پوسٹ تلاش کریں

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ و تلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمونOآیت230البقرہ
پس اگر اس نے طلاق دے دی تو پھر اس کے لئے حلال نہیں ہے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ، پس اگر وہ اس کو طلاق دے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کریں اگر انہیں گمان ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم رہ سکیں گے، اور یہ وہ اللہ کے حدود ہیں جس کو اللہ بیان کرتا ہے اس قوم کیلئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔

آیت230سے حلالہ مراد نہیں بلکہ آیت229میں3مرتبہ طلاق کے بعد وہ صورتحال واضح ہے جس میں طے ہو کہ صلح کی گنجائش نہیں ہے۔صلح نہ ہونے کی صورت میں عورت کی جان خلاصی کیلئے زور دار الفاظ کااستعمال بڑامعجزہ تھا۔

جبکہ ان دونوں آیات سے پہلے آیت228میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی بھرپور وضاحت ہے اور ان دونوں آیات کے بعد آیات232-231میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی سے اصلاح کی شرط پر رجو ع کی وضاحت ہے۔ جس کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی فیصلہ کن طریقے سے بالکل واضح ہے۔

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حلالہ کی رسم کو ختم کرنا تھا تو پھر آیت230میں ایسے الفاظ کے استعمال کی کیا ضرورت تھی؟۔ بہت زبردست سوال ہے اور اس کا جواب بھی تسلی اور اطمینان سے سمجھ لیجئے گا۔
اگر اسلامی تاریخ میں مثبت اور منفی نتائج کو دیکھ لیں تو ایک ساتھ تین طلاق کے نتائج عورت کے حق میں بہت بہتر نکلیں ہیں اسلئے کہ حلالہ سے متأثرین اور مجرحین کی تعداد بالکل آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اکٹھی تین طلاق کے الفاظ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور وہ یہی چاہتی تھیں کہ وہ شوہر سے الگ ہوجائیں ۔
اصل مسئلہ عورت کے حقوق کا تھا اور عورت کے حق کی وضاحت ہی کیلئے آیت230کی وضاحت بہت ضروری تھی ،اگر یہ نہ ہوتی تو پھر کوئی راستہ بھی نہ ہوتا کہ عورت کی جان شوہر سے کبھی چھوٹ جاتی۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے واضح کیا کہ طلاق کے بعد عورت کی عدت کے تین مراحل ہیں اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے اور اس عدت میں ان کے شوہروں کو باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق حاصل ہے۔ اتنی وضاحت کے باوجود بھی اصلاح وصلح کی شرط کو نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی طبقات نے ایک طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی اور یہ عورت کی بہت بڑی حق تلفی ہے ۔
پھر آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دیدی۔ لیکن مذہبی طبقات نے پھر معروف واصلاح کی شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی۔ باہمی اصلاح اور معروف کی شرط کوبالکل نظرانداز کیا۔
پھر آیت230میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر کردیا تو حلالہ سمجھ کر مذہبی طبقے کی بانچھیں کھل گئیں۔ اگر اس میں یہ جملہ نہ ہوتا تو عورت کے حقوق کی طرف کبھی توجہ بھی نہ جاتی۔ اتنے زبردست الفاظ سے عورت کے حق کو تحفظ دلانا مقصود تھا لیکن مذہبی طبقے نے ان کی عزتیں لوٹ لیں۔
آیت231میں واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے۔ مذہبی طبقہ اتنا ناعاقبت اندیش تھا کہ بجائے یہ سوچنے کے کہ اللہ نے آیت228میں اصلاح، آیت229میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دی تو کچھ اس پر غور کرتے کہ اس سے مراد باہمی رضامندی ، صلح واصلاح سے رجوع مراد ہوسکتا ہے؟۔لیکن پھر بھی انہوں نے اس آیت سے دلیل پیش کی کہ ”رجوع شوہر کا اختیار ہے”۔
آیت232میں اندھوں کی آنکھیں ،بہروں کے کان اور ناسمجھوں کے دل کھولنے کیلئے مزید وضاحت کردی کہ اگر تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ گئیں تو اگر وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرنا چاہتی ہوں معروف طریقے سے باہمی رضامندی کے ساتھ تو ان کے درمیان رکاوٹ کھڑی مت کرو۔
ان ساری آیات کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے۔ کوئی ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں کہ نبی ۖ نے میاں بیوی کی رضا مندی کے باوجود بھی صلح سے منع کیا ہو۔ اگر کوئی بے شرم یہ بات پکڑ کر بیٹھ جائے کہ ”اللہ نے قرآن میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے ”اور اس وجہ سے نماز پڑھنے کی تمام آیات کا انکار کرے تو پھرکیا کیا جاسکتا ہے؟۔
بخاری میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کی روایت من گھڑت ہے اسلئے کہ بخاری میں یہ واقعہ اور جگہوں پر نقل ہے ،جن میں الگ مراحل کی طلاق ثابت ہے اور دوسرا یہ کہ عورت نے جس طرح نامرد کا الزام لگایا تھا تو شوہر نے اپنی مردانگی کی وضاحت کی تھی اور یہ باہمی اختلاف مارپیٹ کا مسئلہ تھا ،اس میں حلالے کا کوئی دور دور بھی واسطہ نہیں بنتاہے۔
آیت میں یہ ہے کہ ”اگر دوسرا شوہر طلاق دے تو پہلے شوہر سے اس وقت رجوع میں کوئی حرج نہیں کہ جب دونوں کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے”۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا شوہر اتنی جاذبیت نہیں رکھتا ہو کہ پہلے سے شادی کے بعد بھی جنسی تعلقات کا خدشہ رہے۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت230سے پہلے ”سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اٰتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاؤلٰئک ھم الظالمونO
طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف کے ساتھ روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ ان دونوں کو خوف ہو اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میںدونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں۔ آیت229البقرہ

آیت میں نیلی لکھائی کے اندر یہ واضح ہے کہ دئیے ہوئے مال میں سے کوئی چیز واپس عورت سے لینا اس وقت جائز ہے کہ جب ان دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ یعنی عورت کی طرف سے وہی چیز فدیہ کی جائے گی جو شوہر نے اس کو اپنی طرف سے دی ہے۔

علماء کرام ، حکمران ، دانشور، پروفیسر، طلباء اور عوام تھوڑا تدبر فرمائیں! کیا قرآن کی یہ آیت بالکل واضح نہیں کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کوئی چیز تیسری طلاق کے بعد واپس لینا جائز نہیں؟۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی کے اُستاذمولانا سلیم اللہ خان نے اپنی شرح صحیح بخاری ”کشف الباری” اور تنظیم المدارس کے صدر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے اُستاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح صحیح بخاری ”نعم الباری” میں رسول اللہ ۖ کی یہ حدیث لکھی ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”سورہ بقرہ آیت229میں تسریح باحسان یعنی احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔
اس تیسری طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد جب اللہ نے یہ واضح فرمادیا ہے کہ شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کودیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔ ان الفاظ سے عورت کے ان مالی حقوق کا تحفظ واضح ہے جو شوہر کی طرف سے ان کو ملے ہیں۔ سورہ النساء آیت21-20میں بھی یہی واضح ہے کہ شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے مگر اگر بیوی کو بہت سارا مال بھی دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔
پھر آیت229میں یہ واضح ہے کہ ”اگر دونوں میاں بیوی کو یہ خوف ہو کہ تیسری طلاق کے بعد دی ہوئی وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو اللہ کے حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ”۔ یعنی جومال واپس لیناحلال نہیں وہ ایک خاص مجبوری کی وجہ سے جائز ہے۔
اب پاکستان کی حکومت کی مرکزی کابینہ اور ساری صوبائی حکومتیں اس بات کے اوپر غور کریں کہ کیا اس آیت سے ”خلع” مراد ہوسکتا ہے؟۔
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعدبڑا مالی تحفظ دے دیا ہے۔ پھرخلع سے عورت کو بلیک میل کرنا کتنا بڑا جرم ہے؟۔یہ جرم علامہ شبیر احمد عثمانی، سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا وحید الدین خان اورجاوید احمد غامدی سبھی نے کیا۔ اس کی وجہ مدارس کی تعلیم ہے۔ امام شافعی کے نزدیک تین طلاق کے درمیان یہ خلع جملہ معترضہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک دو مرتبہ طلاق کے بعد اس خلع سے تیسری مرتبہ طلاق منسلک ہے۔ حالانکہ یہ اختلاف قرآن و حدیث اور عقل وفطرت کے بالکل منافی ہے۔
فقہ کے امام کہتے ہیں کہ ”جب صحیح حدیث آجائے تو ہماری رائے کو دیوار پر دے مارو”۔ صحیح حدیث میں تیسری طلاق کی وضاحت پہلے سے اس آیت ہی میں موجود ہے۔ تیسری مرتبہ کی طلاق کے بعد خلع مراد لینا تو انتہائی درجے کی حماقت ہے لیکن اگر دو مرتبہ طلاق کے بعد خلع مراد لیا جائے پھر تیسری مرتبہ کی طلاق ہو تو یہ بھی انتہائی درجے کی حماقت ہے۔ کیونکہ خلع اور طلاق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق سے پہلے خلع مراد لینا حماقت کی آخری انتہاء ہے۔
بالفرض اگر حنفی مؤقف تسلیم کرلیا جائے تو پھر تیسری طلاق کا تعلق بھی خلع کے ساتھ ہوگا۔ علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” میں اس مؤقف کو ہی واضح کیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے علامہ تمنا عمادی قرآن کی تفسیر کا درس دیتے تھے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اور علماء نے اس کو گوشہ گمنامی میں دفن کردیا ۔ علماء حق کو حلالہ سے سروکار نہیں تھا اور درباری مفتیان کا یہ بڑاخصوصی شغف رہا تھا۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت229کے بعد ”سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

اگر ترقی یافتہ دنیا میں عورت کے حقوق کے حوالے سے قرآن کا صور پھونکا جائے تو بڑا انقلاب آئے گا۔

توراة میں تحریف کرنے والے یہود کو قرآن نے گدھا قرار دیا اور یہ اُمت بھی ان کے نقش قدم پر چلے گی

قرآن میں طلاق واقعی ایک بڑا حساس معاملہ ہے لیکن کیوں؟۔
اگر عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تب بھی آدھا حق مہر فرض بن جاتا ہے۔ اگر مقرر نہ کیا ہو تو امیر پر اس کی وسعت کے مطابق اور غریب پر اس کی وسعت کے مطابق دینا ضروری ہے۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر عورت نصف سے کچھ کم بھی لے تو حرج نہیں۔ اور مرد نصف سے زیادہ بھی دے تو حرج نہیں لیکن مناسب یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ زیادہ دے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل کرنا مت بھولو۔
قرآن کی ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر شوہر کی وسعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر اتنا ہونا چاہیے کہ جب مرد اس کو ادا کرے تو اس کو اچھی خاصی کلفت کا سامنا ہو۔ یہاں تک کہ عورت سے یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے حق میں سے کچھ معاف کرے۔ اگر اعزازیہ ہوگا ایک کروڑ پتی آدمی پانچ دس ہزار یا50ہزار، لاکھ مہر دے گا تو اس میں کیا سوچ بچار ہوگی کہ کون معاف کرے کون نہیں؟۔ اور جب معاملہ طلاق کا ہے اور طلاق مرد ہی کی طرف سے ہوتی ہے تو اللہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جس کے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے اس کو چاہیے کہ وہ رعایت لینے کے بجائے رعایت دے۔ کیونکہ عورت کے خلع کا معاملہ نہیں ہے۔ ان بیوقوفوں نے اس سے یہ اخذ کرلیا کہ طلاق صرف شوہر کا حق ہے اور خلع عورت کا حق نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں چونکہ معاملہ خلع کا نہیں طلاق کا تھا اسلئے گرہ کی نسبت شوہر کی طرف کی گئی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو طلاق کے مقابلے میں اس کے حقوق بہت کم ہوجاتے ہیں۔
البتہ حق مہر تو بہر صورت اس کا حق ہوتا ہے۔ خلع میں گھر اور جائیداد وغیرہ چھوڑنے پڑتے ہیں اور طلاق میں سب دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہی ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے آسان ترجمہ قرآن میںصریح آیات کیخلاف بالکل غلط تفسیر لکھی ہے۔ حق مہر اعزازیہ نہیں ،آئیے میں بتاتا ہوں کہ کیا ہے؟۔
بیمہ اردو میں انشورنس کو کہتے ہیں۔ جب تاجر پرانے دور میں مال کے بدلے میں ایک پرچی لکھتے تھے جو اس قیمت کی ضمانت ہوتی تھی اس کو بیمہ کہا جاتا تھا۔ حق مہر دو قسم کا ہوتا ہے ایک معجل جو فوری طور پر ادا کردیا جاتا ہے اور دوسرا موجل جس میں بیمہ کی طرح گارنٹی ہوتی ہے۔ اس حق مہر کی حیثیت کو ختم کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب شوہر چاہتا ہے تو عورت سے خدمت لے کر مدتوں بعد چھوڑ دیتا ہے اور اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی ایسی کہانیاں ہیں کہ بھتیجے نے اپنی بیگم کو طلاق دے دی ۔ پھر مرید نی سے اس کی شادی کرائی۔ پھر اس نے ان بچوں کو پالا پوسا اور بڑا کیا ، خدمت کی اور پھر ایسا وقت آیا کہ بچوں کی حقیقی ماں کا دوسرا شوہر فوت ہوگیا تو اس کو دوبارہ لائے اور مریدنی کو گھر سے نکال بھگادیا۔ اگر حق مہر کو اعزازیہ سمجھنے کے بجائے ایک زبردست گارنٹی قرار دیا جاتا تو عورتوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتی نہ ہوتی۔ جب عورت کے خلع کا حق چھین لیا گیا تو اس کے نتیجے میں فقہ کے مسائل ناقابل حل ہوگئے۔ مثلاً مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی زوجہ کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں۔ پھر مکر گیا۔ اب اگر اس کی بیگم کے پاس دو گواہ نہ ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے جھوٹی قسم کھالی تو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” میں لکھا ہے کہ عورت خلع لے گی لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ یہ فقہ کی ان کتابوں کا حال ہے جن میں باقی سب کچھ ہے لیکن فقہ نہیں۔ اسلئے کہ فقہ سمجھ کا نام ہے اور سمجھ انسانوں میں ہوتی ہے گدھوں میں نہیں۔ قرآن نے تورات میں تحریف کرنے والے علماء کی مثال گدھوں سے دی ہے۔ حدیث میں یہ خبر ہے کہ یہ اُمت بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چلے گی۔
بہشتی زیور مولانا اشرف علی تھانوی کی وہ کتاب ہے جو اکثر گھروں میں بھی ہے۔ اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اس کی بہت زیادہ تعریف لکھی ہے۔ اگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیگم سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق ۔ تو بہشتی زیور کے مطابق عورت پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ لیکن اگر مفتی تقی عثمانی کا ارادہ ایک طلاق کا ہوگا تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی اور فتویٰ یہ دیا جائے گا کہ بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں ہیں۔ بہشتی زیور کے مطابق بیگم کو فتویٰ دیا جائے گا کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ اب ایک طرف وہ خاتون مفتی تقی عثمانی کے نکاح میں ہوگی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ اس پر حرام ہوچکی ہے۔ اس صورت میں تو حلالہ بھی نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ پہلا نکاح بدستور موجود ہے۔ یہ ہے قرآن کی تعلیم سے انحراف کا نتیجہ۔ اگر خلع کا حق عورت کا مان لیا جاتا تو ایسی تذلیل کیسے ہوتی؟۔ آنے والے دور میں بہت لوگ بہت کچھ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پوچھیں گے۔ اس سے پہلے پہلے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ میں خود کو ہبہ کرتی ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ ! اگر آپ کو ضرورت نہیں تو مجھے دیجئے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ کچھ بھی نہیں۔ نبی ۖ نے حکم فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ، جو کچھ بھی مل جائے۔ وہ واپس آیا اور عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ کوئی لوہے کی انگوٹھی تک بھی اس کے پاس نہیں تھی۔ پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کو قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟۔ صحابی نے کہا کہ ہاں۔ نبی ۖ نے حکم دیا کہ اس عورت کو یہ سورتیں یاد کراؤ۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے انتہائی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر بن سکتی ہے۔ حالانکہ اگر لوہے کی انگوٹھی مل جاتی تو یہ اس شخص کا کل سرمایہ تھا۔ یہ دلّے اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ عورت کا حق مہر کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک زبردست گارنٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے نبی ! یہ آپ ہی کیلئے خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے۔ قرآن نے اس بات پر پابندی لگادی کہ کوئی عورت خود کو ہبہ بھی کرے تو اس کا حق مہر نہیں مار سکتا ہے۔ جس دن ترقی یافتہ دنیا میں قرآن کا یہ صور پھونکا جائے گا کہ نکاح میں مرد کا کوئی حق نہیں ہے اور عورت کیلئے شوہر کی وسعت کے مطابق ایک معقول گارنٹی ہے۔ سارا خرچہ بھی اصولاً شوہر ہی کے ذمہ ہے۔ خلع کا حق بھی عورت کو حاصل ہے اور خلع میں بھی مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں اور حق مہر کا تحفظ اس کو ملے گا۔ البتہ دیا ہوا گھر اوردی ہوئی جائیداد سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ اور طلاق کی صورت میں گھر تو ہوگا عورت کا اور اس کے علاوہ دی ہوئی جائیداد اور تمام اشیاء کی بھی وہ مالک ہوگی۔ کاش قرآن و سنت کے مطابق مسلمان عورتوں کے حقوق اجاگر کریں اور دنیا کو فتح کریں۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
اور ”ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

درسِ نظامی اور فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں جعل ساز علماء ومفتیان نے جھوٹ کی آخری سرحد پار کردی ہے۔ اسلئے کہ ”قرآن سے مراد وہ پانچ سو آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں” ۔جن کا فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں کوئی نشان تک بھی نہیں ہے۔بس صرف500آیات کا خالی نام ہے لیکن کونسی آیات ہیں ؟ اور کہاں کہاں ہیں؟۔ یہ کسی کتاب میں نہیں اور نہ کسی عالم ، مفسر، محدث اور مفتی کو اس گم شدہ معلومات کے ذخیرے کا کوئی پتہ ہے۔ بس ایک رٹ لگار کھی ہے۔
اصول فقہ اور فتویٰ کی کتابوںمیں چندمنتشر قرآنی آیات کے ٹکڑوں کو بہت انداز میں جوڑ کر اس کے انتہائی غلط نتائج نکالتے ہیں۔ خود تو بے راہ روی کا شکار تھے ،مذ ہب اہل بیت سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور حدث وحادثے سے بننے والے اہل حدیث کو بھی بدترین گمراہی میں ڈال دیا ہے۔ اگر قارئین ان مذہبی طبقات کو سمجھ لیں تو شیعہ ،دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث ، پرویزی، غامدی، ڈاکٹر نائیک ذاکری اور انجینئر محمد علی مرزا جہلمی سب کے سب اپنی اپنی فکر سے توبہ کرکے اصلی مسلک حنفی کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز اور قادیانی تو مینار پاکستان پر لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کریں گے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بالکل جھوٹا اور کذاب تھا۔ قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آسکتاہے۔
اگر قرآنی آیات ، نبی ۖ کی احادیث اور امام ابوحنیفہ کے اصلی مسلک کو سمجھ لیا تو اہل حدیث اور شیعہ حضرات کہیں گے کہ حضرت عمر کے فاروق اعظم ہونے کیلئے اور کچھ نہیں صرف مسئلہ طلاق کا حل بھی کافی ہے ۔
جس کو چراغ سحر سمجھ کر بجھادیا تھا ہم یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی
دورِ جاہلیت میں حلالہ کی لعنت کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق ہی کیساتھ تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ایک طلاق کے بعد عدت میں شوہر رجوع کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا۔ تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد عورت کو دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاتا تھا۔ چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ مسائل تو بہت تھے ، جس میں آج پھر امت مسلمہ کو اسی دورِ جاہلیت میں دھکیل دیا گیا لیکن یہاں قرآن وسنت اور فقہ حنفی کے اہداف سے امت مسلمہ کو قرآن کی طرف رجوع کی دعوت دیتا ہوں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی ،مولانا محمدانور شاہ کشمیری، علامہ سیدمحمد یوسف بنوری، مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود کی بھی یہی خواہش تھی۔
طلاق سے متعلق قرآنی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں تصویر کے دورُخ ہیں۔ تصویر کا پہلا رُخ یہ ہے کہ طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی اصلاح وصلح اور معروف طریقے سے رجوع چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے پورا پورا زور اس بات پر ہی دیا ہے کہ عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بالکل بھی بند نہیں کیا ہے ۔ایک ایک آیت اس کی دلیل ہے اور کسی ایک حدیث سے بھی ذخیرہ حدیث میں اس کی تردید نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف بالکل بھی نہیں تھا۔ تمام صحابہ کرام واہل بیت عظام اس پربالکل متفق اور متحد تھے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب شوہر طلاق دے اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ جب کوئی شوہر پھر بھی اس طلاق کے بعد اپنا اختیار اور حق جتائے تو اس کی طرف یہ فتویٰ متوجہ ہوتا ہے کہ وہ عورت اب اس کیلئے قطعی طور پر حلال نہیں ہے ،یہاں تک کہ وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے اور پھر جب وہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو بھی اس صورت میں آپس کے رجوع کی اجازت ہوگی کہ جب ان کو گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیںگے۔ اگر بالفرض دونوں کیلئے اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا گمان ہو تو پھر ان کے لئے اس کے بعد بھی رجوع کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلا شوہر بہت مالدار ہو لیکن خصی ہو اور دوسرا شوہر غریب ہو لیکن مردانہ قوت کا مالک ہو۔ اگر دونوں پڑوس میں رہتے ہوں۔ اگر نامرد مالدار سے نکاح ہوجائے اور مردانہ قوت کے مالک غریب سے رابطے کی کوئی سبیل نکلتی ہو اور اللہ کے حدود ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو پھر ان کو گمان ہوسکتا ہے کہ اللہ کے حدود کو پامال بھی کرسکتے ہیں تونکاح جائز نہ ہوگا۔ تصویر کے دوسرے رُخ میں یہ طے ہے کہ جب طلاق کے بعد پہلے شوہر سے صلح کرنے کا کوئی پروگرام نہ ہو تو پھر کسی صورت میں بھی صلح نہیں ہوسکتی ہے ۔
تصویر کا پہلا رُخ سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232کے علاوہ سورہ طلاق میں بھی یہ پورا نقشہ اچھی طرح سے بہت وضاحتوں کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے۔ عام تعلیم یافتہ اور ان پڑھ بھی اس کا ترجمہ سن کر معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن میں کوئی تضادات نہیں ہیں اور سمجھنے کیلئے بہت آسان ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ سورۂ بقرہ کی آیت229اور230کو اچھی طرح تدبر کیساتھ دیکھ کرسمجھ سکتے ہیں۔ جس میں تین مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کودیا ہے کہ ان میں سے کچھ واپس لیں مگر یہ کہ جب دونوں کوخوف ہو کہ وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو معاملہ دونوں کے درمیان اللہ کے حدود کو توڑنے تک پہنچ سکتا ہے تو پھر وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ پھر اگر اس کو طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ البقرہ:230-229
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا مالک بنادیا ہے اور اس کے حق کی حفاظت کو واضح کیا ہے لیکن اگر کوئی ایسی چیز ہو جس سے اس کی عزت محفوظ نہ رہے تو دی ہوئی چیز میں سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کہ اس کی عزت سے تو وہ چیز زیادہ قیمتی نہیں ہے۔
علماء ومفتیان تو تقلیدی مرض کا شکار تھے اسلئے قرآن کے متن کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا لیکن مولانا مودودی، علامہ وحیدالزمان اور جاوید غامدی بھی اس جہالت کا شکار ہوگئے کہ جہاں اللہ نے عورت کے مالی حق کی حفاظت میں شوہر کے دئیے ہوئے مال کا بھی مالک قرار دیا ہے وہاں یہ خلع مراد لے کر عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنادیا ہے۔ درسِ نظامی کے علماء ومفتیان بہت فخر کریں گے کہ مدارس کی تعلیم سے ایک طالب علم نے امت مسلمہ کو کشتی نوح فراہم کردی۔ سینٹر مشتاق خان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ فوج کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر بولنا شروع کریں۔ ان کو جماعت اسلامی کی غلط فکر کے سامنے ڈٹنے کی جرأت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ اب ایک مافیا بن چکا ہے اور مولوی کے سامنے جماعت مرغی بن کر کھڑی ہے۔
قرآن کے عظیم مقاصد کے خلاف سارا معاملہ صحیح بخاری نے بگاڑ دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ اور بدعت ہے اور شافعی کے نزدیک مباح وسنت ہے۔ بخاری نے رفاعة القرظی کی بیگم کو طلاق دینے کی روایت کوامام شافعی کی حمایت اور امام ابوحنیفہ کی مخالفت میں نقل کیا جس سے تأثر پیدا ہوا کہ نعوذ باللہ نبی ۖ نے نامرد سے حلالے کا حکم دیا۔ حالانکہ بخاری نے دوسری جگہ نقل کیا ہے کہ اس شخص نے نامرد ہونے کو جھٹلایا تھا اور رفاعة نے طلاق بھی الگ الگ مراحل میں دی تھی۔ تمام روایات درج ہوتیں تو مغالطہ نہ ہوتا۔

نوٹ: ” اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف” کے عنوان کے تحت کے یہ تبصرہ کیا گیا ہے۔مکمل آرٹیکل پڑھنے کیلئے یہ آرٹیکل بھی ضرور پڑھیں۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

شیعہ، اہلحدیث اور دیوبند ی بریلوی حنفیوں کیلئے اخبار حاضر ہے ۔ ہم اپنی طرف سے ان کا مؤقف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کی سمجھ قرآن اور سنت کے حوالے سے بالکل کھل جائے۔ شیعہ حضرات نے نسل در نسل اپنے ائمہ اہل بیت کا مذہب نقل کیا ہے اور اس میں صحیح بات ان تک پہنچی ہے یا نہیں؟۔ اس کا جواب شیعہ علماء وذاکرین علامہ سید جواد حسین نقوی اور علامہ شہنشاہ حسین نقوی وغیرہ دے سکتے ہیں۔ ہم مکالمے کیلئے صرف راہ ہموار کررہے ہیں۔
جب حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر تین کا حکم جاری کردیا تو شیعہ اس کو قرآن وسنت کے خلاف ایک بدترین بدعت سمجھتے ہیں ، جس کا نتیجہ گمراہی ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں اور عورتوں کی عزتیں بھی حلالہ کی لعنت کے نام پر لٹتی ہیں۔ اس بدعت کی حمایت کرنے میں علماء ومفتیان کا اپنا مفاد ہے۔ جس کی وجہ سے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود بے تاج بادشاہ ہیں۔ جس بادشاہ ، خان ، نواب، پیر فقیر اور بڑے چھوٹے طبقے کے انسان کو بھی حلالہ کا فتویٰ دے کر اس کی بیگم کی عزت تار تار کردیتے ہیں تو وہ شخص پھر اس کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے لائق نہیں رہتا ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ہاں شیخ الاسلام ، مفتی اعظم اور قاضی القضاة( چیف جسٹس) کے عہدے کسی بھی شخص کے پاس نہیں تھے لیکن جب نام نہاد شریعت سے نام نہاد فقہاء نے بادشاہوں کی خواہشات کو درباری بن کر پورا کرنا شروع کردیا اور انہوں نے بادشاہوں کو بھی اپنے دامِ فریب کا شکار کرنا شروع کیا کہ کس طرح اس کے ہاتھ سے بیوی نکل جائے گی اور کس طرح اس کی بیوی کو شریعت میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور کس طرح حلالہ کی لعنت کے ذریعے بیوی کو واپس لوٹایا جائے گا تو بادشاہوں نے اپنے دربار میں ان خدمات کے عوض زبردست عہدے دینے شروع کئے۔
عبداللہ بن مبارک، علامہ جلال الدین سیوطی اور امام غزالی نے جب لکھ دیا کہ شیخ الاسلام قاضی القضاة مفتی اعظم چیف جسٹس ابویوسف سے وقت کے بادشاہ عباسی خلیفہ نے کہا کہ ”میرا دل باپ کی لونڈی پر آیا ہے۔ کوئی شرعی طریقہ اور اخلاقی سلیقہ ایسا سکھادیجئے کہ وہ میرے لئے جائز بن جائے”۔ ابو یوسف نے کہا کہ ” مجھے اس کاکتنا معاوضہ ملے گا؟”۔ امام ابویوسف کے شاگردوں نے بڑی بڑی کہانیاں مشہور کردیں تھیں کہ مشکل سے مشکل مسائل کا حل نکالنے میں بہت بڑے مشکل کشاء اعظم ہیں۔ جب امام ابویوسف طالب علم تھے تو امیر کبیر شخص سے چندہ مانگ لیا۔ اس نے کہا کہ پیسوں کا کیا کرنا ہے؟۔ چھوٹے سے بچے نے بہت معصومیت کے لہجے میں کہا کہ محترم المقام مجھے علم حاصل کرنا ہے۔ اس مالدار شخص نے انتہائی رعونت سے کہا کہ علم میرے لئے حاصل کرتے ہو یا اپنے لئے ؟۔ جاؤ یہاں سے دفع ہوجاؤ ۔میں ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔
وقت گزر تا چلا گیا۔ امام ابویوسف بھی مشہور مشکل کشا بن گئے۔ پیچیدہ اور سنجیدہ مسائل کا حل نکال کر لوگوں سے امام کا لقب بھی پالیا۔ دوسری طرف اس مالدار شخص کی مال ودولت میں بے انتہاء اضافہ ہوا ،اسلئے کہ بہت سخت کنجوس تھا۔ صرف کمانا ہی جانتا تھا، خرچ کرنا نہیں جانتا تھا۔ اس نے شادیاں کرلیں ، بہت ساری عورتوں کو طلاق بھی دے دی اسلئے کہ اس کا بیٹا پیدا نہیں ہورہا تھا ۔ جب ایک دفعہ کسی نے کہا کہ تم بہت بخیل ہو ،اگر بیٹا بھی پیداہوگا تو کوئی خیرات صدقہ نہیں کروگے!۔ اس نے جوش میں کہا کہ اگر میرا بیٹا پیدا ہوگا تو میں بڑا مینڈھا خیرات کروں گا جس کی چکی کا سائز کم ازکم7بالش ہو۔ اہل محفل میں سے کسی نے کہا کہ جب تمہارا بیٹا پیدا ہوگا ،تب بھی تم ایسا مینڈھا ذبح کرکے خیرات نہیں کروگے۔ اس نے کہا کہ اگر میں نے نہیں کیا تو مجھ پرمیری بیوی3طلاق ہوگی۔
ایک دن اس کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو بہت خوش ہوا لیکن پریشانی بھی ہوئی کہ اتنا بڑا مینڈھا کہاں سے لائے گا؟۔ یہ تو دنیا میں موجود نہیں مفقود ہے۔ علماء ومفتیان کے ہاں چکر لگائے کہ کوئی راستہ نکلے لیکن ہر جگہ سے جواب ملتا تھا کہ ایک دفعہ اپنی اس ام ولد بچے کی ماں کو حلالہ کی لعنت سے گزر نا پڑے گا اور وہ سوچتا تھا کہ ایسی بے غیرتی سے اگر گزر بھی گیا تو پھر اگر بیوی مکر گئی تو بڑے برے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بچہ میرے پاس ہوگا اور اس کی ماں کسی اور کے پاس ہوگی۔ یہ زندگی بھر کی خواری کیسے گزرے گی؟۔ آخر کار کسی نے مشورہ دیا کہ امام ابویوسف کے ہاں جاؤ تو وہ راستہ نکال دے گا۔ امام ابویوسف کے ہاں پہنچ گیا تو اس نے پہچان لیا اور کہا کہ” میں نے علم اپنے لئے حاصل کیا ہے تمہارے لئے نہیں!”۔ پھر جب بہت بڑا معاوضہ طے ہوا تو امام ابویوسف نے کہا کہ تم نے طلاق دیتے وقت یہ نیت کی تھی کہ کس ہاتھ کے مطابق مینڈھے کی چکی7بالش ہوگی؟۔ اس نے کہا کہ نہیں!۔ امام نے کہا کہ نومولود کے بالش سے ناپ لو توتمہاری بیوی طلاق نہیں ہوئی۔ یہ باتیں امام ابوحنیفہ کے بارے میں بھی مشہور کی تھیں کہ بادشاہ نے بیوی سے کہا کہ اگر فجر کی آذان تک بات نہیں کی تو تجھے تین طلاق۔ پھر امام نے صبح کی آذان وقت سے پہلے دی اور عورت نے بات کی تو طلاق نہیں پڑی۔ اس طرح بادشاہ نے کہا کہ اگر میری سلطنت سے صبح تک نہیں نکلی تو تجھے3 طلاق۔ پھر امام صاحب نے مشکل حل کردی کہ مسجد میں کسی کا اقتدار نہیں ۔ وہاں پہنچادی جائے تو طلاق نہیں ہوگی۔
امام ابویوسف نے بادشاہ کو اس کے باپ کی لونڈی حلال کرنے کیلئے پہلے بڑا معاوضہ طے کیا اور پھر فتویٰ دیا کہ لونڈی عورت ہے اور اس کی گواہی قبول نہیں ہے اسلئے تمہارے لئے کاروائی حلال ہے۔ مولانا الیاس گھمن کے ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر موجود ہیں کہ اگر ماں سے بھی نکاح کرکے جماع کرلیا تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی۔ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے۔ وغیرہ
شیعہ علماء وذاکرین نے اسلئے نعرہ لگایا تھا کہ حضرت عمر کی طلاق بدعت اور فقہاء کی خواہشات سے اپنا ایمان، عقیدہ اور عزتیں بچانے کیلئے حضرت علی کے سلسلہ امامت و فقاہت سے استفادہ حاصل کرلو۔ وہی اصل مشکل کشا ہیں۔
تین طلاق کا قرآن وسنت اور مذہب اہل بیت کے فقہ میں مفہوم واضح ہے اور اس کی وجہ سے حلالہ کی لعنت اور فقہاء کی خواہشات پوری کرنے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ پہلے طہر میں جب پہلی مرتبہ طلاق دو تو پھر اس پر نکاح کی طرح دو شرعی اور عادل گواہ بھی بنالو۔ پھر حیض کے بعد دوسرے طہر کی حالت میں دوسری مرتبہ طلاق دو اور اس پر دوعادل گواہ بنالو۔ پھر تیسری مرتبہ بھی طہر کی حالت میں تیسری مرتبہ طلاق دو تو اس پر دو عادل گواہ بھی بنالو۔ اس طرح جب قرآن وسنت کے مطابق طلاق کا عمل پورا ہوگا تو حلالہ کی لعنت سے بچت ہوگی اور حضرت عمر کی رائج کردہ بدعت کے مطابق معاشرے کو تباہی اور بربادی سے ہمکنار کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ قرآن وسنت میں اس طرح کی3بارطلاق کے بعد پھر اگر رجوع کرنے کی ضرورت پڑے گی تو حلالہ سے گزرنا پڑے گا لیکن اہل تشیع کے ہاں حلالے سے پھر عورت حلال نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ قرآن وسنت میں مستقل نکاح مراد ہے۔
اہلحدیث ایک مجلس کی3طلاق ایک سمجھتے ہیں حضرت عمر نے اجتہاد سے3طلاق کو3طلاق شمار کرنے کا حکم جاری کیا ۔ ان کے پاس اجتہادی شریعت جاری کرنے کا اختیار نہ تھا۔ جس طرح قرآن وسنت میں ایک ساتھ حج کا احرام باندھنے کی اجازت تھی اور حضرت عمر نے پابندی لگائی ۔ صحابہ نے اس کو بہت برا جانا تھا اور حضرت علی نے حضرت عثمان سے بخاری کے مطابق مجادلہ کیا تھا اس طرح طلاق کا مسئلہ بھی غلط تھا جس کی وجہ سے امت بہت گمراہی کا شکار ہوگئی۔

نوٹ: ”اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف” کے عنوان کے تحت اس کا جواب اور تبصرہ دیکھیں۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت صلح چاہتی ہو تو مفتی رکاوٹ، علیحدگی چاہتی ہو تومفتی رکاوٹ کیا یہ اسلام ہے یا مولوی کا پاجامہ؟

عورت صلح چاہتی ہو تو مفتی رکاوٹ، علیحدگی چاہتی ہو تومفتی رکاوٹ کیا یہ اسلام ہے یا مولوی کا پاجامہ؟

رسول اللہ ۖ نے فرمایا : یہ امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو اس امت میں بھی ایسے لوگ ہوں گے اور اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں گھسا ہوگا تو اس میں بھی ایسا شخص ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا کہ کیا یہود ونصاریٰ ؟۔ فرمایا کہ پھر اور کون ہیں؟۔
جب قرآن کی آیت نازل ہوئی کہ اہل کتاب نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بنالیا تھا توایک صحابی (جو پہلے یہودی تھا )نے عرض کیا کہ قرآن کی اس خبر علماء ومشائخ کو اپنا رب بنانے کی بات کیسی ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایاکہ کیا تم جس چیز کو وہ حلال یا حرام قرار دیتے تھے تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام نہیں قرار دیتے تھے؟۔اس نے عرض کیا کہ یہ تو ہم کیاکرتے تھے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” یہی تو رب بنانا ہے”۔
پورے اسلام کی کایا پلٹ دی گئی ہے ، یہاں تک سودی نظام جس کو قرآن نے اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ قرار دیا ہے اور نبی ۖ نے اس کے بہت سارے گناہوں میں ایک گناہ خانہ کعبہ میں اپنی ماں کیساتھ36مرتبہ زنا بھی قرار دیا ہے۔ سراج الحق جماعت اسلامی ، شجاع الدین شیخ تنظیم اسلامی اور مفتی تقی عثمانی کا ٹبر قرآن وحدیث کی وعیدوں کو سناتے ہیں لیکن سود کو معاوضے کے تحت جائز قرار دیا ہے۔ عام آدمی اور علماء کی بھاری اکثریت اس کو سودہی کہہ رہی ہے لیکن پھر بھی سرِ بازار امت مسلمہ سے جھوٹ بولا جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام کا علماء اور مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
جس طرح یہ بات عوام وخواص کو اچھی طرح سے سمجھ میں آتی ہے کہ سودی نظام سے پاکستان میں اسلام کے نام پر کتنا پیسہ کمایا جارہاہے جس کا سُود عالمی یہودی نظام کے پاس جاتا ہے اور علماء ومفتیان بھی اس میں سے اپنی فیس وصول کررہے ہیں۔ اسی طرح سے فقہ کے نام پر عورت کیساتھ بڑی زیادتیاں ہیں۔
عوام بے حس اسلئے ہوچکی ہے کہ جب ہمارا پورا نظام سود کی وجہ سے مفلوج ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اسلام کا نام دیا جائے یا نہیں دیا جائے؟۔ لیکن وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ منحوس لوگوں نے کس طرح دین کے بدلے دنیا خرید لی ہے؟۔ ہم کچھ دوسرے مسائل کی طرف علماء کرام اور عوام کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح درباری ملاؤں نے حکومتوں کی سرپرستی میں اسلام کا کباڑہ کرکے طاقتور لوگوں کیلئے مظلوم خواتین کو ہوس کا نشانہ بنانے کی اجازت دی ہے؟۔
مفتی عبدالرحیم اورمفتی تقی عثمانی نے لکھ دیا کہ حاجی محمد عثمان کے معتقد کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے اور اس نکاح کا انجام کیا ہوگا ؟۔ عمر بھی کی حرام کاری اور اولاد الزنا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ان غلیظ فتوؤں کے بعد حاجی عثمان کی قبر پر اپنے دامادوں اور بیٹیوں کیساتھ جاتے تھے۔ مفتی اعظم امریکہ کہلانے والا مفتی منیراحمد اخون مفتی تقی عثمانی کا شاگرد اور مولانا یوسف لدھیانوی کاداماد اور مرید ہے۔ یہ فتویٰ مفتی اعظم امریکہ سے لیکر میرے جلالین اور مشکوٰة کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید پر بھی لگتا ہے جو فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے بیعت ہوگئے تھے۔ اور ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے حاجی عثمان کے حق میں فتوؤں کے بعد فتویٰ دیا تھا۔ مولانا محمد مکی حجازی مدظلہ العالی ، مدرسہ صولتیہ مکہ کے مولانا سیف الرحمن نے بھی فتوؤں کے بعد عقیدت کا اظہار کیا تھا۔ مجھے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اپنے استاذ حضرت مولانا بدیع الزمان نے حاجی عثمان کیلئے علماء ومفتیان کے خلاف اہم کردار ادا کرنے پر تھپکی دی تھی۔ جمعیت علماء اسلام ف اور س دونوں کے اکابر نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا تھا۔ تبلیغی جماعت کراچی کے امیر ،انکے صاحبزادے مفتی شاہد اور شیخ الحدیث مولانا زکریا کے خلفاء مولانا یحییٰ مدنی بھی حاجی محمد عثمان کے ساتھ تھے۔ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمد کندیاں، جمعیت علماء اسلام ف کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف، مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا سرفراز خان صفدرسیمت سندھ ، پنجاب اور پختونخواہ کے علماء کرام نے ضلعی اور صوبائی سطح سے لیکر مرکزی سطح تک ہماری زبردست تحریری اور بالمشافہہ ملاقات میں تائید فرمائی تھی۔ جن میںہمارے استاذ پرنسپل بنوری ٹاؤن کراچی ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مفتی محمد نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی، مفتی عبدالمنان ناصر لورالائی بلوچستان کے علاوہ تمام مکاتب فکر اور جماعتوں کے اہم قائدین بھی شامل تھے۔ ڈاکٹرا سرار احمد، پروفیسر غفور احمد ، مولانا سمیع الحق شہید ، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسر فریدالحق ، علامہ طالب جوہری ، مولانا حسن ظفر نقوی اور تمام مکاتب کے بڑے بڑے حضرات کی ہمارے اخبار میں سرخیاں لگی ہیں۔
جب یکم جون2007کو اخبارات کی زینت یہ خبر بن گئی کہ نامعلوم افراد نے پیر عتیق الرحمن کا پوچھا اور نہ ملنے پر گھر پر حملہ کردیا اور14افراد موقع پر جان بحق اور دوافراد زخمی ہوگئے تو جولائی2007میں مجھے اپنے انجام تک پہنچنے کی توقع پر مولانا محمد زبیر حق نواز نے ” فتاوی عثمانی جلددوم ” میں حاجی عثمان کے معتقد کے خلاف فتویٰ بھی شائع کردیا۔ حاجی عثمان کے خلاف مفتی عبدالرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے اپنے مفادات کی وجہ سے فتوے لگائے تھے، ان کا بڑاسرمایہ ڈوب رہا تھا۔ لیکن مفتی زبیر لونڈے نے کس طرح یہ حرکت کر ڈالی؟۔ اس کے محرکات تلاش کرکے مفتی زبیر کو اپنے کئے کی سزا انشاء اللہ ضرور ملے گی۔
جب اپنے خلاف فتویٰ دیکھنے کیلئے فتاویٰ عثمانی جلد دوم لی تو پھر ایسے بہت انکشاف ہوئے کہ تقی عثمانی نے کتنے غلط فتوے دیکر اسلام کا کباڑ بنادیا ہے ؟ اس ذخیرے میں کچھ فتوے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اگر اس کو جلی حروف کیساتھ شائع نہیں کیا تو آخرت میں مواخذہ ہوگا۔ برما سے بے وطن بعض غریب لوگ اپنی بیٹیاں بیچتے تھے، برما کے لوگ بہت اچھے اور غیرتمند مسلمان ہیں لیکن غربت کی وجہ سے بعض لوگ اپنی بچیوں کو دلالوں کے ذریعے فروخت کررہے تھے۔ ایک شخص نے70عورتوں کو فروخت کیا تھا اور باقی بھی کچھ دلال تھے جو نہیں شرماتے تھے۔
سوال : ایک عاقلہ بالغہ مسلمان لڑکی پنچائیت، عدالت وغیرہ ( یعنی بیچنے والے دلالوں کے نکاح کرانے کے بعد یہ بیان دیتی ہے کہ ” اس نے نکاح اپنی بلوغت کی عمر میں اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا بلکہ اپنی حقیقی ماں کا دل رکھنے کیلئے کیا تھا تو اس نکاح کی قرآن وسنت کی روشنی میں کیا حیثیت ہے؟۔
جواب : جب لڑکی بالغ ہو اور اس نے نکاح کی منظوری دے دی ہو تو نکاح ہوگیا ، بعد میں یہ کہنا کہ میں نے والدہ کا دل رکھنے کیلئے کہا تھا ،اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، نکاح قائم ہے۔ (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ274)
سوال: ۔………مسئلہ : فرض کیا اگر میری بیوی اور اس کے گھر والے وغیرہ یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ اب کسی بھی طریقے سے اور بذریعہ عدالت بھی اس خاوند سے جان نہیں چھوٹ سکے گی تو اگر میری بیوی اور اس کے گھر والے اپنی لڑکی یعنی میری بیوی کی دوسری جگہ شادی کرنے کیلئے مجھے قتل کرادیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان حالات میں قتل کا گناہ کبیرہ تو میری بیوی اور اس کے گھر والوں وغیرہ پر ہوگا ہی لیکن کیا مجھے قتل کروانے کے بعد میری بیوی جو بیوہ ہوگی اس کا نکاح کسی دوسرے مرد کیساتھ جائز ہوگا یا نہیں ؟۔
جواب: قتل کا سخت گناہ ہے مگر عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح ہوجائے گا۔ فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ(274،275)
اگر فتاویٰ عثمانی جلد دوم کا علمی جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت تضادات والے فتوے بھی ہیں جن کو دیکھ کر علماء ومفتیان بھی حیران ہوں گے کہ پیسوں کے لین دین کی وجہ سے مختلف لوگوں کو مختلف اور متضاد فتوے دئیے ہیں۔ جب چاہا لڑکی کے حق میں فتویٰ دیا اور جب چاہا لڑکے کے حق میں فتویٰ دے دیا۔
لیکن یہاں اس بات کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے کہ جب عورت جان کی خلاصی چاہتی ہو تو جب تک اس کے شوہر کو قتل نہ کیا جائے تب تک اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہو اور جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں لیکن مولوی فتویٰ دے کہ صلح نہیں ہوسکتی ہے۔ تو کیا اس اسلام کو دین فطرت کہا جاسکتاہے؟۔
مفتی زبیر میڈیا پر عورت کے حقوق کی علمبردار خواتین سے بات کرتا ہے۔ اگر عورتوں کو فتاویٰ عثمانی جلد دوم تھمادی جائے اور پھر مجلس عام میں لوگوں کے سامنے ان فتوؤں کا ذکر کیا جائے تو مفتی زبیر کو لوگ جوتے ماریں گے کہ یہ کیا کیا بکواس اسلام اور قرآن وسنت کے نام سے لکھے ہیں؟۔جو شائع کی گئی ہیں۔
جب اللہ نے سورہ النساء آیت19میں پہلے عورت کو خلع اور پھر مرد کے طلاق کا ذکر آیت20،21میں کیا ہے اور دونوں صورت میں عورت کو مالی تحفظ بھی دیا ہے تو یہ فتوے دینا کہ جب تک شوہر کو قتل نہیں کیا جائے ،کسی صورت بھی عورت فتوے یا عدالت کے ذریعے خلع نہیں لے سکتی ہے ؟۔ اس دشمنی اور قتل کا ذمہ دار طبقہ بھی یہ دین فروش مفتی ہیں۔ اب تو یہ اسلام کے نام پر چندے کھا کھا کر اپنی اوقات بدل چکے ہیں لیکن وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ مفتی تقی عثمانی اور دیگر علماء ومفتیان کو اسلئے معاف کردیا جائے گا کہ بڑی عمر کے شریف ہیں لیکن مفتی زبیر جیسے لونڈے زدگی میں مبتلاء افراد کو اوقات یاد دلائی جائے گی۔
ایک طرف سورۂ بقرہ کی آیت229سے غلط خلع مراد لیا گیا ہے اور اس کو ٹکڑے کرکے ایسا ترجمہ وتفسیر مراد لی گئی ہے کہ جو بالکل ممکن ہی نہیںہے۔ جب وہ خلع مراد ہونہیں سکتا ہے تو پھر اس سے خلع مراد لینے سے بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ جماعت اسلامی کا منبع تو ایک مولانا مودودی ہے اور اس نے ترجمہ وتفسیر غلط لکھی دی ہے اور اس کی غلطی تسلیم کرنے پر جماعت اسلامی کو اپنی ساری عمارت گرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ مولانا مودودی نے بھی قرآن کے متن کو سمجھنے میں اتنا بڑا مغالطہ کھایا ہے تو جماعت اسلامی ایک منافع بخش ادارہ ہے ، اس سے لوگوں کو بڑی مراعات مل رہی ہیں اور اس سے وہ حکومت تک پہنچنے کے وسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلاف نے مولانا مودودی کو فتنہ قرار دے کر بالکل ٹھیک کیا تھا۔
سوال : لڑکی کی شادی کم سے کم کتنی عمر میں کرسکتے ہیں۔ازروئے شرع مطلع فرمائیں۔
جواب : شادی کیلئے کوئی عمر مقرر نہیں ، ہر عمر میں نکاح کرنا جائز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ بلوغ کے بعد نکاح کیا جائے۔ (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ308)
سوال : لڑکی نابالغہ کا نکاح چچا نے کردیا۔ جب تقریباً بائیس سال کی ہوئی تو تنسیخ نکاح کا دعویٰ کیا کہ میرے چچا نے میری مرضی کے مطابق نکاح نہیں کیا ، اب یہ نکاح قابل فسخ ہے یا نہیں ؟۔
جواب : ۔ لڑکی کو خیارِ بلوغ کے تحت فسخ نکاح کا حق اسی وقت حاصل تھا جب اس پر بلوغ کے آثار ظاہر ہوئے تھے، جب اس نے اس وقت نکاح فسخ نہیں کیا تو ا سکے بعد سالہاسال گزنے پر خیار بلوغ کا حق استعمال نہیں کرسکتی ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ (فتاوی عثمانی جلددوم صفحہ287)
اللہ نے قرآن میں یتیم لڑکوں کا فرمایا ہے کہ اس وقت ان کا مال انکے حوالہ کردو جب وہ نکاح کو پہنچ جائیں۔حتی اذا بلغوا النکاح ، اس سے مراد صرف بالغ ہونا نہیں بلکہ ذمہ داری کا فرض ادا کرنے کے قابل ہونا مراد ہے۔
جہاں تک فقہی کتابوں میں مسائل کا ذکر ہے تو مفتی تقی عثمانی نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دینے والی کتابوں کے حوالے سے بھی عبارت نقل کی تھی لیکن جب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا مخالفت میں فتویٰ اور عوام نے پریشر ڈال دیا تو اپنی اردو کتاب ” فقہی مقالات جلد چہارم ” اور عربی کتاب ”تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم ” سے اپنی ان عبارات کو ایسے نکال دیا جیسے اپنے منہ کے آگے والے دونوں بدنما دانت نکال دئیے ہیں۔ اگر علماء ومفتیان اور عوام کی طرف سے پریشر پڑے گا تو سب بکواسات سے دستبردار ہوں گے۔
مجھے ایسے دیندار شخص کا پتہ ہے جس نے کہا کہ یہ مشہور ہے کہ دوسالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے میں بڑی لذت ہے۔ پاکستان میں آئے روز کیس میڈیا میں رپوٹ ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ علماء ومفتیان نے فتوے بھی دے رکھے ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا رعب ودبدبہ بھی نہیں رہاہے لیکن حکومت کو بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جب پاکستان کے آئین اور عائلی قوانین میں بچپن کی شادی پر پابندی ہے لیکن جب جماعت اسلامی والے پروپیگنڈہ کریں گے کہ مفتی محمود نے جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپے کے عوض شور نہ مچانے کا معاہدہ کیا تھا اور دارالعلوم کراچی سے بچپن کے نکاح کیلئے فتوے دئیے جائیں گے۔ غریب الدیار برمی بچیاں اور خواتین دلالوں کے ہاتھوں مفتی تقی عثمانی کے فتوؤں پر بکیں گی تو پاکستان اور اس اسلام کی دنیا میں کیا وقعت رہ جائے گی؟۔
افغان طالبان بھی مفتی تقی عثمانی کے فتاویٰ عثمانی جلد دوم کو اپنے ہاں منگواکر قرآن وسنت پر اس کو تولیں۔ مسلک حنفی کی اصول فقہ اس بات سے بھری ہوئی ہے کہ قرآنی آیات کے منافی احادیث صحیحہ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔علامہ انور شاہ کشمیری نے کہا کہ قرآن و حدیث کی خدمت نہیں فقہ کی وکالت میں عمر ضائع کردی۔ جب قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث کو مسترد کرنے کا اصول ہو توپھر فقہ کی کتابوں کی کیا اوقات ہے؟۔ مفتی تقی عثمانی پر سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دباؤ پڑگیا تو فوراً روزنامہ اسلام کراچی و ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ اس طرح جب بچیوں اور خواتین کے حوالہ سے بیہودہ اور غلیظ فتوؤں کے خلاف تحریک اٹھے گی تو یہ سرنڈر ہونے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ جب عیسائی اور یہودی کے مذہبی طبقات اس حد کو پہنچ گئے تو مغرب کی عوام نے مذہب کو چھوڑ کر سیکولر کا راستہ اختیار کرنے میں راہ نجات ڈھونڈ نکالی۔ ایسے غلط اور بدفطرت مذہبی مسائل سے سیکولر ہونا بہت اچھا ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا: اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے قیامت تک ۔اس حدیث سے ان کا غیرفطری دین سے بغاوت کرنے کی تائید ہوتی ہے۔ نبی ۖ کا دین آخری دین ہے ۔ جو فطرت کے مطابق ہے اور اس سے سیکولر ازم کی طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جو بگاڑ پیدا کیا گیا ہے یہ علماء اور مذہبی طبقات کی اپنی اختراع اور صراط مستقیم کے موٹر وے سے گمراہی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہے۔ مجھے امید ہے کہ سارے فرقوں کے علماء کرام ایک مرتبہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اسلام اور پاکستان کو مشکلات سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔پھرافغانی ، ایرانی اور ہندوستانی بھی ساتھ دیں گے۔
کیا افغانی ، ایرانی اور ہندوستانی یہ قبول کرسکتا ہے کہ وہ عرب نہیں۔ اگر اس کی بالغ لڑکی کو اغواء کیا گیا اور ڈرا دھماکر نکاح پر مجبور کیا گیا تو نکاح شرعاً منعقد ہوگیا۔اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دارنکاح ختم کرنا چاہتے ہوں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں۔ فتاوی عثمانی280
لڑکے کو قتل نہ کیا جائے تو خلع بھی نہیں ہو سکتا؟۔ غیرتمند علماء غلط اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوجائیں ورنہ داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لے لو ایک روپے میں دو فتوے، آٹھ آنے آٹھ آنے ، آ ٹھنڈے ،آٹھنڈے :شربتِ انار

لے لو ایک روپے میں دو فتوے، آٹھ آنے آٹھ آنے ، آ ٹھنڈے ،آٹھنڈے :شربتِ انار

فتویٰ فروشان اسلام بہت کھلے دل کے ساتھ پوری دنیا کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ
فتویٰ فروشی کی تمنا ازل سے ہمارے دل میں ہے
باز نہیں آنا لگالو زور جتنا بازوئے قاتل میں ہے

رسول اللہ ۖ کے حوالہ سے انصار مدینہ نے شکایت کی کہ مشکلات کے دور میں ہم نے ساتھ دیا اور اب جب آسانیوں کے دروازے کھل گئے تو مہاجر قریش کو نوازا جارہا ہے۔ نبی ۖ تک بات پہنچی تو انصار کے بزرگوں سے پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے یہ بات نہیں کی ہے لیکن نوجوانوں کے ہاں گردش کررہی ہے۔ پھر نبی ۖ نے سارے انصار کو بلایا اور ان سے خطاب فرمایا کہ جب میں یہاں نہیں آیا تھا تو تمہارے آپس کے جھگڑے رہتے تھے اب تم شیر و شکر ہوگئے ہو۔ پہلے تمہارا غربت سے بہت برا حال تھا اب دولت مند بن گئے اور پہلے حالت کفر میں تھے اب صاحب ایمان بن گئے ہو، پہلے جاہل تھے اب تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ بن گئے ہو۔ مختلف چیزیں سامنے رکھیں اور انصار نے سب کی تصدیق کی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ جو مہاجرقریش اپنا گھر بار چھوڑ آتے ہیں تو ان کی مدد کرنا ایک مجبوری ہے اگر تمہاری یہ حالت ہوتی تو تمہیں بھی اسی طرح سے مدد دی جاتی۔ کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ بے سہارا مہاجرین کو مال دیا جائے اور میں خود تمہارے مدینے کا باشندہ بن جاؤں ؟۔ انصار نے تقریر سنی اور ایک ایک بات کو سمجھ کر اس کا جواب دیا تو زار و قطار رونے لگے۔ عرض کیا رضینا باللہ ربًا و بنبیی محمد ًا وبالاسلام دینًا ”ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں ،محمد ۖ کے نبی ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر ”۔
نبی ۖ نے شکوے شکایت کی وجہ سے انصار پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا بلکہ ان کو اصل صورتحال سے آگاہ فرما کر غلط فہمیاں دور کردیں۔ خوارج نے پہلی مرتبہ خلافت راشدہ کے دور میں کفر کے فتوے شروع کردئیے ، یہ لوگ پہلے حضرت علی کے ساتھی تھے اور پھر علی کیلئے سود اللہ وجہہ (اللہ اس کا چہرہ کالا کرے) کہتے تھے۔ جس کے مقابلے میں کرم اللہ وجہہ (اللہ اس کے چہرے کو تکریم بخشے) کہنا شروع ہوگئے۔ جب حضرت علی اور امیر معاویہ کے درمیان جنگ ہوئی تو شمر علی کا سپہ سالار تھا۔ کسی ریاست میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کا کردار ایک ملازم کا ہوتا ہے۔ ہندوستان کو غلام رکھنے والے سول و ملٹری بیورو کریسی آزادی کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوگئے۔ پہلے دو آرمی چیف انگریز تھے۔ جنرل باجوہ کو نواز شریف نے نامزد کیا اور پھر عمران خان اور سب نے مل کر ایکس ٹینشن دی تو سب کا مشترکہ اثاثہ بن گیا۔ جس کی وجہ سے پھر فوج کے پروجیکٹ عمران خان سے مراسم خاص نہیں رہے بلکہ سب کے ساتھ مشترکہ بن گئے تھے۔
کراچی صدر میں ایک انار شربت فروش تھا جو آواز لگاتا تھا کہ آٹھ آنے، آٹھ آنے … کوئی سیدھا سادہ سمجھ لیتا کہ پانچ روپے کا شربت اتنا سستا مل رہا ہے اور پینا شروع کردیتا تھا تو شربت والا اپنی آواز آٹھ آنے سے آ ٹھنڈے ، آ ٹھنڈے میں بدل دیتا تھا۔ اپنے پاس بدمعاش بٹھائے تھے جو پانچ روپے دینے سے انکار کرتا تھا تو اس سے زبردستی سے بھی لے لیتے تھے۔ کچھ لوگ اپنی شرافت سے پانچ روپے دے دیتے تھے۔ ٹھگوں کا یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔
سواد اعظم اہل سنت کی تحریک کو عراق نے پیسہ دیا تو اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگادیا۔ مولانا سلیم اللہ خان نے سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق کے سوتیلے والد مولانا زکریا لنگڑے کی ڈنڈے سے پٹائی لگائی تھی اور مولانا زکریا نے سواد اعظم کے رہنماؤں اور مولانا سلیم اللہ خان پر بہت بڑے کرپشن کا الزام لگایا جو مختلف اخبارات کی زینت بنا۔ پھر وہ وقت آیا کہ ہمارے استاذ ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر نے دوران تعلیم ہم سے کہا کہ یہ باہر فسادی آئے ہوئے ہیں مولانا بنوری کے وقت میں اہل تشیع کا ماتمی جلوس گزرتا تھا تو ان کے بڑے دفتر میں آتے تھے اور نیوٹاؤن مسجد کے مٹکے صاف کرکے پانی سے بھردئیے جاتے تھے اور غسل خانے صاف کردئیے جاتے تھے تاکہ ماتمی جلوس کے شرکاء کیلئے آسانی ہو۔
پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اہل تشیع کے خلاف فتویٰ لکھا گیا کہ شیعہ تین وجوہات کی بنیاد پر قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں۔1:شیعہ پورے قرآن کی تحریف کے قائل ہیں اور قادیانی ایک آیت میں تاویل کرتے ہیں۔2:شیعہ کا عقیدہ امامت ختم نبوت کا انکار ہے۔3:شیعہ صحابہ کرام کو کافر کہتے ہیں۔
دار العلوم کراچی نے سواد اعظم کی تحریک میں پیسوں کی وصولی نہیں کی اسلئے انہوں نے اس پر دستخط نہیں کئے۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے سارے مدارس نے اس فتوے پر دستخط کئے تھے اور آج بھی وہ کتابی شکل میں مارکیٹ کی زینت ہے۔ پھر دار العلوم کراچی نے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا تو اکیلے رقم وصول کرلی تو باقی مدارس نے مفتی تقی عثمانی اور اسلامی بینکاری کے خلاف متفقہ فتویٰ دیا جو مارکیٹ کی زینت ہے۔ ان فتویٰ فروش علماء و مفتیان کا حال کراچی صدر کے شربت فروش سے مختلف نہیں ہے۔ روپے کے دو فتوے ، آٹھ آنے اور آٹھ آنے سے معاملہ بدل کر آٹھنڈے آٹھنڈے پرآجاتا ہے۔ اہل تشیع پر جن لوگوں نے فتویٰ لگایا تھا انہوں نے اتحاد تنظیمات المدارس کے نام پر شیعہ کے ساتھ اتحاد کرلیا اور کفر کا فتویٰ اسلام میں بدل دیا۔ جن مدارس نے اسلامی بینکاری کے خلاف فتویٰ دیا تھا وہ اسلامی بینکاری کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی کی تائید کررہے تھے۔ ان لوگوں کا دین ایمان اور علم صرف پیسہ اور ماحول ہے۔
خلیل جبران نے قصہ لکھا ہے کہ ایک پادری کسی وادی سے گزر رہے تھے تو کسی شخص کے کراہنے کی آواز آئی ، اس نے سوچا کہ کون ہے اور قریب سے دیکھا تو ایک اجنبی بہت شدید زخمی حالت میں پڑا تھا۔ پادری کا نام لے کر اس نے کہا کہ مجھے بچاؤ ۔ پادری نے کہا کہ اپنا تعارف کراؤ ۔ اجنبی زخمی کہہ ر ہا تھا کہ تجھے میں اچھی طرح سے جانتا ہوں اور تو بھی مجھے اچھی طرح سے جانتا ہے، جلدی مجھے اٹھاکر لے جاؤ نہیں تو میں مرجاؤں گا۔ پادری نے کہا کہ اگر تو اپنا تعارف نہیں کرائے گا تو میں تجھے چھوڑ کر جارہا ہوں۔ زخمی نے بتایا کہ میں ابلیس ہوں اور اسرافیل علیہ السلام نے مجھے اپنی دو دھاری تلوار سے شدید زخمی کردیا ۔ پادری نے خوب لعن طعن کی تو ابلیس نے سمجھایا کہ جب میں لوگوں کو ورغلاتا ہوں تو پھر وہ تجھے کفارہ کے طور پر صدقے اور خیرات دیتے ہیں۔ اگر میں نہ رہا تو تیرا بھی گزر اوقات نہیں ہوگا۔ پادری کی سمجھ میں بات آگئی اور اسے کاندھے پر اٹھالیا ، رات کی تاریکی میں ابلیس کاخون رستا رہا اورپادری کے جوتے بھر گئے۔
کراچی میں حاجی محمد عثمان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں خود پر لگنے والے فتوؤں کی داستان سامنے رکھ دی تو تاریخ کے ہر موڑ پر علماء حق اور علماء سُو ء کی سمجھ آجائے گی۔ یہ میڈیا کا دور ہے، لوگوں میں تعلیم عام ہے اور علماء و مفتیان نے وقتی مفادات حاصل کرنے کے بعد اپنا اعتماد کھودیا ہے۔ چند افراد کے غلط کردار سے سب کی بدنامی ہوئی ہے اور ہم سب اہل حق کی عزت بحال کرنا چاہتے ہیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

حتی تنکح زوجًا غیرہ کو سمجھنے کیلئے غیرتمند معاشرہ ضروری ہے؟

اللہ نے فرمایا : فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (البقرہ آیت230)
ترجمہ:۔” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ”۔ جب شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے تو مدارس کے مفتی صاحبان فقہ کی کتابوں سے اس آیت کا حوالہ دے کر فتویٰ دیتے ہیں کہ جب تک وہ کسی اور شوہر سے شرعی حلالہ نہ کروائے تو اس کیلئے حلال نہیں۔
یورپ وامریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے مسلمان اور مشرقی اقدار کے غیور لوگ جب اس معاشرے کا حصہ بنتے ہیں اور ان کے بچے بچیاں اسی ماحول اور تعلیمی اداروں میں جوان ہوجاتے ہیں تو ان کو خاص طور پر لڑکیوں کے بارے میں فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ دوسرے لڑکوں کیساتھ آزادانہ دوستی کریں گے تو ان کی غیرت بالکل غارت ہوجائے گی۔ مغرب کے گورے سے غیرت نکل گئی ہے تو انگریزی میں اب غیرت کیلئے کوئی موضوع لفظ بھی نہیں ہے۔ اگر مارپیٹ اور دوسرے طریقوں سے لڑکی کے ناجائز فرینڈشپ میں رکاوٹ ڈالی جائے تو انگریز کو یہ انسانیت کے خلاف جنگل کا قانون لگتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔
اللہ کا بہت بہت شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں شرم، حیاء ، غیرت، ضمیر اور مشرقی اقدار باقی ہیں اور اس سلیم الفطرت کی وجہ سے ہم قرآنی آیات اور سنت کے عمل کو اچھی طرح سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ حکم کیوں دیا ہے کہ ” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔
کیا انسان میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی عورت سے ازدواجی تعلق قائم کرلیتا ہے تو پھر اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اس میں یہ غیرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی اور شخص سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کو اذیت ملتی ہے، غیرت محسوس کرتا ہے اور اس کے ضمیر میں خلش پیدا ہوتی ہے؟۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کو اذیت مت دو۔آپ کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح نہ کرو”۔
جب سورہ ٔ نور میںلعان کی آیات نازل ہوئیں تو انصار کے سردار سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں لعان پر عمل نہیں کروں گا۔اپنی بیوی کیساتھ کسی شخص کو کھلی فحاشی کا مرتکب پاؤں تو دونوں کو قتل کردوں گا۔ نبیۖ نے انصار سے کہا کہ تمہارا صاحب کیا کہتا ہے ؟۔ انصار نے عرض کیا یارسول اللہ ۖ اس میں غیرت بہت زیادہ ہے اسلئے اس سے درگزر فرمائیں۔ اس نے کبھی کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح نہیں کیا ہے اور جس کو بھی طلاق دی ہے تو اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیا ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے۔ (صحیح بخاری) علماء نے اس حدیث کی غلط تشریح کردی کہ نبی ۖ نے سعد بن عبادہ کی غیرت کی تائید کردی اور فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول بھی غیرتمند ہیں۔
قرآن کی واضح آیت لعان پر مسلمانوں کے اندر آج تک عمل در آمد کا سلسلہ نہیں ہوسکا ہے۔ غیرت ہی کے نام پر خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے اس کی گنجائش بھی بالکل ختم کردی ہے۔ جب برصغیر پاک وہند میں انگریز کی حکومت تھی تو ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنی بیگمات کو کسی غیر کیساتھ دیکھ کر قتل کردیتے تھے تو انگریز نے تعزیرات ہند میں غیرت کی بنیاد پر قتل کرنے میں گنجائش اور معاف کرنے کا قانون بنایا تھا۔ برطانوی شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دے دی توجب وہ دودی الفائد عرب مسلمان کیساتھ پیرس فرانس میں حادثے کا شکار ہوگئی تو برطانیہ کی عدالت میں اس پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا کہ شاہی خاندان نے غیرت کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
لوگ منگیتر سے شادی نہ کرسکنے پر بھی اس کی دوسری جگہ شادی کرنے پر قتل کرتے ہیںتو اپنی بیوی کیلئے دوسرا شوہر برداشت کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔ جب شہباز شریف اور غلام مصطفی کھر بیرون ملک سے پرویزمشرف کے دور میں پابندی کے بعد ایک پرواز میں سفر کرکے آئے تو پیپلزپارٹی کے جیالے صحافی اطہر عباس نے اس پر طعنہ زنی کے خوب تیر برسائے تھے کہ شہبازشریف نے تہمینہ کھر سے رشتہ کیا ہے اور دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟۔ خاور مانیکا کا بشریٰ بی بی کو چھوڑ کر عمران خان سے رشتہ بھی پنجابی عوام کو بھی بہت عجیب اور انوکھا لگ رہاتھا۔ خیر یہاں بنیادی مقصد قرآنی آیت کے اصل مفہوم کو سمجھانا ہے۔
آیت229البقرہ میں تفصیل ہے کہ” دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورت کو جو کچھ بھی دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لو، مگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر واپس نہ کی گئی تو دونوں میں اس سے رابطہ ہوجائے گا اور دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ میں دی جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں،ان سے تجاوزمت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہ لوگ ظالم ہیں”۔
اس میں زبردست حدود بیان کی گئی ہیں۔1:تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور تیسرے مرحلہ میں عدت کے اندر رجوع نہیں کیا بلکہ طلاق دے دی۔ آیت کا یہ حصہ احادیث میں تفصیلی ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ تسریح باحسان ہے اور یہ واضح فرمایا کہ تین طہروحیض کی عدت کیساتھ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے۔
2:آیت میں یہ حد بھی واضح کی گئی ہے کہ اس حتمی طلاق کے بعد شوہر کیلئے جائز نہیں کہ جو کچھ بھی دیا ہو اس میں کچھ بھی واپس لے مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے خوف رکھتے ہوں کہ اللہ کی حدود پر یہ دونوں قائم نہیں رہ سکیںگے۔ یعنی جدائی کے بعد شوہر دی ہوئی چیزواپس نہیں لے سکتا اس جدائی میں باہوش وحواس دونوں کا نہ صرف کردار ہو بلکہ فیصلہ کرنے والوں کا بھی کردار ہو۔اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ آئندہ کیلئے صلح کا دروازہ بند ہے، اختلاط کی کوئی صورت نہ چھوڑی جائے۔ یہ آیت کے ظاہری الفاظ میں واضح حدود ہیں۔
قرآن میں آیت229میں جن حدود کی وضاحت کردی گئی ہے تو پھر آیت230میں معاملہ واضح ہے کہ اللہ نے صرف اور صرف اسلئے اس طلاق کے بعددوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو ضروری قرار دیا ہے کہ جب سابق شوہر سے رجوع کرنا نہیں تو پھر سابق شوہر اس عورت کی اپنی مرضی سے نکاح میں کوئی رکاوٹ نہ بنائے۔ جبکہ اس کے علاوہ قرآن کی تمام آیات میں طلاق کے بعد عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور اصلاح وصلح کی شرط پر معروف طریقے سے رجوع کی کھل کراجازت دی ہے۔
جب یزیدی آمریت کے بعد لوگوں میں قتل و غارت گری کا خوف، زبردستی سے نکاح اور جبری طلاق کارواج عام ہوگیا اور لوگوں میں غیرت وحمیت کا وہ معیار نہیں رہاہے جس کا اسلام تقاضہ کرتا ہے تو پھر سب سے بڑا معاملہ یہ بھی وقت کے گزرنے کیساتھ ساتھ پیش آیا کہ قرآن کی سمجھ ختم ہوتی گئی۔ لوگوں نے آیت کو سمجھ لیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ” جب شوہر اپنی بیوی کو تین طلاق دیدے تو اس کیلئے تب حلال ہوگی کہ جب کوئی دوسرا شخص اس میں اپنا آلۂ تناسل داخل کرے گا اور جس طرح چھری ذبح کرنے سے مرغا یا بکرا حلال ہوتا ہے اسی طرح عورت کو بھی دوسرا شوہر دخول کے ذریعے پہلے کیلئے حلال کرسکتاہے”۔
حالانکہ قرآن کی آیات بالکل واضح تھیں کہ یہ صرف اس صورت میں ہے کہ جب صلح کا پروگرام نہ ہو اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح کردیا ہے کہ صلح کی شرط پر عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ ان تمام آیات میں بھی یہ واضح ہے کہ صلح واصلاح ، باہمی رضامندی اور معروف طریقے کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے لیکن افسوس کہ تمام آیات میں صلح اور معروف کی شرط کو بھی نظر انداز کیا گیاہے۔
میرے دادا سیدامیر شاہ اور پردادا سید حسن شاہ ہماری جامع مسجد کانیگرم وزیرستان کے امام اور خطیب تھے۔جب میرے والدسید مقیم شاہ نے مسجد گرادی تاکہ تعمیر نو کرلے تو دادا سیدامیر شاہ نے کہا تھا کہ مسجد گرائی ہے اور اب بنا نہیں پائے گا۔ اچھی عمارت کی تعمیر میں دیر لگتی ہے ۔ پھر میرے والد نے مسجداچھی تعمیر کردی۔
علماء کرام فکر مند ہیں کہ سید عتیق الرحمن گیلانی نے مدارس کے نصاب کا کباڑ خانہ بنادیا۔اب اس کی تعمیر کیسے کرے گا؟۔ میرے دل میں علماء کرام کا بہت احترام ہے ۔ میرے اجداد علماء ومشائخ تھے اور میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ودیگر مدارس کے اساتذہ کرام سے نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ نصاب کے معاملے میں بہت حوصلہ بھی پایا ہے۔ دیوبند اور بریلوی بعد کی پیداوار ہیں۔ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے پردادا سید حسن شاہ اوردادا سیدامیر شاہتک علماء اور دینی وقومی پیشوا تھے۔ اگر زندگی رہی تو مدارس کے نصاب میں کلیدی کردار ادا کروں گا اورمنبر ومحراب عوام کیلئے دینی اوردنیاوی پیشوائی کا مرکز ہوں گے ۔انشاء اللہ تعالیٰ
تین طلاق اور اس سے رجوع کے حوالہ سے اپنی کتابوں اور اخباری مضامین کے علاوہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز کے ذریعہ قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام اور اصول فقہ کے حوالہ سے وضاحتیں کرچکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے تاکہ مسلمان ایک بہت بڑی غلط فہمی کی دلدل سے نکل جائیں۔ عورت کے اختیارات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کیا ہے اور مذہبی طبقات نے ان کے اختیارات کو سلب کرلیا ہے اسلئے قرآن کی آیات کے ترجمہ اور تفاسیر پر بہت منکر قسم کے اختلافات ہیں۔ سنی مکتبہ فکر اختلافات کا حل دیکھ کر حقائق بھی مان لیںگے لیکن شیعہ مکتب کے لئے اپنے مسلک سے انحراف تھوڑا مشکل ہوگا اسلئے کہ ان کی فقہ جعفریہ ایک ہے اور جب ان کو اپنا فقہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل خلاف لگے گا تو وہ بھی وحدت امت میں آجائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ قرآن کی طرف تمام مکاتب نے رجوع نہیں کیا جس کی قرآن میں شکایت بھی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

قرآن کو سمجھنے کیلئے علماء ، معاشرے اور برسراقتدار طبقے کا غیرت مند ہونا انتہائی ضروری ہے ۔جب میاں بیوی ، معاشرے،برسراقتدار طبقے اور مفتی کی غیرت ختم ہوچکی ہو تو پھر اسلام سمجھ نہیں آسکتا ہے!

فحش لاہوری عورت سے بے غیرت فوجی کا نکاح اورمفتی تقی عثمانی کا ایک انتہائی بیہودہ غلیظ فتویٰ

کہاںنبیۖ کا ایلاء اور تفویض طلاق پراللہ کاحکم اور کہاںیہ بے غیرت اور بدکردار جوڑا؟

سوال میں تاریخ کے تضادات کی زبردست بھر مار ہے۔غلط اور بیہودہ مسائل پرتنبیہ کرنے کی جگہ پیسہ لے کرمرد کے حق میں عورت کا سکون تباہ کرنے کا فتویٰ دیدیا گیا؟

مسئلہ غلط سمجھنے کی بناء پر تفویضِ طلاق محقق نہ ہونے کے باوجود طلاقِ بائن کا وقوع سمجھنا۔ فتاوی عثمانی ص404تا409انتہائی بے غیرتی پر مبنی سوال وجواب

فتویٰ میں یہ تأثر ہے کہ” فوجی اپنے بچوں کی ماں پر غیرت نہیں کھاتے تو مادرِ وطن پر کیا غیرت کھائیں گے؟” اگر نبیۖ کی توہین پر غیرت نہیں آتی توپاک فوج اپنی توہین پرغیرت کھائے

مفتی تقی عثمانی واضح کردیتا کہ فحاشی کے ارتکاب کی صورت کو نبیۖ کی ذات اور ازواج مطہرات سے مشابہ قرار دینے پر توبہ کرو۔فحاشی میں طلاق ناپسندیدہ عمل نہیں بلکہ تم تو لعان کرو

کسی نے انتہائی عیاری سے سوال مرتب کرکے کچھ دے دلا کر فتویٰ لیا ہے تاکہ عوام الناس کا علماء ومفتیان پراعتماد ختم ہو ۔علماء میرے لئے نہیںبلکہ اللہ اور اسکے رسولۖ کیلئے اُٹھ جائیں

سوال : ۔ میری شادی لاہور میں24جولائی1953کو یعنی چوبیس سال قبل نجمہ خاتون سے ہوئی، نجمہ خاتون کے ماں باپ نہیں تھے۔ اپنی خالہ اور پھر خالہ کی وفات کے بعد خالہ زاد بہنوں کے پاس پرورش پائی۔ میری شادی ان کی خالہ زاد بہن کے ذریعے سے ہوئی۔ شادی سادہ طریقے پر ہوئی ۔ مہر مبلغ پانچ ہزار معجل عندالطلب قرار پایا۔ میں پاکستان ائیرفورس کا ملازم تھا، پانچ اولادیں ہوئیں، تنخواہ قلیل تھی لیکن زندگی ہنسی خوشی سے گزر ی، اس کے بعد میری بیوی نے مانع حمل دوائیں استعمال کرکے اپنے کو مزید اولاد سے بچالیا (چونکہ کالج میں داخلہ لے لیا تھا اور مزید بچوں کی پیدائش تعلیم میں مانع ہوسکتی تھی)۔
جب میری شادی ہوئی تو وہ معمولی پڑھی لکھی تھی، گھر میں پڑھانا شروع کیا۔ پہلی بچی ہونے والی تھی اُسے آٹھویں جماعت کا کورس پڑھانا شروع کیا ۔1960میں تیسرابچہ پیدا ہوا تو اس کو میٹرک کا امتحان دلوایا، وہ دو تین پرچوں میں فیل ہوگئی۔1969میں بچی میٹرک کا پرائیویٹ امتحان دے رہی تھی ، بیوی کو ساتھ پڑھایا اور دونوں کا امتحان دلادیا، خدا کے فضل سے دونوں کامیاب ہوگئیں۔ بعد میں بچی نے بی اے کرلیا اور بیوی کو طبیہ کالج کراچی میںچارسالہ کورس کیلئے داخلہ دلوادیااور میں نے یہ اس خیال سے کیا کہ اگر میں مرجاؤں تو میری بیوی کسی پر بار نہ بنے اور عزت کیساتھ اپنا پیٹ بھر کر بچوں کی پرورش و تعلیم دلاسکے۔
1965کی سترہ دن کی جنگ میں ایک دم بوڑھا ہوگیا ، جب سرگودھا سے واپس آیا تو میرے سر کے آدھے سے زیادہ بال سفیدہوچکے۔12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا، اس وقت میری بیوی طبیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھیں اور میں کورنگی کریک میں رہتا تھا، جانے سے قبل ناظم آباد میں کرایہ پر مکان لیکر بیوی بچوں کو منتقل کر دیا اور چلاگیا۔
1967 میں طبیہ کالج سے چار سالہ کورس مکمل کرلیا، کالج کے ایک ساتھی جو ان سے دوسال پہلے فارغ ہوچکے تھے،وہ ان دنوں کلینک چلارہے تھے اور اپنی ہونے والی بیوی کیلئے علیحدہ کلینک چلانے کا پروگرام تھا۔ ان شرائط پر کہ ان کی زیرِ نگرانی شام کے اوقات میں کلینک پر بیٹھیں گی اور وہ جلد ہی ان کو رجسٹریشن کیلئے سر ٹیفکیٹ دیں گے اور ساتھ ہی اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ ان کو مل جایا کرے گا۔ لہٰذا وہ بیٹھنے لگیں ، یہ تمام باتیں میری بیوی نے مجھ کو خط کے ذریعے مطلع کیں اور میں نے اجازت دیدی، چونکہ مجھے اپنی بیوی پر مکمل اعتماد تھااور میں اس کی بات پر شک نہیں کرتا تھا ،اب تک ہماری زندگی انتہائی مسرت سے گزری تھی ۔
ابوظہبی کے دورانِ قیام میں تین ہزار ماہوار بھیجتا رہا ، دو ہزار خرچ اور ایک ہزار مکان کی تعمیر یا مکان خریدنے کیلئے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ تین ہزار خرچ ہوتے رہے اور پھوٹی کوڑی بھی جمع نہ کرسکی ، اس دوران انہوں نے دوسرا مکان ناظم آباد میں کرایہ پر لیا جس کا کرایہ چار سو روپے ماہوار تھا، اس میں ٹیلیفون بھی تھا۔ مجھے یہ کہا گیا کہ ٹیلیفون سے یہ فائدہ ہے کہ مہینے میں کم ازکم ایک بار ٹرنک کال پر بات ہوسکتی ہے، میں مطمئن بلکہ خوش تھا لیکن یہ ٹیلیفون میرے لئے سب سے بڑی پریشانی کا سبب بنا ، میری بیوی نے دوستیاں بڑھانا شروع کردیں، ماں بیٹے میں جھگڑے شروع ہوگئے ، میرے بڑے لڑکے کو ان باتوں پر اعتراض تھا ، تنگ آکر لڑکے نے مجھ کو ایک خط میں ان حالات سے مطلع کیا ، میں نے لڑکے کو بہت سخت اور ڈانٹ کر خط لکھا کہ تم نے اپنی ماں کے بارے میں ایسا کیوں سوچا؟، ساتھ ہی اپنی بیوی کو بھی کافی ڈانٹ کر سخت خط لکھا، یہ بات فروری1966کی ہے لیکن میری بیوی نے مجھے اور اپنی اولاد سے اب جھوٹ بولنا شروع کردیا اور ان کی دوستی کا سلسلہ چلتا رہا ، انتہا یہ کہ انہوں نے اپنے ایک ” بھائی” کے اشتراک میں علیحدہ کلینک کھول لی اور مجھ کو انہوں نے یہ باور کرایا کہ لڑکا شادی شدہ ہے ( جوکہ غلط تھا) ، اور ایک ڈاکٹر صاحب کا لڑکا ہے ( یہ بھی غلط تھا) ، خود میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہاہے (یہ بھی غلط تھا) ، غرض یہ کہ مجھ سے تمام باتیں جھوٹ اور غلط لکھ کر نئی کلینک کھولنے کی اجازت لے لی ، اب حالات اور خراب ہوگئے دو، دو ماہ تک خط کا منتظر رہتا ، خیرت کی اطلاع نہیں ملتی ، روپیوں کا کوئی حساب نہیں معلوم ہورہاتھاکہ ان کے پاس کتنے کس قدر رقم جمع ہوئی ہے؟۔
دوسرے لوگوں کے خطوط کے ذریعہ معلوم ہوا کہ گھر کا ہر فرد تباہ ہورہاہے، بچے سکول نہیں جا رہے ہیں اور مسلسل ناغوں کی وجہ سے ایک بچے کا نام کٹ گیا ہے۔ غرض یہ کہ نہایت پریشان کن اطلاعات ملتی رہیں، ان حالات سے تنگ آکر ایک تفصیلی خط لکھا اور اس میں ان تمام حالات کی نشاندہی کی ، ساتھ ہی ساتھ خط میں ایک جملہ محض روانی میں تحریر کردیا : ” حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید کب کا دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تومیں اس پر غور کرسکتا ہوں۔”
حسنِ اتفاق سے میں انہی دنوں تفہیم القرآن کا معالعہ کررہاتھا اور یہ بھی محض اتفاق تھا کہ اس دن جو سورت زیرِ مطالعہ تھی وہ سورہ اَحزاب تھی، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ پر ظاہر کیا کہ اگر تمہاری بیویاں دنیا کی آسود گیاں چاہتی ہیں تو ان کو کچھ دے کر علیحدہ کردو ،اور اگر اللہ اور رسول کا قرب چاہتی ہیں تو اس کا بڑا اجرو ثواب ہے۔ جب میں نے اس کی تفسیر پڑھی تو میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے اور میں یہ سمجھا کہ میرے اس مذکورہ جملے سے میں نے اپنی بیوی کو یہ حق منتقل کردیا حالانکہ قبل ازیں میرا کوئی ارادہ یا مقصد نہ تھا اور نہ بعد میں کوئی ارادہ ہوا ،اور نہ اب ہے۔ چنانچہ میں نے اس جملے کے بعد کا سارا مضمون جو زیادہ اہمیت کا حامل نہ تھا، حذف کیا اور تفہیم القرآن کی وہ تمام عبارت جو اس سورة سے متعلق تھی نقل کی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ :” میں نے محض اتفاقیہ طور پر نادانستہ یہ جملہ لکھ دیا تھا، لیکن اب پتہ چلا کہ اگر مرد ، عورت کو طلاق کا اختیار دیدے اور وہ اس کو حاصل کرنے کے بعد مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور اسکے بعد سارا معاملہ ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا تم کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح حالات کودیکھ لو، اسی لئے میں نے تم کو پوری تفسیر نقل کرکے روانہ کی ، ساتھ ہی ساتھ میں اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی24جولائی1976کو رات بارہ بجے تک تم مجھ کو اپنے جواب سے مطلع کردو۔ خیال رہے کہ یہ تاریخ ہماری شادی کی سالگر ہ بھی ہے ، تمہارا جواب30،31جولائی کو مل جائے گا۔ میں بہت بے چینی سے تمہارے خط کا منتظر ہوں ۔” وغیرہ۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو خط بھیجا اس میں اس سے متعلق جو جملہ تھا وہ اس طرح کا تھا :” آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر کبھی مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی کہ ہوگئی، اس خط میں تو آپ نے لفظِ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیاہے”۔
میں نے انکے جواب سے سمجھا کہ طلاق مانگ لی ، چنانچہ میں نے ان کو خط لکھا اس میں جو جملہ تحریر تھا وہ یہ تھا :” آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے ، باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر واقع ہوجائیں گی۔ جس کی تفصیل میں اپنے پچھلے خط میں تحریر کرچکا ہوں۔” ساتھ ہی ان کو ہدایات کیں کہ اپنی رہائش کیلئے کسی جگہ کا انتخاب کرلیں، حق مہر ادا کرچکا ہوں ، پھر بھی آپ کہتی ہیں کہ نہیں ملاتو جو رقم آپ کے پاس بینک میں جمع ہے اس میں سے آپ اپنا مہر لے سکتی ہیں ، گھر کی ہر چیز آپ کی ملکیت ہے ، البتہ بچی کی جہیز کی جو چیزیں ہیں وہ اس کو دے دیںاور اگر بچوں کے کپڑے دے دیں گی تو آپ کا بڑا احسان ہوگا۔ ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ، بچوں سے پوچھ لو کہ وہ کس کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں؟ اگر ماں کیساتھ رہنا پسند نہ کریں تو ان کو میرے بڑے بھائی کے گھر پہنچادو۔
اس خط کے جواب میں23اگست کو میری بیوی کا جو خط آیا اس میں انہوں نے لکھا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ نہ تو میں نے جب طلاق مانگی تھی اور نہ اب مانگ رہی ہوں ، میں نے اس خط میں آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں۔ میرا کون ہے اور اب میں طلاق لے کر کیا کروں گی؟۔ وغیرہ وغیرہ ۔ جب یہ خط مجھ کو ملا ، میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور نمازِ شکرانہ ادا کی ، لہٰذا24ستمبر سے پہلے13ستمبر کو میں پاکستان آیا اور باقاعدہ تعلقات زن وشوہر قائم کئے ۔
اب میری بیوی کو چند لوگوں نے یقین دلایا کہ طلاق ہوچکی ، چنانچہ میں ابوظہبی سے قیام ختم کرکے جون1977کو واپس آیا تو کچھ عرصہ بعد ہی اس نے کہنا شروع کیا کہ ہماری طلاق ہوچکی ہے اور18ستمبر1977کو بچوں اور گھر کو چھوڑ کر چلی گئی اور عدالت میں تنسیخِ نکاح کا دعویٰ بھی کردیا۔ اس کا کہنا یہی ہے کہ یہ مجھ کو طلاق دے چکے ہیں۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا واقعی ان حالات میں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں ؟۔
تنقیح:۔ صفحہ:5کے آخری خط کشیدہ عبارت اور صفحہ:6کی شروع کی خط کشیدہ عبارت کے متعلق چند باتیں وضاحت طلب ہیں ، جن کے بارے میں آپ کی زبانی عبارت زیادہ مناسب ہے ۔ لہٰذا آپ جمعہ کے علاوہ کسی دن بھی صبح9بجے دارالافتاء دارالعلوم کورنگی کے ایریا کراچی نمبر14میں تشریف لاکر ملاقات کریں۔ والسلام بندہ عبدالرؤف سکھروی ١٦/٤ / ١٣٩٨ ھ
جوابِ تنقیح :۔1:۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ اگر اللہ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند کام طلاق نہ ہوتا تو شاید میںکب کا طلاق دے چکا ہوتا ، بہر حال اگر تم چاہو تو اس پر غور کرسکتا ہوں۔2:لیکن اب پتا چلا کہ اگر مردعورت کو اختیار دیدے اور وہ اسکو حاصل کرنے کے بعد طلاق مانگ لے تو ایک عدد طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے اور اسکے بعد معاملہ ختم ہو جاتا ہے ۔3:ساتھ ہی ساتھ اس تفسیر کے مطالعے کے بعد وقت معین کر رہا ہوں یعنی ٢٤جولائی ١٩٧٦ء رات بارہ نجے تک تم مجھے جواب سے مطلع کردو ۔4:آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری زندگی میں لفظ طلاق اگر مذاق میں بھی آیا تو میں سمجھوں گی ہوگئی اور اس خط میں تو آپ نے یہ لفظ طلاق سینکڑوں بار استعمال کیا ہے ۔5:آپ کے خط بمو جب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی باقی طلاقیں خود بخود وقت مقررہ پر ہوجائیں گی ،جسکی تفصیل پچھلے خط میں تحریر کر چکا ہوں۔6:آپ کو کیا ہوگیا ہے ؟ نہ تو میں نے طلاق مانگی تھی ، نہ اب مانگ رہی ہوں ،میں نے اس خط میں(سیاہ )تو آپ کو محض ایک بات یاد دلائی تھی ،آپ ذرا ذرا سی بات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور میں اب طلاق لیکر کیا کروں گی ۔7:میں نے ان خطو ط کی نقل اپنے پاس رکھ لی تھی جو میں نے پھاڑ کر جلادیئے تاکہ ا س تلخ واقعے کی یاد پھر کبھی نہ آئے ۔8:یہ معلوم کر نا چاہتا ہو ں کہ واقعی ان حالات میں طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟۔
جواب :۔ جس قدر باتیں سوال میں لکھی گئی ہیں ،اگر وہ درست ہیں تو صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ سائل نے جو جملے صفحہ: 4کے آخر میں نقل کیا ہے کہ :” اگر اللہ تعالیٰ کو جائز کاموں میں سب سے ناپسند طلاق نہ ہوتا توشاید میں کب کا طلاق دے چکا ہوتا، بہر حال اگر تم چاہوتو میں اس پر غور کرسکتا ہوں” اس جملے سے تفویضِ طلاق متحقق نہیں ہوتی ،لیکن سائل نے تفہیم القرآن کے مطالعے سے غلط طور پر یہ سمجھا کہ مذکورہ جملے سے طلاق ہوگئی ہے۔ اس کی بنیاد پر جب بیوی نے خط لکھا تو سائل نے کہا کہ ”آپ کے خط کے بموجب ایک عدد طلاق بائن واقع ہوگئی ہے۔”
یہ انشاء طلاق نہیں بلکہ حکم شرعی کا غلط بیان ہے اسلئے اس سے طلاق واقع نہ ہوگی لیکن یہ جواب صرف اس صورت میں ہے جبکہ سائل نے اپنے خطوط میں یا یا زبانی انشاء طلاق کا کوئی جملہ استعمال نہ کیا ہو۔ اگر کوئی ایسا جملہ اس نے کہا یا لکھا ہو جس کا ذکر اس سوال میں نہیں تو صورت حال مختلف ہوگی لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر اور آخرت کو پیشِ نظر رکھ کر عمل کریں۔ ھٰذا ماعندی واللہ سبحانہ اعلم فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ404تا409

___تبصرۂ نوشتہ دیوار___
قارئین عوام حضرات بالعموم اور علماء مفتیان حضرات بالخصوص اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارا کوئی الگ علم و فہم نہیں ہے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس دینیہ کے اساتذہ سے فقہ اور اصول فقہ کی جو تعلیم میں نے حاصل کی ہے ۔ علم النحو،اصولِ فقہ اور قرآن کے ترجمہ وتفسیر میں شیخ التفسیرحضرت مولانا بدیع الزمان سے بنیادی تعلیم حاصل کی ہے جو مفتی محمد تقی عثمانی اوردیگر بڑے علماء کرام حضرت مولانا قاری اللہ داد مدظلہ العالی کے بھی استاذ ہیںاورمزے کی بات یہ ہے کہ دورانِ طالب علمی میرے اساتذہ کرام نے درس نظامی کی تنقید پر نہ صرف میری تائید اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے بلکہ اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ میں اصلاح کرلوں گا۔ اہل تشیع کا اپنی فقہ کو حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کرنا اہل سنت کی نقل اور شیعہ مسلک کے اصول کے منافی ہے اسلئے بارہ اماموں میں سے کسی ایک طرف فقہ کی نسبت عقیدۂ امامت کا تقاضہ نہیں ہے۔
مولانا طارق جمیل نے کہا کہ کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ ایک مولانا سے مسئلہ پوچھ لیا تو اس نے کہا کہ حرام ہوچکی ہے، رجوع نہیں ہوسکتا ۔ آخر کار اس شخص نے مصلے کے نیچے پیسے رکھے تو مولانا نے کہا کہ طلاق عربی کا لفظ ہے۔ جس کے آخری ق کو اس طرح سے پڑھتے ہیں۔ آپ نے کتے والا کاف طلاک کہا ہے اسلئے طلاق نہیں ہوئی ۔ بڑے مدارس کے مفتی اعظم وشیخ الاسلام کا طریقہ واردات مختلف ہوتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرؤف سکھروی کے فتوے ، تنقیح وجواب تنقیح میں کیا ہے؟، سوال وجواب اورتنقیح وجواب تنقیح خودمرتب کرکے اچھے پیسے لئے ہونگے تاکہ اس فتویٰ سے وہ شخص عورت کو تنگ کرسکے۔
اس فتوے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ سائل پر واضح کردیا جاتا کہ
1:تم بے غیرت نے اپنی بدکردار بیوی کا معاملہ نبی ۖ اور ازواج مطہرات پر قیاس کرکے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کیا، سب سے پہلے اس سے توبہ کرلو۔ قرآن کے ایلاء کا اس بے غیرتی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
2:جب کوئی عورت فحاشی میں مبتلاء ہو تو پھر اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل بالکل بھی قرار نہیں دیا ۔
3:جب تم نے اپنی عورت پر فحاشی میں کھل کر مبتلاء ہونے کا اعلان کردیا ہے تو شریعت کا تقاضہ ہے کہ تمہارے درمیان لعان کے ذریعے سے جدائی ہو ، یا پھر اس کو طلاق دے کر فارغ کردیتے۔
4:تمہارے سوال میں وضاحت کہ ”ساتھ ہی میں نے اپنی بچی کو تفصیلی خط لکھا کہ تمہاری ماں کو میں نے محض اتفاقیہ یہ جملہ لکھا تھا اور انہوں نے فوراً طلاق حاصل کرلی ، میں ان کو زندگی کے کسی حصے میں سکون سے نہیں رہنے دوں گا ۔” سے معلوم ہوتا ہے کہ غلط بیانی سے کام لے کر تم نے اس کا سکون فتوے سے تباہ کرنا ہے۔ جب وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو فتوے بازی کے بجائے اس کا پیچھا کرناچھوڑ دو۔
5:سوال میں ان معاملات کی تنقیح کرتے۔ الف: عورت ماں باپ کے بغیر نسل پر الزام لگ گیا اوریہ تأثرہے کہ فوجیوں کی بیگمات کس قسم کی ہوتی ہیں؟۔ب: شوہر سے خیانت کے باوجود فوجی اس کو رکھتے ہیں۔ جس فوجی میں اپنے بچوں کی ماں کیلئے غیرت نہیں ہوگی تو وہ مادرِ وطن کے دفاع کیلئے کیا غیرت کرے گا؟۔ ج:مسلمانوںکو بے غیرتی کی تعلیم قرآن نے دی، پرویزیوں کی غلط تفاسیر میں یہی واضح طور پر موجود ہے۔ د: اس فتوے کے سوالات کی ترتیب سے یہ بھی لگتا ہے کہ یہ شخص پرویزی ہو گااور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے یہ سوالنامہ مرتب کیا ہو اور فتویٰ فروشوں کی وجہ سے اسلام کو بدنامی پہنچائی جارہی ہو۔
6:ایک طرف یہ لکھ دیا ہے کہ”1965کی سترہ دنوں کی جنگ نے مجھے بوڑھا کردیا اور جب سرگودھا سے واپس آیا تو آدھے سے زیادہ بال سفید ہوچکے تھے” اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ”12فروری1964کو پاکستان ائیر فورس کی طرف سے میں دو، تین سال کیلئے ابوظہبی ائیرفورس میں مقرر ہوکر چلاگیا”۔ یعنی65کی جنگ کے دوران جب تھا نہیں تو پھر17دن کے جنگ سے الو کا پٹھا بوڑھا کیسے ہوگیا؟۔ ایک طرف لکھ دیا کہ”1969میں بیوی نے میٹرک کاا متحان دیا، دوسری طرف وہ1964میں طبیہ کالج کراچی میں زیر تعلیم تھی؟۔ جو1967میں طبیہ کالج سے کورس مکمل کرکے پریکٹس بھی شروع کردی؟۔ یہ سارا جھوٹ کا پلندہ لگتا ہے جو پرویزی اور مفتی تقی عثمانی نے مل جل کر قرآن ، نبی ۖ ، مسئلہ طلاق اور اسلام کو بدنام کرنے کیلئے رچایا ہے۔ فتوے میں عورت کا نام ہے لیکن شوہر کا نہیں ہے؟۔
جس طرح بہت سارے مخلص مذہبی لوگ مولویوں کی وجہ سے قرآن وسنت سے دور ہیں ،اسی طرح سے پرویزیوں نے بھی بہت مخلص لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ ہمارا مقصد قرآن وسنت کی وہ درست تصویر پیش کرنا ہے جس کی وجہ سے بہت مختصر وقت میں دنیا کی دونوں سپر طاقتیں قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو شکست مل گئی تھی۔
فقہ الگ دنیا نہیں جس میں پیسہ لیکر حیلہ سازی سے عورت اور کبھی شوہر کے حق میں فتویٰ دیا جائے۔ بلکہ قرآن وسنت کے درست فہم کا نام فقہ ہے۔ اور اس کے ذریعے سے عوام کی درست رہنمائی کا نام مفتی کی اہلیت ہے۔ جب مفتی تقی عثمانی نے حاجی محمد عثمان پر فتویٰ لگایا تو اس وقت جمعیت علماء اسلام پاکستان کے دو دھڑے تھے۔ جمعیت مولانا فضل الرحمن و جمعیت مولانا عبداللہ درخواستی نے حاجی عثمان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ یہ اظہاربھی کیا کہ ان علماء ومفتیان نے الائنس موٹرز (ٹی جے ابراہیم مضاربہ کمپنی ) سے اچھا خاصا مال بٹور کر فتویٰ دیا اسلئے کہ1970میں اکابرین جمعیت علماء اسلام کے خلاف خوب مال بٹور کر فتویٰ دیا گیا۔
ہم اپنے اساتذہ کرام کی توقعات کے عین مطابق اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے فقہ ، اصول فقہ ، قرآن اور حدیث کے ذریعے درست رہنمائی کا فرض ادا کررہے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی بھی یہی خواہش تھی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟

راشدہ کا شوہر3سال سے لاپتہ،کیا اپنے تحفظ اور بچوں کی کفالت کیلئے نکاح کرسکتی ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن و سنت کی روشنی میں
میرا شوہر تین سال قبل سمندر میں ماہی گیری کے دوران انڈین آرمی کے ہاتھوں گرفتارہوچکا تھا ،اس وقت سے لیکر آج تک اس کے زندہ ہونے یا مرنے کی کوئی خبر نہیں ہے ، میرے5بچے بھی ہیں ،ان کی کفالت میرے لئے بہت مشکل ہوچکی ہے۔میں خلع اختیار کرکے دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تاکہ شرعی حدود میں رہ کر اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کرسکوں۔
جناب میں ایک عورت بہت ہی بے کس اور غریب ہوںاور خلع کیلئے کیس فائل کرنے کی میرے پاس استطاعت نہیں۔ لہٰذا میرے خلع کے بارے میں قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت جاری فرمائیں۔آپکی بڑی نوازش ہوگی۔
از طرف : راشدہ بنت نور عالم سکنہ محمدی کالونی ماڑی پور روڈ کراچی

الجواب: قرآن وسنت میں عورت کو خلع کا حق حاصل ہے جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے۔ خلع اور طلاق میں حقوق وفرائض کا فرض ہے۔ عورت جب اپنے شوہر سے شادی کرلیتی ہے تو اس کا نان ونفقہ ، رہائش، بچوں کی تعلیم و تربیت اور سارا خرچہ شوہر پر اپنی حیثیت اور بیگم کے حالات کے مطابق فرض بن جاتا ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کا سب سے بڑا کارنامہ اور کریڈٹ یہ ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمد شفیع تک کے علماء وفقہاء نے واضح کیا تھا کہ ” بیوی کے علاج معالجے کا خرچہ شوہر کے ذمے نہیں ہے اور مفتی تقی عثمانی نے یہ وضاحت کی کہ” میرے خیال میں بیوی کا علاج شوہر کے ذمہ ہونا چاہیے”۔

___زوجۂ مفقود کا حکم___
سوال : ایک بیوی کا شوہر تقریباً دوسال سے نہیں ہے کچھ پتہ نہیں چلتا، اب یہ بیوی نان نفقہ کی وجہ سے کسی دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
جواب : صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کی خلاصی کی صورت یہی ہے کہ وہ عورت کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں نان ونفقہ نہ ہونے اور مبتلا بالمعصیة ہونے کے اندیشے کی بناء پر فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کرے ۔ عدالت شوہرمذکورہ کو حاضر ہونے پر مجبور کرے ۔اور اگر ثابت ہوجائے کہ وہ نہیں آتاتو اس کی طرف سے یہ عورت کو طلاق دیدے، اس کے بعد عورت عدت طلاق گزار کردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ اگر عدالت مذکوہ بالا کاروائی کرلے تو اس کا فیصلہ شرعاً نافذ ہوگا۔ہاں ! دعویٰ دائر کرنے میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ خلع یا شوہر کے مفقود ہونے نہ ہونے کا دعویٰ نہ ہو، بلکہ شوہر پر نان ونفقہ ادا نہ کرنے کا دعویٰ ہو کیونکہ خلع اور مفقود کے دعوؤں سے متعلق موجودہ عدالتیں جو فیصلے کررہی ہیں ان میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
الجواب صحیح بندہ محمد شفیع فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ457
جب عورت علماء کی تفاسیر میں پڑھتی ہے کہ شوہر کو چار شادیاں کرنے کی اجازت اسلئے ہے کہ ایک کو حیض ہوگا تو دوسری سے شہوت پوری ہوگی اور دو کوحیض آئے تو تیسری اور تین کو حیض آئے گا تو چوتھی سے شہوت پوری ہوگی اور ایسا تو نہیں ہوگا کہ بیک وقت چار بیویوں کو حیض آئے لیکن عورت کو برسوں تک ترسانے کے باوجود بھی خلع کی اجازت نہیں دیتے۔ کیا یہی فطری دین ہے؟۔
علماء ومفتیان نے اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے فتوؤں میں عجیب وغریب انداز اپنانے کی کوشش کی ہے۔ اصل معاملہ مفقودالخبر اور خلع کا ہے اور اس کو طلاق کی صورت دی جارہی ہے ۔ کیا جھوٹ پر مبنی بیانیہ مسئلے کا حل ہوسکتاہے؟۔
ومن اوتی الحکمة فقد اوتی خیر کثیرًا” اورجس کو حکمت دی گئی تو اس کو خیر کثیر دیا گیا”۔(القرآن) من یرید اللہ بہ خیرًا یفقہہ فی الدین ”جسکے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے”۔( حدیث)
حکمت اور فقہ ( سمجھ) کی دَین (عطائ) اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔ جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر سے اللہ نے نواز دیا اور جس کیساتھ بھلائی کا ارادہ کیا تو اس کو دین کی سمجھ دے دی ۔ اگر مدارس،تبلیغی جماعت اور خانقاہوں میں حکمت اور فقہ یعنی دین کو سمجھنے کی تعلیم ہوتی تو بہت زبردست اثرات اس کے مرتب ہوسکتے تھے۔ افسوس یہ ہے کہ مدارس میں بھی فقہ کے نام پر قرآن وسنت کی جگہ بھول بھلیوں کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان مراکز کو دین کی خدمت سے زیادہ اپنے دنیاوی مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر نتیجے میں قرآن وسنت اور مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے اور یہ لوگ مدارس کو تجارت کے مراکز بناکر دنیا کی شادابی کا مزہ لیتے ہیں۔
بشری بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تو اس پر کیا نان ونفقہ نہ دینے کا الزام تھا؟۔ جب علاج شوہر کے ذمہ نہ ہو تو کیا عورت محنت مزدوری کریگی یا پھر یاری دوستی سے کام چلائے گی؟۔ خدا غارت کرے ، ان مذہب فروشوں نے دین کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ رسول اللہ ۖ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہے اور میں اس سے خلع لینا چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” وہ باغ جو اس نے آپ کو دیا ہے وہ واپس کرسکتی ہو؟”۔ اس خاتون نے عرض کیا کہ اور بھی بہت کچھ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”اور کچھ نہیں” ۔ چنانچہ نبیۖ نے اس کو طلاق دینے کا حکم فرمایا اورباغ اس کا واپس کردیا۔ یہ حدیث قرآن کی سورہ النساء آیت19کی تفسیر میں لکھنے کی ضرورت تھی۔ جس کو سورۂ بقرہ کی آیت229کے ضمن میں احادیث کی کتب میں لکھ دیا گیا ہے۔ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ قرآن کے مطابق جب عورت خلع لینا چاہتی ہو تو اس کو غیرمنقولہ جائیداد باغ وغیرہ واپس کرنے پڑتے ہیں مگر کپڑے ، زیورات اور منقولہ اشیاء میں سے بعض چیزیں بھی شوہر کو واپس لینے کا کوئی حق اور اختیار نہیں اور نہ عورت کو زبردستی سے نکاح میں رکھنے کا اختیار ہے۔ کاش قرآن و سنت کی تعلیم کو مسلمان معاشرہ اپنے ماحول کا حصہ بنادیتا اور قرآن کے مطابق بار بار طلاق کے باوجود باہمی رضا مندی سے رجوع کا اختیار مل جاتا اور عورت کو خلع کا پورا پورا اختیار حاصل ہوجاتا تو مظلوم خواتین کی چیخوں سے عرش لرزتا نظر نہ آتا۔ یہ محاورے کی زبان ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب فرشتے زمین میں انسان کی حالت دیکھتے ہیں اور ان کو عذاب کی اجازت اللہ نہیں دیتا ہے تو قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے ۔ پھر فرشتے اہل زمین کی مغفرت اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمہ قرآن ” کے حاشیہ پر اس کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ فرشتے اتنی بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں کہ آسمان ٹوٹنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے کم عقل لوگوں کو سود کے جواز کی وجہ سے شیخ الاسلام بنادیا ہے ۔ عوام پر اسلام کے نام سے ظلم کرنا چھوڑ دیاجائے، ورنہ عذاب آسکتا ہے اور اس سے بڑا عذاب کیا ہوگا کہ غلط فتوؤں کے پول کھل رہے ہیں؟۔
راشدہ بی بی کا شوہر موجودہوتا تو بھی اس کو خلع لینے کا اختیار تھا۔ عدالت کا مقصد شریعت کا تقاضہ پورا کرنا نہیں ہوتاہے بلکہ دنیاوی طور پر حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینا ہوتا ہے۔ جس طرح شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح اس عورت کو بھی خلع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ خلع کی عدت بھی صرف ایک ماہ ہے اور صحیح حدیث میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ وہی فقہ حنفی معتبر ہے جو قرآن وسنت کے مطابق ہے۔ باقی چوں چوں کا مربہ مولوی اپنے پاس رکھیں۔
خلع اور طلاق میں حقوق اور فرائض کا فرق ہے۔ خلع کی صورت میں بیوی کو شوہر کے گھر سے نکلنا پڑے گا اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ طلاق کی صورت میں منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کی مالک عورت بن جائے گی اور طلاق و خلع کی صورت میں بچوں کا خرچہ بھی شوہر ہی کے ذمہ ہوگا۔
قرآن میں ایک ایک مسئلے کی بھرپور رہنمائی اورزبردست حل موجود ہے اور اس کیلئے عدالتوں میں خرچہ اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مرد یہ دعویٰ کرے کہ وہ طلاق نہیں دیتا ہے یا اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عدالت ہی یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ عورت کو خلع کے حقوق ملیں یا پھر طلاق کے؟۔ راشدہ بی بی کے شوہر کا اگر کوئی مکان یا جائیداد ہے اور وہ اتنے طویل عرصہ سے غائب ہے اور اس کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتا ہے اور اس کی بیگم اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات کیلئے مجبور ہے اور کسی اور شخص سے شادی کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا بالکل حق بنتاہے کہ وہ شادی کرلے۔ اس شوہرکو بھی اطلاع ملنے پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ بیوی کی عزت اور بچوں کے پیٹ کا بندوبست ہوگیا ہے۔ اگر وہ بھارت کی جیل سے چھوٹ کر واپس آجائے تو پھر عورت کے پاس اختیار ہوگا کہ اگر اس کا پہلا شوہر اس کو واپس لینا چاہتا ہو اور وہ بھی اس کے پاس ہی جانا چاہتی ہو تو پھر دوسرے شوہر سے خلع لے اور اگر اس بات میں کوئی تشویش ہے کہ شوہر والی کا نکاح کیسے ہوسکتا ہے؟۔ تواس کا جواب یہی ہے کہ خلع کے ذریعے پہلے شوہر سے تعلق منقطع ہوگیا ہے۔
قرآن نے محرمات کے آخر میں فرمایا: و ان تجتمع بین الاختین والمحصنات من النساء الا ما ملکت ایمانکم ”اور یہ کہ تم دوبہنوں کو جمع کرو اوربیگمات عورتوں میں سے مگر جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے”۔
جب دو جڑی ہوئی بہنوں کے بارے میں مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی سے فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ” قرآن میں عام حالت میں یہ منع ہے لیکن جب خاص حالت ہو تو مخصوص صورت اس سے مستثنیٰ ہے”۔ المیہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف مخصوص صورتوں میں فتویٰ دینے والے لوگ قرآن کے واضح احکام پر فتویٰ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں اسلئے کہ پھر نام نہاد علماء ومفتی صاحبان کی ضرورت یہ نہیں پڑے گی۔ قرآن وسنت اور اسلام فطری دین ہیں۔
بیوہ وطلاق شدہ ساری زندگی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے تو اپنی نسبت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ جنت میں میاں بیوی کا نکاح اسی طرح برقرار رہتاہے۔
قال تعالیٰ :جنّٰت عدن یدخلونھا و من صلح من آبائھم وازواجھم و ذریاتھم ”ہمیشہ کیلئے باغات ہوں گے جن میں یہ داخل ہوں گے اور ان کے نیک آباء واجداداور ان کی اولادیں”۔ (القرآن)
عورت دنیا کے اپنے آخری شوہرکیساتھ ہوگی،میمون بن مہران سے الحرانی نے الرقة کی تاریخ میںنقل کیا ہے کہ معاویہ بن ابوسفیان نے ام درداء کیلئے نکاح کا پیغام بھیج دیا تو اس نے انکار کردیا اور کہا کہ ابودردائ نے رسول اللہ ۖ سے روایت نقل کی ہے کہ عورت اپنے آخری شوہر کیساتھ ہوگی۔ اسماء بنت ابی بکر زبیر بن عوام کے نکاح میں تھی۔ وہ اس پر سخت تھے اور اس نے اپنے باپ سے اس کی شکایت کردی تو ابوبکر نے فرمایا: پیاری بیٹی صبر کرو۔ جب عورت کا شوہر نیک ہوتا ہے اور اس سے فوت ہوجاتا ہے اور پھراس کے بعد وہ کسی اور سے نکاح نہ کرے تو ان دونوں کو جنت میں جمع کردیا جاتا ہے”۔(ابن عساکر)۔
بیہقی نے اپنی سنن میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ حذیفہ نے اپنی بیوی سے کہا کہ ” اگر آپ چاہتی ہیں کہ جنت میں میری بیوی رہو تو پھر میرے بعد شادی مت کرو اسلئے کہ جنت میں عورت اپنے آخر شوہر کیساتھ ہوگی” ۔
ابن کثیر کی النھایة فی الفتن وملاحم میں وارد ہے کہ ام حبیبہ نے کہا :یارسول اللہ! اگر عورت کے دنیا میں دو شوہر ہوں تو دونوں میں سے کس کیساتھ ہوگی؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: دونوں میں جس نے زیادہ اچھا برتاؤ کیا ہو ۔ تو ام حبیبہ نے کہا کہ حسن اخلاق کا سونا تو دنیا اور آخرت میں بہترین چیز ہے۔
حضرت علی کی ہمشیرہ ام ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے اتنی محبت تھی کہ اس نے اپنے شوہر کی خاطر اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت تک نہیں کی ۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت علی نے اس کے مشرک شوہر کو قتل کرنا چاہا۔ ام ہانی نے اپنے شوہر کیلئے نبیۖ سے پناہ طلب کی تو نبیۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر اور جس کو بھی چاہو ،پناہ دے سکتی ہو۔ یہ وہی مولیٰ علی تھے جس کے بارے میں نبیۖ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لیکن امت کے پہلے مولیٰ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کے مقابلے میںآپ کی بہن ام ہانی کو ترجیح دیتے ہوئے اسکے مشرک شوہرکو پناہ دیدی۔ جب امت کے پہلے مولیٰ نبیۖ سے ظہار کے مسئلے پر حضرت خولہ بنت ثعلبہ نے مجادلہ کیا تو اللہ نے عورت کے حق میں فیصلہ نازل فرمایا۔ جب امت کے پہلے مولانبیۖ کے بارے میں قرآن کے اندرسورہ مجادلہ کی وضاحت موجود ہے اور دوسرے مولا علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں حدیث کا واقعہ موجود ہے تو اس کا مطلب نبی ۖ و علی کی توہین نہیں بلکہ قیامت تک یہ رہنمائی مقصود ہے کہ مذہب کے نام پر کسی کو مولانا اور مفتی بن کر عورت کے حقوق کو غصب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
راشدہ بی بی کیلئے کوئی حیل وحجت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو وہ کرسکتی ہے۔ پاکستان بھر میں مسنگ پرسن کے مسائل ہیں اور جو لوگ سال سال اور ڈیڑھ سال کیلئے یا اس سے بھی زیادہ بیرون ملک رہتے ہیں اور ان کی بیگمات خلع لینا چاہتی ہوں تو وہ لے سکتی ہیں۔ تبلیغی جماعت نے بہت بگاڑ پیدا کیا ہے۔ مولانا الیاس نے زندگی بھر میں چار مہینے اسلئے رکھے تھے کہ حضرت عمر کے دور میں مجاہدین کی بیگمات سے مشورہ کرکے یہ چار ماہ کی مدت رکھی گئی تھی اور قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن ہے اور ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ گمشدگی کی حنفی فقہاء نے پہلے80سال اور پھر امام مالک کے مسلک کے مطابق4سال کردی اور قرآن وسنت میں اس کی کوئی بھی اصل نہیں ہے۔
جب عورت کا اختیار غصب کیا گیا تو آیت226البقرہ میں4مہینے کا ذکر ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک4ماہ کے بعد طلاق ہوجائے گی اور دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا۔جمہور کے نزدیک عمر بھر نکاح ختم نہیں ہوگا ۔جب تک کہ شوہر زبان سے طلاق نہ دے۔ کیا واضح آیات پر یہ اختلاف ہوسکتاہے؟۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کیا اسلئے طلاق ہوگئی ۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ شوہر نے حق استعمال نہیں کیا اسلئے طلاق نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ نے عورت کی عدت بیان کی ہے کہ طلاق سے ایک ماہ زیادہ ہوگی اور اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جس پر شوہر کی پکڑ ہوگی۔جب نبی ۖ نے ایلاء کیا تھا تو ایک ماہ کے بعد رجوع پر اللہ نے فرمایا کہ اب عورتوں کو اختیار دے دو کہ آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں یا نہیں؟۔ قرآن کے کھلے الفاظ سے بھی مولوی کا دماغ نہیں کھلتا ہے یا اس کو جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتا ہے کہ کاروبار دنیا تباہ ہوجائے گا؟۔
جب شوہر مرتا ہے تو بیوہ کو4ماہ10ماہ کے بعد اختیار مل جاتا ہے کہ فوت شدہ شوہر سے تعلق برقرار رکھے یا کسی اور سے نکاح کرلے۔ علماء سانس نکلتے ہی نکاح تڑوا بیٹھتے ہیں اور پھر بے شرم اپنی ماؤں کو اپنے باپ کی زوجہ کی تختی لگاتے ہیں۔ کاش ! علماء قرآن وسنت کی طرف رجوع کرکے امت کا بیڑہ پار کردیں اور غلط نصاب تعلیم اور فتوؤں کے حصار سے باہر نکلیں۔ جس سے مساجدو مدارس اور علماء ومفتیان کی رونقیں بڑھیں گی اور پاکستان بھی سرسبز وشاداب بن جائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv