پوسٹ تلاش کریں

عورت کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔ صحیح بخاری کی حدیث کا عنوان

عورت کی حق تلفی کے معرکة الآراء مسائل کی بنیادیںاور ان کے حل کی طرف توجہ طلب امور کے مختصر تذکرے اور نشاندہی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

صحیح بخاری کی احادیث کا عنوان ہے کہ ” عورت کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کرایا جاسکتا ہے”۔ رسول اللہ ۖ سے ایک خاتون نے شکایت لگائی کہ اس کا نکاح اس کے ولی نے اس کی مرضی کے بغیر کردیا ہے تو رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” یہ نکاح نہیں ہوا ہے”۔ قرآن کے بعد فقہ کے اصول میں حدیث کا نمبر ہے۔ جب رسول اللہۖ کی بات سامنے آئے اور وہ قرآن کے خلاف ہو تو پھر اس کو رد کیا جائے اسلئے کہ قرآن پہلے نمبرپر ہے لیکن اس کے بعد کسی دوسرے کے قول حجت نہیں بلکہ قرآن وسنت اور شرعی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے استاذ اور وفاق المدارس العربیہ کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان نے صحیح بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری ” میں ایک عنوان ” ولایت اجبار” کے نام سے نقل کیا ہے۔ جس میں کسی امام کا یہ مسلک بھی نقل کیا ہے کہ ” عورت کنواری یا طلاق شدہ وبیوہ ، بہر حال ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا نکاح جبری طور پر اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کسی بھی اس شخص سے کردے ”۔دوسرا مسلک یہ ہے کہ ” بچی اور کنواری بالغ لڑکی کا زبردستی سے اس کی اجازت کے بغیر نکا ح کرانا ولی کیلئے جائز ہے لیکن طلاق شدہ بچی اور بالغ عورت کا زبردستی سے نکاح کرانا جائز نہیں ہے”۔ یہ شافعی مسلک ہے ۔ اور تیسرا حنفی مسلک یہ ہے کہ ” بچی کنواری ہو یا طلاق شدہ اس کا نکاح زبردستی کرانا ولی کیلئے جائز ہے مگربالغ کنواری اور بیوہ وطلاق شدہ کا زبردستی نکاح کرانا جائز نہیں ہے”۔ چوتھا مسلک یہ ہے کہ ” بچی ،بالغ ، کنواری ، بیوہ و طلاق شدہ کا ولی کیلئے زبردستی سے نکاح کرانا جائز نہیں اور بچی کا نکاح جائز نہیں ہے ”۔ علامہ شبرمہ کے اس مسلک پر جامعہ ازہر مصر کی رہنمائی سے مصر کی حکومت نے بھی1923ء میں قانون سازی کی تھی۔ یہی عدالتوں کیلئے معیار بن گیا ہے۔
مسالک کے نام پر بچیوں اور خواتین کے استحصال کی اجازت انتہائی غلیظ اور گھٹیا بات ہے اور مردوں کے معاشرے میں عورت پر اس سے بھی زیادہ جبر روا رکھا جاتا ہے لیکن اسلام کے نام پر چلنے والی حکومتوں نے اس کا کوئی نوٹس بھی نہیں لیا ہے۔ حضرت مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد اس کی خوبصورت بیگم سے اس کی عدت میں جب حضرت خالدبن ولید نے جبری نکاح کرلیا تو حضرت عمر نے خلیفۂ وقت حضرت ابوبکر صدیق سے عرض کیا کہ اس جرم میںخالد بن ولید پر سنگساری کا حکم جاری کردیتے ہیں۔ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ تنبیہ کافی ہے اسلئے کہ اس فتنے وارتداد کے دور میں ہمیں حضرت خالد کی ضرورت ہے۔
قرآن میںحضرت داؤد کے مشہور واقعہ کا ذکر ہے کہ جب کچھ لوگ اچانک محراب میں داخل ہوگئے تو وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم مسئلہ پوچھنے آئے ہیں، یہ میرا بھائی ہے اور اس کی99دنبیاں ہیں اور میری ایک دنبی ہے ،اس کی چاہت ہے کہ ایک دنبی بھی مجھ سے چھین لے۔ حضرت داؤد نے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو تیرے ساتھ یہ ظلم ہے اور پھر سمجھ گئے اور اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے اپنے غلط عزائم کی معافی مانگ لی ۔پس اللہ نے اسکو معاف کردیا”۔ قرآن کے اس واقعہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت داؤد کی99بیویاں تھیں اور ان کے مجاہد حضرت اوریا کی ایک بیوی تھی اور حضرت داؤد کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی اپنے مجاہد اوریا سے لے لے۔ پہلے ادوار میں عورت کی اپنی حیثیت ایک جانور کی ہوتی تھی۔ بڑے پیمانے پر لونڈیاں رکھنے کا رواج تھا اور طاقتور کمزوروں سے عورت چھین لیتے تھے۔اسلام نے عورت کو ایک انسان اور اپنی جان کے مالک اور اپنے اوپر اختیارات رکھنے کا تصور دنیا کو دے دیا تھا۔
قرآن وسنت کے خلاف مختلف مسالک گھڑ کر اختلافات کے انبار کھڑے نہ کئے جاتے تو آج دنیا میں قرآن وسنت کا نظام عملی طور پر رائج ہوتا۔ پاکستان کی حکومت نے مرد اور عورت کی شادی کیلئے18سال کا قانون اسلئے بنادیا ہے کہ مرد اور عورت کا معاشرے کی طرف سے شادی پر مجبور کرانے کی رسم وروایت کا خاتمہ ہوجائے لیکن جب کوئی بالغ لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کو معاشرے اور حکومت کے قوانین سے بغاوت کرنے کے نتائج دیکھنے پڑتے ہیں۔ مذہب کی جبری تبدیلی کا معاملہ بھی اصل میں اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔جنسی خواہشات اور شادی کیلئے جب دو افراد سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے سماج، رسم ورواج، مذہب اور کسی بھی رکاوٹ اور قانونی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ مغرب نے اس کے حل کیلئے جنسی آزادی کو بنیاد قرار دیا ہے اور شادی کیلئے مشترکہ جائیداد اور طلاق کے بعد جائیداد کی تقسیم کو قانون بنادیا ہے۔
عورت کے حق کیلئے نظریۂ ضرورت ہر دور میں حائل رہاہے۔ جب قرآن کی آیات لعان کے حوالے سے سورۂ نور میں نازل ہوئیں تو انصار ی سردارحضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں قرآن کے اس حکم لعان پر عمل نہیں بلکہ قتل کروں گا۔ نبیۖ نے انصار سے کہا کہ تمہارا صاحب یہ کیا کہتا ہے؟۔ انصار نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صل اللہ علیک وسلم ! یہ بہت غیرت والا ہے۔ ہمیشہ کنواری سے شادی کی اور جب طلاق دی تو کسی اور سے اس کو شادی نہیں کرنے دی۔ طلاق شدہ اور بیوہ سے کبھی شادی نہیں کی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے”۔ (صحیح بخاری)
انصارنے اپنی غیرت کیلئے حضرت سعد بن عبادہ کی غیرت کو ڈھال بنایااور ان کے دلوں میں یہی تھا کہ اگر بیوی کیساتھ کسی اجنبی کو فحاشی کی حالت میں دیکھ لیں گے تو ہم بھی غیرت کی وجہ سے قتل کردیں گے۔ نبیۖ نے یہی صورتحال دیکھ لی تو فرمایا تھا کہ ” اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ نبیۖ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ دین اسلام محض ایک مذہب نہیں رہے گا بلکہ معروضی حقیقت بن جائے گا۔ تمام ادیان پر غالب ہوگا اور آسمان وزمین والے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ اس کو حقیقت میں بدلنے کیلئے وہ اجنبیوں کی جماعت ہوگی جو قرآن کے احکام سے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکے گی۔قرآن کے الفاظ کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے اور اس کے معانی اپنے طور پر بہت واضح ہیں لیکن افسوس کہ علماء ،دانشور اور عوام اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں۔
مرد کی سب سے بڑی کمزوری عورت اور عورت کی سب سے بڑی مرد ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی تو تقدیر سے ویسے مل جاتے ہیں لیکن بیوی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ مرد چار وجوہات کی وجہ سے بیگم کا انتخاب کرتا ہے۔نمبر1:حسن وجمال، نمبر2:حسب ونسب، نمبر3:مالداراور صاحب حیثیت،نمبر4:کردار واخلاق، نبیۖ نے ان چاروں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”تیری ناک خاک آلود ہو ، آپ کردار کو سب سے زیادہ ترجیح دو”۔پہلے تین وجوہ کیلئے ترغیب کی ضرورت نہیں ہے، لوگوں میں حسن وجمال، حسب نسب اور مالدار ہونے کی ویسے بڑی رغبت ہوتی ہے مگر نبیۖ نے اصل چیز کی نشاندہی فرمادی۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اس حدیث کی تشریح میں لکھ دیا کہ ”پہلے تو یہ چاروں کی چاروں صفات اس عورت میں ہونے ہوں لیکن اگر سب نہ ہو ں تو پھر کردار ضرور ہونا چاہیے”۔ علماء کرام میں دنیا کی محبت اتنی گھرکر گئی تھی کہ نبیۖ کی اس حدیث کی درست تشریح کرنے کی توفیق بھی اللہ نے نہیں دی تھی۔
انسان کی فطرت میں حب الشہوات من النساء (عورتوں سے شہوت کی محبت) موجود ہے اور اس کی نشاندہی قرآن نے کردی ہے۔ نبیۖ کو آئندہ شادی نہ کرنے سے اللہ نے منع کرتے ہوئے فرمایا: ولواعجبک حسنھن ” اور اگرچہ ان کا حسن آپ کو اچھا لگے”۔پھر الا ماملکت یمینک ”مگر جو آپ سے ایگریمنٹ والی ہو” کی اجازت دیدی۔حضرت ام ہانی حضرت علی کی ہمشیرہ کوفتح مکہ کے بعدنبیۖ نے شادی کی پیشکش کی لیکن حضرت ام ہانی نے معذرت کرلی۔ جس پر نبیۖ نے ان کی تعریف کی تھی اور پھر اللہ نے فرمایا کہ ” ہم نے تمہارے لئے چچااور ماموں کی ان بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی تھی….. اور پھر آئندہ کسی سے بھی نکاح نہ کریں ، چاہے ان کا حسن کتنا اچھا کیوں نہ لگے مگر جس سے آپ کا معاہدہ ہو”۔
علامہ بدر الدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج کا ذکر کیا ہے جن میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا ہے۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ میں ان سے ایگریمنٹ ہی ہوسکتا تھا لیکن باقاعدہ نکاح کی ممانعت تھی اسلئے کہ ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی اور فتح مکہ سے پہلے وہ اپنے مشرک شوہر کیساتھ ہی رہی تھیں۔ مشرکوں سے نکاح منع ہونے کے باوجود کسی نے بھی انکے ازدواجی تعلقات کو حرام کاری قرار نہیں دیا تھا۔ البتہ مولیٰ علی نے اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تھا جس پر آپ نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ کی درخواست کی تھی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” صرف شوہر ہی نہیں جس کو چاہو پناہ دے سکتی ہو”۔قرآن اور نبی ۖ کی سنت فطرت کے اتنے محافظ ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے بعد جو مرد شرک چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا تو اس کو واپس کردیا جاتا لیکن جب خاتون شرک اور اپنے شوہر کو چھوڑ کر مدینہ پہنچ جاتی تو نبیۖ اس کو واپس نہ کرتے۔ اللہ نے سورۂ ممتحنہ میں فرمایا کہ ”ان ہجرت کرنے والی عورتوں سے امتحان لو،اگر واقعی انہوں نے اسلام قبول کیا ہو تو پھر انکو واپس مت لوٹاؤ۔ اسلئے کہ وہ اپنے شوہروں کیلئے اب حلال نہیں ہیں اور نہ ان کے شوہر ان عورتوں کیلئے حلال ہیں۔ ان کوحق مہر دے کر ان سے نکاح کرلو”۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ عورت کیلئے وہ حلال نہیں ہیں کیونکہ مسلمان کو حلال وحرام کا لحاظ کرنا تھا لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ مشرک شوہروں کیلئے وہ حلال نہیں ہیں؟۔ یہ شرعی مسئلہ نہیں تھا بلکہ سماجی مسئلہ تھا۔ اگر ان خواتین کو واپس بھیج دیا جاتا تو پھر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔اسلئے دونوں طرف حلال نہ ہونے کی نسبت کی گئی اور جب ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی تو ان پر اس بات کا اطلاق بھی نہیں ہوتا تھاکہ وہ اور اس کے شوہر ایک دوسرے کیلئے حلال نہیں۔
قرآن نے سماجی غیرت کا اتنا لحاظ رکھا کہ جب مشرکوں کی مسلمان عورتیں اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس آرہی تھیں تومسلمانوں کو بھی اللہ نے یہ حکم دیا کہ ” کافر عورتوں کو اپنے پاس چمٹائے مت رکھو، ان کو رخصت کردو”۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی واضح کردیا کہ مشرکوں کے دورِ جاہلیت کے خاص رواج کے مطابق ان کی جو عورتیں بھاگ کر تمہارے پاس آئی ہیں تو ان کے وہ خرچے جو ان کے شوہروں نے ان پر کئے ہیں وہ ان کو واپس لوٹادیں اور تم بھی ان سے وہ خرچہ لے لو جو تم نے ان کافر عورتوں پر کیا ہے اور اگر یہ تمہیں چھوڑ کر خرچہ واپس نہ کریں تو اللہ سے ڈرو اور ان کو معاف کردو”۔
ترجمہ وتفسیر والوں نے کھلے الفاظ کے باوجود یہ مغالطہ کھایا ہے کہ اگر کافر اپنی عورتوں کو وہ خرچہ نہ لوٹائیں تو تمہیں بھی بدلے میںکافر عورتوں کے حق مہرنہیں لوٹانا ہے۔ حالانکہ کافر کیساتھ انکے رواج کے مطابق معاملہ کرنیکا حکم دیا تھا اور اگر ان کی طرف سے اسکی پاسداری نہ ہو تو پھر اللہ نے انتقامی کاروائی سے روکا تھا اور اگر قرآن کا درست ترجمہ اور درست تفسیر ہو تو طالبان،شیعہ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک والے شدت پسندی کی جگہ آج بھی اعتدال پر آسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء کو جس شجرہ کے قریب جانے سے روکا تھا تو وہ جنسی خواہشات کاشجرۂ نسب تھا۔ اللہ نے انسانوں سے فرمایا ہے کہ ” اے بنی آدم ! شیطان تمہیں ننگا نہ کردے ، جیسے تمہارے والدین کو ننگا کرواکر جنت سے نکال دیا تھا”۔ شجرۂ نسب ہی وہ چیز ہے جس کے قریب جانے سے بھوک و ننگ کا معاملہ ہوتا ہے۔ اکل کے معنی عربی میں کھانے کے بھی ہوتے ہیں اور کنگھی کرنے کے بھی۔ جس طرح جماع کیلئے قرآن میں لامستم النسائ، مباشرت اور مقاربت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اسی طرح آدم و حواء کے قصے میں بہت زبردست طریقے سے اخلاقیات کے اعلیٰ درجے کے ادب کی زبان میں بات کی گئی ہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل میں یا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کیلئے یہ الفاظ بہت موزوں ہیں کہ ” ہم نے اپنے اختیار سے ایسا نہیں کیا ہے”۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا بھی سچ ہے کہ ولم نجد لہ عزمًا ”اورہم نے اس کا عزم نہیں پایا”۔لیکن تاہم جس چیز سے اللہ نے منع کیا تھا وہ بہر حال ہوچکی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ عصی آدم ربہ فغوی ” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور پھر وہ بہک گیا”۔ اس فعل کی نسبت حضرت آدم وحواء دونوں کی طرف ہوتی ہے لیکن فاعل اور مفعول میں فرق ہوتا ہے۔ اصل ذمہ دار فاعل حضرت آدم ہی کو قرآن نے قرار دیا ہے لیکن افسوس کہ جرم کے ارتکاب کی ذمہ دار پھر حضرت حواء کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نے حضرت آدم کو ورغلایا تھا اور یہ بھی ایک معاشرتی حقیقت ہے کہ جب تک عورت راضی نہ ہو تو مرد کیلئے زبردستی کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ ایک رشتہ بیوی کا ہوتا ہے اور دوسرا ماں کا ہوتا ہے، اس کے علاوہ کئی بہنوں اور بیٹیوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے اور محرم وغیرمحرم رشتہ داروں کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔ جب تک انسان کے دل ودماغ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ سب خواتین کے مفادات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے اس وقت تک مسائل کا حل ممکن نہیں اور اگر قرآن وسنت کو دیکھ لیں اور پھر مقابلے میں مسلک سازی کے اختلافات کا جائزہ لیں تو مکڑی کے جالوں کی طرح سب صاف ہوجائیں گے۔
اللہ نے فرمایا: الذین یجتنبون کبائر الاثم والفواحش الا اللمم ”وہ لوگ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے مگراللمم کے”۔ انسان بہت کمزور ہے اور اس میں جنسی خواہشات موجود ہیں اور کہیں نہ کہیں اس سے غلطیوں کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کی مجموعی زندگی مؤمنانہ کردار کے اندر گزرتی ہو، بڑے گناہوں اور فحاشی سے بچتا ہو تو قرآن نے اللمم کی چھوٹ بھی دیدی ہے۔ اللمم سے کیا مراد ہے؟۔ یہ انسانوں کے ماحول میں ایک مجبوری کا نام ہے جس میں دل ودماغ اور انسان کو اپنے عزائم پر قابو نہیں رہتا ہے اور یہ معاشرے کے اجتماعی رویوں اور انسانوں کے انفرادی اعمال میں ایک راز ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی نہیں بلکہ اپنے ربّ کی تعریف اور پاکی بیان کرنے پر ہی دل سے مجبور ہوتا ہے۔ دوسروں کیلئے اچھے جذبات اور اپنی کمزوریوں کے احساس میں زندہ رہتا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” غیبت کرنا زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے” اور اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ”ایک دوسرے کی غیبت مت کرو کیاتم میں سے کوئی اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے”۔
اپنے لئے خدا سے اللمم کی ایک لمبی تاریخ اور زندگی کی تفسیر بیان کرنا لیکن اپنے مسلمان بھائی کے لمحات کی غلطیوں کو سرپر اٹھالینا کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔ بہترین قوانین اور ان پر عمل کرنے سے ہی ہمارا معاشرہ بہترین بن سکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حدیث قرطاس اور اسلامی اعتدال، بارہ اماموں کی حدیث کا تصور، خواتین کا حق اور اسلامی رنگ، مفتی تقی عثمانی اور سید منور حسن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوارکراچی ،سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر۔

اسلام اور جبر کے درمیان بڑافرق!
قرآن کہتا ہے کہ لااکراہ فی الدین ” دین میں کوئی جبر نہیں ہے”۔ مگر مسلمانوں کے دل ودماغ میںپے درپے خاندانی آمریت نے یہ تصور بٹھادیا کہ ” اسلام جبری نظام کا نام ہے”۔ جب رسول اللہ ۖ نے دنیا کی سپر طاقتوں کو اسلام قبول کرنے کے خطوط بھیجے تو اس میں تبلیغ کا عنصر ہی غالب تھا اسلئے کہ قیصرروم اور فارس کے بادشاہ کی ایسی پوزیشن نہیں تھی اور نہ مسلمانوں کی ایسی حیثیت تھی کہ ایسا حکم دیا جاتا کہ ہتھیار ڈال کر تسلیم ہوجاؤ ورنہ سر قلم کردیا جائیگا۔ البتہ رسول اللہ ۖ کو اعتماد تھا کہ ایک دن حق کے سامنے باطل سرنگوں ہوگا۔ اسلام نے جبری حکومت کے طرز پر خلافت راشدہ کا خواب مسلمانوں کو نہیں دکھایا۔ جب تک مذہبی طبقات کا دل ودماغ اعتدال پر نہیں آئے گا، مسلمانوں سے شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کا درست تصور دنیا اور اپنی عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ افغان طالبان مخمصے کا شکار ہیں کہ اگر ملاعمرکے اقدامات سے منہ پھیر لیتے ہیں تو اپنے داعش میں شامل ہوتے ہیں اور اگر ملاعمر کی اطاعت کرتے ہیں تو دنیا میں تنہائی کا شکار ہوں گے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کا وہی تصور پیش کیا جائے جو اللہ اور اسکے رسول ۖ نے ساڑھے چودہ سوسال پہلے پیش کیا تھا اور پھر اسلام مختلف ادوار میں اجنبیت کی نذر ہوتا چلا گیا ہے۔
میثاق مدینہ کا تعلق ریاستِ مدینہ کی داخلہ پالیسی کے نظام سے تھا اور صلح حدیبیہ کا تعلق ریاستِ مدینہ کی خارجہ پالیسی کے نظام سے تھا۔دونوں پالیسی کا نظام ایمان واسلام پر مبنی تھا اور ان کا کفر ونفاق کے نظام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
صلح حدیبیہ کا معاہدہ محاذ جنگ کے کنارے کھڑے ہوکر نہیں کیا گیا تھا بلکہ مشرکینِ مکہ مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ میں آنے کی اجازت سے روک رہے تھے اور مسلمانوں کی خواہش تھی کہ احرام عمرہ کے بغیر کھولنے کے بجائے عمرہ ادا کرکے واپس چلے جائیں۔ جب یہ جھوٹی افواہ پھیلادی گئی کہ مسلمانوں کے قاصدحضرت عثمان کو شہید کیا گیا ہے تو رسول اللہ ۖ نے جنگ کیلئے بیعت لے لی۔ لیکن پھر معلوم ہوگیا کہ حضرت عثمان زندہ سلامت ہیں اور اس وقت پھر یہ افسوسناک صورتحال پیش آئی جب باغیوں نے حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کردیا تھا۔ کہاں مسلمانوں کا یہود کیساتھ میثاقِ مدینہ کرنا اور مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنا اور کہاں حضرت عثمان کومسند پر شہید کرنا؟۔آج تک مسلمانوں نے پھر زیادہ اچھے دن نہیں دیکھے ہیں۔ اگر نبیۖ کیلئے اللہ کی مدد نہ ہوتی تو صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے خلاف بھی بغاوت ہوسکتی تھی۔
کتنی گھمبیر صورتحال ہوگی کہ اللہ نے نبیۖ کی ازواج مطہرات کو حکم دیاتھا کہ وقرن فی بیوتکن ”اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہیں”۔ نبیۖ نے امہات المؤمنین سے فرمایا ”میرے ساتھ جو حج کیا، وہ کافی ہے، میرے بعد حج نہ کرنا اور تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب حواّب کے کتے آپ پر بھونکیں گے”۔ اور یہ بھی فرمایا کہ” وہ قوم کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جس کی قیادت عورت کررہی ہو”۔ (صحیح بخاری) پھرحضرت علی کے خلاف لشکر کی قیادت حضرت عائشہ نے کی تھی۔ مگرحضرت عثمان کیلئے قرآن میں پہلے سے بیعت کا معاملہ بھی بہت سنگین تھااور حدیث قرطاس سے زیادہ پردۂ غیب میں نافرمانی کا تصور بھی زیادہ بڑا نہیں تھا۔

حدیث قرطاس اور اسلامی اعتدال
جب تک شیعہ سنی کے درمیان مکالمے کا دروازہ نہیں کھلے گا تو اسلامی تاریخ بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ غالی شیعوں کا یہ حال ہے کہ کہتے ہیں کہ ”اگرفاطمہ نہ ہوتی تو نہ محمدۖ ہوتے اور نہ علی ہوتے”۔اہل تشیع کی اکثریت کا حال یہی ہے کہ وہ شخصیت پرستی کا بدترین شکار ہیں اور اس سے امت مسلمہ اور خاص طور پر شیعوں کو زیادہ نقصان پہنچنے کا سخت اندیشہ ہے۔ امریکہ دنیا میں37فیصد اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اس میں24فیصد سعودی عرب اسلئے خرید رہاہے کہ یمن کے حوثی شیعہ سے ان کو خطرات لاحق ہیں۔ جونہی امریکہ افغانستان سے نکل گیا تو داعش نے شیعوں کی مساجد پر دھماکے شروع کردئیے۔ جب شیعہ شدت پسندوں کیلئے تحریر وتقریر کی آزادی ہے اور دلائل سے زیادہ شخصیت سوزی اور شخصیت سازی میں مسلسل لگے ہوئے ہیں تو اس کے نتیجے میں فرقہ واریت کو زبردست ہوا ملے گی۔ یہود شخصیت سوزی میں اس انتہاء کو پہنچ گئے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ پر تہمت باندھنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اور عیسائی شخصیت پرستی کا اس طرح سے شکار ہوئے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کو بھی اللہ کی خدائی میں شریک بنالیا۔ اہل تشیع ایک طرف اہل بیت کے حوالے سے بہت غلو کا شکار ہیں اور دوسری طرف سے صحابہ کرام کیخلاف گستاخانہ لہجہ استعمال کرتے ہیں اور یہ دونوں ہی اصل میں فساد کی وہ جڑیں ہیں جن پر بڑے بڑے درخت اُگ گئے ہیں۔
جب حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس کے سامنے نبیۖ نے فرمایا کہ ” ایک قلم اور کاغذ لیکر آؤ تاکہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ کردوں کہ میرے بعد آپ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ تو حضرت عمر نے عرض کیا کہ ہمارے پاس قرآن کافی ہے”۔
حضرت علی نے اس وجہ سے حضرت عمر کے خلاف کوئی تلوار نہیں اٹھائی کہ نبیۖ کی نافرمانی کی یہ انتہاء ہوگئی ہے۔ جب حضرت عائشہ نے حضرت علی کے خلاف جنگ کی تھی تو بھی حضرت علی نے آپ کے احترام میں کوئی فرق نہیں کیا اور جب اللہ نے ام المؤمنین قرار دیا تو اپنی ماں کی بے احترامی کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔اختلاف تو دو پیغمبروں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون میں بھی ہوا تھا۔داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑنے تک بھی بات پہنچ گئی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی ایک کی شخصیت سازی اور دوسرے کی شخصیت سوزی کی جائے۔ اہل تشیع کے جن لوگوں میں پشت درپشت اہل بیت کی شخصیت سازی اور صحابہ کرام کے خلاف شخصیت سوزی کا جذبہ ہے ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ، ان پر زبردستی سے اپنے عقائد ٹھونسنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام کا نزول ہوا تو ایک مقدس پیغمبر حضرت عیسیٰ کی پوجا کرنیوالی قوم عیسائیوں کے خلاف واجب القتل کے فتوے جاری نہیں کئے گئے اور نہ ہی اس وجہ سے یہود یوں کو قتل کرنے کے فتوے جاری کئے گئے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں کوئی گستاخانہ عقائد رکھتے ہیں۔اہل تشیع کو انکے بہیمانہ عقائد رکھنے کی وجہ سے واجب القتل سمجھنا اسلام کے بنیادی معاملات کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔
یہودونصاریٰ کی خواتین سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دی گئی تھی تو اس کا یہی مطلب تھا کہ شخصیت سوزی اور شخصیت سازی کرنے والوں کے خلاف اشتعال پھیلانے اور واجب القتل کے فتوے جاری کرنے کا ایجنڈا اسلام نہیں کسی اور کا ایجنڈہ ہے۔ امریکہ جس طرح داعش کو ختم بھی کرنا چاہتا ہے تو اس کو زندہ بھی رکھنا چاہتا ہے اور ایران اور اہل تشیع کیساتھ بھی ان کا یہی معاملہ ہے۔
اگر سیرت رسول ۖ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے خلاف دہشت گرد پیدا نہیں ہوں گے لیکن ان کو نظر انداز کیا جائے تو خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان اور حضرت علی کی شخصیات بھی شدت پسندوں کے ہاتھوں اذیت اور شہادت سے نہیں بچ سکیں۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔

کیامان لیا اپنی ماضی کی غلطیوں کو؟
جب وحی کا سلسلہ جاری تھا تو نبیۖ کی بھی بہت معاملات میں وحی کے ذریعے سے رہنمائی ہو جاتی تھی۔ سورۂ مجادلہ، سورۂ احزاب ، سورۂ عبس اور غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کے بعد کی آیات میں اس حوالے سے بہت روشن دلائل ہیں ۔ جب وحی کا سلسلہ بند ہوا تو مشاور ت سے حضرت ابوبکر کی خلافت قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ایک حادثہ تھا اسلئے کہ انصار کی چاہت تھی کہ خلیفہ انصار میں سے ہوتا اور انہوں نے کھل کر کہا تھا کہ پہلے معاملہ نبیۖ کا تھا۔ جب نبی مہاجرین میں سے تھے تو ہم نے تمہارا ساتھ دیا۔ نبی کا انتخاب اللہ خود کرتا ہے لیکن خلیفہ ہم نے منتخب کرنا ہوتا ہے۔ مہاجرین سے زیادہ انصار خلافت کے حقدار ہیں۔ جب یہ بات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے نہیں مانی تو انہوں نے کہا کہ ایک امیر آپ میں سے ہو اور ایک امیر ہم سے ہو۔ لیکن یہ بات بھی مہاجرین نے نہیں مانی بلکہ یہ تجویز پیش کی کہ ہم امیر بنیں گے اور تم وزیر بن جاؤ۔ حضرت سعد بن عبادہ اس پر زندگی کے آخری لمحے تک ناراض رہے ۔ حضرت ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز تک بھی نہیں پڑھتے تھے۔ حجاز وعرب میں قریش کی اہمیت اپنی جگہ پر تھی۔ نبیۖ نے بھی فرمایا تھا کہ ”امام قریش میں سے ہوں گے ”۔ لیکن اہل بیت حضرت علی و ابن عباس وغیرہ میں خلافت کے مسئلے پر دوسرے قریش سے اختلاف تھا۔ پھر حضرت ابوبکر سے حضرت امام حسن نے کہا تھا کہ آپ میرے باپ کے منبر پر بیٹھے ہیں اور حضرت امام حسین نے حضرت عمر سے یہی بات کہی تھی اور پھر جب حضرت عثمان مسندِ خلافت پر شہید کئے گئے تو حضرت علی کو بھی مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو اپنا مرکز بنانا پڑا تھا۔ اما م حسن نے قربانی دیکر امیرمعاویہ کی سپورٹ کی تھی۔ پھر بنو امیہ اور بنوعباس نے باری باری خلافتوں پر قبضہ کیا اور آخر ترک عثمانیوں نے خلافت کو اپنے خاندانی قبضے سے نوازنے کا شرف حاصل کرلیا تھا۔ پھر ان کو محمود غزنوی نے بھی بلیک میل کیا کہ اگروہ جگہ میرے حوالے نہ کی توہاتھیوں کیساتھ حملہ کرنے تشریف لاؤں گا۔ اس وقت کے ترک عثمانی بادشاہ نے کہا تھا کہ کیا تم مجھے ہاتھی والوں کی طرح ڈراتے ہو ؟، جسکا ذکر سورۂ فیل میں اللہ نے کیا ہے۔
اہل بیت خاص طور پر امام حسن کی اولادپر عباسی خلیفہ قاہر نے بہت مظالم کی انتہاء کردی تھی۔ جب اما م حسین کی اولاد کو فاطمیوں کے نام سے حکومت مل گئی تو وہ آج آغا خان خانی اور بوہریوں کی شکل میں موجود ہیں۔ امامیہ فرقے نے پہلی مرتبہ ایران میں حکومت قائم کرلی ہے، حالانکہ ان کے اہل بیت کا قول یہ تھا کہ ہماری اولاد میں سے جس نے خروج کیا وہ ایسے پرندے کا بچہ ہوگا جو اغیار کا پالتو ایجنٹ ہوگا۔ امام خمینی نے فرانس سے ایرانی حکومت پر قبضہ کرلیا۔
اہل تشیع کی کتابوں میں ہے کہ نبوت اور ولایت کا نور حضرت آدم سے شیبہ حضرت عبدالمطلب تک ایک تھے۔ پھر حضرت عبداللہ کے توسط سے حضرت محمد ۖ اور حضرت ابوطالب کے توسط سے حضرت علی تک دونوں نور الگ الگ ہستیوں کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نوروالایت پہلے حضرت امام حسن میں منتقل ہوا تو پھر ان کی اولاد میں منتقل ہونا چاہیے اور پھر یہ نور حضرت امام حسین اور ان کی اولاد میں کیسے منتقل ہوا؟۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نورامامت حضرت امام حسن اور نورولایت حضرت امام حسین میں منتقل ہوگیا تھا لیکن اہل تشیع فرقہ امامیہ نے اس کواپنے طور پر درست سمجھانہیں تھا؟۔

_ بارہ اماموں کی حدیث کا تصورکیا؟ _
اہل تشیع کے بارہ اماموں کا تصور بہت واضح ہے۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوینے بھی اپنی کتابوں میں ان کے حوالے سے بہت وضاحت کی ہے اور صوفیاء وعلماء کی کتابوں میں انکے تذکرے ہیں ۔ لیکن جس طرح کی احادیث اہل تشیع پیش کرتے ہیں ان پر ائمہ اہل بیت کا یہ سلسلہ پورا نہیں اترتا ہے۔ اسلئے کہ کشتی نوح اور قرآن واہل بیت کے حوالے سے مہدی ٔ غائب کے پھر غائب ہونے کی گنجائش نہیں بچ سکتی ہے۔ جب ہمارا امام غائب ہو تو امام زمانہ کو نہ پہچاننے کی ذمہ داری امت پر کیسے پڑے گی؟۔
جب امت کو ہلاکت سے بچانے میں قرآن کیساتھ دوسری چیز اہل بیت ہو تو اہل بیت کی غیبت میں ذمہ داری امت پر کیسے پڑسکتی ہے؟۔اگر اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی ہو تو پھر کشتی کے غائب ہونے کے بعد امت کی ہلاکت کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟ ۔ اہل بیت کو یا پھرامت مسلمہ کو؟۔ شیعہ بہت منطقی لوگ ہیں اور جب نااہل قسم کے ذاکرین اور علماء اپنے تضادات کو اجاگر کررہے ہیں تو اس اختلاف کو ختم کرنے کیلئے اللہ کرے کہ مہدیٔ غائب تشریف لائیں۔
جب اہل تشیع اہل سنت کی کتابوں میں بارہ ائمہ اہل بیت کا جواب دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں تو وہ اہل سنت پر برس پڑتے ہیں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے پہلے مرشدپیر سید مہر علی شاہ گیلانی گولڑہ شریف نے اپنی ایک کتاب ” تصفیہ مابین شیعہ وسنی ” میں لکھ دیا ہے کہ حدیث میں جن بارہ اماموں کا ذکر ہے ،وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا اور اس کا ذکر علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ” الحاوی للفتاویٰ” میں کیا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کو اپنی حدیث کا جواب بھی اسی سے مل سکتا ہے۔ اہل تشیع نے لکھ دیا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے کہ جس کے اول میں مَیں ہوں، اس کے درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ۔ اور ہوسکتا ہے کہ درمیانے زمانے کے مہدی سے مراد عباسی خلیفہ مہدی ہو۔ اسلئے کہ عباسی خاندان کے خلفاء سے ان کے ائمہ اہل بیت کے مراسم بھی اچھے تھے۔پھر یہ بھی لکھا ہے کہ ہماری کتابوں میں یہ حدیث ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ مہدی اور بھی آئیں گے جن کو اقتدار بھی ملے گا۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخری امیر کا آخری ہونا پھر کیسے ثابت ہوگا؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ عباسی مہدی کی جگہ درمیانہ زمانے میں ایک مہدی کو مانا جائے اور اس کے بعد گیارہ مہدیوں کو خلافت ملے گی تو آخری امیر بھی اپنی جگہ پر آئیں گے اور روایات پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ علامہ طالب جوہری نے لکھا ہے کہ مشرق سے ایک دجال آئے گا اور اس کے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص آئے گا ۔ یہ دجال کوئی اور دجال ہوگا اور حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد ہوسکتے ہیں۔
شیعہ اکثریت گیلانی سادات اور امام حسن کی اولاد پر اعتراض کرتی تھی مگر اب انہوں نے امام حسن کی اولاد سے اپنے شجرے بھی نکال لئے ہیں۔ ہماری کوشش صرف اتنی ہے کہ قتل وغارتگری کا بازار گرم ہونے کی جگہ ایک اچھا ماحول بن جائے۔ باقی جب صحابہ کرام اور اہل بیت کی موجودگی میں بھی بڑے بڑے فسادات ہوئے تھے تو موجودہ دور کے فسادیوں کو کون اور کس طرح سے روک سکتا ہے؟۔ اہل سنت کی مشہور کتاب مظاہر حق شرح مشکوٰة شریف میں روایت ہے کہ پہلے چھ افراد امام حسن کی اولاد سے ہوں گے اور پھر پانچ افراد امام حسین کی اولاد سے ہوں گے اور آخری فرد پھر امام حسن کی اولاد سے ہوگا؟۔ اہل تشیع کی کتابوں میں بھی یہ نقشہ واضح ہوگا اسلئے کہ علامہ طالب جوہری نے لکھا ہے کہ امام حسن کی اولاد سید گیلانی کے حوالے سے بہت تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ اور یہ کتاب1987ء میں شائع ہوئی تھی جب ہماری تحریک نہیں تھی۔

عورت کا حق اور اسلامی رنگ
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
انسان، حیوان اورپرندہ اپنی اپنی جبلت رکھتے ہیں۔ جوڑے میں نرطاقتور اور مادہ کمزور ہوتی ہے۔ سائز میں بھی طاقتور نر اور صنف نازک کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ نر جنسی خواہشات کے مسئلہ میں جبر کا خوگر اور مادہ بہت محتاط ہوتی ہے۔ نر کو جنسی خواہش پوری کرنے کے بعد سنگین نتائج کا سامنا نہیں ہوتا ہے مگر مادہ کو بچے جننے سے لیکر دودھ پلانے تک بہت ساری ذمہ داریوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔
اسلام نے مرد پر نکاح کیلئے حق مہر کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ عورت اور بچوں کا سارا خرچہ، گھر بار مہیا کرنے، تعلیم وتربیت اور علاج معالجے تک سب کچھ مرد کے ذمے لگایا ہے۔ وہ خواتین بالکل غلطی پر ہیں جو دنیا بھر میں مردوں سے برابر کے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ اگر قانونی بندھن ختم ہوگیا توپھر مادہ جانوروں کی طرح وہ اکیلے بچے پالنے کی ذمہ داری اٹھانے پر مجبور ہوں گی اور کوئی عورت اپنے مضبوط بیک گراؤنڈ کے تحت یہ صلاحیت رکھتی ہو اور اس کو معاونت کی کوئی ضرورت نہ ہو تو پھر قرآن وسنت میں اس کا بھی راستہ موجود ہے۔ عبدالمطلب کا اصل نام شیبہ تھا۔حضرت ہاشم کے انتقال کے بعد اُن کی والدہ نے اُنکے بھائی مطلب کے پاس بھیج دیا تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ مطلب کا غلام ہے ،اس وجہ سے ان کا نام عبدالمطلب پڑ گیا۔ام المؤمنین حضرت خدیجة الکبریٰ تجارت کرتی تھیں، رسول اللہۖ سے شادی ہوئی تو اس مالدار خاتون کے احسانات نے اسلامی تحریک کوبہت فائدہ پہنچایا ۔نبیۖ نے فرمایا : سیدالقوم خادمھم ”قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے”۔مرد عورت کا چوکیدار ہوتا ہے جیسے فوج کے سپہ سالار کو اپنی قوم کی چوکیداری پر فخر ہوتا ہے،اسی طرح مردوں کو اپنی خواتین کی چوکیداری پر بہت فخر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسلامی آئین سے ڈرانے کیلئے ابلیس اعظم کی آواز کو برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں تک اردو میں پہنچایا ہے۔
الحذر آئینِ پیغمبر سے سوبار الحذر حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں
قائداعظم کے مزارکراچی میںپنجاب سے آنے والی ایک نو بیاہی عورت کو بندوق کے زور سے یرغمال بناکر انتظامیہ کے ایک کمرے میں لے جایا گیا اور پھر اس کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون نے تینوں مجرموں کو پہچان لیا اور ان کاDNAسے بھی جرم مثبت آیا۔ کیس میڈیا کی زینت بھی بن گیا تھا لیکن اب مجرموں کو عدالت نے باعزت بری کردیا ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں2006ء میںحدود آرڈنینس کے تحت زنا بالجبر میں چار عینی گواہوں کا قانون ختم کرکے اس کو تعزیرات پاکستان کی سزا دینے کا قانون بنایا گیا تھالیکن عدالت نے پھر بھی مجرموں کو سزا سے بچانے کیلئے اسی ختم شدہ قانون کے تحت مجرموں کو بری کردیا ہے۔ تفصیلات ڈان نیوز کے پروگرام ”ذرا ہٹ کے” میں اس خاتون کی وکیل سے سوشل میڈیا پر دیکھ لیں جس کی ناموس کو عدالت نے تحفظ نہیں دیا۔
مفتی محمد تقی عثمانی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں جیسے لوگوں کا ضمیر بالکل ختم ہے۔ ایک ایسی مظلوم عورت کے خلاف فتویٰ مرتب کرنا اور مذہب کے نام پر قرآن وسنت کا تماشہ بنانا کہاں کی انسانیت ہے جس کو اپنے پرظلم کیخلاف آواز اُٹھانے پر بھی کوڑے مارے جائیں۔ یہ بہت زیادہ غیرت رکھنے والے اللہ اور اسکے غیرتمند رسول ۖ کا قانون نہیں ہے بلکہ ظالموں کے حامیوں کی فقہ ہے۔

_ مفتی تقی عثمانی اور سید منورحسن _
جب عورت کو جبری زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ انصاف کیلئے تھانہ کچہری جاتی ہے تو اس سے چار گواہوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو باشرع اور باکردار ہوں اور عین موقع کی گواہی دیدیں۔ اگر عورت کے پاس چار موقع کے گواہ نہ ہوں تو پھر اس پرمرد کی ہتکِ عزت کرنے کے تحت سزا کا قانون بھی ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین اس قانون کے تحت تھانوں اور جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند ہوتی تھیں کہ ان کے پاس کوئی گواہ نہیں ہوتا تھا ۔ پرویزمشرف کے دور میں حدود آرڈنینس کی جگہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت زنا بالجبر کے مجرموں کو سخت سزا دینے کا قانون اسمبلی میںلانے کی بات ہوئی تو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس کے خلاف ایک تحریر لکھی جس میں انتہائی بھونڈے دلائل تھے اور جماعت اسلامی نے اس کو شائع کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن سے صحافی نے پوچھا کہ اگر کسی عورت کیساتھ جبری جنسی زیادی ہوجائے تو پھر وہ کیا کرے؟۔ سیدمنور حسن نے کہا کہ ” وہ خاموش رہے اور برداشت کرے”۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ”سورۂ نور میں زنا کی سزا کا ذکر ہے اور اس میں یہ قید نہیں ہے کہ زنا رضامندی سے ہو یا جبرسے ہو”۔ حالانکہ یہ سراسر بکواس بات تھی اسلئے کہ سورۂ نور میں رضامندی ہی کی وضاحت ہے۔اللہ نے فرمایا کہ” زانیہ عورت اور زانیہ مرد میں سے ہر ایک کو سوسو کوڑے لگاؤ” ۔ جس طرح کوئی عورت جبری جنسی زیادتی کی شکار ہوجائے تو اس کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ رضامندی سے بدکاری کرے تو اس کو سزا دی جاسکتی ہے اسی طرح سورۂ نور میں یہ سزا بھی رضامندی سے بدکاری کرنے والوں کیلئے ہے۔
قرآن وسنت میں واضح ہے کہ زبردستی سے عورت کو ہراساں کرنے والوں کا حکم پہلے بھی قتل تھا اور اس امت میں بھی قتل ہے۔ جہاں یہ آیات نازل ہوئیں کہ جب نبیۖ کھانے کیلئے دعوت دیں تو وقت سے پہلے آکر مت بیٹھو اور نہ کھانا کھانے کے بعد باتیں کرنے بیٹھ جاؤ ، اس سے نبیۖ کو اذیت ہوتی ہے اور آپۖ یہ کہنے سے حیاء کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ حق کہنے سے نہیں شرماتا ہے اور نبیۖ کی ازواج سے نکاح مت کرو۔ اس سے نبی ۖ کو اذیت ہوتی ہے ۔ تو اس کیساتھ دوسرے رکوع میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ”مؤمنوں کی خواتین سے کہہ دیں کہ باہر نکلتے وقت ایسا لباس پہن کر نکلیں تاکہ وہ پہچانی جائیں اور پھر ان کو اذیت نہیں دی جائے۔ جو منافق لوگ اور جن کے دلوں میں مرض ہے شہر میں رہتے ہیں ،ان پر آپ کو مسلط کیا جائے گا تو وہ پڑوس میں رہیں گے مگر بہت کم عرصہ۔ یہ اللہ کی پہلوںمیںسنت رہی ہے کہ یہ لوگ جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور قتل کئے گئے”۔ ان آیات میں زنا بالجبروالوں کیلئے قتل کی سزا ہے۔
ایک خاتون سے ایک شخص نے زنا بالجبر کیا تو اس نے نبیۖ سے شکایت کردی۔ نبیۖ نے اس شخص کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کردیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے ہم مشربوں کی بات نقل کردی کہ نبیۖ نے شہادتوں کے بغیر غلط فیصلہ کیا تھا اورآپ ۖ نعوذباللہ شریعت سے واقف نہیں تھے ۔کسی دوسرے شخص نے کہا کہ میں نے یہ جرم کیا ہے تو نبیۖ نے اقرار کرنے والے کو سنگساری کی سزا کا حکم دیا تھا۔ اگر یہ دوسری روایت صحیح ہو تو بھی نبیۖ نے قرآن اور فطرت کے مطابق عورت کی شکایت اور اس کی سچائی کے یقین پر ہی فیصلہ فرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے فقہاء اور دانشوروں کو بتادیا تھا کہ جب عورت اپنے خلاف زیادتی کی شکایت کرے تو چار گواہوں کی جگہ اس کی سچائی پر یقین کے بعد فوری طور پر مرد کو سنگسار کیا جائے اور قرآن میں اس کے قتل کا حکم ہے۔ طالبان کسی کو زنابالجبر پر سنگسار کردیں اور ہماری عدالتیں ظالموں کو چھوڑ دیں تو پاکستان میں طالبان کی طرز کے اقتدار کو ہی پسند کیا جائے گا۔

اسلا می قانون ہی قابلِ قبول!
مغرب میں عورت کی حفاظت کیلئے بہت سخت قوانین بنائے گئے ہیں، کوئی عورت کسی مرد کی شکایت لگادے تو اس کی خیر نہیں ہے لیکن پھر بھی بڑے پیمانے پرجبری جنسی جرائم کا قلع قمع ممکن نہیں ہوسکا اسلئے8آزادی مارچ عورت کے حقوق کیلئے مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی چند سالوں سے یہ مہم شروع ہے۔
مغرب میں عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ ہمارے مردوں کو جنسی بے راہروی کامعاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہے جبکہ وہاں عورتوں کو بھی جنسی بے راہ روی کا معاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔اسلئے بہت سے لوگ پاکستان میں عورت آزادی مارچ کو مغرب اور جنسی بے راہ روی کا مقدمہ اور مشن سمجھتے ہیں اور بہت سی این جی اوز کو موردِالزام بھی ٹھہراتے ہیں۔
مغرب نے عورتوں کو جو حقوق دئیے ہیں تو اس کے مقابلے میں اسلام نے عورتوں کو بہت زیادہ حقوق دئیے ہیں لیکن افسوس کہ عورتوں کے حقوق کو ہمارے علماء وفقہاء اور معاشرے نے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ مغرب نے مرد کو یہ حق دیا ہے کہ وہ عورت کو پہلے خوب استعمال کرسکتا ہے اور پھر اگر اس کو اطمینان مل گیا تو اس سے شادی بھی کرسکتا ہے لیکن اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو عورت سے اس کا آدھا مال بھی لے سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو جمائما نے بنی گالہ کا مکان گفٹ کیا ہے یا یہ جھوٹ ہے؟، لیکن اگر عمران خان چاہتا تو جمائما کو طلاق کے بعد اس کی آدھی دولت بھی قانونی طور پر واپس لے سکتا تھا۔
اسلام کا قانون یہ ہے کہ نکاح اور ایگریمنٹ سے پہلے عورت کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں ہے۔ پھر اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدی تو مقرر کردہ مال کا نصف پھر عورت کو دینا ہوگا۔ اگر پورا یا زیادہ دے تو قرآن نے یہ زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن کی غلط تفاسیر سے عوام ہی نہیں علماء کرام کی ہستیاں بھی گمراہی کا شکارہیں اسلئے کسی امام ہدایت اور مہدی کا انتظار ہے۔
اگر اسلام کے مطابق جنسی بے راہ روی کی جگہ باقاعدہ نکاح یا ایگریمنٹ کا قانون نافذ کیا جاتا تو سیتاوائٹ کو امریکہ میں عمران خان کے خلاف اپنی بچی ٹیرن وائٹ کا کیس نہ لڑنا پڑتا۔ جہاں مغرب میں سنگل پیرنٹ بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہاں ہمارے ہاں بھی جھولوں میں ڈالے جانے والے بچوں کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی جارہی ہے جن کو سنگل پرنٹ کا سایہ اور شناخت بھی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں شناختی کارڈ وں کا بھی بہت بڑا مسئلہ رہتا ہے۔
ایک جوان سال لڑکی کا شوہر شہید ہوجاتا ہے جس کو نشانِ حیدر بھی مل جاتا ہے تو اس وقت یہ مراعات اس کو ملتی ہیں جب تک وہ لڑکی کسی اور سے نکاح نہیں کرلیتی ہے۔ جب وہ کسی اور سے نکاح کرلے تو ریاست کی طرف سے پینشن اور تمام مراعات بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ اسلام نے اس کو جنسی خواہش کی تسکین اور اپنے دوسرے جائز بچے پیدا کرنے کا راستہ بھی دیا ہے اور دوسرے نکاح کی جگہ اس کو ایگریمنٹ کی اجازت دی ہے جسکے بعد اس کا سابقہ اسٹیٹس بھی برقرار ہوگا اور معاشرے میں بے راہروی بھی نہیں پھیلے گی۔ اسلام کاعورت کے تحفظ کیلئے ایک ایک حکم قابلِ تحسین ہے مگر معاشرے نے اس کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔
اگر ہم نے اسلام کی طرف رجوع نہ کیا تو بے راہروی اور جبری جنسی زیادتی کے معاملات اتنے بڑھ سکتے ہیں کہ زمین وآسمان والے ہم پر لعنت بھیجیں گے۔

دنیا سے بہتر ہے ہمارا اسلام!
مغرب میں کم شرح سود پر قرضہ ملتا ہے اور ہمارے ہاں زیادہ شرح سود پر قرضہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا نام اسلامی رکھنے سے کیا یہ اسلامی بن جائے گا؟۔IMFنے جتنے سودی قرضے دئیے ہیں ان کو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو معاوضہ دیکر اسلامی غیر شرعی سود بنالو اور پھر ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن وغیرہ سے پوچھ لیں کہ کیا قوم کی تباہی میں تبدیلی کا امکان اس سے ہوسکتا ہے؟۔IMFکے ایجنٹ ضرور کہیں گے کہ اس کا بہت بڑا فائدہ ہے اور اسلام کی خدمت بھی چندے کے بغیر نہ کرنیوالی مذہبی جماعتیں بھی کہیں گی کہ ” اس کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہیں ہو لیکن قرآن میں اللہ اور اس کے رسول ۖ کیساتھ سود کو اعلان جنگ کہاہے، اس وعید سے ہم بچ جائیں گے”۔
اگر اسلام کے نام سے جائز ہونے والے سود پر ایک زمانہ گزر جائے گا تو پھر علماء حق کے جانشینوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ کبھی اس سود کی کسی نے مخالفت بھی کی تھی اور اسلام اجنبیت کے آخری کنارے تک پہنچ جائیگا۔ یہی حال عورت کے حقوق کیساتھ بھی روا رکھا گیا۔ آج قرآن وسنت کے اہم ترین قوانین کے حوالے سے ہمارے مدارس کے نصاب میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا ہے۔
پاکستان1988ء میں پیپلزپارٹی کے دور میں پہلی مرتبہIMFکی گود میں گیا،جب آصف علی زرداری کے گھوڑوں کو سرکاری خزانے سے مربہ کھلایا جاتا تھا۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی باری باری حکومتوں نے اپنی بیرون ملک بڑی جائیدادوں سرے محل اور ایون فیلڈ کیلئےIMFسے سودی قرضے لیکر پاکستان کے بچے بچے کو مقروض بنایا اور مہنگائی کا طوفان کھڑا کیا تھا ۔جالب نے کہاتھا
ملک ہزاروں کا ہے مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
پرویزمشرف نے2004ء سے2008ء تکIMFکے چنگل سے نکالا تھا۔ڈاکٹر قدیر خان نے ملک کیلئے سب سے مخلص غلام اسحاق خان کو قرار دیا تھا لیکن نوازشریف نے اپنے دور میں ڈاکٹر قدیر خان کی کردار کشی شروع کروائی تھی اور پریزمشرف نے بھی معافی منگوائی تھی۔ ایک طرف ایٹم بم پاکستان کا بہت بڑا سرمایہ ہے تو دوسری طرفIMFکے گردشی سودی قرضوں نے ملک وقوم کو تباہی کے کنارے پہچادیا ہے۔مہنگائی کے خلاف عوامی ردِعمل سے بچنے کیلئے کچھ لوگوں کو سڑکوں پر لایا جارہاہے اور کچھ نے پردہ ڈالنے کیلئے تماشا لگا رکھا ہے لیکن اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور اب عمران خان نے بتدریج زیادہ سے زیادہ گردشی قرضوں میں ملک وقوم کو پھنسادیا ہے اور ان کوئلہ کے دلالوں نے منہ کالا کرنے کیساتھ ساتھ بہت کچھ کما بھی لیا۔
اگر اپنے ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کردیا اور مزارعت کاسودی نظام ختم کرکے واقعی میں اسلامی بنادیا تو ہماری بچت ہوسکتی ہے لیکن معاشرتی نظام کے بغیر اسلام کی افادیت کو اچھے اور مخلص لوگوں تک پہنچانا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے مولانا محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین کے حوالے سے تحریری تائید بھی کی تھی۔ مزارعت کے ناجائز ہونے اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کیلئے ان کی علمی خدمات کو بہت سراہا تھا۔ آج سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی سیاست کھیلنے کی جگہ پھٹی ہوئی بوریوں پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال رسول اللہۖ کا درس دینے والوں کی طرف لوٹ جائیں اور علامہ جواد نقوی کو حق پہنچتا ہے کہ امیر معاویہ کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر اعتراضات کے نشتر چلائیں لیکن مسجدالعتیق کے منبر ومحراب سے بھی اسی شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہی کا تومظاہرہ کیا جا رہا ہے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب لمبی لمبی داستانیں اور فلسفیانہ ماحول کی جگہ اسلام کے سیدھے سادے نظام کو بہت ہی مختصر پیرائے میں پیش کریں تو پاکستان کی تقدیر بدلنے میں ان کا اثرو رسوخ بھی بہت کام آسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عدالت نے مزار قائد پر زیادتی کے جرم میں ملوث تین ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔

اب بتاؤ! قائداعظم کے مزار میں زنابالجبر کے جرم میں ملوث تین ملزمان کو عدالت نے باعزت بری کردیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

_ لبیک ،شیخ رشید اور عمران خان _
تحریک طالبان پاکستان نے جب پاک فوج کو شہید کرنا شروع کیا تو اس پر دہشت گردی کاٹھپہ لگ گیا اور تحریک لبیک نے پولیس اہلکاروں کو شہید کرنا شروع کیا ہے تو اس کو بھی دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ جب تحریک طالبان اور حکومت کے مذاکرات ہوتے تھے تو دیوبندی مکتب کے علماء کو استعمال کیا جاتا تھا اور جب تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہیں تو بریلوی مکتب کے علماء ومشائخ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں تحریک طالبان پاکستان نے جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی سے مایوس ہوکر میاں نوازشریف اور عمران خان کو اپنی طرف سے نمائندہ نامزد کیا تھا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے تحریک طالبان پر خراسان کے دجال والی حدیث فٹ کی تھی اور قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ اگر پاک فوج امریکہ کی مدد کرتی ہے تو اسکے ساتھ جہاد جائز نہیں ہے اور اگر افغان حکومت امریکہ کے بل بوتے پر کھڑی ہے تو اسکے ساتھ جہاد فرض ہے۔ جس پر حکیم اللہ محسود نے کہا تھا کہ” قاضی حسین احمد تمہارا اسلام دھوکہ ہے۔ تم قوم پرست ہو۔ تمہارے ایمان اور اسلام پر ہم کبھی بھروسہ نہیں کریں گے”۔جب دیوبندی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ ” قوم مذہب سے نہیں وطن سے بنتی ہے توپھر علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کی فکر کو ابولہب سے تشبیہ دی تھی۔
آج ریاست پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ ” سندھی ، بلوچ، پشتون، پنجابی، ہندوستانی مہاجر، گلگت وبلتی اورکشمیری ایک قوم پاکستانی ہیں۔ افغانی، ایرانی، عرب اور سوڈانی الگ الگ وطن ،ممالک اور قومیں ہیں”۔ علامہ اقبال نے جس بنیاد پر مولانا حسین احمد مدنی کو ابولہب قرار دیا تھا تو آج وہی نظریہ ہمارے ریاستی اداروں اور حکومت کا ہے۔ علامہ اقبال نے محراب گل افغان کے نام سے محسود اور وزیر کا بھی ذکر کیا ہے اور قوم پرست پشتونوں کا مؤقف یہ ہے کہ ہم افغان ہی ہیں۔ جس طرح ہندوستان اور پاکستان کے پنجابیوں کی قومیت نہیں بدلتی ہے، اسی طرح پختونوں کی افغان قومیت بھی نہیں بدلتی ہے۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جس طرح ہندوستان کے پنجابی پاکستانی نہیں ہیں اسی طرح پاکستانی پختون افغان ہیں لیکن افغانی نہیں ہیں ،البتہ افغانستان کے پختون، تاجک اور ازبک وہزارہ وغیرہ سب افغانی ہیں۔
جب عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ کا دروازہ ہیوی مشینوں سے توڑنے کی کوشش کی تھی اورPTVپر قبضہ کیا تھا تو اس وقت ریاست کی رٹ کا کوئی احساس نہیں تھالیکن آج تحریک لبیک کے احتجاج پر پاکستان کے اسلام کا قلعہ ہونے کا احساس ہوگیا ہے؟۔ سیاسی دہشت گردوں کو حکومت ملے اور مذہبی اور قوم پرست دہشت گردوں پر پابندیاں لگیں تو یہ لوگ بھی سیاسی لبادے میں ہی ریاست کی رٹ کا خاتمہ کرکے اپنی من مانی چلانے کی کوشش کرینگے۔
ریاست، سیاست ، صحافت اور اسلام کے نام پر لوگوں سے دھوکہ کرنا چھوڑ دیں تو ملک وقوم میں خوشحالی آئے گی۔ فرقہ واریت کا روگ، لسانیت کاخمار، مفادپرستی کا جھگڑا اور جاہلانہ جذباتیت کا میلہ سب لے ڈوبے گا اورپھر امن وسلامتی ، قانون کی بالادستی، ریاست کی رٹ اور اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا اور معیشت کی تباہی سے بھوک وافلاس کے مارے انسان سب کوبھسم کرینگے۔

_ اسلام کو مفاد کیلئے استعما ل کرنا _
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” جس نے کسی ایک جان کو بغیر جان کے یا فساد کے قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک زندہ کیا تو گویا اس نے تمام انسانیت کو زندہ کردیا”۔ مذہبی لوگوں کا مذہب کے نام پر قتل کی وارداتیں کرنا غنڈوں ، ڈکیتوں اور کرپٹ سیاستدانوں سے بھی بدتر ہیں۔
مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے غنڈوں نے مذہب کا صرف لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ تبلیغی جماعت کا اصل مرکز بستی نظام الدین بھارت میں تھا۔ رائیونڈ پاکستان اس کی سب سے بڑی شاخ تھی۔ جس کا حجم اپنے اصل مرکز کی نسبت بھی بڑا تھا۔ جس طرح رسول اللہ ۖ کے نواسے حضرت حسن پانچویں خلیفہ راشد تھے اور آپ کے مقابلے میں امیرشام حضرت معاویہ کی طاقت زیادہ تھی اور آخر کار حضرت امام حسن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے بڑے دو گروہوں میں صلح کروائی، اسی طرح بستی نظام الدین میں مرکزی امیر مولانا سعد ہیں جو مولانا الیاس بانی تبلیغی جماعت کے پڑپوتے ہیں لیکن ان کی حیثیت زیادہ مضبوط نہیں اور دوسری طرف رائیونڈ مرکز کی حیثیت زیادہ طاقتورہے۔
مولانا الیاس کے بیٹے حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی کی وفات سے 3 دن پہلے آخری تقریر ” امت پنا” کے نام سے شائع ہوئی تھی جس میں اُمت کو جوڑنے پر آمادہ کرنے کیلئے زبردست وعظ ہے اور اس میں حضرت سعد بن عبادہ کا بھی ذکر ہے کہ السابقون الاولون صحابہ کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود اسلئے جنات کے ہاتھوں قتل ہوئے کہ وہ امت میں توڑ پیدا کررہے تھے۔
رائیونڈ کے مدرسہ سے فارغ اور کڑمہ جنوبی وزیرستان مدرسہ کے مہتمم محسود ملک دینائی حضرت مولانا شاہ حسین حفظہ اللہ پر محسود تبلیغی کارکن نے فیصل آباد کی مسجد میں اس وقت قاتلانہ حملہ کیا تھا کہ جب مولانا شاہ حسین تبلیغ کی تشکیل میں وقت لگارہے تھے۔اس وقت اگر مولانا نور محمدوزیرشہید ایم این اے رکاوٹ نہ بنتے تو کلہاڑی کے دوسرے وار سے مولانا شاہ حسین کا سر قلم کردیتے۔ طالبان کا اس وقت تک کوئی وجود نہیں تھا۔ محسود مثالی امن والی قوم ہے اور تبلیغی جماعت مثالی پرامن مذہبی جماعت تھی ۔ آج مذہب کے نام پر محسود اور تبلیغی جماعت کی امن پسندی دنیا کے سامنے شرمندۂ تعبیر ہوگئی ہے۔
اگر قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کی حدود میں ایک عورت سے جبری زیادتی ہوجائے اور تین افراد کو عورت پہچان لے اور ان کےDNAسے بھی ان کاجرم ثابت ہوجائے اور پھر بھی اسلامی قانون کے نام پر مجرموں کو باعزت بری کردیا جائے تو ایسے اسلام، ایسی ریاست اور ایسی عدالت کا غریب اچار ڈالے گا؟۔ اسلام ایسا نہیں ہے بلکہ مذہبی طبقات نے اسلام کا نہ صرف حلیہ بگاڑ دیاہے بلکہ اپنے مفادات کیلئے اسلام کو ڈھال بنادیا ہے۔سب سے پہلے مذہبی لوگوں کے رُخ کو قرآن وسنت کے ذریعے درست اسلام کا تصور سمجھنے کی طرف موڑنا ہے۔کرپٹ سسٹم اور بداخلاق وبدکردار لیڈروں کے وارے نیارنے بننے سے کوئی نیک نامی نہیں کماسکتے اور نہ ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاسکتا ہے۔ معاشرے کی ہر چول سیدھاکرنے کی سخت ضرورت ہے اور ہر شخص اپنے ذمے کا کام بہترین طریقے سے کرے گا تو دن دگنی رات چگنی تبدیلی نظر آئے گی اور خوشحالی کے کھیت اور کھلیان سے پھر جلدیہ سرزمین شاد اور آباد ہوجائے گی۔

امیرمعاویہ پر امت کونہ لڑاؤ!
وکیل اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے قاتل، زنابالجبر کے مرتکب اور گھناؤنے کردار کے مؤکل کو بے قصور اور بے داغ کردار کا مالک ثابت کرنا چاہتا ہے تو اپنی مہارت سے ججوں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک دیتا ہے اسی طرح جب ایک فرقہ پرست اپنے فرقہ والوں سے اپنی اجرت کھری کرنے کے چکر میں فرقہ واریت کو ہواد یتا ہے توپھر شخصیت سازی اور شخصیت سوزی کرنے میں ایسی مہارت دکھاتا ہے جیسے یہود حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ پر تہمت اور عیسائی ان کو خدا کی خدائی میں شریک کردیتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کو عیسائی بھی مانتے ہیں ورنہ قرآن سے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر زبردست وار کرتے اور اس واردات سے فرقہ واریت کو خوب ہوا مل جاتی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قوم پرستی کی بنیاد پر غلطی سے قتل ہوگیا جس کی وجہ سے نبوت اور معجزات ملنے کے بعد بھی ڈرہے تھے اور اللہ نے فرمایا کہ ”اس سے پہلے کوئی رسول بھی نہیں ڈرے ہیں لیکن جس سے ظلم سرزد ہوا ہو”۔ اب اگر یہ کہنا شروع کردیں کہ حضرت موسیٰ ظالم،قوم پرست اور ڈرپوک تھے تو اس سے کتنا انتشار پھیلے گا؟۔اور حضرت موسیٰ نے ایک مرتبہ توراة کی تختیوں کو پھینک کر زمین پر ڈالا تو ان پر گستاخی کے فتوے لگائے جائیںتو کیا حال ہوگا؟۔
کچھ اہل تشیع نے اپنامشن ہی توہین آمیز معاملات کو اجاگر کرنا بنالیا ہے جس طرح کچھ ملحدین مذہب کی توہین کو اپنامشن سمجھتے ہیں۔ حضرت امیرمعاویہ سے حضرت سعد بن عبادہ افضل تھے اسلئے کہ اللہ نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے مسلمانوں میں فرق کا اعلان کیا ہے۔ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” کے اندر لکھا ہے کہ بندر اور خنزیر کی شکل میں جہنم کے اندر پھینکے جانے والے حکمران ۔ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں حضرت امیرمعاویہ نے فرمایا کہ حکومت کا مال میرا ذاتی ہے، جس طرح میں خرچ کروں یہ میری مرضی ہے۔ دوسرے جمعے کو پھر یہی اعلان کردیا اور کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسرے جمعے کو پھر یہ اعلان کردیا تو ایک شخص نے کہا کہ غلط بات ہے۔ یہ تیرا مال نہیں ہے اور نہ تیرا اس پر کوئی ذاتی حق ہے۔ یہ بیت المال کا ہے اور مسلمانوں کا اس پر حق ہے۔ جمعہ کے بعد جب حضرت امیرمعاویہ نے اس شخص کو بلایا تو گمان یہ تھا کہ جلاد سے اسکا سرقلم کردیا جائے گا۔ لیکن امیر معاویہ نے اپنے ساتھ اس کو چارپائی پر بٹھایا اور فرمایا کہ اس شخص کا اللہ بھلا کرے۔ میں نے نبیۖ سے یہ سنا تھا کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ حکمران مسنداقتدار پر ہرقسم کی الٹی سیدھی بات کرے گا اور اس کو ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ اس کو جہنم میں بندر اور خنزیر کی شکل میں پھینکا جائے گا۔ مجھے یہ گمان ہواکہ کہیں میرا حال بھی وہی تو نہیں۔ جب پہلے اور دوسرے جمعہ کو جواب نہیں آیاتو یقین ہوا کہ میرا بھی یہی حشر ہوگا۔ اس شخص نے مجھے بچالیا ہے”۔
نبیۖ نے امیرمعاویہ کیلئے ہادی اور مہدی بننے کی دعا فرمائی تو قبول نہیں ہوئی اسلئے کہ پھران کا دور خلافت راشدہ میں شمار ہوتا جیسا عمر بن عبدالعزیز کے دور کو بھی خلافتِ راشدہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے بھی امیرمعاویہ ہی کا ساتھ دیا لیکن منبر ومحراب سے حضرت علی کے خلاف سبّ وشتم کو سپورٹ نہیں کیا اسلئے کہ حضرت علی کے فضائل نے اس کی اجازت نہیں دی۔

_ حکمران بھی خود کو جلدبدل دیں!_
جب عمران خان نے عالمی کرکٹ میچ نہیں جیتا تھا اور اسلامی جمہوری اتحاد کے صدر غلام مصطفی جتوئی الیکشن ہار گئے تھے اور سینئر نائب صدر مولانا سمیع الحق شہید نے اپنی جگہ پنجاب سے اسلامی جمہوری اتحاد کے قائد نوازشریف کو مرکز میں اپنی جگہ وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب امیر مولانا حق نوازجھنگوی شہید کی جماعت انجمن سپاہ صحابہ نے جمعیت کو چھوڑ کر اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور مولانا ایثارالحق کی کامیابی جھنگ سے اسلئے ممکن ہوسکی کہ مسلم لیگ کی شیعہ رہنماعابدہ حسین نے اس سیٹ پرتعاون کیا تھا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں کوئی زیادہ تابناک کردار کی حامل نہیں ہیں۔ بس ایک دوسرے کے خلاف الٹی سیدھی باتیں اور اپنے خلاف کچھ بھی برداشت کرنا ان کا وطیرہ نہیں ہے۔ انسان کو اللہ نے کمزور پیدا کیاہے۔ اچھے کرداراور شرافت کا معیار رکھنے والے لوگ برے وقتوں میں ایکدوسرے کے کام آتے ہیں۔
یہ بات کیسے لوگوں کے دل ودماغ میں بٹھائی جاسکتی ہے کہ تحریک لبیک کی طرف سے حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا اور عوام کو تکلیف دینا اس وقت صحیح تھا جب عمران خان اور شیخ رشید خود بھی یہی کام کررہے تھے اور اب جب وہ حکومت میں آئے ہیں تو یہ اسلام، انسانیت اور ملک وقوم کے مفاد کے خلاف ہے؟۔ عمران خان کو پاکپتن کے مزار کی راہداری میں سر سجدہ نما اور چوتڑ دغابازی نما بننے کی جگہ عوام کے سامنے میڈیا پر مرغا بننا چاہیے کہ میں نے بھی غلط کیا تھا۔ مزارات کے دشمن طالبان سے یاری کا ازالہ کرنے کیلئے پاکپتن کے مزار پر مرغا بننے سے بہتر یہی تھا کہ پوری قوم سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لیتا۔
جب عمران خان نے جمائما سے شادی کی تو اسلامی پردہ یاد نہیں آیا۔ ریحام خان سے شادی کی تو پردہ یاد نہیں آیا لیکن جب بشریٰ بی بی سے شادی کی تو پردہ یاد آگیا۔ قرآن میں یہ واضح ہے کہ بیوہ کو عدت میں اشارے کنائے سے نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں لیکن طلاق شدہ کو عدت میں دوسرے سے نکاح کا پیغام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے منکوحہ کو شادی کا پیغام دیا اور عدت پوری ہونے سے پہلے نکاح کرلیا تو اس کے خلاف میڈیا نے مہم جوئی نہیں کی اسلئے کہ میڈیا والوں کو کسی نے اُکسانے کی کوشش نہیں کی۔اسلامی احکام، حکومت اور ریاست شکن توپوں کی قیادت سے پاکستان میں اقتدار ملتا ہو تو پھر شریف شہری اپنی جگہ رہیں گے اور بدمعاشوں کے اندر مقابلہ بازی ہوگی۔ قوم صرف یہ دیکھے گی کہ کس نے کس کو پچھاڑ دیا اور گراؤنڈ کے باہر تماشہ دیکھے گی۔ جب بھی الیکشن آتا ہے تو نعرہ لگتا ہے کہ اندھوں میں راجہ یہ قائد ہے۔ حالانکہ یہ دجالوں کی چال ہے۔ ملک وقوم کو جس جانب دھکیلا جارہاہے اس سے واپسی کا راستہ اسلام ہی کا نظام ہے لیکن افسوس کہ اسلام کا مذہبی طبقات نے خود ہی بیڑہ غرق کیا ہواہے۔موجودہ دور کے حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈر وں سے صحافیوں کا مافیا وہ سوالات نہیں کرتا ہے جس سے ان کے غباروں سے ہوا نکل جائے گی اور جب صحافت کا شعبہ بھی اپنے اصل کام کو چھوڑ کر کسی ایک طبقے کی وکالت کرنے اور دوسرے طبقے کی مخالفت کرنے لگ جائے تو اس بے اعتدالی سے عوام کے دل ودماغ کا توازن کبھی درست نہیں ہوسکتا ۔ہمارااخبارکہاں پہنچ سکتا ہے؟۔

مولوی کی منبر سے ایمل ولی پر تنقید
ایک نوجوان عالم دین نے منبر ومحراب سے ایمل ولی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ باچا خان نے کہا تھا کہ میری پہلی شادی میں ڈھول باجے تھے لیکن دوسری شادی کی تو اسلام کے مطابق سادگی سے کروں گا۔ اس میں ڈھول باجے نہیں ہوں گے۔ پختون اور میراثی دو الگ الگ ذاتیں ہیں اور ہمارے کلچر سے ملی ہمیں یہی باتیں ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تم پختون ہو یا ڈم (میراثی) ؟۔ اب باچا خان کا پڑپوتا کہتا ہے کہ میں پختونوں کو رباب سکھاؤں گا۔ اب ان میں اور میراثی میں کیا فرق رہ گیا ہے؟۔ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ میں کسی کا سپوٹر ہوں۔ میری اے این پی، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام سب سے ہمدردیاں ہیں اور کسی سے نفرت نہیں کرتا ہوں۔ امام ابوحنیفہ نے کہا تھا کہ ” موسیقی حرام ہے اور اس سے لذت اٹھانا کفر ہے”۔
ایک نوجوان جذباتی عالم دین کا جذبہ اپنی جگہ پر ہے اور کبھی ہم بھی اس گھاٹی سے گزرے ہیں۔ بہت ہی معذرت کیساتھ باچا خان کے بعد کسی بھی عالم دین ، مفتی، شیخ الحدیث، مفسر اور شیخ القرآن نے ڈھول باجے کی مخالفت کی ہے؟۔ جب شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری کی نواسی پہلی خاتون لیفٹینٹ جنرل نگار کو پنج پیر صوابی میں ڈھول کی تھاپ اور ڈانس کی چھاپ پرلے جایا جارہاتھا تو کبھی سوچا کہ تمہاراپختون کلچر اور ملائیت کا جنازہ نکل گیا ہے؟۔ کبھی علماء ومفتیان نے کوئی فتویٰ دیا ہے اور اس پر کوئی تنقید کرنے کا حق ادا کیا ہے؟۔
ہمارے ایک دوست نے کہا تھا کہ اوچ دیر کے مولانا غلام اللہ حقانی پختون ہیں ملا نہیں ہیں۔ جس پر میں نے پوچھا کہ کیا ملا پختون نہیں ہوتے؟ تو کہنے لگا کہ نہیں ، ملا کسب گر قوم ہے یہ پختون نہیں ہیں۔ پہلے ترکھان، لوہار، میراثی، نائی،موچی اور ملا وغیرہ کو فصل کی آمد پراپنا معاوضہ دیا جاتاتھا۔ ملا کا کام مردے نہلانا اور مسجد کو آباد کرنا ہوتا تھا۔جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء ہند، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور کانگریس کے مولانا ابوالکلام آزادکی سیاست کو پاکستان میں زندہ رکھا۔ مفتی ولی بھائی بھائی کے بھی نعرے لگے ہیںاور پیپلزپارٹی والوں نے دونوں بھائی سکھ عیسائی کے نعرے بھی لگوائے ہیں۔ مرکزی جمعیت علماء اسلام نے اس جمعیت علماء اسلام کو ذوالفقار علی بھٹو اور کیمونسٹوں پر کفر کا فتویٰ نہ لگانے کی وجہ سے کفر کے فتوے بھی لگائے۔
جمعیت علماء اسلام کے اعتدال کی وجہ سے مذہبی طبقہ اپناتوازن برقرار رکھتا ہے لیکن جب یہ طبقہ سیاست سے کٹ جاتا ہے تو پھر منبر ومحراب سے فتوے لگانا شروع کردیتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے کہ ”موسیقی حرام ہے اور اس سے لذت اٹھانا کفر ہے”۔یہ قول شاید اسلئے نقل کیا جاتا تھا کہ مولوی حضرات نکاح پڑھاتے وقت اپنی فیس کھری کرلیتے تھے اور کہتے ہوں گے کہ ”ہم مجبوری کے طور پر شادیوں میں موسیقی سن لیتے ہیں مگر اس سے لذت حاصل نہیں کرتے”۔
ہم نے1990ء میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تحریک کا آغاز کیا تھا جس میں نبیۖ کے آخری خطبے کے کچھ جملے تھے اور منکرات کے خلاف جملے تھے۔مسلمانو ! خبردار ظلم نہ کرنا ، …مسلمانو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری جان ایکدوسرے کیلئے حرمت والی ہیں۔ جاندار کی تصویر جائز نہیں ،جاندار کی تصویر کو مٹادو۔ پردہ کرنا فرض ہے، شریعت کے مطابق پردہ کرو۔داڑھی منڈانا جائز نہیں شریعت کے مطابق داڑھی رکھو۔ گانا بجانا حرام ہے ،گانا مت بجاؤ۔ نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج بیت اللہ کی علمی اور عملی ذمہ داری پوری کرو۔جہاد کرنا فرض ہے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اللہ اور اسکے رسول ۖ کے حکموں میںوہ طاقت ہے کہ جس کے ذریعے کمزور سے کمزور تر جماعت بھی فاتح عالم بن سکتی ہے۔

بدقسمتی سے ایمل باچا خان کا پڑپوتا!
سلیم صافی نے باچا خان کے پڑپوتے ایمل ولی خان سے انٹرویو لیاہے۔ پہلے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ! اسفندیار ولی تندرست ہوتے اور آج میں اس سے انٹرویو لیتا لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ ایمل ولی خان سے مجھے وقت مل گیا ہے۔ پھر ایمل ولی خان سے پوچھا کہ آج ایک پختون عمران خان کی حکومت ہے۔ کیا آپ عمران خان اور نیازی قوم کو پختون نہیں مانتے؟۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ میرے خیال میں وہ پختون نہیں ہیں۔ میرے خیال میں ہر پختون افغان ہوتا ہے اور وہ افغان نہیں ہیں۔ ( نیازی قبیلہ افغانستان میں بھی ہے اور نیازی خود کو نیازی پٹھان کہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی کہا تھا کہ میں یوسفزئی پٹھان ہوں، نسل کی بنیادآباء واجداد سے چلتی ہے لیکن کلچر بھی اہم ہوتا ہے۔ نبیۖ حضرت ابراہیم کی اولاد سے تھے اور ابراہیم عجم تھے مگر نبیۖ کی وجہ سے عرب بن گئے، البتہ نسل تبدیل نہیں ہوئی۔ عرب عاربہ اصل عرب تھے اور عرب مستعاربہ جو بعد میں عرب بن گئے تھے، خالد بن ولید بنی اسرائیل تھے اور نسلاً پختون قبائل سے وہ ایک تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے بعض لوگ ان کو پختون بھی قرار دیتے ہیں ، نسلی یکانگت کی وجہ سے پختون قبائل کو فتح مکہ کیلئے بلایا تھا اور پھر جب بعض عرب قبائل پر فتح مکہ کے دوران مظالم کئے تھے تو نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ اے اللہ ! گواہ رہنا میں خالد کے فعل سے بری ہوں)
ایمل ولی خان سے سلیم صافی نے پوچھا کہ پرویز خٹک کیا پختون نہیں؟ علی محمد خان، مراد سعید اور اسد قیصر پختون نہیں ہیں؟ ۔ تو ایمل ولی خان نے کہا کہ بدقسمتی سے وہ پختون ہیں۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ طالبان اور ملا عمر پختون نہیں ، صوفی محمد اور ملا فضل اللہ پختون نہیں۔ تو ایمل ولی خان یہی کہتا کہ ان لوگوں کو پختون نہیں کوئی اور ہی لایا ہے۔ جیسے تحریک انصاف کو کوئی اور لایا ہے۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب مفتی محمود کو خیبر پختونخواہ کا وزیراعلی بنوایاتھا تو اس وقت عطاء اللہ مینگل کو تم نے کیوں حکومت دلائی تھی؟۔ ایک طرف بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کا ہولڈ ہوتا جن میں پختونوں کی اکثریت تھی تودوسری طرف خیبر پختونخواہ میں مفتی محمود کی جگہ ولی خان اور تمہاری پارٹی کے پاس اقتدار ہوتا؟۔ پشاور کے شہریوں میں تمہاری پارٹی کے بڑے رہنمابھی پختون نہیں تھے جن کوپختوزبان ٹھیک سے نہیں آتی تھی۔ حاجی عدیل خان اور بلور خاندان کو کبھی اقتدار میں لاتے ۔ جب وزیراعلیٰ سرحد کیلئے امیر حیدر خان ہوتی اہل ہوسکتے تھے تو کیا بشیر بلور شہید اس کی اہلیت نہیں رکھتے تھے؟۔ بنگال کے مولاناعبدالحمید بھاشانی سے پنجابی حبیب جالب اور بلوچستان کے بابائے جمہوریت میربخش بزنجو تک کتنے بڑے بڑے لوگ تمہارے ساتھ تھے؟۔ جنرل ایوب خان پختون تھے مگر تم نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ان تضادات نے ہی آپ لوگوں کی جماعت کو ختم کرکے رکھ دیا کہ کبھی پختون بن جاتے ہیں تو نظریہ نہیں مانتے اور کبھی نظریاتی بن جاتے ہیں تو پختون کو نہیں مانتے۔مرکز میںPDMمیں شامل تھے اور بلوچستان میں باپ پارٹی کی حکومت میں شریک تھے۔ افغانستان کا دعویٰ صرف اٹک تک نہیں بلکہ میانوالی تک بھی ہے۔ متنازعہ ڈیورنڈ لائن ختم ہوجائے توپھر نیازیوں کو پٹھان ہی ماننے میں پختونوں کا زیادہ فائدہ ہے۔ بلوچ قوم پرست ڈیرہ غازی خان تک راجن پور اور جام پور سے اسلئے دستبردار نہیں ہوتے ہیں کہ ان بلوچوں نے آج سرائیکی زبان اور کلچر اپنالیا ہے۔ اے این پی کی قیادت متذبذب ہے اور تذبذب کی وجہ سے اسفندیار ولی اور اب ایمل ولی کی بات میرے خیال میں بدقسمتی تک محدود ہوگئی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کا باچا خان کی نسل سے ہونا بدقسمتی ہے۔

مذہبی دنگل سے قوم پرستی کے جنگل تک
پختونوں نے مذہبی بنیاد پر اپنی امن وسلامتی کو داؤ پر لگادیا اور بلوچوں نے قوم پرستی کی بنیاد پر اپنی بلوچ قوم کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا؟۔ تربت مکران سے لائی ہوئی لاشوں کو بلوچ خواتین نے کندھا دیا ہوا تھا اور مرد بھی شریک تھے لیکن کیا بلوچوں کے آباء واجداد نے یہ سوچا تھا کہ ایسا دن بھی دیکھنا پڑے گا؟۔ ڈیرہ اسماعیل خان قریشی موڑ پر ایک محسود خاتون کو پہلی مرتبہ اپنی بیمار بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کیلئے بس میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو بہت افسوس ہوا۔PTMکے منظور پشتین اور نئی جمہوری جماعت کے سربراہ محسن داوڑ پشتونوں پر صرف سیاسی دکان چمکا سکتے ہیں یا قوم کی عزت وننگ اور غیرت وحمیت کا پاس بھی رکھ سکتے ہیں؟۔ ایک طرف قوم پرستوں نے قوم پرستی کے نام سے اپنی قوم کو تباہ کردیا ہے تو دوسری طرف فرقہ پرستوں نے مذہب کے نام پر لوگوں کو جس تباہی کے کنارے پہنچادیا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ تیسری طرف حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کے گفتاراور کردار نے تنزلی کی انتہاء کردی ہے اور چوتھی طرف صحافیوں نے صحافت کی ناک کٹا دی ہے۔ پانچویں طرف ریاست کے ذمہ داروں نے خود غرضی کو اپنی انتہاء پر پہنچادیا ہے۔ چھٹی طرف اللہ اگر آسمان سے کوئی رحم وکرم کردے تو زمینی حقائق اور معروضی حالات بدلے جاسکتے ہیں۔ اللہ کا ایسا دروازہ ہے کہ اس کو بجایا نہیں جاسکتا ہے لیکن وہ سنتا ہے اور پکارنے والے کو جواب بھی دیتا ہے۔ جب ایک شخص نے قریشی موڑ ڈیرہ پر محسود لڑکوں کو بھٹے بیچتے دیکھا تو خوشی محسوس کی کہ ایک غیرتمند قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہے مگر جب محسود بھکاری خاتون کو بھیک مانگتے دیکھا تو دل ہی دل میں دکھ کا اظہار کیا کہ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے؟۔ اور پھر چندہزار روپے میں سے ایک ہزار کا نوٹ اس بھکارن خاتون کو تھمادیا۔ جس پر خاتون نے محسودی پشتو میں دعائیں دینا شروع کردیں لیکن سفر میں دعاؤں کی ضرورت اور خوشی کیساتھ ساتھ اس کے دل میں مزید دکھ بھی بڑھ گیا، اسلئے کہ محسودی پشتو میں ایک خاتون کی زبان سے نکلنے والی دعائیں ایک طرف عرش تک پہنچتی دکھائی دے رہی تھیں تو دوسری طرف ایک قومی غیرت کا مسئلہ تھا کہ ایک خاتون بھری بس میں اس طرح بول رہی ہیں۔ اگر شروع میں پوری محسودقوم طالبان کیساتھ کھڑی نہیں تھی تو کسی نے ان کو مجبور بھی نہیں کیا تھا لیکن جب ہواؤں کے رُخ پر پوری قوم نے طالبان کا ساتھ دیا تو پھر پاک فوج نے ان کو بار بار ہجرت پر بھی مجبور کیا ہے لیکن جنوبی وزیرستان وزیر ایریا میں پاک فوج نے کبھی ہجرت پر لوگوں کو مجبور نہیں کیا ہے۔ جس کی وجہ سے وزیروں کے مقابلے میں محسود بہت زیادہ خستہ حال ہیں ۔
اب مذہب کی چنگاریاں دب کر ختم ہوگئیں ہیں لیکن قوم پرستی کی نئی فضاؤں سے نمٹنے کیلئے شاید کوئی نئی ترکیب بنے گی۔ بین الاقوامی سازشوں کے تحت بڑا کچھ ہوتا ہے لیکن اس کو عملی جامہ پہنانے والے اپنے ہی لوگ ہوتے ہیں اور یہ ریاست اور عوام دونوں طرف سے اپنا اپنا کام دکھاتے ہیں اور اپنی قوم کو کھڈے لائن لگادیتے ہیں۔سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تخریب کاری کو ہوادیدی جاتی ہے اور کرکٹ کے کھیل کی طرح لوگ فتنوں کا شکار بن جاتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی میلاد النبیۖ کے جلسے جلوس اور خوشی منانے کو بدعت کہتے ہیں لیکن شیخ الاسلامی کے عہدے سے سود کو جواز فراہم کرنے تک کسی چیز کو اس طرح سے بدعت قرار نہیں دیتے۔ یہ سب فرقہ واریت کی بیماری ہے اور دوسری طرف میلادالنبی کیلئے طائفہ عورت کو پیسے دیکر حور بناکر پیش کیا جاتا ہے اور کسی کو شیطان بناکر ناچنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پوری قوم اور ملت اسلامیہ کو اپنے اقدار کی طرف واپس آنے کی ضرورت ہے اور اصلاحِ حال بہت ضروری ہے۔

بہت نازک موڑ پرکھڑاہواپاکستان
ایک طرف حکمران نالائق ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن ان سے بھی بہت گئے گزرے ہوئے۔ جبPDMسے پاکستان پیپلزپارٹی کو باہر نکالا گیا تھا تو ہم نے نشاندہی کی تھی کہ اصل یہ نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی نے باپ سے ووٹ لیا تھا بلکہ اصل مسئلہ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کو گرنے کا خطرہ تھا اور اس سے بچانے کیلئے پیپلزپارٹی کوPDMسے باہر کیا گیا تھا۔ آج سب ہی کو اس حقیقت کا پتہ چل گیا ہے کہ پیپلزپارٹی اورPDMکی دوسری جماعتوں میں اتنا فاصلہ نہیں تھا جتنا ن لیگ اور ش لیگ میں نظر آرہا تھا اور ن لیگ اور ش لیگ بظاہر مخالف مگر اندر سے ایک ہیں۔ جب پیپلزپارٹی نے مذہبی کارڈ کھیل کر اسمبلی میں قادیانی کو کافر قرار دینے میں اپنا کردار ادا کیا تھا اور پھر جب ن لیگ کی طرف سے حلف نامے میں اسمبلی کے اندر تبدیلی کی سازش ہوئی تو پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام سب ساتھ میں تھے۔ جس کی وجہ سے پھر تحریک لبیک میدان میں نکلی تھی اور ن لیگ نے اپنے ذمہ دار وزیر زاہد حامد کو بھی فارغ کردیا تھا۔ طاہرالقادری پیپلزپارٹی کے دور میں آیا تھا تو شہبازشریف نے پنجاب سے بہت لاڈ کیساتھ اسلام آباد بھیج دیا۔ قمر زمان کائرہ نے طاہر القادری کی نقل اتار کر اس کا سارا پانی اتار دیا تھا اور پھر رسم قل کیلئے ایک معاہدہ ہوا تھا۔ پھر نوازشریف کے دور میں طاہرالقادری دھرنا دینے پہنچ رہا تھا تو اس کے مرکز ماڈل ٹاؤن لاہور میں14افراد شہید کردئیے گئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فسٹ کزن کی حکومت میں طاہرالقادری کیوں نہیں آرہاہے؟۔ کیا طاہرالقادری کے ناک کے پانی کی طرح اب شہداء کا خون بھی سوکھ گیا ہے؟۔
تحریک انصاف نے طالبان کی طرح تحریک لبیک کو بھی سپورٹ کیا تھا اور اس مرتبہ سرکاری سطح پر میلاد النبی ۖ کا بھی اہتمام کیا لیکن تحریک لبیک کیساتھ وعدے پورے نہیں کئے۔ کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر فرانس کے سفیر کو نکالنے کے حوالے سے قرار داد پیش کی گئی تو ن لیگ ،جمعیت علماء اسلام اور پیپلزپارٹی کے لوگ اس کو سپورٹ کرکے پاس بھی کرسکتے ہیں۔ ہماری جمہوریت بھی تو ایسی ہی ہے کہ جب نہیں بھی چاہتی ہے تو آرمی چیف کی ایکس ٹینشن کیلئے حرکت کرلیتی ہے اور جب چاہتی ہے تو جمہوری حکومت کو خراب کرنے کیلئے فرانس کے سفیر کو بھی نکالتی ہے۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان، عراق اور لیبیا میں قتل وغارتگری کا بازار گرم کررکھا تھا تو ہماری حکومتوں اور اپوزیشنوں کو اسمبلیوں میں ایک قرارداد لانے کی بھی توفیق نہیں ملی۔ چاہے مسترد ہوتی لیکن کسی نے جرأت نہیں کی تھی۔ اور اگر کوئی قرار داد لائی جاتی تو باور یہ ہے کہ سب اس کومتفقہ طور پر منظور کرتے۔
امریکہ نے افغانستان میں کیا نہیں کیا؟۔ بوڑھے مردقیدیوں کیساتھ جنسی تشدد کرکے بھی بے غیرتی کی انتہاء کردی ۔BBCنے جرأت کرلی مگر ہمارے ہاں عوام کو دھوکہ میں رکھا گیا اور یہ کسی حد تک اچھا بھی تھا اسلئے کہ پھر ہمارے وہ غازی چلے ہوئے کارتوس کی جگہ چھدے ہوئے کارتوس کہلاتے۔ اگر امریکہ کی یہی شکست ہے تو پھر بار بار ایسی جنگ اور شکست کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ ہمارا میڈیا اس قدر بٹاہوا، دبا ہوا اوربکا ہوا ہے کہ حقائق کسی طرح سے سامنے نہیں لاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں مولانا فضل الرحمن نے کہاتھا کہ طالبان مارگلہ کے پہاڑ تک پہنچ چکے ہیں تو ن لیگ کے قائدین اس کو امریکی ایجنٹ کہتے تھے۔ پھر ن لیگ کے دور میں فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن کئے تو ن لیگ اس پر آمادہ بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی دہشت گردی کے خاتمے کا کریڈٹ لیتی ہے۔
سیاست ، ریاست اور صحافت اب منافقت کی دہلیز سے نکل کر بے شرمی کی جسارت پر کھڑی ہیں اور اس سے چھٹکارا پانے کیلئے علم وشعور کی ضرورت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

معاونت حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی خطیب تاریخی مسجد مہابت خان پشاور اور پاکستان کا سیاسی و مذہبی منظر نامہ

حضرت مولانا محمد طیب قریشی خطیب مسجد مہابت خان کی خدمت میں بھی وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ یہ شمارہ محکمہ اوقاف کے چیف خطیب کے توسط سے تمام ائمہ مساجد اور خطباء کے نام ہے اور سب کو سلام

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جنرل ایوب خان کے مارشل لاء سے پہلے سول بیوروکریسی کی حکومت تھی۔ پاک فوج کا اس میں کردار بالکل ضمنی تھا ۔ جنرل ایوب خان نےADاورBDکے انتخابات کے ذریعے پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ جنرل ایوب خان کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے بعد پاکستان میں جمہوریت اور پاک فوج کی قیادت میں کشمکش شروع ہوگئی ۔جنرل ایوب خان کے جانے کے بعدشفاف الیکشن ہوگئے تو مشرقی پاکستان کے مجیب الرحمن کو واضح اکثریت مل گئی لیکن سول اور فوجی قیادت نے سمجھا تھا کہ اگر اقتدار مجیب الرحمن کے حوالے کیا گیا تو مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل جائے گا۔ پارلیمنٹ مغربی پاکستان میں تھا لیکن جمہوریت کی جگہ منافقت کا عمل جاری تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے پاکستان سے صوبہ پنجاب نوازشریف کی وجہ سے بھارت کی مدد سے الگ ہوجائے۔ بنگلہ دیش میں93ہزار کے ہتھیار ڈالنے کے ذمہ دارجنرل نیازی اور ذوالفقارعلی بھٹو تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اتوار کی جگہ جمعہ کی چھٹی دی، اسلامی جمہوری آئین دیا اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ بھٹو ایک عرب بادشاہ کے طرز پر ایک سویلین ڈکٹیٹر حکمران بننے کا زبردست خواہاں تھا۔
قادیانی تعداد میں کم لیکن فوج میںسب سے زیادہ طاقتور تھے۔پھر بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کے طرز پرمگرفوجی امیر المؤمنین بننے کی کوشش کی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود نے کراچی میں جلسۂ عام سے خطاب میں جب جنرل ضیاء الحق کی مرزائی نوازی کے دلائل دیناشروع کردئیے ،تو قاری شیرافضل خان نے نعرہ لگایا کہ ” مرزائی نواز مردہ باد”۔ مفتی محمود صاحب نے کہا کہ ”مرزائی نواز نہیں مرزائی بولو”۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیرمولانا عبدالکریم بیرشریف نے زندگی بھر جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں مفتی محمود نے مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد رفیع عثمانی کو بینک کے سودسے زکوٰة کی کٹوتی پر بحث کی دعوت دی۔ دونوں بھائیوں نے مفتی محمود کی طرف سے چائے کے کپ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں پھر دن بھر نہیں پیتے۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں چائے خود زیادہ ہی پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو مجھے یہ پسند ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوا دکھادیا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلادیا ۔ تھوڑی دیر بعد مفتی محمود پر غشی طاری ہوگئی اور مفتی محمد رفیع عثمانی نے دورۂ قلب کی خاص گولی حلق میں ڈال دی ۔ پھر مفتی صاحب ہسپتال پہنچنے سے پہلے شہید ہوگئے۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مفتی تقی عثمانی نے ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے ماہنامہ البینات جامعہ بنوری ٹاؤن میں جو مضامین لکھے تھے ، ان کو ایک ساتھ اقراء ڈائجسٹ کراچی نے شائع کیاتھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے مضامین میں صرف یہ فرق تھا کہ مفتی تقی عثمانی نے اصرار کیساتھ پان کھلانے اور مفتی رفیع عثمانی نے جو گولی حلق میں ڈالی تھی ،اس کا ذکر نہیں کیا۔ وفاق المدارس پاکستان اور جمعیت علماء اسلام ان دونوں تحریرات کو شائع کرکے مساجد ومدارس میں تقسیم کریں۔
مثلاًایک شخص نے10لاکھ بینک میں رکھے ہیں۔ اس کو سالانہ ایک لاکھ سود اس پر ملتا ہے۔ اس کی کل رقم11لاکھ بن گئی اور اس میں سے27ہزار پانچ سو زکوٰة کے نام پر کٹ گئے۔ جس کے بعد اس کی بینک میں10لاکھ72ہزار پانچ سو روپے بچ گئے۔ پہلے اس کی کل رقم10لاکھ تھی اور اب اس میں ایک لاکھ سود کی جگہ72ہزار پانچ سو کا اضافہ بھی ہوگیا تو پھر زکوٰة کی رقم کیسے ادا ہوگئی؟۔ زکوٰة کے نام پر یہ رقم تو بالکل سود کی ہے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمودنے کہا تھا کہ” اس سودی رقم سے زکوٰة ادانہیں ہوسکتی ہے۔ زکوٰة ایک فرض ہے اور اس کا ادا کرنا انتہائی اہم ہے۔ عوام کو اس اہم فرض کی ادائیگی سے روکنا بہت بڑا جرم ہے۔ سرکار کی اس حرکت سے سر سجدے میں ہے اور چوتڑ دغا بازی میں ہے”۔
مولانا فضل الرحمن اپنے جلسے جلوسوں میں کہتے تھے کہ ” مدارس زکوٰة کے نام پر سود کھارہے ہیں۔ یہ شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ہے”۔ پہلے مدارس کی طرف سے یہ حیلہ کیا گیا تھا کہ زکوٰة کے نام پر اس سودی رقم سے لیٹرین بنائے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر انہوں نے پینترا بدل دیا کہ روزی روٹی بھی تو آخر کار معدے میں جاکر لیٹرین میں بدل جاتی ہے۔ حکومت کی سودی زکوٰة کی نحوست سے لوگوں کی زکوٰة کھانے اور اس سے تجارت کرنے کی طرف بھی پھر یہ لوگ بہت زبردست طریقے سے مائل ہوگئے۔ پھر تو جس کا بس چلتا گیا اس نے اپنے پاؤں میں حلال وحرام زکوٰة کے ذریعے اپنے پاؤں میں زنجیر یں ڈالنا شروع کردیں۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں کی جگہ پھر تو ہم تو مائل بہ جرم ہیں کوئی پائل ہی نہیں نے لے لی ۔
جب قوم سے کہا جائے کہ تمہارے پاس ایسا فتویٰ آیا ہے کہ سود کی رقم کا بھی اضافہ ہوگیا اور زکوٰة بھی ادا ہوگئی اور عوام کو زکوٰة کے نام پر سود کھلایا جائے تو پھر دونوں کا اپنا اپنا فائدہ نظر آئے گا۔ سرمایہ دار کہے گا کہ سود بھی ملا اور زکوٰة بھی ادا ہوگئی تو اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟۔ اس سود خور کو ویسے بھی زکوٰة سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟۔ جو سود لیتا ہے وہ زکوٰة کیا دے گا؟۔ دوسری طرف لالچ کی وجہ سے جس کو زکوٰة کے نام پر سود ملتا ہے اس کو بھی اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کیا حلال ہے ؟ اور کیا حرام ہے؟۔ بس اس کو مفت میں پیسہ ملتا ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ اپنے مفاد ہی کی بات ہے۔ اور اپنا فائدہ کون چھوڑ تا ہے۔
پہلی بلا پاکستان پر یہ نازل ہوئی کہ زکوٰة کا فریضہ ساکت ہوگیا اور سود خور کو شرف مل گیا کہ سود بھی مل رہاہے اور زکوٰة بھی ادا ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کو انسانوں کا اللہ اور اس کے رسول ۖ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ جب ہم نے اللہ کیساتھ جنگ کو بھی زکوٰة کی ادائیگی کا فرض اور اپنی ضرورت کیلئے جائز کہا تو شیطان نے علماء ومشائخ کو لوریاں دیکرخواب غفلت کی بڑی نیند سلانا شروع کردیا۔ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک لبیک نے اسلام کے نام پر دہشتگردی اور شدت پسندی کو زبردست فروغ دینا شروع کردیا۔ اللہ اور اسکے رسولۖ سے جنگ کے نتائج ہم مختلف عذاب کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور مذہبی جلسے جلوسوں میں جتنا تاجروں اور عوام کا نقصان ہوتا ہے اور جو ان پر خرچے ہوتے ہیں ، یہ سب سودی منافع سے زیادہ قوم کے نقصانات ہیں ۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اب قوم کے دونوں بھائی یاجوج ماجوج بن گئے ہیں۔ پہلے سودی زکوٰة کے نام پر مدارس کا بیڑہ غرق کردیااور اخلاق وکردار کی بلندیوں سے مذہبی طبقات کو پستیوں کی جانب دھکیل دیا۔ جمعیت علماء اسلام کے بلند کردار کے مالک اس کے سامنے مضبوط بند ثابت ہونے کے بجائے خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔ پھر دونوں بھائی یاجوج ماجوج نے بینکوں کے سودکو بھی اسلامی قرار دے دیا۔ مدارس کے بلند کردار کے مالکان مولانا سلیم اللہ خان ، مفتی زر ولی خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سمیت سارے مدارس کے سارے علماء ومفتیان دونوں بھائیوں یاجوج ماجوج کے سامنے کھڑے ہوگئے لیکن آخر کار مفتی محمد تقی عثمانی نے سب کو شکست دیدی اور پھروفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بھی بن گئے ہیں۔
پاکستان1947ء سے1988ء تک آئی ایم ایف کے سود کی قید سے آزاد تھا۔ کراچی اور ملک بھر کے جید علماء کرام اور مفتیان عظام حضرت حاجی محمد عثمان کے مرید یا دوست تھے۔ بڑے پیمانے پر فوجی افسران بھی حاجی محمد عثمان کے مرید تھے۔ پھر الائنس موٹرز کے نام پر مضاربة کا کاروبار سود میں بدل گیا تو اپنے مرید و خلفاء کی بغاوت اور معروف علماء ومفتیان کے فتوؤں نے ایک اللہ والے کو نشانہ بنایا۔نبی ۖ نے فرمایا کہ” اللہ کہتاہے کہ جس نے میرے ولی کو اذیت دی تو میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہوں”۔ ایک طرف جنرل ضیاء الحق کا جہاز تباہ ہوا تو دوسری طرف معروف علماء ومفتیان نے حاجی محمد عثمان سے مغالطہ کھاکر شیخ عبدالقادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ ، مولانا محمدیوسف بنوریاور شیخ الحدیث مولانا زکریا پر بھی فتوے لگادیئے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی نے پہلے لکھا تھا کہ اس طرح کے عقائد رکھنے والے پیر کی خانقاہ پر حکومت کو پابندی لگانی چاہیے جو سید عتیق الرحمن گیلانی نے ایک مخلص مریدکی حیثیت سے لئے ہیں لیکن جب حقائق کا پتہ چل گیا تو سال بعد ہفت روزہ تکبیر کراچی نے لکھ دیا کہ اگر علماء ومفتیان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو غلط بیانی کے بجائے اپنی غلطی کا کھل کر اعتراف کریں اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن غلط بیانی سے ان کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔
پھر وہ وقت آیا کہ بینظیربھٹو کی حکومت آئی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر مسلم لیگ کے میاں نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔دو دو باریاں دونوں نے لے لیں لیکن1989ء سے2004ء تک پاکستان کوIMFکے شکنجے میں پھنسادیا۔آصف علی زرداری کے گھوڑوں کو مربے کھلانے ،اسکے سرے محل اور نوازشریف کے ایون فیلڈلندن کے فلیٹ اسی ادوار کی یادگاریں ہیں۔ کرپشن کی زیادہ ابتداء سیاسی قیادتوں نے آئی ایم ایف کے سودی قرضوں سے کی ہے لیکن پرویزمشرف کے دور میں2004ء سے2008ء تک پاکستان نے پھرIMFکے چنگل سے آزادی حاصل کرلی تھی۔پھر کرپٹ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف نے باری باری حکومتیں کرکے پاکستان کو زیادہ سے زیادہIMFکے چنگل میں دیدیا اور جب نوازشریف کے دور میں ہم نے اپنے اخبار میں پورے فیگر لکھ دئیے تھے کہ گردشی سودی قرضہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ دفاعی فنڈز سے سود کی رقم زیادہ ہے لیکن ہماری بات پر کسی ذمہ دار طبقے نے کان نہیں دھرے۔ پھر عمران خان نے اس سے بھی زیادہ سودی قرضے لئے۔ پاکستان میںIMFکی حکومت ہے۔ یہ ہم اللہ اوراسکے رسولۖ سے جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
یاجوج ماجوج کا لشکر جامعة الرشیدکراچی کی طرف سے مدارس کے نئے بورڈ مجمع علوم اسلامی میں بھی تیار ہورہاہے اور وفاق المدارس العربیہ کی چوٹی پر بھی گدھ کی طرح مفتی تقی عثمانی بٹھادئیے گئے ہیں۔ اب یہ ہربلندی سے پستی کی طرف سفر کرکے سب چیزوں کو چٹ کر جائیں گے۔ سود، زکوٰة ، صدقہ، خیرات اور چندے غریبوں سے بھی چھین لینے ہیں۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے جونہی وفاق المدارس پاکستان کی صدارت کا منصب سنبھال لیا تو دارالعلوم کراچی میں بجلی پیدا کرنے کی مشینری کیلئے کروڑوں اور اربوں کے چندے کا اعلان کردیا ہے۔ یاجوج ماجوج نے سب کچھ چٹ کئے بغیر بلندوادیوں سے پھسلتے ہوئے گہری گھاٹیوں میں بہتے ہوئے اپناسفر کرنا ہے اور ہرقسم کا دانہ بھی انہوں نے چگنا ہے اور یہ مظاہرہ انسانوں نے دیکھنا ہے۔ وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے جس طرح یاجوج اور ماجوج کے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کی تردید کردی ہے وہ قابل تحسین ہے لیکن مچھلی کی چوکیداری کیلئے بلی کو مقرر کرنا بھی بہت ہی بڑی زیادتی ہے۔
جس دن مساجد کے ائمہ اور خطیب حضرات نے قرآنی آیات اور سنت سے عوام کی رہنمائی کرنا شروع کردی تو بہت زبردست انقلاب میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ بس ہمت وجرأت ، علم وتقویٰ اور ایمان وکردار کی سخت ضرورت ہے۔ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان اور مدارس کے نئے بورڈمجمع علوم اسلامی کی سربراہی ان علماء ومفتیان کو دی جائے جو اپنی قدامت پسندی، حق پرستی اور سود کے عدم جواز کی روش پر قائم ہیں۔ جنہوں نے اللہ ، اسکے رسول ۖ ، اپنے اکابرو اسلاف سے بغاوت اور انحراف کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے ان کو ذمہ عہدوں سے سبکدوش کردیا جائے۔ وفاق المدارس کے اجلاس مدعو کرنے کی بات تو بہت دُور کی ہے حق کی آواز اٹھانے والی بہت بڑی اکثریت کو اجلاس میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔ مدارس کی سطح پربھی مجلس شوریٰ کے نام پرایک استحصالی طبقہ مسلط ہوگیا ہے اور مخلص لوگوں کو اجلاس میں برداشت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا ہے۔ مفتی عزیزالرحمن اور صابر شاہ کا اسیکنڈل منظر عام پر نہ آتا تو اس قسم کے لوگ ایکدوسرے کے وارث بنتے ہیں اور اس سے پہلے جامعہ امدایہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا نذراحمد کے حوالے سے بھی بڑا بھیانک اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔
یہی دہشت گرد بنتے ہیں تو مساجد ومدارس پربھی خود کش حملے کرنے کروانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ جن کی نظر میں نام نہاد مقدس شخصیات کی فی الواقع کوئی حیثیت بھی نہیں ہوتی ہے ۔مذہبی سیاسی جماعتوں میں ان کو کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ بے ضمیری کی وجہ سے کوئی بڑا مقام بھی مل جاتا ہے۔ اسلام انسانیت کے کردار کو درست کرنے کا زبردست ذریعہ ہے لیکن اسلام کی حقیقت کو مفاد پرست ٹولوں نے مختلف ادوار میں ایسا بدل کر رکھ دیا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے فارسی اشعار میں کہا ہے کہ ” علماء ومشائخ کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ جن کی وجہ سے اسلام ہم تک پہنچا۔ اگر اللہ، رسول اللہۖ اور جبریل اس اسلام کو دیکھ لیں گے تو حیران ہوں گے کہ کیا یہ وہی اسلام ہے”۔ علماء ومشائخ کو کھویا ہوا مقام پانا ہے تو اسلام کو واپس لانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور علم کو زندہ کرنے پر لگانا ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میں گیلانی صاحب کی اسلام پر تحقیق سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی خطیب تاریخی مسجد مہابت خان پشاور۔

میں گیلانی صاحب کی تحقیقات سے سو فیصد متفق ہوں۔ حضرت مولانا قاری محمد طیب قریشی چیف خطیب محکمۂ اوقاف پختونخواہ۔ خطیب تاریخی مسجد مہابت خان

(پشاور) خیبر پختونخواہ حکومت محکمۂ اوقاف کے چیف خطیب علماء دیوبند کی ہردلعزیزشخصیت خطیب جامع مسجد مہابت خان پشاور مولانا قاری محمد طیب قریشی نے نوشتہ دیوار میں گیلانی صاحب کی تحریرات کے حوالے سے کہا ہے کہ اس زمانے میں شاہ صاحب کی خدمات معجزے سے کم نہیں ہیں۔ کیونکہ ہر طرف ہوس و لالچ اور اقرباء پروری ہے۔ مگر آپ حق کہنے میں کسی اپنے پرائے کی تخصیص نہیں کرتے۔ آپ کی باتیں تلخ تو ہوتی ہیں مگر مبنی بر حق ہوتی ہیں۔
میں گیلانی صاحب کی تحقیق سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ آپ کے ساتھی بغیر کسی لالچ کے جس خلوص اور مستقل مزاجی سے کام کررہے ہیں۔ وہ ایک حیران کن حقیقت ہے۔ آپ کے ساتھی شاہ وزیر میرے پاس اخبار دینے آتے رہتے ہیں ۔میں ان کا بھی بہت احترام کرتا ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جب بڑے بڑے نام نہاد مذہبی اور سیاسی لوگ مغرب کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ شاہ صاحب مسلسل امت کو بیدار کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
میں شاہ صاحب کا مداح ہوں اور اکثر پروگراموں میں آپ کی تحقیقات کی تشہیر بھی کرتا ہوں ۔ مولانا طیب قریشی نے کہا کہ پاکستان نہیں ساری امت مسلمہ آئی ایم ایف کے ظلم کا شکار ہے۔ ہمیں اس سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ میرا یہ مؤقف ہے کہ جب تک پاکستان کے بڑے اذہان مل کر اپنی تجارت اور اپنے اقتصادی معاملات کو اسلامی اصولوں پر استوار نہیں کریں گے تو ہم یونہی ہمیشہ اس ظالمانہ سودی نظام اور مہنگائی کی چکی میں پستے ہی رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خواتین کو وہ حقوق دینے ہیں جس کا قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے۔ حق مہر، طلاق، خلع کے حوالے سے ہیومن ریسورسز کے ایک پروگرام میں یہی بات کی۔ ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے مگر عمل کی ضرورت ہے۔
اب یہ وقت آگیا ہے کہ تمام عالمِ انسانیت اپنے نظام کے حوالے سے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اعلان کرے کہ نظام صرف اللہ کا ہی چلے گا۔
آخر میں قبلہ گیلانی صاحب کی خدمت میں بہت بہت سلام۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تحریک لبیک اور حکومت میں لڑائی، مذہبی انتہا پسندی اور ریاستی منافقت کا علاج

تحریک لبیک اور حکومت کی لڑائی؟__

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آج اوریامقبول جان کہتا ہے کہ تحریک لبیک کے مطالبات میں فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ شامل نہیں ہے۔ وزیرداخلہ شیخ رشید کہتا پھرتا ہے کہ فرانس کے سفارت خانے کو ہم بند نہیں کرسکتے ہیں اور یہ کہ فرانس کا سفیر پاکستان میںموجود نہیں ہے۔ اوریا مقبول جان کہتا ہے کہ ان کے تین مطالبات ہیں۔ سعد رضوی اور دیگر ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔ کالعدم کا لیبل ہٹایا جائے اور عدالتوں میں قائم مقدمات واپس لئے جائیں۔
حکومت اور اپوزشن کی نااہلی اور مفاد پرستی نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پہنچادیا ہے۔ حکومت کی طرف سے فرانس کے سفیر کو نکالنے کی قرارداد پیش ہونا تھی تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن تحریک لبیک کیساتھ کھڑے ہوگئے تھے۔ اور ان کا مقصد تحریک انصاف سے اپنا بدلہ چکانا تھا۔ جب دونوں نے اپنی مشترکہ حکومت میں قادیانیوں کے حق میں ترمیمی بل پاس کیا تھا تو تحریک انصاف نے تحریک لبیک کا ساتھ دیا اور شیخ رشید گھیراؤ جلاؤ کی باتوں میں شریک تھا۔ اب ان کی سمجھ میں بات نہیں آتی ہے کہ تحریک لبیک کیساتھ کیا کیا جائے؟۔حالانکہ معاملہ بہت ہی آسان ، سادہ اور قابلِ حل ہے۔
پہلا مطالبہ یہ ہے کہ ” گرفتار ملزموں کو رہا کیا جائے”۔ موجودہ حکومت مجرم نوازشریف اور مریم نواز کو رہائی دے سکتی ہے تو تحریک لبیک کے ملزموں کو رہا کرنا کونسا مشکل کام ہے؟۔ پہلا مطالبہ حکومت مان سکتی ہے کہ جب طاقتور طبقہ پشت پر ہو تو ضمانت پر رہائی ملنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ دوسرا مطالبہ دونوں کے درمیان50،50فیصدکا معاملہ ہے۔ جب تک حکومت سپریم کورٹ میں کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر نہیں کرتی ہے تو حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دینے کا معاملہ ویسے بھی ادھورا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اسلئے تحریک لبیک کو کراچی کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا تھا۔موجودہ حکومت نے جمعیت علماء اسلام کی ڈنڈا بردار فورس انصار الاسلام پر پابندی کا علان کیا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا۔ ریاست نے تحریک لبیک کو تحریک طالبان اور انصار الاسلام جیسی تنظیموں کے مقابلے میں زندہ رکھنا ہے۔ اسلئے آدھا مطالبہ خود حکومت نے پہلے سے تسلیم کیا ہے اور باقی آدھے پر بھی عمل کرے تاکہ حکومت اپنے دوغلے پن سے باہر نکل آئے۔ تیسرا مطالبہ عدالتوںسے کیس واپس لینے کا ہے تو اس سے تحریک لبیک دست بردار ہوسکتی ہے اسلئے کہ عدالت کرپشن اور ریپ کے کیسوں میں شواہد نہ ملنے کا رونا روکر ملزموں کو باعزت رہا کروارہی ہے تو مقدمات چلنے میں کیا حرج ہے؟۔ لیکن حکومت وریاست نااہل ہے یا اس کی نیت درست ہے یا غلط ہے مگر ہے کچھ اور۔ اسلئے کہ مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان سے بہت زیادہ تحریک لبیک خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اسلئے کہ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی، اہلحدیث، جماعت اسلامی ، شیعہ اور دیگر فرقوں اور غیرمسلم قادیانیوں کو برابر سب کو گستاخ بھی قرار دیا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے ان تین چھوٹے مطالبات کیلئے پولیس والوں کو جان سے مار سکتے ہیں تو پھر عشق رسول ۖ کے نام پر گستاخوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کرسکتے ہیں؟۔ اوریامقبول جان اسلام کی روح اور سیاست کو سمجھنے کے بجائے ریاستی پالیسی کی روح رواں کو سمجھنے کیلئے اپنی ذہنیت بوسیدہ کرچکا ہے۔

_ مذہبی شدت و ریاستی نفاق کا علاج! _
جب حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تو ایک عرصہ تک وحی کا سلسلہ بند رہا۔ افواہوں کی گردش نے نبیۖ اور صحابہ کو بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ جب وحی نازل ہوئی تو افواہ پھیلانے والوں کی سرزنش کی گئی اور افواہوں سے متأثر ہونے والوں سے کہا گیا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ بہتان عظیم ہے؟۔ اور بہتان لگانے والوں کو اسی اسی کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔
جب تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کا خون بہایا جارہاتھا ، جارحیت کے ارتکاب میں زیادہ تر ہندو اور سکھ ملوث تھے اسلئے کہ وہ گائے ماتا کی طرح وطن کی تقسیم کو بھی ناقابلِ قبول سمجھتے تھے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت نے ان سے چھٹکارا پانے کیلئے تقسیم ہند کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ جب قائداعظم نے دیکھا کہ مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں تو فرمایا کہ ”مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے ”۔ ہندو شدت پسندوں نے مہاتماگاندھی کو بھی اسلئے قتل کیا کہ گاندھی نے مسلمانوں کے حق میں ہندو قوم کی شدت پسندی کے خلاف بھوک ہڑتال کا اعلان کررکھا تھا۔
ہندوؤں کے پاس اپنا کوئی نظام نہیں تھا اسلئے وہ حکومت برطانیہ کے نظام کو قائم رکھنے پر مجبور تھے لیکن پاکستان میں مسلمانوں کے پاس اسلام کانظام قرآن وسنت کی شکل میں موجود تھا۔ خاتون اول ام المؤمنین حضرت عائشہ پر بہتان کی سزا قرآن میں 80کوڑے کا حکم نازل ہوا تھا اور اس میں ایک غریب عورت کیلئے بھی وہی سزا تھی جو ام المؤمنین کے خلاف بہتان لگانے کی تھی۔ غلام احمد پرویز نے احادیث صحیحہ کا انکار کردیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ام المؤمنین پر بہتان لگانے کی سزا صرف80کوڑے ہو۔ اس کی سزا تو قتل ہونا چاہیے تھا، یہ کوئی عام عورت تھی جس پر بہتان لگایا گیا تھا اور یہ اس کی سزا تھی۔ آج پنجاب میں پرویز کی فکر نے شدت پسندی میں نہلے پر دہلا کردیا ہے۔ اگر قرآن وسنت کی درست تعبیر دنیا کے سامنے پیش کی جائے تو نہ صرف شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا بلکہ اس سے دنیا میں غریب وامیر کے درمیان تفریق کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
ایک20اور22گریڈ کے افسر اور غریب کی آدمی کی بیگمات میں بہتان لگانے کے حوالے سے اسلامی قانون کے مطابق کوئی فرق نہیں ہے ، اسی طرح کرپٹ سیاستدانوں اور غریب پارٹی کارکنوں کے درمیان عزت اور قتل کے حوالے سے اسلام نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے لیکن ہمارا سارا ماحول بدل گیا ہے۔ ہمارا مذہبی اور سیاسی طبقہ بھی اپنے آپ کو کرپٹ نظام کے ذریعے ترقی اور عروج کے نام پر ایک الگ ماحول بنارہاہے۔80کوڑے کی سزا امیر وغریب کیلئے یکساں ہے لیکن ہتک عزت کے دعوے میں اربوں روپے اور کوڑیوں کے دام کا فرق ہے۔ غریب کی عزت کوڑیوں کی نہیں ہوتی اور کرپٹ لوگوں کی عزت اربوں میں ہوتی ہے۔ غریب کیلئے چند ہزار بڑی سزا ہے اور امیر کیلئے لاکھوں اور کروڑوں کی سزا میں بھی مشکل نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سول وملٹری بیوروکریسی، کرپٹ سیاستدان اور آلۂ کار کے طور پر استعمال ہونے والے مذہبی لوگوں میں سے کسی کو بھی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قرآن وحدیث سے بھی کوئی غرض نہیں ہے اور امن وسلامتی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے۔ بس صرف اپنی نوکری پکے کرنے اور زیادہ سے زیادہ مفادات اٹھانے کے چکر میں زمانے کے بدترین گرداب کے شکار نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے پہلے کہ کوئی حادثہ پورے معاشرتی اور ریاستی نظام کا خاتمہ کرکے رکھ دے۔ ہم سنجیدگی سے اپنی ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ہمارے بدلنے سے پوری دنیا کے تبدیل ہونے میں بھی دیر نہ لگے گی۔ ہم صرف خیرخواہی میں مفت کے مشورے دے سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علامہ تمنا عمادی عظیم عالم دین ہیں، شیعہ فرقہ میں طلاق کا غلط تصور، مفتی تقی عثمانی کی غلط تشریح و تشریح، قرآن میں طلاق کا عظیم تصور

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ تمنا عمادی بہت بڑا عالم_
علامہ تمنا عمادی ایک بہت بڑے حنفی عالم دین تھے جو ہندوستان سے پہلے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش ہجرت کرچکے تھے اور پھر کراچی میں سکونت اختیار کرلی تھی اور کراچی ہی میں بہت خاموشی کیساتھ انتہائی شہرت یافتہ ہونے کے باوجود گمنامی کی قبر میں دفن ہوگئے۔ آپ کی کتاب ” الطلاق مرتان” کا نام میں نے طالب علمی میں اپنے ایک استاذ مولانا سراج الدین شیرانی ڈیرہ اسماعیل خان والے سے غالباً سنا تھا اور استاذ جی نے یہ بھی بتایا تھا غالباً کہ اس کتاب کا جواب کسی بھی عالمِ دین کے پاس نہیں ہے۔ علامہ تمنا عمادی ایک بہت جید عالم تھے اور آپ نے دوسرے نام نہاداسلامی اسکالروں کی طرح تقیہ کا غلاف اور نقاب نہیں اوڑھ رکھا تھا بلکہ قرآن کے مقابلے میں اہل سنت کی احادیث کی کتابوں کو ایک بہت بڑی عجمی سازش قرار دیا تھا۔ آپ کے دلائل حنفی اصولوں کے بالکل عین مطابق تھے۔ آپ نے قرآن وحدیث میں طلاق کے حوالے سے بڑافرق واضح کردیا تھا۔ آپ کے نزدیک بنیادی بات یہ تھی کہ ”قرآن میں دو طلاق ہیں اور جس طلاق کے بعد حلالے کاحکم ہے وہ خلع کی صورت ہے۔ جب عورت ہی کا قصور ہو تو پھر اسی صورت میں عورت کو حلالے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ جرم مرد کرے اور سزا عورت کو دی جائے تو غلط اور غیرفطری بات ہے”۔
فقہ ، اصول فقہ ، عربی لغت اور عربی مدارس کے مروجہ علوم کے حوالے سے علامہ تمنا عمادی کے دلائل واقعی لاجواب تھے۔ علامہ ابن تیمہ کے شاگرد ابن قیم نے زادالمعاد میں حضرت ابن عباس کا جو قول نقل کیا ہے اوردرسِ نظامی میں اصولِ فقہ کی کتابوں میں جو حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے اس کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ اس طلاق کو جس میں حلالے کا حکم ہے وہ صرف اور صرف خلع ہی کی صورت مشروط کیا جائے۔ غلام احمد پرویز ، جاوید غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک وغیرہ اگر دینی علم کے ماہر ہوتے تو اس مسئلے میں علامہ تمنا عمادی ہی کی تقلید کرتے لیکن سب نے اپنی اپنی دکان کھولنے کا فرض پورا کرکے ایک بے ہنگم ماحول میں خود کو فقہ کا امام بنانے کی اپنی سی کوشش فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں جاویداحمد غامدی نے بہت ہی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے اور غلام احمد پرویز نے حنفی مسلک کے طلاق احسن ہی کو قرآن کی اصل اور حتمی تفسیر قرار دیا ہے جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے غلام احمدپرویز کی فکر کو اس مسئلے میں صحیح قرار دیا ہے۔ علامہ تمنا عمادی نے اصولِ فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے جبکہ غلام احمد پرویز نے فقہ کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا ہے۔ ایک درسِ نظامی کے عالم اور غیرعالم میں یہی فرق ہوسکتا تھا۔
اہل حدیث نے ذخیرہ احادیث سے بہت ساری مرفوع احادیث صحیحہ کو چھوڑ کر ایک موقوف روایت کی بنیاد پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھی ہے جو خوش آئند اسلئے ہے کہ دوسروں کو منکر حدیث کہنے والے خود بھی منکرِ حدیث بن گئے ہیں۔ جبکہ امام ابن تیمیہ نے اپنے مسلک کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ جب تک33،33مرتبہ سبحان اللہ دہرایا نہ جائے کہ سبحان اللہ، سبحان اللہ ، سبحان اللہ………. تو صرف33مرتبہ سبحان اللہ کہنے سے تسبیح پوری نہیں ہوگی ،اسی طرح 3طلاق کہا جائے تو3طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن جب امام ابن تیمیہ سے کہا جاتا ہے کہ اگر طلاق ، طلاق ، طلاق تین مرتبہ دہرایا جائے تو3طلاق واقع ہوجائیں گی تو اس کا کہنا تھا کہ یہ طلاق ہے اور وہ تسبیح ۔دونوں کا حکم ایک کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر طلاق کا لفظ3بار دہرایا جائے تب بھی ایک ہی طلاق ہوگی۔
سعودی عرب پہلے ابن تیمیہ کے مسلک پر تھا لیکن پھر اپنا سرکاری مؤقف تبدیل کرکے یہ بنالیا ہے کہ ایک مجلس کی تین مرتبہ طلاق سے3طلاق پڑیگی۔ اگر قرآن واحادیث کی طرف دیکھا جاتا تو یہ اختلافات وتضادات نہ ہوتے۔

شیعہ مسلک میں طلاق کا غلط تصور
حنفی مسلک میں طلاق کی تین اقسام ہیں۔نمبر1:طلاق احسن۔ عورت کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے۔ پھر عدت میں رجوع کیا جائے یا نہ کیا جائے لیکن یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ نمبر2:طلاقِ حسن ۔ عورت کی پاکی کے ایام میں تین طہر کے اندر تین مرتبہ طلاق دی جائے۔ نمبر3:طلاقِ بدعت۔ایک دم تین طلاق دی جائے، ایک مجلس میں تین طلاق دی جائے یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے۔ طلاقِ بدعت واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کا گناہ ہے۔
شافعی مسلک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق سنت اور مباح ہے۔ جبکہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے مسلک والے اس کو بدعت اور گناہ کہتے ہیں اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول ایک طرف اور دوسرا قول دوسری طرف کی تائید کرتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ اور اہل حدیث کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی طلاق ہے۔ سب کے ہاں اپنی اپنی احادیث اور روایات کے دلائل ہیں۔
اہل تشیع کے نزدیک طلاق حسن میں بھی سخت شرائط ہیں۔ ایک طہر میں کوئی طلاق دی جائے تو اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنا ضروری ہیں۔ گواہوں کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ پھر دوسرے طہر میں دو گواہوں کی موجودگی میں دوسری مرتبہ طلاق دینی ہوگی اور پھر تیسری مرتبہ تیسرے طہر میں دوگواہوں کی موجودگی میں تیسری طلاق دینی ہوگی۔ اس کے بعد عدت کے مراحل پورے ہونے تک رجوع نہیں کیا جائے تو پھر وہ عورت اس کیلئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہو اور پھر اسی طرح طلاق کے مراحل سے نہیں گزرے۔ دوسروں کے مقابلے میں بظاہر اہل تشیع کے طلاق کا تصور سب سے زیادہ بہترین ہے جس میں بہت سارے تضادات سے بچت ہوجاتی ہے لیکن اس خود ساختہ فقہی مسلک کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں۔ قرآن میں مرحلہ وار تین مرتبہ کی عدت اور طلاق کا تصور ضرور ہے لیکن ہر بار دو گواہوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سورۂ طلاق کی آیت نمبر2میں عدت کی تکمیل پر رجوع یا پھر چھوڑنے کے اختیار کا ذکر ہے اور چھوڑنے کی صورت میں دو عادل گواہوں کے مقرر کرنے کا بھی حکم ہے اور اس کے بعد بھی رجوع کی گنجائش کی وضاحت ہے اور اہل تشیع کا خود ساختہ تصور بھی قرآن وسنت اور حقائق کے بالکل منافی ہے۔
قرآن وسنت، حضرت عمراور ائمہ اربعہ کے مؤقف کی درست ترجمانی کی جائے تو پھر اہل تشیع اور اہل حدیث سمیت پوری امت مسلمہ کا اس پر بڑااجماع ہوسکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب قرآن کی آیات کا درست ترجمہ پیش کیا جائے اور اس کی درست تفسیر کی جائے تو تمام احادیث صحیحہ میں کسی ایک بھی روایت کے انکار کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ صحابہ کرام کے متضاد مسالک کی بھی ایسی درست توجیہ ہوگی کہ ان میں اس مسئلے پر کسی قسم کا تضاد نہیں ہوگا ۔
آیت230البقرہ کی درست تفسیر سمجھنے کے بعد قرآن کی طرف لوگ بہت متوجہ ہوں گے اور حیران ہوں گے کہ ہم نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کیوں کر ضائع کردئیے؟۔ آج سودی بینکاری کا مسئلہ علماء نے خود ساختہ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے ذمے چھوڑ دیا ہے اور مختلف ادوار میں سودی حیلہ سازی کیلئے علماء دستیاب ہوتے تھے،اسی طرح حلالے کے مسائل بھی ایسے علماء ومفتیان ہی کے ذمے چھوڑ دئے جاتے تھے۔کوئی شریف عالم دین اس حوالے سے سوچنے کی بھی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ یہ لوگ ایک طرف تصویر کے جواز کو خدا کی خدائی میں بھی مداخلت قرار دیتے تھے تو دوسری طرف تجارت اور حکومت کی غرض سے اس کو جوازبھی عطاء کرتے تھے۔ داڑھی کٹانے کو غیرشرعی قرار دینے والے نے اپنے بے ڈھنگے دانت تک نکلوا ڈالے ہیں لیکن مکافاتِ عمل کا وقت قریب لگتا ہے۔

_ مفتی تقی عثمانی کا غلط ترجمہ اورتفسیر_
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید مودودی نے علماء کے تراجم اور تفاسیر کو نہ صرف سلیس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اپنی طرف سے غلطیوں کے ازالے کیلئے بھرپور طریقے سے حق ادا کرنے کی بھی زبردست کوشش کی ہے لیکن شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ترجمہ” آسان قرآن” میں اللہ کے کلام کا بالکل غلط اور متضادترجمہ جان بوجھ کر کیا ہے اورغلط تفسیر میں بھی کم عقلی کی انتہاء کردی ہے۔ مختلف آیات میں اذابلغن اجلھن کا ترجمہ بھی اپنے ہی مقصد کیلئے تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ۔ حالانکہ اپنے مسلک پر غور کرنا چاہیے تھا۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
ا یک جگہ پر اللہ نے مؤمنوں سے اس جنت کوپانے کا کہا ہے جس کا طول ہی نہیں عرض بھی زمین سے آسمان تک کی طرح ہے۔ دوسری جگہ اللہ نے فرمایا کہ ”فرشتوں کو اہل زمین پر اتنا غصہ آتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے اور نافرمانوں کو اپنے انجام تک پہنچایا جائے لیکن جب اللہ کی طرف سے ان کو اجازت نہیں ملتی ہے تو وہ اللہ کی حمد اورتسبیح بیان کرتے ہیں اور زمین والوں کیلئے مغفرت مانگتے ہیں”۔ سود کو جواز فراہم کرنے والے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بنادیا جائے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو تنظیم المدارس کا صدر بنادیا جائے تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔ اور حلالہ کے نام سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کے بجائے شادی شدہ خواتین کی عزتیں لوٹی جائیں تو فرشتے کس قدر غضبناک ہوں گے؟۔اللہ نے ایک مقررہ مدت تک ان کو ڈھیل دے رکھی ہے لیکن ڈھیل کا وقت موت کی شکل میں اور دنیا میں اسلامی انقلاب کی صورت میں ختم بھی ہوسکتا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے تفسیر لکھی کہ ” فرشتے آسمان پر عبادت کرتے ہیں تو ان کا اتنازیادہ وزن ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان ان کا وزن برداشت نہ کرپائے اور پھٹ جائے”۔
دارالعلوم کراچی والوں نے اپنے دو قسم کے معیار قائم کررکھے ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کا بہنوئی مفتی عبدالرؤف سکھری تصوف کے نام پرعوام کو ورغلاتا ہے اور تصویر نہیں کھنچواتا ہے اور تصاویر کو سخت عذاب کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین کو سود قرار دیتا ہے جس کے ستر سے زیادہ گناہوں میں کم ازکم اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتا ہے اور دوسری طرف مفتی تقی عثمانی تصویر کو جائز قرار دیتا ہے اور بینکنگ کے سودی نظام کو معاوضہ لیکر جائز قرار دیتا ہے۔ دونوں کے فکر وعمل کے تضادات سے یہ بات اچھی طرح سے عیاں ہوگئی ہے کہ اصل مسئلہ دین کا نہیں تجارت کا ہے اور تاجر اپنی کامیابی کو دیکھتا ہے۔
وفاق المدارس کے سابق صدر اور ہمارے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی تقی عثمانی کے استاذ وفاق المدارس کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان اور مفتی زرولی خان وغیرہ سمیت پاکستان کے دیوبندی مدارس کے علماء ومفتیان کی طرف سے مفتی تقی عثمانی کے سودی نظام کو جواز عطاء کرنے پر سخت مخالفت ہوئی لیکن اب اندھوں میں کانا راجا کی طرح مفتی تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا منتخب صدر بنایا گیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”ہم چودہ اگست اسلئے مناتے ہیں کہ یہ دنیاوی بات ہے اور میلاد النبیۖ اسلئے نہیں مناتے ہیں کہ مذہبی معاملہ ہے اور جو چیز نبیۖ کے دور میں نہ ہو ،وہ مذہبی مسئلہ بدعت ہے”۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظام کا جواز بھی بدعت ہے یا نہیں؟۔ یہ تو رسول اللہۖ کے دور میں نہیں مفتی محمد شفیع اور وفاق المدارس کے سابق صدر تک بھی نہیں تھا۔ پھر یہ بدعت ہے یا سنت ہے؟۔اگر بدعت نہیں تو پھر کس چیز کا معاوضہ لیتے ہیں؟

قرآن میں طلاق کا زبردست تصور
قرآن میں طلاق کے حوالے سے جتنی وضاحت ہے شاید بلکہ یقینا کسی دوسرے معاملے کی اتنی وضاحت نہیں ہوئی ہے۔ مسلکوں کی وکالت اور آیات پر غور وتدبر کرنے کی جگہ خوامخواہ کی دماغ سوزیوں نے علماء ومفتیان، دانشوروں، فقہاء ومحدثین اور اُمت مسلمہ کو مسئلہ ٔ طلاق میں قرآن سے دور کردیا ہے۔
پہلی غلطی یہ ہوئی ہے کہ طلاق اور خلع کی آیات میں بڑا زبردست مغالطہ کھایا گیا۔ آیت229البقرہ میں دومرتبہ طلاق اورتیسری مرتبہ میں رجوع کرنے یا احسان کیساتھ رخصت کرنے کے بعد اور آیت230میں تیسری بار طلاق سے پہلے خلع کے تصور نے مسئلے کا حلیہ بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس پر امام شافعی وامام ابوحنیفہ کے مسالک میں اختلاف اور علامہ ابن قیم سے لیکر علامہ تمناعمادی تک بڑے بڑے لوگوں نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔
مولانا سید مودودی نے سلیس اور قابل فہم ترجمہ کرنے کے چکر میں دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد تفہیم القرآن میں لکھ دیا ہے کہ ” کچھ معاوضہ دے دلاکر خلع لیا جائے” جو سراسر گمراہی کی بہت بڑی بنیاد ہے۔اگر قرآن کے مطابق آیت229البقرہ میں تین بار طلاق کے بعد حقوق کا معاملہ مراد لیا جائے جس کے بغیر دوسرا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا ہے اور سورۂ النساء آیت19سے خلع مراد لیا جائے تو جس کے بغیر کوئی دوسرا امکان بھی نہیں ہے تو بہت سارے مسائل اپنی بنیاد سے حل ہوجائیں گے اور بہت سارے مسلکی تضادات کا حل بھی نکل آئے گا اور اپنی کم عقلی پر شرم بھی آئے گی اور قرآن کی طرف لوگ دوڑنا بھی شروع کردیں گے۔امام مہدی سے زیادہ اہمیت یقینا قرآن کی ہے اور قرآن کے ذریعے ہدایت بھی ملے گی۔
جب خلع اور طلاق کے حقوق میں بہت بڑا واضح فرق معلوم ہوگا تو پھر اس کی وجہ سے طلاق کی اصل اہمیت بھی معلوم ہوجائے گی اور طلاق کے مسائل بھی واضح طور پرسمجھنے میں آسانی ہوگی۔ یہ انتہائی غلط تصور ہے کہ جس طرح شوہر اپنا حق مہر دے کر نکاح کرسکتا ہے، اسی طرح منہ مانگی قیمت دے کر عورت خلع لے سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تحریک لبیک کے پیچھے کون ہے؟ اس کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟

تحریک لبیک کے پیچھے کون ہے؟ اور اس کی مقبولیت کاراز کیا ہے؟، جب ن لیگ کے دور میں ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی سازش ہوئی تو کس کس کو اس سازش کا پتہ تھا؟لیکن اس کھیل کو کیا رنگ دیا جارہاہے اور اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟۔وزیراعظم اور آرمی چیف کی طرف سے آپس کے اختلاف میں صحیح اور غلط کون ہے؟اور اس رسہ کشی کے نتیجے میںPDMکی ن لیگ اور جے یو آئی کس ڈگر پر چل رہی ہیں؟۔آئیے کچھ حقائق سمجھ لیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

آج کا وزیراعظم عمران خان اور شیخ رشید وہی ہیں جو2017ء میں تحریک لبیک کی حمایت کرتے تھے یا بدلے ہیں؟
عمران خان نے کنٹینرپر چڑھ کر اپنی ریاست بنارکھی تھی،18گریڈ کے پولیس افسر کی پٹائی بھی لگائی ۔حافظ حمد اللہ

حافظ حمداللہ کی طرف کئی اہم سوالات
بول نیوز پر اینکرامیر عباس کے پروگرام میں جمعیت علماء اسلام ف کے رہنما حافظ حمد اللہ صاحب نے تحریک لبیک کی موجودہ صورتحال پر کئی زبردست سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ میں پوچھتا ہوں کہ یہ وہی عمران خان ہے جو2017ء میںتحریک لبیک کی حمایت کررہاتھا؟ یا پھر بدل گیا ہے؟۔عمران خان نے اس وقت اپنے کارکنوں سے تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے میں شرکت کا کہا تھا اور شیخ رشید وحدہ لاشریک اسلئے کہہ رہا ہوں کہ ون مین شو ہے، اس وقت خود دھرنے میں بیٹھا تھا، آج وہی عمران خان اور وہی شیخ رشید ہیں یا بدل گئے؟۔
میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ تحریک لبیک ٹھیک ہے یا غلط ہے ،یہ میرا کام نہیں۔ اس وقت جو صورتحال پیدا ہوئی ، اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر پڑتی ہے۔ اگر چہ میں اس حکومت کو حکومت بھی نہیں مانتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی حکومت تھی تو تحریک لبیک کی حمایت عمران خان اور شیخ رشید نے کی تھی، اس وقت دھرنے کے شرکاء میں پیسے بھی بانٹے گئے تھے، (شرکاء کو واپس جانے کیلئے کرایہ دیا گیا تھا۔اینکرپرسن امیر عباس کی وضاحت) لیکن دہشت گردوں میں پیسے نہیں بانٹے جاتے ہیں۔ نیک محمد اور بیت اللہ محسود کو مارا گیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تحریک لبیک والوں کو مارو، یہ مسلمان ہیں اور جو پولیس والے مارے جاتے ہیں وہ بھی شہید ہیں اور تحریک لبیک کے کچھ لوگ بھی شہید ہوئے ہیں۔ ان سب کی ذمہ داری عمران خان اور اس کو لانے والوں پر ہی پڑتی ہے۔ عمران خان نے کنٹینر پر عدالت کے سامنے اپنی ریاست بنا رکھی تھی۔18گریڈ کے پولیس افسر کی پٹائی لگائی۔اس نے کیا نہیں کیا؟۔ لیکن لاڈلے کو حکومت میں لایا گیا۔ آج اس کے ذمہ دار یہ لوگ خود ہیں اور اپنے اعمال نامے کی جزا وسزا کیلئے اپنی ذمہ داری بھی پوری کریں۔ کل تحریک لبیک ،عمران خان اور شیخ رشید ایک پیج پر تھے تو آج کیوں بدل گئے ہیں؟ کیا یہ ہے تبدیلی سرکار؟۔

حافظ حمد اللہ کو حقائق کا کراراجواب
ایک معروف شخصیت نے کہا تھا کہ میں بیل سے ڈرتاہوں۔ دوستوں نے کہا کہ شیر، چیتے اور لگڑبگڑ سے ڈرنے کا کیوں نہیں کہتے؟۔ اس نے جواب دیا: جنگلی جانور سے ڈرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے،ان سے تو سبھی ڈرتے ہیںمگر بیل سے ڈرنے کی بات اسلئے کرتاہوں کہ بیل کے سر پر سینگ ہوتے ہیں لیکن دماغ نہیں ہوتا۔ معروف شیعہ عالم علامہ سید جواد حسین نقوی نے کہا کہ مذہبی طبقہ بھی دماغ نہیں رکھتا ہے اسلئے ان سے مجھے ڈرلگتا ہے۔ آج شیعہ مذہبی طبقہ علامہ سید جواد کے پیچھے پڑگیا ہے۔ تحریک لبیک کی قیادت سے کوئی اتنا پوچھے کہ فرانس کا سفیر جب نہیں نکالا گیا تو پہلے اس پر آپ حضرات نے اتنے عرصے خاموشی کیوں اختیار کررکھی تھی؟۔ ناموس رسالتۖ کسی خاص گروہ کے مفادات نہیں تو پھر اتنے عرصے تک منظر سے غائب ہونے کا کیا جواب ہے تمہارے پاس؟۔
جب نواز شریف نے طاہرالقادری کے مرکز میں گولیاں برساکر14افراد کو قتل کردیا تھا تو اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ڈی چوک کے دھرنے میں پولیس افسر کی پٹائی کا معاملہ اٹھاسکے۔ نوازشریف نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو قادیانی سمجھ کر منتخب کیا تھا اسلئے قومی اسمبلی میں قادیانیت کے حق میں ترمیمی بل لایا گیا۔ اس حکومت میں حافظ حمداللہ کی جماعت اور اس کی قیادت بھی شریک تھی۔ جب شیخ رشید نے اسمبلی میں آواز اٹھائی تو سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کے نام پر بھی حافظ حمد اللہ کی جماعت اپنے کولہے ہلانے کیلئے تیار نہیں تھے،البتہ جماعت اسلامی کو غیرت آگئی تھی۔ قومی اسمبلی سے وہ بل پاس ہوکر پھر سینٹ سے پاس نہیں ہوسکا تھا جس پر مولانا عبدالغفور حیدی نے کہا تھا کہ ”مجھے خوف تھا کہ اگر یہ بل سینٹ سے پاس ہوا تو مجھے قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیں گے”۔
علامہ خادم حسین رضوی نے استقامت دکھاکر بل کے محرک کو ذمہ داری سے ہٹانے پر حکومت کو مجبور کیا ، جنرل فیض حمید نے صلح میں اپناکردار ادا کیا تھا۔

طاقت کو غلط استعمال کرنا چھوڑدو
جب پارلیمنٹ میں قادیانیوں کے حق میں بل پاس کرنے کا انکشاف ہوگیا تو پنجاب بھر میں تحریک لبیک نے علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں بڑازور پکڑ لیاتھا۔ عمران خان بھی اس میں کود پڑا تھا اور مولانا فضل الرحمن نے بھی کہا تھا کہ” علامہ خادم حسین رضوی کو چاہیے تھا کہ ہمیں بھی اعتماد میں لیتے،یہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے اور ختم نبوت کے خلاف ہم کسی کو سازش نہیں کرنے دیں گے”۔
جب شیخ رشید اکیلا اسمبلی میں سب کو چیخ کر للکار رہاتھا تو جمعیت علماء اسلام حکومت میں شریک تھی اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی بت بن کر خاموشی کا لطف اٹھارہے تھے۔ پیپلزپارٹی کے ارکان بھی سکوت اختیار کئے ہوئے تھے مگر جب پنجاب میدانِ جنگ بن گیا تو سب نے ختم نبوت کیلئے جان دینے تک کی بات کرنا شروع کردی تھی۔ ہماری سیاست ایک منافقت سے تعبیر ہوسکتی ہے۔ جب طالبان اور تحریک لبیک والے جذبات اور اشتعال کا ماحول بناتے ہیں تو یہ لوگ مذہبی بن جاتے ہیں اور جب ان کی دُم کے نیچے کوئی انگل ہوتی ہے توپھر ان کا رُخ کسی دوسری طرف ہوجاتا ہے۔ باشعورپاکستانیوں نے اگر اُٹھ کر کوئی کردار ادا نہیں کیا تو افغانستان کا عالمی قوتوں اور ان کی پروردہ قوتوں نے جو حال کیا ہے ،پاکستان کی ریاست اور اس کی سیاسی ومذہبی قیادت اپنے کرتوت کے باعث اس انجام کو پہنچ سکتے ہیں کہ جس کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے ہیں۔
یہاں مہاتماگاندھی کو قتل کرنے والے ہندؤوں سے زیادہ مسلمانوں کے درمیان آپس کی فرقہ واریت اور نفرت ہے۔ یہاں لسانی تعصبات ہیں۔ یہاں سیاسی قائدین کی بھڑکائی ہوئی نفرتیں ہیں۔ اپوزیشن لیڈرشہباز شریف بھول رہا ہے کہ کل وہ کس قسم کی گفتگو کرتا تھا لیکن عمران خان کو یاد دلاتا ہے۔یہاں صرف اور صرف مفادات ہیں۔ صحافی ملک وقوم اور عوام کیلئے نہیں کسی مفادپرست لیڈر اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور راستہ ہموار کرتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کی سیاسی قیادت کی مثال دودھ کی کریم جیسی ہے لیکن یہ حرام جانوروں کے دودھ کی کریمیں ہیں۔

گیدڑ شیر کی کھال پہنے سے شیر نہیں بن جاتا، عمران خان نوازشریف بننے کی کوشش نہ کرے،مریم نواز۔ کہنا یہ چاہیے تھا کہ گدھا گیدڑ کی کھال نہیں پہن سکتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی قیادت کا کریم معاشرے کو دیامگر بدقسمت اسٹیبلشمنٹ نے یہ سب مکھن قیادت حلال دودھ سے نہیں بلکہ کتیا،گیدڑ اور گدھی کے دودھ کو مشکیزے میں ڈال کر نکالا ہے جس نے قوم کو تباہ کردیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور جمہوریت برائے نام ہے اور اس کا نظام اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کی وجہ سے پیدا گیری ہے ۔جب تک پیداگیری سے اس کو پاک نہیں کیا جائے یہ اسم بامسمّیٰ پاکستان نہیں بلکہ پلیدستان رہے گا۔ خان، وڈیروں ، نوابوں اور انگریز کے پیداکردہ ملا شوربازاراور پیران شیر آغا نے عوام کو تباہ کیا، سیاستدانوں اور سول وملٹری بیوروکریسی نے آخری حدپارکردی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا ماضی ،حال اور مستقبل سب ڈھینچو ڈھینچو کے سواء کچھ نہیں ہے۔ پہلے خودکار ناکارہ نظام کی وجہ سے آرمی چیف کی مدت توسیع میں جو جگ ہنسائی ہوئی تھی وہ سمجھ میں آتی تھی کہ اس سے پہلے جتنے ڈکیٹیٹر مسلط ہوئے تھے ،وہ سب اس فوجی ایکٹ کے تحت ہوئے تھے کہ ” جب کوئی ریٹائرمنٹ کے بعد مجرم ثابت ہوتا تو اس کو بحال کرکے سزا دی جاتی تھی” لیکن جب کوئی ڈکٹیٹر قبضہ کرتا تھا تو ہمارے سیاستدان اور عدلیہ مل بانٹ کر کہتے تھے کہ ” اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا”۔ کبھی کسی نے قانون کا جائزہ تک لینے کی زحمت نہ کی۔
اب وزیراعظم عمران خان کہتا ہے کہ” مجھ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت سے کسی کے اچھے تعلقات نہیں ہیں ۔کسی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے آئی ایس آئی چیف کی تقرری میں توسیع ہورہی ہے”۔ گدھے کو یہ پتہ نہیں کہ یہ جہانگیر ترین کا جہاز یا پاکستان ریلوے کا انجن تو نہیں ہے کہ اس میں تیکنیکی خرابی کی وجہ سے کوئی تاخیر ہوجائے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سول سپرمیسی کی آواز اٹھانے والیPDMکی قیادت کو بہت بڑی خارش شروع ہوگئی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا باعث عمران خان بن رہاہے۔ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے کو اصل مسئلے کا بھی پتہ نہیں کہ فوج کا اندورنی معاملہ ہے یا عمران خان سے چپقلش ہے؟۔ حکومت کے ترجمان بک رہے ہیں کہ اپوزیشن قومی اداروں کے تقدس کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ حالانکہ کونسی ہتھنی کی ڈیلوری کس آپریشن سے ہورہی ہے؟۔ ابھی تویہ بھی معلوم نہیں کہ نوراکشتی ہے یا واقعی کوئی مسئلے مسائل ہیں؟۔
جب بھوک اور اقتدار کی جنگ شروع ہوجائے تو پھر ملک وقوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ مقتدر طبقات طاقت اور بھوک کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ جنرل ایوب خان کو طاقت کا شوق تھا تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنم دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے طاقت کا کھیل اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے سب کچھ کیا لیکن پھر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں شکار ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق نے نوازشریف کو جنم دیا۔ نوازشریف تجارت پیشہ انسان تھا ، اس نے آئی ایس آئی ، اسامہ بن لادن اور جہاں جہاں سے بن پڑا تو اپنی تجارت بڑھائی۔ ملک وقوم میں کرپشن کرپشن کی رٹ لگی تو گہماگہمی میں پیپلزپارٹی اور نوازشریف کی باری باری حکومتوں کا بتدریج خاتمہ کرکے خان صاحب کو لایا گیا۔ بہت ہی معذرت کیساتھ لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو کتوں اور گدھوں سے بھی تشبیہ دی ہے۔ کتا بڑا کارآمد اور وفادار جانور ہے لیکن اس میں لالچ اور اپنی چوہدراہٹ جمانے کی کمزوری ہوتی ہے۔ گیڈر سے تشبیہ عام طور پربزدلی کی وجہ سے دی جاتی ہے اور گیدڑ کا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت ہنر مندی سے ڈرپوک ہونے کے باوجودبڑی صفائی سے چوری کرتا ہے اورایک ساتھ جمع ہوکرعجیب و غریب آواز نکالنے کی مہارت رکھتا ہے جس کو گیڈر بھپکی کہتے ہیں۔ گدھا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس کی آواز سب سے بدترین ہوتی ہے اور کوئی عقل اور عزت بھی نہیں رکھتا ہے۔
جب مشرقی پاکستان میں مجیب نے اکثریت حاصل کرلی اور ذوالفقار علی بھٹو کے پاس مغربی پاکستان میں اکثریت تھی تو بھٹو نے اسٹیلشمنٹ کیساتھ مل کر ہی اس ملک کو دولخت کردیا۔ جب93ہزار فوجی بھارت نے قید کرلئے تو بھٹو نے وفاداری دکھائی اور ان کو چھڑانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جنرل ضیاء الحق کو اپنا وفادار ،بزدل اور کمزور سمجھ کر آرمی چیف بنایا لیکن جب اپنی چوہدراہٹ کے چکر میں پڑگیا تو اپنے انجام کو جائز یا ناجائز بہرحال پہنچادیا گیا۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ”کتے میں10صفات ایسی ہیں جو ہر مؤمن میں ہونی چاہئیں” اور ذوالفقار علی بھٹو میں بہت سی خوبیاں تھیں لیکن انسانیت کا کوئی معیار نہیں تھا ۔ جنرل ضیاء الحق نے گیڈر نوازشریف کو پالا ۔ گیدڑ میں انسان بننے کی صلاحیت تو دور کی بات ہے کتا بننے کی صفات بھی نہیں ہے۔جب بینظیر بھٹو نے جمہوریت کیلئے مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کرMRDمیں جدوجہد شروع کی تو نوازشریف جنرل ضیاء الحق کی برسی پر گیڈر کی طرح آوازیں نکالتا تھا کہ ”تم شہید ضیاء الحق سے انگریز کے کتے نہلانے والے بھٹو کا مقابلہ کرتے ہو؟ اور پاک فوج زندہ باد اور جمہوریت مردہ باد ”۔ پھر جب اسلامی جمہوری اتحاد کے نام پر آئی ایس آئی نے پیسہ دیکر اس کو اقتدار میں لایا تو کرپشن کی بنیاد پر ہی صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کردیا۔ رحمن ملک نے اس وقتFIAکے ذریعے تمام ثبوت اکٹھے کرکے ایون فیلڈ لندن کے فلیٹ کا پتہ لگایا تھا۔ پھر جب مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرکے اس کی بہن بینظیر بھٹو کے اقتدار کا خاتمہ کیا گیا تو آصف علی زرداری کو جیل میں ڈال کر دوبارہ مرکز میں نوازشریف کو لایا گیا۔ بینظیر بھٹو پر بھی کرپشن کے کیس بنائے گئے اور نوازشریف کی گیدڑ بھبکیاں جاری رہیں۔ پھر نوازشریف نے گیڈر کی طرح اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے پرویزمشرف کو ہٹادیا لیکن اس کی چال ناکام ہوگئی۔ پھر گیدڑ سعودیہ کی جلاوطنی پر دستخط کرکے گیا تھا تو اس نے معاہدے کا انکار کیا۔ جب معاہدہ اس کے مطالبے پر سامنے لایا گیا تو اس نے کہا کہ10سال نہیں5سال کا معاہدہ کیا تھا۔ ایون فیلڈ کے کیس دوبارہ اس کے خلاف کھول کر بند کئے گئے۔ سزائیں بھی سنائی گئیں تھیں اور گیدڑ کی بچی مریم نواز نے گیدڑ بھبکی ماری تھی کہ ”میرے پاس بیرون ملک تو کیا ملک کے اندر بھی کوئی جائیداد نہیں ہے اور کچھ بھی میرے پاس نہیں، باپ پال رہا ہے”۔
جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گیا تو شہباز شریف رات کی تاریکیوں میں گیدڑ کی نمائندگی کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کرتا تھا اور گیڈروں نے پھر جمہوریت پر یلغار کردی۔ بجلی کے کھمبوں، چوکوں پر لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی بھپکیاں جاری رہتی تھیں۔ پھر جب اقتدار میں آگئے تو اسمبلی میں گیدڑ بھپکیوں سے پرہیز نہیں کیا۔ ایون فیلڈ کے فلیٹوں کا تحریری بیان جاری کیا کہ اللہ کے فضل وکرم سے الحمد للہ2005ء میں سعودیہ کی مل اور وسیع اراضی اور دوبئی کے مل کو بیچ کر اس رقم سے2006ء میں یہ فلیٹ لئے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت الحمد للہ میرے پاس ہیں جو عدالت کو عند الطلب دکھا سکتا ہوں”۔ پھر جب عدالت میں پیش کرنے کا وقت آیا تو قطری خط سے سب حقائق کو جھٹلادیا تھا اور پھر اس قطری خط سے بھی انکار کردیا تھا۔ یہ سب گیدڑ بھپکیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ نوازشریف شیر نہیں گیدڑ ہے ۔ ووٹ کو عزت دو کے نام پر فوج ہی کو مودرد الزام ٹھہرایا کہ ”مجھے کیوں نکالا” لیکن جب عمران خان کے دور میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن کی ضرورت پڑی اور آئینی ترمیم بھی ضروری تھی تو گیدڑ نوازشریف نے لندن سے ترمیم کی حمایت کردی اور پھر آرمی چیف کا نام لیکر بک بک بھی شروع کردی اور پھر خاموشی بھی اختیار کرکے نام لینا بھی چھوڑ دیا۔ اسلئے مریم نوازشریف کو چاہیے کہ عمران خان سے کہے کہ گدھا گیدڑ کی کھال نہیں پہن سکتا ہے۔ شیر کو بدنام کرنا بند کردیا جائے۔
حضرت علی اور حضرت امیر حمزہ جیسے مقدس صحابہ کرام کو شیر کہنا مناسب ہے مگر نوازشریف کی وہ کونسی ادا ہے جس پر اس کو شیر کہا جائے؟۔ اگر پارلیمنٹ میں اس کو زبردستی سے کسی نے ایون فیلڈ کا جھوٹا بیان پڑھنے پر مجبور کیا ہے تو پھر وہ بتائے لیکن اس کی پوری زندگی جھوٹ اور کرپشن سے عبارت ہے۔ ہمارے مولانا فضل الرحمن کوPDMکی قیادت کے نام پر ن لیگ کے دُم چھلے کا کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جس طرح آرمی چیف کی مدت توسیع کیلئے پتہ چل گیا کہ جس قانون کے تحت ڈکٹیٹر شپ پر قبضہ کرکے اپنی مدت بڑھاتے تھے تو یہ قانون ہی غلط تھا، اسی طرح سے فقہ کے نام پر جومسلکانہ مسائل بنائے گئے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ غلط ہیں۔ روزنامہ جنگ میں ” آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے رئیس دارالافتاء نے ایک سوال کے جواب میں لکھا تھا کہ ” میاں بیوی میں سے ایک کا انتقال ہوجائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اسلئے دونوں ایک دوسرے کیلئے اجنبی بن جاتے ہیں”۔ جس طرح عدلیہ کا قانون فوج کے جرنیلوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کیلئے الگ ہے اور غریب عوام کیلئے الگ ہے۔ اسی طرح علماء کی شریعت بھی طاقتور اور کمزوروں کیلئے الگ الگ تھی۔ معاشرے میں کمزور اور طاقتور کیلئے قانون الگ الگ ہے لیکن اسلام نے کمزوروں اور طاقتوروں کیلئے یکساں قانون بنائے تھے۔ ہماری جمہوریت اس وقت کامیاب ہوسکتی ہے کہ جب ہم اسلام کے مطابق کمزور اور طاقتور کیلئے ایک ہی قانون بنائیں۔ مذہبی جماعتیں پاکستان کے آئین سے بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی ہیں اسلئے کہ انہوں نے خودہی اسلام کو مسخ کردیا ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلام میں پردے کے تین اقسام کے احکام بتائے۔نمبر1یہ ہے کہ گھر کی چاردیواری سے باہر نہ نکلا جائے اور حجاب کے پیچھے بات کی جائے۔ نمبر2یہ کہ چہرے اوراندر کے کپڑوں سمیت پورے جسم کا نقاب کیا جائے اور نمبر3یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھ کر باقی جسم کا پردہ کیا جائے۔( فقہی مقالات :جلد چہارم )
اسلام میں کوئی ابہام نہیں ہے لیکن نالائق نام نہاد علماء نے ابہام پیدا کیا ہے اور اگر یہ بات کوئی نہیں مانتا ہے تو علماء سے پوچھا جائے کہ تم خود اور تمہارے گھر کی خواتین کس قسم کا پردہ کرتے ہو؟۔ ٹی وی کے اسکرین، جہازوں اور بیرون ملک سفر کرنے والے کی اکثریت نے اپنے گھر والوں کو بھی سیر کروائی ہے۔ ان کے عمل وکردار سے ان کے شرعی پردے کا تصور بھی واضح ہوجائے گا۔ جب ان کی خواتین مساجد اور مدارس کی چاردیواری میں فل پیک ہوکر نکلتی ہیں اور بازار ، مارکیٹ ، شاپنگ مال اور پارک میں جانے سے پہلے اپنا برقعہ اتار دیتی ہیں تووہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ جس طرح سعودیہ اور ایران کی خواتین جہازوں میں بیٹھتے ہی اپنا برقعہ اپنے ہینڈ بیگ میں ڈال دیتی ہیں اسی طرح مدارس کے ماحول سے نکل کر ان علماء کی خواتین بھی وہی کردار ادا کررہی ہیں۔
جب اسلام آباد میں ایک پختون بچے کو اغواء کرکے قتل کیا گیا تھا اور تھانے کا عملہ رپورٹ درج کرنے کی بجائے بچے کے والدین سے جھاڑو لگوارہا تھا تواس وقت معروف فیمنسٹ ہدیٰ بھرگڑی بھی وہاں مجمع اکٹھا ہونے پر پہنچی تھی اور دوپٹہ بھی اوڑھ لیا تھا۔ یہ اسلئے کہ اس ماحول کا تقاضہ تھا۔ اگر وہ مدارس میں داخل ہوتو ہوسکتا ہے کہ اپنے پورے جسم کو ڈھانپ کر آجائے اسلئے کہ وہاں ماحول کا بھی یہ تقاضہ ہوگا۔ عورت جہاں ماحول کو دیکھتی ہے تو اپنے تحفظ کیلئے اس طرح کا قدم بھی خود اٹھالیتی ہے۔ قرآن میں عورتوں کو جہاں جہاں پردے کا جس طرح سے بھی حکم دیا گیا ہے تو وہاں ماحول کے لحاظ کو سامنے رکھ کر حکم دیا گیا ہے۔
پاکستان میں بہت بھکاری عورتیں بھی پھرتی ہیں لیکن کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ سرعام کسی عورت نے اپنے بچے کو دودھ پلایا ہو۔ حرم کعبہ کے پاس بھکاری عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کیلئے اپنی چھاتیوں کو گریبان کے اوپر سے ہی نکال کر دودھ پلادیتی ہیں۔ دبئی کے کتب خانوں میں بسا اوقات برقعہ پوشوں کا منہ چھپا ہوا ہوتا ہے لیکن سینہ کھلا ہوا ہوتا ہے۔ پردہ کے شرعی اور رواجی تصورات میں بہت فرق ہے۔ پختون، بلوچ، پنجابی ، مہاجراور سندھی اپنے اپنے کلچر کے مطابق ہی پردہ کرتے ہیں۔شریعت کی غلط تشریحات کو بہت ٹھیک طریقے سے درست کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ” بیوہ کو چار ماہ دس دن کی عدت سے بھی پہلے اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں لیکن اس سے کوئی پکا عہدو پیمان نہیں کرسکتے”۔(سورۂ البقرہ ) سورہ ٔ طلاق میں عورتوں کی عدت وضع حمل یعنی بچے کی پیدائش ہے۔ اس پر اختلاف ہے کہ اگر حمل کی عدت چار ماہ دس دن سے کم ہو تو پھر بھی بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے یا نہیں؟۔ حضرت علی کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ کم ازکم چارماہ دس دن اور حمل کی صورت میں اس مدت ہی کو عدت کیلئے ضروری قرار دیتے تھے۔ جبکہ حدیث میں عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد چند روز کے بعد بھی نکاح کی گنجائش دی گئی ہے اور اس پر فقہاء نے فتویٰ بھی دیا ہے۔ اگر چارماہ دس دن کے بعد حمل والی کو بھی نکاح کرنے کی ضرورت پڑتی تو نبیۖ اس کی بھی اجازت دے سکتے تھے۔ خلع کی عدت ایک حیض حدیث صحیحہ میں ہے لیکن بعض فقہاء نے اس کو اسلئے مسترد کیا ہے کہ قرآن میں طلاق کی عدت تین حیض کے یہ منافی ہے، حالانکہ حمل کی صورت میں عدت کی مدت چند لمحات بھی ہوسکتی ہے۔ قرآن میں عدت کے حوالے سے اعداد و شمار اور احادیث کی رہنمائی پر فقہاء متفق بھی ہوسکتے ہیں۔
اللہ نے بیوہ کو چار ماہ دس دن کی عدت پوری ہونے کے بعد اپنی مرضی کا مالک بنایا ہے۔وہ اپنے مردہ شوہر سے نکاح برقرار رکھ کرقیامت کے دن تک اس کی بیگم رہ سکتی ہے اور عدت کے بعد وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ فقہاء نے جس طرح انتقال کے فوراً بعد نکاح ٹوٹنے کا تصور بنایا یہ قرآن وسنت کیخلاف ہے۔ حضرت عائشہ سے نبیۖ نے فرمایا کہ آپ مجھ سے پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا، حضرت ابوبکر کو ان کی بیگم نے غسل دیا اور حضرت فاطمہ کوحضرت علی نے غسل دیا۔ مفتی طارق مسعوداور علماء کے دل ودماغ سے جہالت نکالنے کی سخت ضرورت ہے۔اگر علماء ومفتیان کی مائیں اپنے شوہروں سے پہلے فوت ہوگئیں یا بعد میں تو نکاح ٹوٹنے کے بعد ان کی قبروں میں فلاں کی زوجہ بھی نہیںلکھنا چاہیے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حضرت علی اور جاوید غامدی، اسلام میں نسب کا مقام، حسینی اور یزیدی کا فرق، قریش کے بارہ خلفاء میں سے ہوں گے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حضرت علی اور جاوید غامدی
معروف اسلامی اسکالر جاویداحمد غامدی نے بالکل درست کہا ہے کہ عرب میں داماد اہل بیت میں سے نہیں ہوتا ہے۔ حضرت ابوسفیان کے داماد نبیۖ تھے لیکن نبیۖ ان کے اہل بیت نہیں تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میں تمہارے اندر دوبھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت”۔ ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں؟۔ جس کے جواب میں فرمایا کہ ” ازواج مطہرات اہل بیت ہیں لیکن یہاں نبیۖ کے دادا کے خاندان والے مراد ہیں”۔ دوسری روایت میں ہے کہ ” اس صحابی سے پھر پوچھا گیا کہ ” کیا ازواج مطہرات اس اہل بیت میں شامل نہیں ہیں؟۔ پھر صحابی نے عرض کیا کہ نہیں ، جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ جاتی ہے”۔ صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم ہے۔ نبیۖ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر بھی یہ فرمایا تھا کہ ” میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت، جب تک ان دونوں کو مضبوط پکڑے رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے”۔ جامع ترمذی۔ جس کامقام بخاری ومسلم کے بعد ہے۔ اور علامہ البانی نے تحقیق کرکے ان احادیث کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔
علماء وفقہاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ نبیۖ کے جن اہل بیت پر زکوٰة کا مال حرام ہے وہ نبیۖ کے دادا کی طرف سے وہ خاندان ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کی وجہ سے ان کی ازواج وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان میں حضرت علی اور آپ کے سب بھائی اور ان کے آل شامل ہیں۔
جاویداحمد غامدی صاحب نے اپنا نام شوقیہ غامدی رکھا ہے۔ قصائیوں نے قریش، تیلیوں نے عثمانی، جولاہوں نے انصاری اور دیگر لوگوں نے بھی خاندان کے نام بدلے ہیں۔ جب سورۂ نور کی آیات نازل نہیں ہوئیں تھیں تو نبیۖ نے اہل کتاب کے مطابق غیرمسلم اور مسلموں پر زنا کی حد سنگساری کی جاری کی تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا تو نبیۖاہل کتاب کے مطابق اس پر عمل کرتے تھے۔ ایک یہودی کی عورت کو بھی سنگسار کیا تھااور ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت بھی سنگسار کی گئی تھی۔ جس صحابیہ کوسنگساری کی سزا دی گئی تھی تو وہ غامدی قبیلے سے تھی جس کو غامدیہ کے نام سے ہی یاد کیا گیا ہے، جب اس کا بچہ اس قابل ہوا کہ وہ روٹی کھا سکتا تھا تو نبیۖ نے اس کے بعد حد جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب جاوید احمد غامدی کو یاد دلایا گیا کہ غامدی کی طرف نسبت کرنے سے یہ امکان بھی ہوسکتا ہے کہ اسی بچے کی نسل سے ہو۔ تو اس نے وضاحت کردی کہ میں نے غامدی شوقیہ نام رکھا ہے۔
نبیۖ کا قبیلہ بنوہاشم تھا تو ہاشمی وہی کہلاسکتا ہے جو ہاشم کی اولاد سے ہو۔ ابوسفیان سے قیصرروم نے پوچھا تھا کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کا خاندان کیسا ہے؟۔ حضرت ابوسفیان نے جواب دیا تھا کہ قریش میں سب سے معزز اور شریف ترین خاندان سے تعلق ہے۔ اگر غامدی صاحب کھل کر کہتے کہ میں احادیث صحیحہ پر یقین نہیں رکھتا ہوں تو کوئی بات نہیں ۔بہت سارے لوگ احادیث کو نہیں مانتے۔ حضرت عمر فاروق اعظم نے حدیث قرطاس میں عرض کیا تھا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ حنفی مسلک میں بہت سی احادیث کی تردید کی جاتی ہے لیکن غامدی صاحب عرب وعجم کے خاندانی نظام کو سمجھنے سے ہی قاصر لگتے ہیں۔ اگر ان کے خاندان والے غامدی ہوتے تو چچازاد کی حیثیت کا بھی پتہ ہوتا۔ اب شاید ان کے داماد کو بھی بعد میں شوقیہ غامدی ہی لکھنا پڑے گا۔ میرا مقصد کسی کی توہین نہیں ہے لیکن حقائق کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔

_ اسلام میں نسب کا ایک مقام _
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا ہے کہ ” اے بنی اسرائیل ! یاد کرو ، میری اس نعمت کو ،جو میں نے تم لوگوں پر کی تھی اور تمہیں تمام جہاں والوں پر میں نے فضیلت بخشی تھی”۔ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ فرمایا ہے کہ ”میں نے قومی حیثیت سے تمہیں نعمت بخشی تھی اور تمام جہاں والوں پر تمہیں فضلیت بخشی تھی ” ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں اور خاندانوں کو من حیثیت القوم نعمت بخشنے کا اعزاز دیا ہے۔ ہندوستان پر مغل خاندانوں نے حکومت کی ہے تو آج مغل برادری سے تعلق رکھنے والے بڑے فخر سے مغل ہی لکھتے ہیں۔ ہندوستان پر کچھ عرصہ تک خاندانِ غلامان نے بھی حکومت کی ہے مگر کوئی اپنے آپ کو خاندانِ غلامان کی طرف منسوب کرنے کی جسارت نہیں کرتا ہے اسلئے کہ لوگ صرف حکومت کو نہیں بلکہ خاندانی حیثیت کو بھی دیکھتے ہیں۔
رسول اللہۖ کو اللہ تعالیٰ نے قریش کے معزز ترین خاندان سے مبعوث فرمایا تھا لیکن آپ ۖ کے چچا ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت بھی قرآن میں آئی ہے۔ بنی اسرائیل کو جہان والوں پر اسلئے فضیلت بخشی گئی تھی کہ انبیاء کرام اور بادشاہوں کی کثرت اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں پیدا کی تھی لیکن پھر قرآن میں ان کے بارے میں یہ بھی واضح ہے کہ ضربت علیھم الذلة والمسکنة والباء بغضبٍ من اللہ ”ان پر ذلت،دربدری اور پھٹکار ان پر اللہ کے غضب کی وجہ سے مسلط کی گئی”۔ یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ”جاؤ ، آپ اور آپ کا ربّ خود ہی لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں”۔ القرآن۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے زعم کے مطابق تشدد کرکے پھانسی پر چڑھایا تھا مگر اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت زیادہ اتباع کرنے والے عطاء کردئیے۔ یہود اپنے اعلیٰ نسب کے زعم میں پوری دنیا میں دربدری کا عذاب کھا رہے ہیں۔
رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی تھی، کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عجم کو عرب پر اور عرب کو عجم پر کوئی فضلیت حاصل نہیں ہے، فضلیت کا معیار تقویٰ (کردار)ہے”۔
انصار ومہاجرین میں خلافت کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے اپنا مقدمہ اس حدیث کی بنیاد پر جیت لیا کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” امام قریش میں سے ہوںگے”۔ رسول اللہۖ نے فرمایا” قیامت تک ائمہ قریش میں سے ہوںگے چاہے دو آدمی باقی رہیں”۔(بخاری ومسلم )انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ حضرت ابوبکر و عمر سے خلافت کے مسئلے پر سخت ناراض تھے ،یہان تک کہ انکے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔ جنات نے ان کو قتل کردیاتھااسلئے ان کے قاتلوں کو تلاش کرکے سزا نہیں دی جاسکی تھی۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے اپنے بعد اس بات کا خیال رکھا تھا کہ کسی کو نامزد کرکے اس خلافت کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس بہت شاکی رہتے تھے کہ جس طرح انصارسے زیادہ خلافت کا استحقاق قریش کا تھا تو اس طرح اہل بیت کی حدیث سے قریش میں خلافت کیلئے زیادہ اہلیت ان میں تھی۔ حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کی بجائے حضرت عمر کو خلیفہ بنانا مناسب سمجھا اور اگر وہ اپنے بیٹے کو نامزد بھی کردیتے تو اس کو کثرت رائے سے مسترد کیا جانا تھا۔ حضرت عمر نے بعض لوگوں سے مشاورت کی تھی تو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر کی نامزدگی کا مشورہ بھی دیدیا۔ حضرت عمر نے ان پر پابندی لگادی کہ آپ کو خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ ” جو طلاق کا مسئلہ نہیں سمجھ سکا اس کو امت میں خلافت کا مسئلہ کیسے سپرد کرسکتے ہیں”۔ بنوامیہ اوربنوعباس نے قبضہ کیاتو آج یزیدیوں کاعراق وشام میں اپنا الگ مذہب اور قوم بھی ہے۔

حسینی ویزیدی میں فرق کیا؟
عراق وشام میں ایک فرقہ ہے جو خود یزیدی کہتے ہیں۔ وہ قرآن کومانتے ہیں اور توراة وانجیل اور حضرت ابراہیم و نوح سب کو مانتے ہیں۔ عام مسلمان بھی سب کو مانتے ہیں لیکن وہ خود کو مسلمان نہیں کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہی اہل حق ہیں اسلئے کہ تمام مذاہب کا ملغوبہ ہیں۔ جب بنو امیہ کے اقتدار کو بہت ظالمانہ طریقے سے بنوعباس نے ختم کردیا تو شاید یزیدی اسلام سے کنارہ کش ہوگئے۔ مشرکینِ مکہ ، یہود اور نصاریٰ سب دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ابراہیمی ہیں اور حضرت ابراہیم ان کے تھے، جس کی اللہ نے قرآن میں نفی کی ہے۔ داعش کی طرف سے عراق وشام میں یزیدی مذہب کی خواتین کو زبردستی لونڈی بھی بنایا گیا تھا اور اس پر دستاویزی ویڈیوزبھی موجود ہیں۔ تحقیق کرنے والوں نے اس پر قسم قسم کے تجزئیے کئے ہیں کہ یزیدی مذہب کا تعلق کس سے ہے؟۔
اہل تشیع اپنے آپ ہی کو حسینی سمجھتے ہیں لیکن ہندوؤں میں حسینی موجود ہیں۔ اہل سنت کی اکثریت بھی یزیدی کے مقابلے میں خود کو حسینی قرار دیتی ہے ۔ شیعہ میں آغاخانی اور بوہری ایک شاخ کی دو کڑیاں ہیں۔ان کے نزدیک حضرت حسن حضرت علی کے بعد امام نہیں تھے بلکہ حضرت حسین امام تھے۔ جب ایک امام نے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین نامزد کردیا تو وہ اپنے والد کی وفات سے پہلے ہی فوت ہوگئے، جس کی وجہ سے فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے نزدیک امام نے دوسرے بیٹے کو اپنا جانشین نامزد کردیا۔ جس سے مہدی غائب تک بارہ اماموں کا سلسلہ پورا ہوگیا۔ جبکہ آغاخانیوں اور بوہریوں کے نزدیک ایک دفعہ امام مقررہوگیا تو اس کو منصب سے نہیں ہٹایا جاسکتا تھا،اسلئے اسماعیل کی اولاد میں امامت منتقل ہوگئی۔ اسماعیلیوں نے فاطمیوں کے نام سے تاریخ میں حکومت بھی کی ہے جبکہ امامیہ اثنا عشریہ پہلی مرتبہ ایران میں برسرِ اقتدار آئے ہیں۔
ایک معروف شیعہ کی معروف کتاب ”الصراط السوی فی احوال المھدی” میں ایک روایت لکھی ہے کہ ” حضرت آدم سے حضرت عبدالمطلب تک نبوت و ولایت کا نور ایک ساتھ منتقل ہوتا رہاہے۔ پھر نور نبوت حضرت عبداللہ سے منتقل ہوکر حضرت محمدۖ کی بعثت سے دنیا کو پہنچا اور ولایت کا نور حضرت ابوطالب سے منتقل ہوکر حضرت علی کی شکل میں دنیا کو پہنچا”۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت حسن میں ولایت کا نور منتقل ہوا تو پھر امام حسن سے ان کے بھائی امام حسین میں کیسے منتقل ہوسکتا ہے؟۔ اگر براہِ راست حضرت امام حسین کی شکل میں منتقل ہوا تو امام حسن کی ولایت کہاں سے ثابت ہوگی؟۔اور اگر دونوں میں منتقل ہوا تھا تو پھر دونوں کی اولاد میں اپنی اپنی حیثیت میں باقی رہنا چاہیے۔ اور جب ایک مرتبہ ایک امام نے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کو نامزد کردیا تھا توپھر نورولایت کسی دوسرے بیٹے کی طرف کیسے جاسکتا تھا؟۔ شیعہ منطقی لوگ ہیں اور اس منطق کا وہ خود ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں اور یہ انکے آپس کا معاملہ ہے۔
حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ نے ولایت کے اعتبار سے اثنا عشریہ کو اپنی کتابوں میں جو اہمیت دی ہے ، وہ بھی اپنی جگہ بہت ہے اور اس سے زیادہ شاید اہل تشیع بھی تصور نہیں کرسکتے ہیں لیکن افغانستان میں جس طرح داعش نے پہلے جمعہ کو قندوز اور پھر قندھار میں شیعوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے تو یہ صورتحال بہت خطرناک ہے۔ اسلام میں حسینیت کا دعویٰ کرنے والے شیعوں کو تو بہت دور کی بات ہے،یزیدی مذہب کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا بھی جائز نہیں ہے جو اسلام کھلم کھلا چھوڑ چکے ہیں۔ہم امید رکھتے ہیں کہ تہذیب کے دائرے میں اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے سے گریز کیا جائیگا،ورنہ پھر سب کا نقصان ہوگا۔

بارہ خلفاء قریش میں ہونگے
اہل سنت کیلئے سب سے مشکل حدیث یہی ہے کہ رسول اللہۖ نے جس کی وضاحت فرمائی ہے کہ ”بارہ خلفاء قریش میں ہونگے” لیکن تاریخ میں ایسی کوئی بارہ شخصیات نہیں ہیں جن کو امتیازی حیثیت حاصل ہو۔ خلفاء راشدین اور امام حسن کے تین سالہ دور کوخلافت راشدہ میں شمار کرتے ہیں ۔پھر حضرت امیرمعاویہ کے بعد یزیداور بنوامیہ وبنوعباس میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ ایسی ممتاز شخصیات کو ڈھونڈ نکالنے میں ناکام ہیں جن کو مہدی آخری زمان سے ملاکر بارہ کی تعداد پوری کی جاسکے۔ جبکہ خلافت عثمانیہ والے قریش نہ تھے۔ جب اہل تشیع اہل سنت کو اس حدیث میں لاجواب پاتے ہیں تو ان کے لہجے میں سختی ، تلخی اوردرشتی آجاتی ہے۔جب اہل سنت ان کو معقول جواب نہیں دے سکتے ہیں تو ان کے خلاف غلط پروپیگنڈے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔
اہل تشیع کے ہاں ”الصراط السوی فی احوال المہدی” بہت معتبر کتاب ہے اور اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ”مہدی آخرزمان کے بعد گیارہ ایسے افراد بھی اہل بیت میں سے آئیں گے جن کو حکومت ملے گی”۔ لیکن پھر وہ اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ افراد آئیںگے تو اس کا آخری امیر ہونا کیسے ثابت ہوگا؟ روایت کو صحیح ماننے کے باوجود اپنے مسلک کی خلاف ورزی کی وجہ سے اس پر سوال کھڑا کردیا ہے۔ جس حدیث میں ہے کہ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول میں ہوں، اس کے درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہیں”۔ اس کوبھی الصراط السوی فی احوال المھدی نے صحیح مانا ہے لیکن مہدی آخرزمان کا تعلق تو آخری زمانے اور حضرت عیسیٰ کے دور سے ہوگا اسلئے الصراط السوی فی احوال المھدی کے مصنف نے لکھ دیا ہے کہ ”ہوسکتا ہے ، اس درمیانہ زمانے کے مہدی سے مراد بنوعباس کے دور کے مہدی ہوں”۔ مولانا بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نے اپنی کتاب ” ترجمان السنة” میں وضاحت کی ہے کہ ”بنوامیہ کے عمر بن عبدالعزیز بھی مہدی تھے مگران کے دور میںانصاف پورا قائم نہیں ہوسکا تھا اور مہدی کے تمام صفات اس میں نہیں تھے اسلئے اصل مہدی بعد میں آئیںگے”۔ علامہ جلال الدین سیوطی اور پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے الحاوی للفتاویٰ اور تصفیہ مابین شیعہ وسنی میں واضح کیا ہے کہ” بارہ امام آئندہ ہی آئیں گے جن پر امت کا اجماع بھی ہوگا۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا خلیفہ نہیں گزرا ہے جس پر امت کا اجماع ہوا ہو”۔الحاوی للفتاویٰ میں علامہ سیوطی نے روایت نقل کی ہے کہ ” مہدی کے بعد قحطانی امیر ہوگا، جسکے کانوں میںسوراخ ہونگے اور وہ مہدی سے ہدایت میں کم نہیں ہونگے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس امت کے آخری امیر کی بعثت کریںگے جو نیک ہوں گے اورجن کے دور میں عیسیٰ ہوں گے”۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں مندرجہ بالا روایت میں سے آخری امیر کا ٹکڑا نقل کیا ہے مگر مہدی اور قحطانی امیر کی بات چھوڑ دی ہے اور یہ بہت بڑی خیانت ہے اور اس پر آنکھیں بند کرنے کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے ۔ قحطانی امیر سے پہلے کے مہدی کو درمیانہ زمانے کا مہدی قرار دیا جائے تو شیعہ سنی کا اس پراتفاق بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح درمیانے زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد کو مہدی قرار دیا جائے تو شیعہ سنی روایات اور مسلکوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ علامہ طالب جوہری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں اہل بیت کا فرد ہوگا۔ یہ کوئی دوسرا دجال ہوگا اور اہل بیت سے مراد سید گیلانی ہوسکتا ہے جو امام حسن کی اولاد سے ہوگا۔ (ظہور مہدی: علامہ طالب جوہری)
پیش گوئیوں پر یقین کرنے والوں کو حقائق چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟۔

اسلام کی بیخ کنی میں فقہاء کا کردار!
کراچی کی معروف مذہبی شخصیت علامہ شاہ تراب الحق قادری نے جمعہ کے دن، رمضان کے مہینے میں اپنے مقتدیوں سے یہ ایک فقہی مسئلہ بیان کیا تھا کہ ”روزے کی حالت میں پوٹی کی جائے تو مقعد سے آنت نکلتی ہے جو پھول کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس پھول کو دھونے کے بعد کپڑے سے نہ سکھایا جائے اور وہ پانی سے گیلا اندر چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ فطری طور پر آنت خود بخود اندر چلی جاتی ہے تو سانس پھلا کر اس کو مقعد کے اندر جانے سے روکا جائے اور اگر پانی سے دھونے کے بعد اس کو مقعد کے اندر جانے سے نہیں روکا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا”۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے معتقد نے شاہ صاحب کے ہاں جمعہ پڑھا تھا اور وہ میرے پاس آیا۔ میں نے اس وقت ماہنامہ ضرب حق میں اس کو مین صفحے پر جگہ دی اور اس غلط مسئلے کی تردید کردی اور بریلوی دیوبندی علماء نے ہمارے اخبار کے توسط سے اس کی تردید کردی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ فقہاء کی معتبر کتابوں میں موجود ہوگا اسلئے مذہبی طبقات نے اپنی مساجد اور مدارس کے پلیٹ فارم سے اس کی تردید نہیں کی۔ پھر دعوت اسلامی کے مفتیوں نے اپنی مجالس اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے اسی مسئلے کو دوبارہ خوب پھیلادیا اور اس میں یہ اضافہ بھی کیا کہ ”استنجاء کرتے وقت سانس روک دی جائے اسلئے کہ اس بے احتیاطی کی وجہ سے پانی مقعد میں داخل ہوکر روزہ ٹوٹ سکتا ہے”۔
جب ہم نے2004ء میں مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب سے مسئلہ اٹھاکر اخبار میں شہہ سرخی سے شائع کیا کہ ” سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے” اور عوام کی طرف سے اس کے خلاف ردِ عمل سامنے آیا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ” فقہی مقالات جلد چہارم” اور ” تکملہ فتح المہلم” سے اس کو نکالنے کا اعلان کردیا اور توجہ دلانے پر شکریہ بھی ادا کردیا۔ لیکن ایک دو دن بعداس نے پھر اسی روزنامہ اسلام میں اشتہار دیا کہ ” مجھ پر بہتان لگانے والے اللہ کا خوف کریں”۔ اور پھر ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں اپنی کتابوں سے مسئلے کو نکالنے کی وضاحت والا مضمون اور بہتان لگانے والا اشتہار دونوں ایک ساتھ شائع کردئیے۔ یہ سب میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ عمران خان کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں اپنے مسلک کی تائید کرتے ہوئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کیا اور سوشل میڈیا پر مولانا الیاس گھمن نے بھی حنفی مسلک کی تائید کردی ہے۔
جاہل مذہبی طبقے کو جاہل علماء ومفتیان نے جاہل فقہاء کی کتب کے ذریعے جس طرح قرآن وسنت کے رشد وہدایت سے دور کردیا ہے،اگر فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات سے نکل کر عوام فطری دین اسلام کی طرف راغب ہوگئی تو بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔ قرآن نے جاہل اور ہٹ دھرم عربوں کو اس وقت راہِ حق پر ڈال دیا تھا جب دنیا بے شعوری کی اندھیرنگری میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آج فکر وشعور کے عروج کا دور ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے موبائل فون کے کمالات سے آگاہ ہیں تو قرآن وسنت کی فطری تعلیمات عالمِ انسانیت کو کس طرح اس ظلم وجبر کے نظام سے نجات نہیں دلاسکتی ہے؟۔ بھونکنے والا لیڈر، گیدڑ بھبکیاں مارنیوالی عورت اورڈھینچو ڈھینچو کرنے والے حکمران ابھی اپنے آپ زندہ باد کا نعرہ لگاکر عوام کو اسلئے بیوقوف بنارہے ہیں کہ مذہبی طبقات نے اپنے لوگوں کو ان سے بھی زیادہ بیوقوف بنارکھا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو چاہیے کہ مذہبی طبقے کے جھوٹ کو اور مقتدر طبقات کے لوٹ کھسوٹ کو عوام کے سامنے لائیں۔ جاہلیت، مفادات اور تعصبات کا خاتمہ کرکے پاکستان کو ترقی وعروج کی طرف لے جائیںگے تویہ دور اور پاکستان ایک عظیم انقلاب کابہت بڑا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv