طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!
طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!
طالبان نے بھی اس پر معافی مانگی تھی اور محسود قوم کو بھی ساتھ لائے لیکن پھر محسود قوم طالبان کے سامنے بے بس تھی اورکانیگرم میں طالبان نے ان کو آنے نہیں دیا تھا۔اس وقت وزیرستان طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہی ہوتا تھا
پھر ضرب عضب کے بعد طالبان کی رٹ ختم ہوگئی۔ طالبان گروپوں نے ایک دوسرے کو بھی مارا تھا۔ اگر علماء اسلام اور اشرافیہ پشتو کیلئے کردار ادا کرتے تو طالبان اسلحہ رکھ دیتے اورامن کیلئے مسئلہ نہ بنتے
ڈاکٹر ظفر علی شاہ سے میں نے کہا کہ” اگر مجھے موقع ملا تو قوم سے کہوں گا کہ یہ واقعہ ہمارے ساتھ ٹھیک ہوا ۔ معاف کردو تو مہربانی ہوگی ۔دوسروں کو قتل کیا جا رہا تھا تو ہم نے ٹھکانہ دیا۔ اپنے کئے کا بدلہ مل گیا”۔ جس پر ڈاکٹر ظفر علی خوش ہوگئے تھے۔
کریم کے بیٹے عثمان نے حماد سے کہا کہ اب تو فوج کے خلاف جہاد فرض ہے۔پشتونوں کیساتھ ظلم ہورہاہے۔ حماد نے کہا کہ” پہلے طالبان کے نام پر ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھائے ،اپنی عورتوں کو چھوڑ کر بھاگے۔ اب قوم پرستی کی بنیاد پر غلطی نہ کرو۔ اگر ریاست کے خلاف جہاد کرنا تھا تو طالبان سے کیوں ہٹ گئے”۔ عثمان نے کہا کہ وہ تو ظالم تھے۔
عثمان کے دادا سرور شاہ ریلوے ملازم نے بڑی رقم چوری کی تو بندے کانیگرم اسکے پیچھے پہنچ گئے۔ رقم کھالی، میرے دادا سید امیر شاہ نے وہ رقم دی۔ اسکے باپ کریم نے بھائی یعقوب شاہ سے فراڈ کیا۔ عثمان نے طالبان اورPTMمیں قربانی نہیں مال بٹورنے اور مفادات کیلئے شرکت کی ہے۔
سبحان شاہ کی اولاد ایکدوسرے کو انصاف دیں یا معافی تلافی کریں۔ہمارے دادا سیدامیر شاہ اپنی چھوٹی بہن فیروز شاہ، سرور شاہ ، میرمحمد شاہ اور کرم حیدر شاہ کی والدہ کے بارے میں کہتے تھے کہ ”یہ میری پگلی بہن ہے ۔ گھر سے چیزیں لے جاتی ہے اور کہتی ہے کہ تمہارے بچے کھائیں گے اورمیرے بچے نہیں کھائیں گے”۔حجت جتانے پر خوش تھے۔
شہداء کے واقعہ سے پہلے منہاج سے کہا تھا کہ ”اصحاب کہف کی تعدادمیں اپنے6بیٹوں کو تاکید کی ہے کہ اگر مجھے قتل کیا جائے تو نقاب پوشوں کو نہیں انکے سہولت کاروں میں ایک کو ٹھکانے لگادو”۔ اس موقع پر جہانزیب ، عبدالواحداور عبدالوہاب کے علاوہ ناصر محسود وغیرہ موجود تھے۔
جہانزیب نے کہا کہ” منہاج کو ایسا کردیا کہ وہ اپنی تھوک نہیں نگل سک رہا تھا”۔ میں نے کہا کہ منہاج نہیں دوسروں کے بارے میں کہہ رہا تھا تاکہ جہانزیب اسکے پیچھے نہ لگ جائے۔
واقعہ کے بعد خیبر ہاؤس پشاور میں شہریارنے کہا کہ ”طالبان کی ذہن سازی کی گئی تھی کہ بڑے ظالم لوگ ہیں ۔ لوگوں کی بیویاں چھین لی ہیں”۔
میں نے شہریار سے کہا کہ ”طاہر سے کہہ دو کہ شکر کرو کہ تیرا بھائی واقعہ میں مرا ہے۔ جب چیخوں کی آواز سنتا تھا تو میرے دل کو ٹھنڈک پہنچتی تھی اور اپنے جذبات کو قابو کرنے میں مدد ملتی تھی۔ ورنہ تو منہاج کے گھروالوں پرگولیاںچلادیتا۔میں نے مشکل سے خود کو روکا کہ ایک تو دشمن خوش ہوگا ، دوسرا منہاج کے گھر والے کہیں گے کہ سعدالدین نے مروادیا۔ طاہر سے کہہ دو کہ طالبان کو میری بیوی اور بچی کے بارے میں پتہ تھا اگر ان کو لے جاتے تو کیا میں اس کی ماں ،بہن اور خواتین کو چھوڑ دیتا؟”۔
غیاث الدین نے میرا بیٹا ابوبکر دیکھا تو کہا کہ ”اس سے بچوں کو بچاؤ، سندھی کلہاڑی سے مارتے ہیں”۔ ہمارے قریب مری بلوچ کی بدمعاشی سے علاقہ بیزار تھا ۔ پولیس بھی تنگ تھی لیکن ابوبکر نے سریا سے مارا تو اتنا گرم ہوا کہ ہاتھ سے پھینکنا پڑا۔ وہ مری طالبان کے سہولت کاروں سے زیادہ ہیں پھر بدمعاشی بھی ختم ہوگئی اور ہمارے دوست بن گئے ۔ ابوبکر کانیگرم چیلنج کرنے آرہا تھا۔ عثمان تک پہنچنے سے عمرکو منع کیا۔ عمر موٹر سائیکل چلا کر فون پر بات کررہاتھا تو دوست نے دوسرابھی فون دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ سے بات کی اور ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ عثمان کی اوقات نہیں پھر جہانزیب کو فون کیا اور مسیج ڈیلیٹ کرکے اُٹھائی ہوئی دُم واپس پیچھے ڈال دی۔
کراچی میں سکیورٹی ایجنسی نے بڑا چھاپہ مارا ۔ چھوٹا حمزہ کو تھپڑ مار کر کہا کہ بتاؤ باپ کہاں ہے؟۔ اس نے کہا کہ مجھے ذبح بھی کردو تو نہیں بتاؤں گا۔ یہ بتادو کہ مجھے تھپڑ کیوں مارا ؟۔ پھر انہوں نے اس سے معافی مانگ لی اور تلاشی لئے بغیر چلے گئے؟۔
منہاج کے گھر میں فوج گھس گئی تو انکے احوال کا پتہ ہے۔ بہادری اور بزدلی کی بات نہیں۔ ظالم ڈرتا ہے اور جس نے ظلم نہیں کیا وہ جھپٹتا ہے۔ حمزہ سے پڑوسیوں نے پوچھا کہ کون تھے؟۔ اگر بھائی منع نہ کرتا تو سیکورٹی فورسز دہشتگردی کو ختم نہ کرسکے مگر ہم انکے سہولت کاروں کیخلاف کاروائی کرکے کراچی سندھ ، کوئٹہ بلوچستان ،KPاور پنجاب سے دہشتگردی کو ختم کرتے۔ پہلے میری بیوی بچے خود کش کرتے۔ ہم دلے نہیں کہ دوسروں کو تو استعمال کریں لیکن خود آرام سے بیٹھے رہیں۔ اس طرح کی گھٹیا ذہنیت گھٹیا لوگوں کی ہوسکتی ہے۔
طاہر دلا اپنے مزارع سے لڑا تو بھی حماد کو ساتھ لے گیا اور پھرحکیم کوٹ والوں کو لے گیاتھا۔ اگر ان کو پتہ چلتا کہ میرے پاس اس کی کوئی اوقات نہیں ہے تو پھر مزارع کیساتھ بھی بدمعاشی کبھی نہیں کرتا۔
ہمارے واقعہ پر جامع تحقیقات کرکے حقائق سامنے آئیں گے تو لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ پاک فوج اور طالبان سے زیادہ قصور پشتون معاشرے میں موجود بہت ہی گھٹیا لوگوں کا ہے۔
اگر منہاج کہہ دیتا کہ اورنگزیب نے کتنی قدر کی ہے؟۔ اس کی یتیم بچی کو تنگ مت کرو؟۔ بچے چھینا اورقتل کی دھمکی غلط ہے توسعد الدین رُکتا۔ میں نے کئی باتیں منوائی ہیں۔ وہ ضدی اور ہٹ دھرم نہیں۔ منہاج نے جرگہ کی بات کی لیکن جب جہانزیب نے گالیاں دیں تو بات چھوڑ دی۔ جرگہ اس بات پر کرتے کہ طالبان کی سہولت کاری کیوں کی؟۔ اور ان کے ایماء پر چلنے کا مقصد کیا تھا؟۔
اگر میں نہیں ہوتا تو ماموں سعدالدین اپنا خون بہانے کے بجائے کسی اور کاخون بہا دیتا۔ میں نے اپنا بڑا وقت اس پر خرچ کر ڈالا۔ اب پھر کانیگرم کی زمین پر منہاج خون خرابے کے چکر میں تھا۔
محسود وں پر طالبان اللہ کی رحمت تھے۔ طاقتور لوگ کمزوروں پر ابوجہل بننے کی کوشش کرتے تھے۔ طالبان کی ظالمانہ طاقت نے سبھی کا پانی اُتاردیا۔ اشرف علی نے ایک طاقتوربرکی کا بتایا کہ وہ تکبر سے آیااوراسکے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کیا گیاتھا۔ طالبان کا ساتھی مظہرنظریاتی تھا۔اس کو مارنے کی جگہ کریم کا چہرہ واضح کرنا تھا۔ ضیاء الدین ومنہاج نے تو اپنی بیٹھک میں طالبان کوخوب بسایا۔ یہ بے غیرت فوج کے ایک چھاپے کی مارتھے ۔جو ادھر کے رہے نہ ادھرکے۔اللہ نے فرمایا ہے کہ
”منافق مرد اور منافق عورتیں انکے بعض بعض سے ہیں۔برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔انہوں نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلادیا۔ بیشک منافقین ہی فاسق ہیں۔ اللہ نے وعدہ کیا ہے منافق مردوں اور منافق عورتوں سے جہنم کی آگ کا۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہی ان کیلئے کافی ہے اوراللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے کھڑا عذاب ہے”۔
(سورہ توبہ، آیات:67،68)
جس طرح ریاستی اداروں میں بیٹھے لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے اداروں کو بدنام کئے ہوئے ہیں اسی طرح سے طالبان کو بھی ذاتی مفادات والوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ چاہے وہ ان کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں یا انکے بدبخت سہولت کار۔ یہی حال ہمارے پورے معاشرتی نظام کا ہے۔
پچھلے شماروں میں اشتعال جان بوجھ کردلایا۔ تاکہ جس جانب سفر ہے اس میں کچھ چوہے اپنے بلوں سے نکل کر آجائیں۔مسئلہ یہ ہے کہ بہن ایک سائیڈ پر کھڑی ہے اور بھائی دوسری سائیڈ پر تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ اصل کردار کون کون ہیں؟۔
طالبان میرے لئے تیزاب کا ڈرم ساتھ لائے تھے۔ خیال تھا کہ اورنگزیب سرنڈر ہوجائے گا۔ مال ودولت بھی لوٹ لیں گے ۔ مجھے اور میرے بچوں کو نشانِ عبرت بناکر کس بات کا بدلہ لے لیں گے؟۔
جب فوج نے چھاپہ مارا تو ماموں کھوپڑی ہلاکر کہہ رہا تھا کہ ضیاء الدین کو بھی اٹھاکر لے گئے؟۔ جیسے بہت برا ہوگیا۔ پشتون قوم میں غیرت اور بے غیرتی کی تمیز بھی نہیں۔ ظالم اور سہولت کار پر ہاتھ پڑتا ہے تو خودکو مظلوم سمجھنے میں غیرت ، شرم اور حیا محسوس نہیں کرتا۔معاشرہ ٹھیک کرنا آسان نہیں۔ بیٹے کے خود کش سے بیٹی بیچنا زیادہ بے غیرتی ہے۔ مجھے حاجی ہمیش گل محسود نے مفت میں بیٹی دینے کی پیشکش کی تھی جسکا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور دوسرے علما ء ومفتیان کو مفت میں دی تھیں۔ لیکن مفت سے مسائل کم نہیں بلکہ بڑھ سکتے ہیں۔
طالبان نے قتل اور لوٹ مار کی تھی۔ حاجی یونس شاہ اور حاجی قریب برکی کی ہمدردی ہمارے ساتھ تھی لیکن منہاج نے سارے حربے ہمارے خلاف اور طالبان کے حق میں استعمال کئے تھے۔
ومن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ ”جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا” طاغوت کا انکار نہ ہوتو ایمان قبول نہیں۔ پہلے لاالہ طاغوت کا انکارکرنا ہے پھر الاللہ پر ایمان لاناہے۔ انگریز کی ناجائز خانی سے لیکرکسی کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے معاملات طاغوت نہیں تو اور کیا ہے؟۔ طالبان نے ہم پر حملہ کرکے مان لیا کہ طاغوت کیلئے استعمال ہوگئے مگر یہ طبقہ شیطان کیساتھ کھڑا تھا۔ طاہراور احمدیار نے شروع سے مخالفت کی۔ حالانکہ انکے آباء اجداد کا مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ ہندواور انگریز کا راج قائم ہوجائے تو اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مراعات لیں گے۔ منورشاہ مظفرشاہ دیندار تھے۔ کرم حیدر شاہ نے جرمنی میں کردار کی حفاظت کی۔حسین شاہ اور محمدامین شاہ دیندار تھے۔
ایک بار کہیں چوری کرنے گئے تھے تو میزبان کی گائے چوری کرنے لگے۔ حسین شاہ نے کہا کہ یہ میں نہیں کرنے دوں گا۔ حسین شاہ فطری غیرت رکھتا تھا، عبادت میں اپنے ماموں امیر شاہ پر گیاتھا اور محمد امین شاہ بھی سادہ انسان تھا ۔ مقامی ہاتھ کے بنے چھال کے جوتے استعمال کرتا تھااور جہاد کشمیر میں ہندو عورتوں کی عزت محسودوں سے بچائی تھی۔ تبلیغی جماعت میں اس وقت 4ماہ لگائے تھے جب لوگ چلہ میں ولی اللہ بن جاتے تھے۔ سانپ کو بھی پکڑلیتے تھے اسلئے نانا بابویا ماموں کے حکم پر بچپن میں سانپ پکڑلیا تھا۔ حسین شاہ اور محمد امین بڑے اچھے اور دیندار انسان تھے۔ بعض معاملات میں وہ بڑے بھائی سلطان اکبر کے ہاتھوں مجبور تھے۔
سلطان اکبر کو سیدامیر شاہ نے حکمت سکھائی تو اس میں لوگوں کی سخت شکایات تھیں۔ حسین شاہ کو ٹھیکیداری پسند تھی جو غیرت والا کام تھا۔ اسکے بیٹے گل امین نے سرکاری نوکری سے خوب کمایا اورمال و متاع سب پر لٹایا۔ پہلے جائیداد میں چوتھائی دیا اور پھر انکار کرکے آخری عمر میں خوب ستایا تھا۔
ایک بندہ فیل ہوا تھا،17نمبر تھے۔ کسی نے کہا کہ16نمبر ہیں تو اس نے کہا کہ نہیں17ہیں۔ اگرکہیں ہماری معلومات میں19اور20کافرق ہوتو تصحیح کیلئے حاضر ہیں۔ مگر یہ رونا بالکل فضول ہے کہ بہت خراب کیا، یزید کی اولاد بنادیا۔ یزید کے بیٹے معاویہ کی تاریخ میں نظیر نہیں جس نے باپ کی گدی ٹھکرادی کہ ظالم اور غاصب ہے۔ باپ دادا، دادی صحابی۔ کافرابوسفیان نے بھی قیصرروم سے سچ بولا۔ ہندہ کا باپ، چچا ، بھائی بدر میں قتل ہوگئے ۔
یزیدنے دوسروں کے کاندھے پر بندوق چلائی اور درپردہ محاذ سنبھالا۔ چھپے نہیں کھلی سپورٹ کرنے والوں سے پوچھتاہوں کہ یہ تمہارا مذہبی یا انقلابی جذبہ تھا، جنون تھا، خوف تھا؟،یاری دوستی تھی؟ ہم نے تمہاراکچھ بگاڑا تھا؟۔ کیا ہم تمہارے دشمن کو یوں رکھ سکتے ہیں؟۔سوال اٹھانا بھی جرم ہے؟۔
رائل فیملی نے ہمارے دشمن کو رکھا تھا بلکہ ان کی طرف داری اور ہماری مخالفت میں لمحہ ضائع نہیں کیا۔حالانکہ بھانجے داؤد اور واحد نے مکمل ڈیوٹی کی مگر چچازاد کو یہ لشکر سمجھتے ہیں جیسا کہ شمن خیل محسود کی رائل فیملی بادینزئی کو لشکر سمجھتے ہیں۔ خیر خواہی کی بنیاد پر ”خان” کے تصور کا بھانڈہ پھوڑ دیا تاکہ جنکے دلوں و سماعت پر مہر، آنکھوں پر پردہ نہ ہواور اصلاح کی گنجائش ہے تو ان کی درست اصلاح ہوسکے۔
حسام شہید اچھا تھا، ناصر اچھاہے۔ جھوٹ کے ابوسفیانوابوجہل غلط ہیں۔ کوئی نسلی اچھا برا نہیں۔ ذہنیت بری ہے۔ برکی، محسود ،وزیر، بیٹنی ،مروت، پختون، پنجابی،سندھی ،بلوچ سبھی ہمارا افتخار ہیں۔
قرآن اللہ کا نور مشرقی اور نہ مغربی۔ جوان لڑکی کو80کوڑے نہیں قتل کیاجائے اور جبری زیادتی والوں کو چھوڑ دیا جائے تو یہ ہرگز اسلام نہیں ہے۔
جب کانیگرم میں کمزور لوہار نسل والوں پر ناجائز زیادتی کی گئی تو وہ طالبان بن گئے ۔ میرا والد عوام میں انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرتا تھا تو کانیگرم میں دہشتگردی نہ تھی ۔ اشرافیہ نے انصاف کیساتھ کھیلا تو راہ گیر بم سے اڑ گئے۔ بے گناہوں کو نقصان پہنچا۔ حالانکہ طالبان تھے اور نہISIتھی۔ہر چیز نامعلوم پرڈالنے کی جگہ خود احتسابی کا عمل ضروری ہے۔ فوج نے عبدالرزاق کے گھر پر کئی مہینے کمیٹی کا قبضہ رکھا اور ضیاء الدین کو اٹھایا۔ ”یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کا نعرہ محض کمزور طبقے کا حوصلہ بڑھانے کیلئے لگا دیا تھا ،ورنہ دہشتگرداور انکے سہولت کارسبھی کو معلوم ہیں۔ اسلام، وطن اور قوم کی حفاظت کیلئے مجرم کے چہرے سے نفاق کا نقاب کھینچنا پڑے گا۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv