پوسٹ تلاش کریں

تین طلاق کے بعد صلح کی شرط پر میاں بیوی بغیر حلال کے رجوع کر سکتے ہیں۔

قرآن میں صلح کی شرط پر بار بار رجوع کی بات ہے لیکن علماء نے حلالے کی رٹ لگائی ہے۔ حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری، جامعہ فاطمة الزہرہ جامع مسجد نقشبندیہ عیدگاہ مین بازارکھوکھرکی سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ

(گوجرانوالہ) چیئر مین تحریک تحفظ امن پاکستان ، امیر مجلس تحفظ ختم نبوت، رہنما جماعت اہل سنت پاکستان پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بغیر کسی لالچ و منصب کے جس طرح کام کررہے ہیں اسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ اس وقت چھوٹے بڑے سب علماء دین بیچ رہے ہیں۔ اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی ، حضرت داتا گنج بخش ، بہاء الدین زکریا ملتانی، عبد اللہ شاہ غازی جیسی ہستیاں ملیں گی انہوں نے کتنے محلات بنائے؟ کتنا مال جمع کیا؟ جبکہ آج کے پیر محلات کے مالک ہیں زمینوں کے مالک ہیں ان کے دستر خوان پر ڈھیروں اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔ آج کے پیر اور علماء اپنی پوجا کرواتے ہیں انہیں اپنی دوکانداری خراب ہونے کا خوف ہے تو ایسے میں دین کیسے آگے بڑھے گا؟۔ طلاق کا مسئلہ اور اس کا حل جو گیلانی صاحب نے پیش کیا ہے اور قرآن کے دلائل سے سمجھایا ہے اس پر یہ بلا تردد سرِ تسلیم ختم کرتے مگر انہوں نے اب تک قرآن کی آیت ”حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ” کی تشریح سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے اور قرآن کس طرح بار بار صلح کی شرط پر رجوع کی بات کرتا ہے اسے کبھی بیان ہی نہیں کیا ہے۔ بس تین طلاق کے بعد اب کچھ نہیں ہوسکتا کی رٹ اور حلالہ کی غلیظ ترین بات ۔
انہوں نے کبھی بھی حساس ترین مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں کہ عزتیں لٹ رہی ہیں عورت کی تذلیل ہورہی ہے مگر یہ خاموش ہیں۔ موجودہ دور کے مسائل پر بھی ریسرچ نہیں کرتے ۔ درس نظامی کو جدید تحقیقات کی روشنی میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نام نہاد مفتیان نے سود کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ میں کہتا ہوں سود کو نہیں بلکہ سؤر کو حلال کردیا ہے۔ اس سوال پر کہ پھر آخر اسکے خلاف کون آواز بلند کرے گا تو مفتی صاحب نے کہا کہ ماضی میں بھی اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ان علماء نے ہی دنیاوی مفاد کیلئے بادشاہ وقت کو قتل، چوری ، زنا و دیگر جرائم پر سزا سے استثناء کا فتویٰ دیا تھا جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی مراعات و دنیاوی مفاد کیلئے ہر طرح کے منکرات کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ حق بات کبھی بھی ان کے منہ سے نہیں نکلتی ہے۔ ان لوگوں کو گیلانی صاحب نے بہت جھنجھوڑا مگر یہ سب مایا کے بندے بنے ہوئے ہیں۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ ”قلیل من عبادی الشکور” بہت کم ہیں جو اللہ کے شکر گزار ہیں ۔ ”قلیل من الآخرین” کا ذکر قرآن میں آیا ہے ایسا لگتا ہے کہ حق کہنے والے قلیل من الآخرین سے بھی کم ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں بقول اقبال اپنے بھی خفا ہیں اور بیگانے بھی ناخوش مگر یہ مٹھی بھر حق گو لوگ امت مسلمہ کی خیر خواہی میں کسی ملامت گر کی ملامت سے بھی نہیں گھبرائے ہیں۔ اور جو بات ملت کیلئے زہر قاتل ہے ، امت کی بربادی کا موجب ہے اسے کبھی نہیں چھپاتے ہیں۔ یہی قلیل لوگ نبی ۖ ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، ائمہ حق اور اولیاء کے جانشین ہیں۔ آخر میں شاہ صاحب کی خدمت میں سلام۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

نواز شریف کو بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر لانا پارٹ ون اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا آڈیو اور ویڈیو سکینڈل پارٹ ٹو ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

جب برطانیہ نے نوازشریف سے کہا کہ صحت کی بنیاد پر ویزے میں مزید توسیع نہیں دے سکتے تومردہPDMمیں دوبارہ جان ڈال دی گئی ، مفاہمت اور مزاحمت کا فیصلہ نوازشریف کی آمد اور مفاد کیلئے کیا جائیگا، پیپلز پارٹی کو اسلئے باہر کردیا گیا کہ پھرنوازشریف اپنے مفاد کی سیاست کھل کر نہیں کھیل سکتا تھا۔ بیماری کا جھانسہ دیکر باہر جانا پارٹ ون اور ویڈیوز اسکینڈل پارٹ ٹو ہے۔ریاست اور سیاست کی منافقت نے اب عوام کے اعتماد کو ہر چیز سے اٹھادیاہے!

اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت، فوج، سیاست، سول بیوروکریسی، پولیس، انتظامیہ،مذہبی لوگ، سوشلسٹ اور پاکستان کی تما م عوام میں عظیم لوگوں کی کوئی کمی پہلے بھی نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے لیکن حالات کچھ اس طرح سے ہیں کہ عظیم نہیں بن پارہے ہیں۔ پاکستان کا قومی ترانہ ”ترجمانِ ماضی، شانِ حال اور جانِ استقبال ” کو سوچے سمجھے بغیر ہمارے بچے ، جوان اور بوڑھے پڑھتے ہیں۔
مسلمانوں کا شاندار ماضی وہی تھا جس میں اسلام کی بنیاد پر نبی رحمت ۖ کے دور کی بھی خلافت علی طرز نبوت نے دنیا کی دو سپر طاقتوں مشرق میںایران اور مغرب میں روم کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ جب قومی ترانے کے الفاظ میں” ترجمانِ ماضی ” پڑھا جاتا ہے تو ہمارا ذہن اپنے شاندار ماضی کی طرف نہیں جاتا ہے۔ اگر ترجمانِ ماضی کی طرف ذہن نہیں جاتا ہے تو پھر ”شانِ حال ” کا بھی پتہ نہیں چل سکتا ہے اور ” جانِ استقبال” کا بھی پتہ نہیں چل سکتا ہے۔
جب پاکستان سے دوبارہ طرز نبوت کی خلافت کا آغاز کیا جائے تو پھر اس کو ”شانِ حال ” کہہ سکتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا یہ کہنا خوش آئند ہے کہ عمران خان ریاستِ مدینہ کی بات کرتا ہے تو بھی بہت اچھا ہے۔ حدیث میں جہاد ہند سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک نظام کی نشاندہی ہے۔ جس میں شانِ حال اور جانِ استقبال کا پورا پورا نقشہ موجودہے۔ اگر پاکستان میں ریاستِ مدینہ قائم ہوگئی تو نہ صرف مشرقی پاکستان دوبارہ مل جائیگا بلکہ پورے کا پورا ہندوستان بھی اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کرلے گا اور جو متعصب ہندو پھر بھی ہندو بن کر رہنا چاہتے ہوں تو ان پر کوئی زور وزبردستی اور جبر نہیں ہوگا مگر اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام ان کیلئے بھی مسلمانوں کی طرح قابلِ قبول ہوگا۔ سکھ بھی ہمارے ساتھ مل جائیں گے اور کشمیری بھی مظالم سے بچ جائیں گے۔
عدالت، ریاست ، اپوزیشن ،سیاسی اورمذہبی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ نواز شریف کا اسلامی جمہوری اتحاد دراصل انتقامی جرنیلی انتشار تھا۔1988ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان کو پہلی مرتبہIMFکا مقروض بنایا اور نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو صدر بنادیا۔جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی دو لخت ہوگئی۔ میرمرتضیٰ بھٹو شہید نے موجودہ پیپلزپارٹی کو اس وقت زرداری لیگ قرار دیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کابانی جنرل حمید گل تھا اور تحریک انصاف کا اصل بانی بھی جنرل حمیدگل تھا۔
جنرل حمید گل نے اپنی وفات سے چند دن پہلے ہمیں بتایا کہ دوشخصیات سے وہ متأثر ہیں۔ ایک قائداعظم محمد علی جناح اور دوسرے امیرالمؤمنین ملا عمر۔بس جب وہ اپنے مشن کیلئے کھڑے ہوگئے تو پھر اس کی تکمیل کرکے ہی چھوڑا تھا۔
علامہ اقبال نے کہا کہ” مجموعۂ اضداد ہوں اقبال نہیں ہوں”۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا ”اگریہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارے تضادات وہ (مخالف) پاتے ”۔ انسان وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور اس کے کردار میں بہت سارے تغیرات اور تضادات نمایاں طور پر موجود ہیں اور ہم پاکستان کو مملکتِ خداداد کہتے ہیں لیکن اس کی تشکیل اور وجود میں بھی بڑے تضادات ہیں۔ دوقومی نظرئیے کے تحت پاکستان بن گیا لیکن بنگالی اور سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ پھر مشرقی اور مغربی پاکستان کی ایک قوم کی جگہ دو الگ الگ قومیں بن گئیں۔ ایک بنگلہ دیشی قومیت اور دوسری پاکستانی قومیت۔ کیاوجہ تھی کہ پاکستان و ایران کے بلوچ، پاکستا ن وافغانستان کے پختون، پاکستان و ہندوستان کے پنجابی الگ الگ قومیت اور ملک سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کشمیری اب بھی ایک قوم ہیں؟۔ بنگلہ دیش و پاکستان کے لوگ ایک قوم تھے لیکن ایران و افغانستان اور عرب ممالک کے ساتھ پوری دنیا سمیت پاکستان کے لوگ ایک مسلم قوم نہیں تھے؟۔ متحدہ ہندوستان کی قومیت کا نعرہ لگانے والے کانگریس اور جمیعت علماء ہند کے علماء کرام پر علامہ اقبال سے لیکر جاہل مسلم لیگی کارکنوں تک نے ابولہب اور کافر کے فتوے لگائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد، عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی نے متحدہ ہندوستان کی ایک قومیت کا نعرہ لگایا تھا لیکن وہ افغانستان کیساتھ اکٹھا ہونے کیلئے تیار نہیں تھے؟۔ آج لر وبر یوافغان کا نعرہ جو لوگ لگارہے ہیں وہ اپنے قائدین سے انحراف کررہے ہیں۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مریم نواز کی طرف سے ویڈیوز کے انکشافات کا سلسلہ جاری رکھنے کا معاملہ موضوعِ بحث ہے جس کی بنیاد پر کیسوں اور سزاؤں کو جھوٹا اور انتقامی قرار دیا جارہاہے لیکن میڈیا یہ کام کیوں نہیں کرتا کہ نوازشریف کی پارلیمنٹ کی تقریر جس میں2005ء میں سعودیہ کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر2006ء میں لندن کے ایون فیلڈ لندن کے فیلٹ خریدنے کا نیا انکشاف تھا ۔ حالانکہ بینظیر بھٹوکے دوسرے دورِ حکومت میں اس پر اٹل ثبوتوں کیساتھ کیس چلے تھے اور غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت کو اسی کرپشن کی وجہ سے ختم کیا تھااورنوازشریف کوISIنے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پرپیسے بھی دئیے تھے اور یہ سب چیزیں عدالت، ریاست ، میڈیا اور عوام کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
یہ کس قدر ناکام نظام کی بات ہے کہ اگر اتنے واضح ثبوتوں کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ کو زور لگانا پڑجائے کہ نوازشریف کو سزا دی جائے؟۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ جسٹس قیوم اورملک ارشد کی طرح جسٹس ثاقب نثار بھی نوازشریف کیساتھ اندورن خانہ ملے ہوں اور ایک ویڈیو بھی بنادی ہو۔ جب انکار کرنے کے بعد پوری قوم ثاقب نثار کی پشت پر کھڑی ہوجائے اور پھر وہ پیسے کھاکر اسکا اعتراف کریں کہ مجھ پر نوازشریف کو نکالنے اور عمران خان کو لانے کیلئے دباؤ تھا۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدلیہ اور فوجی اسٹییبلشمنٹ دونوں کو ایک ساتھ رگڑا دینے کیلئے ثاقب نثار کی ویڈیوز کو استعمال کیا جائے۔ جیسے حامد میر نے امریکی اخبار کیلئے ایک کالم میں نیا انکشاف کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایجنسیوں نے عمران کی چھٹی کرانے کا فیصلہ کیا ہو ۔ گوگلی نیوز میں یہی خبریں دی جارہی ہیں۔
جس طرح ایک وکیل پیسے کھاکر اپنی قانونی پوزیشن مجرم کی حمایت یا مخالفت میں بدلنے کیلئے کوئی شرم نہیں کھاتا ہے ،اسی طرح بڑی رقم ملنے کے بعدآن ڈیوٹی اور ریٹائرڈ جج بھی اپنی اخلاقیات بیچ کر امیروں میں شامل ہونے کیلئے وہ سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے جو ایک عام انسان کا خاصا ہوتا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس ختم ہونے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کے نام پر لندن میں پراپرٹی برآمد ہونے کاکیا نتیجہ نکل سکا تھا؟۔ جب جج، جرنیل اور سیاستدان اپنی اپنی جائزاولادوں اور بیگمات کو بھی اپنے سے الگ کرکے ترقی یافتہ ممالک کے آزاد شہری قرار دیتے ہوں اور بڑے پیمانے پر سودی قرضے لیکر منی لانڈرنگ کا معاملہ جاری ہو تو کون کس سے کیا پوچھے گا؟۔ مجرم قانون سے بچنے کے تمام طریقے جانتے ہیں اور عوام پر سودی قرضوں کی وجہ سے مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جارہاہے۔
عمران خان اور نوازشریف کے تضادات اور ڈھیٹ پن کا نام سیاست رکھ دیا گیاہے۔ اگر نوازشریف کے خلاف لندن ایون فیلڈ کیس کا تاریخی جائزہ بھی لیا جائے اور ملک ارشد اور ثاقب نثار کی ویڈیوز پر اس کو معصوم اور بے گناہ قرار دینے کی تحریک کا بھی جائزہ لیا جائے تو عوام و خواص سب اس نظام سے مایوس ہوں گے اور عمران خان کی تمام ویڈیوز اور موجودہ کردارکو دیکھا جائے تو بھی سبھی اس نظام سے مایوس ہوں گے۔ جس نظام نے نوازشریف کا کچھ نہیں بگاڑا اور جس نظام کے ذریعے اتنے وعدوں کے باوجود عمران خان ، اس کی پشت پناہی والے کچھ نہیں کرسکے بلکہ اس مدت میں سودی گردشی قرضے ڈبل کردئیے ۔ زرداری سے پہلے پرویزمشرف نے قرضہ اتارنے کے بعد پھر قرضہ لیا۔ پھر زرداری اور نوازشریف اور عمران خان نے اس سلسلے کو جاری رکھا اور اب بات یہاں تک ہی پہنچ گئی ہے کہ جتنا گردشی قرضے کے عوض ہم سود دیتے ہیں ،وہ ہمارے ٹیکس کے قریب پہنچ گیا ہے۔ نوازشریف کے دور میں دفاعی بجٹ سے سود زیادہ ہوگیا تھا اور اب سود اسکے ڈبل تک پہنچ کر ہمارے ٹیکس کی کل مقدار تک پہنچ گیا ہے۔
اسلامی انقلاب کے ذریعے سب سے پہلے ہم اپنی اصلاح کرسکیں گے اور جس طرح امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں اسلامی جذبے نے شکست دی تھی اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی ظالم فوج کو بھی ہم شکست دے سکتے تھے۔ ہماری ریاست غریب کو انصاف دینے میں مکمل ناکام ہے ۔ بڑے لوگوں کو اپنے انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہے ۔ چور ہیں سب چور ہیں کا شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا ، اپنے نظام انصاف کو درست کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ اور جمہوری ذرائع سے انتخابات بھی تجارت ہیں۔ سینٹ کے انتخابات میںکروڑوں کے اندر ایک ایک ووٹ کی قیمت لگنے سے پتہ چلتا ہے۔ پیسوں کیساتھ کھیلنے والے اس نظام کے کرتے دھرتے اور کرتوت ہیں۔ نظریاتی سیاست کا کوئی نام ونشان تک نہیں۔
سندھ ، پنجاب، مہاجر ، بلوچ اور پختون کارڈ کھیلنا کوئی نظریہ نہیں ۔ پنجاب میں برادری ازم کارڈ کھیلا جاتا ہے اور جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو تعصبات اور پیسوں کی جیت ہوتی ہے۔ ایسا ملک اور ایسی قوم کبھی بھی کوئی اچھا وقت نہیں دیکھ سکتی ہے۔ طاقتور طبقات لینڈ مافیا اور بدمعاشوں کی سرپرستی کررہے ہوں اور مظلوم اور کمزور طبقات کو خدا کے سہارے پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ فلسطین ومقبوضہ کشمیر کے حالات ہمارے ہاں بھی کم عقل لوگوں کی بیوقوفیوں سے بنتے جا رہے ہیں۔ عمران خان اداروں کو مضبوط کرنے نکلے تھے لیکن ادارے اپنے مضبوط کردار کی بدولت ہی مضبوط بن سکتے ہیں۔ نوازشریف پر بہت زبردست اور سچے کیس بن گئے تھے اور عمران خان بھی پشاورBRTسمیت کئی کیسوں کی نذر ہوسکتے ہیں۔ زرداری اینڈ کمپنی پر ہمارے ناقص نظام کی وجہ سے کوئی چیز ثابت کرنا مشکل ہے اور جو بے قاعدگیاں ہمارے ریاستی اداروں اور اہلکاروں کی طرف سے کی جاتی ہیں تو بڑے بڑے مجرم بھی معصوم لگنے لگتے ہیں کہ یہ توآوے کا آوا بگڑا ہواہے اور سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ قانون کی بالادستی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کراچی میں نسلہ ٹاور کے علاوہ بہت سارے غیرقانونی قبضے چھڑائے گئے لیکن شاہراہ فیصل اور اس کی ملحقہ سڑکوں پر سروس روڈوں پر بھی قبضے کئے ہوئے ہیں اور ائرپورٹ کے سامنے شاہراہ فیصل پر ریلوے کی زمین پر ناجائز بلڈنگ سمیت پوری شاہراہ فیصل پر کہاں کہاں قبضے ہوئے ہیں ان سب کا جائزہ لیکر اس اہم شاہراہ کی توسیع کردی جاتی تو سبھی لوگ خوش ہوتے کہ قانون کی واقعی اس ملک میں بالادستی ہے۔ کراچی کا پانی مافیا بیچ رہاہے۔ کراچی کے تھانے بکتے ہیں اور کراچی بلڈنگ مافیا کھلے عام ندی نالوں پر قبضہ کرکے فلیٹ بیچ رہے ہیں اور کراچی میں لیز کی تیس سالہ زمینوں پر بلڈنگ مافیا غریب کو دھوکہ دے رہاہے۔ ہماری حکومت اور ریاست کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے ۔ لوگوں کو حکمران طبقے سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ کسی حکمران طبقے کی شکل بھی کسی کو اچھی نہیں لگ رہی ہے لیکن مجبوری اور مظلومیت کی فریاد عرش تک بھی نہیں پہنچائی جارہی ہے اسلئے کہ مخلوق اور خالق کے تعلقات بھی بہت خراب نظر آتے ہیں۔ امیر طبقے سے بھی زیادہ غریب ظالم بنتا جارہاہے، دو ٹکوں کیلئے کسی کی جان لینا بھی بڑی بات نہیں سمجھتے ہیں۔ پوری قوم کو توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کرپشن پر بڑے بڑے ہاتھ مارتے ہیں اگر یہ سیدھے ہوگئے تو لوگوں کو جائز روزگار ملے گا اور پھر ڈکیتی اور چوریوں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ ملک کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
مذہبی طبقات کا حال یہ ہے کہ مفتی عزیزالرحمن نے اپنے باریش طالب علم صابرشاہ کو امتحان میں پاس کرنے کی لالچ پر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا تھا اور پہلے یہ ظالم کا طرۂ امتیاز ہوتا تھا کہ وہ مظلوم کی ویڈیو بناکر ڈراتا تھا کہ تمہارا جنسی معاملہ آشکار کرکے لوگوں میں بدنام کرکے رکھ دوں گا لیکن اب مظلوم نے بھی اپنی ہی ویڈیو بناکر یہ تماشا دنیا کو دکھا دیا کہ یہ ہو کیا رہاہے؟۔جب پاس کرنے کی لالچ میں صابرشاہ جیسے لوگ یہ کام کرسکتے ہوں تو پھر دہشت گردی، مفادپرستی اور دیگر معاملات میں کہاں سے کہاں اور کیا سے کیا لوگ نہیں کرتے ہوں گے؟۔
امام حسن کو زہر دے کر شہید کیا گیا تھا اور امام حسین کو کربلا میں شہید کیا گیا تھا لیکن اب کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نوازجھنگوی شہید کے بیٹے مولانا اظہار الحق جھنگوی کی لاش پہلے ہوٹل میں مردہ حالت میں ملی تھی جس کا کوئی بھی سراغ نہیں لگ سکا تھا اور اب دوسرے صاحبزادے مولانا مسرورجھنگوی کوبھی باغی قرار دیا جارہاہے۔ کہیں سانحہ کربلا پیش نہ آجائے۔ مولانا حق نواز جھنگوی کا تعلق جمعیت علماء اسلام ف سے تھا اور انہوں نے1988ء میں جمعیت ف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور جمعیت ف کے صوبائی نائب امیر بھی تھے لیکن جب ان کو شہید کیاگیا تو مولانا ایثارالحق قاسمی نے بیگم عابدہ حسین شیعہ کے ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے اتحاد کرکے جھنگ کی سیٹ شیعوں کے ووٹوں سے جیتی تھی۔ مولانا حق نوازجھنگوی کے بچے اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن آج مولانا حق نواز جھنگوی کا بیٹا اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چل کر مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دے رہاہے تو اس کو کالعدم سپاہ صحابہ کا نہیں صحابہ کرام کا بھی باغی قرار دیا جارہاہے۔ مولانا سید محمد بنوری شہید نے بھی مولانا فضل الرحمن کیلئے اپنی جان کی قربانی دیدی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن نے اس کا پھر ساتھ نہیں دیا تھا۔
مذہبی اور سیاسی انتشار اور بے اعتمادی سے پہلے ایسی فضاء کی ضرورت ہے کہ جب بنوامیہ اور بنوعباس کی طرح ناجائز لوگ خاندانی بنیاد پر قبضہ کرکے اہل بیت پر مظالم کے پہاڑ اسلئے توڑیں کہ ان کی حیثیت چیلنج ہورہی ہو تو ایسے مظالم کی فضاء نہ بننے دی جائے۔ آج تبلیغی جماعت والے اپنے بانی مولانا الیاس کے پڑپوتے مولانا سعد اور اپنے مرکز بستی نظام الدین کے پیچھے پڑگئے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کا مستقبل روشن ہے یا تاریک یہ وقت کا فیصلہ ہے۔ لیکن ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

آج ہندوستان کے شہروں سے کوہ ہندوکش تک اور بھارت کی ہندی زباں سے پختونخواہ کے شہر ٹانک ،اس کے مضافات اور پشاور تک ہندکو زباںوالے ایک تہذیب وتمدن ، ایک وطن اور ایک جیسے ملتے جلتے لوگ تھے۔مسلمان اور ہندوکے درمیان سکھ مذہب اور رنجیت سنگھ کی پنجابی حکومت تاریخ کا روشن یا سیاہ باب ہے؟، روشن مستقبل یاتاریک سے تاریک تر حالات ہونگے؟،یہ فیصلہ وقت نے کرنا ہے لیکن ہم نے اپنا فرض منصبی ضروراداکرنا ہے !

یہاں انگریز آیا، تقسیم بنگال ، تقسیم ہند،مسئلہ کشمیر، ڈیورنڈ لائن اور انگریزکی سیاسی، انتظامی، انتقامی، تعلیمی، نوابی، فوجی اور عدالتی باقیات اس قوم کی اندھیر نگری میں ایک مؤثر کردار کا سبب آج تک ہیں اور اندھیرنگری ہے میرے آگے

انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی سے مضبوط تجارتی مراکز بناکر ہندوستان کے طول وعرض پر قبضہ کیااور پھر اپنی باقیات کے ذریعے یہاں کی عوام کو مکمل غلامانہ نظام کے سپرد کردیا۔ مزاحمت کرنے والوں کو آپس میں اُلجھا دیا۔ہندو اور مسلم کے درمیان تفریق ڈالنے کیلئے بنگال کو بنیادبنا دیا۔ ہندوؤں نے انتظامی بنیاد پر مشرقی بنگال کو علیحدہ صوبہ بنانے کی مخالفت کی تو مسلمان اس کی حمایت میں کمربستہ ہوگئے۔ یوں انگریز کی یہ چال کامیاب ہوگئی کہ ہندو اور مسلمان کو آپس میں دشمن بنادیا۔ انگریز مخالف ہندو اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ تحریک آل انڈیا کانگریس کی بنیاد پڑگئی اور اس کے مقابلے میں انگریز سے راز ونیاز رکھنے والے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ نواب وقار الملک ، سر آغا خان اور دیگر اسلام ناآشنا لوگوں نے ایک مسلم قومیت اور دوسری ہندو قومیت کی بنیاد پر ایک تحریک کا آغاز کردیا۔ ایک قومی نظریہ اور دو قومی نظریہ کے میدانِ جنگ کیلئے زمین ہموار ہوئی۔ کانگریس کے قائداور رہنما ہندوستان کے ایک قومی نظریے اور مسلم لیگ کے قائدین اور رہنما دوقومی نظریے پر زور دیتے تھے۔قائداعظم محمد علی جناح کی ابتداء کانگریس سے ہوئی اور وہ وکیل کی حیثیت سے چاہتے تھے کہ ہندوستان کی غلام عوام کوبھی ویسے شہری حقوق مل جائیں جو برطانیہ اور یورپ کے آزاد شہریوں کو اپنے وطن میں حاصل ہیں۔یورپ کا مذہب عیسائی تھا لیکن انتظامی اعتبار سے وہ مختلف ممالک برطانیہ، جرمنی، فرانس ، اٹلی، سوئٹزر لینڈ، اسپین، ناروے ، سویڈن اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم تھا۔مذہب کی بنیاد پر ملکوں کی تقسیم کاکوئی ماحول دنیا میں موجود نہ تھا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں”سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ” بہترین نظم بھی لکھی لیکن جب ہند و مسلم کے درمیان نفرت کی فضاء بن گئی تو تقسیم ہند کی ناگزیری پر شاعرِ مشرق اقبال اور قائداعظم بھی مفکر پاکستان اور بانی پاکستان بن گئے۔ دونوں کی قابلیت، خلوص اور انسانیت پر شک نہ تھا لیکن اپنی یوٹرن سے اپنی اپنی پوزیشن کو ایسا بدل ڈالا کہ اس سے اس خطے کی تاریخ میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی۔
ہندو،مسلم، سکھ، بدھ مت اور عیسائی سے تعلق رکھنے والے سب ہندوستانی لوگ ایک طرح کی ملتی جلتی صوفیت کے نظام سے وابستہ تھے۔عیسائیت نے بھی رہبانیت کی بدعت خود ایجاد کرکے اس کی ابتداء کی لیکن پھر وہ اس کی پاسداری نہ کرسکے۔ ہندو اور بدھ مت بھی بہت قدیم مذاہب تھے اور انکا تاریخی پسِ منظر صوفیت کی یاد گار تھا۔ اسلام اور مسلمانوں پر بھی ہندوستان میں تصوف کی چھاپ تھی۔ سکھ مذہب نے بھی صوفیت کے دامن سے جنم لیا۔اس مزاج کی وجہ سے تاریخ کے اندر تمام خونخواروں نے جب بھی برصغیرپاک وہندکا رُخ کیا تویہاں کے پُر امن صوفی مذہب لوگوں نے کوئی مزاحمت نہیںکی۔ جس طرح نیم حکیم خطرۂ جان نیم ملا خطرۂ ایمان مشہور ہے اسی طرح نیم صوفی خطرہ ٔ امن اور امان بھی ہوتاہے۔ انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی سے ہندوستان پر قبضے کی جو ابتداء کی تھی تو وہ جاتے جاتے ہندوستان کو بہت سے مسائل کی آماجگاہ بناکر چھوڑ گیا تھا اور اب باتIMFکی غلامی تک پہنچ گئی ہے۔ علماء کی اکثریت نے پاکستان کی مخالفت کی تھی اور صوفیوں کی اکثریت نے حمایت کی تھی لیکن پنجاب کے پانچ دریاؤں کے علاوہ تقسیم ِ ہند کے وقت ایک چھٹا دریا انسا نیت کے خون سے بھی بہہ گیا تھا، جس کا مولانا ابوالکلام آزاد کہتے تھے کہ ” آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے لیکن اتنا خون بہنے کی قیمت پر آزادی بھی قبول نہیں ہے”۔
دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان اور پاکستان ایک ہی تاریخ، وقت اور لمحے میں ایک ہی اعلان کیساتھ آزاد اور دولخت ہوگئے لیکن مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر یہ دونوں ممالک دو جڑواں بہنوں کی جگہ دو سوکن بن گئیں۔ مقبوضہ کشمیر سے قبضہ تو نہیں چھڑایا جاسکا ،البتہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش سے ہم نے ضرورہاتھ دھو لئے اور 74سال بعد بھی اپنے غلامانہ نظام سے جان چھڑانے کا رونا رو رہے ہیں۔ انڈوں پر بیٹھنے کی وجہ سے کڑک مرغی کا سینہ پروں سے گنجا ہوجاتا ہے لیکن آخری عمرتک دیسی مرغیوں کے سرکے بال نہیں گرتے ۔جبکہ فارمی مرغیوں کے سر بھی آخر میں گنجے ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں برسراقتدار آنے والے سیاسی حکمران فارمی مرغیوں کی طرح مصنوعی طریقے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف اپنے اپنے وقت کی زندہ مثالیں ہیں۔PPP،PMLNاورPTIایک دوسرے سے اس بات پر اُلجھ رہی ہیںکہ کس پارٹی کو کس کس جنرل نے جنم دیا ہے۔جب تقسیم ہند کے وقت ہندو پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے تو ان کی جگہ بھارت سے آنے والے مسلمانوں نے لے لی۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں تمام کے تمام پوش علاقوں، تجارتی مراکز اور بڑی بڑی زمینوں کے مالک ہندو تھے ، جب وہ یہاں سے رخصت ہوئے تو جائز اور ناجائز کی تمیز کئے بغیر ان املاک کے مالک ہندوستان سے آنے والے مہاجر بن گئے۔ علاقائی اور مقامی مسلمان اسلئے خوش تھے کہ انگریزوں اور ہندوؤں کی جگہ مقامی حکمرانوں اور مہاجر مسلمانوں نے لی ، جو خوش آئند تھی لیکن جب خوشحال طبقہ مفاد پرست بن جائے تو علاقے کی عوام کبھی خوشحالی نہیں پاسکتے ہیں۔سول وملٹری بیوروکریسی میں میٹرک کرنے والے جن کی حیثیت متحدہ ہندوستان میں کلاس فور کی نوکری سے زیادہ نہیں تھی وہ یہاں آکر بڑے بڑے افسر بن گئے۔ جو درمیانے درجے کا طبقہ تھا اس نے میرٹ کی بنیاد پر ملک وقوم کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ جو جنرل اور سیکٹری لیول کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے تو وہ بڑے بن گئے۔ فوج اور سول اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا تو گورنر جنرل قائداعظم اوروزیراعظم لیاقت علی خان کی لڑائی کا شاخسانہ یہ تھا کہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کی نہیں بنتی تھی اور قائد اعظم اسلئے لیاقت علی خان سے ناراض تھے کہ بھوپالی مہاجرین کو کراچی میں آباد کرکے اپنا حلقہ انتخاب بنانا چاہتے تھے۔ جب نووارد جمہوری لیڈروں کے پاس انتخابی حلقے تک بھی نہیں تھے تو وہاں سے اس میں جمہوریت کی بحالی کیلئے کوئی کام کرسکتے تھے اسلئے ہمارے ہاں جمہوریت کے بانی جنرل ایوب خان بن گئے ۔ جس کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو قائدعوام نے جنم لیا تھا۔
انورمقصود نے بہت اچھا نقشہ کھینچاہے کہ مہاجر کو پتہ چل گیا کہ سندھ ، پنجاب ، بلوچستان اور پختونخواہ کے لوگ سید سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے اپنے شجرے بھی تبدیل کر ڈالے۔ جب لوگ نسلوں کی تبدیلی پر آگئے تو قصائی سید کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے تھے لیکن قریشی بننے تک پہنچ گئے۔ جولاہے انصاری، تیلی عثمانی بن گئے۔ کوئی صدیقی،فاروقی اور علوی بن گیا۔ معروف اسلامی اسکالر جاویداحمد غامدی نے اسی روش میں غامدی کہلانے کا شوق پال لیا لیکن جب اس کو توجہ دلائی گئی کہ جب ایک صحابیہ غامدیہ پر سنگسار کرنے کا حکم جاری کیا گیا تو اس کا بچہ دودھ روٹی کھانے کے لائق بن گیا تھا اور اس بچے کی نسل سے غامدی کی نسبت ہوسکتی ہے تو جاوید احمدغامدی نے واضح کردیا کہ ”میرا عرب قبیلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں نے محض شوق کیلئے غامدی نسبت اختیار کرلی ہے”۔
جاوید احمد غامدی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ”عرب میں داماد کو اہل بیت قرار نہیں دیا جاتا ہے اور حضرت علی نبیۖ کے داماد تھے”۔ نبیۖ ابوسفیان کے بھی داماد تھے اور حضرت ابوبکر وعمر کے بھی داماد تھے۔ سسرالی رشتے کا کسی قوم کی تاریخ میں بھی اہل بیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ یہودونصاریٰ کی خواتین کی بھی مسلمانوں میں شادیاں ہوئی ہیں اور نبیۖ کی چھ ازواج مطہرات کا تعلق قریش سے تھا اور چار کا دیگر قوموں سے تھا اور ایک کنیز ماریہ قبطیہ کا تعلق عرب سے بھی نہیں تھا۔ عرب نہیں عجم میں بھی داماد اور سسر ایک دوسرے کے اہل بیت نہیں ہوتے ہیں۔حضرت علی نبیۖ کے چچازاد بھائی تھے، جب بنی امیہ سے خلافت کی مسند چھڑائی گئی تو بنوعباس نے خلافت پر اسلئے قبضہ کیا کہ وہ نبیۖ کے چچا کی اولاد ہیں۔ بنو امیہ کا طاقت اوربنوعباس کا نبیۖ سے قرابتداری کی بنیاد پر مسندِ خلافت کرنے کی تاریخ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے اور ان ادوار میں نبیۖ کے اہل بیت حسنی اور حسینی سادات پر مظالم کے پہاڑ ڈھانے کی وجہ بھی صرف یہی تھی کہ یہ لوگ اقتدار تک نہ پہنچ پائیں۔ بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کا قبضہ سنبھالا تھا جو آغاخانی اور بوہری کی شکل میں آج موجود ہیں۔ امامیہ شیعہ نے پہلی مرتبہ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اقتدار حاصل کیا ہے اور اس سے پہلے ان کے ائمہ کہتے تھے کہ ”ہم میں سے جو خروج کریگا وہ ایسے طائر کا بچہ ہوگا جس کو اغیار نے پالا ہوگا”۔ امام حسن نے خون کے دریا کو روکنے کیلئے امیر معاویہ کی امارت کو تسلیم کرلیا لیکن پھر اقتدار ظالم بادشاہت میں تبدیل ہوگیا۔ اسلام اور پاکستان کی کہانی بھی ایک دوسرے سے بالکل ملتی جلتی ہے۔اللہ خیر کرے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نواز شریف نے آئی ایم ایف سے اتنا قرضہ لیا کہ سود کی مد میں ادا کی جانی والی رقم ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ دسمبر2021۔ سوشل میڈیا پوسٹ
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کے اسلامی اسکالرکو انٹرویو میں کہا ہے کہ ریاست مدینہ کی فلاحی ریاست کا ماڈل بنانے کیلئے میں نے سیاست میں قدم رکھا۔آج امت مسلمہ کے قائدین میں طاقت و دولت کی دوڑ لگی ہوئی ہے، ان میں آزادی اور غیرت کا فقدان ہے، ہم نے جو جدوجہد کی ہے اس کے اثرات ہزاروں سال بعدتک مرتب ہوںگے، میرے سامنے مافیاز تھے،جنہوں نے میری20سال تک کردار کشی کی مگر آخر کار وہ ناکام ہوگئے !

وزیراعظم عمران خان ! اگر ایک طرف گردشی قرضوں کے سود کی رقم ہمارے ٹیکس کے محصولات سے بھی زیاہ ہو جس کا سارا بوجھ عوام پر مہنگائی کی صورت میں پڑے اور دوسری طرف لنگر خانے کھولے جائیں تو یہ ریاستِ مدینہ ہے؟

وزیراعظم عمران خان ! پاکستان کو مدینہ کی ریاست کا ماڈل بنانے کیلئے جس طرح بیٹنگ اور بالنگ آپ کررہے ہیں، اس پرذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جب نوازشریف نےIMFسے اتنے قرضے لے لئے کہ ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ سود میں دی جانے والی رقم تھی تو ہم نے جلی حروف سے نشاندہی کردی تھی کہ نوازشریف بڑے سودی قرضے لیکر ملک میں خوشحالی نہیں بدحالی کے مرتکب بن رہے ہیںلیکن ہماری بات کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ جب رونا رویا جارہاتھا کہ دفاعی بجٹ نے پاکستان کو غریب اور بدحال بنادیا ہے تو ہم نے بتادیا کہ اصل تباہی گردشی سودی رقم کی ہے جس کا ہمیں بہت جلد خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ دفاعی بجٹ کا تعلق اپنے دشمن کا سامنا کرنے کیلئے ہوتا ہے اور گھر میں بھی جس طرح کے حالات ہوتے ہیں ،اسی طرح سے اسلحہ وغیرہ کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک آدمی کو اپنے دشمن سے اپنی جان اور اپنی عزت کے خطرات کا سامنا ہو اور دوسری طرف وہ اسلحہ رکھنے کے بجائے قیام وطعام اور حلوے مانڈے کھانے پر بہت سارا مال خرچ کرے اور اپنے پاس بندوق پِسٹل نہیں رکھے۔ یہ غیرفطری بات ہوگی۔ جب مشرقی پاکستان میں ہماری فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان کے اہل اقتدار نے ایٹم بم بنانے کا ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔
اگر ایک گھر کا سربراہ یا تجارتی کمپنی کا چیف اپنے اثاثے پر سود لینے کا سودا کرے اور وہ نقصان ہی نقصان میں جارہا ہو تو ایک دن اپنے سارے اثاثوں سے بھی ہاتھ دھو لے گا۔ یہ بہت خسارے ، شرمندگی اور بوجھ کی تجارت ہوگی۔ ہمارے اصحابِ اقتدار اپنے ملک میں یہی تجارت کررہے ہیں۔پہلے اپنے ملک کو چلانے کیلئے سودی قرضے لینے پڑتے تھے کیونکہ ٹیکس چوری کی وجہ سے ملک کا نظام نہیں چل سکتا تھا۔ کسٹم اور انکم ٹیکس کے محکموں میں نوکریاں سب سے زیادہ فائدہ مند اسلئے سمجھی جاتی تھیں کہ ان میں چوری کا پیسہ بہت زیادہ ہوتاتھا۔ سیاسی خاندان بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔ بڑے تاجروں نے بھی ٹیکس چوری کرنے کے طریقۂ واردات کا پورا پورا فائدہ اٹھانا سیکھ لیا تھا۔ ٹیکسوں پر مملکت کا نظام چلتا تھا۔ ریاست چلانے کیلئے ٹیکس ناکافی تھا تو سودی قرضہ مجبوری تھا۔
جب سودی قرضے لینا شروع ہوئے تو پھر منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بڑی بڑی رقم کی منتقلی اور جائیدادوں کی خریداری بھی سامنے آگئی۔ بہت بڑے پیمانے پر سیاستدانوں ،سول وملٹری بیوروکریسی کے اہم اہلکاروں اور ان کے آلۂ کار تاجروں نے بلیک منی سے اپنے منہ کالے کرلئے تو اچھائی اور برائی کی تمیز بھی ختم ہوگئی۔ اشرافیہ کو قرآن میں مترفین کہا گیا ہے جن کو خوشحال لوگ سمجھا جاتا ہے۔ ہردور میں اہل حق کی مخالفت اور اہل باطل کی حمایت ان لوگوں کا محبوب مشغلہ رہاہے۔ جب ہم نے مولانا فضل الرحمن، کراچی کے اکابر علماء اور بہت سارے لوگوں کو دیکھا تھا تو خوشحالوں کی فہرست میں شامل نہ تھے۔ مولانا فضل الرحمن ، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبداللہ درخواستی،مفتی محمد نعیم، مفتی رشیداحمد لدھیانوی، مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا مفتی احمد الرحمن، مولانا اسفندیار خان،مفتی زرولی خان،مولانا حق نواز جھنگوی ،مولانا مسعود اظہر، مولانا اعظم طارق اور بہت سارے مذہبی لوگ غریبوں کی فہرست کا حصہ تھے لیکن آج یہ لوگ اور ان کی اولاد اور جماعتوں کے رہنما خوشحال ہیں۔ خوشحال سے مراد روحانی اور ذہنی خوشحالی نہیں ہے بلکہ مال واسباب کی خوشحالی ہے ۔
ججوں، بیوروکریٹوں، جرنیلوں ، سیاستدانوں اور تاجروں اور مذہبی طبقات کی غربت کم ہوگئی ہے اور یہ خوش آئند ہے لیکن ملک وقوم کی بدحالی کے ذمہ دار کون ہیں؟۔سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیںاور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے غریب عوام بدحال ہیں اور یہ لوگ خوشحال ہیں یا معاملہ کچھ دوسرا بھی ہے؟۔ کسی نے کسی کے منہ سے روٹی کا نوالہ نہیں چھینا ہے مگرپھر بھی مڈل کلاس ختم ہوگئی ہے ۔ایک طرف امیر طبقات ہیں جو ساتویں آسمان تک پہنچ چکے ہیں اور دوسری طرف غریب غرباء ہیں جو زمین کے ساتویں طبق میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ جب مڈل کلاس کا گزارہ مشکل ہوگیا ہے تو غریب کس حال پر پہنچے ہوں گے؟۔ آنے والے حالات زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔
اس سے پہلے پہلے کہ عدالت، فوج، سیاستدانوں، سول انتظامیہ، پولیس، بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھوں سے تمام حالات نکل جائیں اور غریب بہت بڑا طوفان برپا کردیں جس سے ایسی افراتفری پھیل جائے کہ سب کا سکون بھی غارت ہوجائے ،کوئی ایسا فارمولہ قوم وملک اور سلطنت کو دیا جائے جس سے ہم ایک اچھے نتیجے پر پہنچنے کی امید کرسکیں۔ اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ ہمارا تمام ٹیکس تقریباً سود کے مد میں جاتا ہے اور ریاست وحکومت کو چلانے کیلئے مزید سودی قرضے بھی لینے پڑتے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی طرف سے ایک کروڑ نوکری کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو بے روگاز کیا جائے گا۔
کامریڈ لعل خان نے کہا تھا کہ ” ہماری فوج میں اب یہ صلاحیت باقی نہیں رہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کیلئے لڑسکے۔ اس میں مارشل لاء لگانے کی صلاحیت بھی ختم ہوچکی ہے اسلئے کہ اس کا کردار پٹواری، آڑھتی اور دلالوں کی طرح ہے۔ یہ انتہائی کرپٹ ہوچکی ہے۔ کرپٹ لوگوں میں عزت کی خاطر لڑنے مرنے کا کوئی جذبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اب یہ پیسے بنانے میں لگ چکی ہے”۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں اسلامی سکالر کے سامنے علامہ اقبال کے شاہین کا ذکر کیاہے ۔ ہمارے وزیرستان میں ایک طرف ہماری فوج اور طالبان کے لوگ سرکاری کاموں میں بھتے وصول کرنے میں مصروف ہیں اور دوسری طرف چیک پوسٹوں پر فوجی جوان دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان بہت بڑا سانحہ تھا لیکن اس وقت بھی غیرت کا مظاہرہ ہماری فوج نے اسلئے نہیں کیا تھا کہ اپنے بنگالی بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی اور سیاسی جماعتوں کو غیر مؤثر بنانے کیلئے لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کیلئے راہ ہموار کردی اور کٹھ پتلی سیاستدان متعارف کرائے تھے۔ جنرل حمیدگل نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر انتقامی جرنیلی انتشار تشکیل دیا تھا اور عمران خان کی تحریک انصاف کے بانی بھی وہی تھے۔
نوازشریف اور عمران خان ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ دونوں نے پاک فوج کا بیڑہ غرق کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس ”خشکی وسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے”۔یہ سب کرتوت ہماری ایجنسیوں کے ہی اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جنہوں نے بنگلہ دیش کھو دیا۔ کشمیر کو آزاد نہیں کراسکے مگر روس اور امریکہ کو شکست دینے سے لوگوں کو ورغلارہے ہیں۔ ایک طرف میڈیا کا ایک مافیا نوازشریف کو سپورٹ کرنے کیلئے جھوٹ کے طوفان کھڑے کرتا ہے اور دوسری طرف کا میڈیا مافیا پاک فوج کے سر پر جھوٹ کے ہما بٹھا رہاہے۔
لعنت اللہ علی الکاذبین ” جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو” کا جملہ قرآن کی تلاوت میں مسلمان بڑے پیمانے پر پڑھتے ہیں اور اللہ کے فرشتے دن رات جھوٹوں پر لعنت بھیج کر ان کو اپنے انجام تک پہنچانے کا انتظار کررہے ہیں۔
پاکستان کے ہر طبقے میں اچھے لوگوں کی بالکل بھی کمی نہیں ہے۔ جنہوں نے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کیا ہے اس میں کوئی خاص طبقہ سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاستدان ملوث نہیں ہے بلکہ سب کو اللہ تعالیٰ نے مواقع دئیے ہیں اور سب میں اچھے اور برے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔سب کو اپنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ عمران خان ایک کرکٹر ہے اسلئے فلسفے جھاڑنا اس کی فیلڈ نہیں ہے۔
قوم کو سودی قرضے بڑھانے اور لنگر خانے کھولنے سے غیرتمند نہیں بنایا جاسکتا ہے۔جاوید ہاشمی سینئر سیاستدان ہیں ۔ جماعت اسلامی سے مسلم لیگ اور پھر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے۔ ہاشمی صاحب کہتے تھے کہ ہم اپنے سیاسی قائدین کے مزارع نہیں ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک مزدور ، نوکر اور مزارع میں کیا فرق ہوتا ہے۔ افغانی ایک دوسرے کو طعنہ دیتے ہیں کہ” تم پنجاب کے مزدور ہو”۔ ” امریکہ کے نوکر ہو”۔ اپنے ملک وقوم کی مزدوری اور نوکری میں ہر کوئی فخر محسوس کرتا ہے لیکن اغیار کی مزدوری ونوکری میں عار محسوس کرتا ہے۔ پاکستان کے بعض مردہ ضمیر لوگوں کی بات میں نہیں کرتا ہوں جو ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم نے نیٹو کو شکست دی ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے نیٹو کیلئے صف اول کی خدمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن میں منافقوں کیلئے فرمایا ہے کہ ” نہ یہ ادھر کے ہیں ،نہ ادھر کے۔ بس درمیاں میںتذبذب کا شکار ہیں”۔ لیکن مزارعت گھناؤنا فعل ہے جو بہت زیادہ مجبور نہ ہو تو وہ کسی کا مزارع نہیں بن سکتا ہے۔ اسلام نے مزارعت کو ختم کیا تھا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بریلوی دیوبندی حنفی اہل حدیث اور اہلسنت و اہل تشیع ڈیرہ اسماعیل خان، مولانا فضل الرحمان اور دیگر نامور علمائے کرام اور مفتیوں کا اجلاس بلائیں، اور مجھے بلا کر لوگوں کی جانیں بچائیں۔ حلالہ کی لعنت

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

ڈیرہ اسماعیل خان کے دیوبندی بریلوی ، حنفی اہلحدیث اوراہلسنت واہل تشیع مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابرعلماء ومفتیان کا اجلاس بلائیں اورمجھے طلب کریں،تاکہ حلالہ کی لعنت سے عوام کی جان چھڑائیں!

جب طلاق کی واضح آیات پر علماء ومفتیان کی غلط فہمی دور ہوگی تو مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اورقادیانیوں کا بھی بیڑا غرق ہوجائیگا

محترم السلام علیکم_
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے موضع شور کوٹ کے ایک مولوی کا جو اپنے آپ کو مفتی کہتا ہے دیا گیا ایک فتویٰ بھیج رہا ہوں تسلی فرما کر قرآن و سنت کے مطابق جواب عطا کرکے عند اللہ ماجور فرمائیں۔ جبکہ جس نے طلاق دی وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے بیان میں قرآن پاک کا تذکرہ نہیں کیا تھا اور نہ اس وقت اس مولوی کے ساتھ کوئی دوسرے علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ اصل میں اس مفتی کے فتوے کو رد کرنا ہے کیونکہ اس مولوی نے پورے شہر میں کہا کہ اگر یہ لوگ نکاح ثانی بغیر حلالہ کے کرتے ہیں تو عورت مرد زنا کے مرتکب ہوں گے اور زانی سے ہر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ اب یہ لوگ پریشان ہیں۔ شکریہ۔ و السلام
از محمد ادریس علوی صوبائی جنرل سیکریٹری تحریک استقلال پاکستان خیبر پختونخواہ

_ بسم اللہ الرحمن الرحیم_
الاستفتا ء :کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین کہ بقول غلام صمدانی اس نے اپنی زوجہ ہاجرہ بی بی کے مطالبہ پر بایں صورت کہ زوجہ نے شوہر کی گود میں قرآن رکھا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ اب غلام صمدانی نے علماء کے سامنے اور اپنی زوجہ کے سامنے دوران بیان اقرار کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیں اور اس کی بیوی منکر ہے کہ بعض الفاظ میں نے نہیں سنے۔ اور اس کی بیوی رو رہی تھی اور غلام صمدانی مسلسل اپنی زوجہ کے سامنے مذکورہ بیان دیتا رہا۔ ان بیانات پر حکم شرع بیان فرمائیں۔

_ الافتا ئ_
صورت مسئولہ میں عدت بائنی مغلظہ ہے۔ اور بلا تحلیل کے زوج اول حلال نہ ہوگی۔ کما فی التنزیل :فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ الآیہحضرت عبد اللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا۔ اور آپ حضرات نے جواب دیا ۔فقالا لانری ان تنکحھا حتی ……
حررہ سنی حنفی قادری ۔آل رسول محمد شعیب شاہ گیلانی ۔
مدرس فیضان مدینہ، خادم العلماء و الافتائ۔ خادم جامعہ غوث الاعظم دستگیر۔ شور کوٹ ۔ ڈیرہ اسماعیل خان ۔

محترم ادریس علوی صاحب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
صورت مسئولہ میں شرعاً حنفی وشافعی ، دیوبندی ،بریلوی اور دیگر تمام مسالک کے نزدیک بیوی کی رضامندی کیساتھ رجوع کرنا قرآن وسنت کاحکم ہے اور حلالہ کی لعنت قرآن وسنت کے خلاف قطعی طور پر حرام ہے۔ قطعی دلائل یہ ہیں کہ
علامہ ابن قیم اپنی کتاب ” حکم رسول اللہۖ فی الخلع ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: وثبت بالسنة واقوال الصحابة أن العدة فیہ حےة واحدة و ثبت بالنص جوازہ بعد الطلقتین و وقوع ثالثة بعدہ و ھذا ظاہر جدا فی کونہ لیس بطلاق فانہ سبحانہ تعالیٰ قال:الطلاق مرتان فامساک بمعروف أو تسریح باحسان ولایحل لکم أن تأخذوا مما ء اتیتموھن شیئا الا ان یخافا االا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ]البقرة:٢٢٩[وھذا ان لم یختص بالمطلقة تطلیقتین فانہ یتناولہا غیرھما ولا یجوز أن یعود الضمیر اِلی من لم یذکر ویخلی منہ المذکور اِ ما ان یختص بالسابق أو یتنالہ و غیرہ ثم قال فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد وھذایتناول من طلقت بعد فدیة و طلقتین قطعاً لأنھا ھی المذکورة فلا بد من دخولھا تحت اللفظ وھکذا فھم ترجمان القرآن الذی دعا لہ رسول اللہۖ أن یعلمہ اللہ تأویل القرآن و ھی الدعوة مسجابة بلا شک زاد المعاد جلد ٤،ص١٧
اس عبارت میں حنفی مسلک کے خلاف خلع کو طلاق سے علیحدہ چیز بتایا ہے اوراس میں سنت، صحابہ کے اقوال اور قرآن کے نص کی دلیل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور عبارت کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ” آیت تحلیل میں مذکورہ عورت جس کو طلاق دی گئی ہو فدیہ اور دو مرتبہ طلاق کے بعد قطعی طور پر اسلئے کہ اس کو تحت اللفظ کے تحت داخل کئے بغیر چارہ نہیں اور اسی طرح کا فہم حضرت عبداللہ ابن عباس ترجمان القرآن ہے جس کو نبیۖ نے دعا دی تھی کہ اللہ اس کو قرآن کا علم دے اوروہ دعا بلا شک قبول ہوئی ہے۔ زادالمعاد ج4ص17
علامہ ابن قیم نے یہاں اس عبارت میں احناف کے مقابلے میں امام شافعی کے مسلک کی خلع کے حوالے سے حمایت کی لیکن پھر بھی فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ الآیہ کو اس سے پہلے فدیہ اور دومرتبہ طلاق کیساتھ ہی نتھی کردیا۔ اور اس کیلئے حضرت ابن عباس کے فہم کا حوالہ بھی دیدیا۔ جبکہ حنفی مسلک کی اصول فقہ کی کتابوں میں بھی اس آیت کو فدیہ کیساتھ ہی منسلک کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ اس آیت میں مذکور طلاق کا تعلق احناف کے نزدیک بھی فدیہ کی صورت سے ہی ہے۔
حضرت ابن عباس کی طرف یہ بھی منسوب ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دیتے تھے اور بعض شاگردوں نے یہ بھی کہا کہ جب کسی شخص نے پوچھا کہ میں نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی تھیں تو ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ اس کو اس کی بیوی لوٹادیں گے لیکن اس نے کہا تمہاری بیوی تم سے الگ ہوچکی ہے کیونکہ تو نے اللہ کا خوف نہیں کھایا اور جس چیز میں رعایت تھی اس کا غلط استعمال کیا۔
ابن عباس کے دونوں قسم کے فتوؤں کے تضاد میں یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع کا حکم ہے ا ور جب رجوع کیلئے راضی نہ ہو تورجوع حرام ہے اور یہ صرف آیت230البقرہ کا تقاضہ نہیں بلکہ آیت228،229اور231،232البقرہ اور سورۂ طلاق آیت1،2 کا بھی یہی حکم ہے۔ صورت مسئولہ میں عورت راضی ہو توحلالہ کئے بغیر رجوع کا حکم قرآن وسنت سے ثابت ہے اور عورت راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے رجوع حرام ہے۔ صحابہ کرام، ائمہ عظام کا قرآن کے واضح احکام پر اجماع تھا اور اسکو بعد میں نااہل لوگوں نے غلط رنگ میں پیش کرکے نااہلی کا ارتکاب کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک سے حلال کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہم نے فتویٰ جاری کیا ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

پاکستان اور دنیا بھر کے اکثر ممالک سے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے بہت سوں کو ہم نے فتویٰ دیا اور بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث علماء ومفتیان اپنے مسلک کے برعکس قرآن وسنت کی تائیدکر رہے ہیں

_ سورۂ طلاق اور حدیث پاک_
صفحہ نمبر ایک پر سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کا بالکل سادہ مفہوم لکھ دیا ہے تو کیا حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے؟۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب یہی ہے کہ دورجاہلیت میں مذہبی گدھوں نے طلاق کے شرعی تصور کا حلیہ بالکل بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک ایسی فضاء تھی کہ اس سے نکالنے کیلئے قرآن کریم کو ایک ایک بات پر زبردست وضاحتوں سے کام لینا پڑا تھا۔ جب ایک غلط چیز معاشرے میں سرایت کرجائے اور معاشرہ اس سے متأثر ہوجائے تو بہت مشکل پڑتی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے اللہ کی وحی کو بھی اپنی آخر حد تک جانا پڑتا ہے۔
حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو وہ آیت انہیں کافی ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! وہ کون سی آیت ہے؟۔ تو آپ ۖنے فرمایا:
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا (الطلاق:2) اور جو اللہ سے ڈرا تو اللہ اس کیلئے راستہ بناتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:4220، صحیح ابن حبان) تفسیر تبیان القرآن ،ج12، صفحہ69۔ علامہ غلام رسول سعیدی)
جب نبی کریم ۖ نے طلاق کی دوسری آیت کو اتنی اہمیت دی ہے تو اس میں صرف تقویٰ کی بات نہیں ہے کیونکہ تقویٰ کا ذکر تو بہت سی آیات میں ہے۔ سورۂ طلاق کی آیت2میں طلاق کے تمام مسائل کا حل ہے۔ جس میں قرآن کی وضاحتوں کے مطابق طلاق دینے اور پھر اس سے رجوع کیلئے راستہ کھلا رکھنے کا معاملہ ہے۔ پہلا معاملہ یہ ہے کہ طلاق مرحلہ وار دی جائے، دوسرا معاملہ یہ ہے کہ عورت کواس کے گھر سے نہ نکالا جائے اور نہ وہ خود نکلے۔ تیسرا معاملہ یہ ہے کہ عدت کی تکمیل تک پہنچنے پر معروف رجوع یا معروف الگ کرنے پر عمل کیا جائے ۔اور اس میں عورت کے مال کو تحفظ فراہم کیا جائے اور پھر بھی رجوع کے دروازے کو کھلا رکھا جائے اور یہ نبیۖ کا لوگوں کیلئے کافی ہونے کا فتویٰ ہے۔
حضرت رکانہ کے باپ نے رکانہ کی والدہ کو طلاق دی اور دوسری عورت سے شادی کرلی، اس نے رکانہ کے نامرد ہونے کی شکایت کردی تو نبیۖ نے فرمایا کہ رکانہ کے بچے اس سے کس قدر مشابہہ ہیں اور پھر اس عورت کو چھوڑنے کا حکم دیا اور حضرت رکانہ کی والدہ سے رجوع کا حکم فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی۔ ( سننن ابوداؤد شریف)
قرآن میں جتنی وضاحت کیساتھ طلاق اور اس سے رجوع کے احکام ہیں اور اس سے امت مسلمہ نے غفلت اختیار کررکھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بجا فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے رسول ۖ امت کے خلاف یہ شکایت فرمائیں گے کہ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ طلاق سے رجوع کیلئے سورۂ طلاق کی آیت2بھی امت کیلئے عمل کی کافی دلیل ہے۔کاش علماء ومفتیان اس پر عمل کا فتویٰ دیکر امت کا کافی بھلا کریں۔

_ قرآن کے تراجم میں گمراہی_
شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اورشیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی تفاسیر اور تراجم میں بھی تضادات ہی تضادات ہیں۔ اسی طرح مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا پیر کرم شاہ الازہری اور علامہ غلام رسول سعیدی کی تفاسیر اور تراجم میں تضادات ہی تضادات ہیں۔ اگر کسی ایک مکتب فکر ،مسلک اور فرقے کے علماء ومفتیان میں قرآن کے ترجمے پر بھی بنیادی تضاد ہو تو اس سے ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟۔
وجہ اس کی یہی ہے کہ قرآن کا سادہ ترجمہ اور تفسیر انکے مسلکوں پرپورا نہیں اترتی ہیں۔1973ء کو ہندوستان میں ”ایک مجلس کی تین طلاق ”پر سیمینارمنعقد ہوا۔ جس کی صدارت دیوبندی مکتب کے مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی ۔ اس میں جماعت اسلامی، بریلوی مکتب، اہلحدیث اور دیوبندی مکتب کے اکابر علماء و مفتیان نے شرکت کرکے اپنے اپنے مقالے پڑھے تھے اور یہ پاکستان سے بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ جس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کا کتا بچہ” دعوت فکر ” بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان میں حلالے کی لعنت سے جان چھڑانے کی زبردست کوشش کی گئی ہے اور اس کو ایک جرأتمندانہ اقدام قرار دیا گیاہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے تراجم اور تفاسیر میں جو بہت فاش غلطیاں کی گئیں ہیں تو ان کا ازالہ کئے بغیر امت مسلمہ کی درست رہنمائی ممکن نہیں ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ” آسان ترجمۂ قرآن ” میں عربی کے الفاظ میں بھی کھلم کھلا تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ اذابلغن اجلھن کے الفاظ قرآن میں متعدد بار آئے ہیں۔ سورہ ٔ بقرہ کی آیات231،232،234میںاور سورۂ طلاق آیت2میں ایک ہی لفظ کا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے مطلب کیلئے پہلی مرتبہ متضادترجمہ کیا ہے۔ تکاد السمٰوٰت ُ من فوقھن والملئکة یسبحون بحمد ربہم ویستغفرون لمن فی الارض (الشوریٰ آیت:5) کی تفسیر میں احمق نے لکھ دیا ہے کہ ” فرشتے اتنی تعداد میں آسمان میں عبادت کرتے ہیں کہ قریب ہے کہ آسمان ان کے وزن سے پھٹ جائے اور نیچے گر جائے”۔
جب سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر عوامی دباؤ پڑا تھا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ” تکملہ فتح الملہم ” اور”فقہی مقالات جلد4” سے اس کو روزنامہ اسلام اخبار اور ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں نکالنے کا اعلان کردیا تھا۔ گھوڑے کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے اور گدھوں کو مارپیٹ اور تشدد سے راستے پر لایا جاتا ہے۔ قرآن میں توراة کی تحریف کے مرتکب یہود کے علماء کی مثال بھی گدھے سے دی گئی ہے۔اردو میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کی ماں بہن ایک کردی ہے۔ یعنی اس گالی کو کسی کی حالت بری کردینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پشتو زبان میں کسی کی حالت بری کرنے کیلئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ اسکی بیوی……… دی ہے۔ حلالہ کے نام پر علماء ومفتیان نے امت مسلمہ کیلئے وہی عمل کردیا ہے جو پشتو کی گالی ہے۔ اسلام کے نام پر کسی کو بیوی کی لعنت کا شکار کرنے سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ مگر امت پھر بھی غیرت نہیں کھاتی ہے۔

قرآن کریم کے بہت واضح حقائق
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کے ترجمے وتفسیر میں بھی علماء ومفتیان اور نام نہاد اسلامی دانشوروں کے تضادات ہی تضادات ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کا مسلک، عقیدہ اور نظریہ قرآن کے الفاظ پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اپنے لئے قرآن کے الفاظ کا مفہوم بدلنا کتنی بڑی گمراہی ہے؟۔ علامہ اقبال نے کہا: خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک دو رکوع کے مضامین اور232تک جتنی وضاحتوں کیساتھ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مسائل بیان فرمائے ہیں اور طلاق سے رجوع کیلئے جس طرح کی بھرپور وضاحتیں کردی ہیں،اگر قرآن کے مسائل کو قرآن ہی کے ذریعے سمجھنے کو اولیت دی جائے، جس طرح فقہ حنفی میں درسِ نظامی کی تعلیمات کادرست خلاصہ بھی ہے توپوری دنیا میں ہدایت کا ایک ایسا انقلاب آسکتا ہے جس کی خوشخبری رسول اللہۖ نے فرمائی ہے کہ اس سے آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ یہ دنیا کی پہلی خلافت اور نبیۖ کا وہ خواب ہوگا جو کھلی آنکھوں سے نبی کریم ۖ کو اللہ نے معراج میں دکھایا تھا۔ جس مشاہدے میں نبیۖ نے تمام انبیاء کرام کی بیت المقدس میں امامت کی تھی۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں واقعہ معراج کا ذکر ہے ۔ اللہ نے قرآن وسنت کے ذریعے اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ دلانا ہے۔ جس کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت60میں دوچیزوں کو امت کی آزمائش قرار دیا گیا ہے ،ایک نبیۖ کے خواب کو جو دن کے غالب کرنے کا وژن تھا اور دوسرا قرآن میں شجرۂ ملعونہ کو آزمائش کا سبب قرار دیا گیاہے ۔
سورۂ بقرہ کی230میں جس طلاق کے بعد حلالہ کئے بغیر پہلے شوہر سے رجوع نہ کرسکنے کی کھلی وضاحت ہے تو یہ امت کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر اس سے پہلے کی آیات228،229اور بعد کی آیات231اور232کو نظر انداز کرکے حلالہ کی لعنت کا حکم دیا جائے توپھر یہ امت مسلمہ کیلئے بہت بڑی خرابی، قرآن کو چھوڑنے کے علاوہ بہت بڑی بے غیرتی کا باعث ہے۔ اُمت مسلمہ کے زوال کی ابتداء وہاں سے شروع ہوئی تھی جب سورۂ نور کی آیات میں لعان کے حکم پر اسلئے عمل نہیں کیا گیا کہ مشرقی غیرت کے تقاضوں کے خلاف تھا اور اس کے زوال کی انتہاء اس وقت شروع ہوئی کہ جب قرآن میں شجرہ ملعونہ کے ذکر حلالہ کی لعنت کو سیاق وسباق کے بغیر لوگوں پر مسلط کیا گیا اور بے غیرت لوگوں نے قرآن وسنت کی طرف توجہ کرنے کی جگہ اپنی بیگمات کی عزتیں بھی پہلے چھپ کر اور اب کھل کرلٹواناشروع کردیں۔
سورہ بقرہ کی ان آیات میں اول سے آخر تک باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کرنے کی زبردست گنجائش بلکہ واضح حکم ہے اور حلال نہ ہونے سے پہلے وہ صورت ہے جس میں نہ صرف میاں بیوی بلکہ جدائی کا فیصلہ کرنے والے سب لوگ اس پر اتفاق کریں کہ آئندہ رابطے کی بھی ان دونوں میں کوئی صورت باقی نہ رہے، جس میں صلح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔

_ بے غیرتی کی انتہاء کا یہ آغاز_
آج سے تقریباً21،22سال پہلے جب میں جامعہ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں پڑھتا تھا تو طلاق اور حلالے کے فتوے نام کے بغیر دئیے جاتے تھے۔ ایڈریس کیساتھ حلالے کا فتویٰ بہت قریب کے دور میں شروع ہوا ہے۔ کس کی بیوی کا حلالہ ہوا؟۔ کس کی تحویل میں کس نے حلالہ کیا؟۔ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں پڑتی تھی۔ شرافت رکھنے والے علماء اور عوام اس کا تذکرہ بھی بہت معیوب سمجھتے تھے۔ پھر کھلم کھلایہ بے غیرتی شروع ہوئی اور حلالہ سینٹروں کی دنیا بھر میں بھرمار ہوئی اور مدارس کے علماء ومفتیان نے ایڈریس اور شناختی کارڈ کیساتھ فتوے دینے شروع کردئیے۔
1947سے1988تک پاکستانIMFکے قرضے سے آزاد تھا اور پھر2004سے2008تک پھرIMFکے سودی قرضوں کا غلام بن گیا۔ ”موت کا منظر ”نامی کتاب بہت عام ہے اور سن1970ء کی دہائی میں مجھے اس کے پڑھنے کا موقع ملا تھا، اس میں زنا بالجبر کی سزا کا ذکر ہے کہ نبیۖ نے ایک عورت کی گواہی قبول کرکے اس شخص کو سنگسار کرنے کا حکم دیا جس نے اس کا ارتکاب کیا تھا۔ قرآن کی سورۂ احزاب میں بھی عورتوں کی بے حرمتی کرنے پر ملعونوں کو جہاں پایا جائے ،ان کو پکڑ کر قتل کرنے کی سزا کا حکم پہلی امتوں کے حوالے سے بھی اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے۔ جب کوئی اپنے مال پر ڈاکہ ڈالنے والے ڈکیت کو قتل کرتا ہے تو داد پاتا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ اگر گھر میں داخلے پر چور کو قتل کیا جائے تو اس کا گھر والے کو حق ہے۔ پھر کون اتنا بے غیرت ہوگا کہ کسی عورت کی عزت زبردستی سے لوٹی جائے اور وہ عدالتوں سے سزا دلوانے کیلئے4گواہوں کو پیش کرے؟۔ ایسے لوگوں کو قتل کرنا ہر قوم ومذہب اور ہردور کا تقاضہ تھا۔ جس قانونِ فطرت کی قرآن نے بھی وضاحت کردی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جسٹس مفتی تقی عثمانی نے حدود آرڈنینس کے نام پر ”یہ قانون” بنایا تھا کہ ” اگر کسی عورت پر زنا بالجبرہو اور اس کے پاس4باشرع مرد صالح گواہ نہیں ہوں تو اس کو حدقذف کے تحت سزا دی جائے گی”۔ جب پرویزمشرف کے دور میں بہت سی خواتین اسلئے جیل میں بند تھیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف شکایت کی تھی تو اس قانون کو بدل دیا گیا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور جماعت اسلامی نے پمفلٹ شائع کرکے شور شرابہ کرنیکی کوشش کی تھی مگر میں نے اس کا مدلل جواب لکھ کر خاموش کردیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے ۔2006ء میں یہ قانون تبدیل ہوگیا مگر اب پھر جناح کے مزار میں زیادتی کا شکار ہونے والی پنجاب کی بیٹی کے مجرموں کو اسی پہلے قانون کے تحت باعزت رہا کردیا گیا ہے، حالانکہ اس عورت نے مجرموں کو پہچان لیا تھا اور ان کاDNAسے بھی ثبوت ملا تھا۔ عالمی دباؤ کے تحت اگر قرآن وسنت کے مطابق پاکستان جبری زیادتی کرنے والوں کو قتل اور سرِ عام سنگسار کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تو کم ازکم حلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کی جان چھڑانے میں کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں ہے۔ اندر ونی صفحات پر تسلی بخش دلائل ملاحظہ کریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کے مسائل کا بگاڑ۔ مولانا فضل الرحمان ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ علمائے دیوبند اور بریلوی پہل کریں۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر3
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

اب ہم کو قرآنی آیات اور طلاق سے رجوع کے احکام کو نظر انداز کرنے کی روش سے کھل کر توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے

جب ایک عورت پر حلالہ کی مصیبت پڑتی ہے تو اس کے پاؤں سے زمین بھی نکل جاتی ہے اور آسمان بھی سایہ فگن نظر نہیں آتا ہے۔ جب حضرت مریم نے بچے کی خوشخبری سنی تھی تو اس نے فرمایا تھا کہ ” کاش مجھے ماں نے جنا نہیں ہوتا اور میں نسیاً منسیا بھولی بسری بن جاتی”۔ حال ہی میں جب ایک19سالہ لڑکی کو ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا مژدہ سنایا گیا تو اس نے خود کشی کرلی تھی۔ جس عورت کا حلالہ کیا جاتا ہے تو وہ اور اسکے خاندان والے ویسے بھی زندہ زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں دو قسم کے لوگ تھے ،ایک بے غیرت تھے جن کی خواتین سے ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر حلالہ کی لعنت کروائی جاتی تھی اور دوسرے غیرتمند خاندان ہوتے تھے جن کی بیویوں کو ایک ساتھ تین طلاق پر اپنے شوہروں سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیا جاتا تھا۔ جن عورتوں کا حلالہ کروایا جاتا تھا ،ان کا معاملہ اور مثال زندہ دفن کرنے کے مترا دف ہی ہوتا تھا۔
قیامت میں ہمیشہ کیلئے جدا کئے جانے والوں کو ملایا جائیگااورزندہ دفن کئے جانے والی سے پوچھا جائیگا کہ کیوں زندہ دفن کیا گیا؟۔ واذا النفوس زوجتOواذالمو ء ودة سئلتOبای ذنب قتلت۔ آج یہاں دوبارہ دورِ جاہلیت کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ کسی مولوی، کسی لیڈر اور کسی بڑے شخص کی بیگم ، ماں، بیٹی اور بہن یا کسی قریبی رشتہ دار کا حلالہ کروایا جائے تو اس کو یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ زمین میں زندہ دفن ہونے کے مترادف ہے یا نہیں؟۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو اَنعام یعنی چوپاؤں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ جن وحشیوں کے نزدیک حلالہ کی لعنت ایک سزا ہے اور جرم مرد کرتا ہے اور اس کی سزا عورت کو ملتی ہے تو ان وحشیوں کو ایک دفعہ یہاں بھی جمع کرنا چاہیے تاکہ قیامت سے پہلے ایک قیامت اور جزا وسزا کا میدان سج جائے۔
کیا کوئی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شوہر کے جرم میں اس کی بیوی کو کسی اور شوہر کے ذریعے ریپ کرنے کی سزا دے سکتا ہے؟۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے تمام حدود معطل ہیں۔ زانی، چور، ڈکیت ، قاتل اور زنابالجبر کے مرتکب کو کوئی سزا نہیں دی جاتی ہے لیکن حلالہ کی لعنت کو شرعی سزا کے طور پر جاری رکھا ہواہے۔ ایک عرصہ سے مختلف کتابوں ،اخباراور ویڈیو کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز سے یہ کام لیا ہے جس پر اللہ کے اس بڑے فضل کا بہت شکرادا کرتا ہوں لیکن بڑے بڑے لوگ میدان میں کیوں نہیں آتے ہیں؟۔ پاکستان میں اہل حق کا دعویٰ کرنے والے اور بھی بہت لوگ ہیں مگر اس طرح سے ہمارا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ میرے چند ساتھی ہی میرا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ہمارامشن اتنا بڑا ہے جتنا ہم اپنے اللہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور ہمارا مشن قرآن ہے جس کو رب العالمین نے اتارا ہے اور ہمارا نبی خاتم النبیین ۖ ہیں جو رحمة للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ حلالہ ایک لعنت اور زحمت ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ ” اپنے عہدوپیمان کو ڈھال مت بناؤ کہ نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ البقرہ : آیت224
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام الفاظ اور عمل کو نیست ونابود کردیا ہے جو میاں بیوی کے درمیان صلح کے اندر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کا سبب بن جائیں۔ اس سے اگلی آیات میں الفاظ کی جگہ دل کے گناہ پر پکڑکی وضاحت ہے اور پھر طلاق کا اظہار کئے بغیر عورت کے انتظار کی عدت چار مہینے بتائی گئی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم تھا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت کی عدت میں ایک مہینے کا اضافہ ہے اور اگر طلاق کااظہار کردیا توپھر عورت کی عدت تین مہینے ہے۔ دیکھئے آیات225،226،227،228
اللہ کیلئے عورت کی عدت میں بے جا ایک مہینے کا اضافہ بھی قابل قبول نہیں ہے اسلئے کہ اگر طلاق کا ارادہ تھا لیکن اسکا اظہار نہیں کیا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔
احناف کے نزدیک چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا۔ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کے الفاظ کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا تو شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت اس کے نکاح میں ہی رہے گی۔ جمہور نے تو چار مہینے کی وضاحت کا لحاظ بھی نہیں رکھا تھا اسلئے ان کی گمراہی میں شک کی گنجائش بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن احناف نے بھی چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق پڑنے کا مسئلہ بنایا ہے جس کے بعد عورت کو مزید عدت بھی گزارنی پڑے گی اسلئے وہ حق کے قریب ہونے کے باوجود بھی گمراہی کا راستہ نہیں بھولے ہیں اور امام مہدی کے انتظار میں ہدایت کے منتظر ہیں۔
بڑی ضلالت اور گمراہی یہ ہے کہ قرآن کی وضاحت کے باوجود اتنے بڑے تضادات کا کیسے شکار ہوئے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کی عدت کا تعین کیا ہے اور عورت ہی کا حق بیان کیا ہے لیکن یہ الو کے پٹھے اس بات پر لڑتے ہیں کہ شوہر کا حق استعمال ہوا ہے کہ نہیں؟۔ اگر یہ اس بات پر توجہ دیتے کہ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کے حق کا ذکر کیا ہے تو اس روشن آیت پر تضادات تک نوبت نہ پہنچتی۔ جب عورت کی عدت بیان ہوئی ہے تو پھر عورت کیلئے چار ماہ کا انتظار ضروری ہے اور اس میں بھی عورت کی رضامندی سے ہی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت مکمل ہونے کے بعد اگر عورت پھر بھی اسی شوہر کیساتھ رہنا چاہتی ہو تو اوراس کا شوہر بھی راضی ہو تو کتنی ہی مدت گزرجائے تونکاح بحال ہے اور اگر عورت عدت کی تکمیل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو اس شوہر کیلئے پھر عورت پر پابندی لگانا حرام ہے اور اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ دوسرے شوہر ہی سے عورت اپنی مرضی سے نکاح کرلے۔ جس طرح بیوہ عورت کی مرضی ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد اپنے مردہ شوہر سے نکاح بحال رکھنا چاہتی ہے یا پھر نئے شوہر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرتی ہے۔ اسی طرح ناراضگی کابھی اسے بدرجہ اولیٰ یہی حکم ہے۔ کاش قرآن کے احکام کو سمجھ کر فیصلے کئے جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت228میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے ایک حیض کی صورت میں عدت کے تین مراحل تک عورت کو انتظار کا حکم دیا ہے اور حمل کی صورت میں حمل کو چھپانے سے منع کیا ہے اسلئے کہ پھر عدت حمل ہے۔ دوسرا یہ کہ عدت کے دوران شوہر کو اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تیسرا یہ کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق کو برابر قرار دیا گیا ہے لیکن مردوں کو ان پر ایک درجہ عطاء کیا گیا ہے۔ ایک درجہ یہی ہے کہ عورت کی عدت ہوتی ہے اور مردکی عدت نہیں ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ دو، تین اور دس درجات نہیں دئیے گئے۔
آیت کا پہلاتقاضہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں تین مرتبہ طلاق کا فعل خود بخود وارد ہوگا اور حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل اور تین مرتبہ طلاق کے فعل کا کوئی اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری کی احادیث میں نبیۖ نے یہی وضاحت فرمائی ہے جو کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں موجود ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں بھی اسی کی وضاحت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229میں الطلاق مرتان کے بعد تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں تضادات کی جھک ماری گئی ہے۔
آیت229البقرہ میں تینوں طلاق قرآن واحادیث اور انسانی فطرت سے ثابت ہیں کیونکہ قرآن وسنت میں طلاق کو ایک فعل بتایا گیا ہے اور پہلی مرتبہ کا طہر و حیض عدت کا پہلا مرحلہ اورپہلی مرتبہ کی طلاق ہے، دوسری مرتبہ کا طہروحیض عدت کا دوسرا مرحلہ اور دوسری مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسری مرتبہ کاطہروحیض عدت کا تیسرا مرحلہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ لیکن ان تینوں مرتبہ کی طلاق سے بھی حرمت غلیظہ ثابت نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے دوسرے شوہر سے اس کا نکاح کرانا ضروری ہو۔ احناف کے نزدیک البقرہ آیت226کے چار مہینے میں طلاق کااظہار کئے بغیر بھی طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے اور اگر عورت حیض والی ہو تو تین مرتبہ کی جگہ چار مرتبہ طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے لیکن اس سے حرمت مغلظہ ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حرمت مغلظہ کا سبب ہی قرآن میں کچھ اور ہے۔
امت کی بڑی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ آیت229میں تین مراحل کے اندر تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا ذکر ہے کہ ان کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے بھی اپنی نری جہالت کی وجہ سے عورت کی طرف سے اس مجبوری کے فدیہ کو خلع کا معاوضہ قرار دیا ۔ حالانکہ یہ کتنی بھیانک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ طلاق کے بعد یہ وضاحت کی ہے کہ شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ یہی بات سورۂ النساء کی آیات20اور21میں طلاق کے حوالے سے اللہ نے کی ہے اور خلع کا حکم سورہ النساء آیت19میں بالکل واضح ہے۔آیت229البقرہ میں تین مرتبہ طلاق کے بعددی ہوئی کسی بھی چیز کو واپس لینا حلال نہ ہونے کی وضاحت ہے لیکن اس صورت میں یہ استثناء ہے کہ جب اس چیز کی وجہ سے دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے، اور اس کاتعلق دونوں کے میل ملاپ سے ہے۔ جب عورت اور شوہر کا ازدواجی تعلق ختم ہوجائے تو پھر شوہر کی دی گئی کسی چیز کی وجہ سے میل ملاپ اور دونوں کا اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ کس قدر کم بختی اور بدقسمتی کی بات ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کو تحفظ فراہم کیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے فعل اور علیحدگی کے حتمی فیصلے کے بعد عورت سے شوہر وہ کوئی بھی چیز نہ لے جو اس نے دی ہو لیکن مذہبی طبقہ اسی بات کو خلع اور عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنارہاہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ آیت226البقرہ کی عدت میں بھی باہمی رضامندی کے بغیر عورت کو رجوع پر زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اورآیت228البقرہ میں بھی طلاق کے بعدصلح کے بغیر عورت کو زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو یا تین طلاق اور تین مرتبہ کی طلاق کیونکہ اس سے رجوع کا تعلق عدد سے نہیں بلکہ عدت کی مدت سے ہے۔ البتہ عورت سے صلح کئے بغیر رجوع کرنا شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ آیت229میں بھی معروف طریقے کی رجوع سے صلح کی شرط پر رجوع مراد ہے۔ اور صلح کی شرط کے بغیر نہ ایک مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دومرتبہ کی طلاق کے بغیر۔ اور صلح کی شرط کیساتھ تین مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کرنے کی ممانعت نہیںہے اور جس چیز کے حلال نہ ہونے کا حکم ہے وہ شوہر کی طرف سے دیا گیا مال ہے۔
جب آیت229میں وہ صورتحال بیان کی گئی ہے کہ جب دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس بات کو پہنچ جائیں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے تو سوال رجوع کرنے یا نہ کرنے کا نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علیحدگی وطلاق کے بعد پہلا شوہر اس عورت کو اپنی مرضی سے جس سے بھی چاہے نکاح کی اجازت دے سکتاہے؟۔ انسان کی غیرت اور فطرت گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیوی اور بچے کی ماں اس طلاق کے بعد اڑوس پڑوس یا قریبی رشتہ داروں اور احباب سے نکاح کرلے۔ کیونکہ یہ غیرت انسانوں کے علاوہ چرندوں ، پرندوں اور وحشی درندوں میں بھی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مردانہ غیرت سے کسی بھی طلاق کے بعد عورت کو زبردست تحفظ دے دیا ہے۔
جن الفاظ سے تحفظ دیا ہے وہ بھی کمال کے ہیں اور اس وجہ سے بہت زیادہ خواتین نے ظالم وجابر اور بہت زیادہ طاقتورمردوں سے چھٹکارا پایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بنوں کی سوشل میڈیا پر ایک مولوی کے خلاف زنا بالجبر کا کیس مشہور ہوا تھا جس نے کسی عورت سے اس کی اجازت کے بغیر حلالے کا ارتکاب کیا تھا اور اس وجہ سے اس مولوی کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کیس کی تحقیقات کرکے اس کو پوری دنیا کے سامنے بھی لاسکتے ہیں۔
آیت230میں اس طلاق کے بعد عورت کا دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو آیت229کی صورتحال سے نتھی کرنا درست ہے ۔ فقہ حنفی، علامہ ابن قیم اورحضرت عبداللہ بن عباس کی طرح قرآن کے فہم کا یہی تقاضا ہے جس کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس آیت230میں بھی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد پہلے شوہر اور اس عورت کا اس شرط پر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب دونوں کو یہ گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ اسلئے کہ دوسرے شوہر سے ازوداجی تعلقات کے بعد پھر جب اس کو طلاق دی جائے تو اس عورت کا دوسرے شوہر سے تعلق نہ بنے اور پہلاشوہر اس کو پھر قتل نہ کردے۔ یہ پوری طرح اطمینان ہونا چاہیے کہ پہلے شوہر کے مقابلے دوسرے شوہر کی جسمانی، مالی اور ہر لحاظ سے کیفیت ایسی نہ ہو کہ عورت بھی اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکے اور شوہر بھی اس کو غیرت کے نام پر پھر اس کو قتل کردے۔
قرآن نے اپنی آیات بینات کے ذریعے سے معاشرے کی تمام برائیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدت کے اندر باہمی صلح واصلاح سے بہر صورت اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا تھا لیکن کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے؟۔ فقہ حنفی میں فدیہ جملہ معترضہ نہیں ہے بلکہ آیت230کی طلاق سے مربوط ہے۔ اور آیت229میں دومرتبہ کے طلاق کا تعلق ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اگلے جملے سے بنتاہے جس میں فامساک بمعروف او تسریح باحسان کی ف تعقیب بلامہلت ہے۔ اسلئے اس تین مرتبہ کی طلاق کے بعد عدت کی تکمیل سے معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش واضح تھی اور پھر ایک خاص صورتحال کا ذکر کیا گیا کہ اس طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کرلے۔ پہلی آیات میں بھی یہ واضح تھا کہ صلح واصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن جب تک سمندر کے شکاریوں کی طرح مچھلیوں کو جھینگا نہیں پھینکا گیا تو مولوی قرآن کی آیات کا شکار نہیں ہوئے اور نہ اُمت مسلمہ ان کا شکار بن گئی لیکن جونہی حلالے کا جھینگا پھینک دیا گیا فوری طور پر مولوی اس کا شکار ہوگیا۔ ویسے تو قرآنی آیات کو پوچھتا تک نہیں ہے لیکن حلالے پر ایسی ایسی منطقیں گھڑ دی ہیں کہ شیطان بھی عورت کی اس توہین پر مولوی کو نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن پھر اللہ نے اگلی آیات231اور232میں جس طرح عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھولا ہے۔ جس کے سامنے مولوی کا سارانام نہادفقہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ثابت ہوتا ہے۔

مسائل طلاق کی بہت بگڑی حالت
میرے کزن ، بچپن سے دوست اور ہر دلعزیز شخصیت سید عبدالوہاب شاہ گیلانی نے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان اور اس بد حالی کی صورتحال پر کہا کہ ”پاکستان بھی کرائے کی سائیکل ہے جس پر مختلف لوگوں کو حکمرانی سکھانا جاری ہے، اب یہ کرائے کی سائیکل عمران خان کو دی گئی ہے کہ تم اس پر سیکھو۔ اس سے پہلے محمد خان جونیجو، شوکت عزیز، ظفراللہ جمالی ، نوازشریف، بینظیر بھٹو، زرداری اور سب نے اس پر سیکھا ہے ، اب خیر ہے عمران خان بھی سیکھ لے گا”۔
جو صورتحال پاکستان کے حکمرانوں کی ہے جنہوں نے سودی قرضوں سے ملک وقوم کوIMFکے ہاتھوں گروی رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور پہلے ادوار میں موٹرویز بنائے تھے جن میں ایکسیڈنٹ کے خطرات نہیں ہوتے تھے اور لانگ روٹ کی گاڑیوں کومقامی گاڑیوں سے بالکل الگ کرنا انسانی جانوں کے خوامخواہ کے نذرانے پیش کرنے سے بچانے کیلئے ضروری تھا لیکن حیدر آباد اور کراچی کی سپر ہائی وے کو موٹر وے میں بدلنے کے بعد یہ ایک خواب بن گیاہے اور ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ لاہور اسلام آباد جی ٹی روڈ میںبھی لانگ روٹ کی گاڑیوں پر پابندی لگائی جاتی لیکن نوازشریف کے قافلے میں حادثاتی موت کو بھی شہادت کا درجہ دیا گیا تھا کیونکہ مجھے کیوں نکالا کے پاس کوئی شہادت نہ تھی۔
اسلام کا بھی مختلف ادوار میں فقہاء اور علماء نے وہی حال کیا ہے جو پاکستان کی موٹروے کا حیدر آباد سے کراچی اور متوقع طور پر سکھر سے حیدرآباد تک دکھائی دیتا ہے۔ لیاقت علی خان ، محمد علی بوگرہ،سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، نوازشریف سے عمران خان تک اچھے برے لوگوں نے اقتدار کی کرسی سنبھال کر پاکستان سے کچھ لیا اور کچھ دیا ۔ اس طرح اسلام کی بھی علماء ومشائخ نے بہت خدمت بھی کی ہے اور نقصان بھی پہنچایا ہے۔
مدارس عربیہ کی بات میں نہیں کرتا ہوں کیونکہ مدارس عربیہ کا سب سے بڑا کریڈٹ قرآن کے الفاظ ، عربی تعلیم اور دین کی حفاظت ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں ۔ لکیر کے فقیروں کو اس میں مویشی منڈی کی طرح ڈال دیا جاتا ہے اور وہاں مفت میںکھانے ، پینے اور ہگنے کیساتھ ساتھ چندوں کے نام پر اپنا کاروبار کرنے والوں سے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی جاتی ہے تاکہ بیروزگار طبقے کو مذہب کے نام پر تھوڑا بہت روزگار مل جائے۔ میں بھی رسیاں توڑ کر نہیں جاتا تو مجھے اپنے گھر والے مدارس میں تعلیم کی اجازت کبھی نہیں دے سکتے تھے۔
سرکاری خزانوں سے نوازے جانے والے شیخ الاسلاموں اور ملاؤں کی تاریخ بہت لمبی ہے اور سکہ رائج الوقت کی طرح فتویٰ انہی کا چلتا ہے۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے مسائل طلاق پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں فقہ کے تمام مسالک کے بنیادی مسائل بیان ہوئے ہیں اور اس سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بانیانِ فقہ نے اسلام کیساتھ کس طرح کا مذاق کیاہے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کیلئے جن آیات سے استدلال کیا گیا ،ان پر بھی مختلف مذاہب یا مسالک کا اتفاق نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کا جو تصور دیا گیا ہے اس سے قرآنی تعلیمات کے بنیادی ڈھانچے کا بیڑہ غرق ہوتا ہے اسلئے کہ دو مرتبہ کی طلاق رجعی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کو ایک عدت کا عورت پر حق حاصل نہیں بلکہ تین عدتوں کا حق حاصل ہے کیونکہ شوہر طلاق دیکر ایک مرتبہ رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے تو وہ طلاق دے اور جب عورت کی عدت پوری ہونے کے قریب ہو تو رجوع کرلے۔ اس طرح ایک عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری اور پھر تیسری مرتبہ عدت کے آخر میں رجوع کرنے کے بعد عورت کو تیسری عدت گزارنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

قرآنی طلاق کی سدھری حالت تھی
جب دو مرتبہ طلاق رجعی کے غلط تصور سے قرآنی آیات میں عدت کی مدت کا بہت کباڑہ ہوجاتا ہے تو اکٹھی تین طلاق سے ایک طلاقِ رجعی مراد لینے کا اس سے بھی زیادہ بھیانک تصور ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے مطابق صلح کی شرط کیساتھ رجوع کو منسلک کیا جائے تو پھر دونوں صورتوں میں کسی خرابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ہے۔ طلاق ایک مرتبہ کی ہو، دومرتبہ کی ہو یا تین مرتبہ کی ہو۔ ایک طلاق کا تصور ہویادو طلاق کاتصور ہو یا تین طلاق کا تصور ہو لیکن رجوع کیلئے صلح واصلاح اور معروف طریقے سے باہمی رضامندی کو شرط قرار دیا جائے تو پھر کسی قسم کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اصل سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اصل علت باہمی رضامندی اور صلح واصلاح ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے اور بعض آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ایک طرف عدت کے اندر ہی رجوع کی گنجائش رکھ کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد عورت کیلئے دوسرے سے شادی کرنا بھی جائز ہے اور دوسری طرف عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط اور باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش رکھ دی گئی ہے تاکہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی جتنا عرصہ گزرے تو رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں بھی عورت اور اس کے شوہر کو رجوع کی گنجائش دی گئی ہے۔
کہاں قرآن کریم کی یہ وسعت اور کہاں فقہاء کی تنگ نظری ؟۔
مسئلہ٢٦:بچے کا اکثر حصہ باہر آچکاتو رجعت نہیں کرسکتامگر دوسرے سے نکاح اسوقت حلال ہوگا کہ پورا بچہ پیدا ہولے۔ ( رد المختار ، الطلاق ج5ص193نعم الباری شرح بخاری ج10ص766شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی)
دارالعلوم کراچی سے یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ حاجی عثمان کے معتقد کا اس کے مرید کی بیٹی سے نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن بہتر ہے کہ ان کے حالات سے اس کو آگاہ کردیں اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے یہ فتویٰ آیا تھا کہ جن باتوں کو حاجی محمدعثمان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر وہ باتیں ان میں نہیں ہیں تو علماء کا فتویٰ بھی ان پر نہیں لگتا ہے لیکن نکاح تو بہرحال جائز ہے۔ پھر مفتی رشید احمد لدھیانوی کے نالائق شاگردوں نے استفتاء اور اس کا جواب خود مرتب کرکے لکھا کہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ ”نکاح جائز نہیں ہے گو کہ منعقد ہوجائے”۔
جب ہم نے اکابر ین کے حوالے سے نام لئے بغیر فتویٰ لیا تھا تو یہ لوگ معافی مانگنے کیلئے دوڑے لگارہے تھے اور اس وقت مولانا فضل الرحمن نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ” دنبہ آپ نے لٹادیا ہے اور چھرا آپ کے ہاتھ میں ہے ،ان کو ذبح کردو، اگر یہ ٹانگیں ہلائیں گے تو ہم پکڑ لیں گے” اور مفتی محمد تقی عثمانی نے وکیل کے جواب میں کہا تھا کہ ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے لیکن جب ہم نے چھوڑ دیا توپھر ان لوگوں نے اپنی خباثت کی انتہاء کردی۔ البتہ ہمارے لئے اس میں سب سے زیادہ خیر تھی اسلئے کہ اس دھکے سے ہمارے اندر لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اپنی بیگم کو اسوقت طلاق دی تھی جب مفتی محمد رفیع عثمانی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور پھر جب بالکل وہ آدھا ماں کے پیٹ کے اندر اور آدھا ماں کے پیٹ سے باہر نکل چکے تھے تو اس کا رجوع کرنا درست تھا یا نہیں تھا؟۔ اور اس کے بعد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس رجوع کے بعد اسی عورت کے پیٹ سے جنم لیا ہے تو اس کی حیثیت جائز ہے یا ناجائز؟۔ سودکو جواز بخشنے سے کیا سودی نظام جائز بن جائے گا؟۔ بینوا وتوجروا۔

مولانا فضل الرحمن انقلابی شخصیت؟
مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی کہتے ہیں کہ وہ مفتی نہیں ہے اسلئے طلاق کے مسائل پر اپنی رائے نہیں دے سکتے ہیں اور مفتی شاہ حسین گردیزی نے کہا ہے کہ میں طلاق کے حوالے سے فتویٰ نہیں دیتا ہوں۔ دارالعلوم کراچی کے مفتی عصمت اللہ شاہ نے بھی طلاق کے مسائل پر فتویٰ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی محمد نعیم نے ملاقاتوں میں طلاق کے مسائل پر اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ اور وفات سے قبل مفتی زر ولی خان سے بھی میں نے ملاقات کی تھی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بہت سے مسائل پر اتفاق ہے لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا لیکن میں نے ملاقات اور آئندہ وقت دینے کی درخواست کی تھی جس پر انہوں نے بہت خوش دلی کے ساتھ فرمایا تھا کہ ” بالکل ! چشم ماروشن دل ماشاد” اور ملاقات کے بعد میری بہت تعریف بھی اپنے شاگرد سے کی تھی اور میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا لیکن وہ پہچان گئے تھے۔ وہ جرأت مند انسان تھے ۔ میں نے اپنی کتاب ‘ ‘ عورت کے حقوق ” میں ان کا خاص طور پر تذکرہ بھی کیا تھا۔
اپنے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی خدمت میں بھی حاضری دی تھی اور انہوں نے مجھے تحفے میں عطر بھی عنایت فرمایا تھا۔ اپنی تحریک کیلئے دعا لینے مولانا خان محمد کندیاں امیر عالمی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت، مولانا سرفراز خان صفدر ، مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ ، مولانا عبدالصمد ہالیجی، امروٹ شریف شکار پوراور مولانا عبداللہ درخواستی صاحب سے دعائیں لی تھیں اور میرے استاذشیخ الحدیث مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید میرے مرشد حاجی عثمان سے فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے اور مولانا حبیب الرحمن درخواستی صاحب ، مولانا محمد مکی حجازی، مولانا سیف الرحمن جامعہ صولیہ مکہ مکرمہ ، مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ، مولانا سید محمد بنوری، مفتی محمد نعیم سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کی طرف سے فتوے کے بعد بھی حاجی عثمان سے ملنے آئے تھے۔ ٹانک کے اکابر علماء مولانا فتخ خان، مولانا عبدالرؤف گل امام ، مولانا عصام الدین محسود جمعیت علماء اسلام( ف) ، مولانا شیخ محمد شفیع شہید جمعیت علماء اسلام (س) مولانا غلام محمد مکی مسجد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، قاری محمد حسن شکوی شہید وزیر گودام مسجد ٹانک اور ملک بھر سے مختلف مکاتب کے علماء کرام کی طرف سے تائیدات کا ایک بہت ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ جس کو کتابوں اور اپنے اخبار میں شائع بھی کردیا ہے۔ حضرت شیخ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے دادا تک علماء ومشائخ کا ایک سلسلہ تھا اور میں نے پھر دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے۔
حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں35سال لگائے تھے اور ان کا مدعا یہ تھا کہ اکابر بھی عوام کیساتھ نشست وبرخاست، کھانے پینے اور وقت لگانے میں گھل مل جائیں۔ جس وقت تقریر کررہے ہوں تو منبر ومحراب اور اسٹیج پر لیکن عام حالت میں عوام کیساتھ سامعین کی نشست میں بیٹھ جائیں۔ جس سے ان کی بھی اصلاح جاری رہے گی۔ اگر تبلیغی جماعت اس مرد قلندر کی بات پر عمل کرتی تو پھر عالمی مرکز بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ میں امیر کے مسئلے پر تفریق پڑنے تک نوبت نہیں پہنچ سکتی تھی۔ مرز اغلام احمد قادیانی ایک نبی اور مھدی تو بہت دور کی بات ہے ایک اچھا انسان بھی نہیں تھا اسلئے کہ محمدی بیگم کے حوالے سے اس نے جھوٹی وحی کے ذریعے بہت گری ہوئی حرکت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا اگر انقلابی بننے کا پروگرام ہے تو پہلے فقہ کے نام پر قرآن وسنت اور فطرت سے دوری کا راستہ روکنے کیلئے ہمارا کھل کر ساتھ دیں اور پھر اسلامی انقلاب کیلئے بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔ یہ وقت کھونا اچھا نہیں۔ ورنہ پھر پانی سر سے گزر جائیگا۔

علماء دیوبند اور بریلوی پہل کریں!
فقہ حنفی کے نام پر درسِ نظامی کے علمبردار دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان اور مشائخ کام کررہے ہیں۔ مولانا مفتی زرولی خان ایک سخت گیر پٹھان تھے اسلئے مولانا منظور مینگل کے خلاف علامہ خادم حسین رضوی کی حمایت پر تجدیدِ نکاح کا فتویٰ جاری کردیا تھااورمولانا احمدرضاخان بریلویبھی ایک قندھاری پٹھان اور الٹا بانس بریلی کے رہائشی تھے اسلئے علماء دیوبند اور دیگر فرقوں اور مسالک کے لوگوں پر بھی قادیانیت کے فتوے جاری کردئیے لیکن پاکستان میں متفقہ تحریک ختم نبوت چلانے والے دیوبندی بریلوی ایک تھے۔
افغانستان کے طالبان نے ملاعمر کی قیادت میں جو سخت گیر مؤقف اپنایا تھا تو آج کے افغانی طالبان اس سے بہت پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے عالم وشیخ طریقت نے لکھا ہے کہ ” شاہ اسماعیل شہید نے شروع میں نئے جذبے سے بدعات اور شرکیہ عقائد کے خلاف جو کتابیں لکھی تھیں تو اس میں اعتدال کے خلاف بعض جملے لکھ دئیے تھے مگر پھر علم اور ان کی عمر میں پختگی آئی تو منصب امامت اور صراط مستقیم جیسی اعتدال پسندانہ کتابیں لکھیں ہیں۔
حکومت نے تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک سے معاہدہ کرکے بڑا اچھا کیا ہے۔ شدت پسندانہ جذبات کا غبار وقت کیساتھ ساتھ خود بخود اُتر جاتا ہے۔ نکاح وطلاق کے حوالے سے جو مسائل گھڑے گئے ہیں اگر حکومت نے اس حوالے سے مقتدر علماء ومفتیان اور دانشوروں کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی تو پھر ریاست مدینہ کی طرف سب مل کر زبردست اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ آج عمران خان کیساتھ بھی اچھا وقت ہے اور اپوزیشن بھی اس کو گرانے کے چکر میں نہیں لگتی ہے۔ اگر صرف حلالہ کی لعنت کا مکمل خاتمہ بھی ہوجائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ فواد چوہدری ، علامہ طاہر اشرفی ، مفتی سعید خان ، وزیرتعلیم شفقت محمود اور علی محمد خان وغیرہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت آنی جانی چیز ہے لیکن مذہبی نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے اُمت کی اصلاح ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ بفضل تعالیٰ ہم نے اتنا سارا کام کرلیا ہے کہ معروف مدارس کے علماء ومفتیان اور طلبہ اس کا زبردست استقبال بھی کریں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی اور چیف جسٹس آف پاکستان ، چاروں صوبائی چیف جسٹس اس میں اپنا حصہ ڈال لیں۔ سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قائدین بھی اس کار خیر میں بھرپور شرکت کریں۔
پورے پاکستان میں ہم سے زیادہ کمزور سے کمزور تر جماعت کوئی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے بے خطر ہم میدان میں اترگئے۔ آج بہت سے لوگوں کے مسائل بھی اللہ کے فضل سے حل ہوئے ہیں۔ ہماری دشمنی کسی کی ذات ، شخصیت ، جماعت اور اپنے دشمنوں سے بھی نہیں ہے کیونکہ غلط فہمی کے نتیجے میں کوئی ہم سے دشمنی کرتا ہے تو یہ اس کو حق پہنچتا ہے اور ہم بعض لوگوں اور اپنے حوالے سے نشاندہی بھی مجبوری کے تحت کرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمیں کسی سے کوئی بغض وعناد ہے۔ ہمارے جد امجد رسول اللہ ۖ نے جب اپنے چچا امیر حمزہ کے کلیجے نکالنے والے وحشی کو اور چبانے والی ہندہ کو فتح مکہ کے وقت معاف کردیا تھا تو ہم اسی سنت پر عمل کرنے کے خود کو پابند سمجھتے ہیںلیکن جب تک لوگ راہِ حق پر نہیں آجاتے ہیں تو اپنی عقل اور صلاحیت کے مطابق ٹھیک طریقے سے کام کرنے کی کوشش کریںگے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں گے کہ ہماری بھی ایک دن اصلاح فرمائے۔ عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی بغیر حلالہ کے رجوع کر سکتے ہیں۔ سورہ البقرہ

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر2
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

_ طلاق سے رجوع کی علت صلح ہے!_
سفر میں روزے معاف ہونے کی بنیادی علت سفر ہے۔ شرعی اصولوں میں علت اور سبب میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ معاف ہے اور اس کا سبب مشقت ہے لیکن اس کی علت سفر ہے۔ مشقت محنت مزدوری میں بھی ہوتی ہے لیکن اس سبب کی وجہ سے روزہ معاف نہیں ہوتا ہے اور جب سفر میں مشقت نہ ہو تب بھی روزہ معاف ہے۔ یہ فرق علماء وفقہاء کا بہت بڑا کمال اور زبردست کریڈٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں اس فرق کو واضح کیا ہے اور بعض معاملات میں علماء وفقہاء کے مغالطہ کھانے کا بھی ذکر کیاہے۔ اس کتاب کے اردو ترجمہ کا مقدمہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے لکھا ہے۔
طلاق اور اس سے رجوع کی علت اور سبب معلوم کرنے کیلئے علماء کرام و فقہاء عظام نے شاید کبھی غور وتدبر سے کام نہیں لیا ہے اور اگر لیا ہے تو اس تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ابن رشد کی کتاب ” بدایة المجتہد نہایة المقتصد” میں اس پر تفصیل سے بحث ہے۔ ظواہر کا مؤقف قرآن کے ظاہری الفاظ سے مطابقت رکھتا ہے اور باقی فقہاء نے احادیث وروایات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی علت باہمی رضامندی اور اصلاح کو قرار دیا ہے۔ اگر عورت صلح و اصلاح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر بھی طلاق سے رجوع کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی شرط صلح واصلاح ہے۔ جس کی تفصیل قرآنی آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے ایک ایک آیت کے اندراس کی بھرپور وضاحت بھی کردی گئی ہیں لیکن افسوس کہ امت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ عدت کے تین مراحل تک عورت کو تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ جس کے بعد شوہر کیلئے عورت کو دی ہوئی کوئی چیز حلال نہیں ہے مگر اس صورت میں جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ باہمی رابطے کے ذریعے سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو کہ اس چیز سے وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایسی صورت میں طلاق کے بعد یہ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اگر رجوع کرلیا تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی طلاق کے بعد شوہر اس عورت پر اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے پر کوئی پابندی لگاسکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگائے تو اس عورت کو اللہ نے کوئی تحفظ دیا ہے یا نہیں؟۔ اسی تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے انتہائی درجہ کا حکم نازل کیا کہ اس طلاق کے بعد وہ اس کیلئے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔
جہاں تک باہمی رضامندی اور صلح سے رجوع کی بات کا تعلق ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کی دو آیات228،229میں عدت کے اندر رجوع کی وضاحت کردی ہے اور پھر اسکے بعد آیات231،232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی بھرپور انداز میں وضاحت کردی ہے۔ آنکھوں کا نہیں اصل میں دل کا اندھا اندھا ہوتا ہے۔

احادیث پر اشکال کابہترین جواب
رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں اورپھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کیا تھااس نے نبیۖ سے عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے اور اپنے دوپٹے کا پلو دکھایا تھا۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو ؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو یہاں تک کہ تیرا دوسرا شوہر تیرا ذائقہ نہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ نہ چکھ لیں۔(صحیح بخاری)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن میں باہمی اصلاح سے بار بار صلح کی گنجائش کی وضاحت ہے تو رسول اللہ ۖ نے اس پر فتویٰ کیوں نہیں دیا تھا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ خاتون حضرت رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرتیں تو اس کو نبیۖ سے اپنے شوہر کی شکایت بھی نہ کرنی پڑتی بلکہ وہ خود حضرت رفاعہ سے رجوع کی درخواست کرسکتی تھیں۔ البتہ اگر حضرت رفاعة اس کے باوجود بھی راضی نہ ہوتے تو ان کو باہمی رضامندی کے بغیر رجوع پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ پہلی بات یہ معلوم ہے کہ حضرت رفاعة نے مرحلہ وار تیں طلاقیں دی تھیں۔ عدت کی تکمیل کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی تھی۔ کیا اسکے باوجود علماء ومفتیان کا اس حدیث کی بنیاد پر یہ فتویٰ دینا جائز ہے کہ ایک دم تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا جائے؟۔ حالانکہ قرآن میں واضح طور پر صلح کی گنجائش موجود ہو؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ جب اس عورت نے اپنے شوہر کی شکایت لگائی تو حضرت عائشہ کے سامنے خلوت میں اپنے جسم پر شوہر کے مارنے کے نشانات دکھائے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں نے ایسی سخت مار کے نشانات کسی جسم پر نہیں دیکھے۔ اس کے سفید جسم پر نیل کے نشانات پڑے تھے۔ جب اس نے اپنے شوہر پر نامرد ہونے کا الزام لگایا تو اس کے شوہر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے اندر اتنی مردانہ قوت ہے کہ میں اس کی چمڑی کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ احادیث کی تمام تفصیل کے بغیر اس بات پر فتویٰ جاری کرنا کس قدر حماقت ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو جیسی چیز ہے ، جس کی وجہ سے وہ عورت حلال بھی نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ اسکے ذریعے حلال ہونے کا فتویٰ کیسے دیتے؟۔
نبی کریم ۖ کو معلوم تھا کہ حضرت رفاعة القرظی نے اس خاتون کو واپس لینا نہیں ہے اور عبدالرحمن بن زبیر القرظی کو سمجھا دیا ہوگا کہ مار دھاڑ سے شکایت بھی پیدا ہوئی ہے اسلئے دوبارہ اس قسم کی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ فقہ وفتوے کی کتابوں میں حلالہ کیلئے راستے تلاش کرنے کے بجائے اس کا سدباب بھی کرنا چاہیے تھا لیکن جب مفتی عزیز الرحمن جیسے لوگ اپنے شاگرد صابر شاہ جیسے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑتے تو یہ باشرع لوگ حلالہ کیلئے کیا بہانے تراشتے ہوں گے؟۔ اس کی تفصیلات سامنے آجائیں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
پھر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آسانی سے عدت میں رجوع ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖنے اکٹھی تین طلاق پر سخت ناراضگی کا اظہارکیوں کیا تھا؟۔اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق میں حدیث ہے کہ جب حضرت عمر نے نبیۖ کو اطلاع دی کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر اس کو رجوع کا حکم دیا اور پہلے طہر میں اپنے پاس رکھنے حتی کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں رکھنے حتی کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہے تو رجوع کرے اور چاہے تو طلاق دے اور یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا طریقہ امر کیا ہے۔ جس میں غضبناک ہونے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟
ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ حضرت عمر کی طرف منسوب ہے۔ کیا یہ نسبت درست ہے؟ اور حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟۔
حضرت عمر ایک عادل حکمران تھے۔ قرآن کی آیات کے احکام سے اچھی طرح واقف تھے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے باہمی رضامندی اور صلح کی نبیاد پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو رجوع کرنے کا حق قرآن نے نہیں دیا ہے۔ طلاق سے رجوع کا مسئلہ بہت پرانا تھا۔ شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہوتا تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں خلافت کی توسیع ہوگئی تو دور دراز کے علاقوں سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد مسلمان بن کر خلافت کے زیر اثر آگئی تھی۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو پھراس کی بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی۔ اسلامی خلافت میں بیوی پر جبر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور وہ شخص حضرت عمر سے انصاف لینے آگیا۔ حضرت عمر چاہتے تو اس شخص کو اس کی بیوی واپس دلانے کا حکم جاری کرتے۔ لیکن حضرت عمر نے قرآن کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اس نے جلد بازی میں ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں اسلئے اس کو حکومت اپنی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں کرسکتی اور وہ رجوع نہیں کرسکتا ہے۔
جب حضرت عمر کے ناقدین نے حضرت عمر کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا کہ حضرت عمر نے قرآن کے خلاف ایک ساتھ تین طلاق کا فیصلہ کردیا ہے تو اس پر اُمت مسلمہ میں اختلافات کی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ بہت ہی شاذ ونادر ایسے لوگ تھے۔ جنہوں نے حضرت عمر کے خلاف اپنا فتویٰ اور فیصلہ مرتب کیا تھا کہ یہ فیصلہ قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ لیکن ان کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدے ۔ پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور فیصلہ اور فتویٰ یہ دیا جائے کہ یہ ایک طلاق ہے اور اس سے غیرمشروط رجوع کا حق شوہر کو حاصل ہے ۔تو اس سے عورت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا تھا۔ یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی تھا۔ چنانچہ چاروں ائمہ فقہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اس کا سبب عورت کو مشکلات سے بچانا تھا اور اس کی علت یہ تھی کہ باہمی اصلاح کے بغیر صلح نہیں ہوسکتی ہے اور یہ قرآن اور فطرت کا بنیادی تصور ہے۔
قرآن عربی زبان میں اترا ہے اور عرب لوگ اپنے گھروں میں قرآن کی آیات کا ادراک رکھتے تھے۔ جب میاں بیوی کے درمیان ناچاقی یا ایک ساتھ تین طلاق کی بات آتی تو وہ اگر آپس میں صلح کیلئے راضی ہوتے تھے تو حکمران سے کوئی فیصلہ لینے اور مفتی سے کوئی فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے خلافت پر خاندانی قبضے شروع کردئیے اور کچھ لوگوں کو مذہب کی تشریح کا حکمرانوں نے ٹھیکیدار بنانا شروع کیا اور پھر اسلام کی حقیقت روایات میں کھو گئی۔ اس حقیقت کو ڈھونڈنے کیلئے ان سراغ رساں انسانوں کی ضرورت ہے جو ثریا کے اوپر سے بھی علم ، دین، ایمان کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے طاقت پرواز رکھتے ہوں۔ یہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن اللہ کا فضل کوئی مشکل بھی نہیں ہے کہ کسی پر بھی ہوجائے۔

_ اکٹھی تین طلاق پرفتوؤں کی بھرمار _
سلف صالحین کے ادوار میں ایک ساتھ تین طلاق کی بحث اس حد تک تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ احادیث اور فتوؤں کی بھرمار نے مسالک کی توسیع میں اپنا اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔ احناف اور مالکیہ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں ہوجاتی ہیں لیکن یہ بدعت اور گناہ ہیں۔ شافعی مسلک والوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے ماننے والوں نے اپنے امام کے دو اقوال بھی بنالئے، ایک قول کے مطابق بدعت وگناہ اور دوسرے قول کے مطابق سنت اور مباح قرار دیا گیا۔ پہلے تو صرف ایک ساتھ تین طلاق کا معاملہ اس حدتک ہی تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ جس میں واقع نہ ہونے کا فتویٰ شاذ ونادر تھا اسلئے کہ عورت اور مرد کی طرف سے لڑائی اور صلح نہ کرنے کی وجہ سے بات فیصلے اور فتوے تک پہنچ جاتی تھی۔
پھر بہت بعد میں سیدھے سادے لوگوں نے قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے صلح کیلئے بھی فتوے لینے شروع کردئیے۔ یہ وہ دور تھا جب قرآن کی جگہ امت مسلمہ نے اپنے علماء ومشائخ کو پوجنا شروع کردیا تھا۔ ان علماء ومشائخ نے بھی قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے روایات کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں قرآن اُمت کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ احادیث اور فتوے کی کتابوں میں بہت سارے اقوال تھے جن میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فتویٰ تھا۔ پہلے مردوں کی طرف سے یک طرفہ رجوع کا راستہ روکا گیا تھا اور پھر عورت کی طرف سے صلح کی خواہش کے باوجود بھی رجوع کا راستہ روکا گیا اور جاہلیت پہلے کی طرح بالکل عروج پر لوٹ آئی ۔جب باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ رُک گیا تو تفریق کے فتوؤں نے معاشرے میں جاہلیت اولیٰ کی مثال قائم کردی۔ کچھ لوگوں نے زوجین کی تفریق کا راستہ روکنے کیلئے حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنا شروع کیا لیکن ایک بڑی اکثریت نے حلالہ کے ذریعے حلال نہ ہونے کا فتویٰ جاری کردیا۔ حیلہ سازی میں احناف کے علماء نے اقدام اٹھایا تھا۔ علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے حلالہ کو کارثواب تک قرار دیا اور اس کی نسبت اپنے بعض نامعلوم مشائخ کی طرف کردی تھی۔
علامہ ابن تیمیہ نے ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتویٰ جاری کیا اور اس غل غپاڑے میں ائمہ اہل بیت کے پیروکار اہل تشیع کے فقہاء نے طلاق دینے کیلئے سخت شرائط کا اہتمام کیا تھا۔ ان کے نزدیک طلاق کیلئے مرحلہ وار عدت کی مدت میں طلاق کے شرعی صیغے اور ہرمرتبہ کی طلاق پر دوگواہ کی موجودگی بھی ضروری قرار دے دی گئی۔ مذہبی طبقات نے یہ تأثر پھیلایا کہ ابن تیمیہ بھی اس مسئلے میں شیعہ بن چکے ہیں لیکن ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اس مسئلے میں تحقیقات کو بہت حد تک بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
پھر ہندوستان کے اہل حدیث نے حضرت ابن عباس کی روایت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھ دی۔ حالانکہ احادیث کی کتابوں میں جس کثرت سے ایک ساتھ تین طلاق کی روایات تھیں اہل حدیث کے مزاج سے انکا مسلک بالکل بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ صحاح ستہ میں اکٹھی تین طلاق کے واقع ہونے کے عنوانات ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی کا ایک ساتھ تین طلاق دینے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ اسی طرح محمود بن لبید کی روایت ہے کہ ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو نبیۖ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔
اس طرح بہت سی روایات میں ایک ساتھ تین طلاق کے تذکرے ہیں۔

قرآن اوراحادیث کے حقائق
قرآن کے الفاظ میں کوئی رد وبدل نہیں اور اس کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے لیکن احادیث کے الفاظ اور معانی میں بہت سے اختلافات اور تضادات بھی ہیں۔ اصولِ فقہ میں حنفی کی کتابوں میں قرآن کے مقابلے میں بہت سی احادیث صحیحہ کی تردید صرف اسلئے کی گئی ہے کہ وہ قرآن کے کسی آیت کے تقاضے کے ہی خلاف ہیں۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں احادیث کی اہمیت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثلاً قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاًغیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ” میں اللہ نے عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا اختیار دیا ہے اور حدیث ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ،باطل ہے”۔ اس حدیث میں عورت کو اپنے ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیا ہے۔ جمہور فقہاء اور محدثین کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر حدیث صحیح ہے اور عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہے بلکہ یہ حرام کاری ہوگی۔ احناف نے یہ حدیث قرآن کی اس آیت کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیدی ہے۔
احناف کی سب سے بڑی غلطی اور بدترین قسم کی کوتاہی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق قرآن کی واضح واضح آیات کو اپنی فقہ کی کتابوں میں درج کرکے احادیث اور دوسرے مسالک کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ مثلاً اللہ نے فرمایا کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔( البقرہ:228)
اس آیت میں وضاحت کیساتھ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کی شرط پر عدت میں طلاق شدہ کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی جس میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی ممانعت ہوتی تو اس حدیث کو قرآن کے واضح الفاظ کے سامنے ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا ۔اور یہ حنفی مسلک کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضہ تھا۔پہلی بات یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ چھان لیا جائے تو کوئی ایک بھی ایسی حدیث صحیحہ نہیں ہے کہ جس میں اس قرآنی آیت کیخلاف عدت میں اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کی ممانعت ہوتی لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی بھی تو قرآن کے مقابلے میں رد کی جاتی۔
احناف نے اپنے اصول فقہ میں اس بات کی وضاحت تو کردی کہ پانچ سو ایسی آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں اور اللہ کی کتاب سے اصول فقہ میں وہی مراد ہیں لیکن ان آیات کا کوئی نام ونشان بھی فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔ اگر طلاق اور اس سے رجوع سے متعلق قرآنی آیات کو پیش کیا جاتا اور پھر ان پر احادیث وروایات کو پیش کیا جاتا اور پرکھا جاتا تو امت مسلمہ کی درست رہنمائی ہوتی اور ہوسکتا ہے کہ احناف نمازوں میں رفع یدین کی مخالفت نہ کرتے لیکن طلاق کے مسائل میں بہت سی احادیث کو ناقابلِ قبول ضرور قرار دیتے۔
میرا اپنا تعلق حنفی مسلک اور دیوبندی مکتب سے ہے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام نے جو حوصلہ افزائی طالب علمی کے دوران فرمائی ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھ رہاہوں کہ دیوبندی بریلوی کے علاوہ اہلحدیث اور اہل تشیع کو بھی بہت اچھا لگتا ہے اور غلام احمد پرویز کی فکر رکھنے والے بھی میری تائید کررہے ہیں اور انشاء اللہ بہت بڑا انقلاب آئے گا۔

_ احادیث سے احادیث کے حقائق _
جب ہم احادیث کی کتابوں اور احادیث کی مستند شروحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک طرف کی بھرمار نظر آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور دوسری طرف پھر ان میں بہت سی احادیث غائب ہوجاتی ہیں کہ جب جمہور کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل میں چند احادیث نظر آتی ہیں۔ مثلاً جمہور کے نزدیک رفاعة القرظی کی حدیث جمہور کی دلیل ہے اور فاطمہ بنت قیس کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے۔ عویمر عجلانی کے لعان کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے اور محمود بن لبید کی روایت بھی جمہور کی دلیل ہے۔ لیکن دوسری بہت ساری احادیث وروایات کو جمہور کی دلیل کے طور پر نہیں لیتے ہیں اسلئے کہ انکی حیثیت بہت ہی ضعیف اور مجروح ہے اور ان کو دلیل بنانا جمہور کی شان کے بھی بالکل منافی ہے۔ البتہ بعض جاہل علماء ان روایات کو بھی دلیل بناتے ہیں۔
جمہور کے مقابلے میں ایک ہی روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی سال تک ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کو تین قرار دے دیا۔ اس کو اقلیت اور اہلحدیث اپنے لئے دلیل بناتے ہیں۔
پھر جب بات آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ وبدعت ہے یا پھر مباح وسنت تورفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے واقعے کو بھی ایک ساتھ تین طلاق کیلئے کوئی دلیل نہیں قرار دیتا ہے کیونکہ صحیحہ روایات سے ثابت ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کو بھی دلیل نہیں بنایا جاتاہے اسلئے کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں دی گئیں تھیں اور پھر امام شافعی کے نزدیک صرف روایت ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینا سنت ہے اور وہ عویمر عجلانی کے واقعہ میں لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق کی روایت ہے اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک صرف ایک روایت ہے محمود بن لبید والی جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر نبیۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا لیکن وہ امام شافعی کے نزدیک بڑی مجہول روایت ہے اسلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔
جب احناف ایک ساتھ تین طلاق کو خلافِ سنت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک طرف محمود بن لبید کی مجہول روایت پر گزارہ کرتے ہیں تو دوسری طرف حضرت عویمر عجلانی کے واقعہ کی تأویل کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ طلاق کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہو اور علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق دی ،جس طرح رفاعة القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا ذکر ہے لیکن تفصیل میں الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے”۔
غرض احناف کی سوئی پھر صرف اور صرف محمود بن لبید کی روایت پر اٹک جاتی ہے۔ محمود بن لبید کی روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے کہاتھا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ تو وہ حضرت عمر تھے۔ اور کس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے جس کی اطلاع بھی حضرت عمر نے خود ہی دی تھی۔ حضرت حسن بصری نے کہا مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں جس سے نبیۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا اور پھر بیس سال تک کوئی اور ایسا شخص نہیں ملا جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی ہو۔ پھر بیس سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا، جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم) یہ روایت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کی گئی تھی۔ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کے حوالے سے بھی باقاعدہ ضعیف احادیث میں عجیب وغریب قسم کی مہم جوئی کاواضح ثبوت ہے۔

صحیح اور ضعیف احادیث کی تأویل!
حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کے اندرقرآن کے مقابلے میں حدیث صحیح بھی قابلِ قبول نہیں ہے لیکن حتی الامکان ضعیف سے ضعیف احادیث کوبھی رد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حتی الوسع اس کی تأویل کرنی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث میں صحیح اور ضعیف کا تضاد ہو تو ان میں ایسی تطبیق کرنے کی کیا صورت ہے کہ ضعیف حدیث بھی قابلِ قبول بن جائے؟۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ میں حدیث صحیحہ یہ ہے کہ الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی تھی اور ضعیف حدیث میں ہے کہ آن واحد میں طلاق بدعی دی گئی تھی ۔ ان دونوں میں تطبیق کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آن واحد میں تین طلاقیں دی گئیں اور پھر ان کو ایک شمار کیا گیا اور مرحلہ وار بھی ایک ایک طلاق کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اس طرح دونوں احادیث کے متضاد ہونے کے باوجود ان کی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت ہے کہ نبیۖ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر ایک ساتھ تین کو تین ہی نافذ کردیا گیا اور دوسری طرف ان کے شاگردوں کی طرف سے یہ کہنا کہ ابن عباس نے ایک ساتھ تین طلاق کیلئے یہ فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول وفعل میں تضاد ثابت کرنے کے بجائے یا کسی کی ایک بات کی خوامخواہ کی تردید کرنے کے بجائے یہی درست تأویل ہے کہ جب بیوی کی طرف سے اصلاح کا پروگرام ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع ہوسکتا ہے اور جب بیوی کی طرف سے قرآن کے مطابق اصلاح کا پروگرام نہ ہو تو پھر رجوع کا فتویٰ نہیں دے سکتے تھے۔
ایک مجلس میں ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا کسی کو قتل کرنے کے بعد معافی مل سکتی ہے ؟ ، تو ابن عباس نے ان آیات کا حوالہ دیا کہ جن میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس پر بہت سخت وعیدیں ہیں۔ اس کے بعد اسی مجلس میں ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو یہ جواب دیا کہ اللہ نے معافی کی گنجائش رکھی ہے اور ان آیات کاحوالہ دیا جن میں توبہ کرنے پر معافی کی گنجائش ہے۔ اہل مجلس نے پوچھا کہ سوال ایک تھا تو جواب الگ الگ کیسے دیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ”پہلے شخص نے قتل کیا تھا اسلئے اس کو ایسی آیات کا حوالہ دیا جس میں معافی کی گنجائش تھی تاکہ وہ مزید توبہ کرلے اور دوسرے نے قتل کا پروگرام بنایا تھا تو اس کو ان آیات کا حوالہ دیا تاکہ قتل سے وہ رُک جائے۔ صحابہ نے قرآن کو سمجھا تھا اور اسی کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔
جب طلاق کے حوالے سے احادیث کا بھرپور مطالعہ کیا جائے تو اس کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ اس میں صحیح و ضعیف روایات کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے اور ان میں اپنے اپنے مسلک کی وکالت کیلئے حقائق کے منافی ترجیح قائم کی جاتی ہے اور حلالہ کیلئے بہت دلچسپی رکھنے والے اس میں دے مار ساڑھے چار کی طرح نہ صرف قرآن کی آیت کو بالکل غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ احادیث کو بھی بہت غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اب تو دارالعلوم کراچی والے اپنے فتوؤں میں صرف اور صرف فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں سے حوالہ جات نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اسلئے کہ میں نے انکواپنی کتابوں سے قرآن وحدیث کے حوالہ جات کا جواب دیاتھا۔

فقہ حنفی حق کے قریب تر مگرکچھ غلطی!
حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام جعفر صادق بہت بڑی شخصیات تھیں۔ سلف صالحین کے نزدیک قرآن کی تعلیم، دین کی تبلیغ اور فرائض کی ادائیگی پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا لیکن اب علامہ سید جواد حسین نقوی نے چیلنج کیا کہ کوئی شیعہ ذاکر بغیر معاوضہ کے مجلس پڑھ کر دکھائے تو اس کی موت کے پروانے جاری کردئیے ہیں۔ مجھ سے بھی یہ غلطی ہوگئی کہ بھائیوں اور دوستوں سے گاڑی کی سہولت لیکر سفر کرنے کے بجائے بسوں کی چھتوں اور پک اپ کی باڈی پر کھڑے ہوکر بھی سفر کرتا تھا تو لیڈرعلماء کے دل ودماغ میں خناس بیٹھ گیا کہ ہم گاڑی مانگ کر سفر کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ اتنی کتابوں کا مصنف اور ہم سے زیادہ امت مسلمہ کو لیڈ کرنے کی بات کرنے والا اپنی کوئی حیثیت بھی نہیں جتلاتا ہے تو ہماری اس لیڈری کا کیا بنے گا جو پرائے اور بھیک کے پیسوں پر چلتی ہے؟۔
فقہ کے ائمہ نے زمین کی مزارعت کو متفقہ طور پر ناجائز قرار دیا تھا مگر جب انکے شاگردوں نے دین کے نام پر معاوضے لیکر مزے اڑانے شروع کردئیے تو اپنے اماموں کے مؤقف سے انحراف کرنے لگے۔فقہ حنفی کے امام ابوحنیفہ نے جیل میں زہر کھاکر شہادت پائی اور آپ کے شاگرد نے شیخ الاسلام بن کربادشاہ کیلئے اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دینے کے حیلے بتائے تھے۔ آج کا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن بھی معاوضہ لیکر سودی نظام کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں پانچ سو علماء نے یہ فتویٰ جاری کیاہے کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری اور کچھ بھی کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ اورنگزیب کو بھائیوں کے قتل کی سزا سے بچاناتھا۔یہ فقہ حنفی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بدترین دھبہ ہے لیکن فقہ حنفی کا کمال ہے کہ اسلام کو تحریف سے بچانے کیلئے زبردست اصول عطاء کردئیے تھے۔ فقہ حنفی نے صحیح حدیث کو رد کرکے ضعیف احادیث کا ناطقہ بند کردیا ہے ،ورنہ امت گمراہ ہوتی۔
طلاق شدہ عورت کیلئے قرآن میں آزادی کا قرینہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس سے اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ نے بیوہ عورت کیلئے چار مہینے دس دن کے بعد اپنے نفس کے بارے میں آزادانہ فیصلے کا اختیار دیا ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثین ایک صحیح حدیث کی بنیاد پر بیوہ کیلئے بھی ولی سے آزادی کا تصور نہیں مانتے ہیں جو قرآن کے سراسر منافی ہے ۔ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور جب اس کی شادی ہوجاتی ہے تو اس کا شوہر اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور جب اس کو طلاق ہوجائے یا بیوہ بن جائے تووہ خود مختار اور آزاد بن جاتی ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے باطل ہونے کی حدیث سے اس آیت کی بنیاد پر انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور طلاق شدہ پر اس کا سابقہ شوہر پابندی لگاتا ہے کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرے اسلئے ولی کی اجازت والی روایت کو مقابلے میں لانا بھی حماقت ہے۔ جب مولانا بدیع الزمان نے بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمیں یہ سبق پڑھایا تھا تو میں نے اسی وقت سوال اٹھایا تھا کہ حنفی مسلک میں پہلی ترجیح حدیث کی تأویل کرنا ہے اور یہ حدیث قرآنی آیت سے متصادم نہیں ہے بلکہ اس کی تأویل ہوسکتی ہے جس پر استاذ محترم نے میری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
اگر فقہ حنفی کی درست تعلیمات اور اصول کے مطابق طلاق کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی وضاحت کی جائے تو یہ نصابِ تعلیم نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کو قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ بریلوی مکتب کے مولانا مفتی خالد حسن مجددی قادری اور دیوبندی مکتب کے مفتی محمد حسام اللہ شریفی جیسے جید علماء کرام اور مفتیان عظام کے علاوہ بہت سے علماء ہماری تائید کرتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مولانا سمیع الحق نے کہا تھا کہ درس نظامی پر کوئی ایسی وحی نہیں ہے جسے تبدیل نہ کیا جا سکے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ اس خاندان میں عتیق جیسے علماء موجود ہیں۔

مولانا قریشی کو بہت وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ مولانا سمیع الحق شہیدکا بیان تھا” درسِ نظامی کوئی وحی نہیں کہ تبدیلی نہ ہوسکے” ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ” اس خاندان میں عتیق جیسے اہل علم ہیں”

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر۔ صفحہ نمبر1
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

درسِ نظامی کا بہت بڑا فائدہ ہے کہ قرآن ناظرہ تجوید،قرآت اور اسکا ترجمہ پڑھایا جاتا ہے۔ درسِ نظامی کا پہلا اصول قرآن ہے۔ مسئلہ قرآن میں موجود ہو تو احادیث کو تلاش کرنے کی ضرور ت نہیں اور اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اس کو ناقابلِ عمل سمجھا جائے گا۔ درسِ نظامی کے اس بنیادی اصول نے آج تک امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے میں بہت زبردست کردار ادا کیا ہے۔
مگرافسوس کہ علماء اور گمراہ مذہبی طبقے نے یہ اصول کماحقہ امت کے سامنے پیش نہیں کیا۔ جاہلوں نے اپنے اصول بنالئے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ جاویداحمد غامدی تک نے بھی اپنی طرف سے اصول بناڈالے اور میڈیا پر اس کی مسلسل تشہیر کررہاہے لیکن قرآن کی طرف امت کو متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور یہی حال غلام احمد پرویز اور دوسرے جدید جاہل مفکرین اسلام کا رہا ہے۔
مثلاً قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کے حوالے سے تفصیلات واضح ہیں۔ اگر ان پڑھ لوگوں کے سامنے اس کا سادہ ترجمہ بھی رکھا جائے تو اس میں ایسی رہنمائی ہے کہ پڑھا لکھا، ان پڑھ ، عالم ، جدید دانشور اور مسلم وغیرمسلم اور عرب وعجم ہر ایک اس کے بہت سادہ اور واضح احکامات کو سمجھ سکتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے مختلف زبانوں میںاور مختلف زمانوں میں انبیاء کرام کے بھیجنے کی نشاندہی قرآن میں فرمائی ہے تو مذہبی طبقات اور قوم کے سرداروںنے کس طرح انبیاء کرام کی مخالفت کی تھی؟۔ سب ادیان کا بیڑہ انکے علماء ومشائخ نے غرق کیا ہے لیکن رسول اللہ ۖ آخری نبی ہیں اور قرآن آخری کتاب ہے اسلئے قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لے لیا ہے۔ اگرچہ قرآن کریم کی لفظی تحریف مذہبی طبقات کیلئے ممکن نہیں تھی لیکن پھر بھی بعض مذہبی طبقات نے اپنا عقیدہ بگاڑ دیا کہ قرآن میں لفظی تحریف بھی ہے اور معنوی تحریف کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ تو سلامت ہیں لیکن اس کے معانی بگاڑ دئیے گئے ہیں۔ فتویٰ دیوبند پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان کلاچی کے قاضی عبداالکریم کا ایک سوال چھپ گیا جس کا جواب مفتی اعظم پاکستان مفتی فریدحقانیہ اکوڑہ خٹک نے دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ” مولانا سیدانور شاہ کشمیری کی شرح فیض الباری میں یہ عبارت دیکھ کر پاؤں سے زمین نکل گئی کہ قرآن میں معنوی تحریف تو بہت کی ہے لیکن لفظی تحریف بھی کی ہے یا تو مغالطے سے یا عمداً کی ہے۔ کیونکہ کفار کی طرف اس بات کی نسبت نہیں ہوسکتی ہے اور صحابہ کرام پر یہ تہمت لگتی ہے”۔ جس کا جواب مفتی فرید نے غیر تسلی بخش دیا ہے کہ ”فیض الباری مولانا انورشاہ کشمیری کی تحریر نہیں ہے، کسی نے ان کی تقریروں کو لکھ کر ان کی طرف منسوب کیا ہے”۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے لکھا ہے کہ ” مولانا انورشاہ کشمیری نے عمر کے آخری حصے میں فرمایا کہ میں نے اپنی زندگی ضائع کردی کیونکہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں اُلجھ کر ساری زندگی ضائع کی”۔
شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں لکھ دیا ہے کہ ” مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ترجمہ وتفسیر لکھی ہے۔ بعض احباب کے اصرار پر شاہ عبدالقادر کے ترجمہ وتفسیر میں مغلق الفاظ کی تسہیل کی کوشش کررہاہوں”۔ پھر اس کی تفسیر علامہ شبیراحمد عثمانی نے مکمل کی ہے جس کو تفسیر شیخ الہند کے بجائے بجا طور پر تفسیر عثمانی ہی کہا جاتا ہے۔
تفسیر عثمانی علماء دیوبند کی سب سے زیادہ سہل، بہترین اور مستند تفسیرہے لیکن پھر بھی اردو زبان کی تبدیلی کی وجہ سے اس میں مزید گنجائش پیدا ہوگئی ہے ۔ جبکہ مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی کے ترجمے وتفسیر کو زیادہ آسان فہم سمجھا جاتا ہے۔
علماء نے قرآن کے ترجمے اور تفاسیر میں فقہی مسالک کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا تھا اسلئے ان کی تفاسیر عوام کی سمجھ سے بالاتر رہیں اور مولانا سیدمودودی نے عوام کا بھی خیال رکھا ہے اورعلماء کے ترجمہ وتفسیر کو زیادہ سے زیادہ عام فہم بنایا ہے۔
سورۂ طلاق میں ہے کہ اذاطلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن ”جب تم عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے چھوڑ دو” ۔عربی میں طلاق عورتوں کے چھوڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ یہ بالکل سادہ زبان میں اس کا ترجمہ ہے لیکن جب اس کو فقہی مسالک میں ڈھالنے کی کوشش کریںگے تو پھر ہر فقہ کا اپنا ترجمہ ہوگا۔
فقہ میں پہلا اختلاف یہ ہے کہ جمہور کے نزدیک عورتوں کی عدت سے مراد ان کے پاکی کے ایام ہیں اور احناف کے نزدیک ان کے حیض کے ایام ہیں۔
فقہ کا دوسرا اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا سنت اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا بدعت ہے۔اور اہل تشیع کے نزدیک ضروری ہے کہ ہرطہر یعنی پاکی کے ایام میں ایک بار طلاق دی جائے اور اسکے الفاظ شریعت کے مطابق ہوں اور اس پر دوگواہ مقرر ہوں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری ” میں لکھا ہے کہ ” عدت کی دو قسمیں ہیں ایک عدت الرجال یعنی مردوں کی عدت، جس میں مرد عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور وہ عورت کی پاکی کا زمانہ ہے اور دوسری قسم عدت النساء ۔یعنی عورتوں کی عدت۔ جس میں عورتوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے اور وہ عورتوں کے حیض کا زمانہ ہے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے حنفی فقہاء کی بات نقل کی ہے جو لوگوں کو زیادہ قابل فہم لگتی ہے کہ شوہر عورت کو ایسے پاکی کے دنوں میں طلاق دیں کہ جس میں جماع نہیں کیا ہو اور عورتیں حیض تک انتظار کریں تو معاملہ لوگوں کو ناقابلِ فہم نہیں لگتا۔
لیکن جب علما ء اپنی فقہ کے مطابق قرآن کا ترجمہ کرتے ہیں تو عوام کو قرآن نہیں سمجھا سکتے ہیں اسلئے انہوں نے ایک طرف اپنے دانتوں میں اپنی فقہ کو بھی مضبوط پکڑا ہوا ہوتا ہے اور دوسری طرف قرآن کا ترجمہ بھی عوام کو سمجھانا چاہتے ہیں۔ جب قرآن اور فقہ دونوں میں کوئی جوڑ نہیں دیکھتے تو ایک تماشا بنتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں پہلی مرتبہ ترجمہ کیا تھا تو آپ کو دوسال تک روپوش ہونا پڑا اسلئے کہ سمجھدار علماء نے محسوس کیاتھا کہ ہم اس کی وجہ سے بہت مصیبت میں پڑسکتے ہیں۔ پھر شاہ ولی اللہ کے بیٹوں نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کیا۔ شاہ رفیع الدین نے لفظی اور شاہ عبدالقادر نے بامحاورہ ترجمہ کیا۔ پھر دیوبندی مکتب کے مولانا اشرف علی تھانوی اور بریلوی مکتب کے مولانا احمد رضاخان بریلوی نے اپنے اپنے ترجمے کردئیے تھے لیکن سمجھدار علماء نے پھر بھی اپنی اور عوام کی تشفی کیلئے قرآن کے ترجموں کا سلسلہ جاری رکھاہے۔
قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ” جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کو ان کی عدت تل کیلئے طلاق دو”۔ جب طلاق کا ایک مخصوص قسم کا فقہی مذہب کے مطابق کوئی تصور آتا ہے تو بندہ قرآن کے ایک ایک لفظ پر خوب غور کرتا ہے کہ کس طرح سے کوئی ایسا معنی کشید کرے کہ جو اس کے فقہی مسلک سے متضاد بھی نہ ہو اور قرآن کی بھی بالکل غلط وکالت نہ کرے۔ جہاں تک قرآن اور فقہی مسلک کے مطابق قرآن کے ترجمے کا تعلق ہے تو اس میں بہت بڑا تضاد ہے اسلئے کہ قرآن میں عورتوں کی عدت کے مطابق طلاق دینے کا حکم دیا گیا ہے اور اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ حنفی مسلک میں عورتوں کی عدت کا زمانہ ان کے حیض کا دور ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق ترجمہ کیا جائے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ”جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کو حیض کے دور میں طلاق دو”۔ مسلک حنفی میں یہ ترجمہ بھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ ” مسلک حنفی میں یہ واضح ہے کہ مردوں نے طہر یعنی پاکی کے ایام میں طلاق دینی ہے”۔
قرآن کے الفاظ میں مردوں نے عورتوں کی عدت میں طلاق دینی ہے توپھر عدت الرجال اور عدت النساء کے الگ الگ تصور کا فقہی مسلک بھی بالکل ہی غلط ثابت ہوگا۔ ایک طرف قرآن اور دوسری طرف فقہی مسالک کی حفاظت کا معاملہ سامنے آئے گا تو دونوں کام نہیں ہوسکیں گے اسلئے علامہ سید انورشاہ کشمیری نے ٹھیک کہا کہ” میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی” ۔ یہ اللہ والے ہوسکتے تھے مگر عالم نہیں۔
شیخ الہند مولانا محمودالحسن یوبندی کے ترجمے کی تفسیر عثمانی میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے لکھا کہ” عورتوں کی عدت کا زمانہ انکے حیض کا زمانہ ہے اور قرآن کے الفاظ کا معنی یہ ہے کہ ”عورتوں کے حیض سے تھوڑ ا پہلے طلاق دو ”۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ کے یہ معانی قطعی طور پر نہیں بن سکتے ہیں۔
جب طلاق کاایک مسلکی اور شرعی تصور آئیگا تو پھر فرقہ ومسلک کی ترجمانی بھی کرنی پڑے گی اور جب فقہ ومسلک اور قرآن میں کسی ایک ہی کا انتخاب کرنا پڑے تو انسان کی مرضی ہے کہ قرآن سے استفادہ کرے یا پھر مسلک کی پیروی کرے۔ مسلک کی پیروی نے اگر قرآن سے دور کردیا تو پھر مسلک دین میں معنوی تحریف کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور مولانا سید محمدانور شاہ کشمیری نے اس بات کی نشاندہی کردی کہ قرآن میں معنوی تحریف کا بہت ارتکاب ہواہے۔
اکثرپڑھے لکھے لوگ اسلئے علماء کے تراجم اور تفاسیر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں اور جدید مذہبی اسکالرز اوردینی مفکرین سے استفادہ کرتے ہیں۔حالانکہ یہ لوگ بھی انہی مذہبی مسلک اور تراجم سے تھوڑے بہت اختلاف کیساتھ وہی کچھ لکھتے ہیں جو قرآن کے تراجم اور تفاسیر میں پہلے سے لکھا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” اے پیارے نبی! جب آپ لوگ عورتوں کو چھوڑ و تو ان کو ان کی عدت کیلئے چھوڑ دو۔ اور عدت کا شمار رکھ کر اس کا پورا پورااحاطہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرو،جو تمہارا رب ہے۔ ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو اللہ کی حدود سے گزر جائے تو تحقیق کہ اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی راہ پیدا کرلے”۔ (سورہ الطلا ق آیت1)
آیت میں فقہی مسائل ومذاہب سے بے خبر اس وقت سادہ لوح عوام کو یہ حکم دیا گیا کہ جب مدارس وجامعات اور سکول وکالج اور یونیورسٹیوں کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ ایک آدمی قرآن کے اس پیغام کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔
قرآن اور عام زبان میں عورت کی عدت کا مفہوم بالکل واضح ہے اور عدت تک چھوڑنے اور عدت کو شمار کرکے اس کا پورا پورا احاطہ کرنے تک کی بات بھی بالکل واضح ہے اور اس کو اسکے گھر سے نہ نکالنے اور نہ خود نکلنے کی بات بھی بالکل واضح ہے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں اور اس سے نہ نکلنے کا پیغام بھی واضح ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اس واضح پیغام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر اس کا نقصان کیا ہے؟۔ اللہ نے اس کو بھی واضح کیا ہے کہ اگر یک دم اس کو چھوڑ دیا اور گھر سے نکال دیا تو یہ اپنے ساتھ ظلم ہے اسلئے کہ ہوسکتا ہے کہ پھر اس کے بعد اللہ کوئی دوسری صورت نکال دے۔یعنی آپس میں صلح ہوجائے ۔ اسلئے قرآن کے واضح پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے میں کوئی مسئلہ کسی کیلئے بھی نہیں ہے۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے لکھا ہے کہ ” ہوسکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی نیا حکم نازل ہوجائے”۔ حالانکہ اس کا کوئی تک نہیں بنتاہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اگر ایک ساتھ تین طلاق دے دی تھیں یا پھر عورت کو گھر سے نکال دیا تھا، یا پھر عدت کے تین مراحل میں الگ الگ تین مرتبہ طلاق دی تھی اور پھر اس پر اہل تشیع کی طرح تمام مراحل میں گواہ بھی بنالئے تھے تو پھر حنفی، اہلحدیث اور شیعہ کا کیا فتویٰ ہے اور قرآن کا کیا حکم ہے؟۔ اپنے اپنے مسلک کا جواب سب فرقوں اور مسالک نے خود دینا ہے لیکن قرآن نے مسلمانوں کیلئے پہلے سے سب کیلئے بہترین راستہ تجویز کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ
” جب وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روکو یا معروف طریقے سے الگ کرلو۔ اور اپنے میں سے دو عادل گواہ بھی اس پر مقرر کرلو۔ اور اللہ کیلئے گواہی کو قائم کرو۔ یہ وہ قرآن ہے جس کے ذریعے سے ان کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کیلئے اس مشکل سے نکلنے کیلئے راہ بنادیتا ہے”۔ (الطلاق :2)
قرآن کی اس آیت میں یہ بات بھی واضح ہے کہ عدت مکمل ہونے کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بند نہیں کیا ہے۔ جب عورتوں کی عدت مکمل ہوجائے تو پھر معروف طریقے سے رجوع کی بہت واضح وضاحت کے بعد یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اگر معروف طریقے سے عورت کو الگ کردیا تو پھر دو عادل گواہ بھی مقرر کرلو۔ اور گواہی بھی اللہ کیلئے قائم کرو۔ اب اگر عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد عدت کی تکمیل کے بعد عورت سے معروف طریقے سے رجوع کا فیصلہ کرنے کے بجائے معروف طریقے سے اس کو الگ کردیا اور اس پر دو عادل گواہ بھی بنالئے توپھر بھی اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ بلکہ جس نے اللہ کا خوف کھایا اور اس نے دو گواہوں کی موجودگی میں عورت کے تمام حقوق ادا کرتے ہوئے طلاق یا جدائی کا فیصلہ کیا توپھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس مشکل صورتحال سے نکلنے اور رجوع کا راستہ کھلا رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جن مذہبی طبقات کے نرغے سے قرآن کریم نے عوام کو نکال دیا تھا افسوس کہ انکو پھر ان گدھوں نے اپنے حصار میں لے لیا ہے اور منکوحہ عورتوں کو گدھی سمجھ کر گدھے حلال کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرنیکی زحمت اور ہمت نہیں کرتے ۔ اگر فقہ کی ایک ایک بات کی درست اور سب کیلئے قابلِ قبول وضاحت نہ کروں تو اپنا مشن چھوڑدوں گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جنگوں میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کا خیال۔ زرعی زمین کسان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

_ لونڈی اور غلام بنانے کے تصورات_
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جنگوں میں پکڑے جانے والوں کو لونڈی اور غلام بنالیا جاتا تھا لیکن یہ غلط اسلئے ہے کہ غزوہ بدر میں70افراد کو غلام بنالیا گیا لیکن کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ دشمن کو اس طرح سے غلام بنانا ممکن تھا اس لئے کہ دشمن گھر کا نوکر چاکر اور غلام بننے کی جگہ اپنے مالک کو بدترین انتقام کا بھی نشانہ بناسکتا ہے۔بدر کے قیدیوں پر مشاورت ہوئی تو ایک رائے یہ تھی کہ سب کو قتل کردیا جائے اور دوسری رائے یہ تھی کہ فدیہ لیکر معاف کردیا جائے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سب سے فدیہ لیکر معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن ان کو غلام بنانے کی تجویز زیرِ غور نہیں آئی تھی اور نہ ان کو غلام بنانے کا کوئی امکان تھا۔
غلام اور لونڈیاں بنانے کا جنگ کی صورتحال کے بعد ایک غلط تصور بٹھادیا گیا ہے جس کوبہت سختی کیساتھ رد کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں اہل فرعون کا بنی اسرائیل کے بیٹوں کا قتل کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر عصمت دری کرنے کا ذکر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی رحمتۖ کی بعثت اسلئے نہیں کی تھی کہ اہل فرعون کی جگہ امت مسلمہ بنی اسرائیل اور دیگر لوگوں کی خواتین کو لونڈیاں بنائیںگے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ درج ہے کہ جب حضرت عمر فاروق اعظم نے ایران کو فتح کیا تھا تو شاہ فارس کی تین شہزادیوں کو حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا تھا۔ حضرت محمد بن ابی بکر بیٹا حضرت ابوبکر کا تھا مگر اس کی پرورش حضرت علی نے بیٹے کی طرح کی تھی اسلئے کہ ان کی ماں سے شادی ہوئی تھی اور اس سے پہلے وہ خاتون حضرت ام عمیس حضرت علی کی بھابھی تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلفاء راشدین نے فارس کے بادشاہ کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو اہل فرعون نے بنی اسرائیل کیساتھ کیا تھا اور حضرت عمر کے اس کردار میں ائمہ اہل بیت برابر کے شریک تھے؟۔ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول ہۖ نے فتح خیبر کے بعد حضرت صفیہ سے نکاح کیا تھا تو اس میں بھی آل فرعون کا کردار تھا؟۔ زمانے کے رسم ورواج کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ اور وسیع سے وسیع تر حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ سردست یہ لگتا ہے کہ حضرت صفیہ اور وہ تینوں شہزادیاں جو حضرت حسن و حسین اورحضرت محمدبن ابی بکر کی خدمت میں پیش کی گئیں تھیں وہ پہلے سے لونڈیاں تھیں اور ان کو آزاد کرکے ان کی عزت افزائی کی گئی تھی۔ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہکو بادشاہ نے لونڈی حضرت حاجر ہ پیش کی تھی ،البتہ حضرت حاجرہ اصل میں شہزادی تھیں۔
لونڈی و غلام بنانے کا اصل ادارہ جاگیردارنہ نظام تھا۔ کھیتی باڑی سے کچھ لوگ اپنی گزر بسر کرتے تھے اور کچھ لوگ بڑے بڑے لینڈ لارڈ ہوتے تھے، جن کے مزارعین ہوتے تھے۔ مزارع لونڈیوں اور غلاموں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ لینڈ لارڈ ان کو دیہاتوں سے شہروں کی منڈیوں میں لاکر فروخت کرتے تھے۔ منڈیوں میں فرو خت ہونے والے لونڈی اور غلام خوبصورتی اور تربیت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوتے تھے اور منڈیوں میں کاروبار کا یہ بھی ایک حصہ ہوتا تھا۔ مزارعین کو لونڈی وغلام بننے میں کوئی دکھ بھی نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ کھیتی باڑی میں ان کی زندگیاں زیادہ مشکلات کا شکار ہوتی تھیں۔
ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلام ولونڈی کی فروخت وخرید و درآمد پر پابندی لگادی اسلئے امریکہ کو اللہ نے سپر طاقت بنادیا۔ اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے ادارے مزارعت پر پابندی لگادی۔ مسلمان اور کافر کاشتکار اپنی محنت کی کمائی کے مالک تھے اور مسلمان زکوٰة وعشر اور کافر جزیہ کے نام پر حکومت کو ٹیکس دیتے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمان ہی دنیا کی واحد سپر طاقت بن گئے مگرپھر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے مزارعت کے نظام کو دوبارہ فقہ حنفی کے نام پر جواز بخش دیا تھا۔

لونڈی و غلام کی عزت وتوقیر کامقام
اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے نظام مزارعت کا خاتمہ کردیااور آزادی کیلئے بہانے تراش لئے۔ لونڈی اور غلام کو پورے پورے انسانی حقوق دیدئیے اورآزاد کے مقابلے میں ان کی سزاؤں میں کمی کے رحجانات کے قوانین بنائے۔ عرب کی جاہلیت کے نسلی امتیاز کو اسلام نے کردار کی بنیاد پر خاک میں ملادیا تھا۔ ابولہب وابوجہل ، عتبہ وشیبہ، ولیدو امیہ اور ڈھیر سارے خاندانی سرداروں کے مقابلے میں خاندانی غلام حضرت سیدنا بلال، حضرت مقداد، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت اسود کووہ اعزاز بخشا کہ تاریخ ان دونوں طرح کی شخصیات کے حوالہ سے عبرت کا آج بھی بہت بڑانشان نظر آتی ہیں۔
قرآن نے واضح کردیا کہ ” مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو، یہاں تک وہ ایمان لائیںاور مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے،اگرچہ تمہیں مشرک پسند ہو اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کراؤ،یہاں تک کہ ایمان لائیں اور مشرک عورتوں سے مؤمن لونڈیاں بہتر ہیں اگرچہ مشرک عورت پسند ہو”۔
نسلی امتیاز کے شکار جاہلانہ قبائل کیلئے یہ احکام بڑی کاری ضرب تھے۔ پہل بھی مشرکوں نے خود کی تھی۔ حضرت عائشہ کے رشتے کو پہلے مطعم بن جبیر سے طے کیا گیا تھا لیکن اسلام کے بعد انہوں نے یہ رشتہ رد کیا تھا۔ حضرت بلال کے باپ اور خاندان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا اور اس طرح بہت سے غلاموں کی اپنے خاندانی حساب سے کوئی شناخت نہیں تھی لیکن حضرت زید خاندانی غلام نہیں تھا۔ بردہ فروشوں نے بچپن میں چوری کرکے بیچا تھا۔ بھائیوں نے حضرت یوسف کوکنویں میں ڈالا تو قافلے والوں نے غلام سمجھ کر بیچ دیا تھا۔ پھر جب معلومات مل گئیں تو حضرت یوسف کی نسبت اپنے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابرہیم کی طرف کی گئی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ ” جن کے باپ دادا کا پتہ نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور جنکے باپ کا پتہ ہے تو ان کو انکے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور تقویٰ کے زیادہ قریب ہے”۔
حدیث میںتمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے۔ مشرکوں کی رشتہ داری سے اسلئے منع کیا گیا تھا کہ انصار ومہاجرین کے رشتے ناطے اہل کتاب کی نسبت مشرکوں سے زیادہ تھے۔ حالانکہ اہل کتاب بھی مشرکانہ عقائد رکھتے تھے لیکن انکی خواتین کو مسلمانوں کیلئے حلال قرار دیا گیا تھا۔ مشرکوں کے مقابلے میں غلاموں اور لونڈیوں سے نکاح کو ترجیح دینا بہت بڑی بات تھی۔ جس طرح غلام و لونڈی سے نکاح اور معاہدے کی اجازت تھی،اسی طرح سے آزاد مسلمانوں اور غلاموں ولونڈیوں کے درمیان ایگریمنٹ کی بھی اجازت تھی۔ یہ بہت ہی بڑا معاملہ تھا کہ ہجرت نہ کرنیکی وجہ سے نبی ۖ کی چچااور ماموںکی بیٹیوں کو نکاح کیلئے حلال نہیں قرار دیا گیا تھا لیکن حضرت صفیہ سے ایگریمنٹ کی جگہ نبی ۖ نے نکاح کیا تھا۔ حضرت ام ہانی نبیۖ کی زوجہ تھی اور نہ لونڈی بلکہ ان سے ایگریمنٹ کا تعلق تھا ۔حالانکہ حضرت ام ہانی اولین مسلمانوں میں سے تھیں ۔
حضرت صفیہ مال غنیمت کی وجہ سے نبیۖ کی زوجہ بنی تھیں۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ” وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ بھی حلال ہیں جو مال غنیمت میں ملی ہیں”۔ کیونکہ اگر حضرت ام ہانی سے رشتہ ہوجاتا اور پھر چھوڑنا پڑتا تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ غنیمت کے مال میں آنے والیوں کا کیا حکم ہے؟ اسلئے اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ۔ حضرت صفیہ کی دعوتِ ولیمہ صحابہ نے کھائی تو سوال اٹھایا کہ لونڈی ہیں یا منکوحہ؟ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ ”پردہ کروایا گیا تو منکوحہ اور نہیں کروایاگیا تولونڈی”۔ صحیح بخاری اور دیگر احادیث اور قرآن کے واضح احکام بیان کرنا ضروری ہے۔

قرآن کے احکام کو نہیں سمجھنے کا نتیجہ
وانکحوا الایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وایمائکم ”اور نکاح کراؤ، اپنوں میں سے بیوہ وطلاق شدہ کا اور اپنے اچھے غلاموں اور لونڈیوں کا”۔ بیوہ اور طلاق شدہ کے نکاح کرانے کے حکم پر ایسا عمل ہوا تھا کہ ایک ایک عورت کا تین تین چار چار جگہ بھی یکے بعد دیگرے نکاح کرایا گیا تھا۔
لونڈی وغلام کے حقوق کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ وبیوہ کی طرح ان کے نکاح کرانے کا بھی حکم دیا گیاہے۔لونڈیوں سے نکاح کی بات تو سب کو سمجھ میں آجاتی ہے اور غلام سے بھی نکاح کی بات قابل فہم ہے لیکن جب آزاد عورت کا کسی غلام سے ایگریمنٹ کا معاملہ ہو تو یہ صورت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن کی آیات میں مکاتبت سے یہ صورتحال لگتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد فتیات کا ذکر ہے جس میں ان کوبغاوت پر مجبور نہ کرنے کو واضح کیا گیا ہے۔ بظاہر فتیات سے کنواری لڑکیوں کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے جن کواپنی مرضی کے مطابق نکاح سے روکنا یا زبردستی سے کسی ایسے شخص سے نکاح پر مجبور کرنا ہے جس سے وہ نکاح نہیں کرنا چاہتی ہو۔ قرآن میں بغاوت کے ایک معنیٰ بدکاری کے ہیں اور دوسرا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں۔
معاشرے میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی لڑکی کسی سے اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنا چاہتی ہو لیکن اس کے سرپرست اس کو دنیاوی وجاہت کے خلاف سمجھتے ہوں۔ پھر اگر وہ چھپ کر تعلقات استوار کرے یا پھر بھاگ جائے تو اس کی ساری ذمہ داری سرپرست کے سر ہوگی اور اگر سرپرست اس کی شادی زبردستی سے ایسی جگہ کردے جہاں اس کی مرضی نہ ہو توپھر ناجائز ہونے کے باوجود اس کا گناہ سرپرست کے سر ہوگا۔ قرآن میں یہ معاملہ بہت ہی اچھے انداز میں واضح کیا گیا ہے لیکن بدقسمت اُمت مسلمہ میں قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے اس کا یہ مفہوم نکالا ہے کہ ” لونڈیوں کو بدکاری کے دھندے پر مجبور مت کرو،اگر وہ پاک دامنی چاہیں ”۔ جس کا بہت غلط مطلب نکلتا ہے اور قرآن اتنی بڑی غلطی کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کا معنی یہی مناسب ہے کہ اپنی کنواری لڑکیوں کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو،جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔ ان اردن تحصنًا کے دونوں معنی ہوسکتے ہیںلیکن ایک بہت عمدہ اور دوسرا انتہائی غلط ہوگا۔ اسلئے کہ نکاح کیلئے راضی ہونے پر کنواری کو غلط راستے پر مجبور نہیںکرنے کی بات بالکل فطری طور پر درست ہے لیکن یہ کہنابالکل غلط ہوگا کہ” لونڈی کو اس وقت بدکاری پر مجبور نہ کیا جائے ،جب وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہو” اسلئے کہ پھر مطلب یہی ہوگا کہ جب وہ خود دھندہ کرنا چاہتی ہوتو پھر اس کو بدکاری کا دھندہ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
اسلام نے بیوہ وطلاق شدہ، غلام ولونڈی اور کنواری کے جن مسائل کا نکاح کے ذریعے حل پیش کیا ہے تو اس سے قدیم دور سے لیکر موجودہ دور تک معاشرتی برائیوں اور مشکلات کا زبردست طریقے سے خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسلام نے ایک طرف معاشرے کے اندر خواتین کے سرپرستوں کو حکم دیا ہے کہ ان کا نکاح کرایا جائے تو دوسری طرف ان کی مرضی کے بغیر ان کا نکاح کرانے کو ناجائز قرار دیا۔ ایک طرف طلاق شدہ وبیوہ کو اپنی مرضی سے نکاح کے فیصلے اور ان کی مدد کرنے کا حکم دیا تو دوسری طرف کنواری کے فیصلے میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا حکم دیا۔ ایک طرف عورت کی مرضی کا خیال رکھا اور اس پر اپنی مرضی کو مسلط کرنے کو ناجائز قرار دیا تو دوسری طرف عورت کیلئے اپنے ولی کی اجازت کو شرط قرار دیدیا۔ جس سے کنواری لڑکیاں ہی مراد ہوسکتی ہیں۔ اگر غیرمسلم اور مسلم کیلئے ان معاملات کے حوالے سے شعور وآگہی کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی تو اچھے نتائج نکلتے۔

نکاح اور ایگریمنٹ میں بڑا فرق
اللہ نے فرمایا کہ ” تم نکاح کرو، عورتوں میں سے جن کو تم چاہو، دودواور تین تین اور چارچار ، اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا تمہارے معاہدے جن عورتوں کے تم مالک ہو”۔ عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اگر چہ قرآن نے کہیں کہیں غلام ولونڈی پر بھی ماملکت ایمانکم کا اطلاق کیا ہے لیکن اس میں ایک معاہدے کی بات واضح ہے اور لونڈی وغلام سے بھی ایک معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ جب اس کو مطلوبہ رقم کا عوض مل جائے تو پھر وہ اس معاہدے سے آزاد ہوسکتا ہے۔ البتہ قرآن میں جہاں عورتوں سے نکاح کے متبادل کے طور پر اس کا ذکر ہوا ہے تو اس سے لونڈی وغلام مراد نہیں ہیں ،کیونکہ غلام سے تو جنسی عمل کی اجازت نہیں ہوسکتی اور لونڈی سے بھی نکاح کا حکم بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ایگریمنٹ مراد ہے اور اس کا تعلق نکاح کے مقابلے میں ایک دوسرا معاہدہ ہے۔ نکاح میں عورتوں کو انصاف مہیا کرنے کا فرض شوہر کے ذمے ہوتا ہے جبکہ ایگریمنٹ میں یہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔ ہزاروں لونڈیوں کو قید میں رکھ کر کیا انصاف دیا جاسکتا ہے؟۔ قرآن نے وہ مسائل حل کئے ہیں جو بادشاہوں نے اپنے محل سراؤں کیلئے بنائے تھے۔
قرآن کی آیات کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ لونڈیوں کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور آزاد عورتوں کیساتھ نکاح میں رکھ کر پورا پورا انصاف مہیا کرنے کا تصور دیدیا اور زیادہ عورتوں کو انصاف مہیا نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا پھر جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ معاہدے والی کو انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی ایک محدود وقت اور مالی معاونت تک کیلئے ہوسکتی ہے۔عورت اپنا خرچہ خود بھی اٹھاسکتی ہے۔ اگر عورت آزاد ہو اور شوہر غلام تو ان میں بھی معاہدہ ہوسکتا ہے جو لکھنے کی حد تک باہمی مشاورت سے طے ہوسکتا ہے۔ قرآن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ” اگر تمہیں اس میں خیر نظر آئے تو غلام کی مالی معاونت بھی کرو”۔ قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے لکھا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کو آزاد کرنے میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ آزادی کیلئے پیسہ لے کر مکاتب کرو”۔ مولانا سید مودودی نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کی سرکشی کا خوف نہ ہو اور اس میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ مکاتبت کا معاہدہ کرلو”۔ حالانکہ غلام کی آزادی میں بجائے خود خیر ہے۔ کفارہ ادا کرنے کیلئے پہلی ترجیح غلام و لونڈی کو آزاد کرنا واضح کیا گیا ہے۔
نکاح و ایگریمنٹ کا فرق اس سے مزیدواضح ہوجاتا ہے کہ نکاح میں شوہر کو پوری ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے اور ایگریمنٹ میں عورت اپنی حیثیت ہی کے مطابق کبھی مرد کو سپورٹ تک کرتی ہے۔ خاص طورپر اگرمرد غلام ہو اور عورت آزادہو۔ایگریمنٹ میں عورت کی پوزیشن نہیں بدلتی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا، جس کو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر تبیان القرآن اور شرح حدیث نعم الباری میں نقل بھی کیا ہے۔ حالانکہ ایگریمنٹ سے عورت کا تشخص نہیں بدلتا ہے۔ پہلے شوہر ہی کی طرف اس کی دنیا میں نسبت ہوتی ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ سے بھی نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ” اپنی بیٹیوں کو مجھ پر پیش نہ کرو”۔ جب قرآن میں اللہ نے یہ واضح کیا کہ ‘ ‘ تمہارے لئے وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور پھر ام ہانی کے ساتھ ایگریمنٹ کا معاملہ ہوا تو یہ سمجھ لیا گیا کہ نکاح اور ایگریمنٹ کے حلال وحرام میں فرق ہے۔ لیکن نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ ”جن سے محرم ہونے کی وجہ سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے ایگریمنٹ بھی نہیں ہوسکتا ہے”۔ حضرت علی نے بھی امیر حمزہ کی بیٹی پیش کردی تھی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” یہ میری رضائی بھتیجی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv