پوسٹ تلاش کریں

قرآن وحدیث میں طلاق و رجوع کا مسئلہ حل کردیا اوریہ قادیانی وشیعہ کی اصلاح بھی ہے!

قرآن وحدیث میں طلاق و رجوع کا مسئلہ حل کردیا اوریہ قادیانی وشیعہ کی اصلاح بھی ہے!

مرزاغلام احمد قادیانی ملعون کذاب دجال نے نبوت کا دعویٰ کیا لیکن اس کی سب سے بڑی دجالیت یہ ہے کہ ایک طرف نبوت ومہدویت کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف اسلام کا دامن بھی عام مسلمانوں کی طرح پکڑ رکھا ہے۔ قرآن اور سنت کے علاوہ حنفی مذہب کی فقہ بھی تھام رکھی ہے۔ جب علماء ومفتیان نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا تو اس میں لکھ دیا تھا کہ ”شیعہ قادیانی سے بدتر کافر ہیں اسلئے کہ قادیانی ختم نبوت کی آیت میں تاویل کرتے ہیں، باقی قرآن وسنت اور صحابہ و فقہاء اور امت مسلمہ کا سارا سلسلہ مانتے ہیں جبکہ شیعہ کا قرآن وسنت ، فقہ اور نماز وغیرہ سب مسلمانوں سے جدا ہے اور صحابہ کرام کی بھی تکفیر کرتے ہیں”۔
جب اصل فقہ حنفی کے اصولوں کے مطابق قرآن وسنت سے طلاق و رجوع کا مسئلہ واضح ہوجائے گا تو قادیانی دجال کی دجالیت سے مرزائیت توبہ کرے گی اسلئے کہ جس شخص کو قرآن وسنت کے اتنے موٹے احکام بھی سمجھ میں نہیں آئے تو مہدی ونبی تو بڑی دور کی بات ہے ایک اچھا عالم دین وفقیہ بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح شیعہ واہلحدیث ، غلام احمد پرویز، جاوید غامدی، ڈاکٹر ذاکر نائیک اور انجینئرمحمد علی مرزا کے پیروکاروں کی بھی قرآن کے ذریعے اصلاح ہوجائے گی۔ اس کا سارا کریڈٹ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری اور حضرت حاجی محمد عثمان کی شخصیات کو جائے گا جنہوں نے اہل حق کا سلسلہ باطل کے مقابلے میں قائم رکھا اور دنیا پرستی اور دین فروشی کے فتنوں سے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی۔
فتاویٰ عثمانی میں بہت سارے دنیا پرستی اور دین فروشی کے نمونے ہیںمثلاً زکوٰة کے پیسوں سے ان کتب فروشوں سے کتابیں خرید کر غرباء میں تقسیم کردو تو یہ جائز ہے لیکن اگر تبلیغ دین کیلئے مسائل کی کتابیں زکوٰة کے مال سے چھاپ لیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ انکے فتوے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتے ہیں۔
قرآن میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کا تصور بھی آیة229البقرہ میں ہے۔ایک صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا:” الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان (دو مرتبہ طلاق کے بعد پھر معروف طریقہ سے رجوع ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔آیت229) قرآن میں تیسری طلاق احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ وفاق المدارس پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ سابق وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری شرح البخاری ” اور تنظیم المدارس پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے ” نعم الباری شرح البخاری” میں اس حدیث کو لکھ دیا ہے۔
اصول فقہ کی کتاب ”نورلانوار: ملاجیون” میںہے کہ” فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (پھراگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیںیہاں تک وہ کسی اور سے نکاح کرلے”۔میں مذکور طلاق کا تعلق الطلاق مرتٰن ( طلاق دو مرتبہ ہے)سے حنفی مسلک کے مطابق نہیں ہے اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے۔ اس کا تعلق آیت229البقرہ کے آخر فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ ( پھر ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے)کیساتھ ہے۔ جس پر حنفی مسلک کے مشہور عالم، شاعر وادیب علامہ تمنا عمادی نے کتاب لکھ ڈالی کہ ” حنفی مسلک کا مؤقف یہ ہے کہ اس طلاق کا تعلق صرف خلع کی صورت سے ہے۔ خلع میں غلطی عورت کی ہوتی ہے اور سزا بھی عورت کو ملتی ہے”۔ علامہ تمنا عمادی نے غیرضروری طور پر احادیث صحیحہ کا انکار کردیا اور قرآن وحنفی مؤقف کو پیش کردیا۔ حالانکہ قرآن و حدیث اور حنفی مؤقف کا تقاضا یہ ہے کہ ” تیسری بار طلاق کو ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے تسریح باحسان کیساتھ ہی منسلک کیا جائے”۔جس سے آیت کا مطلب بھی واضح ہوگا، احادیث صحیحہ کا انکار بھی نہیں کرنا پڑے گا اور حنفی مؤقف کو بھی درست ماننا پڑے گا۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا ہے کہ ” آیت229کا مفہوم بالکل مبہم اور غیر واضح ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر میں حل تلاش کرنا ہوگا”۔ حالانکہ مولانا تھانوی کی تفسیر زیادہ مبہم اور غیر واضح ہے ۔ پشتو میںکہا جاتا ہے کہ ” بارش سے میں بھاگا اور پرنالے کے نیچے رات ہوگی”۔
جب عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میںطلاق دی تو رسول اللہ ۖ کو حضرت عمر نے خبر کردی ۔ نبی ۖ غضبناک ہوگئے۔ پھر رجوع کا حکم دیا ، فرمایا: طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو ،یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہرمیں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو توہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے قرآن میں امر فرمایا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق )۔ کتاب الطلاق، کتاب الاحکام اور کتاب العدت میں یہ حدیث لفظی سے اختلاف سے نقل کی گئی ہے۔
جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے قرآن وحدیث میں ثابت ہے۔ جہاں تک اس طلاق کا تعلق ہے جو آیت230میں ذکر کی گئی ہے جس کے بعد جب تک عورت کسی اور شوہر سے نکاح وجماع نہ کرلے تو پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ تو اس کا تعلق آےة229کے اس آخری حصہ سے ہے جس میں تین مرحلہ وار طلاقوں کے بعد صلح نہ کرنے کی بھرپور وضاحت ہے۔ حضرت ابن عباس نے بھی اس طلاق کو دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کیساتھ فدیہ دینے کی صورت سے سیاق وسباق کے مطابق خاص کیا ہے۔ دیکھئے ابن قیم کی کتاب ”زادالمعاد:ج ٤باب الخلع”۔
صرف علماء ومفتیان اور عوام الناس اس واضح آیت پر اتنا غور کریں کہ اس میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ دو تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے درست ہوگا؟۔ یہاں وہ صورت ہے کہ جس میں واضح ہے کہ میاں بیوی اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نہ صرف دونوں کی جدائی ہو بلکہ آپس میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ چھوڑا جائے جس سے دونوں کو ناجائزجنسی تعلقات میں مبتلاء ہوکر اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکنے کا خوف ہو۔
مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی اور جاوید غامدی نے بھی یہ غلطی کردی کہ جہاں آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کے بعد عورت کے حقوق کی حفاظت کو واضح کردیا ہے تووہاں خلع کے نام پر عورت کی مالی بلیک میلنگ کا راستہ کھول دیا ہے۔ علماء و مفتیان کیلئے میری ذات باعثِ فخر واطمینان ہے کہ مدارس اور درسِ نظامی سے ایک بندہ اللہ نے ایسا بھی پیدا کیا ہے جس نے علمائِ حق کا پرچم بلند کردیا ہے۔
دیوبند ی بریلوی جس درسِ نظامی کو اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں اسکے حنفی مسلک کے اصول کی جیت قرآن وسنت کی طرف رجوع اور اسلام کی نشاة ثانیہ کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ مساجد کے منبر ومحراب سے علمائِ حق عوام کو قرآنی ترجمہ وتفسیر پڑھائیںگے تو پوری دنیا کے انسان قرآن و مسلک حنفی کی طرف توجہ کریں گے۔ آیت230البقرہ سے پہلے آیات میں عدت میں صلح و معروف کی شرط پر طلاق کے بعدرجوع کی اجازت ہے اور بعد کی آیات میں عدت کے بعد بھی صلح ومعروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔ جس کا خلاصہ سورہ ٔ طلاق میں موجود ہے۔ البتہ تمام آیات میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کی شرط کے بغیر طلاق کے بعدرجوع کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن و سنت سے عوام کا بھلا ہوتا ہے لیکن مفتی تقی عثمانی جیسے علماء سوء کی مذہبی اجارہ داری اورتجارت ختم ہوجاتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا حلالہ کوایک لعنت قرار دینا مگر مفتی تقی عثمانی کا لعنت سے انکار

مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا حلالہ کوایک لعنت قرار دینا مگر مفتی تقی عثمانی کا لعنت سے انکار

مفتی رشید احمد لدھیانوی مروجہ حلالہ کو حدیث کی وجہ سے لعنت قرار دیتے تھے اور اس وجہ سے دوسرے مفتی صاحبان کے مقابلے میں بہت سارے لوگ بھی ان کو پسند کرتے تھے۔ جبکہ دارالعلوم کراچی حلالے کا سینٹر تھا۔ مفتی محمد شفیع نے دارالعلوم کراچی کی وقف زمین اپنے بیٹوں مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کیلئے گھر خریدلئے تو بھی مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ان کے خلاف دو وجہ سے فتویٰ دیا تھا کہ یہ حرام ہے۔ ایک اسلئے کہ وقف مال کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک شخص بیچنے اور خریدنے والا نہیں ہوسکتا ہے۔
حکومت بھی بغیر ٹینڈر کے ٹھیکہ دے تو یہ خلافَ قانون اور ناجائز ہے جس پر گرفت کی جاسکتی ہے۔ ایک تو وقف مال کی خرید وفروخت بالکل حرام اور ناجائز ہے اور دوسرا یہ کہ کوئی خود بیچے اور خریدے تو یہ ڈبل جرم ہے۔ عدالت میں جب توشہ خانہ کیس چل سکتے ہیں۔ جیو ٹی وی چینل کے صحافی حامد میر اور انصار عباسی جمعیت علماء اسلام کے علامہ راشد سومرو کے سامنے میڈیا پرمولانا فضل الرحمن کی زبردست تذلیل کرسکتے ہیں کہGHQنے ان کو زمینیں دی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی مفتی تقی عثمانی کو دارالعلوم کراچی کیلئے نقدی اور پلاٹ دئیے تھے اور اس کا ذکر کرنے سے انصار عباسی کا حیض ٹپکنے کا خطرہ ہوسکتا ہے لیکن حامد میر بھی اپنے پروگرام میں اس بات کی وضاحت کیوں طلب نہیں کرتا ہے کہ ” دارالعلوم کی وقف زمین کیسے ذاتی مکانات کیلئے خریدی جاسکتی ہے؟”۔ میڈیا مالکان اور علماء ومفتیان اگر خود چوری میں ملوث نہیں ہیں تو ان کو ضرور مسئلہ اٹھانا چاہیے۔
حلالہ کی نیت سے کئے گئے نکاح کی شرعی حیثیت اور اسے موردِ لعنت قرار دینے کا حکم
سوال : اگر حلالہ کرنے والے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی نیت کا علم ہے مگر عقد میں اس کی تصریح نہیں کرتے تو کیا یہ نکاح بھی ناجائز اور موردِ لعنت ہے؟” احسن الفتاویٰ ” ج :٥ ص: ١٥٥ میں ہے:
ایسے نکاح کی حرمت اور موردِ الزام لعنت ہونے کے لئے شرطِ تحلیل کی تصریح ضروری نہیں بلکہ ایک دوسرے کی نیت کا علم بھی بقاعدہ ”المعروف کالمشروط ” اسی میں داخل ہے۔وھو مفہوم قولہ اذا اضمر لایکرہ ۔
حضرت والا کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟۔
(مولانا) محمد عامر (استاذ جامعة الرشید کراچی)
جواب : احوط تو بیشک وہی ہے جو حضرت نے ” احسن الفتاویٰ” میں لکھا ہے لیکن اس کو موردِ لعنت قرار دینا محلِ نظر ہے۔ فقہاء کے کلام سے اس کی تائید نہیں ہوتی ، علم ہونے اور ”معروف کالمشروط” میں بظاہر فرق ہے۔ معروف اس وقت کہیںگے جب کسی عرف کی بناء پر کوئی بات بغیر صراحت کے بھی مشروط سمجھی جاتی ہو،محض متعاقدین کے علم سے یہ بات حاصل نہیں ہوتی ۔ تمام حیلِ مباحثہ میں متعاقدین کو علم ہوتا ہے مگر اسے مشروط نہیں سمجھاجاتا۔ واللہ اعلم
فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ278۔ مفتی تقی عثمانی نے یہ ثابت کرنا چاہاہے کہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے حدیث سے جس مروجہ حلالہ کو ” اللہ کی لعنت پڑنے کا ذریعہ ” قرار دیا ہے اسلئے کہ اگر زبان سے وہ نیت نہ بھی کریں تو یہ نکاح حلالہ کی لعنت ہے۔ یہ درست نہیں اسلئے کہ فقہاء نے اس کی تائید نہیں کی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر حلالہ کی نیت ہو لیکن نیت کا زبان سے اظہار نہ کیا جائے تو پھر نیت کا کچھ اعتبار نہیں ہوگا اور جب تک زبان سے نیت نہ کی جائے تو دل کی نیت لعنت کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے”۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے برعکس یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ” ہمارے بعض نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر دو خاندانوں کو ملانے کی نیت سے حلالہ کیا جائے تو یہ باعثِ ثواب بھی ہے”۔ یعنی حلالہ کی لعنت سے بچنے کیلئے نیت کا اعتبار نہ ہوگا مگر حلالہ سے ثواب سمیٹنے کیلئے نیت کا اعتبار ہوگا”۔مفتی تقی عثمانی نے یہ واضح کیا ہے کہ تمام حیلوں میں علم کے باوجود ہم ملوث ہوتے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی عطاء اللہ نعیمی نے اپنی کتاب ” تین طلاق اور حلالہ کی شرعی حیثیت” میں فقہاء کی ان عبارات کو نقل کیا ہے۔ مفتی نعیمی سمجھ نہیں رکھتا اسلئے اس کی گمراہی عیسائیوں کی طرح ہے اور مفتی تقی عثمانی جان بوجھ کر حق سے منحرف ہیں اسلئے اس پر یہود کی طرح اللہ کا غضب ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی تعلیمات میں دونوں طبقات کا یہودونصاریٰ کے نقش قدم پر چلنا واضح ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن سے حلالہ کیلئے مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے فتویٰ دیا تھا تو لکھا تھا کہ” اس شرط پر نکاح کرے کہ طلاق کا اختیار بیوی کے پاس ہوگا”۔ لیکن دارالعلوم کراچی والے تین طلاق واقع ہونے کیلئے تو ہرطرح کے حیل وحجت کرتے ہیں لیکن حلالہ کی لعنت سے بچنے کیلئے اس کو علم کے باوجود بھی لعنت کا سبب نہیں قرار دیتے ہیں۔ اب دوسرے مدارس نے بھی مفتی محمد شفیع ، مفتی تقی عثمانی ، مفتی عبدالرؤف سکھروی وغیرہ کا راستہ اختیار کرنا شروع کیا ہے اسلئے کہ حلالہ کی لعنت نہ صرف لذت اٹھانے کا ذریعہ ہے بلکہ کاروبار بھی ہے۔
مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی نے کراچی کے لوگوں پر شادی کی رسم میں لفافے کی لین دین پر بھی سود کا فتویٰ لگادیا تھا اور اس کے کم ازکم گناہ کو اپنی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا تھا لیکن پھر سودی نظام سے معاوضہ لے کر بینکاری کے سودی نظام کو بھی اسلامی قرار دے دیا۔ پاکستان بھر کے علماء ومفتیان ایک طرف تھے لیکن مفتی تقی عثمانی نے بینکاری کے سودی نظام کو پھر بھی اسلامی قرار دے دیا۔ اب ایک مدرسہ کے بورڈ وفاق المدارس پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی اور دوسرے بورڈ کے صدر مفتی عبدالرحیم ہیں۔
کورکمانڈرز کانفرنس میں نکاح وطلاق اور سودی معیشت کے حوالے سے علماء حق اور علماء سوء کو دعوت دی جائے اور مجھے بھی طلب کیا جائے۔ اگر سب کی طرف سے تائید نہ ملے تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔مگر جب سب قرآن وسنت پر متفق ہوجائیں اور ایک انتہائی گھمبیر مسئلہ طلاق اور گھناؤنے مسئلہ حلالہ کی لعنت سے اُمت مسلمہ کی جان چھوٹ جائے تو ہمارا معاشرتی نظام بھی درست ہوگا اور معاشی وسیاسی مسائل سے بھی انشاء اللہ بہت جلد جان چھوٹے گی ۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی’ ‘ کا قرآن وسنت سے انحراف اورزبردست آپریشن کا آغاز

ہم مفتی تقی عثمانی کے اس فتوے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنی خواتین کو اپنے شوہروں پر حلالہ کی لعنت کیلئے انہوں نے ناجائز حرام کردیا ہے،اللہ نے ہمیں قبول کرلیا ہے!

جس طرح نسوار، سگریٹ، حقہ، بھنگ،شراب، چرس، افیم، کوکین ، شیشہ اور ہیروئن کے نشے کی علت لگتی ہے اسی طرح سے ان علماء ومفتیان کوحلال نکاح کو حرام کرنے کی بھی علت لگی ہے

ہمارا مقصد اپنا دفاع یا انتقام نہیں بلکہ ان علماء ومفتیان کے ہاتھوں جس طرح قرآن اور امت مسلمہ کی خواتین کی بے حرمتی ہورہی ہے اس کو روکنا اصل مقصد ہے۔علمائِ حق ہمارا ساتھ دیں!

مولانا فقیر محمد پر گریہ طاری رہتا لیکن حاجی عثمان کی محفل میں وہ وجد میں آکر گھومنا شروع ہوجاتے۔ حاجی عثمان نے کئی بزرگوں سے اکتساب فیض کیا۔ سیدعالم چشتی اور قادری سلسلہ سے خلافت تھی۔ مولانا سید محمد میاں جامعہ مدنیہ کریم پارک لاہور نے ” علماء ہند کا شاندار ماضی ”میں لکھا : ” شیح احمد سرہندی مجدد الف ثانیسب سلسلوں میں مقبول تھے اور سبھی خلافت وبیعت کی نسبت دینے کی کوشش کررہے تھے ، پھر رسول اللہ ۖ نے فیصلہ فرمایاکہ سب سلسلے کی طرف سے اجازت دی جائے لیکن نقشبندی سلسلہ کی خدمت کریں گے”۔
مولانا فقیر محمد نے کسی کے مشورہ پر حاجی عثمان سے خلافت واپس لی ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مہتمم مفتی احمدالرحمن اور مفتی ولی حسن نے کہا کہ آپ نے حاجی محمد عثمان کو ورود سے خلافت دی تو مشورے پر شرعاً خلافت واپس نہیں لے سکتے جب تک کہ دوبارہ ورود نہ ہو۔ مولانا فقیر محمد نے جامعة العلوم اسلامیة بنوری ٹاؤن کراچی کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ” میں نے حاجی محمد عثمان کو ورود کی نسبت سے خلافت دی تھی جو تاحال قائم اور دائم ہے”۔
اس پر مفتی احمد الرحمن، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن اور مفتی جمیل خان روزنامہ جنگ کراچی کے دستخط ہیں۔
مفتی احمد الرحمن و مفتی ولی حسن غریبوںکو حاجی عثمان کے خلفاء نے گاڑیوں کا مالک بنادیا تھا۔ پھر جب سرمایہ دار مرید مفتی تقی عثمانی کی سازش سے مخالف بن گئے اور دارالعلوم کراچی نے” الاستفتاء ” کے نام سے سوالات اور جوابات کو خود مرتب کیا تو مفتی رشیداحمدلدھیانوی نے حاجی عثمان کو دھمکی دی کہ اگر نہیں آئے تو یکطرفہ فتویٰ دیںگے۔ حاجی عثمان آپریشن کیلئے داخل تھے۔ پیشاب کی تھیلی ہاتھ میں لئے پہنچے تو علماء ومفتیان کی طوطا چشمی دیکھ کر حیران ہوگئے۔
مولانا فقیر محمد نے جن علماء ومفتیان کا شرعی فتویٰ مان کر لکھا تھا کہ مشورے سے ورود کی دی ہوئی خلافت واپس نہیں لی جاسکتی ۔ انہوں نے ہی مولانا فقیر محمد کو مشورہ دیا کہ خلافت واپس لو۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گمراہ پیر کی خلافت پر مولانا فقیر کی پیری تحفظات کا شکار بن جاتی مگر حاجی عثمان کے خلفاء جگر کے ٹکڑے تھے اور مولانا فقیر محمد ورود کی نسبت خلافت دینے کے باوجود معتبر تھے ؟ ۔ اگرحاجی عثمان پیری کے قابل نہیں تھے تو یہی فتویٰ پھر مولانا فقیرمحمد پر لگتا تھا؟۔
مولانا فقیر محمد شیخ و مرشد نہیں تھے بلکہ حاجی عثمان کے بارے میں لکھ دیا کہ ”مولانا اشرف علی تھانوی کے مرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکیسے بہت مشابہت رکھتے ہیں اور ان کا بہت شکریہ کہ27رمضان المبارک کی رات مسجد نبوی ۖ مدینہ منورہ میںورود کی خلافت کوقبول فرمالیا ہے”۔اس میں بڑے راز کی بات تھی کہ ورود کی خلافت ،TJابراہیم سے الائنس موٹرز کی کہانی، علماء ومفتیان کے شرمناک فتوے اور اس پر معافی مانگنے سے لیکر دوبارہ انتہائی جہالت اور کمینہ پن سے فتویٰ بازی اور بدمعاشی کے معاملات تک بہت حقائق سامنے آگئے ۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے مرید وخلفاء میں اکابر دیوبند تھے اور بریلوی مکتبہ فکر میں بھی حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا احترام ہے اور” فیصلہ ہفت مسئلہ” میں بریلوی دیوبندی اختلافات کو حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے ختم کیا۔ علماء دیوبند کااس کتاب سے اختلاف تھا بلکہ جلا دیا تھا لیکن مولانا اشرف علی تھانوی نے اس کو شائع کیا تھا۔جب فتویٰ کے بعدمیرا خانقاہ میں قیام تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ ” حاجی امداداللہ مہاجر مکی خانقاہ کے مشرقی دروازے سے داخل ہوئے اور کہا کہ میں عتیق کو دیکھنے آیا ہوں۔ میں کمرے میں آرام کررہا تھا ۔پھر کمرے کے دروازے پر آئے تو تھوڑی سی شرمندگی کا احساس ہوا اور دروازہ کھول دیا”۔ حاجی محمد عثمان مجھے حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر لے گئے لیکن میں نے ایسی کیفیت کی مزاحمت کی کہ مکاشفہ ہوجائے۔ پھر ایک دفعہ خواب دیکھا تھا کہ ”پہاڑ پر چڑھتے ہوئے جس سڑک پر چل رہے ہیں۔ وہ ساری کٹی ہوئی تھی۔ گاڑی کا یہ کمال ہوتا ہے کہ سڑک کی بھرائی بھی کرتی ہے اور مرمت بھی کرتی ہے اور اس پر کارپٹ بھی خود بخود بچھاتی ہے۔ اس میںتقریباً70،80افرادتھے”۔ حاجی محمد عثمان سے خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے پوچھ لیا کہ میں بھی اس میں ہوتا ہوں؟۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ ” آپ کیلئے70،80بھی کافی ہیں”۔ یہ بھی فرمایا تھا کہ ” آپ سے اللہ نے دین کا بہت بڑا کام لینا ہے اور آپ کے ذریعے اللہ صدیقین کی جماعت پیدا کرے گا”۔قرآن میں کافروں کا ذکر ہے اور مکذّبین کا ذکر ہے جو جھٹلانے والے ہوتے ہیں۔ایمان والوں کا ذکر ہے اور متصدقین کا ذکر ہے جس کا معنی تکذیب کے مقابلے میں تصدیق کرنے والے ہیں لیکن علماء نے ان سے صدقہ دینے والے مراد لئے۔
ہمارے کئی ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ باقی ہم اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ امت کی بھلائی کیلئے ایک بڑا انقلاب برپا ہوجائے ۔
اللہ نے قرآن میںفرمایا: منھم من قضٰی نحبہ ومنھم من ینتظر ۔ ایک وہ جنہوں نے اپناہدف پورا کردیا اور دوسرے وہ جو انتظار میں بیٹھے ہیں۔
مولانا فقیر محمد سادہ تھے۔ حاجی عثمان کی خلافت قدرت کی ایک چال تھی۔ اللہ نے فرمایا : ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین ”اور یہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور اللہ اپنا جال بچھاتا ہے اور اللہ بہتر جال بچھانے والا ہے”۔
علامہ یوسف بنوری اور دوسرے اکابر علماء جب حج پر مستورات کے ساتھ جاتے تو مستورات کو حاجی محمد عثمان کے ذمہ لگاتے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری نے اپنے صاحبزادے مولاناسید محمدبنوری سے فرمایا تھا کہ ” حاجی محمد عثمان سے خوف رکھو، ان کے ہاتھ میں چھڑی ہے”۔ مولانا سیدمحمد بنوری فتویٰ لگنے کے بعد بھی حاجی عثمان کے پاس آتے تھے اور علماء کرام کو بھی ساتھ لاتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا سید عبدالمجید ندیم کو بھی ساتھ لائے تھے۔ ندیم صاحب نے کہا تھا کہ ” عثمان نام ہے تو مظلومیت کا انداز بھی وہی ہے اسلئے کہ نام کا اثر ہوتا ہے اور جنہوں نے فتویٰ لگایا ہے کہ یہ گند اور بدبو کے ڈھیر ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” یہ سن70کا فتویٰ لگتا ہے۔ علماء ومفتیان نے سرمایہ داروں سے خوب مال کھایا ہوگااور یہ پیر کوئی اچھے آدمی ہوں گے”۔
حاجی عثمان کی بیعت سے پہلے مولانا اللہ یار خان کے مریدوں نے پیشکش کی تھی کہ مولانا اللہ یار خان نے کہا کہ مجھ سے بیعت نہ ہوں بلکہ رسول اللہ ۖ کے ہاتھ میں براہِ راست بیعت ہوگی لیکن میں نے اس پیشکش سے معذرت کرلی تھی اسلئے کہ انکے مریدوں نے کہا تھا کہ ”آپ بیعت ہوجائیں تو دنیا کی ساری ضروریات پوری کردیںگے”۔ مجھے ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ مولانا اللہ یار خان کے خلیفہ مولانا اکرم اعوان انقلابی تھے اور بہت سارے فوجی افسران ان سے بیعت تھے اور حاجی محمد عثمان سے بھی فوجی افسران بیعت تھے۔ وہ بھی انقلاب چاہتے تھے لیکن مرید فوجیوں اور علماء نے کوئی ساتھ نہیں دیاتھا ۔
مولانا عبدالقدوس خطیب جامع مسجد یارک ڈیرہ اسماعیل خان نے بتایا کہ ”مولانا اللہ یار خان نے وزیرستان کا سفر کیا تھا اور کہا تھا کہ میں ایک موتی تلاش کرنے آیا ہوں،اگر اللہ نے دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کی تلاش میں گئے تھے”۔
وزیرستان جلسہ عام میں مولانا نورمحمدMNA،مولانا اکرم اعوان اور میں ساتھ تھے ۔مولانا اکرم اعوان خلیفہ مولانا اللہ یار خان نے کہا تھاکہ ”میں کسان ہوں۔ کسان فصل اٹھاتا ہے تو باقی گندم اخراجات رکھتا ہے اور بہترین گندم کوبیج کیلئے محفوظ رکھتا ہے۔ اللہ نے وزیرستان کی عوام کو بیج کیلئے محفوظ رکھا ہوا ہے”۔
مفتی عبدالرحیم نے شیخ سید عبدالقار جیلانی، شاہ ولی اللہ، علامہ سیدیوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے معتقدات پر بھی کفروگمراہی، الحاد وزندقہ، قادیانیت اور دیگر فتوے لگادئیے تھے۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے اس خوف سے اتنی پھوسیاں ماری ہوں گی کہ دارالافتاء والارشاد کو بدبوسے بھر دیا ہوگا لیکن جب ہم نے رعایت کی تو پھر انہوں نے الائنس موٹرز کی نمک حلالی کیلئے اپنا وہی کام شروع کردیا۔ ہمیں بہت خوشی ہے کہ فتوؤں کا کواڑ بالکل کھلا رکھا گیاہے۔
مولانا فضل محمد یوسف زئی استاذ حدیث جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کہا تھا کہ ” مفتی رشید احمد لدھیانوی نے علامہ سید محمد یوسف بنوری سے اذیت ناک سلوک روا رکھا تھا اسلئے اللہ نے تیرے ہاتھوں اس کو عذاب کا مزا چکھادیا ”۔
تصوف وسلوک کے میدان میںعلماء ومفتیان کی نالائقی اپنی جگہ تھی لیکن جب درسِ نظامی کے نصاب کو دیکھا جائے اور اس سے باصلاحیت علماء ومفتیان کی جگہ کوڑھ دماغ شخصیات جنم لینے کا قضیہ دیکھا جائے تو معاملہ بڑا بگڑتا ہے۔ جب دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ ہماری وجہ سے اس پر متفق ہوجائیں کہ قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث کی تشریح پر اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابلِ قبول ہو ۔ حضرت عمر اور حضرت علی کا اختلاف نہیں رہے بلکہ سب کیلئے قابل قبول ہو۔ تمام مذہبی وسیاسی قیادت ایک جگہ جمع ہوکر اسلام کے حقیقی معاشرتی نظام کا نقشہ پاکستان اور پوری دنیا کے سامنے پیش کریں۔ہمارا مشن دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کیلئے قابل قبول ہے اور مذہبی طبقہ اس وجہ سے اقتدار کی دہلیز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ جان لو کہ مولانا فضل الرحمن و مریم نواز کیساتھ عمران خان اور آصف زرداری بھی اس مقدس مشن کا ساتھ دیں گے۔
شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلید کو عملی بدعت قرار دیا۔ علامہ یوسف بنوری نے اسکے ترجمہ پر تقریظ لکھی ہے اور تقریظ میں دوسری کتاب ”منصبِ امامت” کی بھی بہت تعریف لکھ دی ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کی وجہ سے اکابردیوبند پر اسلاف سے انحراف کا فتویٰ لگادیا تھا لیکن علماء دیوبند نے پھر تقلید کا دامن تھامنے پرکتاب لکھ دی۔ علامہ سیدیوسف بنوری کے والد مولانا زکریا بنوری نے لکھا کہ ” ہندوستان میں مذہب حنفی کی بقاء کا سہرا مولانا احمد رضا خان بریلوی کے سر جاتا ہے”۔ اہلحدیث کے مولانا اسحاق نے کہا کہ ”ایک نواب کی تعریف میں مولانا احمدرضا خان بریلوی سے اشعار کا تقاضہ کیا گیا کہ پھر نواب ماہانہ وظیفہ مقرر کردے گا تو مولانا احمد رضا بریلوی نے صاف انکار کردیا کہ” میں نبیۖ کی تعریف میں نعمت پڑھ سکتا ہوں۔ کسی نواب کیلئے قصیدہ گوئی کی توقع مجھ سے مت رکھو”۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حق کی راہ کے متلاشی افراد کیلئے قرآن وسنت اور اجماع وقیاس کا وہ راستہ کھول دیں جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔ فرقہ واریت نے امت کی اکثریت کو مذہبی طبقے سے بہت متنفر کردیا ہے۔ ہم علماء ومشائخ کی عزت کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔
نکاح وطلاق کے مسائل کی وجہ سے علماء ومفتیان نے اچھی تعلیم یافتہ اور سمجھدار قوم کو ذہنی مریض بنادیا ہے۔ ”فتاویٰ عثمانی” کے واقعات کاا ندراج کیا جائے تو دنیا دنگ رہ جائے گی کہ گیدڑ سنگھی کے بچے مفتی تقی عثمانی نے اسلام کا تماشہ بنادیا۔ انشاء اللہ دنیا میں اسلام کا نام و کام روشن ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن اپنے گھر میں میرے ساتھ مفتی تقی عثمانی کو بٹھادیں تو مولانا کا دماغ کھلے گا۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا تھا تو اپنے طعام کیلئے نوکری ڈھونڈ لی تھی، جب طلبہ نے اسرار کیا کہ مفت کی سہولت موجود ہے تو مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ میں نے کہا کہ ”میں سید ہوں اور زکوٰة میرے لئے جائز نہیں ”۔ انہوں نے کہا: ‘ ‘اکابرسادات نے مدارس میں پڑھا اور یہ نہیں کہا”۔ میں نے کہا: ”پھر کیامیرے لئے زکوٰة جائز ہوجائے گی؟ اور انشاء اللہ میں مسجد کی امامت، آذان اور قرآن کا درس دوں گا مگر تنخواہ نہیں لوں گا”۔جب یہ رپورٹ مدرسہ کے انتظامیہ کو دی گئی تو مجھے دفترمیں بلایا اور کہا: ” آپ کا داخلہ نہیں ہوسکا ہے”۔ لیکن اس کے برعکس جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پہلی تقریر یہ سن لی کہ اگر دنیا کا ارادہ ہے تو دنیا کو دنیا کے طریقے سے کمانا چاہیے اور مدرسہ چھوڑدو۔ پھر وہ وقت آیا کہ میں نے مسجد الٰہیہ میں بغیر تنخواہ کے خدمات انجام دیں تو حاجی محمد عثمان نے فرمایا کہ ”ہماری مسجد کو مسجد نبویۖ کے پہلے دور سے مشابہت مل گئی جس میں امام بغیر تنخواہ کے امامت کرتا تھا”۔
ہم سے اللہ تعالیٰ نے طلاق و حلالہ، عورت کے حقوق، قرآنی آیات کی تفسیر اور احادیث صحیحہ کے علاوہ فقہ واصول فقہ کے حوالے سے دین، علم اور ایمان کی جو زبردست خدمات لی ہے وہ حضرت حاجی محمد عثمان کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔ اس داستان میں میرے طالب علمی کے زمانے سے دین کو سمجھ اور اساتذہ کرام کی زبردست حوصلہ افزائی کا بھی بڑا عمل بلکہ بنیادی اور اصلی کمال ہے لیکن اگر یہ حادثہ نہ ہوتا تو شاید ہم سے اللہ تعالیٰ اتنا عظیم کا م بھی نہ لیتا۔سید عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کفار ، اہل کتاب اور گمراہ فرقوں سے نکاح کا بیان

کفار ، اہل کتاب اور گمراہ فرقوں سے نکاح کا بیان
فصل فی المناکحة بالکفار واھل الکتاب والفرق الضالة

درج بالا عنوان کے تحت7ذیلی عنوان ہیں۔
1:عیسائی عورت سے نکاح کا حکم : عیسائی عورت سے مسلمان کا نکاح منعقد ہوجاتا ہے ۔شرط یہ ہے کہ عورت واقعی عیسائی ہو، دہریہ نہ ہو۔ دوسری شرط یہ کہ نکاح شرعی طریقے پر دوگواہوں کے سامنے ہوا ہو۔
2:لامذہب اور شیعہ سے نکاح کا حکم : صورت مسئولہ میں لڑکا صراحةً سنی ہونے کا انکار کررہاہے اور اسکے والدین واضح شیعہ ہیں تو اب شیعہ ہونے سے انکار کا مطلب یا تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ تقیہ کررہاہے اور حقیقت میں شیعہ ہے۔ یا پھر وہ کوئی مذہب ہی نہیں رکھتا ، لامذہب ہے۔ اور دونوں صورتوں میں اس کا نکاح صحیح العقیدہ سنی لڑکی سے کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ لڑکا کہہ رہا ہو کہ وہ شیعہ نہیں ہے۔
3:قادیانی سے نکاح کا حکم اور کیا مسلمان ہونے کیلئے سرٹیفکیٹ ضروری ہے؟: ایک نوسر باز جعل سازقادیانی کے متعلق جواب میں لکھا ہے کہ اگر سوال میں ذکر کردہ واقعات درست ہیں تو مسماة نفیس فاطمہ کا نکاح مذکورہ شخص سے نہیں ہوا ۔ نکاح نامہ کے سادہ فارم پر صرف دستخط کردینے سے شرعاً نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے کم ازکم دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اگر مذکورہ شخص اب بھی قادیانی ہے اور مسلمان ہونے کا سر ٹیفکیٹ جھوٹا ہے تو قادیانی مرد سے مسلمان عورت کا نکاح نہیں ہوسکتا، خواہ دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہواہو۔ دوسرا یہ کہ قادیانی سے مسلمان ہونا درحقیقت قلبی عقائد کی تبدیلی اور ان کے اعلان پر موقوف ہے۔ اگر کوئی شخص قادیانی عقائد سے واقعةً تائب ہوجائے، زبان سے اس کا اعلان کردے تو وہ مسلمان ہوسکتا ہے خواہ اس کے پاس سرٹیفکیٹ نہ ہو۔ اگر دل سے تائب نہ ہوتو جھوٹا سر ٹیفکیٹ بنوانے سے مسلمان نہیں ہوسکتا۔
4:شیعہ سے نکاح کا حکم : ”ان سے نکاح تو ہوجاتا ہے مگر مناسب نہیں”۔ شیعہ کے بارے یہ کھلے متضاد فتوے دئیے گئے ۔
5:حاجی عثمان کے معتقد سے رشتہ جائز نہیں۔ نکاح کا انجام عمر بھر کی حرامکاری اور اولادالزنا۔
عنوانات6:اور7:کافر کی بیوی مسلمان ہوجائے توقاضی جب تک نکاح فسخ کا فیصلہ نہیں کرتا تو کافر سے نکاح برقرار رہتا ہے۔ومالم یفرق القاضی فھو زوجتہ ( شامی ج : ٢ص:٣٨٩)۔
قادیانی کی بیوی مسلمان ہوجائے توعدالتی فیصلے کے بغیر چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ قادیانی نوسر باز مرد کیلئے لکھ دیا کہ” نکاح درست نہیں” ۔یہ نہیں لکھا کہ قادیانی عورت کا مسلمان مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ کیا جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق کا قادیانی عورت اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا نکاح بچانا تھا؟۔
اللہ نے مشرک اور مشرکہ سے نکاح کا منع کیا ۔ عیسائی عورت تثلیث کی وجہ سے مشرکہ ہوتی ہے لیکن اس سے نکاح کا جواز ہے ۔ نبیۖ نے صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہونے والی عورتوں کو پناہ دی اور اللہ نے فرمایا کہ ” وہ اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں اور نہ شوہر ان کیلئے ہیں” ۔جج سے تنسیخ نکاح کا فیصلہ قرآن کے خلاف ہے۔ البتہ ام ہانی نے مشرک شوہر سے ہجرت نہ کی تو اس پر حرامکاری کا فتویٰ نہیں لگایا گیا۔ مولانا مودودی نے جسم جڑی ہوئی دو بہنوں کو بیک وقت ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا جائز قراردیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

احادیث صحیحہ اور صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے اقوال کی درست تعبیر اور طلاق کابڑا مسئلہ حل

امام ابوحنیفہ کے مسلک کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کو پہلا نمبر حاصل ہے۔پھر احادیث صحیحہ کو دوسرا نمبر حاصل ہے۔ پھر تیسرا نمبر اجماع اور چوتھا قیاس ہے۔
طلاق کے مسئلے کو قرآنی آیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ” طلاق کے بعد رجوع کیلئے بنیادی شرط اصلاح، صلح ، معروف طریقے سے رجوع ہے،جب بیوی راضی نہ ہو تو کسی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا”۔
حضرت عمر نے یقینی طور پر قرآن کی اس عام فہم اور بنیادی اصول کو سامنے رکھ کر اس وقت ایک ساتھ تین طلاق پر شوہر کو رجوع سے محروم کردیا کہ جب اس کی بیوی راضی نہیں تھی۔ یہ قرآن کے عین مطابق تھا۔ اس پر تین طرح کے لوگ سامنے آئے۔ ایک وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کی زبردست تائید کردی تھی۔ دوسرے وہ تھے جو حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے منافی قرار دیتے تھے۔ تیسرے وہ تھے جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو اجتہادی غلطی قرار دیا تھا۔
جنہوں نے حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن کے عین مطابق قرار دیا تھا وہ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین تھے۔ ائمہ مجتہدین میں پھر دو طبقے بن گئے۔ ایک حنفی ومالکی اور دوسرے شافعی۔ جبکہ حنبلی دونوں طرف موجود تھے۔مالکی اور حنفی مسلک یہ بن گیا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا بدعت اور گناہ ہے”۔ شافعی مسلک نے کہا کہ ” ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت اور مباح ہے”۔ احادیث کی کتب کے پورے ذخیرے میں صرف ایک حدیث حنفی ومالکی مسلک کی دلیل تھی کہ ”محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص کے متعلق نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ جس پر نبی ۖ غضبناک ہوئے اور کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں”۔ جبکہ شافعی مسلک کی دلیل یہ حدیث ہے کہ ”جب عویمر عجلانی نے اپنے بیوی کیساتھ لعان کیا تو ایک ساتھ تین طلاق دے دیئے”۔ دونوں احادیث سے دلیل جمہور نے یہ لی ہے کہ ”ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجاتی ہیںاور اگر نہیں ہوتیں تو پھر نبیۖ کیوں غضبناک ہوتے یا عویمرعجلانی کی تردید کیوں نہیں فرمائی ؟۔
اہل تشیع کے نزدیک جب تک دو گواہ کی موجودگی میں طلاق نہ دی جائے تو طلاق نہیں ہوتی ہے اور حضرت عمر کا یہ فعل قرآن وسنت کے منافی ہے۔جبکہ اہل حدیث کے نزدیک حضرت عمر کی یہ اجتہادی غلطی ہے ۔ اکٹھی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اور حضرت ابن عباس کی روایت سے یہ بالکل واضح ہے۔
اگر ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے تو اس سے نکلنے والے مسائل قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوںگے اسلئے کہ شوہر ایک ساتھ تین طلاق دے گا اور بیوی راضی نہیں ہوگی لیکن پھر بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا۔ تین طلاق تو بڑی بات ہے ،اگر ایک طلاق دینے کے بعد بھی بیوی رجوع پر راضی نہیں ہے تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ یہ قرآن وسنت کا واضح حکم ہے۔ بیوی کی رضامندی ، اصلاح، صلح اور معروف کی شرط کو نکال کر ہم نے دین کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ اگر بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق دیا جائے تو شوہر طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور دوبارہ طلاق دے گا اور عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا۔ سہ بارہ طلاق دے گا تو عورت کو ایک نہیں تین عدتیں گزارنے پر مجبور کیا جاسکے گا؟۔ شوہر کہے گا کہ میں نے طلاق دی ہے اور پھر کہے گا کہ میں نے مذاق کیا تھا۔ اگر مذاق تسلیم نہ ہو تو پھر اس کو طلاق رجعی قرار دیا جائے گا؟۔ ایک اور تین طلاق کی بحث ہی فضول ہے۔ ایک دی ہو یا تین طلاق لیکن اصل مسئلہ باہمی اصلاح سے رجوع کا ہے۔ عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا اور تین طلاق سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور عورت راضی ہو تو ایک طلاق پر بھی رجوع ہے اور تین طلاق پر بھی رجوع ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے مطابق فیصلہ دیا تھا۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم کی کتاب ” زادالمعاد ” میں بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر20الگ الگ اجتہادی مسائل ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ”امام حسن بصری نے کہااگر بیوی کو حرام کہہ دیا تو بعض علماء کے نزدیک یہ تیسری طلاق ہے۔ جس کے بعد جب تک عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرے گی تو اس کو پہلے کیلئے حرام قرار دیا جائے گا”۔ ایک روایت چھوڑ کر اگلی روایت میں ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ ” بیوی کو حرام قرار دینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے اور یہ سیرت رسول ۖ کا تقاضہ ہے کہ اس میں نہ طلاق ہے اور نہ کفارہ ہے”۔
خلفاء راشدین کے اجتہادات کی کتاب میں لکھا ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا حضرت عمر کے نزدیک ایک طلاق ہے اور حضرت علی کے نزدیک تین طلاق اور حضرت عثمان کے نزدیک ظہار ہے”۔ یہ سعودی عرب سے عربی میں چھپی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علی کی طرف حرام سے تیسری طلاق یا تین طلاق کی نسبت کیوں کی گئی ہے؟ جواب یہ ہے کہ حضرت علی نے معلوم کیا ہوگا اور جب پتہ چلا ہوگا کہ بیوی راضی نہیں ہے تو فتویٰ دیا ہوگا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور اس کو کسی نے تین طلاق اور کسی نے تیسری طلاق قرار دے دیا ہوگا۔
حضرت عمر سے پوچھا گیا کہ حرام کے لفظ کے بعد رجوع کی اجازت ہے تو معلوم کیا کہ بیوی راضی ہے؟ تو رجوع کا فتویٰ دیا ہوگا اور اس کو ایک طلاق سے تعبیر کیا ہوگا۔ قرآن کی سورۂ تحریم میںہے کہ نبی ۖ نے اپنے اوپر ماریہ قبطیہ کو حرام کیا تھا لیکن کیا صحابہ کرام نے اتنی بڑی سورت کی طرف توجہ نہیں دی؟۔
جب یہ صحابہ کرام کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ سے تین طلاق بھی واقع ہوتی ہیں اور ایک بھی تو پھر یہ بحث فضول بن جاتی ہے کہ ایک اور تین طلاق پر امت مسلمہ کے اندر فضول قسم کے نصاب اور مسائل پڑھائے جائیں۔ مجھے اتنا عرصہ ہوگیا کہ یہ مسائل بیان کررہا ہوں۔ دیوبندی ، بریلوی ، اہلحدیث اور اہل تشیع نے کھلے دل سے میری حمایت کی ہے لیکن مدارس کے وڈیروں نے اس پر چپ کی سادھ لی ہے اور امت مسلمہ کو گرداب سے نکالنا ان کے مفادات کے خلاف ہے یا نہیںمگر ان کو اپنی اجارہ داری کے جانے کا خوف دامن گیر ہے۔
جس شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط روایت صحیح مسلم کی ہے جس میں یہ واضح ہے کہ ابن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں اور اس سے زیادہ مضبوط صحیح بخاری کی ہے جس میں نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود حضرت ابن عمر سے رجوع کا ارشاد فرمایا اور عدت و طلاق کا طریقہ بھی سکھادیا تھا۔ عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ہیں لیکن کم عقل مذہبی طبقات نے جس طرح طلاق کے انتہائی احمقانہ مسائل کتابوں میں درج کئے ہیں ، اگر عوام کی نظروں میں آگئے تو علماء ومفتیان کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اور دریائے مردار میں غرق ہونا پڑے گا۔
میں صالحین علماء ومشائخ کی بات نہیں کرتا جیسے موجودہ دور میں تقی عثمانی کی موجودگی میں علماء حق اور صالحین دبا دئیے گئے یہ ہردور میں چلتا آیا ہے اور اب خدا کرے کہ یہ شیخ الاسلام اس حیلہ ساز اور اسلام دشمن علماء سوء کی آخری کڑی ہو اور امت مسلمہ ان حیلہ سازوں اور قرآن وسنت کے مجرموں سے بچ جائے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حنفی مسلک کے اصول فقہ میں مروجہ حلالے کی زبردست مخالفت اور مفتیوںکی ہٹ دھرمی

حنفی مسلک کے اصول فقہ میں مروجہ حلالے کی زبردست مخالفت اور مفتیوںکی ہٹ دھرمی

ملاجیون کی کتاب”نورالانوار ” بریلوی دیوبندی نصاب میں شامل ہے۔ مجھے بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے اس کی سند ملی ہے۔ مفتی محمدتقی عثمانی شیخ الاسلام اور مفتی محمد رفیع عثمانی مفتی اعظم کو بھی مولانا بدیع الزمان نے یہ کتاب پڑھائی ہے اور مجھے بھی اس کا شرف ملا ہے لیکن جب مفتی محمد شفیع اور ان کے صاحبزدگان مفتی تقی ومفتی رفیع عثمانی نے اس کے بعد مفتی محمود، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا عبیداللہ انور اور دیگر جمعیت علماء اسلام کے علماء ومشائخ پر1970میں کفر کا فتویٰ لگادیا تھا تو مولانا بنوری کے رفقاء مولانا بدیع الزمانو دیگر اساتذہ نے اپنے نالائق شاگردوں کو عاق کیا تھا اور پھر1988میں جب حاجی محمد عثمان پر اس نالائق ، چالاک، عیار، کم بخت اور بے غیرت وبے ضمیر طبقے نے فتویٰ لگادیا تو بنوری ٹاؤن کراچی کے مجذوب اور مفاد پرست طبقے کو بھی ساتھ ملایا تھا۔ لیکن بنوری ٹاؤن کراچی سے پھر اسکے بعد بھی حاجی عثمان کے حق میں فتوی آیا تھا۔ جس پر مجذوب مفتی اعظم پاکستان کے بھی دستخط تھے۔ ہم نے قریب سے مجذوب ، مفاد پرست اور بزدل طبقے کے حالات دیکھے تھے اسلئے کسی کو حق کی خاطر آواز اٹھانے کی زحمت نہیں دیتے۔
نورالانوار میں ہے کہ البقرہ230فان طلقہا فلا تحل لہ ” اگر پھر اس نے طلاق تو اس کیلئے حلال نہیں ہے ” کا تعلق احناف کے نزدیک ”ف ”تعقیب بلامہلت کی وجہ سے آیت229کے آخر میں فدیہ کی صورت سے ہے کیونکہ اس کی دلیل عربی زباں کا عام قاعدہ کلیہ ہے کہ حرف ” ف” اپنے سے پہلے فاصلے کو قبول نہیں کرتا ہے ۔اسلئے اس طلاق کا تعلق آیت229کے شروع میں دومرتبہ طلاق سے نہیں ہوسکتا ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق سے پہلے عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورت سے ہی اس تیسری طلاق کا تعلق ہے۔ جبکہ شافعی مسلک میں فدیہ کی صورت جملہ معترضہ ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد جب تیسری مرتبہ خلع دیا جائے تو خلع مستقل طلاق ہے اور تین طلاقوںکے بعد چوتھی طلاق کی گنجائش نہیں رہے گی اور پھر آیت230میں مذکور چوتھی طلا ق بنے گی۔
نورالانوار کا یہ سبق اتنا گنجلک ہے یا پھر علماء ومفتیان مسلک سازی میں اس قدر پاگل بن چکے ہیں کہ اتنی موٹی موٹی باتیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ اللہ کی کتاب قرآن مبین میں اس طرح کے اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ جب حنفی مسلک یہ ہے کہ حلالے کی طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو پھر اسکے بغیر حلالہ کی لعنت کا فتویٰ کیسے صادر کررہے ہیں؟۔ علامہ جاراللہ زمحشری نے تفسیر الکشاف میں لکھ دیا ہے کہ ” اس کا اطلاق دومرتبہ الگ الگ طلاق کی صورت ہی سے ہونا چاہیے”۔ علامہ ابن قیم نے بھی ”زادالمعاد ” میں عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو نقل کیا ہے کہ ” قرآنی آیات کا تقاضہ یہی ہے کہ دو الگ الگ مرتبہ طلاق کے بعد فدیہ دینے کی صورت سے اس طلاق کو منسلک کیا جائے جس میں اسکے بعد حلال نہ ہونے کا حکم ہے”۔ان سب سے حنفی مؤقف کی تائید ہورہی ہے۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے قرآن کی تفسیر تبیان القرآن اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرحیں بھی لکھی ہیں اور مناظرے میں بھی کمال فن دکھایا ہے مگر یہ لکھ دیا ہے کہ ” اگر آیت230البقرہ میں فان طلقھا کی ف نہ ہوتی ، جس میں تعقیب بلامہلت ہے تو قرآن و حدیث سے الگ الگ مرتبہ طلاق کا حکم ثابت ہوتا”۔ حالانکہ نورالانوار میں بھی تعقیب بلامہلت کا ذکر اس تناظر میں ہرگز بھی نہیں ہے کہ اس سے قرآنی آیت الطلاق مرتٰن میں الگ الگ مرتبہ طلاق کا حکم منسوخ ہوجائے گا بلکہ مطلب ہے کہ اس کا تعلق ماقبل فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا کہتے ہیں کہ علامہ غلام رسول سعیدی اس کے استاذ ہیں۔ایک وہ شیخ زبیر علی زئی اہلحدیث سے تعلق رکھتے تھے ۔شیخ زبیر علی زئی کا مؤقف بھی ایک ساتھ تین طلاق کے بعد وہی تھاجو دیوبندی بریلوی علماء کا ہے۔انجینئر محمد علی مرزا کو میں نے بالمشافہہ معاملہ سمجھنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے انکار کیا تھا اور سوال جواب کی گنجائش سے بالکل سختی سے منع کردیا تھا۔
بریلوی ، دیوبندی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے جید علماء کرام سے گزارش ہے کہ طلاق کے مسئلے پر حنفی مسلک کے نقطۂ نظر کی طرف توجہ کریں۔ انشاء اللہ شرح صدر ہوگا کہ” وہی حنفی مسلک درست ہے جس سے حنفی مسلک کے کم عقل طبقے نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے انحراف کیا ہے”۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے اور فدیہ کی صورت وہ ہے جس میں صلح کی گنجائش ہی نہیں رہتی ہے۔ قرآن کی جس آیت کو بھی بغور دیکھا جائے تو اس میں صلح کی گنجائش ہے اور صلح کی گنجائش کیساتھ اللہ نے بار بار رجوع کو واضح کیا ہے۔
آیت226البقرہ میں صلح کی شرط پر رجوع کی گنجائش واضح ہے۔ جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تواللہ نے عورتوں کو اختیار دینے کا حکم بھی واضح کیا تھا۔ آیت228البقرہ میں بھی عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت229البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت231البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت232البقرہ میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔ آیت2سورۂ طلاق میں بھی معروف کی شرط کیساتھ رجوع کی گنجائش ہے۔
قرآن کی طرف رجوع کیلئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مالٹا کی جیل سے رہائی کے بعد اظہار کیا تھا لیکن موقع نہیں ملا اور مولانا عبیداللہ سندھی نے ان کے مشن پر عمل کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی آخری دور میں فرمایا تھا کہ زندگی کو ضائع کردیا۔ اسلئے کہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی اور فقہی مسالک میں اپنا وقت ضائع کردیا۔ مولانا محمد یوسف بنوری نے قرآن وسنت کی احیاء کیلئے اپنے مدرسہ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسلام کا معاشی نظام آپ کے داماد مولانا طاسین نے پیش کیا اور اسلام کے معاشرتی نظام کی خدمت اللہ تعالیٰ بنوری ٹاؤن کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے مجھ عتیق گیلانی سے لے گا انشاء اللہ تعالیٰ العزیز۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بخاری کی روایت میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے قصے سے غلط فتویٰ اور اس کا اِزالہ!

بخاری کی روایت میں رفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے قصے سے غلط فتویٰ اور اس کا اِزالہ!

صحیح بخاری میں ہے کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دیں۔ پھر اس سے کسی اور شخص نے نکاح کیا ۔ پھر وہ عورت نبیۖ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ دوسرے شخص کے پاس ایسا ہے ، دوپٹے کا پلو دکھایا۔ نبی ۖ نے فرمایا: کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو جب تک دوسرے شوہر کا شہد (ذائقہ) نہ چکھ لو اور وہ تیرا نہ چکھ لے ۔ جیسے پہلے نے تیرا چکھ لیا اور تو نے اس کا چکھ لیا ہے۔
بخاری کی یہ روایت کو دیکھ کر عوام اور خواص سمجھتے ہیں کہ رفاعہ القرظی نے3طلاق دئیے اور پھر اس کی بیوی نے حلالہ کروایا۔ مباشرت سے پہلے وہ دوبارہ اپنے سابقہ شوہر کے پاس آنا چاہتی تھی تو اس پر نبیۖ نے اجازت نہیں دی کہ جب تک سابقہ شوہر کی طرح اس کا ذائقہ نہ چکھ لیا جائے تو حلالہ نہیں ہوا۔ جب بھی کوئی3طلاق دیتا ہے تو حنفی دیوبندی بریلوی علماء اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں اور ساتھ میں قرآنی آیات کی گردن مروڑ دیتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان آیت229البقرہ” طلاق دو مرتبہ ہے ۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ یعنی طلاق رجعی دومرتبہ ہے جس طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد اللہ نے واضح فرمایا ہے فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ آیت230البقرہ ”اور اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ پھر فقہی کتب سے بھی حوالے دئیے جاتے ہیں کہ” اگر غلام نے دو طلاقیں دیں توجب تک اس عورت سے کوئی دوسرا شوہر نکاح نہ کرلے تو وہ حلال نہیں ہوسکتی اور اگر لونڈی کو دو طلاقیں دی گئیں تو جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو وہ پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی ہے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کی مہر اور دستخط ہوتے ہیں۔
کوئی ان بے شرم ، بے غیرت ، بے ضمیر ، بے حس ، بے عقل ، بے ایمان اور انسانیت سے عاری لوگوں سے نہیں پوچھتا کہ جب تم لونڈی و غلام کی دو طلاقوں پر بھی حلالہ کے فتوے جاری کرتے ہو تو پھر اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمہارا قرآن کے تین طلاق سے کوئی کام نہیں بلکہ حلالہ کی لعنت کے چکر میں پڑے ہو؟۔یہ جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کے مفتیان حیلے اور حلالے کے چکر میں مذہب کی نوکری کررہے ہیں۔ جہاد اور خود کش کے فتوے دینے والے ان علماء ومفتیان اور ان کی آل اولاد نے کبھی اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے؟۔ جب ان کو تین طلاق کے بعد حلالے کی ضرورت پیش آتی تو اہلحدیث سے بغیر حلالے کا فتویٰ لیتے تھے۔
بخاری میں یہ واضح ہے کہ رفاعہ نے مرحلہ وار تین طلاقیں عدت کے حساب سے دی تھیں۔ عدت کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے نکاح کیا۔ جب اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگایا تو اس سے پہلے اس عورت نے حضرت عائشہ کے سامنے اپنے جسم پراس کے مارنے کے نشانات بھی دکھائے۔ حضرت عائشہ نے تصدیق کی کہ بہت سخت مار پڑی ہے۔ جبکہ صحیح بخاری میں یہ بھی واضح ہے کہ اس کا شوہر اپنے بچوں کو ساتھ لیکر آگیا اور اس نے نامردی کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں اس کی چمڑی ادھیڑ دیتا ہوں۔ بخاری کی ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی مروجہ حلالے کی طرح مسئلہ نہ تھا بلکہ وہ عورت اپنے دوسرے شوہر سے جان چھڑانا چاہتی تھی اور ضروری نہیں تھا کہ پہلا شوہر اس کو قبول کرتا اسلئے کہ سوچ سمجھ کر وہ طلاق دے کر جان چھڑاچکا تھا۔ بخاری کی تمام روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے فتویٰ دیناکہ ایک ساتھ تین طلاق دینے کے بعد حلالہ کرنا ضروری ہے ۔حالانکہ نامرد میں حلالہ کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے تو نبیۖ کیسے اسی نامرد سے حلالہ کرنے پر مجبور کرسکتے تھے؟۔ کچھ تو خدا کا خوف بھی کرتے؟۔
ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتے تھے تو ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان تھے جو مفتی محمد تقی عثمانی کے بھی دارالعلوم کراچی نانک واڑہ میں استاذ تھے۔ جب ہمیں سبق دیا: حتی تنکح زوجًا غیرہ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” ۔ قرآن میں عورت نکاح کیلئے خود مختار ہے جبکہ خبر واحد کی حدیث صحیحہ ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ قرآن کے مقابلے میں حنفی مسلک کے نزدیک اس حدیث پر عمل نہیں ہوسکتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ استاذ جی! حنفی مسلک کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں تطبیق کی جائے اور قرآن کی اس آیت میں طلاق شدہ عورت کا ذکر ہے اور شریعت میں طلاق شدہ اور کنواری کے احکام الگ الگ ہیں اسلئے حدیث کو آیت سے متضاد ٹھہرانے کی جگہ کنواری مراد لی جاسکتی ہے؟۔ مولانا بدیع الزمان کی نورانی پیشانی پر خوشی سے مزید نور کی جھلک نظر آئی اور فرمایا کہ آپ کی بات میں وزن ہے اور آئندہ کی تعلیم پر کوئی اچھی صورت نکالنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ مولانا بدیع الزمان حاجی محمد عثمان پر فتوے لگانے کے بھی مخالف تھے اور میری طرف سے مزاحمت پر بہت خوش تھے اور فتوؤں کے بعد ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے بھی فتوؤں کی مخالفت کی تھی اور حاجی محمد عثمان کی قبر پر اپنے داماد کیساتھ بھی گئے تھے۔ حالانکہ ان کی طرف بھی حاجی عثمان کے خلاف وہ جھوٹا فتویٰ منسوب کیا گیا تھا جس سے برأت کے اعلان میں انہوں نے اپنی معذروی اور مجبوری ظاہر کردی تھی۔ مولانا سلیم اللہ خان بھی حاجی عثمان کی وفات کے بعد مسجد الٰہیہ آئے تھے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا کہ ” بخاری کی حدیث خبر واحد ہے۔ احناف کے نزدیک اس کی وجہ سے نکاح پر مباشرت کا اضافہ نہیں ہوسکتا ”۔( کشف الباری)

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورۂ بقرہ کی آیت230کا مغالطہ اورسیاق وسباق کی آیات سے فیصلہ کن اِزالہ!

سورۂ بقرہ کی آیت230کا مغالطہ اورسیاق وسباق کی آیات سے فیصلہ کن اِزالہ!

اگر قرآنی آیات سورہ بقرہ224سے232تک کو غور وتدبر کرکے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو دلوں سے نہ صرف زنگ اتر جائے گا بلکہ قرآن کو حلالہ سمیت بہت ساری ان برائیوں کے خاتمے کا ذریعہ بھی سمجھا جائے گا جن میں دورِ جاہلیت کے اندر بھی لوگ مبتلاء تھے اور آج بھی بہت بری طرح اس کا شکار ہیں۔
حلالہ کی لعنت رسم جاہلیت کا مذہبی مسئلہ تھا جسے قرآن نے بالکل ختم کرکے رکھ دیا تھا اور حلالہ کے علاوہ بھی جاہلیت کے بہت سارے رسوم تھے جن سے قرآن نے آزادی دلائی تھی مگر آج پھر ان میں امت کو قرآن کے نام پر مبتلاء کیا گیا ہے۔ اس شمارے میں ایک ایک رسم کی پوری پوری تفصیل بیان کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ امید ہے کہ علماء کرام ، مفتیان عظام اور صلحاء امت اس طرف ضرور توجہ فرمائیں گے۔
جب میں نے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیاتو پڑھانے والے بعض علماء ومفتیان کی جہالت نے میرے سامنے رقص کیا۔ داخلہ سے پہلے مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے درس میں یہ مسئلہ سن لیا تو حیران ہوگیا کہ ” قرآن کا مصحف کتابی شکل میں اللہ کا کلام نہیں ہے اور اس پر حلف کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ البتہ یہ زبان سے کہا جائے کہ اللہ کے کلام کی قسم ! تو پھر اس کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا”۔
جامعہ میں داخلہ لیا تو ہمارے اساتذہ مولانا عبدالقیوم چترالی اور مولانا عبدالمنان ناصر تھے اور دوسرے فریق (سیکشن) کو مفتی عبدالسمیع شہید پڑھاتے تھے۔ مفتی عبدالسمیع اپنے شاگردوں اور ہمارے فریق میں مقابلہ کراتے تھے۔ ایک دن سرِ راہ مجھ سے سوال کیا تو میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ!۔ پھر میں نے سوال کیا تو انہوں نے درست جواب نہیں دیا۔ مکالمے کا سلسلہ آخر اس حد تک پہنچ گیا کہ انہوں نے کہا کہ قرآن کی کتابی شکل کو آپ اللہ کا کلام نہیں مانتے ؟۔ میں نے کہا کہ نہیں!۔ انہوں نے قرآن منگوایا ،بڑے مجمع میں پوچھا کہ ” یہ اللہ کا کلام ہے؟” ۔ میں نے کہا کہ ” نہیں!”۔ تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کافر ہوگئے ہو!۔ میں نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں ، ان سے میں نے یہی مسئلہ سنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”تم افغانی لوگ پڑھ کر آتے ہو اور مقصد پڑھنا نہیں بلکہ ہمیں ذلیل کرنا ہوتا ہے”۔ اور بہت برا بھلا کہا۔
اس سے مجھے پتہ چل گیا کہ عوام ہی دینی علوم سے جاہل نہیں ہیں بلکہ علماء کا بھی حال مختلف نہیں ہے۔ پھر اصول فقہ میں قرآن کی تعریف پڑھی کہ ”مصاحف میں مکتوب اللہ کا کلام نہیں ہے” جس پر تعجب نہیں ہوا لیکن جب شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب میں دیکھا کہ ” علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے ” تو بہت پریشان ہوا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اس کے خلاف فتویٰ لیا اور دونوں مؤقف کو اخبار میں شائع کردیا۔ جب مفتی تقی عثمانی پر دباؤ پڑگیا تو اپنی دونوں کتابوں سے اس کو نکالنے کا اعلان کردیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ”یہ میرا فتویٰ نہیں، میں نے صرف نقل کیا ، میں اس کے جواز کا تصور بھی نہیں کرسکتاہوں”۔ تو یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ فتاویٰ شامیہ، فتاویٰ قاضی خان اور صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ” تجنیس” میں اس کو پھر کیوں نقل کیا ہے؟۔ پھر اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ جو اصول فقہ میں قرآن کی تعریف ہے کہ” مصحف اللہ کی کتاب نہیں ہے” تو یہ یہی غلطی کی بنیاد ہے جس کو شیخ الاسلام سے شہیدالاسلام تک کسی نے بھی نہیں سمجھا ہے ۔ جب لکھائی کی شکل میں نعوذباللہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے توپیشاب سے لکھنے میں پھر کیا حرج ہوسکتا ہے؟۔
آج بھی پڑھایا جاتا ہے کہ قرآن کا مصحف اللہ کی کتاب نہیں اور اس پر حلف نہیں ہوتا۔ جن کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھناجائز ہے ان کو مستند مانا جاتا ہے اور علماء ومفتیان انتظار میں لیٹے ہوئے ہیں کہ جب امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو انکے چوتڑوں پر لاتیں مار مار کر ان کو گمراہی کی دلدل سے نکالیںگے۔اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ: زانی اور زانیہ کو کھلے عام100،100کوڑے لگاؤ اور اس پر کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنالو۔ جب تک حلالہ کی لعنت میں مبتلاء علماء ومفتیان کو100،100کوڑے سرعام لگانے کا تماشہ لوگوں کو نہیں دکھایا جائے گا تو انہوں نے اس حلالہ کی لعنت اور اس کی لذت آشنائی سے باز نہیں آنا۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو جب سودی بینکاری پرمعاوضہ اور مراعات مل رہے تھے تو سارے علماء اور مفتیان کے مشوروں ، نصیحتوں، فتوؤں ، وعیدوں اور ملامتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ہٹ دھرمی کے مظاہرے پر زبردست طریقے سے ڈٹے رہے۔ جب حاجی محمد عثمان اور انکے معتقدین پر فتوے لگائے گئے تھے تو اس وقت ہم نے ان سب کی علمی اور ایمانی حیثیت کو اچھی طرح سے بھانپ لیا تھا کہ یہ کیا چیز ہیں؟۔
جب آیت224البقرہ میں لوگوں کے درمیان صلح نہ کرنے کیلئے اللہ کو بطور ڈھال استعمال کرنے سے منع فرمایا تو پھر آیت230میں میاں بیوی کے درمیان صلح کا راستہ روکنے کی تضاد بیانی کیسے کرسکتاہے؟۔
جب آیت225البقرہ میں واضح فرمایا کہ اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر دل کی کمائی پر پکڑتا ہے تو یہ دلیل ہے کہ صلح کی راہ میں الفاظ کی بنیاد پر رکاوٹ ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جب آیت226البقرہ میں طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی میں انتظار کی عدت4ماہ ہے جس میں صلح سے رجوع ہوسکتا ہے اور آیت227البقرہ میں ہے کہ ”اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ جس کا مطلب ہے کہ طلاق کا عزم ہی دل ہی کا گناہ ہے اسلئے کہ اس کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے عدت ایک ماہ بڑھ گئی ۔ اگر طلاق کا اظہار ہوتا تو پھر3ادوار یا3ماہ تک انتظار کرنا پڑتا جوآیت228البقرہ میں ہے۔
ان آیات226اور228البقرہ میں عدت کے اندر باہمی رضامندی سے4ماہ تک اور3اداوار یا3ماہ تک رجوع کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ یہ بھی واضح ہے کہ رجوع کا تعلق طلاق کے عدد سے نہیں بلکہ عدت سے ہے۔ یہ قاعدہ اور کلیہ کسی ان پڑھ ، کم عقل اور انتہائی ضدی شخص کے سامنے رکھاجائے تو بھی یہ وضاحت سمجھ میں آتی ہے کہ صلح کی شرط پر اللہ نے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے اور صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
آیت229البقرہ میں 3مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعداس صورتحال کا ذکر ہے کہ جب میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے یہ طے کرلیں کہ آئندہ صلح کیلئے رابطہ کی کوئی ادنیٰ صورت بھی نہیں چھوڑنی ہے تو پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ صلح کی صورت میں رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طلاق کے بعدوہ عورت کسی اور شوہر سے اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہے یا نہیں ؟۔ اس رسمِ بد کا خاتمہ کرنے کیلئے اللہ نے یہ واضح کیا کہ اس طرح سے طلاق دی ،جس میں باہمی رضامندی سے صلح کی گنجائش نہیں چھوڑی تو پھر عورت جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو وہ پہلا شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ آیت230۔ حالانکہ اللہ نے آیت226اور228البقرہ میں بھی یہ واضح کیا تھا کہ طلاق کے بعد بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں لیکن جب تک آیت230کے سخت الفاظ کا استعمال نہیں کیا تو علماء کو یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ باہمی اصلاح ورضامندی کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔ یہ آیت محور بن گئی کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ اسکے بعد آیات231اور232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کا واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے لیکن مجال ہے کہ حلالہ کی لذت کے متوالے قرآن کی طرف رجوع کریں اور سورۂ بقرہ کی ان تمام آیات کا خلاصہ سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں موجود ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن وسنت اور حنفی مسلک میں حلالہ کی لعنت نہیں مگر نفس پرستوں نے کھیل بگاڑدیاہے!

قرآن وسنت اور حنفی مسلک میں حلالہ کی لعنت نہیں مگر نفس پرستوں نے کھیل بگاڑدیاہے!

طلاق ایک شرعی مسئلہ تھا اور عوام الناس کے دل ودماغ میںقرآن وسنت کی سمجھ نہیں تھی، اب سودی بینکاری معاشی نظام ہے اور عوام بھی اس کی سمجھ رکھتے ہیں مگر پھراس کو کس طرح اسلامی بنادیا؟

اُٹھو، لوگو، آنکھیں کھولو!۔اندھو،گونگو سچ بولو۔ کانوںسے سنو،دِلوں سے سمجھو!۔ عقل سے عاری مت بنو، ٹھیک تولو۔ کم ہنسو اور زیادہ رولو۔اتنا لیٹنا ٹھیک نہیں ہے ، اٹھ بیٹھو اورکروٹ بدلو!

ہم نے بفضل تعالیٰ تین طلاق، اس سے رجوع اور حلالہ کی لعنت کے خاتمہ پر مسلسل کتابیں لکھیں، اخبار میں مضامین شائع کئے اور سوشل میڈیا پر بیانات بھی جاری کئے ہیں لیکن اسکے باوجود رمضان المبارک میں طلاق کے مسئلہ پر تسلسل کیساتھ اسی طرح سے مین اسٹریم میڈیا پرجہالتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔جس کو جہالت کہا جائے؟۔ دانستہ قرآن وسنت اور امت مسلمہ کا بیڑہ غرق کرنے کا سلسلہ کہا جائے؟۔ بیماری سمجھنے کیلئے یہ بات سمجھ لی جائے کہ مارکیٹ میں سود اور اسلامی بینکاری پر مفتی محمد تقی عثمانی کے خلاف دیوبندی مدارس کے معروف علماء و مفتیان کا فتوی ہے لیکن آج سبھی نے ہتھیار پھینک دئیے البتہ مولانا طارق جمیل نے عید پر میڈیا کو انٹرویو میں کہاہے کہ ” نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوتاہے، اسلامی بینکاری اور قسطوں کا کاروبار سود ہے۔جس میں پاکستان سے زیادہ دنیا بھر کے لوگ پھنسے ہوئے ہیں”۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر5سو سال بعدسودی نظام کو اسلامی قرار دیا جائے گا۔ حلالہ کی لعنت کا بھی سلسلہ اسی طرح سے کچھ عرصہ قبل جاری ہوا تھا اور پھر یہ مدارس کا نصاب بن گیا اور آج اس لعنت کو لوگ اسلام کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ سعودی عرب میں پہلے علامہ ابن تیمیہ اورابن قیم کے مسلک پر عمل ہوتا تھا پھر انہوں نے بھی مسلک حنفی کے نام نہاد ماہرین کی ٹیم بلاکر نام نہاد حنفی مسلک کے مطابق اکٹھی تین طلاق کا فتویٰ جاری کردیاہے۔
سورۂ طلاق میں مسئلہ طلاق کی بھرپور وضاحت ہے۔ عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع یا پھر معروف طریقے سے چھوڑنا اور دو عادل گواہ مقرر کرنے کی وضاحت۔ سورۂ النساء میں خلع اور طلاق کی وضاحت ۔ اگر سورۂ طلاق اور سورۂ النساء کی وضاحتوں کو بھرپور طریقے سے سمجھ لیا جاتا تو سورۂ بقرہ کی آیات کا بھی بھرپور طریقے سے خلاصہ سمجھ میں آجاتا۔ پھر امت مسلمہ کو بے انتہاء الجھنوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ قرآن کی تمام آیات میں زبردست ربط وضبط ہے اور قرآنی آیات میں کوئی اور کسی قسم کا تضاد نہیں ہے۔ احادیث صحیحہ سے بھی قرآن کا کوئی تضاد نہیں ہے۔ اگر قرآن وسنت اور اجماع کو حفظ مراتب کے ساتھ سمجھنے کی ایک مرتبہ کو شش کی جائے تو پھر امت مسلمہ اور عالم انسانیت کا اسلام کے دین فطرت پرنہ صرف اتحاداور اتفاق ہوجائے گا بلکہ تمام مذاہب اور عالم انسانیت وحدت کی راہ پر گامزن ہوجائیںگے۔ طلاق اور خلع کے مسئلے کو اس غلط طریقے سے الجھادیاگیا ہے کہ عالم انسانیت تو بہت دور کی بات ہے مسلمانوں کے مسالک یا فرقوں کا بھی اس غیرفطری انداز پر کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔ جس طرح سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا گیا ہے اور لوگ اس کو اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ خطرناک طریقے سے 3طلاق اور حلالے کا مسئلہ الجھایا گیا ہے۔ ریاستی اور حکومتی سطح پر اہتمام ہو تو ہم اس مشکل سے نکل سکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے سودی بینکاری کی قیادت کرکے اپنا نام حیلہ سازوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اب اس کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر بنادیا گیا ہے ۔ اس سے پہلے جتنے صدور تھے مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سب نے اس نام نہاد اسلامی بینکاری کو سودی نظام قرار دے دیا ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی، مفتی زر ولی خان اور مولانا عبداللہ درخواستی کے جانشینوں کو چاہیے کہ اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں اور پورے پاکستان کے علماء کی قیادت کا حق ادا کریں۔ قرآن کے بہت سارے واضح احکام بالکل مسخ کئے گئے ہیں اور ہم نے فقہ واصول فقہ کی کتابوں کے علاوہ احادیث کی کتب سے بھی بہت ساری چیزوں کی ایسی نشاندہی کردی ہے کہ پوری امت مسلمہ اسلام کے جھنڈے تلے متحد ہوسکتی ہے۔ فرقہ واریت اور حیلہ سازی کا ناسور اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان بھی مٹادے گا۔ جب سود اسلامی بن گیا تو کتے کی دم کا داڑھی بننا رہ گیا؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن میں حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہے لیکن علماء اورفقہاء نے قرآن چھوڑ کر معاملہ اُلٹ دیا

قرآن میں حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہے لیکن علماء اورفقہاء نے قرآن چھوڑ کر معاملہ اُلٹ دیا

عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پرفرمایا کہ ”طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے ”۔ (البقرہ آیت229)پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ ” دو مرتبہ طلاق کے بعد قرآن میں تیسری طلاق اسی آیت میں یہی احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔اور پھر نبی ۖ حضرت ابن عمر پرحیض میں طلاق دینے پر بہت غضبناک ہوئے اور حکم دیا کہ ” رجوع کرلو۔ پھر پاکی کے دنوں میں طلاق دے دو، یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیدو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے”۔( بخاری)
قرآن و حدیث میں ہے کہ ایک سے زیادہ مرتبہ طلاق کا تعلق عدت میں پاکی کے دنوں سے ہے۔جب حیض آتا ہو۔ آیت228میں عدت کے تین ادوار کا تعلق حیض وطہر سے جڑا ہوا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ” عدت میں انکے شوہر ان کو باہمی اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔(228البقرہ)
ایک مرتبہ میں3طلاق دیدئیے جائیں یا الگ الگ مراحل میں ، بہرحال اللہ نے واضح طور پر صلح کی شرط پر عدت کے دوران ان کے شوہروں کو ہی رجوع کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ البتہ جب عدت گزر جائے تو پھر اگرچہ وہی شوہر بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط پر رجوع کا حق رکھتا ہے لیکن کسی اور کو بھی نکاح کرنے کا پورا پورا حق مل جاتا ہے۔ اگر شوہر نے ایک مرتبہ طلاق دے دی تو عدت تک عورت پہلے شوہر کے نکاح میں رہنے کی پابند ہے اور صلح کی شرط پر وہی شوہر زیادہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس کو لوٹائے لیکن صلح کی شرط نہ ہو تو عورت کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور شوہر سے بھی نکاح کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے۔ قرآن کے الفاظ میں معانی اور حقائق کا توازن موجود ہے لیکن افسوس کہ اس طرف آج تک امت نے کوئی اجتماعی توجہ نہیں کی۔ جس کی شکایت اللہ نے قرآن میں درج کی کہ ” رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (سورة الفرقان )
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر اتنے جذباتی تھے کہ قرآن کے واضح احکام کو پسِ پشت ڈال کر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ جاری کردیا؟۔ اتنی بڑی طلاق بدعت کے مرتکب ہوگئے؟۔ قرآن وسنت سے امت مسلمہ کو انحراف کی راہ پر ڈال دیا ؟۔ امت مسلمہ کے اختلافات اور گمراہی کا سبب بن گئے؟۔ اہل تشیع بیچاروں کو تو غمِ حسین سے اتنی فرصت نہیں تھی کہ یزید کو چھوڑ کر حضرت عمر کے خلاف بکنے کی جسارت کرتے لیکن اہل سنت نے خود ایک جلیل القدر صحابی حضرت عمر فاروق اعظم کی طرف طلاق بدعت کو منسوب کیا اور قرآن وسنت سے انحراف کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ جب قرآن وسنت میں طلاق کا حکم اور طریقہ الگ تھا اور حضرت عمر نے اس سے انحراف کرکے امت کو بدعت پر ڈال دیا تو بہت سارے لوگ اہل سنت کے مسلک کو چھوڑ کر اہل تشیع بن گئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے داماد علامہ زعیم قادری بھی بدترین شیعہ بن گیا تھا۔
حنفی مسلک یہ ہے کہ” اگر کوئی صحیح حدیث بھی قرآن سے متصادم ہو تو اس کو چھوڑ دو۔ البتہ اگر تطبیق ہوسکے تو پھر دو ضعیف احادیث میں تطبیق کرو”۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات اور احادیث صحیحہ سے انحراف کیا جائے؟۔ فقہ کی کتابوں میں بہت سارے معاملات کے اندر حضرت عمر سے فقہ حنفی نے بھرپور اختلاف کیا ہے جو بالکل اور بہت زیادہ عیاں ہیں۔
طلاق کے مسئلے میں حلالہ کے شوقین حضرات نے گنگا کو الٹا بہانے کی کوشش کی ہے۔ جب قرآن میں واضح ہے کہ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور ایک بار میں بھی دو طلاقیں نہیں ہوسکتی ہیں ایک ساتھ تین طلاق تو بہت دور کی بات ہے تو چاہیے تھا کہ حنفی اصول فقہ کے مطابق نہ صرف حضرت عمر کے فیصلے کو بلکہ اگر اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث بھی ملتی تو اس کی فقہ کی کتابوں میں تردید کی جاتی۔ لیکن افسوس کہ شافعی فقہاء نے حضرت عمر کے قول کو سنت اور حنفی فقہاء نے بدعت قرار دیکر قبول کیا۔ شافعی فقہاء نے حدیث سے اپنا مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی اور حنفی فقہاء نے بھی حدیث سے اپنا مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اور ساتھ میں قرآنی آیات کی تفسیر میں بہت بری طرح توڑ مروڑ کی ناکام کوشش فرمائی۔ یہ بھی نہ دیکھا کہ قرآنی آیات میں بھرپور وضاحتوں کے باوجود اس سے معنوی تحریف کا ارتکاب کتنا زیادہ بدترین خطرناک ہتھکنڈہ ہے؟۔
اگر حلالہ کی لعنت سے جنسی لذات کا فائدہ اٹھانے والے قرآن کے ٹھوس ، واضح اور فیصلہ کن آیات کو دیکھتے تو حضرت عمر کی طرف بھی یہ بڑی غلطی منسوب کرنے کی جسارت نہ کرتے۔ شارٹ کٹ میں یہ فیصلہ کرتے کہ جب اللہ نے عدت میں باہمی اصلاح وصلح کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو پھراس کے مقابلے حضرت عمر کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے کوئی صحیح حدیث بھی قابل قبول نہیں ہے۔ تفصیلی فیصلہ میں لکھ دیتے کہ حضرت عمر اتنے کم عقل نہیں تھے کہ اس طرح قرآنی آیات کے منافی واضح فیصلہ کرتے۔ حضرت عمر کے دربار میں شوہر فیصلہ اسلئے لایا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ اگر وہ راضی ہوتی تو فیصلہ کرنے کیلئے حضرت عمر کے دربار تک بات پہنچنے کی ہرگزضرورت پیش نہ آتی۔ جب عورت راضی نہیں تھی تو قرآن کا یہ فیصلہ ہے کہ صلح واصلاح کے بغیر ایک طلاق کے بعد بھی شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے ،اسلئے بلاشبہ حضرت عمر کا فیصلہ قرآن کے عین مطابق100%درست تھا ۔
حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دوتین سالوں تک ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کا فیصلہ جاری کردیا۔ صحیح مسلم کی اس روایت میں قرآنی آیات کے مطابق یہ تطبیق ہے کہ پہلے اکٹھی تین طلاق پر جھگڑارہتا تھا لیکن عدت میں رجوع کا دروازہ بھی کھلا ہوتا تھا اور جب حضرت عمر تک معاملہ پہنچادیا گیا تو آپ نے علیحدگی کا فیصلہ دے دیا۔ اگر اس سے پہلے بھی جھگڑا کسی حکمران کے دربار یا مفتی کے دارالافتاء میں پہنچتا تو یہی فیصلہ اور فتویٰ ملنا تھا لیکن اتفاق سے حضرت عمر کے دور میں یہ معاملہ پیش آیا۔ باقی فسانہ بعد میں بنایا گیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv