پوسٹ تلاش کریں

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

پانچویں پارے کے شروع میں شادی شدہ عورت کو لونڈی بنانے کا تصور قرآن نے دیا ہے؟

ایران یا شیعہ کے ہاں متعہ اور سعودی یا عربوں کے ہاں مسیار کا تصور ہندوستان کی داشتاؤں اور مغرب کی گرل فرینڈز سے بھی بہت بدتر ہے اسلئے کہ اسلام کا حقیقی تصور اجنبیت کا شکار ہے

اسلام میں نکاح انتہائی قابل احترام تصور ہے ہمارے ہاں اگرچہ وقتی معاہدے یا ایگریمنٹ کا تصور بہت مجروح ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن نکاح جن حقوق کا نام ہے وہ یہاں مفقود ہیں

اسلام دین فطرت ہے۔ پردے سے متعلق مختلف آیات نازل ہوئی ہیں۔
اللہ نے فرمایا : نہیں ہے اندھے پر کوئی حرج اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ تمہاری جانوں پر کہ تم لوگ کھاؤ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ کے گھر سے یا اپنی ماں کے گھر سے یا اپنے بھائی کے گھر سے یا اپنی بہن کے گھر سے یا اپنے چچا کے گھر سے یا اپنی پھوپھی کے گھر سے یا اپنے ماموں کے گھر سے یا اپنی خالہ کے گھر سے یا جس کے گھر کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوست کے گھر سے ۔ نہیں کوئی گناہ تم پر کہ کھاؤ آپس میں مل کر یا الگ الگ ہوکر۔ پس جب تم گھروں میں داخل ہونے لگو تو سلام کہو اپنی جانوں پر دعائیہ کلمات کے ساتھ اللہ کے ہاں برکت اور اچھائی کے ساتھ۔ اسی طریقے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ (سورہ النور:آیت61)۔
اس آیت میں روایتی پردے کا ذکر ہے۔ جو عرب کے زمانہ جاہلیت سے موجودہ دور تک ہر قوم اور ہر علاقے میں موجود ہے۔ جب کوئی اپنے خاص منصب یا عہدے کی وجہ سے مرجع خلائق بنتا ہے تو پھر اس کے پاس ایسے اجنبی لوگ بھی آتے ہیں جن میں منافق اور دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ جب نبی کریم ۖ لوگوں کیلئے مرجع خلائق بنے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کیلئے پردے کا خاص حکم بھی نازل فرمایا۔ ایک طرف حضرت عائشہ صدیقہ نے جنگ جمل میں خلیفہ راشد حضرت علی کے خلاف اپوزیشن کی قیادت کی اور دوسری طرف پردے کی وہ آیات جن میں گھروں کے اندر محصور ہوکر بیٹھنے کا حکم ہے۔ چونکہ بعد کے لوگ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں اللہ کے احکام کو صحیح سمجھنے میں ناکام رہے اسلئے پردے کے احکام بھی ان کی نظروں میں متضاد اور اوجھل ہی رہے۔
رسول اللہ ۖ کو اللہ تعالیٰ نے بڑا امتیازی منصب عطا فرمایا تھا۔ ایک طرف عقیدتمندوں کے احترام کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف بدو اعراب سے واسطہ تھا جو حجرات کے پیچھے سے پکارتے تھے اور ان کے بارے میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ انہوں نے ایمان لایا بلکہ وہ یہ کہیں کہ ہم نے اسلام لایا۔ کیونکہ ایمان ابھی تک ان کے دلوں تک نہیں پہنچا تھا۔ عقیدتمندوں سے تو اُمہات المؤمنین کے احترام کی توقع ہوسکتی تھی لیکن بد عقیدہ اور بدبخت لوگوں کے علاوہ سادہ لوح لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ اسلئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف نبی ۖ کی ازواج کیلئے پردے کا خاص حکم نازل فرمایا اور دوسری طرف یہ تلقین کردی کہ ازواج مطہرات تمہاری مائیں ہیں۔ ان سے نکاح نہ کریں کیونکہ اس سے نبی کو اذیت ہوتی ہے۔ قرآن میں یہ آیات بہت واضح ہیں۔ آج کی دنیا میں بھی جن خواتین کے شوہر کوئی امتیازی مقام رکھتے ہیں تو ان کو نکاح کی دعوت دینا ان کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح سے جب بعض لوگوں پر اجنبیت کا ازدہام ہو تو وہ پردے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ محصنات عربی میں بیگمات کو بھی کہتے ہیں جن میں وہ بیگمات بھی شامل ہیں جنکے شوہر زندہ ہیں اور وہ بیگمات بھی ہیں جن کے شوہر فوت ہوگئے۔ ایک عورت کیلئے اپنے شوہر کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ نے فرمایا: مردوں کو عورتوں کا محافظ بنایا گیا ہے بسبب اللہ کے فضل کے جو بعض پر بعض کو عطا کیا۔ اور جو مرد خرچہ کرتے ہیں ۔ پس عورتیں نیک ہیں ، عاجزی کرنے والی ہیں ، حفاظت کرنے والی ہیں غیب میںجو اللہ نے ان میں حفاظت کا جوہر رکھا ہے۔ اور جن کی بدخوئی کا خوف ہو تو ان کو سمجھاؤ اور ان کو الگ کرو ٹھکانوں میں اور ان کو مارو اگر وہ تمہاری مانیں تو ان کیلئے لڑنے کی راہیں تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بلند بڑا ہے۔ (النسائ: آیت34)۔
صنف نازک عورت کو تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے اور زیادہ تر مرد اپنی کمائی خواتین پر لگاتے ہیں تو یہ بھی ایک فضیلت ہے۔ اور دوسری طرف کی فضیلت عورتوں کی ایسی صفات ہیں جو مردوں میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ فطرتاً نیک ہوتی ہیں، عاجزی کرنے والی ہوتی ہیں اور غیب میں اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔ ایک طرف مرد طاقتور ہوتا ہے اور دوسری طرف عورت زبان کی تیز ہوتی ہے۔ پاکستان کے محافظ افواج پاکستان ہیں اور ان کے ہاتھ میں طاقت اور ڈنڈا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے صحافیوں کی زبان بہت چلتی ہے۔ اگر ان میں یہ صفات پیدا ہوجائیں کہ وہ صالح بھی بن جائیں ، عاجز بھی بن جائیں اور غیب کی حالت میں حفاظت کرنے والے بھی بن جائیں اور پھر جب ایک دوسرے کے ساتھ ٹاکرہ ہو تو ایک دم سخت ڈنڈے چلانے کے بجائے پہلے مہینے میں ان کو سمجھانے سے کام لیا جائے دوسرے مہینے میں ان کے ٹھکانوں کو الگ کیا جائے اور پھر تیسرے مہینے میں ہلکی پھلکی مار پڑے تو پاکستان کے لوگ خود کو بہت خوش قسمت سمجھیں گے۔
اللہ نے مردوں کو مارنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ ان کی مارنے کی طاقت کو کنٹرول کرنے کیلئے یہ حکم دیا ہے۔ جب ہلکی پھلکی مار کی ضرورت پڑے تو اس کا مطلب شوہر کا پیمانہ بھی لبریز اور عورت بھی اس پر نہ مانے تو دونوں میں پھر نباہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن جدائی کیلئے پھر بھی ایک دم 3طلاق کا وہ شرعی مسئلہ نہیں ہے جس کے بعد دونوں مدارس اور مساجد کے طواف حلالہ کے چکر میں لگاتے ہیں بلکہ اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں خوف ہو ان دونوں میں جدائی کا تو تشکیل دو ایک فیصلہ کرنے والا شوہر کے خاندان سے اور ایک فیصلہ کرنے والا بیوی کے خاندان سے۔ اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ بہت علم رکھنے والا خبر رکھنے والا ہے۔ (النسائ: آیت35)
پانچویں پارے کے شروع میں ان محترم بیگمات خواتین کا ذکر ہے کہ جن کو کسی اور سے نکاح پر اس کے نام و نمود اور مفادات کا نقصان پہنچتا ہے۔ جس طرح آج کل کی ایسی خواتین جن کے شوہر وفات پاچکے ہیں اور ان کو بڑی بڑی پینشن ملتی ہے جیسے نشان حیدر والیاں وغیرہ۔ حکومت کی طرف سے ان کی مراعات اسی وقت ختم کردی جاتی ہیں جب وہ کسی اور سے نکاح کرتی ہیں۔ حرمت کے حوالے سے پوری فہرست بیان کرنے کے بعد آخر میں پہلے دو بہنوں کو اکھٹا کرنا منع کردیا جس میں ایک کے بعد دوسری سے نکاح ہوسکتا ہے لیکن دونوں کو اکھٹا نہیں کیا جاسکتا۔ پھر بالکل آخر میں سب سے کم درجے کی حرمت کا ذکر ہے۔ اس سے لونڈیاں مراد نہیں ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے اپنے چچا کی بیٹی حضرت اُم ہانی کو نکاح کی پیشکش کی اور وہ اولین مسلمانوں میں سے تھیں۔ ان کے گھر میں ہی معراج کا واقعہ ہوا تھا۔ اس کو اپنے مشرک شوہر سے بڑی محبت تھی۔ جس کی وجہ سے اس نے اللہ کے حکم کے باوجود بھی ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی نے اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تو اس نے اپنے شوہر کیلئے نبی ۖ سے پناہ مانگی۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کو اور جس کو بھی چاہو پناہ دے سکتی ہو۔ پھر اس کا شوہر عیسائی بن کر نجران چلاگیا تو نبی ۖ نے اس کو اپنے نکاح میں آنے کی دعوت دی۔ اس نے پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حکم نازل کیا کہ تمہارے لئے وہ چچا کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ پھر اللہ نے کسی بھی عورت سے نبی ۖ کو نکاح کرنے سے منع فرمایا اگرچہ اس کا حسن بہت بھلا لگے۔ پھر الا ما ملکت یمینک کی اجازت دے دی۔ جس عورت سے آپ کا معاہدہ ہوجائے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے علامہ بدر الدین عینی کے حوالے سے نقل کیا کہ نبی ۖ کی 28ازواج تھیں جن میں اُم ہانی بھی شامل تھیں۔ حالانکہ قرآن کی رو سے نبی ۖ کو نکاح سے منع کیا گیا تھا مگر معاہدہ کی اجازت تھی۔ تو یہ معاہدے والی ہی ہوں گی۔ اسلئے اُمہات المؤمنین میں شامل نہیں تھیں۔ جب اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر کیلئے اتنی بڑی مان تھی کہ اسکے بعد نبی ۖ سے عقیدت رکھنے کے باوجود بھی نکاح کے شرف کو قبول نہیں کیا تو اس سے خواتین کی فطرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پروین شاکر کو شوہر نے بیوفائی کرکے طلاق دی تھی لیکن پھر بھی اس کی وفاداری نے اُردو کی شاعری کو بہت بڑا شرف بخشا ہے۔ عورت کی فطرت سے ناواقف شوہر ہمیشہ بیوفائی بھی کرتے ہیں لیکن ان کو اس کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔ عورت کی اسی فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے زبردست انداز میں بیان کیا ہے۔
سورہ النور میں گھروں میں کھانے کے حوالے سے : او ماملکتم مفاتیحہ او صدیقکم ”جن کی چابیوں کے تم مالک ہو یا تمہارے دوستوں کے”۔ ظاہر ہے کہ اس سے غلام و لونڈیاں اور آزاد دوست مراد لینا غلط ہوگا۔ ایک طرف قرآن نے لونڈی اور غلام کی ملکیت کو باطل قرار دیتے ہوئے اس کو ایک معاہدہ قرار دیا ہے چنانچہ لونڈی و غلام دونوں پر اس کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے جس طرح آزاد مردوں اور عورتوں کے درمیان نکاح کے علاوہ آزادی سے ایک معاہدے کی اجازت دی ہے تو اسی معاہدے کی اجازت لونڈی و غلام سے بھی دی ہے۔ جاگیردارانہ نظام تربیت یافتہ لونڈی و غلام فراہم کرتا تھا جب اللہ نے سُود کو حرام قرار دیا تو مزارعت کو بھی نبی ۖ نے سُود قرار دے دیا۔ اگر اس وقت سے اسلام جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیتا تو پھر بادشاہوں کے دربار میں لونڈیوں کے سلسلے بھی نہ ہوتے۔ ہم نے اس پر کافی مرتبہ بہت کچھ دلائل لکھ دئیے ہیں۔
پانچویں پارے کے ابتدائی صفحے میں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان میں محصنات اور ماملکت ایمانکم کی زبردست وضاحت ہے۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی نہ بنالیں؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ایک دو چادر کے بدلے متعہ کرلو۔ لا تحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبات حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے۔ بخاری کی اس روایت میں نبی ۖ نے متعہ کی علت بھی قرآن کی اس آیت سے واضح کی ہے۔ صحیح مسلم میں بھی عبد اللہ ابن مسعود نے اس علت کو اپنی طرف سے بھی واضح فرمایا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں متعہ کے حوالے سے الیٰ اجل مسمیٰ کی اضافی آیت لکھی تھی۔ حالانکہ جلالین کی طرح وہ تفسیر تھی جو حدیث کے مطابق تھی۔ سورہ النساء کی آیت3میں بھی ماملکت ایمانکم سے مراد لونڈیاں نہیں ہیں بلکہ جن لاچار لوگوں کے بس میں ایک بیوی تک بھی پہنچ نہ ہو تو ا سے مجبوری کی حالت میں خصی ہونے کے بجائے وقتی طور پر معاہدے کی اجازت کا معاملہ ہے۔ اگر دنیا کو قرآن کی صحیح سمجھ آئے تو وہ بھی اپنے لئے اس کو راہ ہدایت کا واحد ذریعہ سمجھے۔ اگر کوئی ایسی لڑکیاں ہوں جنہوں نے دوستیوں کے اندر معاہدے کا کردار ادا کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگرتمہیں بیوہ و طلاق شدہ تک بھی نکاح کیلئے میسر نہ ہوں تو پھر ایسی لڑکیوں کو بھی ان کے سرپرستوں کی اجازت سے نکاح میں لاسکتے ہیں لیکن اس وقت پھر اپنے سے ان کو کم تر مت سمجھو اور اللہ تمہارا ایمان جانتا ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو پھر عام عورت کے مقابلے میں ان کو آدھی سزا ہے۔ اور اس میں بھی اگر مشکل میں پڑنے کا خوف نہ ہو تو درگزر کرو۔ (سورہ النسائ:آیات24،25)۔اسلام دنیا میں عیاشیوں کیلئے نہیں سرفروشی اور جانسوزی کیلئے آیا ہے۔ لیکن قرآنی آیات کی غلط تفاسیر سے نہ صرف عورت ذات کو اسلام سے متنفر کردیا گیا ہے بلکہ دنیا کے کفار بھی اس سے خطرات کھارہے ہیں۔میں اعلانیہ یہ بات کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو بھی نکاح کے نام سے رشتے ہیں ان کی حیثیت نکاح کی نہیں ایگریمنٹ کی ہے جب خلافت قائم ہوگی تو پھر عورتوں کو قرآن کے مطابق نکاح کے شرعی اور قانونی حقوق ملیں گے اور وہ ایگریمنٹ نہیں ہوگا۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

کیا سورہ النساء میں دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح اور لا تعداد لونڈیاں جائز ہیں ؟

ایک طویل عرصے تک خلافت راشدہ کے بعد بنو اُمیہ ، بنو عباس کے بعد دنیا پر خلافت عثمانیہ کی حکمرانی قائم رہی ہے جس کا خاتمہ1924کو ہوا اور اب غیر مسلم اس کی احیاء سے خوفزدہ ہیں

جب ہم نے1991میں خلافت علیٰ منہاج النبوة کے قیام کیلئے آواز اٹھائی تھی تو اس وقت دنیا میں مذہبی طبقات کے اندر خلافت کا کوئی تصور نہیں تھاایران اور سعودی مذہبی حکومتیں تھیں۔

خلافت عثمانیہ کا عیاش اور باریش حکمران سلطان عبد الحمید اول جس کی ساڑھے4ہزار لونڈیا ں تھیںاور اس میں ہر رنگ اور ہر نسل کی لڑکیاں شامل تھیں کیا یہ قرآن میں جائز ہوسکتا تھا؟۔

اللہ نے مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے تو کیا زبردستی سے مردوں کو نگاہ نیچے رکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے؟۔ عورت کو پردے کا حکم ہے مگر اس کو مجبور کرنے کا حکم نہیں ہے

سعد اللہ جان برق نے اپنی کتاب ”دختر کائنات” میں بہت سے حقائق لکھے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک” کی کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ سعد اللہ جان برق نے محمد شاہ رنگیلا کی عیاشیوں پر بہت کچھ لکھا ہے اور سلطان عبد الحمید کی بھی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ حکمران جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود اور اس دور کے حالات ہیں۔ جب سلطان عبد الحمید اول اتنا عیاش تھا تو اس کی سرپرستی میں محمد شاہ رنگیلا نے بھی عیاشی کے علاوہ کیا کرنا تھا؟۔ آج دنیا میں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے ہیں۔ سعودی عرب کا جس دن فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کیلئے قدم اٹھا تو شاید مغربی دنیا حرمین شریفین مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو بھی ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی مدد سے صفحہ ہستی سے مٹادے۔ جس کیلئے مسلمانوں کو بہت اکسایا جارہا ہے۔ مسلمانوں نے افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کیا تو فلسطین کے دکھ درد پر بھی محض اپنا دل دکھانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔ فلسطینیوں کی بربادی کو دیکھ کر مسلمان اور کچھ نہیں تو اپنا غم بھی بھول جائیں پھر بھی بہت قابل رشک ہوسکتے تھے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ فلسطینیوں کو بھول کر ہم سیاست اور قوم پرستی و فرقہ پرستی میں الجھے ہوئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار پورا مغرب اور ترقی یافتہ دنیا مسلمانوں کی ایسی دشمن کیوں بنی ہوئی ہے؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ سب سے زیادہ فحش پروگرام دیکھنے کا ریکارڈ مسلمانوں کے حصے میں آرہا ہے اور اگر ان کو بڑی مقدار میں لونڈیوں کی عیاشیاں میسر آئیں تو انہوں نے دہشتگردوںکی مدد سے پوری دنیا کے کفار کی ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو لونڈیاں بنانا ہے۔ اس خوف سے کہ ان جنگلیوں کے ہاتھوں میں اگر ان کی خواتین آگئیں تو اس سے بہتر ہے کہ مسلمانوں کا مرکز کعبہ اور مدینہ نہیں رہیں۔ عیسائی اس بات پر حیران ہیں کہ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بہت برا اعتقاد رکھتے ہیں لیکن عیسائی طاقتور ہونے کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیت المقدس پر اتنا جوش نہیں کھاتے ہیں جتنا وہ مسلمان کھارہے ہیں جنہوں نے اس سے اپنا رُخ پھیر لیا تھا۔ جب ان کا قبلہ بیت المقدس تھا تو ان کا بیت المقدس پر قبضہ نہیں تھا۔ اور جب بیت المقدس سے اپنا رُخ پھیر لیا تو پھر بیت المقدس پر قبضہ کرنا ایسا تھا جیسے یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے قبلے پر اور مراکز پر اپنا قبضہ زبردستی سے جمائیں۔ ان کے نزدیک مسلمان ایک جنونی مخلوق ہیں اور ان کو اخلاق و اقدار کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ دوسروں کیلئے اخلاقیات کے الگ پیمانے ہیں اور اپنے لئے الگ ہیں۔ جب وہ لونڈیوں کے لباس کا شرعی حکم بیان کرتے ہیں تو وہ اتنا مختصر اور گندہ لباس ہوتا ہے کہ مغرب کی عورتیں بھی بہت مشکل سے اپنے ماحول میں اس طرح کا لباس پہن کر شرمندگی سے دوچار ہوتی ہیں۔
ان کے ذہن میں یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب بھی تمہاری خلافت قائم ہو تو ان کو ذلیل کرکے غلام اور لونڈیاں بناؤ جو غیر مسلم ہیں۔ مسلمانوں کی شدید خواہش بھی یہی ہے کہ جس طرح جنت میں ہزاروں حوریں ان کے مقدر میں ہوں گی اسی طرح سے کافر کی عورتوں کو بھی ہزارں کی تعداد میں لونڈیاں بناکر رکھنا ان کا اہم فریضہ ہے، بس چلنے کی بات ہے۔
عورت مارچ والی خواتین سوچتی ہیں کہ اگر مسلمانوں کی خلافت قائم ہوگئی اور ہمیں گھروں میں بند کرکے بازاروں کو اغیار کی لونڈیوں سے سجایا گیا تو دنیا ہمارے لئے جہنم بن جائے گی۔ جب تک قرآن کے ٹھوس دلائل سے مسلمان عوام الناس ، شدت پسندوں، حکمرانوں، سیاستدانوں اور مذہبی طبقات کو مطمئن نہ کیا جائے تو سب ایک ایسی مایوسی کا شکار رہیں گے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
اللہ نے فرمایا : اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر تم نکاح کرو جن عورتوں کو تم چاہو دودو، تین تین، چار چار ۔ پھر اگر ڈرو کہ تم انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی سے نکاح کرو۔ یا پھر جن سے تمہارا معاہدہ ہو۔ یہ اسلئے ہے تاکہ تم کسی ایک طرف نہ جھکو۔ (سورہ النسائ:3)
اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیات سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ آزاد عورتیں زیادہ سے زیادہ چار ہوسکتی ہیں جن سے نکاح کیا جائے۔ اور لونڈیوں کی کوئی تعداد نہیں ہے چاہے ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں۔ لونڈیوں کو اپنی خواہشات کیلئے استعمال میں رکھ سکتے ہیں۔ سلطان عبد الحمید اور دیگر کی طرف سے عیاشی کے بازار اسلئے سجائے گئے تھے کہ ان کو قرآن نے اجازت دی تھی اور علماء و مفتیان نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا تھا۔ جب قرآن کا فتویٰ سامنے آجائے تو پھر کون غلط کہہ سکتا ہے؟۔
آیت شروع ہوئی ہے یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی وجہ سے اور پھر دو دو، تین تین، چار چار کی اجازت کے بعد انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کی اجازت دی ہے یا پھر جن سے معاہدہ ہو۔ اب اس کی تشریح و تفسیر کا جاننا ضروری ہے کہ جن سے معاہدہ ہو ان سے کیا مراد ہے؟۔ ما ملکت ایمانکم ”جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں”۔ ما موصولہ ملکت فعل ایمان مضاف کم مضاف الیہ ۔ مضاف مضاف الیہ سے مل کر فاعل ۔ فعل اور فاعل مل کر صلہ۔ یہ عربی کی ترکیب ہے۔ جس سے ترجمہ بالکل درست سمجھ میں آئے گا۔ یعنی وہ عورتیں جن کے مالک تمہارے معاہدے ہیں۔ عام طور پر ملکت کا لفظ دیکھ کر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد لونڈی ہے۔ حالانکہ جس طرح اس سے لونڈی مراد ہوسکتی ہے اسی طرح سے اس سے غلام بھی مراد ہوتا ہے۔ یہاں پر نہ تو لونڈی مراد ہے اور نہ غلام۔ بلکہ جس عورت کے ساتھ بھی معاہدہ ہوجائے وہی مراد ہے۔
سنی شیعہ احادیث ، تفسیر اور فقہ کی کتابوں میں متعہ کے حلال و حرام ہونے میں بڑی بحثیں ہیں۔ عام لوگوں کو جب تک تفصیلات کا علم نہ ہو تو وہ حقائق سمجھنے میں بہت مغالطہ کھاتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن میں جس طرح آزاد مرد اور آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی کھلے الفاظ میں اجازت ہے اسی طرح سے لونڈی اور غلام کے ساتھ بھی نکاح کی اجازت ہے۔ بلکہ اللہ نے فرمایا ہے: اور نکاح کراؤ جو تم میں سے ایامیٰ (طلاق شدہ و بیوہ) عورتیں ہیں اور اپنے صالح غلاموں کا اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ فقراء ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ وسعت والا جاننے والا ہے۔ اور وہ لوگ عفت میں رہیں جو نکاح تک نہ پہنچ پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو مستغنی (نکاح کی دولت سے )کردے۔ اور جو تمہارے غلاموں میں سے معاہدہ کرنا چاہتے ہوں تو ان کے ساتھ لکھنے کا معاملہ کرو۔ اگر تم ان میں خیر سمجھتے ہو۔ اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اور اپنی ان لڑکیوں کو بغاوت (یابدکاری) پر مجبور مت کرو جو نکاح کے ذریعے اپنا تحفظ چاہتی ہوں تاکہ اس کی وجہ سے تم دنیاوی وجاہت حاصل کرو اور ان میں سے جن کو مجبور کیا تو اللہ انکے جبر کے بعد غفور رحیم ہے۔ (النور:32،33)
ان آیات میں ایک طرف بیوہ طلاق شدہ ، غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کا ذکر ہے اور دوسری طرف یہ وضاحت بھی ہے کہ اگر یہ فقیر ہیں تو اللہ ان کو امیر بنادے گا۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی نکاح نہیں کرسکتا تو وہ پاکدامنی اختیار کرے یہاں تک کہ اللہ اس کو مستغنی بنادے۔ طلاق شدہ ، بیوہ اور لونڈی سے نکاح کرنا تو سب کو سمجھ میں آتا ہے لیکن غلام کے ساتھ نکاح کا کیا مطلب ہے؟۔ اس کو سمجھنا تھوڑا درکار ہے۔ جب ایک غلام کسی آزاد عورت سے کوئی نکاح کرے گا تو اس کی صورتحال کیا ہوگی؟۔ اس کی ایک ہی صورت ہوسکتی ہے کہ آزاد عورت اس غلام کے ساتھ کوئی لکھت پڑھت کرے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں ان میں خیر نظر آئے تو یہ لکھت ضرور کرو۔ اور ان پر اپنا مال بھی خرچ کرو۔ یہ ہے غلام سے نکاح کی حقیقت۔ جبکہ کچھ لوگوں نے بلکہ اکثر ترجمہ و تفسیر کرنے والوں نے اس سے مراد مکاتبت لیا ہے۔ مکاتب سے مراد کسی غلام کو آزاد کرنے کیلئے کوئی معاہدہ کرنا ہے۔ حالانکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنے کلام میں غلام کی آزادی کیلئے بھی لوگوں سے کہے کہ اگر تمہیں خیر نظر آئے تو پھر ان سے مکاتبت کرو۔ یہ رب جلیل سے کیسے ممکن ہے؟۔ حالانکہ غلام کا آزاد کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔ اور مکاتبت کے ذریعے سے اس کو آزاد کرنا اور مشقت میں ڈالنا اللہ کی رحمت سے جوڑ نہیں کھاتا۔ اور پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی اللہ کہے کہ اگر خیر نظر آئے تو پھر مکاتبت کرو؟۔ یہ دراصل نکاح کا موضوع ہے اور نکاح کیلئے کوئی آزاد عورت غلام سے تیار ہوجائے تو بڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے قرآن کے ترجمے اور تفسیر کو بدلنا بھی درست نہیں ہے۔ یہ ثابت ہوگیا کہ لونڈی و غلام سے اللہ نے نکاح کا حکم دیا ہے تو پھر نکاح کے بغیر لونڈی رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ آیات کے آخری حصے میں لونڈیوں کا ذکر نہیں بلکہ جوان لڑکیوں کا ذکر ہے کیونکہ لونڈیوں کا ذکر تو پہلے ہوچکا ہے۔ اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ اللہ نے جوان لڑکیوں کی ضد پر نکاح کی اجازت دی ہے کہ تم اپنے خاندانی وجاہت کی وجہ سے ان کو مجبور مت کرو کہ وہ کھل کر یا چھپ کر بغاوت کریں۔ بلکہ ان کو جہاں چاہیں نکاح کرنے دیں۔ اور اگر تم نے ان کو مجبور کیا تو پھر ان پر کوئی گناہ نہیں لیکن اس کا یہ مقصد لینا انتہائی غلط ہے کہ لونڈیوں کو اگر زبردستی سے بدکاری پر مجبور کیا گیا تو پھر لونڈیاں گناہگار نہیں ہوں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک نکاح ہے اور دوسرا ایگریمنٹ نکاح میں قانونی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور ایگریمنٹ میں باہمی رضامندی کا معاملہ ہوتا ہے۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

بیوی شوہر کی ملکیت ہے، اگر عورت خلع لینا چاہے تو پھر شوہر اس سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرسکتا ہے۔ علماء ومفتیان کایہ گھناؤنا تصور عورت کو جانور سے بھی بدترحالت پر پہنچادیتا ہے

شوہر نے3طلاقیں دیں اور مکر گیااورعورت دوگواہ پیش نہ کرے توپھر عورت ہرقیمت پر خلع لے اور اگرخلع نہ ملے تو حرامکاری پرمجبور ہے پھر جماع سے لذت نہیں اُٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی

تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” سے اور فقہی مسائل

انگریزدور میں مسلمان عورت کا شوہر گم ہوا۔ یہ شرعی حکم تھا کہ وہ حنفی مسلک کے مطابق80سال تک اپنے گم شدہ شوہر کا انتظار کرے۔آخر کار عورت عیسائی بن گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اس پر حیلہ ناجزہ لکھ دی۔ جس میں عورتوں کو کنجریاں لکھ دیا کہ انتظار نہیں کرسکتی ہیں اسلئے ہم مجبوری میں امام مالک کے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں۔ چنانچہ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ اگر مجبوری ہوتو پھر کسی اور مسلک پر بھی فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔ امام مالک کے مسلک میں اگر شوہر گم ہوجائے تو عورت4سال کے انتظار اور پھر عدت وفات4ماہ10دن گزرنے کے بعد شادی کرسکتی ہے۔ حیلہ ناجزہ میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”اگرشوہر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا تو عورت کو دو گواہ پیش کرنے ہوں گے ۔ اگر عورت کے پاس دو گواہ نہیں ہوئے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے3طلاقیں نہیں دی ہیں تو پھر وہ عورت اس شوہر کی بیوی رہے گی لیکن اس کے ساتھ جماع حرام کاری ہوگی۔ عورت کو چاہیے کہ اس سے ہر قیمت پر خلع لے اور اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور عورت سے جماع کرتا ہے تو شریعت میں وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس سے جماع حرامکاری ہے۔ عورت اس سے لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہ گار ہوگی”۔
بریلوی مکتب کے ہاں بھی یہ فتویٰ جاری ہورہا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے” فتاویٰ عثمانی”میں ہے کہ ” ایک شخص نے اپنی9،10سالہ بچی کا نکاح ایک شخص سے کردیا لیکن کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس نے شادی نہیں کی ۔ اس نے لڑکے والے سے کہا کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اسلئے رخصتی کردو لیکن لڑکے والوں نے نہیں مانا۔ پھر لڑکا5سال تک مفقود الخبر ہوگیا، جس کا پتہ نہیں تھا کہ کہاں ہے؟۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی طرف سے عدالت میں کیس کردیا۔ جب وہ جج کے بلانے پر بھی نہیں آیا تو آخر کار7مہینے کے بعد جج نے خلع کی ڈگری جاری کردی۔ پھر لڑکی نے ایک اور شخص سے نکاح کرلیا۔ اس کے کئی مہینے گزرنے کے بعد پہلا شوہر پہنچ گیا اور دارالعلوم کراچی سے اس کو یہ فتویٰ مل گیا کہ چونکہ لڑکی کا نکاح اس کے باپ نے کیا تھا تو وہ کسی صورت بھی فسخ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے لڑکی بدستور پہلے شوہر کی بیوی ہے اور دوسرے سے اس کا نکاح نہیں ہوا ہے”۔ فتاویٰ عثمانی میں یہ بھی ہے کہ ” ایک آرائیں لڑکی سے ایک شیخ ذات کے شخص نے زبردستی سے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا اور اب اس سے خلع چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں شیخ ذات کو آرائیں کے مقابلے میں کم درجہ سمجھا جاتا ہے”۔ جواب میں فتویٰ دیا گیا کہ ” عجم میں کوئی اونچی ذات نہیں،اب اگر خلع لینا ہے تو لڑکی کے شوہر کی رضاکے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے”۔ فتاوی عثمانی میں متضاد فتوے ہیں۔ کہیں ہے کہ عرف کا اعتبار ہے اور کہیں پر عرف کا اعتبار نہیں ۔ کہیں شیعہ کیساتھ نکاح جائز اور کہیں ہے کہ شیعہ کیساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے فتویٰ دیا کہ ”اگر حلالہ سے بچنے کیلئے غیرت کا مسئلہ ہے تو دوسرے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں”۔
مذہب کی تبدیلی پر مرتداور واجب القتل کا فتویٰ لگتا ہے لیکن انگریز دور میں بزدل مولوی یہ رسک نہیں لے سکتے تھے اسلئے مسلک تبدیل کرنے اور گالیاں دینے پر اکتفاء کرلیا۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ میں غیرت تھی اسلئے غیرت کی بنیاد پر مسلک کی تبدیلی کی اجازت دی ۔
عورت کے حقوق کے علمبرداروں کو چاہیے کہ قرآن وسنت کے ٹھوس مسائل کی روشنی میں عدالتوں سے رجوع کریں اور جاہلیت پر مبنی فتوؤں کی کتابوں کو پیش کرکے جواب طلب کریں۔ عوام کی عدالت سب سے مضبوط عدالت ہے اور پارلیمنٹ میں بھی ان مسائل کو اٹھائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کی طرف سے افہام وتفہیم کیساتھ قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی سے جاہلوں کو شکست فاش ہوگی۔

البقرہ:222کی معنوی تحریف سے عورت کو اذیت

” اور تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک اذیت ہے۔ پس حیض کی حالت میں انکے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں ،پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسے اللہ نے حکم دیا ہے ۔اللہ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو”۔
سورہ بقرہ کی اس آیت222میں حیض کا حکم پوچھا گیا ہے۔اس میں دو چیزوں کی وضاحت ہے ایک اذیت جس سے توبہ کی جاتی ہے اور دوسری گندگی جس سے پاکیزہ رہا جاتا ہے۔ عورت کو حیض میں تکلیف ہوتی ہے۔جس میں مقاربت سے منع کیا گیا ہے اور اس میں ناپاکی ہوتی ہے جو بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے اختراع پردازی کرتے ہوئے کہا کہ صحابہ نے پوچھا کہ یار سول اللہ !ہم توبہ کرنا تو جانتے ہیں۔پاکیزگی کیا ہے۔ فرمایا کہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی کا استعمال پاکیزگی ہے۔ حالانکہ یہ آیت کے مفہوم کیساتھ بہت بڑی واضح زیادتی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے قادیانیوں سے متعلق فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے جب آیت کا حوالہ دیا کہ لااکرہ فی الدین” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے”۔تو پورے ملک میں بڑا کہرام مچ گیا اور صحافی ہارون الرشید نے بھی اس کو سیاق وسباق پیش کرنے کی بات کردی۔جب پروفیسر احمد رفیق اختر نے مندرجہ بالا آیت کا لیکچر دیا تو ہارون الرشید ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآنی آیات کو بھی سیاسی مفادات اور مذہبی استحصال کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے بتایا کہ5سالوں میں مکہ اور مدینہ میں یہود ونصاریٰ آزادی سے گھوم رہے ہوں گے اور عام مسلمانوں پر وہاں پابندی ہوگی۔ پھر ہم بھی حج وعمرہ نہیں کرسکیںگے۔ لاہور میں سعودی برینڈ پہننے والی عورت کو اگرASPپولیس شہر بانو نقوی نے نہ بچایا ہوتا تو جاہل ہجوم اس کا حشر نشر کردیتا۔ کپڑوں پر عربی میںحلوہ لکھا تھا۔فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ”سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے” ۔لیکن اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔2004میں مفتی تقی عثمانی کا حوالہ شائع کردیا تو اس نے اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کیا مگر مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان نے2008میں اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں فتاوی قاضی خان میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا پھر دفاع کرتے ہوئے شائع کردیا۔ اللہ نے ایک ایک رسم جاہلیت ختم کرتے ہوئے حلالہ کی لعنت کو بھی بیخ وبنیاد سے ختم کیا ہے مگر پھر بھی علماء ومفتیان اپنے مدارس میں حلالہ کی لعنت کے فتوے دیکر عورت کی عزت لوٹتے ہیں۔

قرآن کی وضاحتیں اوراس میں تحریف کی موشگافیاں!

سورہ بقرہ کے جس رکوع کی ابتداء آیت222سے شروع ہے اور اس میں حیض اور اذیت ، توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کی وضاحت ہے۔ اس کی آیات میں تسلسل کیساتھ عورت کو اذیت دینے کے مسائل کی وضاحتیں ہیںلیکن اس میں معنوی تحریف کی گئی ہے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری اورمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع وغیرہ کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے اپنی ”بخاری کی شرح فیض الباری” میں لکھا ہے کہ ”قرآن کی معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لفظی تحریف بھی انہوں نے کی ہے یا تو مغالطہ سے یا جان بوجھ کر”۔ جس پر فقیہ العصرقاضی عبدالکریم کلاچی نے مفتی فرید مفتی اعظم پاکستان کو خط لکھا کہ ” اس عبارت کو پڑھ کر پیروں سے زمین نکل گئی کہ دوسروں پر قرآن کی تحریف کے فتوے لگانے والوں کے اپنے اکابرین کی کتابوں میں یہ موجود ہے؟۔ عبارت سے کافر بھی مراد نہیں ہوسکتے اسلئے کہ وہ عمداً ایسا کرسکتے ہیں لیکن مغالطہ سے ایسا نہیں کرسکتے”۔ اس کا ایک بہت ہی بے کار جواب مفتی فرید نے دیا ہے جو فتاوی دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہواہے۔ اس عبارت کا حوالہ دئیے بغیر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے جامعہ دارالعلوم کراچی سے ایک فتویٰ لیاہے جس پر کفر کا فتویٰ بھی لگایا گیا ہے۔ مفتی فرید اور علامہ غلام رسول سعیدی درس نظامی میں جو نصاب تعلیم پڑھاتے ہیں اس میں ”اصول فقہ”کے اندر تحریف ہی پڑھائی جارہی ہے۔
وزیرستان کے مشہور بلند ترین پہاڑ کا نام ”پیر غر” ہے۔ غر پشتو میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔ پیر سید کو کہتے ہیں۔ وزیرستان کے پہاڑوں کا یہ سردار ہے۔ لیکن اس کا نام بگاڑ کر ”پرے غل” مشہور ہے۔ ماں بچے کو لوریاں دیتے کہتی تھی کہ ”غل شہ خدائے دے مل شہ” ۔(چور بن جاؤ ، خدا تمہارا مدد گار بن جائے)۔ پہاڑ کا نام پیر کی جگہ چور رکھنے سے پہاڑ کو بھی تکلیف ہوگی۔ اسلئے کہ جب اللہ نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کردیااور انسان نے اٹھالیا جو بڑا ظالم جاہل تھا۔ آج نااہل لوگ اقتدار کی امانت اٹھانے کے پیچھے مررہے ہیں۔ انسان کا نام بگاڑ نے پر تکلیف ہوتی ہے۔ جیسے مولانا فضل الرحمن کا نام ”ڈیزل” رکھ دیا۔ اس اذیت سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ نے فرمایا:” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ”۔ آیت223البقرہ۔ حرث اثاثہ کو بھی کہتے ہیں اور کھیتی کو بھی۔ کسی کو اپنا اثاثہ قرار دینا فخر کی بات ہوتی ہے لیکن کسی کو کھیتی قرار دینے سے اذیت ہوتی ہے اور جب اللہ نے حیض کو بھی اذیت قرار دیا اسلئے کہ حیض کو اذیت قرار دینے سے عورت کو تکلیف نہیں اور گند قرار دینے سے اس کو تکلیف پہنچتی۔ حیض کو قذر، نجس اور وسخ بھی کہا جاسکتا تھا جس کا معنی گند ہے مگر اذی(اذیت) کہہ کرادب کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ۔ عربی کے کسی لغت میں اس کا معنی گند نہیں ہے ۔
اگر عورت کو خلع کا حق ملتا تو80اور4سال انتظار کی ضرورت نہ پڑتی۔اور نہ وہ علماء ومفتیان کے غلط فتوؤں کے مطابق حرام کاری پر مجبور ہوتی۔ عورت کا اختیار سلب کرکے اس کو اذیتوں سے دوچار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے عورت کو خلع کا اختیار دیا ہے اور پھر مرد کو طلاق کا حق دیا ہے۔ جب عورت سے خلع کا اختیار چھین لیا گیا ہے تو اس میں طاقتور مردوں کیساتھ علماء ومفتیان بھی مکمل طور پر شریک مجرم بن گئے ہیں۔ عورت کا اختیار چھین لینے سے عورت کو جتنی اذیتوں کا سامنا ہے اس کی تمام تفصیلات سورہ بقرہ کی آیت222کے بعد والی آیات میں موجود ہیں۔ پڑھتا جا شرماتا جا۔8عورت مارچ کی عورتوں نے اگر اس طرف توجہ دیدی تونہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیابھر میں عظیم انقلاب آجائے گا۔ انشاء اللہ
سورہ بقرہ آیت222کے بعد223سے231تک2رکوع ہیں ۔صفحہ نمبر2پر ملاحظہ فرمائیں۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

خطبہ حجة الوداع میں نبی رحمت ۖ نے عورت کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کاواضح حکم فرمایا تھا قرآنی آیات میں عورت کے ٹھوس اختیارات پر مذہبی طبقے نے بالکل سیدھی واردات ڈالی ہے؟

عورت کو خلع کا حق اللہ نے دیا، مولوی اسکے منکر ہیں؟

اللہ جل شانہ نے فرمایا: اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ عورتوں کے زبردستی سے مالک بن بیٹھواور ان کو اسلئے مت روکو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے کہ ان میں سے بعض ان سے واپس لے لومگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوجائیں اور ان سے اچھا برتاؤ کرواور اگر تمہیں وہ ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر بنادے ۔(النساء : 19)
اس آیت میں زبردست وضاحتیں ہیں جن پر تدبر کرکے اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1: مسلمانوں کو مخاطب کرکے واضح کردیا ہے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو!”۔
سوال یہ ہے کہ ”ان عورتوں سے کون سی عورتیں مراد ہیں؟”۔ جواب واضح ہے کہ ” عورتوں سے بیویاں مراد ہیں ”۔ اسلئے کہ آیت کے اگلے جملہ میں واضح ہے کہ ” اور ان کو اسلئے جانے سے مت روکو کہ جو تم نے ان کو دیا ہے اس میں بعض واپس لے لو مگر جب وہ فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ ظاہر ہے کہ اپنی بیویوں کو ہی چیزیں دینے کی بات ہے ، دوسروں کی بیویوں کو تو کوئی چیزیں نہیں دی جاتی ہیں۔ اور فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں اپنی بیویوں کو ہی بعض دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاسکتا ہے۔
اگرچہ زمانہ جاہلیت میں سوتیلی ماؤں اور بھابیوں پر باپ اور بھائی کے فوت ہونے کے بعد قبضہ کیا جاتا تھا اور ان کو نکاح پر مجبور کیا جاتا تھالیکن یہاں وہ مراد نہیں ہوسکتی ہیں بلکہ اپنی بیویاں ہی مراد ہیں۔
2: جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے ،اسی طرح بیوی کو بھی خلع کا حق حاصل ہے ۔ جب بھی عورت شوہر کو چھوڑنا چاہتی ہو توشوہر زبردستی سے اس کا مالک نہیں بن سکتا۔ جو چیزیں شوہر نے اس کو دی ہیں تو ان میں سے بعض وہ چیزیں بھی واپس نہیں لے سکتا جو لے جانے والی ہیں۔ مثلاً کپڑے، گاڑی ، زیورات، نقدی وغیرہ جن کو منقولہ جائیداد کہا جاتا ہے ۔ البتہ غیرمنقولہ جائیداد مثلاً گھر، باغ، زمین ، پلاٹ ، دکان اور فیکٹری وغیرہ سے خلع کی صورت میں عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔
3: خلع پرشوہر کو اللہ نے اچھے برتاؤ کا حکم دیا کہ اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگتی ہو اور اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیربنادے۔ عورت کو زبردستی سے رہنے پر مجبور کیا جائے تو وہ خود بھی زہر کھاسکتی ہے بچوں اور گھروالوں کو بھی کھلاسکتی ہے۔ گھر کا ماحول سکون کی جگہ جہنم رہے گا اور بندے کی عزت بھی خراب ہوسکتی ہے اسلئے بہت سارا خیررکھنے میں شک نہیں ہونا چاہیے۔

بدقسمت عرب اور پشتون بیوی کو قیمتاً خریدتے ہیں

آج پٹھانوں میں جاہلانہ دستور ہے۔ بیوہ وارث کی ملکیت ہے۔ قلعہ سیف اللہ بلوچستان کی جمعیت مولانا فضل الرحمن کے عالم دین نے شرعی مسئلہ مجھ سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیٹی کے بدلے میں بیوی خریدلی اور اس کی رخصتی بھی ہوگئی لیکن وہ بیمار تھا اور عورت کیساتھ جماع کرنے کے قابل نہیں تھا اور اس کا انتقال ہوگیا۔ اب باپ کی بیوہ سے اس کا بیٹا شادی کرسکتا ہے؟۔
عرب جاہلیت میں بیوہ خاوند کے وارثوں کی ملکیت تھی۔ بیٹا باپ کی بیوی سے نکاح بھی کرلیتا تھا جس پر قرآن نے منع کیا کہ لاتنکحوا ما نکح آبائکم من النساء الا ما قد سلف ”نکاح مت کرو،جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا مگر جو پہلے گزر چکاہے”۔ جمعیت علماء اسلام کی بلوچستان میں قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی ہوتی ہے لیکن وہ جاہلیت کے خلاف قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کی بات اس وقت کرسکتے ہیں جب معاشرتی بنیاد پر علماء ومفتیان نے منبر ومحراب سے علم بلند کررکھا ہو۔ جب وہ اس جاہلیت میں ملوث ہوں تو پھر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں شریعت کے مطابق قانون سازی کی بات کیسے کرسکتے ہیں؟۔
عرب اور پشتون قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بیگمات کو بہت بھاری قیمت سے خرید تے ہیں اور پھر بکاؤ مال کی طرح اپنی بیگمات کے مالک بھی بن جاتے ہیں۔ عرب امیر ہیں اور بیوہ عورتوں کو یرغمال رکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں لیکن پشتون قوم غریب ہے اور بیوہ عورتوں کو بھی ملکیت بنالیتے ہیں۔ جب20،20لاکھ سے غریب لوگ بیویاں خرید لیتے ہوں تو ان کو خلع کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟۔ گزشتہ مہینوں میں افغان طالبان حکومت نے بہت سارے غریب افراد کی مدد کرکے عورتوں کی قیمت ادا کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا تھا۔ پنجاب اور ہندوستان کی عورتیں جہیز بھی دیتی ہیں لیکن پھر بھی عورت کو خلع کا حق نہیں ملتا ہے۔اس کی وجہ یہی ہے کہ مذہبی طبقے نے اس کا حق شرعی بنیاد پر غصب کیا ہے۔ آئین پاکستان نے عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا ہے لیکن مذہبی طبقہ اس کو نہیں مانتا ہے۔ محترمہ مریم نواز مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی سے بات کرکے1973کے آئین کے مطابق پنجاب اسمبلی سے خلع پر قانون سازی کا آغاز کریں۔ جس پر منبر ومحراب اور مدارس کے فتوؤں سے بھی عوام کے اندر زبردست ذہن سازی کی جائے۔

مدارس کے نصاب تعلیم میں خلع کے حوالہ سے غلطیاں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا چاہتے ہو اور ایک کوان میں سے بہت سارا مال دے چکے ہو تو پس اس میں سے کچھ بھی واپس مت لو۔کیا تم بہتان لگاکر اور صریح گناہ کرکے کچھ واپس لوگے؟۔اور تم کیسے اس سے لے سکتے ہو؟۔جبکہ تم نے ایک دوسرے سے خاص معاملہ کیا ہے۔اور وہ عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔ (سورہ النساء آیت20،21)
خلع میں صرف ان دی ہوئی چیزوں کو واپس نہیں لیا جاسکتا، جو لے جانے والی ہیں، منقولہ اشیائ۔ اس کی وضاحت سورہ النساء آیت19میں بھی ہے اور ایک صحابیہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین اور اخلاقیات سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے لیکن خلع چاہتی ہوں۔ نبی ۖ نے پوچھا : وہ دیا ہوا باغ واپس کرسکتی ہو؟۔ صحابیہ نے کہا : اور بھی بہت کچھ! نبی ۖ نے فرمایا : اور کچھ نہیں۔
طلاق کی صورت میں تمام دی ہوئی چیزیں واپس نہیں لے سکتے۔ منقولہ وغیرمنقولہ اشیائ۔ گھربار، باغ، زمین، پلاٹ ، فیکٹری اور اگرچہ بہت بڑے خزانے بھی دئیے ہوں کچھ بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ۔
عیسائیوں کے ہاں مذہبی بنیاد پر طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن اسلام نے خلع اور طلاق کی شرعی اور قانونی حیثیت بالکل واضح کردی تھی۔ عورت صنف نازک کو صرف نمائش کی تتلیاں اسلئے سمجھاجاتا ہے کہ اس کے تمام حقوق غصب کرلئے گئے ہیں۔ قرآن نے حق مہر کی صورت میں عورت کو انشورنس دی ہے۔ اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو بھی آدھا حق مہر عورت کا حق قرار دیا ہے اور حق مہر بھی شوہر پر اس کی وسعت کے مطابق رکھا ہے۔ عورت کی رخصتی کے بعد اگر عورت خوش نہ ہو تو خلع ہے اور خلع میں پورے حق مہر کے علاوہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی ان چیزوں کو بھی واپس نہیں لیا جاسکتا ہے جو لے جانے والی ہیں۔طلاق میں منقولہ وغیر منقولہ کوئی چیز بھی واپس لیناغیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔
قرآن کی یہ وضاحتیں آنکھ کے اندھے کو سمجھ آسکتی ہیں لیکن دل کے اندھے کو سمجھ نہیں آسکتی ہیں ۔ اللہ نے فرمایا:”اور بستیوں میں سے ہم نے کتنی برباد کردیں اور وہ ظالم تھیں، پس وہ اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھیں اور کتنے کنویں ویران تھے اور محل اجڑ ے تھے ۔کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی ؟ تو ان کیلئے دل بن جاتے جس سے وہ سمجھتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں۔پس بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں”۔ (سورہ الحج آیت :45،46)

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

حضرت اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے سچی محبت تھی۔

حضرت اُم ہانی کو اپنے مشرک شوہر سے سچی محبت تھی۔

مسلم دھرم کو چھوڑ کر ہم نے ہندو دھرم کو اپنایا ہے۔پوجا پاٹ بھی کرنے لگے۔ (ہندو تو ایسا نہیں کرتا ہے کہ مسلمان ہے تو دھرم چینج کرے پھر آپ نے ایسا کیوں کیا؟۔ اینکر پرسن)۔ وہ میرا دھرم چینج کروایا (انہوں نے کیسے کروایا؟۔ اینکر پرسن)۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ گنگا نہاکر آئے گا اس کے بعد ہمیں سوگر پھر کبھی نہیں پلایا ہے۔ ہم نے کہا جو بھی آپ بولو گے وہ کریں گے کیونکہ ہم آپ سے سچا پیار کرتے ہیں۔ اس نے بہت کچھ کروایا پوجا پاٹ بہت سی جگہوں پر لے کر گیا۔ گنگا اشنان کروایا گنگا جی میں بھی درشن کروایا پھر بابا دھام بھی لے کر گیا ۔ میرے ہاتھ سے کوئی بھی گھر میں کھانا نہیں کھاتا تھا۔ ہم کو کھانا رکھ کر الگ دیا جاتا تھاایک پلیٹ میں۔

تبصرہ نوشتہ دیوار

سچی محبت اور عشق انسان کی مجبوری ہوتی ہے۔ حضرت علی کی ہمشیرہ حضرت اُم ہانی اولین مسلمانوں میں سے تھیں لیکن انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ اور اپنے مشرک شوہر سے سچی محبت تھی۔ اگر قرآنی آیت اور سنت سے اس واقعہ کو منبر و محراب ، اخبارات اور کتابوں میں لکھ دیا جاتا تو شیعہ سنی مسالک اعتدال پر آجاتے۔ مسلمانوں نے اگر ہندو خواتین سے کبھی شادی کی ہے اور خواتین نے اپنا مذہب تبدیل کیا تو اس کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا ہے کمی نہیں آئی ۔ لیکن ہندوؤں کے اس روئیے کے سبب بھی لوگوں نے ہندو مذہب قبول نہیں کیا اس پہلو پر بھی غور کریں

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن پاک کی عظمت

قرآن پاک کی عظمت
قرآن پاک کی عظمت اور طاقت ویڈیو میں دیکھیں۔ شاہ عبد العزیز فرزند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے حوالے سے مولانا قاری اکرام الحق پشتو اور اردو زبان کے ملے جلے الفاظ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک پادری نے شاہ عبد العزیز سے کہا کہ تمہاری مسجد خستہ حال ہے ، ہمارا گرجا عالیشان ہے مندر اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں بھی عالیشان ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تمہارا خدا اور مذہب جھوٹا ہے ۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اس کا جواب میں لوگوں کے مجمع میں دوں گا۔ ہزاروں لاکھوں لوگ مختلف مذاہب کے جمع ہوگئے تو شاہ عبد العزیز نے آیت پڑھی کہ اگر اس قرآن کو ہم پہاڑوں پر نازل کرتے تو وہ خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتے ، آیت کا پڑھنا تھا کہ پادری کا گرجا ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین پر گرا۔ باقی لوگوں نے ہاتھ جوڑے کہ خدا کیلئے بس کرو۔ شاہ عبد العزیز نے کہا کہ اتنے عرصے سے ہماری مسجد قرآن کی طاقت کو برداشت کررہی ہے جبکہ تمہارا گرجا برداشت نہ کرسکا۔ قاری صاحب نے ہندوستان اور لندن وغیرہ کے چکر بھی لگائے ہیں اور کہا کہ یہ واقعہ تاریخ میں موجود ہے آدھا مجمع مسلمان ہوگیا جس میں لاکھوں لوگ تھے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

امریکہ کی نصاب کتاب میں شیخ الاسلام کی خدمات کا بیان

ڈاکٹر طاہر القادری نے ویڈیو کلپ میں کہا کہ یہ کتاب امریکہ میں چھپی ہے جسکا نامTHINK WORLD RELEGION۔ رابسن مصنف ہے۔2011میں چھپی ہے۔ فلا ڈلفیا یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں جنہوں نے لکھی ہے۔ اور امریکہ کی بہت سی یونیورسٹیز، کالجز اور اسکولز میں شامل نصاب ہے۔ اس میں کرسچین ٹی ، جودھا ازم، ہندو ازم ، بدھا ازم اور اسلام پر ایک ایک چیپٹر ہے۔ ان کو ہائی لائٹ کیا ہے۔ جب اسلام پر آئے ہیں حضور علیہ الصلوة و السلام کی بعثت سے لے کر موجودہ صدی تک جس طرح ہر مذہب کو پڑھایا انہوں نے تو ہر مذہب کی ڈسکرپشن دی۔ اینڈ کرکے وہ لکھتے ہیں ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے وہ ہے جس کے بانی اسامہ بن لادن ہیں۔ ایک ورژن اسلام کا امت کے سامنے اس موجودہ صدی کا وہ ہے جو طاہر القادری نے دیاہے۔ (ڈاکٹر طاہر القادری نے5سو صفحات کی کتاب خوارج پر لکھی ہے جس میں وہابیت اور دہشت گردی کو جوڑا گیا ہے۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

جامعة الرشید کے مفتی رشید نے کہا :ہمارے ہاں الیکشن کے بعد جس طرح کی سیاسی گہما گہمی چل رہی ہے اور جس طرح کی چیزیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں ساری پاکستانی قوم حیرت میں کہ ہو کیا رہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن ایک عرصے تک طویل عرصے تک جے یو آئی کے حضرات عمران خان کو یہودی ایجنٹ ہے پتہ نہیں کیا کیا کہتے رہے ؟ہم سنتے سنتے رہے، ساری دنیا جانتی ہے ۔مولانا طارق جمیل تھوڑا قریب ہوئے تو ان کو ایک طرح سے نشان عبرت بنا دیاکہ یہ یہودی ایجنٹ کے کیسے قریب ہو گیا؟۔ اب جب گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تو جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھئی ہمارا ان سے جسموں کا اختلاف نہیں، دماغوں کا اختلاف ہے۔ تو اسلئے وہ بھی ٹھیک ہو جائیگا۔ پھر پی ٹی آئی کا وفد بھی گیا وہاں ان سے ملاقات بھی کی۔ وہ جو ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت انگیز تقریریں تھیں کہ وہ ان کو یہودی ایجنٹ اور یہ ان کو ڈیزل اور جو بیہودہ القابات عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو جو دیئے جا رہے ہوتے تھے پھرPTIکے کارکنJUIکے خلافJUIکے کارکنPTIکے خلاف جس طریقے کے الزامات ایک دوسرے پہ لگاتے تھے بیٹا باپ سے لڑا ،باپ بیٹے سے لڑا بھائی بھائی سے لڑا دوست دوست سے لڑا گھر ٹوٹے پتہ نہیں کتنی لڑائیاں کتنے پھڈے اسی ڈیزل اور جناب یہودی ایجنٹ کے چکر میں لوگ لڑتے رہے آج انکے لیڈر آپس میں مل رہے ہیں تو یہ جو کارکن ہیں یا جو لوگ ایک لیڈر کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے یا اس طرف والے زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے انکی اس وقت کیا پوزیشن ہے یہ کہاں کھڑے ہیں؟ جو بیٹا اپنے باپ سے لڑتا رہا5 سال تک کہ بھئی آپJUIکو کیوں سپورٹ کرتے ہیں یا جنابJUIکا جو ورکر تھا وہ اپنے باپ سے لڑتا رہا کہ آپPTIکے جلسوں میں کیوں جاتے ہیں یاPTIوالوں سے کیوں ملتے ہیں؟ اب جب یہPTIاورJUIوالے مل رہے ہیں تو آپ کہاں پہ کھڑے ہیں؟۔ روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جس سے محبت کرنی ہے تو اعتدال میں رہ کے محبت کرو ہو سکتا ہے کل دشمنی ہو جائے، جس سے دشمنی کرنی ہے تو دشمنی بھی اعتدال میں رہ کے کرو ہو سکتا ہے کل دوستی ہو جائے۔ کہتے ہیں نا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سیاستد ان کسی بھی وقت یوٹرن لے لے گا آپ اس کی شکل تکتے رہ جائیں گے یہ کیا کر دیا اسنے ہمیں کیا پٹی پڑھائی تھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا خود کیاکیا؟۔ تو پاکستانی سیاست میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اسلئے بار بار ہم یہ گزارش کرتے ہیں اب ہو سکتا ہے یہ کلپ میں ریکارڈ کروا رہا ہوں تو یہ بھی کسی کو برا لگے کسی کو برا لگتا ہے تو ہماری بلا سے جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں جو ٹھیک ہے وہ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں بھائی آپPTIمیں ہیں نا آپPTIکے رہیں آپ عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں قیامت تک، آپJUIکے ہیں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں لیکن ایکدوسرے کے خلاف اتنے گھناؤنے اتنے گھٹیا الزامات ایکدوسرے پر لگانا۔ پتہ نہیں چوری اور کرپشن کے اور ڈیزل چوری کے کوئی چیز کبھی کسی پہ ایک دوسرے پہ کوئی ثابت نہیں کر سکا نہ یہ اس پر نہیں اس پارٹی والے اس پارٹی والے پر تو یہ جو ہم تہمت لگاتے ہیں الزام لگاتے ہیں گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں غیبت کرتے ہیں کیا یہ سب قیامت کے دن معاف ہو جائے گا اللہ ہم سے پوچھے گا نہیں؟۔ یہ بھی مسلمان وہ بھی مسلمان یہ اس پہ الزام لگا رہا ہے وہ اس پہ الزام لگا رہا ہے کیا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے تو اس طریقے سے سیاست کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب کرنا ایک دوسرے سے لڑنا یہ بہت بیوقوفی کی بات ہے پھر لوگ اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں سیاست دانوں کیلئے جان دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے مظاہرے میں نکلیں گے احتجاج میں نکلیں گے تو سیاست دان کے نام پہ وہ کہتے ہیں میری جان جاتی ہے تو جائے اسلئے کہ سیاستدان نے اس کو یہ پٹی پڑھائی ہوئی ہے کہ یہ آپ شہید ہو جائیں گے اور آپ نظریے کیلئے لڑ رہے ہیں آپ ملک کیلئے لڑ رہے ہیں آپ فلاں کیلئے لڑ رہے ہیں بھائی جب نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں جس نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں کل آپ اس سے یوٹرن لے لیتے ہیں وہ جو بندہ مر گیا اس احتجاج کے چکر میں وہ اس کا کیا بنے گا اس کے گھر والوں کا بچوں کا کیا بنے گا؟۔ سیاسی لیڈر تو ایک دفعہ آئے گا دعا کرے گا تصویر کھنچوائے گا چلا جائے گا رُلیں گے تو اس کے بچے رلے گی تو اس کی بیوہ اس کے ماں باپ ساری زندگی خون کے آنسو روتے رہیں گے سیاستدان کو بعد میں کیا پتہ چلے گا کہ کون میرے لیے مرا تھا کون جیا تھا ؟۔تو یہ جو ہمارے ہاں سیاست دانوں کے چکر میں ہم ایک دوسرے کے دشمن بنتے ہیں خدا کیلئے یہ دشمنیاں نہ کریں کل آپ ٹینشن میں ہوں گے۔ سیاستدان یو ٹرن لے کے کسی اور پوزیشن پہ کھڑا ہوگا آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی ہوگی تو یہ ایک بہت اہم میسج ہے جو ہمیں سارے پس منظر سے سیکھنے کو ملتا ہے سمجھنے کو ملتا ہے۔ اگر آسان جملوں میں میں کہوں تو سیاستدانوں کو اتنی ویلیو دیں جتنی ویلیو وہ آپ کو دیتے ہیںاتنی ویلیو آپ ان کو دیں۔ اس سے زیادہ کی ویلیو اگر ان کو دیں گے تو پچھتائیں گے ٹینشن میں آئیں گے آپ کے گھر والے پریشان ہوں گے۔ اور اعتدال اور بیلنس کے ساتھ چلیں گے تو انشاء اللہ امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
تبصرہ نوشتۂ دیوار:عتیق گیلانی
مفتی رشیدکا تعلق جامعة الرشید کراچی سے ہے ۔ مفتی عبدالرحیم کا شاگرد ہو گا جو مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا ایک سلسلہ خبیثہ ہے۔پچھلے شمارے میں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں اور کپوتوں کا ذکر کیا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے مجھ سے خود فرمایا کہ ” حاجی محمد عثمان کے فتوؤں کے پیچھے مفتی رشید خبیث ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی اپنے داماد اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ حاجی عثمان کی قبر پر بھی حاضری دینے گئے تھے۔مفتی منیر احمد اخون جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں میرا کلاس فیلو تھا۔ جو ابھی مفتی اعظم امریکہ کے نام سے یوٹیوب چینل پر ہوتے ہیں اور مولانا یوسف لدھیانوی کے داماد بھی ہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں بہت سخت محاذ آرائی کا بازار گرم تھا تو مفتی منیر احمد اخون نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش مولانا فضل الرحمن اور عمران خان آپس میں مل جاتے تو بہت بڑا انقلاب پاکستان میں آسکتا ہے۔ یوٹیوب پر مفتی اعظم امریکہ کا بیان دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان نے بھی اپنی زندگی میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا تھا کہ ”میں عمران خان کو مولانا فضل الرحمن کے پاس لاؤں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں بہت اچھے ہیں ۔ان کی دوستی کرانی چاہیے”۔ ہم نے بھی لکھا تھا کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو ایک ساتھ ہونا چاہیے ۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مفتی رشید نے بہت زبردست بات کی ہے ،اس پر اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔حضرت علی نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا کہ ” وہ بات صحیح کررہے ہیں لیکن صحیح بات سے باطل مراد لیتے ہیں”۔ یہ مفتی رشید کی بات درست ہے لیکن وہ اس سے باطل مراد لیتا ہے۔ذوالخویصرہ کی روحانی اولاد اور دارالعلوم دیوبند کے کپوت کو صحیح وقت پر سمجھانا پڑے گا کہ تم بکواس کررہے ہو۔ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی تھی۔ ایک دوسرے کے افراد کو قتل کرنے سے لیکر پتہ نہیں کیا کیا نہیں بولا ہوگا؟۔ مگر جب حضرت حسن نے صلح کی تو رسول اللہ ۖ نے یہ بشارت دی تھی کہ” میرا یہ بیٹا سید ہے اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں اللہ صلح کرائے گا”۔شیعہ سنی سب مسلمانوں کے نزدیک حضرت حسن کے اس کردار کو سراہا گیا ہے ۔لیکن خوارج جو ذوالخویصرہ کا گروہ تھا۔ اس نے اس سیاسی اتحاد کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگیا۔ جب حضرت عثمان کی شہادت ہوئی تھی تو شدت پسند مسلمانوں کے طرزِ عمل کی تفریق تاریخ کی نذر ہوگئی ہے۔ حضرت حسن و حضرت حسین نے حضرت عثمان کے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا جبکہ دوسرے بھائی محمد بن ابی بکرنے سب سے پہلے حضرت عثمان کی سفید داڑھی میں ہاتھ ڈالا تھا۔وہ بیٹا تو حضرت ابوبکر کا ہی تھا مگر اس کی ماں پہلے حضرت علی کے بھائی کے نکاح میں تھی۔پھر حضرت ابوبکر کی بیوہ بن گئی تو حضرت علی نے نکاح کیا۔ اور محمد بن ابی بکرکی تربیت بھی حضرت علی نے ہی کی تھی۔ ایک گھر کے افراد اور بھائیوں میں کتنا اختلاف تھا؟۔ ایک نے حضرت عثمان کی داڑھی میں ہاتھ ڈا الا اور دوسرے آپ کو بچارہے تھے؟۔ اس سے زیادہ سیاسی اختلاف تو عمران خان اور مولانا فضل الرحمن پر بھی باپ بیٹے کا نہیں ہوا ہوگا؟۔ میرے دوست ناصر علی محسودPTIکو سپورٹ کرتے تھے اور اس کا بیٹاJUIکو سپورٹ کرتا تھا۔ میرا ایک بھتیجاPTIکو سپورٹ کرتا تھا اور دوسراJUIکو۔ میں نے خود شناختی کارڈ کو تصویر کی وجہ سے ضائع کیا تھا مگر پھرJUIکو سپورٹ دینے کیلئے شناختی کارڈ بنایا تھا تاکہ ووٹ دے سکوں۔ جب میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی میرے ہاں تشریف لائے تھے توPTIکے صوبائی امیدوار ایوب بیٹنی سے کہاتھا کہ”تم یہود ی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہو؟”۔ مگر میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ ٹانک میں مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی جامع مسجد سپین جماعت مولانا فتح خان کیPTIکا دفتر تھا جس میںMPAکا امیدوارPTIاورMNAکے امیدوار مولانا فضل الرحمن تھے۔ جس پر جنرل ظہیرالاسلام کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ لاڑکانہ میںPTIکیساتھ ہی مولانا راشد محمود سومرو کا اتحاد پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تھا۔ سیاسی اختلافات اور اس میں احترام کا رشتہ تو صحابہ کرام سے چلا آرہاہے جس میں شدت بھی کبھی کبھی آجاتی ہے۔PTIکے معروف صحافی عمران ریاض خان نے لکھا تھا کہ ”اسرائیل کے یہود سے قادیانیوں کے بڑے مراسم ہیں”۔پھر الزام لگایا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں”۔ حالانکہ میاں افتخار حسین کیساتھ جب مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تھی تو مولانا نے اسرائیل کے خلاف ہی نہیں دوبئی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ عمران ریاض نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تو مولانا فضل الرحمن سے بھی مانگ لے گا۔ حامد میر نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پروگرام جنرل باجوہ کا تھا۔ جبکہPTIہی کی رکن اسمبلی خاتون نے یہودیوں کے حق میں تقریر کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی جنرل باجوہ کے وقت بریفنگ دی گئی تھی کہ مساجد میں پیسہ آئے گا اور یہ بھی بتایا ہوگا کہ عمران خان اسرائیل کا ایجنٹ ہے ۔ اگر دونوں کے درمیان غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ جو ان کو لڑارہے تھے۔
مفتی رشید کی دم پھر کسی نے ہلائی ہوگی یا اپنے شجرہ خبیثہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی فطرت سے مجبور ہوگا؟۔ یہودی ایجنٹ اور مولانا ڈیزل کے الزام کا معاملہ نیا نہیں ہے ۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی ایک دوسرے پر اسرائیل اور امریکہ کے ایجنٹ کا الزام لگاتے تھے۔ کفر کے فتوے اور سودی نظام کو اسلامی کہنا زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ مفتی طارق مسعود و مفتی عبدالرحیم پہلے مجاہدین کو سپورٹ کرتے تھے پھر ان پر وعید کی احادیث فٹ کرنے لگے کہ یہ دہشت گرد ہیں؟۔ اس کا کیا بنے گا مفتی رشید لدھیانوی کالیا کے شاگردواور مریدو!،؟۔شیعہ پر کفر کے فتوے اور واپس لینے کا کیا بنا؟۔ حاجی عثمان کے عقیدتمندوںکی بڑی دنیا ہے جس میں دارالعلوم کراچی کے مولانا اشفاق قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندبھی شامل تھے۔ جن کے نکاح کے بارے میں لکھ دیا کہ اس کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس دن ان ذوالخویصرہ کی اولاد کا ادراک ہوگیا تو پھر امت مسلمہ میں کفر کے فتوے ،نفرت ، شدت پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

قال رسول اللہ ۖ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعة
سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ (صحیح مسلم حدیث4843کتاب الامارة)

محترم قارئین ، علماء کرام ، مفتیان عظام، سیاسی قائدین، مجاہدین، صحافی ، دانشور اور عوام الناس!السلام علیکم ورحمة اللہ
رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کے بارے میں کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔ کوئی ایسے قرائن نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ ان مقاصد کیلئے کسی راوی نے یہ حدیث گھڑی ۔ اہل غرب میں روس، یورپ، امریکہ اور مغربی ممالک ہیں ۔ یہ تو تاریخ نے دیکھ لیا کہ کبھی فرانس اور برطانیہ کی کالونیاں دنیا بھر میں ہوا کرتی تھیں۔ پھر روس اور امریکہ نے دو سپر طاقتوں کی شکل اختیار کی۔ سقوط بغداد سے بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہوا اور پھر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی بربریت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو ایمان سے سرفراز فرمایا اور شاعر نے یہ گایا
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
حماس نے ایک حملہ اسرائیل پر کردیا اور آج بچوں خواتین اور انسانوں کی لاشیں روز سوشل میڈیا پر دل جلانے کیلئے موجود ہیں۔ بیت المقدس پر تو یہود کا قبضہ ہوگیا ہے اور غزہ کی پٹی دور کی مسافت پر ہے۔ جب امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بڑی تباہی مچائی تو لیبیا کے لوگوں نے خود ہی کرنل قذافی کو بہت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔ آج غیر ملکی طاقتیں بلکہ مغرب جب افغانستان ، ایران، پاکستان اور سعودی عرب کسی بھی ملک پر بمباری کرکے حکمرانوں کو تباہ کردیں تو اغیار سے زیادہ ہماری اپنی مسلم عوام سے اپنے اپنے حکمرانوں کو یلغار کا زیادہ خطرہ ہوگا اور پھر بھی ہم ایک لمحے کیلئے یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اجتماعی بقاء کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ جبکہ اہل غرب ہماری طرح بے چینی اور بے سکونی کے ساتھ نہیں رہ رہے ہیں۔ ہماری کیفیت تو قرآن ، حدیث، علماء و مشائخ اور مذہبی طبقات کی وجہ سے ایسی بن گئی ہے کہ اگر کہیں بھول کر بھی شوہر کے منہ سے 3طلاق کے الفاظ نکل گئے تو حلالہ کی لعنت کا خمار دماغ پر چڑھ جاتا ہے۔ اگر اس لعنت کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا تو عورت کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجاتی ہے۔ بھلا کرے اللہ تعالیٰ امام اعظم امام ابو حنیفہ کی شخصیت کا جس نے اکیلے یہ صدا بلند کردی کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال ہوجاتی ہے ورنہ تو باقی ائمہ امام مالک، امام جعفر صادق، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام ابو حنیفہ کے اپنے شاگرد عبد اللہ ابن مبارک ، امام ابو یوسف، امام زفر اور امام محمد وغیرہ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوتی ہے۔
اگر امام ابو حنیفہ حلالہ کی لعنت سے حلال ہونے کا فتویٰ نہ دیتے تو پھر عورت کو اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہونا پڑتا۔ پھر پانچ چھ سو سال قبل حنفی مذہب میں مزید دو عظیم سپوت پیدا ہوئے ایک علامہ بدر الدین عینی اور دوسرے محقق ابن ھمام جنہوں نے مزید سہولت کاری فراہم کردی کہ ”ہمارے کچھ نامعلوم بزرگوں سے نقل ہے کہ اگر زبان سے حلالہ کے الفاظ ادا نہیں کئے اور دل میں حلالے کی نیت سے نکاح کیا تو حدیث میں آئی ہوئی لعنت سے بندہ بچ جائے گا”۔ اور پھر اس سے بھی زیادہ بشارت عظمیٰ یہ بھی سنادی کہ ”اگر نیت یہ ہو کہ دو خاندان آپس میں ملیں تو ہمارے نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ حلالہ سے ثواب بھی ملے گا”۔ نیت کے حوالے سے اتنا عظیم اجتہاد اہل مغرب نے تو نہیں دیکھا ہوگا لیکن یہود و نصاریٰ کی تاریخ میں بھی اس کی مثال نہیں ملے گی۔
سن2007میں جب قرآن و سنت کے حوالے سے یہ انکشاف کردیا تھا کہ قرآن و سنت میں حلالے کا غلط تصور پیش کیا گیا ہے تو بجائے خوشیوں کے کوئی شادیانے بجاتا ہمارے اخبار کو ہی بند کردیا گیا۔ پھر مذہبی طبقات کی طرف سے مشکلات کا شکار رہنے کے بعد کچھ آسانی پیدا ہوگئی تو اخبار کی دوبارہ اشاعت بھی شروع کردی اور چند کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔ جس میں بہت مدلل انداز کے اندر قرآن و احادیث کے مؤقف سے آگاہ کیا گیا کہ دورِ جاہلیت میں حلالے کا جو تصور تھا اس کو قرآن نے ختم کیا۔ لیکن ہمارے علماء و مفتیان اپنے عقیدتمندوں کو بھی اس لعنت سے بچانے کیلئے کھل کر سامنے نہیں آئے۔ آج جماعت اسلامی کو اس بات پر شاید شرمندگی کا سامنا ہے کہ جو تحریک دنیا میں اسلام کے غلبے کیلئے مولانا مودودی نے اٹھائی تھی اور اس میں مولانا مسعود عالم ، مولانا ابوا لحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کے علاوہ بہت سارے علماء اور دانشور بھی شریک تھے ۔ لیکن پورے پاکستان سے سب سے زیادہ امید وار کھڑے کرنے کے باوجود کوئی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی ہے۔ میں نے 2 دفعہ منصورہ لاہور میں اس غرض سے حاضری دی کہ جماعت اسلامی حلالے کے خلاف نکل کھڑی ہوگی تو لوگوں کو بہت بڑا ریلیف مل جائے گا۔ لیکن ان لوگوں کو صرف اس وقت جوش آتا ہے جب کوئی عوامی لہر کسی کی مقبولیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
مدارس اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اورنمائندوں تک مسلسل ہمارا اخبار اور کتابیں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن ان کو اس بات کی فکر نہیں کہ کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا ہے یا حلالے کے نام پر خواتین کی ناجائز طور سے عزتیں لٹ رہی ہیں یا پھر مدارس کے نصاب میں قرآن کی حفاظت کیخلاف تعلیمات دی جارہی ہیں۔ عمران خان کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بننے کیلئے دی تھی۔ دوسری طرف مولانا اعظم طارق کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم کیلئے دی اور اس ایک سیٹ سے ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ یہ نہیں بھولنا کہ جب غلام اسحاق خان کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان نے صدارتی الیکشن لڑا تھا تو شہید بینظیر بھٹو نےMRDکی تحریک میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف قربانی کی تاریخ رقم کرنے والے نوابزادہ نصر اللہ خان کی بجائے غلام اسحاق خان کو ہی صدارتی ووٹ دیا تھا۔ جس نے پھر باری باری بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو چلتا کیا تھا۔ پرویز مشرف اور ق لیگ کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کے چند ووٹ اگر مولانا فضل الرحمن کے حق میں ڈال دئیے جاتے تو ق لیگ اور پرویز مشرف اس وقت اقتدار سے محروم ہوجاتے جس نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ بنا کر پارٹی کو توڑا تھا اور ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی تھی۔ پھر جب اس خدمات کے بدلے بینظیر بھٹو کو شہادت کی منزل پر پہنچادیا گیا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار مل گیا تو مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں شرکت اقتدار کا شرف حاصل کیا۔ محسن جگنو کے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ اس وقت زرداری کو کیا مسئلہ تھا ؟۔ لیکن مولانا نے بات گول کی تو محسن جگنو نے بتایا کہ زرداری کی زندگی کو طاقتور حلقے سے جان کا خطرہ تھا اور وہ چند دن تک سو نہیں سکے تھے۔
اس وقت نواز شریف بھی یوسف رضاگیلانی اور زرداری کے خلاف بہت ہی آب و تاب کے ساتھ طاقتور حلقوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ پھر جب نواز شریف کو آب و تاب کے ساتھ لایا گیا تو عمر چیمہ نے پانامہ لیکس کی خبر نشر کردی۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں بڑی صفائی کے ساتھ جھوٹ کی یہ تاریخ رقم کردی کہ لندن فلیٹ اللہ کے فضل و کرم سے2005میں سعودیہ کی اراضی بیچ کر2006میں خریدے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت عند الطلب میڈیا اور عدالت کو دکھا سکتا ہوں۔ عدالت نے طلب کیا تو قطری خط سامنے لایا۔ پھر قطری خط میں بلا کی غلطیاں تھیں اسلئے کہ بلا کا یہ جاہل اپنے جاہل مریدوں کے غلط ڈھکوسلوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ پھر مجھے کیوں نکالا کا واویلا کیا اور ووٹ کو بھی عزت دو کا نعرہ لگایا۔ پھر2018میں محکمہ زراعت کے نام سے خلائی مخلوق کا یہ کارنامہ سامنے آیا کہ اڑن طشتری میں عمران خان کا نزول ہوا۔ دنیا جہاں کے لوگوں کو حیرت ہوگی کہ جس جنرل قمر جاوید باجوہ کو سب متفق علیہ گالی گلوچ سے نوازتے ہیں اس کو سب نے ملکر نہ صرف3سال کی ایکسٹینشن دی بلکہ قانون میں بھی ترمیم کر ڈالی اور مزید ایکسٹینشن کی بھی گنجائش موجود تھی۔
پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن قانون میں بھی چور دروازے سے ہوتی تھی۔ کرائم کے دفعات میں یہ لکھا تھا کہ اگر کسی فوجی کو سزا دینی ہو تو اس کو بحال کرکے کورٹ مارشل کیا جائے گا اور اسی کے تحت جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تاریخی ایکسٹینشن لی تھی اور یہ اتفاق تھا کہ جب پرویز مشرف کی پیٹھ میں نواز شریف نے چھرا گھونپا تو عدالت نے پرویز مشرف کو 3سال تک قانون سازی کی اجازت بھی دی تھی۔ لیکن کسی ایک نا معلوم شخص نے جب قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کو عدالت میں چلینج کیا تو پھر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر قانون کی کتاب کھل گئی کہ آج تک جتنے بھی فوجیوں کو ایکسٹینشن دی گئی ہے وہ تو بنتی ہی نہیں ہے۔ صحافت اور سیاست کے ایک نمایاں کردار ایاز امیر صاحب جو کبھی ن لیگ کے ایم این اے بھی رہے ہیں اور ابPTIکی طرف سے آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑا تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے ایکسٹینشن کیلئے عدالت سے رجوع کرکے بڑی سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ ہر چیز قانون کے تابع نہیں ہوتی ہے۔ اس موصوف کو پھر بھی نہیں بخشا گیا حالانکہ اس کی ساری باتیں ن لیگ کے خلاف تھیں۔ وہ بھی اس وقت جب ن لیگ عقاب کے زیر عتاب تھی۔
ہمارے مذہبی ، سیاسی اور مقتدر طبقات کے کردار اور رفتار کو دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ اہل غرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں سے پتہ چلے گا کہ سقوط بغداد کیوں ہوا؟۔ بنو عباس اور بنو اُمیہ کے اکثر حکمرانوں کا کردار اور ظلم و ستم بھی اگرچہ قابل رشک نہیں ہے لیکن اگر ہم نبی رحمت ۖ کے بعد خلفاء راشدین کے دور کو دیکھیں تو اس میں بھی عشرہ مبشرہ کے مقدس صحابہ کرام حضرت طلحہ و زبیر اور علی ایکدوسرے کیخلاف جنگوں کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کیا گیا۔ اہل مشرق کے دانش نے مشاجرات صحابہ پر بات کرنے کی بھی پابندی لگائی ہے کہ اس سے عوام میں بدظنی کی روح بیدار ہوگی اور پھر مسئلہ خراب ہوگا۔
مولانا محمد مکی کا ایک ویڈیو کلپ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے ایک شخص (مالک بن نویرہ )کی بیوی سے عشق کیا تو اس کو قتل کرکے اس کی بیوی سے عدت میں شادی کرلی۔ ایک طرف عمران خان کو عدت میں شادی کے الزام سے بچانے کیلئے یہ مہم جوئی ہورہی ہے تو دوسری طرف ہماری فوج کو بھی اس سے بڑا ریلیف مل رہا ہے کہ جب حضرت ابوبکر کے دور میں یہ المناک واقعہ ہوا تھا تو ہم15ویں صدی ہجری کے انسان ہیں۔ مولانا مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو منصب سے سبکدوش کردیا لیکن جس کو قتل کیا تھا اس کا کیا بنا؟۔ کیا قتل کے بدلے قتل کرنا نہیں تھا؟۔ شاید مولانا مکی بھی سعودی عرب میں شاہی خاندان کے اقدامات کو جواز بخشنے کیلئے یہ حقائق اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی سہولت کاری کیلئے یہ مسئلہ لکھ دیا گیا کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ جب بادشاہوں اور علماء میں محبت کا یہ عالم تھا تو انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی لگاکر برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرلیا۔
اہل سنت کے چاروں اماموں نے متفقہ طور پر یہ مسئلہ اُمت مسلمہ کو بتادیا کہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے جبری زکوٰة کا مسئلہ درست نہیں تھا لیکن پھر انہوں نے بے نمازی کو نہ صرف سزا دینے پر اتفاق کیا بلکہ بعضوں نے قتل تک بھی بات پہنچادی۔ ایک طرف بادشاہوں کی طرف سے عوام کو قتل کیا جاتا تھا جس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا اور دوسری طرف بے نمازی کو قتل کرنے کا فتویٰ دینا ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات” کے مترادف تھا۔
اگر سنی علماء جمعہ کے خطبات میں حکمرانوں کیلئے یہ حدیث پڑھتے تھے کہ السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اھانہ اللہ ”حکمران زمین پر خدا کا سایہ ہے جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو بیشک اس نے اللہ کی توہین کی”۔ دوسری طرف شیعہ امامت کیلئے معصومیت کا عقیدہ رکھتے تھے اور قرآن نے جس مشاورت کا حکم دیا تھا وہ بالکل مفقود ہوچکا تھا۔ اور جس قرآن میں ایک خاتون کو بھی نبی ۖ سے اختلاف کی نہ صرف گنجائش تھی بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وحی بھی نازل کی لیکن جب صحابہ و ائمہ اہل بیت کیلئے قرآن و احادیث سے بالاتر عقیدت رکھی گئی اور بادشاہوں پر تنقید کو اللہ کی توہین قرار دیا گیا تو مسلم ممالک سے ہما نے اُٹھ کر مغرب کے سر پر بیٹھنا تھا۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھاہے کہ نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اور پھر حضرت عمر کا دور تھا جس میں سرمایہ دارانہ نظام کیلئے بنیاد فراہم کی گئی۔ جس میں وظائف کی تقسیم طبقاتی بنیادوں پر بدری اور غیر بدری صحابہ کے اندر کردی گئی۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کیلئے بنیادیں فراہم ہوئیں اور آخر کار اسلام ملوکیت کا شکار ہوگیا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پر آزادیٔ صحافت کو بھی فروغ نہیں دے سکتے۔ ایران ، سعودی عرب اور افغانستان میں اسلام کے نام پر اقتدار ہے لیکن اس آزادی کا تصور نہیں جو دنیا میں مغرب نے صحافیوں کو دی ہے۔ پاکستان میں آزادی صحافت باقی اسلامی دنیا کے مقابلے میں بہت مثالی ہے۔ اگر کوئی الیکٹرانک میڈیا کا صحافی یہ جھوٹ بولتا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیا جاتا تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بھی سب کو میسر ہے۔ صحافی بھی بعض سپوت ، بعض کپوت اور بعض مکس سپوت کپوت ہیں۔
جن سیاستدانوں اور صحافیوں کو مداری کے بندر کی طرح ڈنڈے پر چڑھنے کا شرف حاصل ہوتا ہے تو ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ڈنڈے کا استعمال بھی بنتا ہے۔ اکثر صحافیوں کو بہت کچھ بولنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ہماری فوج کا کردار بھی کوئی مثالی نہیں ہے۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو بھی ہندوستان کی قید سے آزاد ہونے کے بعد ڈھول باجے کی تھاپ پر ان کا استقبال کیا گیا۔ حالانکہ کرکٹ ہارنے والوں کو بھی ٹماٹر اور انڈوں سے نشانہ بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور جب میڈیا پر صرف اور صرف کرکٹ کی خبروں کے ذریعے سے بچے، بچیوں اور جوانوں اور خواتین و حضرات کو شیدائی بنایا جائے گا اور پوری قوم تاریخ، مذہب، تہذیب، تمدن، معاشیات، سیاست، سائنس اور تمام علوم و فنون سے عاری ہو تو اس کیلئے ایک کرکٹر ہی حقیقی لیڈر ہوسکتا ہے۔ جب ضرورت پڑی تھی تو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور آج بھی آرمی چیف اسی کا سہارا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا آزادی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے بجائے جھوٹ کا بازار گرم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے اثرات الیکٹرانک میڈیا پر بھی پڑے ہیں اور جب تک کوئی سنسنی خیز عنوان سے جھوٹی خبر نہ لگائی جائے تو اس کی ریٹنگ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب جھوٹ اور سچ کا اختلاط ہوتا ہے تو سچ پر بھی کسی کو یقین نہیں آتا۔ جب پنڈی کے کمشنر نے پریس کانفرنس کی تو کافی دیر تک مجھے یہ خبر بھی فیک لگی اور ہوسکتا ہے کہ کچھ فیک خبروں پر سچائی کا یقین بھی آگیا ہو۔ اسلئے کہ انسان بہت کمزور ہے اور اس کمزوری کی نشاندہی سورہ نور میں بھی ہوئی ہے۔ جب ایک اُم المؤمنین کیخلاف بہتان عظیم کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا تھا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف غلط پروپیگنڈے کو پھیلانے سے روکا تو دوسری طرف اللہ نے فرمایا کہ اس کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ اگر آج مغرب کو یہ پتہ چل جائے کہ قرآن و سنت میں برابری کا اتنا زبردست قانون ہے کہ جب اُم المؤمنین پر بہتان لگا تو اس کی سزا بھی80کوڑے تھی اور غریب خاتون پر بہتان لگے تو اس کی بھی سزا80کوڑے ہے۔ تو دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ لیکن ہمارا دانشور اور متعصب مذہبی طبقہ یہ سوچ پھیلارہا ہے کہ حدیث میں اُم المؤمنین کے خلاف سازش کرنے کیلئے یہ بات گھڑی گئی ہے۔ اگر اُم المؤمنین کے خلاف اتنی بڑی بات کوئی کرتا تو اس کی سزا قتل ہوتی۔ عمران خان مغرب کی طرح ایک قانون کی بات کرتا تھا لیکن جب وہ حملے کا شکار ہوا تو اس نے کہا کہ میں ایک سابق وزیر اعظم ہوں اور پنجاب میں میری حکومت ہے اور اپنی مرضی کیFIRدرج نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنے اقتدار میں تھانوں اور چھوٹی عدالتوں کی سطح پر انصاف کو عام کرتا تو پھر یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا۔ آج صحافی درست آئینہ دکھانے کے بجائے دیہاڑی دار ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

پروفیسر احمد رفیق اختر نے آیت کی غلط تفسیرکی جس کا نوٹس لینا بڑا ضروری

صحابہ نے پوچھا کہ توبہ ہم جانتے ہیں طہارت سے کیا مراد ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا : ڈھیلوں کے بعد پانی کا استعمال کرنا زیادہ طہارت ہے(مفہوم)

آیت میں حیض کا ذکر ہے اور طہارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے تعلیم یافتہ لوگوں کا بار اٹھایا ہے غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ خواجہ مہر علی کی ایک بات مجھے وہ اخری لٹریٹ مسٹک سے ان کی رائے میں بڑا حسن ہے دل نے چاہا کہ اس کے اختتام سے پہلے میں ان کو کوڈ نہ کروں فرمایا کہ ان امور کے بیان میں جن کا جاننا ضروری ہے واضح ہو کہ تفسیر کے تمام طریقوں میں سے اول درجہ بڑی انقلابی بات ہے، اول درجہ تفسیر القران بالقرآن ہے۔ یعنی سب سے پہلے قران کی وضاحت قران سے طلب کیجیے اگر قرآن ایک بات ایک جگہ کہی ہے جیسے معتزلہ نے کیا یا ماتریدیہ نے کہا یا جہیمیہ نے کیاایسے نہ کیجئے۔ ایک آیت سے استنباط نہ کیجیے پہلے پورا قران تو پڑھ لیں۔ مختصر یہ کہنا ہے امام کا خواجہ مہر علی کا کہنا یہ ہے کہ یار پہلے پورا قران تو پڑھ لو نا اگر ایک آیت سپلیمنٹ آیت آئی ہوئی ہے سپلیمنٹ آیتیں آئی ہوں گی اگرآگے آیات ہوں گی تو پورا ادراک ایک موضوع پہ آیات قرانی سے کر لو پھر ان کے بارے میں رائے دینا۔ تو فرسٹ ڈگری قرآن کو سمجھنے کیلئے یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر بالقرآن۔ اس کے بعد کیونکہ ان القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے ایک حصہ دوسرے حصے پہ دلالت ہے اس کی محکمات متشابہات پہ دال ہے اور متشابہات زمانوں پہ آکے دلیل دیتی ہے قرآن کے بارے میں۔ دوسرا درجہ تفسیربالسنہ باوجود اس کے کہ وہ ایک بڑے سپیشلائز مسٹک علوم میں استاد معظم ہیں اسکے باوجود جو رائے دے رہے ہیں قرآن پڑھنے کے بارے میں کہ دوسرا طریقہ قرآن کی تفسیر بالسنہ ہے کہ اصحاب کے رویوں سے تصدیق کرو اگرآپ کو پتہ لگے یہ ہے تو آپ کوشش کرو کسی سے پوچھو کہ جب یہ حکم آیا تھا اصحاب نے کیسے لی ؟۔ چھوٹی سی آپ کو ایک بات بتا دوں کہ جب یہ آیت اتری کہ پروردگار نے صفائی پہ اتاری یحب التوابین ویحب المتطاہرین کہ خدا توبہ کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے اور پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ تو اصحاب نے پوچھا یا رسول اللہ توبہ کی تو سمجھ آگئی مگر یہ پاک رہنے والے کون ہیں؟۔ تو اگر آپ کے سامنے بھی یہ لفظ پاک میں رکھ دو تو بڑی مشکل سے پتہ ہے کہ کیا پاکیزگی کا بیان ہے مگر رسول اکرم ۖ نے اصحاب کو جو بتایا کہ پاکیزگی کا مطلب ہے جوآپ ڈھیلے کے بعد آب دست لیتے ہیں کہ جب آپ گئے کیونکہ اس وقت جو رواج تھا رویہ تھا باہر گئے آپ نے ابولوشن کی تو پاک وہ لوگ ہیں جو اس ابولیوشن سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوئے اور گھر آکے انہوں نے پانی سے وضو کیا۔ اے لٹل ایکسٹرا کلین (تھوڑی سی مزید صفائی )۔تو آپ کیلئے قابل قبول ہو گیا۔ اصحاب کی ان وضاحتوں سے دین ہماری گرفت میں آجاتا ہے آپ کو پتہ ہے اگر ہم ان کی بات نہ سنیں تو دین ہماری گرفت سے نکل جاتا ہے۔ اگر میں طاہرین کا یا متطاہرین کا ترجمہ لنگوسٹیکلی کروں زبان کے لحاظ سے کروں تو مجھے پاکیزگی کے ہولناک خواب آنے شروع ہو جائیں مگر یہ جو ایک نیچرل بتایا ہے کہ اینی بوڈی ہووش ٹو بی مور کلین وہ طاہر ہے۔ وہ غیر معمولی کنڈیشن نہیں ہے معمولی سی بات ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو زیادہ صاف رکھنا چاہو۔ اسلئے اصحاب کے رویے جو ہیں وہ قرآن کی اور سنت رسول کی بہترین تائید میں ہیں اور بہترین تفسیر ہیں۔ اور تیسرا درجہ شاہ خواجہ مہر علی کہتے ہیں کہ اصحاب کرام کی تفسیر کا ہے اور یہ کون ہے خلفاء اربعہ عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما۔ پھر چوتھادرجہ تابعین اور تبع تابعین کا ہے۔ ان میں چند ایک کے انہوں نے نام بتائے ہیں کہ عمدہ ترین مفسرین جو ہیں حضرت مجاہد بن جبل ابن عباس کے شاگردوں میں سے ، امام بخاری اور امام شافعی نے ان کی تفسیر پر اظہار اعتماد کیا ہے۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار : عتیق گیلانی
پروفیسر احمد رفیق اختر کے اس بیان پر پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی تصویر بھی یوٹیوب پر لگی ہے مگر اس میں ایسی جہالت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ پاکی کا ایک تصور وہی ہے جس کی پہچان دنیا میں ”مسلم شاور” سے ہوتی ہے۔ یورپ وغیرہ میں ٹشو پیپر کا استعمال ہوتا ہے اور مسلمان استنجاء پانی سے بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے استنجاء میں استعمال ہونے والا شاور ”مسلم شاور”کہلاتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے قرآن کی آیت222البقرہ کے حوالہ سے بات کی ہے جسمیں توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ناپاکی اور پاکی کے تصورات عام فہم ہیں۔ اللہ نے فرمایا: ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلوا النساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین ۔ ترجمہ :”اور آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک تکلیف ہے۔ پس حیض کی حالت میں عورتوں سے دور رہو۔ اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے۔ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ”۔ (البقرہ آیت222)۔ اسمیں پاکی اختیار کرنے والوں کی تفسیر بالکل واضح ہے۔ حیض کی حالت میں بیگمات سے قربت یعنی جماع سے روکا گیا ہے اور یہی پاکیزگی اختیار کرنے والے مراد ہیں۔پروفیسر احمد رفیق اختر اتنی دور کی کوڑی لانے سے بہتر تھاکہ پہلے آیت کے ترجمہ کو دیکھ لیتے اور پھر اس سلسلے میں احادیث کو دیکھ لیتے جن کا تعلق حیض سے ہے۔جہاں تک پانی سے استنجاء کرنے کی بات ہے ۔تو وہ حدیث سورہ توبہ آیت108سے متعلق ہے۔ جس میں مسجد ضرار کے مقابلے میں مسجد قباء کی وضاحت ہے۔ فیہ رجال یحبون ان یطھروا واللہ یحب المطھرین ” اس میں لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں۔ اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔ اس میں ان صحابہ کرام کی خبر ہے جو مسجد قباء کے پاس رہتے تھے۔ زیادہ پاکی سے مراد یہ ہے کہ وہ ڈھیلوں کے علاوہ پانی سے بھی طہارت حاصل کیا کرتے تھے۔ اس میں توبہ کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
شاید اسرائیلیات میں کہیں درج ہے کہ مسلمانوںکا یہ امتیاز ہوگا کہ وہ ڈھیلوں کے استعمال کے بعد استنجوں کیلئے پانی سے بھی صفائی کریں گے۔ اس کی پہلی مثال مسجد نبوی سے بھی پہلے کی مسجد قباء تھی اور موجودہ دور میں بھی جہاں مشرق سے مغرب تک دنیا صرف ٹشو پیپر کا استعمال کرتی ہے تو وہاں مسلم شاور کی حیثیت سے استنجے میں استعمال ہونے والے شاور کو یاد کیا جاتا ہے۔ نمازی لوگ لوٹوں کا استعمال شروع سے کرتے ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ کسی عالم سے غلطی کی وجہ سے بدظن مت ہو اسلئے کہ کبھی کبھی شیطان بھی کسی اچھے آدمی کے منہ سے غلط بات نکال دیتا ہے۔ ایک صحابینے دوسرے سے پوچھا کہ کیسے پتہ چلے گا کہ شیطان نے بات نکلوائی ہے؟۔ اس کا جواب اس صحابی نے یہ دیا کہ جب کوئی ایسی بات کرے کہ لوگوں کو تعجب ہو کہ یہ کیا بات کہہ دی لیکن اچھے عالم کی نشانی یہ ہے کہ وہ غلط بات سے رجوع کرلیتا ہے۔ اگر وہ رجوع نہیں کرتا تو پھر وہ ایک عالم نہیں بلکہ شیطان ہے۔ یہ روایت مولانا یوسف لدھیانوی شہید نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” لکھی ہے۔ جب مولانا یوسف لدھیانوی کی طرف سے حاجی عثمان صاحب کے خلاف خط کا جواب دیا گیا تو مجھے حاجی صاحب نے آخر میں وصیت کی تھی کہ مولانا لدھیانوی سے ضرور پوچھ لینا۔ مولانا لدھیانوی نے کہا تھا کہ یہ مفتی جمیل خان نے لکھ کر میری طرف منسوب کردیا ہے۔ اور حاجی عثمان کی بہت تعریف بھی کی۔ جب میں نے کہا کہ میں اس کی وضاحت کروں گا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے گالیاں بھی دو تو میں جواب نہیں دوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ ”غلطی کا ازالہ آپ کا اپنا فرض بنتا ہے”۔ مولانا محمود حسن گنگوہی پر فتویٰ لگایا گیا تو ایک عالم نے چھپ کر معافی مانگی۔ مولانا نے فرمایا کہ ”فتویٰ کھل کر لگایا تھا تو اس کی معافی چھپ کر نہیں بنتی بلکہ یہ شریعت کا تقاضہ ہے کہ کھل کر اس کی تشہیر بھی کرنی ہوگی”۔
پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب نے یہاں پر بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا ازالہ بھی کھل کر کرنا ہوگا وگرنہ چھپ کر اس کی توبہ نہیں بنتی ہے۔ جہاں تک آیت222میں توبہ کا تعلق ہے تو یہ مردوں کیلئے عورت کو اذیت کی حالت میں تنگ کرنے کے حوالے سے وضاحت ہے۔ جب عورت اذیت کی حالت میں ہو تو اسکے شوہر کو اس کا خیال رکھنے کی تلقین ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کو دیکھیں کہ جب مفسرین اور فقہاء نے عورت کی اذیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا تو آیت222البقرہ کے بعد آیت223سے232تک مسلسل اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے احکام بیان کئے ہیں۔ لیکن عورت کی اذیت کو نظر انداز کرکے جب تفسیر کی گئی اور مسائل گھڑے گئے تو اسلام اس کی وجہ سے اجنبیت کا شکار ہوگیا۔ عورت صنف نازک ہے اور کمزور ہے اور اللہ نے اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے لیکن مردوں نے ان کے تمام حقوق کو غصب کرلیا ہے۔
جس دن مسلمان اپنی کمزور صنف نازک کے حقوق کو بحال کردیں گے تو ان پر مقتدر اور طاقتور حلقوں کی طرف سے ظلم بھی بند ہوجائے گا۔ ایک افغانی عورت امریکہ میں بظاہر بڑی بے شرمی کا ارتکاب کرتی ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کے شاعر گلامن وزیر کی تعریف بھی کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میں اپنے شوہر کی دسترس میں رہتی ہوں اور عورتوں پر طعنہ زنی کا کوئی حق نہیں بنتا اسلئے کہ جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے فوجیوں نے خواتین کو نہیں چھوڑا۔ تاریخ میں جتنے لوگ بھی دوسری اقوام پر قابض ہوئے ہیں تو خواتین کی عزتیں تار تار کردیتے ہیں۔ مغرب مسلمانوں کے بارے میں یہ تاثر رکھتا ہے کہ اگر اس کے قبضے میں ہم آگئے تو ہماری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو یہ لوگ اپنی لونڈیاں بنادیں گے۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے مغربی حکمرانوں نے اپنے دشمن یہودیوں کو بیت المقدس سونپ دیا ہے تو کیا وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو اپنے قبلے سے زیادہ مقدس سمجھیں گے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے انکشاف کیا کہ کوئی5برسوں میں ہی مغرب کے حکمران دنیا کے مسلمانوں سے مکہ کی مرکزیت چھین لیں گے۔ کیونکہ ان کے نزدیک جب تک یہ مرکز ختم نہیں ہوگا تو مسلمانوں سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے۔ یہودیوں نے مصر سے مدینہ کیلئے ایک سڑک کا پروگرام بنایا ہے جس کے بعد وہ مدینہ کے بنو قریظہ ، بنو نظیر کے قبائل اور خیبر کے مقامات کو تلاش کرکے اپنا قبضہ جمالیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر یہود و نصاریٰ اور عرب میں ایک نیا بھائی چارہ قائم ہوگا جس کو بنی اسحاق اور بنی اسماعیل کے درمیان رکھا جائے گا۔ باقی مسلمانوں کو حجاز مقدس میں قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا۔
ایک طرف مسلمانوں کو وحشیوں کی طرح دہشت گرد بنادیا گیا اور دوسری طرف سیاستدانوں کے ساتھ جب تک بھلائی ہو تو ان کو آزادی کی فکر نہیں رہتی۔ جب اقتدار سے محروم ہوتے ہیں تو وہ آزادی کا طبلہ بجانے لگتے ہیں۔ اگر2018میں عمران خان کا ضمیر جاگتا اور محکمہ زراعت کو مسترد کردیتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے مگر اس وقت پروفیسر صاحب نے اس کا گٹار بجاکر سنا ہے کہ استقبال کیا تھا۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv