پوسٹ تلاش کریں

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی

میرے تین گھر ہیں کوئٹہ میں، پشاور میں اور لاہور میں لیکن کہیں حلالہ سینٹر کا نام نہیں سنا۔ سمیحہ راحیل قاضی
نیٹ پر حلالہ کلک کرو تو پاکستان، لندن اور دنیا بھر میں حلالہ سینٹروں کی تفصیل ملے گی۔ محمد مالک ہم نیوز

پروگرام کا عنوان ”کیا حلالے کی کوئی شرعی و قانونی حیثیت ہے؟”
شرکائ: علامہ امین شہیدی، مفتی ضمیر احمد ساجد، عنبرین عجائب، ڈاکٹر خالد ظہیر
ہم نیوز پر معروف صحافی محمد مالک نے پچھلی مرتبہ حلالے پر پروگرام ایمرجنسی میں کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ21سالہ شوہر نے اپنی19سالہ بیگم کو اکھٹی3طلاقیں دیں ۔ جب لڑکی کو پتہ چلا کہ ایک رات کیلئے کسی سے ہمبستری کرکے حلالہ کرنا پڑے گا پھر وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جاسکے گی۔ اس پر اس نے خودکشی کرلی۔ اب یہ دوسرا پروگرام حلالہ سینٹروں پر تھا۔ علامہ امین شہیدی اور ڈاکٹر خالد ظہیر نے کہا کہ اسلام میں کوئی حلالہ نہیں ہے۔ مفتی ضمیر احمد ساجد بھی حلالہ کی مخالفت کررہے تھے۔ عنبرین عجائب نے بھی اس کو کھلا استحصال قرار دیا مگر سمیحہ راحیل قاضی اس کو اچھالنے کے خلاف نظر آرہی تھیں۔ مریم نواز کے انتخابی جلسے کی وجہ سے دوسرا پروگرام ختم ہوگیا۔

 

مولانا اکرم سعیدی کا مشورہ بہترین ہے۔ اس نے لوگوں کے غرور کو تباہ کر دیا ہے، اس لیے لوگ حلالہ کے خلاف انقلاب کے لیے تیار نہیں!

مو لانا اکرم سعیدی کا مشورہ بہترین ہے۔ علماء کرام کو بالمشافہہ سمجھانابھی ضروری ہے۔ اسلام سے پہلے دورِ جاہلیت میں غیرت تھی اسلئے اسلامی انقلاب پہلے دور میں آیا تھا اور اب اس دور میں حکمرانوں ، سیاستدانوں، مذہبی طبقات اور تاجروں وغیرہ نے عوام میں غیرت ختم کردی ہے اسلئے حلالہ کے خلاف انقلاب پر لوگ آمادہ نہیںہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علماء کرام ، مفتیان عظام اور عوام کالانعام کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ چودہ سوسال سے صحابہ کرام ، فقہ کے ائمہ عظام نے طلاق کے جس مسئلے کو قرآن سے بالکل واضح طور پر نہیں سمجھا تو15ویں صدی ہجری ،21ویں صدی عیسوی میں جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے طالب کانیگرم جنوبی وزیرستان کے عتیق گیلانی کے سر پر کونسا ہما بیٹھا اور کس سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ” اس کو قرآن وسنت میں طلاق کا مسئلہ اتنی وضاحتوں کیساتھ سمجھ میں آیا ”۔ اسکا جواب تحدیث نعمت کے طور پر یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید انور شاہ کشمیری نے ساری زندگی مدرسے کی تعلیم وتعلم میں گزاردی لیکن پھر آخر میں فرمادیا کہ ” میں نے اپنی ساری زندگی مسلک کی وکالت میں ضائع کردی اور قرآن وحدیث کی کوئی خدمت نہیں کی”۔ جسکے گواہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تھے۔ امام ابوحنیفہ نے اپنی جوانی علم کلام کی گمراہی میں گزار دی اور پھر عمر کے آخری حصہ میں فقہ و اصول فقہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے ساری زندگی تعلیم وتدریس کرکے بڑے بڑے نامور شاگرد پیدا کئے لیکن جب مالٹا میں اسیر ہوئے تو قرآن کی طرف توجہ گئی اور آخری عمرکی گھڑیاں اس افسوس میں گزاردیں کہ نامورشاگردبھی اس روایتی تعلیم وتدریس کو چھوڑ کر قرآن کی طرف توجہ دیں اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت سے نکالیں۔
امام غزالی نے ساری زندگی فقہ واصول فقہ کی خدمت کی اور آخر میں توبہ کیا اور تصوف کی طرف گئے۔ کتاب کا نام المنقذ من ضلال ”گمراہی سے نکالنے والی رکھا”۔ عربی میں کتاب مذکر اور اردومیں مؤنث ہے۔ علماء نے اس کتاب کے نام کا ترجمہ بھی غلط کیا ہے۔ ”اندھیروں سے روشنی کی طرف”۔ جس کا عربی میں ترجمہ من الظلمات الی النور بنتاہے۔ امام غزالی نے فقہ کی گمراہی سے نکالنے کیلئے تصوف کی روشنی کی نشاندہی کردی ہے۔لیکن یہ ترتیب بھی بالکل ہی اُلٹی لگتی ہے اسلئے امام غزالی کے اس خواب کو بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی کتاب اور کوئی دینی خدمت کام نہیں آئی لیکن مکھی کو سیاہی پلانے سے بخش دیا گیا ہوں۔
میںنے اپنی ابتدائی زندگی میں دین کی طرف رغبت میں قدم رکھا تھا۔جب گورنمنٹ ہائی سکول لیہ پنجاب میں7ویں کلاس سے9ویں کے ابتدائی سال تک سکول سے زیادہ مذہبی کتابوں کی طرف رحجان ہوگیا۔ پھر کوٹ ادو میں بھائی کے تبادلے کے باعث منتقل ہوا اور10ویں کا امتحان دینے سے پہلے گھر چھوڑ کر کراچی کا سفر کیا۔ رزق حلال کیساتھ مدرسے کی تعلیم کو اپنا مقصد بنایا۔حضرت مولانا اللہ یار خان کے رسالے ”المرشد” میں اعتدال نظر آیا تو ان کے مریدوں کیساتھ جامع مسجد ابوبکر ڈیفنس مجلس ذکر کیلئے پہنچ گیا۔ ان کے خلیفہ سے ان کے مریدوں نے میرا حال بیان کیا تو مجھے پیشکش کی گئی کہ نوکری ، مالی امداد اور سب مسائل حل کردیں گے لیکن بیعت ہونا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ دنیاوی پیشکش کے بعد میں کسی صورت بھی بیعت نہیں ہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مرشد مولانا اللہ یار خان آپ کو خود بیعت نہیں کریں گے بلکہ براہِ راست نبیۖ کے ہاتھ پر بیعت کرائیںگے۔ میں نے عرض کیا کہ اب ایک مرتبہ دنیا کی پیشکش کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کسی بھی صورت بیعت نہیں ہونا ہے لیکن یہ بتاؤ کہ آپ کو نبیۖ سے بیعت کروائی ہے؟۔ مسجد کا امام چار ماہ پہلے بیعت ہوچکا تھا اور اس نے میرے سوال کا یہ جواب دیا کہ یہ ہرکسی کی اپنی استعداد اور قسمت ہوتی ہے۔ اللہ نے جو آپ کی قسمت اور استعداد رکھی ہے ۔یہ مجھ میں نہیں ہے۔
جب مولانا اللہ یارخان کے خلیفہ مولانا اکرم اعوان اورمولانا نورمحمد شہیدMNAجنوبی وزیرستان کیساتھ مجھے سردارامان الدین شہید نے پروگرام میں مدعوکیاتھا۔ تومولانا اکرم اعواننے اپنی تقریرمیں کہاتھاکہ” میں زمیندارہوں۔ جب کاشتکار اپنی فصل اٹھاتا ہے تو کچھ اناج سے قرضے اتارتا ہے، کچھ کو بیچ کر گھر کے خرچے پورے کرتا ہے اور کچھ سے دیگر ضروریات پوری کرتا ہے لیکن جوسب سے بہترین گندم ہوتی ہے ،اس کو بیج کیلئے چھوڑ دیتا ہے۔ وزیرستان کے لوگوں کو اللہ نے بیج کیلئے رکھا ہے اور اس سے دنیا کی امامت کا کام لینا ہے”۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں کچھ دن پہلے مولانا عبدالقدوس سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پیشکش کی کہ یارک میں میری مسجد میں جمعہ کی تقریر کریں لیکن میں نے معذرت کی کہ میرے لئے گوشہ ٔ عافیت میں لکھنے پڑھنے کا کام کافی ہے اور میرے ساتھ سکیورٹی کے مسائل بھی ہیں۔ مولانا نے حضرت انس کے واقعہ کو بیان فرمایا کہ” حجاج نے کہا کہ میں اپنے ہاتھ سے تجھے قتل کروں گا۔ حضرت انس نے فرمایا کہ تو مجھے قتل نہیں کرسکتا ہے۔ حجاج نے تلوار سے وار کیا تو خود ہی پٹخ کر گرگیا۔ پھر وار کیا تو پھر اوندھے منہ ہوکر گرگیا۔ تیسری بار حملہ آور ہونا چاہا تو رُک گیا۔ حجاج کے جلادوں نے کہا کہ کیوں رُک گئے ہو؟۔ حجاج نے کہا کہ اس کے پاس اردگرد میں دوشیر ہیں۔ پہلے ان کے منہ بند تھے اور اب وہ منہ کھولے کھڑے ہیں ،اگر میں نے حملہ کیا تودونوں شیر مجھے کھاجائیں گے”۔
میں نے عرض کیا کہ ایسا ہوجاتا ہے ۔ مجھے اور دوسرے دو افراد کو گاڑی میں دہشت گردوں نے شدید فائرنگ کا نشانہ بنایا لیکن اللہ تعالیٰ نے حفاظت رکھی۔ اور پھر جب رات کو دوبارہ ملاقات ہوئی توبلا تکلف ازراہِ مزاح کہہ دیا کہ جب اہل بیت کو کربلا میں دہشت گرد گھیر لیتے ہیں تو پھر ہمیں بچانے شیر نہیں آتے۔ حالانکہ حضرت عثمان کو شہادت سے حضرت حسن و حسین بھی نہیں بچا سکے تھے۔ مولانا عبدالقدوس نے بتایا کہ ” جب وہ23،24سال کی عمرکے تھے تو مدرسے کے فاضل تھے۔ مولانا اللہ یار خان ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے تو مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھادیا۔ بڑے بڑے علماء کرام نیچے بیٹھے تھے اور یہ عجیب لگ رہا تھا۔ مولانا اللہ یار خان نے عربی کے کچھ اشعار پڑھے جس کو میں نے لکھ لیا اور دوسرے عالم دین نے لکھنے کی کوشش کی تو نہیں لکھ سکا ۔ مولانا اللہ یار خان نے فرمایا کہ یہ اس جوان کا کام ہے ۔ تم سے یہ نہیں ہوسکتا”۔ مولانا عبدالقدوس اب سکول سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہے ہیں۔ طارق کلاچی کے ساتھ وہ ایک سکول میں ڈیوٹی کرتے رہے ہیں۔ جب طارق کلاچی نے میرے والد سید مقیم شاہ سے کہا تھا کہ محسود افسر سے سفارش کردیں کہ وہ افغان رفیوجز میں کسی نوکری پر لگادیں تو والد صاحب ان کی بیٹھک میں طارق کلاچی کو لیکر گئے۔ جب پتہ چلا کہ واش روم میں وضو بنارہے ہیں تو محسود افسر سے کہا کہ ” نماز چھوڑ و، اس آدمی کو نوکری پر لگاؤ۔ شرمگاہوں کو دھونا، وضو کرنا اور نمازیں پڑھنا بوڑھی عورتوں کا کام ہے۔ مردوں کا کام دوسرے انسانوں کی خدمت کرناہے”۔ مجھے ابھی یاد بھی آرہاہے کہ طارق کلاچی نے مولانا عبدالقدوس کا بہت پہلے کہیں ذکر بھی کیا تھا۔
مولانا عبدالقدوس نے بتایا کہ ” مولانا اللہ یار خان نے کہا تھا کہ کانیگرم میں بہت پتھر ہیں اور ایک ہیرہ بھی ہے اور میں اس ہیرے کی تلاش میں آیا ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ وہ ہیرہ میرے ہاتھ لگ جائے”۔ مولانا اکرم اعوان نے تحریک الاخوان کے نام سے انقلاب لانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے تھے۔
جب ہم نے پاکستان کی تمام زبانوں میں نبیۖ کے آخری خطبے کے چند الفاظ ، کچھ منکرات سے منع کرنے اور کچھ معروفات کی علمی اور عملی ذمہ داری کو پورا کرنے کے اعلانات کرتے ہوئے ” اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ”۔” اللہ اور اسکے رسول ۖ کی اطاعت میں وہ طاقت ہے کہ جس سے کمزور سے کمزور تر جماعت بھی فاتح عالم بن سکتی ہے”۔ تواس وقت جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ سمیت بہت سارے علماء کرام نے پاکستان بھر سے ہماری تائید بھی فرمائی اور ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے والد نے ہمارے ساتھیوں سے کہا کہ”40سال سے قرآن وسنت کا درس دیتے ہوئے مدارس میں ہم چوتڑ رگڑ رہے ہیں اورامام سیدعتیق گیلانی کو مان لیں؟”۔ ہمارے ایک سندھی بلوچ ساتھی مختار سائیں نے کہا کہ ” آپ کو کس نے کہا تھا کہ چوتڑ رگڑیں؟۔ چوتڑ نہ رگڑتے ، امام تو سیدعتیق گیلانی ہی ہیں”۔
آج پاکستان کو قوم پرستی اورفرقہ پرستی کی طرف دھکیلا جارہاہے اور کئی لوگ چلے ہوئے کارتوس ہونے کے باجود پٹاخوں کی قیادت کرنے کے متمنی ہیں مگر لوگوں کو معروف چہرے بالکل منکر لگتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش سامری کے گوسالے کی طرح کمال جادوگری سے آواز بلند کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کو منکر نکیر فرشتوں کے سوال وجواب کا سامنا اسکے سابقہ کردار کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ پیپلزپارٹی، نوازشریف، تحریک انصاف، مذہبی طبقے ، قوم پرست عناصر اور کراچی کے مختلف دھڑے بندیاں۔ کوئی کسی پر اعتماد کیلئے تیار نہیںہے۔
آؤ شخصیت پرستی اور گروہ پرستی کی جگہ قومی، مذہبی ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی، ملکی ، صوبائی اور شہری مسائل کے حل کیلئے بین الاقوامی مسائل سے آغاز کریں۔ حلالہ کی لعنت بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ عورت کے حقوق بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ مذہبی منافرت بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جب وژن بہت بڑا ہوگا تو چھوٹے اور بہت ہی چھوٹے مسئلے بھی حل ہوجائیں گے۔ اسلام نے جائز اور ناجائز کیساتھ ہمیشہ زبردست راستہ بھی دیا ہے۔ بنی اسرائیل کی خواتین کو اہل فرعون زبردستی لونڈیا ں بناتے تھے۔ اسلام نے اس کو بدترین ظلم قرار دیا لیکن عورت کیساتھ کوئی جبر وزبردستی ہو تو اس کو حرامکاری اور زنا قرار نہیں دیا۔ ہمارے دور میں اکابرین علماء ومفتیان نے اتنے اندھے ہونے کا ثبوت دیا تھا کہ حاجی محمد عثمان کے مرید و معقتدین کے آپس کے نکاح کا انجام بھی اولادالزنا اور حرامکاری قرار دیا تھا۔ حالانکہ اسلام نے غیر مسلموں کے آپس کے نکاح کو بھی بالکل جائز اور درست قرار دیا ہے۔ نکاح وطلاق کے مسائل میں علماء وفقہاء کے آپس کا اختلاف بھی اتنا گھناؤنا ہے کہ اگر اس پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحث ہوگئی تو مدارس اپنے نصاب کو ٹھیک کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیات222سے232تک خواتین کے حقوق بیان کئے ہیں لیکن علماء وفقہاء کا قرآن کی واضح آیات پر اختلاف ہی اسلئے تھا کہ انہوں نے اصل مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ نظر انداز کرکے شوہر کے حق پر بحث کی ہے کہ اس نے اپنا حق استعمال کیا یا نہیں کیا؟۔ آیت226البقرہ میں ایلاء یعنی شوہر کی بیوی سے طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی پر 4ماہ کے انتظار کا حکم ہے ۔ پھر اگر وہ آپس میں راضی ہوگئے تو ٹھیک ورنہ عورت کی عدت پوری ہے اور وہ پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ جمہور فقہاء ومحدثیں نے کہا کہ ” چار ماہ کیا چار سال اور عمر بھر نکاح میں رہے گی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق طلاق کے اظہار کو استعمال نہیں کیاہے”۔ احناف نے کہا کہ ” چار ماہ تک عورت کے پاس نہ جانے سے شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا اسلئے وہ طلاق ہوگئی”۔
حالانکہ اللہ نے عورت کے حق کے تحفظ کیلئے چار ماہ کی عدت بیان کی ہے کہ اس کے بعد عورت پر کوئی انتظار نہیں ہے اور اس میں بھی اس کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تھا تو اللہ نے حکم دیا تھا کہ ” ان کو نکاح میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیدیں”۔ قرآن نے صنف نازک کمزورعورت کو جو تحفظ دیا ہے وہ طلاق کا اظہار ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں اس کا اختیار ہے۔ حنفی مسلک حق کے قریب تھا۔ لیکن جب اللہ نے ناراضگی اور طلاق کی صورت میں عورت کو اختیار دیا ہے تو پھر طلاق رجعی میں اس کا اختیار چھین لینا قرآن وسنت کے بالکل منافی ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام نے دراصل عورت کے اختیار ہی کو تحفظ دیا تھا لیکن بہت بعد والوں نے اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ جب حضرت عمر کے سامنے مسئلہ آیا کہ عورت کو شوہر نے حرام قرار دیا ہے اور عورت رجوع کیلئے راضی ہے تو رجعت کا حکم دیا اور جب حضرت علی کے سامنے یہی مسئلہ آیا لیکن عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے پھر رجوع کرنے کو حرام قرار دیا۔ قرآن وسنت کا بھی یہی تقاضا تھا لیکن بعد کے علماء نے قرآن ولاتصفوا بالسنتکم الکذب ہذا حلال وہذا حرم ” اور اپنی زبانوں کو جھوٹ سے ملوث مت کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام”۔ کے خلاف صحابہ کرام ، خلفاء راشدین اور ائمہ عظام کی طرف جھوٹ کی نسبت کردی ہے۔
آیت229کے آخر میں230کے ابتداء میں نہ خلع کا ذکر ہے اور نہ ہی تیسری طلاق کا بلکہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی جدائی کا ذکر ہے جس میں دونوں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے اس بات پر اتفاق کرلیں کہ آئندہ کیلئے ان دونوں میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی چھوڑا گیا تو یہ دونوں ایکدوسرے کیساتھ لگ کر اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ جب آپس میں رجوع نہیں کرنے کی بات طے ہوجائے تو پھر عورت کیلئے بھی خدشہ رہتا ہے کہ سابقہ شوہر اس کو کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے اور اس ظلم کا خاتمہ قرآن نے کردیا ہے کہ جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ ہو تو پہلے کیلئے حلال نہیں ہے۔ پھر اس کے بعد کی آیات231اور232میں پھر بھی واضح کردیا ہے کہ عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ آیات226،228اور229میں عدت کے اندر باہمی رضامندی سے معروف رجوع کی وضاحت بھی عورت کے حق کی حفاظت کیلئے ہے تاکہ عورت عدت کے بعد آزاد ی کا سانس لے سکے اور آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع اور باہمی رضامندی کی وضاحت اسلئے ہے تاکہ یہ ابہام نہ رہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہ خلاصہ پیش کیا گیا ہے لیکن حنفی علماء کرام اور مفتیان عظام بھی حقائق کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی نجی مجالس میں ہمارا یہ کہتا ہے کہ اپنا آدمی ہے اور اگر کامیاب ہوگیا تو یہ ہماری جیت ہے۔ مولانا میرے سامنے بھی یہ بات کہہ چکے تھے اور آج ہم یہی کہتے ہیں کہ ” ہرکوئی ہمارا ہے اور ہم ہر کسی کے ہیں”۔ قاری محمد طیب کی نعت دیوبندی بریلوی اتحاد کیلئے اچھی ہے لیکن ایک عالم دین کی ایسی غزل بھی ہے کہ جس میں سب کی اپنائیت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تین (3) طلاق کا تصور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کی روشنی میں اورحلالہ کے بغیررجوع کا فتویٰ؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اللہ نے قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کا مسئلہ سب سے زیادہ واضح کردیا ہے۔اس کے ایک ایک پہلو سے بہت ہی فصیح وبلیغ انداز میں ایسا پردہ اٹھایا ہے کہ اس میں ابہام کی کوئی بھی صورت بالکل بھی نہیں چھوڑی ہے۔ تاہم بدقسمت اُمت مسلمہ نے قرآن سے ایسا موڑ دیا ہے کہ اتنے واضح مسائل کی طرف بھی علماء کرام ، مفتیانِ عظام اور عوام الناس کی توجہ نہیں گئی ہے۔ یہ ایک بہت دیرینہ بیماری ہے کہ بعض لوگ جب خود کوضرورت سے زیادہ ہوشیار سمجھنے لگتے ہیں تو وہ قرآن کی موٹی موٹی باتوں کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنی ذہنی موشگافیوں کا شکار کھیلتے ہیں،جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس کی ہستی کو عام لوگوں سے امتیازی حیثیت کا حامل سمجھا جائے۔ اس بدفطرتی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاں غوروفکر اور تدبر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہاں پر وہ اپنے ذہن کی رسائی کا کمال دکھانا چاہتے ہیں۔جس سے کچھ لوگ اس کو بڑا دانشور مان لیتے ہیں لیکن وہ اللہ کی واضح اور موٹی موٹی باتوں کے سمجھنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ واضح کرنے کیلئے بہت کافی ہیں اور سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی انہی آیات کا زبردست خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ متعدد بارپہلے بھی سمجھانے کی کچھ کوشش کی تھی اور اب ایک مرتبہ پھر اللہ کے عربی پیغام کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔
آیت222میں حیض سے متعلق سوال اور اس کا جواب ہے۔ اللہ نے فرمایاَ: حیض اذیت ہے اور حیض کی حالت میں عورتوں کے قریب مت جاؤ ،یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں اور جب وہ پاک ہوجائیں تو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے ویسے ان عورتوں کے پاس آؤ۔ بیشک اللہ توبہ کرنے اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتاہے ۔
اس آیت میں دوچیزوں کی حیض سے متعلق وضاحت ہے ۔ایک اذیت اور دوسری عدم طہارت۔ جس چیز سے بھی عورت کو اذیت ہو تو شوہر کو اس سے اجتناب برتنا ہوگا اور اسی طرح طہارت کا بھی مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس آیت میں اللہ نے عورت کی اذیت کو مقدم کرکے یہ درس دیا ہے کہ عورت کی اذیت کا خیال رکھنا ہے۔
آیت223کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنے شوہروں کا اثاثہ (ایسٹ) قرار دیا ہے۔ جس طرح سائنس کی زبان میں عناصر کی صفات کو ان کا اثاثہ قرار دیا جاتا ہے اور عناصر سے اس کی صفات الگ نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح مردوں کا اپنی عورتوں کیساتھ رشتہ انتہائی مضبوط اور یگانگت والا اللہ نے بتادیا ہے۔ اس ضمن میں بہت فضول قسم کی باتیں جن کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آیت224طلاق کے اس مذہبی تصور کی بیخ کنی کیلئے سب سے بڑا بنیادی مقدمہ ہے جس میں شوہر کسی قسم کے بھی الفاظ ادا کرتا ہے اور پھر اس پر یہ فتویٰ دیدیا جاتا ہے کہ اب تمہارے مذہب نے رجوع کا دروازہ بند کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں اس بات کی نفی کردی ہے کہ اللہ کو ڈھال بناکر نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا جو راستہ روکا جاتا ہے تو یہ بالکل غلط اور لغو بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست الفاظ میں اس کی نفی کردی ہے۔
میاں بیوی کے درمیان صلح سے بڑھ کر نیکی اور تقویٰ کا ماحول پیدا کرنے اور کیا بات ہوسکتی ہے؟۔ یمین کے کئی معانی ہیں۔ کام کرنے کے عہد کو یمین کہتے ہیں اور نہ کرنے کے عہد کو بھی یمین کہتے ہیں۔حلف کو بھی یمین کہتے ہیں اور طلاق اور اسکے متعلق تمام الفاظ کو بھی یمین کہتے ہیں۔ یہاں کی آیات طلاق کا مقدمہ ہیں لیکن مفسرین اور اصول فقہ والوں نے خوامخواہ حلف کی بحث چھیڑ دی ہے۔ جبکہ سورہ مائدہ میں کفارۂ یمین کیساتھ اذا حلفتم کی بھی بھرپور وضاحت ہے۔
آیت225میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” اللہ تمہیں لغو یمین ( طلاق کے الفاظ) پر نہیں پکڑتا ہے مگرتمہیں پکڑتا ہے بسبب جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے”۔
اس میں طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے تمام الفاظ شامل ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”تین چیزیں مذاق اور سنجیدگی میں معتبر ہیں۔ طلاق، عتاق اور رجعت”۔ طلاق اور رجعت میں سنجیدگی اور مذاق اس وقت معتبر ہے جب عورت کی طرف سے اس پر ایکشن بھی لیا جائے۔ اگر شوہر طلاق یارجوع کے الفاظ استعمال کرے اور عورت اس پر پکڑ کرے تو وہ کرسکتی ہے لیکن اللہ کی طرف سے اس پر پکڑ نہیں ہے اور آیت میں باہمی رضامندی سے طلاق کے بعد رجوع کا مقدمہ پیش کیا گیاہے۔
آیت226میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ ” جو لوگ اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کرلیتے ہیں ان کیلئے چار ماہ ہیں ۔ پھر اگر انہوں نے آپس میں رجوع کرلیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ اس آیت میں یہ واضح ہے کہ جب شوہر نے طلاق کا اظہار نہیں کیا ہو تو عورت ساری زندگی اس کے آسرے میں بیٹھنے پر مجبور نہیں ہے بلکہ چارماہ تک انتظار ہے اور پھر اگر باہمی رضامندی سے رجوع کرلیا تو ٹھیک ہے۔
یہ اس معاشرتی مسئلے کا حل ہے جس میں شوہر بیوی کو غیر اعلانیہ طور پر طلاق کے بغیر آسرے میں بٹھا کر رکھتا ہے۔ طلاق کے اظہار کی صورت میں عدت تین ماہ یا تین طہرو حیض ہیں۔ اور طلاق کا اظہار نہ کرنے کی صورت میں عدت ایک ماہ تک اللہ نے بڑھادی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا ہے کہ مدتوں تک شوہر کے انتظار میں عورت کو بیٹھنے پر مجبور کیا جائے۔ اگر طلاق کا عزم ہو اور اس کا اظہار نہ کرے تو پھر یہ دل کا وہی گناہ ہے جس پر پکڑ کی وضاحت آیت225اور227میں ہے۔
آیت227میں ہے کہ ” اگر ان کا طلاق کا عزم ہو تو پھر اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ طلاق کا اظہار کئے بغیر بھی وہ دل کے عزم کوسنتا سمجھتا ہے۔اس دل کے گناہ پر پکڑتا ہے اسلئے کہ عزم کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ مزید بڑھ گئی۔ اللہ نے ایک ماہ کی مدت بڑھانے پر دل کے گناہ اور اس پر پکڑنے کی وضاحت کی ہے لیکن مولوی حضرات عورتوں کو برسوں بٹھائے رکھنے کو بھی دین سمجھ رہے ہیں۔
آیت228میں ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین قروء (طہروحیض) تک انتظار کریں۔ اور نہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے ،اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں ”۔
حمل کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔ حیض والی عورت کی عدت تین طہرو حیض ہیں اور اگر حیض نہ آتا ہو یا اس میں کمی وبیشی کا شبہ ہو تو پھرعدت تین ماہ ہے۔ چونکہ طلاق سے رجوع کا تعلق اللہ نے حیض کی تعداد سے نہیں رکھا ہے بلکہ اصلاح کی شرط پر عدت کا پورا پورا دورانیہ رکھا ہے۔ حمل کی صورت میں اور جب حیض نہ آتا ہو تو پھر تین ادوار یا تین مرحلوں کی گنتی نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن حیض کی صورت میں تین ادوار یا تین مراحل کی گنتی ہوسکتی ہے۔ تین مرتبہ طلاق کا تعلق صرف اور صرف تین طہرو حیض کی صورت ہی سے عملی طور پر ہے۔ حمل کی صورت میں نہ تین مراحل ہیں اور نہ تین مرتبہ طلاق کی نوبت آسکتی ہے۔ عربی میں مرة کا تعلق ایک فعل سے جو ایک زمانے کیساتھ خاص ہے۔ جب عورت طہر کی حالت میں ہوتی ہے تو اس پر ایک مرتبہ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس کے بعد حیض آجائے۔ دوسری مرتبہ طلاق کا تعلق دوسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے اور تیسری مرتبہ طلاق کا تعلق تیسرے طہرو حیض کے مرحلے سے ہے۔ اگلی آیت میں اللہ نے مزید سمجھایا:
آیت229میں ہے کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے………..”۔
یہ تین ادوار یا تین مراحل تک عورت کے انتظار اور شوہر کی طرف سے طلاق کے تین مرتبہ فعل کی وضاحت ہے۔ نبیۖ سے صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا” تسریح باحسان یعنی تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ کی طلاق ہے”۔ قرآن کی ان آیات میں عدت کے تینوں مراحل میں تین مرتبہ طلاق کا فعل بالکل طے شدہ معاملہ ہے۔ جس طرح دن رات میں ایک مرتبہ ایک روزہ ہوتا ہے، اسی طرح ایک طہر میں عورت سے پرہیز کرنے کا فعل ایک مرتبہ کی طلاق ہے۔ پھر دوسرے طہرمیں عورت سے پرہیز کا عمل دوسری مرتبہ کی طلاق ہے یہاں تک کہ دوسرا حیض آجائے اور تیسرے طہرمیں تیسری مرتبہ پرہیز کا عمل تیسری مرتبہ کی طلاق ہے۔ یہاں تک کہ تیسراحیض آجائے ۔
سورۂ طلاق میں بھی عدت میں طلاق کے عمل کو اس طرح گنتی شمار کرکے پورا کرنے کا عمل سمجھایا ہے۔ جب نبیۖ کو حضرت عمر نے اطلاع دی کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ حیض میں تین طلاق دئیے ہیں تو رسول اللہ ۖاس پر بہت غضبناک ہوگئے کہ میری موجودگی میں تم لوگ قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟ حضرت عمر نے عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ نبیۖ نے اس کو بلانے کا حکم دیا اور پھر سمجھایا کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلو۔ پھر اگر طلاق دینا چاہو تو طہر میں اسے رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں رکھو یہاں تک کہ اسے حیض آجائے اور پھر تیسری مرتبہ طہر آئے تو اگر رجوع کرنا چاہو تو رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہو تو چھوڑ دو، یہ ہے وہ عدت جس کا اللہ نے قرآن میں اس طرح سے حکم دیا ہے۔ نبیۖ کا ابن عمر پر بہت غضبناک ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کی وضاحتوں کو نہ سمجھنا ایک بہت بڑی کم عقلی کا مظاہرہ تھا۔ غضبنا ک ہونا اس بات کا ثبوت نہیںتھا کہ اب حلالہ کے بغیر رجوع بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت عمر اللہ کے احکام میں سب سے زیادہ شدید تھے اسلئے اس کو نبیۖ کے غضبناک ہونے پر قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ نبیۖ کو معلوم تھا کہ قرآن کیساتھ یہ امت بھی وہی حشر کرے گی جو پہلوں نے اپنی کتابوں کیساتھ کیا تھا اسلئے حیض میں اور ایک ساتھ تین طلاق پر غضبناک ہونا فطری بات تھی۔
حضرت ا بن عمر کے حوالے سے یہ روایت الفاظ کی کمی بیشی کیساتھ صحیح بخاری کی کتاب التفسیر سورہ ٔطلاق اور صحیح مسلم کے علاوہ احادیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ فقہاء کے ایک طبقہ نے اس سے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی ۔ جس طرح دن کی حالت میں روزہ ہوتا ہے لیکن رات میں روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر کا یہ قول نقل ہے کہ ” نبی ۖ نے ایک مرتبہ طلاق کے بعد مجھے بیوی کے پاس لوٹنے کا حکم دیا اور اگر میں دومرتبہ کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دیتا تو مجھے رجوع کا حکم نہ دیتے”۔ اور اس زبردست وضاحت کے بعد کم عقلی اور کم علمی کی یہ انتہاء ہے جس کی مت ماری گئی ہو کہ پھر اس سے تین طلاق کی تعداد مراد لی جائے۔ طلاق کی تعداد اور طلاق کے فعل میں واضح فرق ہے۔ تین روٹیاں کھانے اور تین مرتبہ روٹی کھانے میں جو فرق نہیں کرسکتا ہے وہ گدھا ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس سے قرآن وسنت کے معاملے میں فتوے کی رہنمائی لی جائے اور امت اس ہوس پرست گدھے یا چالاک کتے سے اپنی خواتین کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر لٹوائے۔ حضرت حسن بصری نے کہا کہ ابن عمر نے تین طلاق دی تھی ۔ بیس سال تک کوئی مستند شخص ایسا نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو ، بیس سال بعد زیادہ مستندشخص نے بتایا کہ ایک طلاق دی تھی۔( صحیح مسلم)
احادیث کی کتابوں میں جھوٹی اور من گھڑت روایات کی بھرمار کرنے والوں کا پتہ لگانا ہو تو صحیح الاسناد احادیث کے مقابلے میں ضعیف ومن گھڑت روایات کی ایک جھلک ہی دیکھ لی جائے۔ پورے ذخیرہ احادیث میں امام شافعی کو ایک ساتھ تین طلاق کے جواز کیلئے ایک عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق کے الفاظ نکالنے پر تکیہ کیا ہے اور وہ بھی احناف اور مالکیہ کے نزدیک لعان کے بعد استدلال کے قابل نہیں ہے اور مولانا سیدانورشاہ کشمیری نے بخاری کی شرح ”فیض الباری” میں لکھ دیا ہے کہ ” ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق دی ہو”۔ قرآن میں ویسے بھی فحاشی پر عدت کے مراحل میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بجائے ایک دم فارغ کرنے کی وضاحت ہے۔
رفاعی القرظی کے واقعہ میں تین طلاق کا بھی احادیث میں ذکر ہے اور مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی بھی وضاحت ہے۔ بخاری کی ایک روایت میں اجمال اور دوسری روایت میں تفصیل ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے لکھ دیا کہ ”ایک روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوتی ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مراحلہ وار تین مرتبہ طلاق دینا چاہیے۔ کیونکہ احناف کا مؤقف یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں اور سنت یہ ہے کہ مرحلہ وار تین طلاق دینا چاہیے”۔ (کشف الباری)
علامہ ابوبکر جصاص رازی نے بھی احکام القرآن میں یہی روش اختیار کی ہے کہ ایک طرف جب طلاق کا سنت طریقہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ”الطلاق مرتان سے طلاق کے دوعدد مراد نہیں ہوسکتے ۔ جس طرح دو روپیہ کو دو مرتبہ روپیہ نہیں کہا جاسکتا ہے ،اسی طرح دو مرتبہ طلاق سے طلاق کے دو عدد مراد نہیں لئے جاسکتے”۔ دوسری طرف جب علامہ ابوبکرجصاص رازی یہ مؤقف ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں تو پھر وہ کہتے ہیں کہ” جب الگ الگ مجالس میں تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں تو ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ ایک باریک مسئلہ ہے جو سمجھ میں نہیں آتا ہے لیکن ایک مرتبہ میں بھی تین مرتبہ طلاق واقع ہوجاتی ہیں”۔( احکام القرآن)
علامہ ابوبکر جصاص رازی اور علامہ سید انور شاہ کشمیری نے قرآن واحادیث پر اپنی انفرادیت اور علمیت بھی جمانے کی کوشش فرمائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کیلئے قرآن وسنت کی ایسی غلط اور متضاد تعبیر کردی ہے جس کا عدل وانصاف اور فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علامہ کشمیری نے اپنی عمر ضائع کرنے کی وضاحت فرمائی اور علامہ جصاص کا بھی خاتمہ بالخیر ہوا ہوگا۔ لیکن قرآن کی اچھی وضاحت کے بعد مسلک کی حفاظت میں اپنی خدمت ضائع کردی۔
سابقہ ادوار میں اپنے اپنے فقہی مسلک سے انحراف بھی بہت بڑا گھمبیر مسئلہ ہوتا تھا جس پر جان ومال اور عزت کے لالے پڑتے تھے۔ آج بھی مختلف علماء کی طرف سے بات سمجھنے کے پیغامات مل رہے ہیں لیکن جب انقلاب آئے گا تو پھر اس حمام میں بہت سے ننگوں کاپتہ چل جائے گا کہ کس کس نے حلالہ اور اپنے ذاتی اغراض کی خاطر قرآن وسنت کو قبول نہ کرکے خواتین کی عزتیں لٹوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ البتہ کچھ لوگ اچھے ہونے کے باوجود معذور لگتے ہیں ۔دلائل کی الٹی سیدھی بھرمار اور جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں اب قرآن کے فطری حقائق کو سمجھنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ ہم بار بار اس مسئلے کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ بند دماغوں کی گتھیاں سلجھ جائیں اور امت کو قرآنی تعلیم سے پھر دنیا میں زندہ کیا جائے۔ قرآن زندہ ہے لیکن امت مسلمہ کے اجتماعی مردہ ضمیرکوپھر زندہ کرنا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

شاہ صاحب نے طلاق کا مسئلہ بہت واضح کرکے سمجھادیا ہے مگر لوگ پھر بھی ابہام کا شکار ہیں۔ ناظم اعلیٰ جماعت اہل سنت (سندھ) ، خطیب اعلیٰ جامع مسجد و دار العلوم دیار حبیب گلشن حدید، بانی و مہتمم جامعہ سعیدیہ حیات النبی ملتان مولانا اکرم سعیدی

wشاہ صاحب نے طلاق کا مسئلہ بہت واضح کرکے سمجھادیا ہے مگر لوگ پھر بھی ابہام کا شکار ہیں۔ ناظم اعلیٰ جماعت اہل سنت (سندھ) ، خطیب اعلیٰ جامع مسجد و دار العلوم دیار حبیب گلشن حدید، بانی و مہتمم جامعہ سعیدیہ حیات النبی ملتان مولانا اکرم سعیدی

جید علماء کرام شاہ صاحب کیساتھ ایک بورڈ تشکیل دیںاورحلالہ کی لعنت سے بچائیں
روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عرب راہِ حق سے مکمل ہٹ چکے اورنبی پاک ۖ کی بشارتیں پورا ہونے کا وقت قریب ہے۔

(کراچی) ناظم اعلیٰ جماعت اہل سنت (سندھ) ، خطیب اعلیٰ جامع مسجد و دار العلوم دیار حبیب گلشن حدید، بانی و مہتمم جامعہ سعیدیہ حیات النبی ملتان مولانا اکرم سعیدی نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ اہل عرب راہ حق سے مکمل طور پر ہٹ چکے ہیں اور اس حوالے سے نبی پاک ۖ نے جو بشارتیں دی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آ پہنچا ہے۔ اللہ بے نیاز ہے وہ جس سے چاہے کام لے لے ہمارے موجودہ حکمران یہودی، قادیانی نواز ہیں یہی لوگ ہماری نظریاتی سرحدوں کو کھوکلہ کر رہے ہیں۔ اہل عرب نے اسلامی دنیا کو رُسوا کردیا ہے یہاں تک کہ غیر مسلم بھی ان کے اقدامات پر انگشت بدنداں ہیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان میں مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے اسلامی بینکاری کے نام پر سود کو جائز کردیا ہے اور عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ مولانا نے کہا کہ شراب کو اگر دودھ کے گلاس میں پیش کیا جائے تو وہ جائز اور حلال نہیں ہوجاتی یہ جید علماء ہیں ہم ان کو چیلنج تو نہیں کرسکتے مگر انہوں نے اسلامی بینکاری کے نام سے سُود کو اسلامی بینکاری کے غلاف میں پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے مگر میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ غلط تو غلط ہی ہوتا ہے اگر نیتیں غلط ہیں تو اللہ کی پکڑ ہوگی۔سید عتیق الرحمن گیلانی کے تمام مضامین انتہائی گہرائی سے پڑھے ہیں۔ شاہ صاحب نے طلاق کے مسئلے کو بہت واضح کرکے سمجھایا ہے مگر پھر بھی لوگ ابہام کا شکار ہیں۔
گذشتہ دنوں جج نے کہا کہ عدت کے اندر نکاح جائز ہے ایسی صورت میں یہی کہوں گا کہ جید علماء اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے شاہ صاحب کے ساتھ ایک بورڈ تشکیل دیں اور حلالہ کی لعنت اور گھر اجڑنے سے بچائیں۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ جو علماء امت کی بھلائی کیلئے نہیں سوچتے اللہ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ آمین۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

مسلم امہ کو ایک توحلالہ کی لعنت اور بے غیرتی سے نکالا جائے اور دوسرامقامی مزارعت اور عالمی سودی نظام کے چکر سے نکالا جائے تو زبردست انقلاب برپاہوگا اورپھرپاکستان پورے عالم اسلام کی امامت کے قابل بن جائے گا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

جب سود کے حوالے سے آیات نازل ہوئیں تونبی کریم ۖ نے زمینوں کی مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین نے مزارعت کے حوالے سے قرآن ،احادیث صحیحہ اور فقہ کے چاراماموں کی طرف سے متفقہ طور پر مزارعت کو سود اور ناجائز قرار دیا ہے اور اس پر زبردست کتاب بھی شائع کردی ہے جس کی تائید جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کی تھی جب وہ علماء کیلئے باغی اور انقلاب کے امام تھے۔آج مولانا ان کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے خلاف مولانا انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے اور جن سے مقابلہ ہوتا تھا وہ مولانا کی جماعت میں شامل ہیں ۔
جب ہم نے علماء ومفتیان کے دانت کھٹے کردئیے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” میں ان علماء ومفتیان کے فتوؤں کو جوتوں کی نوک پر رکھتا ہوں ”۔ اگر کسی ایک عورت کی عزت حلالہ کی لعنت سے لٹ جائے تو کیا وہ عورت جوتے کے نوک پر اس فتوے کو نہیں رکھ سکتی ہے؟۔ کیا عورت کیلئے یہ سزا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ ایک رات گزارے؟۔ یہ تو سزا ہے کہ کسی کا ہاتھ کاٹا جائے، کسی کا سرقلم کیا جائے، کسی کے ہاتھ اور پیر مخالف جانب سے کاٹے جائیں اور کسی کو کوڑے لگائیں جائیں یا کسی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن یہ کونسی سزا ہے کہ جرم مرد کرے اور اس کی سزا عورت کو دی جائے اور سزا بھی ایسی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ ایک رات گزاری جائے اور اس کی عزت کا فالودہ بنادیا جائے؟۔
کیا قرآنی آیات میں اتنے تضادات ہوسکتے ہیں کہ ایک طرف اللہ یہ بات واضح کردے کہ عدت کی تکمیل سے پہلے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور پھر اللہ کہے کہ عدت میں ایک مرتبہ کی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور پھر اللہ کہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے؟۔ اس قسم کے تضادات تو کسی پاگل ومجنون کے کلام میں بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔ اللہ نے تو پھر چیلنج بھی کردیا کہ ” اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی غیر کی طرف سے ہوتا تووہ مخالف اس میں بہت سارے تضادات پاتے”۔ کیا قرآن کا چیلنج غلط ہے؟۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے حقوق کا تحفظ بھی کیا ہے ، اسکے وہ تمام مسائل بھی حل کئے ہیں جو جاہلیت میں اس کو درپیش تھے۔ اور معاشرے کے تمام مذہبی مسائل کا حل بھی نکالا ہے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ شوہر بیوی کے درمیان صلح میں اللہ رکاوٹ ہے۔ آیت224البقرہ میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں اللہ کبھی بھی رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے۔ نمبر2یہ تھا کہ بعض الفاظ سے اللہ پکڑتا ہے جسکے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے آیت225البقرہ میں واضح کردیا کہ الفاظ کی وجہ سے اللہ نہیں پکڑتا ہے بلکہ دل کے گناہ سے پکڑتا ہے۔ طلاق صریح وکنایہ اور ان مسائل پر تمام اختلافات اور تضادات کی اللہ تعالیٰ نے بیخ کنی کردی ہے۔ نمبر3یہ تھا کہ لوگ طلاق کا اظہار کئے بغیر سالوں سال عورت کو رلاتے تھے لیکن اللہ نے آیت226البقرہ میںواضح کردیا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ تک انتظار کی ہے اور اس میں بھی اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ عورت کو تین ماہ کی جگہ چار ماہ تک انتظار کروایا جائے تو عدت میںایک ماہ کا اضافہ گناہ ہے۔ جس کی نشاہدہی آیت227البقرہ میں بھی کردی ہے۔ نمبر4یہ تھا کہ عورت کو عدت میں طلاق دی جاتی تھی تو عدت میں بار بار رجوع کا اختیار بھی شوہر کو ہوتا تھا اور نمبر5یہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت228میں دونوں مسائل کا ایک حل نکال دیا۔ جب عدت کے اندر صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے تو پھر بار بار غیرمشروط رجوع اور ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کا مسئلہ نہیں رہتا ہے۔جس کی وجہ سے طلاق رجعی کا تصور بھی بالکل باطل ثابت ہے کیونکہ طلاقِ رجعی کی وجہ سے شوہر عورت پر نہ صرف تین عدتیں گزارنے کا قانونی حقدار بنتا ہے بلکہ اس سے دوسرے بھی لامتناہی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس آیت سے حلالہ کا تصور بھی ختم ہوتا ہے اسلئے کہ جب رجوع کا تعلق باہمی اصلاح کی شرط سے ہے تواکٹھی تین طلاق اور حلالے کا تصور بھی ختم ہوجاتا ہے۔ نمبر6یہ تھا کہ عورت کو طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے ناراضگی اور طلاق میں بار بار باہمی رضامندی ، اصلاح کی شرط پر اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت کی وضاحت کردی ہے جس سے باہمی رضا،اصلاح ، معروف طریقے کے بغیر رجوع کرنا حلال نہیں ہے لیکن مردوں کی دنیا میں عورت بیوی بن جائے تو اس کی غیرت کا مسئلہ بنتا ہے اسلئے کوئی آیت بھی دل ودماغ میں بٹھانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ نیت نہ ہو تو بھی شہوت کی نظر پڑجائے تو رجوع ہے اور شافیوں کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع کرنے کے باجود بھی رجوع نہیں ہے۔ اللہ کی طرف سے معروف رجوع کو فقہاء نے منکر رجوع میں بدل دیا۔ جس دن قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسلام کے بنیادی اور اہم حساس معاشرتی مسائل پر بحث ہوئی یا میڈیا پر معاملات منظر عام پر آگئے تو مذہبی طبقات بھی بہت خوش ہوں گے کہ مسائل سے جان چھوٹ گئی۔
اللہ تعالیٰ نے آیت229البقرہ اور230البقرہ میں اہم معاشرتی مسئلے کا حل نکال دیا کہ جب شوہر دو مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے تین مراحل میں تیسری مرتبہ بھی معروف رجوع کرنے کے بجائے تیسری طلاق دے تو پھر اس کیلئے حلال نہیں ہے کہ حق مہر اور جو کچھ بھی اس کو دیا ہے اس میں سے بھی اس عورت سے واپس لے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ اگر وہ نہ دی جائے تو دونوں کے میل ملاپ اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ تین طلاق کی وضاحت تو آیت229البقرہ میں موجود ہے اور اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے۔ چونکہ مردوں کی ایک فطرت ہے کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے جہاں بھی چاہیں تو دوسرے سے نکاح کرنے کو اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے ہیں اسلئے اللہ نے ایسی طلاق کے بعد کہ جب دونوں اور معاشرے کی طرف سے نہ صرف جدائی کا فیصلہ ہو، بلکہ آئندہ رابطے نہ رکھنے کی کوئی سبیل بھی نہ چھوڑی جائے ،پھر رجوع کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہر کی طرف سے عورت کیلئے آزادانہ دوسرے سے نکاح کی اجازت بھی بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بنتا ہے اسلئے اللہ نے آیت230البقرہ میں فرمایا کہ پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح کرلے۔
کوئی دانشمند قوم ہوتی تو یہی سمجھ لیتی کہ قرآن نے حلالے کی لعنت میں ہمیں ڈالا نہیں ہے بلکہ بچایا ہے۔ البتہ جب بھی عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو اس کیلئے فتویٰ اسی آیت سے لیا جائے گا تاکہ عورت کو صحیح معنوں میں آزادی مل جائے۔
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ طلاق پر اتنی ساری بحثیں پھر کیوں ہیں ؟۔ کہ طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی ؟۔ بچے اور مجنون کی طلاق ہوتی ہے یا نہیں؟۔ غصے کی حالت میں طلاق معتبر ہے یا نہیں؟۔ طلاق کیلئے گواہوں کی تصدیق اور مطالبہ؟۔ کس کے نزدیک کس لفظ سے طلاق ہوئی یا نہیں ہوئی؟۔
اگر ان ساری باتوں کا نتیجہ دیکھ لیں تو اس کا خلاصہ یہی ہے کہ عورت خلع لے تو اس کے حقوق طلاق سے بہت کم ہوتے ہیں لیکن اگر مرد طلاق دے تو اس میں عورت کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ سورہ ٔ النساء آیت19میں خلع کا حکم بیان کیا گیا ہے اور سورہ ٔ النساء آیات20،21میں طلاق کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ شوہر نے طلاق دی ہو تو عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد میں سے جو کچھ بھی دیا ہو تو وہ واپس نہیں لے سکتا ہے اور عورت خلع لے تو پھر عورت صرف منقولہ دی ہوئی چیزوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے لیکن گھر سے اس کو نکلنا ہوگا اور غیرمنقولہ اشیاء جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا۔ جب شوہر اور بیوی کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے کہ طلاق دی ہے یا نہیں؟۔ تو اصل میں حقوق کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ عورت جھوٹ بول رہی ہے یا سچ بول رہی ہے؟۔ پھر طلاق کیلئے جو بھی الفاظ، اشارے، کنائے ، صریح اور کنایہ کے الفاظ معتبر قرار دئیے جائیں تو اس میں عورت ہی کا فائدہ ہے کیونکہ جدائی میں شوہر کی طرف سے پہل ہو تو اس کا خمیازہ شوہر کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ البتہ اگر عورت ایک طرف اپنی جان چھڑانے کے چکر میں ہو اور دوسری طرف شوہر پر طلاق کی تہمت لگائے تو یہ شوہر کیساتھ بڑی زیادتی ہوگی لیکن اس کو ثابت کرنے کیلئے عورت کو گواہ لانے پڑیں گے۔
مولانا اشرف علی تھانوی جیسے جید عالم دین اور حکیم الامت کہلانے والے نے بھی اپنی مایہ ناز کتاب ” حیلہ ناجزہ ” میں یہ لکھا ہے کہ ” اگر شوہر نے اکٹھی تین طلاق دے دیں اور پھر وہ مکر گیا تو عورت اس پر حرام ہوگی لیکن عورت کیلئے اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے ہوں گے۔ اگر وہ دو گواہ نہ لاسکی اور شوہر نے قاضی کے سامنے حلف اٹھالیا تو وہ عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ پہلے وہ ہر قیمت پر خلع لے ،لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور اسکے ساتھ جماع کرتا ہے تو پھر عورت دل سے خوش ہو ،نہ لذت اٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی” ۔
یہ فقہ کا مسئلہ ہے جو دیوبندی اور بریلوی دونوں میں رائج ہے۔ یہ اسلام نہیں بلکہ گدھوں کی ڈھینچو ڈھینچو اور وہ آواز ہے جو گدھا پیچھے سے خارج کرتا ہے۔ اگر نکاح وطلاق کے حوالے سے یہ گھناؤنے مسائل میڈیا یا پارلیمنٹ میں آگئے تو سب کی طبیعت صاف ہوجائے گی۔ اسلام کے نام پر یہ مسائل بدنمادھبہ ہیں ۔
علماء ومفتیان نے اسلام کے نام پر بہت سہولت، عزت، دولت، شہرت اور قیمت وصول کرلی ہے ،اب اسلام کی جان چھوڑیں۔ مسلمانوں کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع ٹس سے مس اسلئے نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو اسلام اور مسلمانوں کی سرخروئی سے زیادہ اپنی پڑی ہوئی ہے۔ حضرت عمر کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا کہ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حکمران کے دربار میں عورت اور شوہر کا تنازعہ آتا ہے لیکن اگر دونوں آپس میں راضی ہوتے تو حضرت عمر کے پاس کیوں جاتے؟۔ اگر یہ تنازعہ ایک طلاق پر بھی کھڑا ہوتا تو حضرت عمر نے یہی فیصلہ دینا تھا اسلئے کہ اس کے بعد قرآن باہمی رضامندی کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
پاکستان میں لینڈمافیا کے پیچھے بااثر طبقات کا بہت بڑا کردار ہے۔ بہت دیر کردی مہرباں نے آتے آتے۔ نسلہ ٹاور گرانے کے بعد سپریم کورٹ نے فوج کے تینوں اداروں کے سربراہوں کو طلب کیا ہے کہ دفاعی مقاصد کیلئے دی جانے والی زمینوں پر کاروبار کیوں کررہے ہو؟۔ علی وزیر کو بھی رہا کردیا گیا ہے لیکن اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حامد میر نے علی وزیر کی قید اور تحریک لبیک کیساتھ مذاکرات کوپختون پنجابی مسئلہ کیوں قرار دیا تھا؟۔ حالانکہ تحریک طالبان ولبیک کیساتھ ایک جیسا معاملہ تقریباً ہورہاہے۔ وانا جنوبی وزیرستان میںطالبان کے خلاف پاک فوج نے کبھی کوئی آپریشن نہیں کیا تھا اورPTMجن گمشدگان کے لواحقین کیلئے آواز بلند کررہی تھی وہ سب کے سب طالبان کے پسماندگان تھے۔
قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی مسائل کا حل نہیں ہے۔ قوم کو مزید آنکھ مچھولی میں ڈالنے کے بجائے سیدھے انداز میں ایک بہت شفاف سیاسی، عدالتی ، ریاستی اور انتظامی ایسے نظام کی ضرورت ہے کہ اس قوم کی تقدیر بدل جائے۔ تعصبات کے نعروں کے پیچھے جرائم پیشہ افراد کو تحفظ دینے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ نبیۖ نے جب سود کی حرمت کے بعد مزارعت کا نظام ختم کردیا تو زمیندار اور کاشت کار اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے، بھوک اور افلاس کی نوبت ختم ہوگئی۔ شہروں کے تاجروں کے بھلے ہوگئے اور مزارعت کے نظام سے جو جاگیردار لونڈی اور غلام پیدا کررہے تھے تو اس کا ریاستِ مدینہ نے خاتمہ کردیا تھا۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن قبضہ مافیا نے مسائل پیدا کرکے پاکستان کو مسائلستان بنادیا۔ آخر میں ایک بھائی کے اشعاردیکھ لیں!
سب کو معلوم عدل وانصاف کی نزاکت
کمزور پہ ہے لاگو قانون کی حجامت
ججوں کی تشریحات ترجیحات عدالت
بنیئے کا ترازولارڈ مکالے کی قدامت
جائیداد کی منی ٹریل یاجج کی علالت
بنتا نہ تھا جواب تو سوال پہ ندامت؟
رشوت کامال ہے عدلیہ کی حقارت
بیویوں کی ضرورت بچوں کی کفالت
غیر قانونی طریقے پر بھی یہ سخاوت
جج کی بیگم کو ملی جو کھلم کھلی اجازت؟
ووٹ کو عزت دو نوٹوں کی شرارت
گدھوں کا بیوپار، گھوڑوں کی سیاست
لال کرتی کی پیداوارواقعی ملامت
کمینی ہے اشرافیہ چوروں کی قیادت
مَلِک ، سردار، نواب غدارسلامت
ملا کی شریعت، پیرومرشد کی ارادت
رنگیلے سربراہ بہروپئے کی صداقت
جمہوری شکنجے، آمروں کی ریاست
رائیونڈ کے محلات شداد کی حمایت
اقتدار میں مدہوش فرعون کی غلاظت
ہوس نہ بجھی ،ہوش ربازرکی رفاقت
قارون کی دولت زرداری کی لاگت
ملک ہوا آزاد شبِ قدر کی مسافت
جناح کی عزیمت،اقبال کی اقامت
غلامی کی زنجیریں بیڑی کی تجارت
وہی قانون ہے وہی شیطان کی وکالت
تنگ آمد بجنگ آمدقوم کی بغاوت
اب آئے گا اسلام، ظالم سے شکایت
سب کا پاکستان سب کی امامت
ہے اسکا مقدر ، دنیا کے امن کی ضمانت
اقوام عالم کے فیصلوں کی نظامت
ہوگی یہاںقائم طرزنبوت کی خلافت
رہے کوئی جہالت نہ کسی کی ضلالت
بندے بنیں رب کے، کریں عبادت
کوئی سزا دے نہ کرے کوئی ملامت
آئے جس کی بھی اپنے ضمیر کی شامت
بتارہا ہوں سادہ لفظوں میں حکایت
بے انتہاء بلند منزل ہے اللہ کی عنایت
صاحر کی آرزو نہیں ہے کوئی جنایت
سب کی حکومت ایک امیر کی اطاعت

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین طلاق کے بعد حلالہ کا تصور غلط ہے۔ مفتی انس مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ اہل حدیث اور شیعہ سمیت قرآن و حدیث کو سمجھنے میں سب سے بڑی غلطی کریں۔

مفتی انس مدنی سے بصد احترام کیساتھ عرض ہے کہ قرآن واحادیث کو سمجھنے میں اہلحدیث وشیعہ سمیت
سبھی کو بہت بڑی ٹھوکر لگ چکی ہے اور اکٹھی تین طلاق و حلالہ کے علاوہ طلاقِ رجعی کاتصور بھی غلط ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

افسوس اور صد افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن وسنت کی طرف دھیان دینے کے بجائے اپنے اپنے مسلک کی ٹانگ اُونچی کرنے میں سب لگے ہوئے ہیں۔ مدارس میںدرسِ نظامی کا نصابِ تعلیم بہت بہترین ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جارہاہے۔ ہمارے اساتذہ کرام اور طلباء عظام کے دل ودماغ ایک رات میں کھل سکتے ہیں، بس ان کے گرد وپیش حالات بدلنے کی دیر ہے۔ مدارس کے علماء ومفتیان مجھے اپنی پنچ وقتہ نمازوں کی دعاؤں میں دل سے یادبھی رکھتے ہیں، البتہ ماحول سے نکلنا بہت مشکل کام ہے اور انشاء اللہ سب جلد نکل جائیں گے۔
میری اپنی ایسی اوقات نہیں کہ مجھ سے کوئی ڈرے، گھبرائے یا پھرشرمائے۔ دلیل کی زبان، قرآن کی فصاحت اور احادیث کی بلاغت سب فرقے مانتے ہیں اور ہم شیعہ سنی، حنفی اہلحدیث اور دیوبندی بریلوی کے تعصبات سے نکل کرحقائق کی بات عوام تک پہنچارہے ہیں۔ دیوبندی بریلوی حنفی مسلک کے پیروکار ہیں اور شیعہ واہلحدیث کے مسالک حنفی مسلک کے ردِ عمل میں بن گئے ہیں ۔ جب عمل اور ردِ عمل سے نکل کر ہم قرآن وسنت اور احادیث وصحابہ کرام اور ائمہ اربعہ ومحدثین کے حوالے سے دلائل کی وضاحت کریں گے تو اتفاق رائے پیدا ہوگی۔
سب سے پہلا اور بڑا فتنہ اس بات سے پیدا ہوا تھا کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کا فیصلہ درست کیا تھا یا غلط کیا تھا؟۔ حضرت عمر کے پیدا کردہ دیگر مسائل پر بھی مسالک میں شدید اختلافات موجود ہیں۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھنا جائز ہے یا نہیں؟۔ حضرت عمر نے حج عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی ۔ حنفی مسلک والے فقہ میں پڑھاتے ہیں کہ حضرت عمر کی یہ تعلیم قرآن وسنت کے منافی اور غلط ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے بالکل ٹھیک کیا تھا اسلئے کہ قرآن وسنت میں صرف جواز تھا لیکن جب حضرت عمر نے دیکھا کہ جو لوگ حج وعمرے کا ایک ساتھ احرام باندھ کر حج سے کچھ دن پہلے مکہ مکرمہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ گدھے ، گھوڑے، اونٹ اور پیدل دور دراز کا سفر کرنے والوں کے احرام پسینوں سے شرابور ، بدبودار اور متعفن ہیں جس سے حج کے اجتماع میں بدترین تعفن پھیل رہاہے۔ حضرت عمر نے بدبو اور آلودگی پھیلانے کی وجہ سے ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی لگائی تھی۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصین سے روایات ہیں کہ ہم نے نبیۖ کو حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا اور پھر کوئی ایسی وحی بعد میں نازل نہیں ہوئی کہ ایک ساتھ حج وعمرے کے احرام سے منع کیا گیا ہو، جس نے بھی یہ کیا ہے یہ اس کی اپنی رائے ہے۔ جب ہم سنت پر عمل کیا کرتے تھے تو فرشتے ہم سے مدینہ کی گلیوں میں مصافحہ کرتے تھے لیکن جب ہم نے سنت پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو ہم سے وحی کی برکات اُٹھ گئیں۔جب تک میری زندگی ہے تو مجھ سے یہ باتیں نقل مت کرو، کیونکہ حضرت عمر سے ڈر لگ رہاتھا۔
حضرت عثمان نے جب ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے پر پابندی کا اعلان کیا تو حضرت علی نے کھل کر آپ کی مخالفت کردی اور حج وعمرے کا احرام باندھ کر کہا کہ کوئی مجھے سنت سے روک کر دکھائے۔ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں رسول اللہۖ کی رسالت پر ایمان لایاہوں ، اپنے باپ حضرت عمر کی بات کو میں نہیں مانتا ہوں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ مجھے تعجب ہے کہ آسمان سے تم پر پتھر کیوں نہیں برستے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ ۖ نے یہ کیا اور تم ابوبکر وعمر کی بات کرتے ہو؟۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحیح مسلم وصحیح بخاری ، فقہ وتفسیر کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہوئی ہیں لیکن کیا حضرت علی نے حضرت عثمان سے بخاری کی روایت کے مطابق جھگڑا کیا تھا اور حضرت عمر سے حضرت علی خوف کھا رہے تھے؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے پسینوں کی بدبو کی وجہ سے حج و عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تھی جس کی حضرت علی بھی تائید کررہے تھے لیکن جب حضرت عثمان نے حضرت عمر کی اتباع میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے پر پابندی لگائی تو حضرت علی نے آپ کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
جن لوگوں نے اصل حقائق کو سمجھنے کے بجائے حضرت علی کی اتباع میں ایک ساتھ حج وعمرے کا احرام باندھنے کو بدبو کا خیال رکھے بغیر جاری رکھا تو نسل در نسل ان کی اولادوں کی جینز میں تعصبات کی یہ بدبو جم گئی اور جنہوں نے حضرت عمر کی اتباع میں سنت کی مخالفت کو بھی جائز سمجھ لیا تھا تو ان کے دل ودماغ سے قرآن وسنت کی ہدایت چھن گئی۔ قرآن میں اللہ اور اسکے رسولۖ کی اتباع کا باربار ذکر ہے اور یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اولی الامر سے اختلاف کو قرآن میں جائز رکھا گیا ہے اور خلفاء راشدین کے دور میں اولی الامر کیساتھ اختلاف کا راستہ کھلا ہوا تھا۔
حج وعمرے کا ایک احرام ایک ساتھ باندھنا جائز ہے لیکن اگر پسنیوں کی بدبو اور تعفن کا احساس رکھنے کی بنیاد پر مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پابندی لگانے کا جائزہ لیا جاتا توپھر تفسیروحدیث اور فقہ کی کتابوں میں مسائل پربے جا بحث نہ ہوتی۔اہل تشیع کو تعصبات نے یہاں تک پہنچادیا کہ حضرت عمر و حضرت عثمان پر مسلمانوں کو دوبارہ مشرکینِ مکہ کے مذہب میں لوٹانے کی سازش سے بھی دریغ نہیں کیا اور جمہور اہل سنت کے مسالک نے قرآن وسنت کو بالکل نظر انداز کردیا تھا۔البتہ فقہ حنفی کے زعماء نے اعتدال کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا لیکن وہ بھی اصل مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے تھے اسلئے اختلافات کا سلسلہ باقی رہاتھا۔ اور اب مسلکی تعصبات سے بالاتر ہوکر پہلی مرتبہ مسئلہ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ کرام کا فیضان ہے۔
تفسیر وحدیث اورفقہ کی کتابوں میں حج وعمرے کا احرام ایک ساتھ باندھنے کو تمتع کہا گیا ہے اور قرآن میں حج کیساتھ عمرے کے تمتع کا ذکر ہے۔ احادیث کی کتابوں میں وضاحت ہے کہ حضرت عمر نے حج اور عورتوں کے متعہ پر پابندی لگائی تھی۔ حضرت علی نے فرمایا تھا کہ متعہ النساء پر پابندی نہ لگائی جاتی تو بدبخت کے سوا ء کوئی زنا نہ کرتا۔ تفسیر واحادیث اور فقہ کی کتابوں میں متعہ النساء پر بہت اختلافی مواد موجود ہے۔یہ مسئلہ بھی حل طلب اور سب کیلئے قابلِ قبول بن سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت علی سے منسوب ہے کہ فتح خیبر میں گھریلو گدھوں اور عورتوں کی متعہ کو حرام قرار دیا گیا ۔ حالانکہ برصغیرپاک وہند کی طرح عرب میں بھی گھوڑے ، گدھے اور خچر کو کھانے کیلئے نہیں سواری کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ خود کو خصی مت بناؤ۔ ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرو۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ لاتحرموا مااحل اللہ لکم من الطیبٰت ( جن چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے ان کو حرام مت کرو”۔ القرآن ۔ صحیح بخاری۔
صحیح بخاری میں حضرت علی کی طرف منسوب قول بالکل بے بنیاد ہے اسلئے کہ حضرت علی متعہ کے قائل تھے اور حضرت ابن مسعود کی روایت میں بہت وزن ہے جس میں رسول اللہۖ نے متعہ کی حلت کو قرآن کی طرف منسوب کیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں تفسیر جلالین کی طرح تفسیرلکھ دی تھی کہ ومتعوھن (الی اجل مسمٰی) اور ان سے فائدہ اٹھاؤ ،ایک مقررہ وقت تک ۔افسوس کہ مفسرین نے لکھ دیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے قرآن میں یہ اضافہ تھا۔ حالانکہ بین السطور یہ حضرت عبداللہ ابن مسعود کی تفسیر میں ایک اضافہ تھا۔ صحابہ کرام کے الگ الگ قرآن ہرگز بھی نہیں تھے۔ جن لوگوں نے اپنے درسِ نظامی کے نصاب میں یہ غلط تعلیم داخل کی ہیں اس کی تصحیح کریں۔
حضرت ابن عباس نے فرمایاکہ رسول اللہ ۖ ، حضرت ابوبکر اورحضرت عمر کے ابتدائی دور میں چندسالوں تک متعہ النساء جاری تھی اور پھر حضرت عمر نے اس پربعد میں پابندی لگادی۔(صحیح مسلم) صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے متعہ کی اجازت دی اور صحابہ کرام نے متعہ کیاتھا۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح خیبر کے موقع پر متعہ اور گھریلو گدھے حرام قرار دینے کی وضاحت کے بعد پھر کیسے اس کو حلال قرار دیا گیا؟۔ ایران میں متعہ جاری تھا۔ پاکستان میں رنڈیوں کو متعہ کے نام پر بدکاری کے لائسنس جاری ہوتے تھے۔ اب مصر ، سعودیہ اوردیگر ممالک میں مسیار کے نام سے متعہ کی اجازت دیدی گئی ہے۔ پاکستان میں کچرا کنڈی اور جھولوں سے ملنے والے نومولود بچوں کی بہت کثرت ہوگئی ہے ۔ حال ہی میں گلشن حدید کراچی میں ایک نومولود بچہ اس وقت بہت بری طرح جھلس گیا تھا جب کچرے کو آگ لگادی گئی تھی اور اس چیخوں کی سے عرش ہل رہاتھا کہ مجھے کس جرم کی سزادی جارہی ہے۔ اصحاب حل وعقد کو مسئلے مسائل کا حل سنجیدگی اور دلائل سے نکالنا پڑے گا ورنہ بہت خرابیاں پیدا ہوں گی اور اس کی سزا نسل در نسل پوری پاکستانی قوم ہمیشہ بھگتی رہے گی۔
حضرت عمر کے فیصلے کی وجہ سے ایک تیسرا مسئلہ حلالے کا پیدا ہواہے اور اس کے سب سے بڑے مراکز مساجد ومدارس اور حلالہ سینٹرز ہیں۔ طلاق کے بہت سادے مسئلے کو کچھ اس طرح سے الجھادیا گیا ہے کہ بڑے بڑوں کا دماغ بھی اپنا کام چھوڑ دیتا ہے۔ ایک بہت بڑے اسلامی انقلاب کی آمد آمد ہے اور اللہ نے قرآن میں اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کو جو پیش گوئی فرمائی ہے اب اس کا وقت بہت قریب دکھائی دیتا ہے۔ افغانستان کے سخت گیر طالبان بھی اقتدار میں آکر اب تاریخی لچک کا مظاہرہ کررہے ہیں اور یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ یہ اسلامی دنیا اور عالمِ کفر میں ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ انسانی بنیاد پر افغان عوام کی مدد کا فیصلہ یورپی یونین اور مغربی ممالک بھی کررہے ہیں۔
میری چاہت ہے کہ پاکستان وافغانستان کے امور کا امریکی نمائندہ جیسے اپنا کام کرتا ہے ،اس طرح میں پاکستان وافغانستان کا نمائندہ بن کر کینیڈا میں بیٹھ جاؤں اور اہل مغرب کو اسلام اور اس کے مزاج پر درس دوں اور مسلم امہ کو حقائق کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کروں۔آج مسلمانوں اور اہل مغرب میں وہ اسلامی اور انسانی کردار ادا کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم آئندہ تیسری جنگ عظیم کے خطرات سے بچنے میں کافی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جب اسامہ بن لادن پر امریکہ نے حملہ کیا تھا تو ہم نے شہ سرخی لگائی تھی کہ ”امریکی صدر کلنٹن کی بیٹی اسامہ کی لونڈی بنائی جائے”۔ پاکستان میں تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کو میں نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ ” امریکی صدر کی آمد پر جو پاکستانی اہلکار بھی کلنٹن کو نشانہ بناسکتا ہے تو بنالے ،اسلئے کہ ڈیڑھ سو پاکستانی مجاہدین اسامہ بن لادن کے حملے میں کلنٹن کے حکم سے شہید کئے گئے ہیں”۔
جب1987ء میں میں افغان جہادمیں گیا تھا تو حرکة الجہاد الاسلامی کے مولانا خالد زبیر شہیدوغیرہ سے کہا تھا کہ ایک طرف روس اور دوسری طرف پھر امریکہ ہے تو ہمیں قبائلی علاقے سے دونوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور وہ اس بات پر متفق ہوئے تھے اور مجھے افغانستان سے پاکستان پہنچادیا تھا لیکن میرے مرشد حاجی محمد عثمان پر فتوؤں کی وجہ سے میری جدوجہد کا رُخ بدل گیا تھا اسلئے کہ اپنے معاشرے میں ظلم ہو تو پھر دوسروں کے خلاف آدمی کیا جہاد کرے گا؟۔
سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کے نانا کے حوالے سے موجود ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کا گیارہواں صحابی تھا۔ عمران خان کی اماں بھی مرزائی ہوگی اور اس نے چندوں کے پیسوں سے بننے والے ہسپتال کا نام اپنی ماں کے نام پر رکھا ہے۔ صیہونیت کا منصوبہ تھا کہ کشمیر، گلگت اور پنجاب کو سکھ اورمرزائی اسٹیٹ بنایا جائے۔ پاکستان اور بھارت کو توڑ کر عالمی منصوبہ ساز ادارے اب بھی اپنے مشن کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ہتھیار کے استعمال اور ملک وقوم کی تقسیم سے عالمی ایجنڈہ جاری ہے۔ انسانوں کو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر روبوٹوں کی طرح استعمال کیا جارہاہے۔ برصغیرپاک وہند سے قرآن وحدیث ، صحابہ اور ائمہ اربعہ کے مسلک کی درست تشریح سے ہماری تباہی کا ایجنڈہ رُک سکتا ہے اور ہماری کاوش انشاء اللہ جاری رہے گی لیکن مغرب کے دل میں بیٹھ کر اسلام کی حقانیت کو بیان کرنے کے نتائج زیادہ جلدی مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔
انگریز سمجھتا ہے کہ جب مسلمان اپنی بیگمات کے حلالہ کروانے سے بھی باز نہیں آتے ہیں تو یہ ہماری بیگمات کو بھی لونڈیاں بناکر چھوڑیں گے اسلئے ایک نئی اور جھوٹی نبوت مرزائیت سے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔ جب نوازشریف کے دور میں قادیانیت کے حق میں قومی اسمبلی سے بل پاس ہوا تھا تو سینٹ میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمداللہ نے اس کی نشاندہی بھی کی تھی لیکن پھر بھی وزیرداخلہ شیخ رشید کو اس وقت اپوزیشن رکن اسمبلی کی حیثیت سے سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ن لیگ کے اتحادی جمعیت علماء اسلام کو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام لیکر دعوت دینی پڑی مگر مولانا فضل الرحمن اور اس کی جماعت کے رہنمابت اور بھوت بن کر حکومت کیساتھ کھڑے تھے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر قادیانیت کے الزامات لگانے والوں کی حد یہ ہے کہ اس بل کے خلاف فیض آباد کے کامیاب دھرنے کا الزام بھی آرمی چیف پر ہی لگایا جاتا ہے۔جو کھیل کھیلا جارہاہے اسکے بہت خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور اسلاف پر اعتماد سے پاکستان اور یہ خطہ بدامنی کی فضاؤں اور دہشتگردی سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اسلام کا نام روشن ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مفتی خالد حسن مجددی کا پیغام حلالے کی لعنت سے اپنے آپ کو بچائیں۔

حضرت پیر مفتی مجددی کو دل کی اتھاہ گہرائیوںسے وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ،مسلم اُمہ کے نام پیغام
لعنت سے اپنی نسلوں کوبچاؤ: اپنے من میں ڈوب کرپاجاسراغِ زندگی ..تو اگر میرانہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ دسمبر2021

اہلسنت بریلوی مکتبۂ فکر کی عوام کو اگر تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا فتویٰ درکار ہو تو الحمدللہ ایک معروف ہستی حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی کی شخصیت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف اسرائیل سے تین طلاق کامسئلہ نہیں آیاہے، باقی الحمدللہ دنیا کے اکثر معروف ممالک سے طلاق کے مسائل پر حلالہ کے بغیر صلح کی شرط پر رجوع کیلئے دنیا بھر سے استفتاء آئے ہیں اور ہم نے لوگوں کی عزتیں بچائی ہیں۔ پہلے حنفی عوام الناس اہلحدیث کے پاس تین طلاق سے رجوع کیلئے جایا کرتی تھی اور اب اہلحدیث بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی انس مدنی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے اور حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی کی تائید بھی پہلے سے ہمیں حاصل ہے۔ پاکستان بھر سے مختلف علماء ومفتیان ہمارے پاس لوگوں کو فتوے کیلئے بھیج رہے ہیں اورہفت روزہ اخبارِ جہاں میں کئی عشروں سے”آپکے مسائل اور ان کا حل : قرآن وسنت کی روشنی میں” حضرت مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی کا صفحہ لکھنے والے کی تائید بھی ہمارے فتوؤں پر موجود ہوتی ہے جن کا تعلق علماء دیوبند سے ہے اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت ساری خواتین کی عزتین ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بچائی ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو بعض اوقات پنجاب کے کسی جید حنفی بریلوی مکتب فکر کے مفتی صاحب کے دستخظ کی ضرورت ہوتی تھی۔ گزشتہ مہینے ایک انیس سالہ لڑکی کو اسکے اکیس سالہ شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیںتو حلالہ کے فتوے پر اس لڑکی نے خود کشی کی تھی جس پر دنیا نیوز کے بہادر صحافی محمد مالک نے ایک پروگرام بھی کیا تھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو وہ لوگ ہیں جو جاگ رہے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم سورہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خواب غفلت سے ہم کیسے بیدار کرسکتے ہیں؟۔ دوسرے وہ لوگ ہیں کہ جن کو مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ عوام کے سامنے سینکڑوں سال کے اپنے اکابر کو قربان کرکے فتویٰ دیںلیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جاندار کی تصویر ، سود کی حلت اور باقی مسائل میں اپنے اکابر قربان کردئیے لیکن عورتوں کی عزتیں بچانے کیلئے درست فتویٰ دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے مدرسے جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایریاکورنگی کے علماء کرام کی طرف سے بھی حلالہ کے بغیر رجوع کیلئے لوگوں کو ہم سے فتویٰ کیلئے بھیجا گیا ہے اور یہ وہ علماء ومفتیان تھے جو پہلے ہم سے لڑرہے تھے۔
ایک قسم کے علماء ومفتیان ایسے بھی ہیں جو زبانی طور پر کھل کر ہمارے مؤقف کی تائید کررہے ہیں اور اپنے احباب کو زبانی سمجھا بھی رہے ہیں کہ اس طرح کی طلاق سے بھی باہمی صلح ورضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے اور جمعہ کے وعظ میں بھی لوگوں کو حقائق بتارہے ہیں لیکن ان کے نام اپنے اخبار میں اسلئے نہیں دے سکتے ہیں کہ ان پر کچھ باثر علماء ومفتیان کی طرف سے دباؤ کے خطرات ہیں۔
قرآن میں ایک ایمان والوں کی بات ہے اور پھر ایمان والوں کے درجات ہیں جن میں صدیقین، شہداء اور صالحین شامل ہیں۔ صالحین وہ ہوتے ہیں جن کا اپنا عمل اچھا ہوتا ہے اور وہ فسق وفجور سے اجتناب کرتے ہیں۔ صدیقین ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صداقت کیلئے باقاعدہ مہم جوئی کرتے ہیں۔ صدیق اکبر کے علاوہ تمام صحابہ کرام کی جماعت صدیقین کی جماعت تھی جنہوں نے قرآن کے نفاذ کیلئے دنیا بھر میں مہم جوئی کی تھی۔ ان کے مقابلے میں ایک کفار تھے جو اسلام کے منکر تھے اور وہ اسلام کو قبول کرنے سے انکاری تھے اور دوسرے مکذّبین تھے جو نہ صرف خود قرآن کا انکار کرتے تھے بلکہ قرآن کے خلاف مہم جوئی کرکے اس کی تکذیب بھی کرتے تھے۔ آج بھی علماء حق اور علماء سو ء کی یہ تقسیم ہے کہ علماء حق قرآنی آیات کا معاملہ سمجھنے کے بعد عورتوں کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کیلئے مہم جوئی کررہے ہیں اور علماء سوء قرآنی تعلیمات کے خلاف مہم جوئی کرتے ہیں۔
باپ اولاد کیلئے پہلااستاذ اور ماں اولاد کیلئے پہلی مرشد ہوتی ہے۔اگر باپ نے اپنی اولاد کی ماں کیساتھ کوئی برا سلوک کیا ہو تو اس کے اثرات اولاد پر ضرور مرتب ہوتے ہیں اور اگر ماں باپ کا مثالی تعلق ہو تو اولاد پر بھی اس اخلاق کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔ باپ نے ماں کو تین طلاقیں دی ہوں اور اس کو حرامکاری سمجھ کر پھر بھی اپنے پاس رکھا ہو تو اسکے اثرات اولاد پر بھی مرتب ہوں گے اور باپ نے ایک ساتھ تین طلاق دئیے ہوں اور ماں سے حلالہ کروایا ہو تو اس کے اثرات بھی اس پر ضرور مرتب ہوں گے۔ آج ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ماں باپ کے اندر طلاق واقع ہوچکی ہے اور میاں بیوی آپس میں حرامکاری سمجھ کر بھی حلالہ کی ہمت کرنے سے گریز اں ہیں اور بہت سارے لوگ جدائی اختیار کرلیتے ہیں اور بہت سارے حلالے کی لعنت کا بھی ارتکاب کرتے ہیں کہ زندگی بھر کی حرامکاری سے ایک دفعہ کی لعنت اچھی ہے۔ مسلمان معاشرے کو اس دلدل سے نکالنا بہت ضروری ہے۔
بھارت کی ہندو خواتین کو بھی قرآن میں طلاق ، عدت اور اس سے رجوع کا مسئلہ سمجھ میں آگیا ہے لیکن ہمارے بڑے علماء ومشائخ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو بہت تعجب کی بات ہے۔ ہمارے وزیرستان کے محسود کہتے ہیں کہ ” اگر تم نہیں چلوگے تو میں اٹھالوں گا لیکن اگر نہیں کھاؤگے تو میں کیا کرسکتاہوں”۔ مسلم اُمہ کے زعماء وعلماء اور قائدین قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں تو بہت آسان طریقہ ہے اس کو سمجھنے کا جس سے پوری امت مسلمہ اس دلدل سے نکل سکتی ہے لیکن اگر وہ سمجھنے کیلئے تیار نہ ہوں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ یہودونصاریٰ میں جو اہل حق تھے تو انہوں نے قرآن پر ایمان لانے میں لیت ولعل سے کوئی کام نہیں لیا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے علماء ومشائخ نے بھی ایک طرف ہٹ دھرم اور دین فروش یہودی احبار اور عیسائی رہبان کا کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف ان میں اہل حق کی ایک جماعت بھی ہمیشہ سرگرداں رہی ہے۔ جونہی حق کو دیکھا تو اس کو قبول کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے اور اہل باطل کو دیکھا تو اس کی تردید کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچائے۔ میرا تعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مولانا درخواستی کے بیٹے مولانا فداء الرحمن درخواستی کے انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی سے رہا ہے۔ پچھلے دنوں کراچی میں مولانا امین انصاری، علامہ کرار نقوی اور جامعہ ستاریہ کے ایک اہلحدیث عالم دین سے ملاقات ہوئی تو یہ سب حضرات مجھے جانتے تھے ۔ علامہ کرار نقوی سے ملاقات رہی ہے۔ انکے دفتر اور گھر میں بھی گیا ہوں، اہلحدیث عالم سے غائبانہ تعارف تھا اور دیوبندی مولانا امین انصاری نے بتایا کہ ”میں آپ کا سابعہ (موقوف علیہ ،درس نظامی )میں کلاس فیلو تھا”۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں زمانہ طالب علمی کے دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق لورالائی بلوچستان کالعدم سپاہ صحابہ کے صوبائی صدر اور جیش محمد کے رہنما نے ہمارے ساتھی سے کہا کہ طلاق کا مسئلہ ایک دفعہ میری سمجھ میں آگیا تو میں اس کی تبلیغ کروں گا۔ میرے بہت قابلِ احترام استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصرمدظلہ العالیٰ نے بھی ہمارے ساتھی سے کہا کہ میری سمجھ میں طلاق کا مسئلہ نہیں آرہاہے۔ جب ایک مسئلے پر زمانوں کی گرد نے پیچیدگیاں پیدا کردی ہوں تو بسااوقات واقعی بات سمجھ میں بھی نہیں آتی ہے۔ جس دن قرآن کی طرف علماء کرام اور مفتیان عظام نے رجوع کرلیا اور احادیث صحیحہ کو قرآن کی تفسیر کے طور پر سمجھنے کی طرف دھیان دیا اور صحابہ کرام کے اختلافات کو قرآن وسنت کے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کی تو سب کچھ مخلص لوگوں کو بہت جلد سمجھ میں آئے گا۔
قرآن میں طلاق سے رجوع کیلئے اصل بنیاد باہمی صلح ہے۔ سورہ بقرہ میں آیات224سے232تک اس کی بھرپور وضاحت موجود ہے، جس کا خلاصہ سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں بھی بھرپور وضاحت کیساتھ موجود ہے۔
آیت230البقرہ سے پہلے اور بعد میں عورت کے حقوق اور طلاق کا مسئلہ سمجھانے کی بھرپور وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ”ہم نے کتاب نازل کی ہے ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے حقوق کو کچلنے والے وحشی لوگوں نے خود ساختہ مذہبی مسائل بھی بنارکھے تھے۔ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے تھے تو اہل مذہب اپنے منکر اور جھوٹے اقوال کے ذریعے سے یہ فتویٰ دیتے تھے کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا۔ سب سے زیادہ سخت مسئلہ ظہار کا تھا جس میں شوہر اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنی ماں کی پیٹھ سے تشبیہ دیتا تھا ، جس کے بعد بیوی اپنے شوہر پر حقیقی ماں کی طرح حرام سمجھی جاتی تھی اور حلالے سے بھی وہ حلال نہیں ہوسکتی تھی۔ اس فتوے کے اثرات بھی قرآن کریم کی سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
مذہبی لوگوں کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ دنیاوی کاروبار کی جگہ پر مذہب کی خدمت کا ٹھیکہ لیتے ہیں تو فارغ البالی میں نت نئے مسائل گھڑنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ پھر بال کی کھال اُتارنے کے چکر میں اپنی پرواز کا رخ شاہین کی طرح ہوا میں بلند کرنے کی جگہ پر گدھ بن کر مردار کھانے کی طرف نیچے پھیر لیتے ہیں اور پھر المیے جنم لیتے ہیں۔ سورۂ مجادلہ میں ایک خاتون کے جھگڑنے کا ذکر ہے جس کی بات اللہ نے سن لی اور مذہب کے منکر اور جھوٹے قول کی آیات میں بھرپور طریقے سے نشاندہی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دل ودماغ سے باطل عقیدہ ومذہب نکالنے کیلئے یہاں تک سورۂ مجادلہ میں فرمادیا کہ ” بیگمات مائیں نہیں بن سکتی ہیں،مائیں نہیں ہیں مگر وہی جنہوں نے ان کو جنا ہے”۔ اس کے باوجود بھی سورۂ احزاب میں اللہ نے نبیۖ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ
” اے نبی! اللہ سے خوف کھا۔اور اتباع نہ کریں کافروں اور منافقوں کا ۔ اور اتباع کریں جو اللہ نے تیری طرف نازل کیا ہے اس کا۔اور اللہ کی وکالت کافی ہے۔اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے اور نہ ان بیویوں کو تمہاری ماں بنایا ہے جنہوں نے تمہیں جنا ہے اور نہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا ہے”۔
اللہ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انسان کے جسمانی سینے میں دو دل نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ اللہ نے یہ بتایا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی عورت کو انسان ایک دل سے اپنے بچوں کی ماں کو اپنی بیوی سمجھے اور دوسرے دل سے اس کو اپنی ماں سمجھے۔ مگر علماء ومفتیان نے اس سے میڈیکل کی دنیا مراد لی ہے۔ اگر کبھی کوئی ایسا بچہ پیدا ہوگیا کہ دوسروں کی طرح اس کے دو دل بھی ہوئے توپھر علماء کہیں گے کہ فارمی مرغیاں اور جانور وں کے یہ نقصانات ہیں کہ انسانی جسم کا توازن بگڑ گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے محرمات کی فہرست چوتھے پارے کے آخر میں بیان کی ہے اور سب سے پہلے فرمایا ہے کہ ” ان عورتوں سے نکاح مت کرو، جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے ہوچکا ہے”۔ باپ کی منکوحہ سے نکاح کا جواز مذہبی گدھوں اور گِدھوں نے کیوں نکالا؟۔ فقہاء یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ کے جاہلوں نے سابقہ مذاہب حضرت ابراہیم وحضرت موسیٰ کے صحائف میں یہ دیکھا ہوگا کہ ” مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے” جیسے سورۂ مجادلہ میں ہے تواس سے یہ اخذ کیا ہوگا کہ ”باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا جائز ہے اسلئے کہ مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے جنا ہے”۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اسکے ذریعے بہت لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور بہت لوگوں کو ہدایت ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں باہمی صلح کی بنیاد پر تمام آیات میں رجوع کا دروازہ کھول دیا ہے۔ کسی ایک آیت سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ باہمی صلح کے بغیربھی رجوع ہوسکتا ہے۔ طلاق رجعی کیلئے فقہی مذاہب میں جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ،ان آیات پربھی مسالک کا اتفاق نہیں ہے، جن آیات سے استدلال لیا گیا ہے ان میں بھی صلح کی شرط کے بغیر رجوع کا تصور نہیں ہے۔
کوئی ایک بھی ایسی آیت اور حدیث نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ عورت کی رضامندی اور صلح کے بغیر بھی اس کا شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ جب رجوع کیلئے فقہی مسالک ومذاہب میں غلط بنیادیں رکھی گئی ہیں تو اہل حق کا اس سے آہستہ آہستہ اتنا دماغ خراب ہوتا گیا کہ انہوں نے تین طلاق سے صلح کے بغیر رجوع نہ کرسکنے کا جو فتویٰ اور فیصلہ شروع کیا تھا تو اس کو بدلتے بدلتے یہاں تک پہنچادیا کہ ” صلح کے باوجود بھی حلالے کے بغیر رجوع نہ کرنے کے فتوے دینے شروع کردئیے”۔ پچھلے شمارے میں بہت تفصیل سے قرآن وحدیث سے بہترین دلائل دئیے تھے اور مجھے امید ہے کہ میرے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصر اور دوست مولانا نیازمحمد ناطق بالحق کو بھی معاملہ سمجھ میں آیا ہوگا اور ان سے زیادہ مولانا مسعود اظہر اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو بھی سمجھ میں آیا ہوگا اور جن کو بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو بالمشافہہ بھی بات سمجھانے کیلئے میں ہر وقت تیار ہوں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی سے کئی نشستیں ہوئی تھیں اور موجودہ چئیرمین قبلہ ایاز صاحب کو بھی دوبار ملاقات میں معاملہ اچھی طرح سے سمجھا یا ہے اور ان کی سمجھ میں بھی آیا ہے لیکن اپنے منصب اور عہدے کی مراعات انہیں زیادہ اچھی لگتی ہیں۔
تاہم پھر بھی اگر سمجھانے میں کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو اس کیلئے ہمہ وقت میرا اخبار حاضر خدمت ہے۔ اپنا کوئی اشکال اور سوال ہمیں بھیج سکتے ہیں لیکن قرآن وسنت کی غلط تشریح پر لچک دکھائی تو میری آخرت برباد ہوجائیگی۔ میںتھک سکتا ہوں، لوگوں سے مایوس ہوسکتا ہوں لیکن اللہ کی ذات پر ایمان اور بھروسہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

تین طلاق کے بعد صلح کی شرط پر میاں بیوی بغیر حلال کے رجوع کر سکتے ہیں۔

قرآن میں صلح کی شرط پر بار بار رجوع کی بات ہے لیکن علماء نے حلالے کی رٹ لگائی ہے۔ حضرت مولانا پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری، جامعہ فاطمة الزہرہ جامع مسجد نقشبندیہ عیدگاہ مین بازارکھوکھرکی سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ

(گوجرانوالہ) چیئر مین تحریک تحفظ امن پاکستان ، امیر مجلس تحفظ ختم نبوت، رہنما جماعت اہل سنت پاکستان پیر مفتی خالد حسن مجددی قادری رفاعی نے نمائندہ نوشتہ دیوار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بغیر کسی لالچ و منصب کے جس طرح کام کررہے ہیں اسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔ اس وقت چھوٹے بڑے سب علماء دین بیچ رہے ہیں۔ اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی ، حضرت داتا گنج بخش ، بہاء الدین زکریا ملتانی، عبد اللہ شاہ غازی جیسی ہستیاں ملیں گی انہوں نے کتنے محلات بنائے؟ کتنا مال جمع کیا؟ جبکہ آج کے پیر محلات کے مالک ہیں زمینوں کے مالک ہیں ان کے دستر خوان پر ڈھیروں اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔ آج کے پیر اور علماء اپنی پوجا کرواتے ہیں انہیں اپنی دوکانداری خراب ہونے کا خوف ہے تو ایسے میں دین کیسے آگے بڑھے گا؟۔ طلاق کا مسئلہ اور اس کا حل جو گیلانی صاحب نے پیش کیا ہے اور قرآن کے دلائل سے سمجھایا ہے اس پر یہ بلا تردد سرِ تسلیم ختم کرتے مگر انہوں نے اب تک قرآن کی آیت ”حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ” کی تشریح سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے اور قرآن کس طرح بار بار صلح کی شرط پر رجوع کی بات کرتا ہے اسے کبھی بیان ہی نہیں کیا ہے۔ بس تین طلاق کے بعد اب کچھ نہیں ہوسکتا کی رٹ اور حلالہ کی غلیظ ترین بات ۔
انہوں نے کبھی بھی حساس ترین مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں کہ عزتیں لٹ رہی ہیں عورت کی تذلیل ہورہی ہے مگر یہ خاموش ہیں۔ موجودہ دور کے مسائل پر بھی ریسرچ نہیں کرتے ۔ درس نظامی کو جدید تحقیقات کی روشنی میں استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نام نہاد مفتیان نے سود کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ میں کہتا ہوں سود کو نہیں بلکہ سؤر کو حلال کردیا ہے۔ اس سوال پر کہ پھر آخر اسکے خلاف کون آواز بلند کرے گا تو مفتی صاحب نے کہا کہ ماضی میں بھی اورنگزیب عالمگیر کے دور میں ان علماء نے ہی دنیاوی مفاد کیلئے بادشاہ وقت کو قتل، چوری ، زنا و دیگر جرائم پر سزا سے استثناء کا فتویٰ دیا تھا جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی مراعات و دنیاوی مفاد کیلئے ہر طرح کے منکرات کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ حق بات کبھی بھی ان کے منہ سے نہیں نکلتی ہے۔ ان لوگوں کو گیلانی صاحب نے بہت جھنجھوڑا مگر یہ سب مایا کے بندے بنے ہوئے ہیں۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ ”قلیل من عبادی الشکور” بہت کم ہیں جو اللہ کے شکر گزار ہیں ۔ ”قلیل من الآخرین” کا ذکر قرآن میں آیا ہے ایسا لگتا ہے کہ حق کہنے والے قلیل من الآخرین سے بھی کم ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں بقول اقبال اپنے بھی خفا ہیں اور بیگانے بھی ناخوش مگر یہ مٹھی بھر حق گو لوگ امت مسلمہ کی خیر خواہی میں کسی ملامت گر کی ملامت سے بھی نہیں گھبرائے ہیں۔ اور جو بات ملت کیلئے زہر قاتل ہے ، امت کی بربادی کا موجب ہے اسے کبھی نہیں چھپاتے ہیں۔ یہی قلیل لوگ نبی ۖ ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ، ائمہ حق اور اولیاء کے جانشین ہیں۔ آخر میں شاہ صاحب کی خدمت میں سلام۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

بریلوی دیوبندی حنفی اہل حدیث اور اہلسنت و اہل تشیع ڈیرہ اسماعیل خان، مولانا فضل الرحمان اور دیگر نامور علمائے کرام اور مفتیوں کا اجلاس بلائیں، اور مجھے بلا کر لوگوں کی جانیں بچائیں۔ حلالہ کی لعنت

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

ڈیرہ اسماعیل خان کے دیوبندی بریلوی ، حنفی اہلحدیث اوراہلسنت واہل تشیع مولانا فضل الرحمن اور دیگر اکابرعلماء ومفتیان کا اجلاس بلائیں اورمجھے طلب کریں،تاکہ حلالہ کی لعنت سے عوام کی جان چھڑائیں!

جب طلاق کی واضح آیات پر علماء ومفتیان کی غلط فہمی دور ہوگی تو مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت اورقادیانیوں کا بھی بیڑا غرق ہوجائیگا

محترم السلام علیکم_
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے موضع شور کوٹ کے ایک مولوی کا جو اپنے آپ کو مفتی کہتا ہے دیا گیا ایک فتویٰ بھیج رہا ہوں تسلی فرما کر قرآن و سنت کے مطابق جواب عطا کرکے عند اللہ ماجور فرمائیں۔ جبکہ جس نے طلاق دی وہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے بیان میں قرآن پاک کا تذکرہ نہیں کیا تھا اور نہ اس وقت اس مولوی کے ساتھ کوئی دوسرے علماء بیٹھے ہوئے تھے۔ اصل میں اس مفتی کے فتوے کو رد کرنا ہے کیونکہ اس مولوی نے پورے شہر میں کہا کہ اگر یہ لوگ نکاح ثانی بغیر حلالہ کے کرتے ہیں تو عورت مرد زنا کے مرتکب ہوں گے اور زانی سے ہر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ اب یہ لوگ پریشان ہیں۔ شکریہ۔ و السلام
از محمد ادریس علوی صوبائی جنرل سیکریٹری تحریک استقلال پاکستان خیبر پختونخواہ

_ بسم اللہ الرحمن الرحیم_
الاستفتا ء :کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین کہ بقول غلام صمدانی اس نے اپنی زوجہ ہاجرہ بی بی کے مطالبہ پر بایں صورت کہ زوجہ نے شوہر کی گود میں قرآن رکھا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ اب غلام صمدانی نے علماء کے سامنے اور اپنی زوجہ کے سامنے دوران بیان اقرار کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیں اور اس کی بیوی منکر ہے کہ بعض الفاظ میں نے نہیں سنے۔ اور اس کی بیوی رو رہی تھی اور غلام صمدانی مسلسل اپنی زوجہ کے سامنے مذکورہ بیان دیتا رہا۔ ان بیانات پر حکم شرع بیان فرمائیں۔

_ الافتا ئ_
صورت مسئولہ میں عدت بائنی مغلظہ ہے۔ اور بلا تحلیل کے زوج اول حلال نہ ہوگی۔ کما فی التنزیل :فلا تحل لہ حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ الآیہحضرت عبد اللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا۔ اور آپ حضرات نے جواب دیا ۔فقالا لانری ان تنکحھا حتی ……
حررہ سنی حنفی قادری ۔آل رسول محمد شعیب شاہ گیلانی ۔
مدرس فیضان مدینہ، خادم العلماء و الافتائ۔ خادم جامعہ غوث الاعظم دستگیر۔ شور کوٹ ۔ ڈیرہ اسماعیل خان ۔

محترم ادریس علوی صاحب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
صورت مسئولہ میں شرعاً حنفی وشافعی ، دیوبندی ،بریلوی اور دیگر تمام مسالک کے نزدیک بیوی کی رضامندی کیساتھ رجوع کرنا قرآن وسنت کاحکم ہے اور حلالہ کی لعنت قرآن وسنت کے خلاف قطعی طور پر حرام ہے۔ قطعی دلائل یہ ہیں کہ
علامہ ابن قیم اپنی کتاب ” حکم رسول اللہۖ فی الخلع ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: وثبت بالسنة واقوال الصحابة أن العدة فیہ حےة واحدة و ثبت بالنص جوازہ بعد الطلقتین و وقوع ثالثة بعدہ و ھذا ظاہر جدا فی کونہ لیس بطلاق فانہ سبحانہ تعالیٰ قال:الطلاق مرتان فامساک بمعروف أو تسریح باحسان ولایحل لکم أن تأخذوا مما ء اتیتموھن شیئا الا ان یخافا االا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ]البقرة:٢٢٩[وھذا ان لم یختص بالمطلقة تطلیقتین فانہ یتناولہا غیرھما ولا یجوز أن یعود الضمیر اِلی من لم یذکر ویخلی منہ المذکور اِ ما ان یختص بالسابق أو یتنالہ و غیرہ ثم قال فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد وھذایتناول من طلقت بعد فدیة و طلقتین قطعاً لأنھا ھی المذکورة فلا بد من دخولھا تحت اللفظ وھکذا فھم ترجمان القرآن الذی دعا لہ رسول اللہۖ أن یعلمہ اللہ تأویل القرآن و ھی الدعوة مسجابة بلا شک زاد المعاد جلد ٤،ص١٧
اس عبارت میں حنفی مسلک کے خلاف خلع کو طلاق سے علیحدہ چیز بتایا ہے اوراس میں سنت، صحابہ کے اقوال اور قرآن کے نص کی دلیل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور عبارت کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ” آیت تحلیل میں مذکورہ عورت جس کو طلاق دی گئی ہو فدیہ اور دو مرتبہ طلاق کے بعد قطعی طور پر اسلئے کہ اس کو تحت اللفظ کے تحت داخل کئے بغیر چارہ نہیں اور اسی طرح کا فہم حضرت عبداللہ ابن عباس ترجمان القرآن ہے جس کو نبیۖ نے دعا دی تھی کہ اللہ اس کو قرآن کا علم دے اوروہ دعا بلا شک قبول ہوئی ہے۔ زادالمعاد ج4ص17
علامہ ابن قیم نے یہاں اس عبارت میں احناف کے مقابلے میں امام شافعی کے مسلک کی خلع کے حوالے سے حمایت کی لیکن پھر بھی فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ الآیہ کو اس سے پہلے فدیہ اور دومرتبہ طلاق کیساتھ ہی نتھی کردیا۔ اور اس کیلئے حضرت ابن عباس کے فہم کا حوالہ بھی دیدیا۔ جبکہ حنفی مسلک کی اصول فقہ کی کتابوں میں بھی اس آیت کو فدیہ کیساتھ ہی منسلک کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ اس آیت میں مذکور طلاق کا تعلق احناف کے نزدیک بھی فدیہ کی صورت سے ہی ہے۔
حضرت ابن عباس کی طرف یہ بھی منسوب ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو ایک قرار دیتے تھے اور بعض شاگردوں نے یہ بھی کہا کہ جب کسی شخص نے پوچھا کہ میں نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی تھیں تو ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ اس کو اس کی بیوی لوٹادیں گے لیکن اس نے کہا تمہاری بیوی تم سے الگ ہوچکی ہے کیونکہ تو نے اللہ کا خوف نہیں کھایا اور جس چیز میں رعایت تھی اس کا غلط استعمال کیا۔
ابن عباس کے دونوں قسم کے فتوؤں کے تضاد میں یہ تطبیق ہے کہ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر قرآن کے مطابق رجوع کا حکم ہے ا ور جب رجوع کیلئے راضی نہ ہو تورجوع حرام ہے اور یہ صرف آیت230البقرہ کا تقاضہ نہیں بلکہ آیت228،229اور231،232البقرہ اور سورۂ طلاق آیت1،2 کا بھی یہی حکم ہے۔ صورت مسئولہ میں عورت راضی ہو توحلالہ کئے بغیر رجوع کا حکم قرآن وسنت سے ثابت ہے اور عورت راضی نہ ہو تو شوہر کیلئے رجوع حرام ہے۔ صحابہ کرام، ائمہ عظام کا قرآن کے واضح احکام پر اجماع تھا اور اسکو بعد میں نااہل لوگوں نے غلط رنگ میں پیش کرکے نااہلی کا ارتکاب کیا۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک سے حلال کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ہم نے فتویٰ جاری کیا ہے۔

نوشتہ دیوار کراچی۔ ماہ نومبر2021۔ صفحہ نمبر4
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی(چیف ایڈیٹر)

پاکستان اور دنیا بھر کے اکثر ممالک سے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے بہت سوں کو ہم نے فتویٰ دیا اور بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث علماء ومفتیان اپنے مسلک کے برعکس قرآن وسنت کی تائیدکر رہے ہیں

_ سورۂ طلاق اور حدیث پاک_
صفحہ نمبر ایک پر سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کا بالکل سادہ مفہوم لکھ دیا ہے تو کیا حدیث سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے؟۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب یہی ہے کہ دورجاہلیت میں مذہبی گدھوں نے طلاق کے شرعی تصور کا حلیہ بالکل بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک ایسی فضاء تھی کہ اس سے نکالنے کیلئے قرآن کریم کو ایک ایک بات پر زبردست وضاحتوں سے کام لینا پڑا تھا۔ جب ایک غلط چیز معاشرے میں سرایت کرجائے اور معاشرہ اس سے متأثر ہوجائے تو بہت مشکل پڑتی ہے اور اس سے نمٹنے کیلئے اللہ کی وحی کو بھی اپنی آخر حد تک جانا پڑتا ہے۔
حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو وہ آیت انہیں کافی ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا : یارسول اللہ ! وہ کون سی آیت ہے؟۔ تو آپ ۖنے فرمایا:
ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا (الطلاق:2) اور جو اللہ سے ڈرا تو اللہ اس کیلئے راستہ بناتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:4220، صحیح ابن حبان) تفسیر تبیان القرآن ،ج12، صفحہ69۔ علامہ غلام رسول سعیدی)
جب نبی کریم ۖ نے طلاق کی دوسری آیت کو اتنی اہمیت دی ہے تو اس میں صرف تقویٰ کی بات نہیں ہے کیونکہ تقویٰ کا ذکر تو بہت سی آیات میں ہے۔ سورۂ طلاق کی آیت2میں طلاق کے تمام مسائل کا حل ہے۔ جس میں قرآن کی وضاحتوں کے مطابق طلاق دینے اور پھر اس سے رجوع کیلئے راستہ کھلا رکھنے کا معاملہ ہے۔ پہلا معاملہ یہ ہے کہ طلاق مرحلہ وار دی جائے، دوسرا معاملہ یہ ہے کہ عورت کواس کے گھر سے نہ نکالا جائے اور نہ وہ خود نکلے۔ تیسرا معاملہ یہ ہے کہ عدت کی تکمیل تک پہنچنے پر معروف رجوع یا معروف الگ کرنے پر عمل کیا جائے ۔اور اس میں عورت کے مال کو تحفظ فراہم کیا جائے اور پھر بھی رجوع کے دروازے کو کھلا رکھا جائے اور یہ نبیۖ کا لوگوں کیلئے کافی ہونے کا فتویٰ ہے۔
حضرت رکانہ کے باپ نے رکانہ کی والدہ کو طلاق دی اور دوسری عورت سے شادی کرلی، اس نے رکانہ کے نامرد ہونے کی شکایت کردی تو نبیۖ نے فرمایا کہ رکانہ کے بچے اس سے کس قدر مشابہہ ہیں اور پھر اس عورت کو چھوڑنے کا حکم دیا اور حضرت رکانہ کی والدہ سے رجوع کا حکم فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی۔ ( سننن ابوداؤد شریف)
قرآن میں جتنی وضاحت کیساتھ طلاق اور اس سے رجوع کے احکام ہیں اور اس سے امت مسلمہ نے غفلت اختیار کررکھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بجا فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے رسول ۖ امت کے خلاف یہ شکایت فرمائیں گے کہ وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ہذالقرآن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ طلاق سے رجوع کیلئے سورۂ طلاق کی آیت2بھی امت کیلئے عمل کی کافی دلیل ہے۔کاش علماء ومفتیان اس پر عمل کا فتویٰ دیکر امت کا کافی بھلا کریں۔

_ قرآن کے تراجم میں گمراہی_
شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اورشیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی تفاسیر اور تراجم میں بھی تضادات ہی تضادات ہیں۔ اسی طرح مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا پیر کرم شاہ الازہری اور علامہ غلام رسول سعیدی کی تفاسیر اور تراجم میں تضادات ہی تضادات ہیں۔ اگر کسی ایک مکتب فکر ،مسلک اور فرقے کے علماء ومفتیان میں قرآن کے ترجمے پر بھی بنیادی تضاد ہو تو اس سے ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟۔
وجہ اس کی یہی ہے کہ قرآن کا سادہ ترجمہ اور تفسیر انکے مسلکوں پرپورا نہیں اترتی ہیں۔1973ء کو ہندوستان میں ”ایک مجلس کی تین طلاق ”پر سیمینارمنعقد ہوا۔ جس کی صدارت دیوبندی مکتب کے مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی ۔ اس میں جماعت اسلامی، بریلوی مکتب، اہلحدیث اور دیوبندی مکتب کے اکابر علماء و مفتیان نے شرکت کرکے اپنے اپنے مقالے پڑھے تھے اور یہ پاکستان سے بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ جس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کا کتا بچہ” دعوت فکر ” بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان میں حلالے کی لعنت سے جان چھڑانے کی زبردست کوشش کی گئی ہے اور اس کو ایک جرأتمندانہ اقدام قرار دیا گیاہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کے تراجم اور تفاسیر میں جو بہت فاش غلطیاں کی گئیں ہیں تو ان کا ازالہ کئے بغیر امت مسلمہ کی درست رہنمائی ممکن نہیں ہے۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ” آسان ترجمۂ قرآن ” میں عربی کے الفاظ میں بھی کھلم کھلا تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ اذابلغن اجلھن کے الفاظ قرآن میں متعدد بار آئے ہیں۔ سورہ ٔ بقرہ کی آیات231،232،234میںاور سورۂ طلاق آیت2میں ایک ہی لفظ کا مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے مطلب کیلئے پہلی مرتبہ متضادترجمہ کیا ہے۔ تکاد السمٰوٰت ُ من فوقھن والملئکة یسبحون بحمد ربہم ویستغفرون لمن فی الارض (الشوریٰ آیت:5) کی تفسیر میں احمق نے لکھ دیا ہے کہ ” فرشتے اتنی تعداد میں آسمان میں عبادت کرتے ہیں کہ قریب ہے کہ آسمان ان کے وزن سے پھٹ جائے اور نیچے گر جائے”۔
جب سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر عوامی دباؤ پڑا تھا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ” تکملہ فتح الملہم ” اور”فقہی مقالات جلد4” سے اس کو روزنامہ اسلام اخبار اور ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں نکالنے کا اعلان کردیا تھا۔ گھوڑے کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے اور گدھوں کو مارپیٹ اور تشدد سے راستے پر لایا جاتا ہے۔ قرآن میں توراة کی تحریف کے مرتکب یہود کے علماء کی مثال بھی گدھے سے دی گئی ہے۔اردو میں کہا جاتا ہے کہ فلاں کی ماں بہن ایک کردی ہے۔ یعنی اس گالی کو کسی کی حالت بری کردینے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور پشتو زبان میں کسی کی حالت بری کرنے کیلئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ اسکی بیوی……… دی ہے۔ حلالہ کے نام پر علماء ومفتیان نے امت مسلمہ کیلئے وہی عمل کردیا ہے جو پشتو کی گالی ہے۔ اسلام کے نام پر کسی کو بیوی کی لعنت کا شکار کرنے سے بڑی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ مگر امت پھر بھی غیرت نہیں کھاتی ہے۔

قرآن کریم کے بہت واضح حقائق
سورۂ طلاق کی پہلی دو آیات کے ترجمے وتفسیر میں بھی علماء ومفتیان اور نام نہاد اسلامی دانشوروں کے تضادات ہی تضادات ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کا مسلک، عقیدہ اور نظریہ قرآن کے الفاظ پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اپنے لئے قرآن کے الفاظ کا مفہوم بدلنا کتنی بڑی گمراہی ہے؟۔ علامہ اقبال نے کہا: خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
سورۂ بقرہ کی آیات222سے232تک دو رکوع کے مضامین اور232تک جتنی وضاحتوں کیساتھ اللہ تعالیٰ نے طلاق کے مسائل بیان فرمائے ہیں اور طلاق سے رجوع کیلئے جس طرح کی بھرپور وضاحتیں کردی ہیں،اگر قرآن کے مسائل کو قرآن ہی کے ذریعے سمجھنے کو اولیت دی جائے، جس طرح فقہ حنفی میں درسِ نظامی کی تعلیمات کادرست خلاصہ بھی ہے توپوری دنیا میں ہدایت کا ایک ایسا انقلاب آسکتا ہے جس کی خوشخبری رسول اللہۖ نے فرمائی ہے کہ اس سے آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں خوش ہونگے۔ یہ دنیا کی پہلی خلافت اور نبیۖ کا وہ خواب ہوگا جو کھلی آنکھوں سے نبی کریم ۖ کو اللہ نے معراج میں دکھایا تھا۔ جس مشاہدے میں نبیۖ نے تمام انبیاء کرام کی بیت المقدس میں امامت کی تھی۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں واقعہ معراج کا ذکر ہے ۔ اللہ نے قرآن وسنت کے ذریعے اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ دلانا ہے۔ جس کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت60میں دوچیزوں کو امت کی آزمائش قرار دیا گیا ہے ،ایک نبیۖ کے خواب کو جو دن کے غالب کرنے کا وژن تھا اور دوسرا قرآن میں شجرۂ ملعونہ کو آزمائش کا سبب قرار دیا گیاہے ۔
سورۂ بقرہ کی230میں جس طلاق کے بعد حلالہ کئے بغیر پہلے شوہر سے رجوع نہ کرسکنے کی کھلی وضاحت ہے تو یہ امت کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کا بھی سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر اس سے پہلے کی آیات228،229اور بعد کی آیات231اور232کو نظر انداز کرکے حلالہ کی لعنت کا حکم دیا جائے توپھر یہ امت مسلمہ کیلئے بہت بڑی خرابی، قرآن کو چھوڑنے کے علاوہ بہت بڑی بے غیرتی کا باعث ہے۔ اُمت مسلمہ کے زوال کی ابتداء وہاں سے شروع ہوئی تھی جب سورۂ نور کی آیات میں لعان کے حکم پر اسلئے عمل نہیں کیا گیا کہ مشرقی غیرت کے تقاضوں کے خلاف تھا اور اس کے زوال کی انتہاء اس وقت شروع ہوئی کہ جب قرآن میں شجرہ ملعونہ کے ذکر حلالہ کی لعنت کو سیاق وسباق کے بغیر لوگوں پر مسلط کیا گیا اور بے غیرت لوگوں نے قرآن وسنت کی طرف توجہ کرنے کی جگہ اپنی بیگمات کی عزتیں بھی پہلے چھپ کر اور اب کھل کرلٹواناشروع کردیں۔
سورہ بقرہ کی ان آیات میں اول سے آخر تک باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کرنے کی زبردست گنجائش بلکہ واضح حکم ہے اور حلال نہ ہونے سے پہلے وہ صورت ہے جس میں نہ صرف میاں بیوی بلکہ جدائی کا فیصلہ کرنے والے سب لوگ اس پر اتفاق کریں کہ آئندہ رابطے کی بھی ان دونوں میں کوئی صورت باقی نہ رہے، جس میں صلح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔

_ بے غیرتی کی انتہاء کا یہ آغاز_
آج سے تقریباً21،22سال پہلے جب میں جامعہ العلوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس میں پڑھتا تھا تو طلاق اور حلالے کے فتوے نام کے بغیر دئیے جاتے تھے۔ ایڈریس کیساتھ حلالے کا فتویٰ بہت قریب کے دور میں شروع ہوا ہے۔ کس کی بیوی کا حلالہ ہوا؟۔ کس کی تحویل میں کس نے حلالہ کیا؟۔ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں پڑتی تھی۔ شرافت رکھنے والے علماء اور عوام اس کا تذکرہ بھی بہت معیوب سمجھتے تھے۔ پھر کھلم کھلایہ بے غیرتی شروع ہوئی اور حلالہ سینٹروں کی دنیا بھر میں بھرمار ہوئی اور مدارس کے علماء ومفتیان نے ایڈریس اور شناختی کارڈ کیساتھ فتوے دینے شروع کردئیے۔
1947سے1988تک پاکستانIMFکے قرضے سے آزاد تھا اور پھر2004سے2008تک پھرIMFکے سودی قرضوں کا غلام بن گیا۔ ”موت کا منظر ”نامی کتاب بہت عام ہے اور سن1970ء کی دہائی میں مجھے اس کے پڑھنے کا موقع ملا تھا، اس میں زنا بالجبر کی سزا کا ذکر ہے کہ نبیۖ نے ایک عورت کی گواہی قبول کرکے اس شخص کو سنگسار کرنے کا حکم دیا جس نے اس کا ارتکاب کیا تھا۔ قرآن کی سورۂ احزاب میں بھی عورتوں کی بے حرمتی کرنے پر ملعونوں کو جہاں پایا جائے ،ان کو پکڑ کر قتل کرنے کی سزا کا حکم پہلی امتوں کے حوالے سے بھی اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے۔ جب کوئی اپنے مال پر ڈاکہ ڈالنے والے ڈکیت کو قتل کرتا ہے تو داد پاتا ہے اور حدیث میں آیا ہے کہ اگر گھر میں داخلے پر چور کو قتل کیا جائے تو اس کا گھر والے کو حق ہے۔ پھر کون اتنا بے غیرت ہوگا کہ کسی عورت کی عزت زبردستی سے لوٹی جائے اور وہ عدالتوں سے سزا دلوانے کیلئے4گواہوں کو پیش کرے؟۔ ایسے لوگوں کو قتل کرنا ہر قوم ومذہب اور ہردور کا تقاضہ تھا۔ جس قانونِ فطرت کی قرآن نے بھی وضاحت کردی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جسٹس مفتی تقی عثمانی نے حدود آرڈنینس کے نام پر ”یہ قانون” بنایا تھا کہ ” اگر کسی عورت پر زنا بالجبرہو اور اس کے پاس4باشرع مرد صالح گواہ نہیں ہوں تو اس کو حدقذف کے تحت سزا دی جائے گی”۔ جب پرویزمشرف کے دور میں بہت سی خواتین اسلئے جیل میں بند تھیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف شکایت کی تھی تو اس قانون کو بدل دیا گیا۔ جس پر مفتی تقی عثمانی اور جماعت اسلامی نے پمفلٹ شائع کرکے شور شرابہ کرنیکی کوشش کی تھی مگر میں نے اس کا مدلل جواب لکھ کر خاموش کردیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے ۔2006ء میں یہ قانون تبدیل ہوگیا مگر اب پھر جناح کے مزار میں زیادتی کا شکار ہونے والی پنجاب کی بیٹی کے مجرموں کو اسی پہلے قانون کے تحت باعزت رہا کردیا گیا ہے، حالانکہ اس عورت نے مجرموں کو پہچان لیا تھا اور ان کاDNAسے بھی ثبوت ملا تھا۔ عالمی دباؤ کے تحت اگر قرآن وسنت کے مطابق پاکستان جبری زیادتی کرنے والوں کو قتل اور سرِ عام سنگسار کرنے کی کوئی جرأت نہیں کرسکتا تو کم ازکم حلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کی جان چھڑانے میں کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں ہے۔ اندر ونی صفحات پر تسلی بخش دلائل ملاحظہ کریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv