پوسٹ تلاش کریں

احمد شاہ ابدالی کی پہلی دُرّانی آزاد پشتون ریاست تاریخی حقائق کی روشنی میں

احمد شاہ ابدالی کی پہلی دُرّانی آزاد پشتون ریاست تاریخی حقائق کی روشنی میں

کانیگرم میںسید اور یزید کی اولاد سُفا خیل کے درمیان معرکہ آرائی سے خلافت راشدہ کادوبارہ آغاز ہوگا؟ یزیدت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

ڈھٹائی کی اگر کوئی حد ہے تو اس سے بھی پرے ہو تم
وہی جڑ کاٹتے ہو جس کے ہونے سے ہرے ہو تم

احمد شاہ ابدالی کا تعلق ملتان سے تھا۔ جس نے پختون قوم کی پہلی آزاد ریاست قائم کی۔ ابدالی قبیلہ درانی کا حصہ تھا اسلئے احمدشاہ ابدالی نے اس کا نام درانی حکومت رکھ دیا۔ درانی قبیلہ صحابی قیس عبدالرشید کی نسل سے ہے۔ملتان کے بہادر لوگوں نے ایران اور مغل بادشاہوں کے علاوہ چنگیز خان کی مزاحمت میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے بادشاہ نادر شاہ نے ہندوستان کو فتح کیا اور پھر احمد شاہ ابدالی نے پہلی مرتبہ پختون قوم کی دنیا میں آزاد حکومت قائم کردی۔ ایک طرف روس پیش قدمی کررہاتھا اور بخارا وسمر قند اسلامی دنیا ہڑپ کرتا جارہا تھا تو دوسری طرف برطانیہ نے ”ایسٹ انڈین کمپنی ” کے نام سے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ جب شجاع پاشا کی افغانستان میں حکومت اندورنِ خانہ چپقلش کا شکار ہوگئی تو برطانیہ کی چاہت تھی کہ ایسی حکومت افغانستان میں قائم ہو کہ روس یہاں قبضہ نہ کرسکے۔ جب ایران نے افغانستان کے ہرات پر قبضہ کرلیا تو برطانیہ نے دوست محمد خان کو پیشکش کی کہ ” اپنی افواج بھیج کر ایران کو ہرات سے نکال دیں گے”۔ افغان بادشاہ دوست محمد خان نے یہ شرط رکھی کہ راجہ رنجیت سنگھ سے خیبر پختونخواہ و بلوچستان کے علاقے وا گزار کرکے دے تو یہ پیشکش قبول ہے ۔ برطانیہ نے کہا کہ راجہ رنجیت سنگھ دوست ہے، اس کے خلاف مدد کی شرط قبول نہیں ہے اور خلیج فارس کے راستے سے اپنی افواج کو ہرات پہنچادیا اور ایران کو وہاں سے مار بھگایا۔ برطانیہ کو خطرہ تھا کہ اگر ایران نے افغانستان کو کمزور کیا تو روس قبضہ کرلے گا۔ پھر1839سے1842تک رنجیت سنگھ کی مدد سے افغانستان پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا لیکن بہت بھاری جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ امیر دوست محمد خان کی چاہت تھی کہ روس اور برطانیہ کی پروکسی کا فائدہ اٹھاکر اپنا اقتدار قائم رکھے۔1863میں اس کی وفات کے بعد امیر شیر علی بادشاہ بن گیا جو برطانیہ کا سخت مخالف تھا۔1877میں محسود قبائل کا وفد سیدامیرشاہ کی قیادت میں گیا ۔ پھر چند ماہ بعد بیٹنی قبائل کا وفد سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا۔ امیر شیر علی نے1878میں روس کا وفد کابل بلایا اور پھر برطانوی ہند کے انگریز حکمران نے مطالبہ کیا کہ ہمارا وفد بھی آئیگا لیکن امیر شیر علی نے مستر د کردیا۔ جس کے بعد انگریز نے دوبارہ افغانستان پر قبضہ کرلیا اور پھر دوست محمد خان کے بیٹے یعقوب خان سے معاہدہ کیا۔ برطانیہ کی طرف سے سالانہ6لاکھ گرانٹ طے ہوا۔ افغانستان کی خارجہ پالیسی برطانوی ہند کی پابند بنادی۔ پھر گرانٹ12لاکھ اور آخر میں18لاکھ سالانہ کردی ، ڈیورنڈ لائن کے معاہدہ پر دستخط کرائے ۔ یہ معاہدہ1833میں رنجیت سنگھ اور شجاع پاشا کے درمیان ہوا تھا کہ رنجیت سنگھ شجاع پاشا کو افغانستان کے اقتدار پر بٹھانے میں فوجی طاقت سے مدد کرے گا اور اس کے عوض خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ان علاقوں کو رنجیت سنگھ کے حوالے کرے گا۔ یہ مقبوضہ علاقہ رنجیت سنگھ نے طاقت کے زور سے فتح کیا تھا۔ پھر انگریز نے رنجیت سنگھ کے بعد قبضہ کرلیا۔ پشتون قوم پرست اور مذہبی طبقے میں نظریاتی کشمکش رہتی ہے جس کی بڑی بہترین ترجمانی شاعرعبدالباری جہانی نے کی ہے۔
”ملا اور پشتون” کے عنوان سے جس طرح کی شاعری کی ہے تو دل چاہتا ہے کہ ملا کی جگہ پشتون قوم پرست بہت اچھا ہے۔ ملا کے بارے میں کہا کہ بہت تقویٰ دار تھا۔ جہنم کے عذاب کا بتاتا تھا کہ کیسے بچھو اور سانپ ہوںگے۔ ایک سانپ کے70ہزار سر اور ایک سر کے70ہزار دانت ہوں گے۔ جنت میں حوروں کی فوجیں ہوں گی اور غلمان خدمت گزار کھڑے ہوں گے اور گھوڑوں کی دوڑ ختم ہوگی مگر ایک ایک جنتی کی زمین ختم نہیں ہوگی۔ملا بہت مقبول تھا ،لوگ بڑی تعداد میں اس کی بات سنتے تھے اور اس کے گرویدہ تھے۔ پشتون نے کہاکہ جب جنت میں کوئی دشمنی نہیں ہے، اپنے عزیزوں کے ساتھ اصل اور کم اصل کا جھگڑا نہیں۔ آباء واجداد پر فخر نہیں اور قتل وغارتگری نہیں ہے تو پھر جنت میں مُلا جائے گا یا مرزا ۔ یا کوئی بے غیرت ۔ پشتون کو مفت کی روٹی اچھی نہیں لگتی۔ جب تک بندوق ، گولیاں اور چیلنج کا سامنا نہ ہو تو ایسی زندگی مجھے نہیں چاہیے۔
پشتون قوم کی پہلی آزاد ریاست احمد شاہ ابدالی سے شروع ہے ۔ جو ایرانی فوج کا عام سپاہی تھا پھرقابلیت سے سپاہ سالار بن گیا اور پھر ایک آزاد افغانستان کی سلطنت قائم کردی تھی۔ افغانستان کے بادشاہوں میں دو کمزوریاں ہمیشہ رہی ہیں ایک آپس کی قتل وغارت گری اور بد اعتمادی اور دوسرا بیرون ملک سے مدد وامداد کے ذریعے اپنے اقتدار کا قیام اور اپنے لوگوں کو دبانے اور کمزور کرنے کی بدترین سازشیں۔ اسلام اور پشتون ولی کا استعمال بھی مفادات کیلئے کیا ہے۔ عبدالصمد خان شہید اور خان عبدالغفار خان کے بچوں اور عام پشتونوں میں بہت فرق تھا۔ ایک طرف تعلیم یافتہ ، مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے اور دوسری طرف روٹی کو ترسنے والے جاہل پشتون تھے۔ لیڈر عوام میں سے نہ ہو تو پھر فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔یا توپشتون قوم کی بیٹیاں اور بیگمات بھی تعلیم وشعور میں قیادت کے درجے کوپہنچتے اور یا پھر قیادت کی اولاد بھی انہی کی طرح ان پڑھ ،جاہل اور غربت کی لیکر کے نیچے رہتے۔ اقبال نے باغی مریدکا کہا تھا کہ
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا چراغوں سے ہے روشن
اگر پشتون عورت کو حقوق اسلام اور غیرت کی بنیاد پر دئیے جاتے تو عالمی دلالوں ،مقامی قذاقوں ، بھڑوہ گیری سے نجات ملتی۔اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور اپنا حال درست کرنا ہوگا اور اپنے بہتر مستقبل کیلئے ایک لائحۂ عمل تشکیل دینا ہوگا۔تاریخ مرتب کرنی ہوگی کہ پختونوں سے کیا غلطیاں ہوئیں؟ ۔ ہر چیز دوسروں کی گردن پر ڈالنے سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ تکبر و غرور اور اکڑ پن سے زوال کی طرف معاشرہ جاتا ہے۔ اگر موٹر سائیکل ، گاڑی اور جہاز کا سیلینسر خراب ہوجائے تو اس کے ٹھیک کرنے سے موٹر سائیکل اور گاڑی چلے گی اور جہاز بھی زبردست اُڑان بھرے گا۔ عوام میں زوال کی انتہاء ہوگئی ہے لیکن جس دن ان کے سیلینسر کھل گئے تو پھر تخریب وفساد سے نکل کر تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہونا شروع ہوجائیں گے۔ قبض والے کو پچکاری لگے تو مرنے سے بچت ہوجاتی ہے۔
امیر امان اللہ خان نے وزیرستان میں برطانیہ پر حملہ کیا تو بھاگتے ہوئے انگریز فوج کو قتل کرنا آسان تھا مگر انکے ساز و سامان اور راشن کی طمع میں قتل نہ کر سکے۔ بدرکیلئے نبی ۖ اور صحابہ مال بردار قافلے کی غرض سے گئے لیکن وہاں اپنے سے کئی گنا لشکر کا سامنا اللہ نے کرادیا تو فتح سے نواز دیا ۔البتہ فدیہ لینے کا مشورہ دینے پر بہت سخت ڈانٹ بھی پلادی تھی۔
لاہور کے صحافی انوار ہاشمی نے وزیرستان پر کتاب لکھ دی تو ان کی مہربانی ۔ بہت حقائق بھی پیش کردئیے۔ البتہ اس کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پختونوں کو وحشی کی جگہ مفاد پرست لکھنے میں حرج نہیں لیکن جنگ عظیم دو ئم میں جرمنی کیخلاف آل انڈیا مسلم لیگ نے انگریز فوج کی غیر مشروط حمایت کی۔ کانگریس نے حمایت کیلئے آزادی کی شرط لگائی تھی۔ تاریخ سچی واضح کرنا چاہیے کہ انگریز نے کانگریس کا مطالبہ نہیں مانا اورانکے قائدین کو جیلوں میں بند کردیا مگر کیا جنگ میں فوج کی شمولیت نے آزادی دلائی ہے؟۔یا مسلم لیگ خدا واسطے انگریز کی پٹھو تھی؟
صحابہ کرام میں بدری صحابہ کے درجات بلند ہیں مگرقرآن میں ان کو ڈانٹ اسلئے پڑی کہ انہوں نے موودة فی القربیٰ کے جرم کا ارتکاب کیا تھا؟۔ موودة فی القربیٰ کیا ہے؟۔ : قل لا اسئلکم علیہ اجرًا الا الموّدة فی القربیٰ ” کہہ دو کہ میں تم سے اس پر اجر نہیں مانگتا مگر قرابتداری کی محبت”۔
اگر قریش مکہ قرابتداری کی محبت کے مطابق سلوک کرتے تو مدینہ ہجرت اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے حسد سے کنویں میں ڈالا۔ بدر میں نبی ۖ کے چچااور داماد کا لحاظ کرکے قتل نہیں کیا اور پھر فدیہ لیکر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اللہ نے فرمایا: ماکان للنبی ان یکون لہ اسریٰ حتی یثخن فی الارض تریدون عرض الدنیا واللہ یرید اللہ لاٰخرة ” نبی کیلئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہائے ۔ تم لوگ دنیا کے معاملات چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔
مشرکین مکہ دشمنانِ اسلام نے فطری قرابتداری کے جذبے کا لحاظ نہیں رکھا تو اللہ نے رسول اللہ ۖ سے فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ میں اپنی تحریک پر کوئی معاوضہ نہیں لیتا لیکن کم ازکم قرابتداری کی فطری محبت کا تو لحاظ رکھو۔ دوسری طرف بدر میں جب مسلمانوں نے اس فطری محبت کا لحاظ رکھا تو ڈانٹ پڑگئی۔ یہی وہ اعتدال کا جذبہ ہے جو صراط مستقیم ہے جس کو نماز کی ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے اندر اللہ سے ہم مانگتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ، مغل ، خاندان غلاماں ،درانی، رنجیت سنگھ، انگریز اور موجودہ حکمران تک اعتدال کا لحاظ رکھنا ایک فرض تھا اور اُحد میں مسلمانوں کو زخم پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس کا بہت سخت بدلہ لیں گے۔ اللہ نے کہا کہ ”کسی قوم کے انتقام کا جذبہ یہاں تک نہ ابھارے کہ تم اعتدال سے ہٹ جاؤ” ۔
آدمی غلطی نہیں مانتا تو اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔ کانیگرم میں قبائلی جائیداد کا تعلق موروثی نظام سے ہے۔ جو نفع ونقصان کی بنیاد پربھی ہوتا ہے اور اخلاقی اقدار کے رہینِ منت بھی۔
کانیگرم پہاڑی علاقہ میں ہم پیروں کا آٹھواں حصہ ہے۔ سوال ہے کہ آٹھواں کب سے ہے؟۔ ہمارامرکزی کردار تھا۔ پیسوں کے لحاظ سے مضبوط تھے ، نقصان کا آٹھواں حصہ اٹھاتے تھے مگر نفع نہ اٹھاتے ۔ جنگلات کی کٹائی کھلتی تھی تو ہم لکڑیاں کاٹنے کے بجائے خریدتے۔ کانیگرم کی عوام اسلئے اپنے حدود سے زیادہ ہماری عزت وقدر بھی کرتی تھی۔ عزیزوں کی قبریں تھیں اور نہ موروثی جائیداد۔ جو کچھ ہے خریدا ہواہے یا ہماری عطا ہے۔سید تو دور کی بات برکی و پشتون روایت پر پورے نہیں اترتے۔انکے کرتوت سے ہم بھی بدنام ہوگئے ہیں۔دَم تعویذ بیچنے اور بدمعاشی کی ہر حد پارکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
میرے آباء واجداد نے گدی نشینوں کا نظام نہیں بنایا۔ جو کردارونسل کی بدولت بابائے قوم کا درجہ رکھتے تھے۔ قبائلی لڑائی کے فیصلوں پر عمائدین و علماء باقاعدہ اجرت لیتے تھے۔ ہمارے آباء واجدادنے ہمیشہ بغیر اجرت کے فیصلے کئے ہیں۔
میرے والدکی7پھوپیاں تھیں۔ سبحان شاہ کے تین بیٹے صنوبر شاہ، مظفر شاہ ، منور شاہ کی بیگمات۔ چراغ شاہ کی والدہ جو ڈاکٹر آدم شاہ کے والد تھے ۔محمد علی شاہ کی والدہ جو شیر علی شاہ، نثار (ٹاپو)اور اقرار شاہ کے والد تھے۔ باغ ماما پیر کی والدہ ۔
کانیگرم کی رہائشی پھوپیوں کو جائیداد نہ دی مگر تنگی بادینزئی پھوڑ سے آنے والی تینوں پھوپیوں کو کانیگرم میں زمینیں دیں۔ منورشاہ ،اسکے بیٹے نعیم شاہ ، پوتے پیرخالام کے پا س رہائش اور زمین تھی ۔ مظفرشاہ اسکے بیٹے میر محمد شاہ کے پاس کانیگرم کی زمین پر گھر ہے اور پیر کرم شاہ و سرور شاہ کے پاس زمینیں ہیں۔ صنوبر شاہ کے بیٹوں سلطان اکبر شاہ ، حسین شاہ اور محمد امین شاہ کو جو زمین دی تھی وہ انہوں نے چھوڑی جو ہمارے پاس ہے۔ مگرمیرے نانانوسر باز سلطان اکبر شاہ نے مرکزی گھربیچ دیا۔ تین بھائیوں کو گھر بنانے کیلئے میرے دادا سیدامیر شاہ بابا نے پیسہ دیا تھا۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔
کانیگرم کا ایک مشہور بدمعاش مغوب شاہ تھا ،جس نے ان بے وطن یتیموں سے لڑائی کی تو میرے پردادا سید حسن شاہ بابو نے کہاکہ اس کو کالی رات کی بلا کھائے گی اور پھر اس کی بیگم کو بھی اپنے عقد میں لوں گا اور پھر ایسا ہی ہوگیا تھا۔
سبحان شاہ کے یتیموں کو ہم نے سنبھالا تھا، پھر ان کو چوہوں کی طرح شہر کی بدمعاش بلیوں سے بچایا تھا۔ پھر جب انہوں نے اپنی جائیداد خریدی اور اپنے گھر بنانے کیلئے ہمت کی تو ہم نے بھیڑیوں سے ان کو بچایا۔ ہمارے بل بوتے پر شیر بننے والے چوہوں کی اپنی فطرت نہیں گئی ، جہاں بھی موقع ملتا ہے تو اپنے محسنوں کے پروں کو کترڈالتے ہیں۔
مظفر شاہ کے بیٹوں نے کوڑ کی زمین محمد علی شاہ کے پیسوں سے خریدی جب ان سے7ہزار کی رقم مانگ لی تو انہوں نے کہا کہ شیر علی شاہ کی تعلیم پر ہم نے خرچ کردئیے۔ ابھی تک شیر علی شاہ اور اس کے بھائی نثار ٹاپو اپنے حق کو حاصل نہیں کرسکے اور پرائے حق پر کوڑ کی زمین میں سبھی پریشان ہیں۔ فیروز شاہ نے میر ے چچاسید انور شاہ سے600روپے پہلے لئے تھے کہ سستی زمین خرید کر دیتا ہوں۔ پھر فیروز شاہ نے زمین اپنے لئے خرید لی اور پیسے یہ کہہ کر واپس کئے کہ کھلے دوں یا بندے نوٹ؟۔ سید ایوب شاہ کے پیسے پیر فاروق شاہ نے ہڑپ کرلئے جو اس کے بچوں نے اینٹ مارنے کے زور پر زمین پر قبضہ کیا۔ جہاں بھی جس کو موقع ملا اور بس چلاہے تو فراڈ اور دھوکہ دیا ہے۔
ماموں غیاث الدین نے مہمان ماموں افغان مہاجرین کو بھی نہیں بخشا۔ یہ لوگ اس کو بہادری اورکمال فن سمجھتے ہیں۔
ہمارے آباء واجداد نے چوہوں کیساتھ احسان کیاتو طاقت پرواز سے محروم ہوگئے۔ انکے کرتوت اور بداعمالیوں کے نتائج سے ہم بدنام ہوگئے اور لوگوں کی نظروں میں جو قدرومنزلت رکھتے تھے وہ سبھی کھودیا اور آخر کار ان کی بدولت طالبان نے بھی ہمیں مار دیا تھا۔ جب طالبان کو پتہ چلا کہ انہوں نے غلط جگہ ہاتھ ڈالا ہے تو پوری قوم کے ساتھ معافی کیلئے بھی آگئے۔
ایک چوہے نے پیر سے کہا کہ بلی تنگ کرتی ہے بلا بنادو۔ پیرنے شوف کیا تو چوہا بلا بن گیا۔ پھر آیا کہ کتے تنگ کرتے ہیں کتا بنادو۔ پیر نے کتا بنادیا۔ پھر کہا کہ بھیڑیا بنادو،پیر نے بھیڑیا بنادیا اور پھر کہا کہ آئندہ نہیں آؤں گا مجھے شیر بنادو۔ اس نے شیر بنادیا۔ پھر آیا کہ تم نے چوہے کو شیر بنادیا۔اب تجھے ہڑپ کرنے آیا ہوں تاکہ دوسرا شیر نہ بناؤ۔ پیر نے اس کو شوف کرکے چوہا بنادیا۔ میرا ماموں سب سے بڑا شیر تھا اور ہمارے ملنگ دادا نے اس کو چوہا بنادیا تھا۔ پھر اس نے میرے معذور بھائی جلال سے کہا کہ تم نے میرے شہتیر چوری کئے، حلف اٹھاؤ۔ اس نے محسود کا گھر بتایا کہ اس سے لئے ۔محسود نے کہا کہ میں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سرائے لیا، دوسرے افراد کو بھی بیچے ہیں ۔ پھر دوسرے بھائی ممتاز سے ٹانک میں کہا کہ دکان میں مہنگی چیز بیچتے ہو۔ ممتاز نے کہا کہ ابھی تمہاری اوجھڑی کی بد بو تجھے آجائے گی تو اس نے فرار کی راہ اختیار کی۔ پھر اسکے مزارع نے ممتاز کو بھوسہ کی پیشکش کی تو ممتاز نے کہا کہ میرے گھر کے قریب ہے مگرپہلے اپنے مالک سے پوچھ لو ، یہ نہ ہو کہ پھر وہ کوئی معاملہ اٹھائے۔ اس نے غیاث الدین ماما سے پوچھ لیا۔ ماموں نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں۔ ممتاز بھوسہ گھر لایا تو ماموں نے پیغام بھیجا کہ بھوسہ نکالو ، مجھے لینا ہے۔ ممتاز نے کہا کہ صرف اپنی زبان سے بھوسہ کا لفظ میرے سامنے لے تو بھوسہ نہیں میری بیوی بھی اس کی ہوگئی مگر پھر اس نے ہمت نہ کی۔ ایک مرتبہ ماموں سعدالدین لالا نے ممتاز سے کہا کہ تم دو نمبر دوائی بیچتے ہو۔ اس نے دوائی کی بوتل دے ماری جس پر اورنگزیب نے ممتاز پر غصہ کیا۔ ممتاز نے کہا کہ اورنگزیب لاکھوں کا آدمی ہے مگر ماموں کے سامنے ہندو ہے۔
ممتاز سے سریر نے کہاکہ اپنے لئے گھاس اُگاؤ۔ ماموں غیاث الدین نے حاجی سریر سے کہا کہ یہ زمین مجھے دیدو۔ زمین ناکارہ تھی تو اس نے زمین دیدی۔ پھر حاجی سریر نے اپنا مکان قریب میں بنایا اور زمین کمرشل ہوگئی۔ تو کہا کہ میں نہیں دیتا۔ غیاث الدین نے کہا کہ آپ دے چکے ہو۔ سریر نے کہا کہ بدلے میں آپ نے کچھ نہیں دیا۔ غیاث الدین نے کہا کہ ابھی تک زمین کی کہیں تقسیم نہیں ہوئی ۔ حاجی سریر نے ریاض سے کہا کہ مجھ سے زمین کھیتی باڑی کیلئے مانگی ،پھر قابض ہوگیا۔ ریاض نے ماموں سے کہا کہ میں زمین کا مالک ہوں اور تمہارا قبضہ نہیں مانتا۔ ماموں نے کہا کہ زمین میں قدم رکھوتو تمہارے ساتھ…۔ پھر ریاض مشکل میں پڑا تو اشرف علی سے کہا کہ یہ زمین میرے ماموں کے بیٹوں کی ہے۔ میں نے کہا کہ اتنا حصہ تو ریاض کی والدہ کا بھی حق بنتا ہے۔ تمہارے پاس اور حاجی سریر کے پاس جتنی زمین ہے تو دونوں جگہ ہماری بہنوں کا وراثت کا اتنا حق ہے۔ میں نے نثار سے کہا :ریاض نے پیغام دیا اور میں نے یہ جواب دیا تو نثار نے کہا کہ ریاض نے یہ حربہ تلاش کیا ہے۔ پھر ممتاز پر دھاوا بول دیا تو سوچا کہ یہ کمینہ پن کی انتہاء ہے۔ پھر پتہ چلا کہ ریاض نے ممتاز سے بھی کہا تھا کہ ہم نے پیسہ نہیں دیا ، یہ زمین تم لے لو۔ پھر180ڈگری سے بدل جانا کہ ممتاز ہمارے ساتھ زیادتی کررہاہے؟۔
حسین شاہ پاگل نے اپنی بیوی اور مزدور کو قتل کردیا۔ شک تو دوسروں پر تھا لیکن پاگل بھی کمزور شکار تلاش کرتاہے۔ ممتاز بھائی کو پولیس نے ہتھکڑی لگائی تو سکون کی نیند سویا۔ چلو وہ پاگل تھا۔ اسکے دوسرے بھائی سلطان اکبر شاہ اور محمد امین شاہ نے بھی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ انگریز کی عدالت میں گھر کی بچیوں کو گواہ بنادیا کہ زنا کرتے ہوئے دیکھا ۔ حالانکہ کوئی غیرتمند، عزتدار اوربا ضمیرہوتے تو پاگل بھائی کو پھانسی دینے پر عزت بچ سکتی تھی۔ محسود بیوی تو گھر کی عزت تھی لیکن کم ازکم بے گناہ مزدور کو تو دیت دیتے لیکن اللہ نے غیرت نہیں دی۔
ماموں لوگ کہتے ہیں کہ بھائیوں کی تعلیم ان کی انویسٹمنٹ ہے۔ حالانکہ یہ بالکل جھوٹ اور دروغ گوئی کی انتہاء ہے۔ ان کو ہمارے بھائیوں کے پیسے کھانے ہوں تو شوق سے کھائیں مگر غلط بات کرنے کا منہ توڑ جواب دینا ہمارا حق بنتا ہے۔
پہلی بار ماموں سعدالدین لالا نے3ہزار والا صوفہ سیٹ لیا تو بھائی اورنگزیب نے5ہزار والا صوفہ لے لیاتھا۔ اورنگزیب رسول کالج منڈی بہاؤ الدین میں تھا تو اسکے ایک کلاس فیلو نے حال سنایا کہ باپ سے رقم کیلئے مجھے بھیجتا تھا اور گالیاں دیتا تھا کہ اتنی زیادہ رقم کا کیا کرتا ہے؟۔ پھر پیسے دیدیتا اور کہتا تھا کہ ”اورنگزیب کو بتاؤنہیں، دریائے سندھ میں خود کشی کرے گا”۔
کانیگرم شہر میں بکری پالنا مشکل کام تھا اور میرا والد دو، دو بھینسیں زیادہ سے زیادہ دودھ دینے والی لے جاتا تھا۔ جب ایک مرتبہ پولیس والے نے زیادہ راشن لے جانے پر تنگ کیا تو اس کو دھمکی دی کہ ”تمہارے پیچھے روس لیکر آتا ہوں”۔ کوئی نیا سپاہی تھا وہ جانتا نہیں تھا اور پھر معذرت بھی کرلی تھی۔
کانیگرم اور گومل میں گھر کے خرچہ سے زیادہ مہمانوں کے خرچے ہوتے تھے۔ ان کی وفات پر دور دراز سے ایسے لوگ آئے تھے جن کی مدد کی تھی اور ان کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ ایک ملاعمر کی قوم” ہوتک” قبیلے کے شخص کو جس کو ”کوتک ” کہا جاتا تھا کانیگرم میں ایک اچھی فیملی کی خاتون سے شادی کرادی تھی۔ دوسروں کے بچے پالنے والے کے بچے کوئی اور پالتا تھا؟۔
ماموں کے ہاں پیر عالم شاہ خان بابا کے گھر کا خرچہ اٹھانے کی بھی غلط الزام تراشی کی گئی ۔ وہ ماموں لوگوں سے زیادہ خود اچھے کھاتے پیتے تھے۔ بس اور ٹرک چلتے تھے۔ ماموں کے گھر کی شفٹنگ میں گومل سے کانیگرم ان کا ٹرک استعمال ہوتا تھا تو کرایہ تو دور کی بات ہے ڈیزل کے پیسے بھی نہ دئیے ہونگے۔
نثار کی شادی پر مجھے کراچی میں بڑا گھر لینے ، بارات کا جہاز کے ذریعے آنے جانے کا اورنگزیب نے کہا تھا۔ ماموں نے کہا کہ بہن نے شادی کیلئے پیسہ مانگے۔ ماموں ، بھانجوں اور عزیزوں نے جھوٹ کا توپخانہ کھول دیا مگر حقائق حقائق ہیں۔

ہم نے کانیگرم وزیرستان سے تحریک خلافت کا آغاز1991ء سے کردیاتھا

شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنے مرشد سیدا حمد بریلوی کی قیادت میں خراسان سے خلافت کا آغاز کیا مگر سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ کچھ معتقدین کا عقیدہ تھا کہ سیداحمد بریلوی زندہ غائب ہیں اور واپس آکر خلافت قائم کرے گا اور یہ عقیدہ شیعوں کا اپنے امام کے بارے میں ہے۔
میں نے مولانا اشرف خان سے تحریک خلافت کی بشارتوں کا ذکر کیاتھا تو بہت خوش ہوگئے اور کامیابی کا یقین بھی دلانے لگے۔ پھر مولانا شاداجان کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ” مولوی محمد زمان نے اگر بات مان لی تو سب ٹھیک ہوجائے گا، مجھ پر اس نے قادیانیت کا فتویٰ لگادیا تھا”۔ میں نے مولوی سے کہا کہ” ڈبل قانون فساد کی جڑ ہے۔ دو فریق میں جس کے مفاد میںہو تو وہ شریعت پر فیصلہ چاہتا ہے اور جس کے مفاد میں ہو تو پشتو پر فیصلہ چاہتا ہے۔ اگر ایک قانون ہوگا تو فساد کی جڑ ختم ہوجائے گی”۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ” یہ تو بڑی زبردست بات ہے۔ صرف شریعت کا قانون ہوگا تو یہ فساد کی جڑ کو ختم کردے گا”۔ میں نے کہا کہ” شریعت میں چور، زنا کار، بہتان اور ڈکیٹ کی سزائیں ہیں۔ قرآن کے مطابق سزا دیں گے تو پھر اللہ کے حکم بھی زندہ ہوجائیں گے”۔ اس پر مولوی محمد زمان کی خوش ہوگئے ۔وزیرستان آزاد تھا۔ شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ نہ تھی۔ ریاست پاکستان کی چور ، ڈکیٹ اور بدامنی پھیلانے والوں سے جان چھوٹ جاتی۔ یہی تجربہ دیکھ کر پورے پاکستان میں بھی شرعی عدالتیں قائم ہوسکتی تھیں۔
مولوی محمد زمان نے کہا کہ” یہاں جلسہ میں میرے مدرسہ کیلئے چندے کا اعلان بھی کرنا ہوگا۔ کانیگرم سب سے آگے تھا لیکن اب علم میں پیچھے رہ گیا”۔ میں نے کہا کہ یہ تو چھوٹی بات ہے لیکن اس سے پہلے ہم نے کچھ اقدامات کرنے ہوں گے۔ پہلا اقدام یہ ہوگا کہ پیر، مولوی اور تبلیغی جماعت والے سب سے پہلے اپنے اوپر شریعت نافذ کریں گے۔ وہ کہنے لگے کہ کیا ہم شریعت پر نہیں چلتے ؟۔ میں نے کہا کہ اگر چلتے ہوں تو اچھی بات ہے لیکن اگر نہیں چلتے ہوں تو چلیں گے۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ بطور مثال ۔ میں نے کہا کہ ” بیٹیوں کو بیچنا چھوڑ دیں گے۔ حق مہر زیادہ ہو یا کم لیکن اسکے رکھنے کی والد اور بھائی کو اجازت نہیں ہوگی۔ 70ہزار کی جگہ کروڑ روپے ہو مگر سارے پیسے دلہن کے ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ بیٹیوں اور بہنوں کو جائیداد میں شریعت کے مطابق حق دیں گے۔ تیسرا یہ کہ رسمی نہیں شرعی پردہ کرنا ہوگا۔ مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویٰ رشیدیہ میں لکھا ہے کہ جو لوگ شرعی پردہ نہیں کرتے ۔وہ فاسق ہیں اور ان کے پیچھے نماز پڑھ لی تو واجب الاعادہ ہوگی”۔ مولانامحمد زمان نے کہا: ”یہ تو بہت مشکل ہے”۔ میں نے عرض کیا کہ” دوسروں کو سنگسار کرنا، انکے ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا آسان اور اپنی بیٹیوں کو حق دینا مشکل ہے؟۔ہم ہر جمعہ کے خطبہ میں پڑھتے ہیں کہ نبیۖ نے فرمایا: تمہارے اوپر میری سنت اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت لازم ہے۔ ہم اس پر عمل کریں تو بات بن جائے گی”۔ مولوی محمد زمان نے کہا کہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا کہ ہم کرواکر دکھائیں گے ۔ انشاء اللہ العزیز
پھر ہمارے پڑوسی سید بادشاہ کیساتھ کچھ تبلیغی میرے گھر پر آئے۔ ایک نے پوچھا کہ” میرا بیٹا کراچی میں ٹائر پنچر کا کام کرتا ہے ۔کیا میرے لئے اس کی کمائی جائز ہے؟”۔ میں نے کہا کہ ” اگر وہ کوئی فراڈ نہ کرتا تو بالکل جائز ہے”۔ اس نے کہا کہ ”میری بیوی، بہو اور بیٹیوں نے روزمرہ کے فرائض کی تعلیم حاصل نہیں کی ۔ اگر رائے ونڈ سے مستورات کی جماعت آئے اور ہماری خواتین کو فرائض سکھائے تو جائز ہے؟۔ میں نے کہا : ”بالکل نہیں! اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ”۔ فرائض کی تعلیم تمہارا فرض ہے اور اگر خواتین کی جماعت رائیونڈ سے آگئی اور ڈاکوؤں نے اغواء کرلیا تو پھر اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟”۔
پھر میرے خلاف انواع واقسام کے پروپیگنڈے شروع کئے گئے کہ قادیانی ہے، بریلوی ہے ، شیعہ ہے۔ آخری مہدی کا دعویٰ کیا ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک دن مسجد کا امام نہیں تھا ، امامت کیلئے تبلیغی مصلہ پر کھڑا ہوا تو ظفر شاہ نے پکڑ کر پیچھے کردیا اور میرا کہا کہ یہ اتنا عرصہ سے علم کیلئے گیا تھا اور تم چلہ یا چار مہینے لگاکر پھر میڈیکل سٹور بھی کھول دیتے ہو۔ (جس میں جعلی دوائیاں بیچتے ہو) مجھے آگے کردیا تو نماز پڑھانے کے بعد میں نے اپنی زبان میں تقریر کی ۔ جو پشتو نہیں ارمڑی ہے۔ میں نے کہا کہ ” ہمارا عقیدہ بہشتی زیور کے مصنف مولانا اشرف علی تھانوی اور بانی تبلیغی جماعت مولانا محمدالیاس والا ہے۔جو ذکر کرتے ہیں یہ بھی مولانا اشرف علی تھانوی کے سلسلے کا ہے۔ یہاں لوگ کھلی ندی میں ننگے نہاتے ہیں۔ جو حرام اور غیرت کے خلاف ہے۔ سود، ملاوٹ اور دیگر منکرات میں مبتلاء ہیں۔ تبلیغی جماعت فضائل کی تبلیغ کا کام کرتی ہے، اس کا طریقۂ کار فرض، واجب اورسنت نہیں ۔یہ ایک مستحسن کام ہے۔کرلیا تو بھی ٹھیک اور نہیں کیا تو بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔ میں وضاحت اسلئے کررہاہوں کہ تم نے میرے پیچھے نماز پڑھی اور مجھ پر لوگ بہتان لگارہے ہیں کہ قادیانی ہے، شیعہ ہے، بریلوی ہے وغیرہ لیکن یہ بہت بے غیرت ہیں جو چھپ کر یہ کام کوتی میںکرتے ہیں اور میرا گریبان نہیں پکڑتے۔ (کوتی لیٹرین کیلئے مخصوص کمرے ہیں جو بند ہوتے ہیں) تبلیغی جماعت کا نائب امیر گل ستار اٹھ گیا اور اس نے کہا کہ ”مفتی زین العابدین نے فتویٰ دیا ہے کہ تبلیغی جماعت کا کام فرض عین ہے۔ میں پہلی بارندی میں ننگا نہایا ہوں”۔ حاضرین کا اتفاق کیا کہ” جس کی بات غلط ہوگی تو اس کو کانیگرم بلکہ وزیرستان سے نکالا جائے گا”۔ میں نے کہا تھا کہ شہر کے علماء کو بلالیتے ہیں۔ لیکن تبلیغی ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ میں میرانشاہ جاؤں تو یہ یہاں علماء سے جلسہ کروائیں۔ ایک دن میں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ کل میں چلا جاؤں اور پھر دوسرے دن گھر سے نہیں نکلا۔ تبلیغی جماعت نے سمجھا کہ گیا ہوں تو علماء کو جمع کرنا شروع کیا۔ میں نے بھانجے عبدالواحد اور حافظ عبدالقادر شہید کو بلایا اور ٹیپ ریکارڈر ساتھ لانے کا کہا۔ جب میں مسجد پہنچ گیا اور علماء سے کہا کہ مجھ سے بات کرنی ہے تو بتاؤ، ورنہ میرانشاہ جانے کا پروگرام ہے؟۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم مشورہ کرلیتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا مسجد کے قریب گھر میں بات کرتے ہیں، میں نے کہامسجد میں بات کریں تاکہ سب کو پتہ چل جائے مگر وہ گھرمیں چلے گئے۔ میں نے سوچا کہ ٹیپ ریکارڈر ساتھ ہے تو بات ٹیپ کرلیتے ہیں۔ وہ ٹیپ کی اجازت نہیں دے رہے تھے تو میں نے کہا کہ میرے مرشد حاجی عثمانسے بھی علماء ومفتیان نے ملاقات کی پھر بہتان باندھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ میں نے کہا کہ تمہارا یہاں سنت کے بعد کی دعا پر مناظرہ ہوا تھا تو دونوں نے ڈھول بجاکر اپنی جیت کا اعلان کیا تھا۔میں میراثی نہیں کہ ڈھول بجاؤں۔ آپ نے اس پرقادیانی کا فتویٰ لگایا تھا؟۔ جس کا مولوی محمد زمان نے اقرار کیا اور بہت منت سماجت کی کہ جو فیصلہ بھی ہوگا اس کو ہم تحریری لکھیں گے۔ پھر پوچھا کہ آپ نے مہدی آخرزمان کا دعویٰ کیا ہے؟۔ میں نے کہا کہ وہ مدینہ میں پیدا ہوں گے ، نام محمد ، والدین کا نام آمنہ وعبداللہ اور بیت اللہ میں بیعت ہوگی۔ میں نے حجاز دیکھا بھی نہیں ہے تو یہ دعویٰ کیسے کرسکتا ہوں؟۔ البتہ شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ خراسان سے بھی ایک مہدی آئے گا۔ جب کتاب دکھائی تو مولوی محمد زمان نے کہا کہ یہ وزیرستان ہے خراسان نہیںہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے کہا کہ مہدی ایک ہی ہے دوسرا نہیں تو یہ بحث نہیں کہ یہ خراسان ہے یا وزیرستان؟۔ پھر انہوں تبلیغی جماعت کا پوچھا تو میں نے کہا کہ یہ مستحن کام ہے فرض نہیں۔ مولوی زمان نے اپنے ہاتھ سے میری باتیں لکھیں کہ میں نے مہدی آخرزمان کا دعویٰ نہیں کیا۔ تبلیغی جماعت کا کام مستحسن ہے۔ وغیرہ ۔ میرے دستخط کے بعد سب حاضرین نے بھی اس پر دستخط کردئیے۔ تبلیغی جماعت نے پر تکلف کھانا تیار کیا تھا وہ بھی سب نے کھالیا اور دعا خیر کے بعد رخصت ہوگئے۔بعد میں انہوں نے مشہور کیا کہ پیر صاحب کو توبہ کروایا ہے۔ میں نے کہا کہ فیصلے والے کاغذ کی فوٹو کاپی تقسیم کرلیتے ہیں۔ معاملہ تو تبلیغی جماعت کے خلاف تھا اسلئے کہ انہوں نے کہا کہ فرض عین کی بات غلط ہے۔ مولوی زمان نے وہ تحریر دینے سے انکار کیا اور لکھا کہ مسجد کی امامت کرو۔ ہمارے پاس بھی مسجد ہے۔
میں نے جواب میں لکھ دیا کہ بے غیرت ایک لکھا ہے کہ نیا دین نہیں چل سکتا اور دوسری مسجد کی امامت کا کہہ رہے ہو؟۔ نئے دین والے کے پیچھے نماز ہوتی ہے؟۔ میں مسجد نہیں دنیا کی امامت کروں گا۔جب تمام پاکستان کے اکابر علماء ومفتیان بھی حاجی عثمان کے حق میں تھے ،تب بھی تبلیغی جماعت مخالفت کرتی تھی۔ جس کی وجہ سے مفتی تقی عثمانی نے تقریر اور تحریر میں تبلیغی جماعت کے اکابرین اور اصاغرین پر فتویٰ بھی لگایا تھا کہ یہ درس قرآن کے خلاف ہیں اور تبلیغی جماعت کو کشتی نوح سمجھتے ہیں۔ بہر حال انشاء اللہ سب کے چہرے کھل جائیں گے۔

کانیگرم میں یزید کی اولاد مشہور تھی لیکن کیا وہ سفیان خیل سے سفا خیل تو نہ تھی؟ نام کیساتھ سید بادشاہ ، سید عالم شاہ یا پھر ظفر شاہ اور ظاہر شاہ سے نسلی سید مراد نہیں

امریکہ کی ریسرچ اسکالر خاتون نے لکھا:” عباسی دور میں سادات کی نسل کشی ہورہی تھی تو کچھ لوگ انکے ساتھ تحفظ کیلئے وزیرستان کے شہر کانیگرم آگئے۔”۔ سادات سے ان لوگوں کو بہت عقیدت و محبت تھی لیکن پھر بھی مشہور تھا کہ کانیگرم میں یزید کی اولاد ہیں۔ ایک طرف اس بات کی بھی شہرت تھی کہ کانیگرم میں اہل تشیع تھے تو دوسری طرف یہ بھی مشہور تھا کہ کانیگرم میں یزید کی اولاد ہیں۔ ان دونوں باتوںکا تضاد اسلئے قابل قبول تھا کہ کوفہ میں حنفی اور شیعہ موجود تھے لیکن حسین کے دشمن یزیدی بھی کوفیوں کو ہی سمجھا جاتاہے ۔حالانکہ حنفی اور شیعہ اہل بیت و سادات سے بڑی عقیدت و محبت رکھتے ہیں ۔ حال ہی میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک فاضل نے امام ابوحنیفہ کے بارے میں کتاب لکھی ہے اور اما م اعظم کو شہید اہل بیت قرار دیا ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے بھی لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے اسلئے یہاں سے برپا ہونے والے قرآنی حنفی انقلاب کو ایران بھی قبول کرلے گا۔
ہزارہ شیعہ اپر کانیگرم میں تھے جبکہ لوئر کانیگرم میں برکی اور پیروں میں روایتی بغض و عناد تھا۔ پیروں کی دو شاخیں ہیں ایک ہماری شاخ بابو ویل جن سے برکی قبائل بہت عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ دوسری شاخ سبحان ویل جن کو لوگ بادینزئی سمجھتے ہیں۔ جب اُلو کے پٹھے آئے ہم عزتِ سادات سے بھی گئے۔ ہمیں قتل بھی کروادیا اور قاتلوں کو صحابہ کرام کا درجہ بھی دے دیا۔ ممکن ہے کہ یزید کی اولاد نے کانیگرم کے سید کا لبادہ اوڑھا ہو اور سفیان خیل سے سفا خیل بن گئے ہوں۔
کمینہ پن ، مفاد پرستی ، خود غرضی اور اپنی طاقت کے غلط استعمال کے بھی کچھ حدود و آداب ہوتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے پجاری ،ہر ظالم طاقتور کے ساتھی اور مظلوم کا دشمن بننا بھی بہت بڑا زوال ہے۔ کوڑ والے پیر میدان میں ظالموں کیساتھ تھے اور منہاج کی بزدلی اور نسوانیت مردِ میدان کی نہیں تھی بلکہ گھرمیں قاتلوں کی بہت خدمت کرتاتھا۔کوڑ کے پیر بجا طور پر ان لوگوں کومنافق کہتے تھے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید لکھتے ہیں :
لیت شعری کیف اُمتی بعدی حین تتبختر رجالھم و تمرح نساء ھم ولیت شعری حین یصیرون صنفین صنفاً ناصبی نحورھم فی سبیل اللہ و صنفاً عمالاً لغیر اللہ
(ابن عساکر عن رجل کنز العمال ص219،ج14)
کاش میں جان لیتا کہ کیسے میری اُمت اس حال کو پہنچے گی کہ جب انکے مرد اکڑ کر چلیں گے اور انکی عورتیں اتراتی پھریں گی۔ کاش کہ میں جان لیتا کہ جب لوگ دو قسموں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جو اللہ کی راہ میں سینہ سپر ہوں گے اور ایک قسم ان کی ہوگی جو غیر اللہ کیلئے سب کچھ کریں گے۔ (عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں)
جب2006ء میں ہمارے اوپر قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو اس کے بعد جٹہ قلعہ میں پیر منہاج سفا خیل کی بیٹھک طالبان کے گڑھ کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ کالے شیشے والی بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں کاروائیاں کرتے ،پھرپر تکلف کھانے ، آرام کرنے اور پراٹھے کھانے کیلئے اپنے اس ٹھکانے پر پہنچ جاتے تھے۔ عوام کا دل بے گناہوں کیخلاف دہشتگردی پر بہت دکھی ہوتا تھا لیکن خدمت گزار مرد سڑک پر اکڑ کر چلتے تھے اور ان کی خواتین ظالموں کی خدمت پر اتراتی پھرتی تھیں۔
یہ نسل سید اور پختون تو دور کی بات یزید کی بھی یہ اصلی اولاد نہیں ہوسکتی۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کیا تھا۔ استعارہ کے طور پر ان کو یزید کی اولاد کہنا درست ہوگا۔ بنو اُمیہ نے مظالم کے پہاڑ توڑے تو وہ ہر ممکن اپنے مفاد کا تحفظ چاہتے تھے۔ ایک کردار مستقبل میں ائمہ اہل بیت اور سادات کا ہے ،دوسرا انکے مقابل سفیانیوں کا ہے۔ طرز نبوت کی خلافت کے قیام سے پہلے سادات اور ان میں گھس بیٹھئے سفیانیوں کے درمیان امتیاز بہت بڑا مرحلہ ہے۔ حضرت ابوبکر، عمر اور حضرت بلال کا تعلق نبی ۖ کے خاندان سے نہ تھا ۔ ابو لہب نبی ۖ کا چچاتھا وہ اور اس کی بیوی شدید مخالف تھے۔ جس کا قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے نام لے کر دونوں کا ذکر کیا ہے۔
سورہ القلم میں اللہ تعالیٰ نے زبردست آئینہ دکھایا ہے کہ
” ن ، قلم کی قسم اور جو سطروں میں لکھتے ہیں ، آپ اپنے رب کی نعمت سے مجنون نہیں ہیں۔ اور آپ کیلئے بے شمار اجر ہے۔ اور آپ اخلاق عظیم پر ہیں۔ پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون فتنہ میں مبتلاء ہے؟۔ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ کون راستے سے گمراہ ہے اور وہ جانتا ہے ہدایت پانے والوں کو۔ پس جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانو۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ چشم پوشی کریں تووہ بھی چشم پوشی کریں۔ اور ہر قسمیں کھانے والے ذلیل کا کہنا مت مانو۔ طعنہ دینے والا، چغلی کرکے چلنے والا، نیکی سے روکنے والا، حد سے تجاوز کرنے والاگناہ گار، گنوار پن کے علاوہ بد اصل بھی۔اگرچہ وہ مال اور اولاد والا ہے۔جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں۔ عنقریب ہم اس کو ناک پر داغیں گے۔ بیشک ان کی مثال باغ والوں کی ہے جب انہوں نے قسم کھائی کہ ہم ضرور سویرے اس کا پھل کاٹیں گے لیکن استثناء (انشاء اللہ) نہیں کیا۔ پھر تیرے رب کی طرف سے اس پر ایک جھونکا چلا اور وہ سوئے تھے۔ پھر وہ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ہوگیا۔ پس صبح پکارنے لگے۔ سویرے چلو اگر تم نے پھل توڑنا ہے۔ پھر وہ آپس میں چپکے چپکے یہ کہتے ہوئے چلے کہ تمہارے باغ میں آج کوئی محتاج نہ آنے پائے۔ اور وہ سویرے اہتمام کے ساتھ پھل توڑنے پر قدرت کا خیال رکھتے ہوئے چل پڑے۔ پس جب انہوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ بیشک ہم تو گمراہ تھے بلکہ ہم محروم ۔ان میں سے معتدل مزاج اچھے نے کہا کہ میں نے تمہیں پہلے کہا نہیں تھا کہ اگر ہم تسبیح کرتے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا رب پاک ہے اورہم ہی ظالم تھے۔ پھر ایکدوسرے کی طرف متوجہ ہوکر ایکدوسرے کی ملامت کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر افسوس کہ ہم سرکش تھے ہوسکتا ہے کہ ہمارا رب اس کا بدلہ اس سے بہتر دے۔ہم اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح عذاب ہوتا ہے اور آخرت کا عذاب بڑا ہے اگر جان لیں۔پس کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کردیں گے؟۔تمہیں کیا ہوا،کیسے حکم لگاتے ہو؟۔ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟۔ تمہارے لئے اس میں لکھا ہے کہ تم جو چاہو اپنے لئے مرضی کے نتائج مرتب کرو؟۔ (سورہ قلم آیت1سے38)
اس واقعہ میں حق اور باطل کا بھرپور آئینہ دکھایا گیا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سیدمحمدامیر شاہ اورسیداحمد شاہ نمایاںکرادر۔ سید سبحان شاہ اورسیداکبرشاہ نمایاں کردار

سیدمحمدامیر شاہ اورسیداحمد شاہ نمایاںکرادر۔ سید سبحان شاہ اورسیداکبرشاہ نمایاں کردار

سیدمحمدامیر شاہ اورسیداحمد شاہ نمایاںکرادر:

تاہم، دوسرے لوگ راضی نہیں ہوئے اور مارچ 1877ء میں انہوں نے امیر شاہ (کانیگرم کے سید) اور دو علی زئیوں کو کابل میں امیر شیر علی خان کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان کو حمایت پیش کریں، اس امید پر کہ وہ ان کے بدلے میں کچھ کر سکیں۔ (انگریز کیخلاف باہمی تعاون :انٹیلی جنس رپورٹ )
اگست میں جنڈولہ کے چار بیٹنی کانیگرم کے سید احمد شاہ کیساتھ گئے اور ستمبر میں ایک اور محسودوں کا گروہ بھی گیا۔( انگریز انٹیلی جنسیہ نے نظر رکھی تھی)
امیر نے ان کا انتہائی مہمان نوازانہ استقبال کیا۔قبائلی لوگ ان کو پسند کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں ذاتی توجہ دیتا تھا اور انہیں اعزازی پوشاک اور نقد تحائف دیتا تھا۔(انگریز کے دل کی یہ دھڑکنیں)

Others, however, remained
unreconciled, and in March 1877 they sent Amir Shah (one of the Kaniguram Sayyids) and
two Alizais to offer their support to Amir Sher Ali Khan in Kabul, hoping that he might be
able to do something for them in return.118
In August four Bhittanis from Jandola followed with the Kaniguram Sayyid, Ahmed Shah, as
did another party of Mahsuds in September.120
The Amir treated them extremely
hospitably; the tribesmen were reported to like him because he paid them personal attention
and gave them dresses of honour and cash gifts.

سید سبحان شاہ اورسیداکبرشاہ نمایاں کردار:

میکالے نے سوچا کہ کانیگرم کے سیدخاص کر سبحان شاہ ، اسکا بیٹااکبر شاہ جو محاصرے کے دوران کم از کم دو مواقع پر محسودوں کے جاسوس نمائندے کے طور پر کام کر چکے تھے۔ میکالے کے 1870ء وسط دہائی کے سبحان شاہ کیساتھ اچھے تعلقات تھے۔ 1874ء میں جیسا کہ ہم نے پچھلے باب میں دیکھا اس نے بہلو ل زئی کیساتھ معاہدہ کرنے میں انکا کردار تسلیم کیا اور انہیں ایک یا دو سال بعد قبائلی پولیس میں 2 نوکری دی۔ تاہم، بعد میں،میکالے نے فیصلہ کیا کہ سبحان شاہ اور اکبر شاہ کابل حکومت سے سازش میںسر گرم تھے، جن سے رابطہ قریب کے لوگر وادی کے اُرمرڑوں کے ذریعے تھا۔ مجموعی طور میکالے نے کہا: یہ سید ”بڑے سازشی و دغاباز” تھے۔( جس نے رپوٹ کیااسی کی خانی چھن گئی؟)

Macaulay thought, the Sayyids ofKaniguram, in particular Subhan Shah and his son Akbar Shah, who had acted as theMahsuds’ representative on at least two occasions during the blockade. Macaulay had beenon good terms with Subhan Shah in the mid-1870s; in 1874, as we saw in the previouschapter, he acknowledged his role in helping him to reach agreement with the Bahlolzais,and gave him two sowars in the tribal police set up a year or two later. Subsequently,however, he decided that Subhan Shah and Akbar Shah were actively intriguing with theKabul government, with which they were in communication through the Urmars settled inthe nearby Logar Valley.103 In general, he said, these Sayyids were “great intriguers and schemers”.

بادشاہ خان درانی انٹیلی جینس قومی جرنیل کی بہت عزت تھی مگر انگریز کی انٹیلی جنسیہ حقیر تھی

فریب وقت نے گہرا حجاب ڈالا ہے وہاں بھی شمعیں جلا دو جہاں اُجالا ہے
سید حسن شاہ عرف بابو میرا پردادا، سلطان اکبر ”خان” میرا نانا تھا۔بابو اور سبحان کے نام دو قبیلے۔
میرانانا میرے دادا کا بھانجا جسے حکمت سکھا ئی، تاکہ انگریزسے دور ہو۔ چچا انور شاہ کلینک کرتاتوبڑا دولتمند ہوتا،چچازاد کہتا تھا: ”ہم پر حرام نہیں لگتا” ۔ اگر سخاوت نہ کریں تو پھر ہمیں حلال بھی نہیں لگتا۔
پاکستان کاپہلا صدر سکندر مرزا افسر تھا تومیرے نانا سلطان اکبر شاہ سے جٹہ قلعہ افغانی پیر ”شیر آغا” کیلئے کرائے پر مانگا ۔ مگر نانا نے کہا کہ ”میں افغان بھائیوں کے قتل کیلئے نہیں دیتا” ۔ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سے نانا نے کہا کہ جو تمہیں قتل کرتے ہیں ان کو زمینیں دیتے ہو اورجوقتل نہیں کرتے تو ان کو کچھ نہیں دیتے؟۔ پھر دائر ہ دین پناہ کی زمین دی۔
گومل مٹی کا مکان سستاتھا۔ میرے والد کانیگرم مسجد کیلئے ملکہ کوہسار مری سے کاریگر لائے تھے۔
پہلی بار شامی پیر کانیگرم آیا توداڑھی نہ نکلی تھی علماء نے سمجھا کہ میم ہے۔ ڈھول بجاکر لشکر لایاتھا۔ دادا نے شامی پیر کیساتھ بٹھادیا توشرمندہ ہوگئے۔ شامی پیر انکے منہ پر سگریٹ کا دھواں چھوڑرہاتھا۔ مَرزا( بھائی کوکہتے ہیں) علی خان فقیراے پی کے خطوط سیدایوب شاہ لکھتا تھاجوBAتھا،افغانستان سے پہلا اخبار نکالا۔امیرامان اللہ خان کا بھائی پکڑا گیا جو نادر خان کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ سید ایوب شاہ پر حاسد نے غلط الزام لگایا۔ توپ سے اُڑانے کی سزا سنائی گئی پھر افغانستان سے جلاوطن کردیاگیاتھا۔
شامی پیردوسری بارآیاتو لشکر لیکر افغانستان میں رشتہ دارامیر امان اللہ خان کو اقتداردلانا چاہتا تھا۔ سیدایوب اسکا میزبان تھا پھر انگریز نے بمباری کی اور کانیگرم میں ہمارے گھرپر جہاز سے گولہ پھینکا ۔ ظفر علی خان نے 1937ء میں بمباری پر احتجاج کیا اور کانگریس کی خاموشی پر مذمتی اشعارلکھے۔ شامی پیر نے اپنا جانشین بنانا چاہا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کریں ۔دادا نے جواب دیا کہ ”میں اپنے گناہ اللہ سے معاف کرواؤں تو بہت ہیں ،تیری خلافت کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا”۔
فاضل دیوبند پیر مبارک شاہ نے سکول بنالیا۔ دادا نے کہا کہ ” انگریز کیلئے تعلیم یافتہ غلام مت بناؤ ، اب توکچھ لوگ بندوق اٹھالیتے ہیں ”۔ نانا نے کہا: ”عوام کو ہمارے گدھے چلانے سے مت نکالو”۔

” خان” کون او رکیسے؟؟:

کانیگرم کا”خان” لاولد میانجی خیل تھا۔ ایک بیٹی سیداکبرشاہ اورایک دل بند میانجی خیل کی بیوی تھی۔ دل بند اپنی بیوی کے حق کیلئے لڑا تھا لیکن 8 ایجنسیوں کے MNA شمن خیل محسود نے سید اکبر کی بیوی کے حق میں فیصلہ کرایا ۔ سید اکبر لاولد تھا۔ ایک بیٹی سے سوتیلا ماموں”محمود” اورایک بیٹی سے خالوپیرعالم شاہ ”خان بابا” تھا۔جو شامی پیرکے خلیفہ پیر اللہ دادا شاہ میانجی خیل کے فرزند تھے۔
اپر کانیگرم کا چوروں کیخلاف لشکر بن گیا۔ سید اکبر شاہ کے دوبھائی مظفرشاہ ، منور شاہ قتل ہوگئے۔ تیسرے صنوبر شاہ کو الزام لگاکر قتل کیا گیا پھر محمودکو چورنے قتل کیا ،یہ اتفاق تھایا پیچھے کوئی سازش تھی؟۔
سبحان کے پوتوں نے تنگی بادینزئی کو خیر بادکہا۔ بابو نے رہائشی مکان،زمینیں دیں۔ نانا نے مکان بیچا۔ خریدار نے کہا: ” مبارکباد دو”۔ دادا نے رقم دی اورکہا کہ صبح سامان نظر آیاتو اچھا نہیں ہوگا پھر مسجد کی قریبی زمین دلجوئی کیلئے دی۔ پیر کرم شاہ نے اٹلی سے خط لکھا کہ ”یہ گولی کی زبان سمجھتے ہیں، خان بننا ہمارا حق تھا ”۔ جٹہ قلعہ بنگلے میں فاروق شاہ سبحان شاہ کا جانشین تھا۔ یوسف شاہ کو فکرہے۔ اگر حقائق کاپتہ چلے توعناد کی جگہ الفت وموودت پیدا ہوگی۔
77ء میں رفیق شاہ شہیدخان بابا اورپیر فاروق شاہ کو بٹھاکرمیرے والد نے پیپلزپارٹی کے منو خان کنڈی کو جتوایا ۔ماموں 70ء میں قیوم ”شیر” 77ء مفتی محمودسے پرامیدتھے۔ فاروق لغاری صدر بنا تو اسے کہاکہ ”یہ کرسی نہ چھوڑنا”۔جنرل نصیر اللہ بابر دوست کو جیل میں نہیں ملاکہ سرکارناراض ہوگی۔
8قبائلی ایجنسیوں کی تمام انگریز انٹیلی جنسیہ کو یکجا کیا جائے تو عزت و غیرت میں کانیگرم کی عوامی انٹیلی جنسیہ کے بادشاہ خان اور اسکے خاندان کو نہیں پہنچ سکتے ۔ یہ شخصیت اور خاندان قابل رشک ہے۔ جنگ میں لاش اٹھانے کی ہمت شادی خان نے کی تھی مشکل ترین لمحات میں بادشاہ خان نے ساتھ دیا تھا۔لوگ عوامی انٹیلی جنسیہ کوعزت سے جرنیل کہتے مگر سرکاری انٹیلی جنسیہ کو حقیر سمجھتے ۔ 00 13 ملکان ووٹ بیچ کر MNA بناتے ۔ حمزہ نے ابوجہل سے کہا :اے چوتڑ کو خوشبو لگانے والامیرے بھتیجے کو گالی دی ہے؟۔ (الرحیق المختوم)سیدبلال کی عزت، ابولہب اور اسکی بیوی کی ذلت کردار کا انقلاب تھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لیلة القدر کی رات برصغیر پاک و ہند انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور یہ بہت بڑا راز تھا

لیلة القدر کی رات برصغیر پاک و ہند انگریز کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور یہ بہت بڑا راز تھا

جاپان پر ایٹم بم 15اگست 1945کوگرایا ۔ برصغیر کی آزادی 15اگست رات 12بجکر ایک منٹ پر رکھی تاکہ جاپان جس دن یوم سیاہ منائے، اس دن برصغیر پاک و ہند میں آزادی کا جشن منایا جائے۔
ہندوستان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آزاد ہند کے سربراہ کا حلف اٹھایا۔ گدھا، پالان اور سوار وہی تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا تھا۔ پھر بھی جہاں بھارت آج آزاد ملک ہے تو وہاں کینیڈا میں برطانیہ کا حلف اٹھایا جارہا ہے۔
آزادی کا شعور لیلة القدر کافیض ہے۔ اللہ نے فرمایا :” ہم نے اس کو لیلة القدر میں نازل کیا اور تمہیں کیا پتہ کہ لیلة القدر کیا ہے؟ ۔ لیلة القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے”۔ اگر آزادی طلوع فجر کے بعد ملتی تو القدر کا فیض نہ ملتا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر،سرحد اور افغانستان میں سبھی قومیں امامت کی حقدار ہیں۔ ان کی وجہ سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا پوری دنیا میں آغاز ہوگا۔ امام ابو حنیفہ کے اساتذہ اہل بیت تھے اسلئے ایران یہ انقلاب قبول کریگا۔ قرآن کی طرف رجوع حنفی مسلک کی بنیاد ہے۔ احادیث کی کتابیں 100سال بعد لکھی گئیں۔جس کا یہ فائدہ تھا کہ سنت محفوظ ہوگئی مگر دوسری طرف اُمت مسلمہ کا عمومی رجحان قرآن سے ہٹ گیا اور امام ابو حنیفہ نے اسلئے قرآن پر بہت زور دیاتھا۔
(تفصیل سے دیکھئے تفسیر سورہ قدر المقام محمود)
میری والدہ نے اصرار کیا تومیرے دادا سید امیر شاہ نے بتایاکہ رمضان کی 27ویں لیلة القدر کو ہاتف غیب سے میں نے 3دفعہ یہ آیت سنی تھی۔
وامتازو االیوم ایھا المجرمون
”اور الگ ہوجاؤ آج کے دن اے مجرمو!”۔
حاجی محمد عثمان کو مولانا فقیر محمد نے مسجد نبوی ۖ میں الہام پر 27رمضان لیلة القدر کوخلافت دی۔ اور لکھ دیا کہ” بہت شکریہ کہ خلافت قبول فرمالی”۔
اگر پاکستان میں ہزار مہینے کے بعد بھی خلافت کے خواب کی تکمیل ہوجائے اور قرآن کی طرف قوم کارجوع ہوجائے تو بہت سستا سودا ہے۔ اب تواپنا کچھ بھی نہیں بگڑا ہے۔ ایک ایک مسئلے اور بات پر ہم ایک دوسرے کو چیلنج اور سازش کرنے کے بجائے وہ حقائق کھول کھول کر بیان کریں جن سے ہماری اور پوری قوم کی اصلاح ہوگی۔ فوج خود کو پاک سمجھ رہی تھی مگرپھرآنکھیں کھل گئیں تو سب کی کھل جائیں۔

آیت 230البقرہ میں تیسری طلاق نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا گیا ہے کہ آیت230میں تیسری طلاق مرادہے۔یہ لوگ قرآن اور نبی کریم ۖ کی حدیث کے علاوہ اپنے اپنے اکابرین اور درسِ نظامی کی تعلیمات کے بھی منکر ہیں۔ ریاضی، سائنس اور معاشرتی علوم سمجھنے والوں کو تو چھوڑئیے ،بالکل ان پڑھ لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آسکتی ہے کہ آیت 230سے مراد تیسری طلاق قطعی طور پربالکل بھی نہیں ہے۔
درسِ نظامی میں حنفی مسلک کا مؤقف یہ ہے کہ اس طلا ق کا تعلق آیت229کے شروع میں موجود الطلاق مرتان (طلاق دومرتبہ ہے) سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آیت 229کے آخر میں 230سے بالکل متصل فدیہ کی صورت سے ہے۔ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنے والے اگر بالکل گدھے نہیں ہوں تو وہ حنفی مسلک کے اس مؤقف کو سمجھتے ہیں۔
اس حنفی مؤقف کی تائید ذخیرہ احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” آیت 229میں الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان میں تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔
یہ حدیث دیوبندی مکتب کے وفاق المدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح البخاری ” اور بریلوی مکتب کے تنظیم المدارس کے صدر مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی کتاب ”نعم الباری شرح صحیح البخاری ” میں نقل کی ہے۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری میں نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ پاکی کی حالت میں پہلی بار طلاق یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی میں دوسری بار طلاق یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت میں تیسری بارطلاق یا رجوع۔ اور نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ہے۔ عدت کے مراحل اور طلاق کے مراتب ایک دوسرے کیساتھ لازم وملزوم ہیں۔ان پڑھ بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے۔

البقرہ آیة 230 کا تعلق صرف فدیہ سے ہی ہے

مشہور حنفی عالم علامہ تمنا عمادی کی کتاب ”الطلاق مرتان” میں حنفی مسلک کے مطابق آیت 230البقرہ کی طلاق کو بالکل متصل آیت 229 کے فدیہ کی صورت سے جوڑا گیا ہے۔ عام طور سبھی علماء ودانشور حضرات فدیہ کو خلع قرار دیتے ہیں۔ اگریہ بات درست مانی جائے تو پھر صرف خلع کی صورت میں حلالہ کا حکم ہوگا اور آیت 230 میں ذکر کردہ طلاق سے مراد خلع کے بعد کی طلاق ہے۔ جب علماء ومفتیان کا تعلق مسلک حنفی سے ہے تو پھر حلالہ صرف اور صرف خلع کی صورت میں ہوگا۔ پھر اگر حقیقی حنفی مسلک اور درسِ نظامی کی تعلیم کے مطابق حلالہ کو خلع تک محدود کردیا جائے تو عورت کو اپنے کئے کی سزا مل جائے گی مگر مرد کے گناہ کی سزا تو عورت کو نہیں ملے گی؟۔ علامہ تمنا عمادی نے لکھا ہے کہ حلالہ سزا ہے لیکن عورت کے فعل کی سزا ہے۔
اگر کوئی اپنی معمولی عقل وفہم سے کچھ دیر تدبر کرے تو آیت229البقرہ سے واضح ہوجائے گا کہ فدیہ سے مراد خلع ہرگز نہیں ہے اور اس کی وجہ سے مسلکوں ، فرقوں اور دانشوروں کی وہ ساری چالیں ناکام ہوجائیں گی جن کی بنیاد پر وہ مٹک مٹک کر اپنی علمیت کا جادو جماتے رہتے ہیں۔
آیت229میں اللہ کے حکم ، نبیۖ کی سنت کے مطابق پہلے طہر میں پہلی مرتبہ طلاق، دوسرے طہر میں دوسری مرتبہ طلاق اور تیسرے طہر میں پھر معروف رجوع یا تیسری مرتبہ طلاق دی گئی تو تین طلاقیں مکمل ہوگئیں۔ اور کوئی طلاق باقی نہیں۔ تین طہر میں تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ نے فدیہ کا حکم سمجھایا ہے کہ پھر شوہر کیلئے کوئی بھی اپنی طرف سے دی ہوئی چیزواپس لینا جائز نہیں ہے۔ مثلاً 100چیزیں دی ہیں تو ایک بھی نہیں لے سکتا ۔ مگر جب دونوں اور فیصلہ والوں کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو پھر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ مثلاً موبائل کی سم شوہر نے دی اور اس سے دونوں میں رابطہ اور اللہ کی حدود توڑنے کا اندیشہ ہے تو سم کو واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرسم کے علاوہ اس کے شوہر نے موبائل بھی دیا ہے تو موبائل لینا جائز نہیں ہوگا ۔

عمران خان و بشری بی بی عدت کیس خلع یا طلاق؟

عدالت کے جج خاور مانیکا اور بشریٰ بی بی کے درمیان فیصلہ کس بنیاد پر کریںگے؟۔عائلی قوانین میں طلاق کی عدت 3ماہ ہے، تحریری طلاق کے بعد عدت میں نکاح ہوا، جسکے گواہ اور نکاح خواں ہیں۔ پھر عدت کے بعد نکاح کے گواہ ونکاح خواں ہیں۔
عورت طلاق کے ایک دن بعد نکاح کرے اور شوہر کیس کرے تو عورت کی بات کا اعتبار ہوگا؟۔ یہ بات عورت مارچ کی ہدیٰ بھرگڑی بھی نہ مانے گی اور اگر یہ قانون بنانا ہے تو پارلیمنٹ سے منظور کرو۔
ہیرا منڈی اور دیگر برائی کے مراکز کی بات بھی نہیں بلکہ مدارس میں حلالہ کے نام پر شریف خواتین کی عزتوں کو جس طرح تار تار کیا جاتا ہے اس کا حل نکالو۔مفتی تقی عثمانی کا ”فتاویٰ عثمانی ” بیہودگی کے جن حدود کو پار کرچکاہے اس کا تدارک کرو۔ اورمدارس میں قرآن وسنت کے خلاف جو تعلیمات ہیں ان کی اصلاح کیلئے میدان میں نکلو۔ عمران اور بشریٰ کا مسئلہ بھی بالکل باعزت اور قرآن وسنت ہی کے مطابق حل ہوجائے گا۔ تحریک انصاف ریاست مدینہ کی بات کرتی ہے لیکن اس کیلئے نظام سے پہلے اسلامی تعلیمات کو پیش کرنا ہوگا۔ رسول اللہ ۖ کی طرف سے ووٹ اور تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا لیکن دنیا نے اسلامی نظام کو قبول کرلیا۔
عیسائی آج بھی مسلمانوں سے تعداد، حکومت، طاقت، تعلیم ، ترقی اور شعور میں بہت زیادہ ہیں لیکن اسلام جیت گیا اور عیسائیت ہار گئی ۔اسلئے کہ عیسائی مذہب میں طلاق کا تصور نہیں تھا لیکن قرآن سب سے زیادہ اسی معاشرتی مسئلے کو بار بار دہر اتا ہے۔ آج صرف عیسائی نہیں پوری دنیا کے ان مذاہب کو شکست ہوگئی جو شرعی طلاق کو نہیں مانتے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ طلاق کی طرح کیا حلالہ بھی فطرت کا راستہ ہے؟۔ اگر نہیں تو یہ دیکھا جائے کہ قرآن نے حلالہ سے چھٹکارا دلایا ہے یا لعنت پر لگایا ہے؟۔
بشریٰ بی بی 3طلاق کے بعد گھر سے نکلنا چاہتی تھی مگر خاور مانیکا نے کہا کہ عدت گھر میں گزارلو۔ بشریٰ بی بی کا ذہن نکاح کیلئے بنا تو تحریری طلاق مانگ لی۔یہی خلع تھا اور خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔ جو تحریری طلاق کے بعد پوری تھی۔

البقرہ آیة 229کا تعلق خلع سے قطعاً نہیںہے

میری بہت سارے علماء ومفتیان سے بالمشافہہ ملاقات ہوتی ہے تو سب اس بات پر دنگ رہ جاتے ہیں کہ آیت 230البقرہ میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق واقعی فدیہ ہی کی صورت سے ہے اور پھر فدیہ سے خلع مراد ہوہی نہیں سکتا ہے تو کیسے علماء و مفتیان کی طرف سے قرآن سے انحراف جاری ہے اور خواتین کو حلالہ کی لعنت پر مجبور کیا جارہا ہے؟۔
مجھے عمران خان کی قیادت اور عوامی مقبولیت پر اعتراض نہیں ہے کیونکہ ایک مسجد اور مدرسہ کے علماء ومفتیان کو حق سمجھ میں آتا ہے لیکن وہ قرآن کی خاطر قربانی نہیں دیتے اور عمران خان ریاست کیخلاف ڈٹ کر کھڑا ہے۔ البتہ کل بھی اسی ریاست کی ٹانگ میں اس نے اپنا سر دیا تھا اور کل بھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ پھر نظام کے آگے مجبور ہوکر گھٹنے ٹیکے گا۔
پھر کیوں نہ وہ کام کیا جائے کہ جس کا فائدہ بھی فوری طور پر لوگوں کو پہنچے۔ کسی کی تذلیل بھی نہ ہو۔ لوگوں کی عزتیں بھی بچ جائیں اور اختیارات کے پیچھے دوڑنے والے بھی اپنی ہوس کچھ کم کرلیں؟۔
جس طرح طلاق کی حقیقت سے دنیا آگاہ ہوئی اور ہزار ،گیارہ سوسال بعد عیسائیوں کو حقیقت سمجھ میں آگئی تو اس طرح اگر مسلمانوں کو ہزار ،گیارہ سو سال بعد حلالہ کی لعنت سمجھ میں آجائے تو اچھا ہوگا۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ دنیا کو حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اسلام نے ساڑھے 14سو سال پہلے سمجھا یا تھا اور اسی وقت سمجھ میں بھی آیا تھا جس کی وجہ سے حلالے کی لعنت کا تصور دنیا سے ختم ہوگیا۔ لیکن شاید اب بھی اسرائیل کا کٹر مذہبی طبقہ اس میں مبتلاء ہو۔اور اس میں سب سے بڑا قصور مسلمانوں کا تھا اسلئے کہ انہوں نے خود بھی حلالہ کی لعنت کا سفر جلد شروع کیا اور پھر اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا۔ مولانا مودوی ،علامہ وحیدالزمان ،جاوید احمد غامدی اور تمنا عمادی نے بھی آیت 229البقرہ سے خلع مراد لیکر عورت، معاشرہ ، فطرت اور اسلام کا بیڑہ غرق کیا۔
سورہ النساء آیت19میں خلع اور آیت 20 ، 21 میں طلاق واضح ہے۔ سنی ، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، جماعت اسلامی ، غامدی، پرویزی اور انجینئر علی مرزا سبھی ٹھیک ہوسکتے ہیں۔

البقرہ 228 ، 229، 231 ،232 کا خلاصہ

سورہ بقرہ کی آیات 230سے پہلے کی آیات اور بعد کی آیات میں بالکل کوئی بھی تضاد نہیں ہے ۔ طلاق سے رجوع کیلئے ”علت” باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رضامندی ہے۔ ایک عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو ایک اور دومرتبہ کی طلاق میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ آیت228البقرہ میں اللہ نے فرمایاکہ ” اور ان کے شوہر اس انتظار کی عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگروہ اصلاح چاہتے ہوں”۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عدت کی پوری مدت میں شوہر کیلئے رجوع کی اجازت ہے۔ اس میں ایک ساتھ 3طلاق یا پھر پاکی کے مختلف ادوار میں 3مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش ہے۔ لیکن اگر عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش نہیں ۔ یعنی طلاق سے رجوع کی” علت”باہمی رضامندی ہے۔ اگر رضامندی نہ ہو تو پھر رجوع کرنا حرام ہے اور یہی حکم آیت 229البقرہ میں بھی موجود ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد عدت کے آخری مرحلہ میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے۔ معروف سے مراد باہمی اصلاح اور رضامندی ہے۔ باہمی اصلاح و رضامندی کے بغیر رجوع کرنا حرام ہے۔
آیت 230میں جس طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہے اس سے پہلے یہ واضح کیا گیا ہے کہ دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کی طرف سے رجوع کی گنجائش باقی نہ رہے اسلئے حکم واضح ہے ۔
آیت 231البقرہ میں یہ واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کرنا درست ہے۔ یعنی باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے لیکن اگر رضامندی نہ ہو تو نہیں ہے۔
آیت 232البقرہ میں بھی واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی و معروف رجوع کی گنجائش ہے لیکن باہمی رضامندی کے بغیر نہیں۔
سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی یہی خلاصہ بیان کیا گیا ہے کہ باہمی رضامندی سے عدت اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش ہے۔ خالی بخاری میں ایک حدیث سے مغالطہ دیا گیا ہے جو کہ بخاری کی اپنی روایات اور فقہ حنفی کے منافی ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا، سواد اعظم کا اتباع اور امت کا گمراہی پر اکھٹے نہ ہونے کی خوشخبری

جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا، سواد اعظم کا اتباع اور امت کا گمراہی پر اکھٹے نہ ہونے کی خوشخبری

فرمایاۖافضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے

قال رسول اللہ ۖ افضل الجہاد کلمة الحق عندالسطان الجائر۔
ترجمہ: ”رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ افضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے”۔ اور یہ ہے کہ نبیۖ نے دریافت کرنے پرفرمایاکہ ”افضل جہاد جابر بادشاہ کے سامنے کلمۂ عدل ہے”۔
پاکستان میں گزشتہ سال 9مئی کاواقعہ ہوا۔ اگر پاکستان کی فوج عوام کے سامنے سرنڈر ہوجاتی تو عمران خان کو امام انقلاب اور امام خمینی قرار دیا جاتا لیکن اب حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کا پارٹی چھوڑنے اور کارکنوں کا اذیتیں اٹھانے کے بعد ایک طرف کہا جارہاہے کہ فوج نے یہ خود کیا ہے اور دوسری طرف عوامی مقبولیت کا فائدہ اٹھاکر سوشل میڈیا پر نفرت کو فروغ دیا جارہا ہے اور پاکستان اس سے اپنے بھیانک انجام کی طرف جارہاہے۔ پاکستان وہ گدھا بن چکا ہے جس نے اونٹ نہیں ریل مال گاڑی کا بار اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے سب مل بیٹھ کر ایک ایسا لائحہ ٔ عمل تشکیل دیتے اور نفرتوں کی جگہ سنجیدگی کو فروغ ملتا۔
اگر حکومت وریاست اور مقتدر طبقات کے سامنے کلمہ ٔ عدل اور حق کی بات پیش کی جائے تو ہم موجودہ مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ نوازشریف کے دور میں بھی سپریم کورٹ پر حملہ ہوا تھا اور عمران خان و ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکنوں نے بھی پارلیمنٹ پر حملہ اورPTVپر قبضہ کرلیا تھا۔ فوج نے جن کو ناز ونخروں سے پالا تو انہوں نے اس کا جواب اس وقت طاقت سے دیا کہ جب ان میں ہمت پیدا ہوگئی ۔ البتہ جب تک عدالت اور پارلیمنٹ نشانہ تھے تو ان کو برداشت کیا گیا۔ پہلی مرتبہ جب عمران خان اور اس کے کارکنوں کی جانب سے مقتدرہ فوج کو نشانہ بنایا جارہاہے تو وہ برداشت نہیں۔
عمران خان اور نوازشریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن بھی دی اور برا بھلا بھی کہہ دیا۔ مولانا فضل الرحمن معتدل اور متوازن شخصیت ہیں۔ 44سالوں سے آئین پر عمل کا کہہ رہے ہیں۔

فرمایا ۖ ”سواد اعظم (بڑی جماعت، پارٹی) کا اتباع کرو”

قال رسول اللہۖ اتبعواالسواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار
ترجمہ:” رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ بڑی جماعت کے پیچھے چلو ،جو پھسلا وہ آگ میں پھسلا”۔
جمہور کی اصطلاح اسلامی کتب میں اسلام کے شروع دور سے موجود ہے۔ جمہور صحابہ نے ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی کی خلافت قبول کرلی۔ لیکن سعد بن عبادہ نے ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھی۔
حضرت علی نے حضرت عثمان کے خلاف شکایات کا نوٹس لیا اور کلمۂ عدل بلند کیا کہ ابوبکر وعمر سے آپ کا نسب ، آپ کی اسلام کیلئے قربانی اور نبی ۖ سے قرابتداری کم نہیں ہے ۔ اگر لوگوں کو شکایت رہی اور اس کا ازالہ نہیں کیا گیا اور خلیفة المسلمین اپنی مسند پر قتل ہوا تو یہ خونریزی قیامت تک بھی نہیں رک سکے گی۔ اسلئے عوامی شکایات کا ازالہ کریں ورنہ جب لوگ بے قابو ہوں گے تو مشکل پڑے گی۔
پھر حضرت عثمان کی شہادت تک بات پہنچ گئی۔ پھر حضرت علی کے خلاف محاذ آرائی شروع ہوگئی۔ امام حسن نے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کیلئے کردار ادا کیا اور خلافت سے امیر معاویہ کے حق میں خود دستبردار ہوگئے۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” میں ہے کہ امیر معاویہ نے3 جمعہ کی تقریر میں کہا کہ” سارا مال میراذاتی ہے جیسے چاہوں خرچ کروں”۔ تیسرے جمعہ کو ایک شخص نے کہا کہ”تم غلط کہہ رہے ہو یہ مسلمانوں کا مال ہے”۔ خدشہ تھا کہ جلاد قتل کرے گا ۔امیر معاویہ نے کہا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ حکمران ہرقسم کی الٹی سیدھی بات کریں گے مگر کوئی روکنے والا نہیں ہوگا،جن کو جہنم میں بندر اور خنزیر بناکر پھینکا جائیگا۔ اللہ اس شخص کوخوش رکھے ،جب کوئی جواب نہیں دے رہا تھا تو مجھے یقین ہوا کہ میں ان میں ہوں۔ اس شخص نے میری جان میں جان ڈال دی ”۔ آرمی چیف عاصم منیر کی چاہت ہے کہ کوئی کلمۂ عدل کہے۔ اگر مولانا فضل الرحمن عمران خان کو وزیراعظم بنادے توپھر ملک کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔

فرمایاۖ” بیشک میری امت کبھی گمراہی پر اکٹھی نہ ہوگی”

قال ۖ لن امتی تجتمع علی الضلالة ابدًا ، فعلیکم باالجماعة، فان یداللہ علی الجماعة ”میری امت گمراہی پر اکٹھی نہیں ہوگی ہمیشہ ، تم جماعت کی پیروی کرو، بیشک جماعت پر اللہ کاہاتھ ہے”۔
اصول فقہ کے چار اصول ہیں۔ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ لیکن ”نورالانوار: ملاجیون” میں لکھا ہے کہ اجماع سے مراد اہل سنت ، اہل مدینہ، ائمہ فقہ اور ائمہ اہل بیت سبھی کا اپنی اپنی جگہ الگ الگ اجماع ہے۔
مدارس کے نصاب ”درس نظامی ”کی یہ تعلیم ہے مگر جب اجماع سے الگ الگ اجماع مراد لیا جائے پھر ان الگ الگ اجماع میں تضادات ہوں تو یہ اجماع کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے۔علماء غور فرمائیں!۔
حد یث کا بنیادی مقصد یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ”امت میں اختلاف کا سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا کہ جب امت کا کسی اہم مسئلے پر اجماع ہوجائے”۔ امت کا اجماع تھا کہ ”خلافت قریش میں رہے گی”۔ پھر ترک کی سلطنت عثمانیہ قائم ہوگئی تو اجماع بدل گیا اور غیر قریش اور عجم خاندان کی خلافت پر اجماع ہوگیا۔ متقدمین کے ہاں قرآن پر معاوضہ جائز نہ تھا پھر متأخرین کے ہاں جائز ہوا۔ جمہوریت کو کفر مت کہو!، دین کی تحریف تو علماء نے خود کی۔حدیث سے یہ مراد ہے کہ جمہور کے مقابلے میں اقلیت حق پر ہوسکتی ہے لیکن جمہور کے اقتدار سے الگ راستہ اختیار نہ کیا جائے۔ اسلئے کہ جمہور کے اقتدار پرہی اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ابوبکر سے سعد بن عبادہ نے اختلاف کیا تو خلیفہ کیلئے قریش کی شرط پر اجماع نہیں ہوا بلکہ جمہور اوراقلیت میں اختلاف تھا۔علی وحسناور یزید و مروان سے آج تک جمہور اور اقلیت کا اختلاف ہے۔جمہور کو اجماع کا نام دینا غلط ہے۔ قریش ، بارہ خلفاء قریش واہلبیت کا تعلق سنی وشیعہ احادیث میں مستقبل کیساتھ بھی ہے جن پر امت مسلمہ کا اجماع ہوگا۔ امام حسین نے یزید سے اختلاف کیا مگر تلوار نہیں اٹھائی بلکہ حق اور عدل کی بات کرنے کیلئے یزید کے پاس جانے دینے کا مطالبہ کیا۔ امام حسن معاویہ کے حق میں دستبردار ہوگئے توبعض شیعہ ، بعض بریلوی اور مرزاجہلمی اپنی دکان چمکانے کیلئے امت کو فرقہ واریت کی آگ میں مت جھونکیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جاوید احمدغامدی کا باطل نظریہ اور حقائق کاآئینہ

جاوید احمدغامدی کا باطل نظریہ اور حقائق کاآئینہ

قلابازی کے بھی آداب ہیں،انصار کے مدمقابل مہاجرین کوترجیح ملی کہ قریش تھے! یزید کا بیٹا نہ مانا تو مروان !۔ مروان و یزید کی قرابتداری ، بنوعباس و خلافت عثمانیہ کا خاندانی اقتدار قبول تھا، مگرعلی، حسن و حسین کی قرابتداری قبول نہیں ؟ یہ اجماع نہیں جمہور ہے۔ ذراسوچئے توسہی !۔جاوید احمدغامدی کا باطل نظریہ اور حقائق کاآئینہ

جاویداحمد غامدی نے کہاکہ:” حضرت نوح کے 3بیٹے تھے اور2بیٹوں کی نسل سے خلافت کا وعدہ پورا ہوچکا ہے۔ مسلمان ان میں شامل ہیں۔ اب قیامت تک یہودو نصاریٰ ہی اقتدار میں رہیں گے۔ مسلمانوں کو اقتدار کبھی نہیں مل سکتاہے”۔
انصار ومہاجرین میں خلافت پر اختلاف کا فیصلہ قریش کی بنیاد پر ہوا۔ نورالحسن بخارینے کتاب ” عثمان ذی النورین” میں لکھا کہ حضرت عثمان نے مروان بن حکم کی سزا نبی ۖ سے معاف کروائی۔ یزید کے بیٹے معاویہ نے اقتدار نہ لیا تو مروان کو خلافت کی مسندپر بٹھایاگیا۔ صرف اسلئے کہ مروان حضرت عثمان کے چچازاد،داماداوراس کا تعلق قبیلہ بنوامیہ سے تھا؟۔
بنوامیہ پھر بنوعباس پر اجماع ہوا۔ چچا عباس نے اسلام قبول کیاتھا۔ کیا صرف نبی ۖو علیکے باپ کفر پرمر گئے؟۔ خلافت عثمانیہ میں عجم کی خلافت پر اجماع ہوا۔ باقی ساری دنیا کے عرب وعجم جدی پشتی مسلمان تھے مگر سادات نااہل تھے؟۔
برصغیرمیں سید، صدیقی،فاروقی، عثمانی کے بعد جاوید احمد غامدی نے ”غامدی” لکھا۔ ہم نے یاد دلادیا کہ غامدیہ کے ایک بچے کا ذکر احادیث میں ہے جس کو کھانے کی صلاحیت ملی تو اس کی ماں کو سنگسار ہوئی۔یہی نسل تو نہیں؟۔ پھر جاوید غامدی نے کہا کہ اس نے اپنے شوق سے اپنے نام کیساتھ غامدی لگادیا۔
حالانکہ شوق سے کوئی تخلص،عرف، لقب، کنیت اختیار کرنا تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن نسبت تو بے بنیاد نہیں ہوسکتی مگر یہاں تو آوے کا آوا بگڑچکا ہے سبھی صدیقی، فاروقی ، عثمانی بن گئے۔
روم وایران سپر طاقت تھے۔ بنی اسرائیل و قریش حضرت ابراہیم کی اولاد تو نوح کے بیٹوں کی تقسیم کی کتنی بھونڈی ہے ؟۔ جاوید غامدی نے کہا کہ علی داماد تھا جو گھرکافرد نہیں ہوتا۔ یہ ٹھیک ہے۔ نبی ۖ کا ابوسفیان ، ابوبکر، عمر ، یہودی کی بیٹی سے نکاح ہوا مگرگھر کے فرد نہیں تھے۔ ابوسفیان نے بعد میں اسلام قبول کیا اور علی خالی داماد نہیں بلکہ چچازاد تھا۔ مروان اقتدار کا حقدار یزید کی وجہ سے تھا۔اگر جاوید غامدی کے چچازاد غامدی ہوتے تو قبیلے اورخاندانی اقدار کا پتہ چلتا۔ابھی جاوید غامدی کا داماد جانشین بن رہاہے۔ دارالعلوم کراچی پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کابیٹا مفتی تقی عثمانی اور داماد مفتی عبدالرؤف سکھروی ولی وارث بن بیٹھے۔ دارالعلوم دیوبند، تبلیغی جماعت ، خانقاہ، مسجد، مدرسہ ،اقتدار، تحریک اور پارٹی کونسی چیز موروثی نہیں ہے؟۔
اگر خلفاء راشدین کو مانتے ہو تو چندوں سے بنائے ہوئے گھروندوں میں موروثی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اگر اپنا موروثی نظام نہیں چھوڑ سکتے تو پھر احادیث صحیحہ میں اہل بیت کا کردار عالمی خلافت کیلئے ماننا ہوگا۔ شیعہ فاطمہ، علی، حسن اور حسین کو احادیث کی بنیاد پرمانتا ہے اور یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کی وجہ سے بدترین شیعہ بن چکے ہیں۔
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعًا لست منھم فی شی ئٍ انما امرھم الی اللہ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون ”بیشک جنہوں نے اپنے دین میں تفریق ڈال دی اور بن گئے مختلف گروہ ۔ آپ (اے حبیبۖ) کاان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بیشک ان کا معاملہ صرف اللہ کے حوالے ہے ۔ پھر انہیں متنبہ کرے گا کہ جو وہ کاروائی ڈالتے تھے”۔
دارالعلوم دیوبند دو ٹکڑوں میں تقسیم اور تبلیغی جماعت بھی ۔ علی نے تین خلفائ سے بھرپور تعان جاری رکھا۔ عثمان کے آخری دور میں وہ تعاون نہیں رہا تھا جو بیعت رضوان کے وقت عثمان کی شہادت کی جھوٹی خبر پر نبی ۖ نے بیعت لی تھی تو حضرت علی مشکلات کے شکار ہوگئے۔ علی کی سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن اہل تشیع بہت غلو اختیار کرتے ہیں تو حسن الہ یاری کی تنقید سے خود شیعہ بھی نہیں بچ پارہے ہیں۔
حسن الہ یاری امریکہ میں بیٹھ کر شیعہ سنی اور شیعوں میں نفرت پھیلارہاہے۔ اگر وہ کہتا ہے کہ” محمد بن ابوبکر حضرت علی کا بیٹا تھا۔اگر چہ بظاہر ابوبکر کے صلب سے پیدا ہوا تھا مگر کافر و خبیث کے صلب سے علی کے اس طیب بیٹے کی پیدائش ہوئی”۔ وہ ابوبکر کااسلام ثابت کرنے کا کہہ رہا تھا توایک عربی شیخ نے اس کی بد تہذیبی اور بدتمیزی کا حوصلہ افزاء طریقے سے مقابلہ کرتے ہوئے پوچھ لیا کہ” اسماء بنت عمیس سے جب ابوبکر کا نکاح ہوا تھا تو وہ مسلمان تھا یا کافر؟”۔ جس پر حسن الہ یاری نے کہا کہ بظاہر ان پر اسلام کا اطلاق اور اسلامی احکام جاری ہوتے تھے۔ جس پر عربی شیخ نے کہا کہ بس بات ختم ۔ ہماری بحث ابوبکر کے اسلام پر تھی ایمان پر نہیں ۔ حسن الہ یاری اور شہریار عابدی نے سنی کتب سے جو معاملات اٹھائے اس طرح کی باتیں شیعہ کتب سے 45 سال پہلے دیکھے جو اتنے بھیانک ہیں کہ ان کا ذکرمناسب نہیں ۔ مولانا الیاس گھمن کی ایک ویڈیو شیعہ کتب سے شیعہ کے خلاف ہے اور اس کو ایڈٹ کرکے اہل سنت اور دیوبند کی طرف منسوب کردیا ۔ دونوں کی کتابوں میں گند بھرا ہواہے جس کا واحد علاج قرآن وسنت کی طرف رجوع ہے۔ شیعہ عالم نے انکشاف کیا کہ حسن الہ یاری دراصل ”امریکہ الہ کاری” ہے جس کو شیعوں نے بھگایا۔
قرآن پر شیعہ سنی متفق ہوسکتے ہیں۔ سید جواد حسین نقوی، علامہ شنہشاہ حسین نقوی ، ریاض جوہری، عابد حسین شاکری اورعلامہ حسن ظفر نقوی اور اہلسنت کے علماء کرام مفتی منیر شاکر اور سبھی حضرات قرآن پرجلد متفق ہوجائیں گے۔ انشاء اللہ
ان خلقنا الانسان من نطفة امشاج ” بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے رلے نطفہ سے”۔قرآن سے یہ ثابت ہے کہ انسان ماں باپ دونوں کی اولاد ہے۔ اگرچہ شجرہ کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے لیکن جب نرینہ اولاد نہ ہوتو پھر بیٹی وارث بنتی ہے اور بیٹی کے ذریعے نواسہ بھی وارث بنتا ہے۔
ان اللہ اصطفٰی اٰدم و نوحًا وال ابرہیم وال عمران علی العٰلمین O ”بیشک اللہ نے انتخاب کیا ہے آدم اور نوح کا اور آل ابراہیم وآل عمران کو جہان والوں پر”۔
اذ قالت امرأت عمران رب انی نذرت لک ما فی بطنی محررًا ”جب عمران کی عورت نے کہا کہ اے میرے رب! میں نے نذر مانی ہے تیرے لئے جو بھی میرے پیٹ میں ہے آزاد چھوڑا ہوگا ”۔ پھر اللہ نے بیٹی مریم دیدی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عمران علیہ السلام کو نواسہ عیسیٰ دیا تھا۔ ھنالک دعا زکریا ربہ قال رب ھب لی من لدنک ذریة طیبة انک سمیع الدعائ”زکریا نے وہیں پر اپنے رب سے دعا کی ۔کہا اے میرے رب ! مجھے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔بیشک تو دعا کو سننے والا ہے”۔(سورہ آل عمران)
اگر رسول اللہ ۖ کے بیٹے نہیں تھے تو اللہ نے نواسے حسن اور حسین دیدئیے۔ حضرت ابراہیم کی اولادبنی اسرائیل میں آل عمران کے آخری جانشین حضرت مریم کے بیٹے حضرت عیسٰی تھے اور بنی اسماعیل میں حضرت محمد ۖ پر نبوت ختم ہوگئی لیکن جانشینی کا سلسلہ جاری رہاہے۔ قدرت نے حضرت فاطمہ کے سلسلہ سے حسن و حسین دئیے۔ دشمن نے نبی ۖ کو ابتر کہا تھا لیکن اللہ نے دشمن کو ابتر قرار دے کر آپ کو انا اعطینا ک الکوثر ” بیشک ہم نے آپ کو( کثرت اولاد) عطاء کردی”۔
علی ،فاطمہ ، حسن، حسین کابلند مقام تھا۔ ابوبکر ،عمر ، عثمان کی خلافت علی کی تائید تھی ۔ حسن نے معاویہسے صلح کی۔ حسین نے یزیدیوں کیلئے مشکل کھڑی کی ۔ ائمہ اہل بیت نے بنوامیہ و بنو عباس کی خلافتوں کو کمزور نہیں کیا۔ البتہ کچھ نے ٹکر لینے کی راہ بھی دکھادی۔بادشاہ نہیں علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ امام ابوحنیفہ ودیگر ائمہ اہل سنت ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے۔ نبیۖ کی تائید سے اہل مکہ اسلئے گھبرایا کرتے تھے کہ کہیں ان کو اُچک نہیں لیا جائے۔ علماء حق کیساتھ یہی سنت زندہ رہی۔
حضرت یوسف نے کافر حکمران سے اچھاتعاون کیاپھر علی خلفاء راشدین و صحابہ سے تعاون نہ کرتے؟۔ نبی ۖ کو نبوت 40 سال میں ملی ۔ ابوبکر و عمر خلیفہ بنے تو علیکی عمر 33 اور 35 برس تھی۔ اقتدار کی طلب پر اللہ مدد نہیں کرتا۔بارِ امانت اٹھانے پر اللہ نے ظلوم جہول قرار دیا۔علی میں اقتدار کی بھوک نہیں تھی۔ قرآن میں لیذھب عنکم رجس سے ازواج مطہرات مرادہیں۔ ان کی تطہیر جنسی خواہشات کے گند سے کردی گئی ۔
جبکہ حدیث میں اہل بیت کیلئے یہی دعا ہے اور اس سے بارامانت اقتدار کی ہوس کے گند کو دور کرنا مراد ہے۔حسن الہ یاری جیسے ملعون شیعہ ہوتے اور قرآن میں ازواج مطہرات مراد لیتے تو اس کے منطقی نتائج 100فیصد منفی اور غلط نکالتے۔
ایک صحابی نے اپنے بیٹے کا رنگ مختلف پایا تو نبیۖکی خدمت میںعرض کیا۔ آپۖ نے پوچھا :سرخ اونٹوں کا گلہ ہوتا ہے تو اس میں کالا یا سفید بچہ کس پر جاتا ہے؟۔ صحابی نے کہا کہ اپنے گذشتہ نسلوں پر۔ نبیۖ کی بات سے وہ مطمئن ہوگئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ریاست ہو ماں کی جیسی اور ماں ہوپھر کھدڑی جیسی؟،پاکستان کی حد ہوگئی !

ریاست ہو ماں کی جیسی اور ماں ہوپھر کھدڑی جیسی؟،پاکستان کی حد ہوگئی !

قرآن وسنت کو دیکھا جائے تو صحابہ کیلئے رسول اللہ ۖ سے اختلاف کی گنجائش تھی جس میں مذہبی فتوے اور اقتدار سے متعلق معاملات ہے۔ سورہ ٔ مجادلہ اوربدری قیدیوںپرفدیہ لیکر معاف کرنے پر حضرت عمر و سعد کے اختلاف کی توثیق ہے اور حضرت عمر نے حدیث قرطاس اور حضرت علی نے محمد رسول اللہ سے صلح حدیبیہ رسول اللہ کے لفظ کو کا ٹنے سے اختلاف کیا تھا۔
یہ علامہ طالب جوہری کاخطیبانہ غلو تھا کہ” رسول اللہ ۖ نے خود رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیا اوراگر علی یہ کاٹ دیتا تو زمین و آسمان میں اسلام تلپٹ ہوجاتا”۔ قرآن وسنت جہالت کی دنیا کا نام نہیں ہے بلکہ علم وعمل کا وہ خزانہ ہے جس پر کافروں کا عمل ہوجائے تووہ بھی دنیاپر امامت وخلافت کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
اسلام کیلئے اقتدار لازم۔ اسلام اسکے بغیر نافذ نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں اسلامی اقتدار کا تصور نہیں تھا۔ پاکستان اسلامی اقتدار کیلئے بنا۔ جس کی بنیاد نظام عدل ہے۔ اقتدار کفر کیساتھ چل سکتا ہے ظلم کیساتھ نہیں۔ انگریز گیا نظام نہیں۔ تاجکستان، افغانستان، پاکستان ، انڈیا گیس پائپ لائنTAPIپر امریکی اجارہ داری کا کوئی جواز نہیں ۔ چین،روس، ایران، افغانستان، ہندوستان،پاکستان اپنا کردار ادا کریں۔ پاکستان، افغانستان ، انڈیااور ایران اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنا روس و چین سے مل کر امریکہ کو نکالنا ہے۔مذہب، دہشتگردی، قوم پرستی ،سیاسی پارٹی کے نام سے امریکہ اپنا کھیل کھیلتا ہے۔ جمہوریت کی جگہ اسلامی امارت اور عام بینکاری کی جگہ اسلامی سودی بینکاری اس کھیل کا حصہ ہیں۔ افغان طالبان اگر قرآن کا حقیقی نظام پیش کریں گے تو مغرب جمہوری طالبان بنے گا۔
جمہوریت کی وجہ سے جو میڈیا آزاد ہے ، اگر خلافت کے نام پر اس کا گلہ دبایا گیا تو جس طرح مارشل لاء بدنام ہے اسی طرح خلافت بدنام ہوگی۔اسلام کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹ مولوی خود ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے منشور میں جب کسان اور مزدور کے حق کی بات رکھی گئی تو علماء نے بڑی تعداد میں سن1970میں یہ فتویٰ دیا کہ” جمعیت کے اکابراسلام سے خارج ہیں”۔ حاجی عثمان نے جنرل ضیاء کا ریفرینڈم غلط قرار دیا تو مرید خلفائ، علماء اور جرنیلوں نے بغاوت کردی۔ مفتی تقی عثمانی نے زکوٰة کی بنیاد کو جڑ سے ختم کردیا اور سود کو اسلامی قرار دیا تو شیخ الاسلام بن گیا۔ جمہوریت میں اس سے بڑا کفر کیا ہوگا کہ سود اور اللہ ورسول ۖ سے جنگ کو جائز قرار دیا جائے؟۔
مولانا فضل الرحمن کہتا ہے کہ” اللہ نے دین کی تکمیل کردی اور نعمت کا اتمام کردیا۔ جس کی تفسیر یہ ہے کہ اب نیا دین نافذ نہیں ہوسکتا ہے اور حکومت بھی ملے گی”۔حالانکہ مدارس وعلماء نے دین کو مسخ کردیا اور اقتدار کی جب زکوٰة ملتی ہے توپھر خوش رہتے ہیں۔ یزید ومروان کو اقتدار مل گیا تو سعید بن المسیب و دیگر فقہاء کو بکریوں کی طرح ذبح کردیا گیا۔ امام ابوحنیفہ قید میں اور اسلام کو مسخ کرنے والا ابویوسف چیف جسٹس بن گیا تھا۔
جمہوریت اور مارشل لاء بہت بدنام ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے علماء ومفتیان کو قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ اسلامی قانون سازی کی روح ہیں۔ اس طرح دورِ جاہلیت کا حلف الفضول بھی۔
البتہ مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے قطع تعلق کیلئے جو بھی جمہوری معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ سے شعب ابی طالب میں3سال مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ بھی غلط مگر قابل قبول تھا اور جمہوریت کی یہی خوبصورتی ہے کہ اچھائی سے رکاوٹ کے تصورات نہیں بن سکتے ہیں۔ اگر طالبان سرکاری سطح پر نہ سہی مگر لڑکیوں کے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی پرائیوٹ بھی اجازت دے دیں تو افغانستان کی خواتین کو بیرون ملک در در کی ٹھوکریں نہیں کھانی پڑیں گی۔ اگر خواتین کیلئے بہترین طرح کی یونیورسٹیوں کا بندوبست کیا گیا تو کرغستان کے بجائے کئی لوگ اپنی بچیوں کو افغانستان میں پڑھانا پسند کریں گے۔
پاکستان چین اور ہندوستان کو بحری اور بری راستے سے راہداری دے ۔ امریکہ ان پر پابندیاں نہیں لگاسکتا ہے۔ جب ایران کے گیس وتیل سے چین وہندوستان کو استفادہ ملے گا تو پاکستان بھی اس کے فیوض وبرکات سے محروم نہیں رہے گا۔
نبی کریم ۖ کے مختلف معاملات پر اختلاف اور اس کی توثیق سے جمہوری نظام کو تقویت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے تو حضرت ابوبکر وعمر سے بھی سعد بن عبادہ نے اختلاف کیا تھا جس کو جنات نے ماردیا تھا؟ یا پھر ریاستی جنات کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا تھا؟۔
نبی ۖ نے ابن صائد دجال کو مارنے کی اجازت بھی نہ دی جس نے نبی ۖ سے کہا کہ آپ امیوں کے رسول ہیں اور میں تمام جہاں والوں کیلئے رسول ہوں۔ریاست پہلے ماں تھی جس کو سینے سے لگاتی تھی ،وہ خوش ہوتا تھا، جس کو دور کرتی تھی تو وہ چیخناچلانا شروع کردیتا تھا۔ اب کھڈری ماں بن چکی ہے جو سینے سے لگانے والے کو بھی خوش نہیں رکھ سکتی۔اقتداراور اپوزیشن والے سبھی اس سے نالاں ہیں جو مکافات عمل ہے۔

فرنٹ لائن ڈیفینڈرسمی بلوچ کو مبارکباد بلوچوں کے حقوق کیلئے ان کی مسلسل جدوجہد مظلوم بلوچ قوم کیلئے حوصلے کی علامت ہے۔ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ

بلوچ قوم خاص طورپر بلوچ خواتین نے بلوچوں کے حقوق کیلئے جس حوصلے کیساتھ جدوجہد کی، اس کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سمی دین بلوچ مسنگ پرسن ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بہادر بیٹی ہیں۔ فرنٹ لائن ڈیفنڈر ایوارڈ جیتنے پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے مبارکباد پیش کی ۔جو ظالم ریاست اور مظلوم عوام کی عکاسی کرتا ہے لیکن پاکستان کو دیگر برادر اسلامی ممالک سے بھی جدا کرتا ہے۔جہاں یہ آزادی اور اس کیلئے جدوجہد کا تصورنہیں!

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عمرایوب مولانا فضل الرحمن کو ایوان کا متفقہ اپوزیشن لیڈربنادے تو بہترہوگا

عمرایوب مولانا فضل الرحمن کو ایوان کا متفقہ اپوزیشن لیڈربنادے تو بہترہوگا

قرآن میں بار بار اللہ اور اسکے رسولۖ کی اطاعت کا حکم ہے۔ اللہ نے فرمایا: لا اکرہ فی الدین ” دین میں زبردستی (جبر) نہیں ہے”۔من شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر ”جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے تووہ کفر کرے”۔
رسول اللہ ۖ نے قرآنی آیات پر عمل کیا تھا۔ یہود کیساتھ میثاق مدینہ اور مشرکین مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ بھی عملی تفاسیر ہیں۔ جس کو پاکستان، افغانستان، ایران ، سعودی عرب عام کریں۔ جمہوری و آمرانہ ممالک قرآن وسنت کے پیمانے پر خود کو تولیں توافغان طالبان کا سخت گیر رویہ ملاعمر کے دور میں اسلامی نہ تھا۔ آج طالبان ملاعمر کی روش کو چھوڑ چکے ۔ اور بہت اچھا کیا ہے مگر اب بھی پاکستان کا جمہوری رویہ طالبان کے سخت گیرآمرانہ روش کے مقابلے میں زیادہ اسلامی ، اخلاقی اور انسانی ہے۔
اس اقتدار کا جواز نہیں، جب حکمران عوام اور عوام حکمران پر اعتمادنہ رکھے، پھر رویہ آمرانہ ہوتا ہے۔ افغانستان میں حنفیوں کی اکثریت اور جمہور کا مذہب رائج کردیا۔ ملا کی دوڑ مسجدتک اور طالبان کی دوڑ حنفی مسلک تک؟۔مولانا فضل الرحمن جمہوری بنیاد پر جتنی جرأت سے بولتا ہے افغانستان، سعودیہ اور ایران میں اس کا تصور نہیں ۔ بینظیر بھٹو سے اختلاف اپنی جگہ مگرکراچی میں حملہ ہوا،150افراد شہید ہوگئے ۔پھر میدان میں نکل کر شہید ہوگئی۔ ملاعمرسے عقیدت مگر گھر میںمرا ۔اسامہ مارا یا اٹھایا گیا؟۔یہ خبرمغربی میڈیا پرہی منحصر ہے جمہوری ملک میں تبدیلی کیلئے خونریزی کی ضرورت نہیں۔ عراق اور لیبیا میں آمریت تھی ۔ دوسری عرب بادشاہتوں میں بھی آمریت ہے۔ اسلام میں نہ تو آمریت ہے اور نہ ہی اس طرح کی جمہوریت۔جس میں عوام کی رائے خریدنے وتبدیل کرنے کیلئے پیسوں کا استعمال ہو ۔ سیاست منافع بخش کاروبار بن جائے۔البتہ آمریت کے مقابلے میں جمہوری نظام کو اسلام کے قریب اسلئے قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس میں آزادی کا بہترین تصور ہے۔ جبکہ آمریت میں عوام کی بدترین غلامی کے تصورات ہیں۔صحیح مسلم کتاب الامارة میں ہے۔
باب قولہ ۖ ” طائفة من اامتی لا تزال من امتی ظاہرین علی الحق لایضرھم من خالفھم ”۔ ”میری امت میں ایک گروہ کے لوگ ہمیشہ حق کی بنیاد پر غالب رہیں گے،ان کو نقصان نہ پہنچاسکیں گے جو انکی مخالفت کریںگے”۔
علماء جب تک حلالہ کی لعنت کا دھندہ نہیں چھوڑ تے تو بد سے بدتر حالت میں رہیں گے۔ کھانا پینا اور نفسانی خواہشات تو جانوروں کی بھی پوری ہوتی ہیں۔ مغربی جمہوری نظام سے بھی اسلامی احکام کو قبول کرنے کی توقع ہے مگر علماء ہٹ دھرم ہیں۔
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے پہلے اور آپ کے بعد حاجی محمد عثمان تک ایک گروہ کی تاریخ ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولانا فقیر محمدجو مجذوب اور معذور شخص تھے۔ کھانے، پینے اور نماز وغیرہ میں مسلسل روتے تھے مگر باربار الہام ہوا کہ حاجی عثمان کی خدمت میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی خلافت پیش کی جائے۔ حاجی عثماننے منع کردیا کہ مجھے شرح صدر نہ ہو تو قبول نہیں کرسکتا۔ مسجد نبوی ۖ27رمضان المبارک کو مولانا فقیر محمد کے ورود نے شدت کی انتہاء کردی تو حاجی عثمان نے خلافت قبول کرلی۔جس میں حاجی عثمان کو مولانا فقیر محمد نے مولانا تھانوی کے نہیں بلکہ دادا پیر حاجی امداد اللہ مہاجر کے بہت مشابہ قرار دیا۔ حالانکہ حاجی عثمان کے مقابلے میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔پھرمولانا فقیر محمد نے بہک کر خلافت واپس لی تو اسکا اتنا اثر نہ پڑا ، جتنا فقیر کشکول رکھے اور واپس لے۔ کمال یہ تھا کہ مفتی احمد الرحمن مہتمم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی اور مفتی محمد جمیل خان جنگ گروپ نے مولانا فقیر محمد سے پوچھا کہ خلافت ورود سے دی یا مشورہ سے؟ مولانا فقیر محمد نے کہا کہ ورود سے۔ پوچھا کہ ورود سے واپس لی یا مشورہ سے؟۔ مولانا فقیر محمد نے کہاکہ مشورہ سے۔ علماء نے بتایا کہ” شریعت میں آپ کو مشاورت سے خلافت واپس لینے کا حق نہیںہے”۔ مولانا فقیر محمد نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے لیٹر پیڈ پر لکھ دیا کہ ”میں نے حاجی محمد عثمان کو ورود کی نسبت سے جو خلافت دی تھی وہ تاحال دائم اور قائم ہے”۔ اس پر ان علماء ومفتیان کے دستخط ہیں۔ پھر انہی علماء کی طرف سے مولانا فقیر محمد کو خط لکھ دیا کہ ”حاجی عثمان سے خلافت واپس لینے کا ہم مشورہ دیتے ہیں”۔ کفر وگمراہی کا فتویٰ لگے تو مشورہ نہیں فتویٰ ہوتا ہے کہ ”ورود باطل ہے، تم پیری کے لائق نہیں ہو، پہلے اپنی اصلاح کرلو”۔ ان علماء کی شریعت بھی کاروباراور طریقت بھی کاروبارہی تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے مجھے کہا تھا کہ ” کراچی کے معروف علماء ومفتیان کو آپ نے بکرے کی طرح لٹادیا ہے ،چھرا ہاتھ میں ہے،اگر ذبح کرلیا تو ہم بھی ان کی ٹانگیں پکڑ لیں گے”۔
میری تحریک انصاف کے عمرایوب سے گزارش ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو ”حزب اختلاف کا متفقہ اپوزیشن لیڈر”ہی بنادے۔ محمود خان اچکزئی کو صدارتی الیکشن لڑانے میں قربانی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ،جب پارٹی کو کامیابی کا یقین نہیں ہوتا ہے تو اپنے قائد کو بھی وزیراعظم کا الیکشن نہیں لڑاتے۔ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہی نہیں خطے اور بین الاقوامی سیاست میں بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ پہلے بھی عمران خان اور نوازشریف نے وزیراعظم کا ووٹ دیا تھا اور اپوزشن لیڈر بن گئے تھے تو پرویزمشرف کے خلاف اہم کردار ادا کیا تھا۔
قال رسول اللہ ۖ : لایزال اہل غرب ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعة ” صحیح مسلم کتاب الامارة”
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اہل غرب ہمیشہ غالب رہیں گے حق کی بنیاد پریہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے”۔ آج مغرب میں فسلطین کیلئے مظاہرہ میڈیا دکھاتا ہے اور اسلام آباد میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کو میڈیا کوریج نہیں دیتا بلکہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے ساتھیوں کو گاڑی سے کچلا گیا۔ وہ علماء ومفتیان، جماعت اسلامی، سیاسی جماعتیں جوجنرل ضیاء الحق کیBٹیم تھے آج جمہوریت کے علمبردار بن گئے۔ عمران خان کا صدارتی پروجیکٹ ناکام ہونے کے بعد سعد نذیر کے ذریعے جمہوریت کو کفر قرار دینے کا نیا پروجیکٹ شروع ہوگیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شہید غیرت پیکر حمیت پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت کو17سال ہوگئے ۔ تحقیقاتی صحافت کا ایک نیا آئینہ

شہید غیرت پیکر حمیت پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت کو17سال ہوگئے ۔ تحقیقاتی صحافت کا ایک نیا آئینہ

علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر ستم یہ کہ مگر کوفیوں میں گزری (ڈاکٹر عبد القدیر خان)

اخبارضرب حق کراچی سن1997سے مئی سن2007تک سیاسی، مذہبی، بین الاقوامی موضوع اور تائیدات۔ سن1991سے تصانیف ، ملک بھر میں فروخت ،خطبہ حجة الوداع کے الفاظ کی لاؤڈ اسپیکر پر سبھی زبانوں اُردو، سندھی، پنجابی، بلوچی ، پشتو میں تبلیغ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرکا فرض پورا کردیا تھا۔
اے لوگو! وہ باتیں سن لو جس سے تم ٹھیک زندگی گزار سکو گے۔ خبردار ! ظلم نہ کرنا ،خبردار ! ظلم نہ کرنا ، خبردار ! ظلم نہ کرنا ۔
مسلمانو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں حرمت والی ہیں …میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو…مسلمانو! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ نماز پڑھنے والے اس کی پرستش کریں لیکن وہ تمہارے درمیان رخنہ اندازی کرے گا۔ …مسلمانو! اللہ کی کتاب قرآن مجید کو مضبوط تھام لو تاکہ تم سیدھی راہ سے ہٹ کر گمراہ نہ ہو۔ …کسی مسلمان شخص کے مال میں سے کچھ لینا جائز نہیں ہاں اگر وہ راضی ہو۔ …جاندار کی تصویر جائز نہیں جاندار کی تصویر کو مٹادو۔…پردے کا اہتمام کرنا فرض ہے ، پردے کا اہتمام کرو۔ …داڑھی منڈوانا جائز نہیں شریعت کے مطابق داڑھی رکھو۔…گانا بجانا حرام ہے گانا مت بجاؤ۔
نماز، روزہ، زکوٰة اور حج بیت اللہ کی علمی اور عملی ذمہ داری پوری کرو۔ …اپنے نفس، معاشرے اور پوری عالم کی اصلاح کیلئے جدوجہد کرو۔ …اللہ کی راہ میں جہاد کرو اورپوری دنیا پر چھاجاؤ۔ …اللہ اور اسکے رسولۖ کی اطاعت میں وہ طاقت ہے جسکے ذریعے کمزور سے کمزور تر جماعت فاتح عالم بن سکتی ہے۔
نقش انقلاب مہدی آخرزمان سے قبل11خلفاء قریش، ہر ایک پر اُمت کا اجماع۔ مہدی امیر اول پھر5افراد کا حسن ،5افراد کا حسین کی اولاد سے، آخر پھر حسن کی اولاد سے ہوگا۔ (مظاہر حق شرح مشکوٰة ) علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھا کہ12خلفاء میں ہر ایک پر اُمت کا اجماع ہوگا۔مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑہ نے اپنی کتاب ”تصفیہ مابین شیعہ و سنی” میں لکھاکہ ”وہ 12خلفاء قریش آئیں گے جن پر اُمت کا اجماع ہوگا”۔ شاہ اسماعیل شہید نے ”منصب امامت” میں مہدی خراسان کا ذکرکیا اورکتاب ”الاربعین فی احوال المہدیین” لکھی ہے ۔
نبی ۖ نے فرمایا: وہ اُمت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول مَیں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور آخر عیسیٰ ۔ شیعہ مصنف نے اپنی کتاب ”الصراط السوی فی احوال المہدی” میں لکھا کہ ”اس سے مہدی عباسی مراد ہوسکتا ہے ، حدیث میں مہدی کے بعد11مہدی جن کو حکومت بھی ملے گی لیکن پھر مہدی آخری امیر کیسے ہوں گے؟”۔جواب یہ ہے کہ آخری مہدی سے قبل11مہدی اور کئی قیام قائم ہوں گے۔ حسنی، سیدگیلانی ، حسینی امام مجہول کا ذکر طالب جوہری نے اپنی کتاب میں کیاہے۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: قحطانی مہدی کے بعد ہوگا اور وہ اس جیسا ہوگا۔ ارطاة نے کہا: مجھے خبر پہنچی کہ مہدی40سال زندہ رہے گا۔ پھر اپنے بستر پر مر جائے گا۔ پھر قحطان سے ایک شخص سوراخ دار کانوں والانکلے گا،جومہدی سے الگ نہ ہوگا۔ 20سال رہے گا پھر اسلحہ سے قتل ہوگاپھر اہلبیت نبیۖ سے نیک سیرت مہدی نکلے گا، شہرقیصر پر جہاد کرے گا اور وہ اُمت محمد ۖ کا آخری امیر ہوگا۔ اسی دور میں دجال نکلے گا اور عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ یہ سارے آثار میں نے نعیم بن حماد کی کتاب الفتن سے اخذ کئے ہیں وہ ائمہ حفاظ اور بخاری کے شیوخ میں ایک ہیں۔( الحاوی للفتاویٰ ، جلد دوم ، صفحہ80:علامہ سیوطی )
بونیرعلاقہ چملہ اگارے میں شاہ وزیر کو محمد سعید نے کہا کہ تم گمراہی پھیلاتے ہو۔ شاہ وزیر نے کہا کہ کتاب میں شریعت کیخلاف بات ہو تو چوک پر گولی ماردو۔ مولانا عبد الرحمن کے پاس گئے۔ مولانا نے کہا کہ ”کتاب میں گمراہی کی بات نہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ موجودہ دورمیں یہ ایسے عزم والے ہیں”۔ مولانا کے بیٹے مولانا اسحاق اورمولانا زبیر جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل ہیں اور انکے بھتیجے دار العلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔
جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور نے ہماری تائید کی اور لکھا کہ ”فرقہ کی جڑیں ختم کردیں۔ اب گدھ فرقہ واریت کی چوٹی پر بیٹھ کر مردار کی ہڈیاںنوچتے رہیں”۔ ڈاکٹرعبدالرزاق سکندر نے قرون اولیٰ کی طرح اصلاح کیلئے ہماری رہنمائی فرمائی ۔
ڈاکٹر اسرار احمدکی عالمی خلافت کانفرنس2001میں تقریر کی۔ لاالہ الااللہ، افرأیت من اتخذ الہ ھواہ ”کیا تو نے اس کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا معبود بنایا”۔ کیا اس کو دیکھا جس نے امریکہ کو اپنا معبود بنایا؟۔آج غلامی کی زنجیریں توڑنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مجھے سن1991میں جیل جانا پڑا تھا۔ جب طالبان کی مقبولیت آسمان کو چھورہی تھی تو میں لکھتا تھا کہ دوسروں پر خودکش کی جگہ خود پر حدشرعی جاری کرو تو پوری دنیا میں اسلام کے نفاذ کا مشن کامیاب ہوگا۔
طوفان کررہا تھا میرے عزم کا طواف دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے
واقعہ کے بعد خیبر ہاؤس پشاور پہنچا تو ماموں زاد شہر یار نے بتایا کہ ” باقاعدہ میٹنگ میں طالبان کی ذہن سازی کی گئی کہ یہ گھر بڑا ظالم ہے، لوگوں سے بیویاں اور بچے چھین لئے ہیں، بدمعاش ہیں ، طالبان کوبڑا اُکسایا گیا”۔

بھونڈے مظالم کی وضاحتیں :

اورنگزیب نے حملہ آور طالبان پر وار کردیا تو بھی کہا گیا کہ اس کی غلطی تھی۔ طاقتور کے سامنے سرنڈر ہونا بے عزتی تھی۔ امام حسین کی دنیا میں عزت سرنڈر نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
ہمارا کلچر مختلف ہے۔ لوگ رشتہ نہ دینے پر اور ہمارے والا طبقہ رشتہ نہ لینے پر ناراض ہوتا ہے کہ دیا ہے تولیا کیوں نہیں؟۔
ضیاء الدین نے رشتہ لیا، شہریار نے انکار کیا اور اورنگزیب کی داماد ی مزید بگاڑتھا۔ اسفندیار ازالہ کرتا مگر تپش بڑھادی۔ احمد یار آخری تھاجو آگ بجھا تا اسلئے میںواقعہ کی رات طالبان گڑھ ماموں کے گھر گیا۔تاکہ ماموں احمد یار کے رشتے سے شہریار کے رشتے کا ازالہ کردے۔ جس سے ماموں کے گھر میں لگی آگ بجھ سکتی تھی۔ یہ اتنا گھمبیر مسئلہ تھا کہ ضیاء الدین کی شادی تھی اور دلہا دلہن کی ماں بہنوں کی بات چیت نہ تھی۔ میں نے مامی سے پردہ توڑ کر صلح کرائی تھی۔ ضیاء الدین نے یہ زندگی کیسے گزاری ہوگی؟۔ اس کی مغفرت کیلئے یہی کافی ہے۔
حاجی اورنگزیب نے بتایا کہ ”طالبان اسکے پیچھے ایک بار گھر پر آئے تھے اور دوسری مرتبہ گلاب کے بیٹے سے پوچھا تھا کہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ ضیاء الدین کیساتھ ہے”۔ واقعہ سے پہلے مشکوک گاڑی کھڑی تھی۔ ضیاء الدین نے کہا طالبان نے کہا کہ ”اسلحہ جمع کررہے تھے۔ مطمئن رہو”۔ اورنگزیب کو ضیاء الدین پر اعتماد تھا۔ اسلحہ رکھااور بے خوف سوگئے ؟۔
منہاج نے کہا تھا کہ معافی کیلئے آنا منع کردواور ضد کی کہ میرا بھائی بھی مرا ہے تو نثار نے کہا : ” آپ کا بھائی ایسا مرا جیسے مہمان مارے گئے ”۔ منہاج نے مہم جوئی کی کہ” نثار نے کہا کہ آپ کا بھائی پڑوسیوں کی طرح مرا ہے اسلئے ہم الگ ہیں”۔ ریاض نے کہا کہ” نثار نے درست کہا، معاملہ تو ان کا ہے”۔
منہاج نے بتایا کہ قاری حسین اکیلا تمہارے سکول کے پاس کھڑا تھا۔ ہماری کوڑ میں ملاقاتیں تھیں ۔ چائے روٹی کا پوچھا مگر وہ انجان بن گیا۔ کوڑ کا پیر کریم ماجراء بتا سکتا ہے۔ عثمان نے بعد میں دوسروں پر گواہی دی توپہلے کیوں نہ بتایا؟۔
بیت اللہ محسود نے قاری حسین ، حکیم اللہ محسود پر قصاص کا حکم کیا۔ طالبان نے معافی مانگتے ہوئے واضح کیا کہ” ایسا ظلم اسرائیلی یہود فلسطین میں بھی نہیں کرتے ”۔پھر قاری حسین و حکیم اللہ نے بیت اللہ محسود سے کہا کہ ” تیرے حکم پر خاندان ملک اور اسکی فیملی ماردی پھرتو تم بھی قصاص کیلئے تیار ہوجاؤ”۔ جس کی وجہ سے بیت اللہ محسودانکے قصاص سے پیچھے ہٹ گیا۔

ممکنہ ڈھونگ مظالم کی بنیادیں :

ہمارابہنوئی سعودی عرب میں تھا۔ اسکے بھائی نے اپنی سالی سے اس کی شادی کرائی اور میری بہن کو نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔
ہمارا الگ کلچر ہے۔ یوسف شاہ سے کہا کہ تمہارے بھانجے بھانجیاں تمہارے گھر اور تمہارے بھتیجے اور بھتیجیاں انکے ماموں کے گھرکے افراد تھے۔ یہی حال ہماری بھابھی کا بھی تھا۔ہمارا کوئی محسود ، وزیر اور بیٹنی کلچر نہیں تھا ۔ جس پر وہ خوش ہوگئے۔
پیرکریم سے پوچھا تھا کہ ایک طرف آپ کا بھانجا پیر شفیق اور دوسری طرف میرا بھانجا عبدالرحیم ہے۔کیا کہتے ہو؟۔ تو اس نے کہا کہ میرا بھانجا غلطی پرہے۔ میں نے بیٹے کیلئے بھائی جلیل کی بیٹی مانگی ، اس نے انکار کردیا توکیا میں اس پر پابندی لگاتا؟۔ میں نے کہا کہ تیری نسلوں میں بھی رشتہ نہیں لوں گا۔ بعد میں طالبان نے ایسی غلط بندشوں کو توڑ کر بہت اچھا کیا ۔
عبدالرحیم نے شادی کی ٹھانی تو میں نے کہا کہ کھل کر نہیں چھپ کر لائیں ۔ وہاں پہنچے تو خالدنے نور علی، ضیاء الدین اور فیاض کوبھی پہنچادیا تھا۔وہاں چاروں گھروں کی نمائندگی تھی۔
ماموں نے رشتے کے مسئلہ پر کہا کہ مجھ میں محسود کا رگ ہے۔ اپنا خون بہاتا ہوں اور دوسروں کا بھی۔ میں نے کہا کہ ”محسود کامفاد ہوتاہے۔ لاکھوں پر بیٹی بیچے تو کیسے بٹھادے؟۔ محسودکی غیرت بڑے ماموں میںتھی ،اگروہ ہوتے تو ہم پر فائرنگ کے بعد کم ازکم کوئی بھی طالبان کو یہاں نہ بساتا ”۔
کانیگرم میں میرے والد کے چچازاد عرف ملنگ دادا کے گھر سے قریب ایک محسودکی بیوہ نے قبضہ کیا۔جو برکی کی بہن ہے۔ منہاج کے والد نے ملنگ دادا کولپائی سے منع کیا تھا مگر اپنوں نے ساتھ نہیں دیا تو ماموں نے لپائی پر پشتو غیرت کی ہمت نہ کی اور کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ بیٹھک بنارہاہے۔ ملنگ داداکو لایاپڑوسی کو دبانے کیلئے اور پھر اپنی عزت وغیرت ختم کرادی۔

فوجی لیز کی30کنال کا ماجراء :

نانا کے بھتیجے گل امین نے نوکری میں پیسے کمائے اور اپنے باپ اور چاچوں پر خوب پیسہ لٹایا۔انہوں نے اس کو جائیداد کا چوتھا حصہ دیکر بھائی بنادیا۔ آخر میں گل امین بیمار تھا ۔ بہن محمود کی بیوہ تھی۔محمود کے بعد اسکے باپ سلطان اکبر شاہ نے خانی کا نمبر پورا کیا۔ ماموں خان بن گیا تو گل امین نے مسئلہ اٹھادیا۔ جس پر ماموں نے کہا کہ میں چوتھا بھائی بھی نہیں مانتاہوں ۔
محمود کی اکلوتی بہن کی اکلوتی بیٹی کا بیٹا ایوب شاہ گریڈ21میں ریٹائرڈ ہوا۔ محمود کی بیوہ گل امین کی بہن تھی۔ گل امین بیمار تھا اور چاہتا تھا کہ خان کی نوکری کا بھاڑہ اسکے بیٹے ریاض کو مل جائے۔ریاض نےCSSمیں قبائل کے اندر پہلی پوزیشن لی اور اگر انٹرویو میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف بات نہ کرتا تو پھر کمشنر انکم ٹیکس کی جگہ انتظامیہ کے کمشنر سے بھی زیادہ ترقی کرتا۔ انٹرویو میں پوچھا گیا کہ جنرل ضیاء الحق میں کتنی خامیاں ہیں؟، توریاض نے کہا کہ اسلام کے نام پر جمہوریت کو معطل کرکے مارشل لاء لگانے سے لیکر بے شمار خامیاں ہیں۔ خوبیاں پوچھو۔ اس نے کہا کہ خوبیاں کونسی ہیں۔ ریاض نے کہا کہ کوئی نہیں۔ اگر پاکستان میں حق گوئی کی سزا نہیں دی جاتی تو ملک ترقی کرتا اورحالات یہ نہ ہوتے ۔ میرے بھائی امیرالدین ایکس کمشنر بنوں نےCSSکیا تھا اور7میں سے پانچواں نمبر تھا مگر اس کو پھر بھی چھوڑدیا گیا۔ عدالت میں جج نے کہا کہ فوج سے ہمارا مقابلہ نہیں ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا بھائیPTCLسےDMGگروپ میں پہنچ کر کمشنر بن گیا۔
گل امین باپ کی زندگی میں فوت ہوتا تو یتیم بچوں کا دادا کی میراث میں حصہ نہیں تھا۔ علماء نے خود ساختہ شریعت بنائی۔
أفرأیت الذی یکذب بالدین فذالک الذی یدع الیتیم ” کیاآپ نے اس کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے پس یہ وہی ہے جو یتیم کو چھوڑ دیتا ہے”۔(مولوی کی نشاندہی)
گل امین نے جو خرچہ کیا تھا وہ قانون اور شریعت میں اپنا کیس ہارتا اور جائیداد سے مکمل محرومی کا سامنا تھا۔ اسکے بچے میرے والد کے بھانجے ہیں۔ گل امین نے دعویٰ کیا کہ لیز کے پچاس کنال کی قیمت میں نے دی ۔ حالانکہ مشترکہ زمین تھی اور اس کی کوئی متعین قیمت ہوتی تو بھی دونوں مالکان کی مرضی سے طے ہوتی اور دونوں کو برابرکے پیسے بھی ملنے تھے۔
30کنال سے گل امین کی چوتھائی کا مسئلہ حل ہوتا تو والد کیلئے یہ بڑی چیز نہیں تھی۔ اس نے کہا تھا کہ غیاث الدین کو قسم نہیں اٹھواتا ،بس صرف اتنا کہہ دے کہ پیسہ دیا ہے تو مجھے پہنچ گئے ہیں۔وہ تو خاموش بھی گل امین کے فائدہ میں ہوا تھا۔
جب گل امین کا مسئلہ30کنال لیز پر حل نہیں ہوا بلکہ قوم نے نانا کی قبر پر جانور ذبح کئے ۔ زمین ہماری اکیلی بھی نہیں تھی تو پھر اس کے بعد معاملے میں الجھاؤ کا کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا۔
میرے باپ کو نیلام میں سستی بندوقیں ملیں ،مارکیٹ قیمت چار گنا تھی۔ گل امین سے کہا کہ ایک تمہارے لئے لی ہے۔ اس نے کہا کہ1500میں آپ نے لی اور میں2500لوں گا۔ دونوں مجھے دینا۔ ماموں کیساتھ جھگڑا چل رہاتھا۔میرے والد چاہتے تھے کہ بندوق گل امین کوملے اور گل امین نے چاہا کہ ماموں کو نہ ملے۔ دوسری بندوق6000ہزار میں بیچ دی۔
جلال کو گل امین نے گھر کے سودا کیلئے رقم دی اور کہا کہ سریرالدین، علاء الدین اور سعدالدین کو نقدی کی ضرورت ہو تو دینا۔ جب دوسرے دن کاپی کا لکھاہواحساب گل امین کو دکھایا تھا توجب سعد الدین کا نام آتا تھا تو ایک گالی بھی دیتا تھا۔
زمین پر پیر جمیل اور شوکت کو قید کیا گیاتھا۔ مینک کے بیٹے کو زد وکوب و قید کرنا کس کی غلطی تھی؟۔ اکبر علی اور نواز حاجی آئے کہ مینک کے مسئلے پر بلایا ہے۔ حاجی بدیع الزمان نے کہا کہ مینک نے دھونس دیا کہ فوج سے بلڈوز کروں گا۔ نثار نے کہا کہ مینک سے کہو کہ پارٹنر سے بات کرو۔ اس نے قسمت خان سے50کنال کا تبادلہ کیاتھا ۔ یہ50ہمارے حساب میںآگئی۔
پھر منہاج نے کہا کہ ہماری مینک سے بات ہوگئی ۔ ہم ایک کنال کے بدلے اس کو سوادو کنال دیں گے۔ پھر اس کے ساتھ جھگڑا کیا تو یہ کس کا قصور تھا؟۔ یہ سب طے ہونا چاہیے۔
مجھے یہ دکھ تھا کہ سب نے بھائی ممتاز کے گھر پر دھاوا بولا تھا اسلئے نثار سے کہا تھا کہ اب تصفیہ بہرحال ہونا چاہیے اور اگر تم نہیں کرتے تو میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاؤں گا۔
پھر نثار بھائی نے کہا کہ مینک کو بے عزت کیا اور اس نے یہ شرط رکھی ہے کہ علی باچہ کی زمین پر صلح کروں گا۔ اسکے بدلے جٹہ میں ہندو والی زمین دیںگے۔ فیصلہ ہوگیااور بعد میں نثار بھائی نے کہا کہ ہمیں دوسری زمین دی ۔ میں نے کہا کہ حقائق سے تو آگاہ کرتے ۔ نثار نے کہا کہ ان کو واپس کردینی ہے۔10کنال واحد10داؤد اور10گلبہار کی والدہ کو۔
پہلے اشرف علی سے ریاض لالانے کہا تھا کہ ہمیں پیسے نہیں ملے اور میرا باغ لے لیں۔ میں نے کہا تھا کہ جتنی زمین ریاض کے پاس ہے تو یہ وراثت میں پھوپھی کا حق ہے۔ داؤد اور واحد کی والدہ کا اتنا حق ہے جتنی زمین پر بیٹھے ہیں۔ ماموں سے حساب نہیں۔ بہر حال یہ زمین دیں بھی تو ہم نہیں لیں گے ۔
اگر زمین کا پیسہ دینے کے بعد میرا باپ مکر گیا تو دوسری مرتبہ پارٹنر کو دیتا جسکے نام کاغذ تھے؟ ۔ واحد اور داؤد سے کہا کہ پرائی زمین دینے کا کیافائدہ ؟۔ جہانزیب نے بتایا کہ بہن مجھ سے ناراض تھی۔ بہنوں کو زمین دیں تو اچھی دیں ۔2کنال شبیر کو راستہ ملے۔7کنال داؤد،7واحد اور7نوبہار کی والدہ کو مل جائے۔ ساڑھے تین کنال ریاض کی والدہ اور ساڑھے تین ملازئی کی پھوپھی کودیںتوپھر دل کو بھی تسلی مل جائے گی۔
ریاض نے بتایا کہ عالمگیر نے کہا کہ ”ہماری زمین تھی لیکن نور علی نے کہا کہ ماموں ہیں”۔ ہر چیز کی وضاحت ضروری ہے۔ عالمگیر کے بچوں کا حق ہم کیوں کھائیں گے؟۔اگرسب باتیں ریکارڈ پر نہیں ہوں گی تو ظالم اور مظلوم کا کوئی پتہ بھی نہیں چلے گا اور غلط فہمیاں بارودی سرنگیں بن جاتی ہیں۔
میرے والد کا ہاتھ تنگ تھا تو زمین قائم میاں خیل کو بیچی۔ دوست نعمت زرگر نے رقم دی کہ آپ دیں نہیں تو بیٹے دیں، نہیں تو یہ میری ہوگی۔ پھر گلزار احمد خان نے سرکاری ریٹ پرزمینوں کا مالک بنادیا۔ حاجی تامین کی منافع بخش زمین نعمت کو دینے کا فیصلہ کیا مگر دماغ خراب تھا اسلئے انکار کردیا۔
ماموں اور علاء الدین نے کہا کہ ہمیں دیدو۔ والد نے کہا کہ مجھے بھی پیسوں کی ضرورت ہے اگر تم بیچتے ہو تو نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم رکھیں گے ، پھر ممتاز نے ان سے کہا کہ یہ زمین میں لیتا ہوں لیکن انہوں نے کہا کہ فائدے کی چیز ہم بھی جانتے ہیں۔ پھر انہوں نے اچھی خاصی قیمت پر بیچ دی۔ اور کمال یہ کیا کہ والد نے علی خان کی زمین پر شفہ کا دعویٰ کیا تھا کہ میں خریدوں گا اور علاء الدین نے کم قیمت میں وہ خرید لی۔ اکبر علی نے کہا تھا کہ” علی خان کی زمین کیلئے تمہارے پاس پیسے نہ تھے تو اس کی ملحقہ زمین آپ کیلئے خریدی”۔ پروپیگنڈہ مہم پریکطرفہ ٹریفک چلے تو پھر نتائج بھی بھیانک نکلتے ہیں۔
میرے والد نے کوٹ اعظم روڈ پر کتنے لوگوں کو سرکاری ریٹ پر آباد کیا ؟۔ چاچاانور شاہ کو بٹیاری میں زمین دلائی تھی لیکن وہ وسواسی تھے اور آخر میں اسکے پیسے پھینک دئیے تھے۔
مینک نے کہا تھا کہ تم قسم اٹھاؤ اور آدھی زمین لے لو یا پھر میں قسم اٹھاتا ہوں کہ ایک تہائی تمہاری ہے۔ میرے بھائیوں نے والد کو بتائے بغیر اس کو قسم کیلئے کہہ دیا اور35کنال کم زمین لی۔ جب مینک کیلئے35کنال چھوڑ سکتے تھے تو30کنال اپنوں کیلئے چھوڑنے میں کونسا مسئلہ تھا؟۔حاجی تامین کی زمین اسکے10گنے سے زیادہ کا معاملہ تھا۔2سوکنال تھی ۔
ریاض نے کہا کہ” لیز کی زمین کیلئے فیروز راضی نہیں تھا اور آپ کی والدہ نے دوپٹہ پھیلاکر استدعا کی تو اس نے قبول کی۔ مینک کیساتھ بھی آپ نے زیادتی کی ، قسم اٹھوائی۔ آپ کا باپ پیچھے آیا تھا ،ہم نہیں گئے تھے۔ مینک سے بھی ہمیں لڑا دیا”۔
منہاج نے کہا کہ ریاض کو چھوڑ دو، خان کی بیٹی دوپٹہ نہیں پھیلاسکتی تھی؟۔ خان کا بیٹا حاجی تامین کی زمین مانگ سکتا تھا بیوی کیلئے بہن سے ناراض تھا، جب ماموں کو پتہ چلا کہ پیسہ آیا ہے تو راضی ہوگئے۔35ہزار اور نگزیب لائے تھے۔23ہزار میں بس خرید لی جو مشترکہ بن گئی اور پھر گم کھاتے میں چلی گئی۔
منہاج کے دل کا آپرشن تھا تو ڈاکٹر ظفر علی ، منہاج اور میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ زندگی اور موت کا بھروسہ نہیں ہے سارے متنازعہ معاملات نمٹالیں گے۔ یوسف شاہ نے بتایا کہ ہماری زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب بھی10کنال ہمارے نام کی زمین قبضہ میں ہے۔18شبیر کو دی ہے وہ بھی ملکیت کی ہے۔

اخلاقیات کا کوئی معیار ہے؟:

سید حسن شاہ بابو نے نواسوں کو گھر اور زمینیں دیںاور قوم کی مختلف شاخوں میں پیروں کاایک ایک گھر ایڈجسٹ کیا۔ پھر میرے والد نے آٹھواں یکجا کردیا۔ اعظم گل سے لڑائی تھی تو زمین کی سیدھ میں پہاڑ کا حق تھا۔ جو معطل کیا گیا۔ ایسا اصول کھڑا کیا کہ جسکے بعد کوئی ذرا اونچا مکان نہیں بناسکتا ہے؟۔ حالانکہ پورے شہر کی آبادی اوپر نیچے ہے۔ مجھے اعظم گل کے بیٹے نے کہا کہ ہماری یہاں بہت بے عزتی ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کہیں تو میں بھائیوں کو منع کردوں گا۔ اسلئے کہ اگرآپ راضی نہ ہو توہم بھی نہیں آتے؟۔ اس نے کہا کہ آپ سے بڑھ کر پڑوسی تو ہمیں چاہیے نہیں!۔ دل خوش ہوا کہ انکے دل سے پتھر ہٹادیا جو بوجھ سمجھ کر آخری امید لیکر آیاتھا ۔

شریعت کے پر خچے اڑادئیے؟:

جب غلام نبی سے معمولی بات پر لڑائی شروع کردی تو وہ نہیں لڑنا چاہ رہاتھا مولانا عین اللہ محسود کو شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کیلئے بلایا۔ ماموں راستہ بند کرنا چاہتاتھا اور وہ توسیع چاہتا تھا۔ مولانا عین اللہ نے فیصلہ دیا کہ” شریعت میں راستہ وسیع کرنے کیلئے مسجد اور قبرستان کو بھی مسمار کرسکتے ہیں لیکن راستے کو تنگ اور بند کرنے کی گنجائش نہیں ہے”۔
پھر مولانا عین اللہ کو بلایا۔ مولانا غلام محمد نے کہا تھاکہ میں مناظرہ نہیں کرتا۔ پیر جذباتی ہیں، فتنے کا خطرہ ہے۔ تو مولانا عین اللہ نے کہا ”پھر اجرت دوبارہ دیناہو گی”۔ مولانا غلام محمد نے کہا کہ ”اجرت ڈبل لے لو”۔ پھر اس نے نیا فیصلہ لکھ دیا کہ ”شریعت میں گدھے اور اونٹ کا راستہ ہے لیکن گاڑی کاراستہ نہیں”۔ مشہورہوا کہ ”پیروں نے مولوی کو رشوت کھلادی ”۔
قوم نے کہا کہ” یہ راستہ قومی بنالیتے ہیں”۔ ماموں نے کہا کہ ”پہلے میں قوم سے لڑوں گا”۔ میرے والد نے کہا کہ قوم کی بات مانو۔ بدلے میں پیچھے بانڑاں کا راستہ ذاتی بن جاتا تواس میں عزت اور فائدہ تھا مگرانسان کو ضداندھا بنادیتی ہے۔
ماں کا دوپٹہ پھیلانا ، باپ کا مکر ناثابت ہو تو طالبان ایسوں کا قتل جہاد سمجھیں گے مگر باتیںحقائق کے منافی ہوں تو اصلاح ضروری ہے۔ لوگ اپنے قاتل بھائی، باپ کو جیل یا پھانسی سے بچانے کیلئے نہ مظلوم مقتولین کا خیال رکھیں اور نہ خاتون خانہ کی عزت کا پاس توکچھ بھی کرسکتے ہیں۔ عبادت اورذاتی کردار اپنی جگہ لیکن حقوق العباد اسی دنیا میں ضروری ہے اور انقلاب اسی سے آسکتا ہے۔ ابوطالب نے نمازنہیں پڑھی ۔ کافر قرار دیا گیا لیکن ان کی عزت اسلئے تھی کہ ظالم اور غاصب نہیں تھے۔

مشہورٹھیکیدارحاجی پالم خان محسود:

پیر اورنگزیب شہیدC&WکےSDOتھے۔ میں نے کہا کہ مغرب نے ترقی اسلئے کی کہ قوم وملک کاپیسہ اپنی ذات سے زیادہ قومی اشیاء پر لگاتے ہیں، بھائی اورنگزیب نے کہا کہ وانہ روڈ میں پہاڑ کی کٹائی اور کارپٹ سرکارکی ڈیمانڈ سے میں نے زیادہ کام کروادیا تو چیف نے کہا پھر ہم کیا کھائیں گے؟۔ حاجی پالم خان ٹھیکدار تھا مگر بھائی نے کہا کہ میں بلڈنگ وروڈ بنانے کا پورا پورا خیال رکھتا ہوں تاکہ اس میں کوئی نقص نہ ہو۔ اس نے کہا کہ جوپیسہ چین وغیرہ کو دیا جاتا ہے اگر اسکے آدھے پیسے بھی ہمیں ملتے توہم ان سے زیادہ بہتر سڑکیںبنالیتے۔

پشتو اشعار کا ترجمہ:
جب تمہارے اوپر پیچھے سے وار ہوگا
یہ تمہارا اپنا ہی کوئی رشتہ دار ہوگا
یا تو تمہارا دوست ہوگا یا پھر تمہارا یار ہوگا
جس پر تمہارا بہت ہی زیادہ بھروسہ ہوگا
جب حق کی بات کو حق کہو گے
تو تمہیں گالی بھی اذیت دینے کیلئے دی جاتی ہے
جب تم اے عابد ! سفید کپڑے پہنو گے
تو اس کام پر بھی ان کو تمہارے اوپر غصہ آتا ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

صیہونیت نے سودی نظام کے ذریعے پوری دنیا پر قبضہ کرلیاجسکا علاج صرف اسلام ہے؟

صیہونیت نے سودی نظام کے ذریعے پوری دنیا پر قبضہ کرلیاجسکا علاج صرف اسلام ہے؟

رسول اللہ ۖ نے آخری خطبے میں سب سے پہلے اپنے چچاکا سود قتل معاف کرنے کا اعلان کیا تو پوری دنیا میں ایک عظیم انقلاب آگیا جسکے اثرات1924خلافت عثمانیہ تک موجود تھے

امریکہ سودی نظام کی وجہ سے بالکل کھوکھلا ہے ، یورپ اور آسٹریلیا سمیت پوری دنیا سودی نظام کی وجہ سے تباہی کے کنارے پر کھڑی ہوگئی ہے ۔حالانکہ سارے مذاہب نے سود کو حرام قراردیا ہے

صرف پاکستان سودی نظام کی وجہ سے تباہی کے دھانے پر کھڑا نہیں ہے بلکہ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس، جرمنی ، آسٹریلیا ، بھارت اورپوری دنیا میں مہنگائی کا طوفان اور سسٹم ناکام ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان کی کتابیں ”تربیت اولاد” وغیرہ عربی اور ان کا اردو ترجمہ مارکیٹ میں دستیاب ہے لیکن ان کی ایک کتاب ”مسلمان نوجوان” عربی اور اس کا اردو ترجمہ کافی عرصہ ہواہے کہ مارکیٹ سے غائب کردیا گیا ہے۔ جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے پرنسپل ڈاکٹر حبیب اللہ مختار اس کتاب کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے شہید کردئیے گئے تھے اور اس میں عالمی معاشی ماہرین کی رائے لکھی گئی تھی کہ معیشت کیلئے سودی نظام ایک ناکام نظام ہے۔ دوسری طرف مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن کے ذریعے سودی نظام کو جواز بخش دیا گیا اوردونوں کے مکروہ چہروں کو دیوبندی اور بریلوی وفاق المدارس پاکستان اور تنظیم المدارس پاکستان کا صدر بنایا گیا ہے۔ حالانکہ دونوںہی سب سے بڑے جرم کے مرتکب ہیں۔عالمی شیطانی سودی بینکاری کو اسلامی قرار دے دیاہے۔
دنیا کے تمام مذاہب یہودی، عیسائی، ہندو، بدھ مت اور پارسی سبھی کے ہاں سود حرام ہے ۔ اسلام اور مسلمانوں کی آواز پر دنیا کے تمام مذاہب سود کے خاتمے کیلئے زبردست کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ مزارعت کے ذریعے مزارعین کے خاندانوں کو غلامی میں جکڑا جارہا تھا اور سودی نظام کے ذریعے سے دنیا کے ملکوں اور قوموں کو غلامی میں جکڑا جارہاہے۔ امریکہ اور دنیا میں شرح سود پاکستان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ ہمارے تیل، گیس ، سونے و دیگر معدنیات کے خزانوں پر قبضہ مارنے کا خواب دیکھنے والے ہماری عوام اور حکمرانوں کو آخری حدتک پہنچانے کے درپے ہیں۔ قانون، اخلاقیات، مذہب، اقدار، روایات اور انسانیت کو ہمارے ہاں سے ملک بدر کیا جارہاہے لیکن ان کی تمام چالوں کو اللہ کی مدد سے ہم ناکام بناسکتے ہیں۔
ہمارے پاس وافر مقدار میں پانی کے بہاؤ کا نظام ہے۔ جس سے ہم سستی بجلی، کھیتی باڑی، باغات اور جنگلات اُگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری زمینیں معدنی ذخائر سے بہت مالامال ہیں۔ ہمارے پاس صحراؤں اور پہاڑوں کا بڑا سلسلہ ہے۔ ہمارے پاس محنت کش عوام ہیں اور ہمارے پاس دنیا کی بہترین صلاحیتوں والے دماغ ہیں۔ ہمارے پاس ایک اچھی خاصی افرادی صلاحیت ہے۔ کچے کے ڈاکو اور طالبان سے ہی بڑا کام لیا جاسکتا ہے۔ جب لوگ معاشی اعتبار سے مجبور ہوتے ہیں تو ہر غیراخلاقی کام پر کم معاوضے اور جان پر کھیل کر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ جب ملک وقوم پر سودی قرضوں کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ہوگا تو ملک کے ادارے بھی کرپٹ بننے پر ہی مجبور ہوںگے۔ بے روزگار افراد بھی ڈکیتی کا راستہ اختیار کریںگے اور اچھے سے اچھے لوگ بھی برے سے برا بننے پر مجبور ہونگے۔
اگر بے کار لوگوں کو اچھا معاوضہ ملنے لگے تو وہ سب کارآمد بن جائیں گے۔ جب انسانوں کے دماغ اور ہاتھ پیر استعمال ہونا شروع ہوجائیں گے تو ملک وقوم میں دولت کی بہتات بھی ہوجائے گی۔ لوگوں کو دولتمند بنانے کیلئے چند کام کرنے ہیں۔
1:ایرانی تیل کی سمگلنگ کو رشوت کے بغیر قانونی جواز دینا ہوگا۔ پیٹرول سستا ہوگا تو بجلی کی پیداوار اور آمدورفت میں عوام وخواص کو فوری ریلیف ملنا شروع ہوجائے گا۔ مل، فیکٹری اور دیگر معاملات سستے چلنا شروع ہوں گے تو بیرون ملک کی مارکیٹوں میں ہمارا مال بکنا شروع ہوجائے گا اور ڈالروں سے ملک مالامال ہونا شروع ہوجائے گا۔ ایک بہت بڑے طبقے کو روزگار ملے گا۔ چین اور ہندوستان کو بھی سستا پیٹرول ہم دیں گے تو ان سے دوستی بھی مضبوط ہوجائے گی۔ جب لوگوں کے پاس کمائی ہوگی تو ریاست کو چلانے کیلئے عوام خود ٹیکس دے گی اور بیرون ملک کشکول لیکر نہیں گھومنا پڑے گا۔سودی قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی اور ملک پر بوجھ کم ہوجائے گا۔
2:ملک میں زمینوں کو مزارعت پر نہیں بالکل فری دینا شروع کریں گے تو ایک بہت بڑا محنت کش طبقہ خط غربت سے اوپر آجائے گا۔ بہت بڑے پیمانے پر وہ سبزی ، اناج اور گنے وغیرہ اُگانا شروع کردیں گے۔ باغات اور جنگلات اگانے کی طرف بہت لوگ مائل ہوجائیں گے اور پاکستان جنت نظیر بن جائے گا۔ کچے کے ڈاکو اور طالبان ایک اچھے شہری کی زندگی گزاریں گے اور بدمعاشوں سے شریف لوگوں کو تحفظ فراہم کریں گے۔ جنگلات اور باغات اگائیں گے اور دنیا بھر میں مزے سے سیر سپاٹے بھی کرسکیں گے۔ ان کے بچوں کو تعلیم وتربیت کی زندگیاں نصیب ہوں گی۔ کسی طاقتور طبقے کے پھر کبھی ٹاؤٹ کا کردار بھی ادا نہیں کریں گے۔ اسلام و انسانیت سے محبت کریں گے اور غلطیوں کی لوگوں سے معافی مانگیں گے اور ملک میں بیرون ملک سیاح بھی آسکیں گے۔
3:بہاولپور میں ایک بہت بڑا ہوائی اڈہ قائم کریں گے جو سستے پیٹرول کیلئے ایک مثالی مرکز ہوگا۔ دوبئی اور بھارت سے زیادہ بڑا کاروبار ہمارے ہاں چلے گا۔ دنیا کا بہترین بحری بندر گاہ گوادر اور بہترین ہوائی اڈہ بہاولپور کا ہے۔ صرف اس کو چالو کرنے کی ضرورت ہے۔ درآمدات وبرآمدات کیلئے پاکستان سے بہتر دنیا میں کوئی ملک نہیں ہے۔ بحری اور ہوائی راستوں کا معاملہ بھی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور بری راستے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ہندوستان ، برما ، بنگلہ دیش ، بھوٹان، تھائی لینڈ ، نیپال وغیرہ کو ٹرین اور سڑک کے ذریعے عرب اور یورپ کو ملایا جاسکتا ہے۔ دوبئی نے سمندری سرنگ کے ذریعے بھارت کیساتھ ملنے کا پروگرام بنایا ہے لیکن جب پاکستان کے ذریعے بائی روڈ و ٹرین راہداری قائم ہوگی تو ایک بہت بڑا کاروبار ہمیں ملے گا اور پاکستانیوں کوپوری دنیا عزت کی نظر سے دیکھے گی۔ صرف راہداری کے ٹیکس سے بھی ریاست اورحکومت کے تمام اداروں کو چلانے میں مشکل نہیں ہوگی۔
4:ہندوستان ، افغانستان اور ایران کے اشیاء کی خرید اور فروخت کا کاروبار شروع ہوجائے تو پاکستان کے اندر اور باہر ہمارے لوگ بہت بڑے پیمانے پر تجارت کرسکتے ہیں۔ مہنگائی اس وقت مسئلہ ہوتا ہے جب لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن جب پیسہ آتا ہے تو 5ہزار روپے کلو دودھ بھی لوگ خوشی سے لیں گے۔ بھینسوں کا پیشاب اور گوبر صاف کرنے، چارہ کھلانے اور نہلانے دھلانے اور دودھ نکالنے والوں کو بہت اچھا معاوضہ ملنا چاہیے۔ لوگوں کے پاس پیسہ ہوگا تو مہنگائی کے رونے والے نہیں ملیں گے ۔ روزگار کے مواقع ہوں گے تو پھر بدمعاشی ، چوری چکاری اور ڈکیٹی کی جگہ شرافت والی زندگی ہی گزاریں گے۔ پھر لوگوں کو سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز مواد پھیلانے کی فرصت بھی نہیں ہوگی ۔ ان کے اخلاق اور کردار بھی شرافت سے مالامال ہوجائیں گے۔
5:سولر بنانے کے کارخانے پاکستان میں آجائیں گے۔ اور دنیا بھر کو یہاں سے آسانی کیساتھ سپلائی ہوسکے گی۔ ساتھ دریاؤں پر ڈویژن ، ضلع اور تحصیل کی سطح پر بجلی بنانے کے ایسے ٹربائن لگائیں گے جس میں بڑے پیمانے پر سستی بجلی کی سپلائی ممکن ہوسکے۔ دور دراز سے کھمبوں اور تاروں کی ضرورت بھی نہ پڑے اور واپڈا کے محکموں کے ملازمین کو مقامی سطح پر تنخواہیں بھی دی جائیں۔ جس سے درآمدات کا سلسلہ کم اور برآمدات کا سلسلہ خود بخود بہت بڑھ جائے گا۔ یہ صرف مثال پیش کررہا ہوں ، باقی مشاروت سے ماہرین بہت زبردست تجاویز پیش کرسکتے ہیں اور نت نئے معاملات بھی سامنے آجائیں گے اور ڈیموں میں بڑے پیمانے پر مچھلیوں کا کاروبار بھی ہوسکتا ہے۔ دریاؤں کو مغلظات پھینکنے سے بھی صاف کرنے کا بندوست کرنا ہوگا۔ دور دراز کے علاقوں کو نہروں سے بھی مالامال کرنا ہوگا۔
پانی کو صاف کرنے کیلئے ریت کے ٹیلوں سے گزارنے کا طریقہ کار بھی بنانا ہوگا۔ قدرتی بارشوں اور ماحولیات کیلئے بھی بڑے پیمانے پر کام کی ضرورت ہوگی اور اس میں کافی لوگ بھی روزگار حاصل کریںگے۔
6:قرآن وسنت کے معاشرتی ، معاشی اور سائنسی آیات کیلئے بہترین تعلیمی ادارے بنانے پڑیں گے۔حضرت مولانا انور بدخشانی فرماتے تھے کہ ”مدارس میں فقہ نہیں فقہ کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے”۔تسخیرکائنات کیلئے قرآنی آیات میں بڑا زور دیا گیا ہے، ہمارے تعلیمی اداروںمیں تسخیر استنجاء اور فرائض و آداب گھڑنے اور اختلافات پیدا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
پسماندہ علاقوں میں بچوں کی وہ پود ہوتی ہے جن میں کافی صلاحتیں ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں وہ قیمتی ہیرے مزارعت کی دنیا میں دفن ہوجاتے ہیں۔ڈکیت ، بدمعاش اور طالبان بن جاتے ہیں۔ جب اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آئے گا اور قرآن وسنت کی درست تعلیمات سے یہ دنیا آگاہ ہوگی تو پھر پاکستان امامت کرے گا اور اسلامی ممالک اور باقی دنیا اس کے اقتداء میں کام کرنا شروع کریں گے۔
آج بھی پاکستان کی عوام اور خواص میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کچے کے ڈاکوؤں اور طالبان دہشت گردوں کی کتنی اچھی منجمنٹ ہے؟۔ لڑائی اور بدکرداری کی بدولت بہت کچھ ضائع ہوگیا ہے اور آئندہ بھی ضائع ہوتا رہے گا اسلئے آج ہمیں اپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی۔ تیار مدارس اور سکول وکالج کا نظام بھی درست کرلیں تو بہت کچھ بدل جائے گا۔ انشاء اللہ
7:کچے کے ڈاکو اور طالبان سے زیادہ بدتر ہمارے اپنے وہ مستحکم ادارے ہیں جہاں سے مدارس کے نام پر تعلیم دی جاتی ہے، جہاں عدالتوں میں انصاف کا ستیاناس ہوتا ہے۔ جہاں پولیس کے تھانوں میں انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے ۔ جہاں پر تعلیمی اداروں میں باصلاحیت افراد کو ضائع کیا جارہاہے ۔ اور جہاں فوج اور اس کے اداروں کے حالات دگرگوں ہیں۔ کوئی بھی ایسی قابل سیاسی جماعت نہیں ہے جس کے ذریعے کوئی کردار سازی کی جائے۔ ہر پرائیوٹ اور سرکاری ادارے میں چلتی کا نام گاڑی ہے مگر اب گاڑیوں کی مدت بھی ختم ہوگئی ہے اور اگر بروقت اچھے اقدامات نہیں اٹھائے تو بہت بگاڑ آسکتا ہے۔ صرف اگر اسلامی نظریاتی کونسل درست کردار ادا کرے تو بھی ایک انقلابی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے لیکن ہرکسی کو اپنی نوکری کی فکر ہے۔ اگر مجھے اس ادارے میں خدمت کا موقع دیاگیا تو قوم کے رحجات بدلتے ہوئے دکھائی دیں گے،مجھے کوئی عہدہ بھی نہیں چاہیے لیکن میری مفت خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔

اسلامی انسانی انقلاب
اسلامی خلافت کا قیام عمل میںآئے تو دنیا سے سودی نظام کا خاتمہ کریگا جس کی تائید تمام مذاہب کے مخلص طبقات بہت ایمانی غیرت کیساتھ کریں گے۔ امریکہ بھی سودی نظام میں بڑا ڈوبا ہواہے وہ تائید کرے گا۔ یورپی ممالک اور بھارت کا بھی قرضوں سے برا حال ہے وہ بھی تائید کریں گے۔ روس اس کی سب سے پہلے تائید کرے گا اسلئے کہ کمیونزم اور سوشلزم مذہب کے خلاف ہیں لیکن سودی نظام کے خاتمے کو خوش آئند قرار دینا اس کا نظریاتی مسئلہ ہے ۔ چین کی بھی اصل بنیاد وہی ہے۔
یہود کا مذہبی طبقہ بھی شیطان اور صہیونی سودی نظام سے دنیا کی جان چھڑانے کیلئے پیش پیش ہوگا۔ اسرائیل بھی فلسطین پر مظالم بند کردے گا۔ مسلمانوں کو دنیا میں دشمن نہیں سب سے اچھا دوست اور انسان تصور کیا جانے لگے گا۔ مزارعت پوری دنیا میں فری ہوگی۔ سودی نظام نابود ہوجائے گا۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کوتکلیف ضرور ہوگی کہ اچھا خاصا سودی بینک کا معاوضہ مل رہاتھا اور اب محنت مزدوری کرکے بچوں کی پرورش کرنی پڑے گی۔ پاکستان میں حشر کی عدالت لگے گی اور دنیا میں حساب کتاب ہوگا۔ علماء ، جرنیل، جج ، بیوروکریٹ، صحافی اور سیاستدان کے علاوہ تمام طبقات سے ناجائز دولت کا پوچھا جائے گا۔ اچھے لوگوں کیساتھ آسان حساب ہوگا لیکن بڑے بڑے ہاتھ مارنے پر مسلسل اصرار کرنے والوں کا محاسبہ ہوگا۔ عدالتوں میں مہنگے وکیل ان کی سہولت کاری نہیں کرسکیں گے ۔
قرآن میں اس بڑے انقلاب کا جا بجا تفصیل اور اجمال کیساتھ ذکر موجود ہے۔ جب دنیا میں معاشرتی، تعلیمی ، عدالتی اور حکمرانی کا طرزعمل درست ہوگا اور اقتصادی نظام کی درستگی کیلئے سود اور مزارعت کا نظام ختم ہوگا۔ سمگلنگ اور رشوت کے نظام کا خاتمہ ہوجائے گا تو تمام دنیا کے لوگ اس مثالی خوشی میں شریک ہوں گے اور پاکستان سے اپنے اپنے ممالک کیلئے ایسی منجمنٹ مانگیں گے جو ان کے ہاں بھی نظام کو درست کریں۔
عالمی اسلامی خلافت کے قیام میں دنیا بھر کے لوگ ہمارا ساتھ دیں گے۔ روس کا نظام بھی ناکام ہواہے اور امریکہ نے بھی مظالم کے پہاڑ توڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔ اسلام کا انسانی انقلاب نہ صرف مسلمانوں کیلئے بلکہ تمام انسانیت کیلئے ہی ہوگا اور باقی مخلوقات جانور وںاور پرندوں کو بھی تحفظ دے گا۔ اجارہ داری نہیں ہوگی بلکہ ہرشعبہ میں بلاتفریق اہلیت کو ترجیح دی جائے گی۔ عدل اور اہلیت اس کی اصل بنیاد ہوگی ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

منظور پشتین و سید عالم محسودکا مقدمہ

منظور پشتین و سید عالم محسودکا مقدمہ

منظور احمد پشتین صرف محسود اور پشتون قوم کا اثاثہ نہیں بلکہ بلوچ ، سندھی اور سرائیکی مظلوم قوموں کے علاوہ مظلوم پنجابی قوم کیلئے بھی ایک بڑا اثاثہ ہیں۔ اس طرح سیدعالم محسود ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ منظور پشتین نے کہا ہے کہ پشتون قوم اس وقت ایک قوم ہوگی کہ جب چمن کے پشتونوں کی تکلیف تمام پشتون قوم کو محسوس ہو۔ ایک پشتون کے دکھ درد اور تکلیف کے احساس کو تمام پشتون محسوس کریں۔ اب کہیں کسی کو تکلیف ہوتی ہے اور ایک بڑے واقعہ کی وجہ سے وہاں احتجاج ہوتا ہے توکسی اور علاقے کے لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ کیا ہواہے؟۔
منظور احمد پشتین نے کہا کہ دہشت گردوں کے گروپ اور قائدین بدل جاتے ہیں اور جرنیل بھی بدل گئے مگر پالیسیاں اب بھی وہی ہیں۔ عالمی قوتیں اپنی پروکسی کے ذریعے لڑائی ہمارے وطن میں لڑتے ہیں۔ ایک گروپ کو امریکہ فنڈ دیتا ہے اور دوسرے گروپ کو چین فنڈ دیتا ہے لیکن خون ہماری قوم کے لوگوں کا بہتا ہے۔ وسائل ہمارے لوٹ لئے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں قوم کی تنظیم سازی بہت ضروری ہے۔ انقلاب کو بڑے لوگ نہیں لاتے بلکہ عام عوام میں جب شعور آجاتا ہے تو بڑے بڑے انقلاب یہی عام لوگ برپا کرتے ہیں۔
سیدعالم محسود بھی پشتونوں اور ان کے وطن میں ہونے والی سازشوں کی بہت کھل کر بات کرتا ہے۔ غلام قوموں کی مثالیں دیتا ہے اور مشہور دانشوروں کے اقوال زریں سے اپنی قوم میں تعلیم وشعور اور بیداری کی فضاء ہموار کرتا ہے۔ جب کسی قوم کو دوسری اقوام کی کتابوں اور انقلابیوں سے آگاہ کیا جائے تو اس پر اپنی قوم کو قیاس کرنے سے پہلے اپنی قوم کی اصلی حالت بھی ملحوظِ خاطر رکھی جائے اور ان سے قوم کو نجات دلائی جائے۔
حجاز مقدس صحرائے عرب کی وہ سرزمین تھی جس پر کسی بھی بڑی طالع آزما حکمران کی حکمرانی نہیں تھی۔ چھوٹے چھوٹے قبائل تہذیب وتمدن سے محروم ، جنگ وجدل کی آماجگاہ ، ظلم و جبر کی چراگاہ اور جہالت کی اندھیر نگری میں ڈوبے ہوئے منتشر لوگوں کی بستیاں تھیں۔ مکہ اور یثرب بھی اس وقت اس وطن کا حصہ تھے۔ البتہ مکہ مکرمہ کو مذہبی تقدس کا درجہ حاصل تھا۔ لوگ بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے۔ گھوڑا آگے بڑھانے پر سالوں لڑائی کرتے تھے۔ جہالت کی اندھیر نگری میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن بڑی اچھی صفات اور خوبیوں کے بھی یہ مالک تھے۔
رسول اللہ ۖ نے بعثت سے پہلے بھی اتفاق واتحاد کے درس سے اپنی قوم کو نوازا تھا۔ جب تعمیر کعبہ پر حجر اسود رکھنے کا مسئلہ پیش آیا تو سارے قبائل کو نمائندگی کے شرف سے نوازاتھا اور جب اللہ نے وحی نازل کی تو بھی مشاورت کا اہم حکم دیا ۔
وزیرستان کے لوگوں میں عرب سے بڑی مشابہت ہے۔ دی پٹھان میں انگریز نے لکھ دیا ہے کہ یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جو حکمرانوں کی دسترس سے ہمیشہ باہر رہاہے۔ کیونکہ حکمرانوں کی دلچسپی خراج سے ہوتی ہے اور وزیرستان کے لوگوں کے پاس یہ وسائل نہ تھے کہ حکمران ان پر حکومت کرنے میں دلچسپی لیتے۔ انگریز دور میں بھی بڑا ہوشیار اور بہادر آدمی وہی شمار ہوتا تھا جو افغانستان اور انگریز دونوں سے مراعات لیتا تھا۔ غریب چور کو ماں لوریاں دیتی ہوئی کہتی تھی کہ غال شہ خدائے دے مال شہ ”چور بن جاؤ اور اللہ تمہارا مدد گار بن جائے”۔تاہم وزیرستان کے لوگوں میں خوبیاں بھی بہت تھیں۔ ظالم کے خلاف اتحاد اور مشاورت سے فیصلے ان کا وہ حلف الفضول تھا جو بعثت سے قبل تھا اور نبی ۖ نے خطبہ حجة الوداع میں سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب قرار دیا تھا۔ رسول اللہ ۖ نے صحابہ کی تربیت کی تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان کی خلافت کا اچھا خاصہ دور کامیابی سے چل گیا۔ حالانکہ ابوبکر کی خلافت کو ہنگامی اور عمر کی خلافت کو نامزدگی اور عثمان کی خلافت کو بہت محدود مشاورت کا درجہ حاصل تھا۔ جن میں انصار شامل نہ تھے۔
وزیرستان کے لوگوں کا سب سے بڑا کمال مشاورت کے عمل کا تھا جس میں وحی کی سمجھ نہیں بلکہ فطرت کی رہنمائی تھی۔
فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
اسلام نے عربوں کو جہالت سے نکال دیا تھا لیکن محسودقوم اپنی فطرت کی اچھائی پر قائم تھی۔ البتہ اس کی برائیوں کا خاتمہ علماء ومشائخ اسلئے نہیں کرسکے کہ اسلام خود بھی اجنبیت کا شکار تھا تو اس قوم کی اصلاح کہاں سے ہوتی؟۔ تبلیغی جماعت نے اسلام کی تبلیغ کردی لیکن جب اس کے جاہل افراد حلالہ سے اپنی غیرت کا بیڑہ غرق کرنے لگے تو محسود قوم کے غیرتمند وں نے کہا کہ اچھا خاصا غیرتمند انسان ہوگا مگر جب جماعت میں وقت لگاتا ہے تو غیرت بالکل کھو دیتا ہے۔ حلالہ کا واحد حکم ہوتا تھا جس پر تبلیغی عمل کرتے تھے باقی قرآنی احکام سے واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ پھربعد میںطالبان آگئے۔
جب طالبان نے امریکہ کے خلاف جہاد کرنا شروع کیا تو اس وقت پاکستان کی ڈبل پالیسی تھی۔ایک طرف مجبوری میں اس نے امریکہ کا ساتھ دیا اور دوسری طرف طالبان کی سرپرستی بھی کرتا تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد نبی ۖ نے ابوجندل کو حوالے کردیا اور ابوجندل نے اپنے جیسے لوگوں سے مجاہدین کا لشکر بنایا تو کفار کے ناک میں دم کردیا۔ طالبان نے امریکہ سے لڑائی کا آغاز کیا تو پاکستانی فوج اور اپنی عوام کے خلاف بھی بھتہ سے لیکر لیڈی ڈاکٹر کے اغواء برائے تاوان تک سب کچھ کردیا۔
جب بڑے پیمانے پر پیسہ ملنے لگا تو خود کش بھی کاروبار بن گیا۔ جس قوم کی لڑکیاں برائے فروخت ہوں تو لڑکوں کے بک جانے پر کیا تعجب ہوسکتا ہے؟۔ دینداری سے زیادہ لالچ کے پروانوں نے اپنا کام دکھانا شروع کیا۔ ہمارے عزیزوں کے بارے میں مشہور تھا کہ ” رات کو کھمبے چوری کرکے نکالتے اور دن کو عوام کے سامنے توبہ کرتے ہیں”۔ وہ بھی طالبان بن گئے۔ ہمارے عزیز پیر کریم کے اپنے بیٹے بھی ملوث تھے مگر اس کے بیٹے نے اپنے قریبی عزیز اور پڑوسی پرہمارے واقعہ میں ملوث ہونے کا الزام لگادیا۔ پیر کریم میرے بھائی کی تعزیت پر آتا تھا لیکن اپنی بھابھی کی تعزیت کیلئے پہلے دن بھی نہیں بیٹھا۔ حالانکہ اس کے بھتیجوں نے کہا تھا کہ چاچو کریم وہاں بیٹھا ہے۔
ہماے خلاف ایک مہم چلائی گئی کہ لوگوں کی بیویاں اغواء کرتے ہیں۔ کسی کی بیوی بچوں کو چھین لیا ہے وغیرہ۔ طالبان کو غلط معلومات دیکر اکسایا گیا اور طالبان ان کو سزا دینے پر بھی تیار تھے لیکن ہماری غیرت نے گوارا نہیں کیاکہ جاسوسی کے نام پر طالبان ہمارے قریبی عزیزوں اور دوسرے خوار غریب کو قتل کریں۔ جب تک ہم اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پائیں گے تو یہ معاملات چلتے رہیںگے۔ میں چاہوں گا کہ پیر کریم سے کچھ معلومات لیکر شائع کردوں تاکہ غلط فہمیوں کے ازالہ میں ایک بنیادی کردار ادا ہو۔ غلط رسموں کی اصلاح کیلئے منظور نے بھی بیان دیا تھا لیکن یہ بہت کمزور بات ہے۔ جب تک مضبوط اور حقائق کی بنیاد پر پوری پشتون اور پاکستانی قوم کو تباہی وبربادی سے نہ نکالا جائے تو خریدنے اور بکنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv