محارم ، بہو اور سالی کو شہوت سے چھونا اور مصافحہ کا حکم….
نو سال سے کم بیٹی کو برہنہ دیکھنے کی صورت میں حرمت کا حکم
ساس سے زنا کرنے کی صورت میں بیوی سے نکاح ……
امام ابوحنیفہ اورامام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک حرمت……
بیٹی کیساتھ زنا سے آدمی پر اپنی بیوی حرام ہوجاتی ہے۔
بھتیجی کو شہوت سے چھونے کے بعد اس کیساتھ بیٹے کا نکاح
بیٹے کا ماں کو شہوت سے چھونے سے حرمت کب ہوگی؟۔
ہم بستری کے وقت بیوی کی والدہ کا تصور کرنے سے نکاح.
حرمتِ مصاہرت کی شرائط و احکام
عورت کو چھونے کے بعد انزال سے حرمت مصاہرت کا حکم
بھانجی کیساتھ ہم بستری کرنے پر ماموں کے نکاح کا حکم….
سوتیلی بیٹی کے ہاتھ میں زبردستی آلہ تناسل پکڑوانے…..
ساس کے پستان کو چھونے سے حرمت مصاہرت کا حکم
سسر کا بہو کو شہوت کے ساتھ چھونا
……بقیہ (بکواسات)
حرمت مصاہرت کی شرائط و احکام
سوال:1۔ اگر داماد ساس کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو کیا اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجاتی ہے؟ اسی طرح اگر سسر اپنی بہو کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
2۔اگر باپ پیار و شفقت سے اپنی بالغ بیٹی کابوسہ لے اور اسے پیار سے چومے تو کیا بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجاتی ہے؟۔ راہ نمائی فرمائیں۔ جواب
(1) واضح رہے کہ مرد کے کسی عورت کو محض شہوت سے دیکھنے یا چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، شرعا چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
6۔شہوت سے دیکھنے یا چھونے کی صورت میں اس وقت انزال نہ ہوا ہو، اگر اسی وقت انزال ہوگیا تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔
(2) اگر باپ پیار و شفقت کی بنا پر اپنی بالغ بیٹی کو بوسہ دے اور اسے پیار سے چومے تو بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام نہیں ہوگی البتہ اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت پیدا ہوجائے یا
بوسہ دینا اور چومنا شہوت کیساتھ ہو اور اگر پہلے شہوت تھی تو وہ بڑھ گئی ہو تو اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجائے گی، نیز اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت کا غالبِ گمان ہو تو اپنی بالغ بیٹی کو چومنا یا بوسہ دینا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی:(وأصل ماستہ وناظرة الی ذکرہ والمنظور الی فرجہا) المدور (الداخل).. …(قولہ : فلاحرمة) لانہ بانزال تبین أنہ غیرمفض الی وط ء ھدایة…. فان أنزل لم تبت والا ثبت لا انھا ثبت بالمس ثم بالانزال تسقط ؛ لأن حرمة المصاہرة اذا تثبت لاتسقط أبدا ایچ ایم سعیدکمپنی
فتاوی عالمگیری :ووجود الشھوة من احدھما یکفی وشرطہ أن لاینزل حتی لوانزل عندالمس أو النظر لم تثبت بہ حرمت المصاہرةکذا فی التبیین . قال صدر الشہید وعلیہ الفتویٰ کذا فی الشمنی شرح النقایة : ولومس فأنزل لم تثبت بہ حرمة المصاہرة فی الصحیح لانہ تبین بالانزال انہ غیر داع الی الوط ء .کذا فی الکافی۔ ( ج:1مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
عورت کو چھونے کے بعد انزال سے حرمت مصاہرت کا حکم
سوال :اگر کوئی شخص کسی عورت کو شہوت کیساتھ ہاتھ لگائے یا گلے لگائے یا گلے لگاتے ہی انزال بھی ہوجائے لیکن اس میں برہنہ کچھ نہیں کیا ہو تو کیا اس عورت کے بچوں کیساتھ اس مرد کی شادی ہوسکتی ہے؟۔یا اس عورت کے بچوں کے ساتھ اس مرد کے بچوں کی شادی ہوسکتی ہے؟۔
جواب: واضح رہے کہ حرمت مصاہرت جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا اور شرائط معتبرہ کیساتھ دواعی زنا ( شہوت کیساتھ چھونے اوردیکھنے) سے بھی ثابت ہوجاتی ہے،مس یعنی چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہونے کیلئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو۔اگر انزال ہوگیا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
سوتیلی بیٹی کے ہاتھ میں زبردستی آلہ تناسل پکڑوانے…..
سوال :ایک شخص نے مطلقہ سے شادی کی۔ شادی کے بعد اس مطلقہ بیوی کی تیرا سالہ بیٹی کے پیٹ کو چھوا،اوراس کے ہاتھ میں زبردستی اپنا آلہ تناسل پکڑوادیا، تو کیا اس شخص کا نکاح اس مطلقہ سے برقرار رہا یا ٹوٹ گیا؟۔
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی اپنی بیٹی ( چاہے سوتیلی ہو یا سگی)………… صورت مسئولہ میںاگر سوتیلے باپ کو اس وقت انزال نہ ہوا ہو تو حرمت مصاہرةقائم ہوگئی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے اور دونوں کا مزید ساتھ رہنا شرعاًدرست نہیںہے جس کی وجہ سے شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر یا نکاح سے خارج کرنے کے الفاظ کہہ کر اس سے علیحدگی اختیار کرے۔
ساس کے پستان کو چھونے سے حرمت مصاہرت کا حکم
سوال:ایک شخص نے دھوکہ سے ساس کے پستان کو پکڑلیا،شہوت کا پایا جانا توظاہر ہی ہے ………چانچہ فتاویٰ ہندیہ میں: ولو اخذ ثدیھا وقال ما کان شھوة لا یصدق لان الغالب خلافہ وکذا فی الشامی، البحر والمیط (اور اگر اس کو پستان سے پکڑلیا اور کہا کہ شہوت نہیں تھی تو تصدیق نہ ہو گی اسلئے کہ یقینِ غالب اسکے خلاف ہے)۔اس جزیہ میںفقہاء نے لفظ اخذ استعمال… جواب: …. لمس کے بجائے ”اخذ ” کا تذکرہ عرف کی وجہ سے ہے۔ ….
فتاوی دارالعلوم دیوبند :زید شہادت دیتا ہے کہ عمر اپنے فرزند کی زوجہ ہندہ کیساتھ برہنہ لیٹا ہوا تھااور زوجہ کے پستان پکڑے ہوئے تھا ، خالد شہادت دیتا ہے کہ عمر نے فرزند کی زوجہ کا بوسہ لیا، حرمت مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں؟
الجواب: پستان کا پکڑنا شہوت کیساتھ تھا یا نہیں؟۔ اسی طرح بوسہ میں بھی شہوت کا ذکر نہیںہے اور بوسہ دینا ایک گواہ کا بیان ہے اور پستان پکڑنا ایک شخص کا بیان ہے ۔دوگواہ امر واحد پر متفق نہیںلہٰذا حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔ ٭٭
حرمت مصاہرة کے غلط مسائل سے جان چھڑانے کا قرآنی حل
سید عتیق الرحمن گیلانی
رسول اللہۖ نے ”حرمت مصاہرت” پر ایسا بیہودہ درس نہیں دیا۔فرمایا: ”تم بھی اہل کتاب کے نقش قدم پر چلوگے ۔ اگر ان میں کوئی گو کے سوراخ میں گھسا ہوگا یا کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو تم میں بھی ایسے افراد ہونگے”۔ قرآن نے اہل کتاب کے مذہبی طبقے کا بتایا کہ” اس کی مثال گدھے کی ہے جس پر کتابیں لادی گئی ہوں”۔ اور یہ بھی ” اس کی مثال کتے کی طرح ہے ، جس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپے اور چھوڑ دو تو بھی ہانپے”۔ ( الاعراف:176۔الجمعہ:5)
حرمت علیکم امہاتکم …….وامھات نسائکم وربائبکم الاتی فی حجورکم من نساء کم الاتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ماقد سلف ان اللہ کان غفورًا رحیمًا
”تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں………اور تمہاری عورتوں کی مائیںاور تمہاری وہ لے پالک جو تمہارے حجروں میں پلی ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن کے اندر تم نے ڈال دیا ہے اور اگرتم نے ان کے اندر نہیں ڈالا ہے تو تمہارے اوپر حرج نہیں اور تمہارے سگے بیٹوںکی عورتیں۔اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے سے گزر چکا ہے۔بیشک اللہ مغفرت والا رحم والا ہے”۔ (سورہ النسائ:23)
قرآن نے حضرت آدم وحواء کا قصہ ایسے الفاظ میں ذکر کیا کہ” لوگوں کو آج تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ وہ کوئی درخت تھا یا شجرہ نسب ؟جس سے منع کیاگیا”۔ مشرکوں کا فرمایا کہ ”پھرجب مرد نے اس کو چادر اُوڑھادی تو اس کو ہلکا حمل ٹھہرا، جس کو لیکر وہ چلتی رہی، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ ہمیں تندرست بچہ دیا تو ہم شکر گزار ہوں گے۔ پھر دونوں کو تندرست بچہ ملا تو دونوں اس کا شریک ٹھہرانے لگے”۔(الاعراف:189،190)
ایک توطلاق کے مسائل کی قرآن نے بھرپور وضاحت کی ہے جسے علماء نے نظرانداز کیااور دوسرا حرمت مصاہرت کے مسائل کو قرآن نے بہت واضح کردیا تاکہ سادہ لوح عوام کو انسانوں کی شکل میں گدھے اور کتے ورغلا نہیں سکیں۔
نکاح کے بندھن کیساتھ اپنی عورت میں ڈالنے کی وضاحت اور نہ ڈالنے کی صورت میں جائز ہونے کا تصور حنفی شافعی مسالک کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ایک طرف شافعی مسلک کی گنجائش نہیں بنتی اسلئے کہ نکاح سے زیادہ اہم ڈالنا ہے اور دوسری طرف حنفی مسلک کے بیہودہ مسائل کو بالکل ملیامیٹ کردیا کہ نکاح اور ڈالنے کی صریح وضاحت کردی ہے۔جس کے بعد شہوت سے چھونے اور فرج داخل کو دیکھنے وغیرہ کے بکواسات کی قطعی طور پر گنجائش نہیں رہتی ہے۔
عن زید بن براء عن ابیہ قال: لقیت عمی ومعہ رایة فقلت لہ این ترید ؟، قال: بعثنی رسول اللہ ۖ الی رجلٍ نکح امرأة أبیہ فأمرنی ان اضرب عنقہ واخذ مالہ ”زید بن برائ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ میری اپنے چچاسے ملاقات ہوئی اور میں نے کہا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟۔ اس نے کہا کہ رسول اللہۖ نے میری تشکیل کی ہے ایسے شخص کی طرف، جس نے اپنے باپ کی عورت سے نکاح کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اس کی گردن ماردوں اور اس کا مال لے لوں”۔سنن ابی داؤد ۔ شیخ الالبانی اورشیخ زبیر علی زئی نے صحیح لاسناد قراردی۔
دارالعلوم کراچی نے شادی بیاہ میں نیوتہ لفافہ کے لین دین کو سود اور کم از کم گناہ اپنی ماںسے زنا کے برابر حدیث سے قرار دیا اور پھر عالمی سودی بینکاری کو جواز فراہم کردیا۔ کہاں حدیث میں محارم پر قتل کا حکم اور کہاںیہ حیلہ سازیاں؟۔
امام ابوحنیفہ نے بادشاہ کی خواہش پوری نہیں کی اسلئے جیل میں زہر سے شہید کردئیے گئے۔ امام ابویوسف نے معاوضہ لیکر باپ کی لونڈی بادشاہ کیلئے جواز کا حیلہ نکال دیا۔ پھرامام ابوحنیفہ پر تہمت باندھی کہ شہوت کیساتھ چھونا بھی حرمت مصاہرت قرار دیا ہے۔پھر ساس کی داخلی شرمگاہ تک شہوت کی نظر سے دیکھنے پر حرمت مصاہرت کے مسائل پہنچاکر دم لیا۔ جس میں بیہودہ پن کی انتہاکردی ۔ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کشف الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی کے دلائل کو وزنی قرار دیکر حنفی بیہودہ مسائل سے جان چھڑانے کی بنیاد ڈالی ۔ایک مدرسہ کے بڑے مفتی نے بتایا کہ” اکابرعلماء نے حرمت مصاہرت کے مسائل سے جان چھڑانے کیلئے میٹنگ کی تھی”۔مفتی تقی عثمانی جان چھڑانے کیلئے نہیں مان رہا؟۔
” ایک شخص کی عورت فوت ہوگئی ۔ علی نے پوچھا کہ اس کی بیٹی ہے؟۔وہ شخص: ہاں۔ علی: تم سے ہے یا کسی غیر سے ؟۔ شخص: غیر سے ہے۔ علی: تمہارے حجرے میں پلی ہے یا باہر؟۔ شخص: باہر۔ علی : پھر اس سے نکاح کرلو”۔ ( مصنف عبدالرزاق ،ابن حجر عسقلانی۔کشف الباری) یہ شافعی مسلک والوں کا من گھڑت غلو ہے جس میں سوتیلی بیٹی کیساتھ شادی کے جواز کا قصہ گھڑا گیا ہے۔ دوسری انتہاپر حنفی مسلک نے امام ابوحنیفہ پربیہودہ تہمتوں کے انبار لگادئیے ہیں۔
ایک طرف انڈیا کے فلموں ، ڈراموں اور معاشرے کی بدترین صورتحال سے لوگ اسلامی ، قومی اور اخلاقی غیرت کھوگئے ہیں تو دوسری طرف شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن لاہوراور شیخ الحدیث مولانا نذیرفیصل آباد جیسے اسکینڈل زدہ علماء کے شاگرد مسند افتاء وارشاد پر انتہائی بیہودہ فتوے جاری کررہے ہیں۔ مذہب ایک کاروبار بنادیا گیا ہے اسلئے غیرت ایمانی مسلمانوں سے رخصت ہورہی ہے۔
جاوید احمد غامدی نے ”مرد وعورت کا مصافحہ” پر کہا کہ ”ہندمیں رواج نہیں۔ ملائشیا میں شافعی خواتین کا ماحول مذہبی ہے وہ مصافحہ کرتی ہیں”۔غامدی کو حنفی نزاکت کا پتہ نہیں ہوگا کہ حنفی فقہ کے مسائل میں کیا قباحت اور خباثت ہے ؟۔
میں نے37اور40سال پہلے فقہ واصول فقہ اور تفسیر پڑھی تھی تواللہ والے اساتذہ تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے فرمایا کہ” فقہ، اصول فقہ اور تفسیر کی کتابوں اور درسِ نظامی کوآپ درست کرسکتے ہو”۔ آج ایسے نالائق افتاء کی مسند پر بیٹھے ہیں جن کو صرف اپنی نوکری اور مدارس میں گاہک پکڑنے سے غرض ہے۔ جبکہ مفتی محمود اور مولانا سیدمحمد بنوری کے قاتلوں کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔ ٭٭
مشہور شیخ الحدیث اور مفتی نے سنایا: ”فقہاء نے حلالہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیااسلئے کہ جب بادشاہ ، اور سردار کی بیوی کا حلالہ کردیتے تھے تو وہ آنکھ نہیں اٹھاسکتا تھا۔ ایک نواب کی بیوی ایک مولانا کو پسند آئی تو اس نے کہا کہ پیشاب کرتے ہوئے تیرا رُخ قبلہ کی طرف تھا،بیوی طلاق ہوگئی۔ پھر تجویز دی کہ اس کا نکاح مجھ سے کردو، کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ نواب نے دیکھا کہ ایک دن مولانا نے پیشاب کرتے ہوئے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا تو کہا کہ بیوی تجھ پر طلاق ،تو اس نے کہا کہ میں نے چیز کا رخ موڑ ا تھا”۔ مولوی حضرات عوام الناس کے خاندانوں کو تباہ کرتے ہیں لیکن جب اپنا مسئلہ ہو تو پھر دیانت سے کام لینا تو دور کی بات ہے۔ ننگے لیٹے پستان کو پکڑنے کیلئے بھی لکھا کہ شہوت کا ذکر نہیں اور گواہ متحد نہیں۔اللہ نے فرمایا یا اھل الکتٰب لا تغلوافی دینکم غیر الحق ”اے اہل کتاب دین میں ناحق غلو مت کرو”۔یہ غلیظ مسائل اہل کتاب نے چھوڑ دئے فقہاء نے رائج کردئیے۔
فقہ وفتاویٰ اور مدارس میںدرباری علماء کا کردار کچھ اور تھا
دنیا کامشہور مدرسہ ”جامعہ الازہرمصر”
اسماعیلی شیعہ فاطمی حکومت نے قائم کیا تھا ۔ پھر جب صلاح الدین ایوبی نے فاطمی حکومت کا خاتمہ کردیا تو جامعہ الازہر سنی مکتب کے زیر اثر آگیا۔1960تک خالص مذہبی مضامین مختلف فقہی مسالک اور عربی علوم کے فنون پڑھائے جاتے تھے لیکن1961میں اس کے اندر جدید تعلیم بھی شروع کی گئی۔
خطہ بہاولپورصدیوں تہذیب کا مرکز ،تاریخی قصبہ اُوچ دینی تعلیمی اداروں کا گہوارہ رہا ۔مشرق وسطیٰ ،سینٹرل ایشیاء سے آنے والے تشنگانِ علم کی آبیاری کرتا رہا۔ ریاست بہاولپور نے جامعہ پنجاب،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، ندوة العلماء اعظم گڑھ ، طیبہ کالج دہلوی ، اسلامیہ کالج پشاور،کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کی امداداور معاونت کی ۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی بنیاد1879میں مدرسہ دینیات کے طور پر رکھی گئی۔1925میں مدرسہ عباسیہ کی بنیاد رکھی گئی۔1963میںفیلڈ مار شل جنرل ایوب نے جامعہ کا دورہ کیا۔ نواب سر صادق عباسی30ستمبر1904کو بروز جمعہ پیدا ہوئے۔ 2سال کی عمر میں والد کیساتھ اکلوتے فرزند نے سفر حج کیا۔ والدکی وفات پر15مئی1907کو سرصادق کو حکمران بنانے کا اعلان کیا گیا مگر ریاست کے انتظام اور سرصادق کی تعلیم وتربیت کیلئے حکومت برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر سررحیم بخش کی سربراہی میں کونسل آف ریجنسی قائم کی۔ ابتدائی عربی، فارسی اور مذہبی تعلیم نامور علمی شخصیت علامہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی ۔3سال کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت نکھارنے کیلئے مذہبی ، تعلیمی ، فوجی اور انتظامی تربیت کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ صرف 7سال کی عمر میں اپنی فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہ برطانیہ جارج پنجم کے سامنے دہلی میںپیش ہوئے۔
حرمین شریفین حجاز اور برصغیرپاک وہند
فاطمی خلافت اسماعیلی شیعہ مگرشیعہ امامیہ عباسی خلافت کیساتھ ، مامون الرشید کے امام رضا جانشین تھے۔ خادم الحرمین شریفہ مکہ اسماعیلی تھا پھر خلافت عثمانی کے زیر تسلط آیا۔برصغیر کی مساجد میں کہیں عباسی ، کہیں فاطمی خلافت کا خطبہ تھا۔1906آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا صدر محمد شاہ آغا خان سوم اسماعیلی نذاری تھا۔ 1908میں ندوة العلماء لکھنوکو نواب کی والدہ نے50ہزار روپیہ مالی امداد دی، علامہ شبلی نعمانی کے شکریہ کا خط محکمہ دستاویزات بہاولپور میں آج محفوظ ہے۔ کچھ تعلیمی و فلاحی اداروں کی نواب صادق نے مستقل سرپرستی و مالی معاونت کی۔ انجمن حمایت اسلام لاہور، علیگڑھ یونیورسٹی، ندوة العلماء لکھنو، دارالعلوم دیوبند،مظاہرالعلوم سہارنپور،جامعہ عثمانیہ حیدر آباد، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، گنگ ایڈورڈ کالج لاہوراور انجینئرنگ کالج لاہوران میںخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
1935 میں کوئٹہ زلزلہ زدگان کیلئے امدادی ٹرین روانہ کی ۔اسی سال حج کیلئے تقریباً100افراد اور سامان کیلئے فوجی گاڑیاں، کاریں بحری جہاز پرساتھ لے گئے جو سعودی حکومت کو بطور تحفہ دیں۔ مسجد نبویۖ میں قیمتی فانوس لگوائے۔ اسی سال جامع مسجد دہلی کے طرز پر ”جامع مسجدالصادق” کی ازسرنو تعمیر کی۔ جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ جمعہ المبارک کا سب سے بڑا اجتماع جامع مسجد الصادق میںمنعقد ہوتا اور بلاتخصیص مسلک سب لوگ اس میں نماز جمعہ کی ادائیگی کو ترجیح دیتے تھے۔ حضرت شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد گھوٹوی تمام عمر جمعہ کی نماز جامع مسجد اور عیدین کی نمازمرکزی عیدگاہ میں (باوجودمسلکی فرق کے) آخری شاہی خطیب حضرت مولانا قاضی عظیم الدین علوی کی امامت میں ادا کرتے رہے۔ قائداعظم اورعلامہ اقبال نواب صادق کے قانونی مشیر تھے ۔ ٭
مساجد میں درس و تدریس والے علماء حق کا کردار کچھ تھا!
امام مالک، جعفر صادق،ابوحنیفہ، شافعی جن ائمہ کے نام سے مختلف ومتضاد فقہی مسالک منسوب ہیں یہ سبھی علماء حق درباری علماء نہیں تھے ۔ انہوں نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور ان میں قرآن واحادیث پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ انکے نام پر درباری علماء نے اپنی طرف سے فقہی مسالک بناکر امت مسلمہ کو قرآن سے دور کردیاہے۔ تیسری صدی ہجری تک کوئی تقلید نہ تھی۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید کے نام پر مستقل اور قرآن وسنت سے منحرف مسالک کی ترویج کی گئی لیکن علماء حق نے درس وتدریس اور قرآن وسنت کی تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھاہے۔
امام ابوحنیفہ نے عباسی خلیفہ کا دل اپنے باپ کی لونڈی پر آنے کے بعد نکاح کی اجازت نہیں دی تو قاضی ابویوسف نے معاوضہ لیکر جواز بخش دیا۔ پھر حرمت مصاہرت کے نام پر ایسے بکواس من گھڑت مسائل بنائے گئے جن سے ابوحنیفہ کو بدنام کرنا مقصد تھا۔ جس کی مثال یہ بن سکتی ہے کہ1990کی دہائی میں کچھ اخبارات میں ” خلائی مخلوق کی انسانوں سے ملاقات” کی خبریں چھپتی تھیں۔ مغرب کے اخبارات میں لکھا ہوتا تھا کہ یہ مزاحیہ دل لگی کی باتیں ہیں لیکن پاکستانی اخبارات خبریں بناکر چھاپتے تھے۔ اسی طرح مسائل امام ابوحنیفہ کی شخصیت کا مذاق اڑانے کیلئے گھڑے گئے لیکن کم عقل فقہاء نے سچ سمجھ لیا تھا۔
اورنگزیب عالمگیر نے ملا جیون جیسوں کو رکھا۔ فتاویٰ عالمگیریہ اور نورالانوار کو رائج کیا۔ جب اورنگزیب بادشاہ نے ایک عالم حق کو خطیررقم پیش کی تو اس نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں ۔ جب اصرار بڑھ گیا تو عالمِ ربانی نے کہا کہ مزارع طبقہ سے جو ٹیکس وصول کرتے ہو ،جتنا مجھے ہدیہ دینا چاہتے ہو اتنا کم کرلو۔ تاکہ وہ اپنی محنت کی کمائی سے اپنے بال بچوں کو درست طریقے سے پال سکیں۔
کانیگرم وزیرستان میں ہماری مسجد درس کانیگرم میں ہماری مسجد کا نام درس پڑا۔ سید کبیر الاولیاء سے دادا سیدامیر شاہ امام وخطیب نے درس دیا۔پھر مولانا اشرف خان فاضل دارالعلوم دیوبند آگئے۔ جس کی دکان تھی اور درزی تھے اور مولانا الیاس کاندہلوی سے بھی ملاقات تھی۔ میرے والد پیر مقیم شاہ نے کہاکہ ”مولوی اشرف بہت اچھا آدمی ہے مگر ساری زندگی یہ کہا کہ نبی کریمۖ نے فرمایا …. مگر کیا فرمایا ؟ یہ کسی نے سنا اور نہ سیکھا ”۔
سیل استاذ برکی کانیگرم میں ناظرہ پڑھاتا تھا۔ اپنے لئے اپنی زبان میں اپنا درود شریف ایجاد کیا تھا ، بیٹے کا نام جاجت تھا۔بچے بلند بہ آوازبلند پڑھتے۔ جاجت پہ برکت ،خدایا استاذ کم ریری، تہ جنت الوئی نیامت ۔ جاجت پر برکت ہو ۔ یا خدا! میرے استاذ کو دیدے ۔جنت کی بڑی نعمت ۔
سیل استاذ برکی کی آنکھیںTTPامیر مفتی نور ولی محسود سے ملتی تھیں۔ درس نظامی کی لغو کفریات کو سمجھنے اور بیان کرنے سے علماء ومفتیان آج بھی قاصر ہیں۔ جب تک دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ مدارس چندے کھانے کا گڑھ نہیں بنے تو عوام کو علماء حق درس وتدریس کے ذریعے اسلام سے روشناس کراتے رہے۔ پھر سعودیہ و امریکہ نے کرایہ کے جہاد اور مدارس کو عروج بخشا تو علماء دمدار ستارے کی طرح ڈنک پھیلانے کی طرف آگئے ۔ خوارج کی ذہنیت نبیۖ کے دور میں تھی مگر خروج حضرت علی کے دور میں ہوا۔ ملاعمر کی حکومت قائم ہونے سے پہلے میری کتاب ”ضرب حق ” میں تبلیغی جماعت پر خوارج کی احادیث کو اسلئے فٹ کیا کہ ان کی ذہنیت خوارج کی تھی۔ دہشتگرد عوام کو مارہے تھے تومولانا طارق جمیل نے سلیم صافی سے کہا ” ہم اوروہ ،ہماری منزل ایک ہے، راستہ جدا ہے”۔ آج نظام الدین مرکز اور رائیونڈ مرکز ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ ٭
درباری علماء کا ہمیشہ سے طریقۂ واردات ایک رہاہے حضرت سید عبدالقادر جیلانی پر فتویٰ لگایا کہ مسلک حنفی کو تبدیل کرکے حنبلی بن گیا۔ یہ جھوٹ بھی پھیلا دیا کہ فاطمی خلیفہ عبیداللہ مہدی نے ان کی لاش کو مسجد کے احاطہ سے نکال کر دریا میں بہادیا تھا۔ کراچی کے درباری علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا: ”جنرل ضیاء الحق کے ریفرینڈم کوووٹ دینا فرض ہے”۔ لیکن حاجی محمد عثمان نے فرمایا کہ ”فتویٰ پر مت جاؤ۔ اگر ضمیر نہیں مانتا توووٹ مت دو”۔مولانا فضل الرحمن پرMRDمیں شمولیت کی وجہ سے ”متفقہ فتویٰ” کے عنوان سے کفر کا فتویٰ لگایا۔مولانا علاء الدین کے فرزند مسعودالرؤف سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دارالاقامہ میں فتویٰ پر لڑائی ہوئی تھی۔جو میں نے اشعار لکھ کر دفن کردیا۔ جب مدارس کے اساتذہ اور طلبہ نے مولانا فضل الرحمن کا طویل دورے کے بعد اپنے قید علماء چھڑانے کیلئے ائیرپورٹ پر استقبال کیا تھا تو انصارالاسلام فورس کا وجود نہ تھا اور فورس کی ڈیوٹی اکیلے میرے سپرد تھی۔ حاجی عثمان پر فتویٰ لگا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ” یہ70کا فتویٰ لگتا ہے علماء ومفتیان نے پیسہ کھایا ہوگا”۔ پھر ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء نے فتوے میں شکست کھائی تو مولانا فضل الرحمن شرمندہ ہوکر گھر پر پہنچ گئے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا ورنہ خود دار مسافر ہوں گزر جاؤں گا
درباری سے کاروباری تک مگر پھر درس کا اہتمام کرو! مدینہ : شہر ۔ یثرب: مدینہ ۔ حاجی عثمان یثرب پلازہ کے باسی۔ کانیگرم شورہ: شہر ۔ کوفہ وبصرہ مکاتب فکر یونانی علم الکلام سے بن گئے تھے۔ اصحاب صفہ سے کانیگرم درس تک فرائض غسل، وضو ، نماز اور بسم اللہ پرکوئی اختلاف نہیں تھا نہ یہ کہ تحریری قرآن کلام اللہ نہیں؟۔ مدینہ یونیورسٹی کے اساتذہ نے مجھے کہا کہ ” باتیں بالکل درست لیکن اتنی خطرناک کہ اگر مقتدر ہ کو پتہ لگا تو غائب یا چھٹی کرادی جائے گی”۔ اسلامی نظر یاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور قبلہ ایاز بھی بات سمجھ گئے لیکن جرأت نہ کرسکے۔ تنظیم فکر شاہ ولی اللہ کے مولانا عبدالخالق اور مفتی عبدالقدیر کی جان نکل گئی۔ ڈاکٹر اسرار نے کہا تھاکہ ”امام ابوحنیفہ نے اہل بیت کی خاموش حمایت کی، خاموش حمایت کروں گا” ۔ مولانا فتح خان ٹانک اور علامہ شاہ تراب الحق قادری کراچی نے کہا تھا کہ” درس نظامی کی تعلیم غلط مگر جرأت نہیں”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے کئی ممالک کے سفر،قیام حرم اور طویل جلاوطنی کے بعد واپسی پر فرمایا کہ” درس نظامی کی جگہ شہروں میں غریب بچوں کو سکول کی تعلیم کیلئے رہائش، کھانا اور درس قرآن دو۔پھر یہی لوگ حکومت اور ریاست کا ڈھانچہ بن کر اسلام کو نافذ کریں گے”۔
حاجی عثمان نے ایمان کی تجدید کی ۔ علم نہیں بدلتا ہے ۔البتہ بگڑے ہوئے فہم کی تشکیل جدید ہوتی ہے۔ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لا الٰہ اللہ
علماء نے لاؤڈ اسپیکر کے مسئلے پر خیانت سے کام لیا
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ تھا کہ ”لاؤڈاسپیکر پر نماز، آذان اور اقامت نہیں ہوتی” پھر گاجروں کے لطیفے پر عمل کیا۔ کسی نے جنگل میں گاجر وں پر پیشاب کیا، بھوک لگی تو ایک طرف کے گاجر کھا گیا کہ اس پر پیشاب نہیں کیا۔ پھر بھوک لگی تو دوسری طرف اور آخر سب کھا گیا۔ لاؤڈاسپیکر دھیرے دھیرے جائز قرار دیا لیکن تبلیغی جماعت کو70سال تک پتہ نہ چلا۔ میں نے1991میں ”تصویر کے عدم جواز”پر لکھا کہ ”اگر علماء و مفتیان مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مودودی کھینچواتے ہیں تو ان کا فعل جواز نہیں نافرمانی ہے”۔ تصویر کی کھلے عام مخالفت سے مذہبی طبقے کا رُخ بدل گیا ۔ جماعت اسلامی نے فیصلہ کیا کہ ”گروپ فوٹو نہیں کھینچوائیں گے”۔جب میرا دماغ کھلا تو ”جوہری دھماکہ” میں تصویر کے جواز پرلکھا۔پھر فضا ایسی بدل گئی کہ تبلیغی جماعت، علماء اور طالبان بدل گئے۔ اکابرکی بھی تصاویر منظر عام پر لائی گئیں۔ مفتی شفیع نے کہا تھا کہ ”مدارس بانجھ ہیں”۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسکے بانجھ پن کا علاج ہو مگر اتنے بے غیرت نہیں کہ اسلام کو بدلیں۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اقبال سود کو جواز بخشنے پر مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، مولانا فضل الرحمن، جاوید غامدی، انجینئرمحمدعلی مرزا، شیعہ علماء اور ذاکر نائیک کو بے توفیق کی جگہ” زندیق” کہتا۔جیسے حضرت مولانا مدنی کو ابولہب قرار دیا۔
سورہ الرحمن، الاعراف ، المرسلٰت ،الحج، الواقعہ اور سورہ الدھر میں انقلاب عظیم کی خبر اور خلافت کا گزشتہ شمارہ میںبتایا۔ فارس، خراسان، ہند، سندھ اور مشرق کی احادیث ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے سورہ القدر کی تفسیرمیں لکھا کہ ” اسلام کی نشاہ ثانیہ کیلئے قرآن ضروری ہے۔پنجاب، کشمیر ،سندھ، بلوچستان، فرنٹیئراور افغانستان میں جو قومیں بستی ہیں یہ امامت کی حقدار ہیں۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلہ میںلائے توبھی ان علاقوں سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے۔ نشاہ ثانیہ کا یہی مرکز ہیں۔( المقام المحمود) فرنٹ لائن پاکستان کی فرزانہ علی توجہ دیں۔
کانیگرم وزیرستان اورگومل ڈیرہ اسماعیل خان قوم سبا کے مصداق ہیں۔ جہاں کا امن وامان دہشت گردی میں بدل گیا۔ لذیذ باغ کے بدلے پیلو کے پھیکے چیونگم اور کریرہ کے پھل اور بیری کے چند درخت نشان ہیں۔
وزیرستان میں دہشتگردی کی بنیاد ڈیڑھ سوسال پہلے پڑی۔ وزیرستان کا امن وامان بہت مثالی تھا۔ برطانیہ نے دہشتگردی کے واقعات کو1900میں کتاب میں شائع کیا۔ قبائلی ملکان کوقابل شرم وظیفہ کچھ عرصہ پہلے تک دیتاتھا۔ پھرحکومت پاکستان نے غالباً بینظیر انکم سپوٹ کے تحت اپنے ذمہ لیا ۔ وزیراعظم متحدہ ہندوستان جواہر لال نہرو نے جب باچا خان کیساتھ جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا تو قبائلی ملکان سے کہا کہ چند ٹکے سے انگریز کے ہاتھوں مت کھیلو۔ جس پر یہ کہہ کر ورغلایا گیا کہ تمہیں گالی دی گئی ہے۔
اگرگالی تھی توپھرچند ٹکوں کے لفافے آج کھانا بند کیوں نہیں کئے؟۔ یہ زکوٰة و خیرات غریب غربائ، مساکین فقراء اور بیوہ و یتیم بچوں کا حق ہے جو خان و ملک کھارہے ہیں۔ قبائلی مستحکم اقدار کو ملکان نے تہس نہس کیا اور قومی اسمبلی میں بکنے کا رواج بھی انہوں نے ڈالا۔ پچ کے دونوں طرف دہشگردی کا بازار گرم کرنے میں بھی انہی کابڑاکردار تھا۔ جب ملک منہاج کے بھائی ضیا ء الدین نے بتایا کہ گوانتا ناموبے کی قید سے آزادی پر عبداللہ محسود نے سب ملکان کو رلادیا تو میں نے اس وقت لکھا کہ” ملکان خدا کیلئے تو کبھی روئے نہیں۔اسکے پیچھے بھی لفافوں کا چکر لگتا ہے”۔ ملکان فوج و طالبان کے درمیان ڈبل گیم کھیلتے تھے۔ مصطفی نواز کھوکھر نے فرزانہ علی کو بتایا کہ وزیرستانی کو فوج نے سند دی کہ ”اسکے دوبیٹے فوج کی طرف سے طالبان سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے”۔ لیکن پھر بھی فوج نے اس کا شناختی کارڈ بلاک کردیا تھا۔
سورہ سبا میں سیل العرم سے شدت پسندی اوردہشت گردی کی لہر مراد ہے۔
سیل کے معنی لہر ، طوفان ، سیلاب اور عرم کے معنی شدت ، تیزی اور سختی کے ہیں۔ پانی کاسیلاب، چوہے اور ٹڈی سے امن وامان کے مقابلے میں بدامنی نہیں آتی اسلئے وہ لہر ہی مراد ہوسکتی ہے جو امن کے مقابلہ میں ہو اور اثل کا معنی بے ذائقہ پھل ہوسکتا ہے جبکہ اس سے سایہ دار درخت مراد نہیں لیاجا سکتا۔ پہلی بار دنیا کے سامنے سیل العرم اور اثل کا درست ترجمہ اور تفسیر آئے گی ۔ انشاء اللہ
خلافت کی عظیم پیش گوئی قرآن میں وزیرستان اور گومل کے امن وامان کے بعد دہشتگردی کی لہرکا بڑاواضح تذکرہ
بیشک قوم سبا کے شہر میں نشانی ہے، دو باغ تھے دائیں بائیں جانب۔ کھاؤ اپنے رب کا رزق اور اسکا شکر ادا کرو، پاک شہر اور بخشنے والا ربّ۔توپہلوتہی برتنے لگے تو ہم نے ان پردہشت گردی کی لہر بھیجی اور ہم نے بدل دیا انکے دو باغ کو ، دوباغ بے ذائقہ پیلو اورکریرہ والے اور کچھ چند بیری کے درخت۔ یہ ہم نے ان کو بدلہ دیا ان کی ناشکری کا اور ہم ناشکروں کو برا بدلہ دیتے ہیں اور ہم نے انکے اور برکت والے گاؤں کے درمیان بہت گاؤں ظاہری آباد کردئیے تھے اور ہم نے ان میں کئی ٹھہرنے کی منزلیں مقرر کی تھیںکہ اس میں دن اوررات امن کیساتھ چلو،تو کہنے لگے اے ہمارا رب! ہماری اسفاردستاویز میں دوری کردو اور ظلم کیا اپنی جانوں پر، پس ہم نے انہیں کہانیاں بنادیا۔ اور ہم نے ان کوچیرپھاڑ کر تہس نہس کردیا۔ بیشک اس میں صبر شکر کرنے والے کیلئے نشانیاں ہیں اور بیشک ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایاتو سب اسکے تابع ہوگئے سوائے ایمان والے ایک گروہ کے۔ حالانکہ ان پر اس کا کوئی زور نہیں تھا مگر یہی کہ تاکہ ہم جان لیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس سے شک میں ہے؟اور تیرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے”۔ (سورہ سبا:15تا21)
٭
چچا کے گھر کے نیچے کھنڈرجگہ پر باغیچہ تھا اور دوسراباغ ہماری موجود ہ زمین پر تھا۔گھروں کی راہ میں دائیں بائیں کبھی یہی دو باغ تھے۔ان دونوں باغوں کا اجڑ نابھی بڑا تاریخی واقعہ تھا۔
یہ میرے پردادا سید حسن بابو نے نواسوں کو دئیے جو میرا ننھیال تھا اور انہوں نے1923میں جٹہ قلعہ علاقہ گومل خریدلیا تو اس میں دو پھیکے باغ تھے۔ جو ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے بعد میں ختم کردئیے گئے۔اور کچھ بیر کے درخت مزیدار تھے جو کافی عرصہ تک بڑی یادگار تھے۔ دل بند،مظفرشاہ، منور شاہ کا قتل ، حسین شاہ کا کان کٹنا، صنوبرشاہ کا قتل، حسین شاہ کا بیوی سمیت دوافراد کا قتل پھر محمود کا قتل7وزیرانقلابی افرادکے بدلے میں بڑی دہشتگردی کی لہرتھی۔
کانیگرم اولیاء کا پاک شہر تھا،1920سے پہلے روڈ نہیں تھا۔ ٹانک اور کانیگرم کے درمیان کئی رات پیدل چلنے کی منزلیں تھیں۔ جہاں خانہ بدوش سفر میں پڑاؤ ڈالتے تھے اسلئے کہ سامان، عورتوںاور بچوں کیساتھ پیدل سفر تھا۔ بعد میں پھر یہی گاؤں بس سٹاپ بھی بن گئے۔ وزیرستان امن وامان کا بہترین مرکز تھا۔ ٹانک اور کانیگرم تک کاسفرپر امن تھا۔پھر انہوں نے دستاویزکی تبدیلی سے دل بندشاہ کی نوکری پر قبضہ کیااور شجرہ نسب بدلا۔ ( اسفار سورۂ جمعہ آیت:5والا) انہوں نے خودپر ظلم کیا ،دواپنجہ کی تقسیم ، زمین پرجبری قبضہ کیا۔دہشتگردی میں ملوث ہوگئے اور اللہ نے ان کو کہانیاں بنا ڈالا اوران کے دل ودماغ پھاڑ کر تہس نہس کردیا۔
صبر شکر کرنے والوں کیلئے یہ عبرت ہیں ۔ جن بے گناہ لوگوں کو مظلوم بنایا تھا تو وہ ان کے اپنے کمزور عزیز ہی تھے۔ جب دہشتگردی کے مسئلے پر انتہائی منافقانہ کردار ادا کیا تو ابلیس نے اپنے گمان کے مطابق ان کو بالکل سچا پایا ہے اور یہ سب ابلیس ہی کے تابع ہوگئے۔البتہ ان میں ایمان والا اچھا گروہ بھی ہے جو ابلیس کی چالوں میں نہیں آیا۔اگر اتفاق ہو۔ افغان طالبان،TTPاور ہمارے ریاستی ادارے دہشتگردی کیلئے میٹنگ کرنے والوں کو بے نقاب کریں تو امت مسلمہ کی تقدیر بدل جائے گی۔ ابلیس کیلئے استعمال ہونے پر مجبور نہ تھے۔ اللہ نے پرکھا کہ کس کا آخرت پر ایمان ، کون شک میں ہے۔ حضرت محمدۖ کے رب کی نگہبانی ماننی ہوگی۔ ٭
خلافت کیلئے احادیث صحیحہ کا استدلال ہے لیکن قرآن میں اتنی بڑی خبر کا ذکر نہیں ؟۔اللہ نے فرمایا: ”اورکافر کہتے ہیں کہ ہم پر انقلابی لمحہ نہیں آئے گا۔ کہہ دو کہ کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم کہ تم پر ضرور آئے گاجو عالم الغیب ہے۔ اس سے غائب نہیں آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابرچیز۔ نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر کھلی کتاب میں موجود ہے۔ تاکہ ایمان اوردرست عمل والوں کو بدلہ دے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے مغفرت اور عزت والی روزی ہے اور جو ہماری آیات کو عاجز بنانے کی کوشش کریںان کیلئے عذاب ہے مذموم دردناک اور جن لوگوں کو علم دیا، وہ دیکھتے ہیں جو تیری طرف تیرے رب سے نازل ہوا کہ وہ حق ہے۔اور وہ ہدایت دیتا ہے زورآور تعریف والے کی راہ کی طرف۔ اور کہتے ہیں جن لوگوں نے کفر کیا کہ کیا ہم اس شخص کی نشاندہی کردیں جو کہتا ہے کہ ہمارے تہس نہس کے بعد بھی ہماری نشاة ثانیہ ہوگی؟۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے یا اس پر جنات ہیں؟۔بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے تو عذاب اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (سورہ سبا:3تا8)
مکہ مکرمہ کے شرارتی لوگ نبیۖ کے خلاف سازش کرکے اس وقت کے دہشتگردوں کو بتاتے کہ ایسا شخص جو حجاز کے عربوں کا کہتا ہے کہ تمام ادیان پر اس کا غلبہ ہوگا۔ یہ انقلاب کبھی نہیں آئے گا اور حضرت عمر جیسے بہادروں کو نبیۖ کے خلاف خسرے سردار ابوجہل اور دوسرے سردار ورغلاتے تھے۔ امیرحمزہ نے ایک دفعہ ابوجہل سے کہا کہ اے چوتڑ پر خوشبو لگانے والا!تیری ہمت کیسے ہوئی کہ میرے بھتیجے محمد کو گالیاں دیں؟۔ شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری نے آیت کا ترجمہ پشتو میں یوں کیا کہ ” ان کا سابقہ پڑتا ہے تو تمہیں گانڈ دکھاتے ہیں کہ ہماری یہ مارو۔ ہم کونہ مارو”۔شیخ اپنے مخالف دیوبندی علماء کو بھی مشرک اور گانڈو کہتے تھے۔
اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو اچھے اور بدکردار دنیا کے سامنے آئیںگے۔ مولانا شاداجان پنج پیری نے کانیگرم میں دیوبندی مسلک کے مطابق سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں مانگی تو مولوی محمد زمان نے قادیانیت کا فتویٰ لگادیا۔غلط فتویٰ لگانے پر پھر گالی پڑتی ہے اور کریکٹر لیس بھی سمجھا جاتا ہے۔
ایک طرف اسامہ بن لادن کوتلاش میں کانیگرم تک انگریزوفد لیکر جانا ۔ دوسری طرف دہشتگردوں کو میری نشاندہی کرنا کہ اسلام کی نشاة ثانیہ اور دنیا میں انقلاب کی خبر دینے والا یہ شخص ہے اور اس مشن میں خاتون کا کردارسوالیہ نشان ہے ۔امریکی بلیک واٹر کیلئے کام کرنے والا طبقہ ایک طرفTTPکے لوگوں سے گہرا تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف ان کا مذہبی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا تھا۔ فتنہ الدھیماء کا ذکر حدیث میں ہے۔ دھیما ء کا معنی چھوٹی کالک ہے۔ گرہن کو ”دھن” کہتے ہیں۔ سورج اور چاند گرہن کو دھن سیاہ کی وجہ سے کہتے ہیں۔ اللہ نے آگے فرمایا:
”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کیلئے بشارت دینے والااور ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو۔ کہو کہ تمہارے لئے مقررہ وقت ہے جس سے تم ایک لمحہ پیچھے ہوسکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو۔ اور کافر کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اس پر جو ہاتھ کامعاملہ ہے۔ اورجب آپ دیکھوگے کہ ظالم اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔ بعض بعض کی بات کو رد کریں گے۔ جو کمزور ہوں گے وہ متکبر سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لاتے۔ تکبر والے کمزور وں سے کہیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی؟۔ بلکہ تم خود ہی پہلے مجرم تھے اور کمزور کہیں گے تکبروالوں کو کہ بلکہ تمہارا رات دن کا فریب جاری تھا جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ اللہ کا انکار کریں اور اس کیلئے کسی کو شریک (کسی سے مدد لینے کیلئے)ٹھہرائیںاور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو بہت پشیمان ہونگے ہم طوق کافروں کی گردنوں میں ڈالیں گے۔ وہ اپنے کئے کا بدلہ پائیں گے اور ہم نے کسی بھی گاؤں میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجے مگر ا س کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ جو تم لائے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم مال اور اولاد میں زیادہ ہیں اور ہم کوئی عذاب کھانے والے نہیں ہیں ۔(سبا:28تا35)
جو بے غیرت طبقہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتا ہے ان کو زیادہ ندامت ہوگی۔ انشاء اللہ العزیز
فرمایا:پس آج بعض بعض کو نفع نہیں پہنچا سکتے اور نہ نقصان اور ہم کہیں گے ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا کہ آگ کے عذاب کا مزہ چکھو بسبب جو تم جھٹلاتے تھے۔ اور جب ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی تھیںتو کہتے تھے کہ یہ اور کچھ نہیں بس اس شخص کا ارادہ ہے تمہیں ان سے ہٹادے جن کو تمہارے آباء پوجتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نہیں مگر جھوٹ ہے تراشا ہوا ۔اور کافروں نے کہا ہمیشہ جب حق ان کے پاس آیا کہ یہ کھلا جادو ہے۔ اور ہم نے ان کو کچھ کتابیں نہیں دیں جن کا یہ درس دے رہے تھے اورجھٹلایا ان سے پہلے لوگوں نے اوریہ لوگ تو اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے جو ہم نے انہیں دیا تو انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا۔پس میری پکڑ کیسی ہوگی؟۔ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوںکہ تم اللہ کیلئے دو دو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤپھر غور کرو کہ تمہارے ساتھی کو جنون ہے؟۔وہ نہیں ہے مگر تمہارے لئے ڈرانے والااس سخت عذاب سے ڈرانے والاجو ہاتھوں میں ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں تم سے کچھ بدلہ مانگتا ہوں تو وہ تمہارے لئے ہے۔ میرا اجر اللہ پر ہے۔وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ کہہ دیجیے کہ میرا رب حق پھینک مارتا ہے جو غیب خوب جانتا ہے۔کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل جو ابتداء کرتا ہے اور جس انتہا ء کو لوٹتا ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں گمراہ ہوں تو اپنے لئے اور اگر ہدایت پاگیا ہوں تو جو میرے رب نے مجھ پر وحی کی ہے۔ وہ سننے والا قریب ہے اور اگر آپ دیکھ لیتے کہ جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں پس نہ ہوگی ان کی بچت اور دھر لئے جائیں قریبی جگہ سے اور کہیں کہ ہم ایمان لائے اس پر ۔لیکن ان کیلئے پل کے نیچے بہت پانی بہہ چکا دور جگہ تک ۔ جبکہ پہلے وہ انکار کرچکے اور دور کی جگہ سے غیب پھینکتے تھے۔ اور ان میں اور ان کی چاہت میں حائل کیا جائے گا۔ جیسا انکے جیسوں سے پہلے ہوتا رہا ہے۔ بیشک وہ شک میں شک سپلائی کرتے تھے۔(سبا:42سے آخر )
جیسے آئینہ میں ہر شخص کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے اور نیٹ پر معلومات حالات کے مطابق ملتی ہیں اور دنیا بھر کے جدید آلات سے رگوں تک پہنچنا ممکن ہے اس سے کہیں زیادہ قرآن میں انسان کو روحانی ، جسمانی، تاریخی حقائق کی روشنی میں بھرپور طریقے سے آگاہی ملتی ہے۔ آج کل جرائم پیشہ عناصر کے ڈیٹا سے بہت کچھ برآمد ہوتا ہے۔قرآن کا یہ کمال ہے کہ منافقین کے دلوں تک پہنچتا ہے۔ اگر منافق کو خود پر بھروسہ ہوتا ہے تو اللہ ایسا ماحول بنادیتا ہے کہ منافق سمجھ جاتا ہے کہ فضول کا دلا ہے۔ اللہ منافقوں کو بے نقاب کردے اورہونگے۔ انشاء اللہ
ماموں نے کہا کہ اگر انقلاب آیا تو میری قبر پر پیشاب کرنا مگر دہشتگردی کی میٹنگ کہاں ہوئی؟۔ یوسف شاہ کا کردار کیا؟۔ عورت پر غیرت ؟ اور بہن کی بات آئی تو سائڈ لائن یا کرائم کے پیچھے لگا؟۔
وزیرستان اورقوم سبا کے امن وامان کی بنیاد کیاتھی؟، ظالم ظلم سے توبہ نہیں کرتا یا کرائے پر استعمال ہوتو ضمیر بھی مرتا ہے
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
وزیرستان صدیوں سے امن وامان کا گہوارہ تھا اور باوجود اسکے کہ وزیرستان میں حکومت،حکمران اور ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر امن وامان کی ایسی مثالی صورتحال کیسے ممکن ہوسکی ہے؟۔
1:شخصی آزادی:
کا وہ تصور جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ مشہور شخصیت عارف خان محسود کتابوں کے مصنف اور زام پبلک سکول کے پرنسپل نے وزیرستان میں جلسہ عام کیا تھا جس میں اس نے اعلان کیا کہ ”جس خدا کے کان، ناک اور سر ، پیر وغیرہ نہیں یہ تو پھر ایک بوتل ہے”۔ لوگوں کے ہاتھ اپنے کانوں تک گئے لیکن کسی نے عارف خان محسود کے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالا اور جب تک اس نے خود اپنی مرضی سے توبہ نہیں کی تو اس پر ذرہ برابر کوئی دباؤ کسی نے نہیں ڈلا تھا۔
جب کانیگرم کے لوگوں نے مشاورت سے فیصلہ کیا تھا کہ جو رمضان کا روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر جرمانہ ہوگا تو کچھ جوانوں کا روزہ تھا لیکن انہوں نے دن دیہاڑے روزہ نہیں رکھنے کا اعلان کرکے کھلی جگہ کھانا پکایا تھا۔
جہاد کشمیر سے1948میں کوئی مجاہد ایک ہندو چھوٹی بچی لایا تھا تو معروف قبائلی رہنما فرمان اللہ خان عرف خنڈائی شمن خیل نے حکم دیا کہ کہ سیدھا میرے پاس لاؤ۔ پھر اس نے دو افراد مقبوضہ کشمیر بھی بھیج دئیے تاکہ ورثا مل جائیں مگر ورثا نہیں ملے اور پھر ہندو بچی کو اختیار دیا کہ مسلمان ہونا چاہتی ہو یا ہندو بن کر رہنا چاہتی ہو۔یہ تمہاری مرضی ہے۔ بچی نے ہندو بن کر رہنا پسند کیا اور خندائی نے اس کو اپنی بیٹی بناکر پالا۔ جب جوان ہوگئی تو ایک ہندو سے مشتہ وزیرستان میں اس کی شادی کردادی اور پھر اس کا شوہر فوت ہوا تو دوسرے ہندو سے اس کی شادی ہوگئی۔ پھر کافی عرصہ بعد جب دوسرا ہندو شوہر بھی فوت ہوگیا تو فرمان اللہ خان کی ہندو بیٹی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ پھر مسلمان سے اس کی شادی ہوگئی۔ طویل عمر پائی۔ تقریباً چار سال پہلے اس کا ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال ہوگیا اور وہیں پر تدفین عمل میں آئی۔ اس کا نام میرو تھا۔ وافی :خنڈائی شمن خیل : امین اللہ شمن خیل شیر عالم برکی کیساتھ یوٹیوب پر دیکھ لیں۔ خنڈائی اس وقت بھی ننگے سر نماز پڑھتاتھا۔ انگریز کے خلاف انہوں نے اس وقت دیسی توپ کا استعمال بھی کیا ہے جو ابھی وانا کیمپ میں نمائش کیلئے موجود ہے۔
قوم سبا میں بھی شخصی آزادی ہوگی اسلئے کہ شخصی آزادی کے بغیر امن وامان کا قیام انسانوں کی جگہ جانوروں کی طرح ہے۔ اقبال نے درست کہاکہ
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
2:مشاورت کا عمل
:جب کوئی بھی اہم فیصلہ ہو تو اس پر پہلے مشاورت کا قرآن میں بھی ذکرہے۔ وزیرستان کے امن وامان میں سب سے بڑی بنیادمشاورت کا عمل تھا ۔ مکمل شخصی آزادی کے بغیر مشاورت کا تصور بھی بے کار بن جاتا ہے لیکن جب تک مشاورت نہ ہو تو قوم کے اجتماعی نظام کا تصور نہیں بنتا ہے۔ حضرت ابوبکر کی خلافت ہنگامی تھی۔ حضرت عمر نامزدگی سے خلیفہ بن گئے ۔ جبکہ حضرت عثمان کی مشاورت میں چندا افراد تھے اور انصار بھی شامل نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ23سال نبیۖ کی محنت سے دنیا کی تاریخ کی سب سے بہترین اور مقدس جماعت صحابہ کے25سالہ دور خلافت میں حضرت عثمان مسند خلافت پر شہید کردئیے گئے اور پھر حضرت علی کے دور میں عشرہ مبشرہ کے صحابہ نے بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ وزیرستان صدیوں امن وامان کا مرکز تھا ،جب کوئی وزیرستان کی حدود میں داخل ہوجاتا تھا تو وہ اپنی جان، مال اور عزت کا تحفظ پالیتا تھا۔ صحابہ نے اسلام کیلئے قربانی دی تھی۔ حضرت سعد بن عبادہ انصارکے سردار خلافت کے مسئلہ پر ناراض ہوئے اور شام دمشق کے قریب ایک گاؤں میں زندگی کے بقیہ لمحات گزارنے گئے لیکن وہاں بھی جنات نے شہید کردیا تھا۔ جو انسانی جنات بھی ہوسکتے ہیں۔
قوم سبا کے پاس13پیغمبر آئے اور آخر میں وہ دہشت گردی کا شکار ہوئے تو عذاب سے ہجرت کرنی پڑگئی۔ قوم یونس نے کفر کے باوجود جب یہ مانگا کہ آپس میں لڑائی کا عذاب ہم پر نہیں آئے تو اللہ نے ان کفار اور نافرمان قوم سے عذاب کا فیصلہ بھی ٹال دیا اور عذاب کی خبر پر حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں دعا مانگنی پڑگئی کہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ۔ ”کوئی الٰہ نہیں مگر تو پاکی تیری بیشک میں ظالموں میں تھا”۔ امت مسلمہ کو صرف آپس کے لڑنے کا عذاب ہوگا۔
3:ظلم کیخلاف متفقہ اقدامات کا کرشماتی تصور
وہ زبردست بنیاد ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال بہت مشکل سے مل سکتی ہے۔ ایک عربوں نے اس وقت حلف الفضول کا معاہدہ کیا تھا جس میں ظلم حد سے بڑھ گیا تھا اور قوم سبا کی بھی یہ صورت ہوگی۔
وزیرستان میں ظلم کے خلاف قوم کا اجتماعی قدم وہ بنیاد تھا جس نے امن وامان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ایک عورت رونقہ کو کسی نے برائی کی دعوت دیتے ہوئے جبر کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ میں خود آتی ہوں۔ وہ بندوق لے کر آئی اور اس کو قتل کیا۔ عورت کا خاندان کمزور تھا ، مقتول کے خاندان نے اسکا محاصرہ کیا تو قوم نے نہ صرف اس خاتون کا دفاع کیا بلکہ اس کیلئے ایک اعزازی قلعہ بھی تعمیر کردیا۔ پھرکون ظلم کی جرأت کرسکتا ہے۔ بیرون ملک سے کوئی شخص آیا تو کسی نے اس کو خاندان سمیت قتل کردیا۔ پڑوسیوں کو تفتیش سے پتہ چل گیا کہ مجرم کون ہے؟۔ میدان میں سب کو اکٹھا کیا اور ایک بوڑھے کو رونے کیلئے چھوڑ کر باقی سب کو قتل کیا اور ان کی لاشیں پل کے نیچے لٹکادیں اور کئی دنوں کے بعد بغیر جنازہ کے دفن کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وزیرستان میں پہلے تو کوئی ظلم کرتا نہیں تھا اور جس نے غلطی سے ظلم کیا تو اس نے بھگتا ۔
یہ تو پچھلے25،30سال قبل کے واقعات ہیں لیکن وزیرستان کے اقدار کبھی اس طرح کی حرکت کی اجازت نہیں دیتے۔آزادمنش قوم کی تباہی اس وقت شروع ہوگئی کہ جب مشیران نے عوام کے فیصلوں میں تاخیر، زیادتی اور ظلم کے عنصر کو شامل کردیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ چوری اور ڈکیتی سے ہوتے ہوئے معاملہ دہشت گردی تک اس وقت پہنچ گیا کہ جب طالبان کا دور دور تک بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ پہلے راستے میں بم رکھے گئے اور پھر قومی مشیران کے گھروں کے دروازے بھی بموں سے اڑائے گئے تھے۔ انگریزی ملکان نے ماحول کو خراب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
4:علاقہ اور قوم کے لوگ اپنے اپنے علاقے پر کسی بھی قسم کے جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے
اور جب کوئی جرم کرتا تو علاقہ کے لوگوں کیلئے وہ جواب دہ ہوتا تھا۔ مثلاً برکی قوم بہت تھوڑے لوگ ہیں اور وزیرستان میں ان کا علاقہ بھی زیادہ نہیں ہے لیکن وہ کسی کو اپنے علاقہ میں دشمن مارنے کی کبھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح ہرعلاقہ کے لوگ اپنی اپنی حدود میں جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی نے اپنے دشمن کو قتل کرنا ہوتا تو وہ اپنے علاقہ ہی میں قتل کرسکتا تھا۔ اگر کسی اور کے علاقہ میں اپنا دشمن قتل کیا تو جس سے دشمنی کا حساب تھا تو اس کے علاوہ جس علاقہ میں قتل کیا تو اہل علاقہ بھی اس کو پھر اپنا مجرم سمجھتے تھے اور اس کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا۔
5:کسی مجرم کی سہولت کاری بھی جرم تھا۔
ایک مجرم کو رہائش، ہتھیاراور کسی طرح کی مدد کرنے پر سہولت کار بھی جرم میں برابر کا شریک تصور ہوتا تھا اور اس کو مکمل طور پر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا تھا۔
اگر کسی کے ہاں کسی کے دشمن نے سہولت کاری حاصل کرلی تو دشمن پھر کوئی مجرمانہ واردات کرنے کی جسارت اسلئے نہیں کرتا تھا کہ اس کو تین طرح کا سامنا ہوتا تھا۔ سہولت کار بھی اس کے خلاف خود بھی مدعی بن جاتا تھا کہ اگرجرم کرنا تھا تومیرا سہارا کیوں لیا۔ ان چیزوں کا دشمن اور دوست سب خیال رکھتے تھے۔ جس طرح اپنی پچھاڑی چھپانے کیلئے کسی سے مدد لینے یا معاوضہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو اس طرح قبائلی رسم واقدار بھی غیرت کا مسئلہ تھا۔
6:فیصلہ کرنے کیلئے مکمل آزادی ہوتی تھی
کہ جو فریقین شریعت یا علاقائی رسم پر کسی کو اختیار دیں۔ جب ایک مرتبہ فیصلے کا اختیار دے دیا جاتا تھا تو پھر اس کو نہیں ماننے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور اس پر فائدے اور نقصان کو نہیں اپنی غیرت، عزت اور وقار کو دیکھا جاتا تھا۔ بسا اوقات جگہ کم قیمت کی ہوتی تھی لیکن اس سے کئی گناہ زیادہ نقصان فریق کو صلح کے مراحل اور معزز مہمانوں کی دعوت میں خرچ کرنے پڑتے تھے۔ بکری اور دنبی نہیں بلکہ بکرے اور نبے کھائے جاتے تھے۔ جس کا گوشت اچھا ہوتا تھا اور مہنگا پڑتا تھا۔ وزیرستان کے لوگوں کاDNAاقدار کے تحفظ کیلئے اصیل مرغوں کی طرح ہوتاتھا۔
کٹ مر سکتے تھے لیکن اپنی روایت سے وہ نہیں ہٹ سکتے تھے۔ پھر ہم نے بچپن میں اپنے ماموں کے ہاتھوں مولوی کو فیصلہ بدلنے کیلئے رشوت دیتے دیکھ لی۔ وانا سے معزز مہمانوں کیلئے بکروں کی جگہ بکریاں لائی گئیں تو میرے والد کو ان پر بہت غصہ آیا تھا۔ اصل میں وزیرستان کے اندر ان کی دوسری پشت تھی ۔ پہلے ٹانک میں رہتے تھے اور خانہ بدوش بن کر محسود ایریا میں گرمیاں گزارتے تھے۔
7:مکان کی تعمیر میں دشمن کو مزدور سے روکنا۔
وزیرستان کی خمیر میں یہ بڑا زبردست رسم ورواج تھا کہ جب کسی تعمیر کی اجازت نہیں دیتے تھے تو پھر وہ مزدور کو بیچ سے ہٹا دیتا تھا۔ کیونکہ قتل کا مسئلہ آتا تھا اور قتل کیلئے مزدور کو استعمال کرنا بھی بے غیرتی تھی اور اس کو مارنا بھی بے غیرتی تھی۔ اسلئے یہ اقدار کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو اس سے بڑی مشکلات کا تصور ہوگا کہ مزدور پر بھی پابندی لگائی جائے لیکن جب مالک خود کام کرے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے؟۔ نہیں پھر ہر صورت میں اس کو قتل ہی کرنا پڑتا ہے اور اگر مزدورکو روک لیا اور مالک کو کام کرتے وقت قتل نہیں کیا تو نسلوں تک بھی کلنگ کا بہت بڑا ٹیکہ ہے۔ ایسی غلطی کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ یہ ہمارے ماموں غیاث الدین نے توڑ دیا تھا۔ علامہ اقبال نے جو کہاہے کہ
اے میرے کہستاں تجھے چھوڑ کر جاؤں کہاں؟ تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک
اس کے پیچھے فطریDNAکا بہت بڑا فلسفہ ہے۔ ہمارے جن چچیرے کزنوں نے سامنے کی طرف سے وہ لپائی کی تھی جس سے مزدور پر کام بند کیا تھا تو وہ ان میں ایکMBBSڈاکٹر تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کوئی رد عمل نہیں آرہاہے تو پھر آواز لگاکر کہا کہ ”تربور ( چچیرے) کیسی لپائی کی ہے؟”۔ پشتو میں والد کی طرف سے کزن کا الگ اسٹیٹس ہے اور والدہ کی طرف سے الگ ہے۔ عربی میں بھی چچیرے کے الفاظ ہیں۔ انگلش میڈیم نے کزن دونوں کی طرف سے استعمال کرکے فرق کو مٹادیا ہے۔ حالانکہ وزیرستان اور پشتون کلچر کا اہم حصہ ہے۔ جیسے علماء ومشائخ میں معاصرت کا لفظ مخصوص معنوں میں دشمنی اور عصبیت کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح تربور کے لفظ کی بھی خاص چاشنی ہے۔ دوسرے ماموں سعدالدین نے کہا کہ یہ لوگ ڈرپوک ہیں تو میں نے کہا کہ کانیگرم پر اتنی بڑی تہمت مت باندھو۔ اگر واقعی میں وہ بزدل ہوتا بھی تو وزیرستان کی مٹی کے روایات میں یہ گولی مارنے کے برابر ہے لیکن جب حقائق اس کے منافی ہوں تو پھر کسی کی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
8:وزیرستان کے محسود اور وزیر کے قانون میں یہ فرق ہے کہ محسود میں کمزور وقتی طور پر فیصلہ کرلیتا ہے اور جب اس کو موقع ملتا ہے تو اپنا بدلہ لیتا ہے اور دیت واپس کردیتا ہے لیکن وزیر پہلے فیصلہ نہیں کرتا لیکن جب ایک دفعہ فیصلہ کرلیا تو پھر بدلہ نہیں لیتا ہے۔ جیسے شریعت اور پشتو قانون الگ الگ ہیں ایسے قوموں کے رسم ورواج میں بھی فرق ہے۔
9:کسی پر عورت سے تعلق کا الزام لگاکر قتل کیا جائے تو مقتول کا بدلہ وارث نہیں لیتے
لیکن یہ اتنی عار کی بات ہے کہ نسلوں تک بھی عورت کے الزام پر قتل عورت والوں ہی کو بھاری پڑتا ہے۔ اگر خمیر میں مٹی کا ضمیر نہیں ہو تو پھر الزام لگاکر قتل میں بے غیرت کو فرق نہیں پڑتا ہے لیکن ایسا کرنیوالا صرف اور صرف ایمان نہیں بلکہ غیرت ، ضمیر، انسانیت ، پشتو اور ہر طرح کی اخلاقیات سے نکل جاتا ہے۔
10:کسی بندے کو مارنے کا بدلہ خاندان کے کسی بھی ایسے شخص سے لیا جاسکتا ہے جس کو مقتول کے وارث اپنی پسند سے منتخب کرلیں۔ یہی وجہ ہے کہ قتل میں پہل کرنے سے لوگ بہت پرہیز کرتے ہیں کہ کوئی ریڑھ کی ہڈی جیسا شخص بدلے کرکے تشریف کے بل بٹھادے گا۔ واضح رہے کہ چند مثالیں عرض کردی ہیں ورنہ تو بہت بڑا موضوع ہے اور وزیرستان کی کہانی جاپان کی کہانی سے زیادہ مزیدار ہے۔ بہت سخت دشمنی کی حالت میں بھی عورت کو قتل نہیں کیا جاتا۔ تعزیت کا سلسلہ چل رہا ہو تو دشمن ایک دوسرے کو قتل کرنا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ رات کی تاریکی میںسوتے وقت حملہ بے غیرتی اور کسی کو قتل کرنے کیلئے معقول وجوہات نہ ہوں تو اسکا قتل کرنا بہت بڑا عار ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ قاتل کی ماں ،بہن، بیٹی اور بیوی پر چڑھا ہوگا۔اسلئے کوئی اس قسم کی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور لالچ کی بنیاد پر قتل تو انگریز نے ہی شروع کرایا جس کی سزا آج قوم بھگت رہی ہے
یہی اقدار ہی امن کی ضمانت تھے۔قوم سبا میں امن وامن کیلئے اس قسم کی صفات ہوں گی۔
1991میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک محسود کو اپنے والد نے اسلئے بند کرایاتھا کہ اس نے کہا تھا کہ2ہزار روپے میںکسی کیلئے قتل کروں گا۔ اسی سالBBCکا نمائندہ سیلاب محسود میڈیا سے خبر شیئر کرنے جیل میں آیا تھا۔ امان اللہ کنڈی کیلئے جب وزیرستان کے گاؤں پر فوج نے ٹینک توپوں سے چڑھائی کی دھمکی دی تو عوام ڈھول کی تھاپ پر ناچ کر کہہ رہی تھی کہ ہمیں مارو۔ کنڈی حوالہ نہ ہوگا اور پھر مذاکرات میں حکومت سے کہا گیا کہ ہمارے اجداد نے تمہارے اجداد انگریز سے معاہدہ کیا تھا تو اسمیںکسی بھی پناہ گزیں کو حوالہ نہ کرنا شامل تھا۔ پھر یہ خبر چھپی کہ کنڈی کو جیل میںوہ مراعات حاصل ہونگی جو فرار سے پہلے حاصل تھیں۔امریکہ کے حوالہ نہیں کیا جائے گااور اس کیلئے بطور ضمانت ایک اس درجہ کا امریکی شہرت یافتہ شخص ہم مہمان رکھیں گے۔ پھر یہ خبر اخبارات کی سرخی بن گئی کہ رشدی کو ہمارے حوالہ کرو ،کنڈی تم لے لو، رشدی سے زیادہ بڑا مجرم کنڈی نہیں۔تو اس حوالہ سے خبروں پر مکمل پابندی لگی۔ اس وقت میں جیل میں ہی قیدی تھا۔
مولانا فضل الرحمن کا اصل بیان آخر میں ہے جس پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
تبصرہ : سید عتیق گیلانی
مولانا فضل الرحمن پریہ ضرب المثل فٹ ہے کہ ”چور چوری سے جائے ،ہیراپھیری سے نہ جائے”
اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا فضل الرحمن کا نونہال ٹبر مالا مال اور نہال ہوا مگر ہیرا پھیری کی عادت نہیں جارہی ہے۔ اندھے پن کی انتہا ہے کہ شور مچانے کی بھی غلط تشریح کی اور قرآنی آیت کے ظاہری الفاظ تک میں تحریف کا ارتکاب کردیا ہے۔ سری نماز اور جہری نمازکا مسئلہ دنیا جانتی ہے مگر اس میں شور مچانے ، چیخنے اور چلانے کی بات کہاں سے آگئی؟۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ ” اللہ کسی کا بولنا برائی سے پسند نہیں کرتا مگر جس پر ظلم ہوا ہو”۔ ہدف جہر نہیں بلکہ ”برائی ” ہے۔ مثلاً مولانا فضل الرحمن نے قرآن پر ظلم کیا تو برائی سے تذکرہ کرنا جائز اس کو اللہ پسند کرتا ہے۔ جہر نہیں بلکہ برائی مقصد ہے۔ مولوی جمعہ کے دن کتنا چیختے ہیں ؟۔کس نے ان پر ظلم کیا؟۔ مولوی ڈھیٹ بن گئے یا مستقل مزاج؟۔ فیصلہ عوام اور خداکو اپنے کٹہرے میں کرنا ہے۔
ہوا کے خارج ہونے کیلئے بھی سری اور جہری کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ بھلے بالکل ہلکی آواز ہو۔ جب جمعیت علماء اسلام اور متحدہ مجلس عمل کے ہاتھ میں پختونخواہ کا اقتدار تھا تو وزیرستان، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان کے حالات آج سے بدتر تھے۔ مولانا اپوزیشن لیڈر ، کشمیر کمیٹی چیئر مین اور پختونخواہ میں پورا اور بلوچستان میں آدھااقتدار مل گیا تھا تو منہ سے لڈو پھوٹتے تھے۔2006میں ریاست کو بلیک میل کرنا تھا توبجٹ کی تقریر دیکھو۔2014میں ن لیگ کی حکومت میں شامل اور افغانستان کے دورے سے واپسی پر امتیازعالم نے انٹرویو لیا تو اس میں واضح کیا کہ حکومت بچاری مجبور ہے۔IMFقرضہ اور بجٹ بناکر دیتی ہے۔زرداری کیساتھ کیا چین کے مغربی روٹ کا افتتاح نہیں کیا؟۔پھر نواز کے سامنے ڈٹ کیوں نہیں گئے کہ بلوچوں کو ورغلایا کہ سوئی گیس تمہیں نہیں دی پنجاب کو دی؟، پھر وہی حرکت جو چین اور پاکستان کے مفاد میں نہیں؟۔
مگر مولانا کو حکومت کی چوسنی اور چاشنی ملتی ہے تو سویلین بالادستی کے ڈھول نہیں بجاتے ہیں۔ عمران خان کے دور میں میراISIکے کرنل نے فون نمبر مانگا تھا جو اجمل ملک نے نہیں دیا۔ جب کراچی آیا تو کرنل سے ملنے گیا۔ اس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت چلے۔ مولانا فضل الرحمن سے اگر آپ کا تعلق ہے اور کہہ دیں کہ ابھی احتجاج نہیں کریں۔ میں نے کہا کہ مولانا کے پیچھے تو تم لوگ نہیں کھڑے ہو؟۔ اس نے کہا کہ ملک کی حالت ایسی ہے کہ حکومت کو چلنے دیا جائے۔ جب مولانا فضل الرحمن تیاری کررہے تھے تو شاید عمران خان کو ڈرایا گیا تھا کہ احتیاط کرو۔ چنانچہ عمران خان تقریر میں مولانا کے خلاف بات دبا گیا تو اس کا منہ بھی ٹیڑھا ہوگیا۔ ہم نے اس کی وہی تصویر چھاپی ۔ مولاناکے احتجاج کی بڑی خبر لگائی۔ جب مولانا اسلام آباد پہنچ گئے۔ پشاور موڑ سے شاہ فیصل مسجد تک جانے پر بھی تیار نہیں تھے۔ محمود خان اچکزئی سے ملاقات میں کہا کہ کچھ اسلامی نکات اٹھاؤ۔ بنی گالہ ایسے کنٹینر لگائے گئے تھے جیسے بڑا حملہ ہو رہا ہو۔DGISPRجنرل آصف غفور نے بیان دیا کہ ہم آئندہ الیکشن میں بھی نہیں آئیں گے۔ جیسے مولانا کے دباؤ سے کوئی آسمان پھٹ رہاہو۔ پھر پتہ چلاکہ نوازشریف کیلئے یہ سیاست کی گئی۔ نواز شریف کی آنیاں جانیاں بھی ایک سیاستدان کا کرشمہ ہے ۔ ظلم بھی عدلیہ نے کیا اور ازالہ بھی اس نے کیا۔ عدالت کا یہ رخ بھی دیکھ لیا۔ سیاستدان کا بھی رخ دیکھ لیا۔ عمران خان بھی کس کی مدد سے آئے، کس کے عدم تعاون سے گئے اور کس کیلئے ترس رہے ہیں؟۔ جب سبھی وردی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہیں تو کتنے نکاح اور کتنے حلالے کرکے سیاستدان خود اس حصار سے باہر نکلیںگے؟۔
سیاستدان دن رات کی طرح بدلتے ہیں جس کی وجہ سے عوام نے ان کو پہچان لیا ہے۔ کار کنوں اور عوام کی مقبولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ عمران خان جس دن اقتدار میں آیا تو فوج کے بوٹ کے نیچے اپنا کردار بہت خوشی سے ادا کرنے پر تیار ہوگا۔ رہنمااورکارکن تو پنجاب میں اپوزیشن نہیں کرسکتے۔
منظور پشتین نے ساری مذہبی سیاسی جماعتوں کو مشاورت میں بلاکر فوج اور طالبان سے نکلنے کا بڑا مطالبہ کیا۔ پولیس نے احتجاج کیا کہ فوج نکلے اور اب واویلا ہے کہ فوج نہیں ہے اور پولیس محصور ہے اور حکومت کو خبر نہیں ہے؟۔ سیاسی قائدین کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اقتدار کے بغیر بھی امن وامان کو قائم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقتدار ملتا ہے تو پھر مزید بہتری پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور جب سیاستدان اقتدار کی بھوک کے مریض بن جائیں تو عوام کیساتھ ان کا رابطہ نہیں ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن جنرل ضیاء الحق کے دور میں بندوق اٹھانے کی بات کرتا تھا کہ نظام کیلئے بندوق ضروری ہے اور جب1990کے الیکشن میں اس کو ناکامی ملی تھی تب بھی عوام سے بندوق اٹھانے کی بات کرتا تھا۔1997میں الیکشن ہارا تو باقاعدہ انقلابی سیاست کا فیصلہ جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بھاری اکثریت سے کیاتھا۔ اب یہ کہنا کہ اگر ہمیں قبائل میں جانے دیا جاتا تو لوگ بندوق نہ اٹھاتے؟۔ قبائل میں جمعیت ہی کےMNAتھے۔ جب جنرل فیض حمیدنے لانے کا فیصلہ کیا تو مولانا صالح شاہ نے ویلکم کیا تھا۔ جس طرح مولانا فضل الرحمن نے آیت کا غلط مطلب پیش کیا تو کل اس پر قانون سازی ہوگی کہ کس کو چلانے اور چیخنے کا حق ہے اور کس کو نہیں؟۔ اسی طرح فقہاء نے فقہ اور اصول فقہ کے نام پر بھی بڑا گند کیا ہے۔ جس دن یہ گند ہٹ گیا تو لوگ پھر اسلام کے گرویدہ بن جائیں گے۔
مولانا نے بلوچستان کے کچھ اضلاع کی بنیاد پر کمال کی بلیک میلنگ کی ہے۔ جو دل سے زیادہ یہ پیٹ کا درد لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کو اگر مدد کرنی ہوتی تو کشمیر کی کرتا جو عالمی قوتوں کا ایجنڈا ہوسکتا ہے۔
رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں بغیر کسی مستقل ریاست ، عدالت ، فوج ، پولیس، سول بیوروکریسی ، انتظامیہ اور باقاعدہ حکومت کے کس طرح مسلم قوم کو منظم کیا ، یہود کے ساتھ میثاق مدینہ اور مشرکین کے ساتھ صلح حدیبیہ کی بہترین داخلی و خارجی پالیسی سے دنیا کو روشناس کرایا؟۔ سیاسی قیادت کا کمال یہ ہونا چاہیے کہ اقتدار سے دور رہ کر بھی امن و امان کا قیام یقینی بنائیں۔ وزیرستان کی سینکڑوں سال کی تاریخ اعلیٰ ترین معاشرے کی ایک بڑی مثال ہے لیکن سیاستدان صرف اقتدار کا فیڈر مانگتے ہیں۔
اللہ چیخ چیخ کر بولنے کو پسند نہیں کرتالیکن مظلوم کی چیخ وپکار کو اللہ سننے کیلئے تیارہے ”لایحب اللہ الجھر”مولانا فضل الرحمن
میں پہلے یہ بات کہہ چکا اور دوبارہ جاننا چاہوں گا۔ ملک کی سا لمیت کے حوالے سے بند کمروں میں ماورائے حکومت، سیاست، پارلیمان پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ ہمیں ایک لمحے کیلئے اجازت نہیں کہ ریاست کی بقا ء ، سالمیت پر بات یا تجویزدے سکیں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مسلح گروہوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ دو صوبوں میں حکومت کی رٹ نہیں۔ آج وزیراعظم یہاں ہوتے تو بصد احترام عرض کرتا کہ قبائل ، متصل اضلاع، بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ تو شاید وہ کہتے کہ مجھے علم نہیں۔ اگر میرا حکمران اتنا بے خبر ہے اور مجھے یاد ہے ایک زمانہ میں ہم نے مل کر کام کیا۔ افغانستان ہمارے جرگے جاتے تھے اور میں نے پوچھا تو ان کو علم نہیں تھا۔ کون ، کہاں فیصلے کیے جاتے ہیں؟، ذمہ دار تو کل پاکستان ،اپوزیشن اور پارلیمان ہوگا عوام کی نظر میں ہم ذمہ دار ہیں۔ حقیقت میں کوئی سویلین اتھارٹی نہیں۔ نظریاتی سیاست نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے بند کمروں میں فیصلہ پرحکومت کو انگوٹھا لگانا پڑتا ہے۔ نکلنا ہوگا یا انہی دبیز پردوں کے پیچھے سیاست کرنی ہوگی؟۔ ہم نے ملک کو چلانا ہوگا ۔جناب اسپیکر! میرے علاقے میں ایسے ایریاز ہیں جو فوج ، پولیس خالی کر چکی تھی۔ ایوان کو بتانا چاہتا ہوں۔ جہاں پر جنگ ہو ،پولیس اور فوج نہ ہو تو کس کے قبضے میں اور کس کارٹ ہوگا؟۔ اور دل پہ ہاتھ رکھ کر انتہائی دردِ دل کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بلوچستان کے 5سے 7 اضلاع اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر وہ آزادی کا اعلان کر دیں اگلے دن اقوام متحدہ میں ان کی درخواست کو قبول کر لیا جائیگا اور پاکستان کو تقسیم تصور کیا جائے گا ۔کہاں کھڑے ہیں ہم لوگ ؟، میری گفتگو کو جذباتی نہ سمجھا جائے ۔ حقائق تک پارلیمنٹ اور حکومت کو بھی پہنچنا ہوگا۔ اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع میں چوکیوں میں پولیس عملہ محصور ہے۔ سڑکیں، علاقے اور گلیاں مسلح قوتوں کے ہاتھ میں۔ آج کوئی بقاء کا سوال پیدا کرتا ہے، چیخ و پکار کرتا ہے تو برا منایا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت بھی چیخ چیخ کر بولنے کو پسند نہیں کرتا لیکن مظلوم کی چیخ و پکار کو اللہ بھی سننے کیلئے تیار ہے۔لا یحِب اللہ الجہر بِالسوء ِ مِن القولِ اِلا من ظلِمکوئی شخص بھی اونچی آوازاور چیختی آواز کیساتھ بات کرے اللہ کو پسند نہیں ہے سوائے اس آدمی کے جس پر ظلم ہوا، جس کیساتھ زیادتی ہو رہی ہے جو مضطرب پریشان ہے ۔یہاں قانون سازیاں کی جا رہی ہیں۔ پہلے ریاست اور رٹ کو تو مضبوط کرو۔ قانون پاس ہوتے ہیں۔ پورا ملک آپ کے ہاتھ میںہوگا تو نافذ العمل ہوگا۔ قانون کس کیلئے ؟۔ صوبائی اسمبلیاں عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔ بغاوتیں پیدا ہوتی ہیں عوام نکلتے ہیں تو کوئی منتخب نمائندہ پبلک کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں خواہ کتنی اچھی پوزیشن کیوں نہ ہو ۔ سیاست میں جنگ نظریات کی نظریات کیساتھ ہوتی ہے۔40سال پروکسی جنگ لڑی فوج نے اپنی ریاست کو جنگوں میں دھکیلا۔ دنیا کہتی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز ہے۔ ہم سارا غصہ افغانستان پر نکالتے ہیں لیکن اپنی کمزور پالیسیوں سے لوگوں کی آنکھیں دوسری طرف پھیرتے ہیں تاکہ قوم ہماری غلطیوں پر بات نہ کر سکے اور پڑوسی کو ہی مجرم سمجھتے رہیں۔ نام نہاد عالمی دہشتگردی کے خلاف امریکہ اور ناٹو کے اتحادی بن گئے۔ ہمارے اڈوں سے ہوائی جہاز اڑتے، افغانستان میں بمباری کرتے۔ کیا کبھی افغان طالبان نے کہا کہ امریکہ کے جہاز آپ کی ایئرپورٹ سے کیوں اڑ رہے ہیں۔ ہم پہ بمباری کر رہے ہیں؟۔ ……..ہماری معیشت بین الاقوامی اداروں کے حوالے کر دی گئی۔ آج ہماری معیشت کو آئی ایم ایف اور اے ٹی ایف اور قرضے دینے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں ہمیں ایک طرف قرضوں میں جکڑا ۔ سارا بوجھ دو طبقوں پر آتا ہے ایک کاروباری اور دوسرا سیاستدان تاکہ ایک حکومتی پارٹی کو بدنام کیا جائے دوسرے کو اس کی جگہ دی جائے اس مقصد کیلئے بین الاقوامی ادارے مداخلت کر رہے ہیں نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ میرا پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لیکر مغرب چلا جاتا ہے۔ میرے نظام سے تنگ یورپ کاروبار اور تجارت کر تا ہے۔ یہ وہی بات ہوئی کہ انڈیا کا پیسہ انگریز لے گیا اس نے گلستان کو آباد کیا اور ہمیں بھوکا چھوڑ دیا ۔دفاعی معاملات پہ جائیں حضرت ایٹم بم ، میزائل میرا ہے لیکن بین الاقوامی ادارے مجبور کر رہے ہیں اس پہ دستخط کرو اور مجھے بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کرنے کے بعد یہاں پہنچایا جا رہا ہے کہ ایٹم بم، میزائل، طیارہ ، لڑاکا سامان میرا ہوگا لیکن استعمال کرنے کا اختیار بین الاقوامی معاہدات کے تحت ان کو ہوگا۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن یا بینک اکانٹس کا ایک قانون بین الاقوامی اداروں کیلئے تحفظ کا باعث ہے۔ عالمی جنگ :روس آیا امریکہ نے قوت استعمال کی۔ دریائے آمو یہاں کی معدنیات پر قبضہ کرنے کیلئے افغانوں نے لڑ کر نکال دیا۔آج چائنا بھی رسائی چاہتا ہے۔ افغانستان اور ہمارے فاٹا اور پختونخوا کے علاقوں میں دو قسم کے معدنیات ہیں ایک وہ جس کیساتھ عام لوگوں کی معیشت کا تعلق ہے گیس کوئلہ تیل چاندی سونا کاپر وغیرہ۔ کچھ پتھر جو خلا میں جانے والے راکٹوں ، میزائلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جو ساڑھے 4 سو کی ہیٹ پر بھی تحلیل نہیں ہوتے اس سے الٹا جائیں تو اتنی ہی سخت سردی میں بھی وہ منجمد نہیں ہوتے۔ اگر ہمارا ایوان حکومت ، اپوزیشن سنجیدہ خود اعتمادی کیساتھ وطن عزیز کیلئے سوچ کر فیصلے کرے ویژن، دلیل، رائے اور تحقیق موجود ہے ہم اس ملک کو بہتربنا سکتے ہیں۔ ہم اس حد تک گر چکے کہ ایک قدم اٹھاتے ہیں تو بھی اشارے کے محتاج ہیں کیا کسی لمحے ہمارے ضمیر پر کچھ گزرتی ہے یا نہیں؟۔ سال میں باجوڑ جہاں ہم90لاش بیک وقت اور روزانہ دو دو تین تین جنازے اٹھ رہے ہیں۔ ہر ایجنسی سے لڑائیاں جاری ہیں۔ ایک ایجنسی ایسی نہیں رہی کہ جن کے لوگ میرے گھر نہ آئے ہوں۔ایک بھیک مانگ رہے ہیں کہ امن دو۔ میں کہاں سے امن دوں؟۔ پارلیمنٹ کی نہیں سن رہا۔ ایک فضل الرحمن کی کون سنے گا، ابھی پشاور میں تمام قبائل کا جرگہ ہوا ایک ہی بات کہ خدا کیلئے ہمیں امن دو، دربدر ہیں2010سے وہ مہاجرہیں بھیک مانگ رہے ہیں ۔ قبائل اپنی روایات رکھتے ہیںخواتین گھروں سے نہیں نکلتی آج وہ گلی کوچوںمیں بھیک پر مجبور ہیں ۔ پشتونوں کی روایات اور عزت کا لحاظ نہیں۔ بلوچوں کی عزت کا لحاظ نہیں ۔حوالے کرو صحیح لوگوں کے تاکہ معاملات بہتری کی طرف جائیں ہم ملک کیلئے سب کچھ قربان اور پوری طرح تعاون کیلئے تیار ہیں۔
کانیگرم خضر کا مرکزہے بحوالہ تاریخ پیرروشان انصاری … سید کبیرالاولیاء کی آمد، ابوبکر ذاکر کی خوارج کے ہاتھوں …کانیگرم قبائل نے لگ بھگ60خوارج قتل کرکے بدلہ …مدفون اسکا مرید ہے نہ کہ ابوبکر ذاکر …تاریخ درست رکھنا … پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت ایک واقعہ کربلا…جس نے قبائل کی سیاست کا نقشہ تبدیل کردیا…اگر قوم و قبیلہ کو حکمرانی کی طرف لیجانے والا مجدد سبحان شاہ … تو جنکے آباو اجداد نے بدن زئی کی غلامی قبول کی ۔… ہم سادات کے غلام ابن غلام ہیں۔ بس دلوں سے نفرت کا بیج ختم کرنا ہے،نہ کہ بجھتی چنگاریوں کو پھونکیں مار کے نفرت کا شعلہ جلانا، شاہ صاحب محترم سے معافی کا خواہشمند ہوں۔میدان جنگ میں بدن زنی کو ہر اول دستہ پائیں گے۔ آپ کے اولاد پر ہماری جان بھی قربان ، ہم ہیں تو کیا غم ہے۔شاہ صاحب اشارہ کوا بیایہ تماشا کوا۔ پیران پیر
تبصرہ2:آستانہ ابلیس ننھیال کو جواب
موخو شہ کہ ولے کانی ومہ غازہ ولے
(میں تو تمہیں ٹھیک کررہا تھا مگر افسوس کہ یہ تو تجھے لٹادیا ) جن کو ہر رنگ میں جینے کا کمال آتا ہے ان کے آئینۂ دل میں کہیں بال آتا ہے یوں تو منصور بنے پھرتے ہیں کچھ لوگ ان کے ہوش اُڑ تے ہیں جب سر کا سوال آتا ہے ہم کہ آزاد ہیں خوش باش پرندوں کی طرح کچھ بھی ہوتا رہے کب دل میں ملال آتا ہے کیوں انہیں خبط محبت کا ہے جن کے آگے جینے مرنے کا محبت میں سوال آتا ہے جن کے محتاج شہنشاہ بھی ہیں اے عاقل ہم فقیروں کو اک ایسا بھی کمال آتا ہے
سبحان شاہ کے وزیرستان میں خیمہ تھے گھرنہیں۔ کانیگرم سے مغرب کی جانب منور شاہ و مظفر شاہ کاقتل، لاشوں کو مشرق بادینزئی لے گئے؟۔ گھر اورقبرستان تھا تو صنوبر شاہ دوسری جگہ کیوں قتل اور دفن ہوتا؟۔ خورشید کا بیٹا اعزاز شیرخواری میں ماں کے حوالہ ہوا تو اجداد تک آ گیا ۔ ساؤتھ افریقہ سے شیر نواز برکی کی لاش لائی گئی۔ بادینزئی ہوتے تو انگریز کیلئے کاروائی وہیں کرتے؟۔ وزیر انقلابیوں کو گومل ڈیم کے مقام پر قتل کرایا ؟۔ جٹہ قلعہ توبعد میں لیا۔ سلیمانی ٹوپی پہنے منہاج کو پتہ ہے کہ کرایہ کے ٹٹو تھے ۔ خالد نے اثاثہ بیچ کر ٹھیکہ لیا تو میں نے اورنگزیب کو بتایا کہ چوری ہے تو کہا کہ لاکھ روپیہ انعام اگر جہانزیب نے ضیاء الدین سے4آنا چوری کیا ۔ اگر کہتا کہ یہی ہے توبھائی خفاہوجاتے۔یہی اعتماد شہادت کا باعث بن گیامگر خالد ذاتی گھرپر اور یہ سسرال کے در پر۔ کوئی جئے کھلے جگر پر ، کوئی کھیلے چھپے کنہ بر پر۔ہمیں سیدامیرسیدکبیر پر شکر۔ تم کروفخر سیدا کبر پر! عابد سرکٹا شجرہ دکھاؤ۔ ہمارا تو قبول نہ تھا۔ اوچ شریف سید ایوب شاہ کیساتھ جو گئے تو جعلی شجرہ نسب بنانے پر زور دیا تھا۔ سیدایوب شاہ نے کہا کہ ”میرا اپنا ٹھیک ہے”۔ تمہارے والوں نے بات اڑائی کہ ”بابوویل کا شجرہ بھی جعلی نکلا”۔ہم پر کوئی اخلاقی دباؤ نہیں تھا اسلئے پرواہ نہ تھی مگر تھے ہم تم الگ الگ۔ سندھ کے قصائیوں نے فیصلہ کیا کہ ”ہم آئندہ خود کوقریشی کہلوائیںگے”۔ انجمن قریشاں کی تنظیم ہے۔ مجھے کوئی غرض نہیں کہ تم بادینزئی ہو کہ سید؟۔ یہ تم طے کرو۔ مشکوک ریلے کی پیداوار فالتو کتاہوتاہے لیکن بغیر ماں باپ کے فیک اکاؤنٹ سے بھونکنے والو کو سمجھاؤ ورنہ تو پھر روئیں گے۔انشاء اللہ العزیز
فیک اکاؤنٹ میں گرم لڑکیوں یا انکے بھائیوں کو تکلیف؟ گواہ ہے کہ شرعی نکاح کی تجویز دی ۔ منہاج غلط بکتاہے کہ میرا والد چرس پی کراس کی پھوپھی کا نام لیکر پہاڑ میں جھومتا تھا۔ ولاتھنوا فی ابتغاء القوم ان تکونوا تألمون فانھم یألمون کما تألمون و ترجون من اللہ مالایرجون وکان اللہ علیمًا حکیمًا (النسائ:104) ”اور رنج نہ کروقوم کی گالی دینے پر،اگر تمہیں درد پہنچا تو ان کو بھی درد پہنچا جیسے تمہیں پہنچا۔ تم اللہ سے وہ اُمیدیں رکھتے ہو (انقلاب کی) جو وہ نہیں رکھتے ہیں اور اللہ علیم حکیم تھا ”۔
عابد بھائی !کانیگرم کے محسود،بادینزئی ،سفیان خیل سے لیکر سید گیلانی تک گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا غلطی نہیں تمہارے پردادا مظفر شاہ کو قتل کرواکردادا سرور شاہ کو بچپن میں یتیم بنادیا۔ فراڈ کمپنی نے جوبھی کہانی گھڑی ہے کسی نے پوچھاتک نہیں؟۔ یہ توپاکستان ہے یہاں قائداعظم کے جعلی پوتے بھی بنتے ہیں۔
BBCرپوٹ:کراچی نارتھ ناظم آباد میں اسلم جناح ساٹھ سالوں سے کسمپرسی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے اسلم جناح نامی شخص جو بانی پاکستان محمد علی جناح کا پڑپوتا ہونیکا دعویٰ کرتے ہیںانکو نقد انعامات، وظیفے ، ایک گاڑی اور سرکاری رہائش گاہ فراہم کی ہے۔ کراچی سے جب اسلم جناح اپنی بیگم اور معذور بیٹی کیساتھ گزشتہ دنوں اسلام آباد ائیرپورٹ پر پہنچے تو کئی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے پھولوں اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے استقبال کیا۔ انہیں قومی اسمبلی لے جایا گیا ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں خوش آمدید کہا ۔ اس موقع پر وزیراعظم نے انہیں گاڑی کی چابی اور چھ لاکھ روپے کا چیک دیا۔…BBC:2014 صحافی بلال غوری نے بتایا کہ اسلم کھتری نے اسلم جناح تک کا سفرکیسے طے کیا؟۔ حمید نظامی بانی نے یہ تجویز دی تھی۔
عابد! تیرے باپ نے کبیرالاولیائکے مزار کی تعمیر کے نام پر سرکاری پیسہ کھایا ۔احمد یار معذور بیٹی کو لیکر سویڈن سیاسی پناہ لیتا تو کہتاکہ ہم نے دہشتگردوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ سیداکبراورملاعلیزئی کی طرح منہاج اور مولانا آصف تقریب کی زینت بنتے۔ حالانکہ دلوں کا گھر گڑھ تھااورISIنے گاڑی پکڑ کربارود سے اُڑائی تھی۔منہاج میرا نقش انقلاب امریکن سینٹر میں دیکھ آیا تھا۔CIAنے اسلامی انقلاب کا راستہ روکا۔
اکبر علی کی بات کو شہرت مل گئی کہ نوید کے سسر منظور برکی کو کہا کہ خود کو پیر مت کہو ،پیر وہ ہوتا ہے جس کی ماں پر پیر چڑھا ہو۔ پولیس افسر جیل چیف شیخ سے قاری اختر نے میراکہاکہ پیرہیں ، مشقت نہ کرائیں۔ چیف نے کہا کہ اگر یہ مجھے بھی پیر کہے تو مشقت نہ کرے۔ میں نے کہا کہ پیر کی3 اقسام ہیں۔بوڑھا، پیر طریقت اور جس کی ماں پر پیر چڑھا ہو، تجھے کونسا پیر کہوں؟۔اس نے سخت ترین مشقت پر لگایا ،ایک انچارج نے انکار کیا تو دوسرا مجھے کہنے لگا کہ ناراض نہ ہونا مجبوری ہے گالیاں دوں گا۔ میں نے کہا کہ دانت نہ تڑواؤ۔قصوری بنوں تو شیخ کے توڑوں گا اور چوتھی قسم تعویذ فروش اور پانچویں حسد ہے۔ احمدیار کا مہدی منظور پشین ہے۔اگر مولانا آصف کو مان لیا تو حلالہ اور حرمت مصاہرت سے پشتو اور دینی غیرت کھونے کا بیڑا غرق ہوگا۔
فتویٰ : چند لوگوں نے ……اور خودساختہ گیلانی سید بن گئے۔ کچھ افرادنے عدالت میں کیس کیا تو طاہرالقادری کے پیر کا شجرہ پیش کیا تو جعلسازی پکڑی گئی مگر باز نہیں آئے۔ خود ساختہ گدی نشین تعویذات کا کام کرتے ہیں۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں فتویٰ سے مستفید فرمائیں کہ ان جلعسازوں پر شریعت میں کیا حکم نافذہوتا ہے؟۔ سائل:صاحبزدہ عمراویس شاہ اسلام آباد تاریخ اشاعت28فروری2020ء
جواب : اسلام میں نسب تبدیل کرنا سختی سے منع اور سخت وعید آئی ۔ نبی کریم ۖنے فرمایا:لیس من رجلٍ ادعی لغیر أبیہ وھو یعلمہ الا کفر ومن ادعی قومًا لیس لہ فیھم فلیتبوأ مقعدہ من النار ”جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جوایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے”۔
(صحیح بخاری اورصحیح مسلم) عن ابن عباس قال قال رسول اللہۖ من انتسب الی غیر أبیہ او تولّی غیر موالیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس اجمعین جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ (ابن ماجہ، کتاب الحدود )
درجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کراپنا نسب بدلنا اور خود کو اپنے اصلی نسب کی بجائے کسی اور سے منسوب کرنا حرام ہے۔ سوال میں مذکور شخص نے بھی اگر واقعتا جان بوجھ کر اپنا نسب تبدیل کیا ہے تو حرام عمل ہے۔ جس پر خدا کے حضور جواب دہ ہے۔ اس کی دیگر جعلسازیاں بھی قابلِ مذمت اور ناجائز ہیں۔ مفتی عبدالقیوم ہزاروی۔ منہاج القرآن لاہور
طاہر منکر حدیث بن جائے گا اسلئے قرآن بھی دیکھو۔
ادعوھم لاٰباھم ھو اقسط عنداللہ فان لم تعلموا اٰبائھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم ولیس علیکم جناح فیما اخطأتم بہ ولٰکن ماتعمدت قلوبکم وکان اللہ غفورا رحیماO(سورہ الاحزاب:آیت:5) ”انہیں انکے اصلی باپوں کے نام سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک پورا انصاف ہے۔ اگر انکے اصلی باپوں کا پتہ نہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اورتمہارے دوست ہیں۔اور اگر تم نے غلطی سے ایسا کیا تو تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں مگر یہ کہ تمہارے دلوں نے جو جان بوجھ کارنامہ انجام دیا اور اللہ غفور رحیم ہے”۔
عابد ! سبحان شاہ کی اولاد اورکرار خیل ہمار ے دینی بھائی اور دوست ہیں مگرسیدکبیر الاولیاء کی اولاد نہیں ۔ جب تک پتہ نہیں تھاتو خیر تھا ۔ جب پتہ لگا تو فیک اکاؤنٹ والے جو ہیں سو ہیں لیکن جو اچھے ہیں وہ ہمارے شجرہ کی طرف نسبت نہ کریں۔ پہلے میرا حقائق کی طرف دھیان نہیں گیا تو میری غلط فہمی کی وجہ کچھ اورتھی لیکن روایتی درایتی ذرائع اور ٹھوس حقائق یہی ہیں۔
دیانتداری کیساتھ سبحان شاہ کی اولاد میں آپس کی نفرت ختم کرنے کیلئے واضح کیا تھا کہ خانی سبحان شاہ کی وراثت نہیں تھی بلکہ لاوارث میانجی خیل سے عورت کے رشتہ سے منتقل ہوئی۔ تاکہ محروم افسوس نہیں کریں اوربراجمان اس پرفخر نہیں کریں۔
جاسوسیہ نے انگریزی خط میں جن جذبات کا اظہارکیا کہ خاندان دہشتگردوں کے حملے سے بدنام ہوگیا تو پردہ اٹھتا گیا ۔ جھوٹ کے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑگئے ۔ اگر بغیرماں باپ والے اکاؤنٹ باز نہ آئے تو پھر سچ بہت رُلانہ دے۔
پردے میں رہنے دو پردہ نا اُٹھاؤ پردہ جو اُٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا اپنے دل مضطر کو بیتاب ہی رہنے دو چلتے رہو منزل کو نایاب ہی رہنے دو تحفے میں انوکھا زخم حالات نے بخشا ہے احساس کا خوں دے کر شاداب ہی رہنے دو وہ ہاتھ میں آتا ہے اور ہاتھ میں نہیں آتا سیماب صفت پیکر سیماب ہی رہنے دو گہرائی میں خطروں کا امکان تو زیادہ ہے دریائے تعلق کو پایاب ہی رہنے دو یہ مجھ پہ کرم ہوگا حصے میں مرے اے دوست اخلاص و مروت کے آداب ہی رہنے دو ابہام کا پردہ ہے تشکیک کا ہے عالم تم ذوق تجسس کو بیتاب ہی رہنے دو مت جاؤ قر یب اس کے ایک گہن بن کر گھر میں اسے اپنا مہتاب ہی رہنے دو جب تک وہ نہیں آتا اک خواب حسیں ہوکر تم اپنے شبستاں کو بے خواب ہی رہنے دو وہ برف کا تودہ یا پتھر نہ بن جائے ہر قطرۂ اشک سیلاب ہی رہنے دو وہ بحر فنا میں خود ڈوبا ہے تو اچھا ہے فی الحال ظفر اس کو غرقاب ہی رہنے دو
عابد! آپ منہاج کیساتھ پشاور آئے اورمشترکہ خانقاہ کی استدعا کی جومیں نے مسترد کی۔ آپ کے والد نے آپ کے بھائی مولانا آصف کیلئے خواہش کا اظہار کیا کہ حیات آباد پشاور میں کوئی بڑی اور اچھی تنخواہ والی مسجد مل جائے۔ گھرکے قریب علماء مسجد پر لڑرہے تھے تو اگر میں امیرالدین سے کہتا کہ میرے لئے قبضہ کرنا توبھائی میری اتنی پٹائی لگاتا کہ نسلیں یاد رکھتیں۔ تعویذ، مسجد، مدرسہ اور سیاست کسی بھی عنوان سے مذہب کا دھندہ غلط ہے۔ میرے والد نے کہا: ”اگر عالم دین بن گئے تو میرے لئے اس سے زیادہ فخر کی کوئی بات نہیں لیکن اگر سحری کا کتا بن گئے تومیرے لئے بڑی شرمندگی کا باعث ہوگا”۔
سنگی مرجان محسودنے پرائیویٹ سکول سرکاری فنڈ کیلئے بلایا اور میری اکیڈمی شرائط پر پوری تھی۔6لاکھ میں3لاکھ کی واپسی لمبی مدت اورآسان اقساط پر تھی ،3لاکھ امداد تھی۔ اپنی ریاست تھی اور قوم کے بچوں کی خدمت کا پیسہ تھا لیکن سود ی معاملہ بھی شامل تھا اسلئے نہیں لئے۔ سنگی مرجان نے کہا کہ3لاکھ نقد میں سود نہیں۔ تو میں کہہ دیا معاہدہ پر دستخط نہیں کرنے۔ یہ تکبر نہیں تھا بلکہ ا ن کا اپنے دل میںبڑے بھائی کی طرح احترام تھا۔
عابد !گمشدہ قبریں، تن کے بغیر شجر اور فیک اکاؤنٹ مسائل کا حل نہیں۔ چند غیرتمند اور سنجیدہ افراد کو بٹھاکر ان کے نام کیساتھ ایک ایک مسئلے پر بات کرو اور تاریخ کو درست کرو۔
عابد!جن بجھتے چنگاریوں کو بجھانے کی تجویز ہے تو کس نے شہداء کے خون سے بجھانے پر میٹنگ کی ؟۔ ہماری بہن اپنے بچوں کیساتھ بیٹھ گئی تو ہمارے اور پشتو رسم میں فرق تھا اور جن کو طعنہ ملا کہ بے غیرت کی غیرت مزیدخراب کی گئی تو طعنہ زن کی بیویاں بٹھاکر100درجہ زیادہ بے غیرت بنادیا۔ ان کی بہن اور بچوں کے ذریعے پھر سبق بھی سکھادیا۔ پٹھان غیر مند قوم ہے جب پریکٹیکل داستانوں کا پتہ چلے گا تو معاشرتی انقلاب بھی آجائے گا اسلئے کہ غیرت اور بے غیرتی کی تمیز آئے گی۔
یوسف شاہ کو اگر بتاتا کہ طعنہ زنوں کی کتیا والی کردی توپورا مطمئن ہوجاتا۔دوسرا مسئلہ پیرشفیق کا ایک ملاقات کی مار ہے۔ اسکے والد نے قدر کی ۔اسکے بھائی نےPIAجہاز میںمیری عزت افزائی کی۔ پشتو فیصلہ کیا تو مسئلہ غیرت کا نہیں دھوکہ تھا۔ دھوکہ باز گلٹی وہ گلاٹیاں کھائے کہ سر و پچھاڑی کا پتہ نہیں چلتا۔ بے غیرتی پر ساتھ نہ دیتا ۔ قاری حسن شہید نے بتایا کہ دھوکہ اور غلط کیا ۔ حاجی رفیق شاہ نے کہا کہ میں نے بے عزتی سے بچایا اوروہ جانتا تھا۔حاجی عبدالرزاق نے کہا کہ اللہ سے عزیزوں کی دشمنی قہر مانگتاہوں۔ جس پر ڈاکٹر ظفر علی شاہ کانوں کو ہاتھ لگارہاتھا۔ لیکن کیوں کہا؟۔ لوگ تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش بر سوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پتہ تھا کہ اوقات نہ دکھائی تو شرہوگا۔ اگر دل بند ، مظفر شاہ اور منور شاہ کو دھوکہ سے قتل کروادیا تو طعنہ دھوکہ کھانے والے کو نہیں جاتا۔ دھوکہ باز ڈوب مرے۔جو شریعت، پشتو، فطرت، انسانیت، اخلاقیات سے عاری من شرما خلق ہیں اور من شرحاسد میں مبتلا ہیں۔ لالچ بری بلا ہے، لالچی بڑا دلا ہے۔ پرائے گو پر پدو مارنے والا نہیں جانتا کہ اپرکانیگرم میں ایک خان اور تھا لیکن اسکا نام وشان نہیں ۔تم چپکتی ڈھیٹ مٹی ہو۔
مظفرشاہ کے یتیموں کو کانیگرم کی خانی میں شریک کیا جاتا تو قربانی کا ازالہ ہوتا۔ پھر اس کی اولاد یہ تشہیر نہ کرتی کہ مظفرشاہ بہادری پر قتل ہو اور صنوبر شاہ بدکاری پر ۔پھرصنوبر شاہ کی اولاد نے مظفر شاہ کی اولاد کوبالکل اچھوت بناکر ہی دم لیا تھا۔
سیداکبر کا ایک نواسہ محمود اور دوسرا خان بابا پیرعالم شاہ تھا۔ محمود کے بعد خانی پیرعالم شاہ کو لوٹادیتے مگر اس کو داماد بنادیا۔ جو اپنی بس کی کمائی اپنے چچا پیرمبارک شاہ کے سکول کیلئے دیتا تھا۔ مونچھ لالا کی اولاد سے ماں جھوٹ بولتی بقیہ صفحہ ھٰذا نیچے ہے کہ خان بابا کی اولاد کا سوئی دھاگہ تک خرچہ اٹھاتے تھے۔ وزیر قوم کو انگریز کے نمک خوارنے بدنام کیا کہ امید خور ہیں لیکن انگریز کی لکھی کتاب میں نیٹ پر ہے کہ ”سید اکبر اور صنوبر شاہ نے بھاڑہ لیکر7 وزیر انقلابیوں کو شہید کیا تھا۔جن میں دو خاص افرادتھے”۔ ضمیر فروشوں کا ذکرہے مگر انقلابیوں کا نہیں۔ انگریز نے ہماری تہذیب وتمدن اور تاریخ کو مسخ کیا ۔ قرآن میںتاریخی واقعات واشگاف ہیں۔ بریت لالا، بغیر بریت لالا سے بے غیرتی کے عروج تک پہنچنے کی داستان ہے ۔الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی بے غیرتی اوربے حیائی ختم کرنی ہوگی۔
کیا سلطان اکبر نے قاتل پر جھوٹا الزام لگایا کہ ”عورت سے تعلق پر صنوبر شاہ کو قتل کیا؟”۔ تاکہ بدلہ نہ لینا پڑے اور پھر محسود عورت سے حسین شاہ کی شادی بدلہ لینے کیلئے کرائی تھی؟۔ سلطان اکبر کی اولاد جیسے استعمال کررہی ہے اور حسین شاہ کی اولاد جیسے استعمال ہورہی ہے تواسDNAسے یہی لگتا ہے۔
سبحان شاہ سے انگریز ناراض ہوا اسلئے اچھا ہوگا ۔ سیداکبر نے باپ سبحان شاہ اور بھائی صنوبرشاہ کو استعمال کیا تو صنوبر شاہ اچھا ہوگا۔ منورشاہ ، مظفرشاہ اور حسین شاہ نے قربانی دی اسلئے یہ سبھی اچھے اور نعیم شاہ کو سسرسلطان اکبر نہ روکتا توقربانی دیتا۔ سلطان اکبر کو سسر نے روکا ہوگا اور محمدامین شاہ اس وقت چھوٹا تھا لیکن انکے بعد جو تاریخ رقم ہوئی ہے تو اس کا کیا بنے گا؟۔
جھوٹ گاؤں کے گاؤں نہیں تاریخ بہاکر لے جاتا ہے۔
غیرت تو جٹ میں پشتون سے کم نہیں لیکن ایک دوسرے کا ماحول نہیں سمجھتے۔ احمد خان کھرل نے انگریز سے کہا: ” ہم اپنی زمین، اپنی عورت اور اپنا گھوڑا کسی کو نہیں دیتے”۔ اس غیرت پر یوسف رضاگیلانی اور شاہ محمود قریشی کی نسلیں قربان ہوں۔ حسین شاہ کو ماں نے والدصنوبر شاہ بریت لالاکے قاتلوں کا پیچھا کرنے سے پکڑلیاجسکے بیٹے گل امین نے والد اور چچوں کا خرچہ اٹھایا۔ بجلی بل تک چار گھروں کا مشترکہ خرچہ تھا تو پھر کیسے بول دیا کہ ”خان کیلئے ایک جوتا لایا تھا جو نہیں پہنا؟”۔ کانیگرم اور گومل میں شاندار گھر اور گاڑی تھی۔ اگر خرچہ نہ اٹھاتا توبڑی جائیدادخریدتا۔ محمدامین شاہ نے کنکریاں اٹھاکر کہا تھا کہ گل امین کے پیسوں کا شمارکرنااس طرح ممکن نہیں۔ حسین شاہ عبادت میںماموں بابا پرگیا۔ اس کی غیرت مثالی تھی لیکن بیٹے عبدالرؤف اور پوتے اسرار شاہ کوکیسے استعمال کیا گیاہے؟۔
شہریار دلے کی جان پر آئے تو کہے گا کہ بیوی نے قتل کروایا تاکہ بدعمل مو نچھ لالا سے جان چھوٹ جائے ۔ قاتل پر ملی بھگت کا بھی بہتان بعید ازقیاس نہیں۔ یوسف شاہ نے ٹھیک کہاتھا کہ قبضہ کے پیچھے سعدالدین تھا جو ثابت بھی کردیا ہے۔
ڈاکٹر ظفر علی تو بھائیوں سے زیادہ اچھا ہے۔ بھتیجی کے نکاح پر بغیر پوچھے وکیل بن گیاتوارشد شہیدکا نکاحOK۔جبکہ میری بھتیجی کا نکاح میں نے بھتیجے سے کرایا تو دوبارہ پڑھادیا۔ ڈاکٹر کے والداور میرے والد کی3،3 بیگمات کے رشتے چٹائی کے تنکے کی طرح ہیں۔ سعدالدین اپنی بیگم اور اس کی اولاد کو لوہار کہتاہے۔ عبدلائی کو میراثی قراردیا اور برکی کو ہلکا سمجھتا ہے۔
کانیگرم میںایک ہی محسود خاندان عبدلائی ہے جس نے سیدم برکی کو عورت کی بے عزتی اور غیرت پر قتل کیا۔ دیت کے بعد اس پر فائرنگ کی تو” تان قاتل محسود” سیدم کے والدکے سامنے آیا کہ چاہو تو قتل کرو اور چاہو تو معاف کردو۔ پھر سیدم کے غیرتمند باپ نے قتل کے بجائے معاف کردیا تھا۔محسود اور برکی قوم کی اسی فطرت پر علامہ اقبال نے شاعری کی ہے کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی جو فقر ہوا تلخیٔ دوران کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
ضیاء الدین نے کہا کہ زیب لالا کی وجہ سے پالتا تھا لیکن جب تھریٹ تھی تو کیا کیا؟۔ بعدمیں کیوں رکھا؟۔ اگر ہم ان کو پھینکتے تو کوئی نہ پوچھتا لیکن ہم نے چمٹائے رکھا تو وہ تعلق خراب کرتے؟۔ سردارامان الدین پروگرام میں آئے۔ منہاج نے کہا کہ آپ کی صفائی پیش کی کہ خود آیا تھا؟حالانکہ ضرورت نہ تھی ، ایک غلط خانی دلائی اورابھی تک باجگزاری نہیں چھوڑی۔ لیکن واقعہ کے بعد کیوں رکھا؟۔کیا صفائی پیش ہوسکتی ہے؟۔
عیب کا تعلق کردار ، ایمان، غیرت ، بے حیائی اور لالچ سے ہے ،نسل سے نہیں۔ پیر یونس نے سعودیہ کی نوکری چھوڑ دی اور چائینہ کمپنی کی پیشکش مسترد کی ۔ مفتی محمود کی غلط سفارش پر اہلیت کے باوجودپیر نواز ایک مرتبہ نوکری سے رہ گیا تو ساری زندگی سرکاری نوکری نہیں کی ۔ جبکہ دوسری طرف نوکری کیلئے بس نہیں چلتا ۔ مجھ سے بیٹوں کی نوکری کیلئے سبیل پوچھی گئی۔
میرے والد کہتے تھے کہ نماز پڑھ لی تو اچھا لیکن نماز پڑھنے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور حاجت مند کی ضرورت پوری نہیں کی تو پکڑے گا اسلئے کہ اللہ اترکر بھوکے کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اسی طرح ظالم ، لالچی و کمینے لوگوں کا ہاتھ روکنا بھی ذمہ داری ہے اور اس پر ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔انشاء اللہ
وھو القاہر فوق عبادہ و یرسل علیکم حفظة ً حتی اذا جاء احدکم الموت توفتہ رسلنا وھم لایفرطون ” وہ اپنے بندوں پر قاہر ہے اور تم پر محافظ بھیج دیتا ہے جب کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے فرشتے اس کو مار دیتے ہیں اور وہ رعایت نہیں کرتے”۔ (سورہ الانعام:61)
عزائیل کی طرح یہ کام اللہ انسان سے بھی لیتا ہے کہ جب کسی کی اخلاقی موت کا وقت آتا ہے تو ظالم کا کچومر اتارنے کیلئے اللہ کسی بندے کو کھڑا کرتا ہے۔ ایک بزدل ، لالچی، متکبر، ظالم ، بے حیاء اور بے غیرت جو قرار واقعی کی سزا کے مستحق ہیں اور دوسرے وہ جن پرلوگ دلوں کے آبلے پھوڑ رہے ہیں۔ ماموں کا جہاں بس چلا توکسی کی تذلیل میں کسر نہ چھوڑی۔ میں کمینہ لوگوں کی تذلیل میں آخری حد تک گزر تا ہوں اسلئے کہ انسان فطرت سے مجبورہوتا ہے۔ ماموں سعدالدین نے کہا:”میں غیرت اور خون بہانے میں اپنی ماں پر گیا ہوں”۔ مگراس نے اپنے ماموں سے کبھی تعلق نہیں رکھا۔غیرتمند ماموں کو چھوڑ دیا اور بے غیرت ہماری جان نہیں چھوڑتا۔ دوسراماموں ہوتا تو شہداء پر فخرکرتااور اپنے گھرپر کتوں کے ریلے کبھی نہ بٹھاتا۔
ان دلّوں اور دلّالوں نے ایک طرف خیبر ہاؤس میں ڈیرہ ڈالا تودوسری طرف شہداء کے40ویں پربھی نہ آئے ؟۔ خوف ولالچ کی ذلت سے مرنا بہتر تھا لیکن اب قعر مذلت کا کوب اپنی پیٹھ پرلئے گھومتے پھریں ۔ کہاں وہ شخص جو بارود لیکرحملہ کرنا چاہے اور کہاں وہ جو پالتاتھا؟۔ دونوں ایک نسل اور نسب کے لیکن ایک فخرابابیل اور دوسربڑاادلابادلیل اور ذلیل۔کوئی بھی جرگہ، عدالت، فورم اور میدان ہو ثبوت دوں گا۔انشاء اللہ
سنبیعکم ولٰکن لمن ؟یا مقطوع الدبرو الانف والذقن ما علاقة بناالا الختن لستم نسل الکبیروالجیلی والحسن ان کیدکم بعون اللہ وفضلہ من بیت العنکبوت اوھن کیف انسٰی یدور فی ذہنی دماء الضیوف الشہداء اثخن
”ہم تمہیں بیچیں گے مگرکس کو؟۔ اے کٹے ہوئے دبر، ناک اور ٹھوڑی والو!۔ تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں مگر عورتوں کے رشتے والا۔ تم کبیرالاولیائ ، جیلانی اورحضرت حسن کی نسل نہیں ہو۔ بیشک تمہارا مکر اللہ کی مدد اور فضل سے مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ کیسے بھول جاؤں،میرے ذہن میں مہمان شہداء کا خون گردش کررہاہے جو بہت زیادہ بہایا گیا” ۔
عابد ! پڑوسی نے عورت کے مسئلے پر تین افراد کو قتل کیا۔ یوسف نے کریم کا رشتہ چھین لیا تو افسوس کی جگہ سبحان شاہ کی اولاد خوشی منارہی تھی۔ الیاس و عبدالمنان کسی نتیجہ پر پہنچ گئے۔ میرا جس طبقے سے واسطہ پڑا۔ یہ بے غیرتی، لالچ، طعنہ زنی، الزام تراشی ، حسد وبغض ، گالی اور غرور وتکبر سے لداہواہے۔
دوا پنجہ کی تقسیم میں ہماری50کنال زمین تھی۔ایک بے غیرت سے کہا کہ والد نے2کنال مسجد کیلئے دی تو اس نے کہا کہ ہم30کی جگہ32دیں گے۔جبکہ ان کی کل30کنال تھی ،20کنال یوسف کی تھی، مسجد کی کاٹ کر18واپس کی ۔ بھوک ، بھیک اور لالچ سے بھی مرتے ہیں اور تکبر بھی ہے۔جو کچھ انکے ساتھ ہوا ،میں تو صرف تاریخی آئینہ دکھارہا ہوں۔
30 میں ریاض کا حق ساڑھے7کنال مگر3ملی ۔ چچا انور شاہکی دن کی کمائی تنخواہ کے برابر تھی۔1500کنال سرکاری ریٹ پر زمین میرے والد کو واپس کردی۔ لالچ ہوتی تو جاگیر بناتا یازیادہ قیمت پر بیچ دیتا۔ بیوہ بہن کے ہاں عارضی گھر شاید اسلئے بنایا کہ کوئی زرداری کٹ نہ مارلے۔ قسمت خان نے گھر کیلئے مفت زمین کی پیشکش کردی ۔خریدی اسلئے نہیں کہ شفہ کا خوف بجا تھا ۔کوئی بے شرم بلا تھا۔اس نے انگریز میجر کی پٹائی لگائی تھی اور شرافت کا پیکر کہتا تھاکہ” یہ فیڈر پر چلتے ہیں، جس دن فیڈر بند کیاتو چلائیں گے”۔ ان کے پیٹ کا مروڑ اب بھی میں جانتا ہوں۔گالیوں کے ذریعے بے نقاب اسلئے کررہا ہوں کہ جو نہیں پہچانتے وہ اس دفعہ ان کو خوب پہچان لیں۔
اگر کبھی تیرے آزار سے نکلتا ہوں تو اپنے دائرۂ کار سے نکلتا ہوں کبھی اس کے مضافات میں نمود میری کبھی میں اپنے ہی آثار سے نکلتا ہوں وداع کرتی ہے روزانہ زندگی مجھ کو میں روز موت کے منجدھار سے نکلتا ہوں رکا ہوا کوئی سیلاب ہوں طبیعت کا ہمیشہ تندیٔ رفتار سے نکلتا ہوں اسے بھی کچھ مری ہمت ہی جانیے جو کبھی خیال و خواب کے انبار سے نکلتا ہوں
دوا پنجہ کی تقسیم۔ یہ الٹی گنگا دیکھئے گا
ریاستی ادارے عدالت، پولیس، فوج ، سول بیوروکریسی اور علماء کے کردار پر بحث کے بجائے اپنے گھر کا معاملہ تو ٹھیک کریں۔ مظفر شاہ کم بخت لالا صنوبر شاہ بریتو لالا منور شاہ چشم بدورلالا
4بیٹے 4حصے 3بیٹے 6حصے 1بیٹا 5حصے
کانیگرم میں سبحان شاہ کی اولادنے یہی زمین موروثی مال سے خریدی۔ منور شاہ کابیٹا نعیم،پوتا خالام ۔ گومل و کانیگرم میں مظفر شاہ کے بیٹوں ،پوتوں پرظلم کیامگر ہمارے شیرسے کانیگرم میں مٹی پلید کرادی توبہانہ کیاکہ میں سمجھا بیٹھک ہے۔ پھر اسی پر قبضہ ہوا تو غیرت سلیمانی ٹوپی میں چھپادی۔ قصائی نے کسی کو گالی دی تووہ گاہک کو مارنے لگا۔ اس نے کہا کہ میں نے تو گالی نہیں دی؟۔ وہ کہنے لگا کہ اسکے ہاتھ میں ٹوکا ہے۔ جہاں غیرت کا تقاضہ تھا اور ٹوکا بھی نہیں مگر وہاں منافقت کھیلی گئی۔
عابد!تمہاری سیاست قسمت خان تک کنڈیکٹری گالی تھی1970قیوم خان ،1977مفتی محمود ،طالبان ،PTMہرچڑھتے سورج کے پجاری چمٹتے تو چماٹ ماری ۔ جب تک سورج چاند رہے گا، لالچ کا ستارہ ماند رہے گا۔ مظفر شاہ اور اس کی اولاد قربان ہوئی۔ حسین شاہ نے قربانی دی۔ محمدامین شاہ نے کشمیر کا جہاد لڑا۔پھر دواپنجہ کی تقسیم اورمزیدقبضے کااصل کردار سعدالدین اور دعویداریوسف شاہ تھا۔ میں نے عبدالوہاب سے کہا:”اس ظلم کے بدلے اپنی زمین نہیں لو” ۔ پیر داؤد سے جو زمین لی ہے تویہ شریعت اور نہ ضرورت بلکہ بری لالچ اورکھلی بدمعاشی ہے ۔ علی نے فرمایا کہ الطمع رقی مؤبد ”لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے”۔اگر کہہ دیاکہ علی کی اولاد ہو تو زمین واپس کرو۔ توکہیں گے کہ یزید کی سہی مگر واپسی نہیں ۔ امام علی نے فرمایا:3سے دوستی نہ کرو۔ لالچی بیچ دے گاتو پتہ بھی نہ چلے گا۔ بزدل چھوڑ دے گا اور کم عقل فائدے کی جگہ نقصان پہنچائے گا۔
لالچ کے سمندر میں ایماں کی کشتی ہے ہر قوم زمانے میں یہ دیکھ کے ہنستی ہے جس قوم نے بھی اپنی تہذیب مٹا ڈالی وہ قوم زمانے میں عزت کو ترستی ہے گرد لالچ کی جمی ہے کس قدر افکار پر کون جانے کیا لکھا ہے وقت کی دیوار پر کاٹ ڈالا باغباں نے کتنے ہی اشجار کو آشیانے تھے پرندوں کے انہی اشجار پر
اپنے ہاں بھانجے اور نواسے کی بچپن پر شرم آتی تھی۔ شہریار عطاء اللہ شاہ کا سوتیلا بھانجا تصویرکھنچواتے وقت کاندھے پر رکھا تو بڑا غصہ کیا ۔ جہانزیب کی پیدا ئش پر نانا اقدار کے مطابق قطعاًنہ آتااوربات چیت بھی بند تھی۔ہماری ہمدردی مظلوم مامی کیساتھ تھی۔ ماموں دوسری بیگم کا زن مریدتھا مگر جونہی پتہ چلا کہ چائے کے ڈبے نہیں پیسہ آیا تو گھر پہنچا ۔ بجلی نئی آئی تھی ، میٹر ہماری وجہ سے ماموں نے بہت اندر لگایا۔ہم نے جانا تھا اور میٹر لگانا نہیں تھا۔پل پل میں آنکھ بدلتی دیکھی۔پیرفاروق کے والدکو چکی والاتذلیل سے کہتے۔ پھراس کی چکی سے جٹہ بجلی پہلے آئی۔ عزت وذلت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بے شرموںکا جھوٹ بھی تذلیل کا ہے شکر ہے کہ ریاض سے میں نے پوچھا۔
ماما کی پارٹنری کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ گنا کاٹنا مسئلہ نہ تھا مگر انکے کھیت کو ہاتھ لگانا بڑا جرم تھا۔ لڑائی پر معانی مانگنے آتے دیکھ کر نثار نے علاء الدین سے خود آگے بڑھ کر معافی مانگی کہ وہ عمر میں بڑے تھے۔ علاء الدین، عطاء اللہ، عالمگیرشاہ اور ڈاکٹر ظفر علی سبھی اچھے ہیں ۔البتہ ہنڈلروں نے کام خراب کیا تھا۔ اگر میں نہ ہوتاتو پیر غفار کو مجبور کیا جاتا کہ الیکشن ہاراتو گھر بار بیچو اور خود چھپتے اور دیگر کو استعمال کرتے ۔اگر یہ دلے نہ ہوتے تو رشتہ دار ،پڑوسی کانیگرم ، گومل میں سبھی قابلِ فخر تھے۔ایک مچھلی تالاب کو گندا کرتی ہے تواگر ہاتھی گرجائے تو؟۔ فیک اکاؤنٹ سے جتنی زیادہ بدبو آئے گی ، بزدلی اور کمینگی سامنے آئے گی۔
میں نے پڑوسی عبدالرحیم کا ٹریکٹر لگایا اور پھر خیال آیا اس کی دوسرے پڑوسی سے رشتہ کے معاملہ میں دشمنی تھی تو اس سے کہا کہ میں نے غلطی کی کہ آپ کولگایا۔ وہ ڈرتا تھا مگر میری وجہ سے کام کیا پھر بعد میں اس کو بھائی اور دوست سمیت قتل کردیا۔ یہ ہیں اقدار کہ مجھے بھی احساس تھا اور میرا بھی لحاظ رکھا گیا۔ لیکن مجھ پر فائرنگ کے بعد میرے بچے اور دوست خطرے میں تھے اور دشمن پل رہا تھا۔ جو کمینہ پن کی انتہا تھی اور میں نے منہاج سے کہا تھا کہ مجھے کچھ ہوا تومیرے بچے نقاب پوش نہیں پالنے والے سے بدلہ لیںگے۔ پھر واقعہ کے بعد بھی یہ گھرانہ پالنے میں تھوڑی شرم نہ کھاتا اور دوسری طرف رقم اور مفادات بٹورنے کیلئے چمٹا رہتا۔ ابھی ایک اشارہ پر مفاد کیلئے دوڑتے آئیں گے لیکن مفاد نہ ہو تو آنکھیں پیشانی پر رکھ لیتے ہیں۔ مظفر شاہ کی اولادکا طالبان بننا فطری تھا اسلئے کہ انقلابی پیر کے مرید تھے۔ محمد امین شاہ جہاد کشمیر اور تبلیغی جماعت میں گئے۔ حسین شاہ نیک تھے مگرماموں لوگوں کا تو دینداری اور پشتو سے کوئی تعلق نہیں۔ کہاں3افراد کا قتل کہ رشتہ لیاہے توپھردیتے کیوںنہیں ہو ؟۔ کہاں یہ جلن کہ بیٹی تھوپی ہے تو پھر بہن لیتے کیوں نہیں ہو؟۔ سورہ قلم میں خالد بن ولید کے باپ ولیدبن مغیرہ کو کتنی گالیاں پڑیں؟۔رئیس المنافقین کردار نمایاں تھا۔ سبحان شاہ کی اولاد مجھے اپنے چچازاد بھائیوں سے کم نہیں لگتی ۔ میرے کہنے پرTVنکال دئیے۔ سبحان شاہ کی غیرتمندبیٹی نے اپنے لخت جگر کے خون سے اپنا منہ دھویا اور اگر لوگ یہی کردار اپناتے توپھر فوج اورطالبان سے یہ گلے کا ترانہ نہ گاتے کہ ”ہمارے جوان قتل ہورہے ہیں ۔ہمارے گھر گر رہے ہیں”۔ قرآن نے حکمران کی اصلاح سکھائی کہ میرے پاس ایک دنبی اور اسکے پاس99دنبیاں۔ وہ ایک بھی چھینا چاہتاہے ۔اگر صحیح کردار پر آئیں توپھر امن وامان بھی قائم ہوجائیگا۔ انشاء اللہ
گالی پر نام لکھو!تو5ب بیوی، بہن، بھائی ، بیٹی ، باپ سے اپنے کرتوت کے باعث یاد گار بسم اللہ دیکھو۔ پھر احسان بھی بتادوں گا جس کو تم مانوگے اور انقلاب بھی آئے گا۔انشاء اللہ
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کے ناؤ پر تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
گولڑہ پیر مہر علی شاہ نے ”تصفیہ ما بین شیعہ و سنی” میں لکھا: ”بارہ امام آئندہ آئیں گے”۔ علامہ سیوطی نے لکھا کہ ” حدیث میں جن بارہ امام پر امت اکٹھی ہوگی تو ان میں ایک بھی نہیں آیا”۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنی کتابوں میں سیوطی کی کتاب کا حوالہ دیا ” پھر مہدی آخری امیر نکلے گا،نیک سیرت ہوگا، اسی دور میں عیسیٰ نازل ہونگے۔ دجال خروج کرے گا”۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: قحطانی مہدی کے بعد ہوگا ۔جو اسی جیسا ہوگا۔ ارطاة نے کہا: مجھ تک خبر پہنچی کہ مہدی40سال زندہ رہے گاپھر اپنے بستر پر مر ے گا پھر قحطان سے ایک شخص سوراخدار کانوں والا نکلے گا جو مہدی سے الگ نہیں ہوگا۔20سال رہے گا پھراسلحہ سے قتل ہو گا۔ پھر اہل بیت النبیۖ سے نیک سیرت مہدی نکلے گا۔مدینہ قیصر پر جہاد کرے گا اور امت محمدۖ کا آخری امیر ہوگا۔ اسی دور میں دجال نکلے گا اور عیسیٰ کا نزول ہوگا۔یہ سب آثار نعیم بن حماد کی کتاب الفتن سے نقل کئے جو بخاری کے شیوخ میں ایک ہے۔ ( الحاویٰ: ج2علامہ سیوطی)
ڈاکٹر طاہرالقادری کو نوازشریف نے غار حرا کاندھے پر چڑھایاتھا۔اگر اعلان کریں کہ روایت ادھوری نقل کی ہے یہ فرض ہے۔ شیعہ نے لکھا: ”یہ بارہ امام حکومت کرینگے”۔ اور لکھا کہ” حدیث میں درمیانہ زمانے کے مہدی سے مہدی عباسی مراد ہوسکتا ہے” ۔( الصراط السوی فی احوال المہدی)
نبیۖ نے فرمایا”وہ امت کیسے ہلاک ہوگی جس کا اول مَیں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہوں گے”۔ قیام قائم سے پہلے ایک قائم حسن کی اولاد سے ہوگا۔ حسنی سید کا ذکرروایات میںبکثرت ملتا ہے جس سے گیلانی سید مراد ہوسکتاہے۔(ظہور مہدی:علامہ طالب جوہری) رسول اللہ ۖ نے فرمایاکہ” دو عتیق کے ذریعے جنگیں شروع ہونگی، ایک عتیق العرب ، ایک عتیق الروم”۔ ( کتاب الفتن: نعیم بن حماد ) مولانا یوسف لدھیانوی نے: علیکم بالعلم وعلیکم بالعتیق۔(عصر حاضر حدیث نبویۖ)
ابن عربی نے امام مہدی کے نام میں دو حرف کے راز کا ذکر کیا ہے کہ ع سے عین الیقین ہے اور ق سے قیومیت ۔ اصل چیز مہدی اوراسکا چہرہ نہیں۔ قرآن و سنت کو زندہ ، اسلام کی نشاة ثانیہ مقصد ہو۔اگر سود کو جواز بخشا اور حلالہ سے عزتوں کو نہیں بچایاتو تم پر تف ہے۔ مہدی کو چھوڑدو۔
امام ابوحنیفہ کی زندگی علم الکلام کی گمراہی میں گزری اور توبہ کی تو قید کرکے زہر کھلایا گیا۔ انکے نام پر غلط اور حماقت پر مبنی مسائل گھڑے گئے۔ شیعہ کے بارہ امام260ہجری تک رہے ۔ قرآن پر اتفاق ہوا تو نہ سنی سنی رہے گا اورنہ شیعہ شیعہ بلکہ سبھی مسلم اور سیاحت کیلئے پاڑہ چنار اور کابل جائیں گے۔خطے کو تباہی سے بچانا بڑا فرض ہے۔ انشاء اللہ العزیز اگر ابوبکر کے طرز پر خلافت نے فیصلہ کیا کہ مفتی اعظم مفتی شفیع نبیۖ کا جا نشین تھا ۔ دارالعلوم کراچی بیٹوں کی وراثت نہیں تو کہیں گے کہ حضرت فاطمہ پر ابوبکر نے ظلم کیا اور ہم شیعہ ہیں۔ اسلام نافذ ہو تو مساجد و مدارس پر وراثتی اجارہ داری نہیں ہوگی۔ پھر شیعہ سنی اور سنی شیعہ نہ بنیں؟۔ مذہب کی کمائی گندہ دھندہ تو علاج ڈنڈا ہے۔ ڈنڈے والی سرکار کی پیشگوئی ہے جو سیدھا کرے گی۔ انشاء اللہ العزیز
جاویداحمد غامدی اپنے داماد کو اپنا اہل بیت قرار دینے کی یہ توجیہ پیش کرے گا کہ موجودہ دور میں بیٹا یا داماد کو جانشین بنانا نظم ہے۔ اسلئے میراداماد میرا اہل بیت ہے۔ غامدی کسی قبیلہ کی بنیاد پر نہیں محض شوق کی نسبت ہے۔ داماد کی جانشینی بھی محض شوق کا مسئلہ بن سکتا ہے جو بعیداز قیاس بھی نہیں۔ غامدی نے کہا کہ” حضرت علی داماد اہل بیت نہیں تھے”۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے خلافت کو ٹھکرادیا تو مروان کیسے بن گیا؟۔ غامدی کہے گا کہ ایک بنوامیہ تھے اسلئے نظم وراثت ٹھیک تھی لیکن کیا حضرت علی نبیۖ ایک بنوہاشم نہ تھے؟۔ غلط علمی دلائل سے تعصبات کو ہوا دینے اور اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے کی گھناؤنی حرکت سے روشنی نہیں مل سکتی ہے۔ تعصبات کے اندھے پن میں مزید اضافہ ہوگا۔
اگر جاوید غامدی اور مفتی تقی عثمانی کے مفادات پر زد آئی تو خدشہ ہے کہ شیعیت کو قبول کرکے ماتم نہ شروع کردیں کہ
کرو کوبہ کو یا علی یا علی کہ ذکر اول وثانی گیا مفتی شفیع گیا اور حمید فراہی آنجہانی گیا
فوج کے خلاف ملک میں دباؤ بڑھ جاتا ہے تو ان کا بھی لہجہ بدل جاتا ہے اور پھر حالات کے مطابق بدل جاتے ہیں اوراس رویہ سے مذہبی اور باشعور عوام کو نقصان پہنچتاہے۔ صحابہ کرام بڑے لوگ تھے۔شکرہے کہ اس دور میں ہم نہیں تھے ورنہ چڑھتے سورج کے پجاری اور کم حوصلہ لوگ ابوجہل وابولہب اور رئیس المنافقین کی صفوں میں بھی ہوسکتے تھے۔ صحابہ کرام بہت مخلص اور ہمت والے لوگ تھے۔ صحابہ اورمظلوم اہل بیت سے محبت رکھنے والوں کی خدمات کو سلامِ عقیدت ومحبت لیکن پیٹ کی خاطر تعصبات پر لعنت ہے۔ ابوطالب کے بارے میں کوئی ایک شکایت نہیں لیکن وہ کافر بن کر مرے یا بنائے گئے؟۔ بخاری میں اس کی سزا بھی منافقوں والی ہے اور حدیث سفارش والی ہے جس کا قرآن سے جوڑ اسلئے نہیں کہ ابوطالب منافق نہیں تھے اور جب ان کے حق میں سفارش قبول کی گئی تو مشرک کیسے تھے؟ اور غلط فہمیاں ہیں تو سنی شیعہ متفق ہوجائیں گے ۔ اس طرح صحابہ کے بارے میں شیعہ کی غلط فہمی ضرور دور ہوںگی۔ انشاء اللہ
نبیۖ نے عمرہ کا حرام باندھا لیکن صلح حدیبیہ پر معاہدہ کرکے واپس آگئے۔اللہ نے فرمایا یہ خواب سچ ثابت ہوگا۔ یہ نبی کی توہین نہیں۔ نبیۖ نے فاطمہ سے فرمایاکہ فدک تمہاراہے۔ حضرت فاطمہ نے پیغام حضرت ابوبکر کو پہنچایا۔ ابوبکر نے بصداحترام باغ فدک کو جوں کے توں رکھا اسلئے کہ نبیۖ کی ازواج کا نان نقفہ زندگی بھر جاری رہنا تھا۔58ہجری کو اماں عائشہ کی وفات ہوئی۔ دوسال بعد یزید کا اقتدار آیا اور عمر بن عبدالعزیز نے باغ فدک کو اہل بیت کے سپرد کردیا۔ صلح حدیبیہ بھی آزمائش، غزوہ بدر کے قیدیوں کا فدیہ بھی آزمائش،غزوہ اُحد کے دشمنوں کو معاف کرنے کا حکم بھی آزمائش تھی لیکن وہ سب کچھ خیر خیریت سے گزر گیا اور بعد والوں نے صد افسوس کہانیوں سے انصاف نہیں کیا ۔
قرآن میں تہجد کی نماز کیلئے ان ناشئة اللیل ھی اشد وطاً واقوم قیلًا” بے شک رات کا اٹھنا نفس کوکچلنے کیلئے سخت اور بات کیلئے زیادہ راست ہے”۔(سورہ مزمل:6) مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ” امام ابوحنیفہ کے بارے میں کسی عورت نے کہا کہ یہ صبح کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھتا ہے تو40سال فجر کی نماز عشاء کی وضو سے پڑھی۔ اگر اٹھنا مشکل ہو تو عشاء میں نیت کرلو، تہجد کا ثواب مل جائے گا”۔
مفتی عثمانی مصنوعی دانتوں کی طرح مصنوعی شرع، تقویٰ اور خشیت نماز سکھاتاہے۔ حاجی عثمان کی تقریروں کو سنو!۔ تہجد کا مقصد نفس کو کچلنا ہے۔ فقہاء نے حلالہ کی لعنت کو نیت کی وجہ سے کارثواب قرار دیا ۔یہود نے ہفتہ کے شکار کا حیلہ بنایا۔ مشرکین کا خواہش پر مہینہ بدلنا اور جہاں چلنے سے کفار کو غصہ آئے مواطت ہے۔ (سورہ توبہ37اور130)
فقہاء وطی کا یہ معنی سمجھتے ہیں کہ زنا، نکاح ،حلالہ کا جماع۔ ساس کی شرمگاہ کو باہر سے دیکھنے پر شہوت آگئی تو عذر ہے اور اگراندر نظر پڑگئی تو بیوی بیٹی کی طرح حرام ہو گی اور نیٹ پر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا حرمت مصاہرت پرحنفی مسلک دیکھو۔ نبیۖنے ان غلط مسائل کا بوجھ اور طوق ہٹایا تھا۔
وطأ کا معنی موافقت :
نبی ۖ نے فرمایا کہ یواطیء اسمہ اسمی ”اس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا”۔ ایک عربی چینل پر لاہور کے قاسم بن عبدالکریم کو نام کی موافقت پر مہدی قرار دیا گیا ۔ مواطاة کا معنی نعم البدل اور جگہ لینے کے بھی ہیں ۔عربی میں ہمنام کیلئے یہ جملہ استعمال نہیں ہوتا۔ ولید نے کہا کہ” اسکا سازش ہونا بھی ممکن ہے”۔ سازش کی ہو تو مطلب نبیۖ کا نام ملیامیٹ کرنا ہوگا؟۔
عالمی خلافت قائم ہوگی تو زمین وآسمان والے خوش ہوں گے۔ نبی اکرم ۖ، اہل بیت، صحابہ کرام، انبیاء کرام اور نفع بخش خدمات انجام دینے والے سائنسدانوں کا احترام ہوگا اور ترقی و عروج کا دور ہوگا۔ ماحولیاتی آلودگیوںکا خاتمہ ، قدرتی ماحول، نئے علوم اور جنت نظیر دنیا ہو گی ۔ کرپشن پر تسلسل کیساتھ بڑے ہاتھ مارکر حرام خوروں و مجرموں کو انڈیسٹریل زون کے جہنم ”سعیر” میں کام کرنا ہوگا۔ اور اچھوں کے پاس باغات اوروسائل کی نعمت ہوگی۔ قرآن کی طرف رجوع تمام مسائل کا زبردست حل ہے۔
فرمایا:”اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی تمنا ڈال دی تو اللہ مٹاتا ہے جس کو شیطان نے ڈالا ہوتا ہے پھر اپنی آیات کو مستحکم کرتا ہے۔اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے”۔ (سورہ حج آیت52) اس آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے : جب کوئی رسول اور نبی اللہ کی طرف سے طوق و سلاسل سے آزادی دلاتا ہے توکچھ عرصہ بعد نالائق اور نا خلف ان کی تمنا میں اورخوابوں میں شیطانی تمنا ڈال دیتے ہیں ۔ اسلام نے حلالہ کی لعنت کا طوق ختم کیا لیکن نالائق یہ طوق پھر لائے ۔ اسلئے اللہ ان شیطانی تمناؤں کو مٹاتا ہے اور اپنی آیات کو استحکام بخش دیتاہے۔
حلالہ شجرہ ملعونہ اور شیطان کی ڈالی ہوئی تمنا : ” تاکہ جو شیطان کا ڈالا ہوا ہے وہ آزمائش بن جائے ان لوگوں کیلئے جنکے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں۔ اور بیشک ظالم بڑی دور کی بدبختی میں پڑے ہیں”۔(سورةالحج:53) دل کے مریض وہ لوگ ہیں جن کو حلالہ کی لعنت نے لت لگائی ہے تو ان کو کوڑوں کے زور پر سیدھا کرنا ممکن ہے۔ سخت دل وہ لوگ ہیں جنکے مذہبی طبقات سے ایسے مفادات وابستہ ہیں کہ اللہ کے دین اور لوگوں کی عزت وناموس کو بچانے کیلئے وہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے ہیں بدبخت معذور ہیں۔ حلالہ کی لعنت کے مخالفین علماء حق کیلئے خوشخبری: ” اور تاکہ جان لیںجن لوگوں کو علم دیا گیا ہے کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے۔ پس اس پر ایمان لائیں ، پس اس کیلئے انکے دل جھک جائیں اور بیشک اللہ ایمان والوں کی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے ”۔ (سورہ الحج آیت:54)
آج دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ کی اچھی خاصی تعداد نے مسلکوں کی زنجیریں توڑ کر اور اپنا بوجھ اتار کر قرآن کی رہبری قبول کی ہے چنانچہ شیعہ پر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق اور گواہوں کے باوجود بھی ایسا وقت آتا ہے کہ ان کا فقہ اجازت نہیں دیتا لیکن قرآن کے مطابق رجوع کرلیتے ہیں۔ دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث کی بڑی تعداد بھی شیطانی تمناؤں کو خاک میں ملاکر حق اور قرآن کی تائید کررہے ہیں۔ اگر پاکستان میں بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے عمل کیا جائے تو پھر شیطان کی زنجیروں اور طوقوں سے امت کو چھٹکارا مل جائے گا۔
نشاہ ثانیہ کی عظیم خوشخبری:
” اور جنہوں نے انکار کیا وہ اس سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک وقت (انقلاب اصلاح مہدی ) آئے گا یا پھر ان پر بانجھ پن کا عذاب آئے گا( صاحبزادگان کی مفت خوری کا خاتمہ ہو گا)۔ اس دن ملک صرف اللہ کیلئے ہوگا انکے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پس جو ایمان اور عمل صالح والے ہیں نعمتوں والے باغات میں ہونگے اور جنہوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیات کو تو ان کیلئے ذلت کا عذاب ہے۔اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر وہ قتل کئے گئے یا فوت ہوگئے ہم ان کو ضرور اچھا رزق دیں گے اور بیشک اللہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ ہم ضرور ان کو وہاں داخل کریں گے جہاں پسند کرتے ہیں اور بیشک اللہ جاننے والا بردبار ہے۔ بات یہ ہے کہ جس نے اس قدر بدلہ لیا جس قدر اس کو تکلیف دی گئی تھی پھر اس پر اگر حملہ کیا گیا تو ہم ضروراس کی مدد کریں گے۔ بیشک اللہ معاف کرنے والا مغفرت والا ہے ۔ یہ اسلئے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور بیشک اللہ سننے جاننے والا ہے ۔ یہ اسلئے کہ اللہ حق ہے اور اس کے علاوہ جس کو پکارا جائے وہ باطل ہے۔ اور بیشک اللہ بلند بڑا ہے۔کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے تو زمین اس سے سرسبز و شاداب بن جاتی ہے۔ بیشک اللہ بہت باریک بین خبر رکھنے والا ہے”۔(سورہ الحج آیت55تا63) ان آیات میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے انقلاب کی خبر ہے۔ جب طالبان کو غلط فہمیوں کا شکار کرکے ہم پر حملہ کروایا گیا تو محرکات بیان کرنے پر مجھے کرایہ کے قاتلوں سے قتل کرنے کا پلان بنایا گیا۔ طالبان نے معافی مانگ لی تھی لیکن جن رشتہ داروں نے ان کو غلط فہمی میں ڈال کر استعمال کیا تھا تو اس کے حقائق ضرور سامنے آئیں گے۔ انشاء اللہ
نعمتیں ہی نعمتیں ملک کبیر
گیس آخرت کی جنت میں نہیں ہوگی ۔دنیا میں بادی کیلئے ادرک زنجبیل کی ضرورت ہوگی۔ خلافت قائم ہوگی تو ملک کبیر ہوگا جو قرآن میں واضح ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” پس اس دن کی مصیبت سے اللہ ان کو بچائے گا۔ایسی حالت میں کہ ان پر تازگی اور خوشی ہوگی اور ان کو صبر کے بدلے باغ اور ریشم دیئے جائیں گے۔ وہ تختوں پر بیٹھے ہوں گے ۔وہ سورج ( گرمی) اور سردی کو نہیں دیکھیں گے۔ ان پر اسکے سائے جھکے ہوں گے اور پھل کے خوشے لٹکے ہوں گے اور ان پر چاندی کے برتن اور خاص پیالے گردش کریں گے۔ اور وہ ایسے پیالے پئیں گے جن کا مزاج ادرک کا ہوگا۔ ایسا چشمہ جس کا نام سلسبیل رکھا جائے گا۔ اور ان پر24گھنٹے لڑکے گھومتے ہوں گے جب آپ ان کو دیکھو تو گمان کرو کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں اور جب آپ دیکھو اور پھر دیکھو تو نعمتیں ہی نعمتیں اور بڑا ملک ہوگا۔ ان پر سبز موٹے اور باریک ریشم کے لباس ہونگے اور چاندی کی گھڑیاں پہنائی جائیں گی اور انہیں اللہ پاک پانی پلائیگا۔ بیشک یہ تمہارے لئے بدلہ ہے اور تمہاری کوشش مقبول ہوئی۔ (الدھر11سے22) طلبہ چند گھنٹے اخراجات کیلئے کام کرتے ہیں ۔24گھنٹے نوکری جاری رہتی ہے۔ جیسے یورپ میں پاکستانی ، افغانی ،ایرانی اور ہندوستانی لڑکے ویٹر کا کام ہوٹلوں پر کرتے ہیں۔ یہی مناظرہوں گے۔
الحدید کی” بھرپور دعوت”
فرمایا: ”کیا ان لوگوں پر جو ایمان لائے ابھی وقت نہیں آیا کہ انکے دل اللہ کے ذکر کیلئے خشیت اختیار کرلیں اور جو اللہ نے حق میں سے نازل کیا ؟ اور ان لوگوں کی طرح نہ بن جائیں جن کو کتاب دی گئی اس سے قبل۔پھر ان پر لمبی عمر گزر گئی اور انکے دل سخت ہوگئے اور ان میں اکثر فاسق ہیں ۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندہ کرتا ہے اس کی موت کے بعد بیشک ہم نے تمہارے لئے آیات کو واضح کیا ہوسکتا ہے کہ تم سمجھ سکو”۔(سورة الحدید:16) سورہ حدید میں امت کیلئے رحمت کے دو حصوں کا ذکر ہے۔ سوسال ہوئے کہ خلافت ختم ہوگئی اور اب دوبارہ قائم ہوگی تو یہ دوسرا حصہ ہے۔ اللہ نے اہل کتاب کے عروج کے بعد امت کو عروج دینے کی سورہ حدید کے آخر میں وضاحت کی ہے۔ شروع میں فتح مکہ سے پہلے و بعد والے مسلمانوں کیلئے درجات میں تفاوت اور سب کو خوشخبری ہے۔ پھر مؤمنوں اور منافقین کے درمیان آخر میں فرق کا ذکر ہے جہاں دونوں میں دیوار حائل ہوگی اور اس کا گیٹ بھی ہوگا۔ اندر سے رحمت باہر سے عذاب، جیساکہ ملیر کینٹ اور باہر کے ماحول میں واضح فرق ہے۔جنوبی افریقہ میں کالے اور گوروں کی آبادیاں الگ الگ ہیں۔ مجرموںکو کرتوت پرہی سزاہوگی۔
حاجی عثمان نے فرمایا: الھم صل علی سیدنا و شفیعنا و حبیبنا و مولانا محمد و علیٰ آلہ و اصحابہ… اقیموا الصلاة و اٰتوالزکوٰة صدق اللہ العظیم دوستو بزرگو! اللہ کے امر کی عظمت اور بڑائی اگر دل میں نہ سمائی ہوئی ہو تو اس کا عمل اکثریت میں وجود میں نہیں آتا اور اسکے فوائد اور حقیقت بھی نہیں کھلتی۔ مثال نہ دی جائے مگر جیسے تخلیق ہے کہ سر اٹھائیں تو آسمان ہے لیکن اس کی وسعت اللہ کی تخلیق کا کمال دل میں سمویا ہوا نہیں ہے اسلئے انسان اس کو سرسری سمجھتا ہے شاید کوئی اہمیت دے کہ بڑی تخلیق ہے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کا امر نماز جو عام زبان پر ہے نماز اور اس کی حیثیت اور عظمت کا امت میں یہ گرا ہوا مقام ہے کہ علماء کے سروے میں96فیصد مسلمان نماز نہیں پڑھتے اور یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس امر کی کوئی حقیقت، راز اور انقلاب نہیں۔ برعکس اسکے جس چیز کی اہمیت بیٹھی ہوئی ہے جیسے مال ہے تو تقریبا سو فیصد تو نہ کہا جائے اسلئے کہ اہل اللہ بھی ہیں لیکن اکثریت کے دلوں میں اس کی اہمیت ہے اور اس سے کام بنتے نظر آتے ہیں اسلئے ایک روپے کا نوٹ پھٹنا پسند نہیں کرتا یہ واضح دلیل ہے کہ امت اصلاح سے بہت دور ہے۔ حالانکہ اگر غور کریں اور اس کو روزمرہ کے اعتبار سے حیثیت نہ دیں ۔ اللہ کا جو امر اس کی ذات سے نکلے وہ اتنا اونچا ہے جتناکہ اللہ کی شان ۔ مثال نہ دی جائے سورج کی شعائیں ہیں انسان کو اس کا تجربہ ہے کہ کتنی تیز ہوتی ہیں۔ اگر یہ قریب آ جائے تو پورے عالم کو جلا کر خاک کر دے اسکے درمیان میں بڑے بڑے اللہ نے پانی کے ذخیرے بنائے۔ چھن کر یہ شعاعیں آتی ہیں یہ سائنسدانوں کی نہیں اہل اللہ کی تحقیق ہے ۔ وہ قریب آجائے تو جلا کے رکھ دے۔ حالانکہ یہ امر اللہ کا نہیں بلکہ حکم کی تخلیق اور مخلوق ہے۔ اس کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ جس میں اللہ کی تعریف ہے یہ خود بنایا ہوا نہیں اللہ نے بنایا لیکن ہر شخص تسلیم کرتا ہے اسکے نکلنے کے ساتھ زندگی کے حالات میں بڑا فرق آجاتا ہے گرمی ہونے لگتی ہے گیلے کپڑے سوکھتے ہیں کھیتیوں کو اللہ چاہے تو نفع پہنچاتا ہے ۔ اس کی تخلیق کے فوائد جو اللہ نے مرتب کی ہے اس کا ہر ایک قائل ہے۔ لیکن اللہ کا امر کتنا انقلاب رکھتا ہے ۔اس کا ثبوت مسلم عمل سے اپنا کرنہیں دیتا۔ زبان سے کہتا ہے کہ ٹھیک ہے لیکن عمل سے ثابت کرتا ہے کہ کتنا بے حیثیت ہے؟۔ خدا کی قسم انسان کی زندگی میں انقلاب لانے کیلئے تمام برائیوں سے بچنے ،ناشائستہ فحش باتوں سے بچنے کیلئے تمام خیریں سمیٹنے کیلئے حضور کی شفاعت کو پانے، انوارات کو لینے ،قلب کو اجاگر کرنے، روح کو ترقی دینے ، نفس کی اصلاح کیلئے یعنی آپ جتنے اخروی اور دنیاوی نفع گنوا سکیں اس سے بالاتر اللہ نے نماز میں رکھا ہے۔ مسلم اول تو نماز نہیں پڑھتا اور جب پڑھتا ہے تو اس کو مرتب صحیح نہیں کرتا اسلئے اسکے سامنے اللہ کے وعدے نہیں آتے تو یہ بھی اس کی اہمیت کو توڑ دیتا ہے۔ اس کی اہمیت کو کسی درجے یہ بھی کھو لیتا ہے اور یہ اس نماز پہ آ جاتا ہے جو رسمی ہوتی ہے۔ امت کی اکثریت میں یہ بات گھر کر گئی اسلئے آپ کسی بزرگ کے پاس جائیے اور آپ کو کہے کہ نوافل پڑھو تو آپ کو یوں ہوگا کہ میاں کوئی خصوصی ذکر دو کوئی خاص بات بتائیے۔ جی ہاں حالانکہ اللہ رب العزت کی عادت شریفہ ہے اور عطا کا مقام ہے کہ خاص چیز اللہ چھپاتے نہیں بلکہ جو نکمی چیز ہے اس کو چھپاتے ہیں دنیا میں نکمی چیز اگر ایک اعتبار سے کیمیا ہے اور اللہ کے ہاں کیمیا کی کوئی قیمت نہیں۔ سونا اللہ کے نزدیک گھٹیا ہے اسلئے اس کو زمین میں چھپا دیا۔ معدنیات اللہ کے نزدیک سب گھٹیا ہے زمین میں چھپا دیا اور اگر یہ عمر بھر نہ نکالے تو اسکے بغیر انسان چل سکتا ہے سونے کے بغیر زندگی دوبھر نہ ہوگی چلے گی یہ پکی بات لیکن مادے کی لائن میں جو اہم چیزیں ہیں اللہ نے عام کر رکھاہے جیسے ہوا کو اس انداز سے بنایا کہ کسی کے ہاتھ نہ پڑے کہ کوئی ذخیرہ کر لے۔ اسلئے کہ مادے کی لائن میں اس کی عطا بڑی اہم ہے اور اس کو اللہ نے قطعاً فری رکھ دیا۔ پانی ، مٹی، آگ کو درجہ بدرجہ اللہ نے انسان کے مفاد کیلئے فری رکھ دیا۔ اللہ رب العزت جو سب سے بڑھ کر نفع بخش ہے وہ چیز عام کرتاہے موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے درخواست کی تھی اے اللہ تو مجھے ایسا ورد دے جو تیرے پاس خاص ہو اللہ رب العزت نے فرمایا اے میرے کلیم لا الہ الا اللہ پڑھو…….
مجھ سے رہا نہ گیا یہی میری مصیبت ہے ۔ حق تکلیفوں کو دعوت دیتا ہے جس نے حق کی بات کی وہ پس گیا تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں سب سے زیادہ انبیاء پس جاتے اسلئے حق سناتے ہیں یہ کسی کی رعایت نہیں کرتے۔… اماں جان نے کہا کہ صحابہ کرام کی گھوڑے پہ نماز کیسی ہو گئی؟۔ میں نے کہا گھوڑے کے سم زمین پہ لگے ۔ ہوائی جہاز کے پہئے نہیں لگتے ، زمین پہ لگنا شرط ہے اگر اہتمام صلاة کے اعتبار سے نماز پڑھ لو لیکن دوہرانا ضروری ہے۔ مولانا محمد شفیع نے فرمایا کہ ہوائی جہاز میں نماز پڑھ لو پھر دہرا لو تو ہم بیٹھے تھے تو مولانا بنوری نے کہا کہ میاں دوہرانی ہے توخواہ مخواہ ڈبل تکلیف کیوں اٹھائیں؟۔ بڑوں کی تکرار ہوتی ہے۔ ماشااللہ
تبصرہ : سیدعتیق گیلانی منہاج الشریعة سراج الطریقة، معراج الامة اور مجدد دین وملت حضرت حاجی محمد عثمان قدس سرہ اللہ والے میرے پیر ومرشد اور روحانی مربی تھے۔ اہتمام نماز پر کانٹ چھانٹ کر ان کی تقریر سے کچھ مواد پیش کردیا۔ قارئین یوٹیوب پر سن سکتے ہیں جس سے زندگیوں میں ایک انقلاب آئے گا۔ حاجی عثمان کے مرید قاری جنیدالرحمن بڑے عالم خانقاہ میں فقہی مسائل کا حلقہ لگاتے تھے۔ اگر نماز کیلئے زمین کیساتھ لگنا شرط تھا اور علامہ بنوری بے خبرتھے؟۔ باجماعت نماز کیلئے ایک مکان کا ہونا شرط ہے۔ دو صفوں سے زیادہ فاصلہ نہیں ہو ۔خانقاہ چشتیہ مسجدالٰہیہ میں خواتین کا فاصلہ زیادہ تھا تو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے فتویٰ لایاپھر فاصلہ ختم کیا مگر خانہ کعبہ جانا ہواتو وہاں کافی فاصلہ ہوتا تھا۔ گومل شہر مولانا تاج محمد کو جمعہ کے دن لکھ دیا تواس نے اپنے مقتدی بلالئے تھے۔ اگر جہاز میں نماز قضا ہو تو کیا نماز قضا کرنے کی قیمت پر جہاز کا سفر جائز ہوگا؟۔ پھر اس کی وعید کا سامنا بھی کرنا پڑے گا؟۔
کیا دلیل کہ زمین پر لگنا شرط ہے؟۔ عرش تک کعبہ ہے!۔ریح خارج کرکے نماز کی تکمیل غلط تھی۔ تصویر، حلالہ اور بیوی کو حرام کہنے وغیرہ پر لاکھوں طوق وسلاسل نے فقہاء نے بنائے ہیں۔ قل من حرم زینت اللہ اخرج لعبادہ والطیبٰت من الرزق (سورہ الاعراف32) جیسا کہ کمپنی موبائل کے بٹن میں ذرا تغیر بھی توازن کو بگاڑ دے۔ چہرے کا حسن اگلے دو دانتوں میں اس وقت ہے کہ جب قدرتی شاہکار ہوں۔ دانتوں کے مصنوعی فاصلہ سے حدیث میں اسلئے منع کہ قدرتی حلیہ بگڑتا تھا۔ مفتی شفیع عورتوں کو بخاری کا حوالہ دیکر منع کرتا تھا مگر مفتی تقی عثمانی نے اپنے دو دانت اڑادئیے ،جو بدصورت تھے مگر بدصورتی بڑھ گئی۔ بڑے بڑوں نے بڑوں پر اعتماد کرکے اسلام کا بیڑہ غرق کردزیا اور بڑ اریورس گیر لگانا پڑے گا۔
سورہ رحمن میں مجرموں کو پیشانی اور پاؤں کے ذریعے پکڑنے کا ذکر ہے اور سورہ االاعرف میں ریاستی رجال ”عراف” کے کردار کا بھی واضح ذکر ہے۔
پاکستان قیام کے25سال بعد ٹوٹا تو فوج، سیاستدان اور لسانی تعصبات کو ذمہ دار سمجھاگیامگر اس سے بڑا واقعہ25سال بعد ریاست مدینہ میں پیش آیا ۔ خلیفہ سوم عثمان40دن محاصرے میں رہے اور گھر سے مسجد تک بھی نہیں جاسکے۔ پھرمسند پرشہید کیا گیا۔ وجوہات تاریخ میں ہیں لیکن اصل بات کی طرف دھیان نہیں گیا۔ حضرت عمر نے مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف تین گواہوں کو کوڑے لگائے اور پھر پیشکش کی کہ اگر کہہ دو کہ جھوٹ بولا تھا تو آئندہ تمہاری گواہی قبول ہوگی۔ واحدگواہ صحابی ابوبکرہ نے پیشکش کو مسترد کیا اور دوسرے دو غیر صحابی گواہوں نے یہ پیشکش قبول کی۔ امام ابوحنیفہ نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآن کے خلاف قرار دیکر مستردکیا اور باقی تینوں مسالک مالکی، شافعی اور حنبلی نے مسلک بنالیا۔ امام ابوحنیفہ بلاوجہ جیل میں شہید نہ کئے گئے لیکن کہانیوں میں حقیقت گم ہوگئی۔
حضرت عمر نے معاملہ کی سنگینی کو بھانپ لیا اورعدالتی نظام کو الگ کردیا۔ ایک پروفیشنل اور ذہین جج قاضی شریح کو عدالتی امور سپرد کردیں۔ حضرت عمر کے دور میں قاضی شریح سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی۔ حضرت عثمان حیادار انسان تھے مگر فاروق اعظم کی طرح فتنوں کیلئے بند دروازہ نہیں تھے۔ قاضی شریح نے بڑے باریک طریقے سے ایسی ناانصافی شروع کردی کہ قانون کے اندر ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنانا شروع کردیا۔ جس پر کوئی احتجاج بھی نہیں کرسکتا تھا۔ جس کا یہ بھانک نتیجہ نکل آیا کہ حضرت عثمان خلیفہ وقت کے خلاف بغاوت ہوگئی۔
حضرت عثمان کی شہادت سے جو فضا بنی تو آج تک امت کے معاملات اپنی جگہ پر نہ آسکے۔ یزید کو حسین کے خلاف فتویٰ درکار تھا تو قاضی شریح نے پہلے منع کیا پھر رشوت سے فتویٰ دیا۔ یزید کی فوج نے بھی طمع ولالچ رکھی ہوگی لیکن اصل کردار قاضی شریح کا تھا۔ اگر کسی کو اس سے تکلیف ہے تو چاہیے کہ وہ جمعہ کے خطبہ میں ارحم امتی بامتی ابوبکرو اشدھم فی امر اللہ عمر واصدقھم حیائً عثمان واقضاھم علی میں اقضاھم علی کی جگہ اقضاھم واکبرھم قاضی شریح ”امت میں سب سے زیادہ اور سب سے بڑا قاضی شریح تھا”۔ تاکہ اہل بیت سے نفرت رکھنے والوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے۔چیف جسٹس امام ابویوسف سے جسٹس مفتی تقی عثمانی تک سب نے اسلام کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ قاضی شریح چیف جسٹس نے عدالتی نظام کا ستیاناس کردیا تھا ۔قرآن کو نہ صرف ذبح کردیا بلکہ قصائی کی طرح اس کو ایسا ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ امت نے چھوڑ دیا۔ سورہ تحریم کی واضح آیت کو چھوڑ کر بیوی کو حرام کہہ دیا تو اس پر20اجتہادی مسالک بن گئے۔ اگر قرآن کو دودھ دینے والی بھینس فرض کرلیا جائے تو کیا قصائی کے ٹکڑے کرنے کے بعد بھی اس سے دودھ نکالا جاسکے گا؟۔
ہمارے قابل استاذلورالائی کے مفتی عبدالمنان ناصرمدظلہ العالی نے بتایا تھا کہ عورتیں بغیر محرم حج کیلئے جاتی تھیں تو ان کا مرغ سے نکاح کردیا جاتا تھالیکن فتاویٰ عالمگیریہ میں بادشاہ پرچوری، قتل، ڈکیتی اور زنا کی حدیں جاری نہیں ہوتی ہیں اور مفتی تقی عثمانی نے جو سود کی حرمت ختم کردی ہے ۔دارالعلوم کراچی شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین پر70سے زیادہ گناہوں کی حدیث سناتا تھا جس میں کم ازکم اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق نے سود پر سگی ماں سے خانہ کعبہ میں36مرتبہ زنا کا بتایا۔ قرآن وحدیث میں واشگاف الفاظ میں واضح ہے کہ ” طلاق عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ کا فعل ہے”۔ ایسا نہیںہوسکتا کہ طلاق مکمل ہو اور عدت باقی رہے اور نہ ایسا ہوسکتا ہے کہ عدت مکمل ہو اور دوطلاقیں جیب میں رہ جائیں۔ جتنی احادیث ہیں وہ سب صحیح ہیں اور ان میں تطبیق موجود ہے لیکن مولوی حلالہ کی لعنت کو ختم اسلئے نہیں کرتا ہے کہ اس میں غیرت، عزت، فطرت، انسانیت، اخلاق اور کردار سب ختم ہوچکا ہے۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی علی صاحبہا الصلوةوالسلام کے آئینہ میں” علماء ومفتیان اپنا چہرہ دیکھ
چکے تھے اسلئے مقبول کتاب مارکیٹ سے غائب کردی گئی۔ قرآن وحدیث میں داؤد اور سلیمان کے واقعات ثبوت ہیں کہ جج کا کام ایسا اجتہاد ہے کہ انصاف کی روح معاشرے میں زندہ ہو ۔ فصل اور جانور کی قیمت برابر تھی لیکن داؤد کے فیصلے کو سلیمان نے اس انصاف پر نہیں چھوڑا اسلئے کہ ایک قوم کا معاش ختم ہوجاتا تو یہ انصاف کے خلاف تھا اور وہ چوراور ڈکیٹ بن جاتی۔ ایک قوم کو محنت پر لگادیا کہ فصل اپنی جگہ تک پہنچاؤ اور دوسری کو جانور سپرد کردئیے کہ اسکے دودھ، اون، کھاد سے جب تک فائدہ اٹھاؤ۔ دونوں کو پورا انصاف ملا ،مجرم کو سزا ہوئی اور مظلوم کو ریلیف ملا۔ پھر اپنی اپنی جگہ پر بھی آگئے۔ جو عورت بچے کی ماں تھی تو اس کو انصاف بھی اس طرح دیا کہ دونوں کی حقیقت بھی سامنے آگئی۔ قاضی شریح نے عدل کی بنیاد غلط رکھی۔ اسلئے مسلم اقتدار دنیا کیلئے قابل تقلید نہیں ہے۔ اگر اسلامی نظام کا ٹھیک خاکہ ہوتا تو اسلامی ممالک میں وہی نافذ ہوتا لیکن مولوی محکمات کی آیات کونہیں سمجھتا تو اجتہادی مسائل کا کیا بنے گا؟۔پہلے علماء میں صلاحیت نہیں تھی مگر اب نیت بھی ٹھیک نہیں ہے۔
قاضی شریح فقہ کا ماسٹر مائنڈ تھا۔کونسا فقہ ؟ جو یہود کی میراث تھا۔ سورہ تحریم میں بیوی کو حرام کہنے کا مسئلہ حل ہے لیکن بیوی کو حرام کہنے کے لفظ پر حضرت عمر سے ایک طلاق رجعی کا قول منسوب ہوا، حضرت علی سے تین طلاق کا۔ حضرت عثمان سے ظہار کا۔ بخاری کی روایات میں تضادات ہیں اور چار ائمہ کا لفظ حرام پر اختلاف ہے ۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے”زاد المعاد” میں اس پر20اجتہادی مسالک نقل کئے۔ قرآن کو سازشی فقہ نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ جوقرآن میں واضح ہے اور نبیۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا اورعنقریب یہ پھر اجنبی بن جائے گا خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ اب اپنا مفاد اور ماحول چھوڑ کر اسلام کے صحیح فہم کا اظہار کرنا چاہیے۔ مدارس فراڈ اور گمراہی کے قلعے بن چکے ۔ جان بوجھ کر اب حق کو قبول نہیں کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے میری کبیرپبلک اکیڈی کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اس خاندان کے بزرگوں کی دینی خدمات ہیں اور اس میں عتیق جیسا اہل علم ہے”۔ پاکستان، افغانستان، ایران، عربستان ، ہندوستان میں علم سے انقلاب آئے گا۔ غریب فوجی اور جنگجو عناصر حالات کی بہتری کے بعد قربان نہیں ہوں گے۔ ٭
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمن)
”اور جو اپنے رب سے ڈرا تو اس کیلئے دو جنت باغ ہیں”۔(الرحمن:46) دوبئی میں میرے ساتھی ناصر علی کی رہائش جبل علی گارڈن میں تھی۔ غریبوں کیلئے وہ بھی جنت سے کم نہیں ہے۔ گارڈن اردو میں باغ اور عربی میں جنت۔ خلافت قائم ہوگی تو دنیا بھر میں اہل لوگوں کیلئے درجہ دوم کے دودوباغ بنانے کا سلسلہ ہوگا اور اچھے اور اہل لوگوں کیلئے دنیا جنت نظیر بن جائے گی۔
ذواتآ افان ” اس کی بہت شاخیں ہوں گی”۔( سورہ رحمان:آیت48)
بغیر شاخوں کا باغ نہیں ہوتا۔ اس لفظ کے کئی معانی ہیں۔ مناسب ترجمہ ہو۔ ان میں کمال کا فن ہوگا۔ پیرس میں ”ڈنزی لینڈ” کی فن کاری کا کما ل ہے۔ دوبئی برج خلیفہ نے اونچائی سے دنیا کو نیچے دکھایا ۔ خلافت میں فن کاری کا کمال ہوگا اور معنی یہ بھی ہے کہ یہ فانی دنیا کے باغات ہیں، دائمی نہیں ہونگے۔
”ان دونوں میں دو چشمے جاری ہوں گے”۔ خوبصورتی کا حسین نظارہ ہوگا۔
” ان دونوں میں ہر پھل کی دودو قسمیں ہوں گی”۔ جیسے شوگر اور شوگر فری۔ ”وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے فرشوں پر جن کا غلاف ریشم کا ہوگااور دونوں باغوں کے جھکے ہوئے پھلوں کو توڑیںگے”۔ سورہ واقعہ میں اونچے فرشوں کو واضح کیا۔
فیھن قاصرات الطرف لم یطمثھن انس ولاجان
” ان میں ڈبہ پیک چیزیں ہوں گی جن کو کسی انس وجن نے چھوا نہیں ہوگا”۔پہلے ڈبہ پیک ان ٹچ موبائل،ٹی وی، کرارکری، گھڑی، گاڑیاں برینڈ یڈ چیزوں کا تصور نہیں تھا۔ یہ باغ کی چیزوں کی صفات ہیں۔ قاصرات الطرف (مختصرچھپی)۔ مفسرین نے ایک طرف نوعمر بچیاں لکھا تو دوسری طرف نوخیز دوشیزاؤں کی عمر33سال؟۔
قرآن اللہ نے سکھانا ہے اور ہرانسان کو کھل کر ایک ایک بات سمجھ آئے گی۔ پہلے درجہ کے جنتیوں کیلئے صحیح حدیث میں دو حوراء کا ذکر ہے۔ حور حورا ء کی جمع بھی ہے۔ معزز شہری عورت کو عرب حوراء کہتے ہیں۔ ہندوستان کے علماء نے میم کو معزز سمجھ لیا تھا اسلئے کہ انگریز حکمران طبقہ تھا اور مقامی لوگوں کو انکے مقابلہ میں اچھوت تصور کیا جاتا تھا اسلئے اس کو ”گوری عورت” کا نام دیا ہے۔
ھل جزاء الاحسان الا الاحسان ” نیکی کا بدلہ صرف نیکی ہے”۔
سورہ الرحمن کی آیت60تک اصحاب الیمین کے دوباغ کا ذکر ہے جو فرش پر بیٹھیں گے۔جو بڑی تعداد میں ہونگے اور مزاج بھی فرش پر بیٹھنے کا ہوگا جبکہ دو السابقون کیلئے قالین کا ذکر ہے جو تھوڑے ہیں اور زیادہ عزت ملے گی۔
جو یہاں بیگم سے ڈر کر دوسرا نکاح نہیں کرتے ۔ حقائق کا پتہ چلے تو نہ صرف عورتوں بلکہ مرد وں کی طبیعت کا بوجھ ہلکا ہوگا۔ مولانا طارق جمیل کو چین کی120فٹ کی حوردلادیں جس کی پنڈلی کو نہ پہنچ سکے۔بہت افسوس! دنیا کی عورت کی توہین کرکے اس جنت میں جائے گا ؟جو اسی ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔
” اور ان دو کے علاوہ دوباغ اور ہونگے”۔ یہ درجہ اول السابقون کیلئے ہیں۔
”دونوں گہرے سبز ہونگے”۔ کانیگرم اور گومل کے دھتورے میں سبز رنگ کا فرق ہے۔ ” دونوں میں دو فوارے ”۔ ” دونوں میں پھل، کھجور یں اور انار ”۔ درجہ اول میں فوارے اور انار لیکن درجہ دوم میں چشمے ،بیر اور کیلے کاذکر ہے۔
فیھن خیرات حسان ” ان میں خصوصی خوبصورت چیزیں ہوں گی”۔
جیسے عمران خان کیلئے سعودی عرب نے خصوصی گھڑی تیار کرکے دی تھی جس کو بیچنے پر عدالتوں سے سزا ہوئی۔ ایک وہ چیز ہوتی ہے جو کمپنی مارکیٹ میں بیچنے کیلئے بناتی ہے۔ جس کے ڈبہ پیک ہونے کا ذکر دوسرے دوباغوں میں کیا گیا۔ دوسری ایسی چیز جومارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ سورہ واقعہ میں بھی حفظ مراتب کے لحاظ سے السابقون اور اصحاب الیمین کے باغوں میں فرق ہے ۔
اگر مقربین کیلئے خاص اہتمام ہرچیز منفرد ہو۔ گاڑی، کراکری، موبائل اور الیکٹرانک والیکٹرک کی چیزوں سے عزت افزائی ہوگی جو مارکیٹ میں نہ ہونگی۔
حور مقصورات فی الخیام ” حور خیموں میں ہوں گی”۔ خیموں میں سردی کا پھل ”مالٹا ”موسم گرما میں اورگرمی کا پھل ”آم” سرمامیں مصنوعی ٹمپریچر سے پکتاہے۔ہائی بریڈ پھل یاقوت و مرجان کی طرح جھلکتا ہے۔ مشین سے کٹتا، پیک ہوتا ہے اسلئے ہاتھ نہیں لگتا۔ یہ عورتوں کی توہین ہے کہ ان کو دوسروں کے ہاتھ میں استعمال ہونے والیاں کہا جائے۔ قرآن کی درست تفسیر کی جائے ۔
حور کے معانی
1: ہلاکت۔ 2:کمی:انہ فی حوروبور اسے کوئی اچھا کام نہیں آتا۔ وہ گمراہی میں ہے۔ الباطل فی حور : باطل ہمیشہ نقصان میں ہے۔
نبی ۖ نے پناہ مانگی ”کور کے بعد حورسے” خوشحالی کے بعد بد حالی سے۔ انہ فی اہلہ مسرورًاOانہ ظن ان لن یحور ”بیشک وہ اپنے اہل میں خوش تھااور سمجھا کہ خوشحالی کے بعد بدحال (حور) نہ بنے گا”۔(سورہ الانشقاق) قدرتی کے مقابلے میں ہائی بریڈ پھل اور جانور کی حالت بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ ”قالینوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جو سبز اور یونیک نفیس ہوں گی”۔
سورہ رحمن آیت76تک دو اعلیٰ درجہ کے جنتوں (باغوں) کا ذکر ہے۔
عربة:
جمع عُرُب ، عربیات ۔ عربة عربی میں یوٹیوب پر کلک ۔تمام اقسام کی گاڑیاں ۔
عربًااترابًا
”قد کے برابر گاڑی”۔ عورت کیلئے عربة کا لفظ نہیں تھا۔ تفسیر ی اقوال تأویلات ہیں، عرب نے اپنی نقل مکانی پر گاڑی کا نام عربة رکھا۔ دنیا کے جنت کی طرف دھیان نہیں گیا اسلئے تفسیر نہ سمجھ سکے۔ گاڑی اور دنیا کی جنت نہیں تھی توآیت متشابہات میں تھی۔ عربة گاڑی سے تفسیر زمانہ نے کردی۔ الرحمن علم القرآن۔ رحمن نے قرآن سکھایا۔قرآنی معجزہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کو قرآن کے ترجمہ پر واجب القتل کہاپھر انگریز کی ٹانگوں میں لٹکے۔ فقہاء نے محکم آیات کو اجنبی بنادیا ۔ غامدی بھی فراہی اور اصلاحی کی بکواسات میں لگاہے۔
مؤمن کو قیامت کی خاص چیز دنیا میں کافرکو چھوٹا عذاب
قیامت سے پہلے دنیا میں مؤمن کیلئے
فرمایا:” اللہ کی زینت کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کیلئے نکالی اور رزق میں سے پاک چیزیں۔کہہ دو کہ ایمان والوں کیلئے دنیا میں بھی وہ ہے جو اللہ نے قیامت کے دن کیلئے خاص کیاہے۔ اسی طرح ہم آیات کو تفصیل سے جاننے والی قوم کیلئے بیان کرتے ہیں”۔(اعراف:32) 1:جو زینت اللہ نے اپنے بندوں کیلئے نکالی ہے اس کو حرام قرار دینا۔ 2:ایمان والوں کیلئے دنیا میں بھی وہ ہے جو اللہ نے قیامت کیلئے خاص کیا ہے۔ قرآن کی منظر کشی کو قارئیں بہت شوق اور دلجمعی سے ملاحظہ فرمائیں۔
بڑے عذاب سے دنیا میں چھوٹا عذاب
فرمایا:” اور ہم چھوٹا عذاب بڑے عذاب سے پہلے ان کو چھکائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ رجوع کرلیں۔ اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس کو اس کے رب کی آیات سے سمجھایا جاتا ہے پھر وہ اس اعراض کرتا ہے۔ بیشک ہم مجرموں سے انتقام لیں گے۔(سورہ سجدہ آیات:21اور22) ”اور کہتے ہیں یہ فتح کب ہوگا اگر تم سچے ہو؟۔ کہہ دو کہ فتح کے دن کافروں کو ان کا ایمان فائدہ نہیں دے گا۔اور نہ ان کو مہلت ملے گی۔ پس ان سے کنارہ کرو اور انتظارکرو ، بیشک وہ بھی انتظار کررہے ہیں”۔(سورہ سجدہ29،30) ٭٭
تین اقسام: السابقون، اصحاب المیمنہ اور اصحاب المشأمة
جنت والوں کی دواقسام سے کون مراد؟
پہلی قسم سبقت لے جانے والوں کی ہوگی جو پہلوں میں بہت ہوں گے اور آخر والوں میں تھوڑے ہیں۔ پہلوں میں السابقون الاولون مہاجر وانصار تھے جن کی گواہی قرآن میں اٹل ہے۔ آخر میں طرز نبوت کی خلافت قائم کرنے میں پہل کرنے اور اسلام کی نشاة میں اپنا کردار ادا کرنے والے اجنبی ہوں گے۔ دوسری قسم دائیں جانب والوں کی ہوگی جن میں فتح مکہ کے بعد صحابہ کرام کی بہت بڑی تعدادکے علاوہ تابعین، تبع تابعین اور علمائ، محدثین اور نیک لوگ بھی شامل ہوں گے اور آخرین میں بھی دائیں جانب والوں کی بڑی تعداد ہوگی۔
اصحاب المشأمة سے کون مرادہیں؟
پہلے والوں میں ظالم حکمران اور وہ مذہبی طبقات جنہوں نے انسانیت کیلئے دنیا کو جحیم بنادیا تھا۔ جو نبی اکرم ۖ کی دعوت حق اور عالم انسانیت کے منشور کی مخالفت اور تکذیب کرتے تھے اور جنہوں نے خلافت راشدہ کے عادلانہ نظام کو بدل ڈالا تھا۔ آخر والوں میں تمام ظالم وجابر حکمران، لوگوں اور دنیا پر جبر وظلم کے نظام کو مسلط کرنے والے اور انکے آلۂ کار دہشت گردوں کا ٹولہ، سیاست وتجارت کے لبادے میں مافیاز کا کردار ادا کرنے والے منشیات فروش، انسانیت کے دشمن اور اپنے مفادات کیلئے سب کچھ کرگزرنے والے سب شامل ہیں۔
السابقون الاولون کیلئے دنیا میں ولدان و حور عین
” لگے تختوں پرآمنے سامنے تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے۔ ان پر24گھنٹے لڑکے طواف کرینگے۔ گلاس اور جگ اور خاص قسم جوس کے پیالے لئے ۔ نہ سر میں درد ہوگا اور نہ دماغ چکرائیگا۔ پھل جو چنیں۔ پرندوں کا گوشت جو چاہیں۔ بڑی آنکھوں والی بیویاں۔جیسے بطور مثال وہ چھپے موتی ہوں۔یہ بدلہ ہوگا بسبب وہ جو عمل کرتے تھے۔ نہیں سنیں اس میں لغو اور نہ گناہ۔ مگر سلام سلام کہنا”۔ (سورہ الواقعہ:آیات:15تا26)
فرمایا:” ” بیشک جو پرہیز گار ہیں وہ باغات اور نعمتوں میں ہونگے۔ محظوظ ہونگے جو اللہ نے ان کو عطا کیا اور انکے رب نے ان کو جحیم کے عذاب سے بچایا ۔ کھاؤ اور پیو مزے لیکر بسبب جو تم نے عمل کیا۔ تکیہ لگائے چارپائیوں پر قطاروں میں ہونگے۔ ان کا بیاہ کرینگے بڑی آنکھوں والیوں سے اور جنہوں نے ایمان لایا اور انکے پیچھے چلے ان کی اولادیں ایمان کیساتھ۔ ان کی اولاد کو بھی ہم نے ملادیا اور ہم نے انکے عمل میں کچھ کم نہ کیا۔ہر شخص اپنے کئے کیساتھ وابستہ ہے اور ہم نے مدد کی ان کی پھلوں اور گوشت سے جو وہ چاہتے تھے۔ وہ ایکدوسرے سے پیالہ پرلڑیں گے جس میں نہ لغو بات ہوگی اور نہ گناہ اور ان پر غلمان چکر لگائیں گے خدمت کیلئے جیسے چھپے موتی ہوں۔ وہ ایک دوسرے سے متوجہ ہوکر آپس میں پوچھیں گے ۔ کہیں گے کہ بیشک ہم اس سے پہلے اپنے خاندان میں مشکلات میں تھے تو اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں گرم لو کے عذاب سے بچایا ۔ بیشک ہم اس سے پہلے اسی کو پکارتے تھے۔ بیشک وہ نیکی کرنے والا رحم والا ہے۔ پس نصیحت کرتے رہیے! آپ اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہیںاور نہ مجنون ۔ کیا وہ کہتے ہیں کہ شاعر ہے ،ہم اس پر گردش کے منتظر ہیں۔کہہ دو کہ انتظار کرو،ہم بھی ساتھ منتظر ہیں۔ کیا یہ انکا خواب ہے یاوہ سرکش قوم ؟۔ یا کہتے ہیں کہ یہ اس نے گھڑا ؟۔ بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے ۔ پس اس جیسا کلام لائیں اگر سچے ہو تم ۔ (سورہ طور:17تا35)
امام حسین کی حوراء شہربانو اور اس کی بہنوں زوجہ محمد بن ابی بکر وزوجہ عبداللہ بن عمرکی طرح فارس و روم کی فتح کے بعد صحابہ کرام اور ان کی اولاد سے اس حور وقصور کا وعدہ پورا ہوا جس کا علامہ اقبال نے شکوہ کیا اور پہلے دور میں غلامی کا دور دورہ تھا لیکن آپ دیکھ لو غلمان اتنے خوش تھے جیسے دنیا کے جہنم سے جنت آئے ہوں۔اور یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ حضرت عمر نے پابندی لگائی کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح نہیں کیا جائے اسلئے کہ وہ ”حور عین” تھیں اور عرب کی اپنی عورتوں سے پھر کون شادی کرتا۔ اب عرب کی عورتوں میں بھی خوبصورت حور عین ہیں ۔ہمارا ایک ساتھی عرب سے رشتہ مانگ تھا تو نہیں مل رہا تھا تو اس نے کہا کہ پھر تم پیش کروگے۔ اسلام کی نشاة اول میں ان کی گوشت سے مدد کی گئی جیسا ایک مچھلی پورے مہینے کھائی اور بعد میں رزق کی فروانی ہوئی۔اسلام کی نشاة ثانیہ میں السابقون الاولوں بہت کم ہونگے اور ان کو پرندوں کا گوشت اور مرضی کا پھل ملے گا۔خدمت باوردی اسٹودنٹ24گھنٹہ اپنی تنخواہ اور خوشی سے کرینگے۔جیسا دنیا میں رواج ہے۔
اصحاب الیمین کیلئے دنیا میں کیا انعامات ہوں گے ؟
” وہ بے کانٹوں کے بیروں میں اور تہ بہ تہ کیلوں میںاورلمبے سائے میں اور پانی کے آبشاروں میںاور بہت سارے پھلوں میںجو نہ ختم ہوں گے اور نہ ان پر روک ٹوک ہوگی اور اونچے فرشوں میں۔بیشک ہم نے ان چیزوں کی خاص نشو ونما کی اور ان کو بالکل نیا کردیا۔ ایسی سواریاں جو قد کاٹ کے بالکل برابر ہوں گی”۔ (سورہ واقعہ28تا37) ۔ نعمتوں کی فروانی کانظارہ ہو گا۔ جب شوہر اور بیوی خوشحال ہوتے ہیں تو بڈھے بھی جوان بن جاتے ہیں۔ میک اپ اور بہترین غذائیت سے بھرپور کھانے سے انسان کی دنیا بدلتی ہے۔ اب تو بڑے لوگوں کو پرندوں اور جنگی جانور مارخور، ہرن اور بارہ سینگا وغیرہ کا گوشت ملتا ہے جبکہ متوسط اور غریب طبقات فارمی مرغیوں کے گوشت کو بھی ترستے ہیں۔ اصحاب الیمین کی بہت بڑی تعداد ہوگی ۔دنیا میں انقلاب عظیم آئے گا تو وائلڈ لائف جنگلی حیات کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔ بھارت میں گائے کا گوشت نہیں کھاتے ۔ درندوں اور چرندوں کی بہتات ۔ جبکہ کئی ممالک میں درندے انسانوں سے مانوس ہوچکے ہیں۔ انقلاب عظیم کے بعد دنیا جنگلی حیات کے تحفظ کی وجہ سے درندوں ، چرندوں اور پرندوں سے آباد ہوگی۔ ایسی ترتیب سے شہروں، باغات، کھیتوں اور جنگلات کو آباد کیا جائیگا کہ روئے زمین پر ماحولیاتی آلودگیوں کا مکمل خاتمہ ہوجائے اور سائنسی ایجادات کو تباہی ، انسانوں کو غلام بنانے اور غلط مفادات حاصل کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگا نفع بخش چیزیں بنانے کیلئے ماہرین اور ماہرات کو جدید ترین ایجادات پر لگایا جائے گا۔ جب ہندو، یہود، نصاریٰ ، بدھ مت، پارسی اور دنیا بھر کے مذاہب وممالک کو قرآن کے عظیم منشور کا پتہ چل جائے گا تو طرزنبوت کی خلافت قائم کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی۔ انشاء اللہ العزیز القدیرالمتکبر
چین سے افغانستان اور پاکستان تک دریائے سندھ میں گند کا ایک قطرہ بھی نہیں گرنے دیا جائے گالیکن ضرورت کے مطابق اس پر بڑے ڈیم اور پانی کے ذخائر ترتیب دئیے جائیں گے۔ بجلی اور پانی کی فروانی کا فائدہ یہ ہوگا کہ روشنی و ہوا کی طرح محنت کش طبقات سمیت سب کو بنیادی سہولیات فری ملیں گی۔ مزارعت اور سود کا خاتمہ کرکے رسول اکرم ۖ نے دنیا کو جنت بنانے کی بنیاد رکھ دی تھی مگر صحابہ کی خوشحال اولاد یزید اور قاضی شریح جیسے حکمرانوں اورقاضیوں نے اسلامی نظام عدل کو نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھادیا تھا۔ سورہ الحدید میں لوہے کو جنگ اور نفع بخش قراردیا ۔مسلمان نفع بخش کیلئے استعمال کرینگے تو معاملہ بدلے گا۔ ربما یودالذین کفروا لوکانوا مسلمین ” کبھی ہوگا کہ کافرپسند کریں کہ وہ پہلے مسلمان ہوتے”۔ قیامت سے پہلے دنیا میں مؤمن کوجنت کا مزہ چکھائیں گے حفظ مراتب کا لحاظ ہوگا۔ تفصیل سورہ رحمن، الاعراف، الحدید،المرسلات اور دیگر سورتوں میں موجود ہیں۔” بیشک متقی لوگ چھاؤں اور چشموں میں ہوں گے اور پھلوں میں جو وہ چاہیں گے۔کھاؤ، پیو خوشی سے بسبب جو تم عمل کرتے تھے”(المرسلات41تا43)
اصحاب الشمال کیلئے دنیا میں کس قسم کا جہنم بنے گا؟
” وہ گرم ہواؤں اور گرمی میں ہونگے اور سیاہ دھوئیں کے سایہ میں ہونگے۔ جونہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ ہی عزت دینے والا۔ بیشک اس سے پہلے خوشحال تھے اوربڑی کرپشن پر تسلسل سے لگے تھے”۔ ( الواقعہ:42تا45)
جنرل اختر کے بیٹوں، نوازشریف، زرداری ، مولانا فضل الرحمن ، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن وغیرہ تمام ریاستی اداروں، حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی طبقات کی خوشحالی غریب اور پسے ہوئے طبقے کی تباہی کا سبب ہے توپھر ان کا کڑا احتساب کرکے صدائے جہنم کی تخریب کاریوں سے انسانیت کو تحفظ دیا جائے۔ یوم نقول لجھنم ھل امتلأت و تقول ھل من مزیدO(سورہ ق آیت:30)
ترجمہ:”اس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تم بھر گئی ہو؟۔ اور وہ کہے گی کہ کیا مزید اور بھی ہیں”۔ مسلمانوں کی زکوٰة ،خیرات، برطانیہ ، امریکہ ، جاپان ، سعودی عرب ، دوبئی اور دنیا بھر کی امداد بھی تعلیمی اداروں سے لیکر پولیو کے قطروں تک تمام شعبوں میں کرپٹ لوگوں کی نذر ہوجاتی ہے۔ سورہ واقعہ کی مندرجہ بالا آیات میںدنیا کا عذاب ہے اور پھر اسکے بعد قیامت کے عذاب کا ذکر الگ سے ہے۔ فرمایاکہ ” کہہ دو کہ پہلے گزرنے والے اور بعد والے۔ضرور اکٹھے ہیں ایک معلوم دن میں ایک جگہ پر ۔پھر بیشک تم اے گمراہو! جھٹلانے والو !۔ضرور کھاؤگے زقوم کے درخت سے ، پھر اس سے پیٹ بھرنے ہوں گے۔ پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پینا ہوگا ۔پھر پینا ہوگا اُونٹوں کا سا۔ یہ قیامت کے دن ان کی مہمانی ہوگی” ۔(سورہ واقعہ49تا56) ”بیشک یہ قرآن عظیم ہے۔ تکوینی کتاب میں ۔ نہیں چھوتے اس کو( عمل نہیں کرتے) مگر پاک لوگ۔ رب العالمین کی طرف سے نازل ۔ کیا تم اس بات میں مداہنت کرتے ہو؟۔ اور تم بناتے ہو اپنی روٹی روزی؟۔ بیشک تم ہی جھٹلارہے ہو۔ پس جب پہنچے گی تمہارے گلوں تک اور اس کو تم دیکھو گے۔(سورہ واقعہ77تا84)
”پس اگر مقربین میں سے ہیں۔(توا ن کے کیا کہنے) راحت، خوشبو اور عیش کے باغ میں ہوں گے۔ اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے ہیں تو تیرے لئے سلام اصحاب الیمین کی طرف سے( نبیۖ پر درود اور سلام کی شاندار محفلیں جمائیں گے۔اسلئے ان کی برکت سے دنیا میں جنت مل جائے گی)پس اگر وہ جھٹلانے والوں میں سے ہیںتو ان کا ٹھکانہ گرمی میں ہوگااور جحیم میں پہنچنا ہوگا۔بیشک یہی حق الیقین ہے۔ پس اپنے رب کی پاکی بیان کیجئے جو بہت عظیم ہے”۔(سورہ واقعہ88تا96)۔ یہ تینوں طبقات کے احوال ہیں ۔ ”کھاؤ اور چند روزہ فائدہ اُٹھاؤ۔بیشک تم ہی مجرم ہو۔ اس دن جھٹلانے والوں کیلئے تباہی ہے۔ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ رکوع کرو(حق کے سامنے جھکو) نہیں جھکتے تھے۔اس دن جھٹلانے والوں کیلئے تباہی ہے۔ پس اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیںگے”۔ المرسلات:46تا50) قرآن کی آیات میں دنیا کے اندر عذاب کا تصور الگ دیا گیا ہے اور آخرت میں الگ۔ جو لوگ تدبر کرکے بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔