پوسٹ تلاش کریں

بیٹی کو شہوت سے زبردستی آلہ تناسل پکڑایا اگرانزال نہ ہوا تو بیوی حرام اور انزال ہوگیا تو بیوی حرام نہیں ہوگی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی جہالت سے بھرپور حماقتوں سے دل دہلانے والے حنفی فقہاء کی خباثتوں کا فتویٰ

(حرمت مصاہرة کے غلط مسائل سے جان چھڑانے کا قرآنی حل آخر میں پڑھیں)

دار الاافتاء جامعة العلوم علامہ بنوری ٹاؤن
ویب سائٹ لنک
https://www.banuri.edu.pk/readquestion/hurmat-e-musaaharat-ki-sharaet-o-ahkaam-144603102755/28-09-2024

https://www.banuri.edu.pk/questions/fasal/hurmat-e-musaharat

 

کیا سوتیلا نانا (یعنی سوتیلی ماں کا والد)محرم ہے؟

محارم ، بہو اور سالی کو شہوت سے چھونا اور مصافحہ کا حکم….

نو سال سے کم بیٹی کو برہنہ دیکھنے کی صورت میں حرمت کا حکم

ساس سے زنا کرنے کی صورت میں بیوی سے نکاح ……

امام ابوحنیفہ اورامام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک حرمت……

بیٹی کیساتھ زنا سے آدمی پر اپنی بیوی حرام ہوجاتی ہے۔

بھتیجی کو شہوت سے چھونے کے بعد اس کیساتھ بیٹے کا نکاح

بیٹے کا ماں کو شہوت سے چھونے سے حرمت کب ہوگی؟۔

ہم بستری کے وقت بیوی کی والدہ کا تصور کرنے سے نکاح.

حرمتِ مصاہرت کی شرائط و احکام

عورت کو چھونے کے بعد انزال سے حرمت مصاہرت کا حکم

بھانجی کیساتھ ہم بستری کرنے پر ماموں کے نکاح کا حکم….

سوتیلی بیٹی کے ہاتھ میں زبردستی آلہ تناسل پکڑوانے…..

ساس کے پستان کو چھونے سے حرمت مصاہرت کا حکم

سسر کا بہو کو شہوت کے ساتھ چھونا

……بقیہ (بکواسات)

 

حرمت مصاہرت کی شرائط و احکام

سوال:1۔ اگر داماد ساس کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو کیا اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجاتی ہے؟ اسی طرح اگر سسر اپنی بہو کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

2۔اگر باپ پیار و شفقت سے اپنی بالغ بیٹی کابوسہ لے اور اسے پیار سے چومے تو کیا بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجاتی ہے؟۔ راہ نمائی فرمائیں۔ جواب

(1) واضح رہے کہ مرد کے کسی عورت کو محض شہوت سے دیکھنے یا چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، شرعا چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

6۔شہوت سے دیکھنے یا چھونے کی صورت میں اس وقت انزال نہ ہوا ہو، اگر اسی وقت انزال ہوگیا تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔

(2) اگر باپ پیار و شفقت کی بنا پر اپنی بالغ بیٹی کو بوسہ دے اور اسے پیار سے چومے تو بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام نہیں ہوگی البتہ اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت پیدا ہوجائے یا

بوسہ دینا اور چومنا شہوت کیساتھ ہو اور اگر پہلے شہوت تھی تو وہ بڑھ گئی ہو تو اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجائے گی، نیز اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت کا غالبِ گمان ہو تو اپنی بالغ بیٹی کو چومنا یا بوسہ دینا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی:(وأصل ماستہ وناظرة الی ذکرہ والمنظور الی فرجہا) المدور (الداخل).. …(قولہ : فلاحرمة) لانہ بانزال تبین أنہ غیرمفض الی وط ء ھدایة…. فان أنزل لم تبت والا ثبت لا انھا ثبت بالمس ثم بالانزال تسقط ؛ لأن حرمة المصاہرة اذا تثبت لاتسقط أبدا ایچ ایم سعیدکمپنی

فتاوی عالمگیری :ووجود الشھوة من احدھما یکفی وشرطہ أن لاینزل حتی لوانزل عندالمس أو النظر لم تثبت بہ حرمت المصاہرةکذا فی التبیین . قال صدر الشہید وعلیہ الفتویٰ کذا فی الشمنی شرح النقایة : ولومس فأنزل لم تثبت بہ حرمة المصاہرة فی الصحیح لانہ تبین بالانزال انہ غیر داع الی الوط ء .کذا فی الکافی۔ ( ج:1مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

 

عورت کو چھونے کے بعد انزال سے حرمت مصاہرت کا حکم

سوال :اگر کوئی شخص کسی عورت کو شہوت کیساتھ ہاتھ لگائے یا گلے لگائے یا گلے لگاتے ہی انزال بھی ہوجائے لیکن اس میں برہنہ کچھ نہیں کیا ہو تو کیا اس عورت کے بچوں کیساتھ اس مرد کی شادی ہوسکتی ہے؟۔یا اس عورت کے بچوں کے ساتھ اس مرد کے بچوں کی شادی ہوسکتی ہے؟۔

جواب: واضح رہے کہ حرمت مصاہرت جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا اور شرائط معتبرہ کیساتھ دواعی زنا ( شہوت کیساتھ چھونے اوردیکھنے) سے بھی ثابت ہوجاتی ہے،مس یعنی چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہونے کیلئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو۔اگر انزال ہوگیا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

 

سوتیلی بیٹی کے ہاتھ میں زبردستی آلہ تناسل پکڑوانے…..

سوال :ایک شخص نے مطلقہ سے شادی کی۔ شادی کے بعد اس مطلقہ بیوی کی تیرا سالہ بیٹی کے پیٹ کو چھوا،اوراس کے ہاتھ میں زبردستی اپنا آلہ تناسل پکڑوادیا، تو کیا اس شخص کا نکاح اس مطلقہ سے برقرار رہا یا ٹوٹ گیا؟۔

جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی اپنی بیٹی ( چاہے سوتیلی ہو یا سگی)………… صورت مسئولہ میںاگر سوتیلے باپ کو اس وقت انزال نہ ہوا ہو تو حرمت مصاہرةقائم ہوگئی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے اور دونوں کا مزید ساتھ رہنا شرعاًدرست نہیںہے جس کی وجہ سے شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر یا نکاح سے خارج کرنے کے الفاظ کہہ کر اس سے علیحدگی اختیار کرے۔

 

ساس کے پستان کو چھونے سے حرمت مصاہرت کا حکم

سوال:ایک شخص نے دھوکہ سے ساس کے پستان کو پکڑلیا،شہوت کا پایا جانا توظاہر ہی ہے ………چانچہ فتاویٰ ہندیہ میں: ولو اخذ ثدیھا وقال ما کان شھوة لا یصدق لان الغالب خلافہ وکذا فی الشامی، البحر والمیط (اور اگر اس کو پستان سے پکڑلیا اور کہا کہ شہوت نہیں تھی تو تصدیق نہ ہو گی اسلئے کہ یقینِ غالب اسکے خلاف ہے)۔اس جزیہ میںفقہاء نے لفظ اخذ استعمال…
جواب: …. لمس کے بجائے ”اخذ ” کا تذکرہ عرف کی وجہ سے ہے۔ ….

فتاوی دارالعلوم دیوبند :زید شہادت دیتا ہے کہ عمر اپنے فرزند کی زوجہ ہندہ کیساتھ برہنہ لیٹا ہوا تھااور زوجہ کے پستان پکڑے ہوئے تھا ، خالد شہادت دیتا ہے کہ عمر نے فرزند کی زوجہ کا بوسہ لیا، حرمت مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں؟

الجواب: پستان کا پکڑنا شہوت کیساتھ تھا یا نہیں؟۔ اسی طرح بوسہ میں بھی شہوت کا ذکر نہیںہے اور بوسہ دینا ایک گواہ کا بیان ہے اور پستان پکڑنا ایک شخص کا بیان ہے ۔دوگواہ امر واحد پر متفق نہیںلہٰذا حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
٭٭

 

حرمت مصاہرة کے غلط مسائل سے جان چھڑانے کا قرآنی حل

سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہۖ نے ”حرمت مصاہرت” پر ایسا بیہودہ درس نہیں دیا۔فرمایا: ”تم بھی اہل کتاب کے نقش قدم پر چلوگے ۔ اگر ان میں کوئی گو کے سوراخ میں گھسا ہوگا یا کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو تم میں بھی ایسے افراد ہونگے”۔ قرآن نے اہل کتاب کے مذہبی طبقے کا بتایا کہ” اس کی مثال گدھے کی ہے جس پر کتابیں لادی گئی ہوں”۔ اور یہ بھی ” اس کی مثال کتے کی طرح ہے ، جس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپے اور چھوڑ دو تو بھی ہانپے”۔ ( الاعراف:176۔الجمعہ:5)

حرمت علیکم امہاتکم …….وامھات نسائکم وربائبکم الاتی فی حجورکم من نساء کم الاتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ماقد سلف ان اللہ کان غفورًا رحیمًا

”تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں………اور تمہاری عورتوں کی مائیںاور تمہاری وہ لے پالک جو تمہارے حجروں میں پلی ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن کے اندر تم نے ڈال دیا ہے اور اگرتم نے ان کے اندر نہیں ڈالا ہے تو تمہارے اوپر حرج نہیں اور تمہارے سگے بیٹوںکی عورتیں۔اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے سے گزر چکا ہے۔بیشک اللہ مغفرت والا رحم والا ہے”۔ (سورہ النسائ:23)

قرآن نے حضرت آدم وحواء کا قصہ ایسے الفاظ میں ذکر کیا کہ” لوگوں کو آج تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ وہ کوئی درخت تھا یا شجرہ نسب ؟جس سے منع کیاگیا”۔ مشرکوں کا فرمایا کہ ”پھرجب مرد نے اس کو چادر اُوڑھادی تو اس کو ہلکا حمل ٹھہرا، جس کو لیکر وہ چلتی رہی، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ ہمیں تندرست بچہ دیا تو ہم شکر گزار ہوں گے۔ پھر دونوں کو تندرست بچہ ملا تو دونوں اس کا شریک ٹھہرانے لگے”۔(الاعراف:189،190)

ایک توطلاق کے مسائل کی قرآن نے بھرپور وضاحت کی ہے جسے علماء نے نظرانداز کیااور دوسرا حرمت مصاہرت کے مسائل کو قرآن نے بہت واضح کردیا تاکہ سادہ لوح عوام کو انسانوں کی شکل میں گدھے اور کتے ورغلا نہیں سکیں۔

نکاح کے بندھن کیساتھ اپنی عورت میں ڈالنے کی وضاحت اور نہ ڈالنے کی صورت میں جائز ہونے کا تصور حنفی شافعی مسالک کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ایک طرف شافعی مسلک کی گنجائش نہیں بنتی اسلئے کہ نکاح سے زیادہ اہم ڈالنا ہے اور دوسری طرف حنفی مسلک کے بیہودہ مسائل کو بالکل ملیامیٹ کردیا کہ نکاح اور ڈالنے کی صریح وضاحت کردی ہے۔جس کے بعد شہوت سے چھونے اور فرج داخل کو دیکھنے وغیرہ کے بکواسات کی قطعی طور پر گنجائش نہیں رہتی ہے۔

عن زید بن براء عن ابیہ قال: لقیت عمی ومعہ رایة فقلت لہ این ترید ؟، قال: بعثنی رسول اللہ ۖ الی رجلٍ نکح امرأة أبیہ فأمرنی ان اضرب عنقہ واخذ مالہ ”زید بن برائ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ میری اپنے چچاسے ملاقات ہوئی اور میں نے کہا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟۔ اس نے کہا کہ رسول اللہۖ نے میری تشکیل کی ہے ایسے شخص کی طرف، جس نے اپنے باپ کی عورت سے نکاح کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اس کی گردن ماردوں اور اس کا مال لے لوں”۔سنن ابی داؤد ۔ شیخ الالبانی اورشیخ زبیر علی زئی نے صحیح لاسناد قراردی۔

دارالعلوم کراچی نے شادی بیاہ میں نیوتہ لفافہ کے لین دین کو سود اور کم از کم گناہ اپنی ماںسے زنا کے برابر حدیث سے قرار دیا اور پھر عالمی سودی بینکاری کو جواز فراہم کردیا۔ کہاں حدیث میں محارم پر قتل کا حکم اور کہاںیہ حیلہ سازیاں؟۔

امام ابوحنیفہ نے بادشاہ کی خواہش پوری نہیں کی اسلئے جیل میں زہر سے شہید کردئیے گئے۔ امام ابویوسف نے معاوضہ لیکر باپ کی لونڈی بادشاہ کیلئے جواز کا حیلہ نکال دیا۔ پھرامام ابوحنیفہ پر تہمت باندھی کہ شہوت کیساتھ چھونا بھی حرمت مصاہرت قرار دیا ہے۔پھر ساس کی داخلی شرمگاہ تک شہوت کی نظر سے دیکھنے پر حرمت مصاہرت کے مسائل پہنچاکر دم لیا۔ جس میں بیہودہ پن کی انتہاکردی ۔ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کشف الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی کے دلائل کو وزنی قرار دیکر حنفی بیہودہ مسائل سے جان چھڑانے کی بنیاد ڈالی ۔ایک مدرسہ کے بڑے مفتی نے بتایا کہ” اکابرعلماء نے حرمت مصاہرت کے مسائل سے جان چھڑانے کیلئے میٹنگ کی تھی”۔مفتی تقی عثمانی جان چھڑانے کیلئے نہیں مان رہا؟۔

” ایک شخص کی عورت فوت ہوگئی ۔ علی نے پوچھا کہ اس کی بیٹی ہے؟۔وہ شخص: ہاں۔ علی: تم سے ہے یا کسی غیر سے ؟۔ شخص: غیر سے ہے۔ علی: تمہارے حجرے میں پلی ہے یا باہر؟۔ شخص: باہر۔ علی : پھر اس سے نکاح کرلو”۔ ( مصنف عبدالرزاق ،ابن حجر عسقلانی۔کشف الباری) یہ شافعی مسلک والوں کا من گھڑت غلو ہے جس میں سوتیلی بیٹی کیساتھ شادی کے جواز کا قصہ گھڑا گیا ہے۔ دوسری انتہاپر حنفی مسلک نے امام ابوحنیفہ پربیہودہ تہمتوں کے انبار لگادئیے ہیں۔

ایک طرف انڈیا کے فلموں ، ڈراموں اور معاشرے کی بدترین صورتحال سے لوگ اسلامی ، قومی اور اخلاقی غیرت کھوگئے ہیں تو دوسری طرف شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن لاہوراور شیخ الحدیث مولانا نذیرفیصل آباد جیسے اسکینڈل زدہ علماء کے شاگرد مسند افتاء وارشاد پر انتہائی بیہودہ فتوے جاری کررہے ہیں۔ مذہب ایک کاروبار بنادیا گیا ہے اسلئے غیرت ایمانی مسلمانوں سے رخصت ہورہی ہے۔

جاوید احمد غامدی نے ”مرد وعورت کا مصافحہ” پر کہا کہ ”ہندمیں رواج نہیں۔ ملائشیا میں شافعی خواتین کا ماحول مذہبی ہے وہ مصافحہ کرتی ہیں”۔غامدی کو حنفی نزاکت کا پتہ نہیں ہوگا کہ حنفی فقہ کے مسائل میں کیا قباحت اور خباثت ہے ؟۔

میں نے37اور40سال پہلے فقہ واصول فقہ اور تفسیر پڑھی تھی تواللہ والے اساتذہ تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے فرمایا کہ” فقہ، اصول فقہ اور تفسیر کی کتابوں اور درسِ نظامی کوآپ درست کرسکتے ہو”۔ آج ایسے نالائق افتاء کی مسند پر بیٹھے ہیں جن کو صرف اپنی نوکری اور مدارس میں گاہک پکڑنے سے غرض ہے۔ جبکہ مفتی محمود اور مولانا سیدمحمد بنوری کے قاتلوں کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔
٭٭

مشہور شیخ الحدیث اور مفتی نے سنایا: ”فقہاء نے حلالہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیااسلئے کہ جب بادشاہ ، اور سردار کی بیوی کا حلالہ کردیتے تھے تو وہ آنکھ نہیں اٹھاسکتا تھا۔ ایک نواب کی بیوی ایک مولانا کو پسند آئی تو اس نے کہا کہ پیشاب کرتے ہوئے تیرا رُخ قبلہ کی طرف تھا،بیوی طلاق ہوگئی۔ پھر تجویز دی کہ اس کا نکاح مجھ سے کردو، کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ نواب نے دیکھا کہ ایک دن مولانا نے پیشاب کرتے ہوئے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا تو کہا کہ بیوی تجھ پر طلاق ،تو اس نے کہا کہ میں نے چیز کا رخ موڑ ا تھا”۔ مولوی حضرات عوام الناس کے خاندانوں کو تباہ کرتے ہیں لیکن جب اپنا مسئلہ ہو تو پھر دیانت سے کام لینا تو دور کی بات ہے۔ ننگے لیٹے پستان کو پکڑنے کیلئے بھی لکھا کہ شہوت کا ذکر نہیں اور گواہ متحد نہیں۔اللہ نے فرمایا یا اھل الکتٰب لا تغلوافی دینکم غیر الحق ”اے اہل کتاب دین میں ناحق غلو مت کرو”۔یہ غلیظ مسائل اہل کتاب نے چھوڑ دئے فقہاء نے رائج کردئیے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وَبدَّلنَاھُم بِجَنَّتَیھم جَنَّتَین ذَوَاتَی اُکُلٍ خَمط واَثلٍ وشَی ئٍ مِن سِدرٍ قَلِیل ”اور ہم نے انکے دو جنت کو بدل دیا ،دو ایسے جنت بے ذائقہ پیلو اور کریرہ والے اور کچھ کم تعداد بیروں کی ”۔( سورہ سبا:16)

سورہ الرحمن، الاعراف ، المرسلٰت ،الحج، الواقعہ اور سورہ الدھر میں انقلاب عظیم کی خبر اور خلافت کا گزشتہ شمارہ میںبتایا۔ فارس، خراسان، ہند، سندھ اور مشرق کی احادیث ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے سورہ القدر کی تفسیرمیں لکھا کہ ” اسلام کی نشاہ ثانیہ کیلئے قرآن ضروری ہے۔پنجاب، کشمیر ،سندھ، بلوچستان، فرنٹیئراور افغانستان میں جو قومیں بستی ہیں یہ امامت کی حقدار ہیں۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلہ میںلائے توبھی ان علاقوں سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے۔ نشاہ ثانیہ کا یہی مرکز ہیں۔( المقام المحمود) فرنٹ لائن پاکستان کی فرزانہ علی توجہ دیں۔

کانیگرم وزیرستان اورگومل ڈیرہ اسماعیل خان قوم سبا کے مصداق ہیں۔ جہاں کا امن وامان دہشت گردی میں بدل گیا۔ لذیذ باغ کے بدلے پیلو کے پھیکے چیونگم اور کریرہ کے پھل اور بیری کے چند درخت نشان ہیں۔

وزیرستان میں دہشتگردی کی بنیاد ڈیڑھ سوسال پہلے پڑی۔ وزیرستان کا امن وامان بہت مثالی تھا۔ برطانیہ نے دہشتگردی کے واقعات کو1900میں کتاب میں شائع کیا۔ قبائلی ملکان کوقابل شرم وظیفہ کچھ عرصہ پہلے تک دیتاتھا۔ پھرحکومت پاکستان نے غالباً بینظیر انکم سپوٹ کے تحت اپنے ذمہ لیا ۔
وزیراعظم متحدہ ہندوستان جواہر لال نہرو نے جب باچا خان کیساتھ جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا تو قبائلی ملکان سے کہا کہ چند ٹکے سے انگریز کے ہاتھوں مت کھیلو۔ جس پر یہ کہہ کر ورغلایا گیا کہ تمہیں گالی دی گئی ہے۔

اگرگالی تھی توپھرچند ٹکوں کے لفافے آج کھانا بند کیوں نہیں کئے؟۔ یہ زکوٰة و خیرات غریب غربائ، مساکین فقراء اور بیوہ و یتیم بچوں کا حق ہے جو خان و ملک کھارہے ہیں۔
قبائلی مستحکم اقدار کو ملکان نے تہس نہس کیا اور قومی اسمبلی میں بکنے کا رواج بھی انہوں نے ڈالا۔ پچ کے دونوں طرف دہشگردی کا بازار گرم کرنے میں بھی انہی کابڑاکردار تھا۔
جب ملک منہاج کے بھائی ضیا ء الدین نے بتایا کہ گوانتا ناموبے کی قید سے آزادی پر عبداللہ محسود نے سب ملکان کو رلادیا تو میں نے اس وقت لکھا کہ” ملکان خدا کیلئے تو کبھی روئے نہیں۔اسکے پیچھے بھی لفافوں کا چکر لگتا ہے”۔ ملکان فوج و طالبان کے درمیان ڈبل گیم کھیلتے تھے۔ مصطفی نواز کھوکھر نے فرزانہ علی کو بتایا کہ وزیرستانی کو فوج نے سند دی کہ ”اسکے دوبیٹے فوج کی طرف سے طالبان سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے”۔ لیکن پھر بھی فوج نے اس کا شناختی کارڈ بلاک کردیا تھا۔

سورہ سبا میں سیل العرم سے شدت پسندی اوردہشت گردی کی لہر مراد ہے۔

 

سیل کے معنی لہر ، طوفان ، سیلاب اور عرم کے معنی شدت ، تیزی اور سختی کے ہیں۔ پانی کاسیلاب، چوہے اور ٹڈی سے امن وامان کے مقابلے میں بدامنی نہیں آتی اسلئے وہ لہر ہی مراد ہوسکتی ہے جو امن کے مقابلہ میں ہو اور اثل کا معنی بے ذائقہ پھل ہوسکتا ہے جبکہ اس سے سایہ دار درخت مراد نہیں لیاجا سکتا۔ پہلی بار دنیا کے سامنے سیل العرم اور اثل کا درست ترجمہ اور تفسیر آئے گی ۔ انشاء اللہ

 

خلافت کی عظیم پیش گوئی قرآن میں وزیرستان اور گومل کے امن وامان کے بعد دہشتگردی کی لہرکا بڑاواضح تذکرہ

 

بیشک قوم سبا کے شہر میں نشانی ہے، دو باغ تھے دائیں بائیں جانب۔ کھاؤ اپنے رب کا رزق اور اسکا شکر ادا کرو، پاک شہر اور بخشنے والا ربّ۔توپہلوتہی برتنے لگے تو ہم نے ان پردہشت گردی کی لہر بھیجی اور ہم نے بدل دیا انکے دو باغ کو ، دوباغ بے ذائقہ پیلو اورکریرہ والے اور کچھ چند بیری کے درخت۔ یہ ہم نے ان کو بدلہ دیا ان کی ناشکری کا اور ہم ناشکروں کو برا بدلہ دیتے ہیں اور ہم نے انکے اور برکت والے گاؤں کے درمیان بہت گاؤں ظاہری آباد کردئیے تھے اور ہم نے ان میں کئی ٹھہرنے کی منزلیں مقرر کی تھیںکہ اس میں دن اوررات امن کیساتھ چلو،تو کہنے لگے اے ہمارا رب! ہماری اسفاردستاویز میں دوری کردو اور ظلم کیا اپنی جانوں پر، پس ہم نے انہیں کہانیاں بنادیا۔ اور ہم نے ان کوچیرپھاڑ کر تہس نہس کردیا۔
بیشک اس میں صبر شکر کرنے والے کیلئے نشانیاں ہیں اور بیشک ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایاتو سب اسکے تابع ہوگئے سوائے ایمان والے ایک گروہ کے۔ حالانکہ ان پر اس کا کوئی زور نہیں تھا مگر یہی کہ تاکہ ہم جان لیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس سے شک میں ہے؟اور تیرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے”۔ (سورہ سبا:15تا21)

٭

چچا کے گھر کے نیچے کھنڈرجگہ پر باغیچہ تھا اور دوسراباغ ہماری موجود ہ زمین پر تھا۔گھروں کی راہ میں دائیں بائیں کبھی یہی دو باغ تھے۔ان دونوں باغوں کا اجڑ نابھی بڑا تاریخی واقعہ تھا۔

یہ میرے پردادا سید حسن بابو نے نواسوں کو دئیے جو میرا ننھیال تھا اور انہوں نے1923میں جٹہ قلعہ علاقہ گومل خریدلیا تو اس میں دو پھیکے باغ تھے۔ جو ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے بعد میں ختم کردئیے گئے۔اور کچھ بیر کے درخت مزیدار تھے جو کافی عرصہ تک بڑی یادگار تھے۔
دل بند،مظفرشاہ، منور شاہ کا قتل ، حسین شاہ کا کان کٹنا، صنوبرشاہ کا قتل، حسین شاہ کا بیوی سمیت دوافراد کا قتل پھر محمود کا قتل7وزیرانقلابی افرادکے بدلے میں بڑی دہشتگردی کی لہرتھی۔

کانیگرم اولیاء کا پاک شہر تھا،1920سے پہلے روڈ نہیں تھا۔ ٹانک اور کانیگرم کے درمیان کئی رات پیدل چلنے کی منزلیں تھیں۔ جہاں خانہ بدوش سفر میں پڑاؤ ڈالتے تھے اسلئے کہ سامان، عورتوںاور بچوں کیساتھ پیدل سفر تھا۔ بعد میں پھر یہی گاؤں بس سٹاپ بھی بن گئے۔ وزیرستان امن وامان کا بہترین مرکز تھا۔ ٹانک اور کانیگرم تک کاسفرپر امن تھا۔پھر انہوں نے دستاویزکی تبدیلی سے دل بندشاہ کی نوکری پر قبضہ کیااور شجرہ نسب بدلا۔ ( اسفار سورۂ جمعہ آیت:5والا) انہوں نے خودپر ظلم کیا ،دواپنجہ کی تقسیم ، زمین پرجبری قبضہ کیا۔دہشتگردی میں ملوث ہوگئے اور اللہ نے ان کو کہانیاں بنا ڈالا اوران کے دل ودماغ پھاڑ کر تہس نہس کردیا۔

صبر شکر کرنے والوں کیلئے یہ عبرت ہیں ۔ جن بے گناہ لوگوں کو مظلوم بنایا تھا تو وہ ان کے اپنے کمزور عزیز ہی تھے۔ جب دہشتگردی کے مسئلے پر انتہائی منافقانہ کردار ادا کیا تو ابلیس نے اپنے گمان کے مطابق ان کو بالکل سچا پایا ہے اور یہ سب ابلیس ہی کے تابع ہوگئے۔البتہ ان میں ایمان والا اچھا گروہ بھی ہے جو ابلیس کی چالوں میں نہیں آیا۔اگر اتفاق ہو۔ افغان طالبان،TTPاور ہمارے ریاستی ادارے دہشتگردی کیلئے میٹنگ کرنے والوں کو بے نقاب کریں تو امت مسلمہ کی تقدیر بدل جائے گی۔ ابلیس کیلئے استعمال ہونے پر مجبور نہ تھے۔ اللہ نے پرکھا کہ کس کا آخرت پر ایمان ، کون شک میں ہے۔ حضرت محمدۖ کے رب کی نگہبانی ماننی ہوگی۔
٭

 

خلافت کیلئے احادیث صحیحہ کا استدلال ہے لیکن قرآن میں اتنی بڑی خبر کا ذکر نہیں ؟۔اللہ نے فرمایا:
”اورکافر کہتے ہیں کہ ہم پر انقلابی لمحہ نہیں آئے گا۔ کہہ دو کہ کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم کہ تم پر ضرور آئے گاجو عالم الغیب ہے۔ اس سے غائب نہیں آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابرچیز۔ نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر کھلی کتاب میں موجود ہے۔ تاکہ ایمان اوردرست عمل والوں کو بدلہ دے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے مغفرت اور عزت والی روزی ہے اور جو ہماری آیات کو عاجز بنانے کی کوشش کریںان کیلئے عذاب ہے مذموم دردناک اور جن لوگوں کو علم دیا، وہ دیکھتے ہیں جو تیری طرف تیرے رب سے نازل ہوا کہ وہ حق ہے۔اور وہ ہدایت دیتا ہے زورآور تعریف والے کی راہ کی طرف۔ اور کہتے ہیں جن لوگوں نے کفر کیا کہ کیا ہم اس شخص کی نشاندہی کردیں جو کہتا ہے کہ ہمارے تہس نہس کے بعد بھی ہماری نشاة ثانیہ ہوگی؟۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے یا اس پر جنات ہیں؟۔بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے تو عذاب اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (سورہ سبا:3تا8)

مکہ مکرمہ کے شرارتی لوگ نبیۖ کے خلاف سازش کرکے اس وقت کے دہشتگردوں کو بتاتے کہ ایسا شخص جو حجاز کے عربوں کا کہتا ہے کہ تمام ادیان پر اس کا غلبہ ہوگا۔ یہ انقلاب کبھی نہیں آئے گا اور حضرت عمر جیسے بہادروں کو نبیۖ کے خلاف خسرے سردار ابوجہل اور دوسرے سردار ورغلاتے تھے۔ امیرحمزہ نے ایک دفعہ ابوجہل سے کہا کہ اے چوتڑ پر خوشبو لگانے والا!تیری ہمت کیسے ہوئی کہ میرے بھتیجے محمد کو گالیاں دیں؟۔ شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری نے آیت کا ترجمہ پشتو میں یوں کیا کہ ” ان کا سابقہ پڑتا ہے تو تمہیں گانڈ دکھاتے ہیں کہ ہماری یہ مارو۔ ہم کونہ مارو”۔شیخ اپنے مخالف دیوبندی علماء کو بھی مشرک اور گانڈو کہتے تھے۔

اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو اچھے اور بدکردار دنیا کے سامنے آئیںگے۔ مولانا شاداجان پنج پیری نے کانیگرم میں دیوبندی مسلک کے مطابق سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں مانگی تو مولوی محمد زمان نے قادیانیت کا فتویٰ لگادیا۔غلط فتویٰ لگانے پر پھر گالی پڑتی ہے اور کریکٹر لیس بھی سمجھا جاتا ہے۔

ایک طرف اسامہ بن لادن کوتلاش میں کانیگرم تک انگریزوفد لیکر جانا ۔ دوسری طرف دہشتگردوں کو میری نشاندہی کرنا کہ اسلام کی نشاة ثانیہ اور دنیا میں انقلاب کی خبر دینے والا یہ شخص ہے اور اس مشن میں خاتون کا کردارسوالیہ نشان ہے ۔امریکی بلیک واٹر کیلئے کام کرنے والا طبقہ ایک طرفTTPکے لوگوں سے گہرا تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف ان کا مذہبی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا تھا۔ فتنہ الدھیماء کا ذکر حدیث میں ہے۔ دھیما ء کا معنی چھوٹی کالک ہے۔ گرہن کو ”دھن” کہتے ہیں۔ سورج اور چاند گرہن کو دھن سیاہ کی وجہ سے کہتے ہیں۔ اللہ نے آگے فرمایا:

”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کیلئے بشارت دینے والااور ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو۔ کہو کہ تمہارے لئے مقررہ وقت ہے جس سے تم ایک لمحہ پیچھے ہوسکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو۔ اور کافر کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اس پر جو ہاتھ کامعاملہ ہے۔ اورجب آپ دیکھوگے کہ ظالم اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔ بعض بعض کی بات کو رد کریں گے۔ جو کمزور ہوں گے وہ متکبر سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لاتے۔ تکبر والے کمزور وں سے کہیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی؟۔ بلکہ تم خود ہی پہلے مجرم تھے اور کمزور کہیں گے تکبروالوں کو کہ بلکہ تمہارا رات دن کا فریب جاری تھا جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ اللہ کا انکار کریں اور اس کیلئے کسی کو شریک (کسی سے مدد لینے کیلئے)ٹھہرائیںاور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو بہت پشیمان ہونگے ہم طوق کافروں کی گردنوں میں ڈالیں گے۔ وہ اپنے کئے کا بدلہ پائیں گے اور ہم نے کسی بھی گاؤں میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجے مگر ا س کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ جو تم لائے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم مال اور اولاد میں زیادہ ہیں اور ہم کوئی عذاب کھانے والے نہیں ہیں ۔(سبا:28تا35)

جو بے غیرت طبقہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتا ہے ان کو زیادہ ندامت ہوگی۔ انشاء اللہ العزیز

فرمایا:پس آج بعض بعض کو نفع نہیں پہنچا سکتے اور نہ نقصان اور ہم کہیں گے ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا کہ آگ کے عذاب کا مزہ چکھو بسبب جو تم جھٹلاتے تھے۔ اور جب ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی تھیںتو کہتے تھے کہ یہ اور کچھ نہیں بس اس شخص کا ارادہ ہے تمہیں ان سے ہٹادے جن کو تمہارے آباء پوجتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نہیں مگر جھوٹ ہے تراشا ہوا ۔اور کافروں نے کہا ہمیشہ جب حق ان کے پاس آیا کہ یہ کھلا جادو ہے۔ اور ہم نے ان کو کچھ کتابیں نہیں دیں جن کا یہ درس دے رہے تھے اورجھٹلایا ان سے پہلے لوگوں نے اوریہ لوگ تو اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے جو ہم نے انہیں دیا تو انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا۔پس میری پکڑ کیسی ہوگی؟۔ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوںکہ تم اللہ کیلئے دو دو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤپھر غور کرو کہ تمہارے ساتھی کو جنون ہے؟۔وہ نہیں ہے مگر تمہارے لئے ڈرانے والااس سخت عذاب سے ڈرانے والاجو ہاتھوں میں ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں تم سے کچھ بدلہ مانگتا ہوں تو وہ تمہارے لئے ہے۔ میرا اجر اللہ پر ہے۔وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ کہہ دیجیے کہ میرا رب حق پھینک مارتا ہے جو غیب خوب جانتا ہے۔کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل جو ابتداء کرتا ہے اور جس انتہا ء کو لوٹتا ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں گمراہ ہوں تو اپنے لئے اور اگر ہدایت پاگیا ہوں تو جو میرے رب نے مجھ پر وحی کی ہے۔ وہ سننے والا قریب ہے اور اگر آپ دیکھ لیتے کہ جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں پس نہ ہوگی ان کی بچت اور دھر لئے جائیں قریبی جگہ سے اور کہیں کہ ہم ایمان لائے اس پر ۔لیکن ان کیلئے پل کے نیچے بہت پانی بہہ چکا دور جگہ تک ۔ جبکہ پہلے وہ انکار کرچکے اور دور کی جگہ سے غیب پھینکتے تھے۔ اور ان میں اور ان کی چاہت میں حائل کیا جائے گا۔ جیسا انکے جیسوں سے پہلے ہوتا رہا ہے۔ بیشک وہ شک میں شک سپلائی کرتے تھے۔(سبا:42سے آخر )

جیسے آئینہ میں ہر شخص کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے اور نیٹ پر معلومات حالات کے مطابق ملتی ہیں اور دنیا بھر کے جدید آلات سے رگوں تک پہنچنا ممکن ہے اس سے کہیں زیادہ قرآن میں انسان کو روحانی ، جسمانی، تاریخی حقائق کی روشنی میں بھرپور طریقے سے آگاہی ملتی ہے۔ آج کل جرائم پیشہ عناصر کے ڈیٹا سے بہت کچھ برآمد ہوتا ہے۔قرآن کا یہ کمال ہے کہ منافقین کے دلوں تک پہنچتا ہے۔ اگر منافق کو خود پر بھروسہ ہوتا ہے تو اللہ ایسا ماحول بنادیتا ہے کہ منافق سمجھ جاتا ہے کہ فضول کا دلا ہے۔ اللہ منافقوں کو بے نقاب کردے اورہونگے۔ انشاء اللہ

ماموں نے کہا کہ اگر انقلاب آیا تو میری قبر پر پیشاب کرنا مگر دہشتگردی کی میٹنگ کہاں ہوئی؟۔ یوسف شاہ کا کردار کیا؟۔ عورت پر غیرت ؟ اور بہن کی بات آئی تو سائڈ لائن یا کرائم کے پیچھے لگا؟۔

 

وزیرستان اورقوم سبا کے امن وامان کی بنیاد کیاتھی؟، ظالم ظلم سے توبہ نہیں کرتا یا کرائے پر استعمال ہوتو ضمیر بھی مرتا ہے

 

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

 

وزیرستان صدیوں سے امن وامان کا گہوارہ تھا اور باوجود اسکے کہ وزیرستان میں حکومت،حکمران اور ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر امن وامان کی ایسی مثالی صورتحال کیسے ممکن ہوسکی ہے؟۔

 

1:شخصی آزادی:

کا وہ تصور جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ مشہور شخصیت عارف خان محسود کتابوں کے مصنف اور زام پبلک سکول کے پرنسپل نے وزیرستان میں جلسہ عام کیا تھا جس میں اس نے اعلان کیا کہ ”جس خدا کے کان، ناک اور سر ، پیر وغیرہ نہیں یہ تو پھر ایک بوتل ہے”۔
لوگوں کے ہاتھ اپنے کانوں تک گئے لیکن کسی نے عارف خان محسود کے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالا اور جب تک اس نے خود اپنی مرضی سے توبہ نہیں کی تو اس پر ذرہ برابر کوئی دباؤ کسی نے نہیں ڈلا تھا۔

جب کانیگرم کے لوگوں نے مشاورت سے فیصلہ کیا تھا کہ جو رمضان کا روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر جرمانہ ہوگا تو کچھ جوانوں کا روزہ تھا لیکن انہوں نے دن دیہاڑے روزہ نہیں رکھنے کا اعلان کرکے کھلی جگہ کھانا پکایا تھا۔

جہاد کشمیر سے1948میں کوئی مجاہد ایک ہندو چھوٹی بچی لایا تھا تو معروف قبائلی رہنما فرمان اللہ خان عرف خنڈائی شمن خیل نے حکم دیا کہ کہ سیدھا میرے پاس لاؤ۔ پھر اس نے دو افراد مقبوضہ کشمیر بھی بھیج دئیے تاکہ ورثا مل جائیں مگر ورثا نہیں ملے اور پھر ہندو بچی کو اختیار دیا کہ مسلمان ہونا چاہتی ہو یا ہندو بن کر رہنا چاہتی ہو۔یہ تمہاری مرضی ہے۔
بچی نے ہندو بن کر رہنا پسند کیا اور خندائی نے اس کو اپنی بیٹی بناکر پالا۔ جب جوان ہوگئی تو ایک ہندو سے مشتہ وزیرستان میں اس کی شادی کردادی اور پھر اس کا شوہر فوت ہوا تو دوسرے ہندو سے اس کی شادی ہوگئی۔ پھر کافی عرصہ بعد جب دوسرا ہندو شوہر بھی فوت ہوگیا تو فرمان اللہ خان کی ہندو بیٹی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ پھر مسلمان سے اس کی شادی ہوگئی۔ طویل عمر پائی۔ تقریباً چار سال پہلے اس کا ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال ہوگیا اور وہیں پر تدفین عمل میں آئی۔ اس کا نام میرو تھا۔
وافی :خنڈائی شمن خیل : امین اللہ شمن خیل شیر عالم برکی کیساتھ یوٹیوب پر دیکھ لیں۔ خنڈائی اس وقت بھی ننگے سر نماز پڑھتاتھا۔ انگریز کے خلاف انہوں نے اس وقت دیسی توپ کا استعمال بھی کیا ہے جو ابھی وانا کیمپ میں نمائش کیلئے موجود ہے۔

 

قوم سبا میں بھی شخصی آزادی ہوگی اسلئے کہ شخصی آزادی کے بغیر امن وامان کا قیام انسانوں کی جگہ جانوروں کی طرح ہے۔ اقبال نے درست کہاکہ

افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

 

2:مشاورت کا عمل

:جب کوئی بھی اہم فیصلہ ہو تو اس پر پہلے مشاورت کا قرآن میں بھی ذکرہے۔
وزیرستان کے امن وامان میں سب سے بڑی بنیادمشاورت کا عمل تھا ۔ مکمل شخصی آزادی کے بغیر مشاورت کا تصور بھی بے کار بن جاتا ہے لیکن جب تک مشاورت نہ ہو تو قوم کے اجتماعی نظام کا تصور نہیں بنتا ہے۔ حضرت ابوبکر کی خلافت ہنگامی تھی۔ حضرت عمر نامزدگی سے خلیفہ بن گئے ۔ جبکہ حضرت عثمان کی مشاورت میں چندا افراد تھے اور انصار بھی شامل نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ23سال نبیۖ کی محنت سے دنیا کی تاریخ کی سب سے بہترین اور مقدس جماعت صحابہ کے25سالہ دور خلافت میں حضرت عثمان مسند خلافت پر شہید کردئیے گئے اور پھر حضرت علی کے دور میں عشرہ مبشرہ کے صحابہ نے بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔
وزیرستان صدیوں امن وامان کا مرکز تھا ،جب کوئی وزیرستان کی حدود میں داخل ہوجاتا تھا تو وہ اپنی جان، مال اور عزت کا تحفظ پالیتا تھا۔ صحابہ نے اسلام کیلئے قربانی دی تھی۔ حضرت سعد بن عبادہ انصارکے سردار خلافت کے مسئلہ پر ناراض ہوئے اور شام دمشق کے قریب ایک گاؤں میں زندگی کے بقیہ لمحات گزارنے گئے لیکن وہاں بھی جنات نے شہید کردیا تھا۔ جو انسانی جنات بھی ہوسکتے ہیں۔

قوم سبا کے پاس13پیغمبر آئے اور آخر میں وہ دہشت گردی کا شکار ہوئے تو عذاب سے ہجرت کرنی پڑگئی۔ قوم یونس نے کفر کے باوجود جب یہ مانگا کہ آپس میں لڑائی کا عذاب ہم پر نہیں آئے تو اللہ نے ان کفار اور نافرمان قوم سے عذاب کا فیصلہ بھی ٹال دیا اور عذاب کی خبر پر حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں دعا مانگنی پڑگئی کہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ۔ ”کوئی الٰہ نہیں مگر تو پاکی تیری بیشک میں ظالموں میں تھا”۔ امت مسلمہ کو صرف آپس کے لڑنے کا عذاب ہوگا۔

 

3:ظلم کیخلاف متفقہ اقدامات کا کرشماتی تصور

وہ زبردست بنیاد ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال بہت مشکل سے مل سکتی ہے۔ ایک عربوں نے اس وقت حلف الفضول کا معاہدہ کیا تھا جس میں ظلم حد سے بڑھ گیا تھا اور قوم سبا کی بھی یہ صورت ہوگی۔

وزیرستان میں ظلم کے خلاف قوم کا اجتماعی قدم وہ بنیاد تھا جس نے امن وامان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ایک عورت رونقہ کو کسی نے برائی کی دعوت دیتے ہوئے جبر کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ میں خود آتی ہوں۔ وہ بندوق لے کر آئی اور اس کو قتل کیا۔ عورت کا خاندان کمزور تھا ، مقتول کے خاندان نے اسکا محاصرہ کیا تو قوم نے نہ صرف اس خاتون کا دفاع کیا بلکہ اس کیلئے ایک اعزازی قلعہ بھی تعمیر کردیا۔ پھرکون ظلم کی جرأت کرسکتا ہے۔
بیرون ملک سے کوئی شخص آیا تو کسی نے اس کو خاندان سمیت قتل کردیا۔ پڑوسیوں کو تفتیش سے پتہ چل گیا کہ مجرم کون ہے؟۔ میدان میں سب کو اکٹھا کیا اور ایک بوڑھے کو رونے کیلئے چھوڑ کر باقی سب کو قتل کیا اور ان کی لاشیں پل کے نیچے لٹکادیں اور کئی دنوں کے بعد بغیر جنازہ کے دفن کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وزیرستان میں پہلے تو کوئی ظلم کرتا نہیں تھا اور جس نے غلطی سے ظلم کیا تو اس نے بھگتا ۔

یہ تو پچھلے25،30سال قبل کے واقعات ہیں لیکن وزیرستان کے اقدار کبھی اس طرح کی حرکت کی اجازت نہیں دیتے۔آزادمنش قوم کی تباہی اس وقت شروع ہوگئی کہ جب مشیران نے عوام کے فیصلوں میں تاخیر، زیادتی اور ظلم کے عنصر کو شامل کردیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ چوری اور ڈکیتی سے ہوتے ہوئے معاملہ دہشت گردی تک اس وقت پہنچ گیا کہ جب طالبان کا دور دور تک بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ پہلے راستے میں بم رکھے گئے اور پھر قومی مشیران کے گھروں کے دروازے بھی بموں سے اڑائے گئے تھے۔ انگریزی ملکان نے ماحول کو خراب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

 

4:علاقہ اور قوم کے لوگ اپنے اپنے علاقے پر کسی بھی قسم کے جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے

اور جب کوئی جرم کرتا تو علاقہ کے لوگوں کیلئے وہ جواب دہ ہوتا تھا۔ مثلاً برکی قوم بہت تھوڑے لوگ ہیں اور وزیرستان میں ان کا علاقہ بھی زیادہ نہیں ہے لیکن وہ کسی کو اپنے علاقہ میں دشمن مارنے کی کبھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح ہرعلاقہ کے لوگ اپنی اپنی حدود میں جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی نے اپنے دشمن کو قتل کرنا ہوتا تو وہ اپنے علاقہ ہی میں قتل کرسکتا تھا۔ اگر کسی اور کے علاقہ میں اپنا دشمن قتل کیا تو جس سے دشمنی کا حساب تھا تو اس کے علاوہ جس علاقہ میں قتل کیا تو اہل علاقہ بھی اس کو پھر اپنا مجرم سمجھتے تھے اور اس کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا۔

 

5:کسی مجرم کی سہولت کاری بھی جرم تھا۔

ایک مجرم کو رہائش، ہتھیاراور کسی طرح کی مدد کرنے پر سہولت کار بھی جرم میں برابر کا شریک تصور ہوتا تھا اور اس کو مکمل طور پر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا تھا۔

 

اگر کسی کے ہاں کسی کے دشمن نے سہولت کاری حاصل کرلی تو دشمن پھر کوئی مجرمانہ واردات کرنے کی جسارت اسلئے نہیں کرتا تھا کہ اس کو تین طرح کا سامنا ہوتا تھا۔ سہولت کار بھی اس کے خلاف خود بھی مدعی بن جاتا تھا کہ اگرجرم کرنا تھا تومیرا سہارا کیوں لیا۔ ان چیزوں کا دشمن اور دوست سب خیال رکھتے تھے۔ جس طرح اپنی پچھاڑی چھپانے کیلئے کسی سے مدد لینے یا معاوضہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو اس طرح قبائلی رسم واقدار بھی غیرت کا مسئلہ تھا۔

 

6:فیصلہ کرنے کیلئے مکمل آزادی ہوتی تھی

کہ جو فریقین شریعت یا علاقائی رسم پر کسی کو اختیار دیں۔ جب ایک مرتبہ فیصلے کا اختیار دے دیا جاتا تھا تو پھر اس کو نہیں ماننے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور اس پر فائدے اور نقصان کو نہیں اپنی غیرت، عزت اور وقار کو دیکھا جاتا تھا۔ بسا اوقات جگہ کم قیمت کی ہوتی تھی لیکن اس سے کئی گناہ زیادہ نقصان فریق کو صلح کے مراحل اور معزز مہمانوں کی دعوت میں خرچ کرنے پڑتے تھے۔ بکری اور دنبی نہیں بلکہ بکرے اور نبے کھائے جاتے تھے۔ جس کا گوشت اچھا ہوتا تھا اور مہنگا پڑتا تھا۔ وزیرستان کے لوگوں کاDNAاقدار کے تحفظ کیلئے اصیل مرغوں کی طرح ہوتاتھا۔

 

کٹ مر سکتے تھے لیکن اپنی روایت سے وہ نہیں ہٹ سکتے تھے۔ پھر ہم نے بچپن میں اپنے ماموں کے ہاتھوں مولوی کو فیصلہ بدلنے کیلئے رشوت دیتے دیکھ لی۔ وانا سے معزز مہمانوں کیلئے بکروں کی جگہ بکریاں لائی گئیں تو میرے والد کو ان پر بہت غصہ آیا تھا۔ اصل میں وزیرستان کے اندر ان کی دوسری پشت تھی ۔ پہلے ٹانک میں رہتے تھے اور خانہ بدوش بن کر محسود ایریا میں گرمیاں گزارتے تھے۔

 

7:مکان کی تعمیر میں دشمن کو مزدور سے روکنا۔

وزیرستان کی خمیر میں یہ بڑا زبردست رسم ورواج تھا کہ جب کسی تعمیر کی اجازت نہیں دیتے تھے تو پھر وہ مزدور کو بیچ سے ہٹا دیتا تھا۔ کیونکہ قتل کا مسئلہ آتا تھا اور قتل کیلئے مزدور کو استعمال کرنا بھی بے غیرتی تھی اور اس کو مارنا بھی بے غیرتی تھی۔ اسلئے یہ اقدار کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو اس سے بڑی مشکلات کا تصور ہوگا کہ مزدور پر بھی پابندی لگائی جائے لیکن جب مالک خود کام کرے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے؟۔ نہیں پھر ہر صورت میں اس کو قتل ہی کرنا پڑتا ہے اور اگر مزدورکو روک لیا اور مالک کو کام کرتے وقت قتل نہیں کیا تو نسلوں تک بھی کلنگ کا بہت بڑا ٹیکہ ہے۔ ایسی غلطی کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ یہ ہمارے ماموں غیاث الدین نے توڑ دیا تھا۔ علامہ اقبال نے جو کہاہے کہ

اے میرے کہستاں تجھے چھوڑ کر جاؤں کہاں؟
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک

 

اس کے پیچھے فطریDNAکا بہت بڑا فلسفہ ہے۔ ہمارے جن چچیرے کزنوں نے سامنے کی طرف سے وہ لپائی کی تھی جس سے مزدور پر کام بند کیا تھا تو وہ ان میں ایکMBBSڈاکٹر تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کوئی رد عمل نہیں آرہاہے تو پھر آواز لگاکر کہا کہ ”تربور ( چچیرے) کیسی لپائی کی ہے؟”۔ پشتو میں والد کی طرف سے کزن کا الگ اسٹیٹس ہے اور والدہ کی طرف سے الگ ہے۔ عربی میں بھی چچیرے کے الفاظ ہیں۔ انگلش میڈیم نے کزن دونوں کی طرف سے استعمال کرکے فرق کو مٹادیا ہے۔ حالانکہ وزیرستان اور پشتون کلچر کا اہم حصہ ہے۔ جیسے علماء ومشائخ میں معاصرت کا لفظ مخصوص معنوں میں دشمنی اور عصبیت کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح تربور کے لفظ کی بھی خاص چاشنی ہے۔ دوسرے ماموں سعدالدین نے کہا کہ یہ لوگ ڈرپوک ہیں تو میں نے کہا کہ کانیگرم پر اتنی بڑی تہمت مت باندھو۔ اگر واقعی میں وہ بزدل ہوتا بھی تو وزیرستان کی مٹی کے روایات میں یہ گولی مارنے کے برابر ہے لیکن جب حقائق اس کے منافی ہوں تو پھر کسی کی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

8:وزیرستان کے محسود اور وزیر کے قانون میں یہ فرق ہے کہ محسود میں کمزور وقتی طور پر فیصلہ کرلیتا ہے اور جب اس کو موقع ملتا ہے تو اپنا بدلہ لیتا ہے اور دیت واپس کردیتا ہے لیکن وزیر پہلے فیصلہ نہیں کرتا لیکن جب ایک دفعہ فیصلہ کرلیا تو پھر بدلہ نہیں لیتا ہے۔ جیسے شریعت اور پشتو قانون الگ الگ ہیں ایسے قوموں کے رسم ورواج میں بھی فرق ہے۔

 

9:کسی پر عورت سے تعلق کا الزام لگاکر قتل کیا جائے تو مقتول کا بدلہ وارث نہیں لیتے

لیکن یہ اتنی عار کی بات ہے کہ نسلوں تک بھی عورت کے الزام پر قتل عورت والوں ہی کو بھاری پڑتا ہے۔ اگر خمیر میں مٹی کا ضمیر نہیں ہو تو پھر الزام لگاکر قتل میں بے غیرت کو فرق نہیں پڑتا ہے لیکن ایسا کرنیوالا صرف اور صرف ایمان نہیں بلکہ غیرت ، ضمیر، انسانیت ، پشتو اور ہر طرح کی اخلاقیات سے نکل جاتا ہے۔

 

10:کسی بندے کو مارنے کا بدلہ خاندان کے کسی بھی ایسے شخص سے لیا جاسکتا ہے جس کو مقتول کے وارث اپنی پسند سے منتخب کرلیں۔
یہی وجہ ہے کہ قتل میں پہل کرنے سے لوگ بہت پرہیز کرتے ہیں کہ کوئی ریڑھ کی ہڈی جیسا شخص بدلے کرکے تشریف کے بل بٹھادے گا۔
واضح رہے کہ چند مثالیں عرض کردی ہیں ورنہ تو بہت بڑا موضوع ہے اور وزیرستان کی کہانی جاپان کی کہانی سے زیادہ مزیدار ہے۔ بہت سخت دشمنی کی حالت میں بھی عورت کو قتل نہیں کیا جاتا۔ تعزیت کا سلسلہ چل رہا ہو تو دشمن ایک دوسرے کو قتل کرنا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ رات کی تاریکی میںسوتے وقت حملہ بے غیرتی اور کسی کو قتل کرنے کیلئے معقول وجوہات نہ ہوں تو اسکا قتل کرنا بہت بڑا عار ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ قاتل کی ماں ،بہن، بیٹی اور بیوی پر چڑھا ہوگا۔اسلئے کوئی اس قسم کی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور لالچ کی بنیاد پر قتل تو انگریز نے ہی شروع کرایا جس کی سزا آج قوم بھگت رہی ہے

 

یہی اقدار ہی امن کی ضمانت تھے۔قوم سبا میں امن وامن کیلئے اس قسم کی صفات ہوں گی۔

 

1991میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک محسود کو اپنے والد نے اسلئے بند کرایاتھا کہ اس نے کہا تھا کہ2ہزار روپے میںکسی کیلئے قتل کروں گا۔ اسی سالBBCکا نمائندہ سیلاب محسود میڈیا سے خبر شیئر کرنے جیل میں آیا تھا۔ امان اللہ کنڈی کیلئے جب وزیرستان کے گاؤں پر فوج نے ٹینک توپوں سے چڑھائی کی دھمکی دی تو عوام ڈھول کی تھاپ پر ناچ کر کہہ رہی تھی کہ ہمیں مارو۔ کنڈی حوالہ نہ ہوگا اور پھر مذاکرات میں حکومت سے کہا گیا کہ ہمارے اجداد نے تمہارے اجداد انگریز سے معاہدہ کیا تھا تو اسمیںکسی بھی پناہ گزیں کو حوالہ نہ کرنا شامل تھا۔ پھر یہ خبر چھپی کہ کنڈی کو جیل میںوہ مراعات حاصل ہونگی جو فرار سے پہلے حاصل تھیں۔امریکہ کے حوالہ نہیں کیا جائے گااور اس کیلئے بطور ضمانت ایک اس درجہ کا امریکی شہرت یافتہ شخص ہم مہمان رکھیں گے۔ پھر یہ خبر اخبارات کی سرخی بن گئی کہ رشدی کو ہمارے حوالہ کرو ،کنڈی تم لے لو، رشدی سے زیادہ بڑا مجرم کنڈی نہیں۔تو اس حوالہ سے خبروں پر مکمل پابندی لگی۔ اس وقت میں جیل میں ہی قیدی تھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لاس اینجلس امریکہ کی آگ سے معاشرے کے چھوٹے یونٹ تک دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کی سخت ضرورت ہے؟۔

لاس اینجلس امریکہ کی آگ سے معاشرے کے چھوٹے یونٹ تک دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کی سخت ضرورت ہے؟۔

جب انسانی معاشرے میں بغض ، تکبر، حسد اور لالچ پھیل جائے تو زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ پوری دنیا میں ہر جگہ شیطانی بیماریاں پھیل گئی ہیں۔ کشمیر میں زلزلہ آیا تو امریکہ نے بہت مدد کی تھی ۔ آج لاس اینجلس کی مصیبت پر خوشیاں منانا زوال کی علامت ہے۔ اگر عذاب ہو تو چند درجن افراد کی موت سے بڑا عذاب مسلمانوں پر آیا ہے۔ لاس اینجلس امریکہ کی جنت تھی اور جیسے حضرت آدم وحواء جنت سے نکالے گئے ،ویسے یہ بھی آزمائش کا شکار ہوگئے۔ جمعیت علماء اسلام کے معروف عالم دین قاضی فضل اللہ کی رہائشگاہ لاس اینجلس میں ہے۔ امریکہ کے اچھے لوگوں کا درجہ بلند ہوگا اور گناہگاروں کے گناہ معاف ہوں گے اور نافرمانوں کو اللہ نے اپنی طرف متوجہ کرکے اظہار محبت کیا ۔ امریکہ میں یہود اور نصاریٰ کی خواتین اور مردوں نے جتنے بڑے بڑے جلوس غزہ کیلئے نکالے اور جس طرح عورتیں بلک بلک کر روئی ہیں تو اس کا غزہ کے نام پر چندہ کھانے اور اپنی سیاست چمکانے والے سوچ بھی نہیں سکتے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ کے دماغ میں یہ بات بھی آئے کہ وہ مسلمان جو ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں اور انسانیت سے نفرت کرتے ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانے پر اللہ نے ہمیں سزا دے دی ہے۔ البتہ امریکہ کے جس مقتدرہ میں تکبر ہے، مفاد پرستی ہے اوردوسروں پر ظلم کا احساس نہیں رکھتے تو ان کو سبق دینے کیلئے اللہ نے کام دکھادیا:
” پس قوم عاد نے زمین میں بغیر حق کے تکبر کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے طاقت کے اعتبار سے سخت کون ہے؟۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے ان کو بنایا ہے اور وہ ان سے زیادہ سخت ہے؟۔وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔پھر ہم نے ان پر آندھی بھیجی سراہٹ والی ان نحس دنوں میں، ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں۔اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوائی والا ہے اور ان کی مدد نہیں ہوگی۔(حم سجدہ:15،16)
معروف سامعہ خان نے چند دن پہلے کہا تھا کہ نحس کے دن پاکستان نہیں امریکہ کیلئے ہیں وہاں تباہی آسکتی ہے۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایام نحس میں امریکہ کو قوم عاد کی طرح اللہ نے اپنی گرفت میں لیا۔ اس تنبیہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوسال پہلے جاپان میں آگ کے بگولوں نے تباہی مچائی لیکن اس کا قرآن نے بہت پہلے سے بطور تنبیہ ذکر کیا ہے۔
امریکہ اور جن لوگوں نے بھی تکبر کیا تو ان پر اتمام حجت کے بغیر اللہ کا عذاب نہیں آسکتا۔ قوم عاد امریکہ کی طرح بڑی مضبوط قوم تھی اور معاشرے میں نچلی سطح پر لو کیٹہ گری کے لوگ مضبوط نہیں ہوتے لیکن بے شرم اور ڈھیٹ بہت ہوتے ہیں۔
فاستفتھم اھم اشد خلقاً ام من خلقناانا خلقناھم من طین لازب (سورہ الصافات:11)
”پس ان سے پوچھئے کہ ان کی تخلیق زیادہ سخت ہے یا جو ہم نے بنایا؟۔بیشک ہم نے ان کو بنایا چکنی مٹی ہے”۔ یہ چپکو مخلوق بہت چکنے گھڑے ہیںجن کو اپنے سے دور کرنابڑا مشکل ہے۔
لایکلف نفسًا الا وسعھا لھا ما کسبت وعلیھا من اکستبت ”کوئی جان ذمہ دار نہیں مگر اپنی وسعت کے مطابق ،جو اس نے اچھاکمایا وہ بھی اس کیلئے اور جو اس نے برا کمایا وہ بھی اس پر پڑے گا”۔(البقرہ)
حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ” اسکے بیٹے حسان نیازی کو غلط سزا دی گئی ۔ اس پر تشدد ہوا مگر برداشت سے زیادہ اللہ تکلیف نہیں دیتا”۔یہ غلط ترجمہ و تفسیر ہے ۔ اللہ نے طاقت سے زیادہ تکلیف کی بات نہیں کی بلکہ ”ہم پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا جیسے ہم سے پہلوں پر ڈالا”۔(البقرہ آخری آیت)
امریکہ نے روس کیخلاف مسلمانوں کو استعمال کیا توبہت برا کیا لیکن مسلمان خود بھی ایکدوسرے کیخلاف استعمال ہوگئے۔ لاکھوں افغانیوں نے اپنے افغانیوں کو ماراہے اور پاکستانیوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے۔ یہ کس کے کھاتہ میں جائیں گے؟۔ اگر ہم ایک ماحول کا فائدہ اٹھاکر کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان مرد اور عورت نے اگر بدکاری کی یا قتل کئے ہیں لیکن وہ ایک ماحول کی وجہ سے تھا اور اللہ نہ صرف تو بہ کرنے پر ان کو معاف کرسکتا ہے بلکہ گناہوں کے بدلہ میں نیکیاں بھی دے سکتا ہے۔ فرمایا:
”اور رحمن کے بندے زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل مخاطب ہو تو سلام کہتے ہیں۔جو اپنے رب کیلئے رات سجدہ میںاور کھڑے ہوکر گزارتے ہیں۔اور جو کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے بیشک اس کا عذاب بہت تباہ کن ہے۔بیشک وہ بری قیام گاہ اور برا ٹھکانہ ہے اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں۔ان دونوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں۔جو اللہ کیساتھ کسی اور کو دوسراالٰہ نہیں پکارتے۔اور نہ قتل کرتے ہیں مگر حق کیساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔ جس نے ایسا کیا تو بڑے گناہ کو پہنچ گیا ،اس کیلئے قیامت کے دن عذاب کو بڑھایا جائے گا۔ اور ہمیشہ ذلت میں رہے گا۔مگر جس نے توبہ کی اورعمل کیا درست تو ان لوگوں کیلئے اللہ بدل دے گا برائیوں کو نیکیوں سے اور اللہ غفور رحیم ہے۔ اور جس نے توبہ کی اور عمل کیا درست تو بیشک اس نے اللہ کی طرف خوب توبہ کی اور جو لوگ جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو سے سامنا ہو تو عزت سے گزر جاتے ہیں۔اور جب کبھی اپنے رب کی آیت سے ان کو یاد کرایا جاتا ہے تو اس پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتے۔ (فرقان:67تا73)
امریکہ پر یہ مصیبت امریکہ کی عوام اور حکمرانوں کیلئے اللہ کی محبت کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ اگر اس کا انہوں نے مثبت فائدہ اٹھایا۔ فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کیساتھ کھڑے ہوگئے تو عذاب نہیں یہ رحمت کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ ہمارے لئے یہ بہت باعث شرم ہے کہ اپنے آگ میں جلیں تو شہید اور دوسرے جلیں تو عذاب کا تصور کریں۔ اللہ امریکہ کو بھی ہدایت دے جس نے مسلمانوں اور پوری دنیا میں اپنی طاقت کا بہت غلط استعمال کیا ہے۔
جب کسی کے زوال کا وقت قریب ہو اور بڑی مصیبت بھی آن پڑے تو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت انداز میں متوجہ کیا:
” کیاتمہیں پسند ہے کہ کسی کا باغ ہوکھجور اور انگور کا جسکے نیچے نہریں بہتی ہوں اس کے اندر ہرقسم کے پھل ہوںاور وہ بڑھاپے کو پہنچے اور اس کے کمزور بچے ہوں ۔پس اس کو پہنچے بگولہ جس میں آگ ہو ،تو اس کو جلا ڈالے۔اسی طرح اللہ بیان کرتا ہے اپنی آیات کو ہوسکتاہے کہ تم سوچو”۔(البقرہ:266)
امریکہ بڑھاپے کو پہنچ چکا ہے اور لاس اینجلس اسکے کمزور بچوں کا باغ تھا جس کو بگولوں نے جلاڈالا ،جن میں آگ تھی اور اسکا گھمنڈ بھی اللہ نے توڑنا تھا۔ یہ انسانیت کیلئے عبرت ہے۔ لیکن اگر اس میں لوگوں نے اچھائی کا رُخ کیا تو یہ مصیبت بھی اچھائی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ قرآن میں بالکل واضح ہے۔
میرے ماموں سعدالدین کا حال بھی امریکہ کی طرح ہے جس کے کمزور بچوں پربڑی اُفتاد پڑ گئی ہے۔ کبھی اپنے عزیز پیر یونس شاہ پر اپنی ناجائز بدمعاشی جماتا تھا اور کبھی پیر سجاد سے کہتا تھا کہ میں پیسہ دیتا ہوں ،اپنے چچا یوسف شاہ پر عدالت میں مقدمہ چلاؤ۔ پیر سجاد نے کہا کہ یہ تو بڑا ذلیل ہے تو ماموں نے کہا کہ سجادتو بڑا ذلیل ہے آدمی کا پول بھی کھولتا ہے۔اگر اس کو منہاج اچھے مشورے دیتا تو ممکن ہے کہ یہاں تک نہ پہنچتا ۔
جب پہلی مرتبہ مکین جنوبی وزیرستان میں چوروں ، ڈکیتوں اور اغواء برائے تاوان کرنے والوں کیلئے جلسہ ہوا تھا تو میں بھی پہنچ گیا اور اپنے ساتھ چھوٹا پسٹل بھی لیا تھا اسلئے کہ خطرات کا سامنا ہوسکتا تھا۔ رات کو تمام لوگوں کو روک لیا گیا اور گھروں میں مہمانی کیلئے بھیج دیا گیا۔ حاجی قریب خان، منہاج اور ہم چندافراد کو شہر کے قریبی گھر میں بھیج دیا۔ منہاج کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا تو میں نے عزت رکھنے کیلئے اپنا پسٹل دے دیاتھا۔
بعد میں کانیگرم میں پسٹل کا کہا تو منہاج نے کہا کہ ”میں تمہیں اس بوجھ سے آزاد کردیتا ہوں”۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ یہ اور ناراضگی سے کہہ دیا کہ ”میرے لئے بوجھ نہیں اپنی حفاظت کیلئے رکھا ہے”۔ کچہری اور عادت کے بگڑے لوگ معیار اور ضمیر کو نہیں سمجھتے۔ ماموں سعدالدین نے کہا کہ تیرے والد کا موڈ دیکھا تو دوبارہ نہیں گیا لیکن اس کو نہیں پتہ کہ اسکے بھائی غیاث الدین کو صبح شام ڈانٹ پڑتی تھی کہ پھر کیا چاہیے ؟۔
حاجی تامین کی زمین ہماری تھی والد نے اپنے دوست حاجی نعمت کو دینی تھی تو غیاث الدین نے علاؤالدین کوپیچھے لگادیا کہ یہ ہمیں دیدے۔ان کوکہا کہ اگر بیچنے کیلئے لیتے ہو تو نہیں دیتا تو انہوں نے کہا کہ رکھنے کیلئے لے رہے ہیں۔ حاجی نعمت بھی لے کر بیچ سکتا تھا مگر اس میں ضمیر تھا۔ اسلئے لالچ نہیں کی۔ میرے بھائی ممتاز نے گھر کا زیور بیچ کر کہا کہ میں لیتا ہوں لیکن والد نے کہا کہ عزیزوں کو خفا نہیں کرتا ۔ ممتاز نے علاء الدین سے بھی کہاتھا لیکن اس نے کہا کہ نفع کی چیز ہے اور اس کو ہر ایک سمجھتا ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ضمیر ، انسانیت اور غیرت کی بات ہے۔ لالچ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
پھر وہ زمین بیچ دی اور جس زمین پر ہم نے شفہ کا دعویٰ کیا تھا وہ بھی علاء الدین نے لے لی۔ حالانکہ وہاں ان کی قریب میں کوئی زمین بھی نہیں تھی۔ جب حاجی تامین کی اتنی بڑی زمین دی اور انہوں نے منافع پر بیچی تو بھی والد خفا نہیں ہوئے تھے۔ اسلئے کوٹ اعظم روڈ پر برکی قبائل کے افراد کو اس طرح بہت زمینیں دی تھیں یہ لوگ تو پھر بالکل اپنے قریبی تھے۔ میں ایک ذہنیت کا گراف بتارہاہوں۔ داؤد شاہ نے پڑوسی سے زمین خرید لی توسعدالدین نے کہا کہ تمہارا مغز اڑادوں گا۔ جس پر اس نے کہا کہ اس پر مغز اڑانا ہو تو بالکل اڑادو۔ پھر اس کے بھائیوں نے کہا کہ ہم متبادل زمین دیںگے اور وہ بہن کے نام پر حوالہ کردی۔ حالانکہ اس طرح زمین دینا اور لینا دونوں غلط ہے۔ داؤد شاہ اتنا اچھا انسان ہے کہ اگر میں اس کو کہتا ہے کہ یہ زمین مجھے دیدو تو خوشی سے دیتا اور اگر سعدالدین کہتا تو خوشی سے دیتا لیکن بدمعاشی کس کو اچھی لگتی ہے؟۔ میں نے داؤد شاہ سے کہا کہ پیرفاروق شاہ، یونس شاہ اور نوازشاہ ان سے بہت اچھے تھے ۔ آپ یتیم بھی تھے، کزن بھی تھے اور بہنوئی بھی لیکن کبھی سعدالدین نے پانچ روپے دئیے ہیں؟۔ حالانکہ بالکل پڑوس میں آمنے سامنے گھر تھا۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ پیر فاروق شاہ نے زبردستی سے بچپن میں سو کا نوٹ جیب میں ڈالا تھا ۔
سعد الدین نے جھوٹ بولا کہ اس نے نثار کی شادی کے موقع پر80ہزار دئیے اور اس کی بھابھی کو بھائی نے اور بہن کو بہنوئی نے طلاق دی تو ان کو میراثی کی اولاد قرار دیا۔ اگر کوئی لوہار اور کوئی میراثی ہو تو اسکے اپنے بچے نہیں بچتے۔ مجھے فخر ہوگا کہ میری والدہ حضرت داؤد کی نسل سے ہوجوزرعے بناتا تھا۔ میں علوی ہوں مگر حضرت فاطمہ کی وجہ سے سید تو جن کی نسل میں سید خواتین ہیں تو ان کو بھی سید ہونے کا حق ہے جبکہ عنایت اللہ گنڈہ پور نے کہا تھا کہ ”کلاچی کا ہررہاشی گنڈہ پورہے”۔
جب فاروق شاہ لوگوں نے اپنی زمین بیچنا چاہی تو انہوں نے پابندی لگادی کہ کسی اور کو نہیں بیچ سکتے۔ حالانکہ ان کی اپنی زمین تھی۔ میرے پردادا نے کانیگرم میں گھر اور زمینیں دیں۔ پہلے اپنی کنسٹریکشن کو گراکر سامان لے گئے اور پھر گھر بھی بیچا۔ ساری تاریخ معلوم ہے ۔ خالہ2000ء میں فوت ہوئی۔ جس کی شادی بھی کانیگرم ہجرت سے پہلے یا اسی وقت ہوئی تھی۔ جو سوتیلے بھائیوں اور ان کی اولاد کو اچھوت کی طرح سمجھتی تھی۔
داؤدشاہ نے کہا کہ انکل نثار نے اچھا نہیں کیا کہ کانیگرم کا گھر بیچ دیا۔ میں نے کہا کہ یہ بات مت کرو ،ورنہ سنائے گا۔ تمہارے والوں نے پہلے یہ کام کیا تھا۔ اس نے کہا کہ اچھا ہوا کہ بتادیا۔ پھر منہاج نے اس کی تشہیر شروع کردی کہ سبحان شاہ کا گھر بیچ دیا۔ تمام معلومات کے باوجود کبھی ہم نے مہم جوئی نہ کی اور کوئی دوسرا بھی نہیں کرتا تھا مگرمنہاج نے ہمارے اجداد کو گالیوں سے لیکر فساد کرانے تک کسی چیز پر بریک نہیں لگائی۔ حاجی سریر شاہ نے کہا کہ دسترخوان کے قریب کتے کے بال ہیں تو منہاج نے کہا کہ کیا پتہ کہ کسی کی داڑھی یا کتے کا بال ہے؟۔ منہاج کا باپ بھی دوسرے کو دباتا تھا اور کوئی نہیں دبتا تھا تو خود دب جاتا تھا۔مگر پھر کچھ خوبیاں بھی تھیں اور میرے نانا میں اس سے زیادہ خوبیاں تھیں۔ اب تو بالکل آسمانی بجلی گری ہے۔
میں نے سیاسی پناہ اسلئے نہیں لی کہ ریاست اور طالبان کے گٹھ جوڑ یا نرم گوشہ میں اس خطے کا مفاد نظر آتا تھا۔ احمدیار اور ضیاء الدین کا بیٹا بے شرمی سے اس واقعہ پر سیاسی پناہ کی کوشش میں تھے۔ محنت مزدوری سے انسان کا وقار بلند ہوتا ہے لیکن جو انگریز کے تھالی چٹ اور ہڈ حرام ہوں ان کو سمجھانا مشکل ہے۔
ماموں چار گھروں کا بڑا تھا وہ بھی ایک اپنا، دوچچااور ایک چچازاد۔ اس طرح 2+2=4 اور لگتا ہے کہ جیسے برطانیہ کے ملکہ کی اولاد ہوں ۔ عابد شاہ نے اپنی تحریر میں اسی وجہ سے غلط ذہنیت کا اظہار کیا تھا۔ کتے میں اچھی خصلتیں بھی ہوتی ہیں مگر پھر بھی انسان کو قرآن نے مذمت کی وجہ سے کتا قرار دیا ہے۔ ایک تو مالک بدلنے کیساتھ اپنی ہمدردیاں بدل دیتاہے۔ دوسرا یہ ہے کہ اونچی جگہ پر پیشاب کرتا ہے اور اپنی ٹانگ اوراپنی دُم بھی اٹھالیتا ہے۔ کتے کی ماں ایک اور باپ زیادہ ہوتے ہیں اور انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہوتا ہے لیکن ماں اور باپ کی رگوں اور نسلوں میں انسان کس پر گیا ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ بہت سارے اونٹ نسل در نسل کسی ایک رنگ کے ہوتے ہیں اور پھر کوئی بچہ الگ رنگ بھی نکلتا ہے جو اپنے پہلے کے کسی رگ پر جاتا ہے۔ میں واقعہ سے پہلے منہاج کو بول چکا تھا کہ میرے دشمن کو جو پالتا ہے تو میں اپنے بچوں سے کہہ چکا ہوں کہ نقاب پوش کے پیچھے مت پڑو۔ پھر واقعہ کا زیادہ نقصان ہوا تھا اور منہاج کا بھائی بھی اس میں شہید ہوا تھا اسلئے انتظار کیا کہ اپنا حساب بعد میں دیکھ لیں گے ۔
اگر منہاج کیساتھ واقعہ ہوتا تو میں اسکے دشمن کو رکھتا پھر کیا ردِ عمل ہوتا؟۔ فوج نے گھر سے پک اپ اٹھائی اور بارود سے اڑادی۔ مہینوں اس کا کچرہ پڑا تھا۔ منہاج نے بتایا کہ” قاری حسین کو میرے گھرکے پاس اکیلا کھڑا دیکھا ۔ ایک دوسرے کو پہچانتے تھے اور بڑی کوشش کی کہ وہ اسکے گھر پر دعوت کھائے لیکن وہ انجان بن گیا۔ پھر سب حیران تھے کہ وہ طالبان سے تعزیت کرنے کیسے جارہاہے مگر طالبان نے اس کو لفٹ نہیں دی تو اس نے بھی چھوڑ دیا”۔ جس کی تاریخ جاسوسی کی ہو تو اس پر کون بھروسہ کرتا؟۔ اتنا سادہ بھی انسان کو نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے خلاف چندافرادکو کیوں ورغلایا گیا؟۔ جو طالبان اور ریاست کی بدنامی کا باعث بنا۔ کسی بھی واقعہ کی تہہ تک پہنچ جائیں تو یہ بہت بڑا بریک تھرو ہوگا ۔ذاتی دشمنی کو ریاست اور طالبان کے کھاتہ سے نکالا جائے تو سرخروئی ہوگی۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مشہور افغانی طالبان رہنما شیخ القرآن والحدیث عبدالحمید حماسی نے حلالہ کے مرتکب کو گناہ کبیرہ میں ملوث قرار دیا

مشہور افغانی طالبان رہنما شیخ القرآن والحدیث عبدالحمید حماسی نے حلالہ کے مرتکب کو گناہ کبیرہ میں ملوث قرار دیا

افغان عالم مشہور مدرس شیخ القرآن والحدیث معتدل مزاج عبدالحمید حماسی نے اپنے درس میں کہا
بعض کے نزدیک سارے گناہ کبیرہ ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں کسی کو گناہ صغیرہ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ان کے نزدیک بھی گناہ صغیرہ کاانکار نہیں بلکہ وہ اس کے قائل ہیں کہ گناہ کبیرہ کی بہ نسبت گناہ صغیرہ بھی ہیں۔ طالبو! یہ بات زندگی میں پہلی بار ہی سن رہے ہوں گے کہ حلالہ کرنے والا اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے تو اس پر رسول اللہ ۖ نے لعنت فرمائی ہے اور یہ بھی گناہ کبیرہ ہے۔ آج شیخ عبدالحمید حماسی نے ایک طر ف حلالہ کو حدیث کے مطابق لعنت قرار دیا اور حلالہ کرنے والا اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے تو دونوں کو گناہ کبیرہ کا مرتب قرار دیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بات کا بھی کھل کر اظہار کردیا کہ ”علماء اور طالبان یہ بات پہلی مرتبہ سن رہے ہوں گے”۔
برصغیر پاک وہند کے علماء ومفتیان نے حلالہ کی لعنت سے خاندان تو بہت جوڑ دئیے لیکن عزتوں کا بھی لنڈا بازار لگادیا ۔ معروف حنفی محمود بن احمد بن موسیٰ شارح بخاری علامہ بدر الدین عینی (پیدائش30جولائی1361، وفات14 دسمبر1451) نے اپنے بزرگوں کے حوالہ سے لکھ دیا کہ ”اگردل میں نیت یہ ہو کہ اس حلالہ کے ذریعے دو خاندان مل جائیں گے توپھر یہ کارِ ثواب ہے”۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حلالہ بڑاگناہ بھی ہو اور اس کو کارِ ثواب بھی قرار دیا جائے تو علماء و مفتیان کے اس تضاد کا کیا نتیجہ نکلے گا؟، دیوبندی بریلوی اور پنج پیری ودیوبندی کے علماء کا مختلف معاملات پر اختلاف ہے۔ ایک چیز کوایک ٹولہ بدعت اور دوسراکارِ ثواب قرار دیتاہے، مذہبی طبقات کی یہ روش بہت پرانی ہے۔ مالکی وحنفی مسلک میں اکٹھی تین طلاق دینا ناجائز، گناہ اور بدعت ہے اور شافعی مسلک میں اکٹھی تین طلاق دینا جائز ،مباح اور سنت ہے۔ امام اسماعیل بخاری نے اپنی کتاب ”صحیح البخاری” میں اپنا زیادہ تر رحجان امام ابوحنیفہ کے خلاف اور امام شافعی کے حق میں ظاہر کیا ہے۔
چنانچہ اکٹھی تین طلاق کے جواز پر ”من اجاز الطلاق الثلاث”باب کا عنوان لکھ دیا ہے اور اس میں آیت: الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان کو نقل کیا ہے ۔
حالانکہ امام بخاری کا اس عنوان کے تحت یہ نقل کرنا100فیصد غلط ہے ۔آیت میں مرحلہ وار الگ الگ مرتبہ میں طلاق دینے کی وضاحت ہے ۔جس کی صحیح بخاری کی کتاب الاحکام ، کتاب التفسیر، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میںنبیۖ کی طرف سے بہت بھرپور الفاظ میں وضاحت ہے۔
اگر طالبان قرآن کی صحیح تفسیراور حدیث کی صحیح تشریح عوام اور دنیا کے سامنے رکھ دیں گے تو اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوجائے گا۔ بہت سارے دیوبندی اور بریلوی علماء ومفتیان نے حقیقت کو سمجھ لیا ہے لیکن وہ کسی خوف یا مصلحت کا شکارہیں۔
دارالعلوم دیوبند نے لاؤڈاسپیکر پر نماز و آذان کو ناجائز قرار دیا تو تبلیغی جماعت100سال بعد بھی اسی پر چلتی رہی اسلئے کہ علماء کا طرز منافقانہ تھا اگر کھل کر کہتے کہ ہمارا فتویٰ غلط تھا تو تبلیغی جماعت مشکلات کا شکار نہ بنتی۔ مولانا فضل الرحمن کہے گا کہ تصویرحرام ہے اور قطعی حرام ہے مگر کیمرے کی تصویر میں اختلاف ہے اور ہم اس اختلاف کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں تو پھر وہی حال ہوگاجس طرح ایک گروہ حلالہ کو لعنت قرار دیتا ہے اور دوسرا کارثواب قرار دیکر عزتوں کی لوٹ بازار سے لطف اُٹھارہاہے۔
ہم نے جاندار کی تصویر کی مخالفت کو شرعی حکم سمجھا تو کھل کر مخالفت کا فرض انجام دیا۔ شرح صدرہوا تو ”جوہری دھماکہ ”کتاب اور اخبار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی وجہ ہے کہ تبلیغی جماعت والے لاؤڈ اسپیکر کے برعکس ویڈیو بنانے پر جلد آمادہ ہوگئے۔
شیخ حمیداللہ حماسی ایک اچھے اور معتدل مزاج شخصیت ہیں لیکن صوفیوں کی مخالفت اور سعودیہ پر مرتد کا حکم لگانا اچھی بات نہیں ہے۔ اس کے برعکس اس کو یہ بات کرنے کی جرأت کرنی چاہیے کہ علماء نے بخاری کی پہلی حدیث ”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے” کے مفہوم میں بگاڑ پیدا کردیا ہے۔ اسلئے کہ علامہ ابن ہمام اور علامہ بدر الدین عینی جیسے بڑے حنفی علماء نے حلالہ کے فعل کو ثواب کی نیت سے کارِ ثواب قرار دیا ہے۔ حماسی صاحب اس بات کا بھی اعتراف کریں کہ ملاعمر مجاہد اور انکے ساتھیوں میں علم کی بہت کمی تھی اسلئے تصویر پر پابندی لگائی تھی اور یہ بہت بڑا تضاد تھا کہ افغانستان میں میڈیسن کے ڈبوں پر تصویر کی پابندی تھی لیکن اسامہ بن لادن کو شادی بیاہ کی تقریب میں ویڈیو بنانے کی اجازت تھی۔ جس کی وجہ سے افغانستان اور اس خطے پر بڑا عذاب آیا اور اس آزمائش سے بہت نقصان پہنچا۔
شیخ عبدالحمید حماسی نے کہا پانی میں حس ہے اور سمندر کی لہریں خوبصورت آدمی کی طرف زور لگاتی ہیں اور بدصورت کی طرف نہیں جاتی ہیں۔ حالانکہ پانی ہاہیڈورجن اور آکسیجن کا مجموعہ ہے اور جس کی اپنی جوڑی دار ہو تو بادل سے پانی برسنے کا نظارہ بھی دکھائی دیتا ہے لیکن تاثیر بہرحال الفاظ میں بھی ہے اور نظر میں بھی تو پانی کی حس بھی بڑی بات نہیں ۔
اسامہ پاکستان نکل گیا، ملاعمر گھر میں چھپ گیا اورافغانی لڑکیوں اور خواتین کیساتھ امریکہ اور نیٹو نے جبراً یا برضاورغبت انتہائی برا کیا جس کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر چلیں اور خواتین نے شکایت بھی کردی۔ اب دوبارہ ایسی صورتحال کی طرف جانے سے طالبان افغانستان کو بچائیں۔ ایسا ماحول قائم کریں کہ دنیا بھر سے اپنی بچیوں اور خواتین کو لوگ تعلیم کیلئے افغانستان بھیجیںاسلئے کہ ان کی جان اور عزت کی حفاظت اور اس کیلئے سخت ترین اسلام کے قوانین کارآمد ہیں۔ پاکستان میں قرار واقعی سزا نہ ہونیکی وجہ سے بہت برے واقعات اپنے رشتہ داروں و پڑوسیوں کے ہاتھوں ہورہے ہیں جن کی مذمت کرنے سے بالکل بھی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
افغانی آپس میں بھی ایک دوسرے کو طعنے نہیں دیں اور دوسروں کو نشانہ بنانے سے گریز کریں اور علم وشعور کو اجاگر کرکے اصلاحِ احوال کا زبردست ماحول بنائیں۔ اپنی تعریف اور دوسروں کی مذمت سے زیادہ اپنی اصلاح پر توجہ دیں، تنقید کو مثبت لیں تو پھر یہ خطہ بالکل جنت نظیر بن جائے گا۔
٭٭

صدیوں سے نالائقوں کا علمی مسندوں پر تسلط اورقرآن کی غلط تفسیر اور احادیث کی غلط تشریح کی زبردست نشاندہی

اللہ نے قرآن کی واضح آیات سے انسانوں کو روشنی دی اورنبیۖ نے اپنی سنت کی وضاحتوں سے رہنمائی فرمائی ہے لیکن اسکے باوجود مسلمانوں پر دنیا میں اندھیر نگری بدترین راج کررہی ہے۔
جب انسان کی پوٹی اور پیشاب کا فطری راستہ بند کردیا جائے تو مصنوعی نالیاں لگانی پڑتی ہیں۔ یہی کچھ مسلمانوں نے اسلام کے فطری نظام کے ساتھ اپنی ڈاکٹرائن سے کیا ہوا ہے۔ پاکستان میں مختلف مقتدر طبقات کے سربراہوں کے ڈاکٹرائن مشہور ہیں جن کی غلط پالیسوں کی وجہ سے ملک میں امن وامان، تعلیم وتربیت، معیشت ومعاشرت اور سیاست وعدالت کا نظام تباہی وبربادی کا شکارہے لیکن اسلام کے خلاف صدیوں سے طبع آزمائی کا مشق ستم جاری ہے اور کسی کو احساس تک نہیں ؟۔
قرآن کی سورہ مجادلہ، البقرہ، النسائ،الاحزاب اور سورہ الطلاق میں بھرپور طریقے سے وضاحتیں موجود ہیں کہ شوہر طلاق دے تو اللہ نے باہمی صلح اور معروف طریقے سے رجوع میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔ جاہلیت کی ایک ایک رسم کو انتہائی ضرر رساں کیڑے مکوڑوں کی طرح چن چن کر ختم کردیا ہے اور دنیا کی تمام اقوام اس پر عمل پیرا ہیں لیکن مسلمان اس سورج کی روشنی سے محروم ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی (پیدائش18فروری1372۔وفات2فروری1449ئ)کا تعلق شافعی مسلک سے تھا اور بخاری کے شارح تھے۔
ہمارے پیر عبدالوہاب شاہ ابھی ریٹارئرمنٹ کو پہنچ گئے۔ جب جمرود خیبر پشاور میں ٹیچنگ کے ٹریننگ سینٹر میں تھے تو پورا حال ٹیچروں سے بھرا تھا اورایک ٹیچر نے بورڈ پر پڑھایا کہ ” خریدنا کے معنی فروخت کرنا”۔عبدالوہاب کو ساتھ والے نے کہا کہ چلو یہ تو جو ہے سو ہے لیکن پورا حال بھرا ہواہے وہ بھی ایسے ہی دیکھ رہے ہیں اور سمجھ نہیں رہے ہیں کہ کیالکھ رہاہے؟۔ ہم نے رمضان کی نشریات میں آنے والے اسلامی سکالر سید بلال قطب کو اپنی کتاب ”ابر رحمت ” پیش کردی تو اسکے ساتھی نے کہا کہ یہ بڑا اسکالر ہے کتاب کی ضرورت ہے؟۔ پھر چند سالوں بعد رمضان نشریات میں سید بلال قطب نے پوچھا: ”اگر شوہر مرجائے تو پھر بیوہ کیا اپنے سسر سے شادی کرسکتی ہے؟”۔مولانا طارق جمیل کی کاپی مولانا آزاد جمیل نے جواب دیا کہ ”ہاں! اگر دوسرا رشتہ نہیں ملتا ہو تو کرسکتی ہے”۔ یہ دونوں جاہل تھے لیکن ساتھ میں مختلف مکاتب فکر کے علماء ومفتیان بھی بیٹھے تھے وہ بھی جاہل تھے اور سننے والے محفل میں شریک اور ٹی وی پر دیکھنے والا بڑا طبقہ بھی جاہل تھا۔ نشرمکررپر بھی یہ پروگرام چلا۔ پھر ہم نے اخبار میں اس جاہلیت کی تردید کردی۔
صحیح بخاری میں قرآن کی آیت229کا بالکل غلط حوالہ دیا گیا ہے جو قرآن کی روح اور ظاہر کے بالکل منافی ہے لیکن اس سے بڑی جہالت پھر ابن حجر عسقلانی نے کی ہے کہ ” دو طلاق اکٹھی ہوسکتی ہیں تو پھر تین بھی اکٹھی ہوسکتی ہیں”۔ پھراسی طرح جہالت کا مظاہرہ بدرالدین عینی نے بھی کیا ہے کہ ”دو طلاق رجعی پر تیسری طلاق کواکٹھا کرنے کا قیاس غلط ہے اسلئے کہ وہ مغلظہ ہے”۔ حالانکہ اس حقیقت کو دنیا کا احمق ترین انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ نے الطلاق مرتانسے الگ الگ مرتبہ طلاق کی وضاحت فرمائی ہے۔ میری اس پر نظر گئی تو چودہ طبق روشن ہوگئے ۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم 5منٹ میں قائل ہوگئے تھے۔
نوازشریف اور عمران خان کی وکالت کرنیوالا طبقہ جس بے شرمی کیساتھ حقائق کو نظر انداز کرتاہے تو مذہبی طبقے کو بھی انہی پر قیاس کرلیجئے گا۔ قرآن کو دنیا پرست کتوں نے نوچ نوچ کر بوٹی بوٹی بنادیا۔ سودی عالمی نظام کو اسلامی قرار دے دیا ہے تو آخر پھر کیا رہ گیا ؟۔ پچھلے شمارے میں مختلف معاملات خاص کر طلاق کی وضاحتیں کردی تھیں۔
شیخ عبدالحمید حماسی کا حلالہ کو گناہ کبیرہ قرار دینا بھی بہت زبردست بات ہے لیکن اگر قرآن سے درست استفادہ کیا جائے تو میں دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ اربوں عیسائی ، ہندو اور مغرب کے علاوہ ترقی یافتہ دنیا پکار اٹھے گی کہ طلاق کے حوالے سے یہ تبدیلی اسلام کا کارنامہ ہے کہ عورت کیلئے صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اور اہلحدیث سمیت باقی مسالک حنبلی، مالکی ، شافعی اور شیعہ سبھی اپنے کھلے دل سے بھرپور اعتراف کریں گے کہ حنفی مسلک کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں ضعیف نہیں صحیح احادیث کو مسترد کرکے بہت ہی اچھا کیا تھا اور یہ اسی محنت اور جدوجہد کا صلہ ہے کہ امت مسلمہ کا قرآن کی طرف رجوع ہوگیا ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ مولوی نے نیت سے معاملہ خراب کردیا ہے۔ تبلیغی جماعت نے بھی اس وجہ سے تصحیح نیت کی رٹ لگائی۔ حالانکہ اچھے اعمال میں ریا کاری ہو۔ شہید، عالم اور سخی جہنم میں نیت کی وجہ سے جائیں گے لیکن حلالہ کی نیت کارثواب کیسے ہوسکتی ہے؟۔ ایک آدمی قتل ، زنا، چوری اور ڈکیتی کرتا ہے اور نیت ثواب کی ہو تو کیا نیت کام آئے گی؟۔ تصوف کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ ایمان دل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے اور پھر نیت بھی صحیح ہوجاتی ہے اور عمل بھی صحیح ہوجاتا ہے۔
انگریز نے لکھا کہ سیدامیر شاہ کی قیادت میں وزیرستان سے محسود قبائل کا نمائندہ وفد گیا تھا کہ انگریز کیخلاف ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اور پھر سیداحمد شاہ کی قیادت میں بیٹنی قبائل کا وفد اسی سال1877میں افغان بادشاہ امیر شیر علی کے پاس گیا تھا۔ انگریز نے وزیرستان کو بھی غلامی سے ہمیشہ کیلئے آزاد قرار دیا ہے۔سرکاری ملکان کی حیثیت گدھا کرائے پر چلانے والی جتنی بھی نہیں تھی۔ افغانستان بھی جن کو وظیفہ دیتا تھا تو وہ عوام کے سرکاری نمائندے بالکل بھی نہیں تھے۔
انگریز نے پاک وہندکو قبضہ کیا اور افغانستان کے حکمران کو بھی گرانٹ دیتا تھا۔ ڈیورنڈلائن کے معاہدہ کی اصل تاریخ1833تھی جو سکھ کیساتھ ہوا تھا اور60سال بعد انگریز نے واخان کو افغانستان کا بھی حصہ بناکر روس کی نظر اندازی کو روکا جس کا نقشہ میں املتاس کے پلی کی حیثیت ہے جس کو پشتو میں ہمارے ہاں خر غنڑ کہتے ہیں۔ افغانستان چین کوریڈور کی وجہ سے ڈیورنڈلائن معاہدے کا اصل فائدہ افغانستان ہی کو پہنچا ہے جو سمجھنے کی بات تھی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اللہ رحمن الرحیم اورنبی رحمت للعالمینۖ لیکن مسلمان فرقے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کو چھوڑ کر ظالم ترین ہیں

اللہ رحمن الرحیم اورنبی رحمت للعالمینۖ لیکن مسلمان فرقے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کو چھوڑ کر ظالم ترین ہیں

سنی شیعہ ، دیوبندی بریلوی اور حنفی اہلحدیث کے علاوہ اب ایک ایک فرقہ بھی کئی کئی فرقوں اورگروہوں میں تقسیم ہے۔ جن کا دھندہ ایک دوسرے پر اپنے اپنے مسلک سے انحراف کے فتوے ہیں۔1957میں دیوبندی مکتبہ فکر کی ایک جماعت ”اشاعت التوحید و السنة”کے نام سے وجود میں آئی جس نے دیوبندی اکابر پر بھی شرک و بدعت کا فتویٰ لگانا شروع کیا۔ پھر یہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا طاہر پنج پیری میں تقسیم ہوئے۔1970کی دہائی میں کانیگرم وزیرستان میں ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف خان فاضل دار العلوم دیوبند تھے۔ جبکہ اپر کانیگرم میں مولانا محمد زمان دیوبندی کا خاندان تھا اور درمیان میں ایک پنج پیری عالم مولانا شاداجان آئے جس نے سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کوبدعت قرار دیا۔ مولانا محمد زمان نے اس پر کفراور قادیانیت کافتویٰ لگادیا۔ مولانااشرف خان خود تو سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کرتے تھے لیکن مولانا شاداجان کو بھی کافر وقادیانی نہیں قرار دیتے تھے۔
پھر میرے والد نے فیصلے کیلئے باہر سے علماء کو بلایا تو انہوں نے دونوں کی بات سن کر فارسی میں اپنا فیصلہ سنایا۔ لوگ منتشر ہوگئے اور علماء چلے گئے تو مولانا محمد زمان نے اپنے حامیوں کے ذریعے ڈھول کی تھاپ پر روایتی ناچ گانے سے اپنی جیت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف مولانا شاداجان کے حامیوں نے بھی ڈھول کی تھاپ پر روایتی ناچ گانے سے اپنی جیت منائی۔
مولانا محمد زمان بعد میں500علماء کی شوریٰ کے سربراہ بن گئے۔ مولانا محمد زمان نے کہا کہ ”منگنی نکاح ہے جس میں طے ہوجاتا ہے کہ ایجاب و قبول ہوگیا”۔ اور ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ پشتون خانہ بدوشوں کی یہ روایت ہے کہ منگنی کے بعد شوہر رخصتی سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے۔ لیکن یہ کاکردگی چھپ کر دکھانی پڑتی ہے۔ اگر موقع پر پکڑا جائے تو بیوی کے خاندان کی طرف سے زبردست قسم کی پٹائی ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوتا ہے تو پھر حمل کے بعد رخصتی کردیتے ہیں۔ پھر نکاح کیلئے دلہن اجازت نہیں دیتی اور خوب مارپیٹ یہاں تک کہ گرم سلاخوں سے بھی داغنے کی نوبت آتی ہے تاکہ شرمیلی دلہن اپنے نکاح کی اجازت کیلئے زبان کھولے۔ اگر منگنی کو نکاح نہ قرار دیا جائے تو پھر سارا معاملہ شریعت کے خلاف ہوگا۔ یہ خانہ بدوش سردی گرمی میں کابل سے دہلی اور ڈھاکہ تک ہمیشہ سفر میں ہوتے تھے۔
مولانا فضل الرحمن کے آباء و اجداد بھی خانہ بدوش تھے اور افغانستان ، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ان کی آزاد نقل و حمل کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ سب سے پہلے چاروں ملک مولانا فضل الرحمن اور تمام خانہ بدوشوں کو اپنی اپنی شہریت دیں اور اس خطے کی تاریخی روایات کو برقرار رکھیں۔ مولانا بڑے ہی زیرک سیاستدان ہیں۔ طالبان ، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم سے نہ صرف دیوبندی مکاتب فکر میں اتحاد و اتفاق کی فضاپیدا کریں گے بلکہ دیگر مسالک ، فرقے اور ادیان کے لوگوں کو بھی متحد و متفق کرنے میں اپنا بڑاکردار ادا کریں گے۔ خاص طور پر بھیڑوں جیسی شریف تبلیغی جماعت کے متحارب گروپوں کو بنگلہ دیش ، ہندوستان اور دنیا بھر میں بھی متحد کریں گے۔ مولانا کو اس بات میں خاص مہارت حاصل ہے کہ افغانستان میں طالبان ، پاکستان میں جمعیت علماء اسلام اور ہندوستان میں جمعیت علماء ہند کا اسلام ایک دوسرے سے انتہائی تضادات رکھنے کے باوجود بھی مولانا چونا لگا دیتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے26ویں آئینی ترمیم میں سب کو خوش کیا اور کس کس کالے سانپ کے دانت توڑ دئیے؟۔ جب مولانا نے قومی اسمبلی میں گرجدار تقریر کی تھی کہ کسی جج ، جرنیل اور بیوروکریٹ کی ہم ایکسٹینشن قطعی نہیں ہونے دیں گے لیکن اداروں کی اصلاح کی بات ہوگی تو ہم ساتھ دیں گے۔
اس تقریر کو سن کر پاکستان کے سیدھے سادے عوام بہت خوش ہوئے کہ مولانا سیاست کے مسیحا بن گئے۔ نواز شریف کی خواہش پر چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو مزید توسیع نہیں ملے گی جس پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف خوش تھے لیکن نواز شریف نے کہا کہ ”ایک آدمی کا گھوڑا دوڑ میں سب سے پیچھے تھا تو اس کو پوچھا گیا (پنجابی میں )کہ تیرا گھوڑا کہاں ہے؟۔ اس نے کہا کہ وہ جس نے سب کو اپنے آگے لگایا ہوا ہے”۔ مطلب یہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی چند سیٹیں ہیں اوراس کی کوئی اہمیت نہیں مگر سمجھتا ہے کہ میں نے سب کو آگے لگایا ہوا ہے۔ اگر اس وقت سرکاری ملازمت کو توسیع مل جاتی تو سارے ملازمین کو ایکسٹینشن مل جاتی۔ جن میںISIچیف ندیم انجم اورفائز عیسیٰ وغیرہ سب شامل تھے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کا قانون تو پہلے سے موجود تھا جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید توسیع کی بھی پیشکش ہوئی تھی جس کا اعتراف عمران خان نے کیا تھا۔ البتہISIچیف جنرل ندیم انجم کو توسیع مل جاتی تو جنرل عاصم منیر مزید کافی عرصہ تک ایک با اختیار آرمی چیف نہ ہوتے۔ بڑی مشکل سے نواز شریف نے ضد کرکے آرمی چیف بنوادیا۔ لیکن جب تک اپنے اعتماد کاISIچیف نہ ہو تو آرمی چیف کچھ نہیں کرسکتا۔ جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے دھرنا دیا تھا تو اس وقت باخبر صحافی انصار عباسی نے کہا تھا کہ جو ہورہا ہے اس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مرضی شامل نہیں۔ پہلی مرتبہISIچیف زیادہ طاقتورہوگئے۔ ن لیگ کی حکومت کے خلافISIسازش کررہی ہے۔
انصار عباسی اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ صحافی شمار ہوتا تھا۔ لیکن پہلی مرتبہ اس کی ہمدردیاں واضح طور پر ن لیگ کے ساتھ تھیں اوروجہ شہباز شریف نے پنجاب حکومت کی طرف سے اسکے گھر تک کروڑوں روپے کا روڈ بنوایا تھا جو ابھی اربوں میں ہوگا۔
کوٹ نواز گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان میں چوری ہوئی تو کتا لایا گیا اور سب پریشان ہوگئے کہ کتا ہے کیا پتہ چلتا ہے کہ کس کی ناک کاٹ دے۔ لیکن جب وہ چلتے ہوئے ایسی راہ پر گامزن ہوا کہ اس طرف مشہور چور کا گھر تھا تو سب کو پتہ چل گیا کہ کتا کہاں جارہا ہے؟۔ اور پھر وہی ہوا کہ کتے نے چور کو پکڑ لیا اورچور نے بھی مانا اورلوگ بھی مطمئن ہوگئے۔
26ویں آئینی ترمیم میں اصل ہدف سید منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا۔ باقی سارے معاملات حلوے کے ساتھ اضافی تھے۔ سمجھ رکھنے والوں نے پہلے سے اظہار کیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو جو ہدف دیا گیا ہے اس کو پورا کرکے دم لیں گے۔ باقی لوگ خوشیاں منارہے تھے کہ آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں اورآخر کار بروقت وہی کام کردیا جس کا ڈر تھا۔ لیکن اس کا فائدہ کیا ہوا؟ ۔ بلوچ خواتین سینیٹروں پر دباؤ تھا یا نہیں ؟۔ ووٹ زبردستی ڈلوانے کیلئے ممبر کی بیوی اورجواں بیٹی اغواء کی گئی یا نہیں؟۔ مولانا کے بندے مسنگ ہوگئے یا نہیں ؟ ۔ تحریک انصاف کے غائب ارکان خود غائب تھے یا نہیں؟۔ مگر عوام کے اندر یہ فضا بن گئی کہ مولانا کے بندوں سمیت خواتین کے اغواء تک جبری نظام پہنچا تو یہ کونسا جمہوری نظام ہے؟۔
ایک آدمی روزہ توڑنا چاہتا تھااور کفارہ سے بچنا چاہتا تھا تو اس نے گاؤں کے لڑکوں سے کہا کہ تم مجھے زبردستی روزہ تڑوادو اور اس کا روزہ بھی ٹوٹ گیا اورکفارہ بھی نہیںدینا پڑا۔ لیکن اس سے روزہ دار بدنام ہوگئے اور روزے اور کفارے کی اہمیت بھی ٹوٹ گئی۔ مولانا فضل الرحمن نے جنرل ندیم انجم کے دانت بھی توڑ دئیے، فائز عیسیٰ کے بھی دانت توڑدئیے، عمران خان اور نوازشریف کے بھی دانت توڑدئیے لیکن پیپلزپارٹی کے نہیں توڑے جس کے بعد جوبلی سرکس کا تماشا لگ گیا۔ جس میں دو بونے لڑتے تھے، پھر ایک مرجاتا ہے اور دوسرا اس کو سیدھا کرتا تھا ، جب اس کا دھڑ سیدھا کرنے کی کوشش میں ٹانگیں سیدھی کرتا تو پیچھے سے وہ اپنا سر اٹھالیتا تھا ،جب سر کو لٹاتا تو پیر اٹھاتا اور کچھ دیر کارٹون کی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا اور آخر پیچھے سے اس کو چوتڑ پر دانتوں سے کاٹ لیتا تھا جس پر وہ اپنی چوتڑ بہت زور سے درد مٹانے کیلئے اسی تختے پر ملنا شروع کردیتا تھا اور لوگ اس کو دیکھ بہت لطف اٹھاتے تھے۔ مولانا کو صدر زرداری نے گفٹ دیا تھا اورپھر بونوں کی کچھ لڑائی بھی شروع ہوگئی۔
چیف جسٹس بندیال نے رات کو عدالت کھول کر صحیح وقت پر عمران خان کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور کیا۔ پھر اس نے جب آئین کے مطابق تین ماہ کی مدت میں نگراں حکومت کو حکم دیا کہ انتخابات کراؤ تو مولانا فضل الرحمن دفعہ144کے باوجود عدالت کی چاردیواری میں کود گیا اور مریم نوازشریف کو بھی ساتھ لیا اور عدالت وسیاست کا بیڑہ غرق کردیا۔ اگر آئینی مدت میں الیکشن ہوجاتا تو نظام پرآج اتنی بد اعتمادی نہ ہوتی ۔
مولانا کو اپنی کنڈیشن کا پتہ تھا اسلئے بلوچستان سے حصہ لیا۔ مولانا نے کہا کہ میرے پاس چشم دید گواہ ہیں کہ وڈیرے کو حکم دیا گیا تھا کہ جمعیت علماء اسلام کو اپنی مرضی کے خلاف ووٹ دو اور سندھ میں جب دھاندلی کا پروگرام تھا تو کچھ نہیں بولامگر وہ مشن ناکام ہوا تب مولانا بول پڑے۔ مولانا نے کہا کہ الیکشن میں اگر دھاندلی نہیں ہوئی ہے تو9مئی کا بیانہ پٹ گیا اور اگر تم نے دھاندلی کی ہے تو پھر مان لو کہ ہم نے دھاندلی کی ہے۔
مولانا اسٹیبلشمنٹ کو9مئی کے بیانیہ پٹنے کی دھمکی صرف پختونخواہ کی حد تک دیتا تھا مگر پنجاب میںPTIسے دھاندلی کا اعتراف بھی تھا اور اس سے9مئی کا بیانیہ نہیں پٹتا تھا ؟۔
مولانا کی یہ سیاست اصول فقہ کی کتابوں میں پہلے اصول ”قرآن” کی تعریف سے سمجھ آجائے گی ۔ گذشتہ شمارے میں جس کی وضاحت کی تھی کہ کتنے تضادات اور جہالت ہے؟۔
مولانا فضل الرحمن مدارس سے حدیث کو بھی ادھورا بیان کررہے ہیں کہ رسول اللہ ۖ یقول نضراللہ امرا سمع منا حدیثا فحفظہ حتی یبلغہ غیرہ فرب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ و رب حامل فقہ لیس بفقیہ
”رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اللہ یہ معاملہ تروتازہ رکھے کہ مجھ سے کوئی حدیث سنے تو اس کو یاد کرے اور دوسروں تک پہنچائے۔ بسا اوقات پہنچانے والے سے وہ زیادہ سمجھ رکھتا ہے جس کو حدیث پہنچائی جائے اور بسااوقات پہنچانے والا خود سمجھ سے عاری ہوتا ہے”۔ یہ حدیث مختلف الفاظ میں نقل ہے اور اصل حدیث کا دوسرا حصہ ہے کہ کسی بندے تک دین پہنچے جو سمجھدار ہو اور یہ دین کو انقلاب عظیم کا بہت بڑا ذریعہ بنادے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب سیاست کی وجہ سے میں قاسم العلوم میں پڑھانے کا وقت نہیں دے سکتا تھا تو تدریس چھوڑ دی اور پھر روزگار کیلئے مدرسہ بنادیا۔ مہتمم حضرات کیلئے مدارس ایک بہترین کاروبار ہے جس سے انکا چہرے نہیں بلکہ بہت کچھ تروتازہ رہتا ہے لیکن دین کو سمجھ کرقبول نہیں کرتے۔ جس کو موقع ملتا ہے تو مادر علمی چھوڑ کر اپنی دکان بنالیتا ہے۔ مولانا منظور مینگل نے کہا کہ” مولوی مرجائے گا لیکن کسی اور کو چندہ دینے والا سیٹھ نہیں بتائے گا”۔جب استاذالعلماء مولانا سلیم اللہ خان کے سیٹھوں پر منظور مینگل قبضہ کرے گا تو یہ کون غلطی کرسکتا ہے کہ مدرسہ کے وسائل پر قبضہ کرنے دے؟۔
اللہ نے فرمایا: الرٰ کتاب احکمت اٰیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم ٍ خبیرٍO”ال ر۔کتاب جس کی آیات کا فیصلہ کیا گیا ۔ پھر حکمت والے خبر رکھنے والے کی طرف سے اس کی ساری تفصیلات بیان کی گئی ہیں”۔(سورہ ہود آیت:1)
اللہ کہتا ہے کہ یہ کتاب میری طرف سے ہے اور علماء نے علم لدنی کسی اور بلا کا نام رکھ دیا ہے۔ اللہ نے واضح کردیا ہے کہ
” یہ کہ تم عبادت نہ کرو مگر اللہ کی ۔ بیشک میں تمہارے لئے اس کی طرف ڈرانے والا اور خوشخبری والا ہوں اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی مانگو۔پھر اس کی طرف توبہ کروتو تمہیں مقررہ مدت تک فائدہ پہنچائے گا اور ہر صاحب فضیلت کو اس کا فضل دیدے گا۔ لیکن اگر یہ پھر گئے تو میں تمہیں عذاب کبیر کے دن سے ڈراتا ہوں۔ اللہ کی طرف تمہارا ٹھکانہ ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ خبردار ! یہ اپنے سینے چوڑے کررہے ہیں تاکہ چھپ جائیں اس سے۔ خبردار ! جب تم اپنے کپڑے ڈھانکتے ہو تو وہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو اعلانیہ کرتے ہو۔ وہ سینوں کی بات جانتا ہے۔ اور کوئی زمین پر چلنے والا نہیں مگر اللہ پر اس کا رزق ہے۔اور وہ اس کے ٹھکانے کو بھی جانتا ہے جہاں اس کو سونپا جائے گا اس کو بھی جانتا ہے۔ ہر چیز کھلی کتاب میں ہے۔ اور وہ وہی ہے جس نے چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کو بنایا ۔ اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے۔ اور اگر آپ کہیں کہ تم نے موت کے بعد مبعوث ہونا ہے تو کہیں گے کہ یہ تو نہیں مگر کھلا جادو۔ اگر ان سے عذاب مؤخر کردیں ایک محدود گروہ تک تو ضرور کہیں گے کہ کس چیز نے اس کو (عذاب دینے سے )قید میں رکھا۔خبردار ! جس دن ان پر (عذاب) آئے گا ۔الایوم یأتیھم لیس مصروفًا عنھم وحاق بھم ما کانوا بہ یستھزئونOوہ اس سے مصروف نہیں ہوگا اور ان کو عذاب اپنے گھیرے میں لے گا۔ جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (سورہ ہود آیت:2سے8)
جس طرح زمین مرتی ہے اور پھر بارش سے اس کی نئی نشو و نما ہوتی ہے ،اسی طرح انسانوں کے ضمیر بھی مرتے ہیں تو نئی نشوونما ہوتی ہے۔ کافر اصل میں نئی بعثت انقلاب کے منکر تھے کہ فتح مکہ کے انقلاب کی خبر کھلا جادو ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اتنی جنگیں ہوئیں۔ بدر، احد اور خندق لیکن جو اکابرین ابوجہل اور ابولہب وغیرہ مرگئے تو کس چیز نے اس انقلاب کو روکاہے؟۔ اللہ نے کہا کہ جب وہ دن آئے گا تو پھر دوسری مصروفیت نہیں ہوگی۔ علماء نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ عذاب ٹلے گا نہیں اور یہ ترجمہ بنتا ہے لیکن سورہ رحمان میں اللہ نے فرمایا کہ عنقریب ہم تمہارے لئے فارغ ہوں گے اے ثقلان!۔ تو وہ مصروف کا معاملہ اسلام کی نشاة اول اور فتح مکہ سے تھا جب ابوجہل کا بیٹا عکرمہ ، ابوسفیان او ر اس کی بیوی ہند وغیرہ کو گھیرے میں لے لیا گیا تھا اور اسی کو وہ جادو سمجھتے تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ مولانا بدیع الزماں وغیرہ کے چہروں کو اللہ نے ترو تازہ رکھاتھا اور ان کو فضیلت بھی بخشی تھی۔ اسلئے کہ حق بات کو سمجھ کر اس کو قبول کرلیتے تھے۔ آج مفتی محمود ، مفتی شفیع ، مولانا شفیع اوکاڑوی ، مولانا شاہ احمد نورانی ، پروفیسرغفوراحمد، مولانا مودودی، علامہ طالب جوہری، امام خمینی، علامہ احسان الٰہی ظہیراور تمام مکاتب فکر کے علماء ربانی موجود ہوتے تو حق کو قبول کرتے۔ مگر مردہ ضمیر اسلام کی نشاة ثانیہ کو محض جادو سمجھتے ہیں اور اللہ کی کھلی آیات کو قبول کرنے سے منکر ہیں۔
اہل حل و عقد کو چاہیے کہ پاکستان جس مقصد کیلئے بنا ہے تو اس کی طرف پیش قدمی کریں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے پھر ان حالات کا سامنا ہو کہ خدانخواستہ کچھ نہ ہوسکے۔ انشاء اللہ پاکستان کی تقدیر میں دنیا کا انقلاب کبیر ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لیلیٰ خالد کا مختصر تعارف اور جمال عبد الناصر کے ساتھ مولانا یوسف بنوری کی دوستی اور ان کے ساتھ تصویر نہ لینے کا قصہ اور مزیدار تبصرہ

لیلیٰ خالد کا مختصر تعارف اور جمال عبد الناصر کے ساتھ مولانا یوسف بنوری کی دوستی اور ان کے ساتھ تصویر نہ لینے کا قصہ اور مزیدار تبصرہ

لیلیٰ خالد نے ابتدائی زندگی سے اسرائیل کے خلاف جہاد کیلئے بندوق اٹھائی اور اپنے چہرے کی سرجری کرواکر متعدد بار جہاز ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ کامیاب اور دوسری مرتبہ وہ شدید زخمی حالت میں گرفتار اور دوسرا ساتھی قتل ہوا۔ ابھی زندہ ہیںمگر گمنام۔CIAاور بلیک واٹر کے مجاہدین کی شہرت ہے کرایہ کے مجاہدین اور جماعت اسلامی اس کا نام نہیں لیتے ہیں۔
لیلیٰ خالد نے جہاز اغواء کیا تو پہلے اسرائیل پھر وہاں سے اپنے گاؤں کا جہاز سے نظارہ کیا اور اپنے فوت شدہ بزرگوں کا تخیل کرکے کہا کہ ہم واپس آئیںگے پھر دمشق لے جاکر مطالبات منوائے۔ دوسری مرتبہ جہاز اغواء کرنے کی کوشش ناکام ہوئی اسلئے کہ دو ساتھیوں کو سیٹ نہیں مل سکی تھی۔ دوسرا ساتھی مارا گیاتو افسوس کا اظہار کیاکہ یہ ہماری مدد کیلئے آیاتھا، جہاز لندن میں اتارا گیا۔ جیل میں پڑھنے کیلئے خواتین کے رسالے لینے سے انکار کیا۔ اخبار میں جمال عبدالناصر کی وفات کی خبر پڑھی تو رونے لگی کہ فلسطین کی آزادی کی آخری امید تھے۔ پھر جہاز اغواء کرکے لیلیٰ خالد کو رہائی دلائی گئی۔ جمعیت علماء اسلام ،جماعت اسلامی اور دیگر فلسطین کے حامی جماعتوں کو اب تو چاہیے کہ لیلیٰ خالد کو پاکستان کی دعوت دے کر اپنی جماعتوں اور عوام کو خواتین کی جدوجہدسے آگاہ کریں۔ یہ وہ مجاہدہ ہے جس نے امریکیCIAکیلئے کام نہیں کیا تو ا س کو دہشتگرد سمجھاجاتا ہے۔ نیٹ پر باکمال مجاہدہ سے آگاہی حاصل کریں۔
٭٭

فوٹو کی حرمت علامہ بنوری
غالبا مارچ میں راقم الحروف پاکستانی مندوب کی حیثیت سے مجمع البحوث الاسلامی کی پانچویں کانفرنس میں شرکت کے لیے قاہرہ گیا تھا، کانفرنس کے اختتام پر سابق صدر جمال عبدالناصر مرحوم نے گورنمنٹ ہاوس میں مندوبین کو ملاقات کی دعوت دی۔ جس شاہانہ کر و فر کا مظاہرہ ہوا اور جو بظاہر مصری حکومت کا خصوصی امتیاز ہے، اس کا ذکر مقصود نہیں۔ ترتیب کے مطابق ہر شخص ملاقات کیلئے جاتا، مصافحہ کرتا اور اسے کچھ کہنے کی خواہش ہوتی تو دوچار باتیں بھی کرلیتا۔ ملاقات اور مصافحہ کے بعد مرحوم نے مندوبین کے اعزاز کیلئے فوٹو گرافروں کو حکم دیا کہ ہر مندوب کا انکے ساتھ الگ الگ فوٹو لیا جائے۔آج کل جلسوں، کانفرنسوں اور عام اجتماعات میں فوٹو اتارنے کا مرض وبا کی شکل اختیار کرچکا ، یہ فتنہ اتنا عام ہوگیا کہ کوئی شخص خواہ کتنا ہی بچنا چاہے، نہیں بچ سکتا، پھر یہ معصیت اتنی پھیل گئی کہ لوگ اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے، دورِ فتنہ نے معروف کو منکر اور منکر کو معروف بناڈالا، گناہوں کی گندگی سے قلب و ذہن مسخ ہوگئے اور کتنے ہی گناہ معاشرے میں ایسے رچ بس گئے کہ لوگوں کے دلوں سے گناہ کا تصور و ادراک ہی ختم ہوگیا۔مصر تو فوٹو کی وبا میں ہم سے بھی چار قدم آگے ہے، مدت ہوئی، وہاں کے ایک عالم شیخ محمدبخیت نے جو شیخ الازہر تھے، اسکے جواز میں رسالہ لکھ کر اس معصیت کو اور بھی عام کردیا۔ اسی رسالہ سے متاثر ہوکر حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے بھی معارف میں اسکے جواز پر مضمون لکھا تھا، امام العصر حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری کے حکم سے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے اس پر ایک تردیدی مضمون لکھا جو القاسم میں شائع ہوا اور بعد میں التصویر لحکام التصاویر کے نام سے مستقل رسالہ کی صورت میں چھپ چکا ہے۔ الحمد للہ حضرت علامہ سید سلیمان ندوِی صاحب مرحوم نے اپنے مضمون سے اور فوٹو کے جواز سے رجوع فرما لیا تھا اور صاف اعلان کردیا تھا کہ: اب میں اسے حرام سمجھتا ہوں۔
خیرعرض یہ کرنا ہے کہ صدر مرحوم کی طرف سے جب اس خواہش کی تکمیل کا اظہار ہوا تو اس عزت افزائی پر مندوبین خصوصا عرب مندوبین کو بڑی خوشی ہوئی کہ جمال عبد الناصر کیساتھ ہمارا یاد گار فوٹو لیا جائیگا۔ ہر ایک نے باری باری صدر کی بائیں جانب کھڑے ہوکر فوٹو کھنچوائے، میں کوئی اِتنا صالح، متقی اور پارسا نہیں ہوں کہ ایسے مواقع میں بھی ان معصیتوں سے بچ سکوں، چنانچہ عام مجمعوں میں بہرحال فوٹو گرافر فوٹو لیتے رہتے ہیں لیکن صدر کیساتھ خصوصی فوٹو اتروانے کیلئے میری باری آنے لگی تو صف سے نکل کر اندر جاکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اِتفاق سے صدر میرے سامنے تھے اور مجھے خوب دیکھ رہے تھے، جب میری باری آئی تو صدر نے دو ازہری علماء سے جو اس وقت ان کے سامنے تھے، کہا کہ جاؤ اور پاکستانی شیخ کو بلاؤ، وہ آکر فوٹو کھنچوائے۔ الحمد للہ اس وقت میری دِینی غیرت جوش میں آئی، دِل نے کہا آج اپنے اکابر کے مسلک پر جمے رہو اور اس اعزاز کو ٹھکرا دو!۔ آج اس حدیث نبوی پر عمل کرنا ضروری ہے: لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔ یعنی معصیت میں کسی امیر کی اطاعت جائز نہیں، امیر کی اطاعت بس جائز امور میں ہے۔ ان حضرات نے مجھ سے کہا: سیادة الرئیس یدعوک لاخذ الصورة معک، جناب صدر آپ کو اپنے ساتھ فوٹو بنوانے کیلئے بلاتے ہیں۔ میں نے کہا: لاحب ذلک، ولیست للصور عندی قیمة دینیة، فلا احبھا میں اسے درست نہیں سمجھتا، نہ میرے نزدیک اس کی کوئی دینی قدر و قیمت ہے۔
(بصائر و عبر، حصہ اول، ص٢٧٢)
تبصرہ: عتیق گیلانی
علامہ سید محمد یوسف بنوری درباری عالم نہیں تھے۔ جنرل ایوب کے دور میں جمال عبدالناصر پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو علامہ بنوری کو بھی بلایا تھا۔ علامہ بنوری نے جنرل ایوب کی ذرا بھر بھی پرواہ نہیں کی تھی ۔ جمال عبدالناصر مصری صدر نے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس سے نہر سوئیز کی ملکیت واپس لی تھی اور فلسطینی اور عربوں کے قومی ہیرو تھے۔ مولانا بنوری کا تقویٰ، خلوص اور دینی غیرت کمال کی تھی۔ مفتی شفیع کا رسالہ انتہائی نامعقول ، حماقت اورمفاد پرستی پر مبنی تھا۔ انگریز کا دور تھا تو تصویر ناجائز ، شرک ، ناقابلِ معافی جرم اور خدا کی تخلیق میں مداخلت لیکن جب ریاستِ پاکستان میں اس پر عمل کا معاملہ آیا تو قطع وبرید کی انتہا کردی کہ ریاست کیلئے جائز ہے، کرنسی پر بھی اجازت ہے، تجارت کیلئے بھی جائز ہے۔ جوہری دھماکہ کتاب میں اس مفادپرستی اور حماقتوں پر وہ گرفت کی ہے کہ درباری علماء کا جنازہ نکل گیاتھا جس میں لکھا تھا کہ ”مزدور کا گارے مٹی کا مکان بنانا بھی اللہ کی تخلیق میں مداخلت ہے لیکن معاف ہے ”۔ نرسری کا بچہ بطخ کا بچہ بنائے تو خدا کی تخلیق میں مداخلت اور فارمی مرغی، گائے، پرندے کوئی مداخلت نہیں؟۔ دنیا میں کتے کی بریڈ الگ الگ مقاصد کیلئے بن رہی تھی تو قرآن واحادیث کے واضح احکام کی انتہائی غلط تشریح کررہے تھے۔
علامہ بنوری کی روح کو تسکین پہنچی ہوگی جب انکے مدرسہ کے طالب نے تصویر کیخلاف بھرپور مہم چلائی اور افغان طالبان نے حکومتی سطح پر تصویر پر پابندی لگائی ۔ علماء حق و درباری ملاؤں میں یہی فرق ہے لیکن جب جوہری دھماکہ میں علم کا جوہر دکھایا تو تبلیغی ، صوفی ، علماء ومفتیان اور سب تصویر کے قائل ہوگئے۔حلالہ کی لعنت، تصویر کی حرمت اور نیوتہ کی رسم کو سود قرار دینے کا مسئلہ علامہ بنوری نے مفتی شفیع جیسے لوگوں پر چھوڑ دیا تھا اور ہم نے بھی شروع میں ان پر اعتماد کیا تھالیکن علامہ بنوری کا مقصد مدرسہ کھولنے سے روایتی علماء پیدا کرنا نہ تھا بلکہ قرآن وحدیث کی سمجھ اور اس پر عمل تھا اور الحمد للہ مجھے اللہ نے شرف بخش دیا کہ انکے مشن کی تکمیل کروں۔فاما بنعمة ربک فحدث ”پس اپنے ربک کی نعمت کو بیان کریں”۔
بنوری ٹاؤن میں حضرت مولانا بدیع الزمان کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں تھا۔ جب حاجی عثمان پر مفادپرست ،دین فروش ، احمق اور مجذوب طبقے نے فتویٰ لگایا اور میں نے بفضل تعالیٰ ناکوں چنے جبوائے تو مولانا بدیع الزمان میرے اس کردار پر بہت خوش ہوئے تھے اور پوچھا تھا کہ وہ طالب علم جو چائے زیادہ پیتا تھا۔ پھر میں نے گھر پر حاضری دی تھی۔ ان کا بیٹا اور بھتیجا میرے کلاس فیلو تھے۔
تخصص کا کورس مولانا بنوری نے شروع کرایا تھا جس میں عربی لغت، قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ علماء کو پڑھائے جاتے تھے ۔ دارالعلوم دیوبندکے نصاب میں طلب الکل فوت الکل تھا۔ مولانا کے بھتیجے نے ڈاکٹر حبیب اللہ مختار سے کہا کہ مفتی سمیع تو وہ غصہ ہوگئے کہ دار الافتاء میں مفتی سمیع ہے؟۔ اس نے کہا کہ مولوی سمیع۔ ڈاکٹر مختار نے غصہ میں کہا کہ مولانا نہیں کہہ سکتے؟۔ دار العلوم دیوبند میں مولوی شیخ الہند تھے اور پھر مولوی کو توہین سمجھا گیا۔ پہلے مولوی فارغ پھر مفتی بھی فارغ۔ جس جہالت کا ماحول ہے اس کو مدارس کے علماء و طلباء خوب سمجھتے ہیں۔ انشاء اللہ اب سب سمجھیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ رحمان میں گھر، معاشرے، ملک ، خطے اور بین الاقوامی دنیا کو امن وامان کے قیام کا بہت ہی زبردست پیغام ہے

سورہ رحمان میں گھر، معاشرے، ملک ، خطے اور بین الاقوامی دنیا کو امن وامان کے قیام کا بہت ہی زبردست پیغام ہے

الرحمنOعلّم القراٰنO”رحمان نے قرآن نے سکھایا۔انسان کو پیدا کیا، اس کو بیان سکھایا،سورج و چاند حساب پر ہیں۔ بیل ودرخت سجدہ کرتے ہیں۔ آسمان کو بلند کردیا ،میزان کو قائم کیا۔ پس وزن انصاف کیساتھ قائم کرو ۔ میزان کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ زمین کو ہم نے مخلوق کیلئے بنایا ۔اس میں پھل و غلاف والی کھجور ہیں اور اناج ہے خوشوں و خوشبو والی۔ پس دونوں اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے؟۔ انسان کو ٹھیکری کی بجتی مٹی سے پیدا کیااور جن کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا……..”۔ سورہ رحمان کی آیات دیکھ لیجئے

اللہ تعالیٰ انسان کو براہِ راست قرآن سکھانے کی وضاحت کرتا ہے

بحری جہاز مغرب نے بنائے ۔ اللہ نے قرآن سکھایا کہ سمندر میں پہاڑ جیسے جہازہیں؟۔ سورج چاند کا حساب ، گرہن کا قبل ازوقت پتہ چلنا ہر تعلیم یافتہ براہ راست سمجھ لیتا ہے ۔
اللہ نے قرآن میں سورج ،چاند ، بادل اور ہر چیز کو انسان کیلئے مسخر کرنے کی وضاحت فرمائی۔ مسلمان کا سائنس میں بڑا کردار تھا لیکن مذہبی طبقہ خود ساختہ فرائض اور حلال وحرام میں لگ گیا۔ مذہب اچھا دھندہ تھااسلئے دانشور بھی گھس بیٹھے؟۔
اللہ نے نظام کائنات میں توازن رکھا ۔ ایک آسمانی میزان وتوازن ہے، دوسرا زمینی نظام کا میزان اور عدم توازن ہے۔ اللہ نے زمینی نظام کا توازن قائم کرنے کا ہمیں حکم دیا۔ توازن بگاڑنے سے نقصان ہوتا ہے۔ اللہ نے زمین مخلوقات کیلئے بنائی اور جب کوئی دوسرے کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی وجہ سے توازن میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اوربڑا نقصان پہنچتا ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی کیساتھ روکا ۔ اگر مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں کو قرآن سمجھ میں آگیا تودنیا جنت بن جائے گی اور اگر اپنی خصلت سے باز نہیں آئے تو پھر دنیا جہنم بنے گی۔ سورہ رحمان میں ہائی بریڈ اناج، پھل اور جانوروں سے اللہ نے منع نہیں کیا بلکہ تسخیرکائنات کی ترغیب دی ہے لیکن یہ بھی واضح کیا کہ توازن میں بگاڑ پیدانہ کرو۔ مثلاً اناج کو خوشے اور خوشبو دار بنایا ۔ اگر ہائی بریڈ گندم منرل اور خوشبو سے محروم ہو تو نقصان اور بگاڑ ہے۔والحب ذوالعصف والریحان ” اور اناج کو خوشے دار اور خوشبودار بنایا ”۔(یہ صحیح ترجمہ ہے) فارمی مرغی کو اللہ نے تخلیق میں مداخلت نہیں قرار دیا ،یہی تسخیر کائنات ہے۔ تخلیق کا توازن اہم ہے۔ اگر اچھے انسانوں کے ہاتھ میں یہی چیزیں آجائیں تو کاروباری مقاصد سے زیادہ انسانی صحت اور انسانیت بلکہ تمام مخلوقات کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔
انسان کی پیدائش کا اللہ نے مختلف آیات میں ذکرکیا ہے کہ اس کو کمزور پیدا کیا گیا، جلدبازی سے پیدا کیا گیا۔ زندگی پانی سے پیدا کی اور انسانوں میں ہوا،پانی، مٹی اور آگ سبھی ہیں۔ بجتی ہوئی مٹی آگ کی تپش سے بنتی ہے جیسے مٹکے وغیرہ اور اس میں عمل سے ردِ عمل کی خاصیت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے تو جواب میں بجنے کی آواز آتی ہے۔ انسان کو اللہ نے بیان سکھایا اور ہر ایک کو عمل کا ردِ عمل دے سکتا ہے۔
اس عمل اور ردِ عمل میں اسکا ہمزاد شیطان شریک ہے۔ جس کی خاصیت آگ کا شعلہ ہے۔ لاس اینجلس تباہ ہوا۔ غزہ کی لڑائی سے تباہی مچی۔ افغانستان، عراق ، شام ، لیبیا اور پاکستان میں کتنا نقصان ہوا۔ میاں بیوی، رشتہ دار ، پڑوسی ، فرقہ وارانہ اور قوم پرستی سے بین الاقوامی سطح تک ماحولیاتی آلودگیوں سے عالم انسانیت غرق ہے اور عدالت، جج اور صحافیوں سے لیکر سیاستدانوں اور حکمرانوں تک عدم توازن کی شکار دنیا کو ہر لحاظ سے اعتدال وتوازن کی طرف لانا سورہ رحمن کا بڑامشن ہے۔
ویل لکل ھمزة لمزہOالذی جمع مالًا وعدّدہOیحسب ان مالہ اخلدہO” ہر طعنہ زن پیٹھ پیچھے باتیں لگانے والا ہلاک ہو، جس نے مال جمع کیا اور اس کو گنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا”۔
وقل رب اعوذ بک من ھمزات الشیٰطینOواعوذبک رب ان یحضورونO” اور کہو کہ اے میرے رب! میں شیطانی طعنوں سے پناہ مانگتا ہوں اور تیری پناہ چاہتا ہوں کہ ان کا سامنا کرنا ہو”۔(المؤمنون: 97، 98)
چھوٹی سطح سے لیکر ملکی اور بین الاقوامی سطح تک انسان نماان شیطانوں سے پناہ کی تلقین ہے جو طعنہ زنی اور پس پشت باتیں بنانے اور مال اکٹھا کرنے کے حریص ہیں۔ رشتہ دار، پڑوسی، صحافی، سیاستدان،حکمران، اپوزیشن ، مذہبی طبقات اور دنیا بھر کی تمام قوتوں میں آگ لگانے اور لڑانے کا حربہ طعنہ زنی اور پس پشت جھوٹی باتیں بنانے اور مال بنانے کی وجہ سے ہیں۔
ہر عمل کا ردِ عمل بگاڑ فساد فی الارض ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: ”لوگو!دشمن کا سامنا کرنے کی تمنانہ کرواور اللہ سے عافیت مانگو اور جب ان سے سامنا ہوتو صبر سے ثابت قدم رہو اور جان لو! کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے”۔ قرآن عبادت کو مالی معاملات اور انسانی حقوق سے الگ نہیں کرتا۔لالچی وبدفطرت لوگوں کا راستہ روکنا زمین کو فساد فی الارض سے بچانا ہے۔سورۂ رحمن اور قرآن سے یہی سبق ملتا ہے لیکن مسلمان غور نہیں کرتا۔ انسان قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا کی ترقی سے قرآن سمجھ میںبڑی اچھی طرح آسکتا ہے۔
٭٭

یرسل علیکما شواظ من نار ونحاس فلا تنتصران ،الرحمن:35

قرآن میںایٹمی جنگ کا تذکرہ

دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹم بم گرایاگیا ۔ قرآن کے اعجاز میں عربی عالم عبدالدائم الکحیل نے سورہ رحمان کامعجزہ عدد کے اعتبار سے اسی آیت35کو قرار دیا ہے۔
اللہ مشرق ومغرب کا رب ہے۔ تعصبات تخریب ہے۔ اگر دنیا کے نظام کو عدمِ توازن کا شکار بنایا تو معاشرتی سطح سے بین الاقوامی سطح تک خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ پاک افغان یا بھارت جنگ ہو۔ شیعہ سنی، ہندو مسلم، پشتون پنجابی، بلوچ پنجابی ، بریلوی دیوبندی، حنفی اہلحدیث، داعش طالبان جنگ ہو یا پھر قبائل، ملکوں اور بین الاقوامی ہر قسم کے دو متحارب گروہوں نے اعتدال سے ہٹ کر توازن کو بگاڑ دیا تو خسارہ مقدر بنے گا۔
تبلیغی جماعت اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین بتاتی ہے لیکن اللہ کے احکام کا پتہ علماء کو نہیں تو جہلاء کو کیسے ہو گا؟۔
” میں تمہارے لئے عنقریب فارغ ہوں گا اے دوبھاری گروہ! تم دونوں اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے۔اے جنوں اور انسانوں کا معاشرہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکلنے کی طاقت رکھتے ہو تو نکلو۔تم نہیں نکل سکتے ہو مگر سلطان کیساتھ۔تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے؟۔ تم پر آگ کے گولے بغیر دھویں والے اور دھواں بھیجا جائے گا تو پھر تمہاری مدد نہیں کی جاسکے گی”۔ (الرحمان:31تا35)
آج انسان میں شعور آگیا اور اللہ بھی فارغ ہے۔ انسان اور جن جہازوں اور خلائی شٹل سے زمین اور آسمانوں کی حدود پر جاتے ہیں اور یہ سلطان ہوسکتا ہے۔اگر جاپان پر تجربہ کے بعد بھی روس، امریکہ، فرانس، اسرائیل، ہندوستان، چین اور پاکستان ایٹمی جنگ کی طرف گئے تو کوئی مدد نہیں ہوسکے گی۔
دنیا تیسری جنگ کے دھانے پر کھڑی ہے اور اللہ انقلاب عظیم کی دعوت دیتا ہے جس سے تمام مذاہب و ممالک کے اچھے لوگ دنیا میں جنت پائیں اور مجرم بلا امتیاز جہنم پائیں۔
اسرائیل وفلسطین سمیت دنیا بھر کے اچھے لوگ اپنی اچھائی کا بھرپور صلہ پائیں ،جرائم پیشہ انجام کو پہنچیں ۔ مذہبی تعصبات کی جگہ انسانیت لے لے۔ مجرموں کی لڑائی سے معصوم لوگ اذیت کا شکار ہوں تو پاکستان،افغانستان ، امریکہ اوردنیا بھرکا حکمران طبقہ ہمیشہ سخت سیکیورٹی کی اذیت کا شکارہی رہے گا۔
٭٭

مرج البحرین یلتقیانOبینھما برزخ لایبغیانO”دو سمندروں کے بیچ میں آڑ ہے جو حدود سے تجاوز نہیں کرتے” ۔
عربی میں بحر، بحیرہ،دریا، نہر اور ندی سبھی کو بحر کہتے ہیں۔ برزخ درمیان کی چیزہوتی ہے جیسے دنیا وآخرت میں عالم برزخ ہے۔
فاذاانشقت السماء فکانت وردة کالدھانOپس جب آسمان پھٹ پڑے اور ہوجائے گلاب کا پھول جیسے چاول کی فصل ہو۔ (الرحمن:37) امریکی آفت غزہ پر مظالم کی وجہ سے آسمانی تحفہ سمجھا جانے لگا۔ جو تنبیہ یا مخالفین کی سازش بھی ہوسکتی ہے۔

طالبان اور امریکی اہلکار مفتی عبدالرحیم کا بہت احترام کرتے تھے؟

2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی قرار داد پیش کی تو بھارت نے اس کی مخالفت کی تھی۔ہم نے اسی وقت بھارت کو خراج تحسین اور کلبھوشن یادیو کی رہائی کی تجویز پیش کی تھی۔آج بھی پڑوسی ممالک سے تعلقات کی بہتری ترجیح ہونی چاہیے۔
جاوید چوہدری نے لکھا: طالبان اورافغانستان میں امریکی نژاد حکومت کے اہلکار دونوں مفتی عبدالرحیم کا بہت احترام کرتے تھے۔(7مارچ2023جامعة الرشید میں ایک دن)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان طالبان اور امریکی نژاد افغانستان میںحکومتی اہلکاروں میں یہ حسن اتفاق کس بات کا کرشمہ تھا؟۔ ارشد شریف شہید نے کہا تھاکہ آئندہ آرمی چیف بننے کیلئے سب سے زیادہ موزوں اور پہلے نمبر پر سید عاصم منیر کا نام ہے اور بہت زیادہ تعریف کی تھی اور مسلم لیگ ن کے حامی صحافی راشد مرادMRلندن ٹی وی نے بھی بہت پہلے یہی پیش گوئی کی تھی کہ عاصم منیر کو آرمی چیف بنایاجائے گا۔ مگر اس نے اس کو گہری سازش قرار دیا تھا۔ یہ اللہ کا بہت بڑا کرشمہ ہے کہ عاصم منیر کی تعیناتی پر دونوں طرف کا معاملہ سراسر مختلف تھا۔
جمہوری و مذہبی قوتوں کے پیچھے سازشیں لیکن جب تک اپنی اصلاح نہیں کریںگے تو کوئی واویلا کام نہ آئیگا۔اگر ہوش کے ناخن نہیں لئے تو تباہی اور غلامی بھی مقدر بن سکتے ہیں۔
اللہ نے دعوتِ فکر دی کہ دو سمندر حد سے تجاوز نہیں کرتے۔ پاکستان ، خطے اور دنیا کو خطرات کا سامنا ہے۔ جہاز ، ہیرے جواہرات ، قیمتی اشیاء تیل وگیس کی دریافت اور اس کو نفع بخش بنانے کی ضرورت ہے لیکن اس پر قبضہ کرنے کی سازش کرکے دنیا کو تباہ وبرباد کرنے کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔
پانامہ میں بھی امریکہ نے دو بحر میں راستہ نکالا تھا ۔جس سے1970کے دہائی میں امریکہ نے پانامہ کے حوالے کیا۔ ٹرمپ کی بات پر شور مچا۔تو اس کو سورہ رحمان بتائیں۔ کراچی کی لیاری اور ملیر ندی شفاف پانی سے مالا مال تھیں جن کو آلودہ کردیا گیا۔کانیگرم شہر وزیرستان کے دونوں طرف بھی ندیاں ہیں۔ عربی میں سمندر، دریا، نہر اور ندی کو” بحر” کہتے ہیں۔اور برزخ آڑ اور حقائق کے تناظر میں تاریخی واقعات ہیں۔
تکاد السماوات یتطفطرن من فوقھن ” قریب ہے کہ تمام آسمان پھٹ جائیںان کے اوپر سے”۔ شوری:4
مفتی تقی عثمانی نے اپنی تفسیر میں لکھا کہ ”فرشتے اتنی تعداد میں عبادت کرتے ہیں کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں”۔ حالانکہ مظالم ، سود کو حلال اور حلالہ کی لعنت سے عزتیں برباد، قتل وغارت اور نا انصافی و نافرمانی کے باعث فرشتے اجازت مانگتے ہیں کہ ان دلّوں اور دلّالوں کو عذاب دیں ۔ جیسے طائف میں نبیۖ کو اذیت دینے پر فرشتوں نے اجازت مانگی تھی۔
وماتفرقوا الا من بعد ما جائتھم العلم بغیًا بینھم ولولا کلمة سبقت من ربک الیٰ اجلٍ مسمًی لقضی بینھم وان الذین اورثوا الکتاب من بعد ھم لفی شکٍ منہ مریبٍ ” اورانہوں نے تفریق نہیں ڈالی مگر جب انکے پاس علم آیاباہمی فحاشی (حلالہ سینٹروں) کی وجہ سے اور اگر اللہ مقررہ وقت (خلافت ) تک پہلے لکھ نہ چکا ہوتا تو انکے درمیان فیصلہ کردیتا اور جن کو انکے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا تواس سے شک میں پڑگئے”۔ سورہ الشوریٰ آیت:14
قرآن کی رہنمائی سے حالات درست ہوجائیں گے اور عالم انسانیت کے تمام اچھے لوگ بھی ساتھ کھڑے ہوں گے۔
سورہ رحمن کی آیات کا ایسا ترجمہ ہوگا کہ اللہ انسان کو براہِ راست قرآن سکھائے گا۔ ابن عباس نے درست فرمایا تھا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ علماء نے محکم آیات کا بیڑہ غرق کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا تو متشابہات کی آیات کو اللہ نے ہرگز ان کے ذمہ نہیں چھوڑنا تھا۔ جب دنیا میں قرآن کے ذریعے طرز نبوت کی خلافت قائم ہوجائے گی تو فسادات کا ماحول امن وامان میں بدل جائے گا اور دنیا کو چار چاند ہی نہیں بلکہ چار جنت لگ جائیں گے ۔ جنتان دوجنت ہوں گے اور ذواتا افنان دونوں فن پارے کا عظیم نمونہ ہوںگے۔ مصنوعی ایجاد سے مزین ڈزنی لینڈ کے پارکوں کو پیچھے چھوڑ دیںگے۔ ومن دونھا جنتان ان دو کے علاوہ دو اور جنت ہوں گے۔
قیامت کے بعد جنت کا تصور بالکل دوسرا ہوگا اور اس دنیا میں چار جنتوں کی بات عظیم انقلاب کی بنیاد ہوگی۔ پاکستان کو اللہ سورہ الدھر کا مصداق نعمتوں اور ملک کبیرکا مرکز بنادے۔
٭٭٭

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کچھ جہالتیں اور اسکے شاندار جوابات

ڈاکٹر ذاکر نائیک
نے مروت پختون لڑکی کے سوال کا بڑا جاہلانہ جواب دیا تھا
فرقہ کی بنیاد پرطلاق کا جواب جاہلانہ تھا

ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کچھ جہالتیں اور اسکے شاندار جوابات

لکی مروت کی ایک پشتون حافظہ یتیم لڑکی نے مذہبی طبقے کے کردار پر تضاد کا سوال اٹھایا توڈاکٹر ذاکر نائیک نے انتہائی جاہلانہ جواب دیا تھا۔ اس کا قرآن سے درست جواب یہ تھا۔ اللہ نے فرمایا:
قدافلح المؤمنونOالذین ھم…….
”بیشک مؤمنین کامیاب ہوگئے۔ وہ لوگ جو اپنی نماز میں خشیت رکھتے ہیںاور وہ جو لغو چیزوں سے پہلو تہی برتتے ہیںاور وہ جو زکوٰة دیتے ہیں اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اپنی بیویوں پر اور جن سے معاہدہ ہوچکا ہے۔ پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ جو اس کے علاوہ ڈھونڈے تو وہی لوگ اپنی حدوں سے تجاوز کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد وپیمان کی پاسداری کرتے ہیں۔ وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ فردوس کے وارث ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیںگے”۔المؤمنون۔1تا11
ڈاکٹر ذاکر نائیک جواب میں قرآن کی آیات پڑھ دیتا تو نہ صرف لکی مروت کے پختون بلکہ ہمارا حکمران، سیاستدان، تاجر، صحافی اور دنیا بھر کا ایک ایک مسلمان قرآن کے آئینہ میں اپنے کردار کو بھی ٹٹولتا اور اصلاح کی کوشش بھی کرتا۔ خاص طور پر ہمارا وہ مذہبی ٹٹو طبقہ جو اسلام کے پیچھے چھپتا ہے۔
پاکستان میں دیوبندی دیوبندی کو مشرک قرار دیتا ہے، بریلوی کو مشرک قرار دیتا ہے۔ کسی پر کفر، کسی پر گستاخی، کسی پر توہین اور کسی پر شرک ، کسی پر بدعت کے فتوے لگاتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کا ایک مشہور عالم دین جو جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھتا ہے اس نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی آمد سے پہلے کہا تھا کہ میں اس کو ایسا ماروں گا……..”۔ بریلوی کا حال اس سے بھی دو انگلی آگے ہے اور اہل حدیث اور شیعہ اس سے بھی بہت آگے ہیں۔ لیکن پھر بھی فرقوں سے بالاتر رشتہ داریاں ہیں۔ آرمی چیف سنی اور بیگم شیعہ ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ اگر فلاں عورت کا شوہر دوسرے فرقہ سے ہے تو پہلے توبہ اور پھر طلاق بنتی ہے۔ حالانکہ پہلی بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر ذاکر نائیک سے عیسائی نے سوال کیا کہ نبیۖ سے کہا گیا تھا کہ ہم اپنے علماء اور مشائخ کو نہیں پوجتے تھے تو اب مسلمانوں کا حال بھی مختلف نہیں ہے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے انتہائی جاہلانہ جواب دیا کہ ”مسلمانوں میں کوئی ایسا نہیں جو اپنے پیروں کو پوجتا ہو۔ میں نے تو نہیں دیکھا، اگر آپ کو معلوم ہو تو بتادیجئے”۔ حدیث کا جواب یہ تھا کہ ”نبیۖ نے فرمایا: اپنی طرف سے حلال و حرام کرنا اور اس کو ماننا ہی رب بنانا ہے”۔ واقعی جو علماء ومفتیان سود کو حلال قرار دے رہے ہیں اور ان کی بات کو مسلمان مان رہے ہیں تو یہودونصاریٰ ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر ایک کاروباری مذہبی شخصیت اور جاہل ہیں اسلئے سوال کا درست جواب نہیں دیا۔ البتہ قرآن نے اسکے باوجود اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پارسی عورت سے شادی کی تو اس کی بیٹی نے بھی پارسی سے نکاح کیا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتا ہے کہ اگر ہندو اپنی کتابوں ویدوں کو مان لیں تو مسلمان اور ہندو میں پھر کوئی فرق نہیں ہے جس کا مطلب ہندو بھی اہل کتاب ہیں۔ شاعرہ لتا حیا کہتی ہیں کہ ”جو نوح پر نازل ہوا اسلام وہی تو ہے”۔ یعنی ہندو بھی حضرت نوح کی امت ہیں۔ جب اہل کتاب سے نکاح کی اجازت ہے اور مسلمانوں میں کوئی مشرک بھی نہیں ہے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک جاہل کے کہنے پر کوئی عورت اپنے شوہر کو نہیں چھوڑے۔ ریاست ہی نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مدعو کیا تھا اسلئے اس کا فرض بنتا ہے کہ جو گند اس نے پھیلایا ہے اس کو صاف کرے۔ ورنہ تو لوگوں کے دلوں میں بہت زیادہ خدشات ہوں گے کہ نکاح صحیح یا غلط؟۔ جبکہ نبیۖ نے ام ہانی کو مشرک سے نہیں چھڑایا تھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

فمایکذّبک بعد بالدین ”انقلاب عظیم کے بعد کون آپ کو جھٹلائے گا”

فمایکذّبک بعد بالدین ”انقلاب عظیم کے بعد کون آپ کو جھٹلائے گا”

الیس اللہ باحکم الحاکمین کیا اللہ احکم الحاکمین نہیں؟

سورہ التین کا ترجمہ اور تفسیر بہت آسان ہے مگر اسلام کے اجنبی ہونے کی وجہ سے واضح آیات کے معانی سمجھنے سے علماء کرام بالکل قاصر تھے۔ اللہ نے عیسیٰ کی جائے پیدائش القدس میںانجیرو زیتون، موسیٰ کو جہاں نبوت ملی طور سینین اور نبی ۖ نے فتح مکہ سے جس شہر کو امن کا گہوارہ بنایا یہ انسانیت کیلئے بہترین کلینڈر ہے۔ جو مختلف ادوار میں انبیاء کی بعثت ہوتی رہی اور پھر مختلف قومیں عاد ، ثمود اور ارم عماد والے، فرعون میخوں والا اسفل السافلین کو پہنچے۔ مگر ایمان و عمل صالح والے بچے۔ فرعون کے غرق کی طرح فتح مکہ واضح تھا۔ نبوت کا دروازہ بند ہے اور انقلاب عظیم کی بھی خبر ہے۔ جس کے بعد نبی ۖ کو کوئی نہیں جھٹلائے گااور دنیا مان جائے گی کہ اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین ہے۔ سورہ حدید میں اس امت کے دو حصوں کاذکر ہے اوربشارت ہے کہ اہل کتاب کے عروج کے بعد پھر معاملہ بدلے گا۔
سورہ المؤمنون کے دوسرے اور تیسرے رکوع میں حضرت نوح سے حضرت عیسیٰ تک انبیاء کرام اوران کے منکرین کی بڑی وضاحت کے بعد فرمایا:
یا ایھاالرسل کلوا من الطیبٰت واعملوا صالحًاانی بماتعملون علیمO…
” اے رسولو! کھاؤ پاکیزہ اور عمل کرو صالح، بیشک میں جانتا ہوں جو تم کرتے ہواور یہ تمہاری امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس مجھ سے تقویٰ اختیار کروپھر وہ ٹکڑے ٹکڑے کر بیٹھے اپنا حکم۔ہر گروہ خوش ہے جو اسکے پاس ہے۔ پس ان کو چھوڑ و مستی میں مقرر وقت تک۔ کیا وہ گمان رکھتے ہیں کہ انہیں مال و اولاد میں ترقی دے رہے ہیں؟اور انہیں جلدی فائدہ پہنچا رہے ہیں؟۔ بلکہ یہ شعور نہیں رکھتے اور جو لوگ اپنے رب کی آیات پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب کیساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور جو دیتے ہیں عطا میں سے اور انکے دل ڈرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ یہی درست کام میںجلدی کرتے ہیں اور اس کیلئے سبقت لیجاتے ہیںاور ہم کسی کو مکلف نہیں بناتے مگر اپنی وسعت کے مطابق اور ہمارے پاس کتاب ہے جو حق بولے گی اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔ بلکہ انکے دل مدہوش ہیں اسکے سوا انکے پاس کرنے کے کچھ اور کام ہیںجن کووہ کرتے ہیں۔یہاں تک کہ جب ہم انکے مالداروں کو عذاب میں پکڑیں گے تو وہ چلائیں گے۔( المؤمنون51تا64)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مخاطب کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ تم کھاؤ پیو حلال چیزیں اور تمہاری یہ اُمت ایک ہی تھی۔ پھر انہوں نے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہر فریق کے پاس جو ہے اس پر خوش ہے۔ ہمارے پاس ایسی کتاب ہے جو بولتی ہے حق کو۔ آج قرآن کے مختلف زبانوں میں تراجم چل رہے ہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ قرآن کا مفہوم بدل دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے غیر مسلم کیا مسلمان بھی اس پر عمل پیرا نہیں ہے۔
نبی ۖ نے تمام انبیاء کی امامت کی ۔ عیسیٰ کی آمد ہوگی۔ شہداء کو برزخ میں رزق دیا جاتا ہے۔ نبیۖ کا پوچھا جائے گا: ماتقول فی ھٰذا الرجل؟۔تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ جو سلیم الفطرت انسان ہوگا تو بلاتفریق مذہب کہے گا کہ یہی اللہ کے رسول ہیںاور جو بدفطرت ہوگاتو بلاتفریق مذہب کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔ابوجہل و ابولہب نے پہلے بھی نبی ۖ کا انکار کیا تھا اور اب بھی اس فطرت کے لوگ نہیں پہچانیں گے۔یاد رکھو کہ ہندو کاخفیہ کلمہ اسلام ہے ۔ اگر دیوار گریہ سے لپٹا یہودی محمد محمد (ۖ) پکارتاہے۔ اسرائیل اور سودی نظام کی مذمت کرتا ہے تو یہ درست عمل ہے۔ اور ہمارامولوی طبقہ سودی نظام کو جواز بخش دیتا ہے تو اللہ مکلف انسان کو اس کی وسعت کے مطابق پکڑے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا؟یا مولوی کو باطل عمل پر نجات اور یہودی کو حق پر عذاب دے گا؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟

جس مرد میں طاقت نہ ہو تو بیوی اس کو قریب نہیں چھوڑتی اور دوسری سے نکاح بھی نہیں کرسکتا۔ مگر ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہو تو اس کو چار تک محدود کرنا اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر” ایک بیوی یا جن سے معاہدہ ہو”۔
سوال یہ ہے کہ معاہدہ والیوں سے کیا مراد ہے؟۔
سلطنت عثمانیہ کے ایک بادشاہ کی4500لونڈیاں تھیں۔ کیا اللہ نے آیت میں لاتعداد لونڈیوں کی اجازت دی ہے؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں!۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عثمان نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ ایک عورت سے نکاح کرادیتا ہوں تو ابن مسعود نے منع کردیا۔ ابن مسعود نے اپنا شغل قرآن کی تعلیم کو بنایا ۔ نبیۖ نے ان سے سیکھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ ایک عورت سے نکاح کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔ کھانا، کپڑے، بچوں کی پیدائش اور ان کا خرچہ ۔ اس کیلئے مستقل کام کرنا پڑتا۔
ابن مسعودایک لونڈی کے فرزند تھے ۔ صحابہ نے نبیۖ سے کہا کہ کیا ہم خود کو خصی بنالیں؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ نہیں ایک دو چادرپر کسی سے جنسی تعلق رکھ سکتے ہو۔ لاتحرموا الطیبات ما احل اللہ لکم ”طیبات کو حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں”۔قرآن۔( صحیح بخاری)
کوئی عورت نہیں رکھ سکتاتو کم حق مہر میں نکاح کرسکتا ہے۔ جو بیوہ ، طلاق شدہ ،کنواری ہوسکتی ہے جسے جنسی تعلق کیلئے شوہر کی ضرورت ہو لیکن وہ اپنا خرچہ خود اٹھاسکتی ہوں۔ قرآن میں یہ معاہدہ والیاں ہیں۔ اگر غریب یا نفسیاتی مریض ایک عورت کو انصاف نہیں دے سکتاتو معاہدے کا نکاح بھی کرسکتا ہے۔ قرآن نے معاہدے والی کا بغیر نکاح نہیں کہا۔ بلکہ ایک عورت سے نکاح یا کسی ایک معاہدے والی سے بھی نکاح مراد ہے۔
اللہ نے مرد کو مردانی کا ایک درجہ عورتوں پر دیاہے اسلئے کسی بھی صورت میں شوہر اپنا بوجھ اپنی بیوی پر نہیں ڈال سکتا ہے اور جب عورت اپنا بوجھ خود اٹھاسکتی ہو تو اپنی مرضی کا شوہر بھی اپنے لئے منتخب کرسکتی ہے ۔ مریم نواز کو صفدر عباسی پر فوقیت ہے۔ رسول اللہۖ نے چچاابوطالب سے بیٹی ام ہانی کا رشتہ مانگا۔ حضرت ابوطالب نے انکار کردیا۔ حضرت خدیجہ کی پیشکش کوابوطالب کی اجازت سے آپۖ نے قبول فرمالیا۔
لونڈی اور غلام سے بھی اللہ نے نکاح ہی کا حکم دیا ہے۔
وانکحوا الایامٰی منکم والصٰلحین من عبادکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم O (سورہ النور آیت 32)
”اور نکاح کراؤ تم میں سے جو طلاق شدہ بیوہ ہیں اور صالح غلام اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو مالدار بنادے گا۔ اور اللہ وسعت رکھنے والا علم والا ہے”۔
ماریہ قبطیہ سے نبیۖ کے بیٹے، حاجرہ سے اسماعیل تھے اور کون گمراہ کہے گا کہ یہ لونڈیاں تھیں ، نکاح کرانے کا حکم تھا؟۔
خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کو پتہ ہوتا تو اتنی لونڈیاں نہ رکھتا۔ اتنی بکریوں پر ایک بکرا بھی کوئی نہیں رکھتا۔ خواتین کو درباری قسم کے علمائ،فقہائ، شیخ الاسلام، قاضی القضاة اور مفتی اعظم نے ہی جانوروں سے بدتر سمجھ رکھا تھااور انہی کا سکہ رائج الوقت تھا۔ امام ابوحنیفہکی جگہ حنفی مسلک شاگردابویوسف نے تشکیل دیا۔
غلام کے پاس حق مہر کیلئے کچھ نہیں ہوتا توپھر کیا ہوگا؟۔
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحًا حتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین پبتغون الکتاب مما مملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علتم فیھم خیرًا واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتاکم ….. (سورہ النور آیت33)
”اور پاکیزگی اختیار کرلیں جو نکاح نہیں پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے مستغنی بنادے۔اور جو لوگ غلاموں سے معاہدے کی لکھت چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر دیکھو تو ان سے تحریری معاہدہ کرواور ان کو وہ مال دو جو اللہ نے تمہیں دیا”۔
اگر کوئی بہن بیٹی کا رشتہ غلام سے چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر نظر آئے تو معاہدہ کرو اور اپنا مال ان پر خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دیا ۔ اس آیت کا ایسا غلط مفہوم نکالا کہ غلام آزادی چاہتا ہو اور اگر تمہیں اس میں خیر نظر آتا ہو تو پھر اس کے ساتھ آزادی کیلئے معاہدہ کرو۔ غلام اور آزادی میں خیر؟۔ اس کا جوڑ نہیں بنتا!۔ اللہ نے مال طلب نہیں خرچ کرنے کا واضح حکم دیا۔
آگے مزید دیکھو ! اللہ کے قرآن کا کیا حشر کیا گیاہے؟۔
ولاتکرھوافتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصن لتبتغوا عرض الحیاة الدنیا و من یکرھھن فان اللہ بعد اکراھن غفور رحیمO (سورہ نور آیت:33)
” اور اپنی کنواری لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو۔ اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم اپنے دنیاوی مقاصد کو انکے ذریعے تلاش کرواور اگر کسی نے ان کو مجبور کیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد مغفرت کرنیوالا اوربہت رحم کرنے والا ہے”۔
ان آیات میں طلاق شدہ وبیوہ ، غلام ولونڈی اور کنواری کے نکاح کا مسئلہ حل ہے اور ذمہ داری بااثر افراد پر ڈالی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے طویل عرصہ حکومت کی مگر اکبر کے ”دین الٰہی” سے اورنگزیب کے” فتاویٰ عالمگیریہ” تک جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، فساد فی الارض پر سزا نہیں تھی اور پھر ایسٹ انڈین کمپنی نے ہندوستان پرقبضہ کرلیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے پارسی رتن بائی سے کورٹ میرج کی اور اس کی بیٹی دینا جناح نے پارسی سے کورٹ میرج کی تھی اور قرآن وسنت کو علماء نے فروغ نہیں دیا جس سے انگریز ی عدلیہ کو عدل وانصاف اور فطرت کے مطابق بہتر سمجھتے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید سے مولانا قاسم نانوتوی تک دینداری یہ تھی کہ جوان بیوہ بہنوں کا نکاح نہیں کیا جب وہ نکاح کی عمر سے گزر گئیں تو اپنے وعظ میں تاثیر لانے کیلئے بہنوں کی منت کی کہ اپنی ضرورت کو چھوڑدو ۔ہمارے لئے نکاح ثانی کرلو۔
لڑکی کو کسی سے محبت ہوگئی اور وہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اللہ نے حکم دیا کہ اس کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو کہ لڑکا ہمارا کفوء نہیں۔ خاندان کی عزت خاک میں ملے گی۔ اپنی دنیاوی اغراض کو تلاش مت کرو۔ لیکن اس کو کسی اور سے نکاح پر مجبورکیا گیا تواگرچہ اس کی اجازت نہیں لیکن مجبور عورت پر ناجائز اور حرام کاری کا فتویٰ نہیں لگایا جائے بلکہ اللہ غفور رحیم ہے۔
مفتی تقی عثمانی کی بیٹی نے ٹیوشن پڑھانے والے سے نکاح چاہا مگر مارپیٹ کر کسی اور نکاح پر مجبور کیا گیا۔اللہ نے اس جبر کو ناجائز قرار دیا لیکن حرام کاری نہیں اسلئے کہ لڑکی مجبور ہے۔
معاشرے میں ظالمانہ اقدام میں علماء بھی ملوث ہیں۔اور وجہ قرآن کامسخ مفہوم ہے۔ اس آیت کا یہ ترجمہ بیان کیا گیاکہ ”لونڈیوں کو زبردستی سے دھندے پر مجبورنہ کرو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور اگر ان کو مجبور کیا گیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔
عورت کی مرضی کے بغیر ولی نکاح نہیں کراسکتا(حدیث) بالغ لڑکی کا نکاح اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا تو چھوٹی بچی کا نکاح جبراً ہوسکتا ہے؟۔ مینا، طوطا اور کونج بچپن سے پالا ہو تو اس کا بھی حق ہے کہ مرضی کے بغیر حوالے نہ کیا جائے چہ جائیکہ اپنی نابالغ بچی کسی جنسی درندے کودی جائے؟۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد2” میں ظالمانہ غیرانسانی فتاویٰ جات کو دیکھ کر علماء کی غیرت جاگنی چاہیے تھی۔ اس کے کچھ فتاویٰ پہلے شائع کرچکا ہوں۔ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال معروضی حقائق کے بالکل منافی ہے جس پر تحقیقاتی کتابیں ہیں ۔ ہم نے خاصا مواد شائع کیا ہے۔
مفتی طارق مسعود نے کہا کہ بچی شوہر کی امانت ہے ۔ بچپن سے تعلیم کا خرچہ شوہر اٹھالے۔ فائدہ سسرال نے لینا ہے تو میکے والے نقصان کیوں بھریں؟ ۔PTVکی ماہ پارہ صفدر نے کہا کہ ”دورِ جاہلیت میں بعض قبائل اپنی بیٹیوں کو اس خوف سے ماردیتے تھے کہ دشمنی میں مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں سیکس کیلئے بنایا جاتا تھا۔ مفتی طارق مسعود بیٹیوں کو سیکس ورکر کی طرح بچپن میں دوسروں کے ذمہ لگانے پر تلا ہوا ہے” ۔
قرآن میں یتیم لڑکوں کیلئے حتی بلغوا النکاح کا ذکر ہے جس سے لڑکوں کا نکاح کی عمراور ذمہ داری اٹھانے کی حد تک پہنچنا واضح ہے۔ جاہلوں نے قرآن کے لفظ لم یحضن سے بالکل غلط استدلال کیا ہے کہ اس سے وہ بچی مراد ہے جس کو ابھی حیض نہیں آیا ہو۔ یہ سورہ اخلاص لم یلد کی نفی ہے کہ اللہ نے کسی کو جنا نہیں مگر مستقبل میں بچہ جن سکتا ہے نعوذ باللہ۔
الیکشن1937میں جمعیت علماء ہند نے مسلم لیگ کیساتھ اتحاد کیا کہ بچپن کی شادی ختم کرانے کیلئے قانون سازی ہوگی۔ مجلس احرارالاسلام نے قادیانی ٹکٹ ہولڈر وں کا مقابلہ کیا اور الیکشن میں ایک دوسرے کی مخالفت بھی ہوئی جس پر مولا نا مدنی سیدعطاء اللہ شاہ بخاری سے ناراض ہوگئے۔ بخاری نے مدنی کی پرواہ نہیں کی توپھر مولانا سیدحسین احمد مدنی منانے گئے۔
احمد نورانی نے اپنے ویلاگ میںدوبئی میں ایک18سالہ لڑکے کا17سالہ لڑکی سے جنسی تعلق پر سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں18سال نکاح کی قانونی عمر ہے اور اس سے کم عمر یا عمروں میں زیادہ فرق کیلئے عدالت سے اجازت لینا ہوگی۔
مغرب نے بھی نکاح کے قوانین رکھے ہیں اور اسلام نے بہت پہلے رکھے تھے لیکن فقہاء نے اپنی جہالت یا مفادات کی خاطر عورت کے حقوق کا خاتمہ کردیا۔ اگر حقوق نہ ہوں توپھریہ قانونی مسئلہ واقعی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر حقوق ہوں گے توپھر قانونی معاملات کیلئے والدین کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی کیونکہ طلاق میں مالی حقوق کا تعین کرنا پڑے گالیکن حلالہ کی لعنت کے مرتکب نکاح و طلاق کے حقوق کو کیا سمجھیں گے؟۔
دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث مدارس بورڈ1982کو منظور ہوگئے۔ مولانا مودودی مدارس کی افادیت کے سخت مخالف تھے لیکن جاوید غامدی کی خانقاہ کی طرح پھرجماعت اسلامی نے رابطہ المدارس بورڈ1987میں رجسٹرڈ کرایا۔
غزوہ حنین کی مشکلات میں نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ
انا نبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
”میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں”۔
میدان جنگ اللہ نے سجدے و رکوع کا حکم نہیںدیا تھا اور نہ حضرت حسین نے اس پر عمل کیاتھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ
آگیا عین لڑائی میں وقت نماز
قبلہ رو ہوکے زمین بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
لڑائی میں سر بسجود ہوں تو کون محمود وایاز زندہ رہیں گے؟۔ قرآن میں حالت جنگ نہیں حالت خوف کی نماز کا سورہ البقرہ آیات238،239میںحکم ہے۔ پھر سورہ النساء میں فرمایا :
” جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ کفر والے لوگ تمہیں آزمائش میں ڈالیں،بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن تھے۔ اور جب آپ(ۖ) خود ان میں ہوں اور نماز پڑھانا چاہیں ان کیلئے تو ان کا ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اوراپناہتھیار ساتھ رکھیں۔جب وہ سجدہ کر چکیں تو وہ پیچھے ہوجائیں۔دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی۔پس وہ آپ کیساتھ نماز پڑھ لیںاور وہ بچاؤ کیلئے اپنی حاضر دماغی اور اپنا اسلحہ تیار رکھیںاور کافروں کو پسند ہے کہ اگر اپنے اسلحہ اور سامان سے غافل ہوں تو وہ ایک حملہ میں کام تمام کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو بارش سے یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو اور اپنی حاضر دماغی بچاؤ کی رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت کا عذاب مقرر کررکھا ہے۔ جب تم نماز پڑھ چکے تو اللہ کو یاد کرو اٹھتے ،بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر۔پس جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر اوقات کے مطابق فرض کی گئی ہے۔ (سورہ النسائ:101،102،103)
سفر میں نماز قصر کی اجازت ہے تاکہ مولوی اپنی دو رکعت کی نماز پڑھ کر مقتدیوں کی ایک بڑی تعداد کو شتر بے مہار کی طرح نہ چھوڑے۔ جب حالت یہ ہو کہ حنفی مسلک میں مقتدی کو بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہ ہو اور عوام کو پتہ نہ ہو۔ مجد د الف ثانی کا یہ حال ہو کہ حدیث میں فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور میں حنفی ہوں مگر نماز کی امامت کرتا ہوں تاکہ اپنی نماز ہوجائے۔( مقتدی بھاڑ میں جائیں)۔ حج کے اجتماع اور سفر میں نبیۖ ظہروعصر اور مغرب وعشاء کی نماز یں جمع کرتے۔
تبلیغی جماعت و جمعیت علماء اسلام کا لاکھوں کا اجتماع مگر زیادہ تر اوقات لیڑین ،انتظار اور وضو خانہ میں گزرتے ہیں۔ سورہ النساء میں سفر کی نماز کا حکم ہے اور نبیۖ کیلئے حساسیت بیان کی گئی اسلئے کہ کفار موقع کی تلاش میں تھے۔ صحابہ کرام نے دل وجان سے نبی ۖ کی حفاظت کی۔ شیعہ کی یہ عادت بری ہے کہ اختلاف کے علاوہ دوسروں کو حرامی تک بولتے ہیںلیکن طرز عمل کا اختلاف تو ائمہ اہل بیت اور ان کی اولاد میں بھی تھا۔ آج میڈیا کے باوجود کیا سے کیا پروپیگنڈے نہیں ہوتے؟۔
سورہ البقرہ کے پہلے دو رکوع میں مؤمنین ، کفار اور منافقین کی صفات ہیں۔فرمایاکہ” بیشک جو لوگ کافر ہیں ان کیلئے برابر ہے کہ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ایمان نہیں لائیںگے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور انکے سننے پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے”۔ کفر وانکار کی خصلت جن میں ہوتو وہ پیغمبروں کی بعثت پر عذاب کا شکار بنتے ہیں مگر ہردور میں اپنی خصلت سے پہچانے جاتے ہیں۔ نبی ۖ کے والدین کفر کی صفات نہیں رکھتے تھے۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے جن کا ایمان تھا ان کو قرآن نے اسلام پر دوہرے اجر کا مژدہ سنایا۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے کسی کاانتقال ہوا تو کس جرم میں جہنم کا عذاب ہوگا؟۔ اب جو قرآن نہیں مانتے وہ مسلمان ہیں؟۔
بعض لوگوں پر منافقین کی صفات صادق آتی ہیں۔ قرآن کا آئینہ موجود ہے جس میں مؤمن، کافر اور منافق کا ایمان وکردار دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اللہ نے عورتوں کا حق مہر شوہر کی استعداد پر فرض کیا ۔ قد علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم وماملکت ایمانھم (الاحزاب:50)
”اور ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے ان پر بیویوں اور معاہدہ کرنے والیوں پر (حق مہر)فرض کیا ہے”۔ اللہ نے فرمایا کہ لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی الموسع قدرہ وعلی المقترہ قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنینOوان طلقتوھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضة فنصف مافرضتم الا یعفون او یعفوا الذی بیدہ عقدة النکاح وان تعفوا اقرب للتقویٰ ولاتنسوا الفضل بینکم ان اللہ بما تعملون بصیرًاO(البقرہ آیات236،237)

ترجمہ:” کوئی گناہ نہیں ہے تم پر اگر عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی یا کوئی حق مہر مقرر کرنے سے پہلے۔ پس ان کو خرچہ دو وسعت والے پر اپنی قدرت کے مطابق اور فقیر پر اپنی قدرت کے مطابق معروف طریقے سے خرچہ ہے۔حق ہے اچھوں پر۔ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی اور ان کیلئے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو پھر مقرر کردہ کا آدھا دینا فرض ہے الا یہ کہ جن عورتوں کا حق ہے وہ چھوڑ دیں یا جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ آدھے سے زیادہ کا درگزر کرلیں۔ اگر مردوں تم درگزر سے کام لو یعنی آدھا سے زیادہ دو تو یہ تقویٰ کے قریب ہے اور آپس میں ایکدوسرے پر فضل کرنا نہ بھولو۔ بیشک کہ جو کچھ بھی تم کررہے ہو ۔اللہ اس کو دیکھ رہاہے ”۔
اللہ تعالیٰ ان آیات میں واضح کررہاہے کہ مردوں پر حق مہر ان کی استعداد کے مطابق ہے۔ کھرب پتی اور فقیر دونوں پر اپنی اپنی قدرت کے مطابق حق مہر اللہ نے فرض کیا ہے۔
اللہ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق پر آدھا حق مہر فرض کیا مگر عورتیں رعایت کریں یا مرد اور مردوں کی رعایت تقویٰ کے زیادہ قریب ہے جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے۔
ایک عام آدمی حیران ہوتا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر بھی طلاق میں عورت کو آدھے حق مہر کا تحفظ دیا گیاہے؟۔ پھر رعایت کی بھی دو طرفہ گنجائش ہے لیکن مردوں کی طرف سے ہی رعایت کو زیادہ تقویٰ کے قریب قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ طلاق کا اقدام بھی وہی اٹھارہے ہیں تو اپنے کئے کا بدلہ انہی کو اٹھانا چاہیے۔ شیخ چلی پن کی انتہاء یہ ہے کہ فقہاء نے اس سے یہ مراد لیا کہ ”طلاق صرف مرد کا حق ہے اور عورت کو خلع کا حق نہیںہے”۔
حالانکہ یہاں مالی حق کا مسئلہ ہے اور طلاق کا اقدام مرد ہی اٹھارہاہے تو یہ وضاحت ہے کہ مرد کو رعایت دینی چاہیے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کو اختیار سے محروم کردیا گیا۔ جب شوہر طلاق کے بعد عورت کو اس کے مالی حقوق سے محروم کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا:
وکیف تأخذونہ وقد افضٰی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقًا غلیظًاO (النسائ:آیت:21)
”اور اس سے کیسے لیں گے اور تحقیق وہ ایک دوسرے سے قربت کرچکے ہیں اور ان عورتوں نے ان سے سخت عہد لیا”۔
اس آیت میں عہد کی نسبت عورت کی طرف ہے تاکہ اس کو محروم نہیں کیا جائے ۔ آیت237البقرہ میں مردوں کی طرف نسبت ہے تاکہ عورت سے رعایت کیلئے تقاضے میں شرمائے۔
فقہاء کی حماقت اور شیخ چلی پن کی انتہاء ہے کہ قرآن کو رائج تو نہ کیا لیکن اپنی حماقت سے اسکے مفہوم میں معنوی تحریفات سے بالکل بخرے کرکے رکھ دئیے ہیں۔صدر وفاق المدارس پاکستان استاذ العلماء محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا:
” عورت کا فرض حق مہر مختلف فقہی مسالک میں الگ الگ ہے ۔ جتنی رقم پر چور کا ایک عضو ہاتھ کٹتا ہے تو اتنی رقم میں شوہر عورت کے ایک عضو شرمگاہ کا مالک بن جاتا ہے۔10درہم،3درہم ، درہم کا چونی اور ایک پیسہ وغیرہ پر مختلف اماموں کے ہاں چور کا ہاتھ کٹتا ہے۔ (کشف الباری شرح صحیح البخاری)
قرآن نے شوہر کی استعداد پر عورت کے حق مہر کا معاملہ رکھا ہے اور حدیث میں نبیۖ نے شوہر کے استعداد پر حق مہر کا معاملہ واضح کیا ہے۔ ایک عورت نے نبیۖ کو خود کو ہبہ کیا نبیۖ نے اسے دیکھا پھر ایک صحابی نے کہا کہ آپۖ کو ضرورت نہ ہو تو مجھے نکاح میںدیں، نبیۖ نے پوچھ لیا کہ آپکے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک چادر ہے ،اگر اس کو دوں گا تو خود کیا کروں گا؟۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ ۔ بھلے لوہے کی انگھوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے دیکھا اور واپس آکر کہا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ نبیۖ نے پوچھا کہ قرآن کی کچھ سورتیں یادہیں؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! نبیۖ نے اسے سورتوں کی تعلیم ذمہ لگادی۔
یہ اس فقیر کا حال تھا جس کی کل مالیت نبیۖ نے حق مہر میں دے دینی تھی لیکن اس کے پاس تن پر کپڑے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اللہ نے قرآن میں واضح کردیا کہ ” نبی کیلئے یہ خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے،اگر نبی کا ارادہ نکاح کا ہو”۔ تاکہ آنے والے دور میں قیامت حیلہ بازمولوی ہبوں میں اپنی اولاد کیلئے مریدوں اور اپنے لئے عورتیں لیناشروع نہ کریں۔
مفتی تقی عثمانی نے بھتیجے کیلئے مرید کی بیٹی لے لی۔ اس نے بچوں کو بڑا کیا تو پھر جب وہ گھر گئی تو پیچھے سے طلاق بھیج دی۔ جس قوم کے افراد بیوی سے جہیز کا مطالبہ کریں اور بیٹی کو حق مہر کے نام پر بھاری رقوم سے فروخت کردیں تو اس میں ملا کہاں سے غیرتمند پیدا ہوسکتے ہیں؟۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ”جمہور کے نزدیک نکاح سے پہلے عورت کا چہرہ ہتھیلیاں دیکھ سکتے ہیں تاکہ خوبصورتی اور نرمی کا پتہ چلے۔ امام اوزاعی کے نزدیک شرمگاہ کے علاوہ پورا جسم دیکھ سکتے ہیں امام داؤد ظاہری کے نزدیک شرمگاہ بھی دیکھ سکتے ہیں”۔ (کشف الباری)
کاش !علماء اپنے نصاب کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں۔
”اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ جب تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ سمجھو کہ جو کچھ تم بول رہے ہو اور نہ جنابت میں مگر مسافر یہاں تک کہ غسل کرو….تیمم….”۔(النسائ:43)
جو بغیر نشے بھی نماز سمجھ کر نہیں پڑھتے تو وہ خود کو بے نمازیوں سے افضل نہ سمجھیں۔ہرنماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی دعا مانگنے والوں کا خود کو ہدایت پر دوسروں کو گمراہ سمجھنا بیوقوفی ہے۔
حضرت عمر نے کہا: سفر میں تیمم سے نماز نہ پڑھی۔نبیۖ نے فرمایا: اچھا کیا۔حضرت عمار نے کہا: زمین میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی۔ فرمایاۖ: ہاتھ و چہرے پر مسح کرنا کافی تھا۔
قرآن واضح ہے کہ نماز کی مسافر کو تیمم سے اجازت ہے اور تیمم سے نہ پڑھی تو صحیح۔ عمر نے عمل کیا، نبیۖ کی تصدیق مل گئی۔ عمار نے تیمم کا واضح مسئلہ نہ سمجھا تو نبیۖ نے سمجھادیا۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ بنوقریظہ پہنچ کر عصر کی نماز پڑھو۔ کچھ نے راستے میں پڑھی اور کچھ نے مغرب کیساتھ پہنچ کر پڑھ لی۔
” نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔اللہ کیلئے عاجزی سے کھڑے ہو۔اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ یا سوار ہوکر۔ پس جب امن میں آجاؤ تو ویسے اللہ کو یاد کرو (نماز پڑھو) جیسے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے”۔ البقرہ238،239
یہ حکم جنگ نہیں حالتِ خوف کا ہے۔ فقہاء ، قصہ گو واعظین، مصنفین اور طاغوتی شعراء نے امت مسلمہ کو قرآن وسنت سے دور کرکے اپنا اور ہم سب کا بیڑہ غرق کرنے میں کردار ادا کیا۔
آیت میں جنابت کیلئے غسل کا حکم واضح ہے ۔و ضو کیلئے اللہ نے فرمایا کہ ” جب تم نماز کیلئے اُٹھو تو اپنے چہروںو ہاتھوں کو دھو ؤ اور مسح کرو اپنے سروں کا اور اور اپنے پاؤں کو دھوؤ اور اگر تم جنابت میں ہو تو خوب پاکی حاصل کرو”۔ (المائدہ:6)
صحابہ کرام وضو کرتے اور نہاتے تھے مگرانہوں نے اس میں مختلف اور متضاد فرائض ایجاد نہیں کئے۔ فقہاء نے فضول کے اختلافات کئے کہ ”خوب پاکی حاصل کرو” سے کیا مراد ہے؟۔ وضو کے مقابلے میں غسل کرنا خوب پاکی ہے۔ کوئی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض قرار دے ، کوئی نافرض اور کوئی پورے جسم کو مل مل کو دھونا فرض قرار دے اور کوئی نہیں لیکن ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ یہی حال وضو میں سر کے مسح کا ہے ۔ کوئی چوتھائی فرض قرار دے تو کوئی بال برابر اور کوئی بال برابر بھی رہ جائے تو فرض ادا نہیں ہوگا۔ اگر یہ پتہ ہو کہ چہرہ دھونا ہے، ہاتھ کہنی تک دھونے ہیں تو سر کا مسح نہ بھی کہا جائے تو کرلیںگے۔
قرآن قیامت تک انسانوں کیلئے ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں جمعہ کی تقریر میں فرمایا کہ ” ایک یہودی نے اعتراض کیا کہ قرآن میں ان ھٰذا لشئی عجاب عربی جملہ نہیں ہے تو ایک دیہاتی عرب کو بلاکر چندبار اٹھک بیٹھک کرائی گئی اور پھر کہا کہ جاؤ تو اس نے کہا:ان ھٰذا لشئی عجاب جس پر یہودی مان گیا۔ ومن یشتری لھوالحدیث (اور جو لغو بات خریدتا ہے) تو جب آڈیو نہیں تھا تو بات خریدنے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا مگر قرآن میں موجودہ دور کیلئے اللہ نے یہ فرمایا ہے”۔
حدیث ہے کہ” آدمی اپنے ہاتھ کی چیز سے دور رہ کر بھی اپنا گھر دیکھے گا اور بیوی کے جوتے کے تسمہ پر (کیمرہ) لگائے گا تو سب ریکاڈنگ دیکھ سکے گا”۔ ملحدین قرآن واحادیث کے عجائب نہیں مانتے تھے لیکن سائنسی ترقی ثابت کررہی ہے۔
قرآن نے چاند، سورج ، بادل اور کائنات کی تسخیر سے دنیا کو منافع بخش بنانے کا حکم دیا تھا اور علماء ومفتیان اور مذہبی طبقہ غسل، وضو اور استنجے کی تسخیر پر قوم کی زکوٰة وخیرات کا پیسہ بہت ضائع کررہے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ایٹم بم بنادیا اور مفتی تقی عثمانی ومفتی منیب الرحمن نے سود کو اسلامی نظام قرار دیدیا۔ مذہبی طبقات کی مصیبت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے لیکن قرآن کو ٹکڑے کرنے میں سب مل کر ٹوکے اٹھالیتے ہیں۔ یہ رویہ اب بدلنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ نے محرمات کی فہرست کے آخر میں 5ویں پارہ کے ابتداء میں فرمایا: والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم کتب اللہ علیکم واحل لکم مارواء ذٰلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتو ھن اجورھن فریضة ً ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضة ان اللہ کان علیمًا حکیمًاO(النسائ:24)
اس آیت پر بھی صحابہ وجمہور میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا جس کا اصل میں تعلق بعد کے ادوار سے تھا۔ سب سے بڑی حرمت شادی شادہ عورت سے نکاح کی ہے۔ عربی، اردو، انگلش اور تمام زبانوں میں عورت کیلئے بیگمات کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اگر عورت کا شوہر مرچکا ہو تب بھی اسکے احترام میں بیگم صاحبہ ہی بولا جاتا ہے۔ ایک بڑے فوجی شہید افسر کی بیگم صاحبہ اپنے شوہر کے نشان حیدر یا مراعات قربان کرکے کسی اور شوہر سے نکاح اپنی توہین اور اپنے مفادات کے خلاف سمجھ رہی ہوتی ہے اسلئے اس کو نکاح کا پیغام دینا محرمات کے درجہ میں ہے۔
لیکن اگر اس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت جنسی تعلق قائم کیا جائے جس سے اس کے مفادات بھی متاثر نہ ہوں اور ایک معقول جنسی ذریعہ بھی مل جائے جیسے سعودی عرب میں بھی مسیار کا مسئلہ چل نکلا ہے تو اس سے معاشرے کی بہت خرابیوں پر قابو پانے میں زبردست مدد مل سکتی ہے۔ سورہ احزاب:50میں اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ ” وہ چچا کی بیٹیاں آپ کیلئے ہم نے حلال کی ہیں جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ہے”۔ اور پھر سورہ احزاب آیت51میں نبی ۖ کو کسی سے بھی نکاح کرنے سے اللہ نے منع فرمایا کہ چاہے کسی عورت کا حسن کتنا اچھا لگے تو نکاح نہیں کرسکتے اور نہ کسی کو چھوڑ کر بدلے میں کسی اور عورت سے نکاح کی اجازت ہے مگر جس سے معاہدہ ہو”۔
حضرت علی کی بہن ام ہانی نے ہجرت نہیں کی ۔ بدرالدین عینی نے ام ہانی کو نبیۖ کی28ازواج میں شمار کیا۔ حالانکہ وہ بیوی نہیں بن سکتی تھی۔ معاہدے کا نکاح ہوسکتا تھا۔ جس نے پہلے نبیۖ کی دعوت نکاح قبول کرنے سے معذرت کی کہ میرے بچے بڑے ہیں۔ پھر اللہ نے بھی منع کردیا اور ظاہر ہے کہ نبیۖ کی ازواج امہات المؤمنین کی شہرت رکھتی ہیں۔ معاہدہ والی ایک ام ہانی ہیں۔ام المؤمنین ام حبیبہ نے بیٹوں کی پیشکش کی نبیۖ نے فرمایا یہ مجھ پر حرام ہیں۔(صحیح بخاری)
اگر مغرب میں اس نکاح کو قانون بنایا جاتا تو سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیرن کو صاحبزادی کی عزت مل جاتی اور کیس کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ اسلام کی افادیت دنیا مان سکتی ہے۔
عبداللہ بن زبیر نے متعہ کو زنا قرار دیا تو حضرت علی نے کہا کہ آپ بھی متعہ کی پیداوار ہو۔ (زادالمعاد :علامہ ابن قیم ) اور شیعہ علماء کہتے ہیں کہ ابوطالب کے اسلام کو نہیں ماننے والے تو نبی ۖ کے حضرت خدیجہ سے نکاح پر حملہ آور ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوطالب نے ام ہانی کا رشتہ ایک مشرک کو دیا تھا۔ شیعہ علماء وذاکرین نفرتوں کو دلوں سے نکال باہر کریں اور اسی میں ان کا اور سب کا فائدہ ہے۔ ہم اپنوں کو سدھاریں گے۔
نکاح اور معاہدے میں یہ فرق ہے کہ نکاح میں عورتوں کو اپنا پورا پورا حق ہر لحاظ سے ملتا ہے جبکہ معاہدے میں باہمی رضا مندی کا معاملہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں مروجہ معاملہ نکاح نہیں معاہدے والا ہے اسلئے کہ نکاح میں جو حقوق قرآن وسنت نے عورت کو دئیے تو وہ تمام حقوق سلب ہیں۔ بلکہ معاملہ بہت بدتر ہے ۔ اسلئے مرتدجرمنی میں سعودیہ کی خواتین کو سپلائی کرتا تھا۔ قرآن و سنت کے فطرتی احکام سے سعودی عرب، افغانستان، پاکستان، بھارت اور دنیا بھر کی مسلمان خواتین کو درست حقوق ملتے تو پھر خواتین کیساتھ روز ناجائز حدود پار کرنے کی خبریں سوشل والیکٹرانک میڈیا پر نہ آتیں بلکہ غیر مسلم بھی بہت تیزی کیساتھ اپنا ماحول اسلامی معاشرتی نظام سے ہی لے لیتے۔
اگر عورت سے کئی بچے جنواکر نہ صرف اس کو گھر سے نکالنا شوہر کا حق ہو بلکہ اس سے بچے چھین لینے کا بھی حق ہو تو یہ نکاح کہاں ہوسکتاہے؟۔ سورہ الطلاق میں واضح طور پر گھر کو عورت کا قرار دیا گیا ہے۔ لاتخر جوھن من بیوتھن ”ان کو انکے گھروں سے مت نکالو”۔(الطلاق) ام رکانہ سے طلاق پر ابورکانہ نے گھر نہیں چھینا تھا بلکہ وہ اپنے بچوں کیساتھ گھر میں رہی تھیں۔ ٹانک گل امام کے مشہور عالم دین مولانا عبدالرؤف نے بیوی کو طلاق دی تھی تو اپنا گھر بیوی بچوں کیلئے چھوڑ دیا تھا۔
قانون اور اخلاقیات میں اتنا فرق نہیں ہوتا کہ ایک طرف بیوی سے کئی بچے جنواکر اس کو گھر اور بچوں سے محروم کیا جاسکتا ہو اور دوسری طرف اخلاقی بنیاد پر ان کو گھر سپرد کیا جاتا ہو؟۔ طلاق کے بعد عورت کے اصل حقوق کا پتہ چلتا ہے۔ حق مہر اور خرچہ عورت کا حق ہے۔ نبیۖ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ ودیگر ازواج مطہرات اپنے گھروں کی مالک تھیں۔
علماء کہتے ہیں کہ میاں بیوی میں ایک فوت ہوجائے تو ایک دوسرے کیلئے اجنبی۔ نبیۖ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا، حضرت ابوبکر کی میت آپ کی بیوی اور حضرت فاطمہ کی میت کو حضرت علی نے غسل دیا۔ مفتی کی بیوی20سال بعد مرتی ہے تواس کا بیٹا اپنی ماں کی قبر پر اجنبی شوہر کی تختی لگا دیتا ہے کہ زوجہ مفتی اعظم فلاں۔
اللہ نے فرمایا:” اور اگر یہ طاقت نہ ہوکہ بیوہ وطلاق شدہ کو نکاح میں لاسکو تو پھر مؤمنات معاہدے والیاں تمہاری لڑکیوں میں سے ۔اللہ تمہاراایمان جانتا ہے ۔بعض تم خود بعض سے ہو ، پس ان سے نکاح کرو انکے اہل کی اجازت سے۔ انکوانکا حق مہر دو معروف طریقے سے۔ نکاح کی قید میں لاکر نہ فحاشی سے اور نہ چھپی یاری سے۔جب نکاح میں لاؤ اور پھر وہ فحاشی کریں تو ان پر بیگمات کی آدھی سزا ہے۔یہ اس کیلئے ہے جو تم میں سے مشکل میں پڑنے کا خوف رکھے اور اگر صبر کرو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے”۔ (سورہ النساء : آیت25)
بدکاری پر100اور50کوڑے کی سزا قرآن کے مطابق ہوتی تو عمل بھی ہوتا۔ سورہ نسائ:15میں عورت پر4گواہ کے بعد گھر میں تاموت قید کا حکم ہے یا کوئی راستہ اللہ نکالے۔ یعنی نکاح ہوجائے۔ مفتی شفیع و مفتی ولی حسن ٹونکی نے سنگساری مراد لیا اور پھر اللہ نے دو مرد کو بدکاری پر اذیت کا حکم دیا اور اگر توبہ کریں تو طعنے سے روکا ۔ (النسائ:16) علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کو مینار پاکستان سے گرایا ؟۔
مااصاب من مصیبةٍ فی الارض ولافی انفسکم الا فی کتابٍ من قبل ان نبرأھا ان ذٰلک علی اللہ یسیرOلکیلا تأسوا علی ما فاتکم ولاتفرحوا بما اتاکم واللہ لایحب کل مختالٍ فخورٍOسورہ الحدید
”جو مصیبت زمین اور خود تم کو پہنچتی ہے تو کتاب میں پہلے سے ہوتی ہے ہمارے پیدا کرنے سے۔یہ اللہ کیلئے آسان ہے تاکہ تم نقصان پر افسوس اور عطاء پر فخر نہ کرو۔اللہ پسند نہیں کرتا ہر اترانے فخر والا”۔مولانا منظور مینگل نے کہا کہ سُود ، زنا اور قتل شرعاً و عقلاً ناجائز ہیں، شیعہ زنا کو جائز کہتے ہیں۔ اگر ہندو اور یہودی شرعاً سُود کو حرام اور ہمارا مفتی حلال سمجھے تو پھر؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv