوف کا اظہار کیا کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ فتویٰ نہ لگادیں۔ مفتی محمود نے جنرل ضیاء الحق کو مرزائی قرار دیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کی بیگم اور جنرل رحیم الدین کی بیگم دونوں بہنیں تھیں۔ جنرل رحیم الدین مشہور قادیانی مبلغ تھا۔جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ جنرل ضیاء الحق کو آخری وقت تک قادیانی قرار دیتے تھے۔ جس کو بعد میں مولانا فضل الرحمن نے امارت میں شکست دیکر ہٹادیا تھا لیکن اس سے پہلے مولانا سراج احمد دین پوری جمعیت علماء اسلام کی امارت چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔
مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق اور جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھایا تھا۔ مفتی محمود کو پان میں زہر اور دورہ قلب کی گولی کے بہانے شہید کرنے والا مفتی محمد تقی عثمانی اپنے تحریری اور تقریری بیانات میں تضادات سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے ۔پہلے تحریر میں لکھا تھا کہ ہم بھائیوں نے چائے پینے سے انکار کیا تو مفتی محمود نے کہا کہ میں چائے پیتا ہوں مگر کوئی نہیں پیتا تو اس کو پسند کرتا ہوں تو میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمودنے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔اس میں پان کھلانے اور دورہ قلب کی گولی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا لیکن مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے اس کا ذکر کیا تھا۔ جب ہم نے اپنی کتاب میں یہ لکھا تھا مولانا لدھیانوی شہید نے بتایا کہ اس پر مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی ہے۔ پھر اب مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ مفتی محمود سے پان کی بڑی بے تکلفی تھی اور مجھے کہتے تھے کہ لاؤ بھیا ہم تمہارا پان کھائیں گے؟۔ اتنا بڑا تضاد؟ واہ جی واہ۔
اوریا مقبول جان ، سلیم بخاری اور علامہ زاہد الراشدی نے جنرل قمر باجوہ کے حق میں گواہی دی تھی کہ ان کا قادیانیوں سے تعلق نہیں ۔ تحریک انصاف نے اسمبلی میں شیخ رشید کا ساتھ نہیں دیا لیکن جب ن لیگ کے خلاف تحریک چلی تو عمران خان نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ن لیگ کے احسن اقبال کو گولی لگی تھی۔ وزیرقانون زید حامد کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ عوام اور مذہبی طبقہ ہی نہیں فورسسز کی سپاہیوں اور افسران میں بھی بہت زیادہ مذہبی حساسیت ہے۔ مذہبی و سیاسی بنیادوں پر جس طرح کی مہم جوئی چل رہی ہے اس کا پاکستان بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
اصل چیز معاشی عدم استحکام ہے ۔جب اس کو سیاسی بنیاد پر مذہبی ٹچ دیا جاتاہے تو معاملات میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فوج اپنے کھیل اور کھلونوں کے ہاتھوں بدنام ہوگئی ہے۔ فوج کے بغیر نوازشریف ، عمران خان، زرداری، مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت کوئی بھی اقتدار نہیں چلاسکتا ہے۔ کسی نے دریا میں کمبل دیکھ کر چھلانگ لگا دی اور جب اسکے ساتھیوں نے دیکھا کہ کشمکش کافی دیر سے جاری ہے، کمبل حاصل کرنے کے بجائے اسکی جان کو خطرہ ہے تو آواز لگائی کہ ”کمبل کو چھوڑ دواور تم سلامت نکل آؤ” ۔ اس نے کہا کہ ” میں کمبل کو چھوڑ رہاہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے ”۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ فوج نے بھی سیاسی جماعتوں کو کمبل سمجھ کر دریا میں چھلانگ لگا دی لیکن وہ ریچھ نکلے۔ جنرل ایو ب نے ڈیڈی بن کر ذوالفقار علی بھٹو کو کمبل سمجھ لیا۔پھر جنرل ضیاء الحق و جنرل حمید گل نے نوازشریف کو پالا پھر عمران خان کمبل آگیا۔ پھرPDMکو اور اب نوازشریف اور زرداری کی پارٹنر شپ کو ڈبل کمبل سمجھ لیا لیکن کمبلوں سے جان چھڑانی مشکل ہوگئی ہے۔
پاکستان کے معاشی حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ کسی وقت بھی ملک ڈیفالٹ کی طرف جاسکتا ہے۔ جب2008میں نواز شریف،قاضی حسین احمد ، محمود خان اچکزئی، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ودیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی دنگل میں شرکت کا بائیکاٹ کیا کہ جنر ل پرویزمشرف وردی اتار یں اور جب تک وردی نہیں اتاریں گے تو ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو پیپلزپارٹی نے نوازشریف کو منوالیا اور دوسری جماعتوں کو نوازشریف نے چھوڑ دیا۔بینظیر بھٹو بلٹ پروف گاڑی سے باہر نہ نکلتی تو قتل نہ ہوتی اسلئے کہ ساتھ بیٹھنے والے تمام افراد بھی محفوظ رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اداروں نے منع کیا تھا کہ رسک ہے لیکن محترمہ نے کہا تھا کہ مجھے جن سے خطرہ ہے ان کو روک لو ۔ اداروں نے کہا تھا کہ ”ہم اپنے بڑے نیٹ ورک کو خراب کرکے کافی لوگوں کی جانوں کو خطرات میں نہیں ڈال سکتے”۔
مولانافضل الرحمن نے اب کہا ہے کہ ” ایک وڈیرے کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس پر بڑا تشدد ہوا ہے کہ وہ ہمارے حق میں فیصلہ کرلے”۔ سندھ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ”اس مرتبہ پیپلزپارٹی کو صوبائی حکومت میں نہیں آنے دیا جائیگا ، اسلئے کہ وہNFCایوارڈ اور پانی وغیرہ کے مسئلہ پر تعاون نہیں کرتی ہے”۔ اگر تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت قائم ہوجاتی اور ن لیگ وپیپلزپارٹی اپوزیشن میں ہی رہنے کا فیصلہ کرتیں تو تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں مل کر عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنے کی طرح صوبہ سندھ کیلئے بھی فنڈز میں کمی کرتیں اور پختونخواہ کی طرف سے بھی اپنا حق طلب کرنے کا کوئی معاملہ پیش نہ آتا۔ آصف زردای نے صدر کی پوزیشن سنبھال کر شہباز شریف کی حکومت کو سہارا دیا ہے مگر ساتھ ساتھ اس کی گردن بھی اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف کا عوامی دباؤ اور سوشل میڈیا کی طاقت اور دوسری طرف پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مفادات پر مبنی پارٹنر شپ اور تیسری طرف مولانا فضل الرحمن کی تھریٹ اور چوتھی طرف ملک کی معاشی بدحالی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور اس میں ذرا سی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ریاست کو موج مستی کا نشہ نہیں بلکہ اس ریچھ سے جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ عمران خان کو وزیراعظم بننے کا بڑا شوق تھا بن گیا نوازشریف کو ایک موقع ملنے کا شوق تھا مل گیا اور زرداری کو صدر مملکت بننے کا شوق تھا بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی صدر بننے کا شوق تھا لیکن وہ نہیں ہوا۔ محسن جگنو سے اپنے انٹرویو میں اعتراف بھی کرالیا کہ امریکہ سے کہا تھا کہ ” مجھے شدت پسند نہیں ترقی پسند مولوی سمجھا جائے لیکن امریکہ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ”۔
ساری دنیا کو پتہ تھا کہ امریکہ نے ملا عمر کی طالبان حکومت کو بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کے ذریعے اسلئے میدان میں اتارا تھا کہ ازبکستان کی گیس پائپ لائن ہندوستان تک امریکی کمپنی نے پہنچانی تھی ۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو روس سے آزاد ہونے والے نئے مسلم ممالک کے گیس کا وسیع ذخیرہ بھارت و چین اور دنیابھرکو بیچنے میں امریکہ کی اجارہ داری قائم ہوجاتی۔ لیکن اس کو اسلامی رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ طالبان نے اپنے افغان صدر نجیب اللہ کا کیا حشر کیا تھا؟۔ اسلئے کہ وہ امریکہ کے کیمپ میں نہیں تھا۔ جبکہ دوسری طرف غیر ملکی صحافی پکڑے بھی جاتے تو حسنِ سلوک سے مسلمان بن کر جاتے تھے؟۔
دوسری طرف شیعہ اگر ایرانی انقلاب کو اسلامی مانتے ہیں تو آیت اللہ خمینی کو ”امام ” ماننے والے امیر معاویہ کیلئے امیر شام کا لقب کیوں اختیار کرتے ہیں؟۔ امیر شام تو وہ اس وقت تھے جب حضرت علی اور حضرت حسن سے جنگ لڑرہے تھے۔ جب امام حسن ان کے حق میں دستبردار ہوگئے اور20سال تک اس نے حضرت امام حسن وامام حسین کی تائید سے حکومت کی تو پھر ان کی حیثیت واقعی ایک خلیفہ راشد کی بالکل بھی نہیں تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے دور میں بڑی فتوحات کا دروازہ کھل گیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگانے سے تو کچھ نہیں ہوتا جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا جس پر شیعہ نے سنیوں کو طعنہ بھی دیا تھا لیکن جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تو ایران اور شیعہ نے کس کا ساتھ دیا؟۔ افغانستان میں بھی ایران نے شمالی اتحاد کا ساتھ دیا جو امریکہ کیلئے طالبان کے خلاف لڑرہاتھا۔ اگر اس وقت احمد شاہ مسعود زندہ ہوتے تو شاید امریکہ کا ساتھ نہ دیتے۔
حسن الہ یاری اپنی بیوقوفی کی وجہ سے نہ صرف شیعہ سنی کے اندر تفرقہ ،شدت پسندی اور منافرت کے بیچ بورہاہے بلکہ اب وہ شیعہ کیلئے بھی درد سر بن گیا ہے۔ حسن الہ یاری کو علم کی زبان میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ وہ دنیا کیلئے امریکہ میں جا بیٹھا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اہل تشیع کے درمیان اجتہاد کے مسئلے پر حسن الہ یاری کی سخت سرزنش کی ہے۔ لیکن یہ حسن الہ یاری کا معاملہ نہیں ہے بلکہ شیعہ فرقے کو یہ مسئلہ درپیش ہے اور اس کا اگر صحیح حل نہیںنکالا گیا تو پھر فرقہ واریت کی آگ میں سبھی ایک دن بالکل اندھے ہوجائیں گے۔
حسن الہ یاری نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے کفر کیلئے یہ دلیل دی ہے کہ ” قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جنابت اور پاخانہ کی صورت میں تیمم سے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حضرت عمر نے اس حکم سے کھلم کھلا انحراف کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہے”۔
علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب ” تدوین فقہ ” میں بحث کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی تشویش کا حوالہ دیا کہ جب حضرت عمار سے نبی ۖ نے فرمایا کہ” تیمم کرکے نماز پڑھ لو ” تو حضرت عمر نے اس پر عمل کیوں نہ کیا؟۔ اور نبی ۖ نے خود حضرت عمر سے کیوں نہیں فرمایا کہ ”تیمم کرکے نماز پڑھ لو”۔
حضرت شاہ ولی اللہ ایک دیندار اور مذہبی شخصیت تھے اور نماز قضاء کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اسلئے حضرت عمر کیلئے تعجب کا اظہار کیا لیکن حضرت عمر نے قرآن کی تفسیر کو بھی سمجھ لیا تھا اور نبی ۖ نے اس پر عمل کرنے کی تائید بھی کردی تھی تو اس بات کو شاہ ولی اللہ نے کیوں نہیں سمجھا؟ ،اس پر تعجب کرنا تھا اور علامہ مناظر احسن گیلانی نے کیوں نہیں سمجھا ؟،یہ بات تعجب کی ہے۔میرے دادا سیدامیر شاہ سے زندگی میں ایک نماز قضا ء ہوگئی تھی جس کا ساری زندگی خوف اور دکھ تھاکہ اگر اس پر پکڑ ہوگئی تو کیا ہوگا؟۔ میرے والد علماء کے بہت قدردان تھے اور مسجد بھی بغیر چندہ اپنے پیسوں سے عالیشان تعمیر کرلی لیکن ہم نے دیکھا کہ جون کے مہینے میں لمباروزہ رکھتے تھے لیکن مغرب کی نماز قضاء کرلیتے تھے اور پھر تراویح پڑھنے جاتے۔ جہاں پر ایک دن میں6،6پاروں کا ختم ہوتا تھا۔ اوروہ کہتے تھے کہ نماز پڑھ لی تو بہت اچھاکیا ، ثواب بھی مل گیا اور فائدہ بھی ہوا لیکن اگر نہیں پڑھی تو اس کا اللہ کو کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ اللہ کو اس کا کوئی فائدہ ہے البتہ اگر کوئی غریب بھوکا ہواتو پھر اللہ معاف نہیں کرے گا۔ حضرت عمر ایک طرف تیمم میں نماز نہ پڑھنے کا فائدہ اٹھاتے تھے یا کراہت کی وجہ سے اللہ کے حضوراس کے دربار میں حاضری دینا مناسب نہیں سمجھتے تھے اسلئے کہ بدبودار منی کے مواد سے لتھڑے ہوئے انسان کو اللہ پاک کے حضور حاضری دینے میں بوجھ لگتا ہے۔ تو دوسری طرف کہتے تھے کہ اگر دریائے نیل کے کنارے کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس کی پوچھ گچھ یا بازپرس مجھ سے اللہ تعالیٰ ضرور کرے گا۔
نہج البلاغہ میں حضرت علی نے حضرت عمر کی وفات کے بعد بڑی تعریف کی تھی۔ اہل تشیع غلط سمجھتے ہیں کہ حضرت علی حضرت عمر سے خوفزدہ ہوکر تقیہ کرکے گھر میں بیٹھ گئے ۔ حسن الہ یاری کہتا ہے کہ ابوبکر وعمر نے اسلام قبول کیا ہی نہیں تھا بلکہ منافقت سے لبادہ اوڑ ھ لیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر حضرت علی نے خوف کے مارے تین خلفاء کی حکومت قبول کرلی اور امام حسن نے بھی امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ خوف سے کیا۔ حضرت امام حسین نے اپنے شیعوں سے دھوکہ کھایا اور پھر ان کو یزید کے لشکر نے راستہ نہیں دیا اور اس کے بعد باقی ائمہ اہلبیت نے بھی ساری زندگی خوف میں گزاری اور آخری امام غائب ہوئے اور ایرانی حکومت بھی جبر واستبداد کا نتیجہ ہے؟۔ جب ائمہ اہل بیت نے کسی ایک شیعہ پر بھی اعتماد کرکے بقول علامہ شبیہ الرضا نجفی کے دین کی مکمل کتاب سپرد نہیں کی تو پھر صحابہ پر شیعہ کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اگر امام کا ہونا کوئی بڑی انوکھی چیز ہوتی تو کم ازکم گھر کے افراد میں چھٹے امام کے بعد کیوں اختلاف پیدا ہوتا؟۔ خمینی نے انقلاب برپا کرکے اچھاکیا لیکن ابھی باہمی اعتماد کیساتھ معاملات حل کرنا دانشمندی کا تقاضاہے۔پاکستان میں ایک اچھی فضاء قائم کریں تو معاشی صورتحال آج باہمی تعاون سے ہی بہتر ہوسکتی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”حکومت وریاست IMFسے قرضہ لینے کے بجائے بیرون ملک لوٹ ماراثاثہ جات کو بیچے ” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

ہر استحکام کیلئے ایک انہدام ضروری ہوتا ہے اگر آپ کا گھر زلزلے میں کریک ہوجائے تو کہیں گے کہ گرائیں گے تو اور ٹوٹ جائیگا،دوبارہ بنانا پڑے گا؟ ۔ اس حد تک غیر مستحکم ہیں ہم معاشی ، سیاسی ، اخلاقی لحاظ سے کہ ایک دفعہ اس کا انہدام ضروری ہوگا اور وہ انقلابی تحریک سے ممکن ہے۔ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ۔الیکشن کے نتائج مسترد!

حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے کچھ لوگ زمانہ ہوا کہ اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک طبقہ جمہوریت کو کفر سمجھتا ہے ساری قربانیوں کے باوجود ہمارے حق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے

جمعیت علماء اسلام اورPDMکے قائد مولانافضل الرحمن نے کہا:یہ حکومت عوام کی نمائندہ نہیں دھاندلی کی پیداوار ہے!
پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس صورتحال سے چاروں صوبوں میں جا کر صوبائی جو ہمارے جنرل کونسلز ہیں مجالس عمومی ہیں ان کو اعتماد میں لینا، چنانچہ ہمارا پہلا اجلاس خیبر پختونخواہ میں ہوا اور ابھی دوسرا اجلاس یہاں کراچی میں ہو رہا ہے اس کے بعد پنجاب میں جائیں گے۔ بلوچستان میں بہت سخت سردی ہے مختلف اطراف سے لوگوں کے جمع ہونے میں دقتیں آرہی ہیں تو اس کو فی الحال موخر کیا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے۔ اس صورتحال میں اب کیا کیا جائے؟۔ یہ پارلیمنٹ جواس وقت ہم دیکھ رہے ہیں یہ عوام کی نمائندہ نہیں۔ یہ دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ ہے جس میں کچھ لوگ اپنے آپ کو حکمران کہلائیں گے اور قوم کے دلوں پر وہ حکومت نہیں کر سکیں گے ان کے جسموں پہ تو شاید وہ حکومت کرسکیں لیکن قوم دل سے اس کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے ہم آج یہاں کراچی آئے ہیں۔ یہاں کے صوبائی جنرل کونسل اور ورکرز کیساتھ ساری صورتحال پہ بات کرنی ہے اور پھر مزید ہم پورے ملک میں تحریک چلانے کا لائحہ عمل بھی بنائیں گے۔ بھرپور تحریک ہوگی عوامی قوت کے ساتھ ہوگی اور وہ ملک کی سیاست کو تبدیل کرے گی اس کی کایا پلٹے گی۔ حالات اس طرح نہیں رہیں گے جس طرح کہ ہم پہ مسلط کئے جا رہے ہیں۔ یہ حالات ہم نہ تسلیم کرتے ہیں نہ اس کو ہم قبول کرتے ہیں اس کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل آئے گا لیکن ہم اس کو منظم طریقے سے آگے بڑھانا چاہیں گے۔صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ دیکھئے ہمارا کوئی ذاتی جھگڑا کسی کے ساتھ نہیں ہے کہ وہ ہمیں منا لیں گے۔ مسئلہ قوم کا ہے مسئلہ عوام کا ہے انہوں نے اقتدار کی کرسی کو شاید اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں ہم حکومت کو خرید لیتے ہیں چنانچہ سندھ اسمبلی خریدی گئی ہے بلوچستان اسمبلی خریدی گئی ہے اور مختلف صوبوں میں انہوں نے جو پیسہ انویسٹ کیا ہے پیسے کی بنیاد پر اگر ملک کی حکومت چلنی ہے اور اسمبلی خرید نی ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ ہم تو فارغ ہیں۔ایک صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ دیکھئے ابھی تک کسی گرینڈ الائنس کی باضابطہ تجویز نہیں ہے۔رات کو بھی ہمارے ایک دوست نے کھانے پر سب کو بلایا۔ ملاقات ہوئی سب کے ساتھ بڑی اچھی ملاقات رہی۔ ملاقاتیں ہونی چاہیے اور اس میں مذاکرہ ہوتا ہے اس میں ڈیبیٹس ہوتی ہیں حالات کو سمجھا جاتا ہے اور یہ ہمیں اندازہ لگانا ضروری ہے کہ ہم آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا حق اظہار رائے استعمال کریں اور اس وقت نوجوان نسل میں بہت زیادہ شدت آرہی ہے اور ملک کے اندر ایک نظریہ تو نہیں ہے بہت سے لوگ اپنے نظریوں کے حامل ہیں۔ کچھ لوگ ویسے ہی اسمبلیوں سے مایوس ہیں ایک زمانہ ہو گیا کہ مایوس ہیں مزید ان کو اسمبلیوں اور جمہوریت سے مایوس کیا جا رہا ہے۔ ایک طبقہ جمہوریت کو بالکل کفر سمجھتا ہے ہم نے اس ماحول میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہم نے آئین اور قانون کی روشنی میں جمہوریت کی تشریح کی اور لوگوں کو اس کی طرف آمادہ کیا۔ اس ساری قربانیوں کے باوجود کون ہے جو ہمارے اس حق پہ ڈاکہ ڈالتا ہے؟۔ ہم کوئی ڈاکہ تسلیم نہیں کرتے ہم ڈاکہ ڈالنے والے کو مجرم سمجھتے ہیں لاکھ دفعہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، لاکھ دفعہ وہ فوج ہو، لاکھ دفعہ وہ مسلح قوت ہو لیکن جبر کو جبر کہا جائے گا اسے کبھی عدل تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ صحافی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بڑی وضاحت سے عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کو اور مسلم لیگ ن کو تقریبا وہی مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا۔ پھر اس وقت دھاندلی کیوں تھی اور آج دھاندلی کیوں نہیں؟۔PTIکو وہی تقریبا ً مینڈیٹ ملا ہے جو2018میں ملا تھا اس وقت دھاندلی نہ تھی آج دھاندلی کیوں ہے؟۔ دونوں سے سوال ہے لیکن جمعیت علماء اپنے اصولی موقف پہ قائم ہے دھاندلی18میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے اور2024میں ہوئی ہے تب بھی دھاندلی ہے۔ جہاں تک پارٹیوں کا تعلق ہے۔ ضرور سب دوست تشریف لائے ہیں انکے اکابرین تشریف لائے ہم نے ان کو احترام دیا ہے احترام کا رشتہ تو پہلے بھی تھا آئندہ بھی رہے گا اورPTIکے و فود بھی آئے ہیں ایک سے زیادہ مرتبہ وہ تشریف لائے ہیں ہم نے ان کو بھی احترام دیا، عزت دی ہے اور سیاست میں آپ جانتے ہیں کہ ہم نے کبھی بھی تلخی کو فروغ نہیں دیا تعصبات کو فروغ نہیں دیا گالم گلوچ کو فروغ نہیں دیا۔ مؤقف لیا ہے اتفاق رائے بھی کیا ،اختلاف رائے بھی کیا، اعتدال کیساتھ اور دلیل کیساتھ کیا ۔ لیکن میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب تک ہم اپنے مؤقف پہ قائم ہیں، پارلیمنٹ میں جائیں گے احتجاجی اور تحفظات کے طور پر ہم جائیں گے کوئی ووٹ ہم نے استعمال نہیں کرنا اور انشااللہ العزیز ہماری جو دوست جماعتیں ہیں جو ہمارے پاس تشریف لائے بار بار لائے انشااللہ اب وہ اصرار نہیں کریں گے ہم نے اپنا مؤقف ان کو تقریباً منوا لیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ
جمعیت والو! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں ہم نے10،12سال تک عمران خان کیساتھ اور پی ٹی ائی کے ساتھ ایک لڑائی لڑی ۔ہم نے جو سوالات اٹھائے اور یہ کہ یہ آپ کا ایجنڈا ہے اور اس ایجنڈے کی مزاحمت کریں گے ہم اور ہم نے کی اگر اس کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو۔ ابھی آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ دیکھا۔یہ ریاست کے اندر باہر کے ایجنڈے اس طرح چلائے جاتے ہیں کہ پھر ادارے استعمال ہوتے ہیں اب ایک کیس ہے آپ کے پاس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ جی2019کا کیس ہے اور2021میں ترمیم ہوئی ہے اور اس وقت یہ قانون نہیں تھا بھلا اب ضمانت پر رہا کردیں بھلا آپ اس کو چھوڑ دیں۔ نیچے جو مندرجات آپ نے تحریر فرمائی ہیں اور اپنا فلسفہ دین آپ نے اس کے اندر سمو دیا ہے ہماری بحث اس سے ہے اور جج صاحب ناراض نہ ہو آپ نے جو کچھ اس میں کہا ہے وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں کہ قران کی آیتوں کی غلط تشریح کرتے ہیں۔ اس کی غلط تدبیر کرتے ہیں۔ غلط جگہ پر آپ اس کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں۔ تو پھر آپ کسی خاص ایسے نظریے کے تابع شخص ہیں کہ ان کو پھر ہم جانتے ہیں پاکستان میں ہمیشہ ایک طبقہ ایسا رہا ہے جنہوں نے دین کا علم سند کی بنیاد پر حاصل نہیں کیا صرف مطالعوں سے انہوں نے دین کو حاصل کیا ہے۔ اور پھر ڈیوٹی لی ہے اس نے کہ میں دین کی ایسی جدید اور نئی تعبیرات کروں گا ایسی تعبیرات جو امت کیلئے قابل قبول ہوں یا نہ ہو لیکن مغرب کے لیے قابل قبول ہوں یہ مغرب کے لیے قابل قبول تعبیرات یہ کون لوگ ہیں؟۔ کون کرتے ہیں یہ؟۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے وہ انہی تعبیرات کی پیروی ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان ”مولانا فضل الرحمن کو حقائق کے مفید مشورے” کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv