ہم تمہاری عزتیں ، تمہاری جانیں اور تمہارے مالوں کوبچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو!
وانذرعشریتک الاقربین
اور (اے نبی ۖ!) اپنی قریبی رشتہ داروں کو خوف دلاؤ۔ قرآن
اللہ تعالیٰ نے دورِجاہلیت کے عربوں میں جب آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ۖ کو مبعوث فرمایا تو سب سے پہلے اپنے عزیز واقارب کو ڈرانے کی تلقین کا حکم فرمایا۔ اسلام دنیا میں سب انسانوںکی عزتوں ، جانوں اور مالوں کوتحفظ فراہم کرتا ہے۔
اسلام کو خانہ کعبہ میں 360بتوں سے بڑامسئلہ عزیٰ ، لات اور منات کے نام پرعوام کی جان، مال اور عزتوں کی پامالی تھی۔ عورتیں اور مرد ننگے طواف کرتے، معمولی معمولی باتوں پر قتل وغارتگری کا بازار گرم ہوتاتھا اورلوگوں کے اموال کو سود، مزارعت ، ڈکیتی اور مجرمانہ اندازسے کھانے کا سلسلہ رہتا تھا۔ حلالہ سے لیکر کیا برائی اب باقی رہ گئی ہے؟۔
جب نبی ۖ نے حجاز میں انقلاب برپا کردیا تو سب سے پہلے اپنے چچا کے قتل اور اپنے چچا کے سود کو معاف کردیا۔ حالت جنگ میں بھی عورت اور پرامن لوگوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع کردیا تھا۔
آج پاکستان میں طبقاتی کشمکش نے حالات کو بہت نازک موڑ پر پہنچادیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے دشمنی کی انتہاء کی ہے۔ عوام کی مقبول قیادت عمران خان اور فوج کے درمیان محاذ آرائی نے حالات کوبہت نازک موڑ پر پہنچا یا۔ 2008ء سے2013ء تک پیپلزپارٹی ، آصف علی زرداری نے کچھ کیا تھا یا نہیں ؟۔ فوج، طالبان اورن لیگ نے پیپلزپارٹی کیخلاف محاذ آرائی کی۔ خواجہ شریف چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ۔ صدر مملکت آصف زرداری اور سلمان تاثیر گورنر پنجاب کوملوث قرار دینا تھا۔ شہباز شریف وزیراعلی پنجاب تھا ۔ رؤف کلاسرا نے اپنی تحقیق بھی پیش کی تھی جس میں صحافی انصار عباسی بھی تھا۔
پارلیمنٹ اور سینٹ میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کھل کر حقائق پر بحث کریں۔ اپنی اپنی غلطیوں کی بھی قوم سے معافی مانگیں۔ صحافیوں کو بھی کٹہرے میں لائیں اور ان سے غلطیوں کی معافی منگوائیں۔ پھر عمران خان، طالبان اور ریٹائرڈ فوجی افسران کی طرف سے بھی کھل کر غلطیوں کا اعتراف آجائیگا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف مسائل کا اصل حل ہے۔
مسلم لیگ وپیپلزپارٹی کا فائدہ کس چیز میں ہے؟
مسلم لیگ کے قائدین کہتے ہیں کہ PDM کی حکومت سے ہمیں فائدہ یہ پہنچا۔ کیس ختم ہوگئے اور عمران خان نے مرضی سے آرمی چیف نہیں بنایا۔ وہ سزائیں دلواتا اور ہماری مشکلات ختم نہ ہوتیں۔ مگر نقصان یہ بھی پہنچ گیا کہ ن لیگ کی مقبولیت کا گراف گرگیا اور عمران خان کو مقبولیت مل گئی ہے۔
2004ء میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا گراف بہت گرچکا تھا اسلئے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیس بنائے اور پروپیگنڈ ہ کیا تھا لیکن جب 2008ء کے بعد ایک مشترکہ حکومت بنائی اور پرویزمشرف کو بھی ہٹادیا تو یہ پھر ایک دوسرے کے پیچھے لگ گئے۔ کس کی غلطی تھی ؟ اور کس کی غلطی نہیں تھی؟۔ دونوں اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں تو عمران خان بھی اپنی غلطیوں کا اسی وقت اعتراف کرلے گااور میں نہ مانوں کا معاملہ ختم ہوگا تو یہ ملک ترقی کی منزل کا سفر طے کرسکے گا۔
زرداری اور سلمان تاثیر کو جسٹس شریف کے قتل کی سازش میں نہیں پھنسایا جاسکا لیکن سلمان تاثیر کا قتل، یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کا افغانستان اغواء اس سلسلے کی کڑیاں تو نہ تھیں؟۔ سلمان تاثیر قتل سے علامہ خادم حسین رضوی برآمد ہوا۔پھر صحافی ابصارعالم نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو اسلئے نوازشریف کے ذریعے آرمی چیف بنوایا کہ اس کا سسر قادیانی تھا جس کی وجہ سے فوج میں زیر عتاب تھا۔ نوازشریف جنرل باجوہ کو خوش کرنے کیلئے قادیانیت کے حق میں بل لایا، جس میں اتحادی مولانا فضل الرحمن اور اپوزیشن عمران خان بھی شریک تھے۔ شیخ رشید نے آواز اٹھائی جس کا جماعت اسلامی نے ساتھ دیا تھا۔ پھر فیض آباد دھرنے کا مسئلہ اٹھ گیا اور عمران خان بھی اس میں کود گیا جس میں احسن اقبال کو گولی ماری گئی تھی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جرائم کا اعتراف کریں تو عمران خان اور فوج جرنیل بھی غلطیوں کا اعتراف کریں گے۔ بلیم گیم کا سلسلہ جاری رہا تو ریاست و حکومت کا سمجھ سے باہر ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ اپنی غلطیوں پر اکڑنے سے ہوائیں اکھڑ جاتی ہیں اور اعتراف جرم سے معافی تلافی بھی ہوجاتی ہے۔
پاک فوج و عمران خان کا فائدہ کس چیز میں ہے؟
فوج و عمران خان ایک پیج پر تھے تو رانا ثناء اللہ پر20کلو ہیروئن کا کیس کردیا تھا لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کس نے کیس کیا؟۔ رانا ثناء اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیس کیا تھا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ میرا اس میں کوئی کردار نہیں تھا؟۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ”اگر ہائی کمان کا کردار نہ ہوتا تو جس فوجی افسر نے مجھ پر کیس کیا تھا تو اس کا کورٹ مارشل ہوجانا تھا”۔
آج تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں پر جتنے پہاڑمشکلات کے ڈھائے گئے ہیں اس کا سارا ملبہ پاک فوج کے کھاتے میں جارہاہے۔ کچے کے ڈاکو، طالبان اور سیاست گردی کے تمام واقعات پر سوشل میڈیا میں تبصرہ ہوتا ہے تو فوج نشانہ بنتی ہے۔ 2008ء سے2013ء تک پیپلزپارٹی کی قیادت کیساتھ برا ہوا تو سندھ میں فوج کاگراف گر گیا۔ پختون ،بلوچ بہت پہلے سے بدظن تھے۔ 2013 سے 2018ء تک مسلم لیگ ن ، جیو ٹی وی اور دیگر کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو اٹھایا گیا تو آدھاپنجاب فوج مخالف ،آدھا عمران خان کا حامی بن گیا پھر عمران خان کے خلاف اقدامات ہوئے تو باقی پنجاب بھی فوج کے خلاف کھڑا ہوگیا۔ فوج کا بہت بڑا نقصان ہوگیا اسلئے کہ پنجاب کو بھی ہاتھ سے کھو دیا ہے۔ KP، GB،کشمیر،بلوچستان و سندھ میں پہلے سے معاملہ خراب تھا۔ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن نے فوجی اہلکاروں پر الیکشن میں اربوں روپے میں قومی وصوبائی اسمبلیاں بیچنے کا الزام لگادیا اور نوازشریف کے قریبی سیاستدان میاں جاوید لطیف نے بھی کہا ہے کہ شیخوپورہ کی5 صوبائی سیٹوں پر 90کروڑ روپے لئے گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمن کا گراف بہت گرچکا تھا اسی لئے پشین بلوچستان سے الیکشن لڑکر جمعیت علماء کی ناک کاٹ دی۔ پہلے بھی فیل ہوتا رہاہے اور جب پاس ہوا ہے تو فوج کی مداخلت سے بھی ہوا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن نے غیرت وعزت کا مقابلہ طاقت وجبر کا عنوان دے کر اچھی سیاست کا آغاز کردیا ہے۔ لیکن اس کے عقیدت مند حلالہ کی لعنت سے ایمان اور عزت دونوں کو اب کھورہے ہیں۔
افغانستان اورTTPکا فائدہ کس چیز میں ہے؟
افغان حکومت نے اپنی مدد کیلئے روس کو بلایا تھا تو مجاہدین نے جہاد شروع کیا اور امریکہ ، عرب اور چین سمیت پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران نے بھی اس کی مدد کی تھی۔ چین وروس دونوں کمیونسٹ تھے لیکن روس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ ماں بہن کو نہیں پہچانتا۔ حالانکہ یہ بات بالکل ہی غلط تھی۔ روس کے قانون میں نکاح کا بندھن بڑا مضبوط نظام تھا۔ ہمارے دوست ناصر علی نے ایک طلاق شدہ لڑکی سے نکاح کیا تو پتہ چلا کہ ایک سال تک طلاق کے پراسیس کے بغیر کسی اور شخص سے وہ نکاح نہیں کرسکتی تھی۔ اسلام میں طلاق کی عدت 3 ماہ ہے اور سویت یونین میں ایک سال ہے۔ اسی طرح کمیونزم میں محدود پیمانے پر ذاتی ملکیت کی قانونی اجازت تھی مگر لوگوں کو غلط فہمی کا شکار کیا گیا۔ 1970ء میں جمعیت علماء اسلام کے اکابرین نے سودی سرمایہ دارانہ نظام کیپٹل ازم کے مقابلے میں کمیونزم کو اسلام کے قریب قرار دیا تو مفتی اعظم اور شیخ الاسلام لوگوں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے۔
افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان نے امریکہ ، نیٹو اور اس کے اتحادیوں کیساتھ جہاد کیا تو کمالات کی تاریخ رقم کردی۔ امریکہ اور نیٹو نے یہ محسوس کرلیا کہ اس خطے میں سکون کی زندگی کسی بھی قیمت پر نہیں گزار سکتے ہیں۔ نیٹو کے نکلنے کے بعد افغانستان پر طالبان نے قبضہ کرلیا اور پھر TTP کی بڑی تعداد پاکستان آگئی۔ صحافی ہارون الرشید نے کہاتھا کہ” TTPسیاست کرے گی، ظاہر ہے کہ کوئی بنٹے تو نہیں کھیلے گی۔ اگر فوج کے خلاف جنگ کی توپہاڑوں کو ان کے خلاف گرم کیا جائیگا”۔
امریکی اہل کتاب اور پاک فوج مسلمان ہے۔ نبی ۖ نے اسلام کے بڑے دشمن قریش مکہ سے بھی صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا تھا۔ افغان طالبان اور TTPاب 10سال تک ہرقسم کی جنگ بند کریں۔ اور اپنی غلطیوں کا محاسبہ کریں۔ خطے کی مشکلا ت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کریں۔ امن وسلامتی کا راستہ ترقی وعروج کی منزل اور فتح پر پہنچاسکتا ہے۔ جنگ وجدل میں تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں رکھا ہے۔ اچھا ماحول کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
گڈ طالبان بیڈ طالبان کا فائدہ کس چیز میں ہے؟
پا کستان میں گڈ اور بیڈ طالبان کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ عبداللہ محسود گوانتانا موبے سے جب رہا ہوکر آیا تو اپنا گروپ تشکیل دیا پھر بیت اللہ محسود کا گروپ بھی بن گیا۔ بیت اللہ محسود گڈ اور عبداللہ بیڈ بنادیا گیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ بیت اللہ محسود بیڈ اور عبداللہ محسود کی باقیات گڈ طالبان بن گئے جس نے کمیٹی کے نام سے کام شروع کیا۔ کمیٹی کی سرپرستی حکومت کرتی تھی۔ کمیٹی کو فری ہینڈ دیا گیا تو اس میں ہرطرح کے لوگ شامل ہوگئے۔ بدمعاش لوگوں کی طرف سے جہاں طالبان کے ساتھ ظلم وزیادتی کی گئی وہاں شریف و بے گناہ لوگ بھی مارے گئے۔ پھر کمیٹی کے نام سے کام کرنے والے مارے گئے۔
اب تحریک طالبان پاکستان کے بڑے یہاں موجود نہیں ہیں لیکن ایک طرف بے لگام گروپ ان کے نام پر خود ساختہ کاروائیاں کرتے ہیں تو دوسری طرف ریاست نے ان کے خلاف گڈ طالبان بھی پال رکھے ہیں۔ اگر دونوں طرف کے لوگ پہلا کام یہ کریں کہ بندوق رکھیں۔ دوسرا اپنے جائز روزگار کی تلاش اور امن وسکون کی زندگی اپنائیں۔ تیسرا یہ کریں کہ اپنے اپنے چھوٹے بڑے جرائم کا بہت کھل کر اعتراف کریں۔ حضرت وحشی نے نبیۖ کے چچا سیدالشہداء امیر حمزہ کے کلیجے کو نکال دیا اور حضرت ہندہ نے چبا ڈالا تھا جس سے رسول ۖ نے فرمایا تھا کہ ”میرے سامنے مت آؤ ، میرا چچا یاد آتا ہے”۔ لیکن ان کو معاف کیا گیا تھا تو طالبان کی بھی معافی بالکل ہوسکتی ہے۔ دنیا میں توبہ کا دروازہ بالکل کھلا ہے۔ جب افغانستان سے نیٹو نکل گیا اور افغان طالبان نے قبضہ کرلیا تو ہم نے اپنے اخبار میں لکھ دیا تھا کہ طالبان میں بہت اچھے لوگ ہیں۔ بہت سے لوگ اس وقت طالبان بن گئے جب ان کی ساری دنیا اور اچھے لوگ تائید کرتے تھے۔ اب وہ وہاں پھنس گئے ہیں۔ امریکہ نکل چکاہے تو ایسے طالبان کی باعزت واپسی کا راستہ ہموار کیا جائے۔
پھر جب انکے ساتھ معاہدہ ہوا تو پاکستان میں تبدیلی آگئی۔ لوگوں نے بھی جلوس نکالے تھے۔ اب گڈ اور بیڈ دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں لیکن امن وسکون کسی کوبھی میسر نہیں اسلئے ہتھیار رکھیں۔
اقبال جرم یامکرنے میں؟ فائدہ کس چیز میں ہے؟
حضرت آدم و حواء نے بھی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور ابلیس لعین مردودنے بھی۔ حضرت آدم وحواء نے اقبال جرم کرلیا اور بلند مرتبہ پالیا اور ابلیس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور مردود لعین بن گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابلیس کو توبہ کی توفیق کیوںنہیں مل سکی ہے جبکہ حضرت آدم وحواء کو توبہ کی توفیق مل گئی۔ دونوں میں بنیادی فرق کیا تھا؟۔
شیطان لعین نے جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا اور اس میں تکبر تھا جبکہ حضرت آدم و حواء نے جان بوجھ کر حکم عدولی کا ارتکاب نہیں کیا۔ اسلئے شیطان اپنی غلطی پر ہٹ دھرمی سے قائم رہا تھا اور حضرت آدم وحواء نے جلدازجلد توبہ کرلی تھی۔
جب TTPنے ہم پر حملہ کرکے 13افراد کو شہید کردیا تو اقبال جرم کرلیا، معافی بھی مانگی اور یہ بھی واضح کردیا کہ تمہارے قرابتدار پیروں نے غلط پروپیگنڈہ کیا قاری حسین کا مرکزی کردار تھا لیکن قاری حسین وغیرہ کو کیوں مغالطہ دیا گیا تھا؟۔
طالبان نے اقبالِ جرم کرلیا، معافی مانگ چکے اور انہوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ اصل مجرموں کو بھی ہم ٹھکانے لگاتے ہیں ۔ شہداء کے بدلے میں قاتلوں کو بھی قتل کردیں گے۔ لیکن پھر لائن کٹ گئی اب اگر حقائق سامنے آجائیں تو مجرم کے چہروں سے نقاب ہٹ جائینگے اور یہ سزا بھی کم نہیں ہے۔
افغان طالبان، داعش، تحریک طالبان پاکستان اور سارے جنگجو گروپوں کے قائدین ایک جگہ بیٹھ کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ دوسرے کسی اور کی غلطیوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ اگر افہام وتفہیم سے کام نہیں لیا گیا تو امریکہ اور دوسری قوتیں لڑائیں گی ۔
محمود خان اچکزئی نے بھی کہا ہے کہ” اس خطے میں بجلی، گیس اور پیٹرول مفت ہے لیکن افغانستان اور پاکستان کو آپس میں ایک ہونا ہوگا۔ میں طالبان اور پاکستان کی صلح کراتا ہوں”۔ اگر صلح نہیں ہوئی تو جنگ ہوگی ۔ ڈرون وجہازوں سے بمباری ہوگی۔ طالبان قیادت رہے گی اور نہ پاک فوج۔ عراق اور لیبیا کی طرح تباہ اور تیل وگیس پر قبضہ کرلیںگے۔ عمران خان اپنی ماں فوج کی گود میں بیٹھا تھا، کالے تیتر وں کی لڑائی صرف آواز تک محدود رہتی ہے۔
حنفی علماء ومفتیان کاعلم!
کانیگرم میں مولانا شاداجانکی مسجد میں پہلے مولانا گل بہادرتھا۔جو علماء سے غصہ میںکہتا تھا کہ ”قرآنی نسخے پرتمہیں پیٹ پیٹ پر اتنا ماروں گا کہ تمہاری بدعات کے سارے کیڑے گر جائیں”۔
وہ مسجد کی امامت اور دینی خدمت پر معاوضہ لینا حرام سمجھتا تھا۔ محنت مزدوری کرتا تھا۔ شاید مزدوری کرنے دوبئی گیا۔بڑا نیک تھا لیکن لوگ اس کو تھوڑا پاگل سمجھتے تھے۔ اگر قرآنی نسخے پر مارنے کی بات پنجاب میں کرتاتو لوگ اس کو گستاخی پر قتل کردیتے مگر ان کو یہ پتہ نہیں کہ ”فتاویٰ شامیہ میں صاحب الھدایہ کی کتاب تجنیس کے حوالے سے لکھا ہے کہ علاج کیلئے نکسیر سے سورہ فاتحہ کو لکھنا جائز ہے اور پیشاب سے بھی سورہ فاتحہ کو پیشانی پر لکھنا جائز ہے۔ اگر یقین ہو کہ اس سے علاج ہوجائے گا”۔
صدر تنظیم المدارس مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا کہ ” علامہ شامی کو قرآن سے عقیدت تھی۔ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں یہ غلطی سرزد ہوگئی، اگر سورج کی طرح یقین ہوجائے کہ علاج ہوگا تب بھی سورۂ فاتحہ کوپیشاب سے لکھنے سے مرجانا بہتر ہے”۔علامہ سعیدی نے مجھے بتادیا کہ ” علماء نے میرا گریبان پکڑلیا تھا کہ تم نے علامہ شامی کے خلاف لکھنے کی جرأت کیسے کی؟ اور میں قتل ہوتے ہوتے اور پٹتے پٹتے رہ گیا تھا”۔
کوئٹہ کے سیدفرمان شاہ کو ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بھیج کر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے خلاف فتویٰ لیا۔پھر مفتی تقی عثمانی کی کتاب فقہی مقالات جلد چہارم سے بھی حوالہ نقل کرکے اخبار ضرب حق میں شہ سرخیوں کیساتھ شائع کردیا تھا۔
بریلوی مکتب خاص کر دعوت اسلامی والوں نے ہمارے اخبار کے بڑے پیمانے پر فوٹوسٹیٹ کرکے مفتی تقی عثمانی کے خلاف زمین کو بہت گرم کردیا تھا لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کے اپنے کیا کہتے ہیں؟۔ مفتی تقی عثمانی نے روزنامہ اسلام کراچی میں لکھ دیا کہ ” میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔اپنی کتابوں ”فقہی مقالات” اور” تکملہ فتح الملہم” سے نکالنے کا اعلان کرتا ہوں اور تنبیہ پر شکریہ ادا کرتاہوں”۔
مفتی تقی عثمانی نے خوف کی وجہ سے ”رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ ” کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔ ہم نے بریلویوں کو یاد دلادیا کہ تمہاری کتابوں میں بھی یہ چیز ہے تو پھر انہوں نے مفتی تقی عثمانی کی جان چھوڑ دی تھی۔پھر مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان نے اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں فاتحہ کوپیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا ۔ اسلام کا بیڑہ غرق علماء نے کیا اسلئے انکے نام کیساتھ” رح” لکھنا چاہیے۔
ہمارے علماء ومفتیان!
کانیگرم میں مولانا شاداجان نے کہا کہ نماز کی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا و حیلہ اسقاط بدعت ہے۔ جس پر مولانا محمد زمان نے قادیانیت کا فتویٰ لگایا۔ ہماری مسجد میں باہر سے علماء بلائے گئے۔ دونوں کی بات سن کر انہوں نے اپنا فیصلہ فارسی میں سنایا لیکن عوام کو فارسی نہیں آتی تھی۔ مولانا محمد زمان کے ہاں ڈھول کی تاپ پر رقص ہوا کہ ہم جیت گئے۔ مولانا شاداجان کے حامیوں نے بھی ڈھول بجاکر اعلان کردیا کہ ہم جیت گئے ۔ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف خان نیک اور شریف انسان تھے جو دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے۔ اگر عوام کو اتنا بتادیتے کہ دارالعلوم دیوبند میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ کی بڑی کتاب ہے کہ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے۔ تو معاملہ حل ہوتا۔ حق بولنے سے خاموش تھا۔ اسلئے کہ خود بھی سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرتا تھا۔
سہراب گوٹھ میں جنت گل کی مسجد میرے کلاس فیلو مولانا عبدالرزاق ژوبی نے پکڑلی تھی اسلئے کہ وہ آبادی حکومت نے مسمار کردی تھی۔ امام بھی چھوڑ کر گیاتھا۔ افغانی نماز پڑھنے آتے تھے ۔ مجھے چنددن ژوبی صاحب نے امامت کی خدمت سپرد کردی ۔ مقتدیوں نے پوچھا کہ” سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کیوں نہیں مانگتے؟”۔ جب میں نے دیوبند کا بتایا اور کراچی کے مدارس کا بتایا تو بہت حیران ہوگئے کہ پھر ہمارے افغانستان میں کیوں مانگی جاتی ہے؟۔ میں نے کہا کہ مولوی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مارسکتا ہے ۔ افغانی ان کو بھگا دیں گے کہ نیا دین بنادیا۔ وہ بہت خوش ہوگئے۔ کچھ لوگ اسکے گواہ ہوںگے۔
پنج پیری خود کو دیوبندی سمجھتے ہیں اور دیوبندیوں سے بہت اختلاف رکھتے ہیں۔ ہم دیوبندی اور پنج پیریوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں گے۔ مولانا قاسم نانوتوی و مولانا رشیداحمد گنگوہی میں اختلاف تھا۔ ہم دیوبندی بریلوی، حنفی اہل حدیث اور شیعہ سنی کو ایک پلیٹ فارم پر متحدو متفق کرنا چاہتے ہیں۔
لوگوں میں شدت جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مخلص علماء ومفتیان ایک جگہ بیٹھ کر الزام تراشی کے بجائے اپنی اپنی کتابوں میں غلطیوں کا اعتراف کریں تو پاکستان سے بڑا انقلاب آجائے گا۔ اور پاکستانی آئین کے مطابق قرآن وسنت سے قانون سازی کا آغاز ہوجائے گا۔ لوگوں میں جمود ٹوٹے گا اور فرقہ واریت کی جگہ متفقہ قانون سازی ہوگی۔ سب سے زیادہ وضاحتیں قرآن وسنت میں طلاق و رجوع کے مسئلے پر ہیں۔ اگر مذہبی طبقے نے قرآن کی طرف دیکھا تو فرقہ واریت کی گمراہی ختم ہوگی۔
ریاست مدینہ کا قانون
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا ہے جس پر صحافیوں نے مزاحمت کا اعلان کیا۔ دھاندلی کی پیدوار حکومت قانون سازی اپنے مقاصد کیلئے کرے توکیا مثبت تبدیلی آئے گی؟۔
جب عمران خان، شہبازگل اور اعظم سواتی نے DGCISI فیصل نصیرپرالزام لگائے تو عوام میں بڑی مقبولیت مل گئی۔ صحافی احمد نورانی نے شہباز گل اور اعظم سواتی کے الزامات کو غلط قرار دیا، حالانکہ وہ تحریک انصاف کا بڑا حامی اور فوج کا سخت مخالف نظر آتا ہے۔ بہتان پر سزا ہو تو یہ قرآن کے قانون کے عین مطابق ہے۔ عمران خان کی FIRاس کی مرضی کے مطابق درج نہیںہورہی تھی تو کہتا تھا کہ مجھ سے یہ روش ہے تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟۔
جب عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتا تھا تو کہتا تھا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ پہلے قومیں اسلئے ہلاک ہوگئیں کہ امیر وغریب اور طاقتور وکمزور کے درمیان فرق کرتے تھے۔ اگر عمران خان اپنے دور میں اس تفریق کو ختم کرکے تھانوں میں عام لوگوں کو بھی اہمیت دے دیتا تو اس پر برے دن نہ آتے۔
حضرت عائشہ پر بہتان لگا تو بہتان کی سزا 80 کوڑے واضح کی گئی۔ یہی سزا کسی غریب خاتون پر بہتان لگانے کی ہے ۔ حضرت عائشہ ہماری ماں، نبیۖ کی زوجہ محترمہ اور خلیفہ اول ابوبکر صدیق کی صاحبزادی پر بہتان کی وہی سزا ہو،جو عام غریب خاتون کیلئے ہو تو پھر کیا پاکستان میں حکمرانوں کے تحفظ کیلئے کوئی ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں عوام کو لوٹنے کا خدشہ موجود ہو؟۔ پنجاب پاکستان کیلئے زیادہ اہمیت رکھتا ہے مگر پنجابی کیساتھ بھی شروع سے زیادتی جاری ہے۔ جہاں مسلم لیگ کے سخت مخالف خضر حیات ٹوانہ کی حکومت 1942 سے1947ء تک قائم تھی، مسلم لیگ اپوزیشن تھی ۔
آج کی طرح انگریز دور میں مقتدرہ کی چلتی تھی اوراگر مریم نواز متنازعہ قانون کی جگہ پر قرآن کے مطابق برابری کی بنیاد پر ہتک عزت کا قانون بناتی تو مریم نواز مقبول بن جاتی۔ جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان، جماعت اسلامی قرآن کے مطابق ہتک عزت پر 80 کوڑے کی آواز اٹھائیں توپھر کوئی بہتان نہیں باندھے گا۔ پیسوں کی سزا بھی امیروغریب کیلئے یکساں نہیں ہوسکتی ہے۔ جب کوئی سوشل میڈیا کا صحافی ایک مرتبہ 80کوڑوں کی سزا کھائے تو اس کا چینل بھی پھر کوئی نہیں دیکھے گا۔
ہماری جمہوریت فیصل واوڈا، محسن نقوی ہے اور 6ججوں نے بھی عدالت کا ترازو بگاڑ دیا ہے اسلئے پاک فوج براہ راست قرآن کیلئے آواز اٹھائے۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv