پوسٹ تلاش کریں

تین طلاق اور حلالہ کی لعنت

تین طلاق اور حلالہ کی لعنت

پاکستان اورہندوستان کے اندرجس درسِ نظامی میں دیوبندی بریلوی حنفی مسلک کی تعلیم دیتے ہیں وہ دنیا بھر میں3طلاق اور حلالہ کی لعنت کی وجہ سے بدنام ہے۔ دبنگ مسلم لیگی سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا تھا کہ ”اسلام میں حلالہ کی لعنت کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن یہاں کے لوگ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں اسلئے حلالہ کی لعنت اور بہت ساری غلط رسموں کا اسلام کے نام پر رواج ہے”۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل ، مین اسٹریم میڈیا اور پارلیمان میں3طلاق اور حلالہ کی لعنت کا مسئلہ زیرِ بحث لایا جائے تو پاکستان اور دنیا بھر سے حلالہ اور اس کی برکت سے سود کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس لڑکی نے2دوستوں کے ساتھ شادی کرلی۔

اس لڑکی نے2دوستوں کے ساتھ شادی کرلی۔

”آئینہ د کلتور”سوشل میڈیا یوٹیوب چینل پراصغر چیمہ کی یہ ویڈیو ہے جس میں ایک دوست نے دوسرے دوست کی بیوی سے حلالہ کیا۔ دونوں اور حلالہ کا شکار ہونے والی لڑکی نے داستان سنائی ۔ لڑکی کی ماں بھی ساتھ ہے۔ اشرافیہ اور اہل اقتدار پرحلالہ کے نام پرعزت لٹائی کا اثر نہیں پڑتا۔ فحاشی کی دنیا میں مذہب کے نام پر اس خبر سے چینل کو پذیرائی کیساتھ مذہبی شرافت کا بھی آئینہ دکھانے کی کوشش ہوئی ہے۔ جس سے ہمارا بعض مذہبی طبقہ بھی بہت پسند کرتا ہوگا لیکن یہ قرآن وحدیث اور اسلام وفقہ کے نام پر عزت کا کھلواڑ ہے۔
حنفی علماء سوء نے کئی معاملات میں قرآن وحدیث اورحنفی بنیادی اصولوں سے ہٹ کربڑی گمراہیاں پھیلائی ہیں ۔ دارالعلوم کراچی اور بنوری ٹاؤن کراچی سمیت علماء ومفتیان کو قرآن واحادیث کے دلائل سمجھ میں آگئے ہیں کہ ” حلالہ کی لعنت کے فتوے غلط ہیں ” لیکن اس ماحول سے نکلنا بہت مشکل نظر آتا ہے جس میں وہ ایک عرصہ سے پھنس گئے ہیں۔ بلوچی گھیر والی شلوار، تہبند اور پتلون پہنا آسان کام اس وقت ہے کہ جب ماحول میسر ہو لیکن ماحول کے خلاف اپنی رسم وروایت میں لباس پہننے میں بھی بہت مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
علماء کو اب اس ماحول سے نکلناہوگا۔ حلالہ کے خلاف ہم نے ماحول ختم کرنے میں بفضل تعالیٰ بھرپور کردار ادا کیا ہے اور انشاء اللہ مدارس اور دارالافتاء میں حاضری دوں گا اوراس مسئلے پر منٹوں میں سمجھاؤں گا۔ مجھے آج بھی اسی طرح مدارس سے پیار ہے جس طرح زمانہ طالب علمی میں تھا۔ ہم جب کہتے تھے
وطن میں جاکر کیا کریںگے مدرسہ ہے وطن اپنا مریںگے کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا
تبلیغی جماعت میں مجھے وقت اور استفادہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کی سیاست، سپاہ صحابہ کا جذبہ ، مجاہدین کا ولولہ اور خانقاہوں کی عقیدت کا میںعینی شاہد ہوں۔ انقلابی تحریکوں کا مطالعہ ہے ۔ علماء دیوبند کا شاگرد ہوں۔ مناظرے کا فن جانتاہوں۔ سب سے بڑھ کر ایک عام گناہ گار انسان ہوں۔ جس کو کسی پر برتری ، فضیلت اور بڑائی کا احساس نہیں ۔ صالحین سے محبت ہے، امیدہے کہ میری بھی اصلاح ہوجائے گی۔ اچھا نہیں لگتا کہ بڑے بڑوں کو ان کی عمر، مقام اور مرتبے کا لحاظ رکھے بغیر سخت رگڑا لگاتا ہوں۔ دوسرے فرقے اور علماء کے مخالفین خوش ہیں لیکن اس سے حق اور اہل حق کے قریب ہونے کی فضاء بنتی ہے۔
اکابر نے شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگایا لیکن قرآن ، صحابہ اور عقیدۂ امامت سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا سکے اور اکابر علماء اور جوانوں کی شہادتیں دیکر مخالفین کی زبان بندی نہیں کراسکے ۔ سوشل میڈیا پر شیعہ زیادہ مؤثر انداز میں وہ کام کررہے ہیں جو تاریخ میں نہیں ہو ا۔ بیرون ملک سے دلائل ہم تک پہنچتے ہیں۔ جب انجینئر محمد علی مرزا اور مفتی فضل ہمدرد کسی شمار وقطار میں نہ تھے تو ہم نے نہ صرف شیعہ اور بریلوی عقیدے کا دفاع کیا بلکہ اپنے اکابرین پر حملے کردئیے۔ قرآن ، صحابہ اور عقیدۂ امامت میں درسِ نظامی اور شاہ اسماعیل شہید کے دلائل سے شیعہ پر کفر کا فتویٰ واپس کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا مگر حق کی منزل آسان کردی۔ اب وقت آیا ہے کہ اسلام کے اصل مقاصد اور علماء دیوبند کے سرخیل حاجی امداداللہ مہاجرمکی کا مشن زندہ کریں۔حضرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے برسوں مالٹا کی جیل میں گزارنے کے بعد دوباتوں کو امت کے زوال کا سبب قرار دیا ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ واریت۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے خلافت کے قیام کی بڑی کوشش کی تھی ۔شیخ الہند نے اپنی تمناؤں کا اظہارمالٹا جیل میں آنے کے بعد کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی محنت کا حق ادا کردیا اور مولانا محمد الیاس نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ پوری دنیا میں دین کے درد کو جگایا تھا اور حاجی محمد عثمان کے سرپر روحانیت کا تاج اکابر نے رکھا تھا ۔ ہم انشاء اللہ ان سب کا مشن پورا کرکے دکھائیں گے۔
شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگانیوالے مولانا منظور نعمانی کے فرزند مولانا سجاد نعمانی نے فتوے کو سازش قرار دیا ۔ مولانا سلیمان ندوی کواکٹھی 3 طلاق کو ایک کہنے پرنشانہ بنایا گیا۔1970سیمینارمیں مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی صدارت میں علماء دیوبند،جماعت اسلامی اور اہلحدیث نے مثبت رائے دی تھی مگر بریلوی مخالف تھے۔
اب مفتی کامران شہزاد نے بھی3طلاق کے ایک ہونے پر قرآن وحدیث کا فتویٰ جاری کیا۔ مفتی کامران شہزادکی تعلیم وتربیت کا پسِ منظر حنفی بریلوی مسلک سے لگتا ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ان کی شخصیت اچھا آغاز ہے۔ طلاق کے مسئلے پر مفتی کامران شہزاد نے بہت مثبت گفتگو کی ہے۔ پہلے اختلاف کو ایک اجتہادی مسئلہ قرار دیا ہے کہ اکٹھی تین طلاق ایک شمار ہوتی ہے یا تین طلاق؟۔ احادیث کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا ہے کہ ” عبداللہ بن عباس نے ہاتھ لگانے سے پہلے اور ہاتھ لگانے کے بعد کی دونوں صورتوں میں یہ قرار دیا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی”۔
مفتی کامران شہزاد نے کہا کہ ” قرآن میں دو مرتبہ طلاق کا ذکر ہے تو ایک مرتبہ میں تین طلاق کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور اس کی مثال یہ دی کہ کرکٹ کے کھیل میں ایک بار جس طرح بھی میں آؤٹ ہوجاؤں ، گیند پکڑ کر کیچ سے آؤٹ ہوں یا وکٹ اُڑ جائے لیکن ایک مرتبہ آؤٹ ہوںگا۔ ایک بار میں دو مرتبہ آؤ ٹ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے قرآن کا تقاضہ ہے کہ ایک بار میں 3 طلاق دی جائے تووہ ایک بار ہی شمار ہو پھرعدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور پھر دوبارہ طلاق دی جائے اور پھر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر تیسری بار طلاق دی جائے تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔ مفتی کامران شہزاد نے حنفی مسلک اور دیگر مسالک کا بھی استدلال پیش کیا ہے اور مشہور ومعروف علماء وفقہاء کے نام بھی لئے ہیں۔
قرآن نے حلالہ کی لعنت کے حوالے سے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی لیکن عورت کو تحفظ دینے کا مسئلہ تھا اور اس تحفظ کی خاطر آخری حد تک ایسے الفاظ بھی بیان کردئیے کہ ایک طرف عورت کو پورا پورا تحفظ مل گیا اور دوسری طرف حلالہ بھی ایک آزمائشی مسئلہ بن گیا۔ اگر یہ الفاظ آیت میں نہ ہوتے کہ ” جب تک وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے حلال نہیں ”۔( البقرہ230) تو بہت ساری خواتین اپنے شوہروں کے مظالم سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھیں۔
شوہر کے منہ سے 3طلاق کا لفظ نکلا اور بیوی نے چھٹکارا پالیا اسلئے کہ شوہر نے بھی یہ یقین کرلیا کہ اب یہ حلال نہیں ہے لیکن اصل صورتحال اس سے زیادہ بہترین تھی اور وہ یہ ہے کہ اگر شوہر نے طلاق کا لفظ بول دیا۔ صریح ، اشارہ ، کنایہ اور خاموش ناراضگی تب بھی ”شوہر کے رجوع کا حق چھن گیا، جب تک عورت صلح پر راضی نہ ہو”۔ سورہ بقرہ آیت226میں ناراضگی کا ذکر ہے جس میں زبانی طلاق کا اظہار نہ ہو اور اس کی عدت چار ماہ ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھااور اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ بھی ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار بھی کرنا چاہیے تھا۔ جب اظہار کرتا تو چار ماہ کی جگہ عدت تین ماہ ہوتی اور ایک ماہ عدت کے اضافے پر شوہر کا دل گناہگار ہے۔ (البقرہ 225،226،227)
ایلاء میں حلف ضروری نہیں۔ لاتعلقی اور ناراضگی سے بیوی کا حق معطل کرنا ایلاء ہے۔ اللہ نے ناراضگی کے بعد بیوی کو بااختیار قرار دیا ہے اگر وہ صلح کیلئے راضی نہ ہو تو شوہر زبردستی نہیں کرسکتا ۔ نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے فرمایا: بیگمات کو علیحدگی کا اختیار دینا۔ نبیۖ کے ذریعے اللہ نے یہ سبق سکھایا ہے۔ جاہلیت کی یہ رسم تھی کہ عورت سے لوگ ناراض ہوکر بیٹھتے تو وہ مدتوں بیٹھی رہتی۔ قرآن نے جس وضاحت کیساتھ چار ماہ کی عدت کا ذکر کیا ،اگر عوام کو پتہ چل گیا تو پھر مذہبی طبقات لوگوں کو شیاطین کے گروہ نظر آئیں گے جنہوں نے ایسی وضاحت کو اپنی عوام کی نگاہوں سے جان بوجھ کر یا کم عقلی میں پوشیدہ رکھا ہے۔
اس معاملے میں حنفی مسلک والے پھر بھی سرخرو ہوسکتے ہیں لیکن اہل تشیع، اہل حدیث، ابن تیمیہ ، علامہ ابن قیم سب کے منہ کالے ہوں گے جو احناف کی مخالفت میں جمہور شافعی، مالکی اور حنبلی مسلک والوں کیساتھ کھڑے ہوگئے۔
اللہ نے خواتین پر مظالم کا قانون وشریعت سے خاتمہ کردیا لیکن عورت پھر بھی مذہب کی بنیاد پر اسی ظلم کا دوبارہ شکار بنادی گئی۔ جب ایک بار کی تین طلاق سے عورت آزاد ہوجاتی ہے تو پھر چار ماہ کاانتظارکرنے کے باوجود کیوں آزاد نہیں ہوتی ہے؟۔ یہ اللہ کا دین نہیں مذہبی طبقات کا اپنا دھندہ یا بہت بڑی کم عقلی ہے۔ جس طرح تین طلاق پر حلالہ کا دھندہ بنایا گیا ہے ،اگر قرآن سمجھ میں آتا تو فتویٰ یہی دینا تھا کہ ایک بار ناراضگی یا ایلاء کے بعد بھی بیوی کو اختیار دینا ضروری ہے اور اگر شوہر اختیار نہیں دیتا ہے تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی و اختیار سے کہیں بھی دوسری جگہ نکاح کرے ۔ یہی قرآن وسنت کااصل حکم ہے۔
پھر اللہ کو پتہ تھا کہ یہود ونصاریٰ کے مذہبی گدھوں اور کتوں سے اس اُمت کا بھی واسطہ پڑے گا اسلئے واضح کردیا کہ ” طلاق والیوں کو تین ادوار تک انتظار کرنا ہے اور اس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ (آیت228البقرہ) آیت سے واضح ہے کہ” ایک،دویا تین بار طلاق کے بعد عدت میں رجوع کا اختیار اصلاح کی شرط پر ہے”۔ آیت نے دوجاہلانہ مسائل کا خاتمہ کردیا۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ ایک ساتھ تین یا مرحلہ وار تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا اور دوسرامسئلہ یہ تھا کہ عورت کی رضامندی کے بغیر عدت میں جتنی بار شوہر چاہتا تھا تو رجوع کرلیتا تھا۔ اللہ نے واضح کیا کہ ایک بار طلاق کے بعدبھی عورت کی صلح واصلاح کے بغیر رجوع حلال نہیں ہے۔ شاباش ہو مولوی کے دماغ کو جس نے اختلاف کی بھول بھلیوں میں خود کو بہت کھپادیا ہے مگرقرآن کی موٹی موٹی باتیں سمجھنے کیلئے یہ وحشی گدھا تیار نہیں ہے۔
قرآن اور صحابہ کرام کے فتوؤں میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ حضرت عمر نے یہ فیصلہ نہیں دیا کہ” اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع حلال نہیں ہوسکتا” بلکہ جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو” قرآن کے مطابق رجوع نہ کرسکنے کا حکم جاری کیا” اور ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر حلالے کا پتہ چل گیا تو کوڑے بھی لگا دوں گا۔ کیونکہ طاقتور مرد سے یہ بعید نہیں تھا کہ زبردستی سے حلالے پر مجبور کرتا۔ بنوں میں بھی ایک کیس ایسا ہوا ہے جس پر مولوی جیل میں گیا۔ اگر میاں کیساتھ بیوی رہنے کیلئے راضی ہوتی تو حضرت عمر کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ حضرت عمر سے کسی نے پوچھا کہ بیوی کو حرام کہااور تحقیق سے پتہ چلا کہ بیوی رہنے کیلئے راضی ہے تو فتویٰ دیا کہ رجوع ہوسکتا ہے ۔جب حضرت علی کے سامنے ایک اور واقعہ آیا کہ بیوی کو حرام کہا ہے اور بیوی رہنے پر راضی نہیں ہے تو حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ ”اس پر رجوع حرام ہے ۔ جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو اس کیلئے حلال نہیں”۔ حضرت عمر وعلی نے یہ اختلاف اپنے اجتہادات کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ قرآن کی آیت کو سمجھ لیا تھا کہ جب عورت راضی ہوگی تو رجوع ہوسکتا ہے اور عورت راضی نہ ہوتو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں علماء کا یہ اجتہاد نقل ہے کہ ” بیوی کو حرام کہنا تیسری طلاق ہے اور یہ حرام کھانے پینے کی اشیاء کو حرام کہنے کی طرح نہیں اسلئے کہ بیوی کو تیسری طلاق پر حلال نہیں ہوگی”۔ یہ نہیں سوچا کہ سورۂ تحریم میں نبیۖ نے حرام قرار دیا تھا اور بیوی کو ماں کہنے سے زیادہ حرام کیا ہوسکتا ہے جس کی قرآن نے نفی کی ہے؟۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے علت باہمی اصلاح ہے ۔ جس کو مختلف آیات میں معروف رجوع اور باہمی رضامندی سے واضح کیا گیا ہے۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے فرمایا: المطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء … وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں ….. اور انکے شوہر ان کو اس مدت میں اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔
اس آیت میں عدت کے اندر صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا زیادہ حقدار قرار دیا گیا ہے اور اس میں یہ واضح ہے کہ رجوع کیلئے صرف ایک شرط ہے اور وہ ہے صلح واصلاح۔ جب تک عورت راضی نہیں ہو تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا اور عورت راضی ہو تو شوہر ہی اس کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ عورت کا باپ، مذہبی طبقہ اورحکمران کسی کے مقابلے میں بھی عدت کے اندر شوہر سے زیادہ دوسرے کا حق نہیں ہے کہ اس میں مداخلت کرے۔ یہ آیت کے واضح الفاظ ہیں۔
اگر عورت صلح کیلئے راضی نہیں تو شوہر رجوع نہیں کرسکتا اور مذہبی طبقہ یہ فتویٰ نہیں دے سکتاکہ” شوہر کو رجوع کا حق ہے”۔ معاشرہ اور حکمران شوہر کو رجوع کا حق نہیں دے سکتے۔ یہ عورت کیساتھ بہت بڑا فراڈاور بہت بڑی زیادتی ہے کہ ”صلح کے بغیربھی شوہر ایک یا دومرتبہ طلاق کے بعد رجوع کا حق رکھتا ہے”۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ شوہر صلح واصلاح کی شرط پر ہی رجوع کا حق رکھتا ہے تو یہ پتھر کی لکیر سے بھی زیادہ ہمیشہ قائم رہنے والا فتویٰ ہے اور اس سے قرآن کی کوئی دوسری آیت متصادم نہیں ہوسکتی ہے اور نہ اس کے برعکس حدیث ہے۔
کیا قرآن کی اگلی آیت ہی میں تضاد ہے۔ اللہ نے فرمایا: الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے” (آیت229البقرہ ) ملواڑیں کہتے ہیں کہ اس آیت میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ طلاق سے اللہ نے شوہر کو رجوع کا حق دیا ہے۔گویا پہلی آیت228البقرہ میں صلح کی جو شرط رکھی گئی تھی اس آیت229میں اللہ نے عورت کو پھر کم عقل وکم نصیب اور کم بخت قرار دیکر اصلاح و صلح اور عورت کی رضامندی کا حق چھین لیا اور ایک نہیں دو مرتبہ طلاق سے شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیا؟ ۔ عورت سے صلح واصلاح اور رضامندی کا حق چھین کر صرف عورتوں سے یہ زیادتی ملواڑوں اور ملاٹوں نے نہیں کی بلکہ اللہ کے کلام میں بھی زبردست تضاد پیدا کردیا۔ اللہ نے ایک مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو آیت228میں غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا تھا لیکن دوسری آیت میں دو مرتبہ طلاق کے بعد غیرمشروط رجوع کا حق دے دیا؟۔ یہ اللہ کی کتاب میں اتنا بڑا تضاد ، گمراہی اور بھلکڑ پن ہے کہ اتنا کمزور حافظہ تو چوہے کا بھی نہیں، جس کو بلی بھگادیتی ہے اور وہ پھر شکار ہوجاتاہے۔ اسلئے کہ دونوں آیات بالکل متصل ہیں اور دونوں میں بہت بڑا تضاد پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے طلاق کے مسائل میں پوری فقہی دنیا بالکل تباہ وبربادی کا شکارہے۔
نبیۖ نے واضح فرمایا ہے کہ ” تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے”۔ اور یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ ” تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہی ہے”۔ نبیۖ نے اسلئے ایک ساتھ تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رجوع کا حکم دیا ہے۔ جس طلاق کے بعد آیت230البقرہ میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے اس کنڈیشن کا ذکر کیا ہے کہ ” تین مرتبہ مرحلہ وار طلاقوں کے بعد جب معروف رجوع کا فیصلہ نہیں ہو تو شوہر نے جو کچھ دیا ہے اس میں کچھ بھی واپس لینا حلال نہیں مگر جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ اگردی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے۔ وہ چیز رابطے کا ذریعہ ہوگی اور ناجائزجنسی عمل کا شکار ہوجائیںگے۔ یہی خدشہ اگر فیصلہ کرنے والوں کو بھی ہو توپھر عورت کی طرف سے شوہر کی دی ہوئی فقط وہی چیز فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے”۔ حنفی مسلک کی اصول فقہ اور علامہ ابن قیم کی کتاب زاد المعاد میں بھی حضرت ابن عباس کا یہ قول واضح ہے کہ آیت229کے اس آخری حصے کیساتھ ہی آیت230کا تعلق ہے جس میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے۔
یہ وہ صورت ہے کہ جب میاں بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں بلکہ علیحدگی پر اس حد تک اصرار کرتے ہوں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی صورت نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والوں کا بھی یہی حال ہو۔ پھر سوال یہ پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع تو کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ البتہ آیت میں ایک دورِ جاہلیت کی رسم کا خاتمہ ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد شوہر کی پابندیوں سے خلاصی نہیں ملتی تھی اور آج کی عورت بھی اس مصیبت میں گرفتا رہے۔ اس سے چھٹکارا دلانے کیلئے اللہ نے بہت بڑا حکیمانہ فیصلہ نازل کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت ساری عورتوں کی جان چھوٹ گئی۔ اس آیت کا تعلق صرف اور صرف یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ ناراضگی کے بعد شوہر بیوی کو نہیں چھوڑتا ہو، ایک طلاق کے بعد نہ چھوڑتا ہو ، دو طلاق کے بعد نہیں چھوڑتا ہو، حرام اور کسی قسم کا کوئی لفظ کہنے کے بعد آزادی میں رکاوٹ ڈالتا ہو تو اللہ کا یہ حکم اس پر جاری ہوتا ہے۔
جہاں تک باہمی رضامندی سے رجوع کا تعلق ہے تو جس طرح اللہ نے عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے ،اسی طرح عدت کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی ہے۔ جس کا حکم زیادہ دور تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس آیت230البقرہ سے متصل آیات231اور232میں بالکل واضح ہے۔
پارلیمنٹ اور سینٹ میں قرآن کی ان آیات پر تھوڑی بحث کی جائے تو فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کی ماں مر جائے گی اور حلالہ کی نحوست سے بھی سادہ لوح عوام کو چھٹکارا مل جائے گا۔ سورہ طلاق میں بھی یہی حکم بہت وضاحت کیساتھ موجود ہے۔ تین مرتبہ مرحلہ وارطلاق کے باوجود بھی عدت کی تکمیل پر یہ ٹھوس فیصلہ کرنا ہے کہ معروف طریقے سے رکھنا ہے یا معروف طریقے سے اس عورت کو الگ کردینا ہے۔ اگر علیحدگی کا فیصلہ کیا جائے تو پھر دوعادل گواہ مقرر کئے جائیں تاکہ عورت کے مالی حقوق کو تحفظ دیا جائے۔ اور سورہ طلاق میں پھر بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ نبیۖ نے رکانہ کے والد کو رکانہ کی ماں سے تین طلاق کے باوجود رجوع کاحکم دیا اور سورۂ طلاق کی آیات پڑھ کر سنائیں۔جماعت اسلامی کے مولانا چترالی کو اگر امریکی سی آئی اے نے پلانٹ نہیں کیا تو مولانا مودودی کی کتاب” خلافت و ملکوکیت” کے برعکس تحفظ ناموس صحابہ کی طرح تین طلاق ، حلالہ اور خلع پر ایک بل پیش کریں تاکہ خواتین کو اسلامی حقوق مل جائیں اور معاشرے میں مولانا مودودی کے ”ترجمان القرآن” سے اسلام مخالف مسائل کا خاتمہ ہوجائے۔
اصل مسئلہ خلع و طلاق کے حقوق کا ہے ۔ خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے ۔ سعودی عرب میں خلع کی عدت پرصحیح حدیث کے مطابق عمل ہے۔ خلع میں عورت کو حقوق کم ملتے ہیں اور طلاق میں زیادہ ملتے ہیں۔ خلع میں عورت کو شوہر کا دیا ہواگھر اور غیرمنقولہ جائیدادباغ، زمین وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے اور طلاق میں منقولہ وغیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہوتی ہے۔ جب عورت کا قصور نہیں اور وہ چھوڑنا نہیں چاہتی تو اس کودی ہوئی چیزوں سے کیوں محروم کیا جاسکتا ہے؟۔ البتہ خلع میں محروم ہوگی۔ سورہ النساء آیت19میں خلع اور20،21میں طلاق کے حقوق ہیں۔ خلع میں عورت کو مکمل اختیار ہے اور اس میں عدالت جانے کی ضرورت نہیں ۔ آیت229میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے لیکن علماء ومفتیان کے علاوہ جدید اسکالر بھی اس جہالت میں ملوث ہیں اور جس آیت229میں اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد مالی تحفظ دیا ہے وہاں یہ گدھے عورت کو بلیک میل کرنے کیلئے خلع کا بالکل جھوٹا حکم لگاتے ہیں اور اس میں مولوی پھر بھی ناسمجھی کی وجہ سے کسی قدر معذور ہیں اور میں ان کا کفارہ ادا کررہا ہوں۔
جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے گی اور مرد اس کا انکار کرے گا تو عورت کو گواہ لانے پڑیںگے اسلئے کہ زیادہ حقوق پانے کیلئے جھوٹا دعویٰ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر عورت کے پاس گواہ نہیں ہوں اور شوہر قسم کھالے تو خلع کا حکم جاری ہوگا ۔ یہ نہیں کہ عورت خلع لے اور خلع نہ ملے تو حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ مالی حقوق پر تنازعہ ہوسکتا ہے اور اس میں قسم اور گواہی کی ضرورت ہے لیکن یہ بڑی جہالت ہے جو فقہاء نے لکھ دی ہے کہ عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔
مولوی تو عدالت کے ذریعے بھی عورت کو خلع کا حق نہیں دیتا لیکن اللہ نے فرمایا ہے کہ ” تم عورتوں کے زبردستی سے مالک نہیں بن سکتے اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو چیزیں ان کو دی ہیں وہ ان سے واپس لو مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ان سے معروف سلوک کرو اور اگر وہ تمہیں بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں بہت سارا خیر بنادے”۔ (النسائ19)
تحریک لبیک کے علامہ سعد حسین رضوی اور مولانا فضل الرحمن ایک کمیٹی تشکیل دیں جس میں جید علماء کرام اور مفتیان عظام شامل ہوں۔ جب یہ حقائق دنیا کے سامنے آجائیںگے تو پاکستان سے اسلامی نظام کا آغاز ہوجائے گا اور پھر کبھی انشاء اللہ غیرمسلم بھی یورپ وغیرہ میں بھی نبیۖ اور قرآن کی توہین کی سوچ بھی دل ودماغ سے نکال دیںگے۔نفرت کا خاتمہ ہوگا اور نبیۖ کو مقام محمود اس دنیا میں ملے گا جس کی دعا آذان میں مسلمان عرصہ سے مانگتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نکاح وطلاق کی غلط فہمیاں اور وضاحتیں

نکاح وطلاق کی غلط فہمیاں اور وضاحتیں

نمبر1:اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعد طلاق کا حق مرد کو اور خلع کا حق عورت کو دیا ہے۔ عورت خلع لے تو اس کو دئیے ہوئے گھر، جائیداد اور تمام غیرمنقولہ اشیاء سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ لیکن دی ہوئی چیزیں کپڑے، زیورات،گاڑی، پیسہ اور تمام غیرمنقولہ اشیاء میںبعض بھی شوہر واپس نہیں لے سکتا ہے۔ جب شوہر طلاق دے تو پھر دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ تمام چیزیں چاہے بہت سارامال دیا ہو ، کوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتا۔ یہ دونوں باتیں سورۂ النساء کی آیات19،20اور21میں بالکل واضح ہیں۔ خلع وطلاق میں مالی حقوق کا فرق ہے۔ خلع عورت کا مکمل اختیار اور طلاق مرد کامکمل اختیار ہے۔علماء ومفتیان آج ہماری معیشت کو سودی نظام میں بدلنے کی خوشخبریاں سنارہے ہیں تو پہلے یہ ہمارے معاشرتی نظام کو بھی اپنی کم عقلی ، مفاد پرستی اور ہوس پرستی سے تباہ کرچکے ہیں۔
اگر سید پیر مہر علی شاہ ، سید علامہ محمد انور شاہ کشمیری ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، سیدابوالحسنات قادری، سید ابولاعلی مودودی اور سید علامہ یوسف بنوری نہ ہوتے توان غیر سادات نام نہاد علماء ومفتیان مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو بھی قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ پاکستان کے مرزائی وزیرخارجہ سرظفر اللہ قادیانی نے خود قائداعظم محمد علی جناح کے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی ،اگر وہ شرکت کرنا چاہتا تو شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع روکنے کی جرأت تو بہت دور کی بات ہے اس کا والہانہ استقبال کرتے۔ ان لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں تھا۔ مولانا ابولاکلام آزاد اور سید سلیمان ندوی کو تصویر کے جواز کا فتویٰ دینے کے بعد اپنی کم علمی وکم عقلی سے مجبور کیا لیکن جب حکومت پاکستان کے قیام میں سرکاری اور درباری بن گئے تو شرک اور اللہ سے مقابلے والی تصویر کو بھی حکومت اور تجارت کی غرض سے جائز قرار دیدیا۔ اپنے اکابر مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا عبداللہ درخواستی سے حاجی عثمان تک انتہائی لغو، دروغ گوئی ، جہالت اور مفادپرستی پر فتوے دئیے لیکن سرکاری اور درباری ملاؤں نے قادیانیوں ، شیعہ اور مودودی کے خلاف کبھی زبان اسلئے نہیں کھولی کہ جب تک ریاست کی طرف سے اشارہ نہ ہو یہ نہیں ہوسکتا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے طلاق وحرامکاری کے فتوے دئیے۔
جب یہ واضح ہے کہ طلاق کا حق شوہر اور خلع کا حق عورت کو حاصل ہے اور دونوں صورتوں میں مالی حقوق کا فرق پڑتا ہے۔ خلع میں صرف دی ہوئی منقولہ جائیداد اور طلاق میں عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ سب دی ہوئی چیزیں اس کا حق ہے تو اگر عورت دعویٰ کرے کہ شوہر نے اس کو طلاق دی ہے اور شوہر انکار کرے تو یہ ممکن ہے کہ عورت نے زیادہ سے زیادہ مالی حقوق کے حصول کیلئے جھوٹا دعویٰ کیا ہو۔ اسلئے طلاق کے مالی حقوق لینے کیلئے اس کو قاضی یا جج کے سامنے دو گواہ لانے پڑیںگے۔ گواہ بھی معقول اور قابلِ قبول۔ اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوئے تو شوہر حلف اٹھائے گا۔ اگر شوہر نے حلف اٹھالیا تو پھر قاضی یا جج طلاق کا حکم جاری نہیں کرے گا۔ اگر عورت چاہے تو خلع لیکر الگ ہوسکتی ہے لیکن اگر علیحدگی نہیں چاہتی ہو تو پھر طلاق بھی نہیں ہوگی۔ نکاح میں جڑے رہ سکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی کا یہ فتویٰ ہے جو اس نے مولانا اشرف علی تھانوی کے نام پر ”حیلہ ناجزہ” میں شائع کیاکہ ایسی صورت میں عورت شوہر سے حرامکاری پر مجبور ہوگی اسلئے کہ اگر ہوسکے تو جتنا مال شوہر مانگ رہا ہو ،اس کو خلع کے نام پر دیدے اور اگر شوہر پھر بھی خلع نہیں دینا چاہتا ہو تو عورت پھر نکاح میں بھی رہے گی اور یہ تعلق بھی حرامکاری کا ہوگا۔ جب شوہر جماع کرے تو عورت لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہ گار ہوگی۔ جس جعلی اسلام میں عورت کو خلع کا حق نہ ہو اور وہ حرامکاری پر مجبور ہو تو یہ اللہ اور اسکے رسول ۖ کا اسلام نہیں ہوسکتا ہے بلکہ درباری علماء کی طرف امت میں رائج ہوا ہے۔ درباریوں کا فقہ ہمیشہ رائج الوقت سکہ رہا ہے۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب کیلئے بھائیوں کے قتل کا قصاص معاف کیا تھا اور یہ سلسلہ کربلا کے میدان سے لیکر موجودہ دور تک اہل حق کے خلاف چل رہاہے لیکن اب ان کے چہروں سے اسلام کا جھوٹا نقاب اٹھانا پڑے گا۔
نمبر2:اللہ تعالیٰ نے کسی صورت میں بھی طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے لیکن جب عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق اور ناراضگی کی صورت میں بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔ فقہی مسائل میں طلاق صریح وکنایہ کے ذخیرۂ الفاظ کا فائدہ فقہاء حق نے عورت کو پہنچایا ہے اور حضرت عمر وحضرت علی اور ائمہ مجتہدین کا طلاق ورجوع کے حوالے سے آپس میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن بعد والے درباری شیخ الاسلاموں نے مسائل کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ جتنے جھوٹے انقلابی منظور پشتین وغیرہ عورت کے حقوق کی پاسداری میں مذہبی طبقے کیساتھ کھڑے ہیں انکے نعروں سے کبھی انقلاب نہیں آسکتا ہے۔ انقلاب معاشرے ، گھروں اور افراد کی حقیقی آزادی سے آتا ہے۔ خاتم الانبیاء والمرسلینۖ نے جو انقلاب برپا کیا تھا اس کی وجہ سے دنیا بھر کی ظالم سپر طاقتوں قیصر روم اور کسریٰ ایران کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نمبر3:نکاح وطلاق کے غلط مذہبی رسوم ورواج کا قرآن نے خاتمہ کیا تھا لیکن درباری طبقات نے اسی جگہ معاملہ پہنچادیا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔ اللہ نے ان مذہبی علماء کو گدھوں سے تشبیہ دی جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہوں۔ اور چالاک وعیار قسم کے مفادپرست علماء کو کتے سے تشبیہ دی تھی۔ کتے گدھے ہنکانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں لیکن گدھوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ کہاں سے کہاں ان کو ہنکایا جارہاہے۔ کل سارے مدارس ”حرمت سود” پر متفق تھے اور آج ”حرمت سود” کے نام پر سیمینار میں ” حلت سود” میں گدھوں کو کھڑا کردیا گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے بڑے فائدے اٹھالئے لیکن جن کو بلایا گیا تھا ان کو بھی چارہ ، بھوسہ اور کرائے کے نام پر کچھ جیب گرم کی ہوگی۔ سود کی حرمت کو چھوڑ کر علماء ومفتیان نمازجنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے پیچھے لگے۔
نمبر4:قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین میں طلاق ونکاح کے حوالہ سے کوئی حلال وحرام کا اختلاف نہیں تھا حضرت عمر کی طرف سے عورت کو ”حرام ” قرار دینے پر اسلئے رجوع کا فتویٰ دیا گیا کہ عورت راضی تھی اور حضرت علی کی طرف سے ” حرام” کے لفظ پر اسلئے رجوع کا فتویٰ نہیں دیا گیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ بعد والوں نے عجیب وغریب اقسام کے تضادات سے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے اسلئے آج اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کی چاہت تھی کہ امام ابوحنیفہ کے اصل مسلک قرآن کی طرف رجوع سے انقلاب لایا جائے لیکن علماء ومفتیان اور مولانا مودودی تک کسی نے بھی انقلاب کی تائید نہیں کی بلکہ مولانا عبیداللہ سندھی پر کفر، الحاد ، گمراہی اور دماغی خلل کے الزامات لگادئیے۔ اسلئے انہوں نے بہت سختی کی وجہ سے لکھا تھا کہ ” جس طرح ابوجہل و سرداران قریش مسلمان انقلابی نوجوانوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے،اسی طرح ہم بھی جب تک ان مقدس ہستیوں کو قتل نہیں کریںگے جو انقلاب اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں کبھی یہ عوامی سطح پر اسلام کی طرف رجوع اورانقلاب کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے دور میں سوشل میڈیا نہیں تھا اور موجودہ دور کی طرح تعلیم یافتہ معاشرہ بھی نہیں تھا اسلئے سختی کی وجہ سے قتل اور قتال کی باتیں ایک مجبوری ہوسکتی تھی۔ آج بہت آسانی سے انقلاب آسکتا ہے۔ جن خود کش حملہ آوروں کو درباریوں کے خلاف استعمال ہونا چاہیے تھا وہ ہمارے خلاف استعمال ہوگئے لیکن انشاء اللہ خلافت کے قیام کا مشن کامیاب ہوگا۔
نمبر5:اسلام کے نام پر حلالے کی لعنت قرآن واحادیث صحیحہ سے انحراف اور علماء ومفتیان کی کم عقلی وہوس پرستی کا نتیجہ ہے۔ بڑے مدارس کے بڑے علماء و مفتیان اور انکے دارالافتاء میں بیٹھے ہوئے چھوٹے مفتیان کو بات سمجھ آگئی ہے لیکن اپنی انانیت اور ہوس پرستی کی وجہ سے غریب اور جاہل طبقے کو حلالہ کے نام پر لعنت کا نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ اب خود کش کے نشانہ بننے کے قریب ہیں۔

شرعی پردہ اور شرعی حدود کا درست تصور
ایران میں ایک لڑکی کو سر کے کچھ بال کھلے ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا توبہت بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ طالبان نے کابل ائیر پورٹ پر پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کا استقبال کیا تو اسکے کچھ بال کھلے ہوئے تھے۔ طالبان ملاعمر کے دور سے بہت بدل چکے ہیں جہاں وہ داڑھی نہ ہونے پر سزائیں دیتے تھے اور بااثر لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ علماء ومفتیان کو بھی اپنے غلط نصاب تعلیم کی وجہ سے درست اسلام کا پتہ نہیں ہے تو طالبان بھی کم علم اور شعور سے عاری ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ اس جہالت سے کبھی ہمارا بھی گزر ہوا ہے لیکن اب جس طرح طالبان کے شعور میں اضافہ ہوا ہے اس طرح ہمارے شعور نے بھی تھوڑی بہت ترقی کرلی ہے۔
طالبان اعتدال کا راستہ اپناتے ہوئے نہ تو خواتین کو نقاب اٹھانے پر مجبور کریں اور نہ لگانے پر مجبور کریں۔ اسلام کا سب سے بڑا مرکز مکہ مکرمہ میں حج و عمرے کے دوران مردوں نے واجبی لباس احرام پہنا ہوتا ہے اور عورتوں کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا نہیں ہوتا ہے۔ حرم کعبہ میں نماز، طواف اور صفا ومروہ کی سعی میں خواتین و حضرات شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ چودہ سوسال سے اسلامی فریضے کی ادائیگی میں جتنی روشن خیالی اسلام نے سکھائی ہے ،کسی دوسرے مذہب میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ لونڈیوں کا ستر لباس بھی بہت مختصر ہوتا تھا۔
شرعی پردے کا حکم عورتوں کو اللہ نے دیا ہے لیکن زبردستی سے مسلط کرنے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ غیرمسلم عورتوں کیلئے تو اس کا تصور بھی نہیں ہے اور اگر طالبان اعلان کردیں کہ بدھ مت کے پیروکاردنیا بھر سے افغانستان میں آسکتے ہیں تو چین، جاپان، شمالی وجنوبی کوریا، برما، تھائی لینڈ ، بھارت اور یورپ وامریکہ وغیرہ سے بڑے پیمانے پر بدھا کے آثارقدیمہ دیکھنے کیلئے لوگ آئیں گے اورافغانستان کے سفارتی تعلقات کے علاوہ بڑے پیمانے پر سیاحوں کی آمد سے عوام کی غربت بھی ختم ہوجائے گی۔ جس برقعہ کا افغانی عورتوں کو پابند بنایا جارہاہے یہ افغانستان اور پشتونوں کا لباس نہیں ہے بلکہ پنجاب کا لباس ہے اور اس کو پشتونوں کے کلچر میں متعارف اور رائج کرنے والا بھی ہمارا خاندان ہے۔ یہ میرے بچپن اور یاد اشت کی بات ہے ، وزیرستان سے سوات تک کہیں بھی یہ برقعہ نہیں تھا۔ شرعی پردے کا جو تصور علماء ومفتیان نے اپنی طرف سے ایجاد کیا تھا اس پر علماء ومفتیان نے کبھی خود بھی عمل نہیں کیا ہے اسلئے مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” اشرافیہ کا یہ پردہ ترک کردیا جائے کیونکہ یہ شرعی پردہ نہیں ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں قوم لوط کا عمل بڑھتا ہے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے اسلام قبول کیا تھااور علماء کے علم وعمل کو دیکھا اور سمجھا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں جب اپنے ماں باپ، بھائی ، بہن، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی اور اپنے دوستوں کے گھروں میں انفرادی اور اجتماعی کھانے کی ااجازت ہے جس پر صحابہ کرام سے لیکر میرے آباء واجداد (جو سید عبدالقادر جیلانی کی آل تھے اور علماء ومشائخ تھے ) تک فقہاء کے غلط اور خود ساختہ شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں تھا تو مجھے بھی ان کی جہالتوں پر عمل نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں نے کسی دور میں اس پر عمل کرکے بھائی، ماموں ، چچا اور قریبی رشتہ داروں سے شرعی پردے کے نام پر عمل کرکے اپنے خاندان اور دوستوں میں دوریاں پیدا کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔ جب معلوم ہوا تو اپنی جہالت سے نکل گیا ۔ مولانا عبیداللہ سندھی شرعی پردے کے درست تصور کو جانتے تو شریعت چھوڑنے کی دعوت نہ دیتے۔
یہ مولانا عبیداللہ سندھی کی توہین نہیں بلکہ اسلام کی اجنبیت کی دلیل اور ان کی توثیق ہے۔ اگر اسلام کی حقیقت شرعی پردے کے نقاب میں غائب نہ ہوتی تو امام انقلاب مولانا سندھی کیلئے اپنا مشن بہت آسان ہوجاتا۔ رسول اللہ ۖ کی رہنمائی وحی کے ذریعے سے ہوتی تھی لیکن آپۖ کے وصال کے بعد وحی کی ہر معاملے میں رہنمائی کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کیالیکن حضرت عمر پہلے بھی تشویش میں تھے اور آخر میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اگر حضرت ابوبکر کے ساتھ مل کر حضرت عمر نے مانعین زکوٰة کیخلاف جہاد کیا اور اپنے دور میں اس کو غلط قرار دیتے تو یہ اجتہادی خطاء تھی۔ طالبان نے بھی ملاعمر کے دور میں جو اقدامات کئے اور اب ان کو صحیح نہیں سمجھتے تو ان کیلئے اس اجتہادی غلطی کی زیادہ گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ نے وحی کی رہنمائی سے قبل بیت المقدس کا پہلا قبلہ بنایا تھا اور جب تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی تو اہل کتاب کے حکم کے مطابق مسلمان وکافر اور مرد وعورت پر سنگساری ، کوڑے وجلاوطنی کے احکام جاری کردئیے۔ جب زانی مرد وعورت کیلئے سورۂ نور میں100کوڑوں کی سزا کا حکم واضح ہوا تو تورات کے مطابق حکم پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ اللہ نے واضح فرمایا تھا کہ تورات میں تحریف ہوئی ہے اور قرآن محفوظ ہے۔ اگر یہودی بھی تورات کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہوں تو ان کو منع کردو اسلئے کہ اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیںگے۔ حضرت علی سے یہ منسوب ہے کہ اگر آپ اقتدار کرتے تو سب پر انکی کتابوں کے مطابق سزاؤں کا حکم جاری کرتے ۔ حالانکہ یہ قرآن کے منافی ہے۔ حضرت عمر نے مسلمانوں پر بھی تورات کے مطابق باہمی رضامندی سے زنا میں پکڑے جانے پر سنگساری کا حکم جاری کرنے کا اعلان کیا مگر جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ پر چار افراد گواہی کیلئے آگئے تو مسئلہ اتنا خراب کردیا گیا کہ آج تک لوگوں کا دماغ سن ہے۔ حنفی اور جمہور فقہاء کے نزدیک الگ الگ مسالک اس پر بن گئے اور بخاری وغیرہ میں گواہوں کے نام اور ملزم کو بچانے کیلئے عجیب طریقے کا ذکر ہے اور ان پر حدِ قذف جاری کرنے کی وضاحت ہے۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا کہ” وہ تو حضرت مغیرہ کی اپنی بیگم تھی”۔ حالانکہ ام جمیل کوئی اور عورت تھی۔
اگر تین تین افراد کی گواہی پر حدقذف لگے تو طالبان بے پردگی پر سزا کیسے دے سکتے ہیں؟۔ مولانا فضل الرحمن بھی ووٹ مانگنے کے دور میں کہتا ہے کہ تین چشم دید گواہ مردعورت کو ننگے بدکاری کرتے ہوئے دیکھ لیں اور گواہی دیں تو پھر ان تینوں پر حدِ قذف لگے گی۔ علماء ومفتیان افغانستان کے طالبان کو مشکل سے نکالنے میں مدد کریں اور اپنے شرعی قوانین کی غلط تشریح کو بھی درست کرلیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اپنے پر آتی ہے تو حد کیلئے تیار ہونا مشکل کام ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ کو مینارِ پاکستان سے گرانے کی باتیں ہورہی تھیں کہ اس کی شرعی سزا ہے ۔ حالانکہ قرآن میں دونوں مردوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور جب وہ توبہ کرلیں تو ان کا پیچھا چھوڑنے اور طعنہ نہ دینے کا حکم ہے۔ قوم لوط کے فعل کو قرآن نے غیرفطری قرار دیا ہے کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آتے ہو؟۔ حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ ”یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کرنے والے ہو”۔ مدارس میں طلبہ کیساتھ بدفعلی ہیرامنڈی میں عورتوں سے تعلق کے مقابلے میں زیادہ بری ہے۔
سعودی عرب میں پردے کی سخت پابندی تھی تو گھروں میں حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ محرموں کے آپس میں معاملات بگڑنے کی خبریں تھیں۔ اگر طالبان بر وقت اپنی طرف سے ان پابندیوں کو اٹھادیں جو نہ اسلام کا تقاضاہے اور نہ افغانستان کے اپنے کلچر کا تو اس کی وجہ سے یہ قوم بہت سے اندرونی وبیرونی مسائل سے بچ سکے گی۔ جب افغانستان میں اسلامی تعلیم کا درست نقشہ پیش ہوگا تو پوری دنیا میں اسلام کے فطری دین کو پھیلنے کا موقع ملے گا۔ مولانا سندھی نے پاکستان بننے سے پہلے وفات پائی اور انکاتعلق جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ، جمعیت علماء ہند میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں تھا بلکہ کانگریس کے رکن تھے۔ انہوں نے اپنی تفسیر المقام المحمود میں سورةالقدر کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” پنجاب، سندھ، بلوچستان، کشمیر ، سرحد اور افغانستان میں بسنے والی قومیں امامت کی حقدار ہیں ۔ حنفی مسلک اور قرآن کے احکام سے اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی۔ اگر پوری دنیا کو ہندو ہمارے مقابلے میں لائے تو ہم یہا ں سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ اسلام کی نشاة کا مرکزی خطہ یہی ہے اور ایران بھی اس انقلاب کو قبول کریگا”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جس دن اُمت نے قرآن و سنت کو سمجھ کر اعلان کردیا کہ حلالے کا تصور نہیں تو آدھا چلّہ گزرتے ہیں21ویں دن دنیا میں انقلاب آجائے گا!

جس دن اُمت نے قرآن و سنت کو سمجھ کر اعلان کردیا کہ حلالے کا تصور نہیں تو آدھا چلّہ گزرتے ہیں21ویں دن دنیا میں انقلاب آجائے گا!

پہلے دن حلالے کی لعنت کا خاتمہ ہوگا اور دوسرے دن،تیسرے، چوتھے، پانچویں …… بیسویں دن تک ایک ایک اہم مسئلے کی وضاحت جاری رہے گی تو امت زندہ ہوجائے گی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے”۔ مغرب کی سب سے بڑی خوبی جمہوری اقتدار، غلامی اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہے۔ ہمارا خلیفہ بھی جمہوری انداز سے مقرر ہونا چاہیے۔ ڈکٹیٹر شپ سے امریکی ونیٹو فوج کو افغانستان میں کامیابی نہیں ملی۔ طالبان کے جنرل مبین نے کہا کہ” جب تک عوام ساتھ نہ ہو ،افغانستان میں کوئی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی”۔ دہشگردی کا خاتمہ جمہوری حکومت کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ اگر خواتین کو اسلامی حقوق دینے کی وضاحت اور پھر اس پر عمل درآمد کا اعلان کیا جائے تو جمہوری بنیادوں پر پوری دنیا کی خواتین خلافت علی منہاج النبوت قائم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔ پہلے دن اعلان کیا جائے کہ حلالہ کا خاتمہ ہے۔ باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ اللہ نے کھلا رکھا ہے۔ تو مسلمانوں کی زندگی میں حرکت شروع ہوگی۔ پھر اگلے دن عورتوں کو اسلام کے مطابق خلع کا حق دیا جائے تو مزید تحریک کامیاب ہوگی۔اسلامی علوم کا بند اور فطری ذخیرہ عوام وخواص کے سامنے کھلے گاتو انقلابی رحجان پیدا ہوگا۔ پھر خواتین اور مردوں کے مخلوط معاشرے کی مثال خانہ کعبہ کے طواف، صفاومروہ کے سعی اور حرم کعبہ میں نمازباجماعت سے دی جائے تو مولوی کا ذہن بھی کھلے گا۔مرد اور عورت کو نظروں اور شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم سمجھایا جائیگا تو حجر اسود چومتے وقت نامحرم آپس میں رگڑ ا نہیں کھائیںگے ۔ہر نیا دن انقلابی سورج طلوع ہوگا۔ نکاح میں مردوں پر فرائض اور خواتین کے حقوق سے دنیا بھر کی مسلم اور غیرمسلم خواتین اسلامی نظام کے حق میں ووٹ دیںگی۔پانچ دنوں میں انقلاب کے اثرات ہونگے۔والدین کی علیحدگی کی صورت میں بچوں پر ماؤں کا یکساں حق ہوگا تو مائیں خوشیوں سے سرشارہونگی۔
چھٹے دن پنجاب میں جہیز اور پشتونوں میں عورت کا حق مہر کھانے کا رواج ختم ہوگا اور عرب والدین بھی حق مہر کے مطالبے کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کو ضائع کرنا چھوڑ دیںگے۔ افغان طالبان حکومت کو بھی دنیا تسلیم کرے گی اور عرب وعجم کی خواتین میں اسلام کوزبردست قبولیت کا درجہ حاصل ہوجائیگا۔7ویں دن اعلان ہوگا کہ عورت اور مرد کے ریپ پر سنگساری کی سزا ملے گی تو دنیا بھر کے غیور لوگ اسلام کے حق میں کھڑے ہوںگے۔8ویں دن اعلان ہوگا کہ سورۂ نور کے مطابق عورت اور مرد کو بدکاری پر اعلانیہ100کوڑے کی یکساں سزا دی جائے گی اور ماحول کے اعتبار سے کوڑے میں سختی اور نرمی ہوسکتی ہے تو دنیا کے کان کھڑے ہوںگے لیکن تحریک اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگی۔ پھر9ویں دن لعان کے قانون کا اعلان ہوگاتو دنیا حیران ہوگی کہ اسلام میں قانون کی بالادستی کا چودہ سو سال پہلے سے یہ تصور تھا کہ جب عورت کیخلاف اسکا شوہر فحاشی کی گواہی دے اور عورت کو نہ صرف اسکے جھٹلانے کا حق ہو بلکہ اس کی وجہ سے سزا کا حکم بھی ہٹ جائے تویہ کتنا زبردست اور بہترین قانون ہے۔ سورۂ نور کی یہ آیت لوگوں کی نظروں سے کیوں اوجھل رکھی گئی؟۔ اگر یہ واضح احکام ہوتے تو مغرب کو ہوس پرستی کیلئے یہ مادر پدر آزادی دینے کے قوانین کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔وہ اسلام کے محفوظ خاندانی زندگی کی طرف دوبارہ پلٹنے میں دیر نہیں لگائیںگے کیونکہ انسان جانور نہیں بن سکتا ہے۔
10ویںدن اعلان ہوگا کہ نہ صرف شوہر کو اپنی وسعت کے مطابق حق مہر دینا ہوگا بلکہ جب عورت کو ہاتھ لگائے بغیر بھی شوہر طلاق دے گا تو نصف حق مہر پھر بھی دینا فرض ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنی طرف سے کچھ معاف کرنا چاہے لیکن ترغیب مرد کو ہے کہ جسکے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے کہ وہ نصف حق مہر سے زیادہ دے تو بہتر ہے۔آیت کے ان الفاظ سے فقہاء نے جو مسائل نکالے ہیں کہ عورت حرامکاری پر مجبور ہو ،تب بھی عورت کو خلع نہ ملتا ہو تو وہ لذت اٹھانے پر گناہگار ہوگی۔ وغیرہ تو لوگ سابق مخلص علماء وفقہاء کی مغفرت کی دعاکرینگے۔
11ویں دن اعلان ہوگا کہ عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد میاں بیوی میں صلح کا دروازہ کھلا ہے تو یہ ایک ایسا انقلاب ہوگا جس کی وجہ سے عوام اور خواص کے خاندانوں میں دشمنی کا خاتمہ ہوجائیگا اورماحول کو بہت پاکیزگی اور تزکیہ مل جائیگا۔12ویں دن اعلان ہوگا کہ بیٹیوں کو باپ کی جائیداد میں بیٹے کے نصف کے برابر حصہ ملے گا تو ظالموں کے کلیجے منہ کو آجائیں گے اور مظلوموں کو انصاف مل جائیگا۔13ویں دن اعلان ہوگا کہ مزارعت ،ٹھیکہ ، مزدوری اور کرائے پر زمینوں کا دینا ممنوع ، ناجائز اور سود ہے تو روس کے دارالخلافہ ماسکو پر اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور سارے کامریڈ اور کمیونسٹ اسلامی نظام کو قبول کرنے کا اعلان کریں گے۔14ویں دن اعلان ہوگا کہ دنیا سے سودی نظام ختم ہے اور اصل رقم قرضہ کی شکل میں واپس کی جائے گی اور سودی لین دین دنیا میں منع ہے جس سے انسان دشمنی کے راستے اور غلامی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں تو ایک جشن منایا جائیگا کہ انسانوں کی گردنیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہیں۔15ویں دن اعلان ہوگا کہ کالے گورے، عرب عجم سب بنی آدم ہیں ۔ کسی کو کسی پر نسل کی وجہ سے برتری حاصل نہیں۔ افضیلت کا معیار کردار ہے تو یہ بہت مثبت اثرات مرتب کرے گا۔16ویں دن اعلان ہوگا کہ وکیلوں کو چھوڑ دیں۔ اپنا مقدمہ خود پیش کریں۔ سیاسی جماعت کے قائدین ، جرنیل ،جج ،ملا، صحافی ، تاجر ، ٹھیکہ دار اور تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد صاف ہونگے تو ان کو دائیں ہاتھ سے اعمالنامہ جاری کیا جائیگا اور آسان حساب لیا جائیگا اور جو حاضر ہونے سے انکار کرے گا تو اس کو پیٹھ پیچھے اس کا اعمال نامہ دیا جائیگا اور وہ اپنی موت پکارے گا۔ کرپٹ عناصر نے ملک وقوم کو لوٹ کر کہاں سے کہاں پہنچادیا ؟۔ بڑے بڑے ہاتھ مارنے والوں سے حساب لیا جائے گا۔17ویں دن اعلان ہو گا کہ زکوٰة کو قرآن وسنت کے نصاب کے مطابق آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم کیا جائیگا۔ حادثات کا شکار ہونے والوں میں مسلم و غیرمسلم کی تفریق نہیںہو گی۔مسلمانوں سے نہری اور بارانی زمینوں کا عشر اور غیرمسلموں سے اتنی مقدار میں جزیہ لیا جائیگا۔18ویں دن اعلان ہوگا کہ زکوٰة، حج، نماز اور خواتین کے پردے میں جبری نظام کا تصور نہیں۔ صرف اخلاقیات کی ترغیب ہوگی لیکن قانون اور زبردستی کا تصور قرآن وسنت میں نہیں۔19ویںدن اعلان ہوگا کہ مسلمانوں کی طرح اگر ہندو، بدھ مت، عیسائی، یہودی اور صائبین وغیرہ بھی اپنی مرضی سے اپنے اصل ادیان کی طرف لوٹ کر مسخ شدہ احکام کی اصلاح کرنا چاہتے ہوں تو یہ انکی اپنی مرضی ہے۔ وہ خود اپنی شریعت اور اپنی مرضی ہی کے مطابق اپنے احکام پر عمل کے پابند ہونا چاہیں تو ان کی مرضی ہے لیکن ہماری طرف سے جبر وزبردستی کاکوئی تصور نہیں اور نہ ہم ان کی کتابوں کے مطابق ان کا فیصلہ کرینگے اسلئے کہ اللہ نے منع فرمایا۔20ویں دن اعلان ہوگا کہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور عدل قائم کریںگے تو مسلمانوں میں روح مکمل ہوجائے گی۔21ویں دن انڈے کا خول توڑ کر مسلم امت کے چوزے دوڑنے کے قابل ہوں گے۔
میری دائیں اور بائیں بازو دونوں سے صراط مستقیم پر چلنے کی نہ صرف ایک درخواست ہے بلکہ یہ یقین ہے کہ اسلامی احکام کی افادیت کے سامنے پوری دنیا کی طرح جلد ازجلد وہ بھی سرجھکائیں گے۔ عورت جب بیاہی جاتی ہے تو وہ کسی قوم، خاندان اور علاقہ میں رعایا کی زندگی بسر کرتی ہے۔ جو مظالم قانون، رسم و رواج اور شریعت کے نام سے عورت پر روا رکھے گئے ہیں ،اگر اسلام کی حقیقت سامنے آجائے تو وللہ باللہ تاللہ سب لوگ حقیقی اسلام قبول کریںگے اور ایمان کو دلوں میں داخل کریںگے۔ مولانا فضل الرحمن ووٹ مانگتا ہے تو کہتا ہے کہ اگر مرداور عورت کو فحاشی کی حالت میں ننگاایک ، دو اور تین مرد دیکھیںگے تو بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مگر جب اقتدار ہاتھ میں آتا ہے تو دوپٹہ سرکنے یا چہرے دکھانے پر کوڑے مارے جاتے ہیں حالانکہ حج وعمرہ میں عورتیں چہرہ دکھاتی پھرتی ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا 60 x6=360 پورا سال؟

تبلیغی جماعت کا حلالہ؟ ڈیڑھ چلّے پر چھکا60×6=360پورا سال؟

تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے کارکن چلّہ کشی میں برداشت پیدا کرتے ہیںاور ایک حلالہ کی لعنت کرانے سے ان میں پورے سال کی محنت کے برابر برداشت پیدا ہوجاتی ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دیوبندی بریلوی علماء کیلئے تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی بڑا سرمایہ ہیں۔ انکے کارکن غصے میں بیگمات کو اکٹھی3طلاق دیں تو حلالہ کی لعنت کروانے کیلئے علماء کے پاس پہنچتے ہیں۔ علماء فتویٰ دیتے ہیں کہ ان کیساتھ شب باشی کی لعنت نہ کی جائے تو صلح حرامکاری ہے۔ قرآنی آیت کو سیاق وسباق کے بغیر اور حدیث کوبالکل غلط پیش کرکے بے گناہ خواتین کی عزتیں اسلام کے نام پر لوٹ لی جاتی ہیں۔مفتی حلالہ انجن تبلیغی جماعت و دعوت اسلامی کے ایندھن سے چلتا ہے۔ تبلیغی جماعت ودعوت اسلامی اعمال کو کروڑوں سے ضرب دیتے ہیں اور قوت برداشت پیدا کرتے ہیں، حلالہ سے ڈیڑھ چلہ60دنوں پر چھکے6کی ضرب لگتی ہے تو360دنوں سال کے برابر برداشت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ علماء نے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر نماز و آذان کیخلاف فتویٰ دیا مگر عمل نہ کیا۔ تصویر کا فتویٰ دیا مگر پھر جواز کے قائل ہوگئے۔ اب سود کو جائزقرار دیا۔بے ایمان علماء نے حلالہ کے درست مؤقف کو سمجھ لیا لیکن اس لعنت سے تبلیغی جماعت و دوعوت اسلامی کے کارکنوں کی عزتیں نہیں بچاتے ۔ علماء میںکسی نے توحید وسنت پر زور دیا۔ کسی نے رسول اللہ ۖ کیخلاف گستاخانہ لہجے کا تعاقب کیا۔ کسی نے اقامت دین کو مشن بنایا۔ کسی نے جہاد کی طرف توجہ دی۔کسی نے ختم نبوت کو تحفظ دیا۔ کسی نے صحابہ اور اہلبیت کا تحفظ اپنا فرض سمجھا۔ کسی نے ردِ بدعات کو مشن سمجھا۔ کسی نے تقلید کو تحفظ دیا۔کسی نے تفسیرقرآن اور کسی نے حدیث کو مشن قرار دیا۔ علماء نے مختلف میدانوں میں نمایاں کارنامے انجام دئیے ،علوم وفنون میں ان کی مہارت کا سکہ دنیا مانتی ہے۔قرآن و سنت، فقہ وعقائد، صرف ونحو، منطق و فلسفہ اور عربی ادب کے میدان میں مخصوص کتابوں کے ماہرین سے طلباء اپنی تعلیم کیلئے دور دور سے تشریف لاتے ۔ علمی شخصیات کے علاوہ مدارس کا وجود بھی تھا جن میں مختلف علوم اور کتابوں کے ماہرین طلبہ کو اسلامی علوم پڑھاتے تھے۔
کانیگرم وزیرستان میں ہماری آبائی مسجد کو ”درس” کہتے تھے۔ درس مسجدکو نہیں بلکہ جہاں تعلیم اورتدریس ہو ،اسے درس کہا جاسکتا ہے۔ کانیگرم کی مساجد میں رہائش پذیر طلبہ قرآن وسنت ، فقہ، عربی فارسی کتابیں اور مختلف علوم وفنون سیکھنے کیلئے مرکزی مسجد میں آتے ۔ علماء حکیم تھے۔ طلبہ کو گھروں سے صبح وشام وظائف کی طرح کھانا ملتا تھا ۔ علماء اپنے کاروبار اور حکیم ہونے کی وجہ سے زکوٰة لیتے نہیں تھے بلکہ غرباء کو دیتے تھے۔ طلبہ کو زکوٰة کی ضرورت نہ تھی۔ زکوٰة فقرائ، مساکین ،حادثات کا شکار ہونے والوں، گردنیں آزاد کرنے اور قرآن میں بیان کردہ آٹھ قسم کے افراد میں تقسیم ہوتی تھی۔ جن میں مولفة القلوب شامل تھے۔ لارڈ میکالے کاانگریزی تعلیمی نظام ہندوستان میں متعارف ہوا تو اس میں دینی تعلیم کا اہتمام نہ تھا۔ دنیاوی علوم کیلئے علی گڑھ نے کردار ادا کیا، مذہبی علوم کیلئے دارالعلوم دیوبند نے کردار ادا کیا۔ علی گڑھ کے بانی سرسیداحمد خان کی داڑھی علماء دیوبند سے زیادہ لمبی تھی۔ علی گڑھ نے چندہ اکٹھا کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ دارالعلوم دیوبند کو لوگ خود چندہ دیتے تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کیلئے بڑے پیمانے پر چندہ کیا لیکن مولانا فضل الرحمن نے اپنے مدرسہ جامعہ الشریعہ کیلئے چندہ نہیں کیا۔
دیوبندیوں کے بعد بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کے بھی مدارس بن چکے ہیں اور مدارس نے بہت زبردست کاروبار اور انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دارالعلوم دیوبند طلبہ کو دنیاوی ہنربھی سکھاتا تھا تاکہ دین نہ بیچا جائے۔ کانیگرم ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف فاضل دارالعلوم دیوبند درزی اور دکاندار تھے۔ کانیگرم کے دوسرے مولانا شادا جان کے بھائی عبدالرشید کی دکان تھی۔ البتہ کانیگرم کے مولوی محمد زمان اور اسکے بھائی قربانی کی کھالوں پر لڑے تھے۔
مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک نے مدرسہ سے پہلے انگریزی سکول کی بنیاد رکھ دی تاکہ لوگ دین کی بجائے دنیا کمانے کیلئے سکو ل کے ذریعے ہنر سیکھ لیں۔ ہمارے کانیگرم شہر میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل پیر مبارک شاہ نے سکول کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جن کی وجہ سے وزیرستان میں سکول کی تعلیم کا سلسلہ عام ہوگیا۔
ٹنڈواللہ یار سندھ میں مولانا ظفر احمد عثمانی کا مدرسہ تھا۔ مفتی شفیع نے نانک واڑہ کراچی میں دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی ۔ مولانا محمد یوسف بنوری پہلے ٹنڈواللہ یار میں تھے۔ پھر نیوٹاؤن کی بنیاد رکھی تھی۔ مفتی ولی حسن ٹونکی اور مولانا بدیع الزمان وغیرہ پہلے دارالعلوم کراچی میں تھے، پھر نیوٹاؤن میں منتقل ہوگئے۔ دارالعلوم کراچی اور جامعہ العلوم اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی کے درمیان دنیا داری اور تقویٰ داری کاواضح فرق تھا۔ دارالعلوم کراچی نے مذہب کو کاروباربنایا تھا اور بنوری ٹاؤن دین کی خدمت کا نام تھا۔ موازنہ پیش کرنے کی زبردست ضرورت ہے۔ دونوں جگہ زوال پر زوال آگیا تو اس کے بھی ہم بالکل چشم دید گواہ ہیں۔
پہلے مولانا اور مفتی میں فرق نہیں تھا۔ پھر مدارس نے فتوے کیلئے مفتی اور دارالافتاء رکھنے شروع کردئیے اور تخصص فی الافتاء کے کورس شروع کئے گئے۔ تو مولانا اور مفتی میں حدفاصل قائم ہوگئی۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال کا نظارہ بھی کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور استاذ ملا محمود تھے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے مفتی کا کام کیا اور مولانا قاسم نانوتوی نے مفتی کا کام نہیں کیا،جو شیخ الہند کے اساتذہ تھے۔ جنکے پیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی تھے۔ شیخ الہند کے نامور شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا انورشاہ کشمیری، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس ، مولانا اعزاز علی اور دیگر حضرات تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جمعیت علماء ہندنے کانگریس اورعلامہ شبیراحمد عثمانی جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کی سیاست سنبھالی۔ درس و تدریس کی خدمت مولانا انورشاہ کشمیری ، تصوف وطریقت کی خدمت کو مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے سرلیا اور فتوے کی خدمت مفتی کفایت اللہ نے انجام دی۔ انقلاب کیلئے مولانا عبیداللہ سندھی نے کام کیا۔ تبلیغی جماعت کی بنیاد مولانا الیاس نے ڈال دی۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی نے توحید وسنت اور عقائد کے محاذ پر کام کیا ،انکے شاگرد مولانا غلام اللہ خان و مولانا طاہر پنج پیری تھے۔ مولانا غلام اللہ خان اور مولانا پنج پیری کی اشاعت التوحید دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ مسئلہ توحیدوشرک پر علماء دیوبند ایک دوسرے کے مخالف بن گئے۔ صوابی میں پنج پیر اور شاہ منصور کا اختلاف بریلوی دیوبندی اختلاف سے زیادہ سخت ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں پنج پیری تقیہ کرتے تھے اور وہ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی کی طرح سمجھے جاتے تھے ،ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتاب ” توحیدِ خالص” کمال عثمانی کی جماعت ”حزب اللہ” سے مکمل مشابہت کے باوجود بھی پنج پیری ان کو عقائد میں شدت پسند سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر مسعودالدین عثمانی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی و وفاق المدارس پاکستان کے فاضل تھے۔ اپنے استاذ علامہ یوسف بنوری سے اکابر کی کتابوں تک عبارات نقل کرکے ان پر شرک کے فتوے لگاتے تھے۔ پنج پیری وہی ہیں مگران میں جرأت وہمت نہیں ۔ مولانا طاہر پنج پیری جب کراچی ایک مرتبہ تشریف لائے تو ڈاکٹر مسعود عثمانی کی کتابوں کے حوالے سے کچھ سوالات کرنا چاہے مگر انکے چیلے رکاوٹ بن گئے۔ مجھ سے کہا کہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے آپ کو نکلوادیں گے لیکن جب انکے تضادات بتائے تو شرمندہ ہوگئے۔ مولانا حسین علی کی تفسیر مولانا غلام اللہ خان نے لکھی جس میں مشاہدہ بیان کیا کہ ” رسول اللہ ۖ گر رہے تھے اور میں نے سہارا دیکر تھام لیا”۔ اگر یہی مشاہدہ اس کے برعکس ہوتا کہ ” مولاناحسین علی گررہے تھے اور رسول اللہ ۖ نے تھام لیا ” تو پھر اس کو شرک قرار دیتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات قرآن میں ہیں، اگر مردوں کو زندہ کرنا اور برص ومادر زاد اندھوں کی بیماری کا علاج کرنا شرک نہیں بلکہ معجزہ ہے تو اولیاء کی کرامات کو شرک کہنا بھی اصول اور عقل کے خلاف ہے۔ یا تو سرسیداحمد خان، غلام احمد پرویز اور معتزلہ کی طرح قرآن کے اندر موجود تمام خرق عادت چیزوں کی بھی تأویل کرکے ان کو معجزہ ماننے سے انکار کیا جائے یا پھر قرآن کے معجزات کو بھی شرک قرار دیا جائے ۔یا پھر بزرگوں پر شرک کے فتوے لگاکر یا ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کا راستہ لیا جائے۔ کچھ تو اصول مان لیا جائے؟۔ نہیں تو دوسروں پر طعن وتشنیع کرنے کے بجائے دُم دباکے بیٹھا ہی رہا جائے گا؟۔
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی مثال سے بڑھ کر تصوف کی کتابوں میں بھی زیادہ کوئی بات نہیں کہ بچے کو قتل کر ڈالا اور آخر کار حضرت موسیٰ علیہ السلام صبر کے وعدے پر قائم نہیں رہ سکے اور فراق ہوگیا۔ علماء حق اور اہل تصوف میں فراق قرآن سے ثابت ہے اور اس پر برا منانے کی بھی ضرورت نہیں۔ جسد بشری اور روحانی سفر کا اختلاف مسلمانوں میں معراج پر بھی رہا۔ بعض اسے خواب قرار دیتے تھے اور بعض جسمانی سفر قرار دیتے تھے۔ حضرت سلیمان کے دور میں عفریت جن نے بلقیس کے تخت نشست کے دوران لانے کی بات کی تھی اور کتاب فطرت کے علم سے واقف شخص نے نظر ہٹانے کی دیر میں لانے کا دعویٰ سچ کرکے بتایا۔جنات کے ذریعے حضرت سلیما ن نے جو اشیاء بنائی تھیں اس کی آج کوئی افادیت نہیں ہے لیکن فطری علوم میں کمال حاصل کرنے والوں نے احرام مصر سے آج کے سائنسدانوں کو اوقات بتادئیے ہیں۔ آج دنیا میں جنات والے غائب ہوتے جارہے ہیں اور کتابِ فطرت کا علم رکھنے والوں نے قیامت سے پہلے دنیا میں قیامت ڈھادی ہے۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے مخلص کارکنوں کو حلالہ کی لعنت کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی بھرپور وضاحت کردیں۔ علماء اور مشائخ سے زیادہ چلتے پھرتے مدارس اور خانقاہیں بھی دیوبندیوں میں آج تبلیغی جماعت اور بریلویوں میں دعوت اسلامی ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا شکار بھی زیادہ تر ان کے مخلص کارکن ہوتے ہیں۔ جب پہلا فتویٰ یہ پیش کیا جائے کہ اللہ نے صلح پر پابندی لگادی ہے تو پھر حلالہ کی لعنت بھی غنیمت ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بار بار واضح فرمایا ہے کہ صلح پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد رجوع ہوسکتا ہے تو پھر حلالہ کی لعنت سے مخلص لوگوں کو دوچار کرنا بہت غلط ہے۔
شاہ ولی اللہ کو دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مانتے ہیں۔ وہ ، انکے بیٹے اور پوتے مولانا اور مفتی نہیں کہلائے۔ شیخ الہند مولوی کہلائے لیکن شاگردوں میں دو دو شیخ الاسلام، شیخ العرب والعجم، حکیم الامت، مفتی اعظم ہندکے القابات اور سچے جھوٹے کرامات اور علمی کمالات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ قرآن و سنت کی جگہ فقہ وتقلید میں گدھوں کی طرح جت گئے۔حلالہ کے گند میںبیکار فقیہ ملوث تھے۔ علماء حق نے کبھی اس کی طرف نظر التفات نہیں کیا۔ قرآن وسنت سے جب حلالہ کی لعنت کا خاتمہ ہوگا تو پھر دوسرے نقابوں سے بھی پردہ اُٹھ جائیگا۔ انشاء اللہ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

حلالہ کی لعنت اسلام کے غلبے میں رکاوٹ اور اس کے خاتمے کے دلائل

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

”حلالے کے خاتمے کیلئے پہلا مقدمہ”

”حلالہ کی غلط بنیاد قرآنی آیت اور بخاری کی حدیث سے”
فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ” پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ آیت230البقرہ
قرآن کی اس آیت میں واضح طور پر اس طلاق کے بعد جب تک دوسرے شوہر سے وہ عورت نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے وہ حلال نہیں ہے۔ پھر جب وہ اس کو طلاق دے دے تو پھر پہلے شوہر سے وہ دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
بخاری کی حدیث ہے کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں ۔ پھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا۔ پھر نبی ۖ کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسا ہے اوراپنے دوپٹے کے پلو سے اشارہ کیا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” کیا آپ اپنے شوہر رفاعةکے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو ،یہاں تک کہ یہ دوسرا شوہر تمہارا مزہ نہ چکھ لے اور اس کا مزہ نہ چکھ لو”۔ بخاری کی اس حدیث کو علماء کرام اور مفتیان عظام حلالے کیلئے پیش کرتے ہیں۔
کوئی بھی عام انسان قرآن وحدیث کے ان واضح احکام سے یہ سمجھنے میں مغالطہ کھالیتا ہے کہ قرآن کی آیت بھی بہت واضح ہے اور حدیث میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے تو پھر حلالے کا تصور کیوں نہ مان لیا جائے؟ ۔ پہلے میرا بھی یہی خیال تھا۔پھر فقہ کی کتابیں اور احادیث کی کتابوں کو کھنگالنے کی بھرپور کوشش کی لیکن مسئلے کا کوئی حل نکلنے کے بجائے معاملہ جوں کا توں تھا اور فقہ کی کتابوں سے بہت بدظن ہوااور احادیث کی کتب سے خود کو بالکل بے بس پایا اور اپنے ہتھیار ڈال دئیے۔
پھر سوچا کہ قرآن کی طرف توجہ کرکے فکر وتدبر سے کام لیا جائے اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں تدبر کرنے کا گلہ کیا ہے؟۔ جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو البقرہ228نے ذہن کھلنے میں پہلے مدد نہیں ملی اسلئے کہ تقلیدی ذہنیت نے تالے لگادئیے تھے۔ حالانکہ اس میں لکھا ہے کہ ” طلاق والیاں عدت کے تین ادوار تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ……..اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ وہ اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں”۔ آیت228البقرہ۔ حنفی اصول فقہ کی تعلیمات میں آیت کے یہ جملے محکمات میں سے ہیں۔ اسکے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث آئے تو بھی قابلِ عمل نہیں ہے۔لیکن ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ اصول فقہ میں یہ پڑھایا گیا کہ ”پانچ سو آیات احکام سے متعلق ہیں” مگر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ کون کونسی آیات محکمات میں سے ہیں۔ ایک چھوٹی سی فہرست بتادی جاتی تو طلبہ کیلئے قرآن کے محکمات کی فہرست کا پتہ چل جاتا ۔
مسئلے کے دو پہلو بن گئے۔ ایک پہلو یہ تھا کہ طلاق ہوئی کہ نہیں؟۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟۔ جب دوسرے پہلو پر دھیان نہیں گیا تو آیت228البقرہ کے واضح حکم کی طرف توجہ نہیں گئی۔ اگر اس طرف توجہ جاتی تو پھر اس کا فتویٰ دینے میں دھڑلے سے بیباک ہوکر فتویٰ دیتا کہ عدت میں باہمی اصلاح کی بنیاد پر حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں طلاق کے عدد کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اب اگر کوئی حدیث بھی اس راستے میں حائل ہو تو قرآن کی محکم آیت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے تأویل کریںگے ،اگر تأویل نہ ہوسکے تو حدیث کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کریں گے اور یہی مسلک حنفی کی بنیادی تعلیم ہے اور اس سے دوسرے فقہ والے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتے ہیں۔
جب پہلے پہلو پر دھیان تھا کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟۔ تو آیت229میں اس بات پر نظر گئی کہ ” الطلاق مرتٰن: طلاق دو مرتبہ ہے”۔ جس سے میری آنکھوں میں چمک،دل میں روشنی اور دماغ میں خوشبو پھیل گئی کہ جب اللہ نے فرمایا ہے کہ طلاق دومرتبہ میں ہے تو پھر ہم ایک مرتبہ میں تین طلاق کا حکم کیسے جاری کرسکتے ہیں؟۔ جب دو طلاقیں ایک ساتھ واقع نہیں ہوسکتی ہیں تو تین طلاق ایک ساتھ کیسے واقع ہوں گی؟۔ پھر دوبارہ غور کیا تو پھر احساس ہوگیا کہ جب اللہ نے عدت کے تین مراحل رکھے ہیں اور ان تینوں مراحل میں باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو احادیث صحیحہ کو بھی دیکھ لیا۔ پھر پتہ چلا کہ رفاعة القرظی نے الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی تھیں اور عدت کے بعد دوسرے سے نکاح کرلیا تویہ واقعہ پیش آیا۔ پھر تو شرح صدر ہوا کہ قرآن وحدیث میں تضاد نہیں ۔ مولوی ظلم کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم جاری کرکے حلالے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ قرآن میں رجوع کی گنجائش اصلاح و معروف کی شرط پر ہے۔ ماہنامہ ضرب حق میں شائع کیا ، یکم مئی2007اخبار بند کردیا گیا اور31مئی میرے گھر پر حملہ کرکے کئی افراد شہید کردئیے۔
ضرب حق اخبار کی بندش اور جان کو خطرات کے پیش نظر کئی سالوں تک بیرون ملک اور اندرون ملک روپوشی کی زندگی گزارنی پڑی اور پھر دوبارہ ضرب حق کے نام سے اخبار نکالنے کی اجازت نہیں ملی اور نوشة ٔ دیوار کے نام سے مل گئی۔ سالوں کی تحقیقات کے نتیجے میں چند کتابیں لکھیں جو بغیر حلالہ کے تین طلاق سے رجوع کے دلائل پر تھیں۔ جن کے نام یہ یہ ہیں۔1۔ابر رحمت۔ بہت مدلل کتاب ہے۔ شائع کرنے سے پہلے دارالعلوم کراچی ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں بھیجی۔ مفتی محمدحسام اللہ شریفی مدظلہ العالی نے تائید میں لکھا کہ” طلاق کے مسئلے میںاتنی عمدہ تحقیقات پر سید عتیق الرحمن گیلانی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری عطا کی جائے”۔ شریفی صاحب اخبار جہاں جنگ کراچی میں آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں کئی عشروں سے لکھ رہے ہیں۔ اخبار جہاں میں بھی میری کتاب ” ابررحمت” کی طرف طلاق کے مسئلے پر رجوع کیلئے تبصرہ لکھا۔ اب دنیا بھر سے تشفی کیلئے تین طلاق پر مسئلے آتے ہیں تو شریفی صاحب کی تائید کے ساتھ بغیر حلالہ کے رجوع کیلئے جواب دیا جاتا ہے۔ شریفی صاحب شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے دیوبند میں شاگرد تھے ۔جبکہ مولانا رسول خان قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند،مولاناسید محمد یوسف بنوری، مفتی محمود، مفتی محمد شفیع، مولانا سیدمحمد میاں، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مفتی محمود قائد جمعیت علماء اسلام کے بھی استاذ تھے۔
نمبر2۔”تین طلاق کی درست تعبیر”۔ نمبر3۔” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4۔” عورت کے حقوق”۔

”قرآن کی آیت230البقرہ کا بالکل سادہ علمی جواب ”
آیت فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیر ”پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی دوسرے شوہر سے نکاح کرلے”۔ (البقرہ 230) اس طلاق کا تعلق مسلک حنفی کے مطابق آیت229البقرہ کے آخری حصے سے ہے۔ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیماافتدت بہ ” پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں”۔ ف تعقیب بلا مہلت کیلئے آتا ہے۔ اسلئے اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے اور یہ مسئلہ اصولِ فقہ کی کتاب ”نور الانوار :ملاجیون” چوتھے درجے میں درسِ نظامی کا حصہ ہے۔ اس وضاحت کے بعدمسئلہ روزِ روشن کی طرح واضح ہونا چاہیے تھا کہ حنفی مسلک والے حلالے کا حکم صرف اس صورت میں دیتے کہ جب اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہوتا۔ برصغیر پاک وہند کے معروف عالم دین اور شاعر علامہ تمناعمادی نے اس بنیاد پر کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ”الطلاق مرتان” ہے۔ جس میں صرف خلع کی صورت تک حلالے کا حکم محدود ہے۔ خلع میں غلطی عورت کی ہوتی ہے اسلئے اس کی سزا بھی وہ بھگت لے۔ علامہ تمنا عمادی نے یہ تصور پیش کیا کہ قرآن نے تین طلاق کا تصور ختم کیا ہے اسلئے دو مرتبہ سے زیادہ طلاق نہیں ہوسکتی اور احادیث کو عجم کی سازش قرار دیا۔ اور یہ واضح کیا کہ اگر مرد کی طرف سے طلاق ہو تو حلالے کا کوئی تصور نہیں لیکن عورت کی طرف سے خلع ہو تو پھر حلالے کا حکم ہے۔ انکے افکار پربھی کسی کو تبصرے کی جرات نہیں ہوئی۔ لیکن قرآن واحادیث صحیحہ میں کوئی ٹکراؤ بھی نہیں ہے اور انشاء اللہ سب کیلئے قابلِ قبول دلائل بھی پیش کریں گے۔
امام شافعی کے مسلک سے تعلق رکھنے والے فرماتے ہیں کہ ” آیت:230کی طلاق کا تعلق آیت229کے پہلے حصہ سے ہے۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر اس کو معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ (نورالانور: ملاجیون) ۔ اس صورت میں جب تک دو الگ الگ مرتبہ کی طلاق کے بعد تیسری طلاق نہ دی جائے تو اس پر حلالے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ علامہ جاراللہ زمحشری اور دیگر معروف مفسرین کا بھی کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنے مسلک کے پیروکاروں کو حلالہ سے بچانے کا پروگرام ہوتا تو پھر ایک طرف حنفی علماء اس طلاق کو فدیہ یا خلع تک محدود کرتے اور دوسری طرف شافعی علماء اس کو الگ الگ تک محدود رکھتے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حضرت ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے کہ ” حلالے کا حکم سیاق وسباق سے ہٹ کر نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اسلئے جب اس طلاق سے پہلے دو الگ الگ مرتبہ طلاق ہو اور پھر اس سے پہلے فدیہ کی صورت بھی ہو تب اس پر حلالے کا حکم لگے گا”۔(زادالمعاد:جلد چہارم ۔ فصل فدیہ کے حوالے سے۔ علامہ ابن قیم )
اختلاف کا پہلا حل قرآن کی تفسیر قرآن ہے اور دوسرا حل قرآن کی تفسیر حدیث ہے۔ جب ہم اس آیت:230کے سیاق وسباق کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ آیات228اور229میں عدت کے اندر صلح واصلاح اور معروف کی شرط پراللہ تعالیٰ نے بہت کھل کر رجوع کی اجازت دی ہے اور آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اورکافی عرصہ بعد بھی باہمی اصلاح ورضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے۔ سورۂ بقرہ کی ان آیات کا بہت ہی مختصر خلاصہ سورہ ٔ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے ۔ جس میں عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بہت واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہواہے۔ جہاں تک آیت230میں طلاق کا تعلق ہے تو یہ بالکل ایک خاص صورتحال تک محدود ہے جو تیسری طلاق ہر گز ہرگز بھی نہیں ہے۔
قرآن میں تیسری طلاق کا تعلق صرف اور صرف طہروحیض کی صورت میں پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد پھر تیسرے مرحلے میں تیسری طلاق سے ہے۔ صحابہنے رسول اللہ ۖ سے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے یہ جواب نہیں دیا کہ میری امت کے جاہلوں کو بھی پتہ ہوگا کہ سورۂ بقرہ کی آیت230کا تعلق تیسری طلاق سے ہو اور آپ لوگ عربی معاشرے کا حصہ ہوکر قرآن کی اتنی بڑی بات نہیں سمجھتے ہو؟۔بلکہ رسول اللہ ۖ نے اس کا یہ جواب عنایت فرمایا کہ ” آیت229البقرہ میں الطلاق مرتٰن کے بعدفامساک بمعروف او تسریح باحسان کے ساتھ ہے۔ احسان کیساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔ جب نبی کریم ۖ نے یہی واضح فرمایا کہ تیسری طلاق کا تعلق حلالہ کیساتھ جوڑنا انتہائی غلط اور فاش غلطی ہے تو پھر اس کے بعد اور کیا بات رہ جاتی ہے؟۔حنفی مسلک اور عربی زبان کے قاعدے کے مطابق بھی ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے تسریح باحسان ہی تیسری طلاق بنتی ہے۔
جب حضرت عبداللہ بن عمر نے صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور بخاری کی روایت کے مطابق حیض کی حالت میں طلاق دی تو بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق کے مطابق نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبداللہ بن عمر سے فرمایا کہ رجوع کرلو۔ پھر طہر کی حالت تک اپنے پاس رکھ لو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر یعنی پاکی کے ایام میں آجائیں اور پھر حیض آجائے۔ اس کے بعد پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور اگر طلاق دینا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دو۔یہ وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے امر کیا ہے۔ یہ روایت الفاظ کے اختلاف کیساتھ بخاری کتاب الاحکام، کتاب ا لطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
رسول اللہ ۖ کے غضبناک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن میں عدت کے اندرمرحلہ وارتین طلاقوں کا مسئلہ بہت زیادہ عام فہم تھا۔ اس کو نہ سمجھنے پر حضرت ابن عمر کے فعل پر نبیۖ غضبناک ہوگئے۔ جب یہ تعین ہوگیا کہ عدت کے تین مراحل ہیں تو اس بات کا تعین کرنے میں بھی دقت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ تین مرتبہ طلاق کاتعلق بھی عدت کے تین مراحل سے ہے۔جب نبی کریم ۖ نے اچھی طرح سے سمجھادیا تو پھر اس کے بعد ابہام پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

” آیت230البقرہ پر چبھتا ہواسوال اور مفصل جواب ”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”پھر آیت230میں کونسی طلاق ہے جس کے بعد بیوی کے حلالہ نہ ہونے کا واضح حکم ہے۔ اس سے بھی بڑا اہم سوال یہ ہے کہ اس آیت میں کیا حکمت تھی؟۔ جس کی وجہ سے اتنے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں؟”۔
اس کا پہلاجواب یہ ہے کہ حلالہ کروانے سے کم وقت میں قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنی عزتیں بچائی جاسکتی تھیں۔ جب امت مسلمہ نے قرآن کو چھوڑ دیا تو اس کی ذمہ داری قرآن پر نہیں امت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ وقال الرسول یارب انی قومی اتخذوا ھذالقرآن مھجوراً ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا”۔ اگر ہندوستان کے علماء اس آیت میں نبیۖ کی قوم کا ذکر دیکھ لیتے تو پھر ایک دوقومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو علماء کرام تقسیم نہ کرتے۔ حلالہ سے زیادہ واضح الفاظ میں قوم کا مسئلہ اس آیت میں واضح ہے لیکن قومی مسئلہ تو حل نہ ہوسکا اور حلالہ سے مسلمانوں کی عزتوں کو چھید کرکے جنازے نکلوادئیے ۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا مودودی کا بتایا کہ ” پہلے مسلمان ایک قوم نہیں تھی مگر اب ایک قوم بن چکی ہے”۔ جہالتوں پر جہالتوں کے انبار لگے نظر آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ آیات:222،223،224،225،226،227،228،229تک مختلف حدود بیان کئے ہیں اور عورتوں کوزبردست حقوق دئیے ہیں لیکن بدقسمتی سے حجة الوداع کے آخری خطبے میں خواتین کے حقوق کا خاص لحاظ رکھنے کی نصیحت کو بھی مفسرین اور فقہاء نے ان واضح قرآنی آیات میں بالکل نظر انداز کردیا تھا اسلئے کہ معاشرے سے عورت کو حقوق دینے کی طرف مسلم معاشرے نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ ترتیب وار حیض میں عورت کی اذیت وناپاکی کا لحاظ رکھنا، مباشرت میں درست راستے کا انتخاب، اللہ نے میاں بیوی سمیت کسی قسم کی صلح پر بھی پابندی نہیں لگائی، طلاق کے الفاظ پر اللہ نہیں پکڑتا مگر دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق کے عزم کا اظہار کئے بغیر عورت کی عدت چار مہینے کا تعین اور عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار کے بعد عدت تین ماہ ہوتی۔ ناراضگی اور طلاق کے اظہار کے بعد عورت جب تک راضی نہ ہو تو شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ تین طلاق کے فعل کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور باہمی اصلاح سے عدت میں رجوع کا دروازہ کھلا ہے۔پھرجب مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی صورت پیش آئے کہ شوہر اور بیوی دونوں آپس میں رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہ رکھیں اور اس کی وجہ سے شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس کی جائے توپھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا ہے کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ کیونکہ رجوع کرنے کا تو سوال ہی ختم کردیا ہے کہ کوئی ذریعہ بھی رابطے کا نہیں چھوڑاہے۔ قرآن نے ان آیات میں بہت ساری جاہلیت کی رسمیں ختم کیں تو اس رسم کو ختم کرنے کی بھی تعلیم دی کہ جب شوہر رجوع نہیں کرنا چاہتا تب بھی عورت کو طلاق کے بعد کسی اور شخص سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔
آیت230کی روح اگلی پچھلی آیات میں بھرپور طریقے سے ان تمام آیات میں موجود ہے جن میں رجوع کیلئے شوہر نہیں عورت کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد یہ حکم لگے گاکہ ”جب تک کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے بالکل حلال نہیںہے”۔ اس آیت شریفہ ومبارکہ کی برکت سے دوسری آیات کے مطالب اور مقاصد واضح ہونے میں بھی زبردست مدد ملی ہے۔ ایک ایک آیت اور ایک ایک حدیث کی فطری وضاحتیں موجود ہیں لیکن حلالہ کی لذت دماغ پر سوار ہوجائے تو پھر نشے میں حقائق دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

” حلالہ ختم :دوسرا مقدمہ”

”سیدناعمر نے قرآن میں تحریف کی؟”
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر نے قرآن کے احکام میں تحریف کر ڈالی کہ عدت میں رجوع ہوسکتا تھا اور طلاق مرحلہ وار دینے کا حکم تھا اور آپ نے اس کے بالکل برعکس ایک ساتھ تین طلاق دینے کی بدعت جاری کردی؟۔
حضرت عمر فاروق اعظم تھے اور ان کا یہ اقدام قیامت تک مسلمانوں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ شیعہ حضرت عمر کے کسی کردار کو مانیں یا نہیں مانیں لیکن اس کردار کو مانیںگے بلکہ اپنے ہاں اس کورائج کرنے میںذرا بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
جب میاں بیوی میں جھگڑا ہو اور اس جھگڑے کو حکمران کے پاس نہیں لیکر جائیں تو قرآن کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد جب تک کوئی عورت راضی نہ ہو تو اس کا شوہر رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ اگر بیوی راضی ہو تو شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ چاہے ایک طلاق دی یا ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوں ۔ یہی رائج بھی تھا جس کا حضرت ابن عباس کی روایت میں ذکر ہے۔
جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاق دیں اور اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو اسکے شوہر نے معاملہ حضرت عمر کے دربار میں پہنچادیا۔ حضرت عمر نے معاملے کی نزاکت کو دیکھ کر فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا کوئی حق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ آئندہ کوئی اکٹھی تین طلاقیں دے گا تو اس کو کوڑے بھی مارے جائیںگے ”۔
دنیا کی کوئی بھی عدالت ہو تو قرآن کی آیت اور حضرت عمر کے فیصلے پر اپنے اطمینان کا اظہار کرے گی کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے”۔ حضرت عمر کے اس اقدام کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اس پر بحث شروع ہوگی کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوسکتی ہیں یا نہیں؟۔ ایک ساتھ تین طلاق سنت ہے یا بدعت ہے؟۔ جو قرآن کا اصل مسئلہ تھا کہ باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے اور عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ بالکل ہی امت مسلمہ نے اپنی نظروں سے چھپالیا۔ جس کے خطرناک نتائج اُمة مسلمہ نے اس وجہ سے بھگت لئے کہ قرآن کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دیا تھا۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ” اپنی زبانوں کو جھوٹ سے ملوث مت کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے”۔ کیا صحابہ کرام اپنی طرف سے حلال وحرام کے مسائل بناکر اس میں ملوث ہوسکتے تھے؟۔ حضرت عمر کے دور میں فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کے علاوہ فتوحات کی وجہ سے نئے نئے لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کرچکے تھے۔ عیسائیوں کے ہاں اس وقت طلاق کا کوئی مذہبی تصور نہیں تھا۔ اسلام نے دینِ ابراہیمی کے دعویدارمشرکینِ مکہ، یہود اور نصاریٰ کے مسخ شدہ مسائل کے درمیان حق کا بالکل واضح راستہ بتادیا تھا۔ طلاق اور رجوع کے احکام کی سمجھ بہت واضح الفاظ میں عام تھی لیکن نبیۖ نے یہ خبر بھی دی تھی کہ
” اسلام کی ابتداء اجنبیت کی حالت میں ہوئی اور یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے ”۔ پھر آہستہ آہستہ لوگوں کا رحجان قرآن کے اصل حکم سے ہٹتا گیا ،اب یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ مدارس حلالوں کے اڈے، سینٹر ، فیکٹریاں اور قلعے بن گئے ہیں۔

” عمر فاروق اعظم کااُ مت پر احسان ”
جب اللہ تعالیٰ نے محض ایک طلاق کے بعد بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا ہے تو تین طلاق کے الفاظ سے استعمال کرنے اور عورت کی طرف سے صلح پر رضامند نہ ہونے کے باوجود شوہر کو رجوع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اوریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت عمر نے پوری امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد جب عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو قرآن کی روح کے مطابق شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا۔ اسکے بعد فقہی بحث مطمعٔ نظر اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے تھا کہ اگرطلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو شوہر رجوع کرسکتاہے یا نہیں؟۔ قرآن کی طرف رجوع کیا جاتا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ فقہاء اس بات پر متفق ہوتے کہ ایک طلاق کے بعد عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اس سے دو مرتبہ طلاق رجعی کا باطل تصور ختم ہوجاتا۔ جس میں شوہر کو عورت پر ایک عدت نہیں تین عدتوں کا شرعی حق مل جاتا ہے اسلئے کہ اگر شوہر ایک طلاق دے اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر دوسری طلاق دے اور عدت کے آخر میں پھر اس سے رجوع کرلے، دوعدتیں گزارنے کے بعد پھر شوہر تیسری طلاق دے تو تیسری عدت بھی گزارنی پڑیگی اور اس سے بڑھ کر اگر اس ہتھیار کو اس سے بھی زیادہ مدت کیلئے استعمال کرنا چاہے تو ایک ایک طلاق رجعی میں عورت کی پوری زندگی کو برباد کرنیکا شوہر کو حق مل جاتا ہے مگر یہ قرآن نہیں جہالت ہی جہالت ہے۔
حضرت عمر کے اقدام کی طرف درست توجہ دینے کے بجائے فقہاء نے یہ بحث شروع کردی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں کہ نہیں؟حالانکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ اگر رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں؟۔ تو پھر قرآن وسنت کی طرف توجہ جاتی۔ جب قرآن میں باہمی رضامندی کی صورت میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد رجوع کی گنجائش رکھی ہے اور باہمی رضامندی کے بغیر نہیں رکھی ہے تو فیصلہ باہمی اتفاق رائے سے ہوجاتا کہ اصل معاملہ عورت کی رضامندی پر منحصر ہے۔
حنفی اور مالکی مسلک والوں نے قرار دیا کہ ایک ساتھ تین طلاق بدعت اور گناہ ہے اور دلیل محمود بن لبید کی روایت کو بنایا کہ ” ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ، جب رسول اللہ ۖ کو خبر پہنچی تو آپ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟”۔ اس روایت کی وجہ سے احناف اور مالکیہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق بدعت ہیں۔
اس روایت میں جس شخص نے کہا تھا کہ ” کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟” عمر تھے اور جس کے بارے میں خبر دی تھی وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ ” عبداللہ بن عمر نے اپنی بیگم کو ایک ساتھ تین طلاق دی تھیں اور پھر20سال تک کوئی دوسرا شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔20سال بعد ایک زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی”۔ اسی طرح یہ تصریح بھی موجود ہے کہ قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے جس طرح غضبناک ہونے کا مظاہرہ فرمایا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق دیکر فارغ کرنے کی ضرورت کیا ہے؟۔ کیونکہ نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود صحیح روایت کے مطابق رجوع کا حکم دیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورہ ٔ طلاق )۔اس بات پراتفاق تھا کہ ابن عمر نے رجوع کیا تھا لیکن اس بات پر اختلاف تھا کہ تین طلاق دی تھی یا ایک؟۔ اس سلسلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی بھرمار ہے مگر ایک صحیح روایت ہے کہ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ ” اگر میں تین مرتبہ طلاق دیتا تو نبیۖ مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے؟”۔ اس سے مراد ایک ساتھ تین طلاقیں نہیں بلکہ جیسا نبیۖ نے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا حکم دیا تھا اور وضاحت دی تھی اس طرح ابن عمر تین مرتبہ طلاق دیتے تو نبیۖ رجوع کا حکم واقعتا نہ دیتے۔ حضرت عمر سے کہا گیا کہ عبداللہ کو جانشین نامزد کردیں تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کو طلاق کا پتہ نہیں اور اسکو امت مسلمہ کی خلافت سونپ دوں؟ جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر دور میں چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیںجو بڑوں کو انکے بیٹے کیلئے جانشین بنانے کا مشورہ دیتے ہیں اور یہ بھی کہ حضرت عمر نے ایک قلندرانہ بات کردی کہ جس کو خلیفہ بنایا جائے تو اس میں مسئلہ طلاق کو سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ حیض میںطلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ اس پربڑے بڑوں کا اختلاف ہے لیکن یہ معمولی اختلاف نہیں بلکہ جس طرح اس بات پر اختلاف ہو کہ رات کو روزہ رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔ ظاہر ہے کہ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح طلاق فعل بھی ہے اور قول بھی۔ فعل تو تین مرتبہ طلاق کا عدت کے تین مراحل میں دینا ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہی عدت کے تین مراحل سے ہے اور یہ قرآن و صحیح بخاری کی مختلف کتابوں میں موجود عبداللہ بن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے۔ شوہر کی طرف سے طلاق کے قول کے بعد عورت کا حق شروع ہوتا ہے۔اگر اس کا پروگرام رجوع نہ کرنے کا ہو تو ایک طلاق دی یا تین لیکن وہ رجوع نہیں کرسکتاہے اور اگرعورت رجوع کیلئے راضی ہو تو عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعدبھی باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ قرآن میں بالکل واضح ہے اور جہاں تک آیت230البقرہ کا تعلق ہے تو اس سے پہلے اس صورتحال کی وضاحت ہے کہ ” وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے نہ صرف جدائی پر متفق ہوں بلکہ آئندہ کیلئے بھی رابطے کی کوئی چیز نہ چھوڑیں۔ یہاں تک کہ دی ہوئی چیز واپس لینا جائز نہیں لیکن جب اس کی وجہ سے رابطے کایقین اور اللہ کے حدود پردونوں کے قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز واپس فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے”۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر رفاعة القرظی نے جس خاتون کو طلاق دی تھی تو اس نے دوسرے شوہر سے طلاق اور رفاعة القرظی سے رجوع کی خواہش رکھی تھی لیکن نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ ” جب تک تم ایکدوسرے کا ذائقہ نہ چکھ لو تو رفاعة کے پاس واپس نہیں لوٹ سکتی”۔ اس روایت میں نمایاں بات یہ ہے کہ دوسرے شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو کی طرح چیز تھی تو اس سے وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ کیسے یہ حکم دیتے؟۔ دوسری بات یہ ہے کہ بخاری کی دوسری روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ اس کا دوسرا شوہر آیا اور ا س نے بتایا کہ میں نامرد نہیں ، اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتاہوں اپنی مردانی قوت سے اور یہ میرے بچے ہیں جوساتھ لایا ہوں۔ حضرت عائشہ نے بتایا کہ اس عورت کے جسم پر مارپیٹ کے نشان تھے جو اس نے دکھائے تھے۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبیۖ نے دونوں میں صلح کروائی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رفاعة القرظی نے مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے عمل سے جدا کیا تھا اور جب وہ رجوع نہیں کرنا چاہتے تھے تو وہ عورت رجوع کی امید پر کیسے چھوڑی جاتی؟۔ اس میں کہیں دور تک شائبہ بھی نہیں کہ نبی ۖ نے اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا حکم دیا ۔مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس نے لکھا کہ” یہ حدیث خبر واحدہے اور احناف نکاح کیساتھ مباشرت کا حکم اس کی وجہ سے نہیں دیتے بلکہ آیت میں نکاح کوجماع سمجھتے ہیں”۔ (کشف الباری) اگر نکاح سے جماع مراد لینے پر بات کی جائے تو ایک اور پنڈورا بکس کھلے گا۔
جو علماء ومفتیان حلالہ میں ملوث نہیں تو وہ کھل کر مساجد اورمدارس میں حلالہ کے خلاف قرآن واحادیث صحیحہ کے معاملات کو اپنے عقیدتمندوںاور عوام میں بتائیں تاکہ دین سے مایوس مسلم اُمہ میں اُمید کی ایک نئی روح زندہ ہوجائے۔

”حلالہ ختم: تیسرا بہت فیصلہ کن مقدمہ”

” رجوع عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد”
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھاہے کہ ” اسلام کی نشاة ثانیہ عرب نہیں عجم سے ہوگی اور اس کیلئے مرکزی علاقہ سندھ ، پنجاب، بلوچستان ، فرنٹیئر(خیبر پختونخواہ) ، کشمیر اور افغانستان ہے۔ یہاں جس قدر قومیں بھی بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ یہاں امام ابوحنیفہ کے مسلک پر قرآن کی طرف توجہ کرنے سے انقلاب آئیگا اسلئے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے علاوہ دوسرا کوئی مسلک یہاں کے لوگ قبول نہیں کریںگے۔ ایران کے شیعہ بھی ساتھ دیں گے اسلئے کہ امام ابوحنیفہ بہت سارے ائمہ اہلبیت کے شاگرد تھے۔احادیث میں اس علاقے کا ذکر ہے۔ کشمیر سے کراچی تک سندھ تھا جس کا مرکز ملتان تھا اور پنجاب کے پانچوں دریا سندھ کی شاخیں ہیں۔ ہند کے مقابلے میں سندھ ایک علیحدہ تشخص رکھتا تھا۔ اگر ہندو ساری دنیا بھی ہمارے مقابلے پر لے آئیں تو ہم اس علاقے سے دستبردار نہیں ہوسکتے ہیں”۔تفسیرسورة القدر:المقام المحمود
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ولا تمسکوھن ضرارًا لتعتدوا ومن یفعل ذلک فقد ظلم نفسہ ولا تتخذوا اٰےٰت اللہ ھزوًا واذکروا نعمة اللہ علیکم وما انزل اللہ علیکم من الکتٰب والحکمة یعظکم بہ واتقوا اللہ و اعلموا ان اللہ بکل شی ئٍ علیمOواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذٰلک یوعظ بہ من کان منکم یؤمن باللہ والیوم الاٰخر ذٰلکم ازکٰی لکم و اطھر واللہ یعلم وانتم لاتعلمونO”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور انہوں نے عدت اپنی پوری کرلی تو معروف طریقے سے رجوع کرلو یا معروف طریقے سے ان کو چھوڑ دو۔ اور اس لئے ان کو مت روکو تاکہ ان کو تکلیف پہنچاؤ اور جس نے ایسا کیا تو اس نے بیشک اپنے نفس پر ظلم کیا۔ اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر کی ہے ۔اور جو اللہ نے (رجوع کے احکام ) نازل کئے ہیں کتاب میں سے اور حکمت ۔ جس سے وعظ کیا جاتا ہے۔اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اور جب تم طلاق دے چکے عورتوں کو ،پھر وہ اپنی عدت پوری کرچکیں تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں، جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ وہ ہے جس کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے اس کیلئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اس میں تمہارے لئے زیادہ تزکیہ اور زیادہ پاکیزگی ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔( سور ہ البقرہ آیات 231اور232)۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیات228اور229میں عدت کے اندر بھی رجوع کو باہمی رضامندی کیساتھ جائز قرار دیا اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے جائز قرار دیا اور یہ احکام سورۂ طلاق کی پہلی اور دوسری آیت میں بھی بعینہ ایسے ہیں تو پھر آیت230کے اس حکم کاکیا بنے گا کہ” اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے؟”۔ اسکا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے حوالے سے بہت سی رسموں کا خاتمہ کردیا تھا جس کی تفصیل قرآن میں واضح ہے اور ایک غلط رسم یہ بھی تھی کہ جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا اور پھر شوہر بھی رجوع نہیں کرنا چاہتا تھا اور بیوی بھی رجوع نہیں کرنا چاہتی توپھر بھی عورت کو کسی سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔یہ مرد کی غیرت کا مسئلہ تھا اور لوگ منگیتر تک کو چھوڑنے کے بعد کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتے ہیں۔اس رسم کو بھی قرآن نے ملیامیٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ قرآن نے تو یہ بھی واضح کردیا تھا کہ ناراضگی کے بعد شوہر عورت کو مجبور نہیں کرسکتا ہے اور عدت کے بعد دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے، اسی طرح ایک طلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہوتوشوہر کیلئے عدت کے اندر اور عدت کے بعد زبردستی کرنا حلال نہیں ہے۔ جب تک230آیت میں حلالہ کی لالچ مولویوں کو نہیں دکھائی تو انہوں نے دوسری آیات میں عورت کے حق کی طرف دیکھا تک بھی نہیں ہے۔ آیت کے حکم کو سمجھنے کیلئے آگے پیچھے کی آیات اور معا ملات کو دیکھے بغیر مولوی سے حلالے کروائیںگے تواسی طرح عزتیں لٹتی رہیں گی۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تواگرمیرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
لوگ اپنی غیرت ، عزت اور عظمت بچانے کیلئے قرآن کی طرف توجہ دینگے تویہ معاملہ حل ہوجائیگا۔جتنی بھی احادیث صحیحہ اور ضعیفہ ہیںان کی تطبیق ہوسکتی ہے تو تطبیق کرنا ضروری ہے لیکن جو قرآن کے خلاف ہیں تو ان کے ناقابلِ قبول ہونے میں تردد کرنا ایمان کا بہت بڑا زوال ہے۔ مسلک حنفی کو سب سے بڑا کریڈٹ یہی جاتاہے۔
ضعیف حدیث یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ حدیث صحیحہ یہ ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں مرحلہ وار عدت کے مطابق دی تھیں۔ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دیں لیکن شمار تین نہیں کی گئیں بلکہ ایک شمار کی گئی اور پھر باقاعدہ دوسری طلاقیں بھی دیں۔صحیح مسلم کی جس روایت میں ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کرنے پر راضی ہو تو ایک شمار ہوتی ہے اور رجوع ہوسکتا ہے اور جب عورت رجوع پر راضی نہ ہو توتین شمارہوتی ہیں اور شوہر رجوع نہیں کرسکتاہے۔ اسی طرح ابن عباس کے قول وفعل اور شاگردوں میں بھی کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ تطبیق ہی تطبیق ہے۔
حضرت عمر کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو ایک طلاق سمجھتے تھے اور حضرت علی کی طرف منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کو تین طلاق سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام اپنی طرف سے قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حلال وحرام پر اس طرح کے اختلافات کیسے کرسکتے تھے؟۔ جنہوں نے رجوع کو ایک طلاق کا استعارہ سمجھ لیا ،انہوں نے اس کو ایک طلاق قرار دیا اور جنہوں نے عدم رجوع کو تین طلاق کا استعارہ سمجھ لیا انہوں نے تین طلاق قرار دیا۔ دونوں واقعات میں تطبیق یہ ہے کہ حضرت عمر سے جس شخص نے حرام کے لفظ پر رہنمائی حاصل کرنا چاہی تھی تو اس کی بیوی رجوع کرنا چاہتی تھی اور جس کی بیگم رجوع کیلئے آمادہ نہیں تھی اس کو حضرت علی نے رجوع نہ کرنے کا فتویٰ دے دیا۔ دونوں کا مقصد قرآن پر عمل کرنا تھا۔

”القائے شیطانی اور حلالے کا بگڑا ہوا موجودہ تصور”
وماارسلنا من قبلک رسول ولانبی الا اذا تمنٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطٰن ثم یحکم اللہ اٰیٰتہ واللہ علیم حکیمOلییجعل مایلقی الشیطٰن فتنةً للذین فی قلوبھم مرض والقاسیة قلوبھم ان الظٰلمین فی شقاقٍ بعیدٍOولیعلم الذین اوتواالعلم انہ الحق من ربک فیومنوا بہ فتخبت لہ قلوبھم وان اللہ لھاد الذین اٰمنوا الی صراط مستقیمOآیات:52،53سورہ الحج۔
ترجمہ ” اور ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی بات ڈال دی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان نے ڈالا ہوتا ہے ۔ پھر اپنی آیات کو محکمات بنالیتا ہے اور بہت جاننے والا حکمت والا ہے۔تاکہ بنائے جو شیطان نے ڈالا ہے فتنہ ان لوگوں کیلئے جنکے دلوں میں مرض ہے اور جن کے دل سخت ہوچکے ہیں۔بیشک ظالم لوگ بہت دور کی بدبختی میں ہیں۔اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور اس پر ایما ن لائیں اور اس کیلئے انکے دل پلٹ جائیںاور اللہ ہدایت دیتا ہے ایمان والو ںکو سیدھی راہ کی”۔
انبیاء کرام اور رسل عظام نے اپنی اپنی قوموں کو گمراہانہ تصورات سے نکالنے کی تمنائیں کی ہوتی ہیں لیکن پھر شیطان نے ان کی تمناؤں میں اپنی معنوی تحریف ڈال کرمعاملہ سبوتاژ کیا ہوتا ہے۔ پھر نئے نبی پر آیات نازل کرکے شیطان کے ڈالے ہوئے معاملے کو اللہ مٹادیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیطان وحی میں اپنی خواہش ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ مطلب واضح ہے کہ ” نبیۖ سے پہلے کوئی بھی رسول اور نبی آیا ہے تو ان کی تمناؤں کے برعکس بعد والوں میں شیطان اپنی بات ڈال دیتاہے اور جب دین کی تحریف کرکے مسخ کرکے رکھ دیتے تھے تو پھر دوسرے نبی و رسول پر وحی نازل کرکے اللہ کی آیات کو اللہ خود محکمات بنادیتا تھا”۔ پہلے جتنے بھی انبیاء کرام اور رسل عظام تشریف لائے ہیں تو شیطان بعد والوں کے دلوں میں اپنی تمنائیں ڈال کر احکام کو مسخ کردیتا تھا جیسے یہودو نصاریٰ کے علماء ومشائخ نے کیا تھا۔
دارالعلوم دیوبند کے مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی شرح بخاری ”فیض الباری ” میں لکھا ہے کہ ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لیکن لفظی بھی کی گئی ہے یا توجان بوجھ کر یا پھر مغالطے سے”۔ احادیث کی کتب اور اصول فقہ کی کتابوں میں لفظی تحریف بھی پڑھائی جاتی ہے لیکن مسلک حنفی کا کمال ہے کہ روایات کو بے اہمیت کر دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ” قرآن کو اللہ نے لفظی تحریف سے محفوظ رکھا ہے”۔ اسلئے کسی نبی اور کتاب کی ضرورت نہیں ہے لیکن معنوی تحریفات کا عوام کو اس وقت پتہ چلے گا کہ جب امام مہدی کا ظہور ہوگا اور دنیا میں فطری اسلامی انقلاب آجائیگا۔
جب سورہ حج کی ان آیات کی تفسیر علماء پر مشکل ہوگئی تو معروف مفسرین نے ابن عباس کی روایت ہی کا سہارا لیا کہ ”سورۂ النجم نازل ہوئی تو شیطان نے نبیۖ کی زبان پر لات ومنات اور عزیٰ کو اللہ کے ہاں شفاعت کے قابل کہا”۔ جس پر مشرکینِ مکہ نے نبی ۖ کے ساتھ سجدہ کیا لیکن پھر پتہ چلا کہ شیطان نے آیات کی شکل میں اپنی تمنا نبی ۖ کو القاء کردیا یا زبان سے کہلوایا۔ حالانکہ یہ مشرکینِ مکہ کابالکل ناجائز پروپیگنڈہ تھا۔ ہوا یہ تھا کہ پہلی مرتبہ سجدہ کی آیت سورہ نجم میں نازل ہوئی تو نبیۖ اچانک سجدے میں گئے۔ مشرکین نے بے ساختہ ناگہانی آفت کے خوف سے سجدہ کرلیا۔ پھر جب دیکھا کہ معاملہ بالکل معمول کے مطابق چل رہا تھا اور کوئی آفت نہیں آئی۔ نبی ۖ نماز میں مشغول تھے۔جس کی وجہ سے جن مشرکینِ مکہ نے اچانک سجدہ کیا تھا انہوں نے اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے پروپیگنڈہ کیا کہ نبیۖ نے شیطانی آیات پڑھ لیں جس کی وجہ سے ہم نے سجدہ کیا۔ جب نبی ۖ ہمارے معبودوں کواہمیت نہیں دیتے تو ہم بھی نہیں مانتے۔ اس پروپیگنڈے کا اتنا اثر ہوا کہ حبشہ ہجرت کرنے والے مسلمان بھی اس کا شکار ہوگئے اور واپس آگئے۔ کچھ مکہ کے قریب سے دوبارہ حبشہ بھی چلے گئے۔ ابن عباس کے والد حضرت عباس نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔ اسلئے مشرکین مکہ کے مسلمان ہونے کے بعد اس پروپیگنڈے کو سچ سمجھ کر ابن عباس نے شیطانی آیات کو نقل کیا۔ آپ کے علاوہ کسی صحابی نے یہ بات نقل نہیں کی۔ جن مفسرین نے حدیث سمجھ کر اعتبار کرلیا تو انہوں نے اپنی تفسیر میں نقل کردیا اور جن کو قرآن کی بنیادی تعلیمات کے خلاف بات لگی تو انہوں نے رد کردیا۔ سورہ نجم کا اپنا مضمون بھی شیطانی مداخلت کی سختی سے تردید کیلئے کافی ہے۔
رسول اللہ ۖ کی بعثت کا مقصد قرآن میں واضح ہے کہ ” تمام ادیان پر غلبہ ہوگا”۔ نصب العین کی تکمیل کیلئے معراج میں تمام انبیاء کرام کی امامت بھی فرمائی۔ نبیۖ کا یہ خواب دنیا میں کیسے پورا ہوسکتا ہے؟۔ یہ لوگوں کیلئے بہت بڑی آزمائش ہے ؟۔ نبیۖ کو حلالہ کی لعنت کے احوال کا آنے والا منظر بھی دکھایا گیا تھا اسلئے آپ ۖ نے حلالے کرنے اور کرانے والوں پر لعنت فرمائی۔ نبی کریم ۖ کی تمنا میں معنوی تحریف کرکے شیطان نے کیسے حلالے کو رائج کردیا ہے؟۔ جو اسلام کی سربلندی اور ترویج میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لندن اور امریکہ میں حلالہ سینٹر دیکھ کر کون پاگل اس کو اپنے مذہب کے مقابلے میں بہتر قرار دے سکتا ہے؟۔ سورہ حج کی ان آیات کی واضح تفسیر یہ ہے کہ شیطان نے انبیاء کے ذریعے دین کی درست تبلیغ کے بعد آنے والوں میں حلالہ کی لعنت رائج کردی تھی۔ جس طرح سامری نے بچھڑے کے ذریعے ان کو شرک میں مبتلاء کیا ،اسی طرح انبیاء کے بعد شیاطین نے حلالہ کی لعنت کے ذریعے مذہبی بدشکل لوگوں سے شیطانی کھیل کے دھندے کھول دئیے۔شیطان نے نبیۖ کی تمنا حلالے کی لعنت میں اپنی تمنا ڈال کر اس کوعلامہ بدرالدین عینی اور علامہ ابن ھمام کے ذریعے کارثواب قرار دیا ہے۔البتہ اللہ تعالیٰ آیات محکمات کے ذریعے شیطانی جال کو مٹاتا ہے۔
قرآن وسنت میں حلالے کی لعنت کا جواز نہیں تھا، طلاق سے رجوع کیلئے کافی وضاحتیں قرآن میں ہیں ۔ایک طرف سورۂ حج کی ان آیات کے مطابق وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہوچکے ہیں وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ جن میں سرفہرست مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں۔ دوسری طرف پشین کوئٹہ سے لاہور تک، تربت گوادر سے چترال تک اور کراچی سے سوات تک ایسے بہت علماء حق ہیں جن کا دیوبند، بریلوی، اہل حدیث ، اہل تشیع اور جماعت اسلامی سے تعلق ہے اور وہ حمایت کررہے ہیں۔ حضرت مفتی محمد حسام اللہ شریفی ، حضرت مولاناقاری اللہ داد صاحب، حضرت شیخ مفتی محمد انس مدنی کراچی،مولانا عبدالقدوس ڈیرہ اسماعیل خان اور گجرانوالہ کے حضرت مولانا مفتی خالد حسن قادری مجددی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ہمارے استاذمفتی محمد نعیم صاحب نے بھی تائید کی تھی جن کو مفتی محمد تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی تھی۔ مفتی زر ولی خان سے بھی تائید کی امید تھی جنہوں نے میری کتاب” عورت کے حقوق” کے مسودے کی تعریف فرمائی تھی لیکن پھر ان کا انتقال ہوگیا تھا۔جس دن مدارس اور مساجد سے حق کا سیلاب اُٹھے گا تو آئندہ الیکشن بھی اسلام کے فطری نظام کی بنیاد پر بالکل نئے لوگ بہت بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے ۔ انشاء اللہ
جب تک تقابلی جائزہ نہیں ہوتا تو علمی حقائق تک پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں اللہ نے نبیۖ کی سیرت طیبہ کے ذریعے یہ تعلیم دی ہے کہ سیرت کا تقاضہ یہ نہیں کہ گدھے کی طرح کوئی اپنی ناحق بات پر بھی ڈٹ جائے کہ میں جو بول چکا ہوں وہی حق ہے۔ نبی ۖ نے ایک خاتون کو موقع دیا اور پھر وحی اسی کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی ہے۔ اگر اکابر کسی غلط فہمی کا شکار تھے تو ان کی توقیر اور عزت واحترام میں کوئی فرق نہیں آتا ہے۔ جتنے بھی ایسے ملحد ہیں جو توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ان میں اکثریت مولویوں کی ہی نظر آتی ہے۔ شدت پسندی کا رخ بدل جاتا ہے، باقی وہی ہوتا ہے۔
جب احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل جمہور کے نزدیک دیکھتے ہیں تو ڈھیر ساری احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ نظر آتا ہے کہ یہ رفاعة القرظی نے بیوی کو طلاق دی تھی، فاطمہ بنت قیس کو اکٹھی تین طلاق دی گئی اور حضرت حسن نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ حضرت علی نے حرام کے لفظ کو تین طلاق قرار دیا۔ ابن عباس نے بھی ایک ساتھ تین طلاق پر فتویٰ دیا۔ ابن عمر نے بھی کہا کہ تین طلاق کے بعد رجوع کا حکم نہیں مل سکتا تھا۔ غرض بہت روایات اور فتوے موجود ہیں۔ کیونکہ جمہور کے مقابلے میں تقابلی جائزہ رکھنے والے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔
جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت ومباح ہیں یا بدعت وگناہ؟۔ تو پھر احادیث کا ذخیرہ بھی پسِ منظر میں چلا جاتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک ایک روایت ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی۔ لیکن امام مالک وامام ابوحنیفہ کے نزدیک لعان کی وجہ سے اس میں ایک ساتھ تین طلاق دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ محمود بن لبید کی روایت ان کی دلیل ہے جس میں نبیۖ نے فرمایا تھا کہ کیا میری موجودگی میں قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ یہ دو روایات بھی حلالہ کی توثیق نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی ان سے قرآن کی آیات میں رجوع کے احکام سے روگردانی کا جواز بنتا ہے۔ ان سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ بلاضرورت ایک ساتھ فارغ کرنا گنا ہ اور معقول وجہ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔سورة طلاق میں عدت اور عدت کے بعد رجوع کا خلاصہ بہترین الفاظ میں موجود ہے اور ابوداؤدشریف کی روایت میں ہے کہ نبیۖ نے ابو رکانہ سے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرلیتے؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھر سورۂ طلاق کی آیات پڑھ لیں۔ علماء حق سے اپیل ہے کہ اپنے اسلاف کی لاج رکھتے ہوئے حلالہ کیخلاف علمی وضاحتوں کا اعلان کرکے سرخرو ہوجائیں۔

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی
نیٹ پر حلالہ کلک کرو تو پاکستان، لندن اور دنیا بھر میں حلالہ سینٹروں کی تفصیل ملے گی۔ محمد مالک ہم نیوز

پروگرام کا عنوان ”کیا حلالے کی کوئی شرعی و قانونی حیثیت ہے؟”
شرکائ: علامہ امین شہیدی، مفتی ضمیر احمد ساجد، عنبرین عجائب، ڈاکٹر خالد ظہیر
ہم نیوز پر معروف صحافی محمد مالک نے پچھلی مرتبہ حلالے پر پروگرام ایمرجنسی میں کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ21سالہ شوہر نے اپنی19سالہ بیگم کو اکھٹی3طلاقیں دیں ۔ جب لڑکی کو پتہ چلا کہ ایک رات کیلئے کسی سے ہمبستری کرکے حلالہ کرنا پڑے گا پھر وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جاسکے گی۔ اس پر اس نے خودکشی کرلی۔ اب یہ دوسرا پروگرام حلالہ سینٹروں پر تھا۔ علامہ امین شہیدی اور ڈاکٹر خالد ظہیر نے کہا کہ اسلام میں کوئی حلالہ نہیں ہے۔ مفتی ضمیر احمد ساجد بھی حلالہ کی مخالفت کررہے تھے۔ عنبرین عجائب نے بھی اس کو کھلا استحصال قرار دیا مگر سمیحہ راحیل قاضی اس کو اچھالنے کے خلاف نظر آرہی تھیں۔ مریم نواز کے انتخابی جلسے کی وجہ سے دوسرا پروگرام ختم ہوگیا۔

 

مولانا اکرم سعیدی کا مشورہ بہترین ہے۔ اس نے لوگوں کے غرور کو تباہ کر دیا ہے، اس لیے لوگ حلالہ کے خلاف انقلاب کے لیے تیار نہیں!

مو لانا اکرم سعیدی کا مشورہ بہترین ہے۔ علماء کرام کو بالمشافہہ سمجھانابھی ضروری ہے۔ اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں غیرت تھی اسلئے اسلامی انقلاب پہلے دور میں آیا تھا اور اب اس دور میں حکمرانوں ، سیاستدانوں، مذہبی طبقات اور تاجروں وغیرہ نے عوام میں غیرت ختم کردی ہے اسلئے حلالہ کے خلاف انقلاب پر لوگ آمادہ نہیںہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علماء کرام ، مفتیان عظام اور عوام کالانعام کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ چودہ سوسال سے صحابہ کرام ، فقہ کے ائمہ عظام نے طلاق کے جس مسئلے کو قرآن سے بالکل واضح طور پر نہیں سمجھا تو15ویں صدی ہجری ،21ویں صدی عیسوی میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے طالب کانیگرم جنوبی وزیرستان کے عتیق گیلانی کے سر پر کونسا ہما بیٹھا اور کس سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ” اس کو قرآن وسنت میں طلاق کا مسئلہ اتنی وضاحتوں کیساتھ سمجھ میں آیا ”۔ اسکا جواب تحدیث نعمت کے طور پر یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید انور شاہ کشمیری نے ساری زندگی مدرسے کی تعلیم وتعلم میں گزاردی لیکن پھر آخر میں فرمادیا کہ ” میں نے اپنی ساری زندگی مسلک کی وکالت میں ضائع کردی اور قرآن وحدیث کی کوئی خدمت نہیں کی”۔ جسکے گواہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تھے۔ امام ابوحنیفہ نے اپنی جوانی علم کلام کی گمراہی میں گزار دی اور پھر عمر کے آخری حصہ میں فقہ و اصول فقہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے ساری زندگی تعلیم وتدریس کرکے بڑے بڑے نامور شاگرد پیدا کئے لیکن جب مالٹا میں اسیر ہوئے تو قرآن کی طرف توجہ گئی اور آخری عمرکی گھڑیاں اس افسوس میں گزاردیں کہ نامورشاگردبھی اس روایتی تعلیم وتدریس کو چھوڑ کر قرآن کی طرف توجہ دیں اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت سے نکالیں۔
امام غزالی نے ساری زندگی فقہ واصول فقہ کی خدمت کی اور آخر میں توبہ کیا اور تصوف کی طرف گئے۔ کتاب کا نام المنقذ من ضلال ”گمراہی سے نکالنے والی رکھا”۔ عربی میں کتاب مذکر اور اردومیں مؤنث ہے۔ علماء نے اس کتاب کے نام کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے۔ ”اندھیروں سے روشنی کی طرف”۔ جس کا عربی میں ترجمہ من الظلمات الی النور بنتاہے۔ امام غزالی نے فقہ کی گمراہی سے نکالنے کیلئے تصوف کی روشنی کی نشاندہی کردی ہے۔لیکن یہ ترتیب بھی بالکل ہی اُلٹی لگتی ہے اسلئے امام غزالی کے اس خواب کو بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی کتاب اور کوئی دینی خدمت کام نہیں آئی لیکن مکھی کو سیاہی پلانے سے بخش دیا گیا ہوں۔
میںنے اپنی ابتدائی زندگی میں دین کی طرف رغبت میں قدم رکھا تھا۔جب گورنمنٹ ہائی سکول لیہ پنجاب میں7ویں کلاس سے9ویں کے ابتدائی سال تک سکول سے زیادہ مذہبی کتابوں کی طرف رحجان ہوگیا۔ پھر کوٹ ادو میں بھائی کے تبادلے کے باعث منتقل ہوا اور10ویں کا امتحان دینے سے پہلے گھر چھوڑ کر کراچی کا سفر کیا۔ رزق حلال کیساتھ مدرسے کی تعلیم کو اپنا مقصد بنایا۔حضرت مولانا اللہ یار خان کے رسالے ”المرشد” میں اعتدال نظر آیا تو ان کے مریدوں کیساتھ جامع مسجد ابوبکر ڈیفنس مجلس ذکر کیلئے پہنچ گیا۔ ان کے خلیفہ سے ان کے مریدوں نے میرا حال بیان کیا تو مجھے پیشکش کی گئی کہ نوکری ، مالی امداد اور سب مسائل حل کردیں گے لیکن بیعت ہونا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ دنیاوی پیشکش کے بعد میں کسی صورت بھی بیعت نہیں ہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مرشد مولانا اللہ یار خان آپ کو خود بیعت نہیں کریں گے بلکہ براہِ راست نبیۖ کے ہاتھ پر بیعت کرائیںگے۔ میں نے عرض کیا کہ اب ایک مرتبہ دنیا کی پیشکش کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت بیعت نہیں ہونا ہے لیکن یہ بتاؤ کہ آپ کو نبیۖ سے بیعت کروائی ہے؟۔ مسجد کا امام چار ماہ پہلے بیعت ہوچکا تھا اور اس نے میرے سوال کا یہ جواب دیا کہ یہ ہرکسی کی اپنی استعداد اور قسمت ہوتی ہے۔ اللہ نے جو آپ کی قسمت اور استعداد رکھی ہے ۔یہ مجھ میں نہیں ہے۔
جب مولانا اللہ یارخان کے خلیفہ مولانا اکرم اعوان اورمولانا نورمحمد شہیدMNAجنوبی وزیرستان کیساتھ مجھے سردارامان الدین شہید نے پروگرام میں مدعوکیاتھا۔ تومولانا اکرم اعواننے اپنی تقریرمیں کہاتھاکہ” میں زمیندارہوں۔ جب کاشتکار اپنی فصل اٹھاتا ہے تو کچھ اناج سے قرضے اتارتا ہے، کچھ کو بیچ کر گھر کے خرچے پورے کرتا ہے اور کچھ سے دیگر ضروریات پوری کرتا ہے لیکن جوسب سے بہترین گندم ہوتی ہے ،اس کو بیج کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ وزیرستان کے لوگوں کو اللہ نے بیج کیلئے رکھا ہے اور اس سے دنیا کی امامت کا کام لینا ہے”۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں کچھ دن پہلے مولانا عبدالقدوس سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پیشکش کی کہ یارک میں میری مسجد میں جمعہ کی تقریر کریں لیکن میں نے معذرت کی کہ میرے لئے گوشہ ٔ عافیت میں لکھنے پڑھنے کا کام کافی ہے اور میرے ساتھ سکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ مولانا نے حضرت انس کے واقعہ کو بیان فرمایا کہ” حجاج نے کہا کہ میں اپنے ہاتھ سے تجھے قتل کروں گا۔ حضرت انس نے فرمایا کہ تو مجھے قتل نہیں کرسکتا ہے۔ حجاج نے تلوار سے وار کیا تو خود ہی پٹخ کر گرگیا۔ پھر وار کیا تو پھر اوندھے منہ ہوکر گرگیا۔ تیسری بار حملہ آور ہونا چاہا تو رُک گیا۔ حجاج کے جلادوں نے کہا کہ کیوں رُک گئے ہو؟۔ حجاج نے کہا کہ اس کے پاس اردگرد میں دوشیر ہیں۔ پہلے ان کے منہ بند تھے اور اب وہ منہ کھولے کھڑے ہیں ،اگر میں نے حملہ کیا تودونوں شیر مجھے کھاجائیں گے”۔
میں نے عرض کیا کہ ایسا ہوجاتا ہے ۔ مجھے اور دوسرے دو افراد کو گاڑی میں دہشت گردوں نے شدید فائرنگ کا نشانہ بنایا لیکن اللہ تعالیٰ نے حفاظت رکھی۔ اور پھر جب رات کو دوبارہ ملاقات ہوئی توبلا تکلف ازراہِ مزاح کہہ دیا کہ جب اہل بیت کو کربلا میں دہشت گرد گھیر لیتے ہیں تو پھر ہمیں بچانے شیر نہیں آتے۔ حالانکہ حضرت عثمان کو شہادت سے حضرت حسن و حسین بھی نہیں بچا سکے تھے۔ مولانا عبدالقدوس نے بتایا کہ ” جب وہ23،24سال کی عمرکے تھے تو مدرسے کے فاضل تھے۔ مولانا اللہ یار خان ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے تو مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھادیا۔ بڑے بڑے علماء کرام نیچے بیٹھے تھے اور یہ عجیب لگ رہا تھا۔ مولانا اللہ یار خان نے عربی کے کچھ اشعار پڑھے جس کو میں نے لکھ لیا اور دوسرے عالم دین نے لکھنے کی کوشش کی تو نہیں لکھ سکا ۔ مولانا اللہ یار خان نے فرمایا کہ یہ اس جوان کا کام ہے ۔ تم سے یہ نہیں ہوسکتا”۔ مولانا عبدالقدوس اب سکول سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے ہیں۔ طارق کلاچی کے ساتھ وہ ایک سکول میں ڈیوٹی کرتے رہے ہیں۔ جب طارق کلاچی نے میرے والد سید مقیم شاہ سے کہا تھا کہ محسود افسر سے سفارش کردیں کہ وہ افغان رفیوجز میں کسی نوکری پر لگادیں تو والد صاحب ان کی بیٹھک میں طارق کلاچی کو لیکر گئے۔ جب پتہ چلا کہ واش روم میں وضو بنارہے ہیں تو محسود افسر سے کہا کہ ” نماز چھوڑ و، اس آدمی کو نوکری پر لگاؤ۔ شرمگاہوں کو دھونا، وضو کرنا اور نمازیں پڑھنا بوڑھی عورتوں کا کام ہے۔ مردوں کا کام دوسرے انسانوں کی خدمت کرناہے”۔ مجھے ابھی یاد بھی آرہاہے کہ طارق کلاچی نے مولانا عبدالقدوس کا بہت پہلے کہیں ذکر بھی کیا تھا۔
مولانا عبدالقدوس نے بتایا کہ ” مولانا اللہ یار خان نے کہا تھا کہ کانیگرم میں بہت پتھر ہیں اور ایک ہیرہ بھی ہے اور میں اس ہیرے کی تلاش میں آیا ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ وہ ہیرہ میرے ہاتھ لگ جائے”۔ مولانا اکرم اعوان نے تحریک الاخوان کے نام سے انقلاب لانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے تھے۔
جب ہم نے پاکستان کی تمام زبانوں میں نبیۖ کے آخری خطبے کے چند الفاظ ، کچھ منکرات سے منع کرنے اور کچھ معروفات کی علمی اور عملی ذمہ داری کو پورا کرنے کے اعلانات کرتے ہوئے ” اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ”۔” اللہ اور اسکے رسول ۖ کی اطاعت میں وہ طاقت ہے کہ جس سے کمزور سے کمزور تر جماعت بھی فاتح عالم بن سکتی ہے”۔ تواس وقت جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ سمیت بہت سارے علماء کرام نے پاکستان بھر سے ہماری تائید بھی فرمائی اور ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے والد نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ”40سال سے قرآن وسنت کا درس دیتے ہوئے مدارس میں ہم چوتڑ رگڑ رہے ہیں اورامام سیدعتیق گیلانی کو مان لیں؟”۔ ہمارے ایک سندھی بلوچ ساتھی مختار سائیں نے کہا کہ ” آپ کو کس نے کہا تھا کہ چوتڑ رگڑیں؟۔ چوتڑ نہ رگڑتے ، امام تو سیدعتیق گیلانی ہی ہیں”۔
آج پاکستان کو قوم پرستی اورفرقہ پرستی کی طرف دھکیلا جارہاہے اور کئی لوگ چلے ہوئے کارتوس ہونے کے باجود پٹاخوں کی قیادت کرنے کے متمنی ہیں مگر لوگوں کو معروف چہرے بالکل منکر لگتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش سامری کے گوسالے کی طرح کمال جادوگری سے آواز بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو منکر نکیر فرشتوں کے سوال وجواب کا سامنا اسکے سابقہ کردار کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ پیپلزپارٹی، نوازشریف، تحریک انصاف، مذہبی طبقے ، قوم پرست عناصر اور کراچی کے مختلف دھڑے بندیاں۔ کوئی کسی پر اعتماد کیلئے تیار نہیںہے۔
آؤ شخصیت پرستی اور گروہ پرستی کی جگہ قومی، مذہبی ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی، ملکی ، صوبائی اور شہری مسائل کے حل کیلئے بین الاقوامی مسائل سے آغاز کریں۔ حلالہ کی لعنت بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ عورت کے حقوق بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ مذہبی منافرت بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جب وژن بہت بڑا ہوگا تو چھوٹے اور بہت ہی چھوٹے مسئلے بھی حل ہوجائیں گے۔ اسلام نے جائز اور ناجائز کیساتھ ہمیشہ زبردست راستہ بھی دیا ہے۔ بنی اسرائیل کی خواتین کو اہل فرعون زبردستی لونڈیا ں بناتے تھے۔ اسلام نے اس کو بدترین ظلم قرار دیا لیکن عورت کیساتھ کوئی جبر وزبردستی ہو تو اس کو حرامکاری اور زنا قرار نہیں دیا۔ ہمارے دور میں اکابرین علماء ومفتیان نے اتنے اندھے ہونے کا ثبوت دیا تھا کہ حاجی محمد عثمان کے مرید و معقتدین کے آپس کے نکاح کا انجام بھی اولادالزنا اور حرامکاری قرار دیا تھا۔ حالانکہ اسلام نے غیر مسلموں کے آپس کے نکاح کو بھی بالکل جائز اور درست قرار دیا ہے۔ نکاح وطلاق کے مسائل میں علماء وفقہاء کے آپس کا اختلاف بھی اتنا گھناؤنا ہے کہ اگر اس پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحث ہوگئی تو مدارس اپنے نصاب کو ٹھیک کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیات222سے232تک خواتین کے حقوق بیان کئے ہیں لیکن علماء وفقہاء کا قرآن کی واضح آیات پر اختلاف ہی اسلئے تھا کہ انہوں نے اصل مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ نظر انداز کرکے شوہر کے حق پر بحث کی ہے کہ اس نے اپنا حق استعمال کیا یا نہیں کیا؟۔ آیت226البقرہ میں ایلاء یعنی شوہر کی بیوی سے طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی پر 4ماہ کے انتظار کا حکم ہے ۔ پھر اگر وہ آپس میں راضی ہوگئے تو ٹھیک ورنہ عورت کی عدت پوری ہے اور وہ پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثیں نے کہا کہ ” چار ماہ کیا چار سال اور عمر بھر نکاح میں رہے گی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق طلاق کے اظہار کو استعمال نہیں کیاہے”۔ احناف نے کہا کہ ” چار ماہ تک عورت کے پاس نہ جانے سے شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا اسلئے وہ طلاق ہوگئی”۔
حالانکہ اللہ نے عورت کے حق کے تحفظ کیلئے چار ماہ کی عدت بیان کی ہے کہ اس کے بعد عورت پر کوئی انتظار نہیں ہے اور اس میں بھی اس کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے حکم دیا تھا کہ ” ان کو نکاح میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدیں”۔ قرآن نے صنف نازک کمزورعورت کو جو تحفظ دیا ہے وہ طلاق کا اظہار ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں اس کا اختیار ہے۔ حنفی مسلک حق کے قریب تھا۔ لیکن جب اللہ نے ناراضگی اور طلاق کی صورت میں عورت کو اختیار دیا ہے تو پھر طلاق رجعی میں اس کا اختیار چھین لینا قرآن وسنت کے بالکل منافی ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام نے دراصل عورت کے اختیار ہی کو تحفظ دیا تھا لیکن بہت بعد والوں نے اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ جب حضرت عمر کے سامنے مسئلہ آیا کہ عورت کو شوہر نے حرام قرار دیا ہے اور عورت رجوع کیلئے راضی ہے تو رجعت کا حکم دیا اور جب حضرت علی کے سامنے یہی مسئلہ آیا لیکن عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے پھر رجوع کرنے کو حرام قرار دیا۔ قرآن وسنت کا بھی یہی تقاضا تھا لیکن بعد کے علماء نے قرآن ولاتصفوا بالسنتکم الکذب ہذا حلال وہذا حرم ” اور اپنی زبانوں کو جھوٹ سے ملوث مت کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام”۔ کے خلاف صحابہ کرام ، خلفاء راشدین اور ائمہ عظام کی طرف جھوٹ کی نسبت کردی ہے۔
آیت229کے آخر میں230کے ابتداء میں نہ خلع کا ذکر ہے اور نہ ہی تیسری طلاق کا بلکہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی جدائی کا ذکر ہے جس میں دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس بات پر اتفاق کرلیں کہ آئندہ کیلئے ان دونوں میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی چھوڑا گیا تو یہ دونوں ایکدوسرے کیساتھ لگ کر اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ جب آپس میں رجوع نہیں کرنے کی بات طے ہوجائے تو پھر عورت کیلئے بھی خدشہ رہتا ہے کہ سابقہ شوہر اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے اور اس ظلم کا خاتمہ قرآن نے کردیا ہے کہ جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ ہو تو پہلے کیلئے حلال نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد کی آیات231اور232میں پھر بھی واضح کردیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ آیات226،228اور229میں عدت کے اندر باہمی رضامندی سے معروف رجوع کی وضاحت بھی عورت کے حق کی حفاظت کیلئے ہے تاکہ عورت عدت کے بعد آزاد ی کا سانس لے سکے اور آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع اور باہمی رضامندی کی وضاحت اسلئے ہے تاکہ یہ ابہام نہ رہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہ خلاصہ پیش کیا گیا ہے لیکن حنفی علماء کرام اور مفتیان عظام بھی حقائق کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی نجی مجالس میں ہمارا یہ کہتا ہے کہ اپنا آدمی ہے اور اگر کامیاب ہوگیا تو یہ ہماری جیت ہے۔ مولانا میرے سامنے بھی یہ بات کہہ چکے تھے اور آج ہم یہی کہتے ہیں کہ ” ہرکوئی ہمارا ہے اور ہم ہر کسی کے ہیں”۔ قاری محمد طیب کی نعت دیوبندی بریلوی اتحاد کیلئے اچھی ہے لیکن ایک عالم دین کی ایسی غزل بھی ہے کہ جس میں سب کی اپنائیت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کا مسئلہ سب سے زیادہ واضح کردیا ہے۔اس کے ایک ایک پہلو سے بہت ہی فصیح وبلیغ انداز میں ایسا پردہ اٹھایا ہے کہ اس میں ابہام کی کوئی بھی صورت بالکل بھی نہیں چھوڑی ہے۔ تاہم بدقسمت اُمت مسلمہ نے قرآن سے ایسا موڑ دیا ہے کہ اتنے واضح مسائل کی طرف بھی علماء کرام ، مفتیانِ عظام اور عوام الناس کی توجہ نہیں گئی ہے۔ یہ ایک بہت دیرینہ بیماری ہے کہ بعض لوگ جب خود کوضرورت سے زیادہ ہوشیار سمجھنے لگتے ہیں تو وہ قرآن کی موٹی موٹی باتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنی ذہنی موشگافیوں کا شکار کھیلتے ہیں،جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی ہستی کو عام لوگوں سے امتیازی حیثیت کا حامل سمجھا جائے۔ اس بدفطرتی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں غوروفکر اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہاں پر وہ اپنے ذہن کی رسائی کا کمال دکھانا چاہتے ہیں۔جس سے کچھ لوگ اس کو بڑا دانشور مان لیتے ہیں لیکن وہ اللہ کی واضح اور موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ واضح کرنے کیلئے بہت کافی ہیں اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی انہی آیات کا زبردست خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ متعدد بارپہلے بھی سمجھانے کی کچھ کوشش کی تھی اور اب ایک مرتبہ پھر اللہ کے عربی پیغام کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
آیت222میں حیض سے متعلق سوال اور اس کا جواب ہے۔ اللہ نے فرمایاَ: حیض اذیت ہے اور حیض کی حالت میں عورتوں کے قریب مت جاؤ ،یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں اور جب وہ پاک ہوجائیں تو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے ویسے ان عورتوں کے پاس آؤ۔ بیشک اللہ توبہ کرنے اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتاہے ۔
اس آیت میں دوچیزوں کی حیض سے متعلق وضاحت ہے ۔ایک اذیت اور دوسری عدم طہارت۔ جس چیز سے بھی عورت کو اذیت ہو تو شوہر کو اس سے اجتناب برتنا ہوگا اور اسی طرح طہارت کا بھی مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس آیت میں اللہ نے عورت کی اذیت کو مقدم کرکے یہ درس دیا ہے کہ عورت کی اذیت کا خیال رکھنا ہے۔
آیت223کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنے شوہروں کا اثاثہ (ایسٹ) قرار دیا ہے۔ جس طرح سائنس کی زبان میں عناصر کی صفات کو ان کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے اور عناصر سے اس کی صفات الگ نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح مردوں کا اپنی عورتوں کیساتھ رشتہ انتہائی مضبوط اور یگانگت والا اللہ نے بتادیا ہے۔ اس ضمن میں بہت فضول قسم کی باتیں جن کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آیت224طلاق کے اس مذہبی تصور کی بیخ کنی کیلئے سب سے بڑا بنیادی مقدمہ ہے جس میں شوہر کسی قسم کے بھی الفاظ ادا کرتا ہے اور پھر اس پر یہ فتویٰ دیدیا جاتا ہے کہ اب تمہارے مذہب نے رجوع کا دروازہ بند کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں اس بات کی نفی کردی ہے کہ اللہ کو ڈھال بناکر نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا جو راستہ روکا جاتا ہے تو یہ بالکل غلط اور لغو بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست الفاظ میں اس کی نفی کردی ہے۔
میاں بیوی کے درمیان صلح سے بڑھ کر نیکی اور تقویٰ کا ماحول پیدا کرنے اور کیا بات ہوسکتی ہے؟۔ یمین کے کئی معانی ہیں۔ کام کرنے کے عہد کو یمین کہتے ہیں اور نہ کرنے کے عہد کو بھی یمین کہتے ہیں۔حلف کو بھی یمین کہتے ہیں اور طلاق اور اسکے متعلق تمام الفاظ کو بھی یمین کہتے ہیں۔ یہاں کی آیات طلاق کا مقدمہ ہیں لیکن مفسرین اور اصول فقہ والوں نے خوامخواہ حلف کی بحث چھیڑ دی ہے۔ جبکہ سورہ مائدہ میں کفارۂ یمین کیساتھ اذا حلفتم کی بھی بھرپور وضاحت ہے۔
آیت225میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” اللہ تمہیں لغو یمین ( طلاق کے الفاظ) پر نہیں پکڑتا ہے مگرتمہیں پکڑتا ہے بسبب جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔
اس میں طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے تمام الفاظ شامل ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”تین چیزیں مذاق اور سنجیدگی میں معتبر ہیں۔ طلاق، عتاق اور رجعت”۔ طلاق اور رجعت میں سنجیدگی اور مذاق اس وقت معتبر ہے جب عورت کی طرف سے اس پر ایکشن بھی لیا جائے۔ اگر شوہر طلاق یارجوع کے الفاظ استعمال کرے اور عورت اس پر پکڑ کرے تو وہ کرسکتی ہے لیکن اللہ کی طرف سے اس پر پکڑ نہیں ہے اور آیت میں باہمی رضامندی سے طلاق کے بعد رجوع کا مقدمہ پیش کیا گیاہے۔
آیت226میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” جو لوگ اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں ان کیلئے چار ماہ ہیں ۔ پھر اگر انہوں نے آپس میں رجوع کرلیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ اس آیت میں یہ واضح ہے کہ جب شوہر نے طلاق کا اظہار نہیں کیا ہو تو عورت ساری زندگی اس کے آسرے میں بیٹھنے پر مجبور نہیں ہے بلکہ چارماہ تک انتظار ہے اور پھر اگر باہمی رضامندی سے رجوع کرلیا تو ٹھیک ہے۔
یہ اس معاشرتی مسئلے کا حل ہے جس میں شوہر بیوی کو غیر اعلانیہ طور پر طلاق کے بغیر آسرے میں بٹھا کر رکھتا ہے۔ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت تین ماہ یا تین طہرو حیض ہیں۔ اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عدت ایک ماہ تک اللہ نے بڑھادی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا ہے کہ مدتوں تک شوہر کے انتظار میں عورت کو بیٹھنے پر مجبور کیا جائے۔ اگر طلاق کا عزم ہو اور اس کا اظہار نہ کرے تو پھر یہ دل کا وہی گناہ ہے جس پر پکڑ کی وضاحت آیت225اور227میں ہے۔
آیت227میں ہے کہ ” اگر ان کا طلاق کا عزم ہو تو پھر اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ طلاق کا اظہار کئے بغیر بھی وہ دل کے عزم کوسنتا سمجھتا ہے۔اس دل کے گناہ پر پکڑتا ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ مزید بڑھ گئی۔ اللہ نے ایک ماہ کی مدت بڑھانے پر دل کے گناہ اور اس پر پکڑنے کی وضاحت کی ہے لیکن مولوی حضرات عورتوں کو برسوں بٹھائے رکھنے کو بھی دین سمجھ رہے ہیں۔
آیت228میں ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین قروء (طہروحیض) تک انتظار کریں۔ اور نہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے ،اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں ”۔
حمل کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ حیض والی عورت کی عدت تین طہرو حیض ہیں اور اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کمی وبیشی کا شبہ ہو تو پھرعدت تین ماہ ہے۔ چونکہ طلاق سے رجوع کا تعلق اللہ نے حیض کی تعداد سے نہیں رکھا ہے بلکہ اصلاح کی شرط پر عدت کا پورا پورا دورانیہ رکھا ہے۔ حمل کی صورت میں اور جب حیض نہ آتا ہو تو پھر تین ادوار یا تین مرحلوں کی گنتی نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن حیض کی صورت میں تین ادوار یا تین مراحل کی گنتی ہوسکتی ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق صرف اور صرف تین طہرو حیض کی صورت ہی سے عملی طور پر ہے۔ حمل کی صورت میں نہ تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کی نوبت آسکتی ہے۔ عربی میں مرة کا تعلق ایک فعل سے جو ایک زمانے کیساتھ خاص ہے۔ جب عورت طہر کی حالت میں ہوتی ہے تو اس پر ایک مرتبہ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس کے بعد حیض آجائے۔ دوسری مرتبہ طلاق کا تعلق دوسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے اور تیسری مرتبہ طلاق کا تعلق تیسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے۔ اگلی آیت میں اللہ نے مزید سمجھایا:
آیت229میں ہے کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے………..”۔
یہ تین ادوار یا تین مراحل تک عورت کے انتظار اور شوہر کی طرف سے طلاق کے تین مرتبہ فعل کی وضاحت ہے۔ نبیۖ سے صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا” تسریح باحسان یعنی تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ کی طلاق ہے”۔ قرآن کی ان آیات میں عدت کے تینوں مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فعل بالکل طے شدہ معاملہ ہے۔ جس طرح دن رات میں ایک مرتبہ ایک روزہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک طہر میں عورت سے پرہیز کرنے کا فعل ایک مرتبہ کی طلاق ہے۔ پھر دوسرے طہرمیں عورت سے پرہیز کا عمل دوسری مرتبہ کی طلاق ہے یہاں تک کہ دوسرا حیض آجائے اور تیسرے طہرمیں تیسری مرتبہ پرہیز کا عمل تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ یہاں تک کہ تیسراحیض آجائے ۔
سورۂ طلاق میں بھی عدت میں طلاق کے عمل کو اس طرح گنتی شمار کرکے پورا کرنے کا عمل سمجھایا ہے۔ جب نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ حیض میں تین طلاق دئیے ہیں تو رسول اللہ ۖاس پر بہت غضبناک ہوگئے کہ میری موجودگی میں تم لوگ قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ نبیۖ نے اس کو بلانے کا حکم دیا اور پھر سمجھایا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلو۔ پھر اگر طلاق دینا چاہو تو طہر میں اسے رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں رکھو یہاں تک کہ اسے حیض آجائے اور پھر تیسری مرتبہ طہر آئے تو اگر رجوع کرنا چاہو تو رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہو تو چھوڑ دو، یہ ہے وہ عدت جس کا اللہ نے قرآن میں اس طرح سے حکم دیا ہے۔ نبیۖ کا ابن عمر پر بہت غضبناک ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کی وضاحتوں کو نہ سمجھنا ایک بہت بڑی کم عقلی کا مظاہرہ تھا۔ غضبنا ک ہونا اس بات کا ثبوت نہیںتھا کہ اب حلالہ کے بغیر رجوع بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت عمر اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ شدید تھے اسلئے اس کو نبیۖ کے غضبناک ہونے پر قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ نبیۖ کو معلوم تھا کہ قرآن کیساتھ یہ امت بھی وہی حشر کرے گی جو پہلوں نے اپنی کتابوں کیساتھ کیا تھا اسلئے حیض میں اور ایک ساتھ تین طلاق پر غضبناک ہونا فطری بات تھی۔
حضرت ا بن عمر کے حوالے سے یہ روایت الفاظ کی کمی بیشی کیساتھ صحیح بخاری کی کتاب التفسیر سورہ ٔطلاق اور صحیح مسلم کے علاوہ احادیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ فقہاء کے ایک طبقہ نے اس سے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی ۔ جس طرح دن کی حالت میں روزہ ہوتا ہے لیکن رات میں روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر کا یہ قول نقل ہے کہ ” نبی ۖ نے ایک مرتبہ طلاق کے بعد مجھے بیوی کے پاس لوٹنے کا حکم دیا اور اگر میں دومرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دیتا تو مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے”۔ اور اس زبردست وضاحت کے بعد کم عقلی اور کم علمی کی یہ انتہاء ہے جس کی مت ماری گئی ہو کہ پھر اس سے تین طلاق کی تعداد مراد لی جائے۔ طلاق کی تعداد اور طلاق کے فعل میں واضح فرق ہے۔ تین روٹیاں کھانے اور تین مرتبہ روٹی کھانے میں جو فرق نہیں کرسکتا ہے وہ گدھا ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس سے قرآن وسنت کے معاملے میں فتوے کی رہنمائی لی جائے اور امت اس ہوس پرست گدھے یا چالاک کتے سے اپنی خواتین کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر لٹوائے۔ حضرت حسن بصری نے کہا کہ ابن عمر نے تین طلاق دی تھی ۔ بیس سال تک کوئی مستند شخص ایسا نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو ، بیس سال بعد زیادہ مستندشخص نے بتایا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم)
احادیث کی کتابوں میں جھوٹی اور من گھڑت روایات کی بھرمار کرنے والوں کا پتہ لگانا ہو تو صحیح الاسناد احادیث کے مقابلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی ایک جھلک ہی دیکھ لی جائے۔ پورے ذخیرہ احادیث میں امام شافعی کو ایک ساتھ تین طلاق کے جواز کیلئے ایک عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق کے الفاظ نکالنے پر تکیہ کیا ہے اور وہ بھی احناف اور مالکیہ کے نزدیک لعان کے بعد استدلال کے قابل نہیں ہے اور مولانا سیدانورشاہ کشمیری نے بخاری کی شرح ”فیض الباری” میں لکھ دیا ہے کہ ” ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی ہو”۔ قرآن میں ویسے بھی فحاشی پر عدت کے مراحل میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بجائے ایک دم فارغ کرنے کی وضاحت ہے۔
رفاعی القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا بھی احادیث میں ذکر ہے اور مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی بھی وضاحت ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں اجمال اور دوسری روایت میں تفصیل ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے لکھ دیا کہ ”ایک روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق دینا چاہیے۔ کیونکہ احناف کا مؤقف یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں اور سنت یہ ہے کہ مرحلہ وار تین طلاق دینا چاہیے”۔ (کشف الباری)
علامہ ابوبکر جصاص رازی نے بھی احکام القرآن میں یہی روش اختیار کی ہے کہ ایک طرف جب طلاق کا سنت طریقہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ”الطلاق مرتان سے طلاق کے دوعدد مراد نہیں ہوسکتے ۔ جس طرح دو روپیہ کو دو مرتبہ روپیہ نہیں کہا جاسکتا ہے ،اسی طرح دو مرتبہ طلاق سے طلاق کے دو عدد مراد نہیں لئے جاسکتے”۔ دوسری طرف جب علامہ ابوبکرجصاص رازی یہ مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں تو پھر وہ کہتے ہیں کہ” جب الگ الگ مجالس میں تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں تو ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ایک باریک مسئلہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا ہے لیکن ایک مرتبہ میں بھی تین مرتبہ طلاق واقع ہوجاتی ہیں”۔( احکام القرآن)
علامہ ابوبکر جصاص رازی اور علامہ سید انور شاہ کشمیری نے قرآن واحادیث پر اپنی انفرادیت اور علمیت بھی جمانے کی کوشش فرمائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وسنت کی ایسی غلط اور متضاد تعبیر کردی ہے جس کا عدل وانصاف اور فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علامہ کشمیری نے اپنی عمر ضائع کرنے کی وضاحت فرمائی اور علامہ جصاص کا بھی خاتمہ بالخیر ہوا ہوگا۔ لیکن قرآن کی اچھی وضاحت کے بعد مسلک کی حفاظت میں اپنی خدمت ضائع کردی۔
سابقہ ادوار میں اپنے اپنے فقہی مسلک سے انحراف بھی بہت بڑا گھمبیر مسئلہ ہوتا تھا جس پر جان ومال اور عزت کے لالے پڑتے تھے۔ آج بھی مختلف علماء کی طرف سے بات سمجھنے کے پیغامات مل رہے ہیں لیکن جب انقلاب آئے گا تو پھر اس حمام میں بہت سے ننگوں کاپتہ چل جائے گا کہ کس کس نے حلالہ اور اپنے ذاتی اغراض کی خاطر قرآن وسنت کو قبول نہ کرکے خواتین کی عزتیں لٹوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ البتہ کچھ لوگ اچھے ہونے کے باوجود معذور لگتے ہیں ۔دلائل کی الٹی سیدھی بھرمار اور جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں اب قرآن کے فطری حقائق کو سمجھنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ ہم بار بار اس مسئلے کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ بند دماغوں کی گتھیاں سلجھ جائیں اور امت کو قرآنی تعلیم سے پھر دنیا میں زندہ کیا جائے۔ قرآن زندہ ہے لیکن امت مسلمہ کے اجتماعی مردہ ضمیرکوپھر زندہ کرنا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

شاہ صاحب نے طلاق کا مسئلہ بہت واضح کرکے سمجھادیا ہے مگر لوگ پھر بھی ابہام کا شکار ہیں۔ ناظم اعلیٰ جماعت اہل سنت (سندھ) ، خطیب اعلیٰ جامع مسجد و دار العلوم دیار حبیب گلشن حدید، بانی و مہتمم جامعہ سعیدیہ حیات النبی ملتان مولانا اکرم سعیدی

wشاہ صاحب نے طلاق کا مسئلہ بہت واضح کرکے سمجھادیا ہے مگر لوگ پھر بھی ابہام کا شکار ہیں۔ ناظم اعلیٰ جماعت اہل سنت (سندھ) ، خطیب اعلیٰ جامع مسجد و دار العلوم دیار حبیب گلشن حدید، بانی و مہتمم جامعہ سعیدیہ حیات النبی ملتان مولانا اکرم سعیدی

جید علماء کرام شاہ صاحب کیساتھ ایک بورڈ تشکیل دیںاورحلالہ کی لعنت سے بچائیں
روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عرب راہِ حق سے مکمل ہٹ چکے اورنبی پاک ۖ کی بشارتیں پورا ہونے کا وقت قریب ہے۔

(کراچی) ناظم اعلیٰ جماعت اہل سنت (سندھ) ، خطیب اعلیٰ جامع مسجد و دار العلوم دیار حبیب گلشن حدید، بانی و مہتمم جامعہ سعیدیہ حیات النبی ملتان مولانا اکرم سعیدی نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ اہل عرب راہ حق سے مکمل طور پر ہٹ چکے ہیں اور اس حوالے سے نبی پاک ۖ نے جو بشارتیں دی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ اللہ بے نیاز ہے وہ جس سے چاہے کام لے لے ہمارے موجودہ حکمران یہودی، قادیانی نواز ہیں یہی لوگ ہماری نظریاتی سرحدوں کو کھوکلہ کر رہے ہیں۔ اہل عرب نے اسلامی دنیا کو رُسوا کردیا ہے یہاں تک کہ غیر مسلم بھی ان کے اقدامات پر انگشت بدنداں ہیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان میں مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے اسلامی بینکاری کے نام پر سود کو جائز کردیا ہے اور عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ مولانا نے کہا کہ شراب کو اگر دودھ کے گلاس میں پیش کیا جائے تو وہ جائز اور حلال نہیں ہوجاتی یہ جید علماء ہیں ہم ان کو چیلنج تو نہیں کرسکتے مگر انہوں نے اسلامی بینکاری کے نام سے سُود کو اسلامی بینکاری کے غلاف میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے مگر میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ غلط تو غلط ہی ہوتا ہے اگر نیتیں غلط ہیں تو اللہ کی پکڑ ہوگی۔سید عتیق الرحمن گیلانی کے تمام مضامین انتہائی گہرائی سے پڑھے ہیں۔ شاہ صاحب نے طلاق کے مسئلے کو بہت واضح کرکے سمجھایا ہے مگر پھر بھی لوگ ابہام کا شکار ہیں۔
گذشتہ دنوں جج نے کہا کہ عدت کے اندر نکاح جائز ہے ایسی صورت میں یہی کہوں گا کہ جید علماء اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے شاہ صاحب کے ساتھ ایک بورڈ تشکیل دیں اور حلالہ کی لعنت اور گھر اجڑنے سے بچائیں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ جو علماء امت کی بھلائی کیلئے نہیں سوچتے اللہ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv