پوسٹ تلاش کریں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

مفتی طارق مسعود کا بیان آیا کہ ”جج کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری بیوی کو طلاق دے یہ گدھاپن ہے” فقہ جعفریہ میں شروع ہی سے یہ ہے کہ عدالت کا عورت کوخلع دینا قبول نہیں ہے ۔علامہ شبیہ رضازیدی

اللہ نے قرآن میں خواتین کے حقوق بیان کردئیے ہیں۔ آیت19النساء میں خواتین کو خلع کا حق دیا۔ خلع میں شوہر کی دی ہوئی ان چیزوں کا عورت کو حقدار قرار دیا جن کو عورت اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے مگر غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ ، دکان ، پلاٹ ،زمین وغیرہ سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ البتہ طلاق میں منقولہ اور غیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک بھی عورت ہی رہے گی،اگرچہ عورت کو بہت سارے خزانے دئیے ہوں تو بھی۔جس کی زبردست وضاحت سورہ النساء آیت20اور21میں بھرپور طریقے سے اللہ تعالیٰ نے کردی ہے۔
جس دن قرآن کے مطابق عورت کو خلع کا حق مل جائے اور اس کے ساتھ اس کے مالی حقوق بھی مل جائیں تو پاکستان، ایران اور افغانستان میں جبری حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے گا مگر جب تک قرآن کے ظاہروباطن پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ہے تو قائداعظم محمد علی جناح، امام خمینی اور ملامحمد عمربھی زندہ ہوجائیں تو جبری نظام حکومت سے عوام کو چھٹکارہ کبھی نہیں مل سکتا ہے۔ لندن کے اندرجمائما کے مال میں عمران خان کا حصہ تھا لیکن پاکستان میں عمران خان کے گھر اور جائیداد میں جمائما اور ریحام خان کا حصہ نہیں تھا؟۔یہ غیرفطری بات ہے۔
قرآن نے عورت کے مال میں شوہر کا حصہ نہیں رکھا ہے لیکن شوہر پر حق مہر کو فرض کیا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعدطلاق دے تو پورا حق مہر، گھراور تمام دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء بھی۔ اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اوردی ہوئی منقولہ اشیاء بھی۔
عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر لڑکیوں کو فروخت کردیتے ہیں اور درباری علماء ومفتیان نے نابالغ بچیوں کے نکاح کی بھی بہت خطرناک اجازت دی ہے جو انسان کی بچی کیا گدھی کیساتھ بھی یہ جائز نہیں لیکن اسلام کا ستیاناس کردیا گیا۔
ہندوستان اور پنجاب میں جہیز کے نام پر عورت کا مال بھی ہتھیا لیا جاتا ہے۔برصغیرپاک وہند ، افغانستان، ایران ، عجم و عرب میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو قرآن نے عطاء کردئیے ہیںاسلئے عورت گھرمیں ہویا بازارمیںوہ ایک ایسی جنس ہے جس کی کہیں کوئی اوقات نہیں ۔مغربی نظام بھی عورت کو اس کے وہ حقوق نہیں دے سکا ہے جو اسلام نے ساڑھے14سو سال پہلے عورت کو دئیے تھے۔ عورت کو سب سے زیادہ مذہبی طبقات نے حقوق سے محروم کیا ہے اسلئے کہ مذہبی طبقے کی طرف سے قرآن میں دئیے ہوئے حقوق کو بوٹی بوٹی کردیا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال عورت سے خلع کا حق چھین لینا ہے۔ بیوی کا زبردستی سے مالک بن جانا ہے۔عورت کو لونڈی بنانا ہے۔ عورت کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی تشدد کا قانونی حق مرد کو دینا ہے۔ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دئیے تھے لیکن پدر شاہی نظام نے نہ صرف عورت کے حقوق غصب کر ڈالے ہیں بلکہ نکاح اور اسلام کے نام پر جاہلیت سے بدتر عورت کے حقوق چھین لئے ہیں۔ پدر شاہی اور درباری علماء کا اس میں برابر کا کردار ہے۔ اسلام اجنبیت کا شکار ہونے سے معاملات جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں۔
جب جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے تھے تو پاکستان میں عورت کو عائلی قوانین میں خلع کا حق دیا گیا ہے۔ مفتی محمود پر الزام تھا کہ اس نے اس وقت جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر عورت کو حق خلع دینے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ میرے والد علماء کے قدر دان تھے۔ مفتی محمود کو بھی ووٹ دیتے تھے۔ میرے ماموں خان قیوم خان مسلم لیگ شیر کیساتھ تھے۔ ہماری سیاست پسند اور ناپسند کی حد تک تھی۔ کوئی بھی سیاسی کارکن اور رہنما کی طرح سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔سن 1970کے الیکشن میں مفتی محمود پر مفتی تقی عثمانی اس کے باپ، بھائیوں اور اساتذہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان نے بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا اور بڑی یلغار کی زد میں تھے۔ جب جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک کے مولانا نور محمد المعروف سرکائی ملا نے میرے ماموں سے کہا تھا کہ مفتی محمود نے الیکشن کیلئے بس مانگا ہے تو میرے ماموں نے کہا تھا کہ ”آپ کو دیتا ہوں لیکن مفتی محمود کو بس نہیں دینا تھا اسلئے کہ اس نے ووٹ اسلام کے خلاف ایک لاکھ میں بیچ دیا تھا”۔ آج محسن جگنو سے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ”میرے پاس وہی اثاثے ہیں جو میرے باپ نے چھوڑے ہیں۔ گزارا غیبی امداد سے ہورہاہے”۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن امیر زادے نہیں لگتے تھے مگر اب حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ مفتی محمود بہت اچھے انسان تھے اور مولانا فضل الرحمن بھی بہت اچھے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس کی مخالفت اسلئے کرتے ہیں کہ2018کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں عمران خان عسکری قیادت کے ہاتھ میں کھلاڑی سے وہ کھلونے اورکھلواڑ بن گئے تھے۔اب جب دونوں کو گلہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور گالی گلوچ اور فتوؤں کی زدوں سے نکلنے کی ضرورت ہے تو ایک پیج پر آنے میں مسئلہ نہیں ہے۔
عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے لیکن مولوی شیعہ ہو یا سنی ، حنفی ہو یا اہلحدیث اس حق کو غیر اسلامی سمجھتا ہے لیکن تمام مذہبی طبقات کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جاویداحمد غامدی ،مولانا وحیدالزمان اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک اس گمراہی کی زد میں آگئے ہیں۔ غلام احمد پرویز و دیگر جدت پسند مذہبی طبقات بھی اس گمراہی کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ علامہ تمنا عمادی بہت بڑے حنفی عالم تھے جو پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے ریڈیو پر قرآن کا درس دیتے تھے۔ ان کی کتاب ”الطلاق مرتان” نہ صرف بہت مشہور ہے بلکہ سب کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی بہت اثر انداز ہوئی ہے۔ ادریس اعوان نے اپنے نشر واشاعت کے معروف ادارے ”میزان” سے یہ ابھی شائع بھی کردی ہے۔ اس کتاب میں حنفی مسلک کے عین مطابق قواعد عربی اور اصول فقہ کی کتابوں سے یہ اخذ کیا ہے کہ ” حلالہ کی طلاق کا تعلق خلع سے ہے۔کیونکہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی عورت کرتی ہے اور پھر پشیمانی میں سزا بھی اس کو بھگت لینے میں حرج نہیں ہے”۔ ہمارے استاذمولانا سراج الدین شیرانی نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا میں غالباً اس کتاب کی تعریف کی تھی یا کسی اور عالم نے تعریف کی تھی؟۔ یہ مجھے یاد نہیں رہاہے ۔ لیکن اس کتاب کو بہت بعد میں دیکھ سکاتھا اور جب دیکھا تھا تو اس سے پہلے قرآن وسنت سے استفادہ کیا تھا اسلئے اس کا اثر بھی ویسے قبول نہیں کیا ہے جیسے معلومات کے بغیر اس سے متاثر ہوسکتا تھا۔ حنفی اصول فقہ میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک قرآن کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کا انکار۔ دوسری قرآن کے معانی کو لغت اور عقل کیساتھ جوڑنا۔ یہی ہدایت کی صراط مستقیم ہے لیکن علماء ومفتیان اس پر عمل سے محروم ہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ایک سینئر استاذ ہی نہیں تھے بلکہ ولی کامل کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ علم النحو، اصول فقہ اور قرآن کے متن وتفسیر کو سمجھنے کا رحجان انہی کے فیوضات اور برکات ہیں۔ ایک استاذ کا اپنے شاگرد کو بھی نصاب کے مقابلے میں حوصلہ افزائی کے قابل سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ مولانا بدیع الزمان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی عبدالمنان ناصر، قاری مفتاح اللہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام اور جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی کے اساتذہ کرام مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید مولانا شبیراحمد، جامعہ یوسفیہ شاہو وام ہنگو کے مولانا محمد امین شہید،توحیدآباد صادق آباد کے مولانا نصر اللہ خان ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی کے مفتی کفایت اللہ ومولانا خطیب عبدالرحمان ایک ایک استاذ کی حوصلہ افزائی میرے لئے باعث افتخار ہے۔
علماء دیوبند میں دو طبقے ہیں۔ ایک سپوت اور ایک کپوت۔ اس طرح بریلوی مکتب، اہلحدیث اور اہل تشیع میں بھی دونوں طبقات سپوت اور کپوت موجود ہیں۔ نصاب میں غلطیوں کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن کے استاذ مولانا سمیع الحق شہید کا بیان بھی ہمارے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں شہہ سرخی کیساتھ چھپ چکا ہے۔ علماء دیوبند کے سپوتوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدرنے پیشکش کی تھی کہ ”ہمارے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کو اپنا مرکز بناؤ” اورامیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا خان محمد نے فرمایا تھا کہ ” اگر مولانا فضل الرحمن کو اپنے مشن میں شامل کرلو تو بہت جلد کامیابی مل سکتی ہے”۔ میں نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ”وہ معروف ہیں اور میں مجہول ۔ اسلئے وہ میری تائید کریں تو ہمارا مشن ان کی طرف منسوب ہوگا اور اس کا میرے مشن کو نقصان پہنچے گا” ۔جو ان کو بہت اچھا لگا اور میری عزیمت کو انہوں نے بہت داد بھی دی اور دعا بھی دی تھی۔ مولانا سرفراز صفدر نے فرمایا تھا کہ ”تیری پیشانی سے لگتا ہے کہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگے”۔ پروفیسر شاہ فریدالحق جنرل سیکرٹری جمعیت علماء پاکستان اورپروفیسر غفور احمد جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اور مولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہل حدیث پاکستان اور علامہ طالب جوہری اہل تشیع کے علاوہ سبھی فرقوں اور جماعتوں نے ہماری تائیدات کردی تھیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیر شریف، مولانا محمدمراد سکھر ، مولانا عبداللہ درخواستی اور پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی تائیدات ہمیںملی ہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو بھی ہماری کوشش تھی اور اس سے پہلے نوازشریف کی حکومت تھی تو بھی ہماری کوشش تھی اور مسلم لیگ ن کے مشاہداللہ خان کا حلالہ کی لعنت پرزبردست بیان بھی ہمیں ملا تھا جو ہم نے چھاپ بھی دیا تھا۔
جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں حضرت مفتی حسام اللہ شریفی شیخ الہند کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے باپ مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود و غیرہ بھی مولانا غلام رسول خان ہزاروی کے شاگرد تھے۔ مولانا مودودی کے استاذ مولانا شریف اللہ بھی مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے اور دونوں اکٹھے مولانا شریف اللہ سے ملنے بھی ایک دفعہ گئے تھے۔ میں نے اپنی کتاب ” تین طلاق کی درست تعبیر” میں بھی عورت کے حق خلع کو واضح کیا ہے جس کی تائید مفتی حسام اللہ شریفی اور شیعہ مفسر قرآن مولانا محمد حسن رضوی نے بھی کی ہے۔
جب8عورت مارچ کو اسلام باد، کراچی، لاہور وغیرہ میں طاہر ہ عبداللہ، فرزانہ باری، ہدی بھرگڑی اور دیگر منتظمین نکلیں تو ”بشری بی بی ” کے کیس کو قرآن وسنت کی روشنی میں اٹھائیں۔ جس سے نہ صرف بشری بی بی بلکہ عدالتوں میں خلع کے نام پر رلنے کے بعد بھی مولوی کی طرف سے طلاق کا فتویٰ نہ ملنے کی وجہ سے خواتین کو زبردست چھٹکارا مل جائے گا۔ عورت کا مسئلہ ایک دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کے مسائل ہیں۔ قرآن و سنت کو مذہبی طبقات نے روند ڈالا ہے اسلئے ان کو قیامت تک پذیرائی نہیں مل سکتی ہے۔اب مذہبی طبقہ بھی عورت کیساتھ کھڑا ہوگا۔
اسلام نے مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے ۔ جب مولوی عورت کے اس حق کو نہیں مانتا ہے تو اس کی گمراہی انسانی فطرت سے نکل کر جانور سے بھی بدتر حالت پر پہنچ جاتی ہے۔
مثلاً ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق!۔ پھر اس کی بیوی کو فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اب شوہر کیلئے تم حرام ہو۔ لیکن اگر شوہر انکار کرتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی توپھر عورت خلع لے ، خواہ اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت کو چاہیے کہ شوہر جب اس سے اپنی خواہش پوری کرے تو لذت نہیں اٹھائے بلکہ حرام سمجھ کر اس کے سامنے لیٹی رہے۔
یہ مسائل فقہ کی کتابوں میں رائج ہیں اور اس پر فتوے بھی دئیے جاتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ”حیلہ ناجزہ” میں بھی اس کو لکھ دیا ہے۔ بریلوی بھی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔
جب عورت کو خلع کا حق حاصل نہ ہو تو پھر اس کے نتائج بھی بڑے سنگین نکلتے ہیں۔ میری کتاب ” عورت کے حقوق” کے مسودے کی مفتی زرولی خان نے تائید کی تھی تو میں ملاقات بھی کرلی تھی اور ان سے ملاقات کے بعد کتاب میں تھوڑا اضافہ بھی کیا تھا۔ جس میں اسلام کی اجنبیت کو مزید واضح کیا تھا اور کتاب کی اشاعت کے بعد کتاب بھی ان کو بھیج دی تھی لیکن ان سے دوبارہ طے ہونے کے باوجود ملاقات نہیں ہوسکی اسلئے کہ وہ اچانک دار فانی سے کوچ کرگئے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں اوران کی تائیدبھی اخبارمیں شائع کی تھی۔ جب مفتی تقی عثمانی نے ان پر دباؤڈال دیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ طلاق سے رجوع کیلئے اپنے پاس آنے والے افراد کواہلحدیث کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ خلع و طلاق کے مسائل بہت بنیادی نوعیت کے ہیں۔
علامہ شبیراحمد عثمانی کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن دیوبند کے رئیس دارالافتاء تھے اور ان کے فرزند مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ”ندوہ دارالمصفین ” کی بنیاد1938میں رکھی تھی۔ پھر انہوں نے1964میں جمعیت علماء ہند سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جس میں سبھی مسلمان فرقوں کے اہم نمائندے شامل تھے۔ ”تین طلاق ” کے مسئلے پر1973میں احمد آباد میں سیمینار منقعد کیا تھا جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی۔ اس سیمینار میں دیوبندی ،جماعت اسلامی اور بریلوی علماء کے نمائندوں نے اپنے مقالے پیش کئے تھے۔ جو پاکستان سے بھی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کی بھی کتاب ” دعوت فکر” ساتھ شائع کی گئی ہے۔
شیخ الہند کے اصل جانشین ہندوستان میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی تھے اور پاکستان میں مفتی حسام اللہ شریفی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے بینکوں کے سود کو اسلامی قرار دیا جس کی مفتی محمود نے مخالفت کی تھی۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود ی بینکاری کو جواز بخش دیا جس کی مخالفت مفتی زرولی خان ، شیخ الحدیث مفتی حبیب اللہ شیخ ، مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور تحفظ ختم نبوت نمائش چورنگی کراچی کے دارالافتاء کے علاوہ پاکستان بھر سے سارے دیوبندی مدارس نے کی تھی۔ جو علماء اپنے علماء حق اکابر ین کے مشن سے روگردانی کرچکے ہیں وہ سپوت نہیں بلکہ کپوت بن چکے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی کے کاندھوں سے دیوبند کی گدھا گاڑی جوت دی جائے تو اس کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرف منسوب کرنا علماء دیوبند کی بہت بڑی توہین ہے۔ پہلے یہ توبہ کریں پھر علماء حق ہوسکتے ہیں لیکن جب تک گدھا کنویں سے نہیں نکالا جائے تو کنواں پاک نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے سے ان کو تائب ہونا پڑے گا ۔ پھر عوام میں ان کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اور انہوں اب وفاق المدارس کو بھی اپنے پیچھے لگادیا ہے۔
جب مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کاسپوت تھاتو سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پرآ ب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔مجھ سے کہا تھا کہ ” کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے جو فتوے دئیے ہیں ان کو شائع کردیں۔ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگریہ جانور کو ذبح کردیا توان کی ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے”۔چونکہ دارالعلوم کراچی کے علماء ومفتیان نے اس پر دستخط اسلئے نہیں کئے کہ اس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبارالاخیار” کا حوالہ بھی تھا جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا، جس میں لکھا ہے کہ ”جب شیخ عبدالقادر جیلانی تقریر کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام اور اولیاء عظام موجود ہوتے تھے اور نبی ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے”۔ پھر اس کتاب کے مترجم سے اپنی جان چھڑانے کیلئے مولانا سبحان محمود نے اپنا نام بدل کرسحبان محمود کردیا تھا۔ مفتی رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں حدیث نقل کی ہے کہ دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہوں گے۔ انہوں نے سیاسی لیڈر مراد لیا ہے لیکن اس سے مذہبی لیڈر مراد ہیں۔ جو ایک دوسرے کفر کے فتوے بھی مفادپرستی کی بنیاد پر لگاتے ہیں اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے بھی بدترین مرتکب ہوتے ہیں۔
عورت کے حقوق کیلئے پنجاب حکومت مریم نواز کی قیادت یہ بنیادی نکات اٹھائے تو پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے۔
نمبر1:عورت کو نہ صرف خلع کا حق حاصل ہے بلکہ عدالت میں جانے کی ضرورت بھی نہیںہے۔ شوہر اسکا خود ساختہ مالک نہیں ہے۔عورت جب چاہے شوہر کو چھوڑنے کا حق رکھتی ہے اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اور شوہر کی طرف سے دی گئی تمام وہ چیزیں بھی واپس نہیں کرے گی جو لے جائی جاتی ہیں ۔ البتہ غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ، دکان اور فیکٹری وغیرہ واپس کرنا ہوں گی اسلئے کہ خلع میں شوہر کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے۔
سورہ النساء کی آیت19میں خلع کا حکم واضح ہے اور سورہ النساء کی آیت20،21میں طلاق کے احکام ہیں۔ طلاق کی صورت میں دی ہوئی تمام چیزوں منقولہ وغیرمنقولہ گھر، باغ، جائیداد اور دئیے ہوئے خزانوں کی مالک بھی عورت ہوگی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229میں خلع نہیں طلاق کا ذکر ہے اور اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں عدت کے اندر تین مرتبہ الگ الگ طلاق ہوچکی ہو۔ دونوں کو خوف ہو اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی خوف ہو کہ اگر دی ہوئی کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جب یہ طے ہوگیا تو یہ وہی صورت ہے جس میں میاں بیوی دونوں صلح نہیں چاہتے تو ایسی صورت میں شوہر کیلئے وہ حلال نہیں رہتی جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ اس کا مقصد صرف عورت کو اپنے سابقہ شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے اور بس۔
نمبر2: خلع کی صورت میں عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے اور اس میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہے۔طلاق کی صورت میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو عدت میں رجوع کا اختیار نہیں ہے۔ بشریٰ بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تھا اسلئے ایک مہینے میں عدت پوری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس کو رجوع کا حق نہیں تھا اسلئے عدالت کا خاور مانیکا کے کہنے پر اس کے حق کو مجروح کرنے کی بات پر سزا دینا غلط ہے۔ طلاق میں بھی شوہر کو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں ہوتا ہے اور اس غلط مسئلے کی وجہ سے قرآنی آیات کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی سنگین غلطیوں کے علاوہ فقہ میں ناقابل حل مسائل بنائے گئے ہیں۔ بہشتی زیور سے لیکر درس نظامی میں پڑھائی جانیوالی کتابوں مسائل کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس گھمبیر مسئلے نے مذہبی طبقات کی فطرت کیسے بگاڑ دی ہے؟ ۔نبی ۖ نے فرمایا کہ ” انسان اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہود ونصاریٰ بنادیتے ہیں”۔ آج یہ حدیث مسلمانوں پر فٹ ہوتی ہے کہ جو لوگ مذہبی طبقات سے دور ہوتے ہیں تو ان کی فطرت سلامت ہوتی ہے اور جن کو اس مذہبی طبقے نے اپنے ماحول میں جھونک دیا ہوتا ہے جس نے یہود ونصاریٰ کی طرح اپنی انسانی فطرت کو بگاڑ دیا ہوتا ہے تو وہ حق کو قبول کرنے سے بگڑی فطرت کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔
آئندہ شمارہ انشاء اللہ8عورت مارچ پرہوگا اسلئے کہ نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ٹھوس حقائق کی ضرورت ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

خلفاء راشدین سپوت اور ذوالخویصرہ کپوت ، عبد اللہ ابن مبارک سپوت، ابویوسف کپوت، جامعہ بنوری ٹاؤن سپوت اور دار العلوم کراچی و جامعة الرشیدکپوت

رسول اللہ ۖ پر قرآن نازل ہوا ، خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت امیر معاویہ جیسے عظیم سپوتوں کے بعد سلسلہ یزید و مروان بدترین کپوتوں تک پہنچ گیا۔ ابو سفیان کے دو بیٹے تھے۔ ایک یزید بن ابی سفیان اور دوسرا امیر معاویہ بن ابی سفیان۔ یزید بن ابی سفیان تو امیر معاویہ کے مقابلے میں بھی زیادہ اچھے صحابی تھے۔ بہرحال حضرت حسن نے امیر معاویہ کے حق میں اپنی خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تو امیر معاویہ نے20سال تک بہت کامیابی کے ساتھ امارت کا نظام چلایا تھا۔ یزید سے نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید بھی عظیم سپوت تھے۔ جس نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ پھر مروان بن حکم سے کپوتوں کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری خلیفہ تک جاری رہا لیکن ان میں بھی حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت نے جنم لیا تھا۔ پھر بنو عباس میں سپوتوں اور کپوتوں نے تخت پرقبضہ کیا اور آخر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بنو عباس کی امارت ختم کردی۔ پھر سلطنت عثمانیہ سے نئی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جو1924تک جاری رہا۔ برصغیر پاک و ہند سے مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اور ہندو سکھ رہنماؤں نے خلافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ پھر تقسیم ہند کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بھی سپوت اورکپوت کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح و قائد ملت لیاقت علی خان اورپہلے دو انگریز آرمی چیف سے اب تک عمران خان و شہباز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ وحافظ سید عاصم منیر تک سپوتوں اور کپوتوں کا سلسلہ قائم ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ مشائخ و علماء حق اور علماء سوء کا بھی سلسلہ حضرت علی و قاضی شریح سے لیکر حضرت امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل سے موجودہ دور تک کے سپوتوں اور کپوتوںتک جاری ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اکابر دیوبند کے شیخ المشائخ تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی ، شیخ الہند محمود الحسن اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت ، مولانا یوسف ، مولانا شیخ زکریااور حاجی محمد عثمان تک بھی سلسلہ حق تھا۔ مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا یوسف بنوریاور مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن و دار العلوم کراچی تک کا سلسلہ ۔ مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا سراج احمد دین پوری، مولانا عبد اللہ درخواستی ، مولانا عبد الکریم بیر شریف، مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی تک سپوت و کپوت کا سلسلہ ہر میدان میں جاری ہے۔1970میں جب مشرقی و مغربی پاکستان اکھٹے تھے تو علماء حق جمعیت علماء اسلام پر ایک کفر کا فتویٰ لگاتھا جس میں سرغنے کا کردار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ نے ادا کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی وغیرہ نے علماء حق کے خلاف اس سازشی فتوے کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔
پھر1977میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود نے ذو الفقار علی بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی و قوم پرستوں کا ساتھ دیا تھا جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی نے سازش کو بھانپ کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما مولا بخش چانڈیو لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بلوچ رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ نہیں دیا لیکن ولی خان و دیگر پشتون رہنماؤں نے بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مفتی محمود نے نصرت بھٹو کے ساتھMRDکے اتحاد پر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک پر اتحاد کیا لیکن دوسری طرف جماعت اسلامی اور دار العلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینا شروع کیا۔ رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر نے جب زبردستی سے زکوٰة لینے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اس پر متفق نہیں تھے۔ مگر مجبوری میں ایک خلیفہ وقت کا ساتھ دیا تھا۔ پھر حضرت عمر نے وفات سے پہلے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ہم رسول اللہ ۖ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔ (1):زکوٰة نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا ۔(2):نبی ۖ کے بعد جانشین خلفاء کے نام۔ (3):کلالہ کی میراث کے بارے میں۔
اہل سنت کے چاروں امام امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے شریعت کا یہ حکم واضح کیا تھا کہ ”مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے”۔ حضرت عمر و حضرت عثمان کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل چکے تھے اسلئے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنے اور نہ کرنے پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اہل سنت کے چاروں اماموں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر مکمل اعتماد کے باوجود بھی اپنے اختلاف رائے سے اسلام کی حفاظت کا سامان کیا تھا۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ بہترین دور میرا ہے، پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے دور سے ملے ہوئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ عقیدہ بن گیا کہ صحابہ کرام اُمت مسلمہ کے افضل ترین لوگ ہیں۔ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین تک یہ سلسلہ پہنچتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا ہے کہ پہلی صدی ہجری تو صحابہ کرام کی ہے، دوسری صدی ہجری تابعین کی ہے اور تیسری صدی ہجری تبع تابعین کی ہے۔ ان پہلے تینوں صد ہجری میں ”تقلید کی بدعت” ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ لہٰذا چاروں مسالک کی تقلید بدعت ہے۔
علامہ ابن تیمیہ و علامہ ابن قیم نے بھی بہت پہلے تقلید سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے چاروں فقہی مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے بھی علامہ ابن تیمیہ سے متاثر ہوکر مسالک کی تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کے اردو ترجمہ پر اپنی تقریظ میں زبردست حمایت بھی کی ہے اور ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل شہید کی دوسری کتاب ”منصب امامت” کی بھی تائید فرمائی ہے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کا تعلق علامہ ابن تیمیہ کے مسلک سے ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے تھے جو تقلید ہی کی وجہ سے اپنی الگ الگ جماعت کراتے تھے۔ علماء دیوبند کے اکابر نے شاہ اسماعیل شہید کی حمایت کی تو اس وقت حرمین شریفین میں شریف مکہ کی حکومت تھی۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے علماء دیوبند پر فتویٰ لگایا کہ یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کے ماننے والے ہیں تو اس وقت کے حرمین شریفین والوں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے پر دستخط کردئیے۔ دیوبندی اکابر نے اپنی صفائی کیلئے ”المہند علی المفند” کتاب لکھی اور اس میں واضح کیا کہ ہم چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور خود حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ تصوف کے چاروں سلسلوں کو برحق مانتے ہیں اور خود مشرب چشتی سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کو بھی بہت برا بھلا کہہ کر برأت کا اعلان کیا۔
جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تھی تو قرآن نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد والے صحابہ کے اندر واضح فرق رکھا ہے۔ بدری اور غیربدری صحابہ کے اندر بھی واضح فرق تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل گئے تو حضرت عمرنے بدری صحابہ کے لئے الگ وظائف مقرر کئے اور غیر بدریوں کیلئے الگ۔ حضرت حسن اور حضرت حسین بدری صحابہ نہیں تھے لیکن اہل بیت ہونے کی وجہ سے حضرت عمر نے ان دونوں کیلئے بھی بدری صحابہ کے درجے پر وظائف رکھے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جب عرض کیا کہ مجھے بھی حسنین کی طرح بدری صحابہ کے برابر وظیفہ دیا جائے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ”وہ نبی ۖ کے نواسے ہیں آپ نہیں ہو، ان کی برابری کاسوچو بھی مت”۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے پہلا دور نبی ۖ کا ، دوسرا حضرت ابوبکر و عمر کا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا بہترین قرار دیا ہے۔ حضرت علی کے دور کو فتنے میں شمار کیا ہے جو خیر القرون میں داخل نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کے دور کو قیامت تک کیلئے فتنوں میں مثالی دور قرار دیا ہے اور میرے نزدیک نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اس لئے کہ حضرت ابوبکر کے دور میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ پھر حضرت عمر کا دور ہے جس میں مال و وظائف کے اعتبار سے طبقاتی تقسیم کا آغاز ہوگیا تھا۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور ہے جس میں خاندانی اور طبقاتی کشمکش کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں۔
جب حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تو ذوالخویصرہ نے اپنے قبیلے کے10ہزار افراد کے ساتھ دعویٰ کردیا کہ حضرت عثمان کے قاتل ہم ہیں۔ حضرت عثمان کے قاتلین دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف وہ حضرت علی کے ساتھ تھے اور دوسری طرف وہ حضرت علی کے مخالفین کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کی بیعت کرنے اور نہ کرنے والے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ حضرت امیر معاویہ نے قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کا جو مطالبہ حضرت علی سے کیا تھا اس پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔جس کی وجہ سے اہل حق کے دو گروہوں میں قتل و غارت ہوئی۔ ان میں حق پر کون تھا؟۔ یہ حضرت عمار کی شہادت سے نبی ۖ نے بتادیا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا جس کو عمارجنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے۔
حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے حضرت حسن و حسین کی طرف سے حفاظت ہورہی تھی اور محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا تھا۔ محمد بن ابی بکر بھی حضرت علی کے پالے ہوئے تربیت یافتہ بیٹے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو شک تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت میں حضرت علی کا بھی ہاتھ ہے۔ یہاں سے اُمت کی جو تفریق شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ آج تک جوں کا توں موجود ہے۔
حضرت علی کے بعد امام حسن کی خلافت قائم ہوگئی تو حسن نے امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہوکر مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائی۔ لیکن یہ پھر یزید کی نامزدگی کے بعد واقعہ کربلا سے معاملہ شروع ہوا تو یزید کی سرکردگی میں عبد اللہ بن زبیر کے خلاف مکہ میں کاروائی ناکام ہوئی۔ یزید نے اہل مدینہ کو کچل کر اہل مکہ کو بھی کچلنا چاہا تھا۔ یزید کے مرنے کے بعد یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت نشین ہونے سے دستبرداری اختیار کی تو مروان بن حکم جو بنو اُمیہ کا دوسرا سلسلہ تھا وہ اقتدار میں آگیا۔ مروان نے پھر حضرت عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کو بھی مکہ مکرمہ میں کچل دیا تھا۔ مروان کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری حکمران تک جاری رہا جن میں حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت بھی شامل تھے۔ بنو اُمیہ کے شروع دور میں مدینہ کے7مشہور فقہاء نے مسند سنبھالی جن میں حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور نواسے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ شامل تھے۔ حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو بھی بہت بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔
امام ابو حنیفہ نے بنو اُمیہ کے آخری اور بنو عباس کے شروع دور میں اپنی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے100سال بعد احادیث کی کتابیں مرتب کرنے کی اجازت دی تھی۔ جب ضعیف و من گھڑت اور صحیح احادیث کا ایک سلسلہ مرتب ہونا شروع ہوا تو امام ابو حنیفہ نے قرآن کے مقابلے میں ان احادیث کو بھی مسترد کرنے کی بنیاد رکھ دی جن کی سند بظاہر صحیح لیکن خبر واحد یعنی کسی ایک شخص کے توسل سے نقل تھیں۔
امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ امام مالک اہل مدینہ تھے۔ امام ابو حنیفہ کا تعلق فارس سے تھا۔ امام شافعی نے امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے فقہ کی تعلیم حاصل کی تھی اور امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد رشید تھے۔ ان ائمہ نے اپنے اپنے دور کے حکمرانوں سے سخت سے سخت سزائیں کھائی ہیں۔ جن کو تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے ایک شاگرد عبد اللہ ابن مبارک تھے جس کو محدثین اور صوفیاء میں بھی بہت بلند مقام حاصل تھا۔ عبد اللہ ابن مبارک اپنے اُستاذ امام ابو حنیفہ کے عظیم سپوت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاة (چیف جسٹس) کا منصب اسلئے مل گیا کہ وہ درباری تھا اور اس نے یہ گھناؤنا کام کیا تھا کہ بادشاہ کا دل جب اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو بادشاہ نے اپنے باپ کی اس لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے حیلہ تلاش کیا۔ امام ابو حنیفہ نے درباری بن کر بادشاہ کی خواہش کو پورا نہیں کیا تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہ نے واضح کیا تھا کہ اگر باپ نے لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھے ہیں تو بادشاہ کیلئے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا قطعی طور پر حرام ہیں۔ جبکہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کیلئے یہ حیلہ نکال دیا کہ لونڈی عورت ہے اور جب وہ بولے کہ تیرے باپ نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک اچھا خاصہ معاوضہ بھی طے کیا گیا۔ جب امام ابو یوسف نے حیلہ بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ صبح خزانے کا دروازہ کھل جائے گا تو معاوضہ لے لینا۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ مجھے ابھی راتوں رات وعدے کے مطابق معاوضہ دے دینا۔ میں نے بھی تمہارے لئے رات ہی کو بند دروازہ کھولا ہے۔
یہ واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء اور امام غزالی نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے تو امام غزالی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مصر کے بازار میں ان کی کتابیں جلائی گئی تھیں۔ جس کے بعد امام غزالی نے فقہ کی راہ چھوڑ کر تصوف کی راہ کو اپنالیا تھا۔ تصوف کے مشائخ اور فقہ کے علماء کے درمیان اختلافات کا بھی ایک سلسلہ ہے اور علماء نے اہل تصوف سے بیعت و سلوک کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔ امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید و خلیفہ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے علم کی بنیاد پر اختلاف رکھتا ہوں مگر عمل کی وجہ سے بیعت ہوں اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا منظور مینگل نے کہا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی واحد شخص ہیں جو علامہ ابن تیمیہ سے عقیدت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے تمام اکابر نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پنج پیری طلبہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی حال جامعہ فاروقیہ و دیگر مدارس کا بھی تھا۔ حالانکہ دونوں کا تعلق دیوبند سے تھا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے ”توحید خالص” وغیرہ کتابیں لکھ کر اکابرین پر شرک و کفر کے فتوے لگائے تھے۔ جس طرح عام دیوبندی پنج پیری طبقے کو اپنے سے الگ اور گمراہ سمجھتے تھے اس سے بڑھ کر ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتابوں سے پنج پیری الرجک تھے۔ آج خود کو بہت بڑا شیخ الحدیث ، شیخ القرآن ، جامع العلوم سمجھنے والا ڈاکٹر منظور مینگل کہتا ہے کہ میں نے ابن تیمیہ اور پنج پیری کو بڑا کافر گمراہ کہہ کر گالیاں دی ہیں مگر ابھی توبہ کرتا ہوں۔
حنفی مسلک پر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا اتحاد ہے اور درس نظامی میں فقہ ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں بھی ایک ہیں۔ ایک نصاب کے باوجود دونوں میں اختلافات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق اکبر نے جبری زکوٰة کی وصولی شروع کردی تو اہل سنت کے چاروں اماموں نے اختلاف کیا تھا۔
مالکی و شافعی مسالک نے بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا تو حنفی مسلک نے ان سے اختلاف کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو بے نمازی کے خلاف قتال بدرجہ اولیٰ بنتا ہے۔ حنفی مسلک والوں نے جواب دیا کہ جب حضرت ابوبکر کے فیصلے سے تمہارا اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں لکھ دیا کہ بے نمازی کے خلاف قتال کرنے کا حکم سورہ توبہ اور حضرت ابوبکر صدیق کے فعل سے ثابت ہوتا ہے۔ تو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں اس کو مسلک حنفی کے خلاف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی شفیع نے حنفی فقہاء کے مسلک سے انحراف کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے جب بادشاہ کیلئے لونڈی کی گواہی کو غلط قرار دینے کی بدعت جاری کردی تو ایک طرف حدیث صحیح کے خلاف زنا بالجبر میں بھی عورت کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ کے نام پر حرمت مصاہرت کا غلط پروپیگنڈہ کرکے انتہائی غلیظ مسائل کو فقہ کا حصہ بنایا گیا۔ چنانچہ اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہ کے دور میں لکھی گئی کتاب ”نور الانوار:ملاجیون” درس نظامی میں داخل نصاب ہے۔ جہاں یہ مسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”اگر ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھ لیا تو عذر کی وجہ سے معاف ہے لیکن اگر اندر کی طرف سے دیکھا تو اس سے بیوی حرام ہوجائے گی”۔
اسی طرح مفتی تقی عثمانی سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تک نے پرویز مشرف کے دور میں یہ نام نہاد غلط شرعی مسئلہ اُجاگر کیا کہ ” کسی عورت کو زبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو اگر اس کے پاس چار سے کم گواہ ہوں تو وہ زیادتی پر بھی خاموش رہے اسلئے کہ اگر تین افراد نے بھی اس کے حق میں گواہی دی تو ان سب پر بہتان کی حد جاری کی جائے گی”۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں کے سُودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کا فیصلہ کیا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ جس پر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں طلب کیا۔ دونوں نے چائے پینے سے انکار کیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں یہ نہیں لکھا تھا کہ اسکے باوجود میں نے پان کھلایا جسکے بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا۔ اور مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈال دی۔ مگر مولانا یوسف لدھیانوی نے یہ لکھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا بیانیہ بعد میں بدل دیا کہ مفتی محمود بے تکلفی میں وہ مجھ سے پان مانگ کر کھایا کرتے تھے۔

دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں

علماء حق کی یاد گار جامعہ بنوری ٹاؤن عظیم یہ شخصیات
علامہ سیدمحمدیوسف بنوریکی ایک یاد گار تقریر ماہنامہ البینات میں شائع ہوئی جو ماہنامہ نوشہ ٔ دیوارنے قارئین کیلئے شائع کی ،جو سودی نظام کے خلاف تھی ،جس میں اسلام کے معاشی نظام پر زور تھا۔علامہ بنوری کے دامادمولانا طاسین نے مزارعت پر تحقیق کا حق ادا کرکے قرآن وسنت سے اس سود کو واضح کیا۔جب سود کی حرمت پرآیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ دونوں نظام کا خاتمہ ممکن تھا اور محنت کشوں کیلئے بڑا متوازن روزگار تھا۔ اس سے محنت و دیہاڑی کا ایک مناسب معاوضہ بھی خود بخود معاشرے میں رائج ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بہاؤ ایک نعمت ہے جس سے سستی بجلی پیدا کرنے اور سستی خوراک ملنے میں مثالی مدد مل سکتی ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں یہ نظام قائم فرمایا تو پوری دنیا میں اسکا ڈنکا بج گیا۔ روم و فارس کے بادشاہوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پیغام مل گیا کہ اب دنیا میں انسان اپنی طاقت ، جاگیر اور سرمایہ کے ذریعے سے دوسرے انسانوں کو غلام نہیں بناسکتا ہے۔ آج پاکستان سے پھر پوری دنیا کو یہ میسج جائے گا تو سُودی نظام کا خاتمہ ہونے میں دیر نہ لگے گی۔

دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں

دارالعلوم کراچی وجامعة الرشید علماء سوء کی یہ یادگاریں
ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان سے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور بڑے بڑے مدارس کے علماء و مفتیان حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ سعودی عرب کے سرکاری افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی عبد الرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے ان کے خلاف الائنس موٹرز سے کچھ مالی مفادات اٹھاکر جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ اب بھی مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” میں موجود ہے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی ان فتوؤں کی سرسری روداد موجود ہے۔ ہمیں ذاتیات سے غرض نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے کتابیں چھاپ کر شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین کو سُود قرار دیا تھا اور نبی کریم ۖ پر بھی آیت کی من گھڑت تفسیر لکھ کر سُود کا بہتان لگایا تھا اور سُود کو 73گناہوں میں سے کم از کم اپنی سگی ماں کے ساتھ بدکاری کے برابر گناہ قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہوئی کہ پوری دنیا کے سُودی نظام کو حیلے بہانے سے جائز قرار دیا۔ حالانکہ سبھی علماء اور مفتیان نے ان کے خلاف متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ انتظار کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مذہبی جماعتوں نے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

مذہبی جماعتوںنے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

اس الیکشن میں جو کوئی بھی برسراقتدار آئے تو پہلے سے یہ طے کرلے کہ قرآن کے مطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو مفت کی روٹیاں توڑنے کیلئے چھوڑو

حضرت عمر نے بدری وغیر بدری، فتح مکہ سے پہلے و بعد والے صحابہ کے علاوہ حضرت حسن و حسین اور عبداللہ بن عمر کے وظائف یا تنخواہوں میں فرق رکھا تھا تو پھر ہم کیسے انگریز دور کی پیداوار طبقاتی نظام میں مراعات یافتہ طبقات کی مراعات کو ختم کرسکتے ہیں؟۔ ایک غریب کی بچی کا دوپٹہ ہوا نے سرکایا تو اسکو کوڑا ماردیا اور پھر حضرت عمر نے معافی بھی مانگ لی لیکن جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف چار افراد نے گواہی دی تو ایک کی گواہی کو ناقص قرار دیکر گورنر کی جان بخشی ہوئی اور تین گواہوں کو80،80کوڑے بھی لگائے اور پھر یہ پیشکش بھی ہوئی کہ اگر اتنا بول دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر تمہاری گواہی بھی قبول ہوگی۔ جمہور فقہاء اہل سنت کے ہاں حضرت عمر کی پیشکش درست تھی اسلئے اگر کوئی جھوٹی گواہی دیکر توبہ کرے تو پھر اس کی گواہی قبول ہوگی۔ لیکن مسلک حنفی نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآنی آیات کے خلاف قرار دیا کہ اس کے بعد جھوٹے کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی۔
چار گواہ میں واحد گواہ صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے آئندہ گواہی قبول کرنے کی پیشکش ٹھکرادی ۔ صحیح بخاری میں بھی یہ واقعات ہیں اور ان سارے گواہوں کے نام بھی ہیں۔ کیا پارلیمنٹ میں اس واقعہ اور اسکے وسیع تناظر میں حنفی اور دوسرے مسالک کے درمیان قانون سازی پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کچھ لیپا پوتی کرے تو کرے ۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا ہے کہ جس خاتون کو پکڑا گیا تھا وہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی بیوی تھی۔
جب یہود نے تورات کے احکام میںتحریف کی تو اللہ نے کہا کہ تورات کی سیدھی سیدھی باتوں پر بھی عمل نہیں کرتے۔ تورات میں جان کے بدلے جان اور اعضاء کان، ہاتھ ، دانت وغیرہ کے بدلے میں کان ہاتھ اور دانت وغیرہ ہیں اور زخموں کا بدلہ ہے۔ لیکن یہود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ طاقتور لوگ کمزور لوگوں کے اعضاء کاٹ دیتے تھے تو اس کے بدلے میں ان کے اعضاء کو نہیں کاٹا جاتا تھا۔ انصاف کا سیدھا سادہ نظام ظلم میں بدل گیا تھا۔ قرآن میں بھی تورات کے ان احکام کا ذکر ہے اور آج ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ اگر کسی غریب کے کان ، ناک ، دانت ، آنکھ کے بدلے طاقتور ظالم کے کان ، ناک ، دانت اور کان کو ضائع کیا جائے گا تو کبھی بھی کسی کے اوپر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔ علماء اور حکمران طبقے نے قرآنی احکام کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔
خاور مانیکا کے ملازم نے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر زنا کا الزام عدالت میں لگادیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کریں کہ ” اس جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس پر80کوڑے لگتے ہیں یا نہیں؟”۔ اگر لگتے ہیں تو1973کے آئین اور قرآن کے حکم پر عمل کا آغاز بھی کیا جائے۔ اور اگر زنا ثابت ہو تو قرآن کے مطابق پھر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو100،100کوڑے لگائے جائیں۔
سورہ نور میں زنا کی سزا مرد اور عورت دونوں کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ صحابی نے کہا کہ” سورہ نور کی آیات نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کی سزادی گئی یا نہیں ؟ اسکا نہیں معلوم ” ۔( صحیح بخاری) حضرت عمر نے کہا کہ ”اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کیا ہے تو سنگسار کرنے کا حکم قرآن میں لکھ دیتا”۔ (صحیح مسلم) حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور سنگسار کرنے کی آیات نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔(ابن ماجہ) ۔ قرآن کے واضح احکام کو بہت غلط رنگ دیا گیا ہے ۔پارلیمنٹ کے فیصلے ضروری ہیں۔
قرآن کی سورۂ نور میں لعان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر خاور مانیکا نے قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا ہے تو عدالت میں لعان کیا جائے اور اگر بشریٰ بی بی اس کو جھٹلا دیتی ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو قرآن کے مطابق کوئی سزا نہیں ہوگی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ زنا کاروں کا آپس میں نکاح کرایا جائے۔ اگر گواہی آگئی تو پھر سزا کے بعد شادی بحال رہے گی۔ کیونکہ یہ قرآن کے حکم پر عمل ہوگا۔ اس سے وہ تصور بھی ٹھکانے آجائے گا کہ اسلام میں سنگساری کا حکم ہے یا نہیں ؟۔ علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی ایک کتاب ”تدوین القرآن” میں اس پر اچھا خاصا تذکرہ کیا ہے۔ جو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردی ہے۔
طالبان حکومت کے ایک عالم دین نے مردکا مرد سے جنسی تعلق پر سزا کے اندر بڑے اختلاف کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ثابت ہے کہ قرآن وحدیث میں کسی سزا کا ذکر نہیں۔ حالانکہ قرآن میں دونوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور پھر وہ توبہ کرلیں تو ان کو طعنہ دینے اور پیچھے پڑنے سے روکا گیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قتل کا حکم نہیں۔ طالبان جو چاہتے ہیں وہ قرآن میں موجود ہے لیکن مدارس کا نصاب رکاوٹ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

مفتی اکمل ، مفتی کامران شہزاد ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار العلوم کراچی وغیرہ سے فون کرکے فتویٰ پوچھ لیا
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد نے کہا کہ رجوع کرلو اور دارالعلوم کراچی نے کہا کہ نہیں ہوسکتا۔

محمد خرم رحیم یار خان نے بیگم کو طلاق دی۔ اس نے خواب دیکھاکہ ”آواز آئی ،تمہاری طلاق نہیں ہوئی۔ قرآن سورہ بقرہ آیت228کھول کر دیکھ لو۔ آنکھوں کے سامنے قرآن کھلا دکھائی دیا اور آیت228البقرہ کو دیکھا ” تسلی ہوگئی مگر مختلف مدارس و علماء سے رابطہ کیا۔ خرم صاحب کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد سے فون پر رجوع کا فتویٰ مل گیا۔ دارالعلوم کراچی سے رجوع کا فتویٰ نہ ملا ۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے کراچی اور حیدر آباد کے کوؤں کو کھانا جائز قرار دیا تھا۔ اگر انکے مدارس میں کو ؤں کا گوشت کھلایا جائے اور رقم فلسطین کو بھیج دی جائے تو بڑاشعوری انقلاب آجائے گا۔ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے لکھا کہ میزان بینک کا سود حرام ہے۔ مزدور بھی گدھے کا گوشت نہ کھائے گا۔
دورجاہلیت میں بیوی سے کوئی کہتا تھا کہ”3طلاق” توپھر اس کو حلالہ کرنا پڑتا تھا۔یہ غصے اور غضب کی حالت میں انتہائی ملعون عمل تھا۔ نبی ۖ نے اس پر اللہ کی لعنت فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت228میں اس کا خاتمہ کردیا تھا۔
المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء …… وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والی عورتیں3ادوار (طہرو حیض) تک انتظار کریں… اورانکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر رجوع کے زیادہ حقدار ہیں”۔ (سورہ البقرہ آیت228)حنفی مسلک کا بنیادی تقاضا یہ تھا کہ شوہرکو عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کا فتویٰ دے دیتے۔اسلئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں رجوع کو صلح و اصلاح کی شرط پر عدت کے تینوں ادوار میں جائز قرار دے دیا تو پھر اس کے بعد قرآن کی کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہوسکتی تھی کہ صلح و اصلاح کی شرط کے باوجود بھی عدت میں رجوع کا راستہ روکے ،اسلئے کہ قرآن میں تضاد نہیں ہے۔
بڑی زبردست بات یہ تھی کہ قرآن کی اس آیت228البقرہ نے صرف حلالہ کی لعنت کو ختم نہیں کیا ہے بلکہ عدت کے اندر بھی صلح و اصلاح کی شرط کے بغیر رجوع کا راستہ بھی روکا ہے۔ کیونکہ دورِ جاہلیت میں ایک طرف حلالہ کی بھی لعنت تھی تو دوسری طرف شوہر کو بھی عدت میں رجوع کی اجازت تھی۔اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی دونوں رسموں کو اس آیت میں بالکل ختم کرکے رکھ دیا تھا۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا کہ امام باقر نے فرمایا کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور پھر ایک ظاہر ہے۔ ایک باطن ہے اور پھر ایک باطن ہے۔
آیت228البقرہ کاایک ظاہرتو یہ ہے کہ ” طلاق کے بعد عورتوں کی عدت کے3ادوار ہیں یا پھر اگر حمل ہو تو حمل اس کی عدت ہے اور اس میں شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حق ہے بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں”۔
دوسرا ظاہر یہ ہے کہ ” دورِ جاہلیت کا مسئلہ تھا کہ ایک ساتھ3طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔اس آیت سے اس جہالت کا خاتمہ کردیا اور یہ بھی مسئلہ تھا کہ عدت میں شوہر جتنی بار چاہتا تھا تو رجوع کرکے عورت کو ستا سکتا تھا اس جاہلیت کو بھی ختم کردیا اور بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا”۔
اس آیت کا ایک باطن یہ ہے کہ ” جب حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اسلئے کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی ۔ لیکن حضرت عمر کے اس فیصلے کے دفاع میں قرآن سے دوری کی وجہ سے حضرت عمر کے عقیدتمندوں نے یہ مراد لیا کہ باہمی رضامندی سے بھی پھر رجوع نہیں ہوسکتا۔ جس کی وجہ سے حلالے کی لعنت کا دروازہ کھل گیا ہے”۔
اس آیت کا دوسرا باطن یہ ہے کہ ” اگر بیوی راضی نہ ہو تو پھر شوہر رجوع کا حق نہیں رکھتا ہے ۔ شیعہ حضرت عمر کے بغض کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوں گے اور وہ عورت کی رضامندی کے بغیر بھی شوہر کو رجوع کا حق دیں گے”۔
اگر قرآن کے ظاہر اور باطن کا ادراک کرتے ہوئے شیعہ سنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں گے تو دونوں گمراہی سے نکل جائیں گے۔ قرآن میں شبہ نہیں ہے لیکن احادیث کی روایات100سال بعد لکھی گئی ہیں۔ دونوں طبقات نے قرآن کو چھوڑ کر اپنی اپنی مسلکانہ روایات کو بھی بالکل گمراہی کی بنیاد پر لیا ہے اور اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے فرقہ واریت کو چھوڑ کر انسانیت کو اپنانا ہوگا۔
جو آیت جس مقصد کیلئے نازل ہو۔ اگر اس کو اپنے محور سے ہٹادیا جائے تو پھر معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ حلالہ کے خاتمے کیلئے آیت228البقرہ ہے اور اس میں طلاق کے بعد باہمی اصلاح کے بغیر رجوع کا دروازہ بند ہونا بھی شامل ہے۔ دیگر آیات اور احادیث بھی اس کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اکٹھی تین طلاقوں کا تصور حلالہ کیلئے خطرناک تھا اسلئے عدت میں باہمی اصلاح سے رجوع کا دروازہ کھول دیا تو اب حلالہ کیلئے راستہ نہیں بن سکتا تھا۔ حضرت عمر نے حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھولنے کیلئے اکٹھی تین طلاق پر رجوع کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی تب یہ فیصلہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ فیصلہ کرنا تھا ۔ فیصلہ فریقین کی رائے سن کر کیا جاتا ہے اور حضرت عمر نے عورت کے حق میں قرآن کے مطابق فیصلہ کیا تو یہ فاروق اعظم کے اعزاز کو باقی رکھنے کیلئے تھا۔ کچھ عرصہ قبل بنوں پختونخواہ میں ایک شخص نے دوبئی سے بیوی کو فون پر3طلاقیں دیں اور پھر پشیمان ہوا۔ مولوی سے فتویٰ لیکر شوہر کے بھائی نے عورت کو زبردستی سے حلالے پر مجبور کیا تو عورت نے کیس کردیا جس کی وجہ سے مولانا صاحب کو بھی جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔ حضرت عمر نے اسلئے واضح کیا تھا کہ اگر حلالے کی خبر مل گئی تو اس پر حد جاری کروں گا کہ مرد زبردستی بھی کرسکتے تھے۔
جب شیعہ عورت کو مرحلہ وار شیعہ مسلک کے مطابق طلاق مل جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد دونوں کا پروگرام بن جائے کہ آپس میں رجوع کرلیں تو قرآن نے حلالہ کے بغیر رجوع کی اجازت دی ہے ۔ شیعہ کو بھی میں نے حلالہ کی لعنت سے بچایا ہے۔ شیعہ بھی اعلان کردیں کہ جب آیت231اور232البقرہ اور آیت2سورہ طلاق میں عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت ہے تو بالکل کرسکتے ہیں۔ فقہ جعفریہ والوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی مسائل گھڑ لئے ہیں۔ اگر ان کے ائمہ نے بھی ماحول میں اجتہاد کیا ہے تو سورہ مجادلہ سے رہنمائی لیکر اس کو غلط قرار دے سکتے ہیں۔
قرآن کے مقابلے میں حنفی اور جعفری کسی مسلک کی کوئی حدیث یا روایت ہے تو وہ من گھڑت اور باطل ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ حق اور قرآن کیلئے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل و امریکہ نے فرقہ واریت کی آگ بھڑکاکر شیطان ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ اتنا تو سورہ طلاق میں بھی واضح ہے کہ ” اگر عدت کے مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دے دی تو بھی عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنا ہوگا اور اس پر دوعادل گواہ بھی مقرر کرنے ہوں گے”۔ جس سے شیعہ اور سنی دونوں کا طریقہ طلاق باطل ہوجاتا ہے اسلئے کہ شیعہ مرحلہ وار گواہوں کو مقرر کرکے عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں چھوڑتے اور سنی طلاق میں بدعت کے نام سے عدت میں بھی رجوع کی گنجائش نہیں بنتی۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق اور خلع میں حقوق کا فرق ہے ۔ طلاق شوہر دیتا ہے تو اگر ایک طلاق غلطی سے یا مذاق میں بھی دیدی تو اگر عورت راضی نہیں ہے تو پھر شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے ۔ پھر یہ طلاق ہے اور طلاق کی عدت تک عورت کو انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر شوہر نے راضی کرلیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ پھر اس کو طلاق کے مالی حقوق بھی ملیں گے لیکن اگر شوہر نے طلاق دی اور عورت نہیں چاہتی تو پھر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی۔ قرآنی آیات کو پڑھ لیں سب سمجھ میں آئے گا۔ اگر عورت خلع لینا چاہتی ہے تو اس کو بالکل اجازت ہے لیکن اس کے مالی حقوق پھر کم ہوں گے۔ خلع کی عدت بھی ایک ماہ ہے۔ سورہ النساء آیت19دیکھ لیں اور اس میں عورت کو شوہر کی ان چیزوں کا بھی حقدار قرار دیا گیا جسے ساتھ لے جاسکتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ اس بات کیلئے بہت کافی ہے کہ علماء نے تفسیر کے ذریعے اس پر کس طرح سے ٹوکا چلایا ہے۔ خلع میں گھر اور غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ عورت جھوٹا دعویٰ کرے کہ مجھے طلاق دے دی گئی ہے تو چونکہ اس میں مالی معاملے کا عمل دخل ہے۔ عورت کی نیت میں فرق آسکتا ہے کہ خلع لینا چاہتی ہو اور طلاق کا دعویٰ کرے۔ اسلئے اس میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ عورت گواہوں کو پیش کرے ۔ اگر اس کے پاس گواہ نہیں ہوئے تو شوہر حلف اٹھائے گا کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے۔ پھر طلاق کی ڈگری جاری نہیں ہوگی ۔ عورت کو خلع کے مالی حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر کہے کہ مذاق میں طلاق دی تھی اور عورت رجوع پر راضی نہیں ہو تو پھر بھی عورت کو طلاق کے مالی حقوق ملیں گے ۔اسلئے کہ طلاق میں مذاق معتبر ہے۔البتہ اگر عورت صلح کیلئے راضی ہو تو پھر طلاق مذاق میں ہو سنجیدگی میں اس سے رجوع ہوسکتا ہے۔ قرآن ، احادیث اور صحابہ کرام میں کوئی اختلاف نہیں ۔ نبی کریم ۖ نے کسی کو بھی رجوع سے منع نہیں کیا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کا کمال ہے کہ غلط فہمیوں کے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے ہیں۔
صحیح بخاری نے ایک ساتھ تین طلاق کے جواز پر باب باند ھ کر لکھ دیا ہے کہ ”من اجاز طلاق ثلاث ”جس نے تین طلاق کو ایک ساتھ جائز قرار دیا اور پھررفاعة القرظی کی بیوی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کو شوہر نے تین طلاقیں دیں اور پھر اس نے زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور نبی ۖ کو اپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر کہا کہ میر ے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو۔ آپ نہیں جاسکتی یہاں تک کہ وہ تیرا ذائقہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ چکھ لیں”۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق ایک ساتھ تین دی تھیں اور یہ بھی کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ؟۔
جب زبیرالقرظی نامرد تھا تو نامرد میں حلالے کی جب صلاحیت نہیں ہوتی ہے تو مفتی تقی عثمانی دے تو دے کوئی اور یہ فتویٰ نہیں دیتا۔ پھر نبی ۖ کیسے اس طرح کا فتویٰ دے سکتے تھے؟۔ لوگوں کے ذہن میںیہ بات بیٹھ گئی ہے کہ نبی ۖ کے وقت میں حلالے کا دھندہ موجود تھا؟۔ توبالکل غلط ہے۔
جب اللہ نے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے آیات بھی نہیں اتاری تھیں تو نبی ۖ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی تھی۔ قرآن کی آیات اترنے کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حلالہ کی لعنت میں ملوث ہونے کا حکم دیا جاتا۔اسلئے حقائق کو سمجھ کر قبول فرمائیے ورنہ خیر نہیں ہوگی۔
بخاری میں یہ واضح ہے کہ زبیرالقرظی نے الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں اور یہ بھی ہے کہ زبیر القرظی نے نبی ۖ کے سامنے کہا تھا کہ یہ میرے بچے ہیں اور مجھ میں اتنی مردانگی ہے کہ اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں ۔ یہ جھوٹ بولتی ہے کہ میں نامرد ہوں۔ اگر بخاری کی ان تینوں روایات کو دیکھا جائے تو حلالہ کا ادھار کھائے بیٹھے رہنے والوں کے خواب خاک میں مل جاتے ہیں۔ بخاری کی امام ابوحنیفہ سے نہیں بنتی تھی اسلئے امام شافعی کی حمایت میں اس حلالے والی غلط روایت کو غلط جگہ پر پیش کردیا۔ امام شافعی نے خود اس روایت کو ایک ساتھ تین طلاق کیلئے دلیل نہیں قرار دیا۔ بخاری نے مدعی سست گواہ چست کا کام کیا ہے۔ تینوں احادیث عوام کے سامنے لائی جائیں تو علماء ومفتیان کیلئے ٹھیک ہوگا۔
جہاں تک لعان کے بعد عویمر عجلانی کی طرف سے اکٹھی تین طلاق والی روایت ہے جس کا بخاری میں ذکر اور امام شافعی کی بھی یہی دلیل ہے تو قرآن میں فحاشی کی صورت میں عدت کے اندر بھی گھر سے نکالنے کی اجازت ہے۔ اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے رجوع سے روک دیا تھا۔ اور اکھٹی تین طلاق کے حوالے سے آخری روایت یہ ہے جو امام ابوحنیفہ و امام مالک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے کیلئے گناہ اور عدم جواز کی دلیل ہے۔ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دیں۔ جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ اس روایت سے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ایک ساتھ 3طلاق سے رجوع ہوسکتا تھا تو پھر نبی ۖ نے غضبناک ہونے کے بجائے رجوع کا حکم کیوں نہیں فرمایا؟۔
یہ استدلال بوجوہ غلط ہے۔ نبی ۖ نے اس حدیث سے اور زیادہ مضبوط حدیث میں غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کو خبر دی کہ عبد اللہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ہے۔ نبی ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبد اللہ ابن عمر سے فرمایا کہ پاکی کی حالت میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت کے بعد حیض آجائے اور پھر پاکی کی حالت میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگانے سے پہلے اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ بخاری کی یہ حدیث کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ اس لئے یہ استدلال غلط ہے کہ محمود بن لبید کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ محمود بن لبید کی روایت بہت کمزور ہے اسلئے امام شافعی نے اس کو ایک ساتھ3طلاق کا جواز پیش کرنے کیلئے اپنا مسلک نہیں بنایا۔ دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ محمود بن لبید کی روایت میں طلاق دینے والے عبد اللہ ابن عمر اور طلاق کی خبر دینے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ عبد اللہ ابن عمر نے بیوی کو3طلاقیں دی تھیں۔ پھر20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری نے دوسرے مستند شخص کی روایت نقل کی ہے لیکن حسن بصری کے زمانے میں20سال تک جو معاملہ رائے عامہ میں بالکل مختلف تھا اور پھر اس میں تبدیلی کیسے آئی ؟۔ آئیے حقائق سمجھ لیجئے۔ حسن بصری سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حرام کہے تو جو وہ نیت کرے ۔ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے ۔ یہ کھانے پینے کی طرح نہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجائے۔
حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ بیوی کو حرام کہہ دیا ہے تو رجوع ہوسکتا ہے؟۔ علی نے فرمایا کہ نہیں۔ اسلئے خلفاء راشدین کے اجتہاد میں یہ لکھا ہے کہ علی حرام کے لفظ سے تیسری یا3طلاق مراد لیتے تھے۔ اور حضرت عمر ایک طلاق۔ حالانکہ ان میں حلال و حرام کا یہ اختلاف نہیں تھا۔ حضرت علی سے جس نے پوچھا تھا تو اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور جب رجوع کیلئے عورت راضی نہ ہو تو حرام کا لفظ یا3طلاق تو بڑی بات ہے ایلاء میں بھی رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ جیسے نبی کریم ۖ کے حوالے سے قرآن میں وضاحت ہے۔ اسلئے حضرت عمر و حضرت علی کے مسلک، فرقے اور اجتہاد میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ بیوی راضی ہو تو حرام کے لفظ کے باوجود رجوع ہوسکتا ہے۔ سورہ تحریم میں اس کی وضاحت ہے۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حرام کے لفظ پر20اجتہادات لکھے ہیں۔ حالانکہ بخاری میں ابن عباس سے یہ روایت بھی ہے کہ نبی ۖ کی سیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ حرام کے لفظ سے طلاق ، حلف، کفارہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
سورہ تحریم اور نبی ۖ کی سیرت کو دیکھنے کے بجائے آیات کے اجتہادات کے نام پر کتنے ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ ابن تیمیہ نے4فقہی مسالک کو4فرقے قرار دیا ہے لیکن ان کے شاگرد نے زاد المعاد میں سورہ تحریم کی آیت کو بجائے4کے مزید20ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ حرام کے لفظ پر خلفاء راشدین کے4مسالک اوراماموں کے4مسالک کے علاوہ دیگر فقہاء و محدثین کے مسالک اور اجتہادات سے قرآنی آیت کو بوٹی بوٹی بنانے کا جواز ہے ؟۔ ہرگز نہیں۔
خلفاء راشدین میں حضرت عمر و حضرت علی کے اندر اتفاق تھا اور قرآن ہی کے مطابق دونوں کا فتویٰ اور فیصلہ تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کی باتوںکے اصل مفہوم کو درست نہیں سمجھا اور غلطیوں پر غلطیاں کرڈالیں ہیں۔ ہماری تحریک سے اکابر صحابہ پر اعتماد بھی بڑھے گا اور قرآن کی طرف بھی لوگ آئیں گے۔ حضرت عمر نے عمرہ و حج کے احرام کو اکھٹے باندھنے پر پابندی اسلئے لگائی کہ اگر دونوں احرام کو سنت سمجھ کر بڑے اجتماع میںگرمیوں کے موسم میں باندھا جاتا تو فضاء بہت متعفن ہوجاتی۔ یہ کوئی مذہبی اختلاف نہیں تھا۔
جس اسلام کو دیکھ کر سپر طاقتیں فارس اور روم کے بادشاہوں کے پیروں سے زمین نکل گئی تو اس کی وجہ قرآن و سنت کے عام فہم قوانین تھے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے مسلم ممالک اور مسلمان معاشرے اسلام کی سواری پر چڑھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جب قرآن نے بار بار رجوع کی بات کی ہے اور ہمارے ہاں 3 طلاق کو حلالہ کیلئے لعنت کی شکل دی گئی ہے تو کون گدھے پر سواری کرسکتا ہے؟۔ وہ بھی جب پانچوں ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھائے چت گلاٹیاں کھارہا ہو۔ مذہبی طبقات نے اگر قرآن کے اصل احکام لوگوں کو بتانے شروع کردئیے تو مسلمان حکمران ہی نہیں مغرب و مشرق اور شمال و جنوب میں تمام مذاہب اور ممالک کے لوگ اس کو اپنے اقتدار اور معاشرے میں نافذ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

وقل انی انا النذیرالمبینOاور کہہ دیں کہ بیشک میں کھلا ڈرانے والا ہوں
کما انزلنا علی المقتسمینOجیسے ہم نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا
الذین جعلوا القراٰن عضینOجن لوگوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیاہے
الحجر آیت89،90،91۔ کیاقرآن کو بوٹی بوٹی کرنے والے یہ علماء ہیں ؟
وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجوراًO”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قران کو چھوڑتے ہوئے پکڑ رکھاتھا”۔الفرقان آیت30۔ قرآن کو تھامنا ہوگا۔

جمعیت علماء اسلام بلوچستان( درخواستی گروپ) کے امیر مولانا امیر حمزہ بادینی نے ہمیں بیان دیا تواتنی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیاکہ مدینہ منورہ استخارے کرنے پہنچ گئے۔ جب وہاں سے ڈٹ جانے کا حکم مل گیا تو پھر دوبارہ حمایت میں بیان دیا جس کو ماہنامہ ضرب حق میں شہہ سرخی سے لگادیا۔ بلوچستان جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق بلوچ نے جب ہماری حمایت میں بیان دیا تو بلوچستان کی امارت سے ہٹادئیے گئے۔ حالانکہ پروفیسر غفور ، اتحاد العلماء کے مولانا عبدالرؤف نے بھی دیا تھا۔ تمام مکاتب فکر کے بڑوں نے حمایت کی ہے۔ لیکن جماعت المسلمین پختونخواہ کے صوبائی امیر حفیظ الرحمن نے ہمیں بیان دیا کہ کھڑی گاڑی کو مسلمان ہر طرف سے دھکا لگارہے ہیں جس کی وجہ سے چل نہیں رہی ہے ۔ اگر ایک طرف سے دھکا لگادیںگے تو گاڑی چلے گی۔ قرآن و سنت اور اسلام کیلئے فرقہ پرست مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ جس پرجماعت المسلمین نے صوبائی امارت سے بیچارے کو فارغ کیاتھا۔
اصل میںگاڑی کو الٹا کردیا گیا ہے۔ مسلمان ٹائروں کو چلاکر مست ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ گاڑی کوسب مل کر چلائیں یا انفرادی مگر جب تک یہ کلٹی پڑی ہے تو چلے گی نہیں۔ قرآن میں ان یہودی علماء کی مثال گدھوں کی دی گئی جنہوں نے تورات کومسخ کردیاتھا۔ قرآنی آیات حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کی تھیں ۔ احادیث اور صحابہ کے فتوؤں اور فیصلوں میں بڑی وضاحت تھی۔مگر انہوں نے پھر حلالہ کو قرآن اور حدیث سے بر آمد کیا؟ لیکن بہت بڑی غلط فہمی اور علماء کو علی الاعلان اس سے امت کی جان چھوڑناہو گی نہیں تو ہرمیدان میں چیلنج ہوں گے۔ حلالہ سے لیکرہرچیز کو الٹا کرکے رکھ دیا ۔قرآن کی تعریف، احکام سب کو بوٹی بوٹی کردیا۔حنفی کے ہاں تحریری کتاب قرآن نہیں۔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے ۔ مصحف پر حلف نہیں ہوتا۔ غیرمتواتر آیات قرآن ہیں۔شافعی کے ہاں غیر متواتر آیات قرآن نہیں۔ جنابت سے نہانے کا حکم ہے جو ہرانسان سمجھتا ہے ائمہ نے فرائض گھڑ کرقرآن بوٹی بوٹی کردیا۔
قرآن میں عبادات کے احکام ہوں مثلاً غسل، وضو، نماز، حج یا معاشرت کے احکام ہوں مثلاً نکاح، ما ملکت ایمانکم کے حوالے سے مسیار و متعہ ، طلاق، خلع ، عورت کے حقوق ، یا پھر شرعی حدود کا مسئلہ ہو لعان ، حد زنا، جبری بدکاری، دو مردوں کی آپس میں بدکاری کی سزا، پاکدامن عورت پر تہمت کی سزا اور قتل کے بدلے قتل ، اعضاء کے بدلے اعضاء یا پھر معیشت کے مسائل ہوں جیسے سُود اور مزارعت وغیرہ سب کو ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔ اگر ایک طرف قرآنی آیات و احادیث کو دیکھیں اور دوسری طرف فقہی مسالک کے نام پر ان احکام پر تقسیم اور فرقہ واریت کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ قرآن کیساتھ قصائیوں والا سلوک مذہبی طبقات نے کیا ہے۔ موجودہ سعودی حکومت سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں سنی مسالک کے مصلے بھی الگ الگ تھے۔ مسجد نبوی ۖ میں6محرابیں تھیں۔ جن میں ایک حنفی مسلک کے امام کا الگ سے محراب بھی تھا۔ یہ فرقہ بندی نہیں تو کیا ہے؟ قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔
قرآن میں اللہ نے ایک ایک چیز کی وضاحت کی فرمایا: وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ” اور ہم نے کتاب کو نازل کیا ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ”۔
نمبر1:حنفی وشافعی کا حلف کے کفارے پرلغو اختلاف۔ لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما کسبت قلوبکم واللہ غفور حلیمO”اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہارے لغو عہد سے مگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے۔ اللہ مغفرت والا اور برداشت والا ہے ”۔( آیت225البقرہ )
یمین عربی میں عہدوپیمان کو کہتے ہیں اور معاہدہ توڑنے کو بھی ۔البتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی یمین سے حلف یا قسم مراد ہوتا ہے۔کفارہ حلف پر ہی ہوتا ہے۔
لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما عقدتم الایمان فکارتہ اطعام عشرة مساکین من اوسط ما تطعمون اہلیکم أو کسوتھم أو تحریر رقبة فمن لم یجد فصیام ثلاثة ایام ”ذٰلک کفارة أیمانکم اذا حلفتم” واحفظوا ایمانکم کذٰلک یبین اللہ لکم آیاتہ لعکم تشکرونO( المائدہ آیت89)
آیت میں اللہ نے واضح کیا کہ ” یہ تمہارے یمین کا کفارہ اس صورت میں ہی ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ اندھا بھی سمجھتا ہے کہ یمین حلف ہو تو تب کفارہ ہے ۔ یمین سے حلف مراد نہ ہوتو پھر کفارہ نہیں ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا: فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع وان خفتم ان لاتعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم ” پس تم نکاح کرو،جن کو تم عورتوں میں سے چاہو۔ دودو، تین تین اور چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا عہدوپیمان ہوجائے ”۔ یہاں یمین سے معاہدہ مراد ہے حلف نہیں۔ کفارے کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اللہ نے یمین کو عہدوپیمان اور حلف کی صورتوں کو واضح کردیا تو حنفی شافعی جھگڑوں میں آیت کے حکم میں بٹوارہ اور بوٹی بوٹی کرنا بہت بڑی بدنصیبی ہے۔
سورہ مجادلہ میں60دن کے روزوں کا کفارہ متتابعات (تسلسل کیساتھ) ہے ۔ اگر حنفی مسلک اس کا حوالہ دیتے تو شافعی بھی مان جاتے مگر خبرواحد آیت کا عقیدہ قرآن میں تحریف ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے بھی متعہ یا معاہدے کی تفسیر حدیث سے لکھ دی تھی جس کو حنفی الگ آیت مانتے ہیں لیکن متعہ کو پھر کیوں جائز نہیں سمجھتے؟۔ درسِ نظامی کی تعلیم صرف یہ نہیں کہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں بلکہ فقہی مسالک کے نام پرقرآن کو بوٹی بوٹی بنایا جارہاہے۔ قرآن میں استنجوں کے ڈھیلے نہیں بلکہ کائنات کو مسخر کرنے کیلئے سائنس کی دعوت ہے۔ اللہ نے قرآن کے سائنسی حکم پر عمل سے مغرب کو بلند اور مسلمان کو پست کردیا۔
مغرب نے اپنے پادریوں کے مسخ شدہ مذہب کو گرجوں تک محدود کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے انسانی حقوق نکاح وحق مہر اور خلع وطلاق پر قانون سازی کی تو وہاں انسانی حقوق نظر آتے ہیں۔ مغرب نے ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کی جگہ جمہوری نظام کے ذریعے سیاست کو فروغ دیا تو اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے اور انتقال اقتدار کیلئے خون خرابہ اور قتل وغارت گری کا ماحول ختم ہوگیا۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیںگے” ۔آج ہمارے مسلمانوں کی حکومتوں میں انسانی حقوق کی زبردست پامالی ہے اور مغربی ممالک پر رشک ہے تو اس کردار کی بدولت ہے۔ قرآن کے الفاظ محفوظ ہیں لیکن اس کے معانی اور احکام کی بوٹی بوٹی کرکے معنوی تحریف کی آخری حدیں پار کی گئی ہیں۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی فیض الباری میں اس معنوی تحریف کا اعتراف کیا ہے۔
سورہ بقرہ آیت224میں یمین سے مراد حلف نہیں بلکہ طلاق وایلاء کیلئے مقدمہ ہے کہ اللہ کو اپنے یمین کیلئے ڈھال مت بناؤ، کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ شیطان سب سے زیادہ اس کارکردگی پر خوش ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیاں صلح میں کوئی رکاوٹ ڈال دے اور آج کل سب سے زیادہ مذہبی طبقہ علماء ومفتیان شیطان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور میاں بیوی کے درمیاں صلح میں رکاوٹ ہیں۔
آیت225البقرہ سے حلف مراد نہیں بلکہ شوہر کا ناراضگی کیلئے کوئی بھی لفظ مراد ہے جوواضح الفاظ میں طلاق کا نہ ہو۔ اللہ نے واضح کیا کہ” لغو بات پر تمہاری پکڑ نہیں ہوگی مگر تمہارے دلوں نے جو کمایا ہے اس پر اللہ پکڑتاہے”۔دل کی اس کمائی پر پکڑنے کی وضاحت اگلی آیات226،227میں بالکل واضح ہے۔
آیت226البقرہ میں واضح کیا ہے کہ ” ان لوگوں کیلئے چار ماہ ہیں جنہوں نے اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کررکھی ہے۔ پھر اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ پھر آیت227میں واضح کیا ہے کہ ” اگر طلاق کا عزم کیاہے تو اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ یعنی طلاق کے عزم کے باوجود بھی طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتااور جانتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار کردیا تو عورت کو 4مہینے کی جگہ3مہینے انتظار کی عدت گزارنی پڑے گی۔ جو آیت228البقرہ میںواضح ہے۔ایک مہینے اضافی عدت گزارنے پرعورت کو مجبور کرنا دل کا وہ گناہ ہے جو طلاق کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے ملتا ہے۔
آیت226البقرہ میں اللہ نے ایلاء اور ناراضگی کی ”عدت” کو واضح کیا۔ طلاق کا واضح الفاظ میں اظہار نہ ہو تو پھر کتنی مدت تک شوہر کیلئے عورت کا انتظار ہے؟۔ قرآن میں4ماہ واضح ہیں۔ قرآن کا بٹوارہ کرنے والوں نے آیت226البقرہ میں4ماہ کی عدت کو عدت سے نکال دیا۔ پھر ایک طبقہ کہتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بھی زندگی بھر عورت کو انتظار ہی کرنا پڑے گا۔ اس طبقے میں جمہور فقہاء اور علامہ ابن تیمیہ اوراس کے شاگرد ابن قیم شامل ہیں۔ جبکہ حنفی کہتے ہیں کہ چار ماہ بعد طلاق پڑگئی۔ اس آیت کی بوٹیاں ان لوگوں نے ہوا میں اچھال دیں ہیں۔ ایک عورت چار ماہ بعد بدستور خود کو ایک شخص کے نکاح میں مقید سمجھے گی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ نکاح سے نکل چکی ؟۔ یہ عورت اور اللہ کے کلام قرآن کیساتھ بہت بڑا گھناؤنا کھلواڑ ہے جو فقہاء ومحدثین نے کردیاہے ۔ جب دنیا کو قرآن کا صحیح پیغام پہنچے گا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ ہے تو بڑامعاشرتی انقلاب برپا ہوگا۔ شوہر اپنی بیویوں کی حق تلفی نہیں کریںگے۔
قرآن کو بوٹی بوٹی کرنے کی بہت مثالیں ہیں۔ اللہ نے وضو میں سر کے مسح کا حکم دیا۔ ومسحوابرء و سکم ”اورسروں کا مسح کرو” ۔ حنفی کے نزدیک سر کے ایک چوتھائی کا مسح فرض ہے اسلئے کہ ب الصاق یعنی ہاتھ لگانے کیلئے ہے۔ شافعی کے نزدیک ایک سر کے بال کا مسح کرنے پر فرض پورا ہوگا ۔ب بعض کیلئے ہے۔ مالکی کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہوگا ایک بال رہ جائے توبھی فرض پورا نہیں ہوگا۔ اسلئے ب زائدہ ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب چہرہ بھی دھویا جائے ، ہاتھ کہنیوں اور پیر ٹخنوں تک دھوئے جائیں تو سر پر ہاتھ پھیرنا بھی فطری بات ہے۔ جہاں تک اس کے ڈھکوسلہ فرائض اور بدعات کا تعلق ہے تو اللہ نے تیمم کی آیت میں ان کے چہروں پر کالک مل دی ہے اسلئے کہ اس ب کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا : ومسحوا بوجوھکم ”اور چہروں کو مسح کرو”۔ اس میں تو بال برابر اور ایک چوتھائی کی تقسیم نہیں ہوسکتی ہے۔ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ مولانا انورشاہ کشمیری نے فرمایا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنی ساری عمر ضائع کردی کیونکہ فقہ کی وکالت کی ہے”۔ مفتی محمدشفیع دارالعلوم کراچی سے قرآن وسنت کی خدمت چاہتے تھے تو پھر درس نظامی کی یہ تعلیم کیوں رائج کردی جس کی مولانا انورشاہ کشمیری نے آخرمیں مخالفت کی؟۔
مولانا یوسف بنوری نے مدرسہ ایک انقلاب کیلئے بنایا تھا اور اللہ نے مجھے وہاں تعلیم کیلئے ایک طالب علم کی حیثیت سے ڈال دیا تو ان کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان ان کے دوست تھے۔ کچھ لوگوں نے پیسوں کی خاطر اپنا دین ایمان بیچ کر حاجی عثمان پر فتوے لگائے اور کچھ نے مولانا محمد بنوری کو شہید کرکے ظلم کی انتہاء کردی۔ دین فروش اور ظالموں سے اللہ دین کی خدمت کا کام نہیں لیتاہے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنیکی عمدہ مثالیں یہ ہیں کہ
سورہ بقرہ کی آیت228میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین ادوار تک انتظار کریں……. اور ان کے شوہر اس میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ ٹوکے والی سرکار حضرت نے پہلا وار یہ کیا ہے کہ شوہروں سے زیادہ مولوی کے فتوے کا حق ہے۔ دوسراوار یہ کردیا کہ طلاق رجعی ہو تو شوہر کو دومرتبہ رجوع کا غیرمشروط حق حاصل ہے۔ یعنی اللہ نے ایک دفعہ بھی صلح کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا اور ٹوکے والی سرکار2دفعہ رجوع کا حق دیتی ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کیساتھ رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے۔اللہ تو اپنی کتاب میں تضادات کا شکار نہیں ہے کہ ایک آیت میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دے دیا اور دوسری آیت میں پھر اس سے چھین لیا کہ ایک نہیں دومرتبہ غیرمشروط کرسکتے ہو؟۔ قرآن پر تیسراوار یہ کردیاکہ ایک ساتھ تین طلاق دئیے تو عدت میں رجوع کا حق باہمی اصلاح سے بھی ختم ہوگیا، اب حلالہ کرنا پڑیگا۔ چوتھا وار یہ کہ اللہ نے3ادوار تک انتظار کا حکم دیا تھا جس سے ایک عدت بنتی تھی مگر مولوی نے دو دفعہ طلاق رجعی کا حق دیا اور شوہر کو تین عدتوں کا حق دے دیا۔ ایک بار طلاق دی اور عدت کے آخری لمحے میں رجوع کرلیا، پھر دوسری بار طلاق دی ،پھر عدت کے آخرمیں رجوع کیا اور پھر طلاق دی تو عورت کی تین عدتیں گزارنی پڑیں گی۔ علاوہ ازیں اگر عورت کو ایک یا دو طلاق دیکر فارغ کردیا اور پھر اس نے کسی اور شوہر سے نکاح کیا اور وہاں سے طلاق ہوگئی تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ نئے سرے سے پہلاشوہر3طلاق کا مالک ہوگا یا پھر جو پہلے سے ایک یا دو طلاق موجود ہیں اسی کا مالک ہوگا؟۔ اس پر امام ابوحنیفہ وجمہور کا بھی اختلاف ہے اور احناف کا آپس میں بھی؟۔ اگر ایک عورت کو10اشخاص ایک ایک طلاق دیکر فارغ کریں تو ان سب کی جیب میں اس عورت کی2،2طلاق کی ملکیت کا بھی پروانہ ہوگا۔ قرآن کو بوٹی بوٹی کیا تو یہ لوگ شیخ چلی سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ ہمیں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے عقیدت ومحبت اسلئے ہے کہ زمانہ طالب علمی میں علماء حق نے نصاب کے خلاف نہ صرف سپورٹ کیا تھا بلکہ کتاب لکھنے والے ملاجیون کے لطیفے بھی سنائے تھے۔
آیت229البقرہ کو بھی ایسی بوٹی بوٹی بنادیا ہے کہ جب سنتے جائیں گے تو شرماتے جائیں گے۔ اللہ نے واضح کیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ یہ آیت228کی تفسیر ہے کہ عدت کے تین مراحل میں سے پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق ہے اور پھر رجوع کرنا ہو تو معروف کی شرط پر کرسکتے ہو اور چھوڑنا ہو تو تیسرا مرحلہ آخری ہی ہے۔ پھر اس کی عدت پوری ہوگی اور کسی اور شوہر سے نکاح کرسکے گی۔ جب نبی ۖ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کونسی ہے تو فرمایا ہے کہ یہی کہ احسان کیساتھ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے آیت229البقرہ میں۔ حنفی مسلک نے ٹوکا اٹھایا کہ اگر عدت میں نیت کے بغیر بھی شہوت کی نظر پڑگئی ،چاہے مرد یا عورت رجوع نہ بھی کرنا چاہتے ہوں تو یہ رجوع ہے۔ شافعی مسلک میں ہے کہ اگر رجوع کی نیت نہ ہو تو تب جماع بھی کیا جائے تو رجوع نہیں ہوگا۔ باہمی رضا مندی اور معروف رجوع کے تصورکو ٹوکے مار مار کر بوٹی بوٹی بنادیا۔ حالانکہ اس کی احادیث صحیحہ میں زبردست وضاحتیں ہیں کہ پہلے طہر میں اپنے پاس رکھو ،حتیٰ کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں پاس رکھو ، حتی کہ حیض آجائے۔ تیسرے طہر میں اگر رجوع چاہتے ہو تو رجوع کرلو اور چھوڑ نا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو اور یہی وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
قرآن و احادیث کی وضاحتوں کے باوجود کم عقلی کے ٹوکے سے قرآن کا حکم بوٹی بوٹی بنادیا۔ پھر اگر تینوں مراحل میں چھوڑنے کے عزم پر قائم رہے تو اللہ نے کہا کہ ”جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پرحرج نہیں ”۔(البقرہ آیت229)
اللہ نے تین طلاق کے بعد یہاں عورت کے حق کی حفاظت کی کہ دی ہوئی کوئی چیز واپس نہیں لے سکتے مگر اگر خدشہ ہو کہ کوئی چیز ملاپ اور رابطے کا ذریعہ بنے گی تو پھر وہی دی ہوئی چیز فدیہ کرسکتے ہیں۔ یہ خلع نہیں ہے کہ ٹوکے والی سرکار نے اس کو خلع بنایا۔ یہاں حق مہر مراد نہیں اسلئے کہ حق مہر تو ہاتھ لگانے سے پہلے صرف نکاح کرنے سے آدھا گیا اور جب شب زفاف گزاری تو عورت کو تکلیف کے بدلے پورا حق مہر مل گیا۔ دوسری دی ہوئی چیزوں کو بھی طلاق میں نہیں لے سکتے۔ جس کی آیت20،21النساء میں بڑی وضاحت ہے۔ٹوکے والی سرکار حق مہر اور منہ مانگے خلع کی رقم مراد لیکر قرآن کو بوٹی بوٹی کررہی ہے اور عورت کی بدترین حق تلفی کررہی ہے شوہر جب بھی چاہے گا ،مارپیٹ کر اس کے باپ سے بھی پیسے نکلوائے گا اور خلع لینے پر مجبور کرے گا۔ حالانکہ خلع عورت کی اپنی چاہت سے جدائی کا نام ہے۔ آیت19النساء میں اس کی بھرپور وضاحت کی ہے لیکن ٹوکے والی سرکار نے اس آیت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ اللہ نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ جس میں سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232بھی شامل ہیں اور سورہ طلاق کی آیت1اور2بھی شامل ہیں۔ ان میں یہ بھی واضح ہے کہ باہمی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن ٹوکے والی سرکار باہمی رضامندی، معروف کی شرط اور باہمی اصلاح کی وضاحتیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اسلئے آیت230البقرہ میں یہ واضح کردیا کہ جب دونوں طرف سے جدائی کا حتمی فیصلہ ہو تو فیصلہ کرنے والے بھی فیصلہ کن جدائی پر پہنچ جائیں ، جہاں رابطے کے خوف سے بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے کہ پھر جائز نہیں ناجائز تعلقات میں مبتلاء ہوں گے۔ تواللہ نے واضح کیا کہ اس طلاق کے بعد پھر عورت پہلے کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ یہ آیت229البقرہ سے مربوط ہے لیکن قرآن کی بوٹیاں بناکر سارے حدود توڑ دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے ان تمام حدود کو زبردست وضاحتوں کیساتھ بیان کیا تھا لیکن قرآن کی بوٹی بوٹی بنانے والوں نے ظالموں کا ثبوت دیا۔ اس میں طلبہ کو لگادیا کہ ادوار سے مراد حیض ہے یا طہر؟ اور خلع جملہ معترضہ ہے یا تیسری طلاق کیلئے مقدمہ ؟۔ جس جاہلیت سے قرآن نے امت کو نکال دیا ،اس میں لوگوں کو دوبارہ ڈال دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سود کو حیلے سے حلال سمجھنے والا کافرو مرتد ہے اور کھلا سود کرنے والا کافر نہیں ہے گناہگار ہے۔مولانا نور محمد وزیرشہید

سود کو حیلے سے حلال سمجھنے والا کافرو مرتد ہے اور کھلا سود کرنے والا کافر نہیں ہے گناہگار ہے۔مولانا نور محمد وزیرشہید

شیخ الحدیث و التفسیر مولانا نور محمد وزیر شہید سابقMNAجنوبی وزیرستان نے کہا تھا کہ حیلے سے سُود کو حلال قرار دینے سے بہتر ہے کہ کھلم کھلا سُودی کاروبار کیا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ چینی خرید کر دوں گا اور کوئی کہتا ہے کہ ٹائر خرید کر دوں گا۔ نہ ان کو کوئی شرم آتی ہے اور نہ خدا سے حیا آتی ہے اور نہ اللہ کی آیات سے وہ شرماتا ہے ۔ ظالم تم سیدھا سیدھا کہو کہ میں ایک لاکھ دیتا ہوں اور اس پر مجھے1لاکھ30ہزار دو گے۔ حیلے درمیان سے چھوڑ دو ، ہم اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں۔ صاف بول دو کہ میں1لاکھ پر30ہزار لوں گا ، بتاؤ کتنے لاکھ دے دوں؟۔ تم چینی کو درمیان سے نکالو۔ کوئی کہتا ہے کہ چینی خریدتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ ٹائر خریدیں گے کوئی کہتا ہے کہ پک اپ گاڑی لیتے ہیں ۔ تم اللہ کے قہر سے لدے ہوئے ہو۔ صرف یہ نہیں کہ تم سُود خور ہو ۔ اس طریقے سے سُود کو اپنے لئے حرام قرار دے دو ۔ جو سُود کو حرام نہیں سمجھتا ہے وہ سوفیصد کافر ہے۔ مرتد ہے ، اس کی بیوی طلاق ہے ، اس کا حج ختم ہے، اس کی نمازیں ختم ہیں، اس کے روزے ختم ہیں۔ لیکن جو اس طرح سے سُود کرتا ہے کہ یہ حرام ہے تو پھر وہ کافربھی نہیں ہے اور گناہگار بھی نہیں ہے۔ ہم نے تو خود کو کفر کیلئے سیدھا کیا ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے علماء کا پاکستان پر اختلاف تھا ۔ مفتی محمد تقی عثمانی
اسرائیل میں2.5%اور پاکستان میں22%سُود ہے۔ اسلامی بینکاری کے نام پر2%مزید فیس کی مد میں سُود ؟۔

مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ میں یہاں یہ بات بھی سب کے سامنے عرض کردوں کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان بننے سے پہلے علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ اختلاف رائے کوئی بری بات نہیں ہوا کرتی تھی۔ مسلمانوں کے مستقبل کیلئے پاکستان بننا زیادہ بہتر ہے؟ یا نہ بننا بہتر ہے؟ اور ہندوستان کا مشترک رہنا بہتر ہے ؟۔ اس مسئلے پر اہل علم کی مختلف رائے آئیں لیکن جب پاکستان بن گیا تو حضرت شیخ الاسلام علامہ حسین احمد صاحب مدنی جن کی شروع میں رائے نہیں تھی لیکن ان کا یہ جملہ ریکارڈ پر ہے میرے پاس اس کا ثبوت موجود ہے کہ حضرت مدنی نے فرمایا کہ مسجد بننے سے پہلے کسی جگہ اختلاف ہوسکتا ہے کہ یہاں مسجد بنائی جائے یا نہیں لیکن جب ایک مرتبہ مسجد بن گئی تو اس کا تحفظ ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
تبصرہ: جامعہ بنوری ٹاؤن ، جامعہ فاروقیہ ، جامعہ احسن العلوم اور پاکستان بھر سے اسلام کے نام پر سُودی بینکاری کے عدم جواز کا متفقہ فتویٰ دیا گیا مگر پھر بھی موصوف ڈٹ گئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلام نے14سو سال پہلے غلامی کا تصور ختم کیا تھا

اسلام نے14سو سال پہلے غلامی کا تصور ختم کیا تھا

جو فقر ہوا تلخئی دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
عربی میں غلام کو عبد کہتے ہیں اللہ کے علاوہ عبدیت جائز نہیں
اسلام کا سب سے بڑا مشن انسانوں کی انسانوں سے آزادی
عربوں نے رومی و ایرانی عورتوں کو دیکھ کر لونڈی کو جواز بخش دیا

قرآن وسنت میں لونڈی بناناجائز ہے؟۔ ایک طرف داعش نے نکاح بالجہادکا تصور پیش کیا اور دوسری طرف خواتین کو لونڈیاں بناکر بیچ دیا تو گوانتا ناموبے جیسے عقوبت خانوں، افغانستان وپاکستان میں دہشتگردی کے نام پر قتل وغارتگری، عراق ولیبیاکی تباہی کے بعد اسرائیل کے فلسطینیوں کو تباہ کرنے کا جواز فراہم ہورہاہے اور پھر افغان طالبان پر ایٹمی ہتھیار خریدنے کے الزام کی بازگشت معروف صحافی کامران یوسف کی زبانی سنائی دے رہی ہے۔
جنگ کی ہولناکی دیکھنے والے قیامت کا منظر دیکھ چکے ہیں۔ ٹریفک کا نظام بھی دشمنی ، جنگ اور انقلابی جدوجہد میں مارے جانے کے خطرہ سے کم نہیں مگر کچھ حقائق عوام ، علماء کرام اور طلباء عظام کو سمجھنے ہوں گے۔ تاکہ اسلام کی سمجھ دنیا میں بھی عام ہوجائے اور مسلمانوں اور کفار میں اسلام کا احترام بھی آجائے۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: الدین النصیحہ ” دین خیر خواہی ہے”۔ کیا کسی بھی قوم کی عورت کو لونڈی بنانا خیر خواہی ہوسکتی ہے؟۔ کوئی یہ خیر خواہی نہیں قرار دے سکتا۔ پھر کیا اسلام نے عورتوں کو لونڈی بنانے کی اجازت دی ہے؟۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا: ” جنگ میں عورت پر ہاتھ نہ اُٹھاؤ” ۔جب ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہیں تو کیالونڈی بنانے کی اجازت ہوگی؟۔ ہرگز ہرگز بھی نہیں۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے خیرالقرون کے جن تین ادوار کا ذکر کیا ہے تو ان میں پہلا دور نبی ۖ کا تھا۔ دوسرا ابوبکروعمر اور تیسرا حضرت عثمان کا دور تھا۔ حضرت علی کا دور ان میں شامل نہیں تھا اسلئے کہ اس میںفتنے برپا ہوچکے تھے۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ ” میرے نزدیک پہلا دور نبی ۖ وابوبکر کا تھا اسلئے کہ ابوبکر کے دور میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔ دوسرا دور عمر اور تیسرا دور عثمان کا تھا”۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ” ابوبکر کے دور میں یمن فتح ہوا تو کسی کو بھی لونڈی نہیں بنایا گیا”۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا کہ ” صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے تین ادوار خیرالقرون میں جو اعمال مرتب ہوئے درست تھے اور تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے”۔ مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نے اس پر تقریظ لکھی لیکن شاہ ولی اللہ کے خاندان کی شاگردی کے دعویدار کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔
حنفی ومالکی سمجھتے ہیں کہ” 3طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیں”۔ کیا نبیۖ کے دور میں یہ بدعت ایجاد ہوئی تھی؟۔ تراویح حضرت عمر کے دور کی بدعت حسنہ کہلاتی ہے۔ ایک ساتھ حج وعمرے کے احرام پر حضرت عمر نے پابندی لگادی تو عبداللہ بن عمر نے کہا کہ ”میرا اپنے باپ پر نہیں نبیۖ پر ایمان ہے”۔ عثمان اور علی میں حج وعمرے کا احرام اکٹھا باندھنے پر جھگڑا ہوا۔ (صحیح بخاری) جب عبداللہ بن عباس سے کہا گیا کہ یہ عمل عمر نے شروع کیا ہے تو ابن عباس نے کہا کہ ”میں نبی ۖ کی بات کرتا ہوں تو تم ابوبکر وعمر کی بات کرتے ہو۔مجھے تعجب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر کیوں نہیں برستے؟”۔ ابوبکر نے جبری زکوٰة وصول کی مگراہل سنت کے چارامام نے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کو جائز نہیں قرار دیا البتہ بے نمازی کو سزا دینے پرعقل کے پروانوں کا کچھ نہ کچھ اتفاق تھا۔ یہی تو وہ اسلام تھا جس کے عنقریب اجنبی بن جانے کی خبر نبیۖ نے دی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں شہنشاہ فارس کی صاحبزادیوں کو لونڈیوں کی طرح بیچنے کا حکم ہوا۔ پھر حضرت علی کے مشورے پر ایک عبداللہ بن عمر ، دوسری حسین بن علیاور تیسری محمد بن ابی بکر کے نکاح میں دی گئیں۔ ان کی اولاد آپس میں خالہ زاد تھے۔
ہزار سال سے زیادہ ہواکہ شام کے مشہور عالم ابوالعلاء معریٰ نے لکھا کہ ”اسلام نے لونڈی بنانے کا جواز ختم کیا۔ عربوں نے فارس وروم کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھ کر لونڈی کو جواز بخش دیا”۔ جیسے آج مفتیان اعظم نے سودی نظام کو جواز بخش دیا ہے اور متعہ کو ناجائز کہنے والے حلالہ کا لطف اٹھارہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قرآن نے شادی شدہ عورت کو پانچویں پارہ کے آغاز پر محرمات کی فہرست میں داخل کیامگر لونڈی بنانا جائز قرار دیا؟۔ والمحصنٰت من النساء الا ما ملکت ایمانکم”اور بیگمات مگر جن سے تمہارا معاہدہ ہوجائے”۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے قرآن کے ان دونوں الفاظ اور جملوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی قرآن کہتا ہے کہ والمحصنٰت من المؤمنات والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتٰب من قبلکم اذا اتیتموھن اجورھن محصنین غیرمسافحین ولامتخذی الاخدان ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ وھو فی الاٰخرة من الخاسرینO(سورہ مائدہ : آیت5)
جب سورہ مائدہ میں اللہ نے محصنات کیساتھ نکاح کو جائز قرار دے دیا تو پھر سورہ النساء میں کیسے محرمات کی فہرست میں داخل کیا ہے؟۔ محصنات کی تین اقسام ہیں۔نمبر1:پاکدامن بمقابلہ آلودہ ۔نمبر2:شادی شدہ بمقابلہ غیرشادی شدہ۔ نمبر3:محترمہ بیگمات بمقابلہ بے سہارا بیوائیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم نصرت بھٹو70کلفٹن کی مالک تھی اور شوہر کی وفات کے بعد بھی اپنے شوہر کیساتھ زبردست رشتہ تھا۔ اگر کوئی جیالا یا بھٹو کا دشمن اس کو رشتہ بھیج دیتا تو کتنی زیادہ بری بات ہوتی؟۔محرمات میں باپ کی منکوحہ اور ماں، بیٹی ، بہن سے لیکر دو بہنوں کا جمع کرنا اور پھرمحترمہ بیگمات کی حرمت بیان کرکے بہت کمال کردیاہے لیکن افسوس مسلمان قرآن سے غافل ہیں۔
اگر قرآن کی طرف توجہ دی جائے تونہ صرف مسلمان بلکہ انسان کی عزت ہوگی۔ حضرت عائشہ سے کسی نے نبیۖ کی سیرت کا پوچھا تو فرمایا کہ ”نبی ۖ کی سیرت قرآن ہے”۔ قرآن میں ازواج اور لونڈیوں کے بارے میں کیا احکام ہیں؟۔اس کا صحیح تجزیہ قرآن وسنت کی روشنی میںکب کسی نے کیا ہے؟۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے حنفی علامہ بدرالدین عینی کے حوالے سے رسول اللہ ۖ کی28ازواج کا ذکر کیا ۔ جن میں حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی اور حضرت امیر حمزہ کی بیٹی بھی شامل ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے قرآن کی تفسیر اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرح کئی جلدوںمیں لکھ دی ۔ لندن تک ان کی کتابیں پہنچ چکی ہیں اور دنیا استفادہ کررہی ہے۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ ” حمزہ میرے رضائی بھائی تھے اور ان کی صاحبزادی میرے لئے جائز نہیں، وہ میری بھتیجی ہے”۔ تو پھر کس طرح نبی ۖ کی ازواج میں شامل کرلیا؟۔ علامہ بدر الدین عینی نے غلط کیا لیکن علامہ غلام رسول سعیدی نے کیوں نقل کیا ہے؟۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے بڑا کمال کیا تھا کہ ”سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر مخالفت میں اپنی رائے دی تھی” اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اچھا کیا کہ اپنی کتابوں سے سورہ فاتحہ کا جواز نکالنے کا اخبار میں اعلان کردیاتھا۔ اب مفتی منیب الرحمن نے اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔ جاہل پیروں سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے لیکن اس سے زیادہ نقصان علماء کے غلط علمی معلومات لکھنے سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ سے نبی ۖ نے فرمایا کہ مجھ پر اپنی بیٹیاں پیش نہ کرو۔ نبی ۖ کی وہ سوتیلی بیٹیاں تھیں۔ جو آپ پر حرام تھیں۔ اگرنبی ۖ کوامیر حمزہ کی بیٹی کی پیشکش ہوئی اور نبی ۖ نے منع فرمایا کہ میری بھتیجی ہے تو پھر اس کو ازواج کی فہرست میں لکھنا کتنا گھناؤنا جرم ہے؟۔
بخاری کا دوسرا مشہور شارح علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ نبی ۖ کے پاس لڑکی ابنت الجون باغ میں لائی گئی ۔ کمرے میں نبی ۖ نے کہا کہ خود کو مجھے ہبہ کردو۔ اس نے کہا کہ کیا ملکہ خودکو بازارو کے حوالے کرسکتی ہے؟ نبیۖ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ نبیۖ نے فرمایا قد عذت بمعاذ جس کی پناہ مانگی جاتی ہے اس کی پناہ مانگ لی ہے اور اس کو دوکپڑے دئیے اورکسی سے کہا کہ اس کو اپنے گھر پہنچادو۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھ دیا کہ ” سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی ۖ سے نکاح نہیں ہوا تھا تو اپنے پاس خلوت میں کیسے بلایا۔ نکاح کے بغیر تو وہ اجنبی تھی ؟ اسکا جواب یہ ہے کہ جب نبی ۖ نے انکو اپنے پاس طلب کرلیا تو یہ نکاح کیلئے کافی تھا، چاہے وہ لڑکی راضی نہ ہو اور اس کا باپ یا ولی بھی اس نکاح کیلئے راضی نہ ہو”۔ علامہ عسقلانی کا سوال و جواب صدر وفاق المدارس پاکستان مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی بخاری کی شرح ”کشف الباری” اور صدر تنظیم المدارس مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی بخاری کی شرح ”نعم الباری ” میں بھی نقل کیا۔ نبیۖ کے خاکے بنانے کا اصل سبب یہ علماء ومفتیان ہیں جن کی وجہ سے دنیا نبیۖ سے بدظن ہوگئی ہے کہ صحیح بخاری کی مستند شرح میں کیا آئینہ پیش کیا گیا ہے؟۔
اسرائیل حماس حملے سے عسقلان پر قبضہ سے خائف نہیں بلکہ وہ عسقلانی سے منسوب نبیۖ کی سیرت سے خوفزدہ ہے جس پر اگر مجاہدین کا بس چل جائے تو زبردستی سے لڑکیوں کو ان کی مرضی اور انکے باپ کی مرضی کے بغیر نکاح پر مجبور کرنے کو سنت اور اپنا حق سمجھ لیں۔ مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری میں مزید تڑکا لگانے کیلئے لکھ دیا کہ ”ایک جاہل عرب نے اپنے اشعار میں کہا کہ عورت کیساتھ ناجائز جبری زیادتی میں جتنا مزہ ہے اتنا رضا سے کرنے میں نہیں ۔میں نے بہت ساری لڑکیوں کو اس حال میں حاملہ بنادیا ہے کہ جب وہ انکار کررہی تھیں اور میں نے زبردستی ان کیساتھ کرلیا”۔
حالانکہ قرآن میں احسن القصص کہانی حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے جب زلیخا نے کوشش کی لیکن آپ کو اللہ نے بچایا تھا۔ رسول اللہ ۖ کی سیرت کا یہ قصہ اس سے بھی زیادہ بہترین تھا۔ ابنت الجون کے نومسلم والد نے نبیۖ کو پیشکش کی کہ عرب کی خوبصورت ترین لڑکی نکاح میں دوں؟۔ نبیۖ نے حامی بھری۔ حق مہر طے ہوا۔ ازواج مطہرات نے ابنت الجون سے سوکناہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا میک اپ کیا اور آداب سمجھائے کہ جب نبیۖ یہ کہیں تو یہ کہنا اور پھر اللہ کی پناہ مانگ لینا۔ ہدایات پر عمل کا نتیجہ تھاکہ نبیۖ نے سمجھا کہ وہ خوش نہیں ہے اور باپ نے اپنی مرضی مسلط کرکے بھیج دیا۔ نبیۖ نے یہ معمول رکھا تھا کہ رخصتی کے تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود بھی پہلی دفعہ میں مکمل جانچ پڑتال کرتے اور اس معمول کا ازواج مطہرات کو ادراک تھا۔ اگر درست پہلو دنیا کے سامنے لایا جائے تو نبیۖ کے خلاف توہین آمیز کارٹونوں کا سلسلہ بھی یقینی طور پربند ہوجائے گا۔
مولانا فتح خان ٹانک اور پختونخواہ اور جمعیت علماء اسلام کی معتبر شخصیت نے کہا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرکے اپنے مشن کو تشہیر کریںجو عہدہ چاہیے وہ بھی دیں گے”۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مولانا فضل الرحمن ، جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور دوسری مذہبی وسیاسی جماعتیں اسلام کی درست تعبیر اپنے پلیٹ فارم سے خود بیان کرنا شروع کردیں تو عوام میں ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہت بڑا سہارا ملے گا اور پاکستان سے اسلامی انقلاب کا پوری دنیا میں ذریعہ بھی بن جائے گا۔ مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ آزاد ارکان بھی اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر عوام سے بڑے پیمانے پر ووٹ لے سکتے ہیں۔ مولانا فتح خان کی مسجد میں مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کی تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لوگ اسلام کو سخت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اسلام تو بہت تحفظ دیتا ہے۔ اگر کسی مرد اور عورت کو بدکاری کی حالت میں ایک شخص دیکھ لے تو اگروہ گواہی دے گا تو اس کو سزا ملے گی اور دوشخص دیکھ لیں اور گواہی دیں تو بھی دونوں کو سزا ملے گی اور تین افراد دیکھ لیں اور گواہی دیں تو تینوں گواہوں کو بھی سزا مل جائے گی اور بدکاروں کو تحفظ ملے گا۔ اس سے زیادہ نرمی اور کیا ہوسکتی ہے ؟۔ اسلئے عوام اسلام کیلئے علماء کو ووٹ دیں”۔
اگر مولانا صاحب یہ وضاحت بھی کردیتے تھے کہ قرآن کا حکم ہے کہ اپنی بیگم کو بھی غیرت کے نام پر قتل نہیں کرسکتے ۔ اگر عورت اپنے شوہر کو جھوٹا کہہ دے تو عورت کو سزا نہیں ہوگی اور اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بدکار مرد اور عورت دونوں کوایک سزا100،100کوڑے مارو۔ کچھ لوگوں کو اس پر گواہ بھی بنالو۔ اور اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ بدکار عورت کا نکاح بدکار مرد یا مشرک سے کرادو۔ اگر زانیوں کو قتل کی سزا دینے کے بجائے ان کی ایک دوسرے سے شادی کرادی جاتی تو مرد غیرت کے نام پر قتل کیلئے مجبور نہ ہوتا اور عورت جس کیساتھ لائن لڑاتی ،اس کی شادی بھی اسی سے کرادی جاتی۔ افغانستان کے طالبان کی بھی مولوی کی جعلی شریعت سے بالکل جان چھوٹ جاتی اور ان کو پوری دنیا میں پذیرائی بھی مل جاتی۔
قرآن اور عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے ” امة” کا لفظ ہے۔ مشرکوں اور مشرکات کے مقابلے میں مؤمن عبد اور مؤمنہ امة کو قرآن نے بہتر قرار دیا۔ اسی طرح طلاق شدہ و بیوہ خواتین اور غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرانے کی ترغیب دی ہے۔ کنواری لڑکیوں کو بھی بدکاری یا بغاوت پر مجبوری کی حد تک پہنچانے کے بجائے ان کی مرضی سے نکاح کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان آیات کا غلط ترجمہ اور تفسیر کرنے سے قرآنی حکم کا بیڑہ غرق کیا گیاہے۔ شیعہ حسن الہ یاری نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ حضرت ابوبکر کے والد چکلہ کے ملازم تھے اور جسم فروشی کے دھندے زمانہ جاہلیت میں رائج تھے۔ حالانکہ جس آیت میں لونڈی کا ترجمہ کیا گیا ہے تو وہاں لونڈی مراد نہیں ہے کہ زبردستی سے بدکاری پر مجبور مت کرو۔ آیات کی جعلی تفاسیر کرنے کیلئے جعلی روایات گھڑی گئیں ہیں۔ جس طرح شیعہ لڑکی دعا زہرہ نے بھاگ کر شادی کی تو اس تعلق کو قرآن اور حنفی مسلک بہت واضح کرسکتا ہے کہ یہ غلط تھا مگر حرامکاری نہیں تھی اور اگر اس کا باپ مجبور کرکے کسی اور سے جبری نکاح کرائے تو یہ بھی غلط ہوگا لیکن اس کو حرام کاری نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں دعازہرہ کی مجبوری ہوگی۔ کاش ! ایک ایسا عمل ریاست کی طرف سے ہی ہوجائے کہ پاکستان کے علماء کرام اورطلباء عظام کے سامنے ان چیزوں کی وضاحت ہوجائے۔ نہ صرف ہماری فرقہ وارانہ منافرت ختم ہو بلکہ دنیا میں بھی انسانی حقوق کے حوالے سے اسلام کا بول بالا ہو۔ علماء سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی دکانیں ختم اور مدارس کو ویران کرنے کے درپے ہیں حالانکہ ہماری وجہ سے پھر ان کی عزتوں میں بھی اضافہ اور مدارس بھی آباد ہوں گے۔
قرآن میں ماملکت ایمانکم کا ذکر جہاں ہے وہاں اس کا مفہوم سیاق وسباق سے واضح ہے۔ اس سے کہیں لونڈی وغلام مراد ہیں اور کہیں پر متعہ ومسیار مراد ہے۔
سورہ مائدہ آیت5میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ مؤمنات اور اہل کتاب کی محصنات سے نکاح کرناجائز ہے۔سورہ النساء میں جہاں محرمات کی فہرست چوتھے پارہ کے آخر اور پانچویں پارہ کے شروع تک بیان کی گئی ہے تو اس فہرست کے آخر میں دو بہنوں کا اکٹھا کرنا اور پھر محصنات کا بالکل آخرمیں ذکر ہے اور اس سے حرمت میں نرمی کی طرف رہنمائی ہے۔ مولانا مودودی نے ان دو جڑواں بہنوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا فتویٰ دیا تھا جن کے جسم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
والمحصنٰت من النساء الا ما مالکت ایمانکم کی تفسیر میں اختلاف شروع سے رہاہے۔ بخاری کی شرح میں مولانا سلیم اللہ خان نے اس کا تفصیل سے ذکر کیاہے۔ ایک صحابی نے کہا کہ ” اس سے مراد ایسی عورت ہے جو کسی کے نکاح میں ہو اور وہ اپنے مالک کی لونڈی بھی ہو”۔ لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ” کفار کی عورتیں مراد ہیں جو جنگ میں قید کی جائیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” لونڈیوں سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی قوم کی نہ ہوں ۔ اپنی قوم کی4اوردوسری قوم کی لاتعدادعورتوں سے نکاح جائز ہے۔عرب میں عجمی عورتوں کی حیثیت لونڈیوں کی تھی اور ہمارے ہاں دوسری اقوام کی”۔
غرض علماء لونڈیوں کی تعریف اور سورہ النساء کی آیت کے ترجمہ وتفسیر میں تذبذب مذاہب میں گرفتار ہیں۔ قرآن میں ایسے احکام بھی ہیں جن کا تعلق بعد کے ادوار سے ہوسکتا ہے۔
محصنات عربی میں تین معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک شادی شدہ جس میں بیوہ اور طلاق شدہ بھی شامل ہے۔ دوسری پاکدامن اور تیسری شادی شدہ۔ کیا شادی شدہ مراد لینے سے اس بات میں عزت نہیں ہے کہ وہ بیگمات مراد لی جائیں جن کی اپنی ایک مسلمہ حیثیت ہو اور وہ اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتی ہوں؟۔ جیسے نشانِ حیدر کے شہداء کی بیگمات ہیں۔ اس طرح کی دوسری ایسی خواتین ہیں جو اپنا ایک سٹیٹس شوہر کی وجہ سے رکھتی ہیں اور وہ اپنا اسٹیٹس کھونا نہیں چاہتی ہیں؟۔ پھر ان کے ساتھ نکاح کی جگہ ایگریمنٹ کا معاملہ زیادہ مناسب ہوگا جس کی وجہ سے وہ حکومتی مراعات شوہر کی پینشن وغیرہ کو بھی برقرار رکھ سکتی ہیں۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے کہ لوگوں کو غلام یا لونڈی بناؤ۔ نبی ۖ نے بھی کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا ہے۔ البتہ پہلے ایک ایسا ماحول تھا جہاں لونڈیوں اور غلاموں کی اتنی کثرت تھی جتنی آج فارمی مرغیوں کی ہے۔ اسلئے اسلام نے ان ذرائع کو ختم کردیا جن کی بنیاد پرغلام اور لونڈیاں بنائی جاتی تھیں۔ جنگوں میں تربیت یافتہ لونڈی و غلام کہاں مل سکتے تھے؟۔ البتہ جو لوگ پہلے سے غلام یا لونڈی ہوں تو جنگوں میں ان کو اپنی تحویل میں لینا ممکن تھا۔ کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو یہ سوچتا ہوگا کہ نبی ۖ نے بڑا احسان کیا کہ ابوسفیان کو غلام اور اس کی بیگم حضرت ہندکو لونڈی نہیں بنایا تھا۔ یہ ممکن بھی نہیں تھا۔ ایسا غلام اور لونڈی گھر میں کون پال سکتا تھا؟ اور اس سے زیادہ خطرناک بات کیا ہوسکتی تھی؟۔ بدری قیدیوں کو قید رکھا گیا تھا اور ان کو غلام بنانا کہاں ممکن تھا؟۔
مال غنیمت میں جس طرح سے اموال ملتے تھے اس طرح لونڈی اور غلام بھی ملتے تھے۔ البتہ عورتوں، بچوں اور بچیوں کی مجبوری اور تربیت پھر بھی ممکن ہوتی تھی۔ جب صلح حدیبیہ کے بعد کچھ خواتین مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئیں اور نبیۖ نے ان کو لوٹانے کے بجائے رکھنے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے حکم دیا کہ ان کے حق مہر اور خرچہ وغیرہ ان کے شوہروں کو جاہلیت کے دستور کے مطابق ان کو لوٹادو اور تم بھی کافر عورتوں کو اپنے پاس رکھنے کے بجائے واپس بھیج دو۔ ان کو چمٹائے مت رکھو۔ اگر وہ حق مہر واپس نہ کریں تو بھی در گزر سے کام لو۔ سورہ ممتحنہ کی ان آیات کا ترجمہ بھی درست نہیں سمجھا گیا جس کی وجہ سے غلط تفسیر لکھ دی گئی۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ جانچ پڑتال کے بعد ان خواتین کو واپس مت بھیجو۔ وہ اپنے ان شوہر کیلئے حلال نہیں اور نہ یہ ان کیلئے حلال ہیں۔ جن خواتین نے ہجرت نہیں کی تھی توان کیلئے یہ سوال ہی نہیں تھا۔ حضرت ام ہانی حضرت علی کی بہن نے بھی ہجرت نہیں کی تھی اور وہ مسلمان تھی اور شوہر مشرک تھا۔ حضرت علی نے اسوجہ سے فتح مکہ کے موقع پر اپنے بہنوئی کو قتل کرنا چاہاتھا لیکن پھر ام ہانی کے کہنے پر نبی ۖ نے پناہ دی تھی۔ نبی ۖ نہ ہوتے تو مسئلہ حضرت علی سے بھی بگڑجاتا اور اللہ نہ ہوتا تو سورہ مجادلہ بھی نازل نہ ہوتی۔ جس میں جاہلیت کا مذہبی فتویٰ باطل کردیا گیا۔ اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ ان چچا کی بیٹیوں کو تیرے لئے حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ ام ہانی توامہات المؤمنین میں شامل نہیں ہوسکتی تھی پھر علامہ بدرالدین عینی اور غلام رسول سعیدی نے کیوں شامل کیا ؟۔ اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ جو لونڈیاں آپ کو غنیمت میں ملی ہیں وہ بھی حلال ہیں تاکہ ابہام نہ رہے لیکن پھر نبی ۖ کو کسی بھی عورت سے نکاح کرنے کا اللہ نے منع کیا اور پھر الاماملکت یمینک کی اجازت دیدی ۔ ام ہانی کے تعلق کو لونڈی اور نکاح دونوں والا قرار نہیں دیا جاسکتا ہے لیکن ایگریمنٹ ، متعہ اور مسیار ہوسکتا تھا۔ ام ہانی ان محصنات میں شامل تھی جن سے ملکت ایمانکم کی بنیاد پر تعلق ہوسکتا تھا۔
ہمارے ہاں بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل اور فحاشی کے معاملات کو روکنے کیلئے قرآن وسنت کا درست نظام لانا ہوگا۔ اکابر علماء ومفتیان اور دینی ومذہبی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں سے ان معاملات پر بات کرنے کے ہم خواہاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں میں جرأت ہو تو ان کو بھی تفصیل کیساتھ بالمشافہہ معاملہ سمجھا سکتے ہیں اور مقتدر طبقے کو بھی سمجھنانے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ قرآن وسنت، اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خدمت ہے کہ جس سے ماحول بدلے گا۔ دنیا کو قرآن سمجھنے کی دیر ہے پھر انقلاب ایک دن کا کام ہے۔
ہم نے سن 2018میں جبPTMبن گئی تھی تو تجویز پیش کی تھی کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی جگہ مظلوم تحفظ موومنٹ بنایا جائے ۔ آجPTMاور بلوچ ایک ساتھ کھڑے ہیں تو اچھا ہے لیکن یہ سلسلہ مظلوم قومی اتحاد تک پہنچ رہاہے۔ جس کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کررہی ہیں۔ بلوچ خاتون نے یہ واضح کیا ہے کہ ہم گلہ شکوہ کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ حق مانگتے ہیں اور یہ بالکل درست فیصلہ ہے اسلئے کہ بھیک مانگنے سے کچھ ملتا تو پاکستان پوری دنیا میں خلافت کا نظام قائم کرچکا ہوتا۔
جو فقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
ہم نے بھی بہت مشکلات دیکھی ہیں۔ فوج نہیں علماء کرام اور تبلیغی جماعت جیسی نرم جماعت کی زیادتیوں کو بھی دیکھا ہے اور فوج و مجاہدین کی تو تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ مار دھاڑ پر گزارہ کرتے ہیں۔ ان میں بھی اسلام کی عظیم تعلیمات کی وجہ سے بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور مار دھاڑ ختم ہوسکتی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہم قرآن و بائبل پر پابندی لگائیں، ہندو

ہم قرآن و بائبل پر پابندی لگائیں، ہندو

غیر ہندی مذاہب میں عورت کا احترام نہیں ہندی مذاہب میں ہے۔
ہندوستان بہت مقروض ہے کرپشن بڑا مسئلہ ہے عوام کو ٹیکس دینا ہوگا

انڈین سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اشوینی اُپادھیائے نے ویڈیو بیان میں کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت دھرم نرپیکش (سیکولر)نہیں ہے سیاستدانوں نے ہمیں پڑھا دیا ہے اور ہم نے اس کو سن لیا ہے۔ دین کیلئے انگریزی میں کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔Religionدھرم (دین) نہیں ہوتا۔Religionپنتھ (مذہبی فرقہ) ہوتا ہے۔اگر بھارت دھرم نرپیکش (سیکولر) ہوتا تو نہ ہائیکورٹ کے جج کی کرسی پرلکھا ہوتا ستیم، شیوم، سندرم (حق، خوبی، حسن) اور نا سپریم کورٹ کے جج کی کرسی پر لکھا ہوتا ”مذہب اول ہے“ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، بھارت دھرم نرپیکش (سیکولر)نہیں ہے بھارت پنتھ نرپیکش (مخصوص فرقہ کی نمائندگی کرنیوالا) ہے۔ اب سوال یہ آیا کہ وید پڑھا سکتے ہیں تو بائبل قرآن کیوں نہیں پڑھاسکتے؟۔ سردار جی شاید یہی بات کہنا چاہتے ہیں۔ نہیں کہہ پارہے میں کہہ دیتا ہوں۔ بالکل نہیں پڑھا سکتے۔ بائبل قرآن نہیں پڑھاسکتے کیونکہ بائبل میں سبھی انسانوں کو ایک جیسا احترام اور عزت نہیں دی جاتی لیکن ہمارا تصور ہے کہ سب ایک جیسے ہیں۔ بائبل میں کرسچن اور غیر کرسچن کے درمیان فرق ہے اسلئے نہیں پڑھائی جاسکتی۔ قرآن نہیں پڑھائی جاسکتی۔ کیوں؟ کیونکہ اسلام اور غیر اسلام، مسلم اور غیر مسلم کو برابر نہیں مانا گیا، اس میں فرق کیا گیا ہے۔ وید پران یہ نہیں کہتا ہے آپ سکھ ہو، جین ہو، ہندو ہو، کچھ نہیں کہتا۔ وہ تو کہتا ہے کہ ستانگ یوگ (ستانگ مطلب سات ستون۔یوگ مطلب اتحاد) پر عمل کرو۔مسلم ہو،قوانین پر عمل کرو۔ ذہنی اور جسمانی طور پر مثبت کام کرو۔ اخلاق، کردار، نیکی، شرافت، سچائی، امانت، دیانت اورایماندار ی کرو۔ اسی طرح کی باتیں ہیں اسلئے وید پران پڑھایا جا سکتا ہے۔ آپ اس کو دو طریقے سے سمجھئے۔ دنیا میں 11سو مذاہب ہیں اور بھارت میں دو طریقے کے مذاہب ہیں۔ ایک بھارت کا اصل مذہب اور دوسرا غیر ملکی مذہب۔ بھارت میں دو طریقے سے فرقے ہیں دھرم (دین) نہیں دین تو پوری دنیا میں ایک ہی ہے۔ سکھ ازم، جین ازم، بدھ ازم بھارت میں شروع ہوا اس کو کہتے ہیں انڈین مذہب۔ عیسائیت، اسلام یہ غیر ملک میں ہوا اسلئے اس کو کہتے ہیں غیر ملکی مذہب۔ انڈین مذہب اور غیر ملکی مذہب میں فرق کیا ہے اس کو سمجھئے۔ انڈین مذہب جین ازم، بدھ ازم، سکھ ازم اور ہندو ازم میں عورتوں کو بہت عزت و احترام دیا گیا ہے۔ عورتوں کو(پوجنی) مقدس مقام حاصل ہے۔ کسی بھی غیر ملکی مذاہب میں عورت کو یہ تقدس حاصل نہیں ہے۔ انڈین مذہب میں انسانوں کے درمیان تفریق نہیں کی گئی ہے۔ گروواڑیں میں کہیں لکھا ہوا ہے آپ مجھے بتاؤ؟۔ جو سکھ فرقہ مانے وہ تو ٹھیک جو سکھ نہ مانے وہ غلط ہے کہیں لکھا ہے؟۔ گروگرنتھ صاحب میں کہیں لکھا ہوا ہے کیا؟ نہیں لکھا ہوا ہے۔، اس میں لکھا ہوا ہے۔ اس لئے پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں دھرم (دین) ایک ہے۔ پنتھ (مذہب، فرقے) الگ الگ ہیں۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سب دھرم ایک جیسے ہیں بالکل غلط بات ہے جب سب کی کتابوں کی تعلیمات الگ الگ ہے، کتابوں میں اونچ نیچ کی تفریق ہے، کچھ کتابوں میں اچھوت اور غیر اچھوت کی باتیں ہیں تو سب ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ ہاں ہندو ازم، جین ازم، سکھ ازم، بدھ ازم کی تعلیم تقریباً ایک جیسی ہے۔ نہ اس میں کسی کو مذہب تبدیل کرنا سکھایا گیا ہے۔ نہ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جو نہ مانے اس کو قتل کردو۔ کہیں یہ نہیں لکھا کہ جو نہیں مانتا اس کو کیسے بھی کرکے دھوکہ دے کر، لالچ دے کر پیار سے ان کو کنورٹ کرکے لاؤ۔ نہ سکھ ازم میں لکھا ہے نہ کہیں جین ازم میں لکھا ہے نہ بدھ ازم میں لکھا گیا ہے نہ سنتن دھرم (ابدی مذہب) میں لکھا ہواہے۔ اسلئے بھارت دھرم نرپیکش نہیں ہے بھارت پنتھ نرپیکش ہے۔ اور یہ باتیں ہمیں اسلئے نہیں پتہ ہیں کیونکہ ہم لوگوں کو اسی لئے وید پران کو پڑھانا ضروری ہے۔ ہمارے بچوں کو پتہ رہے ہمارے پاس ہر چیز کا جواب ہو۔ ہم کہیں غلط قدم نہ اٹھالیں۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بھارت میں سناتن شکشا(قدیم تعلیم، جس کے اصول میں ایک خدا کی عبادت کرنا، نیک اعمال کرنا، برے اعمال سے بچنا، تمام مخلوقات سے محبت کرنا، مشکلات میں صبر کرنا اور خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا شامل ہے۔) لاگو ہو۔ سناتن شکشا لاگو ہوتی تو نہ آپ مجھ سے یہ سوال کرتے نہ میں آپ کو جواب دیتا۔
اس وقت بھارت پر ٹوٹل150لاکھ کروڑ کا قرضہ ہے۔70لاکھ کروڑ کا قرضہ صوبوں پر ہے اور80لاکھ کروڑ کا قرضہ وفاق پر ہے۔6لاکھ کروڑ اتر پردیش پر ہے،4لاکھ کروڑ مدھیا پردیش پر ہے، کوئی ایسا صوبہ نہیں جو گھاٹے میں نہیں ہے۔ دلی جو کہ سب سے چھوٹا صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ مفت خوری چل رہی ہے وہ بھی50ہزار کروڑ کے قرضے میں ہے۔ کیرالہ جیسے چھوٹے صوبے پر3لاکھ کروڑ کا قرضہ ہے۔3لاکھ کروڑ کا قرضہ آپ کے چھتیس گڑھ پر ہے۔4لاکھ کروڑ کا قرضہ بہار پر ہے۔ سارے صوبے قرضے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اب اُدھار لے کر گھی پینا یا اُدھار لیکر مٹھائی کھانے سے کیا حالت ہوگی یہ توآپ اپنے خاندان میں سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں موج مستی ہورہی ہے گھر کے اوپر قرضہ بھی ہے اُدھار چڑھا جارہا ہے پھر بھی بڑی موج مستی ہورہی ہے تو گھر کی کیا حالت ہوگی؟ گھر بچے کا کیا؟۔ جب گھر نہیں بچے گا تو ملک کیسے بچے گا؟۔ ہمارے یہاں مفت خوری روکنے والی جو پٹیشن ہے وہ تین ججوں کو ریفر ہوگئی ہے۔ ہم نے اس میں یہ کہا کہ جو چیزیں حکومت عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے دے رہی ہو وہ تو مفت میں ہوسکتی ہے۔ تعلیم مفت میں ہوسکتی ہے، سڑک میں چلنا مفت میں ہوسکتا ہے، پانی بھی ایک طرح سے مفت میں ہوسکتا ہے حالانکہ پانی مفت میں نہیں دینا چاہئے کیونکہ پانی کی بربادی زیادہ ہوتی ہے۔ پانی کا استعمال محدود نہیں ہے کہ اس کو مفت میں دے دیا جائے۔ کچھ لیٹر دیا جاسکتا ہے کہ غریب آدمی کو لیکن مفت میں نہیں ہونا چاہیے۔ اور ویسے بھی ہمارے پاس4%پانی ہے۔ یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے اسلئے سپریم کورٹ بھی ایگری ہے اسلئے دو ججوں کی بنچ کے بعد تین ججوں کو ریفر کردیا۔ اور پارلیمنٹ میں بھی اس کا شور ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی اس کو مفت کی ریوڑی قرار دیا۔ ابھی سیاستدانوں کو لگتا ہے کہ عوام مفت خور ہے۔ جو ٹیکس نہیں دیتا اس کو پریشانی نہیں۔ اپنے بچے کو5سو کی نوٹ دیتے ہو اگلے دن پھر5سو مانگتا ہے پوچھتے ہو ناکہ کل5سو دیا کیا کیا؟۔ اور ہر سال لاکھوں روپے ٹیکس دے رہے ہو اور پوچھ ہی نہیں رہے ہو منتخب ہونے والے نمائندے اور پارلیمنٹ سے میرے ٹیکس کے پیسے کا ہو کیا رہا ہے یہ؟۔یہ میرا پیسہ بربادی میں کہاں جارہا ہے؟۔ اس ملک میں 10کروڑ ٹیکس پیئر ہوچکے۔ بدعنوانی اور کرپشن ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر بھی بھارتی کورٹ میں ایک پٹیشن چل رہی ہے۔100روپے سے بڑے نوٹ کی ضرورت نہیں بھارت میں۔ لیکن جھوٹ جرم ہوجائے تو بس آدھی پریشانیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ صرف جھوٹ بولنے اور جھوٹا ایفی ڈیوٹ دینے پر، جھوٹا بیان دینے پر سزا ہو۔

انڈین سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اشوینی اُپادھیائے کو جواب: نوشتہ دیوار
وکیل صاحب نے جتنی باتیں کی ہیں ان میں بہت بڑے حقائق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس نے ہندو مذہب کے ویدوں کو دین قرار دیا ہے اور باقی عیسائی، اسلام، یہودیت اور سکھ و بدھ مت وغیرہ کو مذاہب قرار دیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وکیل صاحب نے ہندوستان میں داخلی طور پرپروان چڑھنے والے مذاہب ہندو، بدھ مت، جین اور سکھ کو ایک الگ حیثیت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں خواتین کو بہت احترام کا درجہ دیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں خواتین کو اس طرح کا احترام بالکل بھی حاصل نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کی ہے کہ اسلام اور عیسائیت وغیرہ میں یہ مسئلہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے اندر شمولیت کی دعوت دیتے ہیں جبکہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے ملکی مذاہب دوسروں کو اپنے مذہب کی دعوت نہیں دیتے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونیوالے مذاہب انسانوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے جبکہ دوسرے رکھتے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ہندوستان میں قرآن اور بائبل پر پابندی لگانی چاہیے جبکہ ویدوں کو پڑھانا چاہیے۔
وکیل صاحب کی ان تمام باتوں میں بہت وزن ہے اور ان ساری باتوں کو ایک ایک کرکے اسلام اور ویدوں کا موازنہ کرنا چاہیے۔ یہ ممکن ہے کہ جس طرح وید نے خود کو مذہب نہیں دین کہا ہے اور ہندو اس کو دین سمجھتے ہیں تو یہی بات سب کو قرآن میں بھی مل جائے۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ دین ایک ہے البتہ جب لوگ دین چھوڑ کر مذہب بنالیتے تھے تو پھر اس دین کی تجدید نئے نبی کے ذریعے سے ہوجاتی تھی۔ ویدوں میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ برہمن اور اچھوت میں فرق رکھا جائے مگر جب ہندوؤں نے دین کو مذہب بنادیا تو بہت سارے بگاڑ پیدا ہوگئے۔ اور ان بگاڑ میں نسلی تفریق کے علاوہ عورتوں کا بیوہ بن جانے کے بعد زندہ جلادینا اور انگریز سرکار کی طرف سے اس پر مہربانی کرکے پابندی لگائی گئی تو آج اس کے بال بھی منڈوائے جاتے ہیں جو عالمی منڈیوں میں بکتے ہیں۔
ہم طعنہ نہیں دے رہے ہیں جو حال ہندوؤں نے ویدوں کا کیا ہے وہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کا کیا ہے۔ اگر اپن مل جائیں تو وید اور قرآن ایک ہی دین ہیں جن میں صرف زبان کا فرق ہے۔ وید نوح علیہ السلام پر نازل ہوا تھا، قرآن آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر جس کا ہندوستان کی مشہور شاعرہ لتا حیاء نے بار بار ذکر بھی کیا ہے۔ اس طرح جن جن مذاہب نے اپنا دین بگاڑا ہے ان کو ہم مل جل کر قرآن اور ویدوں کے ذریعے سے مذاہب سے ہٹ کر ایک دین میں لوٹا سکتے ہیں۔ و السلام

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حقائق ہی حقائق ذرا دیکھو تو سہی!

حقائق ہی حقائق ذرا دیکھو تو سہی!
و سنت اور صحابہ کرام و اہل بیت عظام کا جن چیزوں پر اتفاق تھا اور آج بھی مسلمان ان پر متفق ہوسکتے ہیں اور سارے گمراہ ہدایت پر آسکتے ہیں کیا علماء و مفتیان اس کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوسکتے ہیں؟۔
پاکستان ایران سے سستا تیل خرید سکتا ہے لیکن اس کے اپنے پیٹرول کے خزانے کرک اور ڈیرہ غازیخان میں بند ہورہے ہیں۔ کیا پاکستان عالمی تجارتی مرکز ہے جس میں غیر فائدے اٹھارہے ہیں اور اپنے دلالی کرتے ہیں؟۔
طالبان نے افغانستان میں چین کی مدد سے اپنے وطن کیلئے ترقی کی راہیں کھول دی ہیں تو کیا ان کو اس بات سے دلچسپی ہوسکتی ہے کہ خطے میں دہشت گردی کے ذریعے ایسے حالات خراب ہوں کہ ان کی حکومت چلی جائے؟۔
امریکہ کو گوادر کے راستے چین کا دنیا کے ساتھ قریبی راستہ پسند نہیں تو کیا وہ افغانستان میں چین کا استحکام برداشت کرسکتا ہے؟۔ پاکستان نے روس اور پھر طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا تو کیا اب ایک مرتبہ پھر پنجہ آزمائی ہوگی؟۔
ANPکے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ ساری دنیا اُسامہ کو مارنے کی غرض سے یہاں آئی اور اُسامہ ہمارے صوبے میں نکلا۔ دہشت گردی کا شکار ہماری قوم پختون ہوئی اور قطر میں مذاکرات کے نتیجے میں کس کو اقتدار ملا؟۔
وجاہت سعید پہلے فوج کا ٹاؤٹ اب مخالف، جو مونچھ کو تاؤ دے رہا تھا ؟ ۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے اس سے کہا کہ بیرون ملک دورے میں محسن داوڑ نے کہا کہ طالبان کو طاقت کے زور پر لایا گیا ہے اور طاقت کے زور پر ہٹانا پڑے گا۔
PTMکے ایک نوجوان نے جلسے سے خطاب کیا کہ بڑی تعداد میں مسلح افراد کھانا مانگتے ہیں اور ہمیں خوف کے مارے دینا پڑتا ہے۔ پھر کل ہمیں پکڑیں گے کہ تم سہولت کار ہو جبکہ بغیر اسلحہ کے اتنے لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
PTMبلوچستان کے صدر نور باچا نے کہا کہ بلوچستان بارڈر پر پختونوں کو بیروزگار کرکےFCمیں بھرتی کیا جارہا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے بلوچوں کو قتل کیا جائے اور بلوچستان میں قوم پرستی کی بنیاد پر بڑی خونریزی کی جائے۔
پہلے افغان طالبان کو افغان قوم پرست پنجابی فوج کا مزدور کہتے تھے اب طالبان نے بھی اپنے قوم پرستوں کی زبان بولنی شروع کی ہے۔ اگر افغانی آپس میں نہ لڑتے تو پاکستان بھی اتنے عرصے سے مشکلات کا شکار نہیں ہوسکتا تھا۔
ولی خان نے دسمبر1986میں نجیب اللہ اور افغان رہنماؤں کو مخاطب کیا تھا کہ مہاجرین جن کو ناراض افغانی ہم کہتے ہیں کی تین قسمیں ہیں۔ جو جہاد کے نام پر بیرون ملک مزے کررہے ہیں، ایک کو میں نے کہا تھا کہ اب آپ پیرس میں رہتے ہو تمہارا گھر میں نے کابل میں دیکھا تھا۔ دوسرے دین فروش علماء سوء ہیں جو مہاجرین کے کمبل ، چینی ، چاول اور اسلحہ وغیرہ کو بیچ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں اور تیسرے وہ لوگ ہیں جو اپنے اچھے گھر بار چھوڑ کر یہاں کیمپوں میں مررہے ہیں۔ ان کی خواتین کیلئے نہانے ، دھونے اور استنجوں کیلئے کوئی بندوبست نہیں اور اس دن اخبار میں خبر آئی تھی کہ بارش سے چھت گر گئی8خواتین مرگئیں۔
اگر اسلام کی درست تعلیمات شروع ہوجائیں تو پاکستان ، افغانستان اور ایران کے علاوہ پختون ، بلوچ، سندھی ، پنجابی ، کشمیری اور مہاجر سمیت تمام عالم اسلام اور پوری دنیا کے نظام کو بہترین استحکام ملے گا اور خون خرابہ رُک جائیگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عرصہ سے منتظر خوست میں30طالبان کی شادی کا اہتمام15،20لاکھ روپے حق مہر ایک بڑا مسئلہ اور کمی کیلئے استدعا

عرصہ سے منتظر خوست میں30طالبان کی شادی کا اہتمام15،20لاکھ روپے حق مہر ایک بڑا مسئلہ اور کمی کیلئے استدعا

افغانستان کے علاقہ خوست میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں30افراد کی شادی کا اہتمام سرکاری سطح پر کیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی منگنیوں کو بڑا عرصہ ہوا تھا لیکن جوان مردوں اور لڑکیوں کی شادیاں حق مہر کی وجہ سے رکی ہوئی تھیں۔15اور20لاکھ روپے حق مہر ادا کرنے کیلئے جوانوں کو عرب ممالک میں سالوں میں محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے تب کہیں وہ اس قابل بن سکتے ہیں کہ حق مہر ادا کرسکیں۔ غریب خاندانوں کے لئے اتنا بڑا حق مہر ادا کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے اور طالبان حکومت نے پورے افغانستان میں یہ سلسلہ شروع کردیا کہ حکومت کی طرف سے حق مہر کی رقم ادا کردی جاتی ہے۔ یہ تقریب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ طالب رہنما کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک افغانستان کے پاس ابھی اتنے وسائل نہیں کہ اتنی زیادہ رقم ادا کرسکے۔ عوام کو چاہیے کہ اس میں اچھی خاصی کمی کریں تاکہ لوگ خود بھی ادا کرسکیں اور حکومت کو بھی مشکلات نہ ہوں۔
ایک جوان نے بتایا کہ8سال ہوگئے تھے کہ میری منگنی ہوئی تھی لیکن شادی کے وسائل نہیں تھے۔ طالبان حکومت کی طرف سے اپنے شہریوں کیلئے یہ اہتمام بہت اچھا اقدام ہے۔ منظور پشتین نے کہا تھا کہ ” کوئی ایسی قوم نہیں ہے جس کی کوئی رسم ظلم کی بنیاد پر ہو اور یہ پختونوں کی ایسی ظالمانہ رسم ہے جس میں ہمارے لوگوں کی اجتماعیت ملوث ہے اور اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے ہم نے قومی سطح پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے میں اعلان کرتا ہوں کہ اپنی بہن اور بیٹیوں پر پیسے نہیں لوں گا اور جتنا کچھ ہوسکے اپنی طرف سے خرچہ بھی کروں گا”۔
پنجاب کے اندر یہ اجتماعی ظلم جہیز کے نام پر ہوتا ہے اور ہندوستان میں ہندو بیوہ کو شوہر کی وفات کے بعد جلاکر ستی کی رسم کرتے تھے جس کو انگریز نے ختم کردیا اور علماء ومفتیان حلالہ کے نام پر اجتماعی ظلم کی غلطی اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے رہنماڈاکٹر عطاء الرحمن نے نمائندہ نوشتۂ دیوار کو کوئٹہ میں آرمی چیف سے ملاقات کا احوال سناتے ہوئے بتایا کہ مفتی تقی عثمانی ، مفتی منیب الرحمن ، مولانا طاہر اشرفی وغیرہ سے حافظ سید عاصم منیر نے کہا کہ پوری قوم کے حالات درست نہیں ہیں۔ علماء نے فرقے بنائے ہیں، عدالتیں بھی انصاف نہیں فراہم کرتیں۔ ریڑھی والے سے بھی کوئی چیز لے لو تو ایمانداری سے کام نہیں لیتا ہے۔ تمام طبقات اپنے اپنے شعبے میں ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے۔ جس پر میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے نظام کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
مولانا محمد خان شیرانی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نظام جھوٹ، ظلم اور خوف پر مبنی ہے۔ اللہ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں ہمارے مقابلے میں جھوٹ نہیں بولا جاتا ہے۔ ظلم نہیں کیا جاتا ہے اوراللہ کی کتاب سے وہ قریب ہیں تو ہم اپنوں کی حمایت کرکے بھی قرآ ن کی بات نہیں مانتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ویل للمکذّبین ” بربادی ہے جھوٹوں پر”۔ مولانا شیرانی نے اس آیت کا درست ترجمہ نہیں کیاہے اسلئے کہ اس میں جھوٹوں کی مذمت نہیں ہے بلکہ جھٹلانے والوں کی مذمت ہے۔
جھٹلانے والوں سے مراد کون لوگ ہیں؟۔ جس طرح مسلم اور مؤمن کا ایک درجہ ہے کہ بات مان لی یا اس کو دل سے قبول کرلیا۔ اس سے بڑا درجہ اس کیلئے جہدوجد کا حق ادا کرنے والے صدیقین کا ہوتا ہے۔ جو حق کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے مقابلے میں کافر ومنافق سے بڑا درجہ مکذبین کا ہوتا ہے جو حق کی مخالفت میں مہم جوئی بھی کرتے ہیں۔ آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی تعلیمات کو اجنبیت کا شکار بنادیا گیا ہے۔ جب کوئی حق بیان کرتا ہے تو ایک ٹولہ اس کا انکار کرتا ہے اور دوسرا بڑا بدبخت ٹولہ اس کی تکذیب بھی کرتا ہے۔
امارات اسلامیہ افغانستان نے30طالبان کی شادیاں کرائیں اور اگر ایک ایک فرد کو حق مہر کی مد میں20،20لاکھ روپے دئیے ہوں تو یہ حق مہر کے پیسے کس کی جیب میں گئے؟۔ کیا لڑکی کے ولی باپ کو یہ حق مہر کے پیسے لینے کا حق اسلام نے دیا ہے؟۔ اس سوال کا جواب مولانا شیرانی، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، ایمل ولی ، سراج الحق، منظور پشتین اور طالبان رہنما مل بیٹھ کر عوام کو دیں۔ اگر یہ رقم دلہن کو دی جائے تو پھر اس پر اعتراض نہیں بنتا ہے لیکن اگر یہ رقم دلہن کا باپ اپنا حق سمجھتا ہے تو پھر اس پر پشتو غیرت اور شریعت کا مسئلہ اٹھانا چاہیے۔ تبلیغی جماعت کے بزرگ رہنما ہمیش گل محسود نے بہت پہلے اپنی بیٹیوں پر کوئی پیسے نہیں لئے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
مسئلے کا حل یہ ہے کہ حق مہر لڑکی کااپنا حق ہو۔ جتنی گنجائش ہونقد اورقرض رکھا جائے۔ جس سے اسلام کا مقصد پورا ہو۔ عرب بے غیرت بھی لڑکیوں کو حق مہر کے نام پر بیچتے ہیں۔ اسلام کے نام پر انتہائی خطرناک، غیر فطری اور غیراسلامی مسئلے مسائل بنائے گئے ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کرناانتہائی ضروری ہے اور جب کوئی درست مسائل اٹھائے تو اس کی تکذیب والے تباہ ہوجائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv