پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر عالمی سُودی نظام سے کیسے چھٹکارا مل سکتا ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہمارے ملک کا مین سٹریم میڈیا چنداشخاص کے گرد گھومتا ہے۔ نوازشریف، مریم نواز، شہبازشریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ۔ مستونگ میں دو،ڈھائی سو بلوچ سراج رئیسانی کیساتھ مارے گئے لیکن میڈیا دکھا رہاتھا کہ نوازشریف اور مریم نواز لاہور ائرپورٹ پہنچ رہے ہیں اور شہبازشریف لاہور کی گلیوں میں جلوس گھمارہے ہیں لیکن اپنے اس ہدف تک نہیں پہنچ پارہے ہیں یا جان بوجھ کر ایک وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود ایک ڈرامہ رچا رہے ہیں۔ پھر قوم نے انتخابات اور اسکے نتائج دیکھے اور عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پھرPDMبن گئی، پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی بات سامنے آئی لیکن مریم نواز کیلئے قابل قبول نہیں تھا اسلئے اس نے کھل کر کہا کہ ” عمران خان کو ہم شہید نہیں ہونے دیں گے”۔ پھر اب عمران خان کو بھی شہید کردیا گیا ہے اور پرویز الٰہی کی ساکھ بھی ختم ہوگئی ہے اور حمزہ شہباز بھی بہت تذلیل کیساتھ وزیراعلیٰ کے منصب پر بیٹھ گئے ہیں۔ ان لوگوں کا ماٹو یہ ہے کہ عزت آنی جانی چیز ہے کوئی عہدہ ومنصب ملنا چاہیے۔ اب پیپلزپارٹی، ن لیگ، جمعیت علماء اسلام ، ایم کیوایم اور بلوچستان کی قوم پرست و باپ پارٹی میں وزارتیں تقسیم ہوگئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے بیٹے کیلئے جو وزارت چاہیے تھی اس پر اکرم خان درانی پہلے بھی اپنی کاروائی دکھا چکے ہیں اور اس میں لین دین ، کھانچوں ، مال کمانے اور مفادات اٹھانے کے سارے سربستہ حقائق معلوم ہیں۔ یہ سیاست اور مذہب نہیں بلکہ منافع بخش کاروبارہے۔اس سلسلے کو چلتا اسلئے رہنا چاہیے کہ اب یہ خانوادے اسکے بغیر جی نہیں سکتے ہیں۔

پرویزمشرف نےIMGسے6ارب ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔ آصف زرداری نے16ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچادیا اور عمران خان48ارب ڈالر تک پہنچادیا۔ جس کا گردشی سود بھی قریب قریب اپنے ملک کے کل آمدنی ٹیکس کے برابر ہے۔ یہ سارے قرضے ملک کی اشرافیہ کے نذر ہوجاتے ہیں ۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روپیہ کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ سودی قرضوں پر سودی قرضے لینے کے نتائج عوام بھگت رہی ہے لیکن ہماری اشرافیہ اور مقتدر طبقہ ٹس سے مس نہیں ہورہاہے۔ دلّوں اور دلّالوں کو بدلتا ہے لیکن نظام کی تبدیلی کی طرف کوئی توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔
پدو مارنے سے نظام کی تبدیلی ممکن ہوتی تو سب کو بے عزت ہوکر اقتدار سے نکلنا نہ پڑتا۔ جو بھی آئے گا اس کی خیر نہیں ہوگی۔ جب تک کہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ شہبازشریف آٹا سستا کرنے کیلئے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کرکے جو ڈرامہ بازی کررہاہے تو اس سے اہل بصیرت کو اندازہ لگانا چاہیے۔
رسول اللہ ۖ نے سود کی حرمت والی آیات کے نازل ہونے کے بعد سب سے پہلے زمینوں کو کاشتکاروں کیلئے فری کردیا ۔ جس سے دنیا میں غلامی کا نظام دنیا میں قائم تھا۔ جنگ بدر میں70قیدی بنائے گئے مگر کسی ایک کوبھی غلام نہیں بنایا اور نہ غلام بنانے کا سوچا جاسکتا تھا اسلئے جنگی قیدی کو غلام بنانے کا مفروضہ قطعی طورپر غلط ہے۔جنگی قیدی کو قتل کیا جاسکتا ہے، رہاکیاجاسکتا ہے یاپھر قید میں رکھا جاسکتا ہے۔قرآن نے یہ اجازت دی کہ جنگی قیدی کو فدیہ لیکر یا بغیر فدیہ کے احسان کرکے آزاد کیاجاسکتا ہے۔ابھی نندن کو قرآن کے حکم کے مطابق ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ ہمارا کوئی قیدی ہوتا تو تبادلے کی گنجائش بھی موجود ہوتی۔
اسلام دنیا اور مسلمانوں کیلئے قابلِ قبول نظام ہے لیکن اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ بیس سال بعد شریعت کورٹ نے سود کے خلاف فیصلہ دیا اور وہ بھی صرف انٹرسٹ (سود) کے لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ لکھنے کیلئے۔ کیس لڑنے اور جیتنے والے جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کو شرم بھی نہیں آتی ہے جو اسلامی بینکاری کے ایجنٹ بن کر کام کررہے ہیں۔ سود کے عملی کام سے زیادہ خطرناک اسکو جواز فراہم کرنا ہے۔ آج ہمارا عدالتی، ریاستی اور معاشرتی نظام تنزل وانحطاط کا شکار ہے اور سب سے عوام کا اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے غلام سرور اور شہر یار آفریدی نے پارلیمنٹ پر خود کش حملے کی بات کردی تھی۔ شاری بلوچ نے خود کش حملہ کردیا۔ مین سٹریم میڈیا چنداشخاص اور مفادات کے گرد گھومتا ہے لیکن وائس آف امریکہ،BBCاور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام کے ذہنوں کو بتدریج بالکل اُلٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔ اگرچہ منظور پشتین جیسے لوگ بھی بیرونی میڈیا کی کوریج سے خوش ہوکر طلسماتی دنیا کے شکار ہوگئے ہیں اور عوام کا اصل اعتماد وہ کھوچکے ہیں۔ اگر بلوچستان اور دیگر سیاسی جماعتوں سے معاہدہ کیا تھا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو علی وزیر اور محسن داوڑ کو الیکشن میں حصہ لینے پر فارغ کردینا چاہیے تھا۔ محسن داوڑ اور علی وزیر کی راہیں بھی جدا کردی گئیں اور جب ارمان لونی کے جنازے سے واپسی پر وزیروں کا جلسہ ہوا تھا تو علی وزیر اور محسن داوڑ اس میں جاسکے تھے لیکن منظور پشتین کو اجازت نہیں ملی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کے حامی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف باقی سب کو امریکہ کے ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ANPکے بشیر بلور شہید سمیت کتنے رہنما و کارکن شہید کئے گئے۔آصف علی زرداری،MQM، محمود خان اچکزئی،PTM، مولانا فضل الرحمن ، بلوچ قوم پرست اور فوج کی سیاسی مداخلت پر غدار اور امریکہ اور بھارت کا ایجنٹ قرار دئیے جاتے تھے اور اب وہی صحافی عمران خان کو دوبارہ لانے کیلئے پاک فوج کو امریکہ ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ کلاچی کے گنڈہ پوروں نے ایک لطیفہ بنایا تھا کہ ایک خاندان کے لوگ تھانیدار سے کسی بات پر نالاں تھے اور انہوں نے اس کی بے عزتی کا فیصلہ کیا۔ دوافراد تھانے میں گئے اور تھانیدار سے ایک نے کہا کہ اس نے میرا گدھا چوری کیا ہے۔ تھانیدار نے دوسرے سے پوچھا کہ سچ ۔ دوسرے نے کہا کہ یہ جھوٹ بول رہاہے۔ تھانیدار نے پہلے سے کہا کہ تمہارے گدھے کو کیسے چوری کیا ہے؟۔ اس نے کہا صاحب ! بطور مثال یہ سمجھو کہ آپ میرے گدھے ہو اور گند کی ڈھیر پر گوہ کھارہے تھے۔ اس نے تجھے کان سے یوںپکڑا اور چوتڑ پر لاتیں مارتے ہوئے تجھے ہنکاتا ہوا لے گیا۔ دوسرا شخص تھانیدار کے پیچھے کی طرف چلا گیا۔ تو پہلے نے کہا کہ اب تھانیدار کی ….. میں مت گھسو۔ دوسرے نے جواب دیا کہ تھانیدار کی ……میں میرا…… گھس رہا ہے۔ تھانیدار نے یہ دیکھ کر دونوں کو بھگادیا۔ امپورٹ حکومت اور کورٹڈاپوزیشن بھی سوچی سمجھے منصوبے کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی بے عزتی میں لگے ہوئے ہیں۔
پرویزمشرف سے زیادہ ملک کو قرضوں اور مہنگائی کا شکار پیپلزپارٹی نے کردیا تھا اور پیپلزپارٹی کو چوکوں پرلٹکانے ، پیٹ چاک کرنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے والی مسلم لیگ ن کی باری آگئی تو زرداری سے زیادہ سودی قرضے کے تحت ملک وقوم کو پھنسادیا اور پھر عمران خان کی حکومت آئی تو اس سے زیادہ قرضے لے لئے۔ عوام بیوقوف ہیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارا معاشی نظام سود ی قرضوں پر چل رہا ہے تو بھلائی کے دن ہم کب دیکھ سکتے ہیں؟۔ جو حکومت سے باہر ہوتا ہے تو اس کو دانت نکال کر فوج کو گالیاں دینی پڑتی ہیں اور عوام سمجھتے ہیں کہ یہ انقلابی بن گیا ہے اور جو حکومت میں ہوتا ہے وہ فوج کے دفاع کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جب عمران خان حکومت میں تھا تو نوازشریف اورPDMوالے فوج کو سب سے بڑی خطرناک بیماری کہہ کر جان چھڑانے کی بات کررہے تھے۔ لندن سے راشد مراد کا تعلق ن لیگ سے تھا اور کھریاں کھریاں کے نام سے فوج کی درگت بناتا تھا اور اب عمران خان والے دوسرے پیج پر آگئے ہیں۔ جب گھر میں تنگی ہوتی ہے تو بھائیوں میں بھی لڑائیاں ہوجاتی ہیں۔ جب تک ہمارے ملک کا اپنا معاشی نظام درست نہیں ہوگا تو یہ لڑائیاں، بدتمیزیاں اور بدتہذیباں چلتی رہیں گی۔کوئی بھی کسی اورکا خیر خواہ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں اور فوج کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور بگاڑ پیدا ہوتا رہے گا لیکن اب معاملہ لگتا ہے کہ بہت خطرناک موڑ پر پہنچ گیا ہے اور بنے گی اور بگڑے گی دنیا یہی رہے گی کا کھیل ختم ہوا چاہتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
ریاست مدینہ نے سودکے خلاف آیات نازل ہونے کے بعد کاشتکاروں کو مفت میں زمینیں دیں تو محنت کش طبقہ خوش حال ہوگیا اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینے کا تاجر بھی خوشحال ہوگیا۔ مزارعین کی محنت کا صلہ دوگنا ہوگیا توپھر مزدور کی دیہاڑی بھی ڈبل ہوگئی۔ مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں ۔ یثرت تجارت کا مرکز بن گیا تو دنیا میں مدینہ کے نام سے مشہور ہوگیا اور اس ترقی کا سبب جب نبی کریم ۖ ہی تھے تو پیار سے لوگوں نے مدینة النبی کہنا شروع کردیا تھا۔ آج ہندوستان سے الگ ہوئے ہمیں75سال ہوگئے ہیں لیکن ان کے اور ہمارے نظام حکومت کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پختونوں اور بلوچوں سے بڑا برا حال پنجاب اور سندھ کا ہے ، اب ابھی دادو میں زمین کے پانی کے مسئلے پر ایک گاؤں جلایا گیا ، جس میں بہت سارے بچے جھلس کر شہید ہوگئے۔ سندھ کی انقلابی خاتون ام رباب کے پاس باقاعدہ گاؤں کے افراد نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر شکایت کی کہ فلاں فلاں افراد نے پہلے دھمکی دی تھی اور پھر گاؤں کو جلا ڈالا ہے۔ جام عبدالکریم کے ہاتھوں ناظم جوکھیو کا بہیمانہ قتل اور مصطفی کانجو کے ہاتھوں ایک بیوہ کے اکلوتے بیٹے کا قصہ ایک مثال ہیں ورنہ سارے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ہیں اور یہی حال ہندوستان کے بہت سے علاقوں کا ہے۔
ہمارے ہاں لسانیت ، فرقہ واریت اور طبقاتی کشمکش نے سر اٹھالیا ہے اور ہماری قومی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ہے۔ مہاجر، سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی کے علاوہ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کے علاوہ پرویزی ، غامدی اور تبلیغی جماعت، سپاہ صحابہ، جمعیت علماء اسلام اور ایک ایک فرقے میں کئی کئی جماعتیں اور ایک ایک جماعت میں کئی کئی گروہ بندیوں کا تصور عام ہے۔ سیاسی جماعتوں کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ریاستی اداروں کا حال بھی ویساہی ہے۔
اس مرتبہ ایک منشور کے تحت آزاد ارکان الیکشن لڑیں اور اس منشور میں واضح معاشی اور اسلامی دفعات ہوں۔ جو آزاد ارکان بھی اس منشور پر منتخب ہوں تو وہ ایک آزاد حکومت بنائیں۔ اس منشور کے دفعات بطور مثال یہ ہوں۔
(1:) پورے پاکستان میں مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں دی جائیں اور جہاں جہاں بھی فارغ زمین ہو ،اس پر کھیتی باڑی، باغات اور جنگلی درخت لگائے جائیں جس سے محنت کشوں کو معقول آمدنی ملے گی اورباہمت لوگوں کو بہت بڑا روز گار ملے گا اور کم ازکم اگر دنیا نے امداد روک دی تو لوگ بھوکے نہیں مریں گے۔ بدحال لوگ خوشحال ہوجائیں گے تو پاکستان بننا شروع ہوجائے گا۔
(2:) جہاں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے وہاں ہمارا اتفاق نہیں ہورہاہے اور جس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے وہاں گنجائش کو ختم کرنے میں لگے ہیں۔ جب قرآن میں حضرت آدم سے لیکر خاتم الانبیاء ۖ تک انبیاء میں اختلاف کی گنجائش رکھی گئی ہے تو اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش کیوں نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے اپنی آیات سے سورہ مجادلہ میں ایک عورت اور نبیۖ کا مجادلہ ختم کردیا تو ان آیات سے امت مسلمہ کے مسالک کا اتفاق کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ فرقہ واریت اور سیاسی معاملات میں اتفاق رائے کی طرف لے جانے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ سیاسی اختلافات بھی جلد ازجلد سمندر کی جھاگ کی طرح اُڑیں گے۔
(3:) قرآن میں کسی شادی شدہ عورت پربہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں اور جب نبیۖ کی حرم ام المؤمنین پر بہتان لگایا گیا تو بہتان لگانے پر ان صحابہ کرام کو80،80کوڑے لگائے گئے جن میں نعت خواں حضرت حسان، حضرت مسطح اورحضرت حمنا بن جحش تھے۔ ہمارے ہاں کسی کی عزت کھربوں اور اربوں میں ہے اور کسی کی عزت کوڑیوں کے دام بھی نہیں ہے۔ اسٹیٹس کو توڑنے کیلئے ٹانگ اٹھاکر پدو مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہماری اشرافیہ کو قربانی بھی دینی پڑے گی ورنہ تو ایسا وقت آئے گا کہ وہ کہیں گے کہ کاش ہم اشرافیہ نہ ہوتے اور غریب لوگوں کی قسمت پر فخر کریں گے۔ محسود قوم اور وزیرستان کے لوگ بڑا خود پر فخر کرتے تھے اور طالبان کے مظالم نے ان کو مزید خراب کردیا تھا مگر جب آزمائش کے دروازے کھل گئے تو کہتے تھے کہ کاش ہم بھاگڑی ہوتے۔
(4:)نکاح وطلاق اور ایگریمنٹ کے مسائل میں اسلام کی تبلیغ اور اس پر عمل کریں گے۔ حلالے کی لعنت کا اسلام نے تصور بھی ختم کردیا تھا لیکن پھر جاہل طبقات کی بدولت یہ رسم رائج ہوگئی۔ ہماری تعلیم یافتہ قوم میں قرآن کے واضح مفاہیم کو سمجھنے کی بڑی صلاحیت ہے اور عورتوں کی عصمت دری کاقرآن نے حکم نہیں دیا ہے۔ اسلام کو غیر فطری بنانے اور سمجھنے والوں کا راستہ روکنا ہوگا۔
(5:) ماں باپ کی جدائی کے بعد بچوں کے مفاد میں قانونی اور معاشرتی بنیاد پر قرآن کے احکام پر عمل در آمد کرائیں گے۔ بچوں کی وجہ سے ماں باپ میں سے کسی کو بھی قرآن کے مطابق تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(6:)عدالت کے نظام کو ظالموں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑیں گے اور عدالت کیلئے تاخیری حربوں کا استعمال بالکل ختم کردیں گے۔ آزاد عدلیہ کا اعلیٰ ترین تصور قائم کریں گے جس میں مداخلت کا کسی طرح سے بھی تصور نہیں رہے گا۔
(7:) پاک فوج کو سرحدات کی حفاظت اور جدید اسلحے کی ٹریننگ تک محدود کرنا ہوگا۔ شہروں میںپرتعیش ماحول میں رہنے والے جنگ کے قابل نہیں رہتے ہیں اور تجارتی مقاصد کیلئے فوج کی چھتری استعمال ہونے پر پابندی لگادیں گے۔ ٹول پلازے، روڈ کے ٹھیکے اور رہائشی کالونیاں اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازم بن کران کو فائدے دلانے کے معاملات پر پابند ی لگادیں گے۔
(8:) کسی بھی مجرمانہ سرگرمی میں عدلیہ، فوج ، پولیس اور سول بیوروکریسی کا کوئی ملازم ملوث پایا جائے تو اس کو سرِ عام زیادہ سے زیادہ سخت سزا ملے گی۔
(9:) فوج کو پہلے مرحلے میں ڈسپلن قائم کرنے کیلئے ٹریفک پولیس سے لیکر سوشل میڈیا پر جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کیخلاف استعمال کیا جائے گااور علاقائی بدمعاشوں سے لیکر لینڈمافیا کے خاتمے تک سب معاملات درست کرنے کی کوشش ہوگی۔ ریاستی اداروں کی عزت و توقیر میں کارکردگی کو بنیاد بنایا جائیگا۔
(10:) مساجد کے ذریعے سے معاشرتی مسائل کے حل میں بنیادی کردار ادا کیا جائے گا۔ منشیات فروشی کے اڈوں اوران کے سرپرستوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ قوم ، ملک اور سلطنت کو زندہ باد پائندہ باد کی منزل مراد پر پہنچایا جائیگا۔
منشور کے نکات سوچ سمجھ کرباہمی مشاور ت سے طے کئے جائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ نے پاکستان کے سفیر کو دھمکی دے کر اپنی سازش کی تکمیل کا کوئی منصوبہ تو نہیں بنایا؟۔ مذہبی اور لسانی انتہاء پسند و دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں سے ملک و قوم کو اتنا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تھا جتنا ایک خط نے اپنا کرشمہ دکھایا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے افرا تفری کی فضاء پھیل جاتی ہے اور ملک کا استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے تو یہ بڑی کامیاب سازش ہوگی۔ شہبا ز شریف اور عمران خان دونوں اسٹیبلشمنٹ کے سگے ہیں اور دوسروں کو سیکورٹی رسک کہنے والے اب خود سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

سندھ کی معروف شخصیت نورالہدیٰ شاہ کی ٹوئٹ میں پاکستان کی زبردست عکاسی ہے جس میں فرح خان گوگی احتساب کے خوف سے بھاگی ہوئی ہے اور دوسری طرف خود کش بمبار شاری بلوچ نے وکٹری کانشان بنایا ہوا ہے۔
دوسری سائیڈ پر عیدالفطر کے دن کراچی میں بلوچ مسنگ پرسن کیلئے ایک بلوچ خاتون کی وائرل ویڈیو کی تصویر ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ” بلاول بھٹو زرداری کیا جانتے ہیں کہ پرامن جدوجہد، مذمت اور مزاحمت کیا ہوتی ہے اور کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا ہوتا ہے؟۔ جب ماما قدیر اور فرزانہ مجید کیساتھ ہماری خواتین، مردوں اور بچوں نے پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا تو کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ پرتعیش کنٹینر میں شراب پی کر بلاول بھٹو زرداری کراچی سے اسلام آباد مارچ کرتا ہے تو اس کو مذمت اور مزاحمت کا کیا پتہ چلتا ہے۔ پنجاب میں ہماری بیٹیوں ،ماماقدیر اور فرزانہ مجید پر ٹرک چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری میں اگر بلوچ نسل اوپر سے کہیں ملتی ہے تو بلوچیت کا اظہار کرنے کیلئے ہمارے ساتھ یہاں سڑک پر بیٹھ جائیں”۔
جب اتنے بڑے لانگ مارچ کو بھی میڈیا میں کوئی اہمیت نہیں ملی کہ پہلے ماما قدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ ہوا اور پھر جب ان کے مطالبے کو نہیں مانا گیا تو کراچی سے براستہ لاہور اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا تھا لیکن نہ مطالبات مانے گئے اور نہ ہی میڈیا میں کوریج مل سکی تھی۔ شاری بلوچ کا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے ہے اور وہ خود بھی ایک انتہائی پڑھی لکھی خاتون تھی اور ایک خوشحال گھرانے سے اس کا تعلق تھا اور تربت مکران میں سرداری نظام نہیں ہے۔ عوام کی توجہ لکھنے پڑھنے پر ہے۔ جہاں کا ہر لکھا پڑھا بندہ خود ہی سردار ہے۔ غوث بخش بزنجو، میرحاصل بزنجو اورڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق بھی تربت سے ہے اور غوث بخش بزنجو کو بابائے جمہوریت کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچ سٹودنٹ آرگنائزیشنBSOمیں اپنی جوانی گزاری۔ انقلابی سوچ کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کیا اور پھر ڈھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ بھی بن گئے لیکن انقلابی جوانوں میں اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ پنجاب وسندھ ،خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ فرق ہے کہ بے نظیر بھٹو، زرداری، نوازشریف اور عمران خان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلیشمنٹ کیلئے بدترین کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن جونہی اقتدار سے باہر آتے ہیں تو انقلابی بن جاتے ہیں اور ان پر عوام کو بھی انقلابی ہونے کا یقین آجاتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی ایم آر ڈی میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کے دستِ راست غلام اسحاق خان کو اس وقت صدر بنایا تھا کہ جب صدر کے پاس حکومت کو ختم کرنے کے اختیارات تھے۔ نوازشریف نے اقتدار کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ پر حملہ کرکے سپریم کورٹ کے پچھلے دروازے سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکس ٹینشن دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد جونہیPDMکے پلیٹ فارم سے موقع ملا تو آرمی چیف اور ڈی جیISIکو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ مسلم لیگ کے کارکنوں اور پنجاب کی عوام نے مان لیا کہ نوازشریف اب انقلابی بن گیا ہے۔ پھر عمران خان تسلسل کیساتھ فوج کیساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتا رہالیکن اب فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے علاوہ ہر بات کی ذمہ داری فوج پر ڈال رہاہے اور فرح گوگی کی وکالت کررہا ہے تو پھر اس کی اپنی لیڈر شپ کہاں کھو گئی تھی؟۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ جنرل باجوہ اور فوج اگر نوازشریف کے خلاف عدالت کی مانیٹرنگ نہ کرتے تویہ سزا بھی نہیں ہوسکتی تھی جو اقامہ پر دی گئی ہے۔ جب پارلیمنٹ، میڈیا اور قطری خط کے علاوہ ناقابل تردید شواہد سے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ پر عدالت نے کوئی سزا دینے کے بجائے اقامہ پر سزا دی اور اس میں فوج کی پشت پناہی بھی تھی تو ایسے عدالتی نظام سے فرح گوگی کو کیا سزا مل سکتی ہے؟۔
عمران خان نے آخری بال تک مزاحمت کی جگہ آخر میں گورنر پنجاب کو ہٹادیا اور وزیراعلیٰ بزادر کو ہٹادیا اور اسد قیصر سے استعفیٰ دلواکر ایاز صادق کے ذریعے ووٹنگ کروائی۔ اب اس کے سوشل میڈیا کے جانثار عمران ریاض خان گوگی کہتا ہے کہ اب تک نام نہیں لیا نوازشریف تو نام بھی لیتا رہا لیکن جب ضرورت پڑی تو نام لیکر بھی بتائے گا کہ میرجعفر اور میر صادق سے مراد کون ہے ؟۔ اور وقار ملک بتارہاہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ………..یہ سب کچھ کیاہے اور ان کو ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر واپس اس پوزیشن پر جانا پڑے گا۔ حامد میر نے بھی جنرل رانی کے بزدل بچوں کی بات کی تھی ، مولانا فضل الرحمن نے بھی امریکہ کا حشر کرنے کی دھمکی دی تھی اور عمران خان بھی حقیقی آزادی کی بات کررہاہے۔
چہرے بدل رہے ہیں لیکن نظام نہیں بدل رہاہے۔ قرآن نے مردوں کیلئے الرجال قوامون علی النسائ” مرد عورتوں کے محافظ ہیں”کی بات فرمائی ہے۔ ایک دوسرے پر فضیلت کی وجہ تحفظ فراہم اور مال خرچ کرنا قرار دیا ہے۔ اس میں حکمرانی کی بات نہیں ہے۔ ملکہ سبا بلقیس اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے دور کی حکمران تھی جس نے حضرت سلیمان کے خوف سے اطاعت اسلئے قبول کی تھی کہ جب ملوک شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہ امر واقع بیان کیا تھا۔ مرد وں کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے تحفظ اور مال خرچ کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے یہ امر واقع ہے۔ عورت کو بچے جننے ، دودھ پلانے اور پرورش کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا پڑتا ہے اور نازک اندام کی مالک ہوتی ہے اسلئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری کی غیرت اللہ نے مردوں میں ودیعت فرمائی ہے۔ عورت فطری طور پر عاجز، صالحات اور اپنی عزتوں کی غیب میں بھی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حساس قسم کی فطرت رکھی ہوئی ہوتی ہے اور یہ بھی امر واقع ہے جو اللہ نے قرآن کی ایک ہی آیت میں بیان کی ہے۔ نظام کا بنیادی تعلق گھر کے ماحول اور قوانین سے چلتا ہے۔ میاں بیوی اور والدین اور بچوں میں ایک گھر کا ماحول ہوتا ہے تو نظام کیلئے اس سے ملک وقوم کا آئینہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے مگر جب ریاست ڈائن بن جائے تو لوگوں کو ڈراؤنے خواب کے علاوہ کیا دیکھنے کو مل سکتا ہے؟۔ حکمران کا کردار باپ کی طرح ہونے کے بجائے ڈائن کی زن مرید والا بن جائے تو قوم وملک کی اس میں کس طرح بھلائی ہوسکتی ہے؟۔
پاکستان دنیا کا وہ عظیم ملک ہے کہ جس سے پوری دنیا کو بدلنے میں دیر نہیں لگے گی لیکن ہمارا ماحول عمران خان کیساتھ سیتا وائٹ، جمائما، ریحام، پنکی پیرنی اور ان کے بچوں والا بن گیا ہے اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور اس کی بیگمات والا بھی سمجھا جائے تو ٹھیک ہے بلکہ مفتی عبدالقوی اور اسکے سیکنڈلز بنانے والیوں کا سمجھا جائے تو برا نہیں ہے اور یہی حال حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے علاوہ تہمینہ اور شہبازشریف کا تھا۔ اس سے زیادہ کہو تو نعیم بخاری کی اہلیہ طاہرہ سید اور نواز شریف کو چھپاکر مولانا سمیع الحق اور میڈم طاہرہ کا جو سیکنڈل دکھایا گیا تھا۔
حال ہی میں افغان طالبان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں ایک مجاہد کہتا ہے کہ دنیا بھر سے کافروں کا خاتمہ ہمارا مشن ہے، جہاد جس سر زمین پر فرض ہوگا وہاں ہم پہنچیں گے اور جہاد کریں گے۔ ہم نے جہاد سے غیرملکی طاقتوں کو افغانستان سے مار بھگایا ہے لیکن پھر ویڈیو کی آواز میں خلل آگیا اور یہ اس وقت کی ویڈیو ہے کہ جب پاکستان سے افغانستان کو بہت بڑی تعداد میں اناج وغیرہ کا امدادی سامان پہنچایا گیا ۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کو افغانیوں کی مدد کیلئے بڑی رقم جاری کی تھی۔ افغانستان میں داعش کا وجود طالبان اورپاکستان کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان اور داعش کی سوچ یہی ہوسکتی ہے جو ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایک امیرالمؤمنین کو پوری دنیا کیلئے خود ہی نامزد کردیں۔ اگر عیسائیوں کا ایک پوپ ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کا خلیفہ کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم نہیں ہوتا تھا لیکن اچھا یا برا کوئی نہ کوئی خلیفہ ہوتا تھا۔
جب پاکستان کی طرف سے دنیا کیلئے خلیفة المسلمین کا اعلان ہوجائے تویہ ایک اسلامی فریضہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ افغانستان، ایران، سعودی عرب، ترکی اور تمام اسلامی ممالک کو جمہوری اور اسلامی بنیاد پر اس کو تسلیم کرنے کی بھی دعوت دی جائے۔ جو نامعلوم لوگ اپنی طرف سے کوئی خلیفہ مقرر کرکے دہشت مچائے ہوئے ہیں ان سے اس خطے اور مسلم دنیا کی اس فریضے سے جان چھوٹ جائے گی۔ جس طرح خلافت عثمانیہ کے دور میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور ایران ومصر اور حجازوغیرہ آزاد وخود مختار ریاستیں موجود تھیں اسی طرح سے پاکستان سے خلیفہ المسلمین کے تقرری کے بعد تمام ممالک کی خود مختاری کا وجود برقرار رہیگا۔ پھر جمہوری بنیادوں پر نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے سارے انسانوں کو جمہوری بنیادوں پر تابع فرمان بنانے کی کوشش کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام کے فطری نظام کو مسلمانوں سے پہلے مغرب کی حکومتیں قبول کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گی۔ ہماری افواج، سیاسی اشرافیہ اور انقلابی اور باغی لوگوں میں ڈھیر ساری خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ۔ جب خوبیاں ہم اجاگر کریں گے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں گے تو بہترین اور عزتدار انسان بن جائیں گے۔ ہم ایکدوسرے کی مخالفت اور دشمنی میں بہت کچھ کھو رہے ہیں لیکن تنزلی کی شکار قوم کو دلّوں اور دلّالوں سے عروج کی منزل پر نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ اصحاب حل وعقد کو مل بیٹھ کر اسلام کے فطری نظام کے ذریعے سے قوم کی حالت بدلنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی توتب ہی ہمیںکوئی چھٹکارا مل سکے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

سود سے ملک غلام بنتے ہیں اورمزارعت سے خاندان

سود سے ملک غلام بنتے ہیں اورمزارعت سے خاندان

آج پاکستان50کھرب کے سودی قرضے میں جکڑا ہوا ہے جس میں 30کھرب تک نوازشریف اور اس سے پہلے پریزومشرف نے پہنچایا تھا۔ پرویزمشرف نے جتنا سودی گردشی قرضہ لیا تھا زرداری نے اس کو ڈبل کردیا تھا۔ یعنیIMFکے آٹھ کھرب کو16کھرب تک پہنچادیا اور نوازشریف نے پرویزمشرف اور زرداری سے دگنا قرضہ لیکر30کھرب تک پہنچادیا تھا۔ عمران خان نے ساڑھے تین سال میں نوازشریف سے بھی ڈبل قرضہ لیکر50کھرب تک پہنچادیا ہے۔ نوازشریف اور زرداری نے1990کی دہائی میں ہی ایکدوسرے کیخلاف سوئس اکاونٹ، سرے محل اور ایون فیلڈ لندن کے فلیٹوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا تھا۔ پانامہ لیکس نے نوازشریف سمیت دوسرے بہت لوگوں کے بھانڈے پھوڑ دئیے اور پھر اس طرح براڈشیٹ نے بہت سے لوگوں کے چہروں سے نقاب اتار دیا تھا اور پھر ایک اور لیک نے بہت ساری حکومتی شخصیات اور دیگر کے بھانڈے پھوڑ دئیے تھے اور اب جنرل اختر عبدالرحمن کے سوئس اکاونٹ اور مفتی محمد نعیم کے پانچ ارب 34 کروڑ اور لاکھوں کے بینک اکاونٹ میڈیا پر زیرگردش ہیں۔ سیاستدان، جج، جرنیل، صحافی، سول بیوروکریسی اور ان کے ساتھی کرپٹ بلڈروں کے مال ومتاع اور ظالمانہ کرپشن کے معاملات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
گورنر پنجاب نے بتادیا ہے کہIMFکے کہنے پرپاکستان کے اسٹیٹ بینک نے پاکستان کی ریاست کو قرضہ دینا بھی بند کردیا ہے اور اب مالی معاملات پاکستان کی حکومت وریاست کی دسترس سے باہر ہیں اور جس سودی نظام سے2004سے2008تک پرویزمشرف نے ملک کا نظریہ بیچ کر چھٹکارا حاصل کیا تھا لیکن پھر خودہی اس میں کود گئے۔ زرداری، نوازشریف اور عمران خان نے نہلے پر دہلے کردئیے ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے سودی غلامی کو اسلامی غلامی کا نام دے دیا تو کیا اس کا کوئی فائدہ ہے؟۔
پہلے مزارعت سے افراد اور خاندان غلام بنتے تھے اوراب سودی نظام سے ملک غلام بنتے ہیں۔ ریاستِ مدینہ نے مزارعت کو سود قرار دیکر مزارعین کو مفت زمینیں کاشت کیلئے دی تھیں جسے اگر برقرار رکھا جاتا تو دنیا سے غلامی اور لونڈی کا نظام ختم کرنے کا سہرا امریکہ کے ابراہم لنکن اور اقوام متحدہ کی جگہ اسلام کے سر لگ جاتا۔ نبیﷺ نے آخری خطبے میں کالے گورے، عرب و عجم کے تعصبات کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور اپنے چچا کاخون اور سود معاف کرنے سے قتل وغارت گری اور سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی کردی تھی۔ اگر ہم پاکستان سے عورت کے حقوق اور اسلام کے معاشی نظام کی ابتداء کردیں گے تو پوری دنیا کے نظام کو قتل وغارت گری اور معاشی استحصال سے بچانے میں ایک زبردست کردار ادا ہوسکتا ہے۔ ایک اچھے نظام کا پہلے کہیں نمونہ پیش کرنا ہوتا ہے اور پھر دنیا بدلتی ہے۔ ریاست مدینہ نے قیصر وکسریٰ کی سپر طاقتوں کو شکست اسی لئے دی تھی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جب مولانا فضل الرحمن، مذہبی طبقات اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے2020میں عورت مارچ کودھمکیاں دی گئی تھیں تو ہم نے طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کی مدد کی تھی۔

جب مولانا فضل الرحمن، مذہبی طبقات اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے2020میں عورت مارچ کودھمکیاں دی گئی تھیں تو ہم نے طاقتوروں کے مقابلے میں کمزوروں کی مدد کی تھی۔

جب2020میں 8عورت آزادی مارچ والوں کو مولانا فضل الرحمن، مذہبی طبقات اور سیاستدانوں کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا تھا تو ہم نے ماہنامہ نوشتہئ دیوار کراچی میں مظلوم عورتوں کی حمایت میں بہت کچھ لکھا تھا۔ کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، سکھر، نواب شاہ،میرپور خاص، حیدر آباد اور کراچی میں ہنگامی بنیادوں پر عورت کے حقوق کے حق میں اپنا اخبار پھیلایا۔ لاہور میں پنجاب اور کراچی کے ساتھیوں نے کام کیا تھا اور7مارچ کی رات ہم لاہور پہنچے تھے۔6مارچ کو اسلام آباد میں ٹیم کی حوصلہ افزائی کی تھی۔8مارچ کی صبح عورت مارچ لاہور میں شمولیت کیلئے گئے۔TVچینل آپ نیوز کو ایک بھرپور انٹرویو بھی دیا لیکن وہ جرأت کرکے نشر نہ کرسکا۔ اسی طرح ایک معروف سوشل میڈیا کو زبردست انٹرویو دیا مگر اس نے بھی منافقت کرکے نشر نہیں کیا۔ اگر آپ نیوز اور سوشل میڈیا کے وہ انٹرویوز نشرہوجاتے تو مخالفت کا رُخ تبدیل ہوجاتا۔ اسلام نے جو تحفظ عورت کو دیا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے لیکن فقہاء نے جس طرح کاا ستحصا ل عورت کا اسلام کے نام پر کیا ہے اس کی مثال پوری دنیا کے کسی بھی مذہب اور قانون میں نہیں۔
ہم عورت مارچ کے شرکاء کو تحفظ دینے کیلئے قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء سے تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کرنے گئے لیکن وہاں معلوم ہوا کہ پہلے سے عورت مارچ کی انتظامیہ نے اپنے کارکنوں کوبھیجا تھا۔ جب اسلام آباد سے اطلاع ملی کہ عورت مارچ کی خواتین بہت دباؤ میں ہیں اور مذہبی طبقے نے بالکل ساتھ ہی اپنا ڈیرہ جما رکھا ہے تو ہم نے لاہور سے بائی روڈ اسلام آباد بروقت پہنچنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب ہم پہنچے تو اس سے قبل ہی عورت مارچ والوں پر ڈنڈوں، جوتوں، پتھروں اور اینٹوں کی برسات کی گئی تھی اور پروگرام ختم ہوچکا تھا لیکن مارچ والوں کوDچوک سے پریس کلب جانا تھاکیونکہ خواتین کی گاڑیاں وہاں پارک تھیں۔ ہم نے پھر اس مرحلے میں ساتھ رہنے کی سعادت حاصل کی۔ ساتھیوں نے پہلے بھی شرکت کی تھی اور مشکل وقت میں ساتھ نہیں چھوڑا تھا جو تصاویر میں نمایاں ہیں۔ پرویزمشرف کے دور میں ایک بہت ظالم قسم کا فوجی افسر تھا جو سول بیوروکریسی کے افسران کیساتھ بہت ناجائز کررہاتھا لیکن پھر اس نے نیب کی وجہ سے خود کشی کی تھی۔ ظالم طالبان ہوں، سیاستدان ہوں، ریاستدان ہوں یا کوئی بھی ہو جلد یا بدیر اپنے انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔ جب افغانستان کے طالبان اہل تشیع کے جلوسوں کو سیکورٹی فراہم کررہے تھے تو جامعہ حفصہ کے مولانا عبدالعزیز کہہ رہاتھا کہ شیعہ جلوسوں کو سکیورٹی فراہم کرنے والی پاکستانی ریاست طاغوت ہے لیکن اس غریب کو یہ پتہ نہ تھا کہ طالبان بھی یہی کام افغانستان میں کررہے ہیں جن کی وہ اسی وقت حمایت بھی کررہاتھا۔ طالبان کو چاہیے کہ کابل میں 8عورت آزادی مارچ کو اپنی خواتین کے ذریعے ایک اعلامیہ پیش کریں جس میں قرآن وسنت کے عین مطابق عورت کو آزادی اور وہ حقوق مل جائیں جس سے دنیا میں ایک اسلامی انقلاب کی راہ ہموار ہوجائے۔ کابل سے عورت کے اسلامی حقوق کا ڈنکا بجے گا تو امریکہ واسرائیل بھی حیران ہونگے کہ یہودونصاریٰ کے مذہبی طبقے کے نقشِ قدم پر چل کر مسلمانوں کے مذہبی طبقے نے بھی مذہب کے نام پر انتہائی غیر اخلاقی اور غیرانسانی قوانین بناکر عورت کو ظلم وجبر اور جانوروں سے بھی بدتر حالت پر پہنچادیا تھا۔ اگر عورت کواسلامی حقوق مل جائیں تو دنیا بھر میں پرامن اسلامی انقلاب کا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

امت کے زوال کی دو وجوہات ہیں، ایک قرآن سے دوری اور دوسری امت کا فرقہ واریت میں بٹ جانا۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

پاکستان، بھارت، امریکہ، برطانیہ اور دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں، بادشاہتوں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے اپنے اپنے طرز پر حکومت کرکے انسانیت کو تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچادیا۔ روس نے یوکرین پر قبضہ کیا تو اس میں امریکہ ونیٹو کا بھی زبردست کردار ہے۔ انسانی آبادی پر گرائے گئے بموں کے جلتے شعلوں سے آسمان لرز رہاہے۔ زمین دہک رہی ہے اور انسانیت جل رہی ہے۔ اب دنیا کو تباہی وبربادی سے بچانے کی صلاحیت صرف اسلامی نظام میں ہے مگر اسلامی نظام عام مسلمانوں کو تو بہت دور کی بات ہے علماء ومفتیان کے علم وفکر سے بھی بالاتر نظر آتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنا ایک ہونہار شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن پیدا کیا۔ شیخ الہندؒ نے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ، مولاناشبیر احمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس، مولانا سیدانورشاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی اورمولانا عزیر گل جیسے نامور شاگرد پیدا کئے تھے۔ پھر جب شیخ الہند مالٹا میں قید ہوئے تو جیل میں قرآن کریم کی طرف توجہ کرنے کا موقع مل گیا۔ جب1920ء میں آزاد ہوکر ہندوستان آگئے تو شیخ الہند کی رائے بالکل بدل چکی تھی۔ امت کے زوال کے دو اسباب بتائے۔ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ واریت میں امت کی تقسیم۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ ”فرقہ واریت کی لعنت بھی قرآن سے دوری کے سبب ہے“۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہندکے مشن کیلئے کام کیا مگرشیخ الہند کے دیگر شاگردوں نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ پھر مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی آخر میں کہا کہ ”میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی ہے اسلئے کہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں اپنی زندگی ضائع کردی ہے“۔
پاک وہندکے معروف علماء ومفتیان مولانا سیدمحمدیوسف بنوری،مفتی محمد شفیع،مولانا شمس الحق افغانی، مولاناسیدمحمدمیاں، مولاناادریس کاندہلوی، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،مولانا قاری محمد طیب، مولانا محمد طاہر پنج پیری،مفتی محمود شیخ الہند ؒ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔ جن میں مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی حیات ہیں۔ شیخ الہند ؒ اور مولانا کشمیری ؒ نے اپنی آخری عمر میں فرمایا کہ ”قرآن وسنت کی خدمت کرنے کے بجائے فقہ کی وکالت میں زندگی ضائع کرد ی۔ مفتی اعظم مفتی محمد شفیع نے فرمایا کہ ”مدارس بانجھ ہوگئے ہیں۔ شیخ الہند مولوی کہلاتے تھے لیکن ان کے پاس علم تھا اور آج مولانا، علامہ اور بڑے بڑے القاب والے ہیں لیکن ان کے پاس علم نہیں ہے“۔ آج مفتی محمد شفیع کاایک بیٹا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور دوسرابیٹا مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی ہے۔پہلے اندھوں میں کانا راجہ ہوتے تھے اوراب آندھیوں کی طرح ہر چیز جاہل طبقوں کی طرف سے ملیامیٹ ہورہی ہے۔ سودی بینکاری میں اصل رقم سلامت اور اضافی سود ملنے کے بعد بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا فتویٰ دیدیا گیا۔ مثلاً بینک میں 10لاکھ پرایک لاکھ سالانہ سود بن گیا۔ اس میں 25ہزار روپیہ زکوٰۃ کے نام پر کٹ گئے اور10لاکھ اصل رقم بھی محفوظ رہی اور مزید75ہزار سود بھی مل گیا۔ مفتی محمودؒ نے زندگی کے آخری لمحے مفتی تقی اور مفتی رفیع عثمانی کو جامعہ نیوٹاؤن کراچی میں طلب کیا کہ بینکوں کے سودسے زکوٰۃ کی کٹوتی کا فتویٰ غلط ہے اور اس میں نہ سمجھ میں آنے والی راکٹ سائنس نہیں تھی۔
جب مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن نے پہلے عمران خان کی حکومت کو گرانے سے انحراف کیا تھا توہم نے نشاندہی کی تھی۔PDMنے23مارچ تک اسلام آباد پہنچنے کیلئے ایک لمبی تاریخ دی تھی،اب جب اس کا وقت قریب آگیا ہے تو عدمِ اعتماد کا شوشہ صرف اسلئے چھوڑ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ڈر سے ن لیگ اور جمعیت علماء اسلام اصل میں لانگ مارچ سے بھاگ رہی ہیں۔ جن صحافیوں نے جھوٹ بول بول کر فضاء بنانے کی کوشش کی تھی کہ ن لیگ کا حلالہ ہوچکا ہے اور اب وہ خاتون اول بن کر امید سے ہے تو یہ کرائے کے صحافی کا اصل کردار بہت خطرناک ہے۔ میڈیا کو مکمل آزادی ہونی چاہیے لیکن کرائے کے صحافیوں کو آئینہ دکھانے کی بھی بہت سخت ضرورت ہے۔ شاہد خاقان عباسی، مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز متحرک ہوجاتے تو سیاست میں ہلچل مچ سکتی تھی لیکن یہ صرف اور صرف23مارچ کے لانگ مارچ سے جان چھڑانے میں لگے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ اور صابرشاہ مدرسے کی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہیں اور مسکان بائیک چلاتی ہے؟

ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ اور صابرشاہ مدرسے کی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہیں اور مسکان بائیک چلاتی ہے؟

پچھلے سال مفتی عزیز الرحمن اور صابر شاہ کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، حریم شاہ کی ویڈیوز نے بھی تہلکہ مچایا تھا اور یہ دونوں اسلامی مدارس کی تعلیم وتربیت سے بھی آراستہ ہیں۔ صابر شاہ اورحریم شاہ کی ویڈیوز میں بہت فرق بھی تھا اور ایک باریش لڑکے اور ایک لڑکی میں فرق ویسے بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ مسکان بائیک چلاتی ہے اور ایک کالج کی اسٹوڈنٹ ہے۔ بہت سے لوگوں کو مذہب سے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ صابرشاہ کا کردار بھی تمام مدارس ومساجد سے نفرت کا ذریعہ بنارہے ہیں اور مسکان خان کے کردار کو بھی غلط سمجھ رہے ہیں۔ ان کو مذہب سے چڑ ہوگئی ہے۔ حالانکہ مساجد ومدارس نسل در نسل کردار سازی، شائستگی اور تعلیم وتربیت کے سب سے زیادہ بہترین اور سستے ترین ذرائع ہیں۔ آج افغانستان کے دیہاتی علاقوں میں طالبان کی حکومت کی وجہ سے امن وامان قائم ہوا ہے اور عوام خوشحال ہیں۔ البتہ کابل اور شہری علاقوں میں کئی این جی اوز نے جو نوکریاں دی تھیں اس وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔
طالبان کا پہلے رویہ بہت شدت کا رہاہے لیکن اب ان کے بڑے رہنماؤں نے دنیا دیکھ لی ہے،وہ کافی حد تک بدل گئے لیکن بے شعور اور شدت پسند طبقات کی طرف سے شدید جذباتی مخالفت کے خدشات کا بھی سامنا ہے اسلئے وہ بہت مشکلات کا شکار ہیں۔ ایک طرف مروجہ اسلامی رسم ورواج اور احکام کا معاملہ ہے اور دوسری طرف امیرالمؤمنین ملا عمرؒ کے اقدامات سے انحراف کی بات ہے اور تیسری طرف شیعہ ایرانی حکومت سے مفادات ومراسم کا معاملہ ہے اور چوتھی طرف افغان قومیت اور پاکستان کے مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ ہے۔ چاروں طرف سے اندرونی اور بیرونی مشکلات کے علاوہ عالمی دنیا کی طرف سے انسانی حقوق اور عورت کے حقوق میں بھی بڑے تضادات کا سامنا ہے۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان کے اکاؤنٹ بھی منجمد کررکھے ہیں اور اسلام کے نام پر سودی بینکاری کی منافقت کے بھی طالبان متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی اپنی حالت افغانستان سے زیادہ خراب اسلئے ہے کہ ایک طرف بے تحاشا سودی قرضے لئے ہیں،دوسری طرف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سیاست ہے، تیسری طرف ایک طاقتور ادارے نے اپنا مستقل اقتدار جمایا ہوا ہے اور چوتھی طرف سودی بینکاری اور اسلامی بینکاری میں استحصالی نظام کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ حلالہ کی لعنت کا نام کارِ ثواب رکھ دیا ہے۔ فقہ حنفی میں علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام کا بہت بڑا مقام ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ”ہمارے بعض مشائخ نے حلالہ کو لعنت نہیں کارِ ثواب قرار دیاہے“۔
اگر پاکستان اور افغانستان کے علماءِ حق مل بیٹھ کر اسلامی احکام کا درست تجزیہ کریں اور پھر ان کو دنیا کے سامنے پیش کریں تو ان کی تمام مشکلات کا حل نکل سکتا ہے۔ قرآن کریم نے نہ صرف عورت کو اپنے شوہر سے خلع کا حق دیا ہے بلکہ خلع میں بھی مالی تحفظ اس کو فراہم کیا ہے۔ البتہ طلاق میں خلع کے مقابلے میں بہت زیادہ مالی تحفظ فراہم کیا ہے۔ جب عورت کی طرف سے طلاق کا دعویٰ ہو اور دلائل وشواہد سے خلع کا ثبوت مل جائے تو علیحدگی میں مالی حقوق کم ملیں گے مگر پھر بھی ملیں گے ضرور۔ اور اگر طلاق کا ثبوت مل جائے تو عورت کو بہت زیادہ مالی حقوق مل جائیں گے۔ مغرب نے عورت کو علیحدگی کا حق دیا ہے اور مسلمانوں نے عملی طور پر عورت سے خلع کا حق چھین لیا ہے۔ پاکستان کے آئین میں عائلی قوانین کے اندر عورت کو خلع کا حق حاصل ہے۔وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکرٹری قاری محمد حنیف جالندھری نے جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ عدالت میں عورت کو خلع کا حق غیر اسلامی ہے اور اس کے خلاف ہم بھرپور تحریک بھی چلائیں گے۔ حالانکہ جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤ ن کراچی کا فتویٰ عدالت کے حق میں ہے۔ آئیے اور دیکھ لیجئے کہ قرآن وسنت کی واضح تعلیمات کے خلاف عورت سے خلع کا حق کیسے چھین لیا گیا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن اکوڑہ خٹک میں پڑھتے تھے تو اپنے والد مفتی محمودؒ سے بھی چھپ جاتے تھے اوریہ بات ہمارے استاذمولانا عبدالمنان ناصرنے ہمارے ساتھیوں کو بتائی ہے اور انکے بھائی مولانا عطاء الرحمن درجہ رابعہ میں بنوری ٹاؤن میں فیل ہوگئے تھے اسلئے مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر سکندر، مفتی تقی عثمانی علیہ ماعلیہ

مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر سکندر، مفتی تقی عثمانی علیہ ماعلیہ

مفتی تقی عثمانی نے شادی بیاہ کی رسم میں لفافوں کی لین دین کو سود قرار دیا۔ اسکے بہنوئی مفتی عبدالروف سکھروی مفتی دارالعلوم کراچی نے اپنے مواعظ میں شادی بیاہ کی اس رسم سے متعلق حدیث بیان کی کہ سود کے73گناہ ہیں اور کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ مفتی سکھروی کا وعظ کتابوں میں شائع ہے۔ پھر مفتی محمد تقی عثمانی نے سودی بینکاری کو جواز بخش دیا۔تو علماء دیوبند وفاق المدارس کے سابقہ صدر مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ،مولانا محمد یوسف لدھیانوی ، مفتی زرولی خان ، مولاناسمیع الحق اور پاکستان بھر کے سب علماء دیوبند نے سخت مخالفت کی تھی۔ مفتی محمدتقی عثمانی کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی اسلئے علماء کی بڑی تعداد کا نعرۂ حق کام نہ آیا ۔ مسکان خان نے بھارت میں غنڈوں کے سامنے نعرۂ تکبیر بلند کیا تو دنیا کے میڈیا نے اٹھایا مگر جب مفتی محمدتقی عثمانی کے سود کیخلاف علماء نے آواز اٹھائی تو میڈیا نے بینڈ کردیا امریکہ کی CIAاور اسرائیل کی موساد کیخلاف فیس بک میںمعمولی بات پرپیج بلاک ہو جاتا ہے لیکن جب ان کے مقاصدکی تکمیل کی طرف کا معاملہ ہو توBBCلندن اوروائس آف امریکہ وغیرہ پر خوب تشہیر ہوتی ہے۔ مسکان خان نے اچھا قدم اٹھایا لیکن عالمی میڈیا اس سے ہندوستان کو مسلمانوں کے خلاف میدانِ جنگ بنانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جن لوگوں میں اسلام کا اتنا جذبہ ہے کہ مسکان کی تائید کرنے میں انعامات کا اعلان کررہے ہیں تو جب مفتی محمدتقی عثمانی کا دارالعلوم کراچی اور مفتی عبدالرحیم کا جامعة الرشید سودی بینکاری کو جائز قرار دیتا ہے تو ان غنڈوں سے بدتر ان علمائِ سو کا کردار ہے جنہوں نے مسکان خان کے خلاف غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اور مسکان سے بڑا کارنامہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور احسن المدارس گلشنِ اقبال وغیرہ کا تھا جنہوں نے عالمی سودی نظام کو جائز قرار دینے کے خلاف نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا تھا لیکن ان کے کردار کی کوئی اہمیت دنیا کے سامنے میڈیا نے بیان نہیں کی اسلئے کہ عالمی میڈیا کے مفاد میں یہ نہیں تھا اور اب مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بھی بنایا گیا ہے۔
یہ تمہید اسلئے لکھی تاکہ عورت کے حقوق، طلاق وحلالہ اور خلع وغیرہ سے متعلق قرآن وسنت کے مقابلے میں بنائے گئے من گھڑت اور نام نہاد اسلامی احکام سے متعلق عوام وخواص کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔جس طرح سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینے کا فتنہ علمائِ حق کے مقابلے میں علماء سُو کا کارنامہ ہے ،اس طرح بہت سارے فقہی مسائل قرآن وسنت کے منافی بعد کی پیداوارہیں لیکن ان کو علمائِ حق کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔
الحمدللہ میں نے درس نظامی اور اصولِ فقہ کی روح کو سمجھ لیا ہے اور شیخ التفسیر مولانا بدیع الزمان سے اصولِ فقہ کی کتابیں ”اصول الشاشی” اور ” نورالانوار” جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری نیوٹاؤن کراچی میں نہ صرف پڑھی ہیں بلکہ ان پر لاجوا ب اعتراضات کرکے آپ سے زبردست حوصلہ افزائی بھی پائی ہے۔ اسی طرح فقہ وتفسیر اور درسِ نظامی کی دوسری کتابوں پر اعتراضات اور اساتذہ کرام کی طرف سے زبردست داد بھی ملی ہے۔ جن جن مدارس میں بھی پڑھا ہے،اساتذہ کرام سے بہت حوصلہ افزائی اور عزت بھی پائی ہے۔
غلام احمد پرویز، مولانا سیدابولاعلی مودودی ،جاویداحمد غامدی ، ڈاکٹر اسرار اور دیگر مذہبی اسکالروں کے مقابلے میں میری فکر تمام طبقات دیوبندی ،بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع کے علماء کرام و مفتیانِ عظام کیلئے اسلئے قابلِ قبول ہے کہ میں نے مسالک ومذاہب کی وکالت سے ہٹ کر قرآن وسنت کی ایسی تعبیر کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے جس میں گروہی تعصبات میں مبتلاء ہونے کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ قرآن وسنت کی برکت سے اسلامی جمہوری آئین پاکستان پر بھی تمام فرقے اور مسالک متحد ومتفق ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نالائق ارکان اور چیئرمین اثر ورسوخ کی بنیاد پر بھرتی ہوتے ہیں لیکن ان کا قصور بھی نہیں اسلئے کہ فقہی مسالک اور فرقہ واریت کی بھول بھلیوں پر اتفاق الرائے قائم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس شمارے میں عورت کے حقوق سے متعلق کچھ واضح احکام قرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات سے افادہ عام کیلئے پیش ہیں ۔ امیدہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل،عورت آزادی مارچ، ریاست وحکومت پاکستان، افغانستان، ایران، سعودی عرب، مصر اور تمام اسلامی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ امریکہ واسرائیل کی پارلیمنٹ کیلئے بھی قرآن میں عورت کے پیش کردہ فطری حقوق قابلِ قبول ہونگے اور علماء ومفتیان اور عوام الناس بھی خوش ہوں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

بھارت مسلمانوں کیلئے خطرناک ترین، عارفہ خان شیروانی

بھارت مسلمانوں کیلئے خطرناک ترین، عارفہ خان شیروانی

بھارت مسلمانوں کیلئے دنیا کی سب سے خطرناک جگہوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ روانڈا میں قتل عام سے پہلے کے جو آثار تھے وہی آثار اب بھارت میں پیدا ہوچکے ہیں۔ جس سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے کچھ واقعات کا تذکرہ کروں گی جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح بھارت اس قتل عام کی طرف جارہا ہے۔ بھارتی مسلمان کی زندگی تنگ کی جارہی ہے کہ وہ بیڈ روم میں کیا کرتا ہے؟، وہ باتھ روم میں کیا کرتا ہے؟، وہ سڑک پر کیا کرتا ہے؟، وہ ٹرین میں کیا کررہا ہے؟، وہ بس میں کیا کررہا ہے؟، اسکول میں کیا کررہا ہے؟ کالج میں کیا کررہا ہے؟۔ کرناٹک کے ایک اسکول کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا جہاں ابھی تک بھی آدھے درجن سے زیادہ وہ لڑکیا ں ہیں جو حجاب پہن کر اسکول جانا چاہتی تھیں مگر انہیں اسکول کی انتظامیہ نے اندر نہیں گھسنے دیا۔ ان کا جو بنیادی حق ہے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اور پریکٹس کرنے کااس کا بھی تحفظ نہیں کیا جارہا۔ کیونکہ قانون اور آئین اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں ہے جب تک اس پر عمل درآمد کروانے والے لوگ ناکارہ ہیں۔ اور انہی کا بھارت کے قانون اور آئین پر یقین نہیں ہے ، اگر پولیس، جج، حکومت، سیاستدان اور بیروکریٹس ہی اس پر عمل درآمد نہیں کررہے تو صاف طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قانون وآئین کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو کو ادھیڑا جارہا ہے ، چاہے وہ مسجد میں نماز پڑھنے سے لے کر کھلے میں نماز پڑھنے کا معاملہ ہو، گڑ گاؤں میں ہم نے دیکھا گذشتہ تین ماہ سے ہر جمعے کو انتہائی دائیں بازوں کے ہندو گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد باقاعدگی سے انڈیا کے دار الحکومت نئی دہلی کے پوش علاقے گڑ گاؤں میں جمع ہوتے ہیں جہاں ان کا مقصد عوامی مقامات پر نماز پڑھنے والے مسلمانوں کو روکنا ہوتا ہے۔ جہاں ہندو انتہا پسند جمع ہوکر نمازیوں پر جملے کستے ہیں اور نعرے بازی کرتے ہیں، انہیں جہادی اور پاکستانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور بھارت کا پر امن ہندو طبقہ چند لوگوں کے علاوہ اس پر اپنی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ دوسرا واقعہ جسے بتاتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی ہے یہ کلب ہاؤس کا واقعہ ہے۔ کلب ہاؤس انڈیا کا ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جہاں آڈیو کے ذریعے لوگ آپس میں بات چیت اور بحث کرسکتے ہیں جس طرح زوم میٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ نابالغ لوگ اس پروگرام کو دیکھیں اور ان کے دماغ پر اس کا برا اثر پڑے۔ اس کلب ہاؤس میں شامل ہونے والے لوگ مسلمان خواتین کے جسمانی اعضاء پر کھل کر بحث کررہے تھے کہ مسلم خواتین کی شرمگاہ کس رنگ کی ہے کس شیپ کی ہے اور اسکے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟۔ اس طرح کی گھٹیا اوربھدی باتیں اس پلیٹ فارم پر ہورہی تھیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم میں خواتین بھی شامل تھیں۔ لوگ اس پر یہ بات کررہے تھے کہ اگر آپ کسی مسلمان عورت کا ریپ کرتے ہیں تو اس میں اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اتنے مندر بنالینے پر ملے گا، دوسرے نے کہا نہیں نہیں اس پر اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اتنی مسجدیں گرادینے پر ملے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت کے شہر ہردوار سے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا، اتنے لاکھ مسلمانوں کو مارا جائے گا۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام کی باتیں کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔ صرف دو لوگوں کو گرفتار کیا جن میں یتی سنگھانند اور دوسرے جتیندر نارائن تیاگی جو کہ وسیم رضوی ہوا کرتے تھے۔ اور ان دو لوگوں کی گرفتاری پر بدلہ لینے کیلئے ریلی نکالی گئی ۔اور بھارتی جنتہ پارٹی کی طرف سے انیل پارا شر علی گڑھ سے ہیں وہ اس ریلی میں موجود تھے اور وہاں پوجا شگن پانڈے جو کہ خود کو ان پورنا ماں (ہندوؤں کی ایک دیوی کا نام ہے) کہتی ہیں وہ ہردوار کے مسلمانوں کے قتل عام اور بدلہ لینے پر ریلی کا حصہ تھیں بھارتی جنتہ پارٹی کے انیل پاراشر نے ان کا پیر چھوکر استقبال کیا۔ بھارتی حکومت اس طرح کے عناصر کو سپورٹ کررہی ہے۔ اس ریلی میں کھلے عام اسلام کو ختم کرنے کے بارے میں تقاریر کی گئیں۔ اور انٹرنیشنل ایکسپرٹ جنہوں نے روانڈا اور دوسرے ممالک میں قتل عام پر ریسرچ کی ہے ان کا کہنا ہے کہ بھارت سے بھی اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں۔ انڈیا کے مشہور صحافی کرن تھاپر نے ڈاکٹر سٹینٹن (Dr. Stanton) کا ایک انٹرویو کیا، جو کہ صدر ہیں جینو سائڈ واچ (Genocide Watch)کے ، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو واشنگٹن ڈی سی میں نسل کشی کے خلاف مہم چلارہی ہے۔ جس میں 24ممالک کی 70تنظیمیں شامل ہیں۔ جن میں اقلیتی گروپ، انٹرنیشنل کرائسز گروپ، ایجس ٹرسٹ اور سروائیول انٹرنیشنل شامل ہیں۔ جینو سائڈ واچ نے کوسو و، مشرقی تیمور، سوڈان، عراق، شام، یمن اور میانمار میں نسل کشی کے خاتمے کے لئے اتحادی کوششوں کی قیادت کی ہے۔
ڈاکٹر سٹینٹن نے انٹرویو کے دوران کرن تھاپر کو کہا ہے کہ” یو ایس کانگریس کو ریزولوشن پاس کرنا چاہئے تاکہ بھارت کو اسلئے دھمکی دی جاسکے کہ آپ کے یہاں قتل عام ہوسکتا ہے۔ اور جو اگلی بات انہوں نے کہی وہ اور بھی زیادہ خوفزدہ کرنے والی ہے کہ قتل عام کی جو ابتدائی علامات اور اشارے ہوتے ہیں وہ بھارت میں مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قتل عام سے پہلے کی ابتدائی دس علامات بھارت میں پائی جاتی ہیں”۔
بھارت اس وقت اسلام کے ماننے والے لوگوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ جگہ بن گیا ہے۔ روہنٹن ناریمن جو کہ سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں انہوں نے الرٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیز تقاریر ہیں ان کو قابو کرنے کی کوشش تو درکنار بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے ہردوار کی احتجاجی ریلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا جو اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں سرکار کی طرف سے ان پر کاروائی کرنے میں بہت زیادہ جھجک سے کام لیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ”ان اشتعال انگیز تقاریر کو کرمنلائز کیا گیا ہے153Aاور505Cمیں انڈین کورٹ کے بھارتی قانون کے تحت۔ چونکہ اس میں تین سال کی سزا ہے اور زیادہ تر لوگ اس میں کم سزا میں ہی چھوٹ جاتے ہیں اسلئے وہ یہ گزارش کرتے ہیں بھارت کے سینٹ کو چاہئے کہ قانون میں ترمیم کرکے کم سے کم تین سال کی سزا ضرور طے کی جائے”۔ اب بھارتی سماج ، بھارتی سرکار کے جاگنے کا وقت ہے اور بھارت کے اندر کے ایکسپرٹ اور باہر کے ایکسپرٹ لگاتار اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام نے 1400 سال پہلے ایک عورت کو بے دردی سے قتل ہونے سے بچایا اور زنا کے الزام میں چار گواہوں کو بلایا۔

اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے تلاش کرکے قرآن وسنت کی صاف ستھری تعلیم سے دنیا بھرکے مسلمانوں اور انسانوں کو آگاہ کرناہوگا اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان پر بڑی مصیبت نازل ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں لگتا اور مصیبت کا سامنا سب طبقات ہی کو کرنا پڑتا ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی ابتدائی آیات میں اس سورة کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا ، اسکو فرض کیا ہے اور اس میں بہت کھلی کھلی آیات ہیں۔ صحیح بخاری میں ایک باخبر صحابی سے دوسرے نئے مسلمان نے پوچھا کہ سورۂ نور میں زنا کی حد نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کیا گیا؟۔اس باخبر صحابی نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں ہے۔ جس طرح پہلے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی ،اسی طرح جب تک اللہ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی تھی تو مختلف معاملات میںفیصلہ اہل کتاب کے مطابق کیا جاتا تھا۔بوڑھے اور بوڑھی کے زنا پر سنگساری کا حکم بھی توراة میں تھا۔ لیکن الفاظ ومعانی کی تحریفات نے توراة کو بالکل بے حال کردیا تھا جبکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے اسلئے کہ قیامت تک وحی اور نبوت کاکوئی دوسرا سلسلہ باقی نہیں ہے۔
البتہ زنا بالجبر اور عورت کو جنسی ہراساں کرنے کی سزا قرآن نے قتل بتائی ہے اور نبیۖ نے اس پر عمل بھی کروایا ہے۔ سورۂ نور سے چند احکام ملتے ہیں۔
(1):زنا کی سزا مرد اور عورت کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ اگر قرآن کی اس واضح سزا کو جاری رکھا جاتا تو فحاشی پھیلنے اور پھیلانے کی شیطانی سازش ناکام رہتی۔ اگر سزا معقول ہو تو اس پر عمل درآمد بھی آسان رہتا ہے۔ افغانستان میں اس وقت طالبان برسراقتدار ہیں اور ان کو سورۂ نور کی آیات سے زبردست رہنمائی کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن میں سخت یا نرم کوڑے مارنے کی وضاحت نہیں ہے اور حالات وواقعات کی مناسبت سے کوئی ایسی سزا دی جاسکتی ہے کہ جس سے جرائم کی روک تھام بھی ہوجائے اور100کوڑوں کی سزا بھی پوری دی جائے۔ افغانستان کے معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کو اس جرم پر یکساں سزا سے مساوات کے تأثرات قائم ہوں گے۔ معاشرے میں مرد شادی شدہ ہو یا کنوارا لیکن اس کو زنا پر کوئی سزا نہیں ملتی ہے لیکن عورت شادی شدہ ہو یا کنواری قتل کردی جاتی ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ”تدوین قرآن” کتاب لکھی ہے جس کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے شائع کیا ہے۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ الفاظ اور معانی کے لحاظ سے الشیخ والشیخة والشیخوخة اذا زنیا فرجموھما کی بات کسی طرح بھی اللہ کا کلام نہیں ہے۔ الفاظ بھی بے ڈھنگے ہیں اورمعانی بھی بے مقصد ہیں۔ جوان شادی شدہ بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں اور بوڑھے کنوارے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ جب نبیۖ کا وصال ہوا تو رجم اور بڑے کی رضاعت کی دس آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔
جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ پر نبیۖ کی حیات میں بہتان کے واقعہ کی زد میں مخلص مسلمان بھی ملوث ہوسکتے ہیں تو بعد میں روایات گھڑنے سے حفاظت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ حنفی مسلک کے اہل حق نے من گھڑت حدیث کا سلسلہ روکنے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن بعد والے تقلید کی بیماری میں بدحال ہوکر فقد ضل ضلالًا بعیدًاکے راستے پر چل نکلے ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے امت مسلمہ کو فقہی اقوال اور روایات کو جبڑوں میں پکڑنے کی عادت سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن بعد میں دیوبندی بریلوی اُلجھاؤ کے سبب معاملات سلجھانے کی طرف علماء کرام اور مفتیانِ عظام نہیں جاسکے تھے۔
(2):اگر کسی مرد پر بہتان لگایا جائے تو اس کو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن اگرکسی کی عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس سے شوہر اور اس کی بیوی کے علاوہ سارے اقرباء متأثر ہوتے ہیںاسلئے کسی عورت پر بہتان کی سزا بھی80کوڑے مقرر کئے گئے جو زنا کے جرم پر سزا100کوڑے کے قریب قریب ہیں۔ اگر دنیا کے سامنے قرآن کے ان احکام کو اجاگر کیا جائے تو پوری دنیا اس سے بہت متأثر ہوجائے گی۔
(3):اگر شوہر اپنی عورت کے خلاف کھلم کھلا فحاشی کی گواہی دے اور عورت اس کا انکار کرے تو عورت پر جرم کی سزا نافذ نہیں کی جائے گی۔ اسلام نے چودہ سوسال پہلے عورت کو کس طرح بے دردی کیساتھ قتل ہونے سے بچایا تھا اور اس کی گواہی بھی جرم کے ثبوت میں اس کے شوہر سے زیادہ مؤثر قرار دی تھی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ لعان کے اس حکم پرعمل کے حوالے سے صحابہ کرام کے ایک دوہی واقعات ہیں اور پھر ان پر تاریخ میں کوئی عمل نہیں ہوسکا ہے۔ کیا صحابہ کرام سے زیادہ ہمارے دور کے لوگ غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ حلالہ کی لعنت کیلئے مدارس کی دارالافتاؤں میں لائن لگانے والے لوگ کیسے غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔
جب طلاق کے حوالے سے بار بار رجوع کی وضاحتوں کے باوجود بھی عوام کو حلالہ کی لعنت کا شکار بنایا گیا اور طلاق کے حوالے سے واہیات قسم کے مسائل گھڑ لئے گئے تھے تو باقی معاملات کو کیسے سمجھا جاسکتا تھا؟۔ قرآن میں اصل معاملہ حقوق کا ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے حوالے سے حقوق کا نمایاں فرق ہے ۔ جب شوہر طلاق دے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے لحاظ سے حقوق کا نمایاں فرق ہے۔ سورۂ النساء آیات19،20اور21میں خلع اور طلاق میں حقوق کا بنیادی فرق بھی ہے اور فحاشی کے حوالے سے بھی فرق ہے۔
جب مسلمانوں کو قرآن میں خلع اور طلاق کے بنیادی حقوق میں فرق کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو باقی باریکیاں کون اور کیسے کوئی سمجھائے گا؟۔ ہم نے اپنی ناقص عقل اور ہکلاتی ہوئی زبان سے مسائل سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے اور اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ کے کلام میں فصاحت اور بلاغت کا ہی بہت بڑا معجزہ ہے مگر بڑے علماء ، دانشور اور حکومت وریاست کے کارندے بات سمجھ کر بھی ہمارا ساتھ دینا نہیں چاہتے ہیں اور ہماری طرف سے بھی کوئی طاقت اور زبردستی نہیں ہے۔
جب خلع وطلاق کے حوالے سے مسلمانوں میں کوئی عمل درآمد تو بہت دورکی بات اس کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کی جائے اور بھوکے گدھے اور خچر کے سامنے تیار خوراک رکھی جائے تو بھی اس میں دلچسپی نہ لیتے ہوں تو کیا کیا جاسکتا ہے؟۔ جب امریکہ و مغرب میں مجرموں اوربے گناہوں کے درمیان مساوی حقوق کے قوانین بنائے گئے تو انکے سارے معاشرتی اقداربھی بہت تیزی سے زوال کیطرف گئے۔ اب یہ قانون بھی بن گیا کہ شوہر اپنی گرل فرینڈ اور بیوی اپنے بوائے فرینڈ کو گھر میں اپنے ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ مجرم وبے گناہ کے یکساں حقوق ہیں۔
قرآن میں عورت کو خلع کی صورت میں تمام منقولہ اشیاء ساتھ لے جانے کا حق ہے لیکن غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ فحاشی کی صورت میں بعض لے جانے والی اشیاء سے بھی عورت کو اس کا شوہر محروم کرسکتا ہے۔ طلاق کی صورت میں تمام منقولہ وغیرمنقولہ دی ہوئی اشیاء میں کوئی چیز بھی مرد نہیں لے سکتا۔ کیا سورۂ النساء کی ان تین آیات پر مسلمانوں نے کبھی عمل کیا ہے؟۔ اگر کوئی نام نہاد فتوے کے ذریعے سے حلالہ کی لعنت اور بے غیرتی تک جاسکتا ہے تو عورت کو اس کا حق خلع اور طلاق کی صورت میں کیوں نہیں دے سکتا ہے؟۔ لیکن دینے کا رواج بھی نہیں ہے اور آگاہی بھی نہیں ہے اور قانون بھی نہیں بنایا گیا ہے۔ جبکہ مغرب کی طرف سے خلع اور طلاق کا فرق مٹاکر یکساں قوانین بنائے گئے اور فحاشی وغیر فحاشی میں بھی کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے اور قرآن کے یہ قوانین دنیا سے پوشیدہ ہیں۔
لعان کی صورت میں ایک طرف عورت کو سزا سے بچت ہوگی، دوسری طرف وہ بعض مالی حقوق سے محروم ہوگی۔مالی فوائد کیلئے اپنی بیگم پر بہتان کی جسارت سے شوہر کا بھی سارا کردار تباہ ہوگا۔ قرآن میں اتنا فطری توازن ہے کہ اگر ساری دنیا کو بھی قوانین بنانے کیلئے بٹھادیا جائے تو اس سے بہتر قوانین نہیں بنائے جاسکتے ہیں اور جمعیت علماء اسلام اور تحریک لبیک پاکستان کے قائدین اور رہنماؤں سمیت ہر ایک سے ہماری یہ استدعا ہے کہ آئندہ کا الیکشن قرآن میں دئیے گئے قوانین و حقوق کو اپنے اپنے منشور کا حصہ بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو عوام زیادہ ووٹ دیں گے۔ طاقت کے حصول کیلئے مداری کی طرح کردار نہیںاداکرنا چاہیے۔
(4):بہتان لگانے کے حوالے سے چار گواہ کی بات الگ ہے اور زنا کے ثبوت کیلئے چار گواہ کی بات الگ ہے ۔ حضرت اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان کے جوکردار تھے ،وہ بالکل الگ تھے اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف تین اور چار گواہوں کی بات بالکل دوسری تھی۔ افسوس کہ کم عقل مفسرین اور علماء ومفتیان نے ان دونوں واقعات کو ایک ہی جگہ نقل کرکے بہت سخت غلطی کی ہے۔صحیح بخاری وغیرہ میں بھی حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعے کا ذکر ہے لیکن اس کا پسِ منظر بالکل مختلف تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور کی آیات میں یہ واضح کردیا کہ کوئی غیور شخص اپنے نکاح میں کسی بدکار عورت کو رکھنے کا کوئی تصور نہیں کرسکتا ہے۔ ایمان اور اسلام کا دائرہ اس معاملہ میں بہت واضح ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے ہیں۔طیب مرد طیب عورتوں کیلئے ہیں اور طیب عورتیں طیب مردوں کیلئے ہیں۔ زانی مردنکاح نہیں کرے گا مگرزانیہ عورت یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی مرد یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے۔
ایام جاہلیت میں بھی کوئی عورت کسی دوسرے مرد کیساتھ پکڑی جاتی توان کا آپس میں نکاح کرادیا جاتا تھا۔100کوڑوں کی سزا کے بعد انکا آپس میں نکاح کرایا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ عورت ذات میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی غیرموجودگی میں بھی اپنی عزت کی حفاظت کا زبردست مادہ رکھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک عورت بھی بگڑ جائے تو معاشرے کو بگاڑنے میںاپنا کردار ادا کرتی ہے اسلئے اللہ نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ اگر چار افراد اس کی کھلی ہوئی فحاشی میں مبتلاء ہونے کی خبر دیں تو اس کو اس وقت تک گھر میں رکھا جائے جب تک اللہ اس کیلئے کوئی راستہ نہ نکال دے۔ راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ جس سے غلط تعلقات رکھے تھے وہ اس سے نکاح کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ یا100کوڑوں سے اس کو جرم سے باز رکھنے میں مدد دی جائے ۔ علماء کرام اوردانشوروں کی ایک ٹیم کو آیت کی تشریح کیلئے غور وتدبر اور مشاورت سے کام لینا ہوگا۔ میرا کام صرف توجہ دلانے تک ہے۔
(5):مستقل ڈھٹائی کے ساتھ بدکاری کے دھندے اور کبھی وقتی طور پر بدکاری کے ارتکاب میں بھی فرق ہے۔ الذین یجتنبون کبائر من الاثم و الفواحش الا المم ” اور جو لوگ اجتناب کرتے ہیں ، بڑے گناہوں اور فواحش سے مگر کچھ دیر کیلئے (ان سے بڑے گناہ اور فواحش کا ارتکاب بھی سرزد ہوجاتا ہے)”۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے حوالے سے تین افراد نے جس طرح کی گواہی دی تھی اور چوتھے نے جن الفاظ میں ذکر کیا تھا، اس سے بڑے گناہ اور فحاشی کا تصور نہیں ہوسکتا تھا مگر یہ ایک مستقل دھندہ نہیں تھا بلکہ کچھ ہی دیر کا معاملہ تھا البتہ اس پرقانون سازی میں مختلف فقہی مذاہب نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور احناف پھر بھی دوسروں سے حق کے کچھ قریب ہیں لیکن صرف اس حد تک کہ حضرت عمرپر قرآن کو ترجیح دی ہے۔
جب حضرت عمر کے سامنے چار افراد حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف گواہی دینے پہنچے تو حضرت عمر نے پہلے کی گواہی سن کر منہ بنایا۔ دوسرے کی گواہی سن کر مزید پریشان ہوگئے اور تیسرے کی گواہی سن کر پریشانی کی انتہاء نہیں رہی۔ چوتھے گواہ کے آتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اللہ اس صحابی کو اس کے ذریعے سے ذلت سے بچائے گا اور جونہی وہ چوتھا گواہ اپنی گواہی دینے لگا تو حضرت عمر نے بہت زور سے چیخ اور دھاڑ مارکر کہا کہ بتاؤ ! تیرے پاس کیا ہے؟۔راوی نے کہا کہ وہ اس قدر زور کی دھاڑ تھی کہ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر چوتھے گواہ زیاد نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، اس کی سرین (چوتڑ) دیکھی اور یہ دیکھا کہ عورت کے پاؤں اسکے کندھے پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے ہوئے تھے۔ وہ ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیںلے رہا تھا اور عورت کو لپٹایا ہوا تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ بس گواہی ادھوری ہوگئی اور باقی تین گواہوں کو جھوٹی گواہی پر80،80کوڑے لگا دئیے۔ پھر حضرت عمر نے پیشکش کردی کہ اگر تینوں نے کہہ دیا کہ ہم نے جھوٹی گواہی دی تھی تو آئندہ ان کی گواہی قبول کی جائے گی ۔ ان میں ایک صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے یہ پیشکش مسترد کردی اور دوسرے دو گواہ صحابی نہیں تھے دونوں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک والوں نے اپنے زریں اصول کے تحت حضرت عمر کی پیشکش کو غلط قرار دیا اسلئے کہ قرآن میں جھوٹی گواہی دینے والوں کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ان کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ جبکہ توبہ کو قبول کرنے کا تعلق آخرت کیساتھ ہے۔ اور باقی تین مسالک کے پیروکاروں نے حضرت عمر کی پیشکش کو درست قرار دیا اور ان کے نزدیک دائمی گواہی قبول نہیں کرنے کا تعلق توبہ نہ کرنے کی صورت سے ہے۔
یہ واقعہ اسلئے پیش آیا تھا کہ انسان بہت کمزور ہے اور بصرہ کے گورنر سے ایک غلطی ہوگئی۔ اگر حضرت عمر اشدھم فی امر اللہ عمر کے مصداق رہتے یا غلو سے بچنے کیلئے وحی کا سلسلہ ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ حضرت عمر نے اپنے کنوارے بیٹے کو بھی زنا کی سزا میں آدمی بدل بدل کر ایسے کوڑے مروائے تھے کہ وہ فوت ہوگئے اور پھر لاش پر بقیہ کوڑے پورے کئے گئے۔ سورۂ نور کی آیات نازل ہونے سے پہلے سنگساری کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نبیۖ کو دیکھا تھا اسلئے یہی اصرار تھا کہ شادی شدہ کو زنا پر سنگسار کیا جائے گا لیکن جب مغیرہ ابن شعبہ کا معاملہ آیا تو پیروں سے زمین نکل گئی۔ اس واقعہ سے ایک نقصان یہ ہوا کہ زنا کی حد پر عمل کا تصور ختم ہوگیا لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سنگساری پر عمل کرنے کی بات بھی ختم ہوگئی۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر نبیۖ سے فرمایا ہے کہ توراة میں یہود نے تحریف کی ہے اور جو آپ کے پاس قرآن ہے یہ تحریف سے محفوظ ہے۔ اور یہ کہ ” اگر وہ اپنا فیصلہ قرآن سے کروانا چاہیں تو ٹھیک ورنہ ان کی کتاب سے بھی ان کا فیصلہ نہیں کرنا ہے اسلئے کہ اس کے ذریعے سے جو آپ کے پاس ہے اس سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے”۔ حضرت علی کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر مجھے مستحکم حکومت مل گئی تو اہل کتاب کے فیصلے ان کی کتابوں کے مطابق کروں گا” ۔ اگر حضرت علی ایک مستحکم اقتدار کے مالک بن جاتے تو پھر سنگساری کا وحشیانہ حکم بھی کم ازکم اہل کتاب پر تو نافذ رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بھی منظور نہیں تھا۔ آج یہود اور نصاریٰ کیلئے قرآن کی آیات کے احکام قابلِ قبول ہیں لیکن توراة کے نہیں ہیں۔
آج سورۂ نور کے مطابق شرعی حدود، مساوات، شرعی پردے اور عورت کے حقوق و آزادی کے درست تصورات سے ہماری دنیا بدل سکتی ہے لیکن کاش بدلیں!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جنگوں میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کا خیال۔ زرعی زمین کسان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

_ لونڈی اور غلام بنانے کے تصورات_
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جنگوں میں پکڑے جانے والوں کو لونڈی اور غلام بنالیا جاتا تھا لیکن یہ غلط اسلئے ہے کہ غزوہ بدر میں70افراد کو غلام بنالیا گیا لیکن کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ دشمن کو اس طرح سے غلام بنانا ممکن تھا اس لئے کہ دشمن گھر کا نوکر چاکر اور غلام بننے کی جگہ اپنے مالک کو بدترین انتقام کا بھی نشانہ بناسکتا ہے۔بدر کے قیدیوں پر مشاورت ہوئی تو ایک رائے یہ تھی کہ سب کو قتل کردیا جائے اور دوسری رائے یہ تھی کہ فدیہ لیکر معاف کردیا جائے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سب سے فدیہ لیکر معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن ان کو غلام بنانے کی تجویز زیرِ غور نہیں آئی تھی اور نہ ان کو غلام بنانے کا کوئی امکان تھا۔
غلام اور لونڈیاں بنانے کا جنگ کی صورتحال کے بعد ایک غلط تصور بٹھادیا گیا ہے جس کوبہت سختی کیساتھ رد کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں اہل فرعون کا بنی اسرائیل کے بیٹوں کا قتل کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر عصمت دری کرنے کا ذکر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی رحمتۖ کی بعثت اسلئے نہیں کی تھی کہ اہل فرعون کی جگہ امت مسلمہ بنی اسرائیل اور دیگر لوگوں کی خواتین کو لونڈیاں بنائیںگے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ درج ہے کہ جب حضرت عمر فاروق اعظم نے ایران کو فتح کیا تھا تو شاہ فارس کی تین شہزادیوں کو حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا تھا۔ حضرت محمد بن ابی بکر بیٹا حضرت ابوبکر کا تھا مگر اس کی پرورش حضرت علی نے بیٹے کی طرح کی تھی اسلئے کہ ان کی ماں سے شادی ہوئی تھی اور اس سے پہلے وہ خاتون حضرت ام عمیس حضرت علی کی بھابھی تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلفاء راشدین نے فارس کے بادشاہ کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو اہل فرعون نے بنی اسرائیل کیساتھ کیا تھا اور حضرت عمر کے اس کردار میں ائمہ اہل بیت برابر کے شریک تھے؟۔ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول ہۖ نے فتح خیبر کے بعد حضرت صفیہ سے نکاح کیا تھا تو اس میں بھی آل فرعون کا کردار تھا؟۔ زمانے کے رسم ورواج کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ اور وسیع سے وسیع تر حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ سردست یہ لگتا ہے کہ حضرت صفیہ اور وہ تینوں شہزادیاں جو حضرت حسن و حسین اورحضرت محمدبن ابی بکر کی خدمت میں پیش کی گئیں تھیں وہ پہلے سے لونڈیاں تھیں اور ان کو آزاد کرکے ان کی عزت افزائی کی گئی تھی۔ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہکو بادشاہ نے لونڈی حضرت حاجر ہ پیش کی تھی ،البتہ حضرت حاجرہ اصل میں شہزادی تھیں۔
لونڈی و غلام بنانے کا اصل ادارہ جاگیردارنہ نظام تھا۔ کھیتی باڑی سے کچھ لوگ اپنی گزر بسر کرتے تھے اور کچھ لوگ بڑے بڑے لینڈ لارڈ ہوتے تھے، جن کے مزارعین ہوتے تھے۔ مزارع لونڈیوں اور غلاموں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ لینڈ لارڈ ان کو دیہاتوں سے شہروں کی منڈیوں میں لاکر فروخت کرتے تھے۔ منڈیوں میں فرو خت ہونے والے لونڈی اور غلام خوبصورتی اور تربیت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوتے تھے اور منڈیوں میں کاروبار کا یہ بھی ایک حصہ ہوتا تھا۔ مزارعین کو لونڈی وغلام بننے میں کوئی دکھ بھی نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ کھیتی باڑی میں ان کی زندگیاں زیادہ مشکلات کا شکار ہوتی تھیں۔
ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلام ولونڈی کی فروخت وخرید و درآمد پر پابندی لگادی اسلئے امریکہ کو اللہ نے سپر طاقت بنادیا۔ اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے ادارے مزارعت پر پابندی لگادی۔ مسلمان اور کافر کاشتکار اپنی محنت کی کمائی کے مالک تھے اور مسلمان زکوٰة وعشر اور کافر جزیہ کے نام پر حکومت کو ٹیکس دیتے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمان ہی دنیا کی واحد سپر طاقت بن گئے مگرپھر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے مزارعت کے نظام کو دوبارہ فقہ حنفی کے نام پر جواز بخش دیا تھا۔

لونڈی و غلام کی عزت وتوقیر کامقام
اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے نظام مزارعت کا خاتمہ کردیااور آزادی کیلئے بہانے تراش لئے۔ لونڈی اور غلام کو پورے پورے انسانی حقوق دیدئیے اورآزاد کے مقابلے میں ان کی سزاؤں میں کمی کے رحجانات کے قوانین بنائے۔ عرب کی جاہلیت کے نسلی امتیاز کو اسلام نے کردار کی بنیاد پر خاک میں ملادیا تھا۔ ابولہب وابوجہل ، عتبہ وشیبہ، ولیدو امیہ اور ڈھیر سارے خاندانی سرداروں کے مقابلے میں خاندانی غلام حضرت سیدنا بلال، حضرت مقداد، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت اسود کووہ اعزاز بخشا کہ تاریخ ان دونوں طرح کی شخصیات کے حوالہ سے عبرت کا آج بھی بہت بڑانشان نظر آتی ہیں۔
قرآن نے واضح کردیا کہ ” مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو، یہاں تک وہ ایمان لائیںاور مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے،اگرچہ تمہیں مشرک پسند ہو اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کراؤ،یہاں تک کہ ایمان لائیں اور مشرک عورتوں سے مؤمن لونڈیاں بہتر ہیں اگرچہ مشرک عورت پسند ہو”۔
نسلی امتیاز کے شکار جاہلانہ قبائل کیلئے یہ احکام بڑی کاری ضرب تھے۔ پہل بھی مشرکوں نے خود کی تھی۔ حضرت عائشہ کے رشتے کو پہلے مطعم بن جبیر سے طے کیا گیا تھا لیکن اسلام کے بعد انہوں نے یہ رشتہ رد کیا تھا۔ حضرت بلال کے باپ اور خاندان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا اور اس طرح بہت سے غلاموں کی اپنے خاندانی حساب سے کوئی شناخت نہیں تھی لیکن حضرت زید خاندانی غلام نہیں تھا۔ بردہ فروشوں نے بچپن میں چوری کرکے بیچا تھا۔ بھائیوں نے حضرت یوسف کوکنویں میں ڈالا تو قافلے والوں نے غلام سمجھ کر بیچ دیا تھا۔ پھر جب معلومات مل گئیں تو حضرت یوسف کی نسبت اپنے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابرہیم کی طرف کی گئی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ ” جن کے باپ دادا کا پتہ نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور جنکے باپ کا پتہ ہے تو ان کو انکے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور تقویٰ کے زیادہ قریب ہے”۔
حدیث میںتمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے۔ مشرکوں کی رشتہ داری سے اسلئے منع کیا گیا تھا کہ انصار ومہاجرین کے رشتے ناطے اہل کتاب کی نسبت مشرکوں سے زیادہ تھے۔ حالانکہ اہل کتاب بھی مشرکانہ عقائد رکھتے تھے لیکن انکی خواتین کو مسلمانوں کیلئے حلال قرار دیا گیا تھا۔ مشرکوں کے مقابلے میں غلاموں اور لونڈیوں سے نکاح کو ترجیح دینا بہت بڑی بات تھی۔ جس طرح غلام و لونڈی سے نکاح اور معاہدے کی اجازت تھی،اسی طرح سے آزاد مسلمانوں اور غلاموں ولونڈیوں کے درمیان ایگریمنٹ کی بھی اجازت تھی۔ یہ بہت ہی بڑا معاملہ تھا کہ ہجرت نہ کرنیکی وجہ سے نبی ۖ کی چچااور ماموںکی بیٹیوں کو نکاح کیلئے حلال نہیں قرار دیا گیا تھا لیکن حضرت صفیہ سے ایگریمنٹ کی جگہ نبی ۖ نے نکاح کیا تھا۔ حضرت ام ہانی نبیۖ کی زوجہ تھی اور نہ لونڈی بلکہ ان سے ایگریمنٹ کا تعلق تھا ۔حالانکہ حضرت ام ہانی اولین مسلمانوں میں سے تھیں ۔
حضرت صفیہ مال غنیمت کی وجہ سے نبیۖ کی زوجہ بنی تھیں۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ” وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ بھی حلال ہیں جو مال غنیمت میں ملی ہیں”۔ کیونکہ اگر حضرت ام ہانی سے رشتہ ہوجاتا اور پھر چھوڑنا پڑتا تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ غنیمت کے مال میں آنے والیوں کا کیا حکم ہے؟ اسلئے اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ۔ حضرت صفیہ کی دعوتِ ولیمہ صحابہ نے کھائی تو سوال اٹھایا کہ لونڈی ہیں یا منکوحہ؟ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ ”پردہ کروایا گیا تو منکوحہ اور نہیں کروایاگیا تولونڈی”۔ صحیح بخاری اور دیگر احادیث اور قرآن کے واضح احکام بیان کرنا ضروری ہے۔

قرآن کے احکام کو نہیں سمجھنے کا نتیجہ
وانکحوا الایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وایمائکم ”اور نکاح کراؤ، اپنوں میں سے بیوہ وطلاق شدہ کا اور اپنے اچھے غلاموں اور لونڈیوں کا”۔ بیوہ اور طلاق شدہ کے نکاح کرانے کے حکم پر ایسا عمل ہوا تھا کہ ایک ایک عورت کا تین تین چار چار جگہ بھی یکے بعد دیگرے نکاح کرایا گیا تھا۔
لونڈی وغلام کے حقوق کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ وبیوہ کی طرح ان کے نکاح کرانے کا بھی حکم دیا گیاہے۔لونڈیوں سے نکاح کی بات تو سب کو سمجھ میں آجاتی ہے اور غلام سے بھی نکاح کی بات قابل فہم ہے لیکن جب آزاد عورت کا کسی غلام سے ایگریمنٹ کا معاملہ ہو تو یہ صورت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن کی آیات میں مکاتبت سے یہ صورتحال لگتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد فتیات کا ذکر ہے جس میں ان کوبغاوت پر مجبور نہ کرنے کو واضح کیا گیا ہے۔ بظاہر فتیات سے کنواری لڑکیوں کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے جن کواپنی مرضی کے مطابق نکاح سے روکنا یا زبردستی سے کسی ایسے شخص سے نکاح پر مجبور کرنا ہے جس سے وہ نکاح نہیں کرنا چاہتی ہو۔ قرآن میں بغاوت کے ایک معنیٰ بدکاری کے ہیں اور دوسرا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں۔
معاشرے میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی لڑکی کسی سے اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنا چاہتی ہو لیکن اس کے سرپرست اس کو دنیاوی وجاہت کے خلاف سمجھتے ہوں۔ پھر اگر وہ چھپ کر تعلقات استوار کرے یا پھر بھاگ جائے تو اس کی ساری ذمہ داری سرپرست کے سر ہوگی اور اگر سرپرست اس کی شادی زبردستی سے ایسی جگہ کردے جہاں اس کی مرضی نہ ہو توپھر ناجائز ہونے کے باوجود اس کا گناہ سرپرست کے سر ہوگا۔ قرآن میں یہ معاملہ بہت ہی اچھے انداز میں واضح کیا گیا ہے لیکن بدقسمت اُمت مسلمہ میں قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے اس کا یہ مفہوم نکالا ہے کہ ” لونڈیوں کو بدکاری کے دھندے پر مجبور مت کرو،اگر وہ پاک دامنی چاہیں ”۔ جس کا بہت غلط مطلب نکلتا ہے اور قرآن اتنی بڑی غلطی کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کا معنی یہی مناسب ہے کہ اپنی کنواری لڑکیوں کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو،جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔ ان اردن تحصنًا کے دونوں معنی ہوسکتے ہیںلیکن ایک بہت عمدہ اور دوسرا انتہائی غلط ہوگا۔ اسلئے کہ نکاح کیلئے راضی ہونے پر کنواری کو غلط راستے پر مجبور نہیںکرنے کی بات بالکل فطری طور پر درست ہے لیکن یہ کہنابالکل غلط ہوگا کہ” لونڈی کو اس وقت بدکاری پر مجبور نہ کیا جائے ،جب وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہو” اسلئے کہ پھر مطلب یہی ہوگا کہ جب وہ خود دھندہ کرنا چاہتی ہوتو پھر اس کو بدکاری کا دھندہ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
اسلام نے بیوہ وطلاق شدہ، غلام ولونڈی اور کنواری کے جن مسائل کا نکاح کے ذریعے حل پیش کیا ہے تو اس سے قدیم دور سے لیکر موجودہ دور تک معاشرتی برائیوں اور مشکلات کا زبردست طریقے سے خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسلام نے ایک طرف معاشرے کے اندر خواتین کے سرپرستوں کو حکم دیا ہے کہ ان کا نکاح کرایا جائے تو دوسری طرف ان کی مرضی کے بغیر ان کا نکاح کرانے کو ناجائز قرار دیا۔ ایک طرف طلاق شدہ وبیوہ کو اپنی مرضی سے نکاح کے فیصلے اور ان کی مدد کرنے کا حکم دیا تو دوسری طرف کنواری کے فیصلے میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا حکم دیا۔ ایک طرف عورت کی مرضی کا خیال رکھا اور اس پر اپنی مرضی کو مسلط کرنے کو ناجائز قرار دیا تو دوسری طرف عورت کیلئے اپنے ولی کی اجازت کو شرط قرار دیدیا۔ جس سے کنواری لڑکیاں ہی مراد ہوسکتی ہیں۔ اگر غیرمسلم اور مسلم کیلئے ان معاملات کے حوالے سے شعور وآگہی کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی تو اچھے نتائج نکلتے۔

نکاح اور ایگریمنٹ میں بڑا فرق
اللہ نے فرمایا کہ ” تم نکاح کرو، عورتوں میں سے جن کو تم چاہو، دودواور تین تین اور چارچار ، اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا تمہارے معاہدے جن عورتوں کے تم مالک ہو”۔ عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اگر چہ قرآن نے کہیں کہیں غلام ولونڈی پر بھی ماملکت ایمانکم کا اطلاق کیا ہے لیکن اس میں ایک معاہدے کی بات واضح ہے اور لونڈی وغلام سے بھی ایک معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ جب اس کو مطلوبہ رقم کا عوض مل جائے تو پھر وہ اس معاہدے سے آزاد ہوسکتا ہے۔ البتہ قرآن میں جہاں عورتوں سے نکاح کے متبادل کے طور پر اس کا ذکر ہوا ہے تو اس سے لونڈی وغلام مراد نہیں ہیں ،کیونکہ غلام سے تو جنسی عمل کی اجازت نہیں ہوسکتی اور لونڈی سے بھی نکاح کا حکم بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ایگریمنٹ مراد ہے اور اس کا تعلق نکاح کے مقابلے میں ایک دوسرا معاہدہ ہے۔ نکاح میں عورتوں کو انصاف مہیا کرنے کا فرض شوہر کے ذمے ہوتا ہے جبکہ ایگریمنٹ میں یہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔ ہزاروں لونڈیوں کو قید میں رکھ کر کیا انصاف دیا جاسکتا ہے؟۔ قرآن نے وہ مسائل حل کئے ہیں جو بادشاہوں نے اپنے محل سراؤں کیلئے بنائے تھے۔
قرآن کی آیات کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ لونڈیوں کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور آزاد عورتوں کیساتھ نکاح میں رکھ کر پورا پورا انصاف مہیا کرنے کا تصور دیدیا اور زیادہ عورتوں کو انصاف مہیا نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا پھر جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ معاہدے والی کو انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی ایک محدود وقت اور مالی معاونت تک کیلئے ہوسکتی ہے۔عورت اپنا خرچہ خود بھی اٹھاسکتی ہے۔ اگر عورت آزاد ہو اور شوہر غلام تو ان میں بھی معاہدہ ہوسکتا ہے جو لکھنے کی حد تک باہمی مشاورت سے طے ہوسکتا ہے۔ قرآن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ” اگر تمہیں اس میں خیر نظر آئے تو غلام کی مالی معاونت بھی کرو”۔ قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے لکھا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کو آزاد کرنے میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ آزادی کیلئے پیسہ لے کر مکاتب کرو”۔ مولانا سید مودودی نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کی سرکشی کا خوف نہ ہو اور اس میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ مکاتبت کا معاہدہ کرلو”۔ حالانکہ غلام کی آزادی میں بجائے خود خیر ہے۔ کفارہ ادا کرنے کیلئے پہلی ترجیح غلام و لونڈی کو آزاد کرنا واضح کیا گیا ہے۔
نکاح و ایگریمنٹ کا فرق اس سے مزیدواضح ہوجاتا ہے کہ نکاح میں شوہر کو پوری ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے اور ایگریمنٹ میں عورت اپنی حیثیت ہی کے مطابق کبھی مرد کو سپورٹ تک کرتی ہے۔ خاص طورپر اگرمرد غلام ہو اور عورت آزادہو۔ایگریمنٹ میں عورت کی پوزیشن نہیں بدلتی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا، جس کو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر تبیان القرآن اور شرح حدیث نعم الباری میں نقل بھی کیا ہے۔ حالانکہ ایگریمنٹ سے عورت کا تشخص نہیں بدلتا ہے۔ پہلے شوہر ہی کی طرف اس کی دنیا میں نسبت ہوتی ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ سے بھی نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ” اپنی بیٹیوں کو مجھ پر پیش نہ کرو”۔ جب قرآن میں اللہ نے یہ واضح کیا کہ ‘ ‘ تمہارے لئے وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور پھر ام ہانی کے ساتھ ایگریمنٹ کا معاملہ ہوا تو یہ سمجھ لیا گیا کہ نکاح اور ایگریمنٹ کے حلال وحرام میں فرق ہے۔ لیکن نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ ”جن سے محرم ہونے کی وجہ سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے ایگریمنٹ بھی نہیں ہوسکتا ہے”۔ حضرت علی نے بھی امیر حمزہ کی بیٹی پیش کردی تھی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” یہ میری رضائی بھتیجی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv