پوسٹ تلاش کریں

طلاق کے مسائل کا بگاڑ۔ مولانا فضل الرحمان ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ علمائے دیوبند اور بریلوی پہل کریں۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر3
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

اب ہم کو قرآنی آیات اور طلاق سے رجوع کے احکام کو نظر انداز کرنے کی روش سے کھل کر توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے

جب ایک عورت پر حلالہ کی مصیبت پڑتی ہے تو اس کے پاؤں سے زمین بھی نکل جاتی ہے اور آسمان بھی سایہ فگن نظر نہیں آتا ہے۔ جب حضرت مریم نے بچے کی خوشخبری سنی تھی تو اس نے فرمایا تھا کہ ” کاش مجھے ماں نے جنا نہیں ہوتا اور میں نسیاً منسیا بھولی بسری بن جاتی”۔ حال ہی میں جب ایک19سالہ لڑکی کو ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا مژدہ سنایا گیا تو اس نے خود کشی کرلی تھی۔ جس عورت کا حلالہ کیا جاتا ہے تو وہ اور اسکے خاندان والے ویسے بھی زندہ زمین میں گڑ جاتے ہیں۔ دورِ جاہلیت میں دو قسم کے لوگ تھے ،ایک بے غیرت تھے جن کی خواتین سے ایک ساتھ تین طلاق کے نام پر حلالہ کی لعنت کروائی جاتی تھی اور دوسرے غیرتمند خاندان ہوتے تھے جن کی بیویوں کو ایک ساتھ تین طلاق پر اپنے شوہروں سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیا جاتا تھا۔ جن عورتوں کا حلالہ کروایا جاتا تھا ،ان کا معاملہ اور مثال زندہ دفن کرنے کے مترا دف ہی ہوتا تھا۔
قیامت میں ہمیشہ کیلئے جدا کئے جانے والوں کو ملایا جائیگااورزندہ دفن کئے جانے والی سے پوچھا جائیگا کہ کیوں زندہ دفن کیا گیا؟۔ واذا النفوس زوجتOواذالمو ء ودة سئلتOبای ذنب قتلت۔ آج یہاں دوبارہ دورِ جاہلیت کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ کسی مولوی، کسی لیڈر اور کسی بڑے شخص کی بیگم ، ماں، بیٹی اور بہن یا کسی قریبی رشتہ دار کا حلالہ کروایا جائے تو اس کو یہ پتہ بھی چل جائے گا کہ زمین میں زندہ دفن ہونے کے مترادف ہے یا نہیں؟۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو اَنعام یعنی چوپاؤں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ جن وحشیوں کے نزدیک حلالہ کی لعنت ایک سزا ہے اور جرم مرد کرتا ہے اور اس کی سزا عورت کو ملتی ہے تو ان وحشیوں کو ایک دفعہ یہاں بھی جمع کرنا چاہیے تاکہ قیامت سے پہلے ایک قیامت اور جزا وسزا کا میدان سج جائے۔
کیا کوئی یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شوہر کے جرم میں اس کی بیوی کو کسی اور شوہر کے ذریعے ریپ کرنے کی سزا دے سکتا ہے؟۔ پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے تمام حدود معطل ہیں۔ زانی، چور، ڈکیت ، قاتل اور زنابالجبر کے مرتکب کو کوئی سزا نہیں دی جاتی ہے لیکن حلالہ کی لعنت کو شرعی سزا کے طور پر جاری رکھا ہواہے۔ ایک عرصہ سے مختلف کتابوں ،اخباراور ویڈیو کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز سے یہ کام لیا ہے جس پر اللہ کے اس بڑے فضل کا بہت شکرادا کرتا ہوں لیکن بڑے بڑے لوگ میدان میں کیوں نہیں آتے ہیں؟۔ پاکستان میں اہل حق کا دعویٰ کرنے والے اور بھی بہت لوگ ہیں مگر اس طرح سے ہمارا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ میرے چند ساتھی ہی میرا ساتھ دے رہے ہیں لیکن ہمارامشن اتنا بڑا ہے جتنا ہم اپنے اللہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں اور ہمارا مشن قرآن ہے جس کو رب العالمین نے اتارا ہے اور ہمارا نبی خاتم النبیین ۖ ہیں جو رحمة للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ حلالہ ایک لعنت اور زحمت ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ ” اپنے عہدوپیمان کو ڈھال مت بناؤ کہ نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ البقرہ : آیت224
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام الفاظ اور عمل کو نیست ونابود کردیا ہے جو میاں بیوی کے درمیان صلح کے اندر کسی قسم کی کوئی رکاوٹ کا سبب بن جائیں۔ اس سے اگلی آیات میں الفاظ کی جگہ دل کے گناہ پر پکڑکی وضاحت ہے اور پھر طلاق کا اظہار کئے بغیر عورت کے انتظار کی عدت چار مہینے بتائی گئی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم تھا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت کی عدت میں ایک مہینے کا اضافہ ہے اور اگر طلاق کااظہار کردیا توپھر عورت کی عدت تین مہینے ہے۔ دیکھئے آیات225،226،227،228
اللہ کیلئے عورت کی عدت میں بے جا ایک مہینے کا اضافہ بھی قابل قبول نہیں ہے اسلئے کہ اگر طلاق کا ارادہ تھا لیکن اسکا اظہار نہیں کیا تو اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔
احناف کے نزدیک چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا۔ جمہور کے نزدیک جب تک شوہر طلاق کے الفاظ کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا تو شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت اس کے نکاح میں ہی رہے گی۔ جمہور نے تو چار مہینے کی وضاحت کا لحاظ بھی نہیں رکھا تھا اسلئے ان کی گمراہی میں شک کی گنجائش بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن احناف نے بھی چار ماہ گزرنے کے بعد طلاق پڑنے کا مسئلہ بنایا ہے جس کے بعد عورت کو مزید عدت بھی گزارنی پڑے گی اسلئے وہ حق کے قریب ہونے کے باوجود بھی گمراہی کا راستہ نہیں بھولے ہیں اور امام مہدی کے انتظار میں ہدایت کے منتظر ہیں۔
بڑی ضلالت اور گمراہی یہ ہے کہ قرآن کی وضاحت کے باوجود اتنے بڑے تضادات کا کیسے شکار ہوئے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کی عدت کا تعین کیا ہے اور عورت ہی کا حق بیان کیا ہے لیکن یہ الو کے پٹھے اس بات پر لڑتے ہیں کہ شوہر کا حق استعمال ہوا ہے کہ نہیں؟۔ اگر یہ اس بات پر توجہ دیتے کہ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے اس کے حق کا ذکر کیا ہے تو اس روشن آیت پر تضادات تک نوبت نہ پہنچتی۔ جب عورت کی عدت بیان ہوئی ہے تو پھر عورت کیلئے چار ماہ کا انتظار ضروری ہے اور اس میں بھی عورت کی رضامندی سے ہی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت مکمل ہونے کے بعد اگر عورت پھر بھی اسی شوہر کیساتھ رہنا چاہتی ہو تو اوراس کا شوہر بھی راضی ہو تو کتنی ہی مدت گزرجائے تونکاح بحال ہے اور اگر عورت عدت کی تکمیل کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو اس شوہر کیلئے پھر عورت پر پابندی لگانا حرام ہے اور اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ دوسرے شوہر ہی سے عورت اپنی مرضی سے نکاح کرلے۔ جس طرح بیوہ عورت کی مرضی ہے کہ عدت پوری ہونے کے بعد اپنے مردہ شوہر سے نکاح بحال رکھنا چاہتی ہے یا پھر نئے شوہر کا اپنی مرضی سے انتخاب کرتی ہے۔ اسی طرح ناراضگی کابھی اسے بدرجہ اولیٰ یہی حکم ہے۔ کاش قرآن کے احکام کو سمجھ کر فیصلے کئے جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت228میں تین چیزوں کا ذکر کیا ہے ایک حیض کی صورت میں عدت کے تین مراحل تک عورت کو انتظار کا حکم دیا ہے اور حمل کی صورت میں حمل کو چھپانے سے منع کیا ہے اسلئے کہ پھر عدت حمل ہے۔ دوسرا یہ کہ عدت کے دوران شوہر کو اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تیسرا یہ کہ مردوں اور عورتوں کے حقوق کو برابر قرار دیا گیا ہے لیکن مردوں کو ان پر ایک درجہ عطاء کیا گیا ہے۔ ایک درجہ یہی ہے کہ عورت کی عدت ہوتی ہے اور مردکی عدت نہیں ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ دو، تین اور دس درجات نہیں دئیے گئے۔
آیت کا پہلاتقاضہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد بھی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ حیض کی حالت میں تین مرتبہ طلاق کا فعل خود بخود وارد ہوگا اور حمل کی صورت میں عدت کے تین مراحل اور تین مرتبہ طلاق کے فعل کا کوئی اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری کی احادیث میں نبیۖ نے یہی وضاحت فرمائی ہے جو کتاب التفسیر سورہ ٔ طلاق، کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں موجود ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں بھی اسی کی وضاحت ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229میں الطلاق مرتان کے بعد تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اصولِ فقہ کی کتابوں میں تضادات کی جھک ماری گئی ہے۔
آیت229البقرہ میں تینوں طلاق قرآن واحادیث اور انسانی فطرت سے ثابت ہیں کیونکہ قرآن وسنت میں طلاق کو ایک فعل بتایا گیا ہے اور پہلی مرتبہ کا طہر و حیض عدت کا پہلا مرحلہ اورپہلی مرتبہ کی طلاق ہے، دوسری مرتبہ کا طہروحیض عدت کا دوسرا مرحلہ اور دوسری مرتبہ کی طلاق ہے اور تیسری مرتبہ کاطہروحیض عدت کا تیسرا مرحلہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ لیکن ان تینوں مرتبہ کی طلاق سے بھی حرمت غلیظہ ثابت نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے دوسرے شوہر سے اس کا نکاح کرانا ضروری ہو۔ احناف کے نزدیک البقرہ آیت226کے چار مہینے میں طلاق کااظہار کئے بغیر بھی طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے اور اگر عورت حیض والی ہو تو تین مرتبہ کی جگہ چار مرتبہ طلاق کا فعل واقع ہوجاتا ہے لیکن اس سے حرمت مغلظہ ثابت نہیں ہوتی کیونکہ حرمت مغلظہ کا سبب ہی قرآن میں کچھ اور ہے۔
امت کی بڑی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ آیت229میں تین مراحل کے اندر تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا ذکر ہے کہ ان کا واپس لینا جائز نہیں ہے۔ مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی نے بھی اپنی نری جہالت کی وجہ سے عورت کی طرف سے اس مجبوری کے فدیہ کو خلع کا معاوضہ قرار دیا ۔ حالانکہ یہ کتنی بھیانک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ طلاق کے بعد یہ وضاحت کی ہے کہ شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ یہی بات سورۂ النساء کی آیات20اور21میں طلاق کے حوالے سے اللہ نے کی ہے اور خلع کا حکم سورہ النساء آیت19میں بالکل واضح ہے۔آیت229البقرہ میں تین مرتبہ طلاق کے بعددی ہوئی کسی بھی چیز کو واپس لینا حلال نہ ہونے کی وضاحت ہے لیکن اس صورت میں یہ استثناء ہے کہ جب اس چیز کی وجہ سے دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے، اور اس کاتعلق دونوں کے میل ملاپ سے ہے۔ جب عورت اور شوہر کا ازدواجی تعلق ختم ہوجائے تو پھر شوہر کی دی گئی کسی چیز کی وجہ سے میل ملاپ اور دونوں کا اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔
یہ کس قدر کم بختی اور بدقسمتی کی بات ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کو تحفظ فراہم کیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے فعل اور علیحدگی کے حتمی فیصلے کے بعد عورت سے شوہر وہ کوئی بھی چیز نہ لے جو اس نے دی ہو لیکن مذہبی طبقہ اسی بات کو خلع اور عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنارہاہے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ آیت226البقرہ کی عدت میں بھی باہمی رضامندی کے بغیر عورت کو رجوع پر زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اورآیت228البقرہ میں بھی طلاق کے بعدصلح کے بغیر عورت کو زبردستی سے مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو یا تین طلاق اور تین مرتبہ کی طلاق کیونکہ اس سے رجوع کا تعلق عدد سے نہیں بلکہ عدت کی مدت سے ہے۔ البتہ عورت سے صلح کئے بغیر رجوع کرنا شوہر کیلئے حلال نہیں ہے۔ آیت229میں بھی معروف طریقے کی رجوع سے صلح کی شرط پر رجوع مراد ہے۔ اور صلح کی شرط کے بغیر نہ ایک مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے اور نہ دومرتبہ کی طلاق کے بغیر۔ اور صلح کی شرط کیساتھ تین مرتبہ کی طلاق کے بعد رجوع کرنے کی ممانعت نہیںہے اور جس چیز کے حلال نہ ہونے کا حکم ہے وہ شوہر کی طرف سے دیا گیا مال ہے۔
جب آیت229میں وہ صورتحال بیان کی گئی ہے کہ جب دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس بات کو پہنچ جائیں کہ آئندہ رابطے کی بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے تو سوال رجوع کرنے یا نہ کرنے کا نہیں پیدا ہوتا ہے بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس علیحدگی وطلاق کے بعد پہلا شوہر اس عورت کو اپنی مرضی سے جس سے بھی چاہے نکاح کی اجازت دے سکتاہے؟۔ انسان کی غیرت اور فطرت گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیوی اور بچے کی ماں اس طلاق کے بعد اڑوس پڑوس یا قریبی رشتہ داروں اور احباب سے نکاح کرلے۔ کیونکہ یہ غیرت انسانوں کے علاوہ چرندوں ، پرندوں اور وحشی درندوں میں بھی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس مردانہ غیرت سے کسی بھی طلاق کے بعد عورت کو زبردست تحفظ دے دیا ہے۔
جن الفاظ سے تحفظ دیا ہے وہ بھی کمال کے ہیں اور اس وجہ سے بہت زیادہ خواتین نے ظالم وجابر اور بہت زیادہ طاقتورمردوں سے چھٹکارا پایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بنوں کی سوشل میڈیا پر ایک مولوی کے خلاف زنا بالجبر کا کیس مشہور ہوا تھا جس نے کسی عورت سے اس کی اجازت کے بغیر حلالے کا ارتکاب کیا تھا اور اس وجہ سے اس مولوی کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کیس کی تحقیقات کرکے اس کو پوری دنیا کے سامنے بھی لاسکتے ہیں۔
آیت230میں اس طلاق کے بعد عورت کا دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کو آیت229کی صورتحال سے نتھی کرنا درست ہے ۔ فقہ حنفی، علامہ ابن قیم اورحضرت عبداللہ بن عباس کی طرح قرآن کے فہم کا یہی تقاضا ہے جس کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس آیت230میں بھی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد پہلے شوہر اور اس عورت کا اس شرط پر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب دونوں کو یہ گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ اسلئے کہ دوسرے شوہر سے ازوداجی تعلقات کے بعد پھر جب اس کو طلاق دی جائے تو اس عورت کا دوسرے شوہر سے تعلق نہ بنے اور پہلاشوہر اس کو پھر قتل نہ کردے۔ یہ پوری طرح اطمینان ہونا چاہیے کہ پہلے شوہر کے مقابلے دوسرے شوہر کی جسمانی، مالی اور ہر لحاظ سے کیفیت ایسی نہ ہو کہ عورت بھی اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکے اور شوہر بھی اس کو غیرت کے نام پر پھر اس کو قتل کردے۔
قرآن نے اپنی آیات بینات کے ذریعے سے معاشرے کی تمام برائیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدت کے اندر باہمی صلح واصلاح سے بہر صورت اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا تھا لیکن کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے؟۔ فقہ حنفی میں فدیہ جملہ معترضہ نہیں ہے بلکہ آیت230کی طلاق سے مربوط ہے۔ اور آیت229میں دومرتبہ کے طلاق کا تعلق ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اگلے جملے سے بنتاہے جس میں فامساک بمعروف او تسریح باحسان کی ف تعقیب بلامہلت ہے۔ اسلئے اس تین مرتبہ کی طلاق کے بعد عدت کی تکمیل سے معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش واضح تھی اور پھر ایک خاص صورتحال کا ذکر کیا گیا کہ اس طلاق کے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہے جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کرلے۔ پہلی آیات میں بھی یہ واضح تھا کہ صلح واصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن جب تک سمندر کے شکاریوں کی طرح مچھلیوں کو جھینگا نہیں پھینکا گیا تو مولوی قرآن کی آیات کا شکار نہیں ہوئے اور نہ اُمت مسلمہ ان کا شکار بن گئی لیکن جونہی حلالے کا جھینگا پھینک دیا گیا فوری طور پر مولوی اس کا شکار ہوگیا۔ ویسے تو قرآنی آیات کو پوچھتا تک نہیں ہے لیکن حلالے پر ایسی ایسی منطقیں گھڑ دی ہیں کہ شیطان بھی عورت کی اس توہین پر مولوی کو نہیں پہنچ سکتا تھا لیکن پھر اللہ نے اگلی آیات231اور232میں جس طرح عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھولا ہے۔ جس کے سامنے مولوی کا سارانام نہادفقہ مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ثابت ہوتا ہے۔

مسائل طلاق کی بہت بگڑی حالت
میرے کزن ، بچپن سے دوست اور ہر دلعزیز شخصیت سید عبدالوہاب شاہ گیلانی نے پاکستان میں مہنگائی کے طوفان اور اس بد حالی کی صورتحال پر کہا کہ ”پاکستان بھی کرائے کی سائیکل ہے جس پر مختلف لوگوں کو حکمرانی سکھانا جاری ہے، اب یہ کرائے کی سائیکل عمران خان کو دی گئی ہے کہ تم اس پر سیکھو۔ اس سے پہلے محمد خان جونیجو، شوکت عزیز، ظفراللہ جمالی ، نوازشریف، بینظیر بھٹو، زرداری اور سب نے اس پر سیکھا ہے ، اب خیر ہے عمران خان بھی سیکھ لے گا”۔
جو صورتحال پاکستان کے حکمرانوں کی ہے جنہوں نے سودی قرضوں سے ملک وقوم کوIMFکے ہاتھوں گروی رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور پہلے ادوار میں موٹرویز بنائے تھے جن میں ایکسیڈنٹ کے خطرات نہیں ہوتے تھے اور لانگ روٹ کی گاڑیوں کومقامی گاڑیوں سے بالکل الگ کرنا انسانی جانوں کے خوامخواہ کے نذرانے پیش کرنے سے بچانے کیلئے ضروری تھا لیکن حیدر آباد اور کراچی کی سپر ہائی وے کو موٹر وے میں بدلنے کے بعد یہ ایک خواب بن گیاہے اور ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ لاہور اسلام آباد جی ٹی روڈ میںبھی لانگ روٹ کی گاڑیوں پر پابندی لگائی جاتی لیکن نوازشریف کے قافلے میں حادثاتی موت کو بھی شہادت کا درجہ دیا گیا تھا کیونکہ مجھے کیوں نکالا کے پاس کوئی شہادت نہ تھی۔
اسلام کا بھی مختلف ادوار میں فقہاء اور علماء نے وہی حال کیا ہے جو پاکستان کی موٹروے کا حیدر آباد سے کراچی اور متوقع طور پر سکھر سے حیدرآباد تک دکھائی دیتا ہے۔ لیاقت علی خان ، محمد علی بوگرہ،سکندر مرزا، فیلڈ مارشل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو،جنرل ضیاء الحق، نوازشریف سے عمران خان تک اچھے برے لوگوں نے اقتدار کی کرسی سنبھال کر پاکستان سے کچھ لیا اور کچھ دیا ۔ اس طرح اسلام کی بھی علماء ومشائخ نے بہت خدمت بھی کی ہے اور نقصان بھی پہنچایا ہے۔
مدارس عربیہ کی بات میں نہیں کرتا ہوں کیونکہ مدارس عربیہ کا سب سے بڑا کریڈٹ قرآن کے الفاظ ، عربی تعلیم اور دین کی حفاظت ہے اور ان کے پاس کوئی وسائل بھی نہیں ۔ لکیر کے فقیروں کو اس میں مویشی منڈی کی طرح ڈال دیا جاتا ہے اور وہاں مفت میںکھانے ، پینے اور ہگنے کیساتھ ساتھ چندوں کے نام پر اپنا کاروبار کرنے والوں سے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی جاتی ہے تاکہ بیروزگار طبقے کو مذہب کے نام پر تھوڑا بہت روزگار مل جائے۔ میں بھی رسیاں توڑ کر نہیں جاتا تو مجھے اپنے گھر والے مدارس میں تعلیم کی اجازت کبھی نہیں دے سکتے تھے۔
سرکاری خزانوں سے نوازے جانے والے شیخ الاسلاموں اور ملاؤں کی تاریخ بہت لمبی ہے اور سکہ رائج الوقت کی طرح فتویٰ انہی کا چلتا ہے۔ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے مسائل طلاق پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں فقہ کے تمام مسالک کے بنیادی مسائل بیان ہوئے ہیں اور اس سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بانیانِ فقہ نے اسلام کیساتھ کس طرح کا مذاق کیاہے؟۔
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کیلئے جن آیات سے استدلال کیا گیا ،ان پر بھی مختلف مذاہب یا مسالک کا اتفاق نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ طلاق رجعی کا جو تصور دیا گیا ہے اس سے قرآنی تعلیمات کے بنیادی ڈھانچے کا بیڑہ غرق ہوتا ہے اسلئے کہ دو مرتبہ کی طلاق رجعی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کو ایک عدت کا عورت پر حق حاصل نہیں بلکہ تین عدتوں کا حق حاصل ہے کیونکہ شوہر طلاق دیکر ایک مرتبہ رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے تو وہ طلاق دے اور جب عورت کی عدت پوری ہونے کے قریب ہو تو رجوع کرلے۔ اس طرح ایک عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری اور پھر تیسری مرتبہ عدت کے آخر میں رجوع کرنے کے بعد عورت کو تیسری عدت گزارنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

قرآنی طلاق کی سدھری حالت تھی
جب دو مرتبہ طلاق رجعی کے غلط تصور سے قرآنی آیات میں عدت کی مدت کا بہت کباڑہ ہوجاتا ہے تو اکٹھی تین طلاق سے ایک طلاقِ رجعی مراد لینے کا اس سے بھی زیادہ بھیانک تصور ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کے مطابق صلح کی شرط کیساتھ رجوع کو منسلک کیا جائے تو پھر دونوں صورتوں میں کسی خرابی کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ہے۔ طلاق ایک مرتبہ کی ہو، دومرتبہ کی ہو یا تین مرتبہ کی ہو۔ ایک طلاق کا تصور ہویادو طلاق کاتصور ہو یا تین طلاق کا تصور ہو لیکن رجوع کیلئے صلح واصلاح اور معروف طریقے سے باہمی رضامندی کو شرط قرار دیا جائے تو پھر کسی قسم کی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اصل سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اصل علت باہمی رضامندی اور صلح واصلاح ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے اور بعض آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟۔ تو اس کا جواب بھی یہی ہے کہ ایک طرف عدت کے اندر ہی رجوع کی گنجائش رکھ کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد عورت کیلئے دوسرے سے شادی کرنا بھی جائز ہے اور دوسری طرف عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے یعنی صلح کی شرط اور باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش رکھ دی گئی ہے تاکہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی جتنا عرصہ گزرے تو رجوع ہوسکتا ہے اور اس میں بھی عورت اور اس کے شوہر کو رجوع کی گنجائش دی گئی ہے۔
کہاں قرآن کریم کی یہ وسعت اور کہاں فقہاء کی تنگ نظری ؟۔
مسئلہ٢٦:بچے کا اکثر حصہ باہر آچکاتو رجعت نہیں کرسکتامگر دوسرے سے نکاح اسوقت حلال ہوگا کہ پورا بچہ پیدا ہولے۔ ( رد المختار ، الطلاق ج5ص193نعم الباری شرح بخاری ج10ص766شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی)
دارالعلوم کراچی سے یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ حاجی عثمان کے معتقد کا اس کے مرید کی بیٹی سے نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن بہتر ہے کہ ان کے حالات سے اس کو آگاہ کردیں اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے یہ فتویٰ آیا تھا کہ جن باتوں کو حاجی محمدعثمان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اگر وہ باتیں ان میں نہیں ہیں تو علماء کا فتویٰ بھی ان پر نہیں لگتا ہے لیکن نکاح تو بہرحال جائز ہے۔ پھر مفتی رشید احمد لدھیانوی کے نالائق شاگردوں نے استفتاء اور اس کا جواب خود مرتب کرکے لکھا کہ اس نکاح کا انجام کیا ہوگا؟۔ عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے لکھ دیا کہ ”نکاح جائز نہیں ہے گو کہ منعقد ہوجائے”۔
جب ہم نے اکابر ین کے حوالے سے نام لئے بغیر فتویٰ لیا تھا تو یہ لوگ معافی مانگنے کیلئے دوڑے لگارہے تھے اور اس وقت مولانا فضل الرحمن نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ” دنبہ آپ نے لٹادیا ہے اور چھرا آپ کے ہاتھ میں ہے ،ان کو ذبح کردو، اگر یہ ٹانگیں ہلائیں گے تو ہم پکڑ لیں گے” اور مفتی محمد تقی عثمانی نے وکیل کے جواب میں کہا تھا کہ ہم نے نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے لیکن جب ہم نے چھوڑ دیا توپھر ان لوگوں نے اپنی خباثت کی انتہاء کردی۔ البتہ ہمارے لئے اس میں سب سے زیادہ خیر تھی اسلئے کہ اس دھکے سے ہمارے اندر لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے اپنی بیگم کو اسوقت طلاق دی تھی جب مفتی محمد رفیع عثمانی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور پھر جب بالکل وہ آدھا ماں کے پیٹ کے اندر اور آدھا ماں کے پیٹ سے باہر نکل چکے تھے تو اس کا رجوع کرنا درست تھا یا نہیں تھا؟۔ اور اس کے بعد شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس رجوع کے بعد اسی عورت کے پیٹ سے جنم لیا ہے تو اس کی حیثیت جائز ہے یا ناجائز؟۔ سودکو جواز بخشنے سے کیا سودی نظام جائز بن جائے گا؟۔ بینوا وتوجروا۔

مولانا فضل الرحمن انقلابی شخصیت؟
مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی کہتے ہیں کہ وہ مفتی نہیں ہے اسلئے طلاق کے مسائل پر اپنی رائے نہیں دے سکتے ہیں اور مفتی شاہ حسین گردیزی نے کہا ہے کہ میں طلاق کے حوالے سے فتویٰ نہیں دیتا ہوں۔ دارالعلوم کراچی کے مفتی عصمت اللہ شاہ نے بھی طلاق کے مسائل پر فتویٰ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی محمد نعیم نے ملاقاتوں میں طلاق کے مسائل پر اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ اور وفات سے قبل مفتی زر ولی خان سے بھی میں نے ملاقات کی تھی کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے بہت سے مسائل پر اتفاق ہے لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا لیکن میں نے ملاقات اور آئندہ وقت دینے کی درخواست کی تھی جس پر انہوں نے بہت خوش دلی کے ساتھ فرمایا تھا کہ ” بالکل ! چشم ماروشن دل ماشاد” اور ملاقات کے بعد میری بہت تعریف بھی اپنے شاگرد سے کی تھی اور میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا تھا لیکن وہ پہچان گئے تھے۔ وہ جرأت مند انسان تھے ۔ میں نے اپنی کتاب ‘ ‘ عورت کے حقوق ” میں ان کا خاص طور پر تذکرہ بھی کیا تھا۔
اپنے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی خدمت میں بھی حاضری دی تھی اور انہوں نے مجھے تحفے میں عطر بھی عنایت فرمایا تھا۔ اپنی تحریک کیلئے دعا لینے مولانا خان محمد کندیاں امیر عالمی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت، مولانا سرفراز خان صفدر ، مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ ، مولانا عبدالصمد ہالیجی، امروٹ شریف شکار پوراور مولانا عبداللہ درخواستی صاحب سے دعائیں لی تھیں اور میرے استاذشیخ الحدیث مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید میرے مرشد حاجی عثمان سے فتوؤں کے بعد بیعت ہوئے تھے اور مولانا حبیب الرحمن درخواستی صاحب ، مولانا محمد مکی حجازی، مولانا سیف الرحمن جامعہ صولیہ مکہ مکرمہ ، مولانا سید عبدالمجید ندیم شاہ، مولانا سید محمد بنوری، مفتی محمد نعیم سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کی طرف سے فتوے کے بعد بھی حاجی عثمان سے ملنے آئے تھے۔ ٹانک کے اکابر علماء مولانا فتخ خان، مولانا عبدالرؤف گل امام ، مولانا عصام الدین محسود جمعیت علماء اسلام( ف) ، مولانا شیخ محمد شفیع شہید جمعیت علماء اسلام (س) مولانا غلام محمد مکی مسجد ضلعی امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، قاری محمد حسن شکوی شہید وزیر گودام مسجد ٹانک اور ملک بھر سے مختلف مکاتب کے علماء کرام کی طرف سے تائیدات کا ایک بہت ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ جس کو کتابوں اور اپنے اخبار میں شائع بھی کردیا ہے۔ حضرت شیخ سیدعبدالقادر جیلانی سے میرے دادا تک علماء ومشائخ کا ایک سلسلہ تھا اور میں نے پھر دیوبندی مکتبہ فکر کے مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے۔
حاجی محمد عثمان نے تبلیغی جماعت میں35سال لگائے تھے اور ان کا مدعا یہ تھا کہ اکابر بھی عوام کیساتھ نشست وبرخاست، کھانے پینے اور وقت لگانے میں گھل مل جائیں۔ جس وقت تقریر کررہے ہوں تو منبر ومحراب اور اسٹیج پر لیکن عام حالت میں عوام کیساتھ سامعین کی نشست میں بیٹھ جائیں۔ جس سے ان کی بھی اصلاح جاری رہے گی۔ اگر تبلیغی جماعت اس مرد قلندر کی بات پر عمل کرتی تو پھر عالمی مرکز بستی نظام الدین بھارت اور رائیونڈ میں امیر کے مسئلے پر تفریق پڑنے تک نوبت نہیں پہنچ سکتی تھی۔ مرز اغلام احمد قادیانی ایک نبی اور مھدی تو بہت دور کی بات ہے ایک اچھا انسان بھی نہیں تھا اسلئے کہ محمدی بیگم کے حوالے سے اس نے جھوٹی وحی کے ذریعے بہت گری ہوئی حرکت کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا اگر انقلابی بننے کا پروگرام ہے تو پہلے فقہ کے نام پر قرآن وسنت اور فطرت سے دوری کا راستہ روکنے کیلئے ہمارا کھل کر ساتھ دیں اور پھر اسلامی انقلاب کیلئے بھی راستہ ہموار ہوجائے گا۔ یہ وقت کھونا اچھا نہیں۔ ورنہ پھر پانی سر سے گزر جائیگا۔

علماء دیوبند اور بریلوی پہل کریں!
فقہ حنفی کے نام پر درسِ نظامی کے علمبردار دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان اور مشائخ کام کررہے ہیں۔ مولانا مفتی زرولی خان ایک سخت گیر پٹھان تھے اسلئے مولانا منظور مینگل کے خلاف علامہ خادم حسین رضوی کی حمایت پر تجدیدِ نکاح کا فتویٰ جاری کردیا تھااورمولانا احمدرضاخان بریلویبھی ایک قندھاری پٹھان اور الٹا بانس بریلی کے رہائشی تھے اسلئے علماء دیوبند اور دیگر فرقوں اور مسالک کے لوگوں پر بھی قادیانیت کے فتوے جاری کردئیے لیکن پاکستان میں متفقہ تحریک ختم نبوت چلانے والے دیوبندی بریلوی ایک تھے۔
افغانستان کے طالبان نے ملاعمر کی قیادت میں جو سخت گیر مؤقف اپنایا تھا تو آج کے افغانی طالبان اس سے بہت پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے عالم وشیخ طریقت نے لکھا ہے کہ ” شاہ اسماعیل شہید نے شروع میں نئے جذبے سے بدعات اور شرکیہ عقائد کے خلاف جو کتابیں لکھی تھیں تو اس میں اعتدال کے خلاف بعض جملے لکھ دئیے تھے مگر پھر علم اور ان کی عمر میں پختگی آئی تو منصب امامت اور صراط مستقیم جیسی اعتدال پسندانہ کتابیں لکھیں ہیں۔
حکومت نے تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک سے معاہدہ کرکے بڑا اچھا کیا ہے۔ شدت پسندانہ جذبات کا غبار وقت کیساتھ ساتھ خود بخود اُتر جاتا ہے۔ نکاح وطلاق کے حوالے سے جو مسائل گھڑے گئے ہیں اگر حکومت نے اس حوالے سے مقتدر علماء ومفتیان اور دانشوروں کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی تو پھر ریاست مدینہ کی طرف سب مل کر زبردست اقدام اٹھا سکتے ہیں۔ آج عمران خان کیساتھ بھی اچھا وقت ہے اور اپوزیشن بھی اس کو گرانے کے چکر میں نہیں لگتی ہے۔ اگر صرف حلالہ کی لعنت کا مکمل خاتمہ بھی ہوجائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ فواد چوہدری ، علامہ طاہر اشرفی ، مفتی سعید خان ، وزیرتعلیم شفقت محمود اور علی محمد خان وغیرہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حکومت آنی جانی چیز ہے لیکن مذہبی نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے اُمت کی اصلاح ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ بفضل تعالیٰ ہم نے اتنا سارا کام کرلیا ہے کہ معروف مدارس کے علماء ومفتیان اور طلبہ اس کا زبردست استقبال بھی کریں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ایم آئی اور چیف جسٹس آف پاکستان ، چاروں صوبائی چیف جسٹس اس میں اپنا حصہ ڈال لیں۔ سندھ ، بلوچستان، پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قائدین بھی اس کار خیر میں بھرپور شرکت کریں۔
پورے پاکستان میں ہم سے زیادہ کمزور سے کمزور تر جماعت کوئی بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے بے خطر ہم میدان میں اترگئے۔ آج بہت سے لوگوں کے مسائل بھی اللہ کے فضل سے حل ہوئے ہیں۔ ہماری دشمنی کسی کی ذات ، شخصیت ، جماعت اور اپنے دشمنوں سے بھی نہیں ہے کیونکہ غلط فہمی کے نتیجے میں کوئی ہم سے دشمنی کرتا ہے تو یہ اس کو حق پہنچتا ہے اور ہم بعض لوگوں اور اپنے حوالے سے نشاندہی بھی مجبوری کے تحت کرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمیں کسی سے کوئی بغض وعناد ہے۔ ہمارے جد امجد رسول اللہ ۖ نے جب اپنے چچا امیر حمزہ کے کلیجے نکالنے والے وحشی کو اور چبانے والی ہندہ کو فتح مکہ کے وقت معاف کردیا تھا تو ہم اسی سنت پر عمل کرنے کے خود کو پابند سمجھتے ہیںلیکن جب تک لوگ راہِ حق پر نہیں آجاتے ہیں تو اپنی عقل اور صلاحیت کے مطابق ٹھیک طریقے سے کام کرنے کی کوشش کریںگے اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں گے کہ ہماری بھی ایک دن اصلاح فرمائے۔ عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تین طلاق کے بعد بھی میاں بیوی بغیر حلالہ کے رجوع کر سکتے ہیں۔ سورہ البقرہ

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر2
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

_ طلاق سے رجوع کی علت صلح ہے!_
سفر میں روزے معاف ہونے کی بنیادی علت سفر ہے۔ شرعی اصولوں میں علت اور سبب میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ معاف ہے اور اس کا سبب مشقت ہے لیکن اس کی علت سفر ہے۔ مشقت محنت مزدوری میں بھی ہوتی ہے لیکن اس سبب کی وجہ سے روزہ معاف نہیں ہوتا ہے اور جب سفر میں مشقت نہ ہو تب بھی روزہ معاف ہے۔ یہ فرق علماء وفقہاء کا بہت بڑا کمال اور زبردست کریڈٹ ہے۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں اس فرق کو واضح کیا ہے اور بعض معاملات میں علماء وفقہاء کے مغالطہ کھانے کا بھی ذکر کیاہے۔ اس کتاب کے اردو ترجمہ کا مقدمہ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے لکھا ہے۔
طلاق اور اس سے رجوع کی علت اور سبب معلوم کرنے کیلئے علماء کرام و فقہاء عظام نے شاید کبھی غور وتدبر سے کام نہیں لیا ہے اور اگر لیا ہے تو اس تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ابن رشد کی کتاب ” بدایة المجتہد نہایة المقتصد” میں اس پر تفصیل سے بحث ہے۔ ظواہر کا مؤقف قرآن کے ظاہری الفاظ سے مطابقت رکھتا ہے اور باقی فقہاء نے احادیث وروایات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
قرآنی آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی سبب عورت کو اذیت سے بچانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی علت باہمی رضامندی اور اصلاح کو قرار دیا ہے۔ اگر عورت صلح و اصلاح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر بھی طلاق سے رجوع کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے۔ قرآن کی تمام آیات میں طلاق سے رجوع کیلئے بنیادی شرط صلح واصلاح ہے۔ جس کی تفصیل قرآنی آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ طلاق سے رجوع کیلئے ایک ایک آیت کے اندراس کی بھرپور وضاحت بھی کردی گئی ہیں لیکن افسوس کہ امت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر ہے تو اس سے پہلے یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ عدت کے تین مراحل تک عورت کو تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ جس کے بعد شوہر کیلئے عورت کو دی ہوئی کوئی چیز حلال نہیں ہے مگر اس صورت میں جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ باہمی رابطے کے ذریعے سے اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہی خوف ہو کہ اس چیز سے وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایسی صورت میں طلاق کے بعد یہ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا ہے کہ اگر رجوع کرلیا تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی طلاق کے بعد شوہر اس عورت پر اپنی مرضی کے مطابق نکاح کرنے پر کوئی پابندی لگاسکتا ہے یا نہیں ؟ اور اگر لگائے تو اس عورت کو اللہ نے کوئی تحفظ دیا ہے یا نہیں؟۔ اسی تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے انتہائی درجہ کا حکم نازل کیا کہ اس طلاق کے بعد وہ اس کیلئے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔
جہاں تک باہمی رضامندی اور صلح سے رجوع کی بات کا تعلق ہے تو اس کی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کی دو آیات228،229میں عدت کے اندر رجوع کی وضاحت کردی ہے اور پھر اسکے بعد آیات231،232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی بھرپور انداز میں وضاحت کردی ہے۔ آنکھوں کا نہیں اصل میں دل کا اندھا اندھا ہوتا ہے۔

احادیث پر اشکال کابہترین جواب
رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں اورپھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کیا تھااس نے نبیۖ سے عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے اور اپنے دوپٹے کا پلو دکھایا تھا۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو ؟۔ آپ نہیں جاسکتی ہو یہاں تک کہ تیرا دوسرا شوہر تیرا ذائقہ نہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ نہ چکھ لیں۔(صحیح بخاری)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن میں باہمی اصلاح سے بار بار صلح کی گنجائش کی وضاحت ہے تو رسول اللہ ۖ نے اس پر فتویٰ کیوں نہیں دیا تھا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ خاتون حضرت رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرتیں تو اس کو نبیۖ سے اپنے شوہر کی شکایت بھی نہ کرنی پڑتی بلکہ وہ خود حضرت رفاعہ سے رجوع کی درخواست کرسکتی تھیں۔ البتہ اگر حضرت رفاعة اس کے باوجود بھی راضی نہ ہوتے تو ان کو باہمی رضامندی کے بغیر رجوع پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل صحیح بخاری میں موجود ہے۔ پہلی بات یہ معلوم ہے کہ حضرت رفاعة نے مرحلہ وار تیں طلاقیں دی تھیں۔ عدت کی تکمیل کے بعد اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی تھی۔ کیا اسکے باوجود علماء ومفتیان کا اس حدیث کی بنیاد پر یہ فتویٰ دینا جائز ہے کہ ایک دم تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا جائے؟۔ حالانکہ قرآن میں واضح طور پر صلح کی گنجائش موجود ہو؟۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ جب اس عورت نے اپنے شوہر کی شکایت لگائی تو حضرت عائشہ کے سامنے خلوت میں اپنے جسم پر شوہر کے مارنے کے نشانات دکھائے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ میں نے ایسی سخت مار کے نشانات کسی جسم پر نہیں دیکھے۔ اس کے سفید جسم پر نیل کے نشانات پڑے تھے۔ جب اس نے اپنے شوہر پر نامرد ہونے کا الزام لگایا تو اس کے شوہر نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے اندر اتنی مردانہ قوت ہے کہ میں اس کی چمڑی کو ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں۔ احادیث کی تمام تفصیل کے بغیر اس بات پر فتویٰ جاری کرنا کس قدر حماقت ہے کہ اس عورت نے کہا تھا کہ شوہر کے پاس دوپٹے کے پلو جیسی چیز ہے ، جس کی وجہ سے وہ عورت حلال بھی نہیں ہوسکتی تھی تو نبیۖ اسکے ذریعے حلال ہونے کا فتویٰ کیسے دیتے؟۔
نبی کریم ۖ کو معلوم تھا کہ حضرت رفاعة القرظی نے اس خاتون کو واپس لینا نہیں ہے اور عبدالرحمن بن زبیر القرظی کو سمجھا دیا ہوگا کہ مار دھاڑ سے شکایت بھی پیدا ہوئی ہے اسلئے دوبارہ اس قسم کی شکایت نہیں آنی چاہیے۔ فقہ وفتوے کی کتابوں میں حلالہ کیلئے راستے تلاش کرنے کے بجائے اس کا سدباب بھی کرنا چاہیے تھا لیکن جب مفتی عزیز الرحمن جیسے لوگ اپنے شاگرد صابر شاہ جیسے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑتے تو یہ باشرع لوگ حلالہ کیلئے کیا بہانے تراشتے ہوں گے؟۔ اس کی تفصیلات سامنے آجائیں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
پھر سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آسانی سے عدت میں رجوع ہوسکتا تھا تو رسول اللہۖنے اکٹھی تین طلاق پر سخت ناراضگی کا اظہارکیوں کیا تھا؟۔اس کا جواب یہ ہے کہ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق میں حدیث ہے کہ جب حضرت عمر نے نبیۖ کو اطلاع دی کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے تو رسول اللہ ۖ بہت غضبناک ہوگئے اور پھر اس کو رجوع کا حکم دیا اور پہلے طہر میں اپنے پاس رکھنے حتی کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں رکھنے حتی کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہے تو رجوع کرے اور چاہے تو طلاق دے اور یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا طریقہ امر کیا ہے۔ جس میں غضبناک ہونے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟
ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع نہ کرنے کا فیصلہ حضرت عمر کی طرف منسوب ہے۔ کیا یہ نسبت درست ہے؟ اور حضرت عمر نے قرآن پر عمل کیا تھا؟۔
حضرت عمر ایک عادل حکمران تھے۔ قرآن کی آیات کے احکام سے اچھی طرح واقف تھے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے باہمی رضامندی اور صلح کی نبیاد پر طلاق کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو رجوع کرنے کا حق قرآن نے نہیں دیا ہے۔ طلاق سے رجوع کا مسئلہ بہت پرانا تھا۔ شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل ہوتا تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں خلافت کی توسیع ہوگئی تو دور دراز کے علاقوں سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد مسلمان بن کر خلافت کے زیر اثر آگئی تھی۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو پھراس کی بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی۔ اسلامی خلافت میں بیوی پر جبر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور وہ شخص حضرت عمر سے انصاف لینے آگیا۔ حضرت عمر چاہتے تو اس شخص کو اس کی بیوی واپس دلانے کا حکم جاری کرتے۔ لیکن حضرت عمر نے قرآن کے مطابق یہ فیصلہ کیا کہ اس نے جلد بازی میں ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں اسلئے اس کو حکومت اپنی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں کرسکتی اور وہ رجوع نہیں کرسکتا ہے۔
جب حضرت عمر کے ناقدین نے حضرت عمر کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا کہ حضرت عمر نے قرآن کے خلاف ایک ساتھ تین طلاق کا فیصلہ کردیا ہے تو اس پر اُمت مسلمہ میں اختلافات کی دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ بہت ہی شاذ ونادر ایسے لوگ تھے۔ جنہوں نے حضرت عمر کے خلاف اپنا فتویٰ اور فیصلہ مرتب کیا تھا کہ یہ فیصلہ قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔ لیکن ان کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب شوہر اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیدے ۔ پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور فیصلہ اور فتویٰ یہ دیا جائے کہ یہ ایک طلاق ہے اور اس سے غیرمشروط رجوع کا حق شوہر کو حاصل ہے ۔تو اس سے عورت کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا تھا۔ یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی تھا۔ چنانچہ چاروں ائمہ فقہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اس کا سبب عورت کو مشکلات سے بچانا تھا اور اس کی علت یہ تھی کہ باہمی اصلاح کے بغیر صلح نہیں ہوسکتی ہے اور یہ قرآن اور فطرت کا بنیادی تصور ہے۔
قرآن عربی زبان میں اترا ہے اور عرب لوگ اپنے گھروں میں قرآن کی آیات کا ادراک رکھتے تھے۔ جب میاں بیوی کے درمیان ناچاقی یا ایک ساتھ تین طلاق کی بات آتی تو وہ اگر آپس میں صلح کیلئے راضی ہوتے تھے تو حکمران سے کوئی فیصلہ لینے اور مفتی سے کوئی فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے خلافت پر خاندانی قبضے شروع کردئیے اور کچھ لوگوں کو مذہب کی تشریح کا حکمرانوں نے ٹھیکیدار بنانا شروع کیا اور پھر اسلام کی حقیقت روایات میں کھو گئی۔ اس حقیقت کو ڈھونڈنے کیلئے ان سراغ رساں انسانوں کی ضرورت ہے جو ثریا کے اوپر سے بھی علم ، دین، ایمان کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے طاقت پرواز رکھتے ہوں۔ یہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے لیکن اللہ کا فضل کوئی مشکل بھی نہیں ہے کہ کسی پر بھی ہوجائے۔

_ اکٹھی تین طلاق پرفتوؤں کی بھرمار _
سلف صالحین کے ادوار میں ایک ساتھ تین طلاق کی بحث اس حد تک تھی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ احادیث اور فتوؤں کی بھرمار نے مسالک کی توسیع میں اپنا اپنا کام دکھانا شروع کردیا۔ احناف اور مالکیہ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں ہوجاتی ہیں لیکن یہ بدعت اور گناہ ہیں۔ شافعی مسلک والوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے ماننے والوں نے اپنے امام کے دو اقوال بھی بنالئے، ایک قول کے مطابق بدعت وگناہ اور دوسرے قول کے مطابق سنت اور مباح قرار دیا گیا۔ پہلے تو صرف ایک ساتھ تین طلاق کا معاملہ اس حدتک ہی تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ جس میں واقع نہ ہونے کا فتویٰ شاذ ونادر تھا اسلئے کہ عورت اور مرد کی طرف سے لڑائی اور صلح نہ کرنے کی وجہ سے بات فیصلے اور فتوے تک پہنچ جاتی تھی۔
پھر بہت بعد میں سیدھے سادے لوگوں نے قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے صلح کیلئے بھی فتوے لینے شروع کردئیے۔ یہ وہ دور تھا جب قرآن کی جگہ امت مسلمہ نے اپنے علماء ومشائخ کو پوجنا شروع کردیا تھا۔ ان علماء ومشائخ نے بھی قرآن کی طرف دیکھنے کے بجائے روایات کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اس کے نتیجے میں قرآن اُمت کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ احادیث اور فتوے کی کتابوں میں بہت سارے اقوال تھے جن میں ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فتویٰ تھا۔ پہلے مردوں کی طرف سے یک طرفہ رجوع کا راستہ روکا گیا تھا اور پھر عورت کی طرف سے صلح کی خواہش کے باوجود بھی رجوع کا راستہ روکا گیا اور جاہلیت پہلے کی طرح بالکل عروج پر لوٹ آئی ۔جب باہمی رضامندی سے صلح کا راستہ رُک گیا تو تفریق کے فتوؤں نے معاشرے میں جاہلیت اولیٰ کی مثال قائم کردی۔ کچھ لوگوں نے زوجین کی تفریق کا راستہ روکنے کیلئے حلالہ کی لعنت کو جواز فراہم کرنا شروع کیا لیکن ایک بڑی اکثریت نے حلالہ کے ذریعے حلال نہ ہونے کا فتویٰ جاری کردیا۔ حیلہ سازی میں احناف کے علماء نے اقدام اٹھایا تھا۔ علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام نے حلالہ کو کارثواب تک قرار دیا اور اس کی نسبت اپنے بعض نامعلوم مشائخ کی طرف کردی تھی۔
علامہ ابن تیمیہ نے ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتویٰ جاری کیا اور اس غل غپاڑے میں ائمہ اہل بیت کے پیروکار اہل تشیع کے فقہاء نے طلاق دینے کیلئے سخت شرائط کا اہتمام کیا تھا۔ ان کے نزدیک طلاق کیلئے مرحلہ وار عدت کی مدت میں طلاق کے شرعی صیغے اور ہرمرتبہ کی طلاق پر دوگواہ کی موجودگی بھی ضروری قرار دے دی گئی۔ مذہبی طبقات نے یہ تأثر پھیلایا کہ ابن تیمیہ بھی اس مسئلے میں شیعہ بن چکے ہیں لیکن ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اس مسئلے میں تحقیقات کو بہت حد تک بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔
پھر ہندوستان کے اہل حدیث نے حضرت ابن عباس کی روایت پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھ دی۔ حالانکہ احادیث کی کتابوں میں جس کثرت سے ایک ساتھ تین طلاق کی روایات تھیں اہل حدیث کے مزاج سے انکا مسلک بالکل بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ صحاح ستہ میں اکٹھی تین طلاق کے واقع ہونے کے عنوانات ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عویمر عجلانی کا ایک ساتھ تین طلاق دینے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ اسی طرح محمود بن لبید کی روایت ہے کہ ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو نبیۖ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔
اس طرح بہت سی روایات میں ایک ساتھ تین طلاق کے تذکرے ہیں۔

قرآن اوراحادیث کے حقائق
قرآن کے الفاظ میں کوئی رد وبدل نہیں اور اس کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے لیکن احادیث کے الفاظ اور معانی میں بہت سے اختلافات اور تضادات بھی ہیں۔ اصولِ فقہ میں حنفی کی کتابوں میں قرآن کے مقابلے میں بہت سی احادیث صحیحہ کی تردید صرف اسلئے کی گئی ہے کہ وہ قرآن کے کسی آیت کے تقاضے کے ہی خلاف ہیں۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں احادیث کی اہمیت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثلاً قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاًغیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ” میں اللہ نے عورت کو اپنی مرضی سے دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا اختیار دیا ہے اور حدیث ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ،باطل ہے”۔ اس حدیث میں عورت کو اپنے ولی کی اجازت کا پابند بنایا گیا ہے۔ جمہور فقہاء اور محدثین کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر حدیث صحیح ہے اور عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہے بلکہ یہ حرام کاری ہوگی۔ احناف نے یہ حدیث قرآن کی اس آیت کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیدی ہے۔
احناف کی سب سے بڑی غلطی اور بدترین قسم کی کوتاہی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مسلک کے مطابق قرآن کی واضح واضح آیات کو اپنی فقہ کی کتابوں میں درج کرکے احادیث اور دوسرے مسالک کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ مثلاً اللہ نے فرمایا کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔( البقرہ:228)
اس آیت میں وضاحت کیساتھ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کی شرط پر عدت میں طلاق شدہ کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی جس میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی ممانعت ہوتی تو اس حدیث کو قرآن کے واضح الفاظ کے سامنے ناقابلِ قبول قرار دیا جاتا ۔اور یہ حنفی مسلک کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضہ تھا۔پہلی بات یہ ہے کہ احادیث کا ذخیرہ چھان لیا جائے تو کوئی ایک بھی ایسی حدیث صحیحہ نہیں ہے کہ جس میں اس قرآنی آیت کیخلاف عدت میں اصلاح کی شرط کے باوجود رجوع کی ممانعت ہوتی لیکن اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی بھی تو قرآن کے مقابلے میں رد کی جاتی۔
احناف نے اپنے اصول فقہ میں اس بات کی وضاحت تو کردی کہ پانچ سو ایسی آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں اور اللہ کی کتاب سے اصول فقہ میں وہی مراد ہیں لیکن ان آیات کا کوئی نام ونشان بھی فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔ اگر طلاق اور اس سے رجوع سے متعلق قرآنی آیات کو پیش کیا جاتا اور پھر ان پر احادیث وروایات کو پیش کیا جاتا اور پرکھا جاتا تو امت مسلمہ کی درست رہنمائی ہوتی اور ہوسکتا ہے کہ احناف نمازوں میں رفع یدین کی مخالفت نہ کرتے لیکن طلاق کے مسائل میں بہت سی احادیث کو ناقابلِ قبول ضرور قرار دیتے۔
میرا اپنا تعلق حنفی مسلک اور دیوبندی مکتب سے ہے اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام نے جو حوصلہ افزائی طالب علمی کے دوران فرمائی ہے تو اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آج ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھ رہاہوں کہ دیوبندی بریلوی کے علاوہ اہلحدیث اور اہل تشیع کو بھی بہت اچھا لگتا ہے اور غلام احمد پرویز کی فکر رکھنے والے بھی میری تائید کررہے ہیں اور انشاء اللہ بہت بڑا انقلاب آئے گا۔

_ احادیث سے احادیث کے حقائق _
جب ہم احادیث کی کتابوں اور احادیث کی مستند شروحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک طرف کی بھرمار نظر آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور دوسری طرف پھر ان میں بہت سی احادیث غائب ہوجاتی ہیں کہ جب جمہور کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کے دلائل میں چند احادیث نظر آتی ہیں۔ مثلاً جمہور کے نزدیک رفاعة القرظی کی حدیث جمہور کی دلیل ہے اور فاطمہ بنت قیس کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے۔ عویمر عجلانی کے لعان کا واقعہ بھی جمہور کی دلیل ہے اور محمود بن لبید کی روایت بھی جمہور کی دلیل ہے۔ لیکن دوسری بہت ساری احادیث وروایات کو جمہور کی دلیل کے طور پر نہیں لیتے ہیں اسلئے کہ انکی حیثیت بہت ہی ضعیف اور مجروح ہے اور ان کو دلیل بنانا جمہور کی شان کے بھی بالکل منافی ہے۔ البتہ بعض جاہل علماء ان روایات کو بھی دلیل بناتے ہیں۔
جمہور کے مقابلے میں ایک ہی روایت ہے جو حضرت ابن عباس سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی سال تک ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا اور پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ تین کو تین قرار دے دیا۔ اس کو اقلیت اور اہلحدیث اپنے لئے دلیل بناتے ہیں۔
پھر جب بات آتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ وبدعت ہے یا پھر مباح وسنت تورفاعة القرظی کی سابقہ بیوی کے واقعے کو بھی ایک ساتھ تین طلاق کیلئے کوئی دلیل نہیں قرار دیتا ہے کیونکہ صحیحہ روایات سے ثابت ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں۔ اور فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کو بھی دلیل نہیں بنایا جاتاہے اسلئے کہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اس کو الگ الگ تین طلاقیں دی گئیں تھیں اور پھر امام شافعی کے نزدیک صرف روایت ہے کہ اکٹھی تین طلاق دینا سنت ہے اور وہ عویمر عجلانی کے واقعہ میں لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق کی روایت ہے اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک صرف ایک روایت ہے محمود بن لبید والی جس میں ایک ساتھ تین طلاق پر نبیۖ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا لیکن وہ امام شافعی کے نزدیک بڑی مجہول روایت ہے اسلئے قابلِ قبول نہیں ہے۔
جب احناف ایک ساتھ تین طلاق کو خلافِ سنت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک طرف محمود بن لبید کی مجہول روایت پر گزارہ کرتے ہیں تو دوسری طرف حضرت عویمر عجلانی کے واقعہ کی تأویل کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ طلاق کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہو اور علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق دی ،جس طرح رفاعة القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا ذکر ہے لیکن تفصیل میں الگ الگ مراحل میں الگ الگ مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے”۔
غرض احناف کی سوئی پھر صرف اور صرف محمود بن لبید کی روایت پر اٹک جاتی ہے۔ محمود بن لبید کی روایت میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے کہاتھا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ تو وہ حضرت عمر تھے۔ اور کس نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے جس کی اطلاع بھی حضرت عمر نے خود ہی دی تھی۔ حضرت حسن بصری نے کہا مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں جس سے نبیۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا اور پھر بیس سال تک کوئی اور ایسا شخص نہیں ملا جس نے اس کے خلاف کوئی بات کی ہو۔ پھر بیس سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا، جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم) یہ روایت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہونے کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کی گئی تھی۔ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کے حوالے سے بھی باقاعدہ ضعیف احادیث میں عجیب وغریب قسم کی مہم جوئی کاواضح ثبوت ہے۔

صحیح اور ضعیف احادیث کی تأویل!
حضرت امام ابوحنیفہ کے مسلک کے اندرقرآن کے مقابلے میں حدیث صحیح بھی قابلِ قبول نہیں ہے لیکن حتی الامکان ضعیف سے ضعیف احادیث کوبھی رد نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حتی الوسع اس کی تأویل کرنی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر احادیث میں صحیح اور ضعیف کا تضاد ہو تو ان میں ایسی تطبیق کرنے کی کیا صورت ہے کہ ضعیف حدیث بھی قابلِ قبول بن جائے؟۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے واقعہ میں حدیث صحیحہ یہ ہے کہ الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی تھی اور ضعیف حدیث میں ہے کہ آن واحد میں طلاق بدعی دی گئی تھی ۔ ان دونوں میں تطبیق کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آن واحد میں تین طلاقیں دی گئیں اور پھر ان کو ایک شمار کیا گیا اور مرحلہ وار بھی ایک ایک طلاق کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ اس طرح دونوں احادیث کے متضاد ہونے کے باوجود ان کی تردید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت ہے کہ نبیۖ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی اور پھر ایک ساتھ تین کو تین ہی نافذ کردیا گیا اور دوسری طرف ان کے شاگردوں کی طرف سے یہ کہنا کہ ابن عباس نے ایک ساتھ تین طلاق کیلئے یہ فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول وفعل میں تضاد ثابت کرنے کے بجائے یا کسی کی ایک بات کی خوامخواہ کی تردید کرنے کے بجائے یہی درست تأویل ہے کہ جب بیوی کی طرف سے اصلاح کا پروگرام ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع ہوسکتا ہے اور جب بیوی کی طرف سے قرآن کے مطابق اصلاح کا پروگرام نہ ہو تو پھر رجوع کا فتویٰ نہیں دے سکتے تھے۔
ایک مجلس میں ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے سوال کیا کہ کیا کسی کو قتل کرنے کے بعد معافی مل سکتی ہے ؟ ، تو ابن عباس نے ان آیات کا حوالہ دیا کہ جن میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس پر بہت سخت وعیدیں ہیں۔ اس کے بعد اسی مجلس میں ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو اس کو یہ جواب دیا کہ اللہ نے معافی کی گنجائش رکھی ہے اور ان آیات کاحوالہ دیا جن میں توبہ کرنے پر معافی کی گنجائش ہے۔ اہل مجلس نے پوچھا کہ سوال ایک تھا تو جواب الگ الگ کیسے دیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ”پہلے شخص نے قتل کیا تھا اسلئے اس کو ایسی آیات کا حوالہ دیا جس میں معافی کی گنجائش تھی تاکہ وہ مزید توبہ کرلے اور دوسرے نے قتل کا پروگرام بنایا تھا تو اس کو ان آیات کا حوالہ دیا تاکہ قتل سے وہ رُک جائے۔ صحابہ نے قرآن کو سمجھا تھا اور اسی کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔
جب طلاق کے حوالے سے احادیث کا بھرپور مطالعہ کیا جائے تو اس کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ اس میں صحیح و ضعیف روایات کا ایک بہت بڑا سلسلہ ہے اور ان میں اپنے اپنے مسلک کی وکالت کیلئے حقائق کے منافی ترجیح قائم کی جاتی ہے اور حلالہ کیلئے بہت دلچسپی رکھنے والے اس میں دے مار ساڑھے چار کی طرح نہ صرف قرآن کی آیت کو بالکل غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ احادیث کو بھی بہت غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اب تو دارالعلوم کراچی والے اپنے فتوؤں میں صرف اور صرف فقہ اور فتاویٰ کی کتابوں سے حوالہ جات نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اسلئے کہ میں نے انکواپنی کتابوں سے قرآن وحدیث کے حوالہ جات کا جواب دیاتھا۔

فقہ حنفی حق کے قریب تر مگرکچھ غلطی!
حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام جعفر صادق بہت بڑی شخصیات تھیں۔ سلف صالحین کے نزدیک قرآن کی تعلیم، دین کی تبلیغ اور فرائض کی ادائیگی پر کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں تھا لیکن اب علامہ سید جواد حسین نقوی نے چیلنج کیا کہ کوئی شیعہ ذاکر بغیر معاوضہ کے مجلس پڑھ کر دکھائے تو اس کی موت کے پروانے جاری کردئیے ہیں۔ مجھ سے بھی یہ غلطی ہوگئی کہ بھائیوں اور دوستوں سے گاڑی کی سہولت لیکر سفر کرنے کے بجائے بسوں کی چھتوں اور پک اپ کی باڈی پر کھڑے ہوکر بھی سفر کرتا تھا تو لیڈرعلماء کے دل ودماغ میں خناس بیٹھ گیا کہ ہم گاڑی مانگ کر سفر کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ اتنی کتابوں کا مصنف اور ہم سے زیادہ امت مسلمہ کو لیڈ کرنے کی بات کرنے والا اپنی کوئی حیثیت بھی نہیں جتلاتا ہے تو ہماری اس لیڈری کا کیا بنے گا جو پرائے اور بھیک کے پیسوں پر چلتی ہے؟۔
فقہ کے ائمہ نے زمین کی مزارعت کو متفقہ طور پر ناجائز قرار دیا تھا مگر جب انکے شاگردوں نے دین کے نام پر معاوضے لیکر مزے اڑانے شروع کردئیے تو اپنے اماموں کے مؤقف سے انحراف کرنے لگے۔فقہ حنفی کے امام ابوحنیفہ نے جیل میں زہر کھاکر شہادت پائی اور آپ کے شاگرد نے شیخ الاسلام بن کربادشاہ کیلئے اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دینے کے حیلے بتائے تھے۔ آج کا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن بھی معاوضہ لیکر سودی نظام کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں پانچ سو علماء نے یہ فتویٰ جاری کیاہے کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری اور کچھ بھی کرے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ اورنگزیب کو بھائیوں کے قتل کی سزا سے بچاناتھا۔یہ فقہ حنفی نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بدترین دھبہ ہے لیکن فقہ حنفی کا کمال ہے کہ اسلام کو تحریف سے بچانے کیلئے زبردست اصول عطاء کردئیے تھے۔ فقہ حنفی نے صحیح حدیث کو رد کرکے ضعیف احادیث کا ناطقہ بند کردیا ہے ،ورنہ امت گمراہ ہوتی۔
طلاق شدہ عورت کیلئے قرآن میں آزادی کا قرینہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس سے اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ نے بیوہ عورت کیلئے چار مہینے دس دن کے بعد اپنے نفس کے بارے میں آزادانہ فیصلے کا اختیار دیا ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثین ایک صحیح حدیث کی بنیاد پر بیوہ کیلئے بھی ولی سے آزادی کا تصور نہیں مانتے ہیں جو قرآن کے سراسر منافی ہے ۔ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور جب اس کی شادی ہوجاتی ہے تو اس کا شوہر اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور جب اس کو طلاق ہوجائے یا بیوہ بن جائے تووہ خود مختار اور آزاد بن جاتی ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے باطل ہونے کی حدیث سے اس آیت کی بنیاد پر انکار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے اور طلاق شدہ پر اس کا سابقہ شوہر پابندی لگاتا ہے کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرے اسلئے ولی کی اجازت والی روایت کو مقابلے میں لانا بھی حماقت ہے۔ جب مولانا بدیع الزمان نے بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمیں یہ سبق پڑھایا تھا تو میں نے اسی وقت سوال اٹھایا تھا کہ حنفی مسلک میں پہلی ترجیح حدیث کی تأویل کرنا ہے اور یہ حدیث قرآنی آیت سے متصادم نہیں ہے بلکہ اس کی تأویل ہوسکتی ہے جس پر استاذ محترم نے میری حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔
اگر فقہ حنفی کی درست تعلیمات اور اصول کے مطابق طلاق کے حوالے سے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کی وضاحت کی جائے تو یہ نصابِ تعلیم نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کو قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ بریلوی مکتب کے مولانا مفتی خالد حسن مجددی قادری اور دیوبندی مکتب کے مفتی محمد حسام اللہ شریفی جیسے جید علماء کرام اور مفتیان عظام کے علاوہ بہت سے علماء ہماری تائید کرتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علامہ تمنا عمادی عظیم عالم دین ہیں، شیعہ فرقہ میں طلاق کا غلط تصور، مفتی تقی عثمانی کی غلط تشریح و تشریح، قرآن میں طلاق کا عظیم تصور

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ تمنا عمادی بہت بڑا عالم_
علامہ تمنا عمادی ایک بہت بڑے حنفی عالم دین تھے جو ہندوستان سے پہلے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہجرت کرچکے تھے اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کرلی تھی اور کراچی ہی میں بہت خاموشی کیساتھ انتہائی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود گمنامی کی قبر میں دفن ہوگئے۔ آپ کی کتاب ” الطلاق مرتان” کا نام میں نے طالب علمی میں اپنے ایک استاذ مولانا سراج الدین شیرانی ڈیرہ اسماعیل خان والے سے غالباً سنا تھا اور استاذ جی نے یہ بھی بتایا تھا غالباً کہ اس کتاب کا جواب کسی بھی عالمِ دین کے پاس نہیں ہے۔ علامہ تمنا عمادی ایک بہت جید عالم تھے اور آپ نے دوسرے نام نہاداسلامی اسکالروں کی طرح تقیہ کا غلاف اور نقاب نہیں اوڑھ رکھا تھا بلکہ قرآن کے مقابلے میں اہل سنت کی احادیث کی کتابوں کو ایک بہت بڑی عجمی سازش قرار دیا تھا۔ آپ کے دلائل حنفی اصولوں کے بالکل عین مطابق تھے۔ آپ نے قرآن وحدیث میں طلاق کے حوالے سے بڑافرق واضح کردیا تھا۔ آپ کے نزدیک بنیادی بات یہ تھی کہ ”قرآن میں دو طلاق ہیں اور جس طلاق کے بعد حلالے کاحکم ہے وہ خلع کی صورت ہے۔ جب عورت ہی کا قصور ہو تو پھر اسی صورت میں عورت کو حلالے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جرم مرد کرے اور سزا عورت کو دی جائے تو غلط اور غیرفطری بات ہے”۔
فقہ ، اصول فقہ ، عربی لغت اور عربی مدارس کے مروجہ علوم کے حوالے سے علامہ تمنا عمادی کے دلائل واقعی لاجواب تھے۔ علامہ ابن تیمہ کے شاگرد ابن قیم نے زادالمعاد میں حضرت ابن عباس کا جو قول نقل کیا ہے اوردرسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتابوں میں جو حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے اس کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ اس طلاق کو جس میں حلالے کا حکم ہے وہ صرف اور صرف خلع ہی کی صورت مشروط کیا جائے۔ غلام احمد پرویز ، جاوید غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک وغیرہ اگر دینی علم کے ماہر ہوتے تو اس مسئلے میں علامہ تمنا عمادی ہی کی تقلید کرتے لیکن سب نے اپنی اپنی دکان کھولنے کا فرض پورا کرکے ایک بے ہنگم ماحول میں خود کو فقہ کا امام بنانے کی اپنی سی کوشش فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں جاویداحمد غامدی نے بہت ہی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے اور غلام احمد پرویز نے حنفی مسلک کے طلاق احسن ہی کو قرآن کی اصل اور حتمی تفسیر قرار دیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے غلام احمدپرویز کی فکر کو اس مسئلے میں صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ تمنا عمادی نے اصولِ فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے جبکہ غلام احمد پرویز نے فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ ایک درسِ نظامی کے عالم اور غیرعالم میں یہی فرق ہوسکتا تھا۔
اہل حدیث نے ذخیرہ احادیث سے بہت ساری مرفوع احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ایک موقوف روایت کی بنیاد پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جو خوش آئند اسلئے ہے کہ دوسروں کو منکر حدیث کہنے والے خود بھی منکرِ حدیث بن گئے ہیں۔ جبکہ امام ابن تیمیہ نے اپنے مسلک کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ جب تک33،33مرتبہ سبحان اللہ دہرایا نہ جائے کہ سبحان اللہ، سبحان اللہ ، سبحان اللہ………. تو صرف33مرتبہ سبحان اللہ کہنے سے تسبیح پوری نہیں ہوگی ،اسی طرح 3طلاق کہا جائے تو3طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن جب امام ابن تیمیہ سے کہا جاتا ہے کہ اگر طلاق ، طلاق ، طلاق تین مرتبہ دہرایا جائے تو3طلاق واقع ہوجائیں گی تو اس کا کہنا تھا کہ یہ طلاق ہے اور وہ تسبیح ۔دونوں کا حکم ایک کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر طلاق کا لفظ3بار دہرایا جائے تب بھی ایک ہی طلاق ہوگی۔
سعودی عرب پہلے ابن تیمیہ کے مسلک پر تھا لیکن پھر اپنا سرکاری مؤقف تبدیل کرکے یہ بنالیا ہے کہ ایک مجلس کی تین مرتبہ طلاق سے3طلاق پڑیگی۔ اگر قرآن واحادیث کی طرف دیکھا جاتا تو یہ اختلافات وتضادات نہ ہوتے۔

شیعہ مسلک میں طلاق کا غلط تصور
حنفی مسلک میں طلاق کی تین اقسام ہیں۔نمبر1:طلاق احسن۔ عورت کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے۔ پھر عدت میں رجوع کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ نمبر2:طلاقِ حسن ۔ عورت کی پاکی کے ایام میں تین طہر کے اندر تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ نمبر3:طلاقِ بدعت۔ایک دم تین طلاق دی جائے، ایک مجلس میں تین طلاق دی جائے یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے۔ طلاقِ بدعت واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کا گناہ ہے۔
شافعی مسلک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہے۔ جبکہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے مسلک والے اس کو بدعت اور گناہ کہتے ہیں اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول ایک طرف اور دوسرا قول دوسری طرف کی تائید کرتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ اور اہل حدیث کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی طلاق ہے۔ سب کے ہاں اپنی اپنی احادیث اور روایات کے دلائل ہیں۔
اہل تشیع کے نزدیک طلاق حسن میں بھی سخت شرائط ہیں۔ ایک طہر میں کوئی طلاق دی جائے تو اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنا ضروری ہیں۔ گواہوں کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ پھر دوسرے طہر میں دو گواہوں کی موجودگی میں دوسری مرتبہ طلاق دینی ہوگی اور پھر تیسری مرتبہ تیسرے طہر میں دوگواہوں کی موجودگی میں تیسری طلاق دینی ہوگی۔ اس کے بعد عدت کے مراحل پورے ہونے تک رجوع نہیں کیا جائے تو پھر وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہو اور پھر اسی طرح طلاق کے مراحل سے نہیں گزرے۔ دوسروں کے مقابلے میں بظاہر اہل تشیع کے طلاق کا تصور سب سے زیادہ بہترین ہے جس میں بہت سارے تضادات سے بچت ہوجاتی ہے لیکن اس خود ساختہ فقہی مسلک کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ قرآن میں مرحلہ وار تین مرتبہ کی عدت اور طلاق کا تصور ضرور ہے لیکن ہر بار دو گواہوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سورۂ طلاق کی آیت نمبر2میں عدت کی تکمیل پر رجوع یا پھر چھوڑنے کے اختیار کا ذکر ہے اور چھوڑنے کی صورت میں دو عادل گواہوں کے مقرر کرنے کا بھی حکم ہے اور اس کے بعد بھی رجوع کی گنجائش کی وضاحت ہے اور اہل تشیع کا خود ساختہ تصور بھی قرآن وسنت اور حقائق کے بالکل منافی ہے۔
قرآن وسنت، حضرت عمراور ائمہ اربعہ کے مؤقف کی درست ترجمانی کی جائے تو پھر اہل تشیع اور اہل حدیث سمیت پوری امت مسلمہ کا اس پر بڑااجماع ہوسکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کا درست ترجمہ پیش کیا جائے اور اس کی درست تفسیر کی جائے تو تمام احادیث صحیحہ میں کسی ایک بھی روایت کے انکار کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ صحابہ کرام کے متضاد مسالک کی بھی ایسی درست توجیہ ہوگی کہ ان میں اس مسئلے پر کسی قسم کا تضاد نہیں ہوگا ۔
آیت230البقرہ کی درست تفسیر سمجھنے کے بعد قرآن کی طرف لوگ بہت متوجہ ہوں گے اور حیران ہوں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کیوں کر ضائع کردئیے؟۔ آج سودی بینکاری کا مسئلہ علماء نے خود ساختہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے ذمے چھوڑ دیا ہے اور مختلف ادوار میں سودی حیلہ سازی کیلئے علماء دستیاب ہوتے تھے،اسی طرح حلالے کے مسائل بھی ایسے علماء ومفتیان ہی کے ذمے چھوڑ دئے جاتے تھے۔کوئی شریف عالم دین اس حوالے سے سوچنے کی بھی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ یہ لوگ ایک طرف تصویر کے جواز کو خدا کی خدائی میں بھی مداخلت قرار دیتے تھے تو دوسری طرف تجارت اور حکومت کی غرض سے اس کو جوازبھی عطاء کرتے تھے۔ داڑھی کٹانے کو غیرشرعی قرار دینے والے نے اپنے بے ڈھنگے دانت تک نکلوا ڈالے ہیں لیکن مکافاتِ عمل کا وقت قریب لگتا ہے۔

_ مفتی تقی عثمانی کا غلط ترجمہ اورتفسیر_
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید مودودی نے علماء کے تراجم اور تفاسیر کو نہ صرف سلیس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنی طرف سے غلطیوں کے ازالے کیلئے بھرپور طریقے سے حق ادا کرنے کی بھی زبردست کوشش کی ہے لیکن شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ترجمہ” آسان قرآن” میں اللہ کے کلام کا بالکل غلط اور متضادترجمہ جان بوجھ کر کیا ہے اورغلط تفسیر میں بھی کم عقلی کی انتہاء کردی ہے۔ مختلف آیات میں اذابلغن اجلھن کا ترجمہ بھی اپنے ہی مقصد کیلئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ حالانکہ اپنے مسلک پر غور کرنا چاہیے تھا۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ا یک جگہ پر اللہ نے مؤمنوں سے اس جنت کوپانے کا کہا ہے جس کا طول ہی نہیں عرض بھی زمین سے آسمان تک کی طرح ہے۔ دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ ”فرشتوں کو اہل زمین پر اتنا غصہ آتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے اور نافرمانوں کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے لیکن جب اللہ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں ملتی ہے تو وہ اللہ کی حمد اورتسبیح بیان کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے مغفرت مانگتے ہیں”۔ سود کو جواز فراہم کرنے والے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بنادیا جائے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو تنظیم المدارس کا صدر بنادیا جائے تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔ اور حلالہ کے نام سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کے بجائے شادی شدہ خواتین کی عزتیں لوٹی جائیں تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔اللہ نے ایک مقررہ مدت تک ان کو ڈھیل دے رکھی ہے لیکن ڈھیل کا وقت موت کی شکل میں اور دنیا میں اسلامی انقلاب کی صورت میں ختم بھی ہوسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے تفسیر لکھی کہ ” فرشتے آسمان پر عبادت کرتے ہیں تو ان کا اتنازیادہ وزن ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان ان کا وزن برداشت نہ کرپائے اور پھٹ جائے”۔
دارالعلوم کراچی والوں نے اپنے دو قسم کے معیار قائم کررکھے ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھری تصوف کے نام پرعوام کو ورغلاتا ہے اور تصویر نہیں کھنچواتا ہے اور تصاویر کو سخت عذاب کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین کو سود قرار دیتا ہے جس کے ستر سے زیادہ گناہوں میں کم ازکم اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف مفتی تقی عثمانی تصویر کو جائز قرار دیتا ہے اور بینکنگ کے سودی نظام کو معاوضہ لیکر جائز قرار دیتا ہے۔ دونوں کے فکر وعمل کے تضادات سے یہ بات اچھی طرح سے عیاں ہوگئی ہے کہ اصل مسئلہ دین کا نہیں تجارت کا ہے اور تاجر اپنی کامیابی کو دیکھتا ہے۔
وفاق المدارس کے سابق صدر اور ہمارے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی تقی عثمانی کے استاذ وفاق المدارس کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان اور مفتی زرولی خان وغیرہ سمیت پاکستان کے دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان کی طرف سے مفتی تقی عثمانی کے سودی نظام کو جواز عطاء کرنے پر سخت مخالفت ہوئی لیکن اب اندھوں میں کانا راجا کی طرح مفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا منتخب صدر بنایا گیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”ہم چودہ اگست اسلئے مناتے ہیں کہ یہ دنیاوی بات ہے اور میلاد النبیۖ اسلئے نہیں مناتے ہیں کہ مذہبی معاملہ ہے اور جو چیز نبیۖ کے دور میں نہ ہو ،وہ مذہبی مسئلہ بدعت ہے”۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظام کا جواز بھی بدعت ہے یا نہیں؟۔ یہ تو رسول اللہۖ کے دور میں نہیں مفتی محمد شفیع اور وفاق المدارس کے سابق صدر تک بھی نہیں تھا۔ پھر یہ بدعت ہے یا سنت ہے؟۔اگر بدعت نہیں تو پھر کس چیز کا معاوضہ لیتے ہیں؟

قرآن میں طلاق کا زبردست تصور
قرآن میں طلاق کے حوالے سے جتنی وضاحت ہے شاید بلکہ یقینا کسی دوسرے معاملے کی اتنی وضاحت نہیں ہوئی ہے۔ مسلکوں کی وکالت اور آیات پر غور وتدبر کرنے کی جگہ خوامخواہ کی دماغ سوزیوں نے علماء ومفتیان، دانشوروں، فقہاء ومحدثین اور اُمت مسلمہ کو مسئلہ ٔ طلاق میں قرآن سے دور کردیا ہے۔
پہلی غلطی یہ ہوئی ہے کہ طلاق اور خلع کی آیات میں بڑا زبردست مغالطہ کھایا گیا۔ آیت229البقرہ میں دومرتبہ طلاق اورتیسری مرتبہ میں رجوع کرنے یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کے بعد اور آیت230میں تیسری بار طلاق سے پہلے خلع کے تصور نے مسئلے کا حلیہ بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس پر امام شافعی وامام ابوحنیفہ کے مسالک میں اختلاف اور علامہ ابن قیم سے لیکر علامہ تمناعمادی تک بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔
مولانا سید مودودی نے سلیس اور قابل فہم ترجمہ کرنے کے چکر میں دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد تفہیم القرآن میں لکھ دیا ہے کہ ” کچھ معاوضہ دے دلاکر خلع لیا جائے” جو سراسر گمراہی کی بہت بڑی بنیاد ہے۔اگر قرآن کے مطابق آیت229البقرہ میں تین بار طلاق کے بعد حقوق کا معاملہ مراد لیا جائے جس کے بغیر دوسرا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا ہے اور سورۂ النساء آیت19سے خلع مراد لیا جائے تو جس کے بغیر کوئی دوسرا امکان بھی نہیں ہے تو بہت سارے مسائل اپنی بنیاد سے حل ہوجائیں گے اور بہت سارے مسلکی تضادات کا حل بھی نکل آئے گا اور اپنی کم عقلی پر شرم بھی آئے گی اور قرآن کی طرف لوگ دوڑنا بھی شروع کردیں گے۔امام مہدی سے زیادہ اہمیت یقینا قرآن کی ہے اور قرآن کے ذریعے ہدایت بھی ملے گی۔
جب خلع اور طلاق کے حقوق میں بہت بڑا واضح فرق معلوم ہوگا تو پھر اس کی وجہ سے طلاق کی اصل اہمیت بھی معلوم ہوجائے گی اور طلاق کے مسائل بھی واضح طور پرسمجھنے میں آسانی ہوگی۔ یہ انتہائی غلط تصور ہے کہ جس طرح شوہر اپنا حق مہر دے کر نکاح کرسکتا ہے، اسی طرح منہ مانگی قیمت دے کر عورت خلع لے سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپور سید عتیق گیلانی کی تحریر۔

Written by Syed Atiq Gilani, full of arguments on the differences between Sindhi, Muhajir, Pakhtun, Baloch, Panjabi, Shia Sunni, Muta, Halala, divorce and khula.

سندھی، مہاجر، پختون، بلوچ، پنجابی ، شیعہ سنی، متعہ، حلالہ، طلاق اور خلع کے اختلافات پر دلائل سے بھرپورسید عتیق گیلانی کی تحریر

بقیہ صفحہ 2 اور ___3

صفحہ نمبر1اور صفحہ نمبر4کے بہت سارے مسائل کا مختصر تشفی بخش جواب دینے کی کوشش صفحہ نمبر2 ،3پر کروں گا۔ ”جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی” علامہ اقبال نے سچ فرمایا تھا۔ پاکستان بننے کے73سال بعد بھی ہماری سیاست اور دین کے شعبے جدا جدا ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی نے ہندوازم کی بنیاد پر مسلمانوں اور اقلیت کا بیڑہ غرق کرکے چنگیزیت کا آغاز کردیا ہے۔ افغانستان میں طالبان ایک ایسے سنگم پر کھڑے ہیں کہ ان کو پتہ نہیں چلتا ہے کہ دنیا کیساتھ چلیں یا دین پر چلیں؟۔پاکستان میں مذہبی اور سیاسی طبقات بھی اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔عوام کو مایوسی سے نکالنے کا واحد راستہ اسلامی روح ہے اور اسلام کے جسم میں روح بیدار ہوسکتی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خلع واقتدارمیںبہت بڑا اشتراک_
حضرت آدم و حواء سے لیکر قیامت تک آنے والے ہرانسانی جوڑے میں مرد عورت کا نگہبان اور محافظ ہے۔ جب کوئی مرد کسی عورت سے نکاح کرلیتا ہے تو پھر شوہر اپنی بیگم کو اپنے نکاح سے نکلنے کو اپنی بہت بڑی توہین سمجھتا ہے۔ جب مرد اپنی مرضی سے طلاق دیتا ہے تو عورت کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے اس کے بھائی، بھتیجے،رشتہ دار، دوست، پڑوسی اور دشمن سے نکاح کا ناطہ جوڑنے پر بہت سیخ پا ہوتا ہے اور غیرت کھاتا ہے۔ ایسے میں قرآن کا یہ حکم اس کو کہاں ہضم ہوگا کہ عورت اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے بخیر وعافیت خلع لیکر کسی اور سے نکاح کی جرأت کرسکتی ہو؟۔ پاکستان کی خاتونِ اول بشریٰ بی بی نے اپنے شوہر خاور مانیکا سے خلع لیکر وزیراعظم عمران خان سے نکاح کیا تو بشریٰ بی بی کی اولاد سے میڈیا کے اینکر پرسن تک پورا پاکستان ہل کر رہ گیا تھا۔ جیو نیوزکے تحقیقاتی صحافی نے دعویٰ کیا کہ ”یہ شادی عدت کے اندر ہوئی ہے”۔ حالانکہ طلاق اور خلع کی عدت میں بہت فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے؟۔ اس کا بھی موقع مل جائے توتفصیل سے بتادیتا ہوں۔ عمران خان نے اور کچھ کیا یا نہیں کیا لیکن بشریٰ مانیکا سے خلع کی بنیاد پر شادی کرکے مدینہ کی ریاست کا ایک حکم زندہ ضرور کردیا ہے۔
جس طرح کوئی ریاست اپنی کسی زمین کے ٹکڑے سے دستبردار نہیں ہوسکتی ہے اور کوئی حکمران اپنا اقتدار نہیں چھوڑ سکتا ہے، اسی طرح کسی شوہر کیلئے عورت کو خلع دینا بہت مشکل کام ہے۔ ریاست پاکستان نے بنگلہ دیش سے اس وقت ہی دستبرداری اختیار کی جب اس کے دشمن بھارت کے سامنے93ہزار پاک فوج نے جنرل نیازی کے کہنے پر ہتھیار ڈال دئیے۔ نیازی ایک غیرتمند قوم ہے مگر جنرل نیازی کی وجہ سے اتنی بدنام ہوگئی کہ عمران خان جیسا انسان بھی نیازی لکھ کرشرم محسوس کرتا ہے۔ بشریٰ مانیکا کی خلع کے بعد شاید مانیکا لکھنے پریہ خاندان شرم محسوس کرے۔ اگر بنگلہ دیش نے بشری مانیکا کی طرح آسانی کیساتھ آزادی حاصل کی ہوتی تو پاکستان اور بنگلہ دیش دوجڑواں بھائیوں کی طرح ہوتے۔
ہندوستان و پاکستان انگریز سے جمہوری انداز میں ایک ساتھ آزاد ہوئے، ان دونوں ریاستوں کو دوجڑواں بہنوں کی طرح محبت سے رہنا چاہیے تھامگر برطانیہ نے مسئلہ کشمیر سے دونوں میں سوکناہٹ پیدا کی۔ ”لڑاؤاور حکومت کرو” کی پالیسی آخری دَم تک انگریز نے نہیں چھوڑی۔ آج بھی امریکہ اور یورپ نے یہ پالیسی اختیار کرنی ہے کہ برصغیر پاک وہند میں جنگ وجدل کا ماحول پیدا کرکے ہماری سستی اناج اور دیگر وسائل پر قبضہ کرلے اور اپنے اسلحہ کے ذخائر ہم لوگوں کو فروخت کرکے اپنے منافع بخش کاروبار کو زیادہ سے زیادہ ترقی پر پہنچائے۔
اگر گھر میں بیوی خوش نہ ہو تو بھاگ کر جانے اور روکنے سے یہ اچھاہے کہ اس کو خوش اسلوبی کیساتھ ہی رخصت کردیا جائے۔ اگر وہ بری لگتی ہے تو ہنگامے مچانے اور دشمنی کی راہ اپنانے کے بجائے رخصتی میں ڈھیر سارے خیر ہیں۔

بانیانِ پاکستان کی اولاد سے عرضی!_
کراچی و حیدر آباد میں بانیانِ پاکستان کی اولادیں رہتی ہیں۔ انیس قائم خانی اور عامر خان کی ایکدوسرے کیخلاف سوشل میڈیا پرویڈیوز تشویشناک ہیں، پہلے بھی متحدہ اور حقیقی کے نام پر لڑائیاں ہوئی ہیں میں وزیرستان کا باشندہ ہوںلیکن اپنے گھر میں اپنے بچوں کیساتھ اپنے علاقے میں بھی اسلئے اردو بولتا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اگرچہ آج تک بدقسمتی سے اس کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل سکا ہے، جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو پختونخواہ حکومت نے اردو کو سرکاری زبان دینے کا درجہ دیا تھالیکن اردو اسپیکنگ مہاجر پرویزمشرف نے اپنے نالائق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اردو کو پختونخواہ کی سرکاری زبان نہیں بننے دیا۔ حالانکہ افتخار چوہدری خود بھی انگریزی نہیں بول سکتا تھا۔
قوم کی امامت کے مستحق وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو پہلے اپنے جسم سے نکلنے والے گند کی جگہ استنجاء کرکے صاف کرلیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان نے پاکستان بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن اگر وہ پاکستان ہجرت کرکے آنے کی بجائے بھارت میں رہتے تو اصولی طور پر زیادہ اچھا ہوتا۔ ہجرت کے دوران جتنے لوگ اپنے علاقے، وطن، گھروں، خاندانوں ، جانوں، مالوں اور عزتوں سے محروم ہوئے ہیں ، ان سب کی ذمہ داری ان کے سر ہے۔ قائداعظم کی ایک بیٹی دینا جناح تھی جس نے اپنے کزن کیساتھ ہندوستان میں بھاگ کر شادی کی۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم راعنا لیاقت علی خان ہماری فوج میں اعزازی جنرل بن گئی تھی۔ لیاقت علی خان اور محمد علی جناح کے بعد بیگم راعنا لیاقت اور فاطمہ جناح ان کا کل اثاثہ اور باقیات تھیں۔ جنرل ایوب خان کے قبضے سے پہلے ہی پاکستان پر جن لوگوں کا قبضہ تھا وہ کونسے جمہوری تھے؟لاہور کی عدالت میں جج لاہور کے ڈپٹی کمشنر سے کہتا ہے کہ” عدالت میں شلوار قمیض پہن کر مت آیا کرو یہ عدالت کی بے حرمتی ہے”۔ ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، نواز شریف اور عمران خان تک مقتدر طبقات نے شلوار قمیض کو رائج کردیا ہے لیکن ہماری عدالت کے جج کو اب بھی شلوار قمیص محکوم اور جاہل قوم کی نشانی لگتی ہے۔
پختون، پنجابی، بلوچ ، سندھی اور سرائیکی اپنا اپنا کلچرل لباس رکھتے ہیں مگر ہمارے مہاجر بھائیوں کا مشترکہ کلچر پینٹ شرٹ تھا اور یہ ان کا اپنا کوئی دیسی کلچر نہیں تھا بلکہ انگریز کے جانے کے بعد جس طرح انہوں نے اپنے وطن کی قربانی دی ،اسی طرح سے اپنے کلچر کی بھی قربانی دی۔ البتہ انگریز کے بعد اقتدار انکے ہاتھ میں آیا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ پوری قوم کے کلچر کو بھی اپنے ساتھ ڈبو دیا۔ ان کی اکثریت آج بھی اپنے گھروں اور خاندانوں میں مارواڑی، گجراتی، میمنی، بہاری، بندھانی،کچھی اور دیگر چھوٹی چھوٹی زبانیں بولتی ہیں اور اکثریت کواردو بھی ڈھنگ کی نہیں آتی ہے۔ اردو کو واحدقومی زبان کادرجہ دینے کے بعد بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کی دراڑ وسیع ہوگئی۔ حالانکہ ہندوستان میں22زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل تھااور مزے کی بات یہ ہے کہ قائداعظم کو بھی اردو نہیں آتی تھی۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، قادیانی ، جماعت اسلامی ، شدت پسند شیعہ اور ہندو مسلم تعصبات سب مذہبی ہندوستان سے پاکستان میں منتقل ہوئے ہیں۔ پہلے سندھ کے وڈیروں، بلوچستان کے نوابوں، پنجاب کے چوہدریوں اور سرحد کے خانوں کے مظالم کی بات ہوتی تھی لیکن متحدہ قومی موومنٹ کے کان کٹوں نے تشدد وانتہاء پسندی میں نام پیدا کرکے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کراچی پاکستان اور حیدر آباد سندھ کا دارالخلافہ تھا اور ہندوستانی مہاجر کی طرح دوسرے پاکستانی پختون، پنجابی، بلوچ اور سندھی کا بھی اس پر پورا حق تھا لیکن مہاجر نے سمجھ لیا کہ کراچی وحیدر آباد کو کاندھے پر لاد کر ہندوستان سے لایاہے۔ جب اپنے وطن کی قربانی دیدی تو حب الوطنی کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟۔ ذرا سوچئے!

سندھی مانڑوں سے کچھ گزارشات!_
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے آج تک لاڑکانہ مختلف ادوار میں اہل اقتدار کا شہر ہے لیکن اس کا حلیہ اتنا ہی بگڑا ہوا ہے جتنا سندھی وڈیروں نے غریب سندھی کا بگاڑ رکھاہے۔ ہندوستان کی مشہور ، ہردلعزیز، فطرت کی ترجمان شاعرہ لتا حیاء متعصب ہندوؤں سے کہتی ہے کہ مسلمان صبح اُٹھ کر وضو سے اللہ کی بارگاہ میں عبادت کرتا ہے ، تم بھی ذرا اپنا منہ دھو لو۔ حروں کے پیشواء سندھ میں تھے تو مجلس احرار کے قائدین پنجاب میں ۔ مولانا ظفر علی خان احرارکو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوا۔ پھر زمینداراخبار میں10ہزار روپے کے انعام کیساتھ لکھ دیا کہ ”زمانہ اپنی ہر کروٹ پہ ہزاروں رنگ بدلتا ہے” کہ اگر کسی نے اس شعر کا دوسرا موزوں مصرعہ لکھ دیا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو بات پہنچی تو برجستہ کہہ دیا کہ ”مگر اس کو بھی حسرت ہے کہ گرگٹ ہو نہیں سکتا”۔
اگر ہندوستانی مہاجراور دیگر صوبوں سے بلوچ، پختون اور پنجابی نہ آتے تو سندھ کے دوسرے شہروں کی طرح کراچی وحیدر آباد میں بھی مچھروں اور مچھیروں کے ڈیرے لگتے۔ ترقی وعروج آنے والوں کا مرہون منت ہے۔ جب سندھی مہاجر فسادات ہوئے تھے تو ممتاز بھٹو نے انتہائی غلیظ گالی مہاجروں کو دی، جس کو اس وقت کے اخبار نے لسانی فسادات کی پرواہ کئے بغیر اپنی دکان چمکانے کیلئے شائع کیا تھا۔ بھوک سے زمانہ اپنے اقدار کے آداب بھلادیتا ہے لیکن جب ترقی ہوتی ہے تو اس سے زیادہ آداب کا پاس نہیں ہوتا۔ حلیم عادل شیخ نے کسی کو کانوں کان خبر نہ دی لیکن جب دعا بھٹو نے اپنے نومولود کو اس کی طرف منسوب کردیا تو سندھ کا کلچر بھی بدل گیا۔ چھپ کے شادی کرنے اور دوسروں پر تنقید کے نشتر برسانے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جارہاہے کہ بہن بھائی میں شادی ہوگئی۔ جب شہباز شریف نے تہمینہ درانی سے شادی رچائی تھی تو پنجاب کے صحافی اطہر عباس نے پرویزمشرف کے دور میں ایک ساتھ جہاز میں آنے پر غلام مصطفی کھر اور شہباز شریف کے باہمی رشتے کابڑا مذاق اُڑایا تھا۔ پھر وہ دن بھی پنجاب نے دیکھ لیا کہ خاور مانیکا اور عمران خان میں خوشگوار طریقے سے اس سے زیادہ بڑی خبر سامنے آگئی۔ زمانے کی کروٹ کیساتھ لوگوں میں بھی تبدیلوں کا آنا بہت ناگزیر ہے۔ یہ شکر ہے کہ ہندوستانی مہاجروں کی وجہ سے بہت تیزی کیساتھ پاکستان کے مقامی لوگوں نے تبدیلی دیکھ لی ،ورنہ تو دنیا کے اثرات ہم نے پھر بھی قبول کرنے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر پر آذان اور نماز کو حرام قرار دینے والے مولانا اشرف علی تھانوی کے پیروکار دارالعلوم کراچی میں مریدوں کو کہتاتھا کہ ”شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین سود ہے جسکا کم ازکم گناہ سگی ماں سے زنا کے برابرہے”۔ اس پر مفتی شفیع کے داماد اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے بہنوئی مولانا عبدالرؤف سکھروی کی کتابیں ہیں۔ آج سالے ایسے بدل گئے کہ سندھی داماد تصویر تک نہیں کھینچواتا مگر سالوں نے عالمی سود کو جائز قرار دیا۔

پختون بھائی خوگر حمد سے گلہ سن لیں _
ہم نے مان لیا کہ پاکستان میں خرابی کی اصل جڑ راجہ رنجیت سنگھ سے پنجابی انگریزی فوج تک پنجاب کی قوم ہے۔ پختون، بلوچ، سندھی، مہاجر، سرائیکی، گلگت وبلتستانی اور کشمیری سب کے سب مظلوم ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان کے تمام صوبوں کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ انگریز سے آزادی کے بعد پوری قوم پنجاب کی غلامی میں آگئی ہے۔ سرائیکیوں کو وعدوں کے باجود اپنا صوبہ نہیں دیتے ہیں، مہاجروں کو پیپلزپارٹی کے خلاف اٹھاکر بدمعاشوں کو ان پر مسلط کردیا اور پھر ان کا بیڑہ بھی منتشر کرکے غرق کردیا۔ سندھ کو پانی سے محروم کرکے بنجر بنادیااور کوئی نہ کوئی کتا ان کے اقتدار کے پیچھے ہمیشہ لگائے رکھا۔ کراچی میں رینجرزکو مسلط کیا اور اپنے مفادات اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سندھ پولیس کو اپنی مہمان مریم نواز کا دروازہ توڑنے پر احتجاجاً ڈیوٹی چھوڑ ہڑتال تک پہنچنا پڑگیا۔ بلوچوں کے وسائل پر قبضہ کرکے ان کی نسلوں کو تباہ کردیا۔ افغان جنگ اور امریکی جہاد سے پختونوں کا لر اور بر میں بیڑہ غرق کردیا۔ پنجاب اور فوج پر جتنی بھی لعنتیں بھیجنا چاہتے ہیں وہ اس کے مستحق ہیں۔ اب تو اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار مسلم لیگ ن بھی حبیب جالب کی زبان میں پنجاب کو جگانے اور فوج کے خلاف بہت تندوتیزی کیساتھ اپنے پتے کھیل رہی ہے۔ صحافیوں کو بھی مواقع مل گئے ہیں کہ اپنے ان جذبات کا کھل کر اظہار کریں جن کو اپنے سینوں میں پالتے تھے۔ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات کی اللہ نے سزا دی ہے کہ اس نے شراب پر پابندی لگادی جو واحد وسیلہ تھا کہ جیل کی قیدوبند اور کوڑوں کی سزاسے بے نیاز ہوکر انسان جابر حکمرانوں کے سامنے حق کہہ سکتا تھا۔ حبیب جالب کو نبیۖ کی طرف سے مولانا عبدالستار خان نیازی نے سلام بھی پہنچایا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ حبیب جالب بھی میانی پٹھان تھا جسکا باپ فٹ پاتھ پر جوتے گانٹھتا تھا اور اس کا تعلق غفار خان اورولی خان کی پارٹی سے تھا جو حق کی آواز اٹھاتے تھے۔
لر اور بر کے پختون بھائیوں سے صرف اتنا عرض ہے کہ جس طرح پنجاب کی پاکستان میں حیثیت ہے وہی حیثیت افغانستان میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور دیگر چھوٹی قومیتوں کے مقابلے میں پختونوں کو حاصل ہے۔ افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کیساتھ بچہ سقہ اور اپنے کزن نادر خان نے جو سلوک کیا تھا جو ظاہر شاہ کا باپ تھا۔نادر شاہ، ملاشور بازاراور شیر آغا سے پختونوں کی تاریخ شروع کریں، نجیب اللہ و ملاعمر سے ہوتے ہوئے اشرف غنی و ملا ہیبت اللہ تک یہ سب پختون ہیں۔ پنجابیوں نے پاکستان سے وہ سلوک کیا جو پختون وہاں پر دوسری قوموں کیساتھ کررہے ہیں۔ کبھی شیعہ ہزارہ قتل وغارت سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ کبھی اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ کبھی بیرونی قوتوں کی مداخلت کے حق اور مخالفت میں افغانستان کا کباڑہ کردیا اور کبھی اسلام اور سوشلزم و کمیونزم کے جھنڈوں پر ایکدوسرے کیخلاف لڑے۔ بلوچ اگر اپنے وسائل کا رونا روتا ہے تو وہ کسی دوسرے کے علاقے میں بھی نہیں جاتا ہے ، سندھی بھی اپنے علاقے سے نہیں نکلتا ہے۔ پختونوں کے پاس اپنے وسائل ہوتے تو پاکستان کے کونے کونے میں ہر نکڑ پر پختون اپنا روزگار کرتے ہوئے کیوں دکھائی دیتے؟۔ پاکستان قرضے لے لے کر مرگیا لیکن پختون قوم کیلئے بڑے پیمانے پر فنڈز جاری ہوتے ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھی سرائیکیوں کے شہر تھے لیکن پختونوں نے اس پر اپنا قبضہ جمالیا ہے۔ مضافات کی غریب سرائیکی بولنے والی آبادی اب بھی زندگی کی تمام سہولیات سے محروم ہے اور اگر قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا جائے تو پورے پاکستان سے پختونوں کے دھکیلنے اور اپنے علاقوں تک سمیٹنے کے ذمہ دار یہی قوم پرست ہونگے۔ امریکہ کی چاہت ہے کہ اس خطے میں قوم پرستی کی بنیاد پر اسلحے کی خریداری کو فروغ ملے۔

بلوچستان کے بلوچوں سے گزارش!_
بلوچ ایک عزتدار، اپنے اقدار اور اپنی روایات میں منفرد قوم ہے۔ جب پاکستان کی دوسری قوموں میں ڈرامے، فلمیں اور اسٹیج ڈانس کی بہتات تھی توپھر واحد بلوچ قوم نے بلوچی فلم کی وجہ سے کراچی میں سینما کو آگ لگادی تھی حالانکہ اس میں سارے کردار دوسری قوم کے ایکٹروں نے ادا کئے تھے۔بلوچ قوم نے اپنی آزادی کیلئے جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت پارلیمنٹ، سرکار ی ملازمین اور حکومت سے لڑنے کا موڈ نہیں رکھتی ہے۔ ایسے میں جب قوم دو حصوں میں تقسیم ہو تو اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔جب سکول ٹیچرز،مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کو نشانہ بنایا جائے تو ہمدردی رکھنے والوں کی ہمدردیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا تھا کہ قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں لیکن ان کی اُلٹی سیدھی حرکتوں کی وجہ سے عوام میں ان سے بہت نفرت کی فضاء بن گئی۔ بلوچ سرماچاروں سے بھی بلوچ عوام کو بڑی ہمدردیاں تھیں لیکن ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
کسی ملک کی فوج اور عوام کے سامنے جب کسی کو دشمن نامزد کیا جائے تو پھر معاملہ بالکل مختلف بن جاتا ہے۔ بلوچ قوم پرست اورTTPنے جب پاک فوج کو اپنا دشمن قرار دے دیا تو پھر فوج نے بھی ان کے ساتھ دشمنوں والا سلوک روا رکھا اور جب دو دشمنوں میں لڑائی ہوتی ہے تو اکثر وبیشتر کمزور کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں کوئی درست سیاسی قیادت نہیں ورنہ فوج کیساتھ کسی کی دشمنی تک بات پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آسکتی تھی۔ کراچی پورٹ سے لاہور اور پورے پنجاب تک ریلوے لائن اور قومی شاہراہ موجود تھی۔چین سے بھی لاہور اور پنجاب موٹروے کے ذریعے جڑا ہوا تھا۔ گودار کوئٹہ اور پشاور کے ذریعے بھی لاہور اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر کوئٹہ اورپشاور کے راستے گلگت سے گوادر تک موٹر وے افتتاح کیا، جو چین کیلئے بھی سب سے مختصر راستہ اور صراط مستقیم کی مانند سیدھا تھا۔ لاہور کیلئے بھی بھول بھلیوں کے مقابلہ میں یہی راستہ ہر لحاظ سے مختصر اور اچھا تھا لیکن نواز شریف نے گوادر سے آواران اور سکھر ، ملتان اور لاہور کی طرف موڑ دیا جو بالکل بھول بھلیاں ہیں۔ آواران میں ڈاکٹر اللہ نذر کی وجہ سے بلوچوں کے گاؤں بھی ایف سی والے پختونوں سے گرادئیے گئے۔ یہ وہ نوازشریف تھا جس نے لاہور کو نوازنے کیلئے گوادر سے کوئٹہ اور پشاور کو محروم کردیا اور چین کے سی پیک کو بھی نقصان پہنچایا۔ مغربی روٹ کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ راستہ بہت مختصر تھا ، پیٹرول کی بچت، وقت، ماحولیاتی آلودگی اور دھند سے بچت تھی ۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ کوئٹہ کو محروم کرکے لاہور کو نوازنے کی بات نہ آتی کیونکہ نوازشریف بلوچستان کی سوئی گیس سے پنجاب کو نوازنے کی بات کرکے بلوچوں کی ہمدردیاں لیتا تھا۔ تیسرا فائدہ یہ تھا کہ ایف سی اہلکاروں کو خونخوار بناکر بلوچوں کو مزید ناراض نہ کیا جاتا۔

پنجابی بھائیوں سے کچھ گزارشات! _
جب کراچی میں ایم کیوایم اور پختونوں کے جھگڑے چل رہے تھے تو علماء نے دونوں طرف کے نمائندوں کو بلایا تھا۔ پختون رہنماؤں نے علماء سے کہا تھا کہ جب ہمیں مارا جارہا تھا تو تم خاموش تھے اور اب جب ہم نے مارنا شروع کیا ہے تو تمہیں اسلامی بھائی چارہ یاد آگیا۔ ان دنوں لسانیت کی ہوائیں چل رہی تھیں۔ مفتی منیر احمد اخون(سوشل میڈیا پرمفتی اعظم امریکہ) مولانا محمد یوسف رحیم یار خان اور مولانا عبدالرؤف کشمیری ہماری جماعت میں پڑھتے تھے۔ طلبہ جمعرات کو اپنی کلاس کی انجمن بناکر تقاریر سیکھنے کی مشق کرتے تھے۔ عبدالرؤف کشمیری نے انجمن کا نام مولانا انورشاہ کشمیری کے نام پر رکھوایا۔ میں نے اس کی مخالفت کی اسلئے کہ لسانیت کی فضا میں ایک کشمیری کا دوسرے کشمیری سے رشتہ تو صرف لسانیت کو ہوا دینے والی بات تھی، میں نے مولانا اشرف علی تھانوی کے نام کی مہم چلائی۔ اساتذہ نے بزم قاسم نانوتوی رکھ دیا جو دونوں کے استاذ تھے۔ منیر احمد اخون کو جنرل سیکرٹری اور عبدالرؤف کشمیری کو بزم کا صدر بنادیا۔ میں نے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی اور ان کو سرکاری مسلم لیگ قرار دیکر مسترد کیا اور ہر کچھ عرصہ کے بعد کنوینر بدلتا رہا۔آخری وقت تک سرکاری مسلم لیگ درسگاہ میں نہ آسکی۔ جب کتابیں ختم ہونا شروع ہوئیں تو مفتی منیراحمد اخون وغیرہ نے طلبہ سے دس دس روپے لیکر مٹھایاں بانٹنا شروع کردیں۔ جس پر پختون طلبہ نے مولانا عبدالسلام ہزاروی وغیرہ کی سرکردگی میں اپنی ایکشن کمیٹی بنائی اور میرے علم میں لائے بغیر مجھے اس کا سربراہ بھی بنادیا۔ جب انجمن میں میرا نام پکارا گیا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ اس سلسلے میں کچھ معلومات بھی نہیں تھی لیکن لسانی فضا سے متأثر ہونے پر بڑا دکھ ہوا۔ میں نے تقریر میں کہا کہ پاکستان میں صوبہ سرحد سے ہمارا تعلق ہے لیکن سرحد غیرملک اور اپنے ملک کی اس لکیرکو کہتے ہیں جو اپنی نہیں ہوتی ۔ صوبہ سرحد میں قبائلی پٹی کو علاقہ غیر کہتے ہیں۔ اس میں بھی اپنائیت نہیں ہے۔ قبائلی علاقہ میں وزیرستان سے ہمارا تعلق ہے اور وزیرستان میں وزیر اور محسود ہیں۔ وزیر ہمیں محسود سمجھتے ہیں۔ محسود ہمیں محسود نہیں برکی سمجھتے ہیں اور برکی ہمیں غیر برکی پیراور سید سمجھتے ہیں۔ میں تو اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر سب کیلئے غیر ہی غیر ہوں۔ پھر لسانی بنیاد پر اشتعال کو ختم کردیا اور منیر احمد اخون وغیرہ سے بھی کہہ دیا کہ ان کے جذبات کی ترجمانی کیلئے کسی کو ساتھ رکھتے۔اس نے کہا کہ مجھے بالکل یہ احساس بھی نہیں تھا کہ ان کے جذبات مجروح ہونگے اور آئندہ خیال رکھوں گا۔ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور اب عمران خان کو مسلط کیا ہے لیکن ملک کی دیگر قومیتوں کے علاوہ پنجابیوں کی جان، مال اور عزت کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ بدمعاش طبقہ کوٹ کچہری کے مسائل کیلئے سیاسی جماعتوں کی پناہ لیتے ہیں اور قبائلی علاقہ جات سے سیٹل ایریا کا حال ہرلحاظ سے بہت بدتر ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ جس طرح کوئی سیاسی پارٹی اپنے بدمعاش مافیا کے بغیر نہیں چل سکتی ہے ،اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نے بھی مذہبی تنظیموں اور دہشتگردوں کو حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے مجبوری میں پال رکھا تھا۔PTMکو جب اپنی قوم اور اس کے بڑے چھوڑ کر گئے تھے اور وہ حوصلہ ہار چکے تھے تو میں نے اسٹیج سے ”یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کے خوب نعرے لگوائے تھے۔اسلئے پھر منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں نےGHQکی کال پر وہاں حاضری دی تھی۔ میں نے کہاتھا کہ ریاست نے بھٹو، نوازشریف اور عمران خان جن لاڈلوں کو پالا ، یہ کورٹ میرج والی بیٹیاں ہیں جو اپنے والدین کی تذلیل کرتی ہیں۔ قبائل پر اتنی مشکلات گزری ہیں ، انہوں نے آج تک اُف بھی نہیں کی۔ قائداعظم ،لیاقت علی خان، محمد علی بوگرہ جو بھی حکمران تھے، قبائل نے پاکستان کو قبول کیا جو مغل اور انگریز کے سخت مخالف رہے ہیں۔

رعایا اور عورتوں کے اسلامی حقوق_
اسلام نے دنیا میں فتوحات اسلئے حاصل نہیں کی تھیں کہ مسلمان حکمرانوں نے دوسری دنیا کے مقابلے میں کوئی جدید سے جدید ٹیکنالوجی میں کمال پیدا کیا تھا بلکہ رعایا اور عورتوں کے مثالی حقوق نے دنیا میں اسلام کو پھیلنے کا موقع دیا تھا لیکن افسوس کہ طلاق اور خلع میں جس طرح عورت کا گلہ گھونٹ دیاگیا، اس کے مقابلے میں مغرب اور دیگر دنیا مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔ اسی طرح رعایا کو اسلام نے جو حقوق دئیے تھے تو اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی تھی ۔ قرآن کا کمال یہ تھا کہ مذہبی معاملے میں ایک خاتون نے نبیۖ سے مجادلہ کیا جس کا ترجمہ قائداعظم کا نمازِ جنازہ پڑھانے والے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور ان کے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن اور شاہ ولی اللہ اور انکے صاحبزادوں نے ”جھگڑا کرنے ” سے کیا ہے۔ جس میں رسول اللہ ۖ کی رائے کے برعکس وحی اس عورت کے حق میں اللہ نے نازل فرمائی تھی۔ نبیۖ مذہب اور اقتدار میں مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ قابلِ قبول حیثیت رکھتے تھے۔ یہی مطلب اس آیت کا ہے کہ النبی اَولیٰ بالمؤمنین من انفسھم ”نبی مؤمنوں کیلئے اپنی جانوں سے بھی زیادہ اولیت رکھتے ہیں”۔ اسلامی احکام میں فرض، واجب اور سنت کے علاوہ اَ ولی اور غیر اَولی بھی ہوتے ہیں جس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم ہے۔ تقدیم کی حیثیت اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کی اسلئے مؤمنوں سے منوائی تھی کہ جب ایک عورت نبیۖ سے مجادلہ کرتی ہے تو اگر وہ مناسب اور غلط ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی وحی اور قرآن کے ذریعے سے قیامت تک کے انسانوں کیلئے نمونہ کے طور پر انسانوں کی رہنمائی کیلئے بہترین مثال بناکر رکھ دیتے ہیں کیا کسی ملک اور قوم میں ایک عورت اور حکمران کے مقابلے میں اپنی رعایا کو یہ حق حاصل ہے کہ اس طرح ایک ادنیٰ درجے کی نامعلوم عورت کے حق میں اس طرح سے کوئی فیصلہ ہوجائے؟۔ اسلام کی یہ روح مردوں اور حکمرانوں میں ناپید ہوچکی ہے۔
غدیر خم کے موقع پر نبیۖ نے درجہ بالا آیت پڑھ کرعلی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھ کر اعلان فرمایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ”جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے”۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے باپ مفتی محمد شفیع کا بتایا تھا کہ ہمارے اساتذہ کے استاذ شیخ الہند کو مولوی کہا جاتا تھا لیکن جب مولانا اور بڑے بڑے القاب رکھنے والے میں علم نہیں ہے اور ان میں علم تھا۔ عربی میں ”نا ” جمع مذکر کی ضمیر ہے جس کا مطلب ”ہمارا” ہے۔ مولا کو مولانا کہنے کا مطلب ہمارا مولا ہے۔ حضرت علی وہ شخصیت تھے کہ جن کونبیۖ نے خود صحابہ کرام کیلئے اپنے دور میں ”مولا” کا خطاب ہی نہیں دیا بلکہ سب سے مقدم ہونے کی تلقین ہونے کی آیت کے حوالے سے اس کی تفسیر بھی بنادیا تھا۔
نبیۖ نے حدیث قرطاس میں چاہا کہ امت آپۖ کے بعد گمراہ نہ ہو جائے لیکن حضرت عمر نے کہہ دیا تھاکہ ”ہمارے لئے قرآن کافی ہے”۔

شیعہ سنی اختلاف اور اس کابڑا حل_
شیعہ اپنے وجود کو سنیوں کی احادیث کی کتب، قرآن کی تفاسیر اور تاریخ کی کتابوں کے حوالے سے نہ صرف زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ بہت سارے سنیوں کو بھی اپنے دل وجان اور عقل ودماغ سے اپنا ہمنوا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شیعہ ماحول کو دیکھ کر نرم یا گرم رویہ اختیار کریں لیکن ان کو پورا پورا اعتماد ہے کہ حق پر وہی ہیں۔ سنی اگر مقابلے میں یزید سے لیکر مغل بادشاہ اورنگزیب تک بادشاہی نظام کی حمایت کریںگے تو ہار جائیںگے۔ احادیث، تفسیر اور تاریخ کی بات کا بھی سنیوں کو اُلٹا نقصان ہی ہوگا۔ سوشل میڈیا کو ڈنڈے کے زور پر روکنا ناممکن ہے اور اب یہ معرکہ زور وزبردستی نہیں بلکہ علم وفہم اور اچھی خصلت سے حل ہوگا۔
جب بریلوی دیوبندی اکابر کے مطابق حضرت عمر نے غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کو ” مولا” قرار دئیے جانے پر آپ کو مبارکباد بھی دی تو شیعہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ حدیثِ قرطاس کی بنیاد پر حضرت عمر کی بھرپور مخالفت بھی کریں۔ پروفیسر حمیداللہ سنی اسلامی دنیا کے بہت بڑے اسکالر تھے جس نے ایک پوری کتاب لکھ کر ” حدیث قرطاس” کی صحت پر مقدور بھر جان چھڑانے کیلئے بہت سے سوالات بھی اٹھائے لیکن وہ اس میں بالکل ہی ناکام ہوگئے۔ جھوٹ اور وکالت کا غلط طریقہ اہل سنت کو مزید مشکلات میں پھنسادیتا ہے۔
بہت سارے معاملات میں حنفی مسلک کے اصولِ فقہ میں احادیث صحیحہ کی بھی مخالفت ہے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے اقدامات کی بھی مخالفت ہے۔ اے کہ نشناسی خفی را،از جلی ہشیار باش ، اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش۔اقبالکی شاعری بھی امت کے کام اسلئے نہیں آئی کہ شیعان علی اور شیعانِ عمرنے اپنا اپنا گروہ بنالیا۔ سپاہ صحابہ سے پہلے مولانا سید عبدالمجید ندیم نے سپاہ فاروق اعظم کی تشکیل کی تھی۔ شاہ بلیغ الدین اور ناصبی علماء شیعہ کے مقابلے میں سپورٹ کیا جانے لگا تھا۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی انجمن سپاہ صحابہ کا تعلق جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن سے تھا لیکن ان کی شہادت کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے آئی ایس آئی نے مولانا ایثارالحق قاسمی کو نوازشریف اور جھنگ سے بیگم عابدہ حسین شیعہ رہنما کے اتحاد سے جھنگ کی سیٹ سے جتوایا۔ وزیراعظم عمران خان کی ایک کلپ سوشل میڈیا پر ہے جس میں وہARYکے کاشف عباسی سے کہتا ہے کہ ”سپاہ صحابہ کے لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہماری شیعہ سے صلح کروادو۔ آئی ایس آئی نے ہمیں ان سے لڑواکر دشمنی کروائی ہے”۔
جب اسلامی جمہوری اتحاد آئی ایس آئی نے بنائی تھی تو جھنگ سے شیعہ اور سپاہ صحابہ اتحاد کے بانی کون ہوئے؟۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام مولانا سمیع الحق گروپ پیش پیش تھے جس نے اہل تشیع اور سپاہ صحابہ کے درمیان ایک دوسرے کی تکفیر نہ کرنے کا معاہدہ کروایا تھا۔ معروضی حالات اس قدر گھمبیر تھے کہ جب ضربِ حق کے نمائندے امین اللہ کو قاضی حسین احمد سے کوئٹہ میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ملایا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے اپنے مضمون میں بہت تفصیل کیساتھ اپنا تجزیہ لکھاتھا کہ مولانا مسعو د اظہر کوا نڈیا کے تہاڑ جیل میں جو آزادی تھی تو وہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں بھی حاصل نہیں تھی۔ ہر ہفتہ ضرب مؤمن میں پاکستان کے حالات حاضرہ پر بڑا مضمون چھپتا تھا ۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بھارتی ایجنسی را اورISIکا کھیل نہیں ہوسکتا ہے بلکہ یہ امریکیCIAکا گیم ہے ۔مگر جب قاضی حسین احمد سے نمائندۂ ضرب حق نے سوال پوچھا کہ شیعہ کافر ہیں یا مسلمان ؟ ، تو وہ ناراض ہوگئے کہ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھا۔ یہ اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر کا حال تھا۔ شدت پسند شیعہ اور سنی طبقے کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہے لیکن خلوص ، ایمان اور اللہ کی مدد سے یہ بہت آسان بھی ہے۔ اس کا علاج بندوق نہیں دلیل ہے۔

شیعہ سنی اتحاد کیلئے لاجواب دلائل؟ _
اگر یہ ثابت ہوجائے اور اس پر اتفاق ہوجائے کہ حضرت علی کو اپنے بعد نبی ۖنے اپنا ولی بنالیاتھا اورحدیث قرطاس میں حضرت علی ہی کو نامزد کیا جانا تھا تو اگر حدیث قرطاس لکھ دی جاتی اور انصار ومہاجرین نبی ۖ کے وصال فرمانے کے بعد خلافت کے جھگڑے سے بچ جاتے۔ حضرت علی ایک متفقہ مولانا بن کر مسندِ خلافت پر بیٹھ جاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ نبیۖ علم کے شہر اور حضرت علی اس کا دروازہ ہونے کیساتھ ساتھ اقتدار بھی حاصل کرتے۔ حضرت ابوبکرو عمرو عثمان سے انتظام حکومت بھی بہتر چلاتے۔ نبیۖ کو ایک شخص نے زکوٰة دینے سے انکار کیا تو نبیۖ نے اس کے خلاف قتال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے قتال کیا تو حضرت عمر کو شروع میں بھی اس پرتحفظات اور وفات ہونے سے پہلے بھی فرمایا کہ کاش ہم نبیۖ سے اس مسئلے میں رہنمائی حاصل کرتے۔ اہلسنت کے چاروں اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ زکوٰة نہ دینے پر حکمران کا رعایا کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں لیکن نماز کیلئے بعض ائمہ نے قتل کا حکم نکال کر حضرت ابوبکر ہی کا حوالہ دیا ہے جس کا احناف نے یہ جواب دیا کہ اس سے تو آپ کو بھی اتفاق نہیں ہے تو پھر اس کی بنیاد پر بے نمازیوں کو قتل کرنے کا قیاس بھی غلط ہے۔
ا س بحث کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جب نبیۖ سے ایک عورت نے مذہبی مسئلے پر اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے عورت کی بات ہی کو اسلام کا حکم قرار دیا تھا۔ اگر بالفرض حضرت علی اور باقی گیارہ ائمہ اہلبیت نے کوئی حکم جاری کیا ہوتا اور وحی کا سلسلہ بھی بند تھا تو کسی امام سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تو اس کا درجہ کیا نبی ۖسے بھی بڑا تھا؟۔ اور اگر اختلاف کرنا جائز ہوتا تو پھر وحی کے ذریعے رہنمائی بھی نہیں تھی۔ پھر ایک ایسی مذہبی ڈکٹیٹر شپ کا خطرہ ہوتا جس کے ہاتھ میں اقتدار بھی ہوتا۔ پھر مجھے لگتا ہے کہ اہل تشیع کا بارہواں امام غائب اپنے مخالفین سے نہیں حامیوں سے غائب ہوجاتا۔ آج بھی اہل تشیع کا عقیدہ اور مذہبی رویہ اسلام کے مطابق درست ہوجائے تو مہدی غائب ایران میں منظر عام پر آسکتے ہیں۔ اگر حضرت خضر حضرت موسیٰ کے دور سے زندہ ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی اپنے وقت سے زندہ ہیں تو امت محمدیہ میں یہ شخصیت بھی زندہ ہو تو اس میں عقیدے پر کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اگر مذہبی اور سیاسی کرسی الگ الگ نہ ہوتی تو عباسی دور میں امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام جعفر صادق بھی اپنے مسلکوں کے امام کیسے بن سکتے تھے؟۔ شیعہ مسلک بھی اپنے آگے پیچھے کے اماموں کو چھوڑ کر فقہ جعفریہ اسی لئے کہلاتا ہے۔ اہل سنت اورشیعہ کے امام حسن نے قربانی دیکر اپنے اقتدار کو امیرمعاویہ کے حوالے کردیا تو شیعہ کلمہ و آذان بھی انکے پہلے امام علی کی ولایت تک محدود ہوگئی ۔ حضرت حسین کی شہادت کے بعد باقی ائمہ اہل بیت نے کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کیا کہ اپنے آپکو یا اپنے شیعوں کو لوگوں کے جذبہ اشتعال سے مروادیا ہو تو آج کے شیعہ کیلئے بھی ایسا ماحول پیدا کرنا جائز نہیں کہ اپنے لوگوں کو مروانے کیلئے دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کریں۔ جب وہ اپنے اماموں کے خلاف ذرا سی بے توقیری اور توہین آمیزی کو برداشت کرنا گوارا نہیں کرسکتے ہیں تو دوسروں سے بھی یہ توقع رکھنا چھوڑ دیں کہ وہ کسی صحابی کی توہین کو برداشت کرلیںگے۔ جب شیعہ یزید سے حضرت ابوبکر وعمر تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کی شان میں بھی گستاخی کرنا ٹھیک سمجھنے لگتے ہیں تو اس کے مقابلے میں سنیوں کا شدت پسند طبقہ بھی ان کو ٹھکانے لگانا اپنا فرض اور دینی غیرت سمجھتے ہیں۔ سعودیہ ، ایران اور افغانستان میں مذہبی جذبہ اور اقتدار اکٹھے ہوگئے تو اسلام نے نہیں فرقہ واریت نے زور پکڑ لیاہے۔

شیعہ کو برداشت کرنے کا منطقی نتیجہ_
جب اہل تشیع حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان سے اختلاف کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں توانصار کے سردار حضرات سعد بن عبادہنے حضرت خلفائ کے پیچھے کبھی نماز بھی نہیں پڑھی۔ جس طرح انصار ومہاجرین ، حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت ابوبکر وعمر نے خلافت کو اپنا حق سمجھ لیا اور یہ کوئی کفر واسلام کا مسئلہ نہیں تھا تو حضرت علی اور اہل بیت کا اپنے آپ کو خلفاء راشدین، بنوامیہ اور بنوعباس سے خود کو خلافت کا زیادہ حقدار سمجھنے کا بھی بدرجہ اَولی جواز تھا۔ عربی میں اُولیٰ اور اَولیٰ میں فرق ہے۔ اول کی مؤنث اُولی ہے جبکہ اَولی اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور اس کا مطلب مقدم اور غیرمقدم کے معنیٰ میں نکلتا ہے۔ اگر کوئی اسکے معنی سے یہ منطقی نتیجہ نکالتا ہے کہ سورۂ مجادلہ میں عورت کا مجادلہ غلط تھا تو وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھ سکا ہے۔ حضرت علی اور اہل بیت نے خلافت کے مسئلے میں مقدم اور غیرمقدم ہونے کے اعتبار سے ضرور اختلاف کیا تھا لیکن اس کو کفر ونفاق کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔ ورنہ حضرت عمر سے حضرت علی یہ نہیں کہتے کہ آپ جنگ میں خود تشریف نہ لے جائیں اسلئے کہ اگر اس جماعت کو شکست ہوگئی تو آپ مزید کمک بھیج سکیں گے اور اگر آپ خود شریک ہوئے اور شکست ہوگئی تو مشکل پڑے گی۔
اگر شیعہ نہ ہوتے تو اہل سنت کے ائمہ بھی حکمران کیلئے زکوٰة کیلئے قتال کو جائز سمجھتے اور آج سنیوں کا بھی مدرسہ زکوٰة پر نہ چلتا اسلئے کہ اہل اقتدار اس پر اپنا قبضہ کرکے ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ حضرت عمر کے کئی معاملات سے حنفی مسلک والے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ ایک آغا خانی شیعہ کو سنی اور شیعہ نے مل کر پاکستان کا بانی بنایا ہے۔ اگر کوئی شیعہ یا سنی مذہب پرست پاکستان کا بانی ہوتا تو آج ہمارے حالات اس سے بھی بدتر ہوتے۔
رسول اللہۖ نے حدیث قرطاس سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ہمارے لئے مسئلہ آسان بنادیا۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر بھی کوئی زیادہ مسئلے مسائل کھڑے نہیں ہوئے اور حضرت عمر کی نامزدگی بھی قبول کی گئی اور حضرت عثمان کی نامزدگی بھی قبول کی گئی لیکن ان سے اختلاف رکھنا کوئی خلافِ شرع بات نہیں تھی۔ یہی وہ رویہ تھا کہ قرآنی آیت کے مطابق اولی الامر سے اختلاف کرنے کی زبردست گنجائش کی امت میں صلاحیت پیدا ہوگئی تھی اور اس اختلاف کو اللہ تعالیٰ نے حضرت حسین کے ذریعے نمایاں کرکے قیامت تک یزیدیت اور حسینیت کے درمیان ایک بہت واضح فصیل کھڑی کردی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت” میں قرآنی آیت اور احادیث صحیحہ کے ایسے بخئے ادھیڑ دئیے ہیں کہ فرشتے بھی الحفیظ والامان کی صدا آسمانوں سے بلند کرتے ہونگے۔ جب پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے اکثر علماء ومفتیان اور مدارس نے شیعہ کو متفقہ طور پر کافر قرار دیا تو مفتی تقی عثمانی نے سرکاری مرغے کی حیثیت سے اس پر دستخط نہیں کئے۔ جب اس نے اپنے اور اپنے بھائی کیلئے دارالعلوم کراچی میں ذاتی مکانات خریدے تو مفتی رشید احمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ” وقف مال خریدنے اور فروخت کرنے کی شرع میں اجازت نہیں ہے اور یہ بھی شریعت میں جائز نہیں کہ ایک ہی آدمی بیچنے وخریدنے والا ہو”۔ اس پر اپنے استاذ کی تاریخی پٹائی لگائی تھی۔ یہ شکرہے کہ خلافت پر کسی سید کا قبضہ نہیں تھا ورنہ وقف مال کی طرح بہت سارے معاملات پر پتہ نہیں ہے کہ سادات بھی کہاں سے کہاں تک پہنچتے، جیسے آغا خانی سادات پہنچے ہیں۔
اگر سنی اپنے خلفاء اور ائمہ سے اختلاف کرسکتے ہیں تو اس میں شیعہ لوگوں کو برداشت کرنے کا بڑا عمل دخل ہے۔ اب اگر فقہی مسائل میں سنیوں کی غلطی بھی ثابت ہوجائے تو مسئلہ نہیں لیکن شیعہ کی غلطی ثابت ہوگئی تو وہ مٹ جائیں گے۔

داعش اور کالعدم سپاہ صحابہ کیلئے راہ!_
داعش دنیا میں خلافت کا نفاذ اور لشکر جھنگوی والے اہل تشیع کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے مقاصد میں تشدد کے ذریعے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ خلافت کا نفاذ اور اہل تشیع کو راہِ راست پر لانا تشدد نہیں دلائل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ طالبان، ایران اور پاکستان داعش اور لشکر جھنگوی کو ختم کرنے پر متفق نظر آتے ہیں۔ شدت پسندانہ نظریات کسی کے پیدا کرنے سے نہیں بلکہ یہ فرقہ وارانہ مزاج کے لوگوں میں اس کی آبیاری کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔
امریکیCIAنے9/11کا واقعہ اسلئے ہونے دیا کہ جس عراق کو1990ء میں بمباری سے مسخر نہیں کیا جاسکا تھا وہ افغانستان میں طالبان کے بعد یہاں تک پہنچادیا گیا کہ عراق کے سنی کردجج نے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا تھا۔ پھر لیبیا میں قذافی کو بھی اپنوں کے ہاتھ شکست دیکر انجام تک پہنچایا امریکہ نے تیل کے ذخائز پر قبضہ کرکے پاکستان کے حکمرانوں کا ضمیر بھی ختم کیا تھا۔ پرویزمشرف کے ریفرنڈم کیلئے عمران خان بندر کی طرح اپنی دُم اٹھاکر جس امپائر کے ڈنڈے پر ناچتاتھا ،اس وقت تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری معراج محمد خان ریفرینڈم کی مخالفت کررہاتھا۔ ایسا لیڈر خاک کوئی جماعت یا ادارے بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہماری عوام اور ادارے بھی بہت سیدھے ہیں۔
داعش اور لشکر جھنگوی کے کارکن اور رہنما اپنی جانیں ضائع کرنے اور ملک و قوم کی تباہی کا ذریعہ بننے کے بجائے تشدد کے روئیے سے کھل کر دستبرداری ہی کا اعلان کریں۔ اہل تشیع کے شدت پسند طبقات بھی اپنے دلائل شائستہ طریقے سے پیش کریں تاکہ اس خطے میں ہماری ریاست اور حکومت کو اپنی طرف سے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ طالبان کو اقتدار مل گیا ہے لیکن وہ اپنی اس فتح پر بھی پریشان ہیں۔ ملک وقوم کو چلانے کیلئے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔
ہمارے پاکستان کے حکمرانوں اور مقتدر طبقے نے ابھی تک دنیا اور اپنی عوام کے سامنے یہ واضح نہیں کیا کہ انہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے امریکہ اور نیٹو کا ساتھ دیکر قربانیاں دی ہیں یا پھر امریکہ کوبڑی شکست دلوائی ہے؟۔ یہ کنفیوژن طالبان رہنماؤں سے لیکر ہمارے مولانا فضل الرحمن تک سب میں پائی جاتی ہے ۔ امریکی فوج کا بہت کم نقصان ہوا اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑاہے۔کابل کی فتح پر ایگریمنٹ کے مطابق امریکہ اور طالبان نے عمل کیا تھا لیکن پنجشیر کو بہانہ بنایا جارہاہے۔ سارے افغانستان میں نیٹو کے ہوتے ہوئے طالبان کو فتح مل گئی تو پنجشیر کا فتح کرنا بھی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
عمران خان نے فوج کی مخالفت کرنے کے بعد امپائر کی انگلی اٹھنے کا ذکر کیا اور پھر اس پر چڑھ گیا۔ نوازشریف اور پیپلزپارٹی بھی اسی امپائر کی انگلی ہی کے خمیر سے وجود میں آئے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے میثاق مدینہ کا معاہدہ یہود اور نصاریٰ سے کیا تھا اور مشرکینِ مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا لیکن جس لشکر کی طرف سے قریشِ مکہ کے مشرکین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ بھی تعریف کے قابل تھا۔ پھر جب مشرکینِ مکہ نے ان کے شر سے بچنے کیلئے نبیۖ سے گزارش کی کہ اپنے ان مسلمانوں کو اپنے پاس بلوائیں تو نبیۖ نے ان کو بلالیا تھا۔ میثاق مدینہ داخلی اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ امورخارجہ کے حوالے سے تھا۔
داعش اور لشکر جھنگوی سمیت تمام شدت پسند طبقات کو چاہیے کہ قرآن اور سنت کے مطابق عالمی اسلامی خلافت کیلئے امور کی نشاندہی کریں کہ جن سے حکمرانوں کی طرف سے اپنی رعایا عوام اور خواتین کو بھرپور انصاف اور حقوق مل جائیں۔ پھر دنیا کی تمام اسلام اور مسلمان دشمن قوتیں گرم جوش دوست کی طرح حمایتی بن جائیں گی۔ اسلام نے بہت کم جانی نقصان پر انقلاب برپا کیا تھا۔

نکاح ومتعہ اور اسلام کاروح رواں_
جب ہماری صحیح بخاری میں ایک طرف یہ حدیث ہو کہ ” فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا گیا تھا”۔ اور دوسری طرف یہ حدیث ہو کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”ایک دو چادر یا معمولی چیز کے بدلے بھی متعہ کرسکتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ ان چیزوں کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو ، جس کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔ تو دونوں روایات میں زیادہ جان کس میں ہے؟۔ جبکہ پہلی روایت حضرت علی کا قول اور دوسری روایت نبیۖ کی طرف منسوب ہے اور اس میں پھر قرآن کی آیت کا بھی نبیۖ نے حوالہ دے دیا ہے۔ پہلی روایت ہے کہ فتح خیبر تک نبیۖ اور صحابہ العیاذ باللہ گدھے کھایا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن میں گدھے، گھوڑے اور خچر کو سواری اور زینت کیلئے بنانے کی وضاحت ہے ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عرب پہلے بھی ہماری ہی طرح ان کو کھانے کی چیزنہیں سمجھتے تھے بلکہ سواری کے کام میں لاتے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کو جائز قرار دے دیا۔ تو کیا فتح خیبر کے موقع پر حرام قرار دینے کے بعد اس کی اجازت دی جاسکتی تھی ؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبیۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ابتدائی دور تک ہم عورتوں سے متعہ کرتے تھے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف میں قرآنی آیت میں وقتی نکاح یعنی متعہ کی اجازت کا اضافہ بھی تھا جو احناف کے نزدیک قرآنی آیت کے حکم میں ہے۔ شیعہ سنی علماء اگر ڈاکٹر فضا کی موجودگی میں بول نیوز کے پروگرام میں ان باتوں کی وضاحت کردیتے تو عوام میں بہت زیادہ شعور پیدا ہوتا۔ قرآنی آیات میں نکاح کیساتھ ایگریمنٹ کا بھی ذکر ہے اور ان آیات کی درست تشریح سے شیعہ سنی میں ایک انقلاب آسکتا ہے۔
آدم کے جسم میں روح کی نسبت اللہ نے اپنی طرف کی۔ سورۂ اسراء میں فرمایاکہ ” آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ روح اللہ کے امور میں سے ہے اور اس کا علم تمہیں نہیں دیا گیا مگر بہت کم ”۔ روح اللہ کے عام امور میں سے ایک قدرتی امر ہے، انڈے کو مطلوبہ گرمائش جب فراہم ہو جائے تو چوزہ بننا شروع ہوجاتا ہے، اسی طرح گندم کا بیج جب مٹی میں رکھ کر اس کو پانی دیا جائے تو اس میں روح آجاتی ہے۔ فارمی جانور، پرندے اور پھل پودوں میں جو انقلاب آیا ہے یہ اللہ کی تخلیق کی ادنیٰ جھلک ہے۔ حضرت عیسیٰ و حضرت آدم کی پیدائش میں قدرت کے عام قاعدے سے ہٹ کر اللہ نے روح پھونک دی اسلئے ان کی نسبت اپنی طرف کردی ہے۔ انسان کائنات کا روح رواں ہے اور روز کی نت نئی ترقی سے اس کا مزید ثبوت مل رہاہے۔
اسلامی احکام کی اصل صورتحال سامنے آجائے تو شیعہ سنی ، بریلوی دیوبندی اور حنفی اور اہل حدیث اپنے اپنے فرقوں اور مسلکوں کو بھول کر اسلام کی طرف ہی متوجہ ہوںگے۔ اسلام کا اصل روح رواں قرآن ہے اور قرآنی احکام کو مسلمان چھوڑ کر فرقہ واریت کی دلدل میں پھنس گیا ہے۔
قرآن و سنت میں نکاح و طلاق ، حق مہر ، رجوع، خلع اور ایگریمنٹ کے جن تصورات کا ذکر ہے اگر آیات سے موٹے موٹے احکام نکال کر دنیا کو دکھائے جائیں تو پوری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام کو قبول کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گی۔ اہل سنت اپنے ائمہ کی اجتہادی غلطیوں کو درست کردیں گے اور اہل تشیع اپنے ائمہ معصومین کی طرف منسوب قرآن و سنت کے واضح احکام کے خلاف اپنا غلط مسلک دیکھ کر دم بخود رہ جائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ مذہبی طبقات نے اب اسلام کو اپنی تجارت اور تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ اللہ ہدایت دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حلالہ کی لعنت کے تحت صحافی محمد مالک کا پروگرام "ہم نیوز” پر خوش آئند ہے۔ علامہ طاہر اشرفی، قبلہ ایاز اور ڈاکٹر راغب نعیمی نے صوفیانہ جاہلیت سے کام لیا

صحافی محمد مالک کا ”ہم نیوز” پر حلالہ کی لعنت میںپروگرام خوش آئند ہے، حلالہ سینٹرز سے زیادہ بڑا کردار دیوبندی بریلوی حنفی معروف مدارس کا ہے۔علامہ طاہر اشرفی ، قبلہ ایاز اور ڈاکٹرراغب نعیمی نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیکر لعنت کے اصل ذمہ دار کرداروں کے چہرے سے نقاب نہیں اُٹھایا ہے۔ آئیے، دیکھئے، سمجھئے! اسلام کے نام پر خواتین کی عزت کو تار تار کرنے والوںکا محاسبہ کیجئے،ورنہ کل اس کربِ عظیم کے شکار آپ بھی ہوسکتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حنفی مسلک کے امام ابن ہمام اورعلامہ بدر الدین عینی نے اپنے نامعلوم مشائخ کی طرف یہ منسوب کیا ہے کہ” حلالہ میں نیت دوخاندانوں کے ملانے کی ہو تویہ کارِ ثواب بھی ہے”۔ کیا”حلالہ” سینٹروں کیلئے لعنت اوراپنے حنفی مدارس کیلئے کارِ ثواب ہے؟

_ ذہنی پسماندگی کی انتہاء ا ور پاکستان ؟_
آج سے 70سال پہلے پاکستان اور نیویارک کا کیا حال تھا؟۔ دنیا نے جو ترقی70 سالوں میں کی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ چین، جاپان،فرانس اور پاکستان کہاں سے کہاں پہنچے؟۔ گدھوں پر سفر کرنے والے قیمتی گاڑیوں تک پہنچ گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن نے تسخیرکائنات کا جو نظریہ دیا تھا اس میں پہلے دور میں مسلم سائنسدانوں کا بہت بڑا حصہ تھا لیکن مسلمان حکمرانوں نے جدید تعلیم کو عام کرنے کی جگہ اپنے محل سراؤں میں لونڈیوں اور تعمیرات میں تاج محل بنانے کو ترجیح دی اور سائنسی ترقی میں اپنا کوئی حصہ نہیں ڈالا۔ پاکستان نے پھر بھی اچھا کیا کہ ایٹم بم ، میزائل اور جدید ہتھیاروں میں اپنے سے کئی گنا بھارت کے مقابلے میں اپنی ایک حیثیت بنالی ہے۔ حالانکہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا راستہ پانی کے بہاؤ سے فائدہ اٹھاکر سستی بجلی اور زراعت کے شعبے میں ترقی تھی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ صاف پانی کو بھی آلودہ کردیا ہے۔ دریاؤں کے صاف پانی میں گٹر اور کارخانوں کیمیکل چھوڑرہے ہیںاور زیرزمین پانی کے ذخائر بھی انتہائی آلودہ کرکے اپنے ظاہر اور باطن تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہمارے پاس گرمی وسردی سے تحفظ کیلئے وافر مقدار میں سستی بجلی ہونی چاہیے تھی لیکن ائیرکنڈیشن تو دور کی بات ہے پنکھے اور لائٹ سے بھی پاکستان کے اکثر علاقے محروم ہیں۔اس کا ذمہ دار کوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ سول وملٹری بیوروکریسی اور سیاستدان سارامقتدرطبقہ ہے۔
صاف پانی سے گٹر لائن کو جدا کرکے پاکستان کے صحراؤں اور بنجر علاقوں میںبڑے پیمانے پر جنگلات اور باغات اُگائے جاسکتے ہیں۔ سستی بجلی سے اپنی تقدیر بدل سکتی ہے لیکن ہمارا اشرافیہ بیرون ملک سے سودی قرضے لیکر اپنااثاثہ باہر ممالک میں منتقل کرکے اپنے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ چکا ۔ درخت اُگانا تو بہت دور کی بات ہے ،ہم اپنے جنگلات سے بھی اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

مذہبی پسماندگی کی انتہاء اور علمائ؟
ایک لڑکی کو حال میں طلاق ہوئی۔ علماء نے حلالہ کی لعنت کا فتویٰ دیاتو اس نے حلالہ کے تصور پر خودکشی کرلی۔ محمد مالک نے اہم موضوع ترک کیا اور حلالہ پر پروگرام کیا۔ قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا طاہر اشرفی اور مفتی راغب نعیمی نے حلالہ سینٹروں کی مخالفت کی۔ علامہ امین شہیدی نے اہلبیت اور صحابہ کے مسلک میں فرق بتایاکہ ہمیں کبھی اس مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ جبکہ اہل حدیث کے نزدیک بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع نہیں ہوتی ہیں
قرآن و سنت اور فقہ واصولِ فقہ کی رُو سے مسائل کا حل انتہائی آسان ہے لیکن جب مسائل کے حل کی جگہ پیچیدگی پیدا کرنے کی تقلید کی جائے تو اس مذہبی بیماری کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟۔ مسلک حنفی کی فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ ” اگر نکسیر پھوٹ جائے (ناک سے خون نکلے) تو اس خون سے پیشانی پر سورۂ فاتحہ لکھنا جائز ہے اور اگر پیشاب سے سورۂ فاتحہ لکھا جائے تو بھی جائز ہے”۔ آج کل مساجد میں بڑے علماء ومفتیان نے روحانی علاج کے نام پر خواتین کا علاج شروع کررکھا ہے۔ کسی خوبصورت دوشیزہ یا خاتون کو اپنے جال میں پھانسنے کیلئے کوئی علامہ صاحب یہ تجویز پیش کرے کہ خون یا پیشاب سے سورۂ فاتحہ کوپیشانی پر لکھا جائے تو اس کا علاج ہوجائے گا ؟۔ تو سیدھا سادا مسلمان اپنی مشکلات کے ہر حل کیلئے علماء کے ایمان واسلام پر اعتماد کرے گا۔
اکبر بادشاہ کی بیٹی کا واقعہ مشہور ہے کہ گال پر بچھو نے ڈنگ مارا تو اسکے ہندو بیربل نے چوسنا شروع کیا کہ میں نے زہر نکالا۔ ملادوپیازہ نے پیشاب پر چیخنا شروع کردیا کہ بچھو نے ڈنک مارا ۔ چنانچہ بیربل کو اس کو بھی چوسنا پڑگیا تھا۔ ادنیٰ ایمان والے کو بھی یہ یقین نہیں ہوسکتا کہ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھ کر علاج ہوگا؟۔ اسی طرح غیرتمند عورت خود کشی تو کرسکتی ہے لیکن حلالہ کی سزا پانے کے بعد اپنے شوہر کیلئے حلال ہونے کا تصور نہیں کرسکتی ہے اور یہی واقعہ ہوگیا۔

قرآن کی بے حرمتی اور مفتی؟
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب تکملہ فتح الملہم شرح مسلم اور فقہی مقالات میں صاحب ہدایہ کی کتاب کا حوالہ دیا کہ ” سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے” لیکن جب ہم نے عوام کو آگاہ کیا اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑاتو روزنامہ اسلام اور ہفت روزہ ضربِ مؤمن میں اپنی دونوں کتابوں سے یہ مسائل نکالنے کا اعلان کردیا۔ پھر وزیراعظم عمران خان کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کیاہے۔
اصولِ فقہ میں قرآن کی تعریف: المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبة”(جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے، آپۖ سے نقل ہے تواتر کیساتھ بلاشبہ )۔مصاحف میں لکھے سے مراد لکھا ہوا نہیں کیونکہ یہ محض نقوش ہیں۔متواتر کی قید سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جیسے مشہور اور خبر احاد، بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ بسم اللہ کی قرآنیت میں شک ہے”۔
قرآن کی تعریف میں جو کفریہ عقیدہ ہے یہ جہالت، ہٹ دھرمی اور گمراہی ہے۔اگر قرآن تحریری شکل میں اللہ کا کلام نہیں تو سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہوگا؟ یہی وجہ ہے کہ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے مصحف پر حلف لیا جائے تو یہ حلف نہیں۔ حالانکہ الکتاب سے مراد لکھی ہوئی کتاب ہے۔والقلم و ما یسطرون قلم کی قسم اور جو سطروں میں لکھا ہوا قرآن ہے اس کی قسم۔ پہلی وحی میں قلم کے ذریعے انسان کو وہ سکھانے کا ذکر ہے جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اگر قرآن میں متواتر اور غیرمتواتر ہو تو پھر قرآن کے محفوظ ہونے پر ایمان کیسے باقی رہ سکتا ہے؟۔ اگر بسم اللہ کو مشکوک قرار دیا جائے تو پھر قرآن کو ذٰلک الکتاب لاریب فیہ کیسے کہنا درست ہوگا؟۔ جب مولوی قرآن کی تعریف بھی غلط پڑھتا اور پڑھاتا ہے تو اس کی بنیاد پر مسائل کیسے نکالے گا؟۔عربی میں کتابت کی گردان اورقرآنی آیات میں کتاب کی تعریف بھی نہیں سمجھی ہے۔

طلاق کے بعد صلح اوررجوع!
صحابہ سے زیادہ اسلام کو کس نے سمجھا؟۔ حضرت عمر نے اکٹھی 3 طلاق پر 3 کا فیصلہ جاری کیا اور حضرت علی نے حرام کے لفظ پر3 طلاق کا فتویٰ جاری کیا تو یہ قرآن کے عین مطابق تھا۔ اگر شوہر حرام کا لفظ استعمال کر دے یا 3طلاق کہہ دے اور بیوی صلح کیلئے راضی نہ ہو تو قرآن کے واضح احکام کا یہی تقاضہ ہے کہ وہ عورت اس طلاق کے بعدپہلے شوہر کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہرسے نکاح کرلے۔ اگر ایک طلاق کے بعد بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو قرآن کا یہی حکم ہے۔ قرآن میں بھرپور وضاحت ہے مگر جب عورت اس طلاق کے بعد صلح کیلئے راضی ہو تو قرآن نے کسی بھی حلالہ کے بغیر ہی رجوع کی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باربار واضح الفاظ میں اجازت دی ہے۔ قرآن کی وضاحتوں کے باوجود حلالہ کی لعنت کا فتویٰ انتہائی غلط ہے۔
پاکستان کے علماء و مفتیان اور افغانستان کے طالبان اپنے مسلک حنفی کے مطابق سب سے پہلے اپنی خواتین کو حلالہ کی لعنت سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں تو اس سے اسلام کی نشاة ثانیہ اور عورت کے حقوق کا وہ آغاز ہوجائیگاکہ ہندوستان کے مسلمان ، ہندو اور سکھ بھی اس کا خیرمقدم کریں گے۔ حلالہ کے نام سے غلط فتوؤں اور حلالہ سینٹروں سے اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کا بدترین استحصال ہورہاہے۔ جس میں کسی قسم کا کوئی دنیاوی مفاد یا غیرت کا بھی مسئلہ نہیں ہے بلکہ مفادات کے خلاف اور انتہائی بے غیرتی کی بات ہے ۔ ہم نے ہر پہلو سے سیر حاصل بحث کرکے مسئلہ انتہائی آسان طریقے سے قابلِ قبول بنادیا جو ہمارا کمال قطعی طور پر نہیں بلکہ قرآن کی وضاحتوں کا کمال ہے۔ صرف توجہ ہو تو پھرشعور وآگہی کی ہوائیں چلیں گی۔ قرآن میں بار بار باہمی رضا سے رجوع کی وضاحت ہے اور باہمی رضا کے بغیر رجوع کی اجازت نہ ہونے کی وضاحت ہے۔رجوع کی علت 3طلاق نہیں ہے بلکہ باہمی رضامندی ہے۔ بقیہ صفحہ 2پر

اگر خواتین کو افغانستان میں اسلام کے مطابق آزادی اور تحفظ دیا گیا تو ان کی ویزوں کی مَد میں اچھی خاصی آمدن ہوسکتی ہے۔ طالبان ایران سے سستا تیل ، بھارت سے سستی دوائیاں اور پاکستان کے مزارعین سے سستی اناج لیں اور ان کے ساتھ تعاون ہو تو پھر اس خطے میں امن کی زنجیر اور خودمختاری کی تصویر بن سکتے ہیں۔ دوبئی ، سعودیہ اور مصر کا مولوی اپنی ریاستی پالیسی کا پابند ہوتا ہے۔ جو عورت سعودی عرب میں برقعہ کے بغیر نہیں گھوم سکتی وہ دبئی میں سمندر کے کنارے ننگی ہوسکتی ہے۔ جنوبی وزیرستان کانیگرم کی ندی اور شمالی وزیرستان درپہ خیل کی مسجد میں جوان بوڑھے ننگے نہاتے تھے۔ لیکن مولوی کو رسم و رواج اور ریاست کے خلاف بولنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

طلاق کے مقدمے میںبھی غلطیاں
سورۂ بقرہ کے دو رکوع میں طلاق اور اس سے رجوع کا تفصیلی ذکرہے۔
ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذًی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولا تقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فأتوھن حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرینO البقرہ222
” اور تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ یجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس عورتوں سے حیض میں علیحدگی اختیار کرو ،حتی ٰکہ وہ پاک ہوجائیں اور جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ، جیسے اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے”۔
حیض میں عورت کو تکلیف ہوتی ہے اور ناپاکی بھی۔ آیت کے شروع و آخر میں دونوں باتیں واضح ہیں۔ تکلیف سے توبہ اور گند سے پاکیزگی والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ اللہ نے حیض کو قذر ( گند) نہیں اذًی قراردیا۔ جس سے طلاق و عدت کے مسئلے میں عورت کی تکلیف کو پہلے نمبر پر رکھ دیا ہے۔ آنے والی آیات میں طلاق کے حوالے سے خواتین کو جن اذیتوں کا سامنا ہے ،ان کا حل ہے۔
نسائکم حرث لکم ……….ترجمہ:” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ، پس تم اپنے اثاثے کے پاس جیسے چاہو ،آؤ۔اور اپنے لئے آگے بھیجو( دنیا و آخرت کے مستقبل کو سنوارو) اور اللہ سے ڈرو،اور جان لو! بیشک تم نے اس سے ملنا ہے اور ایمان والوں کو بشارت دو”۔ (آیت223، سورةالبقرہ)
عربی میں حرث کھیتی کو بھی کہتے ہیں اور اثاثہ کو بھی۔ عناصر کی جو صفات ہیں وہ بھی اثاثہ کہلاتی ہیں۔ میٹر اور پراپٹیزکا یہ تعلق ایکدوسرے کیساتھ لازم وملزوم ہوتا ہے۔ جب کوئی استاذ اپنے شاگرد یا باپ اپنے بیٹے کو اپنا اثاثہ یا ایسٹ قرار دیتا ہے تو یہ بہت زیادہ اعزاز کی بات ہوتی ہے۔اگر میرے مدارس کے اساتذہ کرام مجھے اپنا اثاثہ یا ایسٹ قرار دیںگے یا میرا ملک پاکستان یا میرا وزیرستان مجھے اپنا اثاثہ قرار دے گا تو یہ میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہوگی لیکن اگر مجھے اپنی کھیتی ، گاجر اور مولی قرار دینگے تو میرے لئے اذیت کا باعث ہوگا۔ جب اپنی عورت کوکھیتی کے بجائے اپنا اثاثہ قرار دیا جائیگا تو عزت افزائی ہوگی۔
علماء نے نہ صرف عورت کو کھیتی قرار دیا بلکہ اس مسئلے پر دو متضاد قسم کی بہت ساری احادیث بھی درج کردیں کہ عورت کیساتھ لواطت جائز ہے یا نہیںہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر اور امام مالک کی طرف یہ منسوب ہے کہ اس آیت سے وہ نہ صرف عورت کیساتھ لواطت کو جائز سمجھتے تھے بلکہ آیت کے شان نزول کو یہ سمجھتے تھے کہ عورت کیساتھ لواطت کے جواز کیلئے نازل ہوئی ہے۔جس کا ذکر بہت سی کتابوں میں صراحت کیساتھ ہے اور صحیح بخاری میں بھی اس کا حوالہ موجود ہے۔ دوسری طرف حضرت علی اور امام ابوحنیفہ کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ اس عمل کو حرام اور کفر سمجھتے تھے اور اس کیلئے احادیث کے ذخیرے میں مواد بھی ہے۔

مقدمہ ٔ طلاق کی غلطی اور اسکے نتائج
اگر آیت 222میں اذیت سے گند کے بجائے تکلیف مراد لیتے تو پھر تضادات اور اختلافات کی ضرورت نہ ہوتی۔ ایک ایرانی نژاد امریکن خاتون کی کتاب میں یہ واقعہ موجود ہے کہ ایران میں ایک شخص نے کسی خاتون سے شادی کرلی اور وہ لواطت کرتا تھا جس کی وجہ سے عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی اور پھر عورت نے خلع کا مطالبہ کیالیکن شوہر خلع پر راضی نہیں تھا۔ آخر کار عورت کو حق مہر سے زیادہ رقم دیکر اپنے شوہر سے خلع کے نام پر جان چھڑانی پڑی تھی۔ کیا علماء ومفتیان کے نزدیک قرآن وسنت کے مطابق خلع کا یہ غلط تصور صحیح ہے؟۔
ولاتجعلوااللہ عرضة لایمانکم…….” اور اللہ کو مت بناؤ اپنی ڈھال اپنے عہدوپیمان کیلئے کہ تم نیکی کرو، پرہیزگاری اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ۔اور اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ آیت224: سورةالبقرہ)
ایمان یمین کی جمع ہے۔ یمین دائیں کو کہتے ہیں۔ دائیاں ہاتھ ملاکر عہد کیا جاتا ہے اور اس سے عہدوپیمان، قسم اور بیوی کو طلاق اور لونڈی کو آزاد کرنا وغیرہ سب مراد ہوسکتا ہے لیکن یہاں پر طلاق اور بیوی سے علیحدگی کے الفاظ مراد ہیں اور یہ آیت طلاق کیلئے بہت بڑا بنیادی مقدمہ ہے۔ میاں بیوی میں جدائی کے الفاظ کے بعد ان کو حلالہ کے بغیر ملانانیکی ، تقویٰ اور سب سے بڑھ کرصلح ہے۔ قدیم دور سے یہ روایت رہی ہے کہ محض الفاظ کی بنیاد پر مذہبی طبقات اللہ کو بنیاد بناکر میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتے رہے ہیں اور اسی رسم ورواج اور مذہبی فتوے کو ختم کرنے کیلئے قرآن کی ان آیات میںیہ وضاحت کی گئی ہے کہ ” مذہبی طبقے اللہ تعالیٰ کو ڈھال بناکر کسی کے عہدوپیمان اور طلاق صریح وکنایہ کے الفاظ بناکر عوام خاص طور پرمیاں بیوی میں صلح کرانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کریں”۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی صورت نہیں رکھی ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور اللہ نے ان میں رکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی لفظ ڈالا ہو۔ اگر یہ ثابت ہوجائے تو پھر قرآن میں یہ بہت بڑا تضاد ہوگا۔ قرآن میں مخالفین کی خبر تھی کہ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو پھر اس میں بہت سارا اختلاف (تضاد) وہ پاتے”۔
لایؤاخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم ……….”اور اللہ تمہیں لغو عہدو پیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر تمہیں پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔ سورۂ بقرہ کی اس آیت 225کو سیاق وسباق کیساتھ دیکھا جائے تو اس سے مراد یہی ہے کہ طلاق کے صریح وکنایہ کے تمام الفاظ میں لغو الفاظ پر اللہ نہیں پکڑتا ہے مگر وہ دلوں کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ اس آیت سے طلاق کا موضوع نکال کر قسم پر بحث کی گئی ہے ۔جس میں فقہی تضادات ہیں۔ حالانکہ سورۂ مائدہ میں ہے کہ ذٰلک کفارة ایمانکم اذاحلفتم ”یہ تمہارے عہدوںکا کفارہ اس وقت ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یمین عہدوپیمان کو بھی کہتے ہیں اور قسم کو بھی۔ جہاں یمین سے مراد حلف ہوگا تو وہاں پختہ قسم کھانے پر اس کا کفارہ بھی دینا ہوگا۔ سورۂ بقرہ کی ان آیات میں یمین سے مراد حلف نہیں ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ طلاق ، عتاق(لونڈی یا غلام کو آزاد کرنا) ، رجعت (طلاق سے رجوع) سنجیدگی میں بھی معتبر ہے اور مذاق میں بھی معتبر ہے۔ جب شوہر طلاق دے لیکن دل کا ارادہ نہ ہو تو پھر فیصلہ قرآن کے مطابق ہوگا یا حدیث کے مطابق؟۔ قرآنی آیت اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ۔ مذاق یاسنجیدگی سے شوہر نے لغو طلاق دی ،اگر عورت راضی ہے تو اللہ نہیں پکڑتا اور اگر عورت راضی نہیں ہے تو وہ طلاق کے لغو لفظ پر بھی پکڑ سکتی ہے۔ طلاق میں شوہر کو مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور خلع میں عورت کو طلاق کے مقابلے میں کچھ مالی حقوق سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ قرآن کی اس آیت اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

طلاق کا اظہار نہ کیا تو بھی مسئلہ حل!
ایک بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اگر شوہر طلاق نہیں دیتا ہے مگر اس کی بیوی سے ناراضگی رہتی ہے تو بیگم کو کتنی مدت تک اس انتظار کی مدت گزارنی پڑے گی؟۔ کیونکہ طلاق کے عزم کا اظہار شوہر نے نہیں کیا ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مسئلے کو سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر حل کردیا ہے تاکہ عورت کو اذیت سے بچایا جاسکے۔ اگر علماء وفقہاء اس مسئلے کے حل کی طرف توجہ دیتے تو سرخروہوجاتے۔
للذین یؤلون من نساء ھم تربص………” جو لوگ اپنی بیگمات سے لا تعلقی اختیار کرلیں تو ان کیلئے انتظار ہے چار مہینے کا۔ پس اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے” ۔ (سورۂ البقرہ آیت226) یہاں ایک بات یہ اچھی طرح واضح ہے کہ ناراضگی کی صورت میں عورت کی عدت 4ماہ ہے اور دوسرا یہ کہ ناراضگی کے بعد صرف مرد کا راضی ہونا ضروری نہیں بلکہ عورت کا راضی ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر عورت راضی نہیں تو چار ماہ کی عدت کے بعد وہ دوسرے شوہر سے شادی کرسکتی ہے۔ اگر شوہر کو ناراضگی اور پھر یکطرفہ طور سے چار ماہ میں راضی ہونے کا اختیار دیا جائے تو یہ عورت کیساتھ بہت بڑا ظلم اور اللہ تعالیٰ کا ظالمانہ قانون ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت دینے کیلئے یہ آیت نازل نہیں کی ہے بلکہ اذیت سے اس کی جان چھڑانے کیلئے یہ حکم نازل کیا ہے۔
امام ابوحنیفہ کے نزدیک جب چار ماہ تک رجوع نہیں ہوا تو پھر وہ عورت طلاق ہوگی لیکن جمہور فقہاء کے نزدیک طلاق کیلئے الفاظ ضروری ہیں، جب تک شوہر طلاق کا لفظ استعمال نہیں کرے گا تو وہ عورت زندگی بھر نکاح میں رہے گی۔ ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آیت ایک ہے مگر اس کا نتیجہ بالکل مختلف اور متضاد نکالا گیا ہے، تو کیوں؟۔اس کاجواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے عورت کا حق اور اس کی عدت کوہی واضح کردیا تھا لیکن فقہاء نے عورت کو نظر انداز کرکے اختلاف وتضاد اسلئے پیدا کیا کہ حنفی کہتے ہیں کہ چار ماہ تک شوہر نہیں گیا تو اس نے اپنا حق استعمال کرلیا اور جمہور ائمہ کہتے ہیں کہ جب تک طلاق کا لفظ نہ کہے تو شوہر نے طلاق کا حق استعمال نہیں کیا۔ اگر عورت کی اذیت کا خیال رکھا جاتا تو پھر یہ تضادات نہ ہوتے۔ جب بیوہ عدت کی تکمیل کے بعدبھی اپنے شوہر سے اپنا تعلق برقرار رکھنا چاہتی ہے تو موت اور قیامت تک اسکا نکاح برقرار رہتا ہے۔ نشانِ حیدر اورستارہ جرأت پانے والے فوجی شہداء جوانوں کی جوان بیگمات اسوقت تک اپنے شوہروں کے نکاح میں ہوتی ہیں جب تک دوسرا نکاح نہ کرلیں اس طرح جس کا شوہر ناراض ہوجائے تو اگر چار ماہ کی عدت مکمل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے شوہروں سے تعلق قائم کرنے پر راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے اور نکاح بھی قائم ہے لیکن اگر عورت اپنا ناطہ توڑ لے تو نکاح باقی نہیں رہتا ہے اور چار ماہ کی عدت کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے اور بہت سارے مسائل کا بہترین حل بھی ہے۔

قرآن سے گھمبیرمسائل کا حل مگر؟
وان عزموا الطلاق ……” اور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو بیشک اللہ سنتا اور جانتا ہے”۔ ( آیت227، سورہ بقرہ)۔
اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتا اور جانتا ہے اور اس پر پکڑبھی ہے لیکن اگر طلاق کا عزم نہیں تھا تو پھر یہ دل کے گناہ کی بات نہیں ،پھر عدت ایک ماہ بڑھنے پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ آیات225،226اور227ایک دوسرے کی زبردست تفسیر ہیں اور ان میں خواتین کے مسائل حل ہوئے ہیں ۔
والمطلقٰت یتربصن بانفسھن ……….” اور طلاق والی اپنے نفسوں کو انتظار میں رکھیں تین ادوار تک اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیںجو اللہ نے انکے رحموں میں پیدا کیا ،اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہیں اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کے حقدار ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہیں اور ان کے حقوق ہیں جیسے ان پر حقوق ہیں معروف طریقے سے اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے ”۔ ( آیت228سورة البقرہ)
جاہلیت میں ایک یہ برائی تھی کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد شوہر حلالہ کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا تھا،دوسری برائی یہ تھی کہ عدت میں شوہر جتنی بار چاہتا تو ایک ایک مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کرسکتا تھا۔ اس آیت کا کمال یہ ہے کہ جتنی بار اور جتنی تعداد میں طلاق دی جائے رجوع کا تعلق صلح اور عدت کیساتھ ہے۔ دس بار طلاق کے بعد بھی عدت میں اس آیت کی وضاحت سے رجوع ہوسکتا ہے ۔
اس آیت میں واضح کیا گیاہے کہ عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح سے یکساں حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے اسلئے کہ مردوں کا طہر وحیض اور عدت کا مسئلہ نہیں۔ اس وجہ سے حق مہر اور دوسرے معاملات میں عورت کو بہت سی رعایتیں حاصل ہیں۔
رسول اللہۖ ، حضرت ابوبکر کے دور میں اور حضرت عمر کے ابتدائی تین سال تک تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ جاری کردیا اور فرمایا کہ جس چیز کی اللہ نے رعایت دی تھی ۔ تم لوگوں نے اس کا غلط فائدہ اٹھایاہے”۔ (حضرت ابن عباس :صحیح مسلم)
حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ کیا تھا اسلئے کہ اگر عورت راضی ہوتی تو حضرت عمر کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہ تھی۔ صحابہ اور تابعین کیلئے قرآن کو سمجھنا مسئلہ نہیں تھا۔ ایک طلاق کے بعد بھی باہمی صلح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں تھی۔ جب شوہر نے تین طلاق کا لفظ کہہ دیا تو عورت ڈٹ گئی۔ جب حضرت عمر کے پاس مسئلہ پہنچا تو قرآن کے مطابق وہی فیصلہ کیا جو آیت میں واضح ہے کہ باہمی صلح واصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔
صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ نے حضرت عمر کے فیصلے کی تائید کی۔ یہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب قرآن کو چھوڑ کر فتویٰ دیا جائیگا کہ باہمی صلح کے باوجودبھی حلالہ کی لعنت کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ حنفی مسلک اور تمام مسالک کے بنیادی اصول کا تقاضہ ہے کہ آیت کے مقابلے میں کوئی ایسی حدیث بھی ہوتی کہ عدت میں تین طلاق کے بعد بھی باہمی اصلاح کے بغیررجوع نہیںہوسکتاہے تو اس حدیث کو یکسر رد کردیا جاتا۔ حلالہ کی لذت نے بڑے بڑوں کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی زحمت پر مجبور نہیں کیا ۔
یہ رکوع ختم ہوا۔ اللہ نے عورت کی اذیت کا لحاظ رکھتے ہوئے جاہلیت کی رسوم کو ختم کیا ۔ناراضگی میں طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں چار ماہ کی عدت ہے اور طلاق کااظہار کرنے کے بعد تین ماہ تک انتظار ہے اور تین طلاق کے بعد بھی باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے اور طلاق کے بعد صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے مگر علماء نے اس رکوع سے اہم ترین مسائل کااستنباط نہیں کیا۔

قرآن میں تضادات بالکل بھی نہیں
پھر دوسرا رکوع شروع ہوتا ہے۔ قرآن میں تضادات نہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ قرآن عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت بھی دے اور پھر دوسری آیت میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق پر عدت ہی کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا دروازہ بند کردے۔ اور نہ ایسا ہوسکتا ہے کہ آیت 228 میں صلح کی شرط کے بغیر رجوع کا حق نہ دے اورآیت229 میں ایک مرتبہ نہیں دومرتبہ طلاق کے بعد بھی اصلاح کی شرط کے بغیر رجوع کا حق دے۔ قرآن میں یہ تضادات دشمن بھی نہیں نکال سکتے تھے لیکن اپنے نالائق مسلمانوں نے قرآن میں تضادات پیدا کرکے اسلام کوبالکل ا جنبی بنادیا ہے۔
الطلاق مرتٰن ………” طلاق دومرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لو۔ مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر وہ قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پرنہیں رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ عورت کی طرف سے اس کو فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں۔ ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ ( آیت 229سورة البقرة)
اس آیت 229کے پہلے حصے کا آیت228 سے یہ ربط ہے کہ طلاق شدہ عورتوں کی عدت کو واضح کیا گیا تھا کہ تین ادوار ہیں۔ یعنی تین طہرو حیض ۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار سے ہے۔ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟، جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ” آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تسریح باحسان تیسری مرتبہ احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری مرتبہ کی طلاق ہے”۔
بخاری کی کتاب الاحکام ، کتاب التفسیر، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار طہرو حیض سے ہے۔ سورة الطلاق کی پہلی آیت میں بھی بہت وضاحت کیساتھ یہ موجود ہے کہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور جب عورت کو حمل ہو تو پھر عدت کے تین مراحل ہیں اور نہ ہی تین مرتبہ طلاق بلکہ وضع حمل تک ایک ہی عدت ہے۔ رجوع کا تعلق بھی بچے کے پیدائش سے متعلق ہوجاتا ہے۔ چاہے 8یا9ماہ ہوں یا3یا4ہفتے، دن ،گھنٹے، منٹ یا سکینڈ۔ عورت کی عدت ختم ہونے کے بعد اس کو دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ البتہ عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے بار بار باہمی رضامندی سے رجوع کی وضاحت کی ہے۔
آیت229کے دوسرے حصے کا تعلق تین مرتبہ طلاق کے بعد کے مرحلہ سے ہے لیکن افسوس کہ اس سے بالکل باطل طورپر خلع مراد لیا گیا ہے اور یہ آیت 230 کیلئے مقدمہ ہے جس کو فقہ حنفی کی اصولِ فقہ میں بھی ثابت کیا گیاہے۔

_ معرکة الآراء مسئلے کا قرآن میں حل _
فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ……. ”پس اگر پھر اس نے طلاق دی تواس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہرسے نکاح کرلے۔ پس اگر اس نے پھر طلاق دی تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ اگر وہ آپس میں رجوع کریں۔ اگر ان کو یہ گمان ہو کہ اللہ کی حدودپر وہ دونوں قائم رہ سکیں گے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے بیان کئے جار ہے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں”۔ (آیت230 سورة البقرہ)
قرآن نے جاہلیت کی ایک ایک باطل رسم کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ شوہروں کی غیرت یہ کبھی گوارا نہیں کرتی ہے کہ اس کی بیگم سے طلاق یا خلع کے بعدکوئی اور شادی کرلے۔ تہمینہ درانی سے مصطفی کھر کی طلاق کے بعد شہباز شریف کی شادی ہوئی تھی تو جنرل مشرف دور میں دونوں کے اس قدیم اورجدید رشتے کو اس وقت پنجاب کے جیالے صحافیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب وہ ایک ساتھ جہاز میں تشریف لائے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے خلع لیکر خاور مانیکا کی بیگم سے شادی کرلی تو بشریٰ بی بی کی اولاد نے بھی اس کا انکار کیا تھا۔ اور کچھ نہیں ہے تو روایتی غیرت کے مقابلے میں عمران خان نے ایک شرعی مسئلے کو معاشرے میں زندہ کرکے مدینے کی ریاست کا آغاز ضرور کردیا۔ عمران خان کا یہ اقدام غیرمعمولی اسلئے نہیں تھاکہ جمائماخان کو بھی آزادی سے جینے کا حق دیا تھا البتہ ریحام خان کیساتھ یہ زیادتی ضرور ہوئی تھی کہ عمران خان سے طلاق کے بعد لندن سے پاکستان آتے وقت قتل کی سنگین دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اور اس کی وجہ PTMوالے یہی بتاسکتے ہیں کہ آخر وہ ایک پٹھان تھی۔
آیت229کے پہلے حصے کا تعلق آیت228کی مزید وضاحت ہے اور آیت229کے آخری حصے کا تعلق آیت230سے ہے۔ بدقسمتی سے اس کو خلع قرار دیا گیا۔ حالانکہ دو،تین بار طلاق کے بعد خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ جب حدیث میں بھی واضح ہے کہ تیسری طلاق کا تعلق طلاق مرتان کے بعد او تسریح باحسان کیساتھ ہے اور آیت230میں فان طلقہا کا تعلق آیت 229کیساتھ کے آخری حصہ فدیہ دینے کیساتھ حنفی مسلک ہے اور علامہ ابن قیم نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اس طلاق کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے تو پھر ان سارے حقائق کو کھاکر کس طرح ہضم کرکے ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کو مسلط کیا جارہاہے ؟۔ حلالہ کی لذت آشناؤں اور اس کو ایک منافع بخش کاروبار بنانے والوں کو سزاؤں کے بغیر روکنا ممکن نہیں لگتا ہے۔
واذاطلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف …….. ”اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور وہ اپنی مدت کو پہنچ گئیں تو ان کومعروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور ان کو ضرر پہنچانے کیلئے مت روکو، تاکہ تم اپنی حد سے تجاوز کرواور جو ایسا کرے گا تو اس نے بیشک اپنے نفس پر ظلم کیا۔اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔اور ملاحظہ کرو جو اللہ نے تم پر نعمت (بیوی)کی ہے اور جو اللہ نے کتاب میں سے (رجوع کے) احکام نازل کئے ہیں۔ اور (جو اللہ نے تمہیں) حکمت ( عقل وسوچ کی صلاحیت)دی ہے ، جس کے ذریعے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ اور ڈرو اللہ سے اور جان لو کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرہ: آیت231)
یہ دوسرا رکوع ختم ہوا۔ باہمی اصلاح سے جس طرح عدت کے اندر رجوع کا حق ہے ،اسی طرح عدت کی تکمیل کے بعد باہمی اصلاح سے اللہ نے رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ نے 230البقرہ میں جس طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی وضاحت فرمائی ہے تو اس سے پہلے بھی اس صورت کا ذکر ہے کہ جس میں بہرصورت جدائی پر سب تلے ہوں۔

حلال نہ ہونے کا ذکر بار بار ہواہے
جب آیت226البقرہ میں واضح ہے کہ ناراضگی کے بعد جب عورت کی رضامندی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پھر شوہرکیلئے وہ حلال نہیں ہے۔ اسی طرح آیت228میں واضح ہے کہ ” اس عدت میں شوہروں کو اصلاح کی شرط پر انکے لوٹانے کا حق ہے”۔جس کا مطلب یہی ہے کہ اصلاح کی شرط کے بغیر شوہروں کیلئے ایک طلاق کے بعد بھی لوٹانا حلال نہیں ہے۔ اسی طرح آیت229میں ہے کہ ” طلاق دومرتبہ ہے۔ پھر معروف کے ساتھ روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ اس آیت میں بھی یہ واضح ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی معروف یعنی اصلاح کی شرط پر روکنا حلال ہے اور صلح و معروف کی شرط کے بغیر دو طلاق کے بعد بھی روکنا حلال نہیں ہے۔ ان آیات میں دماغ کے بند دریچے کھولنے کی ہرسطح پر زبردست وضاحتیں ہیں اور ایک ایک آیت میں ایک ایک طلاق کے بعد یہ واضح ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کیلئے رجوع کرنا قطعی طور پر حلال نہیں ہے۔ آیت230سے پہلے اس صورت کی وضاحت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کا عورت کو دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی واپس کرنا حلال نہ ہو لیکن جب دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ اس چیز کی وجہ سے آپس میں رابطہ ہوسکتا ہے اور اللہ کی حدود پامال ہوسکتے ہیں تو پھر اس چیز کا عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی قرآن کے ترجمہ میں اتنی فاش غلطی کردی ہے لکھا ہے کہ ” عورت فدیہ دیکر خلع لے”۔ حالانکہ دو، تین بار طلاق کے فیصلے کے بعد خلع کا کوئی تُک نہیں بنتا ۔ علماء کرام کی یہ صفت بہت اچھی ہے کہ اپنے اکابر کی غلطی پر گرفت کو اچھا سمجھتے ہیں لیکن جاہل جماعت اسلامی والوں نے مولانا مودودی کو اپنے مال واسباب کمانے کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ آیت229کے آخری حصے میں بھرپور طریقے سے یہ وضاحت ہے کہ دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ نہ صرف یہ تعلق ختم ہو بلکہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی ذریعہ باقی نہ رہے۔ اس صورت میں پھر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوجائے گا یا نہیں؟۔ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو اس طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی مرضی سے دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کی اجازت دیتا ہے یانہیں؟۔ اس گھمبیر رسم کا خاتمہ بھی قرآن ہی نے کردیا ہے اور یہ عورت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے زیادہ احسان کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ جہاں تک حلالہ کے بغیر نکاح ناجائز ہونے کا تصور ہے تو آیت231اور پھر آیت232میں اللہ تعالیٰ نے عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی کیساتھ حلالہ کئے بغیر رجوع کی زبردست الفاظ میں اجازت کو واضح کیا ہے۔ قرآن میں ایک بھی تضاد نہیں ہے لیکن علماء کے غلط فہم نے قرآن کو بازیچۂ اطفال بنایا ہے۔ دنیا قرآن پر ایمان نہ رکھے لیکن مانے گی ضرور۔

قرآن حدیث میں کوئی تصادم نہیں
صحیح حدیث کو احناف نے رد کیا ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ، باطل ، باطل ہے” ۔ کہ یہ آیت 230 سے متصادم ہے۔ حالانکہ جب شوہر طلاق دیتا ہے تو وہ عورت پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے کہ اس کا یہاں وہاں نکاح نہ ہو۔ لیڈی ڈیانا کو اسی لئے قتل کیا گیا کہ شہزادہ چارلس کیلئے یہ غیرت کا مسئلہ تھا اور نبیۖ کی ازواج سے ہمیشہ کیلئے نکاح کو اسلئے ناجائز قرار دیا گیا کہ اس سے نبیۖ کو اذیت کا سامنا ہوسکتا تھا۔ کنواری لڑکیوں کا بھاگنا حنفی مسلک کا نتیجہ ہے۔ عورت کی شادی کیلئے رضا کو نبیۖ نے ضروری قرار دیا تھا لیکن فقہی مسالک کے ارباب نے ولی کے جبری اختیار کے حوالے سے عجیب وغریب قسم کی متضاد فضولیات بکی ہیں۔
جن احادیث کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کو جواز بخشا گیا ان میں یہ حقیقت نظر انداز کی گئی کہ ایک شوہر کا فعل ہے کہ اکٹھی تین طلاق دے اور دوسرا باہمی رضامندی سے رجوع کی بات ہے۔ قرآن نے رجوع کیلئے باہمی رضامندی کو بنیاد بنایا ہے۔ فحاشی کی صورت میں شوہر ایک ساتھ فارغ کرنے کیلئے تین طلاق دے یا غصہ کی صورت میں تین طلاق کے الفاظ نکل جائیں اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو انسانی فطرت اور دنیا کی ہر عدالت کا یہی فیصلہ ہوگا کہ عورت کو شوہر سے خلاصی پانے کا بھی حق ہے اور شوہر کا عورت سے خلاصی پانے کا بھی حق ہے۔ قرآن نے باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دیا ہے تو ٹھیک ہے۔
جس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبیۖ نے رفاعة القرظی کی طلاق کے بعد عورت کا زبیر القرظی سے شادی کے بعد فرمایا کہ ”جب تک اس کا ذائقہ نہ چکھ لو، رفاعہ کے پاس واپس نہیں جاسکتی ہے”۔ پہلی بات یہ ہے کہ حدیث خبر واحد ہے جو قرآن کی وضاحت سے متصادم ہونے کے بعد قابلِ عمل نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ دوسرا شوہر نامرد تھا اور حلالہ کی صلاحیت سے محروم تھا تو نبیۖ کس طرح حکم دیتے ؟۔ تیسری بات یہ ہے کہ رفاعہ نے مرحلہ وار تین طلاقیں دی تھیں اور وہ عورت دوسرے شوہر کی بیگم بن چکی تھی اسلئے محض رجوع کا نہیں بلکہ اس شوہر سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ بخاری میں ہے کہ اس عورت کے جسم پر مار کے نشانات حضرت عائشہ نے بیان کئے اور اسکے شوہر نے اپنے بچوں کو ساتھ لاکر اپنے نامرد ہونے کی تردید کی۔
جہاں تک اکٹھی تین طلاق واقع اور اس پر نبیۖکے غضبناک ہونیکا تعلق تھا تو حضرت عبداللہ بن عمر پر غضبناک ہونے کے باوجود بھی رجوع کا حکم فرمایاتھا۔ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا مفاد عورت کے حق میں اس وقت ہے کہ وہ رجوع کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق اور ناراضگی کی صورت میں بھی عورت کے اس حق کی قرآن میں وضاحت ہے۔سورۂ بقرہ آیت232میں اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی اسی مؤقف کی بھرپور وضاحت اللہ نے کردی ہے اور کوئی صحیح حدیث قرآن سے متصادم نہیںمگر فقہاء نے آیات کومتصادم بنادیا ہے۔
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ………
” جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو ان کو اپنے شوہر سے نکاح کرنے سے مت روکو۔ جب وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں۔ یہ اس کو نصیحت ہے جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اور طہارت ہے ۔ اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے” ۔
یہ آیت232البقرہ اور تیسرا رکوع شروع ہے۔ یہ طلاق سے رجوع کیلئے قول فیصل ہے اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی ان آیات کا خلاصہ ہے جس میں عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور طلاق کے فیصلے کے بعد کافی مدت گزرنے کے بعد بھی اللہ نے باہمی صلح سے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حلالہ کی لعنت گائے کا پیشاب پینے سے بدتر لعنت ہے.سورہ ٔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا فقہاء کی کتنی بڑی جہالت ہے؟

عقیدہ غیب پر ایمان ہے لیکن علم نہ ہو تو انسان بتوں کی پوجا اور گائے کا پیشاب پیتا ہے۔حلالہ کی لعنت گائے کا پیشاب پینے سے بدتر لعنت ہے ،اُونٹ اور گائے کے پیشاب میں فرق نہیں۔ سورہ ٔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا فقہاء کی کتنی بڑی جہالت ہے؟

عقیدہ اور عقیدت غیب پر ایمان ہے جسکے اثرات صرف روحانی دنیا اور مذاہب تک محدود نہیں بلکہ مادیت اور سائنس پر اسکے بہت بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” بیشک اللہ کے پاس ساعة کا علم ہے، وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ارحام میں کیا ہے؟۔ کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ (القرآن)
نبیۖ نے فرمایا کہ ”یہ پانچ چیزیں غیب کی چابیاں ہیں”۔ عرب لوگ ساعة گھنٹے کوبھی کہتے ہیں اور گھڑی کو بھی اور قیامت کو بھی۔ ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت گھڑی اور دن میں چوبیس گھنٹوں کا تصور نہیں تھا اسلئے آیت میں قیامت ہی مراد ہے۔ عام مفسرین نے بھی قیامت مراد لی ہے۔ حدیث جبریل میں جب نبیۖ نے جبریل سے پوچھ لیا کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ ، تو جبریل نے عرض کیا کہ سائل سے زیادہ مسئول کو بھی پتہ نہیں ہے۔
قرآن میں الساعة قیامت کو بھی کہا گیا ہے اور ایک عظیم الشان انقلاب کی گھڑی کو بھی۔ مختلف اقوام پر تاریخ میں آنے والے عذاب کے دن پر بھی اسی طرح الساعة کا اطلاق کیا گیا ہے۔ جب عربی سمجھنے کے بجائے رٹنے کا نظام ہو تو ایک لفظ کا معنی موقع محل کے مطابق کرنے کے بجائے ہر جگہ ایک ہی معنی مراد لیا جاتا ہے۔ قرآن کے بارے میں مشہور ہے کہ حجاز میں نازل ہوا، مصر والوں نے اس کو پڑھا اور ہندوستان والوں نے اس کو سمجھ لیا۔ یہ مشہور قول اس بات کی بڑی زبردست غمازی کرتا ہے کہ امت مسلمہ نے قرآن کیساتھ کیا سلوک روا رکھا ؟۔ قرآن نے واضح کیا کہ ”رسول (ۖ) کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مولانا سید انورشاہ کشمیرینے فرمایا تھا کہ ” میں نے اپنی زندگی ضائع کردی اسلئے کہ قرآن وحدیث کی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں گزاردی”۔ اکوڑہ خٹک کے مولانا عبدالحق،دارالعلوم کراچی کے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع، جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے علامہ یوسف بنوری، قاسم العلوم ملتان کے مفتی اعظم پاکستان قائد جمعیت مفتی محمود سب علامہ کشمیری کے ہی شاگرد تھے۔
جب شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا حسین احمد مدنی، علامہ شبیراحمد عثمانی، مولانا عبیداللہ سندھی ،مولانا اعزاز علی،علامہ سید انورشاہ کشمیری اور بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس وغیرہ کے سروں پر دستارباندھنے کا فیصلہ کیا تو شاگردوں نے عرض کیا کہ ”ہم نالائق ہیں۔ اس قابل ہرگزنہیں کہ علم کی بنیاد پر کسی کی رہنمائی کرسکیں” مگر استاذ نے فارغ التحصیل ہونے کا شرف بخش دیا ۔ آج تو دیوبندی علماء نے مساجد میں روحانی علاج کا معاملہ شروع کردیا ہے۔
ہندوستان میں بریلوی دیوبندی اختلاف کی شورش تھی تو اکابرین کے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے 7 مسائل کے حل پر کتاب ”فیصلہ ہفت مسئلہ ”لکھ دی۔ دارالعلوم دیوبند میں اسکے نسخے جلادئیے گئے لیکن مولانا اشرف علی تھانوی نے کچھ نسخے باقی ہونے پر اس کو پھر شائع کردیا تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے تصوف کا سلسلہ بھی زندہ رکھا تھا۔ پھر ہم نے اپنی آنکھوں دیکھا حال یہ دیکھا کہ مفتی محمد شفیع، مولانا عبدالحق ،مولانا یوسف بنوری، مولانا مفتی محمود ، مولانا سید محمدمیاں، مولانا ادریس کاندہلوی اور اکابر کی تیسرے درجے کی کھیپ جب اپنے اختتام کو پہنچی تو پھر مولانا عبدالمالک کاندھلوی،مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا اسفندیار خان، مولانا سلیم اللہ خان، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی، قاری محمد حنیف جالندھری، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد فریداکوڑہ خٹک ، مفتی اعظم پاکستان مفتی عبدالستار خیرالمدارس ملتان،مفتی احمد الرحمن، مولانا زکریا لنگڑا ا نوارالعلوم ایف بی ایریا کراچی اور دیگر علماء اکابر کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ دیوبندی اکابرین کا پہلا طبقہ مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی،ملامحمود تھے۔ دوسرا طبقہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور حسین علی تھے۔ تیسرا طبقہ شیخ الہندکے شاگرد تھے اور چوتھا طبقہ شیخ الہند کے شاگردوں کے شاگر د تھے اور پانچواں طبقہ مفتی محمود کے بعد شروع ہوا لیکن مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی مدظلہ چوتھے طبقے کے ہیں۔
صدام حسین سے شیعہ کے خلاف فتوے پر پیسے کھائے گئے اور ایک کتاب مرتب کی گئی جو مارکیٹ میں دستیاب ہے۔یہ مولانا محمدمنظور نعمانی کے سوال پر بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی کاجواب ہے جس پر پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے معروف مدارس کے دستخط ہیں۔ اس میں تین بنیادوں پر شیعہ کو قادیانی سے بدتر کافر قرار دیا گیا ۔
نمبر1: تحریف قرآن کا عقیدہ ۔ 2: صحابہ کرام خاص طور پر حضرت ابوبکرو عمر کے کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں۔3: عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کا انکار۔
مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی تقریر سپاہ ِ صحابہ نے شائع کی تھی جس میں یہ واضح تھا کہ ”اہلسنت کا شیعہ سے قرآن اور صحابہ پر اختلاف نہیں ۔ ہمارا اصل اختلاف شیعہ سے مسئلہ امامت پر ہے”۔ شیعہ سنی فقہی اختلافات سنی مسالک میں بھی ہیں ۔’شرح العقائد” میں یہ لکھا ہے کہ ” شیعہ کے نزدیک امام کا مقرر کرنا اللہ پر فرض ہے اور سنیوں کے نزدیک امام مسلمانوں پر مقرر کرنا فرض ہے”۔
مفتی محمود کی طرف بھی یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ درسِ نظامی میں شرح العقائد کی کتاب غلط شامل کی گئی ہے کیونکہ یہ اس کا مصنف شیعہ یا شیعوں سے متأثر ضرور تھا۔ شرح العقائد میں پڑھایا جاتاہے کہ” شیعہ کے نزدیک اللہ پر امام کا مقرر کرنا فرض ہے جبکہ اللہ پر کوئی چیز فرض نہیں ہوسکتی ہے۔ انبیاء کرام کی بعثت اللہ پر فرض نہیں ہے اور اللہ نے جب تک چاہا تو نبوت کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر جب چاہا نبوت کا سلسلہ اپنے آخری نبیۖ کے ذریعے ختم کردیا”۔
جب حضرت ابوبکر کے ہاتھوں پرانصار کے ہاں بیعت ہوئی اور مہاجرین نے اس کو قبول کرلیا تو اہل سنت کے نزدیک حضرت ابوبکر خلیفہ بلافصل بن گئے لیکن شیعہ کے نزدیک حضرت علی ہی خلیفہ بلافصل اسلئے تھے کہ نبیۖ نے ہی غدیر خم کے موقع پر آپ کی ولایت کا اعلان فرمادیا تھا۔ شیعہ بارہویں امام غائب تک اپنا یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ سنیوں کے ہاں خلفاء راشدین کے بعد بنوامیہ و بنوعباس کی امارت اور پھر ترکی خلافت عثمانیہ کے بعد جبری حکومتوں کے ادوار کا سلسلہ شروع ہوا،جو ابھی تک موجود ہے اور یہی شرعی حکومتیںہیں۔ اہل تشیع بھی اب پاکستان اور ایران وغیرہ میں رویت ہلال کمیٹی کی طرح حکومتوں کے فیصلے شریعت کے مطابق مانتے ہیں۔ مثلاً اگر ایران اور پاکستان میں روزے اور عید پر اختلاف ہو تو دونوں ممالک کے باشندوں کے علماء اپنی اپنی ریاستوں کیساتھ کھڑے ہونگے۔ ایرانی انقلاب میں شیعوں نے قربانی دیکر بادشاہت کو ختم کیا اور جمہوری حکومت قائم کردی لیکن وہاں کنٹرول جمہوریت ہے ۔افغانستان میں امریکہ نے طالبان کی اسلامی حکومت ختم کرکے جمہوری حکومت قائم کردی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلافت راشدہ میں خلفاء عوام کی مرضی سے آئے تھے اور امار ت و بادشاہت اور جبری حکومتوں کے ادوار میں عوام کی مرضی کے بغیر زبردستی اور جبری انداز میں حکومتوں کو مسلط کیا جارہاہے۔
شاہ اسماعیل شہید نے” منصب امامت” میں وہی عقیدہ امامت لکھ دیا ہے جو شیعہ کی طرف سے اپنے ائمہ کے بارے میں ہے۔ جس کی تائید مولانا یوسف بنوری نے بھی زبردست طریقے سے کی ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، کسی بھی شخص کو اس کا مؤقف بیان کرنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔ غلام احمد پرویز سے پہلے علامہ تمنا عمادی نے احادیث کی سخت مخالفت کی تھی اور وہ ایک معتبر عالم بھی تھے لیکن وہ گوشہ گم نامی میں چلے گئے۔ مولانا محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے بھی مزارعت پر ایک مقبول فقہی مؤقف پیش کیا تھا لیکن ان کو بھی گوشہ گمنامی کی نذر کردیا۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے یہودی سود کی عالمی بینکاری کو اسلامی قراردیا تو سارے مدارس کے بڑے علماء ومفتیان کی مخالفت کے باوجود بھی وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگئے۔
جب داعش (دولت اسلامیہ عراق وشام)نے اپنی تنظیم کی بنیاد رکھ دی تو پورے مغرب سے ”نکاح بالجہاد” کے نام سے عورتیں آئیں جو مجاہدین سے اپنا نکاح روزانہ کی بنیاد پر بستر بدل بدل کر کرتی تھیں اور مقامی عورتوں کو بھی وہ مجاہدین زبردستی سے پکڑپکڑ کر لونڈیاں بناتے تھے۔ یزیدی فرقہ کے نام سے جو قرآن اور سابقہ ادیان کا مخلوط عقیدہ رکھتے ہیں اور بہت کمزور ہیں ان کی خواتین کو بھی زبردستی سے لونڈیاں بنایا جاتا تھا۔ ایک طرف شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی کا عالمی بینک کا سودی نظام ہو اوردوسری طرف داعش کا نکاح بالجہاد ہو ، تیسری طرف ہمارے مذہبی طبقات ان لوگوں کو اپنا پیٹی بند ساتھی تصور کرکے حمایت بھی کرتے ہوں تو برصغیرپاک وہند میں آنیوالا منظرنامہ بڑاخطرناک ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی جمعیت کے شاعر سلمان گیلانی کبھی اپنی شاعری میں مسلم لیگ ن کی عابدہ حسین اور تہمینہ دولتانہ کا نام لیکرمخالفت میں جمعیت کے جلسوں کو گرماتا تھا اور اب مریم نواز سے جمعیت کی حمایت کے جلسے گرمائے جا رہے ہیں۔ مولانا حق نواز جھنگوی نے1988ء کے الیکشن میں جمعیت ف کے پلیٹ فارم سے اعلان کیا تھا کہ مجھے کوئی شیعہ ووٹ نہیں دے۔ لیکن مولانا فضل الرحمن خود اپنی سیٹ شیعوں کی حمایت سے جیت گئے تھے۔ یہ تضادات تھے اور پھر مولانا ایثار الحق نے سپاہ صحابہ اور اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے جمعیت ف کی مخالفت اور شیعہ عابدہ حسین سے اتحاد کیوجہ سے 1990ء کا الیکشن جیت لیا تھا۔”بہت تلخ ہیں بندہ ٔ مزدور کے اوقات”۔ مولوی اسلام کانوکرنہیں بلکہ دوسروں کی مزدوری کرتا ہے۔ بھارت ، افغانستان، مصر، سعودی عرب، چین، پاکستان اور دنیا کے تمام ممالک میں ہرماحول کے مطابق اسلام کو ڈھالا جاتا ہے اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے علماء وطلباء نے افغان طالبان کے اسلام کے نفاذکی زبردست حمایت کی تھی اور اب جب طالبان نے اپنے اس اسلام کے نفاذ سے مکمل دستبرداری کا اعلان کیا ہے تو ان کو مرتد قرار دیا جائیگا یا یہ کہا جائے گا کہ امریکہ سے مصالحت کے بعد اب یہ اسلام ٹھیک ہے؟۔
مولانامحمد یوسف بنوری نے لکھا ہے کہ ” شاہ اسماعیل شہید نے اپنے مرشد سیداحمدبریلوی کے مقام کیلئے اپنی کتاب ”منصبِ امامت ” لکھ دی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ کتاب میں خراسان کے مہدی کو مدینہ منورہ کے مہدی آخرزماں سے الگ شخصیت قرار دیا گیا تھا اور جس طرح بادشاہ اپنے جانشین کا انتخاب کرتا ہے تو حکومت کے سارے وزیروں اور مشیروں کی مقبولیت اور اہلیت کا معیار اس کی وفاداری ہوتی ہے ، اسی طرح امام وقت کیساتھ وفاداری کے بغیر ہر چیزبیکار ہے اور یہی عقیدہ اہل تشیع کا بھی ہے اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی یہی عقیدہ کھل کر لکھا ہے۔ سید احمد بریلوی کی شہادت کے بعد بھی ان کے بہت سے معتقدین کا عقیدہ تھا کہ وہ اہل تشیع کے امام کی طرح غائب ہوگئے ہیں اسلئے واپس آئینگے۔
ہمیں ان دیوبندیوں اور اہل تشیع کو کافر وگمراہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے جو حضرت خضر کی طرح کسی شخصیت کے غائب ہونے پر اپنا غیبی اعتقاد رکھتے ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں ہے کہ جب عقیدہ اور عقیدت کوعلم وعقل کی رہنمائی سے محرومی کا سامنا ہو تو پھر لوگ بتوں کی پوجا اور گائے کا پیشاب بھی پیتے ہیں۔ ہمیں ہندوؤں کا بھی تمسخر اڑانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ فقہ حنفی کی معتبر کتب فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ میں علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں” فقہی مقالات” اور” تکملہ فتح المہلم”سے نکال دیا مگروزیراعظم عمران خان کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ” ریزہ الماس ” میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا پھر دفاع کیا ہے۔حلالہ کی لعنت کا جواز قرآن میں نہیں بلکہ علماء وفقہاء کی نالائقی ہے۔ حلالہ کی لعنت کا عمل گائے کے پیشاب پینے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔
حضرت عمر اور ائمہ اربعہ کے مؤقف کو قرآن وسنت کی تائید حاصل ہے کہ ایک مرتبہ پر بھی تین طلاق کے حتمی فیصلے کا اطلاق ہوسکتا ہے جس کے بعد عورت اس شخص کیلئے حلال نہ ہو ، جب تک وہ اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح نہیں کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے اور باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت دی ہے اور باہمی رضااور معروف طریقے کے بغیر رجوع کو ناجائز قرار دیا ہے۔ رجوع کی علت باہمی رضا ہے لیکن بعد کے فقہاء نے اس کی علت غلط نکال دی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ ” روزہ معاف ہونے کی علت سفر ہے اور اس کا سبب مشقت ہے۔ جس طرح عام لوگ علت اور سبب کے درمیان فرق نہیں کرسکتے ۔سفر میں اگر مشقت نہ ہو تو بھی روزے کی رخصت ہے اور مزدوری میں مشقت ہوتی ہے مگر روزے کی رخصتی نہیں ہے۔ بہت سارے کم عقل وکم علم فقہاء نے علت اور سبب میں فرق کو سمجھے بغیر مسائل نکالے ہیں”۔ قرآن وسنت پر نظر کی جائے تو طلاق سے رجوع کی علت باہمی رضامندی ہے اور حضرت عمر نے باہمی رضامندی ہی کے نہ ہونے کی وجہ سے حتمی طلاق کا فتویٰ دیا تھا اور ائمہ اربعہ اور پہلے ادوار کے لوگوں نے اسی پر اتفاق کیا تھا مگر بعد میں معاملات بگاڑ دئیے گئے۔
حدیث میں قرآن کی پانچ چیزوں کو غیب کی چابی قرار دیا گیا ہے۔ وقت کا علم بھی قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ ”جب فرشتے اور روح چڑھتے ہیں تو اس کا ایک دن یہاں کے پچاس ہزار سال کے برابر ہے”۔ نبیۖ نے اس کا مشاہدہ معراج کی رات کیا تھا۔ آئین سٹائن نے نظریہ اضافیت دریافت کرکے غیب کی چابی کا سائنسی ثبوت بھی دیدیا۔ اسٹیفن ہاکنگ کے بلیک ہول میں نئی دریافتوں کیساتھ کہکشاؤں کی کائنات میں کتنے نظریہ اضافیت ہونگے؟۔ بارش نازل ہونے سے جس قدرتی بجلی کا پتہ چل رہاتھا اور قرآن نے تسخیر کی دعوت دی اور سائنسدانوں نے اس کو عملی جامہ پہنایا تو الیکٹرک کی غیبی چابی نے ایک جہانِ نو کو جنم دیا ہے۔ اور قرآن میں تیسری چیز ارحام کا علم ہے۔ جمادات،نباتات، حیوانات میں ایٹمی ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کی دنیا سے لیکر فارمی پھلوں،پرندوں اورجانوروں تک غیب کی چابی کا ثبوت موجود ہے لیکن مذہبی طبقات اپنے پیٹ کے جہنم کو بھرنے میں مصروف ہیں اور حقائق اجاگر ہونے کے باوجود اس طرف کوئی توجہ دینے کیلئے تیار نہیں، حالانکہ قرآن ایک حقیقت بن گیا ہے۔
قرآن میں پہلی 3 چیزوں کے علم کی نفی نہیں اورآئے دن ترقی کی نئی منزل بتاتی ہے کہ کل انسان کیا کمائے گا؟ اور کس زمین پر مریگا؟۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔ عظیم قرآن کو پیشاب سے لکھنے والوں کے حوالہ کرکے ہم نے بڑابرا کیاہے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

البقرہ کی آیات (224سے232) اور سورۂ طلاق کی دو آیات میں طلاق اور اس سے رجوع کے علاوہ عورت کے حق کا جو نقشہ پیش کیاگیا ہے ، اگر صرف یہ قرآنی احکام علماء حق سمجھ کر دنیا کے سامنے رکھ دیں تو انقلاب عظیم کا آغاز ہوگا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلان

رسول ۖ اللہ سے شکایت کرینگے کہ ” بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا” تو اس میں سرِ فہرست طلاق کے بعد رجوع کا مسئلہ ہوگا اسلئے کہ قرآن نے یہ بہت ہی واضح کیاہے

جب اُمت مسلمہ کے علماء ومفتیان ، دانشور ، وکلائ، جج، صحافی، اساتذہ ، لیکچرار، پروفیسراور تعلیم یافتہ وان پڑھ لوگ ان حقائق کی طرف توجہ دینگے تو خود کو بہرے و اندھے محسوس کرینگے!

قرآن میں اَیمان جمع یمین کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ عربی میں لفظ ”یمین ”عہدو پیمان کو کہتے ہیںاور عہدوپیمان توڑنے کوبھی کہتے ہیں اور حلف کو بھی کہتے ہیں اور حلف توڑنے کو بھی کہتے ہیں۔ فتاویٰ قاضی خان کے اندر شوہر کی طرف سے طلاق کیلئے بھی یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے اور لونڈی کے آزاد کرنے کیلئے بھی یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یمین پختہ ہونے کے بعد کفارے کا حکم اس وقت ہے کہ جب حلف ہو ۔ ذٰلک کفارة ایمانکم اذا حلفتم ”یہ تمہارے یمین کا کفارہ ہے کہ جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔(سورة المائدہ) یمین سے مراد حلف نہ ہو تو پھر معاہدہ کرنے یا اسکے توڑنے پر کفارہ نہیں ۔
غلام ، لونڈی اور کاروبار وغیرہ میں معاہدے کیلئے بھی ملکت ایمانکم ”جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں” کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاں جملے اور سیاق وسباق میں یمین کا لفظ استعمال ہواہو،اسکے مطابق معنی مراد ہوتا ہے۔
سورۂ بقرہ آیت (224، 225) میں یمین سے مراد طلاق ہے، فتاویٰ قاضی خان میں طلاق کیلئے یمین کا لفظ استعمال ہواہے ۔البقرہ آیت (226) سے (232) تک کا تمام مضمون طلاق سے متعلق ہے اسلئے آیات (224اور 225) میں اَیمان جمع یمین طلاق اور میاں بیوی میں صلح کے حوالے سے ایک زبردست مقدمہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” اور اپنے عہدوپیمان کو اللہ کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی اختیار کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ” (آیت224 )
یہ آیت مقدمہ ہے طلاق کے مسائل کیلئے۔ نیکی، تقویٰ اور صلح کرانے کیلئے اللہ نے واضح منع فرمایا کہ اللہ کو ڈھال کے طورپر استعمال مت کرو کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کروانے سے رُک جاؤ۔ اگر سورۂ بقرہ کی ان آیات کو سادہ الفاظ میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہوتی تو مولوی اپنے فتویٰ خانے بند کردیتے ۔
طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے جتنے الفاظ دورِ جاہلیت میں تھے اور ان پر جتنے اختلافات اور تضادات بنار کھے تھے، اب اسلام کے حوالے سے جاہلیت کو بھی فرقوں ، مسلکوں اور شخصیات کے اقوال نے بہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔ اگر بیوی سے حرام کا لفظ کہہ دیا تو اس میں علامہ ابن تیمیہ کے شاگر علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ” زاد المعاد” میں بیس مختلف شخصیات کے اقوال نقل کردئیے ہیں۔
قرآن نے جاہلیت کے تضادات اور الجھنوں کو جڑ وںسے بالکل ملیامیٹ کرتے ہوئے ان مذہبی طبقات کیلئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ کمثل الحمار یحمل اسفارا ”ان کی مثال گدھوں کی طرح ہے جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہوں”۔ اللہ کو پتہ تھا کہ امت محمدۖ کے مذہبی طبقات نے بھی سابقہ قوموں کے نقشِ قدم پر چل کرقرآن کے احکام کو اسی طرح جعل القراٰن عضین پارہ پارہ کرنا ہے جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی اپنی کتابوں کیساتھ کیا تھا اور آئندہ کسی نبی نے نہیں آنا ہے اسلئے قرآن میں ایک ایک بات کھول کھول کر ایسی بیان کردی کہ گدھے نما انسانوں کو بھی سمجھ میں آجائے اور اس کیلئے کسی نئے نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں پڑے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” تمہیں پکڑتا نہیں اللہ تمہارے لغو عہدوپیمان پر مگر تمہیں پکڑتا ہے جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔(البقرہ آیت225 )
اس آیت میں طلاقِ صریح اور کنایہ کے الفاظ سے قطع نظر صرف دل کے گناہ پر پکڑنے کی بات واضح ہے لیکن یہ اللہ کی طرف سے پکڑنے کی نفی ہے ۔ کوئی ایسے الفاظ طلاق کے حوالے سے نہیں جو اللہ نے صلح کیلئے رکاوٹ بنائے ہوں۔ البتہ اگر ان الفاظ پر بیوی پکڑنا چاہے تو وہ پکڑنے کا حق رکھتی ہے۔ آیت میں اللہ کی طرف سے نہ پکڑنے کی وضاحت ہے ۔
اللہ نے فرمایا کہ ” جن لوگوں نے اپنی عورتوں سے نہ ملنے کا عہد کیا ہو تو ان کیلئے چار ماہ ہیں۔ اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے۔ (آیت226 )
اس میںناراضگی کا ذکر ہے جب شوہر طلاق کا اظہارنہ کرے تو عورت چارماہ انتظار کی پابند ہے اور باہمی رضامندی سے صلح کرسکتے ہیں۔ ناراضگی شوہر کا حق ہے لیکن صلح دونوں کے اختیار میں ہے۔یہ نکتہ دنیا نے سمجھ لیا تو اسلام کی افادیت کا پتہ چل جائے گا کہ عورت کو کس قدر شوہر کے جبر سے بچایا ہے۔
اللہ نے فرمایا کہ ” اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا ہو تو پھراللہ سننے جاننے والا ہے۔( آیت227البقرہ )
چونکہ طلاق کے اظہار کے بعد عورت کی عدت تین ادوار یا تین ماہ ہے اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں چار ماہ ہے ۔ اگر طلاق کا عزم رکھنے کے باجود اس کا اظہار نہیں کیا تو پھر یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ ہوگی۔
علیحدگی مرد کی طرف سے ہو تو یہ طلاق ہے اور اگر علیحدگی عورت کی طرف سے ہو تو یہ خلع ہے۔ سورہ النساء میں آیت(19) میں خلع اور آیات (20 ،21) میں طلاق کی وضاحت ہے۔ خلع میں عورت گھر بار چھوڑ کر نکلنا چاہے تو شوہر اس کو جبری طور سے روک نہیں سکتا اور حدیث صحیحہ میں خلع کی عدت ایک حیض ہے۔ خلع میں دی ہوئی منقولہ جائیدادعورت کا حق ہے اور طلاق میں دی گئی منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد عورت کا حق ہے۔ عورت طلاق کا دعویٰ کرے تو دو گواہ لانے پڑیںگے۔ اگر دو گواہ یا شواہد نہیں ہوں تو پھر خلع کے حقوق عورت کو ملیں گے۔
فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ” اگر شوہر نے تین طلاقیں دیدیں اور پھر اپنی بات سے مکر گیا تو عورت کو دوگواہ لانے پڑیںگے اور اگر عورت کے پاس دو گواہ نہ ہوں تو شوہر قسم کھائے گا اور اگر اس نے قسم کھالی تو عورت اس کیلئے حرام ہوگی پھر عورت خلع لے لیکن اگر عورت کو خلع نہ ملے تو وہ شوہر کیلئے حرام اور حرامکاری پر مجبور ہوگی”۔ قرآن کریم سے انحراف کے اتنے بھیانک نتائج نکلے ہیں۔
عورت جان چھڑانا چاہے تو شوہر کیلئے حرام ہے ، چاہے شوہر نے طلاق دی ہویا ناراض ہوا ہو یا عورت خلع لے ۔ قرآن میں یہ احکام واضح الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں ۔مذہبی طبقہ کبھی اس انتہاء پر پہنچتا ہے کہ عورت جان چھڑانا چاہتی ہے مگر مذہب کے نام پر اس کی جان نہیں چھٹتی ہے اور کبھی میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہیں تو مفتی جہالت کافتویٰ لیکر کھڑے ہوتے ہیں کہ صلح نہیں ہوسکتی ہے۔
آیت (230) البقرہ کی اگلی اور پچھلی آیات کے ظاہری الفاظ کو سمجھ لیا جائے تو پھر دنیا میں قرآن سارے انسانوں کیلئے ہدایت کا مقتدیٰ بن جائے گا۔ ہماری قوم قیامت کے دن مجرم بن کر کھڑی ہوگی اور نبیۖ شکایت فرمائیں گے کہ ”اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (القرآن)
اللہ نے واضح کیا کہ ” عورت تین ادوار تک خود اپنی جانوں کو انتظار میں رکھیں اور اگر ان کو حمل ہو تو پھر اس کو نہ چھپائیں اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں اور اس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں، بشرط یہ کہ اگر وہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں اور عورتوں کے مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ان پر ہیں اور مردوں کا ان پر درجہ ہے”۔( آیت228)
مرد کو طلاق کا حق ہے تو عورت کو خلع کا حق ہے۔ مرد کو رجوع کا حق ہے تو عورت کا اس کیلئے راضی ہونا ضروری ہے۔ البتہ مردوں کا عورتوں پر ایک درجہ ہے اور وہ یہی ہے کہ مردوں کی کوئی عدت نہیں لیکن عورت کی عدت ہے۔
جب آیت (226)میں ناراضگی اور (228) میں طلاق کے بعد عورت کی رضا مندی کے بغیر شوہر رجوع نہیں کرسکتا تو کیا اللہ نے آیت (229) میں ایک نہیں بلکہ دومرتبہ طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیدیا ؟۔ نہیں ہرگز نہیں معروف کا معنی اصلاح و باہمی صلح کی بنیاد پر مشروط رجوع ہے۔ اور جب اللہ نے معروف کی بنیاد پر رجوع کا حکم دیا ہے تو پھر اسکا عورت کی رضا کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔ ان تمام آیات میں عورت کی رضامندی کی شرط کے باوجود بھی معروف رجوع کو نظر انداز کیا گیا ہے اور پھر آیات (228 اور 229) میں جس طرح ایک ایک بات کھول کے واضح کردی کہ تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے بعد آخر کار اس حدتک پہنچ جانا کہ وہ دونوں اور فیصلہ کرنیوالے ڈریں کہ وہ حدود پر قائم نہ رہیںگے تو اگر چہ شوہر کی دی گئی کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں مگر جب دونوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتی ہو تو عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔ پھر ایسی صورت میں آیت (230) میں طلاق کے بعد کی صورتحال سے یہی واضح ہوتا ہے کہ مرد اس طلاق کے بعد عورت کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دے۔ اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح کرنے دے۔ جبکہ مردوں کا دستور یہ ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے نکاح کرنے کے مخالف ہوتے ہیں جیسے لیڈی ڈیانا کو بھی طلاق کے بعد برطانوی شاہی خاندان نے کسی اور سے نکاح پر قتل کردیا تھا۔
پھر اللہ نے عدت کی تکمیل پر آیت (231 اور آیت232) میں معروف طریقے اور باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاقرآن میں یہ تضاد ات نہیں کہ پہلی آیات میں عدت کے اندر ہی رجوع کی اجازت دی اور بعد کی آیات میں عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے؟۔ اس کا جوا ب بہت واضح ہے کہ اللہ نے پہلی آیات میں عورت کا حق بیان کیا ہے کہ عدت تک انتظار فرض ہے جس میں باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے تاکہ عورت عدت کے بعد انتظار پر خود کو مجبور نہیں سمجھے۔ بعد کی آیات میں یہ واضح کردیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت ہے۔ علماء وفقہاء نے اپنی معتبر کتابوں میں طلاق رجعی کیلئے ان آیات کو بھی دلیل بنایا ہے جن میں عدت کے بعد معروف رجوع کی اجازت ہے۔ جس کے حوالے ” طلاق ثلاثہ : حبیب الرحمن ”۔ادارہ تحقیقات قرآن وسنت انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی دئیے گئے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز کو بالمشافہہ ملاقاتوں میں ان معاملات سے آگاہ بھی کردیا تھا۔
سورۂ طلاق کے حکم کے مطابق عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق دی جائے تو پہلی آیت سورۂ طلاق کے مطابق عدت کو پورا کیا جائیگا، عورت اسکے گھر سے نہیں نکلے گی اور نہ اس کو نکالا جائے گا۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہو۔ (تواس کو گھر سے نکلنے اور نکالنے کی اجازت ہے) یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باہمی اصلاح کی کوئی صورت اس بگاڑ کے بعد نکالے۔ (سورہ طلاق)
اس پہلی آیت کے مطابق پاکی کے دنوں میں طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں دوسری مرتبہ طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں تیسری طلاق دی جائے یہاں تک کہ حیض آجائے۔ عدت وطلاق کے ان تمام ادوار میں اللہ تعالیٰ نے صلح کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات اور سورۂ طلاق کی آیات میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے۔ جب عدت کے ادوار میں تین مرتبہ طلاق کے باوجود بھی رجوع کی گنجائش اللہ تعالیٰ نے رکھ دی تو کیا عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی گنجائش اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے؟۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ طلاق کی آیت2میں یہ فرمایا کہ ”جب ان عورتوں کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے الگ کردو”۔سوال ہے کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش اللہ نے رکھی ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ بالکل ان واضح الفاظ کے بعد کیا شک باقی رہ جاتا ہے۔ یہی الفاظ سورہ ٔ بقرہ آیت (231) میں بھی اللہ تعالیٰ نے استعمال کئے ہیں۔
سورۂ طلاق کی دوسری آیت کے مطابق اگر عدت کی تکمیل پر عورت کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کو انصاف کیساتھ گواہی کی تلقین فرمائی ہے اور ساتھ میں مژدہ بھی سنایا ہے کہ ومن یتقی اللہ یجعل لہ مخرجًا ” اور جو اللہ سے ڈرا،اس کیلئے اللہ نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔ (سورہ طلاق آیت2) جس طرح سورہ بقرہ آیت (232) میں عدت کی تکمیل کے بعد ایک عرصہ گزرنے کے بعد رجوع کی اجازت باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے دی گئی ہے اسی طرح سے سورۂ طلاق میں بھی اللہ نے رجوع کا راستہ بالکل نہیں روکا ہے لیکن مفتی سمجھنا نہیں چاہتا ہے تو؟۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

سورۂ بنی اسرائیل میں معراج مصطفیۖ کے خواب اورقرآن میں شجر ہ ملعونہ کا ذکر ہے ۔سورۂ بقرہ آیت(230) میں حلالہ کی لعنت ہے ۔ سورۂ حج میں القائے شیطانی کو منافقوں کیلئے فتنہ اور اہل علم کیلئے رہنمائی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کے ایریا (K-AREA)والے اپنے سودی کاروبار کی وجہ سے ہی حلالے پر ڈٹ گئے ہیں، باقی بڑے مدارس اور جامعات کے بڑے علماء ومفتیان حلالے کا حل چاہتے ہیں!

جب تک مدارس سے حلالہ کی لعنت کا اعلانیہ خاتمہ نہیں ہوگا تو معاشرے سے بے ایمانی، فحاشی اور بے حسی کا کبھی خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔ رشد وہدایت کے مراکز گمراہی کے قلعے بن گئے ہیں!

شاہ ولی اللہ، مولانا ابوالکلام آزاد، سید مودودی،شیخ عبداللہ ناصح علوان، ڈاکٹر حبیب اللہ مختاراور علامہ سید ریاض حسین شاہ وغیرہ نے اسلام کے عالمگیر غلبے کی احادیث کو درست قرار دیا ہے اور قرآن میں اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ پانے کی پیش گوئی ہے۔ اسلام کے عالمگیر غلبے کا خواب اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو معراج کے جیتے جاگتے مشاہدے میں دکھایا تھا۔ واقعہ معراج سورۂ بنی اسرائیل میں ہے۔ اردو اور عربی میں خواب کی دوقسمیں ہیں۔ ایک نیند کی حالت میں کوئی خواب دیکھنا اور دوسرا بیداری کی حالت میں نصب العین کا تعین کرنا۔ قرآن نے رسول اللہۖ کی بعثت کا نصب العین یہ بیان کردیا کہ ”تاکہ آپۖ کی بعثت سے دین حق تمام ادیان پر غالب ہوجائے” ۔واقعۂ معراج میں تمام انبیاء کرام کی امامت اس نصب العین کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ غامدی نے اپنے روحانی باپ مولانا مودودی سے اختلاف کیا کہ واقعہ معراج بیداری کا واقعہ نہیں تھا جبکہ مولانا مودودی نے اس کو بیداری کا واقعہ قرار دیا۔ مولانا مودودی بہر صورت اسلام کے غلبے کا خواب دیکھنا چاہتے تھے ،چاہے اس کیلئے جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کے علاوہ جس طرح سے بھی ناک رگڑنی پڑے اور جاوید غامدی کو اپنے باپ سے اتنی الرجی ہوگئی ہے کہ وہ اسلام کے غلبے کی ذہنیت ہی کو اسلام کے اساسی اصولوں اور معروضی حقائق کے بالکل منافی قرار دے رہے ہیں۔
سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ نے دو چیزوں کا ذکر کیا ہے کہ ان کو لوگوں کیلئے فتنے کا سبب بنایا گیا ہے ۔ایک نبی ۖ کا وہ خواب جو اللہ نے آپۖ کو دنیا میں دکھایا تھا۔ دوسرا قرآن میں شجرہ ملعونہ کا ذکر۔ آج پوری دنیا پرکفار کا غلبہ ہے اور مسلمان مغلوب ہیں،اللہ سے نصرت کی دعائیں مانگ رہے ہیںاور مایوسی کا شکار ہورہے ہیںتو رسول ۖ کے اس خواب کوکیسے پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کی اُمید کرسکتے ہیں کہ اسلام کا پوری دنیا کے ادیان پر غلبہ ہوگا؟۔ دوسری بات قرآن میں لوگوں کیلئے فتنے کا باعث شجرہ ملعونہ کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں طلاق کی ایک ایسی صورت کا ذکر کیا ہے جس کے بعد عورت اپنے پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں رہتی ،یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔پھر اگر وہ طلاق دے تو اگر دونوں کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیںگے تودونوں پر رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔( آیت230البقرہ )
آیت میں حلالے کا ذکر ہے اور نبیۖ نے حلالہ کو لعنت قرار دیا، حلالہ کرنے اور کروانے والوں پر اللہ کی لعنت بھیجی اور ان کو کرایہ کا بکرا قرار دیا ہے۔
جب کوئی بیوی کو اچانک غصے میں تین طلاق دیتا ہے تو اسکے سامنے قرآن کی یہ آیت(230) البقرہ رکھی جاتی ہے اور حنفی مسلک کی غلط تشریح کافتویٰ رکھ دیا جاتاہے اور احادیث سے غلط نشاندہی فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اچھے بھلے انسان اپنی بیگمات کو مولوی کے پاس حلالہ کی لعنت کیلئے چھوڑ جاتے ہیں۔
حالانکہ آیت(230) البقرہ سے متصل آیت(229) البقرہ میں اس طلاق کی کیفیت بہت زبردست طریقے سے بیان کی گئی ہے کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ نبیۖ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق قرآن کے مطابق عدت کے تین ادوار کیساتھ ہے اور آیت(229)البقرہ میں تیسری طلاق احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ جسکے بعد اللہ نے فرمایا کہ ”پھر تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی شوہر نے دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔ مگر یہ کہ دونوں کو یہ خوف ہو کہ اس کی وجہ سے رابطہ ہوگا، دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ پھر وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کی جائے۔ یہ اللہ کی حدودہیں۔ اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ (البقرہ آیت229)
آیت (229) میں ایک تفصیل یہ ہے کہ عدت کے تین مراحل میںتین بار طلاق دی گئی ہو اور دوسری تفصیل یہ ہے کہ میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس بات پر متفق ہوں کہ آئندہ رابطے کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑا جائے یہاں تک کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کوئی چیز بھی واپس کرنا جائز نہیں لیکن جب رابطہ کا ذریعہ، حدود توڑنے کا خوف ہو تو پھروہ عورت کی طرف سے فدیہ کی جائے۔ اس واضح کیفیت میں حنفی مسلک یہ ہے کہ آیت (230) البقرہ میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق آیت (229) البقرہ کے اس آخری حصہ میں فدیہ کیساتھ ہے۔ حضرت ابن عباس نے بھی اس کی تصریح کردی جس کو علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد ” میں نقل کیا ہے لیکن مفتیان حضرات حنفی مسلک کے متفقہ اصولوں سے انحراف اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایک بار میں تین طلاق پر بھی قرآن وسنت اور حنفی اصول کے خلاف حلالے کا فتویٰ جاری کرتے ہیں۔
ہم نے اپنی ایک کتاب ”عورت کے حقوق ” میں دارالعلوم کراچی کے اس فتوے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح اور پھر اس طرح کا جماع ضروری ہے کہ حلالہ کرنے والے شخص اور جس عورت کا حلالہ کیا جارہا ہو دونوں میں جماع اس طرح ہو کہ التقاء ختانین ہوجائے ۔ یعنی دونوں کی ختنوں کی جگہوں کا آپس میں ملاپ ہوجائے۔ یہ صورتحال باقاعدہ فقہ کی کتب کا حوالہ دیکر بتائی جاتی ہیں۔ عام لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ شرعی گواہوں اورباشرع لوگوں میں کیا فرق ہے؟ اور ختنوں کی جگہوں کے ملاپ سے کیا مراد ہے؟۔
لوگوں کو قرآنی آیات ، احادیث صحیحہ اور فقہی کتابوں کے حوالہ جات سے ایسا مغالطہ دیا جاتا ہے کہ اچھے خاصے لوگ بھی اور سیدھی سادی عورتیں اس بات پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ جب تک حلالہ کی لعنت سے گزرنا نہ پڑے تو اکٹھی تین طلاق کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوسکتی ہے۔
آیت کا ترجمہ یہ لکھتے ہیں کہ ” اگر پھر اس نے طلاق(تیسری) دی تواس کیلئے حلال نہیں یہاں تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ (البقرہ :230)
اور ساتھ میں آیت (229)کا ترجمہ لکھتے ہیں کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے پھر اس کو معروف طریقے سے چھوڑنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔ اس کی یہ تشریح لکھ دیتے ہیں کہ طلاق رجعی دو ہی مرتبہ ہے پھر معروف رجوع ہے یا پھر رخصت کردینا ہے۔ اگر دوطلاق کے بعد تیسری طلاق دیدی تو پھر اس کیلئے وہ عورت حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ فتوے میں آیات (229) اور(230)کے اندر دو طلاق رجعی اور تیسری طلاق مغلظہ کے بعد مفتی صاحبان یہ حکم نکالتے ہیں کہ اب طلاق مغلظہ ہوچکی ہے اسلئے حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جب ہم نے دارالعلوم کراچی کے فتوؤں کو علمی انداز میں رد کرنا شروع کیا تو انہوں نے فتوے میں آیات اور احادیث کے حوالہ جات دینے کے بجائے صرف یہ لکھ کر دیناشروع کیا کہ ” صورت مسئولہ میں طلاق مغلظہ واقع ہوچکی ہے اسلئے حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔
حالانکہ آیت (229)میںدو مرتبہ کی طلاق نہیں بلکہ تین مرتبہ کی طلاق ہے۔ نبیۖ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟ ۔ فرمایا کہ” آیت (229) میں اوتسریح باحسان (یا احسان کیساتھ رخصت کرنا) ہی تیسری طلاق ہے”۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دو طلاق کے بعد تیسری طلاق ہو تو پھر رجوع کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت (228) میں اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ” عدت کے تین مراحل تک طلاق شدہ عورت نے انتظار کرنا ہے اور ان مراحل میں اسکے شوہر کو اصلاح کی شرط پر اسکے لوٹانے کا حق ہے” تو اس میں دو باتیں واضح ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ عدت کے تین ادوار ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ صلح کی شرط پر ان ادوار میں رجوع کا حق ہے۔
آیت (228) میں جن تین ادوار تک عورت کوطلاق کے بعد انتظار کا حکم ہے آیت (229) میں ان تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔آیت (228) میں عدت کی پوری عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے اور آیت (229) میں معروف یعنی صلح کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی فقہاء اور علماء ومفتیان کی طرح نہ صرف کم عقل بلکہ ہٹ دھرم بھی بن جائے کہ آیت (228) میں تین ادوار کی مدت تک انتظار اور اس میں رجوع کی اجازت دے اور آیت (229) میں اس سے متضاد بات کرے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق ہوتو رجوع کی گنجائش نہیں ؟۔ قرآن کا یہ چیلنج ہے کہ ” اگر قرآن کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف (تضادات) وہ پاتے”۔ مخالفین ایک تضاد ثابت نہیں کرسکے تھے لیکن علماء ومفتیان ان دونوں آیات میں جس طرح کا تضادبتاتے ہیں تو بقول علامہ اقبال کے کہ اللہ تعالیٰ، جبریل اور حضرت محمدۖ بھی حیران ہونگے کہ یہ وہ اسلام تو نہیں ہے جو اللہ نے جبریل کے ذریعے نبیۖ پر نازل کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک ایک آیت میں جاہلیت کا قلع قمع کردیا ہے۔ جب جاہلیت میں ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا تصور تھا اور ایک طلاق کے بعد عدت میں بار بارغیرمشروط رجوع کا حق تھا۔ شوہر عورت کو طلاق دیکر عدت میں بار بار رجوع کرسکتا تھا تو اللہ نے ایک تیر سے جاہلیت کے دونوں مسائل کو شکار کردیا۔ عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کا حق دیدیا تو ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کی بات ختم کردی اور جب رجوع کو صلح واصلاح سے مشروط کردیا تو پھر اس بگاڑ کا مکمل خاتمہ کردیا کہ بار بار عدت میں رجوع کی اجازت تو بہت دور کی بات ہے صرف ایک بار طلاق کے بعد بھی شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔
اگر شوہر بیوی کو طلاق دئیے بغیر ناراض ہو تو بھی عورت کی رضامندی کے بغیراللہ نے شوہر سے رجوع کا حق چھین لیا ہے۔ البتہ ناراضگی میں عدت تین ماہ کی جگہ چار ماہ ہے اور اللہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ جب ناراضگی میں طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ کی پکڑ ہے اسلئے کہ عورت کو عدت تین ماہ کی جگہ چار ماہ گزارنی پڑتی ہے ایک ماہ بلاوجہ انتظار کی اذیت دینے پر اللہ نے پکڑ کا فرمایا جو آیات (225،226اور227) البقرہ میں بھرپور طریقے سے واضح ہے۔
آیت (224) البقرہ طلاق کا مقدمہ ہے کہ” اللہ کو صلح میں رکاوٹ نہ بناؤ”۔ آیت (230) کے سیاق وسباق کو دیکھا جائے تودماغ کی بندگرہ بھی کھل جائیگی۔ قومی اسمبلی میں حلالہ سے چھٹکارے کیلئے اورسورۂ نور کی آیات کا بل پیش کردیا جائے تو عالمی فورم پر وزیراعظم بات کرسکے گا۔ہماری خدمات حاضر ہیں۔ جب اسلام کی طرف مسلمانوں کا رجوع ہوتو مدینہ کی ریاست کا ماحول بن جائے گا۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

فان طلقھا فلاتحلّ لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ…”پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے،پھر اگر اس نے طلاق دی تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں اگر رجوع کرلیں جب

دونوں کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے، یہ اللہ کی حدود ہیں جو ایسی قوم کو واضح کئے جاتے ہیں جو سمجھ رکھتے ہیںOاور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ

جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روکویا معروف طریقے سے چھوڑ دو،اور ان کو اسلئے مت روکو تاکہ ضرر پہنچاؤ،جس نے ایسا کیا تو اپنے نفس پر ظلم کیااور اللہ کی آیات کو کھیل مت بناؤ….

قارئین ،علماء کرام اور مفتیانِ عظام! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
سورۂ بقرہ کی آیات(230) اور(231)کے الفاظ پر اللہ کی محکم آیات پر تھوڑا سا غور کر نا اورالقائے شیطانی کو بھی مدنظر رکھناتو معاملہ بہت واضح ہوجائے گا۔ پچھلی آیات میں القائے شیطانی سے انکار کی گنجائش نہیں اور جب اس تسلسل کو دیکھا جائیگا تو یہاں بھی شیطانی القاکا پتہ چلے گا۔اللہ تعالیٰ نے آیت (230) میں بہت واضح انداز میں فرمایا ہے کہ ” پھر اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے ، پھر اگر اس نے طلاق دیدی تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اگر یہ گمان رکھیں کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے وہ واضح کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں”۔
سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم اس آیت میں اس طلاق کو پہلی دومرتبہ طلاق کیساتھ شامل کرتے ہیں۔ علامہ جاراللہ زمحشری نے اپنی تفسیر کشاف میں لکھ دیا ہے کہ عقل اور شریعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تیسری طلاق سے پہلے کی دو مرتبہ طلاق الگ الگ واقع ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ تینوں طلاقیں الگ الگ مراحل سے تعلق رکھتی ہوں۔ امام ابوبکر جصاص رازی حنفی نے احکام القرآن میں طلاقِ سنت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ الگ الگ مراحل میں طلاق کے بغیر چارۂ کار نہیں ہے کیونکہ یہ دو درہم کی طرح نہیں ہیں بلکہ طلاق فعل ہے جس طرح دو کھانے ،دو حلوے اور دو روزے ایک ساتھ دو نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ الگ الگ مرتبہ ضروری ہیں اسی طرح طلاق کا فعل بھی الگ الگ مرتبہ ضروری ہے۔
مفسرین کی ضرورت اس وقت ہو گی کہ جب مسئلہ قرآن و سنت میں واضح نہ ہو۔ جب احادیث سے ثابت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق آیت (229) کے پہلے حصہ سے ہے کہ ”طلاق دومرتبہ ہے پھرمعروف رجوع یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ (3) طہروحیض میں(3) مرتبہ طلاق رسول اللہۖ نے احادیث صحیحہ میں ہے اور فرمایا کہ احسان کیساتھ چھوڑ دینا قرآن میںتیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔
آیت (229) میں تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا ذکر نہیں ہے بلکہ طلاق کے بعد عورت کے حق کا ذکر ہے کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہے وہ اب اسی کا ہے، کوئی چیز بھی اس میں سے لینا جائز نہیںہے۔ ہاں البتہ اگر ان دونوں کو یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیںگے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ ڈرہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے کہ تو شوہر کے دئیے ہوئے مال میں سے صرف وہی چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے ہونے کی وجہ سے اختلاط اور رابطہ ہوسکتا ہو اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا ڈر ہو۔
مولانا مودودی علیہ ما علیہ نے اس فدیہ کو معاوضہ قرار دیکر بہت ہی برا کیا۔ عورت کی طرف سے فدیہ کوخلع کا معاوضہ قرار دینا بہت بڑا شیطانی القاہے۔
اب آیت (229) کے بعد آیت (230) میں اس طلاق کی کیفیت کو بھی اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب عورت کو قرآن وسنت کے مطابق عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی گئی اور پھر شوہر کی طرف سے دیا ہوا مال واپس لینا حلال نہیں تھا مگر جس دی ہوئی چیز کی وجہ سے دوبارہ رابطے کا خوف تھا اور اس رابطے کی وجہ سے اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف تھا اسلئے وہ چیز بھی فدیہ کرنے میں حرج نہ ہونے کی وضاحت ہے۔یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد آیت (230) میں طلاق کی جو وضاحت ہے وہ صرف اور صرف اسلئے ہے کہ شوہر کو اگر رجوع نہیں کرنا ہو تو وہ اس کو طلاق کے بعد بھی کسی اور سے اپنی مرضی کے مطابق اجازت نہیں دیتا ۔ رحمت للعالمینۖ کی ذات کے بارے میں قرآن نے واضح کیا کہ آپ کے بعد کبھی آپۖ کی ازواج سے نکاح نہ کریں،اس سے نبیۖ کو اذیت ہوتی ہے اور یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ بہت کم لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو بیوی چھوڑنے کے بعد کسی اور کیساتھ نکاح میں تکلیف نہ ہو لیکن انسان کو بہت تکلیف ہوتی ہے بلکہ جانوروں اور پرندوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ بشریٰ بی بی کے پہلے شوہر خاور مانیکا کو بھی تکلیف ہوئی ہوگی ،اللہ ہرکسی کواس اذیت سے بچائے۔صحافی عمران خان ہمیشہ تحریکِ انصاف کی تائید کرتا تھا لیکن خاور مانیکا کے بیٹے پر فائرنگ کا نوٹس لے لیا ہے۔ آرمی چیف باجوہ کا نام لینے پر معافی مانگی تھی۔ جمہوریت بہتر نظام ہے۔
مجھے بہت زیادہ خوشی ہے کہ اصول فقہ کی کتابیں ”اصول الشاشی” اور ”نورالانوار” شیخ التفسیر استاذ حدیث مولانا بدیع الزمان صاحب نوّراللہ مرقدہ سے پڑھی تھیں۔ اصول فقہ کے پہلے سبق میں آیت (230) البقرہ حتی تنکح زوجًا غیرہ سے حدیث صحیحہ کا ٹھکراؤ ہے کہ قرآن میں عورت کو آزادی دی گئی کہ جہاں چاہے نکاح کرلے اورحدیث ہے کہ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے ”۔ قرآن کے مقابلے میں حنفی حدیث صحیحہ کو رد کرتے ہیں۔ اسلئے کہ قرآن میں عورت نکاح میں خود مختار ہے اور حدیث میں اس پر ولی کی اجازت کی پابندی لگائی گئی ہے۔
آیت (230) میں طلاق کے بعد عورت کیلئے دوسرے نکاح میں رکاوٹ اپنا ولی نہیں بلکہ سابقہ شوہر بنتا ہے۔اس سے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ عورت کسی اور کے نکاح میں چلی جائے تو پہلے کی دسترس سے وہ مکمل طور پر نکل جائے۔
ہمارے بچپن میں ہمارے عزیزوں کے مزارع خان بادشاہ کے بیٹے کریم نے اپنی بیوی کو اچانک تین طلاق دی اور پھر اس کو حلالہ کیلئے پڑوس کے گاؤں کوٹ حکیم کی مسجد کے ملا کے پاس لے گیا۔ عورت نے کہا کہ ملا سے طلاق نہیں لینا چاہتی ہے تو کریم نے اپنے رشتہ داروں کیساتھ مل کر ملا کو پیٹ ڈالا اور عورت بھی زبردستی سے لائے یا پھر اس کو زبردستی سے طلاق بھی دلا دی تھی۔
حال ہی میں بنوں کی سوشل میڈیا پر دو فریق کی طرف سے ایکدوسرے پر الزامات لگائے گئے ۔ دوبئی سے شوہر نے طلاق دی تھی اور پھر مولوی سے فتویٰ لیکر اس عورت کیساتھ زبردستی حلالہ کیا گیا، جس پر مولوی کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ وہ مولوی وہاں کی معروف شخصیت، مدرسے کا مہتمم اور ختم نبوت کاامیر تھا۔
یہ واقعات اسلئے لکھ رہا ہوں تاکہ قرآن کی آیت کے حکم کی روح سمجھنے میں بہت آسانی ہو۔ کیا زبردستی سے حلالہ کرنے سے وہ عورت پہلے شوہر کیلئے حلال ہوسکتی ہے؟۔ عورت آزادی مارچ ”میرا جسم میری مرضی” کی سرخیل پختون خاتون محترمہ عصمت شاہجہاں ہے۔ عوامی ورکر پارٹی کومذہب سے نفرت ہے لیکن مذہب کا کردار کتنا اہم ہے ؟ ۔ اس کو سمجھنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
کیا آیت (230) میں پہلی بار عورت کو مرد کے چنگل سے آزادی دلانے میں اتنا اہم کردار ادا کیا گیا ہے؟۔ نہیں ہرگزہرگز نہیں۔ آیت (226) میں عورت اور اسکے شوہر میں ناراضگی ہوجائے تو جب تک عورت راضی نہ ہو تو شوہر عدت میں بھی اس پر زبردستی نہیں کرسکتا ہے۔ آیت (230) میں بہت ہلکا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ شریعت کی روح یہ ہے کہ اگر عورت ناراضگی کے بعد راضی نہ ہوجائے تو اس پر زبردستی مسلط کرنا حرام ہے۔ جس طرح کسی اجنبی عورت کیساتھ زبردستی کا کوئی تصور نہیں ہے اسی طرح سے اپنی بیوی کیساتھ عدت میں بھی زبردستی سے ازدواجی تعلقات اور نکاح کی بحالی قطعی طور پر حرام ہے۔ آیت (228) میں بھی زبردستی سے تعلق کی بحالی حرام ہے اور اصلاح کی شرط کیساتھ صلح کرنے کی اس میں وضاحت ہے۔ آیت (229) میں بھی معروف طریقے سے ہی رجوع کی اجازت ہے۔ زبردستی سے اس میں بھی رجوع کرنا ایسا حرام ہے جس طرح کسی اجنبی عورت کو زبردستی سے مجبور کرنا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی آیات (52،53اور54) میں القائے شیطانی کی وضاحت فرمائی ہے۔ آیت (230) سے تیسری طلاق مراد لینا اور اس کیلئے یہ کہنا کہ ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے اگر دو طلاق کے بعد فوری طور پر تیسری طلاق دیدی تو پھر عورت حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے۔ اگر ف تعقیب بلا مہلت فان طقہا میںنہ ہوتی تو پھرتین الگ الگ مرتبہ طلاق ہوتی۔ بریلوی مکتب کے معتبر عالم دین شیخ التفسیر والحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ لکھ دیا ہے۔ حالانکہ نورالانوار میں حنفی مؤقف یہ لکھاہے کہ” ف تعقیب بلامہلت کی وجہ سے اس طلاق کا تعلق فدیہ دینے کی صورت سے ہے۔ پہلے دو مرتبہ طلاق کیساتھ نہیں ہوسکتاہے”۔
بریلوی دیوبندی دونوں حنفی ہیں اور دونوں مکتبۂ فکر مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں تو صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلام کا ڈنکا بجے گا۔ القائے شیطانی سے وہ لوگ زیادہ متأثر ہیں جنکے دلوں میں حلالہ کی حلاوت کا مرض تھا۔ بہت سارے علمائِ حق نے اس طرف دھیان بھی نہ دیا اور یہ سمجھ لیا کہ بس اللہ کا حکم ہے تو ایمان پر ہماری عزتیں بھی قربان ہوں۔ بہت لوگوں نے اس نیک نیتی سے حلالہ کی لعنت کو جواز بخشا کہ اگردو خاندان اور بچوں کے ماں باپ اس کرب سے گزرنے کے باوجود بھی اکٹھے ہوں تو یہ بہت بڑی غنیمت ہے۔ نیکی نیتی سے اجتہادی خطاء پر نیکی بھی ملتی ہے لیکن حق واضح ہونے کے بعد شیطانیت ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت (231) میں پھر اللہ نے یہ واضح کیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے اللہ نے رجوع سے نہیں روکا ۔کیایہ ممکن ہے کہ قرآن میں اتنے سارے تضادات ہوں؟۔ اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اوراللہ کی اس نعمت کو یاد کرو ،جو اس نے تمہارے اوپر کی ہے اور جو اللہ نے کتاب میں سے احکام نازل کئے ہیں اور حکمت عطاء کی ہے۔ ہم نے نہ تو اس کی نعمت عورت کی عزت کا خیال رکھا اور نہ رجوع سے متعلق کتاب کی ان آیات پر غور کیا اور نہ اپنی ذہنی صلاحیت حکمت سے کام لیا۔ جس کی وجہ سے تنزلی اور بربادی کا شکار ہوگئے ہیں۔عوام نے قرآن کے حکم لعان کو پہلے قبول نہیں کیا تھا مگر اب شیطانی القا حلالہ کی لعنت کو ٹھکرانے میں بالکل دیر نہیں لگائیںگے۔
سورۂ بقرہ کی آیت (230) سے پہلے کی آیات (228اور229) اور بعدکی آیات (231اور232) دیکھ لی جائیں تو معاملہ بالکل واضح ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے اللہ نے رجوع کی گنجائش حلالے کے بغیر باقی رکھی ہے۔سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی اس کا خلاصہ موجود ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں نبیۖ نے مرحلہ وار تین طلاق کے باوجود سورۂ طلاق کی آیات پڑھ کر رجوع کا حکم دیا۔
رفاعة القرظی نے جس عورت کو طلاق دی تھی تو صحیح بخاری کی تفصیلی روایت میں ہے کہ اس کو دوسرے شوہر نے بہت سخت مارا تھا، حضرت عائشہ نے اس کے جسم پر نیل پڑنے کے نشانات دیکھے، اس نے کہا تھا کہ اس کا شوہر نامرد ہے اور اسکے شوہر نے اسکے دعوے کو غلط قرار دیا تھا اور اپنے دو بچوں کو بھی ساتھ لایا تھا۔ بعض اوقات وقتی طور پر میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا ہے اور عورت جھوٹے الزام لگاکر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن انکے مفاد میں علیحدگی نہیں ہوتی ہے اسلئے یہ فیصلہ کرنا مصلحت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ ماردھاڑ کی شکایت بھی ختم ہوجائے میاں بیوی بھی ایک ساتھ خوشی خوشی زندگی گزاریں۔ میرے ساتھیوں میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ پہلے عورت کو طلاق دیکر فارغ کیا تھا اور پھر عورت نے پشیمان ہوکر رجوع کرنے کیاتھا۔ مفتی قرآن وحدیث کا غلط حوالہ دیکر فتویٰ دیتے ہیں۔
احادیث کی کتب فقہی مسالک کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔ شیطانی القا کی ایک زبردست مثال صحیح بخاری میں علماء کا یہ اجتہاد ہے کہ حرام کے لفظ سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی اور طلاق میں حرام کا حکم کھانے پینے کی اشیاء کی طرح حرام ہونا نہیں ہے۔ اصول فقہ کی کتابوں میں بعض صورتوں تیسری طلاق کا پڑجانا اور پہلی دو طلاق کا واقع نہ ہونا بھی لکھا ہے۔ القائے شیطانی سورۂ نجم کے حوالے سے جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہونے میں نہیں مل سکتی ہے بلکہ جس طرح مذہبی طبقے نے واضح آیات کے مقابلے میں بقول مولانا انورشاہ کشمیری کے معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے ، یہی معنوی تحریف القائے شیطانی ہے اور اہل علم کو سورۂ حج کی آیت (53) میں حلالہ کے مرض کا شکار ہونے والوں کا راستہ روکنے کیلئے آیت (54) الحج کے مطابق اپنا زبردست کردار ادا کرنا پڑے گا۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

جب ان غلیظ لوگوں سے عوام کی عزتیں حلالہ سے لٹوادیں تب تمہیں ہوش آیاہے؟

لایؤاخذکم…”تمہیں اللہ لغو عہدوپیمان پر نہیں پکڑتا مگر جو تمہارے دِلوں نے کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے اور اللہ غفور حلیم ہےOجو لوگ اپنی عورتوں سے نہ ملنے کا عہد کریں توان کیلئے چار ماہ ہیں،اگر آپس میں مل گئے توبیشک اللہ غفور رحیم

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہےOاور اگر انکا عزم طلاق کا تھا تو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہےOاور طلاق والی عورتیں اپنی جانوں کوتین مراحل تک انتظار میں رکھیں اور ان کیلئے حلال نہیں کہ چھپائیں جو اللہ

نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہر اس میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگروہ اصلاح کرنا چاہیں…………O

سورۂ بقرہ کی آیات(224)کے بعد پھر (225،226،227اور228) کو ایک نظر فقہ میں موجود القائے شیطانی کی عینک اتار کر دیکھ لیں۔جب سکول کالج یونیورسٹیاں ،مدارس اور جامعات کا کوئی تصور نہیں تھا تب اللہ تعالیٰ نے ان پڑھ لوگوں کو بھی ان کے ذریعے سے رشدوہدایت کے اعلیٰ درجے پر پہنچایا تھا۔
جب آدمی بیوی کے پاس نہ جانے کیلئے کسی قسم کا بھی کوئی عہد کرتا ہے تو پھر مذہبی بنیاد پر سوچتا ہے کہ عورت سے صلح کرنا حرام تو نہیں ہے؟۔ اللہ نے اس وجہ سے حفظ ماتقدم کے طور پر فرمایا کہ اللہ کو اپنے عہدوپیمان کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی ،تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح نہ کراؤ۔ جس طرح نیکی اور تقویٰ سے پہلوتہی برتنے کیلئے مذہب کا استعمال منع کیا گیا ہے ،اسی طرح سے میاں بیوی میں بھی صلح کا دروازہ بند کرنے کیلئے اللہ نے اپنی ذات اور مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ مرد اور عورت خود اپنے لئے کوئی ایسا عہد کریں کہ آپس میں صلح نہ کریں گے اور دوسرابھیانک درجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ یہ فتویٰ سازی کریں کہ ا ب میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ قرآن کی آیات بالکل واضح ہیں۔
عورت کو صلح کا فتویٰ نہ دینے پر کتنی اذیت پہنچتی ہے؟ ۔ اس کا اندازہ قرآن کی سورۂ مجادلہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جاہلیت میں ایک مذہبی رسمی فتویٰ یہ بھی تھا کہ شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تو وہ حرا م سمجھی جاتی تھی۔ اس شیطانی القا کو اللہ نے واضح کردیا تو فقہاء نے مسائل گھڑے دئیے کہ اگر وہ بیوی کی ران، اگاڑی اور پچھاڑی کو ماں کی …..سے تشبیہ دے تو پھر کیا حکم ہوگا؟ اور ان شیطانی القاؤں کو پھر مذہب کے نام سے دل کے مریضوں اور حلالہ کے ذوق اور ذائقہ سے آشنا لوگوں نے لوگوں میں اپنا اقتدار قائم کرنے کیلئے بعثت کا درجہ دے دیا۔ آج اگرعلماء سوء کا اقتدار ہوتا تو مجھے کربلا کی طرح شہید کیا جاتا۔
یہ شکر ہے کہ ان مذہبی لوگوں کے ذاتی مفادات مذہب سے وابستہ ہیں ورنہ تو وہ لوگوں کو ورغلاتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہمارے آباء واجداد پارسی اور ہندو تھے ،ہم بھی سید عتیق الرحمن گیلانی کے نانا رسول اللہ ۖ کے دین اور قرآن کو چھوڑ کر دوبارہ اپنے آباء واجداد کے مذہب کی طرف لوٹنے کا اجتماعی فیصلہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی کید کے جال میں پھنسا دیا ہے۔
فتاوی قاضی خان ، فتاویٰ تاتارخانیہ اور ہندوستان وکوئٹہ کی خدمات سے چھپنے والے فتوے میں جس طرح میاں بیوی میں شرمگاہ کے حوالے سے بیہودگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلاق اور لونڈی کی آزادی کو یمین قرار دیا گیا ہے تو اس کی وجہ سے مجبوری میں یمین کا اصلی اور صحیح مفہوم نقل کرنے کیلئے اخلاقی تباہی والا فتویٰ نقل کرنا پڑا تھا۔ تاکہ علماء ومفتیان پر اتمام حجت ہو اور عوام بھی حقائق تک پہنچ جائیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، خطرہ ہوتا ہے، جس طرح ہماری ریاست کو گھر کے بھیدی نوازشریف اینڈ کمپنی سے خطرہ ہے ،اسی طرح ہم سے مدارس کے نظام کو بھی خطرہ ہے اسلئے ہم پر ایجنسیوں کے ایجنٹ کا الزام لگا کر ہماری تحریک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہم ایجنٹ تو کسی کے نہیںمگر خیرخواہ سب کے ضرور ہیں اسلئے کہ نبیۖ نے فرمایاکہ”دین خیرخواہی کا نام ہے”۔
آیت(225) میں اللہ نے واضح فرمایا کہ ” اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا ہے مگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے اس پر پکڑتا ہے”۔ یہاں پر شیطان اپنی القا سے پھر فقہاء اور مفسرین کو تباہی کے راستے پر لے گیا۔ طلاق کی بات کو چھوڑ کر قسم اور حلف کی بحث شروع کردی۔ قسم کی اقسام بنادئیے اور سورۂ مائدہ کی آیت اور سورہ بقرہ کی آیت پر اختلافات کے انبار لگادئیے۔ اگر اصول فقہ میں نصاب کی کتابوں سے بحث کا خلاصہ پیش کیا جائے تو جذباتی لوگوں کو قابو رکھنا مشکل ہوگا اسلئے کہ ایسی واہیات قسم کی بکواس کسی بھی عقل والے کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے اور لوگ مارپیٹ اور لوٹ مار کیلئے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
حالانکہ جب اَیمان (عہدوپیمان) سے حلف مراد ہو تو یہ قسم ہے اور اس پر کفارہ بھی ہے لیکن اگر حلف مراد نہ ہو تو پھر کفارہ نہیں ہے۔ قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابوں میں مسائل واضح ہیں لیکن بہت الجھاؤ بھی پیدا کیا گیا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ علماء کرام اور مفتیانِ عظام وقت سے پہلے اقدام اٹھالیں ورنہ تو مفتی تقی عثمانی کو عالمی اداروں کی طرف سے تحفظ اور پناہ کی امید ہوسکتی ہے لیکن عام علما کرام اور مفتیان عظام بیچارے آزمائش اور مشکل میں کیا کرینگے؟۔مجھے یہ خطرہ ہے کہ ہمیں بھی مار پڑے گی کہ کھل کر سب کچھ کیوں نہیں بتایا؟۔ جب ان غلیظ لوگوں سے عوام کی عزتیں حلالہ سے لٹوادیں تب تمہیں ہوش آیاہے؟۔اس میں شک نہیں ہے کہ ہم آہستہ آہستہ دھیمے طریقے سے اپنی تحریک چلانے کا جرم بھی سمجھتے ہیں۔ دو ٹوک انداز میں عوام سے توقع نہیں تھی کہ وہ حق قبول کرینگے یا پھر ہمیں ماریںگے اور دوسرا یہ کہ علماء کو علمی انداز میں سمجھانابھی ضروری تھا۔
مندرجہ بالا آیت میں الفاظ کے معانی بہت واضح ہیں۔ لغو الفاظ کا تعلق بھی طلاق سے ہی ہے۔ جسکے مقابلے میں دل کے گناہ پر پکڑنے کی وضاحت ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ لغو الفاظ پر اللہ کی طرف سے پکڑ نہیں ہے لیکن اگر بیوی نے پکڑنے کا پروگرام بنالیا تو وہ پکڑ سکتی ہے ۔ طلاق اور خلع میں حقوق کا فرق ہے۔ شوہر طلاق دے تو عورت کے مالی حقوق بہت زیادہ ہیں اور اگرعورت خلع لے تو پھر عورت کے مالی حقوق کم ہوجاتے ہیں اسلئے اگر عورت طلاق کے الفاظ کا دعویٰ کرے اور شوہر انکار کردے تو پھر گواہی اور شواہد پر فیصلہ ہوگا ۔اگر شواہد سے طلاق کی بات جھوٹی نکلے ، عورت کے پاس گواہ نہ ہوں وغیرہ تو پھر اس پر خلع کا اطلاق ہوگا۔ اس حوالے سے فقہاء نے ایسے بکواس مسائل ایجاد کررکھے ہیں کہ اگر طالبان خیر کی حکومت قائم ہوجائے تو ان تعلیمات کو پڑھانے والوں پر ڈنڈے توڑنا شروع کرینگے کہ ایسے غلیظ گھڑے ہوئے مسائل پڑھاتے ہو؟۔
آیت(226) میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ اگر شوہر نے طلاق کا اظہار کئے بغیر بیوی سے ناراضگی جاری رکھی تو یہ نہیں ہوگا کہ ایام جاہلیت کی طرح عورت کو زندگی بھر بٹھاکر رکھا جائیگا بلکہ طلاق کے اظہار کی صورت میں اس کے انتظار کی عدت تین ادوار یا تین ماہ ہے تو طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہوگا۔ چناچہ چار ماہ تک عدت ہوگی اور اگر اس میں یہ لوگ آپس میں راضی ہوگئے تو اللہ غفور رحیم ہے لیکن اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو پھر آیت (227) میں اللہ نے سمیع اور علیم کے ذریعے خبردار کیا ہے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر اللہ پکڑے گا اسلئے کہ عورت کو ایک ماہ زیادہ انتظار کروایا ہے۔
اگر قرآن کی واضح آیات سے امت مسلمہ کو رہنمائی فراہم کی جاتی تو ہماری خواتین دنیا بھر میں اپنے حقوق پر بہت خوش رہتیں۔ ناراضگی کی حالت میں چار ماہ کا انتظار کوئی بڑی بات نہیں لیکن یہ طلاق کے حوالے سے انتظار کی عدت ہے اور اگر عورت خلع لے تو صحیح حدیث میں خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ خاتون اول بشریٰ بی بی پر تحریک انصاف کے ایم این اے (MNA) ڈاکٹر عامر لیاقت ، جیو ٹی وی اور مولانا فضل الرحمن نے عدت میں شادی کرنے کا الزام لگایا۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ ”اگر میرا مسلک حدیث صحیحہ کے خلاف ہو تو اس کو دیوار پر دے مارو”۔ جب میدان لگے گا تو مجھے یقین ہے کہ فقہ حنفی کے مسلک کو جھوٹ پر مبنی قرآن وسنت کے خلاف بنانے والے دُم دباکر بھاگیں گے اور انکے مسلک کو دیوار پر نہیں پیچھے سے دبر پر مارا جائے گا۔ وہ وقت اب قریب دکھائی دیتا ہے۔
قارئین کو پھر تشویش ہوگی کہ ان آیات میں شیطان نے کیا القا کرکے کام دکھایا ہے؟۔ تو عرض یہ ہے کہ ناراضگی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے چار ماہ انتظار کی مدت رکھی ہے۔ فقہ حنفی والے کہتے ہیں کہ چار ماہ گزرتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی۔ پھر میاں بیوی کا آپس میں تعلق حرام کاری ہوگا۔ جمہور فقہاء ، علامہ ابن قیم، اور اہلحدیث کہتے ہیں کہ جب تک طلاق کا اظہار نہ ہو توزندگی بھر میں بھی طلاق نہیں ہوگی۔ اس بڑی تضاد بیانی کی بنیاد یہ ہے کہ حنفی کہتے ہیں کہ شوہر جب چار ماہ تک قسم کھانے کے بعد نہیں گیا تو شوہر نے طلاق کا حق استعمال کرلیا ہے ،اسلئے عورت کوطلاق ہوگئی۔ جمہور کہتے ہیں کہ اگر طلاق کا عزم بھی کرلیا لیکن جب تک زبان سے طلا ق کا اظہار نہیں کرے گا تو مرد نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے عورت کا نکاح بدستو ر باقی رہے گا۔ اسلئے اتنا بڑا تضاد پیدا ہوگیا۔
قارئین کی تشویش کو ختم کرنے کیلئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اللہ نے تو یہاں عورت کا حق بیان کیا تھا،تاکہ تاعمر اور غیرمحدود انتظار کی اذیت سے محفوظ ہوجائے۔ بدبختی میں دور پڑجانے والے فقہاء نے عورت کی اذیت کو نظرانداز کردیا تھا۔ عدت کا تصور مردوں کیلئے نہیں عورتوں کیلئے ہوتا ہے۔ فقہاء نے اس کو عدت سمجھا ہی نہیں ہے اسلئے کہ دین انکے باپ کی کھیتی ہے۔ حالانکہ یہ عدت ہے اور اس انتظار میں اور عدت کے انتظار میں صرف ایک ماہ کی مدت کا اضافہ ہے۔ اگر فقہاء ومفسرین اللہ کی منشاء کے مطابق عورت کی اذیت کو مدِ نظر رکھتے تو آیت میں کسی باغیانہ اختلاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا اسلئے کہ عورت اس مدت میں انتظار کی پابند ہے اور اس مدت کے گزرنے سے پہلے باہمی رضا سے صلح کا دروازہ کھلا ہے لیکن اگر اس مدت میں بھی عورت صلح کیلئے راضی نہیں ہے تو پھر اس کو مرد اور ملا مجبور نہیں کرسکتا ہے۔اور اگر اس مدت کے گزرنے کے بعد بھی عورت صلح کیلئے راضی ہے تو پھر شریعت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔
عورت کا شوہر مرجائے تب بھی عدت کے بعد قیامت تک اس کا نکاح بھی باقی رہتا ہے لیکن اگر عورت بیوہ بننے کے بعد عدت ختم ہونے پر دوسرے سے نکاح کرنا چاہے تو وہ آزاد ہے۔ حکومت پاکستان کا قانون بھی یہ ہے لیکن فقہاء نے ایک طرف میاں بیوی میں سے ایک کے فوت ہونے کے بعد ایکدوسرے کیلئے اجنبی قرار دیا ہے کہ شکل نہیں دیکھ سکتے اور دوسری طرف عین الھدایہ میں لکھا ہے کہ میت مرد کی چیز کا حکم لکڑی کاہے ہے اگر عورت اپنے آگے اور مرد میت کی چیز کو اپنے پیچھے سے ڈال دے تو غسل نہیں ہے۔ العیاذ باللہ
فقہاء کے بلوپرنٹ مسائل کا ذوق دیکھ لو۔ کس طرح سے یہ اپنی کتابوں کو حلالہ کی لعنت کے مزے لینے کیلئے مزین کیاہے؟ ۔ حلالہ کو توکارِ ثواب تک بھی قرار دیا ہے اور مفتی عطاء اللہ نعیمی نے اپنی کتاب میں حلالہ کی وجہ سے نبی ۖ پر بھی بہت شدید حملہ کیا ہے اور نشاندہی کے باوجود بھی کتاب کوپھر چھپوایا ہے۔
جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت(228) میں طلاق سے رجوع کیلئے باہمی رضامندی کی شرط پر جاہلیت کا قلع قمع کردیا۔ فقہ حنفی کے مزاج اور اصول کی روشنی میں اس آیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ بالکل بھی نہیں بنتا ہے۔ اور ایک طلاق کے بعد بھی شوہر کو یکطرفہ طور پر رجوع کا حق نہیں مل سکتا ہے۔ قرآن میں دونوں باتیں بالکل واضح ہیں لیکن اگر اس سلسلے میں شیطانی القا سے الٹے سیدھے مسائل کے انبار دیکھ لیں تو قارئین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ شوہر چاہے تو ایک بار طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے۔ پھر طلاق دے اور عدت کے آخر میں ہی رجوع کرلے اور اس طرح تیسری بار اپنا یہ حق استعمال کرلے جو اللہ نے اس کو نہیں دیا ہے لیکن فقہاء نے شیطانی القا سے اس کو دیا ہے۔ تو عورت عدت کے تین ادوار گزارنے پر مجبور ہوگی۔ علاوہ ازیں یہ کتنی بھونڈی بات ہے کہ اللہ نے تو عدت میں باہمی رضامندی سے رجوع کا حق دیا ہے مگر مولوی شیطان لعین کی بات مان کر عدت تک انتظار اور حلالے کی لعنت کا فتویٰ دیتا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے اور قرآن کی آیت کے منکر ہیں وہ حلالہ کے نام پر خدمات جاری رکھ رہے ہیں اور جو اہل علم ہیں ،انہوں نے اللہ کی محکم آیات کی وجہ سے ابھی حلالہ کی لعنت کے فتوے چھوڑ دئیے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کے دارالعلوم کراچی میں بھی وہ خدا ترس ہیں جنہوں نے اپنے طور پر اللہ کے احکام کو جاری کرنیکی کوشش کی ہے مگر ان کی بات نہیں مانی جارہی ہے۔ سانڈ قسم کے لوگوں سے قیمتی جانوں کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ جان کو خطرہ ہو تو اللہ نے کلمۂ کفر کوبھی قابلِ معافی قرار دیا۔ جان بوجھ کر علماء ومفتیان نے ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری رکھا ہے لیکن اللہ کی ذات بہت طاقتور ہے اور وہ ان کا اچانک بڑا مؤاخذہ کرسکتا ہے ہماری کوشش سے بہت لوگ حلالہ کی لعنت سے بچ گئے ہیں۔

NAWISHTA E DIWAR March Ilmi Edition #2. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat