پوسٹ تلاش کریں

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

جب سود کے حوالے سے آیات نازل ہوئیں تونبی کریم ۖ نے زمینوں کی مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے مزارعت کے حوالے سے قرآن ،احادیث صحیحہ اور فقہ کے چاراماموں کی طرف سے متفقہ طور پر مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے اور اس پر زبردست کتاب بھی شائع کردی ہے جس کی تائید جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کی تھی جب وہ علماء کیلئے باغی اور انقلاب کے امام تھے۔آج مولانا ان کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف مولانا انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے اور جن سے مقابلہ ہوتا تھا وہ مولانا کی جماعت میں شامل ہیں ۔
جب ہم نے علماء ومفتیان کے دانت کھٹے کردئیے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” میں ان علماء ومفتیان کے فتوؤں کو جوتوں کی نوک پر رکھتا ہوں ”۔ اگر کسی ایک عورت کی عزت حلالہ کی لعنت سے لٹ جائے تو کیا وہ عورت جوتے کے نوک پر اس فتوے کو نہیں رکھ سکتی ہے؟۔ کیا عورت کیلئے یہ سزا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ ایک رات گزارے؟۔ یہ تو سزا ہے کہ کسی کا ہاتھ کاٹا جائے، کسی کا سرقلم کیا جائے، کسی کے ہاتھ اور پیر مخالف جانب سے کاٹے جائیں اور کسی کو کوڑے لگائیں جائیں یا کسی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن یہ کونسی سزا ہے کہ جرم مرد کرے اور اس کی سزا عورت کو دی جائے اور سزا بھی ایسی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ ایک رات گزاری جائے اور اس کی عزت کا فالودہ بنادیا جائے؟۔
کیا قرآنی آیات میں اتنے تضادات ہوسکتے ہیں کہ ایک طرف اللہ یہ بات واضح کردے کہ عدت کی تکمیل سے پہلے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور پھر اللہ کہے کہ عدت میں ایک مرتبہ کی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور پھر اللہ کہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اس قسم کے تضادات تو کسی پاگل ومجنون کے کلام میں بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اللہ نے تو پھر چیلنج بھی کردیا کہ ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تووہ مخالف اس میں بہت سارے تضادات پاتے”۔ کیا قرآن کا چیلنج غلط ہے؟۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے ، اسکے وہ تمام مسائل بھی حل کئے ہیں جو جاہلیت میں اس کو درپیش تھے۔ اور معاشرے کے تمام مذہبی مسائل کا حل بھی نکالا ہے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ شوہر بیوی کے درمیان صلح میں اللہ رکاوٹ ہے۔ آیت224البقرہ میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں اللہ کبھی بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ نمبر2یہ تھا کہ بعض الفاظ سے اللہ پکڑتا ہے جسکے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے آیت225البقرہ میں واضح کردیا کہ الفاظ کی وجہ سے اللہ نہیں پکڑتا ہے بلکہ دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق صریح وکنایہ اور ان مسائل پر تمام اختلافات اور تضادات کی اللہ تعالیٰ نے بیخ کنی کردی ہے۔ نمبر3یہ تھا کہ لوگ طلاق کا اظہار کئے بغیر سالوں سال عورت کو رلاتے تھے لیکن اللہ نے آیت226البقرہ میںواضح کردیا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ تک انتظار کی ہے اور اس میں بھی اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عورت کو تین ماہ کی جگہ چار ماہ تک انتظار کروایا جائے تو عدت میںایک ماہ کا اضافہ گناہ ہے۔ جس کی نشاہدہی آیت227البقرہ میں بھی کردی ہے۔ نمبر4یہ تھا کہ عورت کو عدت میں طلاق دی جاتی تھی تو عدت میں بار بار رجوع کا اختیار بھی شوہر کو ہوتا تھا اور نمبر5یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت228میں دونوں مسائل کا ایک حل نکال دیا۔ جب عدت کے اندر صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو پھر بار بار غیرمشروط رجوع اور ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا مسئلہ نہیں رہتا ہے۔جس کی وجہ سے طلاق رجعی کا تصور بھی بالکل باطل ثابت ہے کیونکہ طلاقِ رجعی کی وجہ سے شوہر عورت پر نہ صرف تین عدتیں گزارنے کا قانونی حقدار بنتا ہے بلکہ اس سے دوسرے بھی لامتناہی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس آیت سے حلالہ کا تصور بھی ختم ہوتا ہے اسلئے کہ جب رجوع کا تعلق باہمی اصلاح کی شرط سے ہے تواکٹھی تین طلاق اور حلالے کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ نمبر6یہ تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ناراضگی اور طلاق میں بار بار باہمی رضامندی ، اصلاح کی شرط پر اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت کی وضاحت کردی ہے جس سے باہمی رضا،اصلاح ، معروف طریقے کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن مردوں کی دنیا میں عورت بیوی بن جائے تو اس کی غیرت کا مسئلہ بنتا ہے اسلئے کوئی آیت بھی دل ودماغ میں بٹھانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ نیت نہ ہو تو بھی شہوت کی نظر پڑجائے تو رجوع ہے اور شافیوں کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع کرنے کے باجود بھی رجوع نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے معروف رجوع کو فقہاء نے منکر رجوع میں بدل دیا۔ جس دن قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسلام کے بنیادی اور اہم حساس معاشرتی مسائل پر بحث ہوئی یا میڈیا پر معاملات منظر عام پر آگئے تو مذہبی طبقات بھی بہت خوش ہوں گے کہ مسائل سے جان چھوٹ گئی۔
اللہ تعالیٰ نے آیت229البقرہ اور230البقرہ میں اہم معاشرتی مسئلے کا حل نکال دیا کہ جب شوہر دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے تین مراحل میں تیسری مرتبہ بھی معروف رجوع کرنے کے بجائے تیسری طلاق دے تو پھر اس کیلئے حلال نہیں ہے کہ حق مہر اور جو کچھ بھی اس کو دیا ہے اس میں سے بھی اس عورت سے واپس لے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر وہ نہ دی جائے تو دونوں کے میل ملاپ اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ تین طلاق کی وضاحت تو آیت229البقرہ میں موجود ہے اور اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ چونکہ مردوں کی ایک فطرت ہے کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے جہاں بھی چاہیں تو دوسرے سے نکاح کرنے کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں اسلئے اللہ نے ایسی طلاق کے بعد کہ جب دونوں اور معاشرے کی طرف سے نہ صرف جدائی کا فیصلہ ہو، بلکہ آئندہ رابطے نہ رکھنے کی کوئی سبیل بھی نہ چھوڑی جائے ،پھر رجوع کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے عورت کیلئے آزادانہ دوسرے سے نکاح کی اجازت بھی بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بنتا ہے اسلئے اللہ نے آیت230البقرہ میں فرمایا کہ پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
کوئی دانشمند قوم ہوتی تو یہی سمجھ لیتی کہ قرآن نے حلالے کی لعنت میں ہمیں ڈالا نہیں ہے بلکہ بچایا ہے۔ البتہ جب بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو اس کیلئے فتویٰ اسی آیت سے لیا جائے گا تاکہ عورت کو صحیح معنوں میں آزادی مل جائے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ طلاق پر اتنی ساری بحثیں پھر کیوں ہیں ؟۔ کہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی ؟۔ بچے اور مجنون کی طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ غصے کی حالت میں طلاق معتبر ہے یا نہیں؟۔ طلاق کیلئے گواہوں کی تصدیق اور مطالبہ؟۔ کس کے نزدیک کس لفظ سے طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟۔
اگر ان ساری باتوں کا نتیجہ دیکھ لیں تو اس کا خلاصہ یہی ہے کہ عورت خلع لے تو اس کے حقوق طلاق سے بہت کم ہوتے ہیں لیکن اگر مرد طلاق دے تو اس میں عورت کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ سورہ ٔ النساء آیت19میں خلع کا حکم بیان کیا گیا ہے اور سورہ ٔ النساء آیات20،21میں طلاق کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شوہر نے طلاق دی ہو تو عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد میں سے جو کچھ بھی دیا ہو تو وہ واپس نہیں لے سکتا ہے اور عورت خلع لے تو پھر عورت صرف منقولہ دی ہوئی چیزوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے لیکن گھر سے اس کو نکلنا ہوگا اور غیرمنقولہ اشیاء جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے کہ طلاق دی ہے یا نہیں؟۔ تو اصل میں حقوق کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عورت جھوٹ بول رہی ہے یا سچ بول رہی ہے؟۔ پھر طلاق کیلئے جو بھی الفاظ، اشارے، کنائے ، صریح اور کنایہ کے الفاظ معتبر قرار دئیے جائیں تو اس میں عورت ہی کا فائدہ ہے کیونکہ جدائی میں شوہر کی طرف سے پہل ہو تو اس کا خمیازہ شوہر کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ البتہ اگر عورت ایک طرف اپنی جان چھڑانے کے چکر میں ہو اور دوسری طرف شوہر پر طلاق کی تہمت لگائے تو یہ شوہر کیساتھ بڑی زیادتی ہوگی لیکن اس کو ثابت کرنے کیلئے عورت کو گواہ لانے پڑیں گے۔
مولانا اشرف علی تھانوی جیسے جید عالم دین اور حکیم الامت کہلانے والے نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب ” حیلہ ناجزہ ” میں یہ لکھا ہے کہ ” اگر شوہر نے اکٹھی تین طلاق دے دیں اور پھر وہ مکر گیا تو عورت اس پر حرام ہوگی لیکن عورت کیلئے اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے ہوں گے۔ اگر وہ دو گواہ نہ لاسکی اور شوہر نے قاضی کے سامنے حلف اٹھالیا تو وہ عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ پہلے وہ ہر قیمت پر خلع لے ،لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور اسکے ساتھ جماع کرتا ہے تو پھر عورت دل سے خوش ہو ،نہ لذت اٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی” ۔
یہ فقہ کا مسئلہ ہے جو دیوبندی اور بریلوی دونوں میں رائج ہے۔ یہ اسلام نہیں بلکہ گدھوں کی ڈھینچو ڈھینچو اور وہ آواز ہے جو گدھا پیچھے سے خارج کرتا ہے۔ اگر نکاح وطلاق کے حوالے سے یہ گھناؤنے مسائل میڈیا یا پارلیمنٹ میں آگئے تو سب کی طبیعت صاف ہوجائے گی۔ اسلام کے نام پر یہ مسائل بدنمادھبہ ہیں ۔
علماء ومفتیان نے اسلام کے نام پر بہت سہولت، عزت، دولت، شہرت اور قیمت وصول کرلی ہے ،اب اسلام کی جان چھوڑیں۔ مسلمانوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع ٹس سے مس اسلئے نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو اسلام اور مسلمانوں کی سرخروئی سے زیادہ اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حضرت عمر کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا کہ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حکمران کے دربار میں عورت اور شوہر کا تنازعہ آتا ہے لیکن اگر دونوں آپس میں راضی ہوتے تو حضرت عمر کے پاس کیوں جاتے؟۔ اگر یہ تنازعہ ایک طلاق پر بھی کھڑا ہوتا تو حضرت عمر نے یہی فیصلہ دینا تھا اسلئے کہ اس کے بعد قرآن باہمی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
پاکستان میں لینڈمافیا کے پیچھے بااثر طبقات کا بہت بڑا کردار ہے۔ بہت دیر کردی مہرباں نے آتے آتے۔ نسلہ ٹاور گرانے کے بعد سپریم کورٹ نے فوج کے تینوں اداروں کے سربراہوں کو طلب کیا ہے کہ دفاعی مقاصد کیلئے دی جانے والی زمینوں پر کاروبار کیوں کررہے ہو؟۔ علی وزیر کو بھی رہا کردیا گیا ہے لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حامد میر نے علی وزیر کی قید اور تحریک لبیک کیساتھ مذاکرات کوپختون پنجابی مسئلہ کیوں قرار دیا تھا؟۔ حالانکہ تحریک طالبان ولبیک کیساتھ ایک جیسا معاملہ تقریباً ہورہاہے۔ وانا جنوبی وزیرستان میںطالبان کے خلاف پاک فوج نے کبھی کوئی آپریشن نہیں کیا تھا اورPTMجن گمشدگان کے لواحقین کیلئے آواز بلند کررہی تھی وہ سب کے سب طالبان کے پسماندگان تھے۔
قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی مسائل کا حل نہیں ہے۔ قوم کو مزید آنکھ مچھولی میں ڈالنے کے بجائے سیدھے انداز میں ایک بہت شفاف سیاسی، عدالتی ، ریاستی اور انتظامی ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ اس قوم کی تقدیر بدل جائے۔ تعصبات کے نعروں کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کو تحفظ دینے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ نبیۖ نے جب سود کی حرمت کے بعد مزارعت کا نظام ختم کردیا تو زمیندار اور کاشت کار اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے، بھوک اور افلاس کی نوبت ختم ہوگئی۔ شہروں کے تاجروں کے بھلے ہوگئے اور مزارعت کے نظام سے جو جاگیردار لونڈی اور غلام پیدا کررہے تھے تو اس کا ریاستِ مدینہ نے خاتمہ کردیا تھا۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن قبضہ مافیا نے مسائل پیدا کرکے پاکستان کو مسائلستان بنادیا۔ آخر میں ایک بھائی کے اشعاردیکھ لیں!
سب کو معلوم عدل وانصاف کی نزاکت
کمزور پہ ہے لاگو قانون کی حجامت
ججوں کی تشریحات ترجیحات عدالت
بنیئے کا ترازولارڈ مکالے کی قدامت
جائیداد کی منی ٹریل یاجج کی علالت
بنتا نہ تھا جواب تو سوال پہ ندامت؟
رشوت کامال ہے عدلیہ کی حقارت
بیویوں کی ضرورت بچوں کی کفالت
غیر قانونی طریقے پر بھی یہ سخاوت
جج کی بیگم کو ملی جو کھلم کھلی اجازت؟
ووٹ کو عزت دو نوٹوں کی شرارت
گدھوں کا بیوپار، گھوڑوں کی سیاست
لال کرتی کی پیداوارواقعی ملامت
کمینی ہے اشرافیہ چوروں کی قیادت
مَلِک ، سردار، نواب غدارسلامت
ملا کی شریعت، پیرومرشد کی ارادت
رنگیلے سربراہ بہروپئے کی صداقت
جمہوری شکنجے، آمروں کی ریاست
رائیونڈ کے محلات شداد کی حمایت
اقتدار میں مدہوش فرعون کی غلاظت
ہوس نہ بجھی ،ہوش ربازرکی رفاقت
قارون کی دولت زرداری کی لاگت
ملک ہوا آزاد شبِ قدر کی مسافت
جناح کی عزیمت،اقبال کی اقامت
غلامی کی زنجیریں بیڑی کی تجارت
وہی قانون ہے وہی شیطان کی وکالت
تنگ آمد بجنگ آمدقوم کی بغاوت
اب آئے گا اسلام، ظالم سے شکایت
سب کا پاکستان سب کی امامت
ہے اسکا مقدر ، دنیا کے امن کی ضمانت
اقوام عالم کے فیصلوں کی نظامت
ہوگی یہاںقائم طرزنبوت کی خلافت
رہے کوئی جہالت نہ کسی کی ضلالت
بندے بنیں رب کے، کریں عبادت
کوئی سزا دے نہ کرے کوئی ملامت
آئے جس کی بھی اپنے ضمیر کی شامت
بتارہا ہوں سادہ لفظوں میں حکایت
بے انتہاء بلند منزل ہے اللہ کی عنایت
صاحر کی آرزو نہیں ہے کوئی جنایت
سب کی حکومت ایک امیر کی اطاعت

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین طلاق کے بعد حلالہ کا تصور غلط ہے۔ مفتی انس مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ اہل حدیث اور شیعہ سمیت قرآن و حدیث کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلطی کریں۔

مفتی انس مدنی سے بصد احترام کیساتھ عرض ہے کہ قرآن واحادیث کو سمجھنے میں اہلحدیث وشیعہ سمیت
سبھی کو بہت بڑی ٹھوکر لگ چکی ہے اور اکٹھی تین طلاق و حلالہ کے علاوہ طلاقِ رجعی کاتصور بھی غلط ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

افسوس اور صد افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن وسنت کی طرف دھیان دینے کے بجائے اپنے اپنے مسلک کی ٹانگ اُونچی کرنے میں سب لگے ہوئے ہیں۔ مدارس میںدرسِ نظامی کا نصابِ تعلیم بہت بہترین ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جارہاہے۔ ہمارے اساتذہ کرام اور طلباء عظام کے دل ودماغ ایک رات میں کھل سکتے ہیں، بس ان کے گرد وپیش حالات بدلنے کی دیر ہے۔ مدارس کے علماء ومفتیان مجھے اپنی پنچ وقتہ نمازوں کی دعاؤں میں دل سے یادبھی رکھتے ہیں، البتہ ماحول سے نکلنا بہت مشکل کام ہے اور انشاء اللہ سب جلد نکل جائیں گے۔
میری اپنی ایسی اوقات نہیں کہ مجھ سے کوئی ڈرے، گھبرائے یا پھرشرمائے۔ دلیل کی زبان، قرآن کی فصاحت اور احادیث کی بلاغت سب فرقے مانتے ہیں اور ہم شیعہ سنی، حنفی اہلحدیث اور دیوبندی بریلوی کے تعصبات سے نکل کرحقائق کی بات عوام تک پہنچارہے ہیں۔ دیوبندی بریلوی حنفی مسلک کے پیروکار ہیں اور شیعہ واہلحدیث کے مسالک حنفی مسلک کے ردِ عمل میں بن گئے ہیں ۔ جب عمل اور ردِ عمل سے نکل کر ہم قرآن وسنت اور احادیث وصحابہ کرام اور ائمہ اربعہ ومحدثین کے حوالے سے دلائل کی وضاحت کریں گے تو اتفاق رائے پیدا ہوگی۔
سب سے پہلا اور بڑا فتنہ اس بات سے پیدا ہوا تھا کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فیصلہ درست کیا تھا یا غلط کیا تھا؟۔ حضرت عمر کے پیدا کردہ دیگر مسائل پر بھی مسالک میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھنا جائز ہے یا نہیں؟۔ حضرت عمر نے حج عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی ۔ حنفی مسلک والے فقہ میں پڑھاتے ہیں کہ حضرت عمر کی یہ تعلیم قرآن وسنت کے منافی اور غلط ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے بالکل ٹھیک کیا تھا اسلئے کہ قرآن وسنت میں صرف جواز تھا لیکن جب حضرت عمر نے دیکھا کہ جو لوگ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھ کر حج سے کچھ دن پہلے مکہ مکرمہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ گدھے ، گھوڑے، اونٹ اور پیدل دور دراز کا سفر کرنے والوں کے احرام پسینوں سے شرابور ، بدبودار اور متعفن ہیں جس سے حج کے اجتماع میں بدترین تعفن پھیل رہاہے۔ حضرت عمر نے بدبو اور آلودگی پھیلانے کی وجہ سے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی لگائی تھی۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین سے روایات ہیں کہ ہم نے نبیۖ کو حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا اور پھر کوئی ایسی وحی بعد میں نازل نہیں ہوئی کہ ایک ساتھ حج وعمرے کے احرام سے منع کیا گیا ہو، جس نے بھی یہ کیا ہے یہ اس کی اپنی رائے ہے۔ جب ہم سنت پر عمل کیا کرتے تھے تو فرشتے ہم سے مدینہ کی گلیوں میں مصافحہ کرتے تھے لیکن جب ہم نے سنت پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ہم سے وحی کی برکات اُٹھ گئیں۔جب تک میری زندگی ہے تو مجھ سے یہ باتیں نقل مت کرو، کیونکہ حضرت عمر سے ڈر لگ رہاتھا۔
حضرت عثمان نے جب ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی کا اعلان کیا تو حضرت علی نے کھل کر آپ کی مخالفت کردی اور حج وعمرے کا احرام باندھ کر کہا کہ کوئی مجھے سنت سے روک کر دکھائے۔ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں رسول اللہۖ کی رسالت پر ایمان لایاہوں ، اپنے باپ حضرت عمر کی بات کو میں نہیں مانتا ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ آسمان سے تم پر پتھر کیوں نہیں برستے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ۖ نے یہ کیا اور تم ابوبکر وعمر کی بات کرتے ہو؟۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحیح مسلم وصحیح بخاری ، فقہ وتفسیر کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہوئی ہیں لیکن کیا حضرت علی نے حضرت عثمان سے بخاری کی روایت کے مطابق جھگڑا کیا تھا اور حضرت عمر سے حضرت علی خوف کھا رہے تھے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے پسینوں کی بدبو کی وجہ سے حج و عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تھی جس کی حضرت علی بھی تائید کررہے تھے لیکن جب حضرت عثمان نے حضرت عمر کی اتباع میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تو حضرت علی نے آپ کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
جن لوگوں نے اصل حقائق کو سمجھنے کے بجائے حضرت علی کی اتباع میں ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے کو بدبو کا خیال رکھے بغیر جاری رکھا تو نسل در نسل ان کی اولادوں کی جینز میں تعصبات کی یہ بدبو جم گئی اور جنہوں نے حضرت عمر کی اتباع میں سنت کی مخالفت کو بھی جائز سمجھ لیا تھا تو ان کے دل ودماغ سے قرآن وسنت کی ہدایت چھن گئی۔ قرآن میں اللہ اور اسکے رسولۖ کی اتباع کا باربار ذکر ہے اور یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اولی الامر سے اختلاف کو قرآن میں جائز رکھا گیا ہے اور خلفاء راشدین کے دور میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کا راستہ کھلا ہوا تھا۔
حج وعمرے کا ایک احرام ایک ساتھ باندھنا جائز ہے لیکن اگر پسنیوں کی بدبو اور تعفن کا احساس رکھنے کی بنیاد پر مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پابندی لگانے کا جائزہ لیا جاتا توپھر تفسیروحدیث اور فقہ کی کتابوں میں مسائل پربے جا بحث نہ ہوتی۔اہل تشیع کو تعصبات نے یہاں تک پہنچادیا کہ حضرت عمر و حضرت عثمان پر مسلمانوں کو دوبارہ مشرکینِ مکہ کے مذہب میں لوٹانے کی سازش سے بھی دریغ نہیں کیا اور جمہور اہل سنت کے مسالک نے قرآن وسنت کو بالکل نظر انداز کردیا تھا۔البتہ فقہ حنفی کے زعماء نے اعتدال کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا لیکن وہ بھی اصل مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے تھے اسلئے اختلافات کا سلسلہ باقی رہاتھا۔ اور اب مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پہلی مرتبہ مسئلہ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام کا فیضان ہے۔
تفسیر وحدیث اورفقہ کی کتابوں میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے کو تمتع کہا گیا ہے اور قرآن میں حج کیساتھ عمرے کے تمتع کا ذکر ہے۔ احادیث کی کتابوں میں وضاحت ہے کہ حضرت عمر نے حج اور عورتوں کے متعہ پر پابندی لگائی تھی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ متعہ النساء پر پابندی نہ لگائی جاتی تو بدبخت کے سوا ء کوئی زنا نہ کرتا۔ تفسیر واحادیث اور فقہ کی کتابوں میں متعہ النساء پر بہت اختلافی مواد موجود ہے۔یہ مسئلہ بھی حل طلب اور سب کیلئے قابلِ قبول بن سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت علی سے منسوب ہے کہ فتح خیبر میں گھریلو گدھوں اور عورتوں کی متعہ کو حرام قرار دیا گیا ۔ حالانکہ برصغیرپاک وہند کی طرح عرب میں بھی گھوڑے ، گدھے اور خچر کو کھانے کیلئے نہیں سواری کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ خود کو خصی مت بناؤ۔ ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرو۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبٰت ( جن چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے ان کو حرام مت کرو”۔ القرآن ۔ صحیح بخاری۔
صحیح بخاری میں حضرت علی کی طرف منسوب قول بالکل بے بنیاد ہے اسلئے کہ حضرت علی متعہ کے قائل تھے اور حضرت ابن مسعود کی روایت میں بہت وزن ہے جس میں رسول اللہۖ نے متعہ کی حلت کو قرآن کی طرف منسوب کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں تفسیر جلالین کی طرح تفسیرلکھ دی تھی کہ ومتعوھن (الی اجل مسمٰی) اور ان سے فائدہ اٹھاؤ ،ایک مقررہ وقت تک ۔افسوس کہ مفسرین نے لکھ دیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے قرآن میں یہ اضافہ تھا۔ حالانکہ بین السطور یہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کی تفسیر میں ایک اضافہ تھا۔ صحابہ کرام کے الگ الگ قرآن ہرگز بھی نہیں تھے۔ جن لوگوں نے اپنے درسِ نظامی کے نصاب میں یہ غلط تعلیم داخل کی ہیں اس کی تصحیح کریں۔
حضرت ابن عباس نے فرمایاکہ رسول اللہ ۖ ، حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے ابتدائی دور میں چندسالوں تک متعہ النساء جاری تھی اور پھر حضرت عمر نے اس پربعد میں پابندی لگادی۔(صحیح مسلم) صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کی اجازت دی اور صحابہ کرام نے متعہ کیاتھا۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے حرام قرار دینے کی وضاحت کے بعد پھر کیسے اس کو حلال قرار دیا گیا؟۔ ایران میں متعہ جاری تھا۔ پاکستان میں رنڈیوں کو متعہ کے نام پر بدکاری کے لائسنس جاری ہوتے تھے۔ اب مصر ، سعودیہ اوردیگر ممالک میں مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دیدی گئی ہے۔ پاکستان میں کچرا کنڈی اور جھولوں سے ملنے والے نومولود بچوں کی بہت کثرت ہوگئی ہے ۔ حال ہی میں گلشن حدید کراچی میں ایک نومولود بچہ اس وقت بہت بری طرح جھلس گیا تھا جب کچرے کو آگ لگادی گئی تھی اور اس چیخوں کی سے عرش ہل رہاتھا کہ مجھے کس جرم کی سزادی جارہی ہے۔ اصحاب حل وعقد کو مسئلے مسائل کا حل سنجیدگی اور دلائل سے نکالنا پڑے گا ورنہ بہت خرابیاں پیدا ہوں گی اور اس کی سزا نسل در نسل پوری پاکستانی قوم ہمیشہ بھگتی رہے گی۔
حضرت عمر کے فیصلے کی وجہ سے ایک تیسرا مسئلہ حلالے کا پیدا ہواہے اور اس کے سب سے بڑے مراکز مساجد ومدارس اور حلالہ سینٹرز ہیں۔ طلاق کے بہت سادے مسئلے کو کچھ اس طرح سے الجھادیا گیا ہے کہ بڑے بڑوں کا دماغ بھی اپنا کام چھوڑ دیتا ہے۔ ایک بہت بڑے اسلامی انقلاب کی آمد آمد ہے اور اللہ نے قرآن میں اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کو جو پیش گوئی فرمائی ہے اب اس کا وقت بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان کے سخت گیر طالبان بھی اقتدار میں آکر اب تاریخی لچک کا مظاہرہ کررہے ہیں اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ یہ اسلامی دنیا اور عالمِ کفر میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ انسانی بنیاد پر افغان عوام کی مدد کا فیصلہ یورپی یونین اور مغربی ممالک بھی کررہے ہیں۔
میری چاہت ہے کہ پاکستان وافغانستان کے امور کا امریکی نمائندہ جیسے اپنا کام کرتا ہے ،اس طرح میں پاکستان وافغانستان کا نمائندہ بن کر کینیڈا میں بیٹھ جاؤں اور اہل مغرب کو اسلام اور اس کے مزاج پر درس دوں اور مسلم امہ کو حقائق کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کروں۔آج مسلمانوں اور اہل مغرب میں وہ اسلامی اور انسانی کردار ادا کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم آئندہ تیسری جنگ عظیم کے خطرات سے بچنے میں کافی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جب اسامہ بن لادن پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو ہم نے شہ سرخی لگائی تھی کہ ”امریکی صدر کلنٹن کی بیٹی اسامہ کی لونڈی بنائی جائے”۔ پاکستان میں تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کو میں نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ ” امریکی صدر کی آمد پر جو پاکستانی اہلکار بھی کلنٹن کو نشانہ بناسکتا ہے تو بنالے ،اسلئے کہ ڈیڑھ سو پاکستانی مجاہدین اسامہ بن لادن کے حملے میں کلنٹن کے حکم سے شہید کئے گئے ہیں”۔
جب1987ء میں میں افغان جہادمیں گیا تھا تو حرکة الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر شہیدوغیرہ سے کہا تھا کہ ایک طرف روس اور دوسری طرف پھر امریکہ ہے تو ہمیں قبائلی علاقے سے دونوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور وہ اس بات پر متفق ہوئے تھے اور مجھے افغانستان سے پاکستان پہنچادیا تھا لیکن میرے مرشد حاجی محمد عثمان پر فتوؤں کی وجہ سے میری جدوجہد کا رُخ بدل گیا تھا اسلئے کہ اپنے معاشرے میں ظلم ہو تو پھر دوسروں کے خلاف آدمی کیا جہاد کرے گا؟۔
سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کے نانا کے حوالے سے موجود ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کا گیارہواں صحابی تھا۔ عمران خان کی اماں بھی مرزائی ہوگی اور اس نے چندوں کے پیسوں سے بننے والے ہسپتال کا نام اپنی ماں کے نام پر رکھا ہے۔ صیہونیت کا منصوبہ تھا کہ کشمیر، گلگت اور پنجاب کو سکھ اورمرزائی اسٹیٹ بنایا جائے۔ پاکستان اور بھارت کو توڑ کر عالمی منصوبہ ساز ادارے اب بھی اپنے مشن کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ہتھیار کے استعمال اور ملک وقوم کی تقسیم سے عالمی ایجنڈہ جاری ہے۔ انسانوں کو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر روبوٹوں کی طرح استعمال کیا جارہاہے۔ برصغیرپاک وہند سے قرآن وحدیث ، صحابہ اور ائمہ اربعہ کے مسلک کی درست تشریح سے ہماری تباہی کا ایجنڈہ رُک سکتا ہے اور ہماری کاوش انشاء اللہ جاری رہے گی لیکن مغرب کے دل میں بیٹھ کر اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے نتائج زیادہ جلدی مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔
انگریز سمجھتا ہے کہ جب مسلمان اپنی بیگمات کے حلالہ کروانے سے بھی باز نہیں آتے ہیں تو یہ ہماری بیگمات کو بھی لونڈیاں بناکر چھوڑیں گے اسلئے ایک نئی اور جھوٹی نبوت مرزائیت سے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔ جب نوازشریف کے دور میں قادیانیت کے حق میں قومی اسمبلی سے بل پاس ہوا تھا تو سینٹ میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمداللہ نے اس کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن پھر بھی وزیرداخلہ شیخ رشید کو اس وقت اپوزیشن رکن اسمبلی کی حیثیت سے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ن لیگ کے اتحادی جمعیت علماء اسلام کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام لیکر دعوت دینی پڑی مگر مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت کے رہنمابت اور بھوت بن کر حکومت کیساتھ کھڑے تھے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر قادیانیت کے الزامات لگانے والوں کی حد یہ ہے کہ اس بل کے خلاف فیض آباد کے کامیاب دھرنے کا الزام بھی آرمی چیف پر ہی لگایا جاتا ہے۔جو کھیل کھیلا جارہاہے اسکے بہت خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور اسلاف پر اعتماد سے پاکستان اور یہ خطہ بدامنی کی فضاؤں اور دہشتگردی سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اسلام کا نام روشن ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مفتی خالد حسن مجددی کا پیغام حلالے کی لعنت سے اپنے آپ کو بچائیں۔

حضرت پیر مفتی مجددی کو دل کی اتھاہ گہرائیوںسے وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ،مسلم اُمہ کے نام پیغام
لعنت سے اپنی نسلوں کوبچاؤ: اپنے من میں ڈوب کرپاجاسراغِ زندگی ..تو اگر میرانہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

اہلسنت بریلوی مکتبۂ فکر کی عوام کو اگر تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا فتویٰ درکار ہو تو الحمدللہ ایک معروف ہستی حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی کی شخصیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف اسرائیل سے تین طلاق کامسئلہ نہیں آیاہے، باقی الحمدللہ دنیا کے اکثر معروف ممالک سے طلاق کے مسائل پر حلالہ کے بغیر صلح کی شرط پر رجوع کیلئے دنیا بھر سے استفتاء آئے ہیں اور ہم نے لوگوں کی عزتیں بچائی ہیں۔ پہلے حنفی عوام الناس اہلحدیث کے پاس تین طلاق سے رجوع کیلئے جایا کرتی تھی اور اب اہلحدیث بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی انس مدنی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے اور حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے۔ پاکستان بھر سے مختلف علماء ومفتیان ہمارے پاس لوگوں کو فتوے کیلئے بھیج رہے ہیں اورہفت روزہ اخبارِ جہاں میں کئی عشروں سے”آپکے مسائل اور ان کا حل : قرآن وسنت کی روشنی میں” حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی کا صفحہ لکھنے والے کی تائید بھی ہمارے فتوؤں پر موجود ہوتی ہے جن کا تعلق علماء دیوبند سے ہے اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت ساری خواتین کی عزتین ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بچائی ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو بعض اوقات پنجاب کے کسی جید حنفی بریلوی مکتب فکر کے مفتی صاحب کے دستخظ کی ضرورت ہوتی تھی۔ گزشتہ مہینے ایک انیس سالہ لڑکی کو اسکے اکیس سالہ شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیںتو حلالہ کے فتوے پر اس لڑکی نے خود کشی کی تھی جس پر دنیا نیوز کے بہادر صحافی محمد مالک نے ایک پروگرام بھی کیا تھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو جاگ رہے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم سورہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خواب غفلت سے ہم کیسے بیدار کرسکتے ہیں؟۔ دوسرے وہ لوگ ہیں کہ جن کو مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ عوام کے سامنے سینکڑوں سال کے اپنے اکابر کو قربان کرکے فتویٰ دیںلیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جاندار کی تصویر ، سود کی حلت اور باقی مسائل میں اپنے اکابر قربان کردئیے لیکن عورتوں کی عزتیں بچانے کیلئے درست فتویٰ دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے مدرسے جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایریاکورنگی کے علماء کرام کی طرف سے بھی حلالہ کے بغیر رجوع کیلئے لوگوں کو ہم سے فتویٰ کیلئے بھیجا گیا ہے اور یہ وہ علماء ومفتیان تھے جو پہلے ہم سے لڑرہے تھے۔
ایک قسم کے علماء ومفتیان ایسے بھی ہیں جو زبانی طور پر کھل کر ہمارے مؤقف کی تائید کررہے ہیں اور اپنے احباب کو زبانی سمجھا بھی رہے ہیں کہ اس طرح کی طلاق سے بھی باہمی صلح ورضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور جمعہ کے وعظ میں بھی لوگوں کو حقائق بتارہے ہیں لیکن ان کے نام اپنے اخبار میں اسلئے نہیں دے سکتے ہیں کہ ان پر کچھ باثر علماء ومفتیان کی طرف سے دباؤ کے خطرات ہیں۔
قرآن میں ایک ایمان والوں کی بات ہے اور پھر ایمان والوں کے درجات ہیں جن میں صدیقین، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔ صالحین وہ ہوتے ہیں جن کا اپنا عمل اچھا ہوتا ہے اور وہ فسق وفجور سے اجتناب کرتے ہیں۔ صدیقین ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صداقت کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کرتے ہیں۔ صدیق اکبر کے علاوہ تمام صحابہ کرام کی جماعت صدیقین کی جماعت تھی جنہوں نے قرآن کے نفاذ کیلئے دنیا بھر میں مہم جوئی کی تھی۔ ان کے مقابلے میں ایک کفار تھے جو اسلام کے منکر تھے اور وہ اسلام کو قبول کرنے سے انکاری تھے اور دوسرے مکذّبین تھے جو نہ صرف خود قرآن کا انکار کرتے تھے بلکہ قرآن کے خلاف مہم جوئی کرکے اس کی تکذیب بھی کرتے تھے۔ آج بھی علماء حق اور علماء سو ء کی یہ تقسیم ہے کہ علماء حق قرآنی آیات کا معاملہ سمجھنے کے بعد عورتوں کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کیلئے مہم جوئی کررہے ہیں اور علماء سوء قرآنی تعلیمات کے خلاف مہم جوئی کرتے ہیں۔
باپ اولاد کیلئے پہلااستاذ اور ماں اولاد کیلئے پہلی مرشد ہوتی ہے۔اگر باپ نے اپنی اولاد کی ماں کیساتھ کوئی برا سلوک کیا ہو تو اس کے اثرات اولاد پر ضرور مرتب ہوتے ہیں اور اگر ماں باپ کا مثالی تعلق ہو تو اولاد پر بھی اس اخلاق کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ باپ نے ماں کو تین طلاقیں دی ہوں اور اس کو حرامکاری سمجھ کر پھر بھی اپنے پاس رکھا ہو تو اسکے اثرات اولاد پر بھی مرتب ہوں گے اور باپ نے ایک ساتھ تین طلاق دئیے ہوں اور ماں سے حلالہ کروایا ہو تو اس کے اثرات بھی اس پر ضرور مرتب ہوں گے۔ آج ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کے اندر طلاق واقع ہوچکی ہے اور میاں بیوی آپس میں حرامکاری سمجھ کر بھی حلالہ کی ہمت کرنے سے گریز اں ہیں اور بہت سارے لوگ جدائی اختیار کرلیتے ہیں اور بہت سارے حلالے کی لعنت کا بھی ارتکاب کرتے ہیں کہ زندگی بھر کی حرامکاری سے ایک دفعہ کی لعنت اچھی ہے۔ مسلمان معاشرے کو اس دلدل سے نکالنا بہت ضروری ہے۔
بھارت کی ہندو خواتین کو بھی قرآن میں طلاق ، عدت اور اس سے رجوع کا مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن ہمارے بڑے علماء ومشائخ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو بہت تعجب کی بات ہے۔ ہمارے وزیرستان کے محسود کہتے ہیں کہ ” اگر تم نہیں چلوگے تو میں اٹھالوں گا لیکن اگر نہیں کھاؤگے تو میں کیا کرسکتاہوں”۔ مسلم اُمہ کے زعماء وعلماء اور قائدین قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں تو بہت آسان طریقہ ہے اس کو سمجھنے کا جس سے پوری امت مسلمہ اس دلدل سے نکل سکتی ہے لیکن اگر وہ سمجھنے کیلئے تیار نہ ہوں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ یہودونصاریٰ میں جو اہل حق تھے تو انہوں نے قرآن پر ایمان لانے میں لیت ولعل سے کوئی کام نہیں لیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علماء ومشائخ نے بھی ایک طرف ہٹ دھرم اور دین فروش یہودی احبار اور عیسائی رہبان کا کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف ان میں اہل حق کی ایک جماعت بھی ہمیشہ سرگرداں رہی ہے۔ جونہی حق کو دیکھا تو اس کو قبول کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے اور اہل باطل کو دیکھا تو اس کی تردید کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔ میرا تعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مولانا درخواستی کے بیٹے مولانا فداء الرحمن درخواستی کے انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی سے رہا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں مولانا امین انصاری، علامہ کرار نقوی اور جامعہ ستاریہ کے ایک اہلحدیث عالم دین سے ملاقات ہوئی تو یہ سب حضرات مجھے جانتے تھے ۔ علامہ کرار نقوی سے ملاقات رہی ہے۔ انکے دفتر اور گھر میں بھی گیا ہوں، اہلحدیث عالم سے غائبانہ تعارف تھا اور دیوبندی مولانا امین انصاری نے بتایا کہ ”میں آپ کا سابعہ (موقوف علیہ ،درس نظامی )میں کلاس فیلو تھا”۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق لورالائی بلوچستان کالعدم سپاہ صحابہ کے صوبائی صدر اور جیش محمد کے رہنما نے ہمارے ساتھی سے کہا کہ طلاق کا مسئلہ ایک دفعہ میری سمجھ میں آگیا تو میں اس کی تبلیغ کروں گا۔ میرے بہت قابلِ احترام استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصرمدظلہ العالیٰ نے بھی ہمارے ساتھی سے کہا کہ میری سمجھ میں طلاق کا مسئلہ نہیں آرہاہے۔ جب ایک مسئلے پر زمانوں کی گرد نے پیچیدگیاں پیدا کردی ہوں تو بسااوقات واقعی بات سمجھ میں بھی نہیں آتی ہے۔ جس دن قرآن کی طرف علماء کرام اور مفتیان عظام نے رجوع کرلیا اور احادیث صحیحہ کو قرآن کی تفسیر کے طور پر سمجھنے کی طرف دھیان دیا اور صحابہ کرام کے اختلافات کو قرآن وسنت کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کی تو سب کچھ مخلص لوگوں کو بہت جلد سمجھ میں آئے گا۔
قرآن میں طلاق سے رجوع کیلئے اصل بنیاد باہمی صلح ہے۔ سورہ بقرہ میں آیات224سے232تک اس کی بھرپور وضاحت موجود ہے، جس کا خلاصہ سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی بھرپور وضاحت کیساتھ موجود ہے۔
آیت230البقرہ سے پہلے اور بعد میں عورت کے حقوق اور طلاق کا مسئلہ سمجھانے کی بھرپور وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ”ہم نے کتاب نازل کی ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے حقوق کو کچلنے والے وحشی لوگوں نے خود ساختہ مذہبی مسائل بھی بنارکھے تھے۔ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے تھے تو اہل مذہب اپنے منکر اور جھوٹے اقوال کے ذریعے سے یہ فتویٰ دیتے تھے کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا۔ سب سے زیادہ سخت مسئلہ ظہار کا تھا جس میں شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تھا ، جس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حقیقی ماں کی طرح حرام سمجھی جاتی تھی اور حلالے سے بھی وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی۔ اس فتوے کے اثرات بھی قرآن کریم کی سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
مذہبی لوگوں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ دنیاوی کاروبار کی جگہ پر مذہب کی خدمت کا ٹھیکہ لیتے ہیں تو فارغ البالی میں نت نئے مسائل گھڑنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ پھر بال کی کھال اُتارنے کے چکر میں اپنی پرواز کا رخ شاہین کی طرح ہوا میں بلند کرنے کی جگہ پر گدھ بن کر مردار کھانے کی طرف نیچے پھیر لیتے ہیں اور پھر المیے جنم لیتے ہیں۔ سورۂ مجادلہ میں ایک خاتون کے جھگڑنے کا ذکر ہے جس کی بات اللہ نے سن لی اور مذہب کے منکر اور جھوٹے قول کی آیات میں بھرپور طریقے سے نشاندہی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دل ودماغ سے باطل عقیدہ ومذہب نکالنے کیلئے یہاں تک سورۂ مجادلہ میں فرمادیا کہ ” بیگمات مائیں نہیں بن سکتی ہیں،مائیں نہیں ہیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا ہے”۔ اس کے باوجود بھی سورۂ احزاب میں اللہ نے نبیۖ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ
” اے نبی! اللہ سے خوف کھا۔اور اتباع نہ کریں کافروں اور منافقوں کا ۔ اور اتباع کریں جو اللہ نے تیری طرف نازل کیا ہے اس کا۔اور اللہ کی وکالت کافی ہے۔اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے اور نہ ان بیویوں کو تمہاری ماں بنایا ہے جنہوں نے تمہیں جنا ہے اور نہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا ہے”۔
اللہ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان کے جسمانی سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ اللہ نے یہ بتایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی عورت کو انسان ایک دل سے اپنے بچوں کی ماں کو اپنی بیوی سمجھے اور دوسرے دل سے اس کو اپنی ماں سمجھے۔ مگر علماء ومفتیان نے اس سے میڈیکل کی دنیا مراد لی ہے۔ اگر کبھی کوئی ایسا بچہ پیدا ہوگیا کہ دوسروں کی طرح اس کے دو دل بھی ہوئے توپھر علماء کہیں گے کہ فارمی مرغیاں اور جانور وں کے یہ نقصانات ہیں کہ انسانی جسم کا توازن بگڑ گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے محرمات کی فہرست چوتھے پارے کے آخر میں بیان کی ہے اور سب سے پہلے فرمایا ہے کہ ” ان عورتوں سے نکاح مت کرو، جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے ہوچکا ہے”۔ باپ کی منکوحہ سے نکاح کا جواز مذہبی گدھوں اور گِدھوں نے کیوں نکالا؟۔ فقہاء یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ کے جاہلوں نے سابقہ مذاہب حضرت ابراہیم وحضرت موسیٰ کے صحائف میں یہ دیکھا ہوگا کہ ” مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے” جیسے سورۂ مجادلہ میں ہے تواس سے یہ اخذ کیا ہوگا کہ ”باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا جائز ہے اسلئے کہ مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے جنا ہے”۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اسکے ذریعے بہت لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور بہت لوگوں کو ہدایت ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں باہمی صلح کی بنیاد پر تمام آیات میں رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے۔ کسی ایک آیت سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ باہمی صلح کے بغیربھی رجوع ہوسکتا ہے۔ طلاق رجعی کیلئے فقہی مذاہب میں جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ،ان آیات پربھی مسالک کا اتفاق نہیں ہے، جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ان میں بھی صلح کی شرط کے بغیر رجوع کا تصور نہیں ہے۔
کوئی ایک بھی ایسی آیت اور حدیث نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ عورت کی رضامندی اور صلح کے بغیر بھی اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ جب رجوع کیلئے فقہی مسالک ومذاہب میں غلط بنیادیں رکھی گئی ہیں تو اہل حق کا اس سے آہستہ آہستہ اتنا دماغ خراب ہوتا گیا کہ انہوں نے تین طلاق سے صلح کے بغیر رجوع نہ کرسکنے کا جو فتویٰ اور فیصلہ شروع کیا تھا تو اس کو بدلتے بدلتے یہاں تک پہنچادیا کہ ” صلح کے باوجود بھی حلالے کے بغیر رجوع نہ کرنے کے فتوے دینے شروع کردئیے”۔ پچھلے شمارے میں بہت تفصیل سے قرآن وحدیث سے بہترین دلائل دئیے تھے اور مجھے امید ہے کہ میرے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصر اور دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق کو بھی معاملہ سمجھ میں آیا ہوگا اور ان سے زیادہ مولانا مسعود اظہر اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو بھی سمجھ میں آیا ہوگا اور جن کو بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو بالمشافہہ بھی بات سمجھانے کیلئے میں ہر وقت تیار ہوں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی سے کئی نشستیں ہوئی تھیں اور موجودہ چئیرمین قبلہ ایاز صاحب کو بھی دوبار ملاقات میں معاملہ اچھی طرح سے سمجھا یا ہے اور ان کی سمجھ میں بھی آیا ہے لیکن اپنے منصب اور عہدے کی مراعات انہیں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔
تاہم پھر بھی اگر سمجھانے میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو اس کیلئے ہمہ وقت میرا اخبار حاضر خدمت ہے۔ اپنا کوئی اشکال اور سوال ہمیں بھیج سکتے ہیں لیکن قرآن وسنت کی غلط تشریح پر لچک دکھائی تو میری آخرت برباد ہوجائیگی۔ میںتھک سکتا ہوں، لوگوں سے مایوس ہوسکتا ہوں لیکن اللہ کی ذات پر ایمان اور بھروسہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین طلاق کے بعد صلح کی شرط پر میاں بیوی بغیر حلال کے رجوع کر سکتے ہیں۔

قرآن میں صلح کی شرط پر بار بار رجوع کی بات ہے لیکن علماء نے حلالے کی رٹ لگائی ہے۔ حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری، جامعہ فاطمة الزہرہ جامع مسجد نقشبندیہ عیدگاہ مین بازارکھوکھرکی سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ

(گوجرانوالہ) چیئر مین تحریک تحفظ امن پاکستان ، امیر مجلس تحفظ ختم نبوت، رہنما جماعت اہل سنت پاکستان پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بغیر کسی لالچ و منصب کے جس طرح کام کررہے ہیں اسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ اس وقت چھوٹے بڑے سب علماء دین بیچ رہے ہیں۔ اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی ، حضرت داتا گنج بخش ، بہاء الدین زکریا ملتانی، عبد اللہ شاہ غازی جیسی ہستیاں ملیں گی انہوں نے کتنے محلات بنائے؟ کتنا مال جمع کیا؟ جبکہ آج کے پیر محلات کے مالک ہیں زمینوں کے مالک ہیں ان کے دستر خوان پر ڈھیروں اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔ آج کے پیر اور علماء اپنی پوجا کرواتے ہیں انہیں اپنی دوکانداری خراب ہونے کا خوف ہے تو ایسے میں دین کیسے آگے بڑھے گا؟۔ طلاق کا مسئلہ اور اس کا حل جو گیلانی صاحب نے پیش کیا ہے اور قرآن کے دلائل سے سمجھایا ہے اس پر یہ بلا تردد سرِ تسلیم ختم کرتے مگر انہوں نے اب تک قرآن کی آیت ”حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ” کی تشریح سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے اور قرآن کس طرح بار بار صلح کی شرط پر رجوع کی بات کرتا ہے اسے کبھی بیان ہی نہیں کیا ہے۔ بس تین طلاق کے بعد اب کچھ نہیں ہوسکتا کی رٹ اور حلالہ کی غلیظ ترین بات ۔
انہوں نے کبھی بھی حساس ترین مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں کہ عزتیں لٹ رہی ہیں عورت کی تذلیل ہورہی ہے مگر یہ خاموش ہیں۔ موجودہ دور کے مسائل پر بھی ریسرچ نہیں کرتے ۔ درس نظامی کو جدید تحقیقات کی روشنی میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نام نہاد مفتیان نے سود کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ میں کہتا ہوں سود کو نہیں بلکہ سؤر کو حلال کردیا ہے۔ اس سوال پر کہ پھر آخر اسکے خلاف کون آواز بلند کرے گا تو مفتی صاحب نے کہا کہ ماضی میں بھی اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ان علماء نے ہی دنیاوی مفاد کیلئے بادشاہ وقت کو قتل، چوری ، زنا و دیگر جرائم پر سزا سے استثناء کا فتویٰ دیا تھا جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی مراعات و دنیاوی مفاد کیلئے ہر طرح کے منکرات کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ حق بات کبھی بھی ان کے منہ سے نہیں نکلتی ہے۔ ان لوگوں کو گیلانی صاحب نے بہت جھنجھوڑا مگر یہ سب مایا کے بندے بنے ہوئے ہیں۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ ”قلیل من عبادی الشکور” بہت کم ہیں جو اللہ کے شکر گزار ہیں ۔ ”قلیل من الآخرین” کا ذکر قرآن میں آیا ہے ایسا لگتا ہے کہ حق کہنے والے قلیل من الآخرین سے بھی کم ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں بقول اقبال اپنے بھی خفا ہیں اور بیگانے بھی ناخوش مگر یہ مٹھی بھر حق گو لوگ امت مسلمہ کی خیر خواہی میں کسی ملامت گر کی ملامت سے بھی نہیں گھبرائے ہیں۔ اور جو بات ملت کیلئے زہر قاتل ہے ، امت کی بربادی کا موجب ہے اسے کبھی نہیں چھپاتے ہیں۔ یہی قلیل لوگ نبی ۖ ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، ائمہ حق اور اولیاء کے جانشین ہیں۔ آخر میں شاہ صاحب کی خدمت میں سلام۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

بریلوی دیوبندی حنفی اہل حدیث اور اہلسنت و اہل تشیع ڈیرہ اسماعیل خان، مولانا فضل الرحمان اور دیگر نامور علمائے کرام اور مفتیوں کا اجلاس بلائیں، اور مجھے بلا کر لوگوں کی جانیں بچائیں۔ حلالہ کی لعنت

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

ڈیرہ اسماعیل خان کے دیوبندی بریلوی ، حنفی اہلحدیث اوراہلسنت واہل تشیع مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابرعلماء ومفتیان کا اجلاس بلائیں اورمجھے طلب کریں،تاکہ حلالہ کی لعنت سے عوام کی جان چھڑائیں!

جب طلاق کی واضح آیات پر علماء ومفتیان کی غلط فہمی دور ہوگی تو مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اورقادیانیوں کا بھی بیڑا غرق ہوجائیگا

محترم السلام علیکم_
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے موضع شور کوٹ کے ایک مولوی کا جو اپنے آپ کو مفتی کہتا ہے دیا گیا ایک فتویٰ بھیج رہا ہوں تسلی فرما کر قرآن و سنت کے مطابق جواب عطا کرکے عند اللہ ماجور فرمائیں۔ جبکہ جس نے طلاق دی وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے بیان میں قرآن پاک کا تذکرہ نہیں کیا تھا اور نہ اس وقت اس مولوی کے ساتھ کوئی دوسرے علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ اصل میں اس مفتی کے فتوے کو رد کرنا ہے کیونکہ اس مولوی نے پورے شہر میں کہا کہ اگر یہ لوگ نکاح ثانی بغیر حلالہ کے کرتے ہیں تو عورت مرد زنا کے مرتکب ہوں گے اور زانی سے ہر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ اب یہ لوگ پریشان ہیں۔ شکریہ۔ و السلام
از محمد ادریس علوی صوبائی جنرل سیکریٹری تحریک استقلال پاکستان خیبر پختونخواہ

_ بسم اللہ الرحمن الرحیم_
الاستفتا ء :کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین کہ بقول غلام صمدانی اس نے اپنی زوجہ ہاجرہ بی بی کے مطالبہ پر بایں صورت کہ زوجہ نے شوہر کی گود میں قرآن رکھا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ اب غلام صمدانی نے علماء کے سامنے اور اپنی زوجہ کے سامنے دوران بیان اقرار کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیں اور اس کی بیوی منکر ہے کہ بعض الفاظ میں نے نہیں سنے۔ اور اس کی بیوی رو رہی تھی اور غلام صمدانی مسلسل اپنی زوجہ کے سامنے مذکورہ بیان دیتا رہا۔ ان بیانات پر حکم شرع بیان فرمائیں۔

_ الافتا ئ_
صورت مسئولہ میں عدت بائنی مغلظہ ہے۔ اور بلا تحلیل کے زوج اول حلال نہ ہوگی۔ کما فی التنزیل :فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ الآیہحضرت عبد اللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا۔ اور آپ حضرات نے جواب دیا ۔فقالا لانری ان تنکحھا حتی ……
حررہ سنی حنفی قادری ۔آل رسول محمد شعیب شاہ گیلانی ۔
مدرس فیضان مدینہ، خادم العلماء و الافتائ۔ خادم جامعہ غوث الاعظم دستگیر۔ شور کوٹ ۔ ڈیرہ اسماعیل خان ۔

محترم ادریس علوی صاحب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
صورت مسئولہ میں شرعاً حنفی وشافعی ، دیوبندی ،بریلوی اور دیگر تمام مسالک کے نزدیک بیوی کی رضامندی کیساتھ رجوع کرنا قرآن وسنت کاحکم ہے اور حلالہ کی لعنت قرآن وسنت کے خلاف قطعی طور پر حرام ہے۔ قطعی دلائل یہ ہیں کہ
علامہ ابن قیم اپنی کتاب ” حکم رسول اللہۖ فی الخلع ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: وثبت بالسنة واقوال الصحابة أن العدة فیہ حےة واحدة و ثبت بالنص جوازہ بعد الطلقتین و وقوع ثالثة بعدہ و ھذا ظاہر جدا فی کونہ لیس بطلاق فانہ سبحانہ تعالیٰ قال:الطلاق مرتان فامساک بمعروف أو تسریح باحسان ولایحل لکم أن تأخذوا مما ء اتیتموھن شیئا الا ان یخافا االا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ]البقرة:٢٢٩[وھذا ان لم یختص بالمطلقة تطلیقتین فانہ یتناولہا غیرھما ولا یجوز أن یعود الضمیر اِلی من لم یذکر ویخلی منہ المذکور اِ ما ان یختص بالسابق أو یتنالہ و غیرہ ثم قال فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد وھذایتناول من طلقت بعد فدیة و طلقتین قطعاً لأنھا ھی المذکورة فلا بد من دخولھا تحت اللفظ وھکذا فھم ترجمان القرآن الذی دعا لہ رسول اللہۖ أن یعلمہ اللہ تأویل القرآن و ھی الدعوة مسجابة بلا شک زاد المعاد جلد ٤،ص١٧
اس عبارت میں حنفی مسلک کے خلاف خلع کو طلاق سے علیحدہ چیز بتایا ہے اوراس میں سنت، صحابہ کے اقوال اور قرآن کے نص کی دلیل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور عبارت کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ” آیت تحلیل میں مذکورہ عورت جس کو طلاق دی گئی ہو فدیہ اور دو مرتبہ طلاق کے بعد قطعی طور پر اسلئے کہ اس کو تحت اللفظ کے تحت داخل کئے بغیر چارہ نہیں اور اسی طرح کا فہم حضرت عبداللہ ابن عباس ترجمان القرآن ہے جس کو نبیۖ نے دعا دی تھی کہ اللہ اس کو قرآن کا علم دے اوروہ دعا بلا شک قبول ہوئی ہے۔ زادالمعاد ج4ص17
علامہ ابن قیم نے یہاں اس عبارت میں احناف کے مقابلے میں امام شافعی کے مسلک کی خلع کے حوالے سے حمایت کی لیکن پھر بھی فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ الآیہ کو اس سے پہلے فدیہ اور دومرتبہ طلاق کیساتھ ہی نتھی کردیا۔ اور اس کیلئے حضرت ابن عباس کے فہم کا حوالہ بھی دیدیا۔ جبکہ حنفی مسلک کی اصول فقہ کی کتابوں میں بھی اس آیت کو فدیہ کیساتھ ہی منسلک کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ اس آیت میں مذکور طلاق کا تعلق احناف کے نزدیک بھی فدیہ کی صورت سے ہی ہے۔
حضرت ابن عباس کی طرف یہ بھی منسوب ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دیتے تھے اور بعض شاگردوں نے یہ بھی کہا کہ جب کسی شخص نے پوچھا کہ میں نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی تھیں تو ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ اس کو اس کی بیوی لوٹادیں گے لیکن اس نے کہا تمہاری بیوی تم سے الگ ہوچکی ہے کیونکہ تو نے اللہ کا خوف نہیں کھایا اور جس چیز میں رعایت تھی اس کا غلط استعمال کیا۔
ابن عباس کے دونوں قسم کے فتوؤں کے تضاد میں یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع کا حکم ہے ا ور جب رجوع کیلئے راضی نہ ہو تورجوع حرام ہے اور یہ صرف آیت230البقرہ کا تقاضہ نہیں بلکہ آیت228،229اور231،232البقرہ اور سورۂ طلاق آیت1،2 کا بھی یہی حکم ہے۔ صورت مسئولہ میں عورت راضی ہو توحلالہ کئے بغیر رجوع کا حکم قرآن وسنت سے ثابت ہے اور عورت راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے رجوع حرام ہے۔ صحابہ کرام، ائمہ عظام کا قرآن کے واضح احکام پر اجماع تھا اور اسکو بعد میں نااہل لوگوں نے غلط رنگ میں پیش کرکے نااہلی کا ارتکاب کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک سے حلال کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہم نے فتویٰ جاری کیا ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

پاکستان اور دنیا بھر کے اکثر ممالک سے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے بہت سوں کو ہم نے فتویٰ دیا اور بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث علماء ومفتیان اپنے مسلک کے برعکس قرآن وسنت کی تائیدکر رہے ہیں

_ سورۂ طلاق اور حدیث پاک_
صفحہ نمبر ایک پر سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کا بالکل سادہ مفہوم لکھ دیا ہے تو کیا حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے؟۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب یہی ہے کہ دورجاہلیت میں مذہبی گدھوں نے طلاق کے شرعی تصور کا حلیہ بالکل بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک ایسی فضاء تھی کہ اس سے نکالنے کیلئے قرآن کریم کو ایک ایک بات پر زبردست وضاحتوں سے کام لینا پڑا تھا۔ جب ایک غلط چیز معاشرے میں سرایت کرجائے اور معاشرہ اس سے متأثر ہوجائے تو بہت مشکل پڑتی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے اللہ کی وحی کو بھی اپنی آخر حد تک جانا پڑتا ہے۔
حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو وہ آیت انہیں کافی ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! وہ کون سی آیت ہے؟۔ تو آپ ۖنے فرمایا:
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا (الطلاق:2) اور جو اللہ سے ڈرا تو اللہ اس کیلئے راستہ بناتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:4220، صحیح ابن حبان) تفسیر تبیان القرآن ،ج12، صفحہ69۔ علامہ غلام رسول سعیدی)
جب نبی کریم ۖ نے طلاق کی دوسری آیت کو اتنی اہمیت دی ہے تو اس میں صرف تقویٰ کی بات نہیں ہے کیونکہ تقویٰ کا ذکر تو بہت سی آیات میں ہے۔ سورۂ طلاق کی آیت2میں طلاق کے تمام مسائل کا حل ہے۔ جس میں قرآن کی وضاحتوں کے مطابق طلاق دینے اور پھر اس سے رجوع کیلئے راستہ کھلا رکھنے کا معاملہ ہے۔ پہلا معاملہ یہ ہے کہ طلاق مرحلہ وار دی جائے، دوسرا معاملہ یہ ہے کہ عورت کواس کے گھر سے نہ نکالا جائے اور نہ وہ خود نکلے۔ تیسرا معاملہ یہ ہے کہ عدت کی تکمیل تک پہنچنے پر معروف رجوع یا معروف الگ کرنے پر عمل کیا جائے ۔اور اس میں عورت کے مال کو تحفظ فراہم کیا جائے اور پھر بھی رجوع کے دروازے کو کھلا رکھا جائے اور یہ نبیۖ کا لوگوں کیلئے کافی ہونے کا فتویٰ ہے۔
حضرت رکانہ کے باپ نے رکانہ کی والدہ کو طلاق دی اور دوسری عورت سے شادی کرلی، اس نے رکانہ کے نامرد ہونے کی شکایت کردی تو نبیۖ نے فرمایا کہ رکانہ کے بچے اس سے کس قدر مشابہہ ہیں اور پھر اس عورت کو چھوڑنے کا حکم دیا اور حضرت رکانہ کی والدہ سے رجوع کا حکم فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی۔ ( سننن ابوداؤد شریف)
قرآن میں جتنی وضاحت کیساتھ طلاق اور اس سے رجوع کے احکام ہیں اور اس سے امت مسلمہ نے غفلت اختیار کررکھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بجا فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے رسول ۖ امت کے خلاف یہ شکایت فرمائیں گے کہ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ طلاق سے رجوع کیلئے سورۂ طلاق کی آیت2بھی امت کیلئے عمل کی کافی دلیل ہے۔کاش علماء ومفتیان اس پر عمل کا فتویٰ دیکر امت کا کافی بھلا کریں۔

_ قرآن کے تراجم میں گمراہی_
شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اورشیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی تفاسیر اور تراجم میں بھی تضادات ہی تضادات ہیں۔ اسی طرح مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا پیر کرم شاہ الازہری اور علامہ غلام رسول سعیدی کی تفاسیر اور تراجم میں تضادات ہی تضادات ہیں۔ اگر کسی ایک مکتب فکر ،مسلک اور فرقے کے علماء ومفتیان میں قرآن کے ترجمے پر بھی بنیادی تضاد ہو تو اس سے ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟۔
وجہ اس کی یہی ہے کہ قرآن کا سادہ ترجمہ اور تفسیر انکے مسلکوں پرپورا نہیں اترتی ہیں۔1973ء کو ہندوستان میں ”ایک مجلس کی تین طلاق ”پر سیمینارمنعقد ہوا۔ جس کی صدارت دیوبندی مکتب کے مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی ۔ اس میں جماعت اسلامی، بریلوی مکتب، اہلحدیث اور دیوبندی مکتب کے اکابر علماء و مفتیان نے شرکت کرکے اپنے اپنے مقالے پڑھے تھے اور یہ پاکستان سے بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ جس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کا کتا بچہ” دعوت فکر ” بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان میں حلالے کی لعنت سے جان چھڑانے کی زبردست کوشش کی گئی ہے اور اس کو ایک جرأتمندانہ اقدام قرار دیا گیاہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے تراجم اور تفاسیر میں جو بہت فاش غلطیاں کی گئیں ہیں تو ان کا ازالہ کئے بغیر امت مسلمہ کی درست رہنمائی ممکن نہیں ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ” آسان ترجمۂ قرآن ” میں عربی کے الفاظ میں بھی کھلم کھلا تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ اذابلغن اجلھن کے الفاظ قرآن میں متعدد بار آئے ہیں۔ سورہ ٔ بقرہ کی آیات231،232،234میںاور سورۂ طلاق آیت2میں ایک ہی لفظ کا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے مطلب کیلئے پہلی مرتبہ متضادترجمہ کیا ہے۔ تکاد السمٰوٰت ُ من فوقھن والملئکة یسبحون بحمد ربہم ویستغفرون لمن فی الارض (الشوریٰ آیت:5) کی تفسیر میں احمق نے لکھ دیا ہے کہ ” فرشتے اتنی تعداد میں آسمان میں عبادت کرتے ہیں کہ قریب ہے کہ آسمان ان کے وزن سے پھٹ جائے اور نیچے گر جائے”۔
جب سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر عوامی دباؤ پڑا تھا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ” تکملہ فتح الملہم ” اور”فقہی مقالات جلد4” سے اس کو روزنامہ اسلام اخبار اور ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں نکالنے کا اعلان کردیا تھا۔ گھوڑے کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے اور گدھوں کو مارپیٹ اور تشدد سے راستے پر لایا جاتا ہے۔ قرآن میں توراة کی تحریف کے مرتکب یہود کے علماء کی مثال بھی گدھے سے دی گئی ہے۔اردو میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کی ماں بہن ایک کردی ہے۔ یعنی اس گالی کو کسی کی حالت بری کردینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پشتو زبان میں کسی کی حالت بری کرنے کیلئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ اسکی بیوی……… دی ہے۔ حلالہ کے نام پر علماء ومفتیان نے امت مسلمہ کیلئے وہی عمل کردیا ہے جو پشتو کی گالی ہے۔ اسلام کے نام پر کسی کو بیوی کی لعنت کا شکار کرنے سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ مگر امت پھر بھی غیرت نہیں کھاتی ہے۔

قرآن کریم کے بہت واضح حقائق
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کے ترجمے وتفسیر میں بھی علماء ومفتیان اور نام نہاد اسلامی دانشوروں کے تضادات ہی تضادات ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کا مسلک، عقیدہ اور نظریہ قرآن کے الفاظ پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اپنے لئے قرآن کے الفاظ کا مفہوم بدلنا کتنی بڑی گمراہی ہے؟۔ علامہ اقبال نے کہا: خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک دو رکوع کے مضامین اور232تک جتنی وضاحتوں کیساتھ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مسائل بیان فرمائے ہیں اور طلاق سے رجوع کیلئے جس طرح کی بھرپور وضاحتیں کردی ہیں،اگر قرآن کے مسائل کو قرآن ہی کے ذریعے سمجھنے کو اولیت دی جائے، جس طرح فقہ حنفی میں درسِ نظامی کی تعلیمات کادرست خلاصہ بھی ہے توپوری دنیا میں ہدایت کا ایک ایسا انقلاب آسکتا ہے جس کی خوشخبری رسول اللہۖ نے فرمائی ہے کہ اس سے آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ یہ دنیا کی پہلی خلافت اور نبیۖ کا وہ خواب ہوگا جو کھلی آنکھوں سے نبی کریم ۖ کو اللہ نے معراج میں دکھایا تھا۔ جس مشاہدے میں نبیۖ نے تمام انبیاء کرام کی بیت المقدس میں امامت کی تھی۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں واقعہ معراج کا ذکر ہے ۔ اللہ نے قرآن وسنت کے ذریعے اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ دلانا ہے۔ جس کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت60میں دوچیزوں کو امت کی آزمائش قرار دیا گیا ہے ،ایک نبیۖ کے خواب کو جو دن کے غالب کرنے کا وژن تھا اور دوسرا قرآن میں شجرۂ ملعونہ کو آزمائش کا سبب قرار دیا گیاہے ۔
سورۂ بقرہ کی230میں جس طلاق کے بعد حلالہ کئے بغیر پہلے شوہر سے رجوع نہ کرسکنے کی کھلی وضاحت ہے تو یہ امت کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر اس سے پہلے کی آیات228،229اور بعد کی آیات231اور232کو نظر انداز کرکے حلالہ کی لعنت کا حکم دیا جائے توپھر یہ امت مسلمہ کیلئے بہت بڑی خرابی، قرآن کو چھوڑنے کے علاوہ بہت بڑی بے غیرتی کا باعث ہے۔ اُمت مسلمہ کے زوال کی ابتداء وہاں سے شروع ہوئی تھی جب سورۂ نور کی آیات میں لعان کے حکم پر اسلئے عمل نہیں کیا گیا کہ مشرقی غیرت کے تقاضوں کے خلاف تھا اور اس کے زوال کی انتہاء اس وقت شروع ہوئی کہ جب قرآن میں شجرہ ملعونہ کے ذکر حلالہ کی لعنت کو سیاق وسباق کے بغیر لوگوں پر مسلط کیا گیا اور بے غیرت لوگوں نے قرآن وسنت کی طرف توجہ کرنے کی جگہ اپنی بیگمات کی عزتیں بھی پہلے چھپ کر اور اب کھل کرلٹواناشروع کردیں۔
سورہ بقرہ کی ان آیات میں اول سے آخر تک باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کرنے کی زبردست گنجائش بلکہ واضح حکم ہے اور حلال نہ ہونے سے پہلے وہ صورت ہے جس میں نہ صرف میاں بیوی بلکہ جدائی کا فیصلہ کرنے والے سب لوگ اس پر اتفاق کریں کہ آئندہ رابطے کی بھی ان دونوں میں کوئی صورت باقی نہ رہے، جس میں صلح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔

_ بے غیرتی کی انتہاء کا یہ آغاز_
آج سے تقریباً21،22سال پہلے جب میں جامعہ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں پڑھتا تھا تو طلاق اور حلالے کے فتوے نام کے بغیر دئیے جاتے تھے۔ ایڈریس کیساتھ حلالے کا فتویٰ بہت قریب کے دور میں شروع ہوا ہے۔ کس کی بیوی کا حلالہ ہوا؟۔ کس کی تحویل میں کس نے حلالہ کیا؟۔ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں پڑتی تھی۔ شرافت رکھنے والے علماء اور عوام اس کا تذکرہ بھی بہت معیوب سمجھتے تھے۔ پھر کھلم کھلایہ بے غیرتی شروع ہوئی اور حلالہ سینٹروں کی دنیا بھر میں بھرمار ہوئی اور مدارس کے علماء ومفتیان نے ایڈریس اور شناختی کارڈ کیساتھ فتوے دینے شروع کردئیے۔
1947سے1988تک پاکستانIMFکے قرضے سے آزاد تھا اور پھر2004سے2008تک پھرIMFکے سودی قرضوں کا غلام بن گیا۔ ”موت کا منظر ”نامی کتاب بہت عام ہے اور سن1970ء کی دہائی میں مجھے اس کے پڑھنے کا موقع ملا تھا، اس میں زنا بالجبر کی سزا کا ذکر ہے کہ نبیۖ نے ایک عورت کی گواہی قبول کرکے اس شخص کو سنگسار کرنے کا حکم دیا جس نے اس کا ارتکاب کیا تھا۔ قرآن کی سورۂ احزاب میں بھی عورتوں کی بے حرمتی کرنے پر ملعونوں کو جہاں پایا جائے ،ان کو پکڑ کر قتل کرنے کی سزا کا حکم پہلی امتوں کے حوالے سے بھی اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے۔ جب کوئی اپنے مال پر ڈاکہ ڈالنے والے ڈکیت کو قتل کرتا ہے تو داد پاتا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ اگر گھر میں داخلے پر چور کو قتل کیا جائے تو اس کا گھر والے کو حق ہے۔ پھر کون اتنا بے غیرت ہوگا کہ کسی عورت کی عزت زبردستی سے لوٹی جائے اور وہ عدالتوں سے سزا دلوانے کیلئے4گواہوں کو پیش کرے؟۔ ایسے لوگوں کو قتل کرنا ہر قوم ومذہب اور ہردور کا تقاضہ تھا۔ جس قانونِ فطرت کی قرآن نے بھی وضاحت کردی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جسٹس مفتی تقی عثمانی نے حدود آرڈنینس کے نام پر ”یہ قانون” بنایا تھا کہ ” اگر کسی عورت پر زنا بالجبرہو اور اس کے پاس4باشرع مرد صالح گواہ نہیں ہوں تو اس کو حدقذف کے تحت سزا دی جائے گی”۔ جب پرویزمشرف کے دور میں بہت سی خواتین اسلئے جیل میں بند تھیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف شکایت کی تھی تو اس قانون کو بدل دیا گیا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور جماعت اسلامی نے پمفلٹ شائع کرکے شور شرابہ کرنیکی کوشش کی تھی مگر میں نے اس کا مدلل جواب لکھ کر خاموش کردیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے ۔2006ء میں یہ قانون تبدیل ہوگیا مگر اب پھر جناح کے مزار میں زیادتی کا شکار ہونے والی پنجاب کی بیٹی کے مجرموں کو اسی پہلے قانون کے تحت باعزت رہا کردیا گیا ہے، حالانکہ اس عورت نے مجرموں کو پہچان لیا تھا اور ان کاDNAسے بھی ثبوت ملا تھا۔ عالمی دباؤ کے تحت اگر قرآن وسنت کے مطابق پاکستان جبری زیادتی کرنے والوں کو قتل اور سرِ عام سنگسار کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تو کم ازکم حلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کی جان چھڑانے میں کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں ہے۔ اندر ونی صفحات پر تسلی بخش دلائل ملاحظہ کریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کے مسائل کا بگاڑ۔ مولانا فضل الرحمان ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ علمائے دیوبند اور بریلوی پہل کریں۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر3
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

اب ہم کو قرآنی آیات اور طلاق سے رجوع کے احکام کو نظر انداز کرنے کی روش سے کھل کر توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے

جب ایک عورت پر حلالہ کی مصیبت پڑتی ہے تو اس کے پاؤں سے زمین بھی نکل جاتی ہے اور آسمان بھی سایہ فگن نظر نہیں آتا ہے۔ جب حضرت مریم نے بچے کی خوشخبری سنی تھی تو اس نے فرمایا تھا کہ ” کاش مجھے ماں نے جنا نہیں ہوتا اور میں نسیاً منسیا بھولی بسری بن جاتی”۔ حال ہی میں جب ایک19سالہ لڑکی کو ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا مژدہ سنایا گیا تو اس نے خود کشی کرلی تھی۔ جس عورت کا حلالہ کیا جاتا ہے تو وہ اور اسکے خاندان والے ویسے بھی زندہ زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں دو قسم کے لوگ تھے ،ایک بے غیرت تھے جن کی خواتین سے ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر حلالہ کی لعنت کروائی جاتی تھی اور دوسرے غیرتمند خاندان ہوتے تھے جن کی بیویوں کو ایک ساتھ تین طلاق پر اپنے شوہروں سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیا جاتا تھا۔ جن عورتوں کا حلالہ کروایا جاتا تھا ،ان کا معاملہ اور مثال زندہ دفن کرنے کے مترا دف ہی ہوتا تھا۔
قیامت میں ہمیشہ کیلئے جدا کئے جانے والوں کو ملایا جائیگااورزندہ دفن کئے جانے والی سے پوچھا جائیگا کہ کیوں زندہ دفن کیا گیا؟۔ واذا النفوس زوجتOواذالمو ء ودة سئلتOبای ذنب قتلت۔ آج یہاں دوبارہ دورِ جاہلیت کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ کسی مولوی، کسی لیڈر اور کسی بڑے شخص کی بیگم ، ماں، بیٹی اور بہن یا کسی قریبی رشتہ دار کا حلالہ کروایا جائے تو اس کو یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ زمین میں زندہ دفن ہونے کے مترادف ہے یا نہیں؟۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو اَنعام یعنی چوپاؤں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ جن وحشیوں کے نزدیک حلالہ کی لعنت ایک سزا ہے اور جرم مرد کرتا ہے اور اس کی سزا عورت کو ملتی ہے تو ان وحشیوں کو ایک دفعہ یہاں بھی جمع کرنا چاہیے تاکہ قیامت سے پہلے ایک قیامت اور جزا وسزا کا میدان سج جائے۔
کیا کوئی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شوہر کے جرم میں اس کی بیوی کو کسی اور شوہر کے ذریعے ریپ کرنے کی سزا دے سکتا ہے؟۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے تمام حدود معطل ہیں۔ زانی، چور، ڈکیت ، قاتل اور زنابالجبر کے مرتکب کو کوئی سزا نہیں دی جاتی ہے لیکن حلالہ کی لعنت کو شرعی سزا کے طور پر جاری رکھا ہواہے۔ ایک عرصہ سے مختلف کتابوں ،اخباراور ویڈیو کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز سے یہ کام لیا ہے جس پر اللہ کے اس بڑے فضل کا بہت شکرادا کرتا ہوں لیکن بڑے بڑے لوگ میدان میں کیوں نہیں آتے ہیں؟۔ پاکستان میں اہل حق کا دعویٰ کرنے والے اور بھی بہت لوگ ہیں مگر اس طرح سے ہمارا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ میرے چند ساتھی ہی میرا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ہمارامشن اتنا بڑا ہے جتنا ہم اپنے اللہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور ہمارا مشن قرآن ہے جس کو رب العالمین نے اتارا ہے اور ہمارا نبی خاتم النبیین ۖ ہیں جو رحمة للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ حلالہ ایک لعنت اور زحمت ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ ” اپنے عہدوپیمان کو ڈھال مت بناؤ کہ نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ البقرہ : آیت224
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام الفاظ اور عمل کو نیست ونابود کردیا ہے جو میاں بیوی کے درمیان صلح کے اندر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کا سبب بن جائیں۔ اس سے اگلی آیات میں الفاظ کی جگہ دل کے گناہ پر پکڑکی وضاحت ہے اور پھر طلاق کا اظہار کئے بغیر عورت کے انتظار کی عدت چار مہینے بتائی گئی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم تھا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت کی عدت میں ایک مہینے کا اضافہ ہے اور اگر طلاق کااظہار کردیا توپھر عورت کی عدت تین مہینے ہے۔ دیکھئے آیات225،226،227،228
اللہ کیلئے عورت کی عدت میں بے جا ایک مہینے کا اضافہ بھی قابل قبول نہیں ہے اسلئے کہ اگر طلاق کا ارادہ تھا لیکن اسکا اظہار نہیں کیا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔
احناف کے نزدیک چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا۔ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کے الفاظ کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا تو شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت اس کے نکاح میں ہی رہے گی۔ جمہور نے تو چار مہینے کی وضاحت کا لحاظ بھی نہیں رکھا تھا اسلئے ان کی گمراہی میں شک کی گنجائش بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن احناف نے بھی چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق پڑنے کا مسئلہ بنایا ہے جس کے بعد عورت کو مزید عدت بھی گزارنی پڑے گی اسلئے وہ حق کے قریب ہونے کے باوجود بھی گمراہی کا راستہ نہیں بھولے ہیں اور امام مہدی کے انتظار میں ہدایت کے منتظر ہیں۔
بڑی ضلالت اور گمراہی یہ ہے کہ قرآن کی وضاحت کے باوجود اتنے بڑے تضادات کا کیسے شکار ہوئے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کی عدت کا تعین کیا ہے اور عورت ہی کا حق بیان کیا ہے لیکن یہ الو کے پٹھے اس بات پر لڑتے ہیں کہ شوہر کا حق استعمال ہوا ہے کہ نہیں؟۔ اگر یہ اس بات پر توجہ دیتے کہ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کے حق کا ذکر کیا ہے تو اس روشن آیت پر تضادات تک نوبت نہ پہنچتی۔ جب عورت کی عدت بیان ہوئی ہے تو پھر عورت کیلئے چار ماہ کا انتظار ضروری ہے اور اس میں بھی عورت کی رضامندی سے ہی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت مکمل ہونے کے بعد اگر عورت پھر بھی اسی شوہر کیساتھ رہنا چاہتی ہو تو اوراس کا شوہر بھی راضی ہو تو کتنی ہی مدت گزرجائے تونکاح بحال ہے اور اگر عورت عدت کی تکمیل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو اس شوہر کیلئے پھر عورت پر پابندی لگانا حرام ہے اور اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ دوسرے شوہر ہی سے عورت اپنی مرضی سے نکاح کرلے۔ جس طرح بیوہ عورت کی مرضی ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد اپنے مردہ شوہر سے نکاح بحال رکھنا چاہتی ہے یا پھر نئے شوہر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرتی ہے۔ اسی طرح ناراضگی کابھی اسے بدرجہ اولیٰ یہی حکم ہے۔ کاش قرآن کے احکام کو سمجھ کر فیصلے کئے جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت228میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے ایک حیض کی صورت میں عدت کے تین مراحل تک عورت کو انتظار کا حکم دیا ہے اور حمل کی صورت میں حمل کو چھپانے سے منع کیا ہے اسلئے کہ پھر عدت حمل ہے۔ دوسرا یہ کہ عدت کے دوران شوہر کو اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تیسرا یہ کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق کو برابر قرار دیا گیا ہے لیکن مردوں کو ان پر ایک درجہ عطاء کیا گیا ہے۔ ایک درجہ یہی ہے کہ عورت کی عدت ہوتی ہے اور مردکی عدت نہیں ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ دو، تین اور دس درجات نہیں دئیے گئے۔
آیت کا پہلاتقاضہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں تین مرتبہ طلاق کا فعل خود بخود وارد ہوگا اور حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل اور تین مرتبہ طلاق کے فعل کا کوئی اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری کی احادیث میں نبیۖ نے یہی وضاحت فرمائی ہے جو کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں موجود ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں بھی اسی کی وضاحت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229میں الطلاق مرتان کے بعد تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں تضادات کی جھک ماری گئی ہے۔
آیت229البقرہ میں تینوں طلاق قرآن واحادیث اور انسانی فطرت سے ثابت ہیں کیونکہ قرآن وسنت میں طلاق کو ایک فعل بتایا گیا ہے اور پہلی مرتبہ کا طہر و حیض عدت کا پہلا مرحلہ اورپہلی مرتبہ کی طلاق ہے، دوسری مرتبہ کا طہروحیض عدت کا دوسرا مرحلہ اور دوسری مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسری مرتبہ کاطہروحیض عدت کا تیسرا مرحلہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ لیکن ان تینوں مرتبہ کی طلاق سے بھی حرمت غلیظہ ثابت نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے دوسرے شوہر سے اس کا نکاح کرانا ضروری ہو۔ احناف کے نزدیک البقرہ آیت226کے چار مہینے میں طلاق کااظہار کئے بغیر بھی طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے اور اگر عورت حیض والی ہو تو تین مرتبہ کی جگہ چار مرتبہ طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے لیکن اس سے حرمت مغلظہ ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حرمت مغلظہ کا سبب ہی قرآن میں کچھ اور ہے۔
امت کی بڑی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ آیت229میں تین مراحل کے اندر تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا ذکر ہے کہ ان کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے بھی اپنی نری جہالت کی وجہ سے عورت کی طرف سے اس مجبوری کے فدیہ کو خلع کا معاوضہ قرار دیا ۔ حالانکہ یہ کتنی بھیانک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ طلاق کے بعد یہ وضاحت کی ہے کہ شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ یہی بات سورۂ النساء کی آیات20اور21میں طلاق کے حوالے سے اللہ نے کی ہے اور خلع کا حکم سورہ النساء آیت19میں بالکل واضح ہے۔آیت229البقرہ میں تین مرتبہ طلاق کے بعددی ہوئی کسی بھی چیز کو واپس لینا حلال نہ ہونے کی وضاحت ہے لیکن اس صورت میں یہ استثناء ہے کہ جب اس چیز کی وجہ سے دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے، اور اس کاتعلق دونوں کے میل ملاپ سے ہے۔ جب عورت اور شوہر کا ازدواجی تعلق ختم ہوجائے تو پھر شوہر کی دی گئی کسی چیز کی وجہ سے میل ملاپ اور دونوں کا اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ کس قدر کم بختی اور بدقسمتی کی بات ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کو تحفظ فراہم کیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے فعل اور علیحدگی کے حتمی فیصلے کے بعد عورت سے شوہر وہ کوئی بھی چیز نہ لے جو اس نے دی ہو لیکن مذہبی طبقہ اسی بات کو خلع اور عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنارہاہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ آیت226البقرہ کی عدت میں بھی باہمی رضامندی کے بغیر عورت کو رجوع پر زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اورآیت228البقرہ میں بھی طلاق کے بعدصلح کے بغیر عورت کو زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو یا تین طلاق اور تین مرتبہ کی طلاق کیونکہ اس سے رجوع کا تعلق عدد سے نہیں بلکہ عدت کی مدت سے ہے۔ البتہ عورت سے صلح کئے بغیر رجوع کرنا شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ آیت229میں بھی معروف طریقے کی رجوع سے صلح کی شرط پر رجوع مراد ہے۔ اور صلح کی شرط کے بغیر نہ ایک مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دومرتبہ کی طلاق کے بغیر۔ اور صلح کی شرط کیساتھ تین مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کرنے کی ممانعت نہیںہے اور جس چیز کے حلال نہ ہونے کا حکم ہے وہ شوہر کی طرف سے دیا گیا مال ہے۔
جب آیت229میں وہ صورتحال بیان کی گئی ہے کہ جب دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس بات کو پہنچ جائیں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے تو سوال رجوع کرنے یا نہ کرنے کا نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علیحدگی وطلاق کے بعد پہلا شوہر اس عورت کو اپنی مرضی سے جس سے بھی چاہے نکاح کی اجازت دے سکتاہے؟۔ انسان کی غیرت اور فطرت گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیوی اور بچے کی ماں اس طلاق کے بعد اڑوس پڑوس یا قریبی رشتہ داروں اور احباب سے نکاح کرلے۔ کیونکہ یہ غیرت انسانوں کے علاوہ چرندوں ، پرندوں اور وحشی درندوں میں بھی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مردانہ غیرت سے کسی بھی طلاق کے بعد عورت کو زبردست تحفظ دے دیا ہے۔
جن الفاظ سے تحفظ دیا ہے وہ بھی کمال کے ہیں اور اس وجہ سے بہت زیادہ خواتین نے ظالم وجابر اور بہت زیادہ طاقتورمردوں سے چھٹکارا پایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بنوں کی سوشل میڈیا پر ایک مولوی کے خلاف زنا بالجبر کا کیس مشہور ہوا تھا جس نے کسی عورت سے اس کی اجازت کے بغیر حلالے کا ارتکاب کیا تھا اور اس وجہ سے اس مولوی کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کیس کی تحقیقات کرکے اس کو پوری دنیا کے سامنے بھی لاسکتے ہیں۔
آیت230میں اس طلاق کے بعد عورت کا دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو آیت229کی صورتحال سے نتھی کرنا درست ہے ۔ فقہ حنفی، علامہ ابن قیم اورحضرت عبداللہ بن عباس کی طرح قرآن کے فہم کا یہی تقاضا ہے جس کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس آیت230میں بھی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد پہلے شوہر اور اس عورت کا اس شرط پر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب دونوں کو یہ گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ اسلئے کہ دوسرے شوہر سے ازوداجی تعلقات کے بعد پھر جب اس کو طلاق دی جائے تو اس عورت کا دوسرے شوہر سے تعلق نہ بنے اور پہلاشوہر اس کو پھر قتل نہ کردے۔ یہ پوری طرح اطمینان ہونا چاہیے کہ پہلے شوہر کے مقابلے دوسرے شوہر کی جسمانی، مالی اور ہر لحاظ سے کیفیت ایسی نہ ہو کہ عورت بھی اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکے اور شوہر بھی اس کو غیرت کے نام پر پھر اس کو قتل کردے۔
قرآن نے اپنی آیات بینات کے ذریعے سے معاشرے کی تمام برائیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدت کے اندر باہمی صلح واصلاح سے بہر صورت اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا تھا لیکن کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے؟۔ فقہ حنفی میں فدیہ جملہ معترضہ نہیں ہے بلکہ آیت230کی طلاق سے مربوط ہے۔ اور آیت229میں دومرتبہ کے طلاق کا تعلق ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اگلے جملے سے بنتاہے جس میں فامساک بمعروف او تسریح باحسان کی ف تعقیب بلامہلت ہے۔ اسلئے اس تین مرتبہ کی طلاق کے بعد عدت کی تکمیل سے معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش واضح تھی اور پھر ایک خاص صورتحال کا ذکر کیا گیا کہ اس طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کرلے۔ پہلی آیات میں بھی یہ واضح تھا کہ صلح واصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن جب تک سمندر کے شکاریوں کی طرح مچھلیوں کو جھینگا نہیں پھینکا گیا تو مولوی قرآن کی آیات کا شکار نہیں ہوئے اور نہ اُمت مسلمہ ان کا شکار بن گئی لیکن جونہی حلالے کا جھینگا پھینک دیا گیا فوری طور پر مولوی اس کا شکار ہوگیا۔ ویسے تو قرآنی آیات کو پوچھتا تک نہیں ہے لیکن حلالے پر ایسی ایسی منطقیں گھڑ دی ہیں کہ شیطان بھی عورت کی اس توہین پر مولوی کو نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن پھر اللہ نے اگلی آیات231اور232میں جس طرح عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھولا ہے۔ جس کے سامنے مولوی کا سارانام نہادفقہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ثابت ہوتا ہے۔

مسائل طلاق کی بہت بگڑی حالت
میرے کزن ، بچپن سے دوست اور ہر دلعزیز شخصیت سید عبدالوہاب شاہ گیلانی نے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان اور اس بد حالی کی صورتحال پر کہا کہ ”پاکستان بھی کرائے کی سائیکل ہے جس پر مختلف لوگوں کو حکمرانی سکھانا جاری ہے، اب یہ کرائے کی سائیکل عمران خان کو دی گئی ہے کہ تم اس پر سیکھو۔ اس سے پہلے محمد خان جونیجو، شوکت عزیز، ظفراللہ جمالی ، نوازشریف، بینظیر بھٹو، زرداری اور سب نے اس پر سیکھا ہے ، اب خیر ہے عمران خان بھی سیکھ لے گا”۔
جو صورتحال پاکستان کے حکمرانوں کی ہے جنہوں نے سودی قرضوں سے ملک وقوم کوIMFکے ہاتھوں گروی رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور پہلے ادوار میں موٹرویز بنائے تھے جن میں ایکسیڈنٹ کے خطرات نہیں ہوتے تھے اور لانگ روٹ کی گاڑیوں کومقامی گاڑیوں سے بالکل الگ کرنا انسانی جانوں کے خوامخواہ کے نذرانے پیش کرنے سے بچانے کیلئے ضروری تھا لیکن حیدر آباد اور کراچی کی سپر ہائی وے کو موٹر وے میں بدلنے کے بعد یہ ایک خواب بن گیاہے اور ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ لاہور اسلام آباد جی ٹی روڈ میںبھی لانگ روٹ کی گاڑیوں پر پابندی لگائی جاتی لیکن نوازشریف کے قافلے میں حادثاتی موت کو بھی شہادت کا درجہ دیا گیا تھا کیونکہ مجھے کیوں نکالا کے پاس کوئی شہادت نہ تھی۔
اسلام کا بھی مختلف ادوار میں فقہاء اور علماء نے وہی حال کیا ہے جو پاکستان کی موٹروے کا حیدر آباد سے کراچی اور متوقع طور پر سکھر سے حیدرآباد تک دکھائی دیتا ہے۔ لیاقت علی خان ، محمد علی بوگرہ،سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، نوازشریف سے عمران خان تک اچھے برے لوگوں نے اقتدار کی کرسی سنبھال کر پاکستان سے کچھ لیا اور کچھ دیا ۔ اس طرح اسلام کی بھی علماء ومشائخ نے بہت خدمت بھی کی ہے اور نقصان بھی پہنچایا ہے۔
مدارس عربیہ کی بات میں نہیں کرتا ہوں کیونکہ مدارس عربیہ کا سب سے بڑا کریڈٹ قرآن کے الفاظ ، عربی تعلیم اور دین کی حفاظت ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں ۔ لکیر کے فقیروں کو اس میں مویشی منڈی کی طرح ڈال دیا جاتا ہے اور وہاں مفت میںکھانے ، پینے اور ہگنے کیساتھ ساتھ چندوں کے نام پر اپنا کاروبار کرنے والوں سے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی جاتی ہے تاکہ بیروزگار طبقے کو مذہب کے نام پر تھوڑا بہت روزگار مل جائے۔ میں بھی رسیاں توڑ کر نہیں جاتا تو مجھے اپنے گھر والے مدارس میں تعلیم کی اجازت کبھی نہیں دے سکتے تھے۔
سرکاری خزانوں سے نوازے جانے والے شیخ الاسلاموں اور ملاؤں کی تاریخ بہت لمبی ہے اور سکہ رائج الوقت کی طرح فتویٰ انہی کا چلتا ہے۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے مسائل طلاق پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں فقہ کے تمام مسالک کے بنیادی مسائل بیان ہوئے ہیں اور اس سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بانیانِ فقہ نے اسلام کیساتھ کس طرح کا مذاق کیاہے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کیلئے جن آیات سے استدلال کیا گیا ،ان پر بھی مختلف مذاہب یا مسالک کا اتفاق نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کا جو تصور دیا گیا ہے اس سے قرآنی تعلیمات کے بنیادی ڈھانچے کا بیڑہ غرق ہوتا ہے اسلئے کہ دو مرتبہ کی طلاق رجعی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کو ایک عدت کا عورت پر حق حاصل نہیں بلکہ تین عدتوں کا حق حاصل ہے کیونکہ شوہر طلاق دیکر ایک مرتبہ رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے تو وہ طلاق دے اور جب عورت کی عدت پوری ہونے کے قریب ہو تو رجوع کرلے۔ اس طرح ایک عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری اور پھر تیسری مرتبہ عدت کے آخر میں رجوع کرنے کے بعد عورت کو تیسری عدت گزارنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

قرآنی طلاق کی سدھری حالت تھی
جب دو مرتبہ طلاق رجعی کے غلط تصور سے قرآنی آیات میں عدت کی مدت کا بہت کباڑہ ہوجاتا ہے تو اکٹھی تین طلاق سے ایک طلاقِ رجعی مراد لینے کا اس سے بھی زیادہ بھیانک تصور ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے مطابق صلح کی شرط کیساتھ رجوع کو منسلک کیا جائے تو پھر دونوں صورتوں میں کسی خرابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ہے۔ طلاق ایک مرتبہ کی ہو، دومرتبہ کی ہو یا تین مرتبہ کی ہو۔ ایک طلاق کا تصور ہویادو طلاق کاتصور ہو یا تین طلاق کا تصور ہو لیکن رجوع کیلئے صلح واصلاح اور معروف طریقے سے باہمی رضامندی کو شرط قرار دیا جائے تو پھر کسی قسم کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اصل سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اصل علت باہمی رضامندی اور صلح واصلاح ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے اور بعض آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ایک طرف عدت کے اندر ہی رجوع کی گنجائش رکھ کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد عورت کیلئے دوسرے سے شادی کرنا بھی جائز ہے اور دوسری طرف عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط اور باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش رکھ دی گئی ہے تاکہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی جتنا عرصہ گزرے تو رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں بھی عورت اور اس کے شوہر کو رجوع کی گنجائش دی گئی ہے۔
کہاں قرآن کریم کی یہ وسعت اور کہاں فقہاء کی تنگ نظری ؟۔
مسئلہ٢٦:بچے کا اکثر حصہ باہر آچکاتو رجعت نہیں کرسکتامگر دوسرے سے نکاح اسوقت حلال ہوگا کہ پورا بچہ پیدا ہولے۔ ( رد المختار ، الطلاق ج5ص193نعم الباری شرح بخاری ج10ص766شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی)
دارالعلوم کراچی سے یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ حاجی عثمان کے معتقد کا اس کے مرید کی بیٹی سے نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن بہتر ہے کہ ان کے حالات سے اس کو آگاہ کردیں اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے یہ فتویٰ آیا تھا کہ جن باتوں کو حاجی محمدعثمان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر وہ باتیں ان میں نہیں ہیں تو علماء کا فتویٰ بھی ان پر نہیں لگتا ہے لیکن نکاح تو بہرحال جائز ہے۔ پھر مفتی رشید احمد لدھیانوی کے نالائق شاگردوں نے استفتاء اور اس کا جواب خود مرتب کرکے لکھا کہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ ”نکاح جائز نہیں ہے گو کہ منعقد ہوجائے”۔
جب ہم نے اکابر ین کے حوالے سے نام لئے بغیر فتویٰ لیا تھا تو یہ لوگ معافی مانگنے کیلئے دوڑے لگارہے تھے اور اس وقت مولانا فضل الرحمن نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ” دنبہ آپ نے لٹادیا ہے اور چھرا آپ کے ہاتھ میں ہے ،ان کو ذبح کردو، اگر یہ ٹانگیں ہلائیں گے تو ہم پکڑ لیں گے” اور مفتی محمد تقی عثمانی نے وکیل کے جواب میں کہا تھا کہ ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے لیکن جب ہم نے چھوڑ دیا توپھر ان لوگوں نے اپنی خباثت کی انتہاء کردی۔ البتہ ہمارے لئے اس میں سب سے زیادہ خیر تھی اسلئے کہ اس دھکے سے ہمارے اندر لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اپنی بیگم کو اسوقت طلاق دی تھی جب مفتی محمد رفیع عثمانی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور پھر جب بالکل وہ آدھا ماں کے پیٹ کے اندر اور آدھا ماں کے پیٹ سے باہر نکل چکے تھے تو اس کا رجوع کرنا درست تھا یا نہیں تھا؟۔ اور اس کے بعد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس رجوع کے بعد اسی عورت کے پیٹ سے جنم لیا ہے تو اس کی حیثیت جائز ہے یا ناجائز؟۔ سودکو جواز بخشنے سے کیا سودی نظام جائز بن جائے گا؟۔ بینوا وتوجروا۔

مولانا فضل الرحمن انقلابی شخصیت؟
مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی کہتے ہیں کہ وہ مفتی نہیں ہے اسلئے طلاق کے مسائل پر اپنی رائے نہیں دے سکتے ہیں اور مفتی شاہ حسین گردیزی نے کہا ہے کہ میں طلاق کے حوالے سے فتویٰ نہیں دیتا ہوں۔ دارالعلوم کراچی کے مفتی عصمت اللہ شاہ نے بھی طلاق کے مسائل پر فتویٰ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی محمد نعیم نے ملاقاتوں میں طلاق کے مسائل پر اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ اور وفات سے قبل مفتی زر ولی خان سے بھی میں نے ملاقات کی تھی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بہت سے مسائل پر اتفاق ہے لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا لیکن میں نے ملاقات اور آئندہ وقت دینے کی درخواست کی تھی جس پر انہوں نے بہت خوش دلی کے ساتھ فرمایا تھا کہ ” بالکل ! چشم ماروشن دل ماشاد” اور ملاقات کے بعد میری بہت تعریف بھی اپنے شاگرد سے کی تھی اور میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا لیکن وہ پہچان گئے تھے۔ وہ جرأت مند انسان تھے ۔ میں نے اپنی کتاب ‘ ‘ عورت کے حقوق ” میں ان کا خاص طور پر تذکرہ بھی کیا تھا۔
اپنے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی خدمت میں بھی حاضری دی تھی اور انہوں نے مجھے تحفے میں عطر بھی عنایت فرمایا تھا۔ اپنی تحریک کیلئے دعا لینے مولانا خان محمد کندیاں امیر عالمی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت، مولانا سرفراز خان صفدر ، مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ ، مولانا عبدالصمد ہالیجی، امروٹ شریف شکار پوراور مولانا عبداللہ درخواستی صاحب سے دعائیں لی تھیں اور میرے استاذشیخ الحدیث مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید میرے مرشد حاجی عثمان سے فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے اور مولانا حبیب الرحمن درخواستی صاحب ، مولانا محمد مکی حجازی، مولانا سیف الرحمن جامعہ صولیہ مکہ مکرمہ ، مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ، مولانا سید محمد بنوری، مفتی محمد نعیم سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کی طرف سے فتوے کے بعد بھی حاجی عثمان سے ملنے آئے تھے۔ ٹانک کے اکابر علماء مولانا فتخ خان، مولانا عبدالرؤف گل امام ، مولانا عصام الدین محسود جمعیت علماء اسلام( ف) ، مولانا شیخ محمد شفیع شہید جمعیت علماء اسلام (س) مولانا غلام محمد مکی مسجد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، قاری محمد حسن شکوی شہید وزیر گودام مسجد ٹانک اور ملک بھر سے مختلف مکاتب کے علماء کرام کی طرف سے تائیدات کا ایک بہت ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ جس کو کتابوں اور اپنے اخبار میں شائع بھی کردیا ہے۔ حضرت شیخ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے دادا تک علماء ومشائخ کا ایک سلسلہ تھا اور میں نے پھر دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے۔
حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں35سال لگائے تھے اور ان کا مدعا یہ تھا کہ اکابر بھی عوام کیساتھ نشست وبرخاست، کھانے پینے اور وقت لگانے میں گھل مل جائیں۔ جس وقت تقریر کررہے ہوں تو منبر ومحراب اور اسٹیج پر لیکن عام حالت میں عوام کیساتھ سامعین کی نشست میں بیٹھ جائیں۔ جس سے ان کی بھی اصلاح جاری رہے گی۔ اگر تبلیغی جماعت اس مرد قلندر کی بات پر عمل کرتی تو پھر عالمی مرکز بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ میں امیر کے مسئلے پر تفریق پڑنے تک نوبت نہیں پہنچ سکتی تھی۔ مرز اغلام احمد قادیانی ایک نبی اور مھدی تو بہت دور کی بات ہے ایک اچھا انسان بھی نہیں تھا اسلئے کہ محمدی بیگم کے حوالے سے اس نے جھوٹی وحی کے ذریعے بہت گری ہوئی حرکت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا اگر انقلابی بننے کا پروگرام ہے تو پہلے فقہ کے نام پر قرآن وسنت اور فطرت سے دوری کا راستہ روکنے کیلئے ہمارا کھل کر ساتھ دیں اور پھر اسلامی انقلاب کیلئے بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔ یہ وقت کھونا اچھا نہیں۔ ورنہ پھر پانی سر سے گزر جائیگا۔

علماء دیوبند اور بریلوی پہل کریں!
فقہ حنفی کے نام پر درسِ نظامی کے علمبردار دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان اور مشائخ کام کررہے ہیں۔ مولانا مفتی زرولی خان ایک سخت گیر پٹھان تھے اسلئے مولانا منظور مینگل کے خلاف علامہ خادم حسین رضوی کی حمایت پر تجدیدِ نکاح کا فتویٰ جاری کردیا تھااورمولانا احمدرضاخان بریلویبھی ایک قندھاری پٹھان اور الٹا بانس بریلی کے رہائشی تھے اسلئے علماء دیوبند اور دیگر فرقوں اور مسالک کے لوگوں پر بھی قادیانیت کے فتوے جاری کردئیے لیکن پاکستان میں متفقہ تحریک ختم نبوت چلانے والے دیوبندی بریلوی ایک تھے۔
افغانستان کے طالبان نے ملاعمر کی قیادت میں جو سخت گیر مؤقف اپنایا تھا تو آج کے افغانی طالبان اس سے بہت پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے عالم وشیخ طریقت نے لکھا ہے کہ ” شاہ اسماعیل شہید نے شروع میں نئے جذبے سے بدعات اور شرکیہ عقائد کے خلاف جو کتابیں لکھی تھیں تو اس میں اعتدال کے خلاف بعض جملے لکھ دئیے تھے مگر پھر علم اور ان کی عمر میں پختگی آئی تو منصب امامت اور صراط مستقیم جیسی اعتدال پسندانہ کتابیں لکھیں ہیں۔
حکومت نے تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک سے معاہدہ کرکے بڑا اچھا کیا ہے۔ شدت پسندانہ جذبات کا غبار وقت کیساتھ ساتھ خود بخود اُتر جاتا ہے۔ نکاح وطلاق کے حوالے سے جو مسائل گھڑے گئے ہیں اگر حکومت نے اس حوالے سے مقتدر علماء ومفتیان اور دانشوروں کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی تو پھر ریاست مدینہ کی طرف سب مل کر زبردست اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ آج عمران خان کیساتھ بھی اچھا وقت ہے اور اپوزیشن بھی اس کو گرانے کے چکر میں نہیں لگتی ہے۔ اگر صرف حلالہ کی لعنت کا مکمل خاتمہ بھی ہوجائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ فواد چوہدری ، علامہ طاہر اشرفی ، مفتی سعید خان ، وزیرتعلیم شفقت محمود اور علی محمد خان وغیرہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت آنی جانی چیز ہے لیکن مذہبی نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے اُمت کی اصلاح ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ بفضل تعالیٰ ہم نے اتنا سارا کام کرلیا ہے کہ معروف مدارس کے علماء ومفتیان اور طلبہ اس کا زبردست استقبال بھی کریں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی اور چیف جسٹس آف پاکستان ، چاروں صوبائی چیف جسٹس اس میں اپنا حصہ ڈال لیں۔ سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قائدین بھی اس کار خیر میں بھرپور شرکت کریں۔
پورے پاکستان میں ہم سے زیادہ کمزور سے کمزور تر جماعت کوئی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے بے خطر ہم میدان میں اترگئے۔ آج بہت سے لوگوں کے مسائل بھی اللہ کے فضل سے حل ہوئے ہیں۔ ہماری دشمنی کسی کی ذات ، شخصیت ، جماعت اور اپنے دشمنوں سے بھی نہیں ہے کیونکہ غلط فہمی کے نتیجے میں کوئی ہم سے دشمنی کرتا ہے تو یہ اس کو حق پہنچتا ہے اور ہم بعض لوگوں اور اپنے حوالے سے نشاندہی بھی مجبوری کے تحت کرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمیں کسی سے کوئی بغض وعناد ہے۔ ہمارے جد امجد رسول اللہ ۖ نے جب اپنے چچا امیر حمزہ کے کلیجے نکالنے والے وحشی کو اور چبانے والی ہندہ کو فتح مکہ کے وقت معاف کردیا تھا تو ہم اسی سنت پر عمل کرنے کے خود کو پابند سمجھتے ہیںلیکن جب تک لوگ راہِ حق پر نہیں آجاتے ہیں تو اپنی عقل اور صلاحیت کے مطابق ٹھیک طریقے سے کام کرنے کی کوشش کریںگے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں گے کہ ہماری بھی ایک دن اصلاح فرمائے۔ عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی بغیر حلالہ کے رجوع کر سکتے ہیں۔ سورہ البقرہ

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر2
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

_ طلاق سے رجوع کی علت صلح ہے!_
سفر میں روزے معاف ہونے کی بنیادی علت سفر ہے۔ شرعی اصولوں میں علت اور سبب میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ معاف ہے اور اس کا سبب مشقت ہے لیکن اس کی علت سفر ہے۔ مشقت محنت مزدوری میں بھی ہوتی ہے لیکن اس سبب کی وجہ سے روزہ معاف نہیں ہوتا ہے اور جب سفر میں مشقت نہ ہو تب بھی روزہ معاف ہے۔ یہ فرق علماء وفقہاء کا بہت بڑا کمال اور زبردست کریڈٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں اس فرق کو واضح کیا ہے اور بعض معاملات میں علماء وفقہاء کے مغالطہ کھانے کا بھی ذکر کیاہے۔ اس کتاب کے اردو ترجمہ کا مقدمہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے لکھا ہے۔
طلاق اور اس سے رجوع کی علت اور سبب معلوم کرنے کیلئے علماء کرام و فقہاء عظام نے شاید کبھی غور وتدبر سے کام نہیں لیا ہے اور اگر لیا ہے تو اس تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ابن رشد کی کتاب ” بدایة المجتہد نہایة المقتصد” میں اس پر تفصیل سے بحث ہے۔ ظواہر کا مؤقف قرآن کے ظاہری الفاظ سے مطابقت رکھتا ہے اور باقی فقہاء نے احادیث وروایات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی علت باہمی رضامندی اور اصلاح کو قرار دیا ہے۔ اگر عورت صلح و اصلاح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر بھی طلاق سے رجوع کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی شرط صلح واصلاح ہے۔ جس کی تفصیل قرآنی آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے ایک ایک آیت کے اندراس کی بھرپور وضاحت بھی کردی گئی ہیں لیکن افسوس کہ امت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ عدت کے تین مراحل تک عورت کو تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ جس کے بعد شوہر کیلئے عورت کو دی ہوئی کوئی چیز حلال نہیں ہے مگر اس صورت میں جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ باہمی رابطے کے ذریعے سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو کہ اس چیز سے وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایسی صورت میں طلاق کے بعد یہ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اگر رجوع کرلیا تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی طلاق کے بعد شوہر اس عورت پر اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے پر کوئی پابندی لگاسکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگائے تو اس عورت کو اللہ نے کوئی تحفظ دیا ہے یا نہیں؟۔ اسی تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے انتہائی درجہ کا حکم نازل کیا کہ اس طلاق کے بعد وہ اس کیلئے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔
جہاں تک باہمی رضامندی اور صلح سے رجوع کی بات کا تعلق ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کی دو آیات228،229میں عدت کے اندر رجوع کی وضاحت کردی ہے اور پھر اسکے بعد آیات231،232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی بھرپور انداز میں وضاحت کردی ہے۔ آنکھوں کا نہیں اصل میں دل کا اندھا اندھا ہوتا ہے۔

احادیث پر اشکال کابہترین جواب
رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں اورپھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کیا تھااس نے نبیۖ سے عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے اور اپنے دوپٹے کا پلو دکھایا تھا۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو ؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو یہاں تک کہ تیرا دوسرا شوہر تیرا ذائقہ نہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ نہ چکھ لیں۔(صحیح بخاری)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن میں باہمی اصلاح سے بار بار صلح کی گنجائش کی وضاحت ہے تو رسول اللہ ۖ نے اس پر فتویٰ کیوں نہیں دیا تھا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ خاتون حضرت رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرتیں تو اس کو نبیۖ سے اپنے شوہر کی شکایت بھی نہ کرنی پڑتی بلکہ وہ خود حضرت رفاعہ سے رجوع کی درخواست کرسکتی تھیں۔ البتہ اگر حضرت رفاعة اس کے باوجود بھی راضی نہ ہوتے تو ان کو باہمی رضامندی کے بغیر رجوع پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ پہلی بات یہ معلوم ہے کہ حضرت رفاعة نے مرحلہ وار تیں طلاقیں دی تھیں۔ عدت کی تکمیل کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی تھی۔ کیا اسکے باوجود علماء ومفتیان کا اس حدیث کی بنیاد پر یہ فتویٰ دینا جائز ہے کہ ایک دم تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا جائے؟۔ حالانکہ قرآن میں واضح طور پر صلح کی گنجائش موجود ہو؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ جب اس عورت نے اپنے شوہر کی شکایت لگائی تو حضرت عائشہ کے سامنے خلوت میں اپنے جسم پر شوہر کے مارنے کے نشانات دکھائے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں نے ایسی سخت مار کے نشانات کسی جسم پر نہیں دیکھے۔ اس کے سفید جسم پر نیل کے نشانات پڑے تھے۔ جب اس نے اپنے شوہر پر نامرد ہونے کا الزام لگایا تو اس کے شوہر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے اندر اتنی مردانہ قوت ہے کہ میں اس کی چمڑی کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ احادیث کی تمام تفصیل کے بغیر اس بات پر فتویٰ جاری کرنا کس قدر حماقت ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو جیسی چیز ہے ، جس کی وجہ سے وہ عورت حلال بھی نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ اسکے ذریعے حلال ہونے کا فتویٰ کیسے دیتے؟۔
نبی کریم ۖ کو معلوم تھا کہ حضرت رفاعة القرظی نے اس خاتون کو واپس لینا نہیں ہے اور عبدالرحمن بن زبیر القرظی کو سمجھا دیا ہوگا کہ مار دھاڑ سے شکایت بھی پیدا ہوئی ہے اسلئے دوبارہ اس قسم کی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ فقہ وفتوے کی کتابوں میں حلالہ کیلئے راستے تلاش کرنے کے بجائے اس کا سدباب بھی کرنا چاہیے تھا لیکن جب مفتی عزیز الرحمن جیسے لوگ اپنے شاگرد صابر شاہ جیسے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑتے تو یہ باشرع لوگ حلالہ کیلئے کیا بہانے تراشتے ہوں گے؟۔ اس کی تفصیلات سامنے آجائیں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
پھر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آسانی سے عدت میں رجوع ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖنے اکٹھی تین طلاق پر سخت ناراضگی کا اظہارکیوں کیا تھا؟۔اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق میں حدیث ہے کہ جب حضرت عمر نے نبیۖ کو اطلاع دی کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر اس کو رجوع کا حکم دیا اور پہلے طہر میں اپنے پاس رکھنے حتی کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں رکھنے حتی کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہے تو رجوع کرے اور چاہے تو طلاق دے اور یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا طریقہ امر کیا ہے۔ جس میں غضبناک ہونے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟
ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ حضرت عمر کی طرف منسوب ہے۔ کیا یہ نسبت درست ہے؟ اور حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟۔
حضرت عمر ایک عادل حکمران تھے۔ قرآن کی آیات کے احکام سے اچھی طرح واقف تھے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے باہمی رضامندی اور صلح کی نبیاد پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو رجوع کرنے کا حق قرآن نے نہیں دیا ہے۔ طلاق سے رجوع کا مسئلہ بہت پرانا تھا۔ شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہوتا تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں خلافت کی توسیع ہوگئی تو دور دراز کے علاقوں سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد مسلمان بن کر خلافت کے زیر اثر آگئی تھی۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو پھراس کی بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی۔ اسلامی خلافت میں بیوی پر جبر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور وہ شخص حضرت عمر سے انصاف لینے آگیا۔ حضرت عمر چاہتے تو اس شخص کو اس کی بیوی واپس دلانے کا حکم جاری کرتے۔ لیکن حضرت عمر نے قرآن کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اس نے جلد بازی میں ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں اسلئے اس کو حکومت اپنی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں کرسکتی اور وہ رجوع نہیں کرسکتا ہے۔
جب حضرت عمر کے ناقدین نے حضرت عمر کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا کہ حضرت عمر نے قرآن کے خلاف ایک ساتھ تین طلاق کا فیصلہ کردیا ہے تو اس پر اُمت مسلمہ میں اختلافات کی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ بہت ہی شاذ ونادر ایسے لوگ تھے۔ جنہوں نے حضرت عمر کے خلاف اپنا فتویٰ اور فیصلہ مرتب کیا تھا کہ یہ فیصلہ قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ لیکن ان کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدے ۔ پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور فیصلہ اور فتویٰ یہ دیا جائے کہ یہ ایک طلاق ہے اور اس سے غیرمشروط رجوع کا حق شوہر کو حاصل ہے ۔تو اس سے عورت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا تھا۔ یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی تھا۔ چنانچہ چاروں ائمہ فقہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اس کا سبب عورت کو مشکلات سے بچانا تھا اور اس کی علت یہ تھی کہ باہمی اصلاح کے بغیر صلح نہیں ہوسکتی ہے اور یہ قرآن اور فطرت کا بنیادی تصور ہے۔
قرآن عربی زبان میں اترا ہے اور عرب لوگ اپنے گھروں میں قرآن کی آیات کا ادراک رکھتے تھے۔ جب میاں بیوی کے درمیان ناچاقی یا ایک ساتھ تین طلاق کی بات آتی تو وہ اگر آپس میں صلح کیلئے راضی ہوتے تھے تو حکمران سے کوئی فیصلہ لینے اور مفتی سے کوئی فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے خلافت پر خاندانی قبضے شروع کردئیے اور کچھ لوگوں کو مذہب کی تشریح کا حکمرانوں نے ٹھیکیدار بنانا شروع کیا اور پھر اسلام کی حقیقت روایات میں کھو گئی۔ اس حقیقت کو ڈھونڈنے کیلئے ان سراغ رساں انسانوں کی ضرورت ہے جو ثریا کے اوپر سے بھی علم ، دین، ایمان کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے طاقت پرواز رکھتے ہوں۔ یہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن اللہ کا فضل کوئی مشکل بھی نہیں ہے کہ کسی پر بھی ہوجائے۔

_ اکٹھی تین طلاق پرفتوؤں کی بھرمار _
سلف صالحین کے ادوار میں ایک ساتھ تین طلاق کی بحث اس حد تک تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ احادیث اور فتوؤں کی بھرمار نے مسالک کی توسیع میں اپنا اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔ احناف اور مالکیہ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں ہوجاتی ہیں لیکن یہ بدعت اور گناہ ہیں۔ شافعی مسلک والوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے ماننے والوں نے اپنے امام کے دو اقوال بھی بنالئے، ایک قول کے مطابق بدعت وگناہ اور دوسرے قول کے مطابق سنت اور مباح قرار دیا گیا۔ پہلے تو صرف ایک ساتھ تین طلاق کا معاملہ اس حدتک ہی تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ جس میں واقع نہ ہونے کا فتویٰ شاذ ونادر تھا اسلئے کہ عورت اور مرد کی طرف سے لڑائی اور صلح نہ کرنے کی وجہ سے بات فیصلے اور فتوے تک پہنچ جاتی تھی۔
پھر بہت بعد میں سیدھے سادے لوگوں نے قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے صلح کیلئے بھی فتوے لینے شروع کردئیے۔ یہ وہ دور تھا جب قرآن کی جگہ امت مسلمہ نے اپنے علماء ومشائخ کو پوجنا شروع کردیا تھا۔ ان علماء ومشائخ نے بھی قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے روایات کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں قرآن اُمت کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ احادیث اور فتوے کی کتابوں میں بہت سارے اقوال تھے جن میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فتویٰ تھا۔ پہلے مردوں کی طرف سے یک طرفہ رجوع کا راستہ روکا گیا تھا اور پھر عورت کی طرف سے صلح کی خواہش کے باوجود بھی رجوع کا راستہ روکا گیا اور جاہلیت پہلے کی طرح بالکل عروج پر لوٹ آئی ۔جب باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ رُک گیا تو تفریق کے فتوؤں نے معاشرے میں جاہلیت اولیٰ کی مثال قائم کردی۔ کچھ لوگوں نے زوجین کی تفریق کا راستہ روکنے کیلئے حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنا شروع کیا لیکن ایک بڑی اکثریت نے حلالہ کے ذریعے حلال نہ ہونے کا فتویٰ جاری کردیا۔ حیلہ سازی میں احناف کے علماء نے اقدام اٹھایا تھا۔ علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے حلالہ کو کارثواب تک قرار دیا اور اس کی نسبت اپنے بعض نامعلوم مشائخ کی طرف کردی تھی۔
علامہ ابن تیمیہ نے ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتویٰ جاری کیا اور اس غل غپاڑے میں ائمہ اہل بیت کے پیروکار اہل تشیع کے فقہاء نے طلاق دینے کیلئے سخت شرائط کا اہتمام کیا تھا۔ ان کے نزدیک طلاق کیلئے مرحلہ وار عدت کی مدت میں طلاق کے شرعی صیغے اور ہرمرتبہ کی طلاق پر دوگواہ کی موجودگی بھی ضروری قرار دے دی گئی۔ مذہبی طبقات نے یہ تأثر پھیلایا کہ ابن تیمیہ بھی اس مسئلے میں شیعہ بن چکے ہیں لیکن ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اس مسئلے میں تحقیقات کو بہت حد تک بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
پھر ہندوستان کے اہل حدیث نے حضرت ابن عباس کی روایت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھ دی۔ حالانکہ احادیث کی کتابوں میں جس کثرت سے ایک ساتھ تین طلاق کی روایات تھیں اہل حدیث کے مزاج سے انکا مسلک بالکل بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ صحاح ستہ میں اکٹھی تین طلاق کے واقع ہونے کے عنوانات ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی کا ایک ساتھ تین طلاق دینے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ اسی طرح محمود بن لبید کی روایت ہے کہ ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو نبیۖ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔
اس طرح بہت سی روایات میں ایک ساتھ تین طلاق کے تذکرے ہیں۔

قرآن اوراحادیث کے حقائق
قرآن کے الفاظ میں کوئی رد وبدل نہیں اور اس کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے لیکن احادیث کے الفاظ اور معانی میں بہت سے اختلافات اور تضادات بھی ہیں۔ اصولِ فقہ میں حنفی کی کتابوں میں قرآن کے مقابلے میں بہت سی احادیث صحیحہ کی تردید صرف اسلئے کی گئی ہے کہ وہ قرآن کے کسی آیت کے تقاضے کے ہی خلاف ہیں۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں احادیث کی اہمیت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثلاً قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاًغیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ” میں اللہ نے عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا اختیار دیا ہے اور حدیث ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ،باطل ہے”۔ اس حدیث میں عورت کو اپنے ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیا ہے۔ جمہور فقہاء اور محدثین کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر حدیث صحیح ہے اور عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہے بلکہ یہ حرام کاری ہوگی۔ احناف نے یہ حدیث قرآن کی اس آیت کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیدی ہے۔
احناف کی سب سے بڑی غلطی اور بدترین قسم کی کوتاہی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق قرآن کی واضح واضح آیات کو اپنی فقہ کی کتابوں میں درج کرکے احادیث اور دوسرے مسالک کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ مثلاً اللہ نے فرمایا کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔( البقرہ:228)
اس آیت میں وضاحت کیساتھ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کی شرط پر عدت میں طلاق شدہ کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی جس میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی ممانعت ہوتی تو اس حدیث کو قرآن کے واضح الفاظ کے سامنے ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا ۔اور یہ حنفی مسلک کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضہ تھا۔پہلی بات یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ چھان لیا جائے تو کوئی ایک بھی ایسی حدیث صحیحہ نہیں ہے کہ جس میں اس قرآنی آیت کیخلاف عدت میں اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کی ممانعت ہوتی لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی بھی تو قرآن کے مقابلے میں رد کی جاتی۔
احناف نے اپنے اصول فقہ میں اس بات کی وضاحت تو کردی کہ پانچ سو ایسی آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں اور اللہ کی کتاب سے اصول فقہ میں وہی مراد ہیں لیکن ان آیات کا کوئی نام ونشان بھی فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔ اگر طلاق اور اس سے رجوع سے متعلق قرآنی آیات کو پیش کیا جاتا اور پھر ان پر احادیث وروایات کو پیش کیا جاتا اور پرکھا جاتا تو امت مسلمہ کی درست رہنمائی ہوتی اور ہوسکتا ہے کہ احناف نمازوں میں رفع یدین کی مخالفت نہ کرتے لیکن طلاق کے مسائل میں بہت سی احادیث کو ناقابلِ قبول ضرور قرار دیتے۔
میرا اپنا تعلق حنفی مسلک اور دیوبندی مکتب سے ہے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام نے جو حوصلہ افزائی طالب علمی کے دوران فرمائی ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھ رہاہوں کہ دیوبندی بریلوی کے علاوہ اہلحدیث اور اہل تشیع کو بھی بہت اچھا لگتا ہے اور غلام احمد پرویز کی فکر رکھنے والے بھی میری تائید کررہے ہیں اور انشاء اللہ بہت بڑا انقلاب آئے گا۔

_ احادیث سے احادیث کے حقائق _
جب ہم احادیث کی کتابوں اور احادیث کی مستند شروحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک طرف کی بھرمار نظر آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور دوسری طرف پھر ان میں بہت سی احادیث غائب ہوجاتی ہیں کہ جب جمہور کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل میں چند احادیث نظر آتی ہیں۔ مثلاً جمہور کے نزدیک رفاعة القرظی کی حدیث جمہور کی دلیل ہے اور فاطمہ بنت قیس کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے۔ عویمر عجلانی کے لعان کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے اور محمود بن لبید کی روایت بھی جمہور کی دلیل ہے۔ لیکن دوسری بہت ساری احادیث وروایات کو جمہور کی دلیل کے طور پر نہیں لیتے ہیں اسلئے کہ انکی حیثیت بہت ہی ضعیف اور مجروح ہے اور ان کو دلیل بنانا جمہور کی شان کے بھی بالکل منافی ہے۔ البتہ بعض جاہل علماء ان روایات کو بھی دلیل بناتے ہیں۔
جمہور کے مقابلے میں ایک ہی روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی سال تک ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کو تین قرار دے دیا۔ اس کو اقلیت اور اہلحدیث اپنے لئے دلیل بناتے ہیں۔
پھر جب بات آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ وبدعت ہے یا پھر مباح وسنت تورفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے واقعے کو بھی ایک ساتھ تین طلاق کیلئے کوئی دلیل نہیں قرار دیتا ہے کیونکہ صحیحہ روایات سے ثابت ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کو بھی دلیل نہیں بنایا جاتاہے اسلئے کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں دی گئیں تھیں اور پھر امام شافعی کے نزدیک صرف روایت ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینا سنت ہے اور وہ عویمر عجلانی کے واقعہ میں لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق کی روایت ہے اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک صرف ایک روایت ہے محمود بن لبید والی جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر نبیۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا لیکن وہ امام شافعی کے نزدیک بڑی مجہول روایت ہے اسلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔
جب احناف ایک ساتھ تین طلاق کو خلافِ سنت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک طرف محمود بن لبید کی مجہول روایت پر گزارہ کرتے ہیں تو دوسری طرف حضرت عویمر عجلانی کے واقعہ کی تأویل کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ طلاق کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہو اور علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق دی ،جس طرح رفاعة القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا ذکر ہے لیکن تفصیل میں الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے”۔
غرض احناف کی سوئی پھر صرف اور صرف محمود بن لبید کی روایت پر اٹک جاتی ہے۔ محمود بن لبید کی روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے کہاتھا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ تو وہ حضرت عمر تھے۔ اور کس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے جس کی اطلاع بھی حضرت عمر نے خود ہی دی تھی۔ حضرت حسن بصری نے کہا مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں جس سے نبیۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا اور پھر بیس سال تک کوئی اور ایسا شخص نہیں ملا جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی ہو۔ پھر بیس سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا، جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم) یہ روایت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کی گئی تھی۔ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کے حوالے سے بھی باقاعدہ ضعیف احادیث میں عجیب وغریب قسم کی مہم جوئی کاواضح ثبوت ہے۔

صحیح اور ضعیف احادیث کی تأویل!
حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کے اندرقرآن کے مقابلے میں حدیث صحیح بھی قابلِ قبول نہیں ہے لیکن حتی الامکان ضعیف سے ضعیف احادیث کوبھی رد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حتی الوسع اس کی تأویل کرنی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث میں صحیح اور ضعیف کا تضاد ہو تو ان میں ایسی تطبیق کرنے کی کیا صورت ہے کہ ضعیف حدیث بھی قابلِ قبول بن جائے؟۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ میں حدیث صحیحہ یہ ہے کہ الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی تھی اور ضعیف حدیث میں ہے کہ آن واحد میں طلاق بدعی دی گئی تھی ۔ ان دونوں میں تطبیق کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آن واحد میں تین طلاقیں دی گئیں اور پھر ان کو ایک شمار کیا گیا اور مرحلہ وار بھی ایک ایک طلاق کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اس طرح دونوں احادیث کے متضاد ہونے کے باوجود ان کی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت ہے کہ نبیۖ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر ایک ساتھ تین کو تین ہی نافذ کردیا گیا اور دوسری طرف ان کے شاگردوں کی طرف سے یہ کہنا کہ ابن عباس نے ایک ساتھ تین طلاق کیلئے یہ فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول وفعل میں تضاد ثابت کرنے کے بجائے یا کسی کی ایک بات کی خوامخواہ کی تردید کرنے کے بجائے یہی درست تأویل ہے کہ جب بیوی کی طرف سے اصلاح کا پروگرام ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع ہوسکتا ہے اور جب بیوی کی طرف سے قرآن کے مطابق اصلاح کا پروگرام نہ ہو تو پھر رجوع کا فتویٰ نہیں دے سکتے تھے۔
ایک مجلس میں ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا کسی کو قتل کرنے کے بعد معافی مل سکتی ہے ؟ ، تو ابن عباس نے ان آیات کا حوالہ دیا کہ جن میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس پر بہت سخت وعیدیں ہیں۔ اس کے بعد اسی مجلس میں ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو یہ جواب دیا کہ اللہ نے معافی کی گنجائش رکھی ہے اور ان آیات کاحوالہ دیا جن میں توبہ کرنے پر معافی کی گنجائش ہے۔ اہل مجلس نے پوچھا کہ سوال ایک تھا تو جواب الگ الگ کیسے دیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ”پہلے شخص نے قتل کیا تھا اسلئے اس کو ایسی آیات کا حوالہ دیا جس میں معافی کی گنجائش تھی تاکہ وہ مزید توبہ کرلے اور دوسرے نے قتل کا پروگرام بنایا تھا تو اس کو ان آیات کا حوالہ دیا تاکہ قتل سے وہ رُک جائے۔ صحابہ نے قرآن کو سمجھا تھا اور اسی کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔
جب طلاق کے حوالے سے احادیث کا بھرپور مطالعہ کیا جائے تو اس کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ اس میں صحیح و ضعیف روایات کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے اور ان میں اپنے اپنے مسلک کی وکالت کیلئے حقائق کے منافی ترجیح قائم کی جاتی ہے اور حلالہ کیلئے بہت دلچسپی رکھنے والے اس میں دے مار ساڑھے چار کی طرح نہ صرف قرآن کی آیت کو بالکل غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ احادیث کو بھی بہت غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اب تو دارالعلوم کراچی والے اپنے فتوؤں میں صرف اور صرف فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں سے حوالہ جات نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اسلئے کہ میں نے انکواپنی کتابوں سے قرآن وحدیث کے حوالہ جات کا جواب دیاتھا۔

فقہ حنفی حق کے قریب تر مگرکچھ غلطی!
حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام جعفر صادق بہت بڑی شخصیات تھیں۔ سلف صالحین کے نزدیک قرآن کی تعلیم، دین کی تبلیغ اور فرائض کی ادائیگی پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا لیکن اب علامہ سید جواد حسین نقوی نے چیلنج کیا کہ کوئی شیعہ ذاکر بغیر معاوضہ کے مجلس پڑھ کر دکھائے تو اس کی موت کے پروانے جاری کردئیے ہیں۔ مجھ سے بھی یہ غلطی ہوگئی کہ بھائیوں اور دوستوں سے گاڑی کی سہولت لیکر سفر کرنے کے بجائے بسوں کی چھتوں اور پک اپ کی باڈی پر کھڑے ہوکر بھی سفر کرتا تھا تو لیڈرعلماء کے دل ودماغ میں خناس بیٹھ گیا کہ ہم گاڑی مانگ کر سفر کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ اتنی کتابوں کا مصنف اور ہم سے زیادہ امت مسلمہ کو لیڈ کرنے کی بات کرنے والا اپنی کوئی حیثیت بھی نہیں جتلاتا ہے تو ہماری اس لیڈری کا کیا بنے گا جو پرائے اور بھیک کے پیسوں پر چلتی ہے؟۔
فقہ کے ائمہ نے زمین کی مزارعت کو متفقہ طور پر ناجائز قرار دیا تھا مگر جب انکے شاگردوں نے دین کے نام پر معاوضے لیکر مزے اڑانے شروع کردئیے تو اپنے اماموں کے مؤقف سے انحراف کرنے لگے۔فقہ حنفی کے امام ابوحنیفہ نے جیل میں زہر کھاکر شہادت پائی اور آپ کے شاگرد نے شیخ الاسلام بن کربادشاہ کیلئے اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دینے کے حیلے بتائے تھے۔ آج کا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن بھی معاوضہ لیکر سودی نظام کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں پانچ سو علماء نے یہ فتویٰ جاری کیاہے کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری اور کچھ بھی کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ اورنگزیب کو بھائیوں کے قتل کی سزا سے بچاناتھا۔یہ فقہ حنفی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بدترین دھبہ ہے لیکن فقہ حنفی کا کمال ہے کہ اسلام کو تحریف سے بچانے کیلئے زبردست اصول عطاء کردئیے تھے۔ فقہ حنفی نے صحیح حدیث کو رد کرکے ضعیف احادیث کا ناطقہ بند کردیا ہے ،ورنہ امت گمراہ ہوتی۔
طلاق شدہ عورت کیلئے قرآن میں آزادی کا قرینہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس سے اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ نے بیوہ عورت کیلئے چار مہینے دس دن کے بعد اپنے نفس کے بارے میں آزادانہ فیصلے کا اختیار دیا ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثین ایک صحیح حدیث کی بنیاد پر بیوہ کیلئے بھی ولی سے آزادی کا تصور نہیں مانتے ہیں جو قرآن کے سراسر منافی ہے ۔ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور جب اس کی شادی ہوجاتی ہے تو اس کا شوہر اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور جب اس کو طلاق ہوجائے یا بیوہ بن جائے تووہ خود مختار اور آزاد بن جاتی ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے باطل ہونے کی حدیث سے اس آیت کی بنیاد پر انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور طلاق شدہ پر اس کا سابقہ شوہر پابندی لگاتا ہے کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرے اسلئے ولی کی اجازت والی روایت کو مقابلے میں لانا بھی حماقت ہے۔ جب مولانا بدیع الزمان نے بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمیں یہ سبق پڑھایا تھا تو میں نے اسی وقت سوال اٹھایا تھا کہ حنفی مسلک میں پہلی ترجیح حدیث کی تأویل کرنا ہے اور یہ حدیث قرآنی آیت سے متصادم نہیں ہے بلکہ اس کی تأویل ہوسکتی ہے جس پر استاذ محترم نے میری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
اگر فقہ حنفی کی درست تعلیمات اور اصول کے مطابق طلاق کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی وضاحت کی جائے تو یہ نصابِ تعلیم نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کو قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ بریلوی مکتب کے مولانا مفتی خالد حسن مجددی قادری اور دیوبندی مکتب کے مفتی محمد حسام اللہ شریفی جیسے جید علماء کرام اور مفتیان عظام کے علاوہ بہت سے علماء ہماری تائید کرتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علامہ تمنا عمادی عظیم عالم دین ہیں، شیعہ فرقہ میں طلاق کا غلط تصور، مفتی تقی عثمانی کی غلط تشریح و تشریح، قرآن میں طلاق کا عظیم تصور

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ تمنا عمادی بہت بڑا عالم_
علامہ تمنا عمادی ایک بہت بڑے حنفی عالم دین تھے جو ہندوستان سے پہلے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہجرت کرچکے تھے اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کرلی تھی اور کراچی ہی میں بہت خاموشی کیساتھ انتہائی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود گمنامی کی قبر میں دفن ہوگئے۔ آپ کی کتاب ” الطلاق مرتان” کا نام میں نے طالب علمی میں اپنے ایک استاذ مولانا سراج الدین شیرانی ڈیرہ اسماعیل خان والے سے غالباً سنا تھا اور استاذ جی نے یہ بھی بتایا تھا غالباً کہ اس کتاب کا جواب کسی بھی عالمِ دین کے پاس نہیں ہے۔ علامہ تمنا عمادی ایک بہت جید عالم تھے اور آپ نے دوسرے نام نہاداسلامی اسکالروں کی طرح تقیہ کا غلاف اور نقاب نہیں اوڑھ رکھا تھا بلکہ قرآن کے مقابلے میں اہل سنت کی احادیث کی کتابوں کو ایک بہت بڑی عجمی سازش قرار دیا تھا۔ آپ کے دلائل حنفی اصولوں کے بالکل عین مطابق تھے۔ آپ نے قرآن وحدیث میں طلاق کے حوالے سے بڑافرق واضح کردیا تھا۔ آپ کے نزدیک بنیادی بات یہ تھی کہ ”قرآن میں دو طلاق ہیں اور جس طلاق کے بعد حلالے کاحکم ہے وہ خلع کی صورت ہے۔ جب عورت ہی کا قصور ہو تو پھر اسی صورت میں عورت کو حلالے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جرم مرد کرے اور سزا عورت کو دی جائے تو غلط اور غیرفطری بات ہے”۔
فقہ ، اصول فقہ ، عربی لغت اور عربی مدارس کے مروجہ علوم کے حوالے سے علامہ تمنا عمادی کے دلائل واقعی لاجواب تھے۔ علامہ ابن تیمہ کے شاگرد ابن قیم نے زادالمعاد میں حضرت ابن عباس کا جو قول نقل کیا ہے اوردرسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتابوں میں جو حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے اس کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ اس طلاق کو جس میں حلالے کا حکم ہے وہ صرف اور صرف خلع ہی کی صورت مشروط کیا جائے۔ غلام احمد پرویز ، جاوید غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک وغیرہ اگر دینی علم کے ماہر ہوتے تو اس مسئلے میں علامہ تمنا عمادی ہی کی تقلید کرتے لیکن سب نے اپنی اپنی دکان کھولنے کا فرض پورا کرکے ایک بے ہنگم ماحول میں خود کو فقہ کا امام بنانے کی اپنی سی کوشش فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں جاویداحمد غامدی نے بہت ہی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے اور غلام احمد پرویز نے حنفی مسلک کے طلاق احسن ہی کو قرآن کی اصل اور حتمی تفسیر قرار دیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے غلام احمدپرویز کی فکر کو اس مسئلے میں صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ تمنا عمادی نے اصولِ فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے جبکہ غلام احمد پرویز نے فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ ایک درسِ نظامی کے عالم اور غیرعالم میں یہی فرق ہوسکتا تھا۔
اہل حدیث نے ذخیرہ احادیث سے بہت ساری مرفوع احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ایک موقوف روایت کی بنیاد پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جو خوش آئند اسلئے ہے کہ دوسروں کو منکر حدیث کہنے والے خود بھی منکرِ حدیث بن گئے ہیں۔ جبکہ امام ابن تیمیہ نے اپنے مسلک کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ جب تک33،33مرتبہ سبحان اللہ دہرایا نہ جائے کہ سبحان اللہ، سبحان اللہ ، سبحان اللہ………. تو صرف33مرتبہ سبحان اللہ کہنے سے تسبیح پوری نہیں ہوگی ،اسی طرح 3طلاق کہا جائے تو3طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن جب امام ابن تیمیہ سے کہا جاتا ہے کہ اگر طلاق ، طلاق ، طلاق تین مرتبہ دہرایا جائے تو3طلاق واقع ہوجائیں گی تو اس کا کہنا تھا کہ یہ طلاق ہے اور وہ تسبیح ۔دونوں کا حکم ایک کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر طلاق کا لفظ3بار دہرایا جائے تب بھی ایک ہی طلاق ہوگی۔
سعودی عرب پہلے ابن تیمیہ کے مسلک پر تھا لیکن پھر اپنا سرکاری مؤقف تبدیل کرکے یہ بنالیا ہے کہ ایک مجلس کی تین مرتبہ طلاق سے3طلاق پڑیگی۔ اگر قرآن واحادیث کی طرف دیکھا جاتا تو یہ اختلافات وتضادات نہ ہوتے۔

شیعہ مسلک میں طلاق کا غلط تصور
حنفی مسلک میں طلاق کی تین اقسام ہیں۔نمبر1:طلاق احسن۔ عورت کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے۔ پھر عدت میں رجوع کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ نمبر2:طلاقِ حسن ۔ عورت کی پاکی کے ایام میں تین طہر کے اندر تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ نمبر3:طلاقِ بدعت۔ایک دم تین طلاق دی جائے، ایک مجلس میں تین طلاق دی جائے یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے۔ طلاقِ بدعت واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کا گناہ ہے۔
شافعی مسلک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہے۔ جبکہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے مسلک والے اس کو بدعت اور گناہ کہتے ہیں اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول ایک طرف اور دوسرا قول دوسری طرف کی تائید کرتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ اور اہل حدیث کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی طلاق ہے۔ سب کے ہاں اپنی اپنی احادیث اور روایات کے دلائل ہیں۔
اہل تشیع کے نزدیک طلاق حسن میں بھی سخت شرائط ہیں۔ ایک طہر میں کوئی طلاق دی جائے تو اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنا ضروری ہیں۔ گواہوں کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ پھر دوسرے طہر میں دو گواہوں کی موجودگی میں دوسری مرتبہ طلاق دینی ہوگی اور پھر تیسری مرتبہ تیسرے طہر میں دوگواہوں کی موجودگی میں تیسری طلاق دینی ہوگی۔ اس کے بعد عدت کے مراحل پورے ہونے تک رجوع نہیں کیا جائے تو پھر وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہو اور پھر اسی طرح طلاق کے مراحل سے نہیں گزرے۔ دوسروں کے مقابلے میں بظاہر اہل تشیع کے طلاق کا تصور سب سے زیادہ بہترین ہے جس میں بہت سارے تضادات سے بچت ہوجاتی ہے لیکن اس خود ساختہ فقہی مسلک کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ قرآن میں مرحلہ وار تین مرتبہ کی عدت اور طلاق کا تصور ضرور ہے لیکن ہر بار دو گواہوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سورۂ طلاق کی آیت نمبر2میں عدت کی تکمیل پر رجوع یا پھر چھوڑنے کے اختیار کا ذکر ہے اور چھوڑنے کی صورت میں دو عادل گواہوں کے مقرر کرنے کا بھی حکم ہے اور اس کے بعد بھی رجوع کی گنجائش کی وضاحت ہے اور اہل تشیع کا خود ساختہ تصور بھی قرآن وسنت اور حقائق کے بالکل منافی ہے۔
قرآن وسنت، حضرت عمراور ائمہ اربعہ کے مؤقف کی درست ترجمانی کی جائے تو پھر اہل تشیع اور اہل حدیث سمیت پوری امت مسلمہ کا اس پر بڑااجماع ہوسکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کا درست ترجمہ پیش کیا جائے اور اس کی درست تفسیر کی جائے تو تمام احادیث صحیحہ میں کسی ایک بھی روایت کے انکار کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ صحابہ کرام کے متضاد مسالک کی بھی ایسی درست توجیہ ہوگی کہ ان میں اس مسئلے پر کسی قسم کا تضاد نہیں ہوگا ۔
آیت230البقرہ کی درست تفسیر سمجھنے کے بعد قرآن کی طرف لوگ بہت متوجہ ہوں گے اور حیران ہوں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کیوں کر ضائع کردئیے؟۔ آج سودی بینکاری کا مسئلہ علماء نے خود ساختہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے ذمے چھوڑ دیا ہے اور مختلف ادوار میں سودی حیلہ سازی کیلئے علماء دستیاب ہوتے تھے،اسی طرح حلالے کے مسائل بھی ایسے علماء ومفتیان ہی کے ذمے چھوڑ دئے جاتے تھے۔کوئی شریف عالم دین اس حوالے سے سوچنے کی بھی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ یہ لوگ ایک طرف تصویر کے جواز کو خدا کی خدائی میں بھی مداخلت قرار دیتے تھے تو دوسری طرف تجارت اور حکومت کی غرض سے اس کو جوازبھی عطاء کرتے تھے۔ داڑھی کٹانے کو غیرشرعی قرار دینے والے نے اپنے بے ڈھنگے دانت تک نکلوا ڈالے ہیں لیکن مکافاتِ عمل کا وقت قریب لگتا ہے۔

_ مفتی تقی عثمانی کا غلط ترجمہ اورتفسیر_
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید مودودی نے علماء کے تراجم اور تفاسیر کو نہ صرف سلیس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنی طرف سے غلطیوں کے ازالے کیلئے بھرپور طریقے سے حق ادا کرنے کی بھی زبردست کوشش کی ہے لیکن شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ترجمہ” آسان قرآن” میں اللہ کے کلام کا بالکل غلط اور متضادترجمہ جان بوجھ کر کیا ہے اورغلط تفسیر میں بھی کم عقلی کی انتہاء کردی ہے۔ مختلف آیات میں اذابلغن اجلھن کا ترجمہ بھی اپنے ہی مقصد کیلئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ حالانکہ اپنے مسلک پر غور کرنا چاہیے تھا۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ا یک جگہ پر اللہ نے مؤمنوں سے اس جنت کوپانے کا کہا ہے جس کا طول ہی نہیں عرض بھی زمین سے آسمان تک کی طرح ہے۔ دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ ”فرشتوں کو اہل زمین پر اتنا غصہ آتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے اور نافرمانوں کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے لیکن جب اللہ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں ملتی ہے تو وہ اللہ کی حمد اورتسبیح بیان کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے مغفرت مانگتے ہیں”۔ سود کو جواز فراہم کرنے والے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بنادیا جائے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو تنظیم المدارس کا صدر بنادیا جائے تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔ اور حلالہ کے نام سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کے بجائے شادی شدہ خواتین کی عزتیں لوٹی جائیں تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔اللہ نے ایک مقررہ مدت تک ان کو ڈھیل دے رکھی ہے لیکن ڈھیل کا وقت موت کی شکل میں اور دنیا میں اسلامی انقلاب کی صورت میں ختم بھی ہوسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے تفسیر لکھی کہ ” فرشتے آسمان پر عبادت کرتے ہیں تو ان کا اتنازیادہ وزن ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان ان کا وزن برداشت نہ کرپائے اور پھٹ جائے”۔
دارالعلوم کراچی والوں نے اپنے دو قسم کے معیار قائم کررکھے ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھری تصوف کے نام پرعوام کو ورغلاتا ہے اور تصویر نہیں کھنچواتا ہے اور تصاویر کو سخت عذاب کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین کو سود قرار دیتا ہے جس کے ستر سے زیادہ گناہوں میں کم ازکم اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف مفتی تقی عثمانی تصویر کو جائز قرار دیتا ہے اور بینکنگ کے سودی نظام کو معاوضہ لیکر جائز قرار دیتا ہے۔ دونوں کے فکر وعمل کے تضادات سے یہ بات اچھی طرح سے عیاں ہوگئی ہے کہ اصل مسئلہ دین کا نہیں تجارت کا ہے اور تاجر اپنی کامیابی کو دیکھتا ہے۔
وفاق المدارس کے سابق صدر اور ہمارے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی تقی عثمانی کے استاذ وفاق المدارس کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان اور مفتی زرولی خان وغیرہ سمیت پاکستان کے دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان کی طرف سے مفتی تقی عثمانی کے سودی نظام کو جواز عطاء کرنے پر سخت مخالفت ہوئی لیکن اب اندھوں میں کانا راجا کی طرح مفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا منتخب صدر بنایا گیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”ہم چودہ اگست اسلئے مناتے ہیں کہ یہ دنیاوی بات ہے اور میلاد النبیۖ اسلئے نہیں مناتے ہیں کہ مذہبی معاملہ ہے اور جو چیز نبیۖ کے دور میں نہ ہو ،وہ مذہبی مسئلہ بدعت ہے”۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظام کا جواز بھی بدعت ہے یا نہیں؟۔ یہ تو رسول اللہۖ کے دور میں نہیں مفتی محمد شفیع اور وفاق المدارس کے سابق صدر تک بھی نہیں تھا۔ پھر یہ بدعت ہے یا سنت ہے؟۔اگر بدعت نہیں تو پھر کس چیز کا معاوضہ لیتے ہیں؟

قرآن میں طلاق کا زبردست تصور
قرآن میں طلاق کے حوالے سے جتنی وضاحت ہے شاید بلکہ یقینا کسی دوسرے معاملے کی اتنی وضاحت نہیں ہوئی ہے۔ مسلکوں کی وکالت اور آیات پر غور وتدبر کرنے کی جگہ خوامخواہ کی دماغ سوزیوں نے علماء ومفتیان، دانشوروں، فقہاء ومحدثین اور اُمت مسلمہ کو مسئلہ ٔ طلاق میں قرآن سے دور کردیا ہے۔
پہلی غلطی یہ ہوئی ہے کہ طلاق اور خلع کی آیات میں بڑا زبردست مغالطہ کھایا گیا۔ آیت229البقرہ میں دومرتبہ طلاق اورتیسری مرتبہ میں رجوع کرنے یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کے بعد اور آیت230میں تیسری بار طلاق سے پہلے خلع کے تصور نے مسئلے کا حلیہ بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس پر امام شافعی وامام ابوحنیفہ کے مسالک میں اختلاف اور علامہ ابن قیم سے لیکر علامہ تمناعمادی تک بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔
مولانا سید مودودی نے سلیس اور قابل فہم ترجمہ کرنے کے چکر میں دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد تفہیم القرآن میں لکھ دیا ہے کہ ” کچھ معاوضہ دے دلاکر خلع لیا جائے” جو سراسر گمراہی کی بہت بڑی بنیاد ہے۔اگر قرآن کے مطابق آیت229البقرہ میں تین بار طلاق کے بعد حقوق کا معاملہ مراد لیا جائے جس کے بغیر دوسرا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا ہے اور سورۂ النساء آیت19سے خلع مراد لیا جائے تو جس کے بغیر کوئی دوسرا امکان بھی نہیں ہے تو بہت سارے مسائل اپنی بنیاد سے حل ہوجائیں گے اور بہت سارے مسلکی تضادات کا حل بھی نکل آئے گا اور اپنی کم عقلی پر شرم بھی آئے گی اور قرآن کی طرف لوگ دوڑنا بھی شروع کردیں گے۔امام مہدی سے زیادہ اہمیت یقینا قرآن کی ہے اور قرآن کے ذریعے ہدایت بھی ملے گی۔
جب خلع اور طلاق کے حقوق میں بہت بڑا واضح فرق معلوم ہوگا تو پھر اس کی وجہ سے طلاق کی اصل اہمیت بھی معلوم ہوجائے گی اور طلاق کے مسائل بھی واضح طور پرسمجھنے میں آسانی ہوگی۔ یہ انتہائی غلط تصور ہے کہ جس طرح شوہر اپنا حق مہر دے کر نکاح کرسکتا ہے، اسی طرح منہ مانگی قیمت دے کر عورت خلع لے سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپور سید عتیق گیلانی کی تحریر۔

Written by Syed Atiq Gilani, full of arguments on the differences between Sindhi, Muhajir, Pakhtun, Baloch, Panjabi, Shia Sunni, Muta, Halala, divorce and khula.

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی ، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپورسید عتیق گیلانی کی تحریر

بقیہ صفحہ 2 اور ___3

صفحہ نمبر1اور صفحہ نمبر4کے بہت سارے مسائل کا مختصر تشفی بخش جواب دینے کی کوشش صفحہ نمبر2 ،3پر کروں گا۔ ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” علامہ اقبال نے سچ فرمایا تھا۔ پاکستان بننے کے73سال بعد بھی ہماری سیاست اور دین کے شعبے جدا جدا ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی نے ہندوازم کی بنیاد پر مسلمانوں اور اقلیت کا بیڑہ غرق کرکے چنگیزیت کا آغاز کردیا ہے۔ افغانستان میں طالبان ایک ایسے سنگم پر کھڑے ہیں کہ ان کو پتہ نہیں چلتا ہے کہ دنیا کیساتھ چلیں یا دین پر چلیں؟۔پاکستان میں مذہبی اور سیاسی طبقات بھی اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔عوام کو مایوسی سے نکالنے کا واحد راستہ اسلامی روح ہے اور اسلام کے جسم میں روح بیدار ہوسکتی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خلع واقتدارمیںبہت بڑا اشتراک_
حضرت آدم و حواء سے لیکر قیامت تک آنے والے ہرانسانی جوڑے میں مرد عورت کا نگہبان اور محافظ ہے۔ جب کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو پھر شوہر اپنی بیگم کو اپنے نکاح سے نکلنے کو اپنی بہت بڑی توہین سمجھتا ہے۔ جب مرد اپنی مرضی سے طلاق دیتا ہے تو عورت کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے اس کے بھائی، بھتیجے،رشتہ دار، دوست، پڑوسی اور دشمن سے نکاح کا ناطہ جوڑنے پر بہت سیخ پا ہوتا ہے اور غیرت کھاتا ہے۔ ایسے میں قرآن کا یہ حکم اس کو کہاں ہضم ہوگا کہ عورت اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے بخیر وعافیت خلع لیکر کسی اور سے نکاح کی جرأت کرسکتی ہو؟۔ پاکستان کی خاتونِ اول بشریٰ بی بی نے اپنے شوہر خاور مانیکا سے خلع لیکر وزیراعظم عمران خان سے نکاح کیا تو بشریٰ بی بی کی اولاد سے میڈیا کے اینکر پرسن تک پورا پاکستان ہل کر رہ گیا تھا۔ جیو نیوزکے تحقیقاتی صحافی نے دعویٰ کیا کہ ”یہ شادی عدت کے اندر ہوئی ہے”۔ حالانکہ طلاق اور خلع کی عدت میں بہت فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے؟۔ اس کا بھی موقع مل جائے توتفصیل سے بتادیتا ہوں۔ عمران خان نے اور کچھ کیا یا نہیں کیا لیکن بشریٰ مانیکا سے خلع کی بنیاد پر شادی کرکے مدینہ کی ریاست کا ایک حکم زندہ ضرور کردیا ہے۔
جس طرح کوئی ریاست اپنی کسی زمین کے ٹکڑے سے دستبردار نہیں ہوسکتی ہے اور کوئی حکمران اپنا اقتدار نہیں چھوڑ سکتا ہے، اسی طرح کسی شوہر کیلئے عورت کو خلع دینا بہت مشکل کام ہے۔ ریاست پاکستان نے بنگلہ دیش سے اس وقت ہی دستبرداری اختیار کی جب اس کے دشمن بھارت کے سامنے93ہزار پاک فوج نے جنرل نیازی کے کہنے پر ہتھیار ڈال دئیے۔ نیازی ایک غیرتمند قوم ہے مگر جنرل نیازی کی وجہ سے اتنی بدنام ہوگئی کہ عمران خان جیسا انسان بھی نیازی لکھ کرشرم محسوس کرتا ہے۔ بشریٰ مانیکا کی خلع کے بعد شاید مانیکا لکھنے پریہ خاندان شرم محسوس کرے۔ اگر بنگلہ دیش نے بشری مانیکا کی طرح آسانی کیساتھ آزادی حاصل کی ہوتی تو پاکستان اور بنگلہ دیش دوجڑواں بھائیوں کی طرح ہوتے۔
ہندوستان و پاکستان انگریز سے جمہوری انداز میں ایک ساتھ آزاد ہوئے، ان دونوں ریاستوں کو دوجڑواں بہنوں کی طرح محبت سے رہنا چاہیے تھامگر برطانیہ نے مسئلہ کشمیر سے دونوں میں سوکناہٹ پیدا کی۔ ”لڑاؤاور حکومت کرو” کی پالیسی آخری دَم تک انگریز نے نہیں چھوڑی۔ آج بھی امریکہ اور یورپ نے یہ پالیسی اختیار کرنی ہے کہ برصغیر پاک وہند میں جنگ وجدل کا ماحول پیدا کرکے ہماری سستی اناج اور دیگر وسائل پر قبضہ کرلے اور اپنے اسلحہ کے ذخائر ہم لوگوں کو فروخت کرکے اپنے منافع بخش کاروبار کو زیادہ سے زیادہ ترقی پر پہنچائے۔
اگر گھر میں بیوی خوش نہ ہو تو بھاگ کر جانے اور روکنے سے یہ اچھاہے کہ اس کو خوش اسلوبی کیساتھ ہی رخصت کردیا جائے۔ اگر وہ بری لگتی ہے تو ہنگامے مچانے اور دشمنی کی راہ اپنانے کے بجائے رخصتی میں ڈھیر سارے خیر ہیں۔

بانیانِ پاکستان کی اولاد سے عرضی!_
کراچی و حیدر آباد میں بانیانِ پاکستان کی اولادیں رہتی ہیں۔ انیس قائم خانی اور عامر خان کی ایکدوسرے کیخلاف سوشل میڈیا پرویڈیوز تشویشناک ہیں، پہلے بھی متحدہ اور حقیقی کے نام پر لڑائیاں ہوئی ہیں میں وزیرستان کا باشندہ ہوںلیکن اپنے گھر میں اپنے بچوں کیساتھ اپنے علاقے میں بھی اسلئے اردو بولتا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اگرچہ آج تک بدقسمتی سے اس کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا ہے، جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو پختونخواہ حکومت نے اردو کو سرکاری زبان دینے کا درجہ دیا تھالیکن اردو اسپیکنگ مہاجر پرویزمشرف نے اپنے نالائق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اردو کو پختونخواہ کی سرکاری زبان نہیں بننے دیا۔ حالانکہ افتخار چوہدری خود بھی انگریزی نہیں بول سکتا تھا۔
قوم کی امامت کے مستحق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو پہلے اپنے جسم سے نکلنے والے گند کی جگہ استنجاء کرکے صاف کرلیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان نے پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن اگر وہ پاکستان ہجرت کرکے آنے کی بجائے بھارت میں رہتے تو اصولی طور پر زیادہ اچھا ہوتا۔ ہجرت کے دوران جتنے لوگ اپنے علاقے، وطن، گھروں، خاندانوں ، جانوں، مالوں اور عزتوں سے محروم ہوئے ہیں ، ان سب کی ذمہ داری ان کے سر ہے۔ قائداعظم کی ایک بیٹی دینا جناح تھی جس نے اپنے کزن کیساتھ ہندوستان میں بھاگ کر شادی کی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم راعنا لیاقت علی خان ہماری فوج میں اعزازی جنرل بن گئی تھی۔ لیاقت علی خان اور محمد علی جناح کے بعد بیگم راعنا لیاقت اور فاطمہ جناح ان کا کل اثاثہ اور باقیات تھیں۔ جنرل ایوب خان کے قبضے سے پہلے ہی پاکستان پر جن لوگوں کا قبضہ تھا وہ کونسے جمہوری تھے؟لاہور کی عدالت میں جج لاہور کے ڈپٹی کمشنر سے کہتا ہے کہ” عدالت میں شلوار قمیض پہن کر مت آیا کرو یہ عدالت کی بے حرمتی ہے”۔ ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، نواز شریف اور عمران خان تک مقتدر طبقات نے شلوار قمیض کو رائج کردیا ہے لیکن ہماری عدالت کے جج کو اب بھی شلوار قمیص محکوم اور جاہل قوم کی نشانی لگتی ہے۔
پختون، پنجابی، بلوچ ، سندھی اور سرائیکی اپنا اپنا کلچرل لباس رکھتے ہیں مگر ہمارے مہاجر بھائیوں کا مشترکہ کلچر پینٹ شرٹ تھا اور یہ ان کا اپنا کوئی دیسی کلچر نہیں تھا بلکہ انگریز کے جانے کے بعد جس طرح انہوں نے اپنے وطن کی قربانی دی ،اسی طرح سے اپنے کلچر کی بھی قربانی دی۔ البتہ انگریز کے بعد اقتدار انکے ہاتھ میں آیا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کے کلچر کو بھی اپنے ساتھ ڈبو دیا۔ ان کی اکثریت آج بھی اپنے گھروں اور خاندانوں میں مارواڑی، گجراتی، میمنی، بہاری، بندھانی،کچھی اور دیگر چھوٹی چھوٹی زبانیں بولتی ہیں اور اکثریت کواردو بھی ڈھنگ کی نہیں آتی ہے۔ اردو کو واحدقومی زبان کادرجہ دینے کے بعد بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کی دراڑ وسیع ہوگئی۔ حالانکہ ہندوستان میں22زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل تھااور مزے کی بات یہ ہے کہ قائداعظم کو بھی اردو نہیں آتی تھی۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، قادیانی ، جماعت اسلامی ، شدت پسند شیعہ اور ہندو مسلم تعصبات سب مذہبی ہندوستان سے پاکستان میں منتقل ہوئے ہیں۔ پہلے سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے نوابوں، پنجاب کے چوہدریوں اور سرحد کے خانوں کے مظالم کی بات ہوتی تھی لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے کان کٹوں نے تشدد وانتہاء پسندی میں نام پیدا کرکے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کراچی پاکستان اور حیدر آباد سندھ کا دارالخلافہ تھا اور ہندوستانی مہاجر کی طرح دوسرے پاکستانی پختون، پنجابی، بلوچ اور سندھی کا بھی اس پر پورا حق تھا لیکن مہاجر نے سمجھ لیا کہ کراچی وحیدر آباد کو کاندھے پر لاد کر ہندوستان سے لایاہے۔ جب اپنے وطن کی قربانی دیدی تو حب الوطنی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟۔ ذرا سوچئے!

سندھی مانڑوں سے کچھ گزارشات!_
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے آج تک لاڑکانہ مختلف ادوار میں اہل اقتدار کا شہر ہے لیکن اس کا حلیہ اتنا ہی بگڑا ہوا ہے جتنا سندھی وڈیروں نے غریب سندھی کا بگاڑ رکھاہے۔ ہندوستان کی مشہور ، ہردلعزیز، فطرت کی ترجمان شاعرہ لتا حیاء متعصب ہندوؤں سے کہتی ہے کہ مسلمان صبح اُٹھ کر وضو سے اللہ کی بارگاہ میں عبادت کرتا ہے ، تم بھی ذرا اپنا منہ دھو لو۔ حروں کے پیشواء سندھ میں تھے تو مجلس احرار کے قائدین پنجاب میں ۔ مولانا ظفر علی خان احرارکو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوا۔ پھر زمینداراخبار میں10ہزار روپے کے انعام کیساتھ لکھ دیا کہ ”زمانہ اپنی ہر کروٹ پہ ہزاروں رنگ بدلتا ہے” کہ اگر کسی نے اس شعر کا دوسرا موزوں مصرعہ لکھ دیا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بات پہنچی تو برجستہ کہہ دیا کہ ”مگر اس کو بھی حسرت ہے کہ گرگٹ ہو نہیں سکتا”۔
اگر ہندوستانی مہاجراور دیگر صوبوں سے بلوچ، پختون اور پنجابی نہ آتے تو سندھ کے دوسرے شہروں کی طرح کراچی وحیدر آباد میں بھی مچھروں اور مچھیروں کے ڈیرے لگتے۔ ترقی وعروج آنے والوں کا مرہون منت ہے۔ جب سندھی مہاجر فسادات ہوئے تھے تو ممتاز بھٹو نے انتہائی غلیظ گالی مہاجروں کو دی، جس کو اس وقت کے اخبار نے لسانی فسادات کی پرواہ کئے بغیر اپنی دکان چمکانے کیلئے شائع کیا تھا۔ بھوک سے زمانہ اپنے اقدار کے آداب بھلادیتا ہے لیکن جب ترقی ہوتی ہے تو اس سے زیادہ آداب کا پاس نہیں ہوتا۔ حلیم عادل شیخ نے کسی کو کانوں کان خبر نہ دی لیکن جب دعا بھٹو نے اپنے نومولود کو اس کی طرف منسوب کردیا تو سندھ کا کلچر بھی بدل گیا۔ چھپ کے شادی کرنے اور دوسروں پر تنقید کے نشتر برسانے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جارہاہے کہ بہن بھائی میں شادی ہوگئی۔ جب شہباز شریف نے تہمینہ درانی سے شادی رچائی تھی تو پنجاب کے صحافی اطہر عباس نے پرویزمشرف کے دور میں ایک ساتھ جہاز میں آنے پر غلام مصطفی کھر اور شہباز شریف کے باہمی رشتے کابڑا مذاق اُڑایا تھا۔ پھر وہ دن بھی پنجاب نے دیکھ لیا کہ خاور مانیکا اور عمران خان میں خوشگوار طریقے سے اس سے زیادہ بڑی خبر سامنے آگئی۔ زمانے کی کروٹ کیساتھ لوگوں میں بھی تبدیلوں کا آنا بہت ناگزیر ہے۔ یہ شکر ہے کہ ہندوستانی مہاجروں کی وجہ سے بہت تیزی کیساتھ پاکستان کے مقامی لوگوں نے تبدیلی دیکھ لی ،ورنہ تو دنیا کے اثرات ہم نے پھر بھی قبول کرنے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر پر آذان اور نماز کو حرام قرار دینے والے مولانا اشرف علی تھانوی کے پیروکار دارالعلوم کراچی میں مریدوں کو کہتاتھا کہ ”شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین سود ہے جسکا کم ازکم گناہ سگی ماں سے زنا کے برابرہے”۔ اس پر مفتی شفیع کے داماد اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے بہنوئی مولانا عبدالرؤف سکھروی کی کتابیں ہیں۔ آج سالے ایسے بدل گئے کہ سندھی داماد تصویر تک نہیں کھینچواتا مگر سالوں نے عالمی سود کو جائز قرار دیا۔

پختون بھائی خوگر حمد سے گلہ سن لیں _
ہم نے مان لیا کہ پاکستان میں خرابی کی اصل جڑ راجہ رنجیت سنگھ سے پنجابی انگریزی فوج تک پنجاب کی قوم ہے۔ پختون، بلوچ، سندھی، مہاجر، سرائیکی، گلگت وبلتستانی اور کشمیری سب کے سب مظلوم ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان کے تمام صوبوں کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ انگریز سے آزادی کے بعد پوری قوم پنجاب کی غلامی میں آگئی ہے۔ سرائیکیوں کو وعدوں کے باجود اپنا صوبہ نہیں دیتے ہیں، مہاجروں کو پیپلزپارٹی کے خلاف اٹھاکر بدمعاشوں کو ان پر مسلط کردیا اور پھر ان کا بیڑہ بھی منتشر کرکے غرق کردیا۔ سندھ کو پانی سے محروم کرکے بنجر بنادیااور کوئی نہ کوئی کتا ان کے اقتدار کے پیچھے ہمیشہ لگائے رکھا۔ کراچی میں رینجرزکو مسلط کیا اور اپنے مفادات اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سندھ پولیس کو اپنی مہمان مریم نواز کا دروازہ توڑنے پر احتجاجاً ڈیوٹی چھوڑ ہڑتال تک پہنچنا پڑگیا۔ بلوچوں کے وسائل پر قبضہ کرکے ان کی نسلوں کو تباہ کردیا۔ افغان جنگ اور امریکی جہاد سے پختونوں کا لر اور بر میں بیڑہ غرق کردیا۔ پنجاب اور فوج پر جتنی بھی لعنتیں بھیجنا چاہتے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار مسلم لیگ ن بھی حبیب جالب کی زبان میں پنجاب کو جگانے اور فوج کے خلاف بہت تندوتیزی کیساتھ اپنے پتے کھیل رہی ہے۔ صحافیوں کو بھی مواقع مل گئے ہیں کہ اپنے ان جذبات کا کھل کر اظہار کریں جن کو اپنے سینوں میں پالتے تھے۔ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کی اللہ نے سزا دی ہے کہ اس نے شراب پر پابندی لگادی جو واحد وسیلہ تھا کہ جیل کی قیدوبند اور کوڑوں کی سزاسے بے نیاز ہوکر انسان جابر حکمرانوں کے سامنے حق کہہ سکتا تھا۔ حبیب جالب کو نبیۖ کی طرف سے مولانا عبدالستار خان نیازی نے سلام بھی پہنچایا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ حبیب جالب بھی میانی پٹھان تھا جسکا باپ فٹ پاتھ پر جوتے گانٹھتا تھا اور اس کا تعلق غفار خان اورولی خان کی پارٹی سے تھا جو حق کی آواز اٹھاتے تھے۔
لر اور بر کے پختون بھائیوں سے صرف اتنا عرض ہے کہ جس طرح پنجاب کی پاکستان میں حیثیت ہے وہی حیثیت افغانستان میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور دیگر چھوٹی قومیتوں کے مقابلے میں پختونوں کو حاصل ہے۔ افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کیساتھ بچہ سقہ اور اپنے کزن نادر خان نے جو سلوک کیا تھا جو ظاہر شاہ کا باپ تھا۔نادر شاہ، ملاشور بازاراور شیر آغا سے پختونوں کی تاریخ شروع کریں، نجیب اللہ و ملاعمر سے ہوتے ہوئے اشرف غنی و ملا ہیبت اللہ تک یہ سب پختون ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان سے وہ سلوک کیا جو پختون وہاں پر دوسری قوموں کیساتھ کررہے ہیں۔ کبھی شیعہ ہزارہ قتل وغارت سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ کبھی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ کبھی بیرونی قوتوں کی مداخلت کے حق اور مخالفت میں افغانستان کا کباڑہ کردیا اور کبھی اسلام اور سوشلزم و کمیونزم کے جھنڈوں پر ایکدوسرے کیخلاف لڑے۔ بلوچ اگر اپنے وسائل کا رونا روتا ہے تو وہ کسی دوسرے کے علاقے میں بھی نہیں جاتا ہے ، سندھی بھی اپنے علاقے سے نہیں نکلتا ہے۔ پختونوں کے پاس اپنے وسائل ہوتے تو پاکستان کے کونے کونے میں ہر نکڑ پر پختون اپنا روزگار کرتے ہوئے کیوں دکھائی دیتے؟۔ پاکستان قرضے لے لے کر مرگیا لیکن پختون قوم کیلئے بڑے پیمانے پر فنڈز جاری ہوتے ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی سرائیکیوں کے شہر تھے لیکن پختونوں نے اس پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ مضافات کی غریب سرائیکی بولنے والی آبادی اب بھی زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ہے اور اگر قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا جائے تو پورے پاکستان سے پختونوں کے دھکیلنے اور اپنے علاقوں تک سمیٹنے کے ذمہ دار یہی قوم پرست ہونگے۔ امریکہ کی چاہت ہے کہ اس خطے میں قوم پرستی کی بنیاد پر اسلحے کی خریداری کو فروغ ملے۔

بلوچستان کے بلوچوں سے گزارش!_
بلوچ ایک عزتدار، اپنے اقدار اور اپنی روایات میں منفرد قوم ہے۔ جب پاکستان کی دوسری قوموں میں ڈرامے، فلمیں اور اسٹیج ڈانس کی بہتات تھی توپھر واحد بلوچ قوم نے بلوچی فلم کی وجہ سے کراچی میں سینما کو آگ لگادی تھی حالانکہ اس میں سارے کردار دوسری قوم کے ایکٹروں نے ادا کئے تھے۔بلوچ قوم نے اپنی آزادی کیلئے جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت پارلیمنٹ، سرکار ی ملازمین اور حکومت سے لڑنے کا موڈ نہیں رکھتی ہے۔ ایسے میں جب قوم دو حصوں میں تقسیم ہو تو اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔جب سکول ٹیچرز،مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کو نشانہ بنایا جائے تو ہمدردی رکھنے والوں کی ہمدردیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں لیکن ان کی اُلٹی سیدھی حرکتوں کی وجہ سے عوام میں ان سے بہت نفرت کی فضاء بن گئی۔ بلوچ سرماچاروں سے بھی بلوچ عوام کو بڑی ہمدردیاں تھیں لیکن ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
کسی ملک کی فوج اور عوام کے سامنے جب کسی کو دشمن نامزد کیا جائے تو پھر معاملہ بالکل مختلف بن جاتا ہے۔ بلوچ قوم پرست اورTTPنے جب پاک فوج کو اپنا دشمن قرار دے دیا تو پھر فوج نے بھی ان کے ساتھ دشمنوں والا سلوک روا رکھا اور جب دو دشمنوں میں لڑائی ہوتی ہے تو اکثر وبیشتر کمزور کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئی درست سیاسی قیادت نہیں ورنہ فوج کیساتھ کسی کی دشمنی تک بات پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آسکتی تھی۔ کراچی پورٹ سے لاہور اور پورے پنجاب تک ریلوے لائن اور قومی شاہراہ موجود تھی۔چین سے بھی لاہور اور پنجاب موٹروے کے ذریعے جڑا ہوا تھا۔ گودار کوئٹہ اور پشاور کے ذریعے بھی لاہور اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر کوئٹہ اورپشاور کے راستے گلگت سے گوادر تک موٹر وے افتتاح کیا، جو چین کیلئے بھی سب سے مختصر راستہ اور صراط مستقیم کی مانند سیدھا تھا۔ لاہور کیلئے بھی بھول بھلیوں کے مقابلہ میں یہی راستہ ہر لحاظ سے مختصر اور اچھا تھا لیکن نواز شریف نے گوادر سے آواران اور سکھر ، ملتان اور لاہور کی طرف موڑ دیا جو بالکل بھول بھلیاں ہیں۔ آواران میں ڈاکٹر اللہ نذر کی وجہ سے بلوچوں کے گاؤں بھی ایف سی والے پختونوں سے گرادئیے گئے۔ یہ وہ نوازشریف تھا جس نے لاہور کو نوازنے کیلئے گوادر سے کوئٹہ اور پشاور کو محروم کردیا اور چین کے سی پیک کو بھی نقصان پہنچایا۔ مغربی روٹ کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ راستہ بہت مختصر تھا ، پیٹرول کی بچت، وقت، ماحولیاتی آلودگی اور دھند سے بچت تھی ۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ کوئٹہ کو محروم کرکے لاہور کو نوازنے کی بات نہ آتی کیونکہ نوازشریف بلوچستان کی سوئی گیس سے پنجاب کو نوازنے کی بات کرکے بلوچوں کی ہمدردیاں لیتا تھا۔ تیسرا فائدہ یہ تھا کہ ایف سی اہلکاروں کو خونخوار بناکر بلوچوں کو مزید ناراض نہ کیا جاتا۔

پنجابی بھائیوں سے کچھ گزارشات! _
جب کراچی میں ایم کیوایم اور پختونوں کے جھگڑے چل رہے تھے تو علماء نے دونوں طرف کے نمائندوں کو بلایا تھا۔ پختون رہنماؤں نے علماء سے کہا تھا کہ جب ہمیں مارا جارہا تھا تو تم خاموش تھے اور اب جب ہم نے مارنا شروع کیا ہے تو تمہیں اسلامی بھائی چارہ یاد آگیا۔ ان دنوں لسانیت کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ مفتی منیر احمد اخون(سوشل میڈیا پرمفتی اعظم امریکہ) مولانا محمد یوسف رحیم یار خان اور مولانا عبدالرؤف کشمیری ہماری جماعت میں پڑھتے تھے۔ طلبہ جمعرات کو اپنی کلاس کی انجمن بناکر تقاریر سیکھنے کی مشق کرتے تھے۔ عبدالرؤف کشمیری نے انجمن کا نام مولانا انورشاہ کشمیری کے نام پر رکھوایا۔ میں نے اس کی مخالفت کی اسلئے کہ لسانیت کی فضا میں ایک کشمیری کا دوسرے کشمیری سے رشتہ تو صرف لسانیت کو ہوا دینے والی بات تھی، میں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے نام کی مہم چلائی۔ اساتذہ نے بزم قاسم نانوتوی رکھ دیا جو دونوں کے استاذ تھے۔ منیر احمد اخون کو جنرل سیکرٹری اور عبدالرؤف کشمیری کو بزم کا صدر بنادیا۔ میں نے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی اور ان کو سرکاری مسلم لیگ قرار دیکر مسترد کیا اور ہر کچھ عرصہ کے بعد کنوینر بدلتا رہا۔آخری وقت تک سرکاری مسلم لیگ درسگاہ میں نہ آسکی۔ جب کتابیں ختم ہونا شروع ہوئیں تو مفتی منیراحمد اخون وغیرہ نے طلبہ سے دس دس روپے لیکر مٹھایاں بانٹنا شروع کردیں۔ جس پر پختون طلبہ نے مولانا عبدالسلام ہزاروی وغیرہ کی سرکردگی میں اپنی ایکشن کمیٹی بنائی اور میرے علم میں لائے بغیر مجھے اس کا سربراہ بھی بنادیا۔ جب انجمن میں میرا نام پکارا گیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ اس سلسلے میں کچھ معلومات بھی نہیں تھی لیکن لسانی فضا سے متأثر ہونے پر بڑا دکھ ہوا۔ میں نے تقریر میں کہا کہ پاکستان میں صوبہ سرحد سے ہمارا تعلق ہے لیکن سرحد غیرملک اور اپنے ملک کی اس لکیرکو کہتے ہیں جو اپنی نہیں ہوتی ۔ صوبہ سرحد میں قبائلی پٹی کو علاقہ غیر کہتے ہیں۔ اس میں بھی اپنائیت نہیں ہے۔ قبائلی علاقہ میں وزیرستان سے ہمارا تعلق ہے اور وزیرستان میں وزیر اور محسود ہیں۔ وزیر ہمیں محسود سمجھتے ہیں۔ محسود ہمیں محسود نہیں برکی سمجھتے ہیں اور برکی ہمیں غیر برکی پیراور سید سمجھتے ہیں۔ میں تو اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر سب کیلئے غیر ہی غیر ہوں۔ پھر لسانی بنیاد پر اشتعال کو ختم کردیا اور منیر احمد اخون وغیرہ سے بھی کہہ دیا کہ ان کے جذبات کی ترجمانی کیلئے کسی کو ساتھ رکھتے۔اس نے کہا کہ مجھے بالکل یہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کے جذبات مجروح ہونگے اور آئندہ خیال رکھوں گا۔ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور اب عمران خان کو مسلط کیا ہے لیکن ملک کی دیگر قومیتوں کے علاوہ پنجابیوں کی جان، مال اور عزت کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ بدمعاش طبقہ کوٹ کچہری کے مسائل کیلئے سیاسی جماعتوں کی پناہ لیتے ہیں اور قبائلی علاقہ جات سے سیٹل ایریا کا حال ہرلحاظ سے بہت بدتر ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ جس طرح کوئی سیاسی پارٹی اپنے بدمعاش مافیا کے بغیر نہیں چل سکتی ہے ،اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نے بھی مذہبی تنظیموں اور دہشتگردوں کو حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے مجبوری میں پال رکھا تھا۔PTMکو جب اپنی قوم اور اس کے بڑے چھوڑ کر گئے تھے اور وہ حوصلہ ہار چکے تھے تو میں نے اسٹیج سے ”یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کے خوب نعرے لگوائے تھے۔اسلئے پھر منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں نےGHQکی کال پر وہاں حاضری دی تھی۔ میں نے کہاتھا کہ ریاست نے بھٹو، نوازشریف اور عمران خان جن لاڈلوں کو پالا ، یہ کورٹ میرج والی بیٹیاں ہیں جو اپنے والدین کی تذلیل کرتی ہیں۔ قبائل پر اتنی مشکلات گزری ہیں ، انہوں نے آج تک اُف بھی نہیں کی۔ قائداعظم ،لیاقت علی خان، محمد علی بوگرہ جو بھی حکمران تھے، قبائل نے پاکستان کو قبول کیا جو مغل اور انگریز کے سخت مخالف رہے ہیں۔

رعایا اور عورتوں کے اسلامی حقوق_
اسلام نے دنیا میں فتوحات اسلئے حاصل نہیں کی تھیں کہ مسلمان حکمرانوں نے دوسری دنیا کے مقابلے میں کوئی جدید سے جدید ٹیکنالوجی میں کمال پیدا کیا تھا بلکہ رعایا اور عورتوں کے مثالی حقوق نے دنیا میں اسلام کو پھیلنے کا موقع دیا تھا لیکن افسوس کہ طلاق اور خلع میں جس طرح عورت کا گلہ گھونٹ دیاگیا، اس کے مقابلے میں مغرب اور دیگر دنیا مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔ اسی طرح رعایا کو اسلام نے جو حقوق دئیے تھے تو اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی تھی ۔ قرآن کا کمال یہ تھا کہ مذہبی معاملے میں ایک خاتون نے نبیۖ سے مجادلہ کیا جس کا ترجمہ قائداعظم کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور ان کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن اور شاہ ولی اللہ اور انکے صاحبزادوں نے ”جھگڑا کرنے ” سے کیا ہے۔ جس میں رسول اللہ ۖ کی رائے کے برعکس وحی اس عورت کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی تھی۔ نبیۖ مذہب اور اقتدار میں مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ قابلِ قبول حیثیت رکھتے تھے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ النبی اَولیٰ بالمؤمنین من انفسھم ”نبی مؤمنوں کیلئے اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیت رکھتے ہیں”۔ اسلامی احکام میں فرض، واجب اور سنت کے علاوہ اَ ولی اور غیر اَولی بھی ہوتے ہیں جس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم ہے۔ تقدیم کی حیثیت اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کی اسلئے مؤمنوں سے منوائی تھی کہ جب ایک عورت نبیۖ سے مجادلہ کرتی ہے تو اگر وہ مناسب اور غلط ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی وحی اور قرآن کے ذریعے سے قیامت تک کے انسانوں کیلئے نمونہ کے طور پر انسانوں کی رہنمائی کیلئے بہترین مثال بناکر رکھ دیتے ہیں کیا کسی ملک اور قوم میں ایک عورت اور حکمران کے مقابلے میں اپنی رعایا کو یہ حق حاصل ہے کہ اس طرح ایک ادنیٰ درجے کی نامعلوم عورت کے حق میں اس طرح سے کوئی فیصلہ ہوجائے؟۔ اسلام کی یہ روح مردوں اور حکمرانوں میں ناپید ہوچکی ہے۔
غدیر خم کے موقع پر نبیۖ نے درجہ بالا آیت پڑھ کرعلی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھ کر اعلان فرمایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ”جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے”۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے باپ مفتی محمد شفیع کا بتایا تھا کہ ہمارے اساتذہ کے استاذ شیخ الہند کو مولوی کہا جاتا تھا لیکن جب مولانا اور بڑے بڑے القاب رکھنے والے میں علم نہیں ہے اور ان میں علم تھا۔ عربی میں ”نا ” جمع مذکر کی ضمیر ہے جس کا مطلب ”ہمارا” ہے۔ مولا کو مولانا کہنے کا مطلب ہمارا مولا ہے۔ حضرت علی وہ شخصیت تھے کہ جن کونبیۖ نے خود صحابہ کرام کیلئے اپنے دور میں ”مولا” کا خطاب ہی نہیں دیا بلکہ سب سے مقدم ہونے کی تلقین ہونے کی آیت کے حوالے سے اس کی تفسیر بھی بنادیا تھا۔
نبیۖ نے حدیث قرطاس میں چاہا کہ امت آپۖ کے بعد گمراہ نہ ہو جائے لیکن حضرت عمر نے کہہ دیا تھاکہ ”ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔

شیعہ سنی اختلاف اور اس کابڑا حل_
شیعہ اپنے وجود کو سنیوں کی احادیث کی کتب، قرآن کی تفاسیر اور تاریخ کی کتابوں کے حوالے سے نہ صرف زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ بہت سارے سنیوں کو بھی اپنے دل وجان اور عقل ودماغ سے اپنا ہمنوا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیعہ ماحول کو دیکھ کر نرم یا گرم رویہ اختیار کریں لیکن ان کو پورا پورا اعتماد ہے کہ حق پر وہی ہیں۔ سنی اگر مقابلے میں یزید سے لیکر مغل بادشاہ اورنگزیب تک بادشاہی نظام کی حمایت کریںگے تو ہار جائیںگے۔ احادیث، تفسیر اور تاریخ کی بات کا بھی سنیوں کو اُلٹا نقصان ہی ہوگا۔ سوشل میڈیا کو ڈنڈے کے زور پر روکنا ناممکن ہے اور اب یہ معرکہ زور وزبردستی نہیں بلکہ علم وفہم اور اچھی خصلت سے حل ہوگا۔
جب بریلوی دیوبندی اکابر کے مطابق حضرت عمر نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو ” مولا” قرار دئیے جانے پر آپ کو مبارکباد بھی دی تو شیعہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ حدیثِ قرطاس کی بنیاد پر حضرت عمر کی بھرپور مخالفت بھی کریں۔ پروفیسر حمیداللہ سنی اسلامی دنیا کے بہت بڑے اسکالر تھے جس نے ایک پوری کتاب لکھ کر ” حدیث قرطاس” کی صحت پر مقدور بھر جان چھڑانے کیلئے بہت سے سوالات بھی اٹھائے لیکن وہ اس میں بالکل ہی ناکام ہوگئے۔ جھوٹ اور وکالت کا غلط طریقہ اہل سنت کو مزید مشکلات میں پھنسادیتا ہے۔
بہت سارے معاملات میں حنفی مسلک کے اصولِ فقہ میں احادیث صحیحہ کی بھی مخالفت ہے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے اقدامات کی بھی مخالفت ہے۔ اے کہ نشناسی خفی را،از جلی ہشیار باش ، اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش۔اقبالکی شاعری بھی امت کے کام اسلئے نہیں آئی کہ شیعان علی اور شیعانِ عمرنے اپنا اپنا گروہ بنالیا۔ سپاہ صحابہ سے پہلے مولانا سید عبدالمجید ندیم نے سپاہ فاروق اعظم کی تشکیل کی تھی۔ شاہ بلیغ الدین اور ناصبی علماء شیعہ کے مقابلے میں سپورٹ کیا جانے لگا تھا۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی انجمن سپاہ صحابہ کا تعلق جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن سے تھا لیکن ان کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے آئی ایس آئی نے مولانا ایثارالحق قاسمی کو نوازشریف اور جھنگ سے بیگم عابدہ حسین شیعہ رہنما کے اتحاد سے جھنگ کی سیٹ سے جتوایا۔ وزیراعظم عمران خان کی ایک کلپ سوشل میڈیا پر ہے جس میں وہARYکے کاشف عباسی سے کہتا ہے کہ ”سپاہ صحابہ کے لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہماری شیعہ سے صلح کروادو۔ آئی ایس آئی نے ہمیں ان سے لڑواکر دشمنی کروائی ہے”۔
جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی ایس آئی نے بنائی تھی تو جھنگ سے شیعہ اور سپاہ صحابہ اتحاد کے بانی کون ہوئے؟۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام مولانا سمیع الحق گروپ پیش پیش تھے جس نے اہل تشیع اور سپاہ صحابہ کے درمیان ایک دوسرے کی تکفیر نہ کرنے کا معاہدہ کروایا تھا۔ معروضی حالات اس قدر گھمبیر تھے کہ جب ضربِ حق کے نمائندے امین اللہ کو قاضی حسین احمد سے کوئٹہ میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ملایا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے اپنے مضمون میں بہت تفصیل کیساتھ اپنا تجزیہ لکھاتھا کہ مولانا مسعو د اظہر کوا نڈیا کے تہاڑ جیل میں جو آزادی تھی تو وہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں بھی حاصل نہیں تھی۔ ہر ہفتہ ضرب مؤمن میں پاکستان کے حالات حاضرہ پر بڑا مضمون چھپتا تھا ۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بھارتی ایجنسی را اورISIکا کھیل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ امریکیCIAکا گیم ہے ۔مگر جب قاضی حسین احمد سے نمائندۂ ضرب حق نے سوال پوچھا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان ؟ ، تو وہ ناراض ہوگئے کہ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھا۔ یہ اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر کا حال تھا۔ شدت پسند شیعہ اور سنی طبقے کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے لیکن خلوص ، ایمان اور اللہ کی مدد سے یہ بہت آسان بھی ہے۔ اس کا علاج بندوق نہیں دلیل ہے۔

شیعہ سنی اتحاد کیلئے لاجواب دلائل؟ _
اگر یہ ثابت ہوجائے اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ حضرت علی کو اپنے بعد نبی ۖنے اپنا ولی بنالیاتھا اورحدیث قرطاس میں حضرت علی ہی کو نامزد کیا جانا تھا تو اگر حدیث قرطاس لکھ دی جاتی اور انصار ومہاجرین نبی ۖ کے وصال فرمانے کے بعد خلافت کے جھگڑے سے بچ جاتے۔ حضرت علی ایک متفقہ مولانا بن کر مسندِ خلافت پر بیٹھ جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ نبیۖ علم کے شہر اور حضرت علی اس کا دروازہ ہونے کیساتھ ساتھ اقتدار بھی حاصل کرتے۔ حضرت ابوبکرو عمرو عثمان سے انتظام حکومت بھی بہتر چلاتے۔ نبیۖ کو ایک شخص نے زکوٰة دینے سے انکار کیا تو نبیۖ نے اس کے خلاف قتال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے قتال کیا تو حضرت عمر کو شروع میں بھی اس پرتحفظات اور وفات ہونے سے پہلے بھی فرمایا کہ کاش ہم نبیۖ سے اس مسئلے میں رہنمائی حاصل کرتے۔ اہلسنت کے چاروں اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰة نہ دینے پر حکمران کا رعایا کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں لیکن نماز کیلئے بعض ائمہ نے قتل کا حکم نکال کر حضرت ابوبکر ہی کا حوالہ دیا ہے جس کا احناف نے یہ جواب دیا کہ اس سے تو آپ کو بھی اتفاق نہیں ہے تو پھر اس کی بنیاد پر بے نمازیوں کو قتل کرنے کا قیاس بھی غلط ہے۔
ا س بحث کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جب نبیۖ سے ایک عورت نے مذہبی مسئلے پر اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے عورت کی بات ہی کو اسلام کا حکم قرار دیا تھا۔ اگر بالفرض حضرت علی اور باقی گیارہ ائمہ اہلبیت نے کوئی حکم جاری کیا ہوتا اور وحی کا سلسلہ بھی بند تھا تو کسی امام سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تو اس کا درجہ کیا نبی ۖسے بھی بڑا تھا؟۔ اور اگر اختلاف کرنا جائز ہوتا تو پھر وحی کے ذریعے رہنمائی بھی نہیں تھی۔ پھر ایک ایسی مذہبی ڈکٹیٹر شپ کا خطرہ ہوتا جس کے ہاتھ میں اقتدار بھی ہوتا۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ اہل تشیع کا بارہواں امام غائب اپنے مخالفین سے نہیں حامیوں سے غائب ہوجاتا۔ آج بھی اہل تشیع کا عقیدہ اور مذہبی رویہ اسلام کے مطابق درست ہوجائے تو مہدی غائب ایران میں منظر عام پر آسکتے ہیں۔ اگر حضرت خضر حضرت موسیٰ کے دور سے زندہ ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی اپنے وقت سے زندہ ہیں تو امت محمدیہ میں یہ شخصیت بھی زندہ ہو تو اس میں عقیدے پر کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اگر مذہبی اور سیاسی کرسی الگ الگ نہ ہوتی تو عباسی دور میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام جعفر صادق بھی اپنے مسلکوں کے امام کیسے بن سکتے تھے؟۔ شیعہ مسلک بھی اپنے آگے پیچھے کے اماموں کو چھوڑ کر فقہ جعفریہ اسی لئے کہلاتا ہے۔ اہل سنت اورشیعہ کے امام حسن نے قربانی دیکر اپنے اقتدار کو امیرمعاویہ کے حوالے کردیا تو شیعہ کلمہ و آذان بھی انکے پہلے امام علی کی ولایت تک محدود ہوگئی ۔ حضرت حسین کی شہادت کے بعد باقی ائمہ اہل بیت نے کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کیا کہ اپنے آپکو یا اپنے شیعوں کو لوگوں کے جذبہ اشتعال سے مروادیا ہو تو آج کے شیعہ کیلئے بھی ایسا ماحول پیدا کرنا جائز نہیں کہ اپنے لوگوں کو مروانے کیلئے دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کریں۔ جب وہ اپنے اماموں کے خلاف ذرا سی بے توقیری اور توہین آمیزی کو برداشت کرنا گوارا نہیں کرسکتے ہیں تو دوسروں سے بھی یہ توقع رکھنا چھوڑ دیں کہ وہ کسی صحابی کی توہین کو برداشت کرلیںگے۔ جب شیعہ یزید سے حضرت ابوبکر وعمر تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کی شان میں بھی گستاخی کرنا ٹھیک سمجھنے لگتے ہیں تو اس کے مقابلے میں سنیوں کا شدت پسند طبقہ بھی ان کو ٹھکانے لگانا اپنا فرض اور دینی غیرت سمجھتے ہیں۔ سعودیہ ، ایران اور افغانستان میں مذہبی جذبہ اور اقتدار اکٹھے ہوگئے تو اسلام نے نہیں فرقہ واریت نے زور پکڑ لیاہے۔

شیعہ کو برداشت کرنے کا منطقی نتیجہ_
جب اہل تشیع حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے اختلاف کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں توانصار کے سردار حضرات سعد بن عبادہنے حضرت خلفائ کے پیچھے کبھی نماز بھی نہیں پڑھی۔ جس طرح انصار ومہاجرین ، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابوبکر وعمر نے خلافت کو اپنا حق سمجھ لیا اور یہ کوئی کفر واسلام کا مسئلہ نہیں تھا تو حضرت علی اور اہل بیت کا اپنے آپ کو خلفاء راشدین، بنوامیہ اور بنوعباس سے خود کو خلافت کا زیادہ حقدار سمجھنے کا بھی بدرجہ اَولی جواز تھا۔ عربی میں اُولیٰ اور اَولیٰ میں فرق ہے۔ اول کی مؤنث اُولی ہے جبکہ اَولی اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم کے معنیٰ میں نکلتا ہے۔ اگر کوئی اسکے معنی سے یہ منطقی نتیجہ نکالتا ہے کہ سورۂ مجادلہ میں عورت کا مجادلہ غلط تھا تو وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھ سکا ہے۔ حضرت علی اور اہل بیت نے خلافت کے مسئلے میں مقدم اور غیرمقدم ہونے کے اعتبار سے ضرور اختلاف کیا تھا لیکن اس کو کفر ونفاق کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔ ورنہ حضرت عمر سے حضرت علی یہ نہیں کہتے کہ آپ جنگ میں خود تشریف نہ لے جائیں اسلئے کہ اگر اس جماعت کو شکست ہوگئی تو آپ مزید کمک بھیج سکیں گے اور اگر آپ خود شریک ہوئے اور شکست ہوگئی تو مشکل پڑے گی۔
اگر شیعہ نہ ہوتے تو اہل سنت کے ائمہ بھی حکمران کیلئے زکوٰة کیلئے قتال کو جائز سمجھتے اور آج سنیوں کا بھی مدرسہ زکوٰة پر نہ چلتا اسلئے کہ اہل اقتدار اس پر اپنا قبضہ کرکے ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ حضرت عمر کے کئی معاملات سے حنفی مسلک والے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ ایک آغا خانی شیعہ کو سنی اور شیعہ نے مل کر پاکستان کا بانی بنایا ہے۔ اگر کوئی شیعہ یا سنی مذہب پرست پاکستان کا بانی ہوتا تو آج ہمارے حالات اس سے بھی بدتر ہوتے۔
رسول اللہۖ نے حدیث قرطاس سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ہمارے لئے مسئلہ آسان بنادیا۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر بھی کوئی زیادہ مسئلے مسائل کھڑے نہیں ہوئے اور حضرت عمر کی نامزدگی بھی قبول کی گئی اور حضرت عثمان کی نامزدگی بھی قبول کی گئی لیکن ان سے اختلاف رکھنا کوئی خلافِ شرع بات نہیں تھی۔ یہی وہ رویہ تھا کہ قرآنی آیت کے مطابق اولی الامر سے اختلاف کرنے کی زبردست گنجائش کی امت میں صلاحیت پیدا ہوگئی تھی اور اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے حضرت حسین کے ذریعے نمایاں کرکے قیامت تک یزیدیت اور حسینیت کے درمیان ایک بہت واضح فصیل کھڑی کردی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت” میں قرآنی آیت اور احادیث صحیحہ کے ایسے بخئے ادھیڑ دئیے ہیں کہ فرشتے بھی الحفیظ والامان کی صدا آسمانوں سے بلند کرتے ہونگے۔ جب پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے اکثر علماء ومفتیان اور مدارس نے شیعہ کو متفقہ طور پر کافر قرار دیا تو مفتی تقی عثمانی نے سرکاری مرغے کی حیثیت سے اس پر دستخط نہیں کئے۔ جب اس نے اپنے اور اپنے بھائی کیلئے دارالعلوم کراچی میں ذاتی مکانات خریدے تو مفتی رشید احمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ” وقف مال خریدنے اور فروخت کرنے کی شرع میں اجازت نہیں ہے اور یہ بھی شریعت میں جائز نہیں کہ ایک ہی آدمی بیچنے وخریدنے والا ہو”۔ اس پر اپنے استاذ کی تاریخی پٹائی لگائی تھی۔ یہ شکرہے کہ خلافت پر کسی سید کا قبضہ نہیں تھا ورنہ وقف مال کی طرح بہت سارے معاملات پر پتہ نہیں ہے کہ سادات بھی کہاں سے کہاں تک پہنچتے، جیسے آغا خانی سادات پہنچے ہیں۔
اگر سنی اپنے خلفاء اور ائمہ سے اختلاف کرسکتے ہیں تو اس میں شیعہ لوگوں کو برداشت کرنے کا بڑا عمل دخل ہے۔ اب اگر فقہی مسائل میں سنیوں کی غلطی بھی ثابت ہوجائے تو مسئلہ نہیں لیکن شیعہ کی غلطی ثابت ہوگئی تو وہ مٹ جائیں گے۔

داعش اور کالعدم سپاہ صحابہ کیلئے راہ!_
داعش دنیا میں خلافت کا نفاذ اور لشکر جھنگوی والے اہل تشیع کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مقاصد میں تشدد کے ذریعے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ خلافت کا نفاذ اور اہل تشیع کو راہِ راست پر لانا تشدد نہیں دلائل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ طالبان، ایران اور پاکستان داعش اور لشکر جھنگوی کو ختم کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔ شدت پسندانہ نظریات کسی کے پیدا کرنے سے نہیں بلکہ یہ فرقہ وارانہ مزاج کے لوگوں میں اس کی آبیاری کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔
امریکیCIAنے9/11کا واقعہ اسلئے ہونے دیا کہ جس عراق کو1990ء میں بمباری سے مسخر نہیں کیا جاسکا تھا وہ افغانستان میں طالبان کے بعد یہاں تک پہنچادیا گیا کہ عراق کے سنی کردجج نے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا تھا۔ پھر لیبیا میں قذافی کو بھی اپنوں کے ہاتھ شکست دیکر انجام تک پہنچایا امریکہ نے تیل کے ذخائز پر قبضہ کرکے پاکستان کے حکمرانوں کا ضمیر بھی ختم کیا تھا۔ پرویزمشرف کے ریفرنڈم کیلئے عمران خان بندر کی طرح اپنی دُم اٹھاکر جس امپائر کے ڈنڈے پر ناچتاتھا ،اس وقت تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان ریفرینڈم کی مخالفت کررہاتھا۔ ایسا لیڈر خاک کوئی جماعت یا ادارے بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہماری عوام اور ادارے بھی بہت سیدھے ہیں۔
داعش اور لشکر جھنگوی کے کارکن اور رہنما اپنی جانیں ضائع کرنے اور ملک و قوم کی تباہی کا ذریعہ بننے کے بجائے تشدد کے روئیے سے کھل کر دستبرداری ہی کا اعلان کریں۔ اہل تشیع کے شدت پسند طبقات بھی اپنے دلائل شائستہ طریقے سے پیش کریں تاکہ اس خطے میں ہماری ریاست اور حکومت کو اپنی طرف سے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ طالبان کو اقتدار مل گیا ہے لیکن وہ اپنی اس فتح پر بھی پریشان ہیں۔ ملک وقوم کو چلانے کیلئے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔
ہمارے پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر طبقے نے ابھی تک دنیا اور اپنی عوام کے سامنے یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے امریکہ اور نیٹو کا ساتھ دیکر قربانیاں دی ہیں یا پھر امریکہ کوبڑی شکست دلوائی ہے؟۔ یہ کنفیوژن طالبان رہنماؤں سے لیکر ہمارے مولانا فضل الرحمن تک سب میں پائی جاتی ہے ۔ امریکی فوج کا بہت کم نقصان ہوا اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑاہے۔کابل کی فتح پر ایگریمنٹ کے مطابق امریکہ اور طالبان نے عمل کیا تھا لیکن پنجشیر کو بہانہ بنایا جارہاہے۔ سارے افغانستان میں نیٹو کے ہوتے ہوئے طالبان کو فتح مل گئی تو پنجشیر کا فتح کرنا بھی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
عمران خان نے فوج کی مخالفت کرنے کے بعد امپائر کی انگلی اٹھنے کا ذکر کیا اور پھر اس پر چڑھ گیا۔ نوازشریف اور پیپلزپارٹی بھی اسی امپائر کی انگلی ہی کے خمیر سے وجود میں آئے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے میثاق مدینہ کا معاہدہ یہود اور نصاریٰ سے کیا تھا اور مشرکینِ مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا لیکن جس لشکر کی طرف سے قریشِ مکہ کے مشرکین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ بھی تعریف کے قابل تھا۔ پھر جب مشرکینِ مکہ نے ان کے شر سے بچنے کیلئے نبیۖ سے گزارش کی کہ اپنے ان مسلمانوں کو اپنے پاس بلوائیں تو نبیۖ نے ان کو بلالیا تھا۔ میثاق مدینہ داخلی اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ امورخارجہ کے حوالے سے تھا۔
داعش اور لشکر جھنگوی سمیت تمام شدت پسند طبقات کو چاہیے کہ قرآن اور سنت کے مطابق عالمی اسلامی خلافت کیلئے امور کی نشاندہی کریں کہ جن سے حکمرانوں کی طرف سے اپنی رعایا عوام اور خواتین کو بھرپور انصاف اور حقوق مل جائیں۔ پھر دنیا کی تمام اسلام اور مسلمان دشمن قوتیں گرم جوش دوست کی طرح حمایتی بن جائیں گی۔ اسلام نے بہت کم جانی نقصان پر انقلاب برپا کیا تھا۔

نکاح ومتعہ اور اسلام کاروح رواں_
جب ہماری صحیح بخاری میں ایک طرف یہ حدیث ہو کہ ” فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا گیا تھا”۔ اور دوسری طرف یہ حدیث ہو کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”ایک دو چادر یا معمولی چیز کے بدلے بھی متعہ کرسکتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ان چیزوں کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو ، جس کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔ تو دونوں روایات میں زیادہ جان کس میں ہے؟۔ جبکہ پہلی روایت حضرت علی کا قول اور دوسری روایت نبیۖ کی طرف منسوب ہے اور اس میں پھر قرآن کی آیت کا بھی نبیۖ نے حوالہ دے دیا ہے۔ پہلی روایت ہے کہ فتح خیبر تک نبیۖ اور صحابہ العیاذ باللہ گدھے کھایا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن میں گدھے، گھوڑے اور خچر کو سواری اور زینت کیلئے بنانے کی وضاحت ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب پہلے بھی ہماری ہی طرح ان کو کھانے کی چیزنہیں سمجھتے تھے بلکہ سواری کے کام میں لاتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کو جائز قرار دے دیا۔ تو کیا فتح خیبر کے موقع پر حرام قرار دینے کے بعد اس کی اجازت دی جاسکتی تھی ؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبیۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دور تک ہم عورتوں سے متعہ کرتے تھے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں قرآنی آیت میں وقتی نکاح یعنی متعہ کی اجازت کا اضافہ بھی تھا جو احناف کے نزدیک قرآنی آیت کے حکم میں ہے۔ شیعہ سنی علماء اگر ڈاکٹر فضا کی موجودگی میں بول نیوز کے پروگرام میں ان باتوں کی وضاحت کردیتے تو عوام میں بہت زیادہ شعور پیدا ہوتا۔ قرآنی آیات میں نکاح کیساتھ ایگریمنٹ کا بھی ذکر ہے اور ان آیات کی درست تشریح سے شیعہ سنی میں ایک انقلاب آسکتا ہے۔
آدم کے جسم میں روح کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی۔ سورۂ اسراء میں فرمایاکہ ” آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ روح اللہ کے امور میں سے ہے اور اس کا علم تمہیں نہیں دیا گیا مگر بہت کم ”۔ روح اللہ کے عام امور میں سے ایک قدرتی امر ہے، انڈے کو مطلوبہ گرمائش جب فراہم ہو جائے تو چوزہ بننا شروع ہوجاتا ہے، اسی طرح گندم کا بیج جب مٹی میں رکھ کر اس کو پانی دیا جائے تو اس میں روح آجاتی ہے۔ فارمی جانور، پرندے اور پھل پودوں میں جو انقلاب آیا ہے یہ اللہ کی تخلیق کی ادنیٰ جھلک ہے۔ حضرت عیسیٰ و حضرت آدم کی پیدائش میں قدرت کے عام قاعدے سے ہٹ کر اللہ نے روح پھونک دی اسلئے ان کی نسبت اپنی طرف کردی ہے۔ انسان کائنات کا روح رواں ہے اور روز کی نت نئی ترقی سے اس کا مزید ثبوت مل رہاہے۔
اسلامی احکام کی اصل صورتحال سامنے آجائے تو شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور حنفی اور اہل حدیث اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کو بھول کر اسلام کی طرف ہی متوجہ ہوںگے۔ اسلام کا اصل روح رواں قرآن ہے اور قرآنی احکام کو مسلمان چھوڑ کر فرقہ واریت کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔
قرآن و سنت میں نکاح و طلاق ، حق مہر ، رجوع، خلع اور ایگریمنٹ کے جن تصورات کا ذکر ہے اگر آیات سے موٹے موٹے احکام نکال کر دنیا کو دکھائے جائیں تو پوری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام کو قبول کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گی۔ اہل سنت اپنے ائمہ کی اجتہادی غلطیوں کو درست کردیں گے اور اہل تشیع اپنے ائمہ معصومین کی طرف منسوب قرآن و سنت کے واضح احکام کے خلاف اپنا غلط مسلک دیکھ کر دم بخود رہ جائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ مذہبی طبقات نے اب اسلام کو اپنی تجارت اور تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ اللہ ہدایت دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv