پوسٹ تلاش کریں

ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کیپٹل ازم تک

ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کیپٹل ازم تک

ذوالفقار علی بھٹو ایک جاگیردار تھا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے خلیفہ حضرت شاہ عنایت شہید نے سندھی جملے سے کہ ”جو فصل بوئے گا وہی کاٹے گا”تحریک کا آغاز کیا تھا ۔ اگر وہ تحریک کامیاب ہوجاتی تھی تو برصغیر پاک وہند سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز اس وقت سے ہوجاتا۔ پھر دنیا میں کارل مارکس کوایک نیا معاشی نظریہ سوشلزم اور کمیونزم ایجاد کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ جس کو لینن نے سویت یونین میں عملی جامہ پہنایا تھا اور جس سے پوری دنیا کے سودی نظام کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ برصغیر پاک وہند میں انگریز کے خلاف دیوبندی اور بریلوی علماء ومشائخ نے مالٹا اور کالا پانی میں جیلوں کی سزا کاٹی تھی۔ مولانا جعفر تھا نیسری اور مولانا فضل الحق خیرآبادی وغیرہ نے کالے پانی کی سزا بھگت لی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا عزیرگل، مولانا حسین احمد مدنی نے مالٹا کی قید کاٹی تھی۔1920میں اسیرانِ مالٹا آزاد ہوئے تو شیخ الہند کا اسی سال انتقال ہوا۔1921میں مولانا حسین احمد مدنی نے فتویٰ جاری کیا کہ انگریز کی فوج میں بھرتی ہونا جائز نہیں ہے۔ مولانا محمد علی جوہر نے مولانا حسین احمد مدنی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ اشعار کہے تھے ۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے کہ
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
جب مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز کی عدالت سے معافی مانگنے کے بجائے اپنے فتوے پر ڈٹ گئے تو ان اشعار کے واقعی وہ بڑے مستحق تھے۔ اس وقت انہوں نے ہندو مسلم فسادات کو روکنے کیلئے اور انگریز کو برصغیر پاک وہند سے بھگانے کیلئے فتویٰ دیا تھا کہ ”ہندوستانی ایک قوم ہیں”۔ سر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ ”دیوبند سے حسین احمد کہتا ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے ،مذہب سے نہیں تو کیا بولہبی ہے؟”۔ علامہ اقبال نے بھی کیمونزم کو سپورٹ کرنے کیلئے اپنی غزل ” فرشتوں کا گیت” لکھ دیا تھا۔ جس میں کھل کر کمیونزم کی تائید تھی۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو!
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو!
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو!
محمد علی جوہر کے اخبار کا نام کامریڈ تھا اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار کانام زمیندار تھا۔تاج برطانیہ اور امریکہ ویورپ کے سودی نظام کو شکست دینے کیلئے دنیا بھر میں کمیونزم کا ولولہ موجود تھا۔ انگریز نے جب تقسیم ہند کا فیصلہ کیا تو روس کو روکنا اس کے پیشِ نظر تھا۔ افغانستان آزاد ملک تھا اور جرمنی اور روس کے مقابلہ میں انگریز سے نفرت رکھتا تھا۔ انگریز آئے روز افغانستان کے خلاف سازشوں کے جال بچھاتا تھا۔ امیر امان اللہ خان کی حکومت بھی انگریزی سازش کا شکار بنی اور اس کیلئے ملاشور بازار اور شیر آغا جیسے لوگوں نے علماء ومشائخ کی قیادت کی۔
پنجاب میں آزادی سے پہلے مسلم لیگ کی نہیںمخلوط حکومت تھی۔ سندھ میں مسلم لیگ کو پانچ ارکان میں3یعنی ایک ووٹ کی برتری حاصل تھی۔ بلوچستان ایک الگ ریاست تھی۔ سوات ، بہالپور اور جوناگڑھ وغیرہ بہت ساری ریاستیں خود مختار لیکن انگریز کی طفیلی تھیں۔ پختونخواہ میں کانگریس کے غفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان کی حکومت تھی۔ مغربی پاکستان سندھ کے ایک ووٹ کی برتری سے بن گیا۔ اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ کا یہی فیصلہ تھا ورنہ پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔ پختونخواہ کی حکومت کو توڑ کر زبردستی سے بدنام زمانہ ریفرینڈم کرایا گیا تھا۔
بنوامیہ کے ابوسفیان اور امیر معاویہ نے فتح مکہ سے پہلے اسلام کے خلاف جنگیں لڑی تھیں لیکن پھر خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ کا قبضہ ہوگیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جو مروان کے پوتے تھے ،پھر اسلام کی روح کو زندہ کردیا تھا۔
پاکستان کی آزادی سے پہلے جن عدالتوں، فوج، پولیس، سول بیوروکریسی اور انگریز کے ٹاؤٹ نوابوں ، خانوں، گدی نشین پیروں اور مدارس کے علماء کے خلاف آزادی کے مجاہدین جنگ لڑرہے تھے ، آزادی کے بعد وہی انگریز کے ملازم اقتدار میں آگئے۔ پہلے دو آرمی چیف بھی انگریز تھے۔ جنرل ایوب خان بھی ان کی باقیات تھے لیکن مقامی ملازم تھے۔ جنرل ایوب نے فیلڈ مارشل کی حیثیت سے ملک کے صدارتی نظام کا انتخاب لڑا تھا اور فاطمہ جناح کو مقابلے میں غدار قرار دیا تھا۔ جنرل ایوب کی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو نکل آیا۔ بھٹو نے کمیونزم اور اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ مولانا احمد علی لاہوری کی امارت میں جس جمعیت علماء اسلام نے سیاست کا آغاز کیا تھا وہ مولانا حسین احمد مدنی کی فکر سے تعلق رکھتے تھے۔مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود اور ملک بھر کے بڑے بڑے مفتیان کرام اور شیخ الحدیثوں پر جمعیت علماء اسلام کی وجہ سے1970میں مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی، مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مفتی تقی عثمانی وغیرہ سینکڑوں علماء ومفتیان نے کفر کا فتویٰ اس بنیاد پر لگادیا کہ اسلامی سوشلزم پر فتویٰ لگائیں؟۔ جماعت اسلامی بھی اس میں پیش پیش تھی۔ البتہ ان کی حیثیت فتویٰ لگانے کی نہیں تھی۔
مولانا غلام غوث ہزاروی مرد درویش تھا،جب ا س نے بھانپ لیا کہ مفتی محمود اور جمعیت کو رجعت پسند طبقہ اپنے مفادات کیلئے بھٹو کے خلاف استعمال کر رہا ہے تو قومی اتحاد کی جگہ انہوں نے بھٹو کا ساتھ دیا۔ پھر مفتی محمود نے آخر میں محسوس کیا تو جنرل ضیاء الحق کے مقابلے میں نصرت بھٹو کیساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک چلانے کا عزم کیا لیکن ان کو پان میں زہر دیکر شہید کیا گیا۔ پھر مولانا فضل الرحمن نے اپنے باپ کے مشن پرMRDکا ساتھ دیا اور نام نہاد زکوٰة کو آب زم زم کے لیبل میں شراب قرار دے دیا۔ اب مولانا فضل الرحمن، نوازشریف، جماعت اسلامی اور مفتی تقی عثمانی نے سودی نظام کو مشرف بہ اسلام قرار دینے پر اتفاق کرلیا ہے۔ مفتی محمود قومی اتحاد میں تحریک نظام مصطفی ۖ کے نام پر استعمال ہوا تھا اور فرزند ارجمند مولانا فضل الرحمنPDMکے سربراہ کی حیثیت سے پھر استعمال ہورہاہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ نوازشریف کو جیل سے لندن بھجوانے میں اسٹیبلشمنٹ نے مدد کی ۔ ہم نے پہلے مولانا فضل الرحمن کو استعمال ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اب اللہ کرے کہ آرمی چیف بنوامیہ میں عمر بن عبدالعزیز کے کردار کو زندہ کریں۔ مفتی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے سود کو اسلامی قرار دیا جو اللہ اور اسکے رسول ۖ سے اعلان جنگ ہے تو رہ کیا گیا؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی تقی عثمانی کا اسلامی معاشی نظام پر خودکش حملہ

مفتی تقی عثمانی کا اسلامی معاشی نظام پر خودکش حملہ

قرآن وسنت کے مقابلہ میںغلط اجتہاد سے بیڑہ غرق ہوا۔سودی بینکاری اسلام پر خود کش حملہ تھا۔
نبیۖ کے بعد صحابہ نے خود کو فتنے میں مبتلاء پایا۔ انصارصحابہ نے خلافت کیلئے محفل سجائی اور حضرت ابوبکر و عمر کے بعد عثمان کی شہادت پرحضرت علی وعائشہ کی جنگ پھر خلافت پر امارت کا قبضہ، یزیدکی بدمعاشی،پھر فقہاء کے مسائل پر تضادات کی بھرمار، قرآنی تفسیرمیں انتہائی گڑبڑاور احادیث کااختلاف ، من گھڑت فرائض ، بے دھڑک فرقے۔ قرآن وسنت سے دُوری۔اسلام اور اقتدار دونوں کا ستیا ناس
رسول اللہ ۖ پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ سورۂ مجادلہ میں عورت کے حق میں وحی نازل ہوئی۔ بدر ی قیدیوں پر اکثریت کے مشورے پر نبی ۖ نے فیصلہ کیاتھا اور حضرت عمر و حضرت سعد کے حق میں وحی نازل ہوئی۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ رسول اللہ ۖ نے اپنی صوابدید پر کیا ،اللہ نے فتح مبین قرار دیا اور جس بوجھ نے آپ کی کمر دہری کررکھی تھی ،اللہ نے اگلا پچھلا بوجھ ہلکا کردیا۔ انا فتحنا لک فتحًا مبینًالیغفراللہ ماتقدم من ذنبک وماتأخر منہ ” بیشک ہم نے آپ کو فتح عطاء کی ہے کھلی فتح۔تاکہ آپ سے آپ کا اگلااورپچھلا بوجھ ہلکا کردے”۔ الم نشرح لک صدرک ووضعنا عن وزرک الذی انقض ظھر ک ”کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھولا ؟اور آپ سے وہ بوجھ نہیں ہٹایا جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی؟”۔ مفتی تقی عثمانی و مفتی عبدالرحیم کے گناہ گنوائے جاسکتے ہیں جو انہوں نے ماضی میں کئے اور مستقبل میں جاری ہیں لیکن ان سے کوئی کہے کہ ” اللہ تمہارے اگلے پچھلے گناہ معاف کرے” تو ان کے معتقدین برا منائیں گے کہ یہ اللہ کے ولی محفوظ ہیں پھرمعصوم نبیۖ کی طرف گناہ کی نسبت قرآن کا ترجمہ قرار دینے سے بڑھ کر گمراہی کے دلدل میں یہ امت کیسے پھنس سکتی ہے؟۔
صحابی نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ترازو اترتا ہے ۔ نبی ۖ اوردوسرا پلڑا برابر ہوتے ہیں۔ پھر حضرت ابوبکر کے مقابلے میں دوسرا پلڑا ہلکا ہوجاتا ہے۔ پھر حضرت عمر کے مقابلے دوسرا پلڑا مزید ہلکا ہوجاتا ہے۔ پھر ترازو آسمان پر اٹھالیا جاتا ہے۔نبیۖ نے یہ تعبیر فرمائی کہ آسمانی اقتدار ابوبکروعمر ہی تک رہے گا۔ نبیۖ کو رضا کارانہ عشرو زکوٰة ملتا تھا اور کسی نے انکار کیا تو اسکے خلاف قتال نہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے زکوٰة دینے سے انکار پر قتال کیا۔سردارِ انصار سعد بن عبادہ کو حضرت عمر کے دور میںجنات نے قتل کیا؟۔ حضرت عمر کے قتل کے بعد قاتل نے خود کشی کی۔ عبیداللہ بن عمر نے قاتل کی بیٹی سمیت تین افراد کو قتل کیا۔ حضرت عثمان نے مشاورت کی تو حضرت علی نے کہا کہ قصاص میں قتل کرو۔ عمرو بن عاص کے کہنے پر حکومت نے دیت دی ،پھر حضرت عثمان گھر میںشہید کئے گئے پھر حضرت علی کی شہادت کے بعد حسننے امیرمعاویہ سے صلح اور یزید کے خلاف حسیننے قیام کیا۔ عمر بن عبدالعزیزاور حجاج کی طرح انفرادی اچھے برے آئے۔ اقتدار کی رسی آمریت اوربادشاہت کے بعد جبری دورِ حکومت تک جاپہنچی ہے۔اقتدار کی امانت البیعة للہ ” بکنا صرف اللہ کیلئے ہے”کے سپرد کرینگے تو مشکلات ختم ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

()

See more:
https://zarbehaq.com/islam-o-iqtidar-jurwa-bhai-hain//

کیا پاکستان، ایران اور افغانستان میں اسلامی نظام سے استحکام آئے گا؟

کیا پاکستان، ایران اور افغانستان میں اسلامی نظام سے استحکام آئے گا؟

رسول اللہ ۖ نے ریاست مدینہ میں معاشی، معاشرتی اور امن وامان کیلئے اعلیٰ ترین اقدار سے کام لیا اور اندرون وبیرون سے استحکام بخشا تھا

پاکستان، ایران اور افغانستان اس پر عمل کرکے پوری دنیا میں اسلامی نظام خلافت کے قیام کا راستہ ہی ہموار نہیں کرسکتے بلکہ عملی جامہ پہناسکتے ہیں!

مرد طاقتور اور عورت کمزور ہے۔ جائز اور ناجائز تعلق میں کمزوری کا نتیجہ عورت بھگتی ہے۔ جو عورت دنیا میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتی ہے یہ اسلام، فطرت اور انسانیت کا تقاضہ ہے۔ یہود ونصاریٰ افراط اور تفریط کا شکار تھے۔ یہود طلاق کو مرد کا کھیل سمجھتے تھے اور عیسائیوں میں طلاق کا تصور ختم تھا۔ مغرب نے مذہب کو خیرباد کہہ کر نکاح و طلاق کے اپنے قوانین ایجاد کرلئے۔ جن میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ اسلام کا کمال ہے کہ مرد کو بالادست قراردیا اور عورت کو کمزور۔ لیکن شوہر کو طلاق اور بیوی کوخلع کا حق دیا۔ طلاق و خلع میں عورت کو مالی تحفظ دیا۔ علماء نے آیت229البقرہ اور230کا درست مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے سورۂ النساء آیت19اور20،21میں بھی خلع وطلاق کا مفہوم بگاڑ دیا ۔
آیت229البقرہ میں2یا3مرتبہ طلاق کے بعد خلع نہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے اسکو مشکل ترین قرار دیا مگر مولانا مودودی اور جاوید احمدغامدی نے بھی مغالطے کی وجہ سے اسکا مفہوم مزید سلیس انداز میں یونہی بگاڑ دیا۔ آیت229البقرہ میں عدت کے تین مراحل ، تین مرتبہ طلاق کے بعد عورت کامالی تحفظ ہے اور انہوں نے اس آیت میںخلع کے غلط تصور سے عورت کو بلیک میل کرنے کا شرعی حربہ شوہرکوہاتھ میں دے دیا۔ شیعہ سنی یہ معمہ حل کرنے پر رضامند ہوں تو اپنے چودہ سوسالہ تہہ در تہہ اختلافات کو ازسرنو حل کرنے پر زبردست توجہ دیں گے۔ قرآن سے فقہی مسالک ملیا میٹ ہوںگے تو بد دلی بھی نہیں پھیلے گی۔
عورت کو خلع اور مرد کو شرعی طلاق کا حق مل جائے اور عورت کومالی تحفظ بھی مل جائے تو ان گنت لایعنی فقہی مسائل پر ہنسی آئیگی۔ امام تفسیرصاحب کشاف جاراللہ زمحشرینے اپنی کتاب ”ربیع الابرار” میں لکھا کہ ” صحابہ مدینہ میں فارس سے خلافت عمر میں لوٹ آئے تو انکے پاس3 یزد گرد کی بیٹیاں تھیں۔ عمر نے انکے فروخت کا حکم دیا تو علی نے کہا :بادشاہوں کی بیٹیوں سے بازاری کی طرح معاملہ نہیں کیا جاتا۔عمر نے کہا : کیاکیا جائے؟۔ علی نے کہا: ایک عبداللہ بن عمر، دوسری حسین ، تیسری لے پالک محمد بن ابی بکر صدیق کو دیتے ہیں۔ایک لونڈی سے سالم بن عبداللہ بن عمر، دوسری سے زین العابدین بن حسین اور تیسری سے قاسم بن محمد پیدا ہوئے ،یہ تینوں خالہ زادتھے اور مائیں یزدگرد کی بیٹیاں تھیں”۔
دنیا خلافت سے اسلئے ڈرتی ہے کہ فتح کے بعد ایرانی بادشاہ کی بیٹیاں لونڈی بن کر ابوبکر، عمر اور علی کے بیٹوں کو ملیں۔پھر امریکہ و مغرب کبھی خلیفہ بننے دیںگے؟۔ رسول اللہ ۖ نے غزوہ بدر میں کسی کو غلام ولونڈی بنایا اور نہ فتح مکہ کے موقع پر کسی کو غلام اور لونڈیاں بنایااور نہ ہی جبر سے مدینہ میں اقتدار قائم کیا۔
قرآن میں قیدی کیلئے صرف دو حکم ہیں ۔ احسان سے چھوڑنا اورفدیہ لیکر چھوڑ نا۔ ابھی نندن کو قرآن کے حکم کے مطابق احسان کرکے چھوڑ دیا۔ فدیہ لیکر بھی چھوڑا جاسکتا تھا ۔ جنگی قیدی کو قتل کرنا، غلام یا لونڈی بنانا، اس کو کسی اور کے ہاتھ بیچ دینایا عمر بھر کیلئے قید کرنا قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے۔ آج کی مہذب دنیا بھی قرآنی تعلیمات کو ہی قبول کرے گی لیکن مسلمانوں نے خود اللہ کی کتاب کو چھوڑ رکھا ہے۔ مسلمان قرآن کی طرف رجوع نہ کرتے لیکن آخر کار سودی نظام کو بھی اسلامی قراردیا جا رہاہے۔جاہلیت میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانا ممکن نہیں تھا اور بردہ فروشی اور ڈکیتی کے ذریعے بچوں اور عورتوں کو غلام و لونڈی بنانا غیر اخلاقی حرکت تھی۔ غلام ولونڈی بنانے کے تین طریقے تھے۔ مزارعت کے ذریعے۔ بردہ فروشی اور غنڈی گردی سے اور قوموں کو فتح کرنے کے بعد۔ قرآن میں ہے کہ آل فرعون بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل اور خواتین کی عزتیں لوٹتے تھے۔ قرآن نے سود اور مزارعت کا تصور ختم کردیا تھا۔ سود سے آج ملک غلام بنتے ہیں ۔ مزارعت خاندانی غلام اور لونڈیاں بنانے کا ذریعہ تھا۔ بلال خاندانی غلام تھے۔ زید بردہ فروشی سے غلام بنے اور خباببنی تمیم کوبچپن میںڈکیتوں نے غلام بنایا تھا۔ مردوں کو قتل، عورتوں اور بچوں کو بیچ ڈالا۔ خباب پر ظلم کی داستان دیکھ کر شیعہ زین العابدین کی طرح ان سے بھی محبت کریں گے اور یہ احساس بھی ہوجائیگا کہ صحابہ کرام سے اہلسنت کیوں محبت کرتے ہیں؟۔
پاکستان ، افغانستان اورایران عورت کے حقوق بحال کریں۔سودی نظام اور مزارعت کوختم کردیں ۔ زمینوں کو مفت کاشت اورپہاڑوں کوباغات کیلئے کئی سال لیز پر دیں تو ترقی ہوگی۔ اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام قائم ہوگا تو حکمرانوں کو استحکام ملے گا۔ قرآن میں زناپر100اور بہتان پر80کوڑے ہیں۔لعان میں عورت کی گواہی پر عذاب ٹلتا ہے اور زنا بالجبر پر قرآن میں قتل اور حدیث میںسنگساری کی سزا ہے۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعہ پرفقہی قانون سازی اور اختلافات کو زیربحث لانے اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ درسِ نظامی میں قرآن وسنت کا تحفظ ہے لیکن حماقت بھی انتہا ء کو پہنچی ہوئی ہے۔ مدارس کے علماء ومفتیان آنکھیں بند رکھیںگے تو آنے والے دنوں میں خود کش حملوں کا بھی شکار ہوسکتے ہیں اسلئے کہ جب حالات خراب سے خراب ہوںگے تو وہ بھی لپیٹ میں آسکتے ہیں ۔ قرآن وسنت اور اسلام کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ ریاست ، عدالت، سیاست اورصحافت کو ٹھیک راستے پر نہیں ڈالا تو پاکستان کے دن ختم اور یہاں بسنے والی قومیں بہت مشکل کا شکار ہو کر کہاں تک پہنچیں گی؟۔

مزید تفصیلات درج ذیل عنوان کے تحت دیکھیں۔
”ریاست، جمہوریت اور صحافت کے حقائق4+ارب ڈالر قرض ”
”جمہوریت کو بچانے کیلئے اپنے درمیان بدترین نفرتوں کا خاتمہ کرنا ہوگا! ”

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

واقعہ کربلا کو سمجھنے کیلئے آج کے شیعہ کوفی اور یزیدی سنی کا ایک آئینہ

جب قرآن کی حفاظت اور سورۂ نور کی روشنی کیخلاف آج کی مجلس میں شیعہ سنی بھیگی بلیاں بن جائیں تو کربلا کا واقعہ بھی سمجھ سکتے ہیں!

پنجابی خطیبوں پر پیسے نچھاور کرتے ہیں، اسلئے محفل لوٹنے کی کہاوت ہے، اگر پنجاب ہوتا تو مجلس لوٹنے کا قرعہ میرے ہی نام نکل آتا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
صحابہ کرام و اہل بیت عظام کے نام سے شیعہ سنی کے اختلافات مشہور ہیں، ان میں بنیادی اختلاف قرآن کے لفظی اور معنوی تحریف پرہے۔ دیوبندی مکتب کے قاضی عبدالکریم کلاچی نے اکوڑہ خٹک کے مفتی اعظم مفتی فرید کوخط لکھا کہ ”دارالعلوم دیوبند کے علامہ انور شاہ کشمیری کی ”فیض الباری شرح بخاری” میں ہے کہ” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے مگر لفظی تحریف بھی ہوئی ہے یا تو جان بوجھ کر کی ہے یا مغالطے سے” ۔اس عبارت میں قرآن کی تحریف کی نسبت کفا.ر کی طرف نہیں ہوسکتی ۔ صحابہ کی طرف قرآن کی تحریف کی نسبت پر میرے پیروں سے زمین نکل گئی اور سر چکرا گیا ”۔ مفتی فرید نے جواب میں لکھا کہ ” فیض الباری علامہ انور شاہ کشمیری کی تقریر نقل کرنے والے نے لکھی ہے”۔

مفتی زر ولی خان نے مجھ سے بالمشافہہ ملاقات میں کہاتھا کہ علامہ انورشاہ کشمیری نے قرآن کی لفظی تحریف کی بات نہیں کہی۔ بیماری کی وجہ سے زیادہ بحث کرنامناسب نہیں تھااور آئندہ نشست کیلئے وقت مانگا تو فرمایا کہ ” چشم ما روشن دل ماشاد،علمی نکات پر بحث کیلئے جب چاہیں آئیں” ۔انکا چند دنوں بعد انتقال ہوا ۔ بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں لکھا کہ ”دارالعلوم کراچی کورنگی سے شیخ انورشاہ کشمیری کا حوالہ دئیے بغیر فتویٰ لیا تو اس پر کفر. کا فتویٰ لگا دیا گیا ہے”۔ میں نے اپنی کتاب ”آتش فشاں” اور ” ابر رحمت ” وغیرہ کے علاوہ اپنے اخبار ضرب حق اور نوشتۂ دیوار میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھاہے اور علماء کرام سے اپنی گزارشات کی ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی جب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تو قصر ناز کراچی میں مولانا شیرانی، مولانا عطاء الرحمن اور قاری محمد عثمان سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی تھی۔

شیعہ پر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے بڑے مدارس نے کفر. کا فتویٰ لگایا ۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے االاستفتاء میں تحریف قرآن کے عقیدے کا تفصیل سے ذکر کیا جس کا جواب جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے دیا۔ جس پر بڑی تعداد میں مشہورمدارس کے تائیدی دستخط ہیں۔ سپاہ .صحابہ کے علماء اور جوانوں نے قربانیاں دیں۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب صوبائی امیر تھے۔جمعیت کے پلیٹ فارم سے شیعہ کا.فر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل کو شیعہ سنی اتحاد کی ضرورت پڑی تو جامعہ العلوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اتحاد کا فتویٰ لکھنے والے مفتی شاہ فیصل برکی تھے جو ہمارے شہر کانیگرم شہر جنوبی وزیرستان کے ہیں۔ میں نے فتوے پراخبار میں تبصرہ کیا تھا اور اس پر مفتی شاہ فیصل برکی بات کرنے کیلئے میرے پاس کبیر پبلک اکیڈمی جٹہ قلعہ علاقہ گومل ضلع وتحصیل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لائے تھے لیکن دو رنگی پر مجھے مطمئن کرنے کی کوشش میں وہ ناکام ہوئے تھے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارا سپاہ .صحابہ سے پھڈا ہواتھا تو انکے پیچھے دیگر علماء اور جماعتوں کا کردار تھا۔ سپاہ صحابہ والے نے پوچھا کہ شیعہ کا.فر ہیں یا نہیں؟۔ میں نے پوچھا، کیوں؟۔ اس نے کہا کہ وہ تحریفِ قرآن کے قائل ہیں!۔ میں نے کہا کہ قرآن کی تحریف کا قائل سنی ہو تو وہ بھی کا.فر ہے۔ طے یہ ہوا کہ دیوبندی مکتب ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک کے اکابر علماء کی میٹنگ ہوگی ۔پھر ایسی فضاء بنادی گئی کہ حکومت نے مولانا عبدالرؤف امیر جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک اور سرپرست اعلیٰ مولانا فتح خان پر دوماہ تک ڈیرہ اسماعیل خان آمدپر پابندی لگادی اور16MPOکے تحت میری گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔ یہ الگ داستان ہے اور پھر قاضی عبدالکریم کلاچی نے اپنے مولانا شیخ محمد شفیع کو خط لکھ دیا کہ ” جس شخص عتیق گیلانی کی آپ تحریری اور جلسۂ عام میں حمایت کرتے ہیں اسکے متعلق مہدی کی بات مسئلہ نہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ شیعہ کا.فر ہیں اور اس اجماع کا یہ شخص قائل نہیں اور اجماع کا انکار گمراہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام ف کے اکابر علماء اگر اس کی تائید کرتے ہیں تو یہ لوگ قادیانیوں کا بھی استقبال کریںگے۔ مجھے اپنے شاگرد ہونے کے ناطے آپ سے گلہ ہے۔ جس کے جواب میں شیخ مولانا محمدشفیع نے میری حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا لیکن جن پر قاد.یانیت کے استقبال کا فتویٰ لگایا وہ خط پر بھی فتوے کی طرح ”الجواب صحیح ” لکھ کر دستخط کرچکے تھے۔قاضی عبدالکریم کیخلاف میری حمایت میں مولانا عبدالرؤف نے لکھا کہ ” اپنی بھونڈی حرکتیں چھوڑ دو” اور پھر قاضی صاحب مولانا عبدالرؤف سے معافی مانگنے انکے پاس پہنچ گیاکہ ہمارایہ فتویٰ غلط تھا۔

میں نے جواب میں لکھ دیا تھا کہ ” آپ کے اپنے بھائی قاضی عبداللطیف ملی یکجہتی کونسل کے صوبائی امیر ہیں۔ جس کا شیعہ سے معاہدہ ہے کہ ایکدوسرے کی تکفیر نہیں کریںگے اسلئے پہلا نشانہ اپنا بھائی ہے اور حرم کے حدود میں کا.فر کا داخلہ ممنوع ہے اسلئے سعودی عرب کے حکمرانوں پر بھی یہ فتوی لگتاہے”۔

علامہ عابد حسین شاکری نے یہ وضاحت کی کہ ”ہم تحریف قرآن کے قائل نہیں اور جو تحریفِ قرآن کا قائل ہے وہ کا.فر ہے” ۔جب میں نے واضح کردیا کہ تم عام محفلوں میں کچھ مؤقف اور مدارس کے ماحول میں کچھ اور مؤقف پیش کرتے ہو۔مولانا سلیم اللہ خان کا حوالہ بھی دیااور درس نظامی میں اس سے زیادہ وضاحت کیساتھ قرآن کی تعریف میں تحریف کا عقیدہ پڑھایا جاتاہے جہاں ”المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئی کتاب نہیںبلکہ یہ نقش کلام ہے اور اس پر حلف بھی نہیں ہوتا المنقول عنہ نقلًا متواترًا سے غیر متواتر آیات نکل گئیں جن میں خبراحاد اور خبر مشہور کی آیات ہیں اور بلاشبة سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ درست بات یہی ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جزء ہے لیکن اس میں شبہ ہے”۔

ابن ماجہ میں ہے کہ رجم اور رضاعت کبیر کی دس آیات رسول اللہۖ کے وصال کے وقت بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ بخاری میں ہے عبداللہ بن مسعود ناراض تھے کہ جمع قرآن میں ان کوکیوں شریک نہیں کیا گیا؟۔ حقائق کی روشنی میں جامع مسجد درویش صدر پشاور ، اہلحدیث ،قاری روح اللہ سابق صوبائی وزیر مذہبی اموراور مولانا نورالحق قادری سابق وفاقی وزیرمذہبی امور وغیرہ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ تحریف قرآن کے مسئلے پر اکٹھے ہوجائیں اور مجھے بھی دعوت دیںاور قرآن کے واضح احکام کی طرف رجوع کے مسئلے پر نشست رکھیں اور احکامِ قرآن کے واضح مسائل اور عظمت قرآن سے لوگوں کومتفقہ آگاہ کریں۔

شیعہ سنی اس پر الجھتے ہیں کہ کس نے امام حسین کیساتھ دھوکہ کیا اور کس نے امام حسین کو شہید کیا لیکن اس نشست سے شیعہ سنی نے یہ ثابت کیا کہ قرآن کے حقائق کی روشنی میں طاغوت کے خلاف دونوں نے اکٹھا نہیں ہونا ہے بلکہ اپنے پیٹ اور اپنی جیب بھرنے سے ہی ان کا سروکار ہے اور بس!۔شیعہ سنی کے تمام شدت پسندوں کو یہ کھلا پیغام ہے کہ جذباتی پن کا نقصان دونوں طرف کے مخلص لوگوں اور بے گناہ عوام کو ہی پہنچتاہے۔ شیعہ اقلیت کی وجہ سے پاکستان کی سر زمین پر تقیہ اختیار کرتے ہیں اور سنی اکثریت کی وجہ سے بدمعاشی پر اترتے ہیں۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کے ادوار میں بھی یہ کھیل جاری رہاہے لیکن جب افہام وتفہیم سے مسائل حل ہوجائیںگے تو پاکستان کی سرزمین سے طرزِ نبوت کی خلافت کے قیام میں بالکل بھی کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ شیعہ بھی دلائل کی بنیاد پر اپنے غلط عقائد سے دستبردار ہوں گے۔

اگر قرآن کانفرنس میں سنی شیعہ علماء میں تھوڑی سی بھی ایمانی غیرت ہوتی تو کھل کر میری حمایت کرتے لیکن جس طرح میڈیا میں میچ فکس ہوتے ہیں، اسی طرح علماء ومفتیان کی مجالس میں بھی میچ فکس ہوتے ہیں۔ قوم پرستوں پر قومی میڈیا میں غیر اعلانیہ پابندی ہے لیکن ان کوBBCاوروائس آف امریکہ پر بڑی کوریج ملتی ہے۔ ہم حقیقی اسلام اور انسانیت کے درست نظام کی بات کرتے ہیں اسلئے فیس بک بھی ہماری محنتوں پر پانی پھیرتا ہے ۔BBC، وائس آف امریکہ اور قومی میڈیا میں ہم پر غیراعلانیہ پابندی لگائی گئی ہے۔ یہی حال سبھی کا دِکھتاہے۔

شیعہ کوفی +یزیدی سنی
کوفے کا پشاور میں جب منظر دیکھا
کربلا کے آئینے میں تب شمر دیکھا
دربار میں حسین کا کٹا سر دیکھا
امام باڑے میں یزید کا خنجر دیکھا
ضربِ حق سے باطل کو کھنڈر دیکھا
رونق میں بھی فضا کو بنجر دیکھا
سورۂ نور سے شریروں کا ڈر دیکھا
خرقہ پوش ایک ایک گداگر دیکھا
بڑے بڑوں کو پسینے میں تر دیکھا
کھدڑوں کو اچھا نہ لگا کہ نر دیکھا
بھیڑ بھیڑئیے کا نکاح سرِمنبر دیکھا
لگڑ بھگوں میں دھاڑتا شیر ببر دیکھا
مردہ ضمیروں کا مندر دیکھا
سبطِ حسن کا بڑا جگر دیکھا
شیعہ سنی اکابر کا اللہ اکبر دیکھا
حسین سے عمرسعد کو معتبر دیکھا
قرآن اور راہِ حق سے مفر دیکھا
سنی شیعہ کو خلاف حق برابر دیکھا
قرآن سے کھلے عام ہجر دیکھا
پیٹ پوجا کا بس بڑا لنگر دیکھا
ایمان اسلام سے کھلا غدر دیکھا
فرقہ پرستوں کا پورا ٹبر دیکھا
رسول ۖ کو صادق مخبر دیکھا
آسماں تلے ائمہ مساجد کو بدتر دیکھا
فتنہ فروش خناس کا جبر دیکھا
مذہبی لباس میں زباں کا شر دیکھا
عوام کو حقائق سے بے خبر دیکھا
بھیس بدلے ابلیس کو مضطر دیکھا
ڈھینچو ڈھینچو کرتا ہوا خر دیکھا
دیوبند بریلی وہابی شیعہ لشکر دیکھا

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

اسلام کے نام پر مرغن کھانے اور لفافے وصول کرنے والے کچھ تو قربانی دے دیں۔

جہادِ ہند کے خواہشمند قرآن کی واضح تعلیم کا ایک ائیرکنڈیشنل ہال میں ساتھ نہیں دے سکے تو کیا قتا.ل وجہا.د کیلئے اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے پیش کرنا اتنا آسان ہوگا؟۔ ذرا سوچئے تو سہی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نازل کیا اور میزان کو بنایا۔ انسانیت میں میزان کی فطرت موجود ہے اور قرآن ومیزان کی باہمی مطابقت سے آج عالم انسانیت میں بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوسکتاہے!

پشاور کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے والے عالم دین پیر طریقت جے یوآئی کے رہنما نے شاہ وزیر کو بتایا کہ شاکری صاحب ایران کا پیسہ خود کھا جاتے ہیں اور ہمیںچند ہزار کا لفافہ تھماتے ہیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سنی وشیعہ مکاتبِ فکر حقیقت ہیں۔ محترم قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا نورالحق قادری ، علامہ عابد حسین شاکری و دیگرحضرات کی جرأت وہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اس فورم پر شرکت شدت پسندی کے خلاف عدل واعتدال اور شرافت کی دلیل ہے ۔ یہ حضرات پشاوردارالخلافہ خیبرپختونخواہ کی مقدس زمین پر ہدایت کے ستارے ہیںاور انکے دَم سے امن وامان ہے لیکن
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

حسنات الابرار سیئات المقربین ”نیک لوگوں کی اچھائیاں مقربین کی برائیاں ہوتی ہیں”۔ مقرب لوگوں کو مخالفین کیساتھ شریکِ جرم تصورکیاجاتا ہے۔ اس مارا ماری کا علاج یہ نہیں ہے کہ اپنے اورپرائے عقائدونظریات کے جرائم پر پردہ ڈالا جائے بلکہ سب سے پہلے اپنی کمزوریوں کا اعتراف کیا جائے اور دوسرے کو بھی اچھے انداز میں آئینہ دکھایا جائے۔ ان کمزوریوں کو اجاگر کرنے کے نتیجے میں نہ صرف اپنی اصلاح ہوگی بلکہ شدت پسندی کا خاتمہ بھی ہوسکے گا۔

میں نے اس کا نفرنس میں دو بنیادی نکات کو اٹھایا۔ ایک قرآن کی حفاظت اور دوسرا ہندو عورت کی گستاخی کے حوالے سے سورۂ نور کے ذریعے سے دنیا میں ازل سے ابد تک مساوات کا ایک اعلیٰ ترین اور سب کیلئے قابل قبول قانون۔ میں نے جو عرض کیا وہ اس شمارے میں وضاحت سے شامل ہے۔ میری تائید کی جگہ بھرپور مخالفت کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مقصود سلفی کو چاہیے تھا کہ اعلان کرتا کہ قرآن کی حفاظت کیخلاف اگر احادیث ہیں تو سب سے پہلے ہم اہلحدیث انکے انکار کرنے کااعلان کرتے ہیں۔ ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں تاکہ انکا پوسٹ مارٹم کیا جاتا۔منتظم احسان اللہ محسنی نے ہندو عورت کی مذمت کا اعلان کچھ اس انداز سے کیا کہ گویا میری وجہ سے یہ مجلس شریکِ جرم نہ بن جائے۔ دلیل کی بات کا جواب دلیل سے دینا چاہیے اور جب شیعہ پر اپنی مجالس میں غلط خوف قائم ہو تو وہ ائمہ اہل بیت پر کوئی درست مؤقف نہیں پیش کرسکتے ہیں۔ درویش مسجد کے مولانا نے قرآن کی حفاظت کے مسئلے کو کسی کی ذاتی تحقیق تک قابلِ گرفت نہیں سمجھا لیکن یہ ذاتی تحقیق کا مسئلہ نہیں۔ اس پر درسِ نظامی میں پڑھایا جانے والا قابلِ گرفت نصاب ہے۔ سورۂ نور کے ذریعے پہلے انقلاب آیا تھااور آج بھی طاغوتی نظام کا خاتمہ سورۂ نور کی مساوات کے نظام سے ہوگا لیکن اس کیلئے مردانہ جرأت وہمت اور پرزور انداز میں ابلاغِ عامہ ضروری ہے۔

اہل تشیع نے اپنے جامعہ شہید پشاور کی ویب سائٹ پر کانفرنس کی مجھ سمیت بہت سی تقاریر کو دینے میں عار محسوس کی۔ علامہ عابد حسین شاکری جرأت کا مظاہرہ کریں اور تمام تقاریر ویب سائٹ پر دیں۔ شیعہ سنی جراتمندانہ تقاریر یا تعصبات کا جائزہ لیںگے تو فرقہ واریت کی آکاس بیل سے اُمت مسلمہ کی جان چھوٹ جائے گی۔ کربلا کے واقعہ میں ویڈیو نہیں تھی لیکن آج ایک نعمت اللہ نے عطاء کی ہے اور اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے ہم سب کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

حضرت علی نے دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کیا۔ کوفہ میں شیعان علی تھے۔ امام حسین مدینہ میں تھے۔ کوفیوں نے خطوط لکھ کر بلایا تھا، جب حالات بدل گئے توانہوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کا بیٹا عمر سعد لشکرِیزید کا قائدتھا۔ امام حسین نے عمر سعد سے کہا تھا کہ انعام واکرام کے چکر میں شہید کردوگے تواپنی آخرت کیساتھ دنیا میں بھی انعام سے محروم ہوگے۔ جب حسین کو شہید کرکے یزید کے دربار میں امام حسین کے سر کو پیش کیا گیا تو یزید نے انعام کے بجائے ڈانٹا۔ حسین کے سرکویزید نے مخاطب کیا کہ ”اگر آپ میرے مقابل نہ نکلتے تو اس انجام کو نہ پہنچتے ”اور اپنی تلوار سے آپ کے دانت بھی کٹکٹائے۔

تاریخی واقعات پر اتفاق اور تضادات ہیں لیکن کوئی یہ بات سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ اس دور میں مسلمانوں نے اس طرح کھل کر حق کی مخالفت کیسے کی تھی؟۔ آج ایک طرف د.ہشتگردوں کے مظالم اور دوسری طرف شیعہ کی دعوت پر عظمتِ قرآن کانفرنس کے آئینے میں تاریخی حقائق سمجھنے کی ضرورت ہے۔شاعرنے کہا:

جراحات السنان لہا التیام ولایلتام ما جرح اللسان
” تلواروں کے زخم کیلئے مرہم ہوتا ہے مگرزبان کے زخم کا مرہم نہیں ہوتا”۔ اس کانفرنس میں سامعین سے داد وتحسین لے سکتا تھا لیکن نرم ونازک لوگوں کو مشکلات کی گھاٹیوں میں دھکیلنے کیلئے جان بوجھ کراس موضوع کا انتخاب کیا جس سے خرقہ پوشوں میںایمان کا بجھتا دیا جلے۔ انقلابی انسان کو بلبل کے ترانے اور کوئل کے راگ سے زیادہ دلچسپی قومی مفادسے ہوتی ہے جس سے اجتماعی زندگی کا گہرا تعلق ہے۔ عالمی طاقتیں شیعہ سنی کو لڑانے اور نابود کرنے کے چکر میں ہیں اور اس حال میں ہمارے لئے مشکل فیصلے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ قرآن مردہ ضمیرفرقہ فروشوں کی شجرہ خبیثہ پر اکاس بیل نہیں ڈالتاہے بلکہ دنیا میں شجرہ طیبہ کے پھلدار درخت کے ذریعے انسانوں کو حیاتِ نو فراہم کرتاہے۔

اسلام کو کفار نہیں مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ قرآن کہتاہے کہ دوسروں کے خداؤں کو برا بھلا مت کہو،پھر وہ تمہارے الٰہ برحق کو برا بھلا کہیں گے۔ جب ایک مسلمان نے ایک ہندو عورت کے سامنے اسکے مذہب کی توہین کی تو اس نے جواب میں کہا کہ ” میرا منہ مت کھلواؤ۔6سال کی عمر میں نکاح اور9سال کی عمر میں شادی کی بات جانتی ہوں”۔ جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے توہین رسالت کا جذبہ ابھارا گیا تو بھارت میں مسلمانوں نے احتجاج شروع کردیا۔ اس عورت کو حکمران جماعت نے اپنی پارٹی سے نکال دیا، اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ عورت نے کہا کہ اگر اس بات کی سزا سرتن سے جدا ہو توپھر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی یہ بات کی اس کو بھی سزا دی جائے۔ مسلمانوں کا احتجاج جاری رہا تو حکومت نے ان کی سخت مار پیٹ کی۔ انکے گھر گرائے اور احتجاج پر قابو پالیا۔ مغرب اور دنیا بھر کے طاقتور ممالک مسلمانوں کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں اور اب حال ہی میں القاعدہ نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں خود .کش. حملوں کا اعلان بھی کردیا ہے اور امریکہ نے اپنے ذرائع سے اس کو کنفرم کیا ہے۔

پتہ نہیں القا.عدہ نے یہ اعلان کیا بھی ہے یا امریکہ اس خطے میں اسلام سے د.ہشت پھیلانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے چکر میں ہے؟۔ اگر سورۂ نور کی آیات کے احکام کا پیغام دنیا میں عام کردیا جائے تو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی جگہ دنیا میں محبت کا دم بھرا جائے گا۔ یہود ونصاریٰ کی ایکدوسرے سے شدید نفرت تھی۔ اسلام آیا تو یہودی خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی جو عیسیٰ پر ولدالزنا اور مریم پر بدکاری کی تہمت لگاتے تھے۔ عیسائی خواتین سے بھی نکاح کی اجازت دی گئی جو حضرت عیسیٰ کو خداکا بیٹا اور حضرت مریم کو خدا کی بیوی اور تین خداؤں کے قائل تھے۔ اسلام کا دنیا سے شدت پسندی ختم کرنے میں بنیادی کردار رہاہے لیکن مذہبی طبقات اپنی دکانیں چمکانے میں مصروف ہیں۔

رسول اللہۖ کو طائف میں پتھر کھاکر لہولہان ہونے سے اتنی اذیت نہ پہنچی جتنی حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان عظیم لگانے سے پہنچی لیکن اسکے باوجود قرآن نے بہتان لگانے والوں پر80،80کوڑے لگانے کی سزا کا حکم نازل کیا۔ اگر کسی عام جھاڑو کش عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس کیلئے یہی سزا کا حکم ہے۔ بہتان سے عورت کو اذیت ملتی ہے ۔80کوڑوں کی سزا علاج ہے۔ کوڑے امیر غریب کیلئے یکساں سزا ہے۔ ہتک عزت کے قانون میں کروڑوں، ا ربوں کے جرمانے لگانا معقول سزا نہیں ہے اسلئے کہ امیر کیلئے زیادہ رقم بڑی سزا نہیں ہے اور غریب کیلئے کم رقم بھی بڑی سزا ہے۔ اگر پاکستان میں آئین کی پاسداری کی جاتی اور امیر غریب کیلئے قرآن کے مطابق اس سزا کو نافذ کردیا جاتا تو طاغوت کا نظام اپنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن ہمارے ہاں جب تک عوامی مقبولیت یا ریاستی بیانیہ کی پشت پناہی حاصل نہ ہو تو روایات کے خلاف چلنا غیرضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کانفرنس میں مجھے غلط روئیے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجھے اس پر گلہ نہیں بلکہ خوشی ہے کہ تاریخی حقائق کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

کچھ اشعار احادیث صحیحہ کے آئینے اور فرقہ واریت کے ناسور کو واضح کرنے کیلئے لکھ دئیے۔ شیعہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امام حسین سے ہمارا اکابر طبقہ کیسے انحراف کرسکتا تھا؟۔ اس محفل میں شیعہ کے کردار سے ان کی مجبوری کو واضح کیا گیا ہے جو انکے اکابر سے بھی سرزد ہوئی تھی۔ جب کسی پر مشکل پڑتی ہے تو دوسرے کی مشکل کو سمجھنے میں دیر نہیں لگاتا۔ جبکہ سنی علماء کو بھی آئینہ دکھانا مقصد ہے کہ قرآن اور سورۂ نور کے احکام سے ان کی کتنی ہمدردیاں ہیں؟۔ ان کا ضمیر بتائے گا کہ کیا کرنا چاہیے تھا اور کیا انہوں نے کیا؟۔ مولانا نورالحق قادری نے تقریر شاید اس وجہ سے نہیں کی کہ اگر حق کا ساتھ نہیں دے سکتے تو مخالفین کی صفوں میں بھی شامل نہ ہوں، جن لوگوں نے تذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ان کی ہمدردی ہمارے ساتھ تھیں تو وہ بھی لائق تحسین ہیں۔ رسول اللہۖ نے دین کو سمجھ کر اس کی کھل کر ہاتھ، زبان اور دل سے حمایت کرنیوالوں کو السابقون میں شامل فرمایا ہے اور دوسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی زبان سے کھل کر حمایت بھی کی اور تیسرا درجہ ان لوگوں کا رکھا ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو پہچانا اور کسی سے دین کی خاطر محبت رکھی اور کسی سے نفرت رکھی لیکن یہ سارے معاملات چھپائے رکھے۔ ان کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ محفل میں اکثریت ان لوگوں کی ہی معلوم ہورہی تھی جن میں صدر مجلس علامہ عابد شاکری ،ڈاکٹر قبلہ ایاز ، مولاناسیدالعارفین، مولانامحمد طیب قریشی اور حفیظ الرحمن بھی شامل تھے لیکن دوسری طرف جل بھن کر بیان دینے والے حق کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتے تھے جن میں منتطم مجلس علامہ احسان اللہ محسنی ، درویش مسجد کے مولانا اور علامہ مقصود سلفی کے علاوہ سنا ہے کہ قاری روح اللہ مدنی بھی شامل تھے اور ان لوگوں کو دلیل کیساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ہمارا اخبارنوشتۂ دیواران کیلئے حاضر ہے۔

بعض قارئین یہ سمجھتے تھے کہ اخبار میں درسِ نظامی کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جارہاہے لیکن قرآن کے خلاف یہ درست کیسے ہوسکتاہے؟۔ مولوی اکثر اپنی کتابوں کو سمجھ کر علماء نہیں بنتے۔ ہمارے دور کے اساتذہ اللہ والے تھے جو ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آج حالات بدل گئے۔ مدارس کے علماء وطلبہ کی ایک اچھی خاصی تعداد حقائق کو سمجھ چکی ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ مدارس و مساجد سے اسلامی انقلاب کا آغاز ہوگا۔ کالج و یونیورسٹیوں کے اساتذہ و طلبہ بھی شانہ بشانہ ہوں گے۔ ہماری ریاست کا موجودہ ڈھانچہ مکمل ناکام ہوچکا۔ تاہم افراتفری سے ریاست کا موجودہ پسماندہ ڈھانچہ بھی بہت بہتر ہے۔ تمام ریاستی اداروں میں مخلص لوگ موجود ہیں لیکن وہ اندھیرے میں کھڑے ہیں۔ جب اسلام کی درست روشنی پھیل جائے گی تو اندھیرا خود بخود ختم ہوجائے گا۔ کانفرنس کے دن مجھے تھکاوٹ کی وجہ سے جلدی جانا پڑا تھا۔ کانفرنس کے آخر میں اس موضوع پر مزید وضاحت اور غیرت دلائی جاسکتی تھی لیکن تحریر دیکھ کر بھی فضا بدل سکتی ہے۔

اصل معاملہ فرقوں کا نہیں اسلام کی سربلندی کا ہے اور اس کیلئے فرقہ پرستی کو قربان کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ فرقہ پرستی سے فرقہ پرستوں کو روزی روٹی مل جاتی ہے لیکن دنیا کا نظام نہیں بدل سکتا ہے۔ جب اسلام کے ذریعے دنیا کا نظام بدل جائے گا تو عزت والی روزی فرقہ پرستی کے بغیر ہی ملے گی۔

ISI چیف جنرل ظہیرالاسلام نے ریٹائرڈ ہوکر کہا کہ”75سالوں سے ہماری پریکٹس جاری تھی لیکن اچھے حکمران نہیں لاسکے۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعد ہم نے تیسری پارٹی کو آزمایا اورPTIسب میں بہتر ین ہے”۔

قومی اسمبلی میں میاں ریاض حسین پیرزادہ نے2020کے بجٹ اجلاس میں جو تاریخی خطاب کیا تھا وہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ انہوں نے شکایت کی کہ سیاستدانوں کو بدنام کیا جاتاہے کہ نوکریاں دی ہیں لیکن اگر ہم نوکریاں بھی نہیں دیںتو اور کیا کرینگے؟۔ دریاؤں کے بیچنے سے لیکر ملک وقوم کوخسارے میں ڈالنے والے فوجی جرنیل ہیں۔ میرے باپ کو گولی ماردی گئی مجھے بھی گولی ماردی جائے گی۔ زمینداروں کو بدنام کرکے ان کی سیاسی بساط لپیٹ دی گئی اور اب وہ جنرل ہیںجو فرنٹ لائن پر لڑکر ترقی کرگئے ہیں لیکن چولستان میں زمینوں اور اس کے پانی پر جنرلوں اور کرنلوں کا راج ہے۔ محافظ تھانیدار بن گئے اور زبردستی سے غریب لوگوں کے ٹریکٹر چھین رہے ہیں اور لوگوں کو ڈنڈے مارے جارہے ہیں، جس سے فوج عزت نہیں کمارہی ، ہمیں اپنے علاقے میں غلام بنا دیا گیا ۔ بجٹ عوام کو دھوکہ دینے کا ڈرامہ ہے۔ کاشتکاری تباہ ہو توملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔

;

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

ہمارا مذہبی اور ریاستی نظام کوئی تیتر ہے اور نہ بٹیر بلکہ سراسر ہے اس میں ہیر پھیر العیاذ باللہ۔

پشاور عظمت قرآن کانفرنس میں اہل تشیع کے علامہ عابد حسین شاکری کی دعوت پر آئے ہوئے دیوبندی ، بریلوی،اہلحدیث،جماعت المسلمین کے نمائندے ایک بار پھر آئیں!

قرآن کی عظمت اور اس کے تحفظ اور احکام پر چند نشستوں میں بات کریں،ہمارے ہاں ہر برائی کو ا.مریکہ اور خفیہ ا.یجنسیوں کی ٹوپی پہنائی جاتی ہے مگر مسئلہ ہمارے اندرہی ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مذہب ایسی بلا ہے جس کی وجہ سے قا.دیانی، یہود.ی، عیسائی،ہندو، بدھ مت،دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، شیعہ، جماعت المسلمین، پرویزی اور اسلام کے مقابلے میں انواع واقسام کے مذاہب، فرقے ،مسالک، مکاتبِ فکر اور مذہبی شخصیات کے گرد تقلیدی افراد پیدا ہوئے جن میں مولانا مودودی ، ڈاکٹرا سرار،ڈاکٹر ذاکر نائیک، جاویداحمد غامدی، علی مرزا جہلمی، فرحت ہاشمی وغیرہ لاتعدادشامل ہیں۔فرقہ پرستی اور شخصیت پرستی کے بت نظر آئیں گے۔

جس طرح اسلام کے مقابلے میں مستقل ادیان یہودیت، نصرانیت اور ہندو مت ہیں اسی طرح اسلام کے اندر مستقل فرقوں اور مسالک نے مذاہب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ سنی اور شیعہ فرقوں میں بڑی تعداد کے اندر ایسے لوگ ہیں جو دوسروں سے زیادہ آپس میں ایک دوسرے سے نفرت رکھتے ہیںاور پھراغیار اور دشمنانِ اسلام اس نفرت کا بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اگر دُشمن ہمیں نہیں لڑائے تب بھی ہمارے اندر کے تضادات اور گمراہانہ عقائد وماحولیات لڑانے کیلئے کافی ہیں اس سے نکلنے کیلئے اُمت مسلمہ امام مہدی کا انتظار کررہی ہے۔ دوسری طرف مسلم ممالک کاسیاسی و انتظامی ڈھانچہ خدشات کے سیلاب کے سامنے ریت کی دیوار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ ا.فغا.نستان، عراق، لیبیا،شام اور یمن کی تباہ حالی کے بعد پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑانظر آرہاہے۔ ایک مضبوط فوج اور ایٹمی قوت نے امریکہ ونیٹو کی افواج کے مقابلے میں افغا.ن طا.لبان کی طرح مقابلے کرنے کے بجائے سرنڈر بننے کو ترجیح دیتے ہوئے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگادیا۔ امریکہ کے ڈھائی ہزار فوجی و سول لوگ اس جنگ میں لقمۂ اجل بن گئے ۔1لاکھ سے زائد پاکستانی فوج اورعوام کو قربانی دینی پڑی۔ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے شرائط بھی ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے کافی ہیں لیکن ہم کریڈٹ لیتے ہوئے بھی ہرگز نہیں شرماتے۔

ہمارے مذہبی ، ریاستی ، سیاسی ،صحافتی اور سماجی حالات بہت خراب ہیں لیکن ہم نے ڈھیٹ پن کو اپنی پیشہ ورانہ خدمات کا نام دے رکھا ہے۔ اسلام کے نام پر پاکستان کو ہندوستان سے جدا ہوا، پھر دولخت ہوگیا۔ بنگلہ دیش نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنی حالت بہتر بنادی۔ بلوچستان وسندھ، کراچی کے مہاجر اور پشتون قوم بھی باغیانہ روش پر قائم ہیں۔ آج الطاف حسین پر پابندی ہٹ جائے تو کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں سے بڑی تعداد میں اتنے لوگ امنڈ آئیںگے کہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب نظر آئیگا۔ کینیڈا سے لائی گئی ایک بلوچ خاتون کی لاش سے بھی ہماری ریاست خوفزدہ تھی، میڈیا پر تشہیر نہ ہونے کے باوجود بھی جگہ جگہ استقبال کرنے والوں سے منہ چھپائے اس کو دفن کیا گیا۔ بھٹو اور اکبر بگٹی کی لاش سے خطرات تھے۔ علی وزیر کی رہائی سے خوف ہے ۔ خڑ کمر کے واقعہ میں جتنے مجرم ریاستی اہلکار تھے اتنے ہی مجرم موقع سے فرار ہونے والے محسن داوڑ اور علی وزیر تھے جن کی پارٹیاں اب الگ الگ ہیں۔PTMنے قوم پرستوں سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو الیکشن لڑتے ہی علی وزیر اور محسن داوڑ کو خلاف ورزی پر الگ کرنا تھا۔

تحریک لبیک اور طا.لبان سے ماورائے آئین بات ہو تو قوم پرستوں کا گلہ بنتا ہے۔MQM،TTPاور لیاری امن کمیٹی کو ختم کرنے کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال ہوئے وہ ریاست کا نہتے یرغمال عوام پر احسان تھا لیکن شاعرکہتاہے کہ

گھر کی اک دیوار سے مجھ کو خطرہ ہے
اندر کے کردار سے مجھ کو خطرہ ہے
گھر محفوظ ہے لیکن میں محفوط نہیں
گھر کے پہریدار سے مجھ کو خطرہ ہے
میں ٹیپو سلطان ہوں عہدِ حاضر کا
اپنے ہی سالار سے مجھ کو خطرہ ہے
سوچ کو آنکھیں دینے کا میں مجرم ہوں
ایک اندھی سرکار سے مجھ کو خطرہ ہے
دل کی بات کہوں تو سب مجھ کو سمجھاتے ہیں
میرے ان افکار سے مجھ کو خطرہ ہے

ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی

ترقیاتی کام کیلئے پانی اور بجلی بنیادہے ۔ وجعلنا من الماء کل شیء حی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ہر ملک وقوم کی کوئی نعمت ہوتی ہے اور پاکستان کی نعمت ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہاڑوں سے سمندر میں پانی کا بہاؤ ہے جس سے بہت سستی بجلی پیدا کرکے خوشحالی آسکتی ہے!
اللہ نے فرمایا: اللہ کے پاس خاص وقت( انقلاب) کا علم ہے،وہ بارش برساتاہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میںکیا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کمائے گا اور کس زمین پر وہ مرے گا۔ (القرآن)
پاکستان کے پاس پانی کا بہاؤ ایک کنارے کے پہاڑوں سے لیکر دوسرے کنارے کے سمندر تک قدرت کا عظیم تحفہ ہے ، اگر زراعت اور سستی بجلی پیدا کرنے کا وسیلہ بنایا توانقلاب آجائیگا!

مشہور ہے کہ قرآن حجاز میں نازل ہوا۔ مصر والوں نے اس کو پڑھا اور ہند والوں نے اس کو سمجھا۔ علامہ اقبال نے بھی طلوع اسلام میں شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی اور نطق اعرابی کی بات کی ہے۔ سعودی عرب کے مشہور عالم دین ڈاکٹر عائض قرنی کی کتابیں سعودی عرب، دوبئی اور دنیا کے ائیرپورٹ اور بک سٹالوں میں موجود ہیں۔ عربی میں کمال حاصل کرنے کیلئے ان کی کچھ کتابیں میں خرید ی تھیں ۔ جس میں ان کی تفسیر بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر عائض قرنی امریکہ سمیت دنیا بھر میں گھومے ہیں اور ایک عالم دین،عربی ادیب کے علاوہ جہاندیدہ شخصیت بھی ہیں۔پہلے عربی کی تفاسیر میں لکھا تھا کہ ” اللہ ہی کو معلوم ہے کہ بارش کب ہوگی”۔ اب جب دنیا نے ترقی کرلی ہے اور ڈاکٹر عائض قرنی کو معلومات ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بارش کب ہوگی ،اس کا پتہ چلتا ہے تو اس نے تفسیر میں تبدیلی کرلی اور لکھ دیا کہ ” اللہ ہی قدرتی بادلوں سے بارش برسا سکتا ہے”۔ لیکن جب دنیا کچھ مزید ترقی کرلے اور قدرتی بادلوں سے بارش برسانے اور بادلوں کو ہنکاکر بھگانے کی صلاحیت بھی پیدا کرلے تو پھر تفسیر بدلنی پڑے گی؟۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”دجال اکبر میں یہ صلاحیت ہوگی کہ جہاں بھی چاہے گا تو بارش برسے گی اور جہاں چاہے گا تو بارش نہیں برسے گی”۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کا مطلب ڈاکٹر عائض قرنی غلط لے رہے ہیں۔ حدیث میں دجال کے اندر ایسی صلاحیت کا ذکر ہے تو دوسرے لوگوں سے بھی صلاحیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کو خدا کے ساتھ قرار دینا بھی قرآن کا مفہوم نہیں ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں دوسرے لوگوں اور ممالک میں بھی بارش سے پانی نچوڑنے کی صلاحیت ہو لیکن دجال زیادہ طاقتور ہو اسلئے اس کا خاص طور پر نبی ۖ نے ذکرکیا ہو۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ سورج ، چاند ، ستاروں، بادل اور دنیا کی ہر چیز کیلئے فرمایا ہے کہ انسانوں کیلئے سب چیزیں مسخرات ہیں۔
قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ” بیشک اللہ کے پاس الساعة کاعلم ہے۔ وہ بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ کل وہ کیا کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ پہلی بات یہ ہے کہ الساعة سے مراد قیامت بھی ہے اور انقلاب کا وقت بھی ۔ قرآن نے دونوں کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ جب فتح مکہ کا انقلاب آیا تو مشرکین ِ مکہ اور یہود ومنافقین کے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا کہ حجاز کے حالات اتنے جلد تبدیل ہوجائیں گے اور مسلمانوں کو اتنی بڑی فتح اور برتری حاصل ہوگی اور وہ پھر قیصرروم اور کسریٰ ایران کو بھی شکست دیں گے جو مشرق ومغرب کی دو سپر طاقتیں تھیں۔ مدینہ سے مکہ تک حجاز میں پانی کا کوئی چھوٹا نالہ بھی نہیں تھا لیکن پھر وہ شام وعراق ، اسپین و ہندوستان اور ترکی کے پانی وباغات کے دنیا میں مالک بن گئے۔ دنیا میں انکے ساتھ حور وقصور اور جنت کے باغات کے وعدے پورے ہوگئے تھے۔ قرآن کی آیات میں باغات سے مراد صرف جنت مراد نہیں ہے بلکہ دنیا کے باغات بھی مراد ہیں اور جہنم سے مراد صرف قیامت نہیں بلکہ دنیا میں جہنم کی زندگی بھی ہے۔
پاکستان میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے دنیا میں یتیموں، اسیروں اور غریبوں کی مدد اسلئے نہیںکی کہ پھر وہ ووٹ دیں گے یا انکے حق میں زندہ باد کے نعرے لگائیںگے۔ کورونا کی طویل بیماری میں رضاکاروں کی ٹیمیں گھر گھر تک پہنچ رہی تھیں اور بہت لوگوں نے کھل کر اور چھپ کر امداد کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ادیب رضوی کی SIUT،انڈس ہسپتال ، ایدھی، چھیپا، امن اور سیلانی کے علاوہ چھوٹے بڑے لاتعداد اداروں نے غریبوں کی ایسی خدمت کی جو ریاست سے بھی زیادہ عوام کیلئے سکون واطمینان کا باعث بن گئے۔ سورۂ الدھر میں بسہولت پانی کی نہریں نکالنا اور اللہ کیلئے قوم کی خدمت کے علاوہ زبردست انقلاب کے بہترین تذکرے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مصداق پاکستانی قوم بن سکتی ہے اور پوری قوم کو اس کا درس دینے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے الساعة میں اس بڑے انقلاب کا بھی ذکر کیا ہے جو ہمارے سر پرتیار کھڑا ہے۔ پہلے حجاز کے لوگوں نے انقلاب کے مناظر دیکھے ۔خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ تک ایک طویل دورانیہ تک مسلمانوں نے دنیا کے مزے اُڑائے ہیں۔ پھر پاکستان سے برپا ہونے والا دوسرا انقلاب دنیا کی تاریخ پھر بدلے گا۔ قرآن کی تفسیر کے نکات کبھی ختم ہونے نہیں ہیں اور اگر الساعة کی تفسیر کی جائے تو اس میں عام طور سے وقت کی بات ہے۔ دن رات سے زمین کا اپنے گرد چکر لگانا اور ماہ وسال سے زمین کا سورج کے گرد چکر لگانا ثابت ہے اور یہ بھی ایک علم ہے۔ پھر سورۂ معارج میں روح و ملائکہ کے چڑھنے کی ایک دن کو یہاں کے 50ہزار سال کے برابر قرار دیا گیاہے۔ جس کا مشاہدہ نبیۖ نے معراج میں کیا تھا اور البرٹ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کوریاضی اور سائنس کی بنیاد پر بھی دنیا میں ثابت کردیا جس سے علوم کے دروازے کھلے ہیں۔ نبی ۖ نے ان پانچ چیزوں کو علم غیب کی چابیاں قرار دیا۔ آسمان جب سر کے اوپر ہو تو اس کانام آسمان ہے اور جب پیروں کے نیچے آجائے تو یہی زمین ہے۔ جب تک علم پردہ غیب میں ہو تو وہ غیب ہے مگر جب دسترس میں آجائے تو پھر وہ غیب نہیں رہتا ہے۔ پہلے معراج پر مسلمانوں کا ایمان بالغیب تھا اور جب وہ نظریہ اضافیت تک پہنچ جائیں تو پھر وہ غیب بھی نہیں رہتا ہے۔ نبیۖ نے بہت کچھ دیکھ کرپانچوں چیزوں کو غیب کی چابیاں قرار دیا تھا۔ قرآن میں اس بات کی نفی نہیں ہے کہ اللہ کے علاوہ کے کسی پاس ساعة کا علم نہیں ہے اور نہ بارش نازل کرنا ایسی بات ہے کہ جس میں کسی اور کی نفی ہو اسلئے مصنوعی بارش پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا ہے۔ بارش میں بجلی کی چمک اور بجلی کی تسخیر غیب کی چابی ہے۔ جس کی وجہ سے کائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ گیا۔ افسوس کہ ہم نے سستی بجلی پیدا کرکے اپنی غریب عوام کو اتنی چھوٹی سی سہولت سے بھی محروم رکھا ہواہے اورپاکستان میں پانی کے بہاؤ سے سستی بجلی پیدا کرکے ایک انقلاب برپا کرسکتے ہیں لیکن ہمارا مفاد پرست حکمران طبقہ اور اشرافیہ اس کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے۔ لوگوں کو سستی بجلی اور پانی کی سہولت مل جاتی تو وہ اپنا روزگار خود پیدا کرلیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے تیسری چیز کا فرمایا ہے ” وہ جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے”۔
ہمارا مذہبی طبقہ آنکھیں بند کرتا ہے کہ الٹراساؤنڈ میں بچے یا بچی کا پتہ چلنا قرآن وسنت کے خلاف ہے اور اس سے عقیدہ خراب ہوجاتا ہے۔ اگر عقیدے کا واقعی مسئلہ ہے تو عقیدہ تو خراب ہوہی گیا ہے۔ آنکھیں بند کرنے سے عقیدہ سلامت نہیں رہ سکتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہی نہیں ہے کہ بچے بچی کا ماں کے پیٹ میں پتہ نہیں چلتا۔ اگر بدبخت ونیک بخت کی تفسیر ہوتی تو بھی بھلا ہوتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تو کسی دوسرے کے علم کی نفی نہیں فرمائی ہے۔ حدیث میں ٹھیک بات ہے کہ یہ غیب کی چابی ہے۔ رحم حیوانات میں ہیں، نباتا ت میں بھی ہیں اور جمادات میں بھی۔ فارمی گائے ، مرغیاں اور پرندوں نے حدیث کی تصدیق کردی ہے۔ فارمی پھل اور اناج نے نباتا ت کی تصدیق کردی ہے اور ایٹم کے ذرے ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا نے جمادات کی بھی تصدیق کی ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ زمانے کی طرف سے علم الساعة ، بارش برسنے اور علم ارحام کی تفسیر ہوگئی ہے۔ چوتھی چیز اللہ نے فرمایا کہ ” تم میں سے کوئی نہیں جانتا ہے کہ وہ کل کیا حاصل کرے گا”۔ تیز رفتار تبدیلیوں نے آنے والے کل کی ترقی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی ہر آنے والا کل نت نئے انکشافات اور خبر نامہ لیکرآتا ہے اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون کس زمین پر مرے گا؟۔ آنے والے وقت میں ان کا غیب کی چابیاں ہونے کی بات بھی کسی نئے طرز پر آسکتی ہے اور فی الحال بھی آیت کی پوری تصدیق ہے۔
اگر مساجد ومدارس میں جمود کو توڑا جائے تو لوگ جوق درجوق اسلام سے محبت کا اظہار کریں گے۔ پس مردہ دلوں میں ایک ولولہ اٹھے گا اور زندگی کی نئی راہیں کھل جائیں گی، زمانہ کروٹ بدلے گا تو پاکستانیوں کے چودہ طبق روشن ہوجائیںگے۔ سیاسی قیادتوں کاتمسخر اور مقتدر طبقے کا مذاق اڑانے سے بہتر یہ ہے کہ قوم کا رُخ مثبت سر گرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔
پورے دریائے سندھ کو ڈیم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جسکے دونوں طرف بڑی بڑی نہریں ہوں اور تمام شہروں کے گندے نالوں سے جنگلات آباد کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ گندے پانی کو صاف کرنے کے بہت سستے طریقے ہیں۔ اور صاف پانی کو محفوظ کرنے کے بھی بہت اچھے طریقے ہیں۔ ریاست کو اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہماری سیاسی لیڈر شپ نالائق اور موروثی طبقے سے تعلق رکھے تو وہ کیا کیا گل کھلائیں گے؟۔
آنے والے طوفانوں سے پہلے مختلف جگہوں پر پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ سندھ میں دادو ڈیم اور دوسرے ڈیموں کو بارشوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے مصنوعی نہروں کے ذریعے پانی پہنچانے کا طریقہ بنایا جائے تاکہ جب پانی کاطوفان آجائے تو بہت سار ا ذخیرہ کیا جاسکے۔ لوگ قدرت کی نعمتوں سے فائدے اٹھاتے ہیں اور حکمرانوں نے نعمتوں کو ضائع کرنا تھوڑے سے مفاد کیلئے وطیرہ بنایا ہے۔ سیلاب زدگان کا پیسہ کھا جاتے ہیں۔
جب پاکستان میں پانی کے وافر مقدار میں ذخائر ہوںگے اور نہروں سے زراعت اور باغات کیلئے وافر مقدار میں آسانی سے پانی پہنچے گا تو افغانستان اور ملحقہ علاقوں کی طرف سمگلنگ کرنے سے اناج کو نہیں روکا جائیگا بلکہ تاجر سپلائی کرکے اچھی مقدار میں زرمبادلہ کمائیں گے۔ اگر پاکستان کے لوگوں کیلئے اناج اور پھل سستے ہوں گے اور پانی پر بجلی کے پلانٹ لگاکر سستی بجلی فراہم کریںگے تو پھر دنیا میں پاکستان سے بڑی جنت کوئی نہیں ہوگی۔ پھر لوگ آئیں گے اور سیر و تفریح کیلئے عرب ممالک کی جگہ ہمارے ہاں تشریف لائیں گے۔ یہاں امن و امان کا مسئلہ بے روز گاری کی وجہ سے ہے اور جب بھوک وافلاس کا راستہ رُک جائیگا تو امن وامان بھی قائم ہوجائے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

موجودہ سسٹم میں پاکستان قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا بلکہ مزید دھنسے گا۔ نمائندہ نوشتہ دیوار شاہد علی، ماہر معاشیات ۔

موجودہ سسٹم میں پاکستان قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا بلکہ مزید دھنسے گا۔ نمائندہ نوشتہ دیوار شاہد علی، ماہر معاشیات ۔

پچھلے سال کی کل آمدنی کا تخمینہ 7909ارب تھا ۔ چاروں صوبوں کا حصہ 3412ارب۔ وفاق کے پاس 4497ارب بچ گئے ۔ وفاق کو 4497ارب میں درج ذیل کام کرنے ہوتے ہیں۔
(1)قرضوں کی قسط اور سُود 3060 (2) دفاعی بجٹ1370 (3) پنشن 480 ۔ ( فوجی 360اور سویلین 120) (4) حکومت چلانے کے اخراجات479ارب (5)سبسڈیز682ارب (6)صوبوں کو گرانٹ 1168ارب (7) متفرق اخراجات284ارب ۔وفاقی کل اخراجات8487ارب ۔آمدنی4497 ارب اورخسارہ3990 ارب ۔ خسارے کیلئے سودی قرضہ لیاجاتاہے۔

وفاق 3990 کا خسارہ پورا کرنے کیلئے IMFاور دیگر ممالک اور مقامی پرائیویٹ بینکوں سے قرضہ لیتا ہے تو سودی رقم مزید بڑھ جاتی ہے!

شاہد علی نے کہا کہ ہم سودی قرضوں کے دلدل سے نکل نہیں رہے بلکہ مزید دھنس رہے ہیں۔( شاہد کی سیاسی ہمدردیاں تحریک انصاف سے تھیں اور ہیں۔) اسٹیٹ بینک سے سستے سود پر قرضہ ملتا تھا، IMFنے اسٹیٹ بینک کوروک دیا۔ اب حکومت کو کمرشل بینکوں سے مہنگے شرح سود پر قرضہ لینا پڑتا ہے۔ جو ہردفعہ شرح سود کو بڑھاتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک سے کم شرح سود اور پرائیویٹ بینکوں سے 13سے ساڑھے 15فیصد تک شرح سود پر قرضہ ملا ہے۔ پہلے جس طرح امریکہ ڈالر چھاپتا تھا اسی طرح ہم اسٹیٹ بینک سے نوٹ بھی چھپوالیتے تھے۔
یہ اعداد و شمار پچھلے سال بجٹ کے ہیں اورجون میں نیا بجٹ آئیگا تو اگلے شمارے میں تفصیل دیں گے۔ ہمارے ہاں احتساب کا کوئی درست نظام نہیں۔ بجٹ کا وفاق، دفاع ،چاروں صوبے اور تمام اخراجات کا حساب نہیں دیا جاتا۔ پہلے نیب تھا اس کے بھی پر کاٹ دئیے۔سیاستدان، جج، جرنیل ، سول افسر کے بیٹے اور بیگمات بیرون ملک کے شہری ہیں اور منی لانڈرنگ کے ذریعے سے پیسے اپنے خاندانوں کو منتقل کئے جاتے ہیں لیکن ان سے حساب نہیں لے سکتے ہیں۔
بینظیر بھٹو نے امریکہ کے کہنے پر کالاباغ ڈیم اور چھوٹے بڑے ڈیموں سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے فرنس آئل ، ڈیزل اور گیس سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ لگادئیے۔ اب ہمارے پاس پانی کے ذخائر بھی نہیں اور بجلی بھی مہنگی پڑتی ہے اور گیس کے ذخائر بھی تقریباً ختم ہیں۔ یوریاکھاد گیس سے بنتا ہے اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے یوریا کھاد کی پیداوار کم ہوگئی۔ امپورٹڈ گیس سے یوریا بنائیں گے تو لاگت دوگنی ہوجائیگی۔ پرویز مشرف نے گاڑیوں کو گیس پر کنورٹ کردیا جو گیس پچاس ساٹھ سال چل سکتی تھی وہ چند سال میں ختم ہوگئی۔ سعودی عرب میں گیس اور تیل کے بڑے ذخائر ہیں جو دنیا کو دیتا ہے لیکن اسکے باوجود گھروں میں گیس کے کنکشن نہیں لگائے اور لوگوں کو گیس سلینڈر استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ گیس کو ضائع نہیں کرتے ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں بھی گیس کے کنکشن گھروں میں نہیں لگائے جاتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

حقیقی جمہوریت اور نظام خلافت بحال کرنے کی پاکستان سے اہم تجویز

حقیقی جمہوریت اور نظام خلافت بحال کرنے کی پاکستان سے اہم تجویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اہلسنت کے نزدیک امام کا تقرر مسلمانوں پر فرض ہے ، اگر امام مقرر نہیں کیا تو ساری امت گناہ گار اور جاہلیت کی موت مرے گی۔پاکستان صدر مملکت کی جگہ ایک امام مقرر کرکے یہ مشکل حل کرے
نبی ۖنے صرف توحید کی تعلیم نہیںدی بلکہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے کیلئے غیرسودی نظام بھی دیاتھا۔ پاکستان کی ریاستIMFکی لونڈی اور مزارعین جاگیرداروں کے غلام ہیں
منشور کا بنیادی نکتہ مقامی اور بین الاقوامی سودی نظام سے مملکتِ خداد پاکستان کی ریاست اور پوری قوم کی جان چھڑانا اور غلامانہ عدالتی قوانین سے چھٹکار اہو تاکہ بغاوت کا نام نشان نہ ہو
پاکستان اسلام کے نام بنا اور آئین کی بنیاد قرآن وسنت ہے۔ سود کی آیت نازل ہوئی تونبیۖ نے مزارعت کوسود قرار دیا۔ امام ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور ابن حنبل کے نزدیک زمین کو مزارعت پر دینا سود ہے۔ اسلام بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کا غلام بناتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مسلمانوں اور بنی آدم کو غلامی سے چھٹکارے کیلئے محض عقیدۂ توحید نہیں سکھایا بلکہ غلامانہ نظام سے نکالنے کیلئے صالح نظام دیا۔ عقیدہ و نظام میںجبر مسلط نہ کیا۔ کسی نے مال کی دعا کرائی اور مالدار بن گیا۔ نبیۖ کو زکوٰة دینے سے انکار کیاتوپھر نبیۖ نے زکوٰة کیلئے قتال نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر نے زکوٰة پر قتال کا فیصلہ کیا توحضرت عمر نے اتفاق نہ کیا لیکن خلیفہ کی اطاعت کرنی پڑی ۔ خالد بن ولید نے مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد اس کی بیوہ سے عدت میں شادی کی۔ عمر نے کہا کہ” اس کوسنگسار کیا جائے”۔ ابوبکرنے تنبیہ پر اکتفاء کیا۔ چاروں فقہی امام متفق ہیں کہ ” زکوٰة نہ دینے پر قتال نہیں ”۔افغان طالبان نے نماز کا جبر چھوڑ کر قرآن وسنت پر عمل کیا ۔فقہ اور ملا عمر کے غلط طرزِ عمل سے رجوع بھی اسلامی انقلاب ہے۔
مسلم اُمہ کیلئے حضرت ابوبکر کی سیرت حجت ہے اور نہ ہی حضرت علی کی بلکہ رسول اللہ ۖ کی سیرت حجت ہے۔ قرآن میں اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کا حکم ہے اور رسول ۖ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا۔ اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ اولی الامر تھے اور ایسی وصیت لکھوانا چاہ رہے تھے کہ جسکے بعد امت گمراہ نہ ہو تو حدیث قرطاس کی حضرت عمر نے مخالفت کی کہ ” ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ نبی کریم ۖ نے اپنی بات مسلط نہ فرمائی اور یہی قیامت تک سب مسلمانوںکیلئے بہترین نمونہ ہے۔
قرآن کے احکام کی عملی شکل نبیۖ کی سنت ہے۔ نماز اللہ کا حکم اور اس کو عملی جامہ پہنانا سنت ہے۔ حدیث قرطاس میںاولی الامر سے اختلاف تھا اور قرآن سے انحراف جائز نہیں۔ ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی ”۔ حدیث قرطاس قرآن اور نہ ہی اس پر عمل کرنا سنت تھا۔
بدر ی قیدیوں پر حضرت عمر و سعد کی رائے خون بہانے کی تھی۔ ابوبکر و دیگر صحابہ کی رائے فدیہ لیکر معافی کی تھی۔ نبیۖ نے عمر کی رائے کو نوح اور ابوبکر کی رائے کو ابراہیم کی رائے سے تشبیہ دی فرمایاکہ مجھے ابراہیم کی رائے پسند ہے اور اسی پر فیصلہ دیا۔ اللہ نے ابراہیم کو رحم کی دعا سے منع کیا اور نوح کی کافروں کیخلاف دعا کو قبول کیا۔ نوح کی دعا کا مظہر قرآن میں آیا کہ ” نبیۖ کیلئے مناسب نہ تھا کہ جب آپکے پاس قیدی ہوں حتیٰ کہ خوب خون بہالیتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اگر اللہ پہلے سے تمہارے لئے لکھ نہ چکا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب دیتا” (القرآن)۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے وہ عذاب دکھادیا جس سے عمر وسعد کے علاوہ کوئی نہ بچتا۔ نبیۖ نے علی کی بہن ام ہانی کے مشرک شوہر کوفتح مکہ میں پناہ دی ،علی نے قتل کرنا چاہا تھا۔ اسکا مشرک شوہر چھوڑ کر گیا تونبیۖ نے ام ہانی کو نکاح کاپیغام دیا۔انکار ہوا تواللہ نے وحی نازل کی کہ ”ہم نے تمہارے لئے ان چچا وماموں کی بیٹیوں کو آپ کیلئے حلال کیا جنہوں آپ کیساتھ ہجرت کی”۔ جس سے واضح ہے کہ نبی ۖ کا ہر قول اور فعل اللہ کی وحی ہرگز بھی نہ تھا۔اُم ہانی اولین مسلمانوں میں تھیں۔ معراج کا واقعہ انکے گھر میں ہوا۔اگریہ ابوبکر، عمر یا عثمان کی بہن ہوتی توشیعہ منطقی نتائج نکال نعوذ باللہ زانیہ، مشرکہ اور خبیثہ کی آیات کاثبوت دیتے۔
آئین میں قرآن وسنت سے عوام ، مقتدر اور مذہبی طبقے بہرہ مندنہیں۔ بدری صحابہ کے بڑے فضائل ہیں۔ ابوبکر ، عثمان اور علی و صحابہ کے بھی بڑے فضائل ہیں۔ رحمت للعالمین ۖ کی ہستی ہیں۔ جمہور کی رائے میں نیت کا کتنا خلوص اور ایمان کی کیسی چاشنی ہوگی؟ مگر قرآن وسنت میں عجیب وغریب قسم کی وضاحت ہے کہ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور پھر دنیا کی چاہت پر المناک عذاب کی خبر آیت میں موجود ہے اور دوسری طرف عمر اور سعد کی رائے صائب قرار پائی۔
ان آیات کے بعد قیامت تک کوئی عقلمند انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں، نبیۖ کی تصنیف ہے۔ ان آیات اور سیرت رسول ۖ میں قیامت تک کیلئے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر چہ فیصلہ جمہوری بنیاد پر کیا جائے مگریہ ملحوظِ خاطر رہے کہ بڑی ہستیوں اور اکثریت کے باوجود اقلیت کی رائے کو حقیر نہیں سمجھاجائے۔ اسلامی جمہوریت کی یہی روح ہے ۔
جب فرد واحد یا اکثریت دوسروں کی نیت پر شک کرے اور خود کو ناگزیر قرار دے تویہ نمرودیت اورفرعونیت ہے۔ صحابہ نے تعلیم و تربیت اللہ سے وحی کی روشنی میں رسولِ خدا ۖ کی ذات اقدس سے پائی تھی۔ فتنوں کا دور ہے ۔ہماری کیا اوقات ہے؟۔ قرآن وسنت سے رہنمائی لیکر ہر نماز کی ہر رکعت میں حمد وثناء کے بعداللہ کی عبدیت اورمحتاجی کا اظہار کریں اور صراط مستقیم کی ہدایت مانگیں، ایسے لوگوں کا رستہ جن پر اللہ نے انعام فرمایا جس کے بعد ان پر نہ غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔ الفاتحہ کی سات آیات بار بار دھرائی جاتی ہیں۔
سود کی حرمت کے بعد نبیۖ نے زمین کو مزارعت کے بجائے مفت میں دینے کی تقلین فرمائی تو کسی پر جبرو زبردستی نہیں تھی، صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا۔ محنت کشوں کی جان میں جان آگئی اور ان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو مدینہ شہر تجارت کا بہت مشہور بڑا مرکز بن گیا۔ مہاجر صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا کہ ”مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا بن جاتا”۔ اس نظام کی برکت سے غیر آباد زمینیں آباد ہونا شروع ہوگئیںاور غلہ واناج کی فراوانی سے حجاز ِپاک کی زمین مالا مال ہوگئی۔
انگریز قابض تھا تو نوابوں، خانوں اور بے غیرت پیروں کومقبوضہ زمینیں دیدیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے صحافی مہر بخاری سے پہلے کہا تھا کہ ”کرپشن کو تین اداروں سول بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ نے اپنے لئے لیگل کردیا اورانسٹیٹیوٹ کا حصہ بنادیا۔ جب2کروڑ کا پلاٹ 10لاکھ میں لیا جائے تو یہ ایک کروڑ 90لاکھ سیدھی کرپشن ہے اور اس میں بھی شہید ہونے والے فوجی سپاہیوں،سول جج اور سیکشن افسر اور اس سے نیچے لیول والوں کو کچھ نہیں ملتا ہے بلکہ جرنیلوں، بڑے گریڈ کے افسروں اور بڑے درجے کے ججوں کو سب کچھ ملتا ہے۔ اور اب جب میڈیا تو تھوڑا مضبوط ہوگیا ہے تو اس کو بھی حصہ دار بنادیا ہے لیکن اس میں شہید ہونے والے کیمرہ مینوں، رپوٹروں کوبھی کچھ نہیں ملتا ہے”۔
جاگیردارانہ نظام لونڈی وغلام بنانے کا بنیادی ادارہ تھا۔ جاگیرداروں کے نسل در نسل مزارعین غلام اور لونڈیاں بنتے تھے اور جن مزارعین کے بچوں اور بچیوں کو مزارعت سے اُٹھاکر منڈی میں فروخت کیا جاتا تھا تو اس پر ان کو ایسی خوشی ہوتی تھی جیسے پسماندہ ممالک سے افراد جب ترقی یافتہ ممالک میں محنت مزدوری کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ آج مزارعین جاگیرداروں کے غلام اور ہماری ریاستIMFکی لونڈی بن چکی ہے۔ عوام کی حیثیت خرکار کیمپوں میں اغواء مزدوروں کی طرح رہ گئی ہے۔
قرآن میں اللہ نے مسلمانوں سے وہ غلمان ایکدوسرے کو ہدیہ میں دینے کی پیش گوئی فرمائی کہ جو خوش ہونگے اور اس بات کا اظہار کرینگے کہ سخت گرم ہواؤں کی مشکلات سے زندگی کی سہولیات ملنے پر اللہ کا شکرادا کرتے ہیں اور صحابہ کرام سے لیکر محمود غزنوی کے غلام ایاز تک مسلمانوں کا کردار دنیا کیلئے باعثِ افتخار ہے۔ ہم نے مرکزیت کو چھوڑ کر گروہ بندی، فرقہ واریت اورفقہی مسالک میں مکڑی کے جالوں کی طرح بھول بھلیاں بنالی ہیں۔ جن کو قرآن وسنت کے واضح احکامات سے ملیامیٹ کرکے صاف کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔
جب حکمران طبقے نے خلافت کو اپنی لونڈی اور اسلام کے احکامات کو مسخ کرنا شروع کیا تو مذہبی طبقات نے جواز بخش دیا اور اسلام اجنبیت کے اندھے کنویں میں گرنا شروع ہوگیاتھا۔ اور اس حال پر پہنچادیاگیا کہ دین، علم اور ایمان تک رسائی عوام وخواص کیلئے ثریا کی حدکو چھونے کے مترادف ہے۔ نبیۖ نے سورۂ جمعہ کی آیت واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم ”اور ان میں سے آخر والے جو ابھی ان پہلوں تک نہیں پہنچے ہیں”کی تفسیر میں فرمایا کہ اگر دین، علم اور ایمان ثریا پر پہنچ جائے تو پھربھی فارس میں سے ایک شخص یا چند افراد اس تک پہنچ جائیںگے ”۔ ( بخاری ومسلم )کسی روایت میں دین کا ذکر آیا ہے ، کسی میں علم اور کسی میں ایمان کا ذکرہے۔ دین ، ایمان ، علم ایک ہی چیز کے تین نام ہیں۔ علم کے نہ ہونے سے دین بگڑ جاتا ہے اور دین کے بگڑنے سے ایمان بگڑجاتا ہے۔
قرآن واحادیث میں امت مسلمہ کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ اول سے لیکر درمیان تک کا زمانہ ہے ۔دوسرا حصہ درمیان سے لیکر آخر تک کا زمانہ ہے۔ سورة الحدید میں کفلین دو حصے واضح ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں میں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ لیکن درمیانے زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور میں اس کے طریقے پر نہیں۔
پہلے حصے میں اول سے خلافت راشدہ ، بنوامیہ، بنوعباس کی امارت ، سلطنت عثمانیہ کی بادشاہت اور 1924ء سے لیکر موجودہ دور تک جبری حکومتوں کا دور ہے۔ جب تک یہاں سے دوبارہ خلافت علی منہاج النبوة کی پیش گوئی پوری نہ ہوجائے اس وقت تک پہلا حصہ رہے گا۔ جب خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوجائے تو پھر مہدی اول امیر امت سے یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ تک رہے گا۔ صحابہ کرام کیلئے قرآن واحادیث میں بڑی خوشخبریاں ہیں اور دوجماعتوں کیلئے بھی خوشخبری ہے۔ ایک جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری جو حضرت عیسیٰ کیساتھ ہوگی۔ ہندوستان سے جہاد کرنے والی جماعت منہاج النبوة کی خلافت قائم کرے گی اور یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ تک چلے گا۔ جس کی حدیث کے اندر خوشخبریاں اور نشاندہی موجود ہے۔
دوسرے حصے میں بارہ اہل بیت کے امام ہیں جن پر منتشر اُمت متفق ہوجائے گی۔ امام خمینی نے اسلامی انقلاب برپا کیا مگر امت کا انتشار بڑھ گیا۔ پھر افغانستان سے ملاعمر کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا کیا گیا لیکن امت مسلمہ متفق نہ ہوسکی۔
امام کی تقرری کا فریضہ
شیعہ معتبر عالم دین علامہ طالب جوہری نے کہا کہ ” شیعہ مہدی کے انتظار میں ہیں، ہمارا عقیدہ ہے کہ پہلے گیارہ امام بھی ہم نے مقرر نہیں کئے، اللہ کی طرف سے آئے تھے۔ شیعہ کا انتظار میں بیٹھنا بنتا ہے لیکن ہمارے بھائی سنی کیوں انتظار میں بیٹھ گئے؟ ان کا عقیدہ ہے کہ امام کا مقرر کرنا مخلوق کا کام ہے۔ جب اتنے سارے امام پہلے بنالئے اور ان پر اتفاق رائے بنالی تو ایک اور مہدی پر بھی اتفاق رائے بنالو۔ ہم تو اپنے عقیدے کی وجہ سے منتظر ہیں لیکن تمہارا انتظار تو بنتا ہی نہیں ہے”۔
شیعہ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ انکے نزدیک بارہ ائمہ اہل بیت کے سوا کوئی امام نہیں لیکن خمینی نے انقلاب برپا کردیا تو اپنے عقیدے کے منافی ان کوایک امام تسلیم کرلیا۔
جنرل ضیاء الحق دور میں بریلوی مکتب کے مولانا سید محمد جمال الدین کاظمی نے تمام مشہور مدارس سے فتویٰ پوچھاتھا کہ ”اہل سنت کے نزدیک امت پر ایک امام کا مقرر کرنا فرض ہے تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے”۔ دیوبندی اور دیگر معروف مدارس نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا تھا لیکن بریلوی مکتب کے معروف عالم دین علامہ عطاء محمد بندیالوی نے تفصیل سے فتویٰ دیا تھا کہ ” امام کا تقرر ایک شرعی فریضہ ہے۔ ایک قریشی امام کے بغیر جنرل ضیاء الحق کی موت بھی اسی طرح جاہلیت کی موت ہوگی جیسے مسلم امہ کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ احادیث کے الفاظ ایسے ہیں اسلئے مجبوری میں یہ فتویٰ دے رہاہوں اور احادیث سے کوئی بھی ناراض نہ ہوگا”۔
جو احادیث خلافت اور جماعت کے حوالے سے ہیں ان کو مولانا فضل الرحمن نے اپنی جمعیت علماء اسلام پر فٹ کیا تھا۔ جب مولانا فضل الرحمن نے میرے سکول کبیر پبلک اکیڈمی کا افتتاح کیا اورکہا کہ ” اس خاندان کے بزرگوں کی خدمات ہیں اور اس میں عتیق جیسا اہل علم ہے ”اور ساتھ میں فتویٰ بھی جڑ دیا کہ جمعیت علماء اسلام جماعت ہے۔ من شَذ شُذ( جو پھسل گیا وہ آگ میں گیا)۔ میں نے جواب میں ” اسلام اور اقتدار” نامی کتاب لکھ دی۔ جس میں ثابت کیا کہ احادیث کی وعید کسی گروہ سے الگ ہونے کیلئے نہیں بلکہ اس سے خلافت کو قائم رکھنے والی جماعت مراد ہے۔ عاقل کیلئے اشارہ کافی ہے۔ پھر مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے انقلابی جہدوجد کا آغاز اور انتخابی سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے اس راستے پر ان کو چلنے سے ڈرا دھمکا کربالکل روک دیا تھا۔
تحریک انصاف حکومت کو گرانے کا کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے اسلئے کہ تسلسل کیساتھ محنت کی۔ اپوزیشن نے PDMکا مشترکہ سربراہ بنالیا تھا۔ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن اور سبھی اس کو صدر مملکت بنانے پرمتفق ہوتے تو بھی اسٹیبلشمنٹ نے اجازت نہیں دینی تھی اسلئے کہ مولانا فضل الرحمن کی جڑیں اس سے پختہ ہوجاتیں۔ جنرل ضیاء الحق سے لیکر جنرل قمر جاوید باجوہ تک جتنے آرمی چیف آئے ہیں ان کو مضبوط ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کمزور ہونے کی وجہ سے یہ منصب سپردکیا گیا ہے۔جب طاقتور عہدہ اور طاقتور شخصیت اکٹھے ہوجائیں توپھر اس سے مشکلات کے اندیشے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
مدینہ کے انصار طاقتور تھے اسلئے ان کو خلافت کا منصب سپرد کرنے کی کھل کرمخالفت ہوئی۔ حضرت ابوبکرنے خلافت کا منصب سنبھالا تو کمزور قبیلے سے تعلق تھا۔ حضرت ابوسفیان نے حضرت علی کو پیشکش کی کہ” اگر آپ کہو تو مدینہ کو پیدل اور سوار جوانوں سے بھردوں۔ ابوبکر سے منصب چھین کر آپ کو بٹھا دیں۔ کیا بنی ہاشم مرگئے کہ ان کے ہوتے ہوئے بنی تمیم کا ایک شخص اس منصب پر بیٹھ گیا؟ ”۔ علی نے پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا اسلام قبول کرنے سے پہلے کم دشمنی کی کہ پھر ان باتوں میں لگ گئے”۔ یہ قدرت کی حکمت تھی کہ سب سے مضبوط اور شریف خاندان کے فرد کو خلافت راشدہ کے آخر میں خلافت مل گئی ۔ ابوبکر، عمر ، عثمان کے بعد علی نے خلافت کا منصب سنبھالا تو علی کے بعد حسن اور حسین کی فضیلت کے مقابلے میں کس میں ہمت تھی ؟۔ لیکن پھر دست قدرت نے حسن سے صلح اور حسین سے شہادت کا کام لیا۔ پہلے بنوامیہ آئے اور پھر بنوعباس آئے۔ بنی امیہ سے زیادہ بنو عباس نے اہل بیت پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ بنی فاطمہ نے بھی ایک حصے پر خلافت قائم کی تھی لیکن لاڈلے حجراسود کو بھی خانہ کعبہ سے نکال کر لے اُڑے تھے۔آغا خانی اور بوہری اس سلسلے کی کڑیاں ہیں جن سے اہل تشیع کے فرقہ امامیہ والے اہل سنت کے مقابلے میں بہت زیادہ نفرت بھی کرتے ہیں۔
بریلوی مکتب میں حسینی اور یزیدی کی جنگ چھڑ گئی ۔ ایک طرف بے گناہ بے خطاء معاویہ معاویہ کے نعرے لگانے والے مولانا الیاس قادری ہیں جن کو شاید مدینہ میں شاہی خاندان نے مرکز بنانے کی اجازت دی۔ دوسری طرف حسینی بریلوی ہیں۔ مفتی فضل احمد چشتی اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان بھی جنگ چھڑ گئی ۔ علامہ فضل چشتی نے بریلوی مکتب کے مفتی احمد یار خان کی کتاب کا حوالہ دیاہے کہ ” جب امیرمعاویہ نے قسطنطنیہ کا لشکر یزید کی قیادت میں بھیجا تو حضرت حسین نے یزید کی قیادت میں جہاد کیا اورنمازیں بھی پڑھی ہیں”۔
اس سے پہلے کہ تفرقہ بازی اور مسلک پرستی سے فرقے آخری حدتک لڑجائیں، ایکدوسرے کیخلاف آگ بھڑکانے کا سلسلہ جاری رکھ کر مسلم امہ کا وجود ہی جھلس جائے۔ ایسے علمی نکات کی طرف آئیں کہ مسلم اُمہ شیروشکر ہوجائے۔ جب یزید سمیت جسکے دور میں کربلا کا سانحہ ہوا، مختلف ادوار میں حضرت ابوبکر سے لیکر سلطان عبدالحمید تک مسلم امہ میں مختلف خلفاء رہے ہیں تو آج ایک خلیفہ مقرر کرنا زیادہ اچھنبے کی بات نہیں ۔ داعش نے دولت اسلامیہ عراق وشام قائم کی تو مغربی ممالک سے بھی بہت سارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے شمولیت اختیار کی تھی۔ عراق وشام کے علاوہ پوری دنیا میں بھی اس نے کھلبلی مچا دی تھی۔داعش خراسان اور داعش برصغیروپاک وہند سے آج بھی اس خطے کو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔
ایک مرتبہ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو خلیفہ بنانے کیلئے ”خلافت آپریشن” کا منصوبہ بنایا گیامگر اتفاق سے پکڑکر ناکام بنادیاگیا۔ تحریک خلافت کی وجہ سے پاکستان بنامگر سول و ملٹری بیوروکریسی والے کہتے ہیں کہ ہم نسلوں سے ملکی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اب لوگوں میں ایک دوسرے کیخلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور اسکا سب سے زیادہ ذمہ دارہمارا سب سے بڑاطاقتور طبقہ ہے۔ غریب غربت کی آخری حد تک پہنچ گیا ہے اور ہرخوشہ گندم کو جلانے میں دیر نہیں لگائے گا۔
اگر پاکستان کے اصحاب حل وعقد اور مقتدر طبقات متفق ہوجائیں کہ دنیا کیلئے امام کا تقرر کرنا ہے اور صدر مملکت کی جگہ امام کا تقرر کردیں تو پاکستان کا نظام بدلنے میں بہت جلد مدد ملے گی۔ ہماری پارلیمنٹ نے عدالت کے وہ قوانین بھی نہیں بدلے جو انگریز نے ہمیں قابو کرنے کیلئے بنائے۔ حکمران جب مخالف پربغاوت کا مقدمہ بنانا چاہے تو اسکے الفاظ اور نیت کو بہانہ بناکر اس کی آزادی کو سلب کرتا ہے۔ حکمران اپنے مخالف پر ان دفعات کے تحت مقدمات قائم کرکے جیل میں بھیج دیتے ہیں۔ اس سے ریاست مستحکم نہیں ہوتی بلکہ مزید کمزور بنتی ہے۔
قائداعظم نے اپنی سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا اور مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی عوام کو انگریز نے غلام رکھنے کیلئے ان انسانی حقوق سے محروم رکھا ہے جو برطانوی شہریو ں کو حاصل ہیں۔ پھر انہوں نے اپنی سیاست کا میدان مسلم لیگ کو بنادیا لیکن افسوس ہے کہ پاکستان بننے کے 75سال بعد مسلمانوں کی جان ان غلامانہ قوانین سے آج تک نہیں چھوٹ سکی ہے۔
جب متحدہ مجلس عمل کی بھاری اکثریت سے خیبر پختونخواہ میں حکومت تھی تو مولانا فضل الرحمن اور ہماری ریاست طالبان کے سامنے سرنڈر تھے۔ اسلام آباد میں افسر سرکاری نمبر پلیٹ لگانے سے ڈرتا تھا۔ جب ANP اور پیپلزپارٹی کی پختونخواہ اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تب بھی تحریک طالبان سوات کی شرعی عدالتوں کو قبول کرنا پڑا۔ جب وزیرستان اور سوات آپریشن ہوئے تو بھی طالبان نے ریاست کا ناک میں دَم کررکھا تھا۔ پھر پختونخواہ میں تحریک انصاف اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت تھی اور ضرب عضب آپریشن تھا توآرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ ہوگیا۔ آج قبائل اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ پہلے افغانستان میں امریکہ تھا اور قبائل میں ڈرون حملے جاری تھے اور آج امریکہ ونیٹو بھی نہیں اور ڈرون کا مسئلہ بھی نہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے اور عوام میں ایک مضبوط بیانیہ چل رہاہے کہ ہماری فوج نے ہمیشہ پیسوں کی خاطر اس خطے کو تباہ کیا ہے اور طالبان دہشت گردوں کو بھی اپنے مفادات کی خاطر استعمال کیا ہے۔
اسلام آباد میں PTMکے دھرنے سے شروع ہونے والے نعرے ” یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے۔”نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو بھی خیبر پختونخواہ کیساتھ لپیٹ میں لے لیا۔ ن لیگ اور وکلاء کے جلسوں میں بھی ان نعروں کی گونج رہی ہے۔ قوم پرستوں سے لیکر ریاست پرست عمران خان تک ایک ہی بیانیہ ہے کہ یہاں فوج نے ڈالروں کیلئے روس کے خلاف امریکی جہاد کی افغان جنگ لڑی۔ پھر طالبان کے خلاف امریکہ سے ڈالر لیکر اس خطے کو تباہ کیا۔ افغان سفیر ملا ضعیف اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو حوالے کرنے سے بھی شرم نہیں آئی۔ نیوٹرل وہ مالخورجانورہے جو ڈالر کے شوق میں ہر طرح کے اخلاقی ، قانونی اور شرعی اقدار کو پامال کرنے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔نہ صرف غلام ہے بلکہ دوسروں کو بھی غلام بناتاہے۔
یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے کا نعرہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزاراحمد خان کے بینچ میں بھی گونجا تھا اسلئے کہ وزیراعظم عمران خان کو حکم دیا تھا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کا اتنا بڑا سانحہ ہوگیا تو اس میں اندر کے لوگ جب تک ملوث نہ ہوں اتنا بڑا واقعہ نہیں ہوسکتا۔ سپاہیوں اور چوکیداروں کو سزا ئیں دی گئیں۔ دفاع پر اتنازیادہ بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف اور ISIچیف کو بھی پیش کیا جائے۔ ذمہ داری کی تھی تو کیس میں شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا؟۔
پہلے PDMسے فوج کی قیادت کے خلاف آوازیں آتی تھیں تو عمران خان ڈھال بنتا تھا اور اب عمران خان بول رہا ہے تو حکومت ڈھال بنتی ہے۔ یہ سب جھوٹ کا سیاسی عمل ہے اور سچ وہی ہے کہ جب خراسان کی طرف سے ایک لشکر تشکیل دیا جائے اور امام کے تقرر تک جہاد کا نعرہ بلند کیا جائے۔ پھر سیاسی جماعتیں دُم دبا کر بھاگ جائیں گی اور ریاست میں بھی دم خم نہیں ہوگا اسلئے کہ امریکی ڈالر بھی نہیں ملیں گے تو جنگ کس طرح سے لڑی جاسکے گی؟۔کیا ہم اس وقت کا انتظار کریں؟۔
اگر وہاں تک معاملہ پہنچنے سے پہلے پاکستانی قیادت امام کی تقرری کا فیصلہ کرلے تو اس خطے میں افغانستان اور ایران کو اس سے بہت ریلیف مل جائیگا۔ شرعی امیر کا تقرر دہشتگردی کی راہ میں رکاوٹ بن جائیگا۔ جس طرح لوگ شریعت کا حکم سمجھ کر جب بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں تو عدت تک انتظار ہوتا ہے۔ پھر حلالہ کی لعنت کرواتے ہیں اور پھرازدواجی تعلق قائم کرتے ہیں۔ جو شریعت انسان کو بے غیرتی کی اس انتہاء پر مجبور کرسکتی ہے اس کیلئے دہشتگردی میں قربانی دینا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ امام کا تقر ر ہوگا تو پھر شریعت کے نام پر حلالہ کی جہالت سمیت دہشتگردی کی جہالت سے بھی نکالنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
ریاست ، حکومت ، معاشرت کی سطح پر جتنا گند بھرا ہوا ہے ، اس میں مذہبی جہالت کسی سے کم نہیں ۔ اگر سب مل کر صرف اور صرف پاک فوج کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے تو یہ غلط ہے۔ جب تک آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ نہ ہواتھا تو دہشتگردوں کے خلاف فوجی عدالتیں بھی ہم نے قائم نہیں کی تھیں اور موجودہ عدالتوں کا حال یہ ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کو ISI پیسہ دیکر اقتدار میں لائی ۔ بینظیر بھٹو کا اقتدار اسلئے چلتا کردیا تھا کہ IMFسے پاکستان میں پہلی مرتبہ قرضہ 1989ء میں لیا گیا۔ زرداری کے گھوڑے مربے کھاتے ۔ پھر نوازشریف کی حکومت کرپشن کی بنیاد پر ختم کی گئی۔ پھر بینظیر بھٹو اقتدار میں آئی تو نوازشریف پر لندن A.1فیلڈ کے فلیٹ کی خریداری FIA کے تمام ریکارڈ کیساتھ ثابت کردی۔ IMFسے قرضہ لینے کا سلسلہ دونوں نے جاری رکھا ہوا تھا۔ پھر مرتضیٰ بھٹو اپنے گھر کے سامنے پولیس مقابلہ میں ماراگیا اور بینظیر بھٹو کی حکومت بھی ختم کی گئی۔ زرداری کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا اور نوازشریف کو دوتہائی اکثریت سے لایا گیا۔ پھر زرداری پرسوئس اکاؤنٹ اور سرے محل کے مقدمات چلائے گئے۔ دونوں نے IMF سے خوب قرضے لئے اور بیرون ملک خوب پیسہ منتقل کیا تھا۔ حبیب جالب نے جب اشعار میں کہا تھا کہ ” ہربلاول ہے ہزاروں کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے” تو بینظیر بھٹو کو بڑا غصہ آیا لیکن بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن نے جھوٹی وکالت کی کہ ”محترمہ جالب نے تو آپ کی تعریف کی ہے”۔
پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اسکے ریفرینڈم کی حمایت عمران خان کر رہا تھا۔ پرویزمشرف نے 2004ء سے 2008ء تک IMFکا قرضہ واپس کردیا تھا لیکن پھر 6ارب ڈالر IMFسے قرضہ لیا تھا۔ پرویزمشرف کے دور میں لندن A,1فیلڈ کے فلیٹ پر عدالت نے نوازشریف کو قید اور 14 کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ پھر سعودی عرب جلاوطنی سے معاملات ختم ہوگئے۔ براڈ شیٹ کے کیس سے پتہ چلتا ہے کہ پرویزمشرف نے آفتاب شیرپاؤ اور فیصل صالح حیات کے کیس کس طرح معاف کرکے پیٹریاٹ گروپ بنوایا؟۔ اور براڈ شیٹ میں میجر جنرل R امجد شعیب دفاعی تجزیہ نگار نے کس طرح قوم کا پیسہ ضائع کیا؟۔اگر پیپلزپارٹی چاہتی تو ق لیگ کو موقع دینے کے بجائے مولانافضل الرحمن کو وزیراعظم بنانے میں کردار ادا کرتی اسلئے کہ نوازشریف اور عمران خان نے بھی مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا تھا اور ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیراعظم بن گئے تھے ۔ اگر MQMچاہتی تو بھی جمالی اور ق لیگ کو اقتدار سے محروم کیا جاسکتا تھا۔ لیکن مولانا فضل الرحمن کو اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار کی دہلیز تک نہیں چھوڑا اور سیاسی جماعتوں نے بھی اس کیلئے راستہ ہموار ہونے کے باوجود معاف نہیں کیا ہے۔
جب پرویزمشرف کے بعد پھر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے باری باری اقتدار حاصل کیا تو یوسف رضاگیلانی کو اسلئے نااہل کردیا گیا کہ اس نے زرداری کیخلاف خط لکھنے سے انکار کیا۔ پھر نوازشریف دور میں پانامہ کا معاملہ سامنے آیا تو پارلیمنٹ میں نوازشریف نے تحریری بیان پڑھ کر سنایا کہ ”اللہ کے فضل و کرم سے 2005ء میں میں نے سعودی عرب کی وسیع اراضی اور دوبئی مل بیچ کر 2006ء میں لندنA,1فیلڈ کے فلیٹ خریدے۔ جسکے تمام دستاویزی ثبوت بھی میرے پاس موجود ہیں اور عدالت میں طلب کے وقت دکھا سکتا ہوں”۔
سوال اٹھائے گئے کہ اونٹوں سے اتنے پیسے منتقل کئے گئے یا کونسا طریقہ تھا ؟۔ منی ٹریل بتاؤ۔ عدالت نے طلب کیا توپھر قطری خط سامنے آیا اور پھر اس میں نقائص کی وجہ سے اس کا بھی انکار کردیا۔ عدالت جھوٹ کے ان پلندوں کو نہیں پکڑ سکتی تھی اسلئے کہ پہلے بھی اپیل کی ڈیٹ گزرنے کے باوجودعدالت کی طرف سے نہ صرف نوازشریف کیلئے دروازے کھولے گئے تھے بلکہ گزشتہ کیس، جرمانہ اور قید کی سزا میں کلیئر کردیا گیا تھا۔
جس عدالت میں کھلی کرپشن کے کیس نہ پکڑے جائیں تو وہ دہشت گردوں کو پکڑنے اور سزائیں سنانے کیلئے کہاں سے اپنے اندر اتنی صلاحیت پیدا کرتے؟۔ جب آرمی پبلک سکول پشاور کے واقعہ کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تو پھر دہشت گردی سے اس ملک کی جان چھوٹ گئی تھی اور اس سے پہلے GHQپر قبضہ سے لیکر مہران ایئربیس پر حملہ تک کیا کیا نہیں ہوا تھا؟۔ جس شخص جنرل راحیل شریف کو یہ کریڈٹ جانا چاہیے تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جرأت مندانہ اقدامات اٹھائے،اسی کو عدالت میں طلب کرنے کا کیا فائدہ تھا؟۔ اور جس نے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ،اسی آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کیخلاف دہشت گردی کی ترویج کے نعرے لگنا بہت بری بات ہے۔ دہشت گردی کی کاروکاری میں پوری قوم کا منہ بھی کالا تھا اور جہاں ہر گھر میں دہشتگردی کی خوف وہراس سے حمایت کی جاتی تھی وہ تو جانتے تھے کہ دہشتگرد کس قماش کے لوگ ہیں؟۔ حکیم اللہ محسود کے گاؤں کوٹ کائی جنوبی وزیرستان میں انتہائی شریف انسان ملک خاندان اور اس کی فیملی کو شہید کیا گیا۔ جس میں ایک حافظہ قرآن بچی بھی تھی۔ قاری حسین اور حکیم اللہ بدقماش قسم کے افراد تھے۔ جب ان کو بیت اللہ محسود نے ہمارے واقعہ کے قصاص میں قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا تو انہوں نے کہا کہ ”ہم نے تیرے حکم سے بے گناہ خاندان ملک اور اس کی فیملی کو قتل کیا تھا اسکے بدلے میں تم بھی پھر قتل کیلئے تیار ہوجاؤ”۔ فوج کا اس وقت وزیرستان میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اگر محسود قوم چاہتی تو دہشتگردوں کو ٹھکانے لگانا مشکل نہیں تھا لیکن اس وقت لوگوں کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں اور ان پر خوف طاری تھا۔
میں قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گیا تو میرے گھر والوں اور عزیز واقارب نے طالبان کو سپورٹ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہمارا واقعہ ہوا تب بھی میرے ماموں کے گھر سے پاک فوج نے دہشتگردوں کی پک اپ پکڑ کر بارود سے اڑادی تھی ۔ جب مساجد، گھروں اور مذہبی جماعتوں سے لیکر سیکولر سیاسی لیڈروں تک سب طالبان کی حمایت کرتے تھے تو صرف فوج کو نشانہ بنانا زیادتی ہے۔ عدل و انصاف کا معاشرہ قائم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ امام کے تقرر سے مرکزی خیال ایک ہوگا۔ قوم اتحاد واتفاق اور وحدت کے راستے پر گامزن ہوگی اور جس میں کوئی برائی ہوگی تو اس کو دور کرنے کیلئے باقاعدہ حکم جاری کیا جائے گا اور امر بامعروف اور نہی عن المنکر کا حق ادا ہوگا۔
داعش کا مطلب دولت اسلامیہ عراق وشام سے امامت کی تقرری کا فریضہ ادا نہیں ہوتا اور افغانستان کا امیرالمؤمنین بھی اپنے ملک تک محدود ہے ۔ پاکستان کا امیر المؤمنین دنیا کیلئے ہوگا، فلسطین وشام ، عراق وسعودیہ ، بھارت وامریکہ اور دنیا بھر کے مسلم وغیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کیلئے تاکہ پوری دنیا کے مسلمان اس گناہ سے بچ جائیں جس میں وہ امام زمانہ کا تقرر نہ کرنے کی وجہ سے مبتلاء ہیں۔ جب شیعوں کا امام مہدی غائب یا سنیوں کا مہدی موعود تشریف لائے توعیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور دجال اکبر کا خروج بھی ہوگا۔ مسلمانوں کا امام ان کی آمد سے پہلے اتحادواتفاق اور وحدت کا کارنامہ انجام دے چکا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی آمد سے پہلے گیارہ اور ایسے افراد بھی آئیں جن پر امت مسلمہ متحدو متفق ہوجائے۔
اگرقرآن وسنت کے احکام کی ایسی تشریح امام کریں جس پر بریلوی، دیوبندی ، اہلحدیث ، جماعت اسلامی، اہل تشیع اور جماعة المسلمین وغیرہ دنیا کے سب فرقے اور مسالک متحدومتفق ہوجائیں اور غیر مسلم بھی دینِ فطرت اسلام کی طرف راغب ہوجائیں تو مسلمانوں کی تمام مساجد میں اسلام کی فطری تعلیم کو بھی عام کیا جائے گا۔ پاکستان کے تمام ادارے فوج، عدالت، پولیس، سول بیورکریسی اور پارلیمنٹ فعال اور اپنے دائرۂ کار میں کردار ادا کریں گے تو دنیا بھر کیلئے پاکستان بہترین نمونہ بن جائے گا اور دیگر ممالک میں بھی اصلاح کا معاملہ شروع ہوگا۔
پاکستان مسلم قومیت کی بنیاد پر بنا۔ نبیۖ کو اللہ کی بارگاہ میں مسلمانوں سے شکایت ہوگی وقال الرسول یاربی ان قومی اتخذوا ہذا لقراٰن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے ربّ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ ہندوستان کے مسلمان آزادی سے پہلے اس بات پر لڑرہے تھے کہ قوم مذہب سے بنتی ہے یا وطن سے؟۔ علامہ اقبال نے دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں کہا کہ ” وہ کہتاہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے یہ کیا بولہبیہے؟” پھر ڈاکٹرا سرار احمد نے کہا کہ ” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا کہ مسلمان پہلے ایک قوم نہیں تھے لیکن اب قوم بن گئے ہیں”۔
امام کا تقرر کرکے جمہوری خلافت کا نظام بڑا ناگزیرہوچکا ہے ورنہ خطرات اور فتنہ وفساد کی لپیٹ میں سب آجائیں گے۔
حقیقی جمہوریت کے قیام کا تصور
جماعت اسلامی کے امیر سیدمنور حسن سے سلیم صافی نے اگلوایا کہ ” طالبان کے مقابلے میں امریکی فوجی شہید نہیں تو پھر امریکہ کے اتحادی پاکستانی شہید ہیں؟”۔ سید منور حسن نے کہا کہ ” یہ سوال تو آپ سے پوچھتا ہوں کہ پھر وہ شہید ہوسکتے ہیں لیکن آخر کہہ دیا کہ ظاہر ہے کہ امریکہ کے اتحادی ہمارے فوجی بھی شہید نہیں ہیں”۔ اس پر جماعت اسلامی والوں نے ایک طرف سلیم صافی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دوسری طرف منورحسن کو امارت سے اتار دیا۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد ISIنے ہی بنوائی تھی جس کے صدر غلام مصطفی جتوئی تھے جو پیپلزپارٹی کے بھگوڑے اورIJI کی دیگر جماعتوں مسلم لیگ جونیجو یا مسلم نواز سمیت سب کیلئے گھوڑے تھے۔ اس وقت نوازشریف کی حیثیت پنجاب کے کھوتے سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ ساری پود جماعتیں اور شخصیات عوام پر تھوپی گئی ہیں۔ فوج کے پیچھے ہٹنے اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا خیرمقدم کرنا چاہیے لیکن جب وزیراعظم کی سکیورٹی فوجی اہلکار کے ذمہ ہوگی جو جلاد کی طرح پشت پر کھڑا رہے گا تو فوج کی اس سے زیادہ مداخلت کیا ہوسکتی ہے؟۔ نوازشریف کو111بریگیڈ نے غائب کردیا تھا۔ عمران خان استعفیٰ نہ دینے کیلئے ڈٹا ہوا تھا کہ BBCنے خبر بریک کردی کہ عمران خان کو چھترمارکر جانے پر مجبور کیا گیا۔
وزیراعظم اور ملک کی تمام اندرونی سکیورٹی سول پولیس کو دینی چاہیے اور جس طرح ARYکے اینکروں پر نامعلوم لوگ FIRکا اندراج کرچکے ہیں، یہ سول سپرمیسی کی دلیل نہیں ہے اور دوسری طرف جب تک پاک فوج سے مدد نہیں لی جائے تو فوج کی پالی ہوئی پارٹیاںاور مذہب وسیاست کے نام پرایسی شخصیات ہیں جن کو پولیس قابو نہیں کرسکتی ہے اور جب تک ہم حقیقی جمہوریت کا قیام عمل میں نہ لائیں توفوج ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے سب سے پہلے ان اپنی موروثی پارٹیوں اور شخصیت پرستی سے جان چھڑانی ہوگی۔ جن خاندانوں کی بنیاد پر پارٹیاں چلتی ہیں ان پر پابندی لگانی چاہیے کہ وہ کسی طاقتور عہدے کیلئے پرائیوٹ اور سرکاری سطح پر اہل نہیں ہوں گے۔ سزایافتہ مریم نواز اور نوازشریف کو سرکاری پروٹوکول مل رہاہے اور وزیراعظم شہباز کے عدالت کو مطلوب صاحبزادے ترکی کے سرکاری دورے کا لطف اٹھارہے ہیں۔
عدالتی فیصلے نے لوٹا کریسی ختم کردی یا پارٹی کے ارکان پر اعتماد نہیں ہوسکتاہے؟۔ جب نوازشریف نے حکم دیا تو قمر باجوہ کی توسیع پر بھی ن لیگ مجبور ہوگئی۔ اور پھر نام لیکر ساری خرابی کا بھی جنرل قمر جاویدباجوہ کوہی ذمہ دار قرار دیتا رہا۔ایسی پارٹی شلوار ہے یا پاجامہ ؟۔ اس کا تعین کرنا بھی بہت مشکل ہے۔
بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اکثریتی جماعت بن کر بلدیاتی انتخابات میں سامنے آئی ہے اور ا س سے پہلے پختونخواہ میں بھی آئی تھی۔ حامد میر کے پروگرام میں ڈاکٹرخالدسومرو کے بیٹے کے سامنے انصار عباسی نے مولانا فضل الرحمن کو GHQ کی طرف سے زمینیں الاٹ کرنے کا صرف الزام نہیں لگایا بلکہ دستاویزی ثبوت اور زمینوں کے الاٹ نمبر بھی دئیے تھے۔ مردان کے سپین جماعت کے خطیب بریلوی ہیں اور کس کے کہنے پر جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے ہیں؟۔ جس طرح بلوچستان میں اتنی تعداد میں آزاد ارکان پاس ہوئے ہیں کہ اگر تمام پارٹیوں کو ملایا جائے تب بھی آزاد ارکان کی تعداد ان سے زیادہ ہے۔ اسی طرح آئندہ انتخابات میں پارٹیوں سے زیادہ آزاد ارکان پارلیمنٹ پر راج کرسکتے ہیں جس کی پیشگی اطلاع کا سیاسی تجریہ آصف علی زرداری نے چند ماہ پہلے دیا ہے۔
آزاد ارکان ایک منشور کے تحت ایک انتخابی نشان سے حصہ لیں اور منشور میں تمام سرکاری جائیداد پر سیاسی پارٹیوں و دیگر اداروں کے ناجائز قبضوں اور اپنے نام پر الاٹ کرنے کو ختم کیا جائے اور جائز زمینوں کو مالکان خود کاشت کریں یا پھر مزارعین کو مفت فراہم کریں۔ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ”کیا ہم عمران خان کے کوئی مزارع ہیں”۔ جب جاوید ہاشمی نے ن لیگ چھوڑی تھی تو بھی یہ کہا تھا کہ ”ہم نوازشریف کے مزارع نہیں ہیں”۔ مزارع کا لفظ سندھ وپنجاب اور پاکستان میں غلام کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ جب مزارع کو مفت میں زمین ملے گی تو کاشتکار سب سے معزز لفظ بن جائیگا ۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔اناج امپورٹ نہیں ایکسپورٹ ہوگی تویہ ملک فوری طور پر اتنی ترقی کرے گا کہ IMFکے قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ جب اسلامی قوانین کا نفاذ ہوگا تو پھر مریم نواز اور پنجاب کے ایک مزارع کی بیٹی کی عزت قانون کی نظر میں ایک ہوگی۔ مذہبی اور سیاسی طبقات سورۂ نور کے ذکر سے بھی مرتے ہیں جہاں نبیۖ کی زوجہ پاک حضرت اماں عائشہ صدیقہ پر بہتا ن لگانے کی سزا80کوڑے ہے اور عام عورت پر بہتان لگانے کی بھی 80کوڑے کی سزا ہے۔ جبکہ یہاں کسی کی عزت اربوں میں ہے اور کسی کی کوڑی برابر نہیں۔ کسی کیلئے10کروڑ بھی مشکل سزا نہیں اور کسی کیلئے دس ہزار بھی بڑی سزا ہے اسلئے کہ امیر وغریب کے پیسے برابر نہیںہیں۔ لیکن 80، 80کوڑوں کی سزا میر وغریب کیلئے برابر ہے۔
جب مزارع آزاد ہوگا تو اس کا ووٹ بھی آزادہوگا ، اس کی عزت بھی آزاد ہوگی ، وہ تعلیم ، صحت اور معاشرے کی تمام سرگرمیوں میں برابر حصہ لے گا وہ کسی کی خیرات زکوٰة سے نہیں پلے گا بلکہ دوسرے لوگ اسکے عشر سے پلیں گے۔اسکا ہاتھ نیچے والا نہیں اوپر والا ہوگا۔ اس سے مزدور کی دیہاڑی بھی جاندار بن جائے گی اور دکاندار بھی اس محنت کشوں میں دنیاوی طاقتور ہونے سے خوشحال بن جائیگا۔ روس وچین اور دنیا میں مزدور ومحنت کش لوگوں سے ہمدردیاں رکھنے اورکارل مارکس کے نظریات والے اسلام کے شیدائی بن جائیں گے۔ قدر زائدکی درست تعبیر اسلامی نظام میں نظر آئے گی۔ جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ اور دیگر فقہ کے تمام ائمہ سے انحراف کرکے مزارعت کا سودی نظام جائز قرار دیا ہے وہ دوسرے مسائل میں بھی حقیقی اسلام کی طرف متوجہ ہوں گے۔ جب محنت مزدروی میں کچھ ملنا شروع ہوگا تو مذہبی طبقات بھی محنت کش بن جائیں گے۔ جس کی وجہ سے سیاستدانوں اور اشرافیہ کی نالائق اولاد بھی گدھے گاڑیاں چلانے میں شرم محسوس نہیں کریںگی۔ ذہنی استعداد رکھنے والے افراد ڈاکٹر، استاذ ، سائنسدان اور تمام شعبوں میں کمال حاصل کریں گے اور ہاتھ پیر کی استعداد رکھنے والے بھی اپنے اپنے فن میں کمال حاصل کریںگے۔ آزادارکان جیت جائیں تو لابنگ کے بغیر کسی ایک کو منتخب کرلیں جس میں زیادہ استعداد نظر آتی ہو اور آزاد حیثیت میں منشور کو عملی جامہ پہنائیں اور حقیقی جمہوریت کو پاکستان میں قیامت تک جاری رکھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ جون 2022

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

افغانستان، سعودی عرب اور پاکستان میں ایک چاند اور تین عید الفطر کا گھناؤنا تصور۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس مرتبہ دنیا میں تین عیدیں تھیں۔ پہلے دن افغانستان اور بعض ممالک میں عیدالفطر تھی۔ دوسرے دن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ اور سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں عید تھی اور تیسرے دن پاکستان کے باقی صوبوں میں عید تھی ۔
شاید کوئی یہ بات نہیں مانے کہ ٹانک ملازئی میں بھی اسی شام کو بعض لوگوں نے چانددیکھ لیا تھا جس دن پھر افغانستان میں شہادت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ ایک ہندوستانی عالم دین نے ویڈیو جاری کی تھی کہ امارات اسلامی افغانستان میں اس دن چاند آسمان پر نہیں تھا لیکن شہادتوں کو قبول کرنے کی بنیاد پر عید ہوگئی ہے لیکن غلطی یہ ہوئی کہ جب مطلع صاف ہو تو کثیر تعداد میں شہادتوں کی بنیاد پر عید الفطر کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ جس کا جواب بھی افغانستان کی امارت اسلامی کے ایک ذمہ دار شخص کی طرف سے دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے عالم کو غلط فہمیاں ہوگئیں ہیںکہ چاند آسمان پر نہیں تھا۔ حالانکہ ہم نے29روزے رکھے تھے اور وہ اس کو28روزے سمجھ رہا تھا۔ کتابوں کے حوالہ جات بھی درست نقل نہیں کئے ہیں بلکہ بعض ادھوری باتیں نقل کرکے عبارت کی آخری فیصلہ کن بات چھوڑ دی ہے۔
ہم نے بچپن سے دیکھا ہے کہ چاند عوام کو نظر آجاتا تھا لیکن پاکستان سے ہلال کمیٹی کا فیصلہ روزے اور عیدالفطر کے حوالے سے ایک دن بعد میں ہوتا تھا۔ پھر کراچی میں ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان نے فرمایا تھا کہ ”ہلال کمیٹی نے چاند کو نہیں دیکھا لیکن چاند نے ان کو ضرور دیکھا ہوگا”۔ ملازئی میں جن لوگوں نے چاند افغانستان کے حساب سے دیکھا تھا اور انہوں نے اس دن روزہ بھی نہیں رکھا توایک ذمہ دار ٹیم تشکیل دی جائے جس کے دو مقاصد ہوں ایک چاند کے حوالے سے تاریخ درست کرنے اور دوسرا یہ کہ وہاں ایک پہاڑی علاقے میں تیل وگیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ کافی عرصہ سے آگ خود بخود جل رہی ہے اور معمولی کھدائی سے بھی آگ بھڑک جاتی ہے۔ تاکہ گیس کے اس ذخیرے کو بھی عوام کیلئے کارآمد بنایا جاسکے۔ شہباز شریف نے چینیوٹ میں جن ذخائر کی بات کی تھی تو اس کی سچ اور جھوٹ کی حقیقت بھی عوام کے سامنے لائی جائے۔
ہلال کا فیصلہ کن معاملہ حل کرنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔ جب متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو مفتی تقی عثمانی نے فتویٰ دیا تھا کہ لوگ ایک دن روزے کی قضاء رکھ لیں اسلئے کہ مرکز میں مفتی منیب الرحمن ہلال کمیٹی کے چیئرمین تھے اور یہ مسلکی جھگڑا بنایا جارہاتھا۔ ہم نے ماہنامہ ضرب حق کراچی میں مفتی تقی عثمانی کو اس وقت چیلنج کیا تھا کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر فتویٰ دینے والو ؟ تمہارے ایمان کا اس وقت پتہ چلے گا کہ جب مرکز میں عیدالفطر ایک دن بعد میں ہوگی اور متحدہ مجلس عمل صوبہ سرحد میں ایک دن پہلے عیدالفطر منانے کا اعلان کرے گی۔ عید کے دن شیطان کا روزہ ہوتا ہے اور پھر متحدہ مجلس عمل کیساتھ عید نہیں منائی تو سراپا شیطان بننے کا اعزا ز بھی حاصل ہوگا۔ وہ مہینہ تھا اور آج کا دن ہے کہ مفتی محمدتقی عثمانی کے دانت تک تبدیل ہوگئے مگر پھر لب کشائی کی جرأت بھی نہیں ہوئی۔
مفتی منیب الرحمن سے ہمارے ساتھ اشرف میمن کا مکالمہ بھی ہم نے نقل کیا تھا کہ جب سعودی عرب اور امریکہ ولندن میں وقت کا دس بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور پاکستان وسعودیہ میں دو ، ڈھائی گھنٹے کا فرق ہے۔ اگر یہاں عید کا چاند ایک دن بعد ہوسکتا ہے توپھر وہاں اتنے فرق پر پانچ چھ دن کا فرق ہونا چاہیے تھا؟۔ اور جب محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی تھی کہ اسلام آباد میں فضاء غبار آلود رہے گی اور کراچی میں مطلع صاف رہے گا اسلئے کراچی کے ساحل سمندر سے چاند نظر آنے کا امکان ہے اور اسلام آباد سے چاندنظر آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تو کراچی سے اسلام آباد چاند دیکھنے کے لئے آنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ جس کا مفتی منیب الرحمن نے تاریخی جواب دیا تھا کہ ” میاںیہ پا کستان ہے اس میں انجوائے کرو، انجوائے”۔ جہاز کے ٹکٹ، ہوٹل کے خرچے اور آنے جانے کے ٹی اے ڈی اے۔ پاکستان کا قرضوں سے بیڑہ اسلئے غرق ہوا ہے کہ جب بھی کسی چمتکار کو موقع مل جاتا ہے تو وہ چپت کار بننے میں دیر نہیں لگاتا ہے۔ جب آزادی ہوگی اور قانون سے پکڑکا خوف نہیں ہوگا تو جنت میں شجرممنوعہ کے پاس جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی اور بندہ نافرمانی بھی ضرور کرے گا۔
کراچی کی آلودہ فضاؤں میں پہلے دن نہیں دوسرے دن کا چاند بھی نظر نہیں آتا ہے۔ سندھ میں سندھیوں کورمضان کا بھی پتہ نہیں چلتا ہے۔ بلوچستان کے شہر اتنے دور دور ہیں کہ ان کا آپس میں بھی رابطہ نہیں ہوتا ہے تو دوسروں سے کیا رابطہ ہوگا؟۔ پنجاب کے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان جانے رمضان جانے۔ پٹھان کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہوتی ہے۔ تو پھر دو،دو اور تین تین عیدوں کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر دنیا میں ایک خلافت کا نظام ہوگا تو ایک دن میں روزہ اور عیدالفطر کی تاریخ اور شرعی فریضہ ادا کیا جائے گا۔ ملک کا بندر بانٹ اور تقسیم کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے لیکن جب غیراسلامی تقسیم کو علماء ومفتیان ایک درجہ بھی دیتے ہیں اور ان کی شرعی حیثیت بھی قبول کرتے ہیں تو خلافت اسلامیہ کی بات بھی مان جائیں گے۔ اپنا روزہ اور عید درست کرنے کیلئے بھی عالمی خلافت کیلئے اپنا بھرپور زور لگائیں۔ قرآنی آیات کی بھی درست تشریحات کرنی ہوگی۔
رمضان کے بعد عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگردوسرے دن بھی پتہ چل جائے کہ عید کا چاند نظر آیا تھا تو روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور اگرعید کی نماز کا وقت نکل گیا ہو تو پھر دوسرے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ یہ مسئلہ واضح ہے لیکن ہمارے رات9بجے تک چاند نظر نہ آنے کے بعد اس مرتبہ اعلان کردیا گیا۔ حالانکہ پچھلے سال رات12بجے کے بعد چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا تھا اور اس مرتبہ ہلال کمیٹی کے چیئرمین صحافی مجیدنظامی وغیرہ سے کہا کہ9بجے ہم نے اعلان کردیا تھا،اس کے بعد پختونخواہ کی ہلال کمیٹی نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ لگتا ہے کہ پچھلے سال پنجاب اور مرکز میں بھی عمران خان کی حکومت تھی اور پختونخواہ میں بھی عمران خان کی حکومت تھی تو ہلال کمیٹی کے چیئرمین کو اپنی نوکری کا ڈر نہیں تھا لیکن اس مرتبہ پنجاب اور مرکز میں عمران خان کی حکومت نہیں تھی اور اگر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی بات مان لیتے تو نوکری جانے کا خطرہ تھا۔ مریم نواز اپنے خاندان کے دورِ حکومت میں ان صحافیوں کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہے جن کو سرکاری اشہارات دئیے جاتے ہیں۔ جیو نیوز اور جنگ گروپ اپنے مقاصد کیلئے معاملات کو اٹھاتے ہیں۔ باقی میڈیا کے صحافی حضرات ان کی اتباع یا مخالفت میں اقدامات کررہے ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ ” روزوں کو تمہارے اوپر فرض کیا گیا ہے جیسا کہ آپ سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ یہ گنتی کے دن ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہو تم میں سے یا سفر میں ہو تو پھر دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔ اور تم میں سے جو استطاعت رکھتے ہیں تو وہ مسکین کوکھانے کا فدیہ دیدے۔اگر کوئی زیادہ نیکی کرنا چاہے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ زیادہ بہتر ہے تمہارے لئے ”۔
اس آیت میں روزوں کے دن اور بیماری وسفر کی حالت میں ان کی قضاء فرض کی گئی ہے۔ مریض اورمسافر میں دوقسم کے لوگ ہوتے ہیں ،ایک غریب اور دوسرے امیر۔ غریب تو خود فدیہ کا مستحق ہوتا ہے اور امیر کو روزہ چھوڑنے کی صورت میں ایک مسکین کو کھانے کا فدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سے زیادہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ اللہ نے ایک سہولت دی ہے اور اگر مال بھی عطاء کیا ہے تو پھر روزہ چھوڑنے کی صورت میں فدیہ دینے کی ترغیب ایک فطری بات ہے۔ البتہ چونکہ انسان کا نفس مشکلات سے فرار اختیار کرتا ہے اسلئے اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ سفر اور مرض کی حالت میں روزہ رکھ لو یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ حیلے بہانے سے روزے چھوڑنے کے اقدامات نہیں اٹھائے جائیں کہ معمولی مرض اور آسان سفر میں بھی روزہ چھوڑ دیا جائے ۔ جس طرح گدھے کا روزہ چھوڑنے سے انسانوں کو تکلیف نہیں ہے اسی طرح انسانوں کا روزہ چھوڑنے سے اللہ کا بھی کچھ نہیں بگڑتا ہے لیکن بندے کے مفاد میں ہے۔
اس آیت سے علماء ومشائخ نے اپنے مالدار مریدوں، نوابوں، خانون اور بڑے لوگوں کیلئے یہ سہولت نکالی ہے کہ اللہ نے روزہ رکھنے اور فدیہ دینے میں سے ایک کا اختیار دیا ہے۔ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور مرض وسفر کی حالت میں چھوڑنے پر قضا ادا کرنے کا حکم دیا ہے تو پھر فدیہ اور روزے میں سے ایک کا اختیار کیسے دیا جاسکتا تھا؟۔ اگر غریب غرباء کو بھی مساجد میں یہ حیلہ بتادیا جاتا تو ہزار پانچ سو روپے کمانے والا دیہاڑی دار طبقہ بھی کسی کو فدیہ دیکر اپنی مزدوری بہت آسانی سے کرسکتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں اعتدال پیدا کرنے کیلئے قرآنی آیات کو نازل فرمایا ہے۔ اس آیت میں مسافر ومریض کو بھی ترغیب دی ہے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے تمہارے لئے۔ لیکن بعض لوگ اتنے نادان اور شدت پسند ہوتے ہیں کہ وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے کہ جب سفر ومرض میں بھی روزہ رکھنا اللہ نے بہتر قرار دیا ہے تو پھر بہرصورت اللہ کی بات کو ترجیح دینی چاہیے اگرچہ مرض وسفر میں مرنے جیسی کیفیت تک بات پہنچ جائے اسلئے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں پھر روزے کو سفر ومرض میں چھوڑنے کی گنجائش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اسلئے کہ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کوئی مشکل نہیں ڈالنا چاہتا ہے بلکہ آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دونوں آیات میں اعتدال کا راستہ بتایا گیا ہے۔ ایک طرف حیلہ سازوں نے آیت میں اصل حکم سے ہٹ کر روزے کو عام حالت میں بھی فدیہ کے بدلے میں معاف کرنے کی بات کرڈالی اور دوسری طرف شدت پسندوں نے سفر و مرض میں سہولت کو بھی نظر انداز کرنے کا رویہ اختیار کرلیا ہے۔
طالبان کی افغانستان میں ایک ویڈیو جاری ہوئی جس میں مسافروں کوان کی سواریوں سے اتارکر روزہ نہ رکھنے پر سخت تذلیل کی سزا دی جارہی ہے۔ اگر اللہ نے نماز وروزے پر کسی سزا کا حکم نہیں دیا تو طالبان کو اپنی روش پر نظر ثانی کی سخت ضرورت ہے۔ تصویر اور بے نمازی کیلئے حکم بدل گیا ہے یا حقیقت سمجھ آگئی ہے تو روزے پر بھی ترغیب کی حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ خواتین برقعے کی روایت پنجاب سے منتقل ہوئی ہے۔ بوڑھے افغانیوں سے پوچھا جائے تو وہ بتائیں گے کہ پہلے افغانستان میں کہیں پر بھی برقعے کا کوئی رواج نہیں تھا۔
میری طالبان سے ہمدردی ہے اور انہوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے اور پھر آزادی حاصل کی ہے۔ افغان قوم انگریز کے دور سے جن مشکلات کا شکار رہی ہے اس میں بیرونی مداخلت سے زیادہ اندرونی معاملات بھی اہم عنصر رہے ہیں۔ جاندار کی تصویر کی ہم نے طالبان سے زیادہ پہلے مخالفت کی تھی لیکن جب علمی حقائق کا پتہ چل گیا تو ”جوہری دھماکہ ” نامی کتاب میں اس غلط مؤقف کی دھجیاں اڑا دیں۔ طلاق وخلع اور حلالہ کے حوالے سے بھی ہم نے بہت ہی واضح حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ اگر طالبان نے اس کی طرف دھیان دیا اور پاکستان سے مقتدر علماء کو بھی مجھ سمیت اس پر بحث کیلئے طلب کیا تو افغانستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کے آغاز میں دیر نہیں لگے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار تسخیر کائنات کی بات کی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں فرائض کی تسخیر اور اختلافات نے اسلام کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا ہے اور تسخیرکائنات کے علوم میں خواتین وحضرات کے اندر برابر کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔ دنیا نے اس تسخیر کے ذریعے اتنی ترقی حاصل کرلی ہے کہ مسلمان دنیاہر چیز میں ان کا محتاج بن کر رہ گئی ہے۔ قرآن میں جتنے فقہی احکام ومسائل ہیں ان کا احادیث صحیحہ سے کوئی تصادم نہیں ہے لیکن فقہ کی کتابوں میں اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ افغانستان میں پوری دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں کو اپنی اپنی شاخیں کھولنے کی اجازت ،ترغیب اور مکمل تحفظ کی ضمانت دی جائے تو جس طرح چین نے ترقی کرلی ہے اس سے زیادہ افغانستان تعلیمی اداروں کے ذریعے سے دنیا میں ترقی کرے گا۔ افغانستان میں غربت ، بچیوں کی فروخت اور تمام مشکلات کا خاتمہ ہوجائے تو طالبان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔
میرے دادا سیدمحمدامیر شاہ کی قیادت میں1972ء میں ایک محسود قوم کا تین رکنی وفدافغانستان اسلئے گیا تھا کہ انگریز کے خلاف باہمی تعاون کریں گے اور پھر بیٹنی قبائل کا وفد میرے دادا کے بڑے بھائی سیداحمد شاہ کی قیادت میں گیا تھا۔جن کے بیٹے سید ایوب شاہ پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے افغانستان میں ایک اخبار بھی نکالا تھا۔ پھر کچھ غلط حاسدین کی شکایت پر ان کو ظاہر شاہ کے والد نادر خان شاہ کے دورِ حکومت میں توپ سے اڑانے کی سزا سنائی گئی لیکن پھر ان کو جلاوطن کردیا گیا تھا۔ ہماری بیٹھک میں افغانستان کے ایک بادشاہ نے تین دن تک قیام بھی کیا تھا۔ امیرامان اللہ خان کیلئے لشکر تشکیل دینے والے پیر سعدی گیلانی عرف شامی پیر کی پہلی مرتبہ میزبانی میرے دادا نے کی تھی ۔ دوسری مرتبہ سیدایوب شاہ نے کی تھی۔ محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے علامہ اقبال نے جو اشعار بنائے ہیں ان میں وزیرومحسود اور دیگر قبائل کے نام بھی ہیں۔ قیامت کے دن تو مجرمین الگ کردئیے جائیں گے لیکن اس دنیا میں بھی مجرموں کو الگ کیا جاسکتا ہے۔ نبیۖ کی فتح مکہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ عزتدار لوگوں میں کوئی دشمن ہو تو بھی اس کو عزت سے نوازا جائے جب وہ دسترس میں آجائے تب۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv