پوسٹ تلاش کریں

کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟

جس مرد میں طاقت نہ ہو تو بیوی اس کو قریب نہیں چھوڑتی اور دوسری سے نکاح بھی نہیں کرسکتا۔ مگر ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہو تو اس کو چار تک محدود کرنا اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر” ایک بیوی یا جن سے معاہدہ ہو”۔
سوال یہ ہے کہ معاہدہ والیوں سے کیا مراد ہے؟۔
سلطنت عثمانیہ کے ایک بادشاہ کی4500لونڈیاں تھیں۔ کیا اللہ نے آیت میں لاتعداد لونڈیوں کی اجازت دی ہے؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں!۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عثمان نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ ایک عورت سے نکاح کرادیتا ہوں تو ابن مسعود نے منع کردیا۔ ابن مسعود نے اپنا شغل قرآن کی تعلیم کو بنایا ۔ نبیۖ نے ان سے سیکھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ ایک عورت سے نکاح کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔ کھانا، کپڑے، بچوں کی پیدائش اور ان کا خرچہ ۔ اس کیلئے مستقل کام کرنا پڑتا۔
ابن مسعودایک لونڈی کے فرزند تھے ۔ صحابہ نے نبیۖ سے کہا کہ کیا ہم خود کو خصی بنالیں؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ نہیں ایک دو چادرپر کسی سے جنسی تعلق رکھ سکتے ہو۔ لاتحرموا الطیبات ما احل اللہ لکم ”طیبات کو حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں”۔قرآن۔( صحیح بخاری)
کوئی عورت نہیں رکھ سکتاتو کم حق مہر میں نکاح کرسکتا ہے۔ جو بیوہ ، طلاق شدہ ،کنواری ہوسکتی ہے جسے جنسی تعلق کیلئے شوہر کی ضرورت ہو لیکن وہ اپنا خرچہ خود اٹھاسکتی ہوں۔ قرآن میں یہ معاہدہ والیاں ہیں۔ اگر غریب یا نفسیاتی مریض ایک عورت کو انصاف نہیں دے سکتاتو معاہدے کا نکاح بھی کرسکتا ہے۔ قرآن نے معاہدے والی کا بغیر نکاح نہیں کہا۔ بلکہ ایک عورت سے نکاح یا کسی ایک معاہدے والی سے بھی نکاح مراد ہے۔
اللہ نے مرد کو مردانی کا ایک درجہ عورتوں پر دیاہے اسلئے کسی بھی صورت میں شوہر اپنا بوجھ اپنی بیوی پر نہیں ڈال سکتا ہے اور جب عورت اپنا بوجھ خود اٹھاسکتی ہو تو اپنی مرضی کا شوہر بھی اپنے لئے منتخب کرسکتی ہے ۔ مریم نواز کو صفدر عباسی پر فوقیت ہے۔ رسول اللہۖ نے چچاابوطالب سے بیٹی ام ہانی کا رشتہ مانگا۔ حضرت ابوطالب نے انکار کردیا۔ حضرت خدیجہ کی پیشکش کوابوطالب کی اجازت سے آپۖ نے قبول فرمالیا۔
لونڈی اور غلام سے بھی اللہ نے نکاح ہی کا حکم دیا ہے۔
وانکحوا الایامٰی منکم والصٰلحین من عبادکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم O (سورہ النور آیت 32)
”اور نکاح کراؤ تم میں سے جو طلاق شدہ بیوہ ہیں اور صالح غلام اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو مالدار بنادے گا۔ اور اللہ وسعت رکھنے والا علم والا ہے”۔
ماریہ قبطیہ سے نبیۖ کے بیٹے، حاجرہ سے اسماعیل تھے اور کون گمراہ کہے گا کہ یہ لونڈیاں تھیں ، نکاح کرانے کا حکم تھا؟۔
خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کو پتہ ہوتا تو اتنی لونڈیاں نہ رکھتا۔ اتنی بکریوں پر ایک بکرا بھی کوئی نہیں رکھتا۔ خواتین کو درباری قسم کے علمائ،فقہائ، شیخ الاسلام، قاضی القضاة اور مفتی اعظم نے ہی جانوروں سے بدتر سمجھ رکھا تھااور انہی کا سکہ رائج الوقت تھا۔ امام ابوحنیفہکی جگہ حنفی مسلک شاگردابویوسف نے تشکیل دیا۔
غلام کے پاس حق مہر کیلئے کچھ نہیں ہوتا توپھر کیا ہوگا؟۔
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحًا حتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین پبتغون الکتاب مما مملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علتم فیھم خیرًا واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتاکم ….. (سورہ النور آیت33)
”اور پاکیزگی اختیار کرلیں جو نکاح نہیں پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے مستغنی بنادے۔اور جو لوگ غلاموں سے معاہدے کی لکھت چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر دیکھو تو ان سے تحریری معاہدہ کرواور ان کو وہ مال دو جو اللہ نے تمہیں دیا”۔
اگر کوئی بہن بیٹی کا رشتہ غلام سے چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر نظر آئے تو معاہدہ کرو اور اپنا مال ان پر خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دیا ۔ اس آیت کا ایسا غلط مفہوم نکالا کہ غلام آزادی چاہتا ہو اور اگر تمہیں اس میں خیر نظر آتا ہو تو پھر اس کے ساتھ آزادی کیلئے معاہدہ کرو۔ غلام اور آزادی میں خیر؟۔ اس کا جوڑ نہیں بنتا!۔ اللہ نے مال طلب نہیں خرچ کرنے کا واضح حکم دیا۔
آگے مزید دیکھو ! اللہ کے قرآن کا کیا حشر کیا گیاہے؟۔
ولاتکرھوافتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصن لتبتغوا عرض الحیاة الدنیا و من یکرھھن فان اللہ بعد اکراھن غفور رحیمO (سورہ نور آیت:33)
” اور اپنی کنواری لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو۔ اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم اپنے دنیاوی مقاصد کو انکے ذریعے تلاش کرواور اگر کسی نے ان کو مجبور کیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد مغفرت کرنیوالا اوربہت رحم کرنے والا ہے”۔
ان آیات میں طلاق شدہ وبیوہ ، غلام ولونڈی اور کنواری کے نکاح کا مسئلہ حل ہے اور ذمہ داری بااثر افراد پر ڈالی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے طویل عرصہ حکومت کی مگر اکبر کے ”دین الٰہی” سے اورنگزیب کے” فتاویٰ عالمگیریہ” تک جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، فساد فی الارض پر سزا نہیں تھی اور پھر ایسٹ انڈین کمپنی نے ہندوستان پرقبضہ کرلیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے پارسی رتن بائی سے کورٹ میرج کی اور اس کی بیٹی دینا جناح نے پارسی سے کورٹ میرج کی تھی اور قرآن وسنت کو علماء نے فروغ نہیں دیا جس سے انگریز ی عدلیہ کو عدل وانصاف اور فطرت کے مطابق بہتر سمجھتے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید سے مولانا قاسم نانوتوی تک دینداری یہ تھی کہ جوان بیوہ بہنوں کا نکاح نہیں کیا جب وہ نکاح کی عمر سے گزر گئیں تو اپنے وعظ میں تاثیر لانے کیلئے بہنوں کی منت کی کہ اپنی ضرورت کو چھوڑدو ۔ہمارے لئے نکاح ثانی کرلو۔
لڑکی کو کسی سے محبت ہوگئی اور وہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اللہ نے حکم دیا کہ اس کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو کہ لڑکا ہمارا کفوء نہیں۔ خاندان کی عزت خاک میں ملے گی۔ اپنی دنیاوی اغراض کو تلاش مت کرو۔ لیکن اس کو کسی اور سے نکاح پر مجبورکیا گیا تواگرچہ اس کی اجازت نہیں لیکن مجبور عورت پر ناجائز اور حرام کاری کا فتویٰ نہیں لگایا جائے بلکہ اللہ غفور رحیم ہے۔
مفتی تقی عثمانی کی بیٹی نے ٹیوشن پڑھانے والے سے نکاح چاہا مگر مارپیٹ کر کسی اور نکاح پر مجبور کیا گیا۔اللہ نے اس جبر کو ناجائز قرار دیا لیکن حرام کاری نہیں اسلئے کہ لڑکی مجبور ہے۔
معاشرے میں ظالمانہ اقدام میں علماء بھی ملوث ہیں۔اور وجہ قرآن کامسخ مفہوم ہے۔ اس آیت کا یہ ترجمہ بیان کیا گیاکہ ”لونڈیوں کو زبردستی سے دھندے پر مجبورنہ کرو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور اگر ان کو مجبور کیا گیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔
عورت کی مرضی کے بغیر ولی نکاح نہیں کراسکتا(حدیث) بالغ لڑکی کا نکاح اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا تو چھوٹی بچی کا نکاح جبراً ہوسکتا ہے؟۔ مینا، طوطا اور کونج بچپن سے پالا ہو تو اس کا بھی حق ہے کہ مرضی کے بغیر حوالے نہ کیا جائے چہ جائیکہ اپنی نابالغ بچی کسی جنسی درندے کودی جائے؟۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد2” میں ظالمانہ غیرانسانی فتاویٰ جات کو دیکھ کر علماء کی غیرت جاگنی چاہیے تھی۔ اس کے کچھ فتاویٰ پہلے شائع کرچکا ہوں۔ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال معروضی حقائق کے بالکل منافی ہے جس پر تحقیقاتی کتابیں ہیں ۔ ہم نے خاصا مواد شائع کیا ہے۔
مفتی طارق مسعود نے کہا کہ بچی شوہر کی امانت ہے ۔ بچپن سے تعلیم کا خرچہ شوہر اٹھالے۔ فائدہ سسرال نے لینا ہے تو میکے والے نقصان کیوں بھریں؟ ۔PTVکی ماہ پارہ صفدر نے کہا کہ ”دورِ جاہلیت میں بعض قبائل اپنی بیٹیوں کو اس خوف سے ماردیتے تھے کہ دشمنی میں مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں سیکس کیلئے بنایا جاتا تھا۔ مفتی طارق مسعود بیٹیوں کو سیکس ورکر کی طرح بچپن میں دوسروں کے ذمہ لگانے پر تلا ہوا ہے” ۔
قرآن میں یتیم لڑکوں کیلئے حتی بلغوا النکاح کا ذکر ہے جس سے لڑکوں کا نکاح کی عمراور ذمہ داری اٹھانے کی حد تک پہنچنا واضح ہے۔ جاہلوں نے قرآن کے لفظ لم یحضن سے بالکل غلط استدلال کیا ہے کہ اس سے وہ بچی مراد ہے جس کو ابھی حیض نہیں آیا ہو۔ یہ سورہ اخلاص لم یلد کی نفی ہے کہ اللہ نے کسی کو جنا نہیں مگر مستقبل میں بچہ جن سکتا ہے نعوذ باللہ۔
الیکشن1937میں جمعیت علماء ہند نے مسلم لیگ کیساتھ اتحاد کیا کہ بچپن کی شادی ختم کرانے کیلئے قانون سازی ہوگی۔ مجلس احرارالاسلام نے قادیانی ٹکٹ ہولڈر وں کا مقابلہ کیا اور الیکشن میں ایک دوسرے کی مخالفت بھی ہوئی جس پر مولا نا مدنی سیدعطاء اللہ شاہ بخاری سے ناراض ہوگئے۔ بخاری نے مدنی کی پرواہ نہیں کی توپھر مولانا سیدحسین احمد مدنی منانے گئے۔
احمد نورانی نے اپنے ویلاگ میںدوبئی میں ایک18سالہ لڑکے کا17سالہ لڑکی سے جنسی تعلق پر سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں18سال نکاح کی قانونی عمر ہے اور اس سے کم عمر یا عمروں میں زیادہ فرق کیلئے عدالت سے اجازت لینا ہوگی۔
مغرب نے بھی نکاح کے قوانین رکھے ہیں اور اسلام نے بہت پہلے رکھے تھے لیکن فقہاء نے اپنی جہالت یا مفادات کی خاطر عورت کے حقوق کا خاتمہ کردیا۔ اگر حقوق نہ ہوں توپھریہ قانونی مسئلہ واقعی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر حقوق ہوں گے توپھر قانونی معاملات کیلئے والدین کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی کیونکہ طلاق میں مالی حقوق کا تعین کرنا پڑے گالیکن حلالہ کی لعنت کے مرتکب نکاح و طلاق کے حقوق کو کیا سمجھیں گے؟۔
دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث مدارس بورڈ1982کو منظور ہوگئے۔ مولانا مودودی مدارس کی افادیت کے سخت مخالف تھے لیکن جاوید غامدی کی خانقاہ کی طرح پھرجماعت اسلامی نے رابطہ المدارس بورڈ1987میں رجسٹرڈ کرایا۔
غزوہ حنین کی مشکلات میں نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ
انا نبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
”میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں”۔
میدان جنگ اللہ نے سجدے و رکوع کا حکم نہیںدیا تھا اور نہ حضرت حسین نے اس پر عمل کیاتھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ
آگیا عین لڑائی میں وقت نماز
قبلہ رو ہوکے زمین بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
لڑائی میں سر بسجود ہوں تو کون محمود وایاز زندہ رہیں گے؟۔ قرآن میں حالت جنگ نہیں حالت خوف کی نماز کا سورہ البقرہ آیات238،239میںحکم ہے۔ پھر سورہ النساء میں فرمایا :
” جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ کفر والے لوگ تمہیں آزمائش میں ڈالیں،بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن تھے۔ اور جب آپ(ۖ) خود ان میں ہوں اور نماز پڑھانا چاہیں ان کیلئے تو ان کا ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اوراپناہتھیار ساتھ رکھیں۔جب وہ سجدہ کر چکیں تو وہ پیچھے ہوجائیں۔دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی۔پس وہ آپ کیساتھ نماز پڑھ لیںاور وہ بچاؤ کیلئے اپنی حاضر دماغی اور اپنا اسلحہ تیار رکھیںاور کافروں کو پسند ہے کہ اگر اپنے اسلحہ اور سامان سے غافل ہوں تو وہ ایک حملہ میں کام تمام کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو بارش سے یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو اور اپنی حاضر دماغی بچاؤ کی رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت کا عذاب مقرر کررکھا ہے۔ جب تم نماز پڑھ چکے تو اللہ کو یاد کرو اٹھتے ،بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر۔پس جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر اوقات کے مطابق فرض کی گئی ہے۔ (سورہ النسائ:101،102،103)
سفر میں نماز قصر کی اجازت ہے تاکہ مولوی اپنی دو رکعت کی نماز پڑھ کر مقتدیوں کی ایک بڑی تعداد کو شتر بے مہار کی طرح نہ چھوڑے۔ جب حالت یہ ہو کہ حنفی مسلک میں مقتدی کو بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہ ہو اور عوام کو پتہ نہ ہو۔ مجد د الف ثانی کا یہ حال ہو کہ حدیث میں فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور میں حنفی ہوں مگر نماز کی امامت کرتا ہوں تاکہ اپنی نماز ہوجائے۔( مقتدی بھاڑ میں جائیں)۔ حج کے اجتماع اور سفر میں نبیۖ ظہروعصر اور مغرب وعشاء کی نماز یں جمع کرتے۔
تبلیغی جماعت و جمعیت علماء اسلام کا لاکھوں کا اجتماع مگر زیادہ تر اوقات لیڑین ،انتظار اور وضو خانہ میں گزرتے ہیں۔ سورہ النساء میں سفر کی نماز کا حکم ہے اور نبیۖ کیلئے حساسیت بیان کی گئی اسلئے کہ کفار موقع کی تلاش میں تھے۔ صحابہ کرام نے دل وجان سے نبی ۖ کی حفاظت کی۔ شیعہ کی یہ عادت بری ہے کہ اختلاف کے علاوہ دوسروں کو حرامی تک بولتے ہیںلیکن طرز عمل کا اختلاف تو ائمہ اہل بیت اور ان کی اولاد میں بھی تھا۔ آج میڈیا کے باوجود کیا سے کیا پروپیگنڈے نہیں ہوتے؟۔
سورہ البقرہ کے پہلے دو رکوع میں مؤمنین ، کفار اور منافقین کی صفات ہیں۔فرمایاکہ” بیشک جو لوگ کافر ہیں ان کیلئے برابر ہے کہ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ایمان نہیں لائیںگے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور انکے سننے پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے”۔ کفر وانکار کی خصلت جن میں ہوتو وہ پیغمبروں کی بعثت پر عذاب کا شکار بنتے ہیں مگر ہردور میں اپنی خصلت سے پہچانے جاتے ہیں۔ نبی ۖ کے والدین کفر کی صفات نہیں رکھتے تھے۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے جن کا ایمان تھا ان کو قرآن نے اسلام پر دوہرے اجر کا مژدہ سنایا۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے کسی کاانتقال ہوا تو کس جرم میں جہنم کا عذاب ہوگا؟۔ اب جو قرآن نہیں مانتے وہ مسلمان ہیں؟۔
بعض لوگوں پر منافقین کی صفات صادق آتی ہیں۔ قرآن کا آئینہ موجود ہے جس میں مؤمن، کافر اور منافق کا ایمان وکردار دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اللہ نے عورتوں کا حق مہر شوہر کی استعداد پر فرض کیا ۔ قد علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم وماملکت ایمانھم (الاحزاب:50)
”اور ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے ان پر بیویوں اور معاہدہ کرنے والیوں پر (حق مہر)فرض کیا ہے”۔ اللہ نے فرمایا کہ لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی الموسع قدرہ وعلی المقترہ قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنینOوان طلقتوھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضة فنصف مافرضتم الا یعفون او یعفوا الذی بیدہ عقدة النکاح وان تعفوا اقرب للتقویٰ ولاتنسوا الفضل بینکم ان اللہ بما تعملون بصیرًاO(البقرہ آیات236،237)

ترجمہ:” کوئی گناہ نہیں ہے تم پر اگر عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی یا کوئی حق مہر مقرر کرنے سے پہلے۔ پس ان کو خرچہ دو وسعت والے پر اپنی قدرت کے مطابق اور فقیر پر اپنی قدرت کے مطابق معروف طریقے سے خرچہ ہے۔حق ہے اچھوں پر۔ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی اور ان کیلئے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو پھر مقرر کردہ کا آدھا دینا فرض ہے الا یہ کہ جن عورتوں کا حق ہے وہ چھوڑ دیں یا جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ آدھے سے زیادہ کا درگزر کرلیں۔ اگر مردوں تم درگزر سے کام لو یعنی آدھا سے زیادہ دو تو یہ تقویٰ کے قریب ہے اور آپس میں ایکدوسرے پر فضل کرنا نہ بھولو۔ بیشک کہ جو کچھ بھی تم کررہے ہو ۔اللہ اس کو دیکھ رہاہے ”۔
اللہ تعالیٰ ان آیات میں واضح کررہاہے کہ مردوں پر حق مہر ان کی استعداد کے مطابق ہے۔ کھرب پتی اور فقیر دونوں پر اپنی اپنی قدرت کے مطابق حق مہر اللہ نے فرض کیا ہے۔
اللہ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق پر آدھا حق مہر فرض کیا مگر عورتیں رعایت کریں یا مرد اور مردوں کی رعایت تقویٰ کے زیادہ قریب ہے جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے۔
ایک عام آدمی حیران ہوتا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر بھی طلاق میں عورت کو آدھے حق مہر کا تحفظ دیا گیاہے؟۔ پھر رعایت کی بھی دو طرفہ گنجائش ہے لیکن مردوں کی طرف سے ہی رعایت کو زیادہ تقویٰ کے قریب قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ طلاق کا اقدام بھی وہی اٹھارہے ہیں تو اپنے کئے کا بدلہ انہی کو اٹھانا چاہیے۔ شیخ چلی پن کی انتہاء یہ ہے کہ فقہاء نے اس سے یہ مراد لیا کہ ”طلاق صرف مرد کا حق ہے اور عورت کو خلع کا حق نہیںہے”۔
حالانکہ یہاں مالی حق کا مسئلہ ہے اور طلاق کا اقدام مرد ہی اٹھارہاہے تو یہ وضاحت ہے کہ مرد کو رعایت دینی چاہیے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کو اختیار سے محروم کردیا گیا۔ جب شوہر طلاق کے بعد عورت کو اس کے مالی حقوق سے محروم کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا:
وکیف تأخذونہ وقد افضٰی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقًا غلیظًاO (النسائ:آیت:21)
”اور اس سے کیسے لیں گے اور تحقیق وہ ایک دوسرے سے قربت کرچکے ہیں اور ان عورتوں نے ان سے سخت عہد لیا”۔
اس آیت میں عہد کی نسبت عورت کی طرف ہے تاکہ اس کو محروم نہیں کیا جائے ۔ آیت237البقرہ میں مردوں کی طرف نسبت ہے تاکہ عورت سے رعایت کیلئے تقاضے میں شرمائے۔
فقہاء کی حماقت اور شیخ چلی پن کی انتہاء ہے کہ قرآن کو رائج تو نہ کیا لیکن اپنی حماقت سے اسکے مفہوم میں معنوی تحریفات سے بالکل بخرے کرکے رکھ دئیے ہیں۔صدر وفاق المدارس پاکستان استاذ العلماء محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا:
” عورت کا فرض حق مہر مختلف فقہی مسالک میں الگ الگ ہے ۔ جتنی رقم پر چور کا ایک عضو ہاتھ کٹتا ہے تو اتنی رقم میں شوہر عورت کے ایک عضو شرمگاہ کا مالک بن جاتا ہے۔10درہم،3درہم ، درہم کا چونی اور ایک پیسہ وغیرہ پر مختلف اماموں کے ہاں چور کا ہاتھ کٹتا ہے۔ (کشف الباری شرح صحیح البخاری)
قرآن نے شوہر کی استعداد پر عورت کے حق مہر کا معاملہ رکھا ہے اور حدیث میں نبیۖ نے شوہر کے استعداد پر حق مہر کا معاملہ واضح کیا ہے۔ ایک عورت نے نبیۖ کو خود کو ہبہ کیا نبیۖ نے اسے دیکھا پھر ایک صحابی نے کہا کہ آپۖ کو ضرورت نہ ہو تو مجھے نکاح میںدیں، نبیۖ نے پوچھ لیا کہ آپکے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک چادر ہے ،اگر اس کو دوں گا تو خود کیا کروں گا؟۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ ۔ بھلے لوہے کی انگھوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے دیکھا اور واپس آکر کہا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ نبیۖ نے پوچھا کہ قرآن کی کچھ سورتیں یادہیں؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! نبیۖ نے اسے سورتوں کی تعلیم ذمہ لگادی۔
یہ اس فقیر کا حال تھا جس کی کل مالیت نبیۖ نے حق مہر میں دے دینی تھی لیکن اس کے پاس تن پر کپڑے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اللہ نے قرآن میں واضح کردیا کہ ” نبی کیلئے یہ خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے،اگر نبی کا ارادہ نکاح کا ہو”۔ تاکہ آنے والے دور میں قیامت حیلہ بازمولوی ہبوں میں اپنی اولاد کیلئے مریدوں اور اپنے لئے عورتیں لیناشروع نہ کریں۔
مفتی تقی عثمانی نے بھتیجے کیلئے مرید کی بیٹی لے لی۔ اس نے بچوں کو بڑا کیا تو پھر جب وہ گھر گئی تو پیچھے سے طلاق بھیج دی۔ جس قوم کے افراد بیوی سے جہیز کا مطالبہ کریں اور بیٹی کو حق مہر کے نام پر بھاری رقوم سے فروخت کردیں تو اس میں ملا کہاں سے غیرتمند پیدا ہوسکتے ہیں؟۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ”جمہور کے نزدیک نکاح سے پہلے عورت کا چہرہ ہتھیلیاں دیکھ سکتے ہیں تاکہ خوبصورتی اور نرمی کا پتہ چلے۔ امام اوزاعی کے نزدیک شرمگاہ کے علاوہ پورا جسم دیکھ سکتے ہیں امام داؤد ظاہری کے نزدیک شرمگاہ بھی دیکھ سکتے ہیں”۔ (کشف الباری)
کاش !علماء اپنے نصاب کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں۔
”اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ جب تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ سمجھو کہ جو کچھ تم بول رہے ہو اور نہ جنابت میں مگر مسافر یہاں تک کہ غسل کرو….تیمم….”۔(النسائ:43)
جو بغیر نشے بھی نماز سمجھ کر نہیں پڑھتے تو وہ خود کو بے نمازیوں سے افضل نہ سمجھیں۔ہرنماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی دعا مانگنے والوں کا خود کو ہدایت پر دوسروں کو گمراہ سمجھنا بیوقوفی ہے۔
حضرت عمر نے کہا: سفر میں تیمم سے نماز نہ پڑھی۔نبیۖ نے فرمایا: اچھا کیا۔حضرت عمار نے کہا: زمین میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی۔ فرمایاۖ: ہاتھ و چہرے پر مسح کرنا کافی تھا۔
قرآن واضح ہے کہ نماز کی مسافر کو تیمم سے اجازت ہے اور تیمم سے نہ پڑھی تو صحیح۔ عمر نے عمل کیا، نبیۖ کی تصدیق مل گئی۔ عمار نے تیمم کا واضح مسئلہ نہ سمجھا تو نبیۖ نے سمجھادیا۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ بنوقریظہ پہنچ کر عصر کی نماز پڑھو۔ کچھ نے راستے میں پڑھی اور کچھ نے مغرب کیساتھ پہنچ کر پڑھ لی۔
” نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔اللہ کیلئے عاجزی سے کھڑے ہو۔اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ یا سوار ہوکر۔ پس جب امن میں آجاؤ تو ویسے اللہ کو یاد کرو (نماز پڑھو) جیسے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے”۔ البقرہ238،239
یہ حکم جنگ نہیں حالتِ خوف کا ہے۔ فقہاء ، قصہ گو واعظین، مصنفین اور طاغوتی شعراء نے امت مسلمہ کو قرآن وسنت سے دور کرکے اپنا اور ہم سب کا بیڑہ غرق کرنے میں کردار ادا کیا۔
آیت میں جنابت کیلئے غسل کا حکم واضح ہے ۔و ضو کیلئے اللہ نے فرمایا کہ ” جب تم نماز کیلئے اُٹھو تو اپنے چہروںو ہاتھوں کو دھو ؤ اور مسح کرو اپنے سروں کا اور اور اپنے پاؤں کو دھوؤ اور اگر تم جنابت میں ہو تو خوب پاکی حاصل کرو”۔ (المائدہ:6)
صحابہ کرام وضو کرتے اور نہاتے تھے مگرانہوں نے اس میں مختلف اور متضاد فرائض ایجاد نہیں کئے۔ فقہاء نے فضول کے اختلافات کئے کہ ”خوب پاکی حاصل کرو” سے کیا مراد ہے؟۔ وضو کے مقابلے میں غسل کرنا خوب پاکی ہے۔ کوئی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض قرار دے ، کوئی نافرض اور کوئی پورے جسم کو مل مل کو دھونا فرض قرار دے اور کوئی نہیں لیکن ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ یہی حال وضو میں سر کے مسح کا ہے ۔ کوئی چوتھائی فرض قرار دے تو کوئی بال برابر اور کوئی بال برابر بھی رہ جائے تو فرض ادا نہیں ہوگا۔ اگر یہ پتہ ہو کہ چہرہ دھونا ہے، ہاتھ کہنی تک دھونے ہیں تو سر کا مسح نہ بھی کہا جائے تو کرلیںگے۔
قرآن قیامت تک انسانوں کیلئے ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں جمعہ کی تقریر میں فرمایا کہ ” ایک یہودی نے اعتراض کیا کہ قرآن میں ان ھٰذا لشئی عجاب عربی جملہ نہیں ہے تو ایک دیہاتی عرب کو بلاکر چندبار اٹھک بیٹھک کرائی گئی اور پھر کہا کہ جاؤ تو اس نے کہا:ان ھٰذا لشئی عجاب جس پر یہودی مان گیا۔ ومن یشتری لھوالحدیث (اور جو لغو بات خریدتا ہے) تو جب آڈیو نہیں تھا تو بات خریدنے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا مگر قرآن میں موجودہ دور کیلئے اللہ نے یہ فرمایا ہے”۔
حدیث ہے کہ” آدمی اپنے ہاتھ کی چیز سے دور رہ کر بھی اپنا گھر دیکھے گا اور بیوی کے جوتے کے تسمہ پر (کیمرہ) لگائے گا تو سب ریکاڈنگ دیکھ سکے گا”۔ ملحدین قرآن واحادیث کے عجائب نہیں مانتے تھے لیکن سائنسی ترقی ثابت کررہی ہے۔
قرآن نے چاند، سورج ، بادل اور کائنات کی تسخیر سے دنیا کو منافع بخش بنانے کا حکم دیا تھا اور علماء ومفتیان اور مذہبی طبقہ غسل، وضو اور استنجے کی تسخیر پر قوم کی زکوٰة وخیرات کا پیسہ بہت ضائع کررہے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ایٹم بم بنادیا اور مفتی تقی عثمانی ومفتی منیب الرحمن نے سود کو اسلامی نظام قرار دیدیا۔ مذہبی طبقات کی مصیبت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے لیکن قرآن کو ٹکڑے کرنے میں سب مل کر ٹوکے اٹھالیتے ہیں۔ یہ رویہ اب بدلنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ نے محرمات کی فہرست کے آخر میں 5ویں پارہ کے ابتداء میں فرمایا: والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم کتب اللہ علیکم واحل لکم مارواء ذٰلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتو ھن اجورھن فریضة ً ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضة ان اللہ کان علیمًا حکیمًاO(النسائ:24)
اس آیت پر بھی صحابہ وجمہور میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا جس کا اصل میں تعلق بعد کے ادوار سے تھا۔ سب سے بڑی حرمت شادی شادہ عورت سے نکاح کی ہے۔ عربی، اردو، انگلش اور تمام زبانوں میں عورت کیلئے بیگمات کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اگر عورت کا شوہر مرچکا ہو تب بھی اسکے احترام میں بیگم صاحبہ ہی بولا جاتا ہے۔ ایک بڑے فوجی شہید افسر کی بیگم صاحبہ اپنے شوہر کے نشان حیدر یا مراعات قربان کرکے کسی اور شوہر سے نکاح اپنی توہین اور اپنے مفادات کے خلاف سمجھ رہی ہوتی ہے اسلئے اس کو نکاح کا پیغام دینا محرمات کے درجہ میں ہے۔
لیکن اگر اس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت جنسی تعلق قائم کیا جائے جس سے اس کے مفادات بھی متاثر نہ ہوں اور ایک معقول جنسی ذریعہ بھی مل جائے جیسے سعودی عرب میں بھی مسیار کا مسئلہ چل نکلا ہے تو اس سے معاشرے کی بہت خرابیوں پر قابو پانے میں زبردست مدد مل سکتی ہے۔ سورہ احزاب:50میں اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ ” وہ چچا کی بیٹیاں آپ کیلئے ہم نے حلال کی ہیں جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ہے”۔ اور پھر سورہ احزاب آیت51میں نبی ۖ کو کسی سے بھی نکاح کرنے سے اللہ نے منع فرمایا کہ چاہے کسی عورت کا حسن کتنا اچھا لگے تو نکاح نہیں کرسکتے اور نہ کسی کو چھوڑ کر بدلے میں کسی اور عورت سے نکاح کی اجازت ہے مگر جس سے معاہدہ ہو”۔
حضرت علی کی بہن ام ہانی نے ہجرت نہیں کی ۔ بدرالدین عینی نے ام ہانی کو نبیۖ کی28ازواج میں شمار کیا۔ حالانکہ وہ بیوی نہیں بن سکتی تھی۔ معاہدے کا نکاح ہوسکتا تھا۔ جس نے پہلے نبیۖ کی دعوت نکاح قبول کرنے سے معذرت کی کہ میرے بچے بڑے ہیں۔ پھر اللہ نے بھی منع کردیا اور ظاہر ہے کہ نبیۖ کی ازواج امہات المؤمنین کی شہرت رکھتی ہیں۔ معاہدہ والی ایک ام ہانی ہیں۔ام المؤمنین ام حبیبہ نے بیٹوں کی پیشکش کی نبیۖ نے فرمایا یہ مجھ پر حرام ہیں۔(صحیح بخاری)
اگر مغرب میں اس نکاح کو قانون بنایا جاتا تو سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیرن کو صاحبزادی کی عزت مل جاتی اور کیس کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ اسلام کی افادیت دنیا مان سکتی ہے۔
عبداللہ بن زبیر نے متعہ کو زنا قرار دیا تو حضرت علی نے کہا کہ آپ بھی متعہ کی پیداوار ہو۔ (زادالمعاد :علامہ ابن قیم ) اور شیعہ علماء کہتے ہیں کہ ابوطالب کے اسلام کو نہیں ماننے والے تو نبی ۖ کے حضرت خدیجہ سے نکاح پر حملہ آور ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوطالب نے ام ہانی کا رشتہ ایک مشرک کو دیا تھا۔ شیعہ علماء وذاکرین نفرتوں کو دلوں سے نکال باہر کریں اور اسی میں ان کا اور سب کا فائدہ ہے۔ ہم اپنوں کو سدھاریں گے۔
نکاح اور معاہدے میں یہ فرق ہے کہ نکاح میں عورتوں کو اپنا پورا پورا حق ہر لحاظ سے ملتا ہے جبکہ معاہدے میں باہمی رضا مندی کا معاملہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں مروجہ معاملہ نکاح نہیں معاہدے والا ہے اسلئے کہ نکاح میں جو حقوق قرآن وسنت نے عورت کو دئیے تو وہ تمام حقوق سلب ہیں۔ بلکہ معاملہ بہت بدتر ہے ۔ اسلئے مرتدجرمنی میں سعودیہ کی خواتین کو سپلائی کرتا تھا۔ قرآن و سنت کے فطرتی احکام سے سعودی عرب، افغانستان، پاکستان، بھارت اور دنیا بھر کی مسلمان خواتین کو درست حقوق ملتے تو پھر خواتین کیساتھ روز ناجائز حدود پار کرنے کی خبریں سوشل والیکٹرانک میڈیا پر نہ آتیں بلکہ غیر مسلم بھی بہت تیزی کیساتھ اپنا ماحول اسلامی معاشرتی نظام سے ہی لے لیتے۔
اگر عورت سے کئی بچے جنواکر نہ صرف اس کو گھر سے نکالنا شوہر کا حق ہو بلکہ اس سے بچے چھین لینے کا بھی حق ہو تو یہ نکاح کہاں ہوسکتاہے؟۔ سورہ الطلاق میں واضح طور پر گھر کو عورت کا قرار دیا گیا ہے۔ لاتخر جوھن من بیوتھن ”ان کو انکے گھروں سے مت نکالو”۔(الطلاق) ام رکانہ سے طلاق پر ابورکانہ نے گھر نہیں چھینا تھا بلکہ وہ اپنے بچوں کیساتھ گھر میں رہی تھیں۔ ٹانک گل امام کے مشہور عالم دین مولانا عبدالرؤف نے بیوی کو طلاق دی تھی تو اپنا گھر بیوی بچوں کیلئے چھوڑ دیا تھا۔
قانون اور اخلاقیات میں اتنا فرق نہیں ہوتا کہ ایک طرف بیوی سے کئی بچے جنواکر اس کو گھر اور بچوں سے محروم کیا جاسکتا ہو اور دوسری طرف اخلاقی بنیاد پر ان کو گھر سپرد کیا جاتا ہو؟۔ طلاق کے بعد عورت کے اصل حقوق کا پتہ چلتا ہے۔ حق مہر اور خرچہ عورت کا حق ہے۔ نبیۖ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ ودیگر ازواج مطہرات اپنے گھروں کی مالک تھیں۔
علماء کہتے ہیں کہ میاں بیوی میں ایک فوت ہوجائے تو ایک دوسرے کیلئے اجنبی۔ نبیۖ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا، حضرت ابوبکر کی میت آپ کی بیوی اور حضرت فاطمہ کی میت کو حضرت علی نے غسل دیا۔ مفتی کی بیوی20سال بعد مرتی ہے تواس کا بیٹا اپنی ماں کی قبر پر اجنبی شوہر کی تختی لگا دیتا ہے کہ زوجہ مفتی اعظم فلاں۔
اللہ نے فرمایا:” اور اگر یہ طاقت نہ ہوکہ بیوہ وطلاق شدہ کو نکاح میں لاسکو تو پھر مؤمنات معاہدے والیاں تمہاری لڑکیوں میں سے ۔اللہ تمہاراایمان جانتا ہے ۔بعض تم خود بعض سے ہو ، پس ان سے نکاح کرو انکے اہل کی اجازت سے۔ انکوانکا حق مہر دو معروف طریقے سے۔ نکاح کی قید میں لاکر نہ فحاشی سے اور نہ چھپی یاری سے۔جب نکاح میں لاؤ اور پھر وہ فحاشی کریں تو ان پر بیگمات کی آدھی سزا ہے۔یہ اس کیلئے ہے جو تم میں سے مشکل میں پڑنے کا خوف رکھے اور اگر صبر کرو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے”۔ (سورہ النساء : آیت25)
بدکاری پر100اور50کوڑے کی سزا قرآن کے مطابق ہوتی تو عمل بھی ہوتا۔ سورہ نسائ:15میں عورت پر4گواہ کے بعد گھر میں تاموت قید کا حکم ہے یا کوئی راستہ اللہ نکالے۔ یعنی نکاح ہوجائے۔ مفتی شفیع و مفتی ولی حسن ٹونکی نے سنگساری مراد لیا اور پھر اللہ نے دو مرد کو بدکاری پر اذیت کا حکم دیا اور اگر توبہ کریں تو طعنے سے روکا ۔ (النسائ:16) علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کو مینار پاکستان سے گرایا ؟۔
مااصاب من مصیبةٍ فی الارض ولافی انفسکم الا فی کتابٍ من قبل ان نبرأھا ان ذٰلک علی اللہ یسیرOلکیلا تأسوا علی ما فاتکم ولاتفرحوا بما اتاکم واللہ لایحب کل مختالٍ فخورٍOسورہ الحدید
”جو مصیبت زمین اور خود تم کو پہنچتی ہے تو کتاب میں پہلے سے ہوتی ہے ہمارے پیدا کرنے سے۔یہ اللہ کیلئے آسان ہے تاکہ تم نقصان پر افسوس اور عطاء پر فخر نہ کرو۔اللہ پسند نہیں کرتا ہر اترانے فخر والا”۔مولانا منظور مینگل نے کہا کہ سُود ، زنا اور قتل شرعاً و عقلاً ناجائز ہیں، شیعہ زنا کو جائز کہتے ہیں۔ اگر ہندو اور یہودی شرعاً سُود کو حرام اور ہمارا مفتی حلال سمجھے تو پھر؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلام کی نشاة ثانیہ اور کانیگرم :پیر عابد

اسلام کی نشاة ثانیہ اور کانیگرم :پیر عابد
تبصرہ :از سید عتیق الرحمن گیلانی
٭٭

اسلام کی نشاة ثانیہ اور کانیگرم

کانیگرم خضر کا مرکزہے بحوالہ تاریخ پیرروشان انصاری پیر روشان کواخونزادہ درویزہ بابا مدفون ہزار خوانی پشاورنے پیرتاریکی لقب دیا۔ پیر روشان کو بابا خیل کے جدامجد میاں پیر اوریا نے کانیگرم بدر کیا کیونکہ پیر روشان کے مرید نے بابا جی کے گھوڑے مارے تھے۔پھر برکی قبیلہ کی ضمانت پر پیر روشان کو معافی ملی۔ کانیگرم میں سید کبیرالاولیاء کی آمد، ابوبکر ذاکر کی خوارج کے ہاتھوں شہادت، جسد مبارک کوخفیہ طور پر نامعلوم جگہ دفنانے کی نوبت بعض خوارج کی بڑی نشانی ہے۔ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے یہ خطہ دنیا کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ کانیگرم قبائل نے لگ بھگ60خوارج قتل کرکے بدلہ لیا۔کبیرالاولیاء کیساتھ مدفون اسکا مرید ہے نہ کہ ابوبکر ذاکر اور یہ بہت وثوق اور دعوے سے کہتا ہوں۔ تاریخ درست رکھنا، حوالہ جمع کرنا روایات صدیوں سے سینہ بہ سینہ آرہی ہیں۔کچھ گزرا واقعہ دل پر گہرے زخم چھوڑتا ہے۔پیر اورنگزیب شاہ کی شہادت ایک واقعہ کربلا تھا۔ حق پرست کی واضح نشانی ہے جس نے قبائل کی سیاست کا نقشہ تبدیل کردیا۔ کانیگرم کی سیاست کابل ،ایران، ہندوستان کے گرد گھومتی مضبوط ریاست کے بنیادی ڈھانچے کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ پیر امیر الدین شاہ برادر شہید اورنگزیب گورنرKPکیلئے موزوں ترین شخصیت ہے ، جس سے صوبہ استحکام کی طرف جائیگا۔سی پیک اور امن کیلئے گارنٹی ہے۔قبائل ، سید ، بیوروکریسی میں وسعت تعلقات ،خاندانی وجاہت ہر شئی فٹ ہے ۔ تصوف وطریقت کو الوداع کہہ کر سیاست اور امت کو رہنمائی کی طرف اگر قوم و قبیلہ کو حکمرانی کی طرف لیجانے والا مجدد سبحان شاہ تھا ، سید ہونا فخر کی بات ہے شکر کی بات ہے مگر وزیرستان سے قد آور بین الاقوامی شخصیت کا ظہور آنیوالے انقلاب کی بنیاد ہے۔ انگریز کو خطرہ خانقاہوں سے نہیں بلکہ شیخ الہند و سبحان شاہ سے تھا۔فکر و دبدبہ کے لحاظ سے اگر بالفرض مانا جائے کہ وہ محسود بدن زئی قوم سے ہے۔تو اگر مفتی محمود کا برخوردار پیوندہ ہوکر ملت اسلامیہ کا واحد لیڈر وسرخیل ہے تو پیر سبحان شاہ بدن زئی ہوکر سادات کانیگرم کے7شاخوں کا ارمڑ قبیلہ کا بادشاہ ہے۔تو جنکے آباؤ اجداد نے بدن زئی کی غلامی قبول کی ۔وہ آج بھی ذہنی غلام ہے،اگر مان لیا جائے کہ سبحان شاہ سید نہیں، تو فخر کی بات ہے کہ جعلی وجھوٹی خانقاہوںکے پیچھے نہیں چھپے۔سیاست امت کی رہنمائی کا نام ہے۔مہدی کے لشکر میں نہ ہونا کوئی بات نہیں مگر منصور کا لشکر تیار کرناہی مہدی کی خدمت ہے۔اپنا وجود محسوس کرناہی اصل سادات کی نشانی ہے۔ منزل ایک ،راستہ ایک ، خواب ایک، تعبیر ایک ہے،انشاء اللہ شاہ صاحب نے اپنے حصے کا کام کیا۔ جہانگیر اور عالمگیرت خانوادہ کبیر کو مبارک ہو۔ہم سادات کے غلام ابن غلام ہیں۔ بس دلوںاور دماغ سے نفرت کا بیج ختم کرنا ہے،نہ کہ بجھتی چنگاریوں کو پھونکیں مار کے نفرت کا شعلہ جلانا۔ نہایت عاجزی ودل گیری سے شاہ صاحب محترم سے معافی کا خواہشمند ہوں۔میدان جنگ میں بدن زنی کو ہر اول دستہ پائیں گے۔ آپ کے اولاد پر ہماری جان بھی قربان ، ہم ہیں تو کیا غم ہے۔شاہ صاحب اشارہ کوا بیایہ تماشا کوا۔ پیران پیر
عابدشاہ ولد جلیل شاہ ولد سرور شاہ ولد مظفرشاہ ولد سبحان شاہ
٭٭

تبصرہ :از سید عتیق الرحمن گیلانی

انگریز نے دی پٹھان میں لکھا کہ ” وزیرستان پر کسی نے بھی حکومت نہیں کی ہے ”۔ کابل وقندھار پر مغل اقتدارتھااورایران نے بھی قندھار پر قبضہ کیاتھا ۔ ملا عمر ہوتک پہلا ہوتک حکمران نہیں تھابلکہ پشتون تاریخ میںپہلا حکمران ہوتک قبیلہ ہی ہے۔ قندھار1709تا1738تک ”ہوتک” قبیلے کا اقتدارتھا ۔
پھر احمد شاہ ابدالی کی درانی سلطنت1747سے1826تک قائم رہی ۔ کانیگرم میں ہوتک کی شادی میرے والد نے برکی سے کرائی ۔ جس کا بیٹا قربان علی ہوتک اس وقت خدمت میں آگے تھا جب کانیگرم میں طالبان سے فیصلہ پر مشکل ترین وقت تھا ۔ درانی خاندان کے بادشاہ خان نے اہم کردار ادا کیا۔
اعظم گل کی شاملات پر بے عزتی کی گئی تومیرے والد نے شاملات کی ساری زمینوں کو قومی بنادیا۔ بے تاج بادشاہی کو گھٹیا چڑھتے سورج کے پجاری نہیں سمجھ سکتے۔ ہمارے اجداد نے کبھی مذہب کو پیشہ نہیں بنایا۔ تعویذ فروش معلوم ہیں۔ کانیگرم کے لوگ انکے جھانسے میں بھی ہماری وجہ سے نہیں آتے تھے۔
عابد بھائی! آپ کے خلوص ، محبت اور ہمدردی کوبہت سلام لیکن جھوٹ نہیں چلے گا۔ اگر واقعی مان لیا جائے کہ ابوبکر ذاکر کو خوارج نے شہید کیا اور چھپاکر دفن کیا ۔ برکی قبائل نے60خوارج بدلے میں قتل کردئیے؟۔ سبحان شاہ کی اولاد نے پھر دہشت گردوں کو واقعہ کے بعد کیوں پالا؟۔ برکی اور سبحان شاہ کی اولاد کی غیرت میں پھر کتنا فرق ہے؟۔ تم لوگ اقدار کو نہیں سمجھتے اور تاریخ کی نگاہوں میں ہماری ناک کاٹ رہے ہو۔ جس کوہِ گراں کی چٹانوں سے عزت ملی وہی چاٹ رہے ہو؟۔
عابد بھائی! انگریزوں کے ایجنٹوں سے کانیگرم برکی قبائل ، درانی اور ہوتک کی اولادیں ہزار درجہ بہتر ہیں۔ خوارج پہلے نہیں اب پیدا ہوئے ہیں۔ خوارج کی ذہنیت مفتی محمد شفیع کے ”معارف القرآن” میں سورہ توبہ کی غلط تفسیر نے بنائی ہے جس میں بے نمازی اور زکوٰة نہ دینے والوں کے قتل کا حکم لکھا ہے۔ حالانکہ چاروں فقہی مسالک اور محدثین وفقہاء میں کسی کا بھی یہ مسلک اور مؤقف کبھی بھی نہیں رہاہے۔اسلئے بھتہ نہ دینے پر اور مساجد ، بازاروں اور مارکیٹوں میں پہلے حملے ہوتے تھے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی پہلے ان کی تائید کرتا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کو یہ مقام اپنی قربانیوں کی بدولت ملا ہے اور ہم پر حملہ کرنے والوں کو اس نے خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا۔ آپ نے مولانا فضل الرحمن کو سیاست اور مجھے فقہ کا ماہر قرار دیا تھا ۔ قربانی دو تو پھر حضرت بلال کو بھی رتبہ ملا۔
عابد! اپنے چاچو پیرکریم سے پوچھ لو کہ اس کو اپنے والد سرور شاہ نے باپ دادا مظفر شاہ اور سبحان شاہ کی قبریں بتائی تھیں؟۔ اگر نہیں تو پھر ابوبکر ذاکر کی قبر پر سینہ بہ سینہ روایت گھڑنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ سبحان کی قبر ٹانک لنگر بائی میں ہوسکتی ہے؟۔ سیداکبر شاہ وصنوبر نے انگریز کا بھاڑہ لیکر وزیر انقلابیوں کو شہید کیا تو سلطان اکبر میرے نانا نے اپنے باپ صنوبر شاہ ، سسر سید اکبراور داماد نعیم کو بچالیا اور چچامظفرشاہ، منور شاہ ، چھوٹے بھائی حسین شاہ اور دل بند شاہ کو موت کے منہ میں دھکیل دیاتھا۔ وزیروں نے جرگہ میں چھوٹے بچے کاکان کاٹا اور تین کو قتل کیا
دل بند شاہ کانیگرم کا خان تھا جس نے پٹھان کوٹ بنایا تھا۔ اب وہی کھیل دہرانے سے تاریخی حقائق کو زندہ کیا جارہا ہے۔ لاوارث کو قتل کے بعد اس کی خانی پر بھی قبضہ کیا۔ پھر طعنے بھی دیئے گئے کہ ہمارے والوں نے سیاست سے قتل کروادیاتھا۔
تاریخ نے وہ دور بھی دیکھے ہیں
جب چل رہی تھی دلالی کی کمائی
1857میں کس نے انگریز کا ساتھ دیا ؟۔ وزیرستان کا مثالی امن وامان انگریز نے تباہ کیا تھا۔ سیداکبر شاہ کے جانشین نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے ۔ منہاج بنوں کے سادات کو ہمارا عزیز سمجھتا ہے کہ خصائل ملتے ہیں مگرہمارے اتنے رشتوں سے خصلت نہیں مل سکی ؟۔پیرکریم نے فاروق شاہ کو رشتہ کیلئے بھیجا اس نے بھائی یوسف شاہ کیلئے لیا۔ پختون ہوتا توقتل کرتا۔ یوسف شاہ نے بتایا ” سعدالدین نے زمین پر قبضہ کروایاتھا” ۔ میں ازالہ کرنا چاہ رہا تھا مگر پھر داؤد شاہ نے کہا کہ سعدالدین نے پڑوسی کی زمین لینے پر مغزاڑانے کی دھمکی دیدی ۔
٭٭٭

دواپنجہ کی عجیب تقسیم سمجھ لیجئے

50 کنال زمین میں مظفرشاہ کے4بیٹوں کو5،5،5،5کل20لیکن صنوبر شاہ کے3بیٹوں کو10،10،10کل30۔ بہنوں اور بھائیوں کا فرق مشہور ہواتھا۔ اگر دو بھائیوں کو برابربرابر25،25کنال کا اپنا حق ملتا تو5،5اور10،10کا بہت شرمناک فرق نہ پڑتا۔ سبحان تیری قدرت! صرف5کنال کا فرق مگر سسٹمٹک فراڈ نے کمال کی قیامت ڈھادی۔
عابد ! وزیرستان کی خاک میں غلام ابن غلام کا تصور نہیں۔ تم خوئے غلامی کے خوگر بن گئے مگر میری تاریخ مسخ مت کرو۔
سعودی شاعر مھذل الصقورنے کیا خوب کہاکہ
اتظن انک عندما احرقتنی
ورقصت کالشیطان فوق رفاتی
وترکتنی لذاریات تذرنی
کحلًا لعین الشمس فی الفلوات
اتظن انک قد طمست ھویتی
ومحوت تاریخی ومعتقداتی
عبثًا تحاول….لافناء لثائرٍ
أنا کالقیامت ذات یومٍ آت
أنا مثل عیسیٰ عائد” و بقوةٍ
من کل عاصفةٍ الُّم شتاتی
سأعود أقدم عاشقٍ متمردٍ
سأعود اعظم اعظم الثورات
سأعود بالتوراة والانجیل وال
قرآن وا تسبیح والصلوات
سأعود بالأدیان دینًا واحدًا
خالٍ من الاحقاد والنعرات
رجل من الأخدود ما من عودتی
بد…… أنا کل الزمان الآتی
”کیا تم سمجھتے ہو کہ جب تم نے مجھے جلایا اور میری راکھ پر شیطان کی طرح رقص کیا اور مجھے ہواؤں کے جھونکوں کے حوالہ کردیا تاکہ وہ مجھے دھول بناکر ہواؤں میں بکھیر دیں؟۔
کیا سمجھتے ہو کہ تم نے میری تاریخ اور میرے اعتقادات کو مٹادیا ؟۔ تمہاری کوشش …..مگرانقلابی باغی کیلئے فناء نہیں ہے۔
میں قیامت کی طرح ہوں ایک دن ضرور آؤں گا۔ میں عیسیٰ کی طرح ہوں، آؤں گا اوروہ بھی بھرپور طاقت کیساتھ۔ ہر طوفان سے اپنی بکھری ہوئی حقیقت کو سمیٹ لوں گا۔
میں ایک قدیم عاشق ،سرکش کی طرح واپس آؤں گا۔میں انقلابات میں سب سے بڑے انقلاب کی شکل میں آؤں گا۔ میں تورات، انجیل ، قرآن ، تسبیح اور عبادات کیساتھ لوٹوں گا۔
میں تمام ادیان کو ایک دین میں بدل کر لوٹوں گا۔ایک ایسا دین جو نفرتوں اور فرقوں سے پاک ہو۔ میں خندقوں والا ہوں، میری واپسی یقینی ہے اور میں ہرآنے والے زمانہ میں ہوں”۔
ڈاکٹر ظفر علی شاہ نے ڈاکٹر ہمایوں کے حوالے سے قصہ سنایا کہ دُور سے کسی نے اپنا مرض پوچھاتو بڑی سخت گالی دیدی۔ پھر ایک مذہبی سیاسی شخصیت کو بھی وہی گالی دی۔ جنہوں نے بڑے واقعہ کے بعد دہشگردوں کو رکھا، بے شرم تعلق کا قصہ بھی بتارہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی نہیں بہت بڑی بڑی غلطیوں کو بھی اللہ نے قرآن میں توبہ کرنے پر معاف کیا ہے لیکن جب شہر یار نے نشاندہی کی کہ میٹنگ میں ورغلایا گیا ہے اور پھر وقت آنے پر بتانے کی جگہ دوسری سائیڈ پر کھڑا ہوگیا؟۔ یہ اتنی بے کار مخلوق ہے کہ ماموں نے مجھ سے چار گنا پیسے وصول کئے پھر بھی کہہ رہاتھا کہ ملا کا تقسیم میں حصہ نہیں بنتا۔ جس سے بدظنی پھیل رہی تھی اسلئے کہ دوسری طرف بھی اس کی بھتیجیاں تھیں۔
بھائی گورنر بنے تو دیکھنا ۔جب بھائی کمشنر بنوں تھے ،حاجی یونس شاہ آئے تھے تو عزت دی تھی۔ ماموں سخت ناراض تھے اور بھائی کو ناراضگی کی سمجھ نہیں آئی۔ دوسرا ماموں زندہ تھا تو شہر یار کا انکار اشرف علی پر ڈالا ۔ اپنی بیٹی تھمادی اور یتیم بھتیجی لینے سے انکار کردیا۔ یہ نہ اخلاق کو سمجھتے ہیں اور نہ اقدار کو اسلئے دور پھینکنے کی ہر ممکن کوشش کردی۔لوگ باپ کی غیرت پر فخر کرتے ہیں یہ محسود ماں کے خون پر۔ اسلئے کہ تاریخ جانتے سمجھتے ہیں۔
یمن کے شاعر فتح مسعود نے کسی کیلئے کیا خوب کہا:
سنبیعکم لکن لمن؟ من یشتری منا العفن ؟
من یشتری منا النجاسة والقذارة والفتن؟
من یشتری مناصراصیر النذالة والوھن؟
من یشتری منا الکوارث و المصائب والحزن؟
من یشتری مناالجراثیم المضرة بالبدن؟
من یشتری منااللصوص المستغلین الخون؟
من یشتری العملاء والجبناء والأوساخ من؟
من یشتری مناالفطاط والضلافع والمحن؟
من یشتری مناالبواسیر الخبیة والدرن؟
من یشتری مناشرالدواب و شر عباد الوثن؟
من یشتری مناعیبًا یفضل عن مخازیہ الکفن؟
من یشتری عاراً علینا یستحی من الزمن؟
لستم کلاباً للحراسة کی یکون لکم الثمن
لستم حمیراً للرکوب ولا بغل للمؤن
لستم دجاجاً تؤکلون و لا دواباً تختضن
لستم نعالاً تلبسون ولا عبیداً تؤتمن
من یشتریکم من بلاد العرب والعجم مجاناً و من؟
سنبیبعکم لکنہ لن یشتری احد ولن
باللہ لو أکرمتونافارحلوا عنا اذن
واذا نتحرتم سوف نشکرکم علی حب الوطن
ہم تمہیں بیچیں گے مگر کس کو؟کون ہم سے گندگی خریدے گا؟۔
کون ہم سے نجاست ، غلاظت اور فتنے خرید گا؟۔
کون ہم سے کمینگی اور بزدلی کے کیڑے خریدے گا؟۔
کون ہم سے تباہیاں، مصیبتیں اور غم خریدے گا؟۔
کون ہم سے جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیم خریدے گا؟۔
کون ہم سے خائن اور استحصال کرنے والے چور خریدے گا؟
کون ہم سے غدار ، بزدل اور گندگی خریدے گا؟۔
کون ہم سے جھوٹے دعوے اور اذیتیں خریدے گا؟۔
کون ہم سے خبیث بواسیر اور مرض خریدے گا؟۔
کون ہم سے بدترین مخلوق اور بتوں کے پجاری خریدے گا؟۔
کون ہم سے وہ عیب خریدے گا جسکی رسوائی سے کفن بہترہو ؟۔
نہ توتم کوئی نگہبانی کے کتے ہو کہ تمہاری قیمت لگ سکے۔
نہ سواری کے گدھے ہو اور نہ وزن اٹھانے والے خچرہو۔
نہ تم مرغیاں ہو کہ کھایا جائے ،نہ پالتو جانور جنہیں رکھا جائے۔
نہ جوتے ہو کہ پہنا جائے نہ ایسے غلام جن پر بھروسہ کیا جائے۔
کون تمہیں مفت میں خریدے گا؟ چاہے عرب کا ہو یا عجم کا؟۔
خدا کے واسطے ! اگر تم ہمیں عزت دو تو یہاں سے چلے ہی جاؤ۔
اور اگر تم خود کشی کرلو تو تمہیں ہم حب الوطنی پر شکریہ کہیں گے۔
شروع میں مجھے فون پر کہا کہ پیرعبدالجبار ، غفارایڈوکیٹ اور لطیف واقعہ میں ملوث ہیں، لطیف نے کہا کہ نثار بچ گیا وہ بھی مرجاتا۔ میں نے کہا تھاکہ ”یہ سازش اوربکواس ہے”۔
عابد! آپ نازک اندام قربان نہ ہوں۔ میرے بیٹے علی کے شعر میں حیدرہ کی جگہ ابوبکرہ اور عمرہ پڑھ سکتے ہیں ۔
اَناالذِّی سَمَتنِی اُمِی حَیدَرَہ
کَلیثِ غاباتٍ کَرِیہِ المَنظَرَہ
عَبلُ الذِراعَینِ شدیدُ القِصَرَہ
ضِرغامُ آجامٍ قَوِیٍ قَسوَرَہ
عَلی الأَعادی مِثلَ رِیحٍ صَرصَرہ
أُکِیلُھُم بِالسَیفِ کَیلَ السَندَرَہ
اَضرِبُھُم ضَربًا یُبِینُ الفَقَرَہ
واَترُکُ القِرنُ بِقاعٍ جزَرَہ
اَضرِبُ ِبالسَیفِ رِقابَ الکَفَرَہ
ضَربَ غُلامٍ ماجدٍ وحَزوَرَہ
مَن یَترُک الحقَ یُقَوِّم صِغَرَہ
اَقتُلُ مِنھُم سَبعَةَ او عَشَرَة
فَکُلُھُم اَہلُ فُسوقٍ فَجَرَہ
کَاَنَّھُم کَالحُمُرِ المُستَنفَرَہ
میں وہ ہوں جس کا میری ماں نے ”حیدر” نام رکھا ۔ جنگلی شیر کی طرح دہشت ناک منظر والا۔ میری کلائیاں مضبوط اور جسم طاقتور ہے۔رعب دارببر شیربڑے دبدبے کا شیر۔ دشمن پر طوفانی ہوا کی طرح حملہ کرتا ہوں ۔ اپنی تلوار سے ان کو فصل کی طرح کاٹتا ہوں۔ میں اپنے وار سے جبڑا چیر دیتا ہوں اور دشمن کو میدان میں خون آلود چھوڑ دیتا ہوں۔میں تلوار سے کافروں کی گردنیں کاٹتا ہوں اور ایک بہادر جوان کا حملہ کرتا ہوں۔جو حق کو چھوڑ دے تو اسے سیدھا کرتا ہوں اور ان میں سے7یا10کو قتل کردیتا ہوں۔ کیونکہ وہ سب کے سب بدکار اور بدقماش ہیں ۔جیسا کہ وہ ہیں بدکے ہوئے گدھوں کی طرح ۔
(علی ابن ابی طالبکی اولاد اپنی خوبیوں سے پہچانی جاتی ہے )

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

برصغیرمیں دو نظام تعلیم ہیں:ایک لارڈ میکالے اور دوسرا مدارس1866ء سے دارالعلوم دیوبندکا ۔مولانا فضل الرحمن

شاہجہاں کا بڑا بیٹا دارا شکوہ یہودی سے مسلمان بننے والے صوفی ”سرمدی” کا مرید تھا جو ننگا رہتا تھا اور آدھا کلمہ لا الہ پڑھتا تھا۔ اورنگزیب بادشاہ نے جس کو پھانسی پر چڑھادیا تھا۔ اورنگزیب نے باپ کو قید اور بھائیوں کو قتل کیا۔5سوعلماء سے فتاویٰ عالمگیریہ کی تصدیق کرائی جن میں شاہ ولی اللہ کے باپ شاہ عبدالرحیم شامل تھے۔ جو آئین تھا کہ ”بادشاہ پر قتل، چوری، زنا اور کسی جرم کے تحت حد جاری نہیں ہوسکتی ہے”۔
جمعیت علماء ہند آئین اکبری کی طرح متحدہ ہندوستان میں سیکولر اقتدارکی علمبردار تھی اور جمعیت علماء اسلام فتاویٰ عالمگیریہ کے تحت تقسیم ہند کی حامی تھی اور اسلام کا حلیہ امام ابوحنیفہ کے بعد انکے شاگرد امام ابویوسف کے وقت سے بگاڑکا شکار تھا۔
مفتی تقی عثمانی نے فقہی مقالات اور تکملہ فتح المہلم میں لکھ دیا کہ ” صاحبِ ہدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں لکھا ہے کہ سورہ الفاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے اگریہ یقین ہو کہ علاج ہوجائیگا۔ میں نے امام ابویوسف کی کتابوں میں تلاش کیا مگر یقین کی شرط نہیں ملی”۔ ہم نے مفتی تقی عثمانی کایہ فتویٰ اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے اسکے خلاف فتویٰ شائع کیاتو بڑا کہرام بریلوی مکتب نے مچایا۔ جماعت اسلامی اور دیوبندیوں کی ہمدردیاں قرآن کی توہین سے زیادہ مفتی تقی عثمانی کیساتھ تھیں۔MQMکے رہنما سیکٹر انچارج سے ڈاکٹرفاروق ستار تک قرآن کیساتھ کھڑے ہوئے اور کھل کر بیانات دیدئیے۔
مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کردیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام سے علاج کا کیا چکرہے؟۔ فقہ کی پہلی کتاب ”مالابدمنہ” ہے کہ ”اگر گدھا نمک کی کان میں گر جائے اور نمک بن جائے تو پاک ہے”۔ گوبر کے راکھ بننے پر بھی اس کی نجاست پاکی میں بدل جاتی ہے۔ادویات کا تعلق کیمیائی تبدیلی سے ہوتا ہے ۔پانیH2,Oہاہیڈروجن اور آکسیجن میں بدل جائے تو ماہیت بدل جاتی ہے۔ اللہ کی عطاء اور جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی برکت سے درجہ اولیٰ میں مجھے مفتی تقی عثمانی سے زیادہ فقہی مہارت ملی تھی۔ حرام سے علاج کا تعلق خنزیر کے گوشت سے ہو تب بھی بقدر ضرورت جائز ہے۔ لیکن سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا تعلق علاج نہیں قرآن کی دشمنی سے ہے۔ فتاوی قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ سب نے یہ بکواس کرکے قرآن سے دشمنی اور اپنی حماقت کا ثبوت دیا ہے۔
اس حماقت کی تعلیم مدارس کا درسِ نظامی ہے ۔ پہلے مجھے بھی بات سمجھ نہیں آئی اور اساتذہ کو بھی لاعلم اور جاہل پایا۔ درجہ اولیٰ میں مفتی عبدالسمیع شہید سے میری بحث ہوئی تھی جس پر مجھے علامہ تفتازانی قرار دیا جانے لگا تھا،جو میں جانتا بھی نہیں تھا۔
قرآن کی تعریف: المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلاً متواتراً بلاشبہ ۔ ”جو صحائف میں لکھا ہواہے جو نقل کیا گیا ہے متواتربلاشبہ” ۔صحائف میں لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ۔کیونکہ لکھا ہوامحض نقش ہے ۔نقل متواتر سے غیر متواتر آیات خبر احاد اور مشہور نکل گئیں اور بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گیا اسلئے کہ اگر چہ صحیح یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے۔ (نورالانوار: ملاجیون)
1: جب لکھائی قرآن نہیں تو پھر پوٹی یا پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ یہ کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی نہیں تھا کہ مصاحف میں لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے؟۔ جبکہ قرآن کی ڈھیر ساری آیات میں لکھے ہوئے کو قرآن اور اللہ کا کلام قرار دیا ہے۔ لیکن جب اصول فقہ میں قرآن کی تعریف بھی قرآن کے خلاف ہو اور فقہ میں یہ مسئلہ پڑھاجاتا ہو کہ اگر قرآن کی قسم کھائی تو حلف کا کفارہ دینا ہوگا مگر قرآن کے مصحف پر قسم کھائی تو کفارہ نہیں ہوگا اسلئے کہ مصحف قرآن نہیں ہے۔
یہ علم الکلام کی گمراہی کا مسئلہ تھا جس سے امام ابوحنیفہ تائب تھے لیکن پھر بھی ان کے نام پر درباری علماء نے یہ سلسلہ چلایا۔ قاضی القضاة ابویوسف سے ملاجیون تک سب درباری تھے۔
2: جب قرآن میں شک اورغیرمتواتر آیات بھی ہیں تو قرآن کی حفاظت پر ایمان رکھنا عجیب حماقت ہوگی؟۔
3: صدر وفاق المدارس مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کشف الباری شرح صحیح البخاری میں لکھ دیا ہے کہ ” حضرت علی سے ابن عباس نے نقل کیا کہ رسول اللہۖ نے قرآن مابین الدفتین کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا۔یہ بخاری نے شیعہ کی تردید کیلئے نقل کیا ہے کہ تم تحریف کا عقیدہ رکھتے ہولیکن تمہارے علی تحریف کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے لیکن اصل میں قرآن کے اندر تحریف ہوئی ہے۔ ابن مسعود نے حضرت عثمانکی طرف سے کسی حسین لڑکی کیساتھ نکاح کی پیشکش کو اسلئے قبول نہیں کیاکہ اس کو جمع قرآن میں شریک نہیں کیا تھا۔
4: علامہ انور شاہ کشمیری نے فیض الباری میں لکھا” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہے لیکن لفظی بھی ہے عمداً کی گئی ہے یا مغالطہ سے”۔جس پر قاضی عبدالکریم کلاچی کا اضطراب اور مفتی فرید اکوڑہ کا غیر تسلی بخش جواب” فتاویٰ دیوبندپاکستان” میں شائع ہوا ہے۔اور مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے کفر کا فتویٰ بھی لیا ہے۔
5: حنفی مسلک میں خبرواحد آیت بھی قرآن کے حکم میں ہے لیکن خبرواحد کی حدیث کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔شافعی کے ہاں قرآن کے علاوہ کسی خبرواحد آیت پر ایمان کفر اور قرآن میں تحریف ہے البتہ خبرواحد کی حدیث معتبر ہے۔نورالانوار میں قرآن کی تعریف سے خبرواحد کی آیت کو قرآن سے باہر کیا مگر پھر آیت بھی قرار دیا۔ جس سے دین کا کباڑ خانہ بنادیاہے۔
اگروزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی مدارس کی کفریہ تعلیم کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میںچیلنج کریں توفرقہ واریت ختم ہوگی۔ پاکستان ، افغانستان ، بھارت ، ایران اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو بحران سے نکالنے میں بڑی مدد ملے گی۔ پہلے بھیMQMکی کاوش سے شیعہ، سپاہ صحابہ ، بریلوی اور دیوبندی اکٹھے بیٹھ جاتے تھے۔فرقہ وارانہ آگ کوMQMنے بجھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب اگر تعلیم کی سطح پر نظام درست ہوگیا تو اسلام کی خاطر ہجرت اور قربانی دینے والے مسلمانوں کے آباء واجداد کی روحوں کوبہت تسکین مل جائے گی۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے کراچی کو مرکز بنانے کا لکھا ہے ۔کراچی کے مدارس ہدایت و گمراہی میں پورے پاکستان ، خطے اور عالم اسلام کی قیادت کرتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی و مفتی عبدالرحیم ” ٹام اینڈ جیری کارٹون” کے پیچھے ایک فلسفہ بھی ہے۔ مولانا زین العابدین لسوندی کا تعلق وزیرستان کے ایک معروف مذہبی گھرانے سے ہے اور اس کو ایک تنخواہ حکومت اور دوسری بیرون ملک سے مسجد کی مل رہی تھی۔ رمضان کے بعد عید کا فطرانہ جمع ہوا تو مولانا نے کہا کہ ”گاؤں میں جو غریب بیوہ ہے اس کو دے دو”۔ لوگ حیران ہوگئے کہ کیا غریب بیوہ کو فطرہ کی رقم دی جاسکتی ہے؟۔ مولانا نے کہا کہ کیوں نہیں،بالکل دی جاسکتی ہے۔لوگوں نے کہا کہ ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ صرف استاذ(مولوی)کا حق ہے۔بہت خوش ہوگئے اور فطرہ کی رقم بیوہ کو دیدی۔ پھر عیدقربان آیا تو اس نیکی کا بدلہ دینے کیلئے لوگوں نے قربانی کی کھالیں مولاناکیلئے جمع کردیں۔ مولانا نے کہا کہ یہ بھی بیوہ کو دے دیں۔ مجھ سے زیادہ اس کو ضرورت ہے ،چھوٹے یتیم بچے ہیں۔ لوگ حیران اور خوش ہوگئے کہ قربانی کی کھالیں بھی بیوہ کو دی جاسکتی ہیں۔
علماء کو پتہ چلا کہ نئی روایت پڑگئی تو مولانا زین العابدین اور اسکے بھائی کو طلب کرلیا۔گاؤں والے سمجھ گئے۔ عمائدین اور25بندوق بردار جوان مولانا کیساتھ ہوگئے ۔ عمائدین نے کہا پہلے علماء کے گاؤں کے عمائدین سے بات کرتے ہیں۔ ان کے پاس گئے تو کہا کہ ہمیں بہت شریف مولانا مل گئے ہیں اور اب تمہارے علماء اسکے پیچھے پڑگئے ہیں۔خدارا اپنے علماء کو روک لو۔ انہوں نے کہا کہ ان دلوں سے ہم بھی تنگ ہیں اگر تم نے ان کو ہرادیا تو ہم خود ہی ان کو علاقہ سے نکال دیں گے۔
مولانا زین العابدین نے مخالف علماء سے کہا کہ تم نے ہر جگہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا تو میں نے سوچا کہ بدنام ہوا مگر اب بزدل نہ کہلاؤں، کسی نے بکرے کا سرمٹکے سے نکالنے کیلئے پہلے بکرا ذبح کیا اور پھرمٹکا بھی تھوڑ دیا۔ آپ نے ذبح تو کردیا ہے اور اب مٹکا سلامت رہ جائے تو بھی صحیح ہے۔ میں ایک معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھتا ہوں۔ دادا مشہور عالم تھا اور والد اور چچا بھی علماء ہیں۔ میں یہاں مہمان آیا ہوں تو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کسی چیز کی ضرورت ہے؟۔انہوں نے کہا کہ یہ ہماری واقعی غلطی ہے۔ مولانا نے کہا کہ اب آپ میرے مخالف فریق بن گئے ہو اسلئے تم فیصلہ نہیں کرسکتے۔ آپ کے اور ہمارے گاؤں کے عمائدین کے سامنے بات رکھ لیتے ہیں توپھر وہ جو بھی فیصلہ کریں۔ علماء بہت پریشان ہوگئے ،ایک نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اب گاؤں اس کے ساتھ ہے اس کو اکیلامت سمجھو۔ ان کی پریشانی کو دیکھ مولانا نے رحم کیا اور ان کو سمجھایا کہ کسی کے عقیدے پر شک ہو تو لکھوالو کہ یہ عقیدہ ہے پھر کوئی منافق بھی ہوگا تو اس کے آپ ذمہ دار نہیں ہو۔ وہ کہنے لگے کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ مولانا کے بھائی نے کہا کہ ان سے میں صلح نہیں کرتا تو اس نے بھائی کو سمجھایا کہ گاؤں کے عمائدین ان کے مخالف ہیں تو ہمیں موقع نہیں دینا چاہیے ۔
مفتی تقی عثمانی نے جنرل ضیاء الحق سے مدرسہ کیلئے پیسے بھی بٹورے تھے اورمدرسہ سے متصل کھیلنے کا میدان بھی لے لیا تھا۔ یہ تو شروع سے سرکاری ودرباری ملاؤں کی شہرت رکھتے ہیں۔2019ء کے معاہدے تک ساتھ تھے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مفتی عبدالرحیم نے احسن آباد میں غریبوں کو فیملی پارک کیلئے مدرسے کا پلاٹ دیا ہے ۔یہ سخاوت مفتی تقی عثمانی سے ہضم نہیں ہورہی ہے۔ مولوی لینا جانتے ہیں مگر دینا نہیں جانتے۔جب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ دارالعلوم کراچی کے قریب غریب لوگ بھوک سے مررہے ہیں اور یہ زکوٰة وخیرات کے پیسوں پر گلچھرے اڑاکر اللے تللے میں مصروف ہیں۔ تو دنیا جاگ جائیگی۔ ایک مشہور دیوبندی عالم نے کہا کہ ”دارالعلوم کراچی کے علماء تھانوی ہیں اور یہ اتنے کنجوس ہیں کہ اپنا بخار بھی کسی کو نہیں دیں”۔ کنجوس کے علاوہ جھوٹے بہت ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ”بھارت سے ہجرت کرتے وقت ہماری خواتین کے زیورات بھی چھین لئے تھے اور کچھ بھی پاس نہیں چھوڑا تھا لیکن اس کے بیٹے نے وش قرآن چینل کو بتایا کہ ہمارے ساتھ بہت دھوکہ ہوا تھا ۔جب دادا صاحب سنار کے پاس سونے کی گٹھڑی لیکر گئے توسارا سونا کھوٹ نکل گیا”۔
1824ء میں انگریز نے عربک کالج دہلوی کو اسلام، ہندو مذہب، بدھ مت اور عیسائیت کے علاوہ دیگر زبانوں سنسکرت، انگریزی اور عربی وغیرہ کیلئے اوپن کردیا تھا۔ جب1857ء میں مسلمانوں اور ہندوؤں نے آزادی کی جنگ لڑی تو انگریز نے پہلے چند سال دہلوی کالج بند کیا اور پھر عربی ،سنسکرت وغیرہ کی تعلیم ختم کردی اور1860ء سوشل ایکٹ نافذ کردیا۔ جس میں غیرسیاسی فنی تعلیمی ادارے بھی شامل تھے۔ صحافی رانا مبشرJUIکی خاتون رہنما سے بار بار سوال کررہاتھا کہ مدارس میں ڈرامے، فنون لطیفہ اور گانے ڈانس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے؟۔
1870ء میں ایسٹ انڈین کمپنی سے برطانوی ہند نے خود حکومت لی۔ دہلوی کالج میں عربی کی تعلیم ختم ہوگئی تو دہلوی کالج کے فاضل ذوالفقار علی (والد شیخ الہند )، فضل الرحمن عثمانی ڈپٹی انسپکٹر محکمہ تعلیم ہند( والد مفتی عزیز الرحمن عثمانی وعلامہ شبیراحمد عثمانی) سید عابد حسین اور قاسم نانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ جس کے پہلے مہتمم سید عابد حسین مقرر ہوئے تھے۔
سلیم صافی نے ”باچا خان کی یادگارپروگرام” میں کہا تھا کہ ”باچا خان نے مفتی محمودکو ایک مرتبہ وزیراعلیٰ بنادیا تو مفتی کے خاندان نے ایسا قبضہ کیا کہ باچا خان اور اس کی پارٹی باہر اور مولانا فضل الرحمن اور اس کی فیملی ابھی پکا قبضہ کرکے بیٹھ گئی”۔
قاسم نانوتوی کے بعد بیٹا حافظ احمدپھر پوتا قاری محمد طیب1930ء سے1980ء تک مہتمم تھا۔ پڑپوتا مولانا سالم قاسمی کی خواہش پوری نہ ہوسکی تو پھر قاری طیب نے یہ نعت پڑھی۔
نبی اکرم شفیع اعظم دکھے دلوں کا پیام لے لو
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا نظر سے روپوش ہے کنارا
نہیں کوئی ناخدا ہمارا خبر تو عالمی مقام لے لو
قدم قدم پہ ہے خوف رہزن زمیں بھی دشمن فلک بھی دشمن
زمانہ ہوا ہے ہم سے بدظن تمہی محبت سے کام لے لو
یہ کیسی منزل پہ آگئے ہیں نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے
تم اپنے دامن میں آقا آج تمام اپنے غلام لے لو
یہ بریلوی طرز کی نعت ہے ۔ ”یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے”۔ اگر دیوبندی مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی کتاب ”فیصلہ ہفت مسئلہ” پر عمل کرتے تو فرقے نہ بنتے ۔ اکبر بادشاہ نے کانیگرم میں مقبرہ بنایا مگر وہ کاروبار نہیں بن سکا۔ وزیرستان کی وجہ سے دیوبند کو فروغ ملا ہے۔ مدارس کا دین سے تعلق کم اور دنیا کمانے سے زیادہ ہے۔
1982 میں پھر دار العلوم دیوبند وقف بھی بن گیا ۔ جب مدارس تجارتی مراکز ہیں تو نصاب ٹھیک کرنے اور لوگوں کے ایمان کو بچانے کی کاروباری ملاؤں کو کیا ضرورت ہے؟ ۔ اگر عوام نے سوال اٹھانا شروع کیا تو اصلاح ہوگی۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن اور اس کی آیات پر قانون سازی سے گریز اں مدارس کے نصاب کی وہ نشاندہی جس کی وجہ سے دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا حال تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔40سالوں سے اس کی نشاندہی کررہاہوں

228البقرہ کے احکام:
1:طلاق والی عورتوں کی عدت تین ادور ہے۔2:عورتوں کیلئے حمل چھپانا حلال نہیں۔3:عدت میں باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے۔ 4:عورتوں کیلئے مردوں پر معروف حقوق ہیں جیسے مردوں کے ان پر ہیں مگر مردوں کا ان پرایک درجہ ہے۔
علماء حق اور پڑھا لکھا طبقہ اس آیت سے امت کی تقدیر بدل دیں۔ دیوبندی ، بریلوی،اہلحدیث اور جماعت اسلامی نے علامہ شبیراحمد عثمانی کے بھتیجے مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی زیر صدارت1972میں سیمینار کیا جو لاہور سے کتا ب میں شائع ہے۔ جو حلالہ کے خاتمہ کیلئے تھا۔ ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں آیت228البقرہ کے برعکس عدت میں رجوع کے واضح حکم کیخلاف حلالہ کا حکم نبیۖ نے دیا ہو۔اگر کوئی ایسی حدیث ہوتی تو حنفی مسلک کے مطابق حدیث کی جگہ قرآن پر ہی عمل ہوتا۔
اصول فقہ میں قرآن کے قواعدپرعملی تعلیم نہیں۔ اختلافات کا کماحقہ فائدہ نہیں بلکہ تقلید کا کانا پن اور محض دجالیت ہے جس کو علماء وطلبہ سمجھتے نہیں ہیں۔
اگرمسائل قرآن کے مطابق ہوں تو احادیث میں مسلک حنفی کے مطابق تطبیق ہوگی اورپھر قرآن وسنت کی طرف علماء کرام اور عوام کا رجوع ہوگا۔
حضرت عائشہ متوفیہ58ہجری۔ ایک عورت نے تیسرے طہر کے بعد حیض پر عدت کو ختم سمجھ لیا تو شکایت پر حضرت عائشہ نے اس کی تائید فرمائی کہ ”اَقرائ3 اطہار ہیں”۔ جمہورنے یہ ٹھیک سمجھ لیا۔ حنفی فقہاء نے قرآن کے منافی قرار دیا کہ3کالفظ قرآن میں خاص ہے۔ طلاق مشروع طہرمیں ہے جس طہر میں طلاق دی اگروہ شمارہو تو3کی جگہ ڈھائی طہر ہوں گے لیکن جب حیض مرادہو تو قرآن کے خاص مکمل3عدد حیض شمار ہوں گے۔
40سال قبل جامعہ بنوری ٹاؤن کی درسگاہ میں یہ سوال اٹھایا کہ جس طہر میں طلاق دی تو وہ طہر بھی ادھورا شمار ہو گا پھر معاملہ ساڑھے3پر جائیگا؟۔ مجھ سے اساتذہ کرام نے فرمایا کہ علم کی تکمیل کرلوگے تو نصاب کی تصحیح بھی کرلوگے اورپھر میں نے متعدد بار اس کا جواب اپنی کتابوں اور اخبار میں لکھ دیاہے ۔
طہر میں جماع کے بغیر طلاق دی تو ادھورا نہیں پورا شمار ہوگا۔ کھائے پئے بغیر دن چڑھے رمضان کا روزہ ہوتا ہے۔ حنفیوں نے طہر کو عدت الرجال قرار دیا اور حیض کو عدت النسائ۔شوہر دن میں بال پھینکے اور بیوی رات میں بیٹنگ کرے تو عجب تماشہ ہوگا؟
قرآن میں عورتوں کی عدت کیلئے طلاق کا حکم ہے اور حنفی علماء قرآن کا درست مفہوم نہیں لکھ سکتے۔ حیض میں مقاربت تو ویسے منع ہے۔ طہر میں طلاق ہو تو اس سے پہلے کا حیض عدت کا حصہ ہے۔ روزہ دن کوہوتا ہے مگر شمار رات سے ہوتا ہے۔ چاند رات ہوتی ہے تو خبر ملتے ہی اعتکاف مکمل ہوجاتا ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ پر غلط اعداد وشمار اور خود ساختہ حکم کے مطابق ایسی الزام تراشی انتہائی غلط ہے کہ وہ عدت میں عورتوں کو کسی اور سے نکاح کی اجازت دیتی تھی جس پر عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو7،7سال قید کی سزاسنا دی ۔پھر جمہور اور حدیث بھی اس کی زد سے نہیں بچتے ہیں۔ ابن عمر سے نبیۖ نے فرمایا کہ طہر میں پاس رکھو حتی کہ حیض آئے۔ پھر طہر حتی کہ حیض آئے ۔پھرطہر آئے تو روک لو اوریا ہاتھ لگائے بغیر طلاق دو ، یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا حکم دیا ہے۔
جس سے فقہ کے اس بکواس کا خاتمہ ہوجاتا ہے کہ” ایک طلاق کے بعد عدت ختم ہوتو پھر دو طلاقیں باقی رہتی ہیں۔ پھر یہ اختلاف ہے کہ نئے نکاح سے پہلا شوہردو طلاق کا مالک ہوگا یا تین کا؟۔اور پہلاشوہر دو طلاق کا مالک ہے اور دوسرے نے دو طلاق کے بعد رجوع کیا اور ایک طلاق کا مالک ہے تو ایک طلاق کا مالک شوہر اور دوطلاق کا مالک اپنی خواہش پوری نہیںکرسکتاہے؟ ۔انوکھی ملکیت!۔
اگرمدارس ریاضی کا حساب نہیں جانتے تھے اور غلط تفسیر پر مجبور تھے لیکن صحیح بات ملنے پر ہٹ دھرمی سے کس کفر ونفاق کا ثبوت پیش کررہے ہیں؟۔
دورِ جاہلیت میں اکٹھی3طلاق دی جاتی تھی تو حلالہ کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ یہ آیت نص صریح ہے کہ عدت میں باہمی صلح واصلاح کی بنیاد پر اللہ نے رجوع کو واضح کردیا، جس کے بعد حلالہ کی مذہبی لعنت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ہے۔
اس آیت میں یہ بھی واضح ہے کہ باہمی صلح کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں۔جس سے جاہلیت کا بڑا مسئلہ بھی حل ہوگیا کہ عورت کی مرضی کے بغیر شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں اور فقہی تضادات اور فضول بکواسیات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے۔
دو مرتبہ طلاق رجعی کا شوہر کو غیرمشروط حق اللہ کے احکام سے بالکل متصادم ہے اسلئے کہ اللہ نے ایک عدت گزارنے کا عورت کو طلاق کے بعد حکم دیا ہے اور فقہاء نے دوبار غیرمشروط رجوع کا حق دیکر شوہر کو تین عدتوں کا حق دیا ۔ عدت کی تکمیل سے پہلے شوہر2بار رجوع کرے تو عورت3عدتیں گزارے گی جو قرآن اور عورت کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہے لیکن کانے دجال یہ دیکھنا نہیں چاہتے۔
٭٭٭
229 البقرہ کے احکام:
1:طلاق دومرتبہ اور پھر معروف طریقے سے رجوع یا احسان کیساتھ رخصت کرنا۔2:جو کچھ بھی ان کو دیا اس میں کچھ واپس لینا حلال نہیں مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔3:اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔

اللہ نے آیت228البقرہ سے ربط کیلئے فرمایا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلہ میں معروف رجوع ہے اور معروف کیا ہے؟۔ باہمی صلح کی شرط ہی معروف رجوع ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ آیت230میں فان طلقہا کا تعلق دومرتبہ طلاق سے نہیں فدیہ سے ہے اسلئے کہ ف تعقیب بلامہلت ہے۔ (نورالانوار)علامہ غلام رسول سعیدی بڑے اچھے اور علمی شخصیت تھے لیکن لکھ دیا کہ ”ف کی وجہ سے اکٹھی تین طلاق کا جواز بنتا ہے ورنہ نہ بنتا”۔ اس کی وجہ ”ف” کے حوالہ سے تضادات ہیں۔جس میں پہلی اور تیسری طلاق واقع ہوجاتی ہے ،درمیانی طلاق رہ جاتی ہے۔ نصاب نے علماء کو کوڑھ دماغ بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ حنفی مسلک کا تقاضا یہ ہے کہ فامساک بمعروف او تسریح باحسان کی ف سے تیسری طلاق کا تعلق دومرتبہ طلاق سے ہو اور یہ احادیث سے بھی بالکل واضح طور پر ثابت ہے۔
صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں یہ ہے کہ نبیۖ کو حضرت عمر نے خبردی کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے اور پھر رجوع کا حکم دیکرفرمایا کہ طہر میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے،پھر طہر کے بعد حیض آجائے ۔ پھر طہر آئے تو چاہو تو رجوع کرلو اورچھوڑنا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیرچھوڑو، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا”۔
کچھ علماء کے نزدیک حیض میں طلاق نہیں ہوتی جیسے رات میں روزہ نہیں ہوتا ہے۔ رسول اللہۖ نے جن واضح الفاظ میں طلاق کی مزید وضاحت کی ہے اور سورہ الطلاق میں اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اللہ نے وضاحت فرمائی ہے کہ عورتوں کو ان کی عدت میں طلاق دو ۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ نئی صورت پیداکرے۔ علامہ شبیراحمد عثمانینے غلط تفسیر، مولانا احمد رضا خان بریلوی نے غلط ترجمہ لکھ دیا ہے اسلئے کہ قرآن کے متن اور احادیث کی طرف توجہ کرنے کے بجائے فقہی جنگلات میں جوئیں ماری ہیں۔
اللہ نے واضح کیا کہ تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ کیا تو شوہر کیلئے جائز نہیں کہ دی ہوئی کوئی چیز واپس لے مگر جب وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے یہ خوف رکھیں کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ یعنی وہ چیز کسی طرح رابطے کا ذریعہ بن جائے گی اور جنسی اختلاط سے دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو وہ چیز پھر فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں۔
فدیہ فدائی سے ہے جو خود کش حملہ کہلاتا ہے ۔ عورت طلاق کے بعداپنی عزت بچانے کی خاطر لی ہوئی وہ چیز کو قربان کرے گی جو شوہر نے عطیہ دیا۔ اس آیت میں خلع مراد لینا انتہائی درجہ حماقت ہے۔ جہاں جاویداحمد غامدی اور سید مودودی جیسے دانشور بھی سر فہرست ہیں۔ یہ علماء نہیں بلکہ نقل مار ہیں۔ جو چیز بھونڈے طریقے سے فقہاء نے لکھ ڈالی اس کو سلیس طریقے سے واضح کیا۔ سورہ النساء آیت19میں خلع کا حکم اور سورہ النساء آیت20،21میں طلاق کا حکم واضح کیا گیاہے۔ عورت کا شوہر زبردستی سے مالک نہیں بن سکتا ۔ اگر وہ شوہر کو چھوڑ کر جانا چاہے تو اسلئے نہ روکے کہ بعض دی ہوئی چیزیں اس سے واپس لی جائیں مگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہو۔ خلع لیکر جانے کے باوجود بھی اللہ نے شوہر کو حسن سلوک کا حکم دیا ،اگر وہ چھوڑنے کے عمل پر بری لگ رہی ہو تو اللہ تواس میں بہت سارا خیر رکھ سکتا ہے۔ آیت19سورہ النساء اور آیت20،21النساء کو دنیا کے سامنے پیش کیا تو نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو، سکھ ، عیسائی ، یہود ی، بدھ مت اور دنیا کی خواتین و حضرات عورتوں کو اسلامی حقوق کا نظام تشکیل دینے پر متفق ہوجائیںگے۔ لیکن اگرفقہ کی کتابوں سے مسائل پیش کئے گئے تو علماء ومفتیان اپنے مسلک والوں سے چھپتے پھریںگے۔ دنیا جس بدامنی کی طرف جا رہی ہے اس سے روکنا صرف اسلام کا کمال ہوگا۔بڑامسئلہ ہے کہ ترجمہ وتفسیر بھی قرآن کے متن کے بالکل صریح خلاف کی گئی ہیں۔
اسرائیل ،ظالم حکمران اور جابر لوگ اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے جان، عزت اور مال لوٹتے ہیں تو اس کو شرافت کا لبادہ نہیں پہناسکتے لیکن حلالہ کے نام پر جو عزتیں لُٹ رہی ہیں تو اس نے مدارس کے ذریعے مسلمانوں کا معاشرہ تباہ کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن، مفتی منیب الرحمن ، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن اور مذہبی طبقے کا کام قوم کو مذہب کے نام پر منتشر ومضطرب رکھنانہیں بلکہ قرآن کی طرف متوجہ کرکے وہ استحکام بخشنا ہے جس سے امت مسلمہ کی ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں۔
٭٭٭

230البقرہ کے احکام:
1:پس اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے وہ عورت حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔2:پھر اگر ا س نے طلاق دیدی تو وہ دونوں رجوع کرسکتے ہیں اگر وہ یہ گمان رکھیں کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیںگے۔3:یہ احکام اس قوم کیلئے واضح کئے ہیں جو علم وسمجھ رکھتے ہیں۔

حنفی مسلک کے مطابق اس آیت کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے ۔ شافعی مسلک کے مطابق اس کا تعلق دو مرتبہ طلاق کے بعد سے ہے۔ فدیہ جملہ معترضہ ہے۔ (نورلانوار: ملاجیون درس نظامی)
علامہ ابن قیم نے” زادالمعاد” میں ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ” اس کا تعلق الگ الگ طلاق اور فدیہ دونوں سے سیاق وسباق کے مطابق ہے”۔
البقرہ:230میں ایک بڑے معاشرتی مسئلہ کا حل تھا۔ شوہر طلاق کے بعد نہ بسانے کا پروگرام رکھتا تھا اور نہ رجوع کا لیکن پھر بھی کسی اورشوہر سے نکاح کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جو غیرت کیلئے سب سے بڑا چیلنج لگتا تھا کہ اس کی بیوی اور بچوں کی ماں سے کوئی اور اپنے ازدواجی تعلقات رکھے اور یہ رسم صحیح بخاری میں حضرت سعد بن عبادہ کے حوالہ سے واضح تھی۔ قرآن میں اللہ نے نبیۖ کے حوالہ سے اذیت کا احساس دلاکر منع کیا ۔ قبائلی روایات، سندھ ، پنجاب میں ابھی تک یہ غیرت کا مسئلہ ہے اور میڈیا پر اس کی وجہ سے قتل کی خبریں آتی ہیں لیکن حلالہ کی بے غیرتی مجبوری میں بالکل سمجھ نہیں آتی۔
بالفرض ایک آدمی نے مرحلہ وارتین بار طلاق دی اور فدیہ کی صورت میں کوئی چیز بھی اس کو واپس کردی گئی اور عورت نے کسی اور شخص سے پھر نکاح کیا لیکن اتفاق سے اس نے بھی طلاق دی تو پہلے شوہر کے پاس دوبارہ رجوع کی گنجائش میں یہ شرط ذکر کی گئی ہے کہ جب دونوں کو گمان ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیںگے۔مثلاً پہلے شوہر سے رجوع کے بعد پھر دوسرے شوہر سے رابطے اور ناجائز تعلق کا خطرہ نہ ہو جس کی وجہ سے اللہ کی حد پامال ہو۔
آیت230اگر چہ آیت229البقرہ کے پس منظر میں ہے جہاں صلح و رجوع کی کوئی صورت نہیں لیکن اگر آیت228البقرہ کے مطابق ایک بار طلاق دی یا پھر آیت229کے مطابق دو بار بھی طلاق دی اور عورت باہمی صلح و معروف طریقے سے رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تویہی آیت230البقرہ کا ہی حکم لگے گا اور اس کا واحد مقصد عورت کو اس کی مرضی سے نکاح کی اجازت دینا مراد ہوگا۔
٭٭٭

احادیث صحیحہ کا معاملہ

قرآن پر تھوڑا تدبر کیا جائے تو پھر حلالہ کی لعنت کے دُور دُور تک بھی نشانات نہیں مل سکیں گے۔
حنفی ومالکی کے ہاں اکٹھی3طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیںاور دلیل ایک ہی حدیث ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ کسی نے نبی ۖ کو خبردی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں جس پر نبیۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تمہارے درمیان میں موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے؟۔ (یہ بخاری ومسلم کے معیار پر نہیں )
شافعی کے ہاں اکٹھی3طلاق سنت، مباح اور جائز ہیں۔دلیل ایک ہی حدیث ہے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔
بخاری نے ”من اجاز طلاق الثلاث” کا باب باندھا اور یہ روایت لکھی کہ ”رفاعة القرظی نے بیوی کو3 طلاق دی ۔اس نے عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے نکاح کیا اور پھر نبی ۖ کو اپنے دوپٹے کا پلو دکھایا کہ اسکے پاس یہ ہے۔ نبیۖ نے فرمایاکہ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟، نہیں جاسکتی۔ یہاں تک کہ پہلے شوہر کی طرح مزہ چکھ لو اور دوسرا شوہر بھی پہلے کی طرح تیرامزہ چکھ لے”۔
اس کو دیکھ کر لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ نبیۖ نے حلالہ کروانے کی آخری حد تک نگہداشت فرمائی۔ یہ حدیث بخاری کی اپنی روایات کیخلاف ہے۔جس میں الگ الگ طلاق کا ذکر ہے ۔ نامرد سے کوئی مفتی بھی حلالے کا قائل نہیں تو نبیۖ پریہ بہتان کیسے لگا یا جاسکتاہے؟۔ یہ حدیث چاروں مسالک اور اہلحدیث کسی کے نزدیک بھی درست نہیں ہے۔ لعان پر عویمر عجلانی کا3طلاق دینا سورہ الطلاق کی تفسیر ہے کہ فحاشی پر اچانک بیوی چھوڑ سکتے ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ”کوئی حدیث حنفی مسلک میں قرآن کے حتی تنکح میں نکاح پرجماع کا اضافہ نہیں کرتی۔ ہم احادیث نہیں نکاح سے جماع مراد لیتے ہیں”۔
احادیث سے نکاح پر جماع کا اضافہ بھی نہیں ہوسکتا ہے تو قرآن کی واضح آیات کو کیسے رد کیا؟۔ روایات میں ہے کہ خبر دینے اور قتل کی پیشکش والے عمر اور طلاق والے عبداللہ بن عمر۔ بخاری میں ہے کہ نبیۖ غضبناک ہوگئے اور رجوع کا حکم دیا اور مسلم کی ایک روایت ہے کہ ابن عمر نے تین طلاقیں دی تھیں۔ مفتی منیر شاکر کو مفتی حضرت علی ربانی نے جس بنیاد پر قرآن کا منکر کہا تو وہ بخاری سمیت سبھی فقہاء قرآن کی الطلاق مرتان کو نہیں مانتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علماء حق، حکومت وریاست اور خواتین وحضرات قرآن اور انسان کی طرف متوجہ ہوں :خوشگوار انقلاب عظیم آسکتا ہے

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ(البقرہ230) ” پس اگر اس نے طلاق دی تووہ حلال نہیں یہاں تک کسی اور شوہرسے نکاح کرلے ”۔
وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا(البقرہ:228) ”اور انکے شوہر اس عدت میں انکے لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں اگر باہمی ا صلاح کریں”۔

ابتدائی طلبہ کو مدارس میں پڑھاتے ہیں کہ قرآن میںہے: حتی تنکح زوجًا غیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرے”۔اللہ نے عورت کو خود مختاربنادیا ۔ حدیث ہے: ایما امرأةنکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحہا باطل باطل باطل” جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے ،باطل ہے ،باطل ہے”۔
حدیث عورت کو قرآن کے برعکس ولی کی اجازت کا محتاج بناتی ہے، یہ خبر واحد ہے جو قرآن سے متصادم ہو تو حنفی مسلک میں قرآن پر عمل اور حدیث کو ترک کردیا جائے گا۔ ہاں اگر ضعیف حدیث کی تطبیق ممکن ہوتو پھر مسترد نہیں کی جائے گی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں پڑھتا تھا تو مولانا بدیع الزمان سے عرض کیا کہ فقہ حنفی کے مطابق تطبیق ممکن ہے۔ قرآن سے طلاق شدہ مراد ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔کیونکہ ان دونوں کے احکام بھی شریعت،احادیث اور عوام میں جدا ہیں۔
استاذ محترم کا چہرہ چمک اٹھا، فرمایا کہ ” اگلی کتابیں پڑھ لو تو راستہ نکالنے میں کامیابی مل سکتی ہے،بات میں بڑا وزن ہے”۔
قرآن نے بیوہ کو عدت کے بعدواضح اختیار دیا ہے۔ حنفی احادیث کو تسلیم نہ کرنے پر گمراہی کا شکار ہیں تو جمہور طلاق شدہ وبیوہ کا اختیار سلب کرنے پر زیادہ بڑی گمراہی کے شکار ہیں۔
سورہ نور آیات32،33میں طلاق شدہ وبیوہ اور غلام ولونڈی اور کنواری لڑکیوں کے نکاح کا مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ انتہائی غلط ترجمہ وتفاسیر کی گئی۔ نابالغ بچیوں اور جبری نکاح پر مفتی تقی عثمانی کی ”فتاویٰ عثمانی جلد2” کے مسائل پرپوری انسانیت چیخ اٹھے گی۔ لوگوں کا ضمیر جگانے کی ضرورت ہے۔
BBC رپورٹ: برطانیہ میں50%جبری نکاح کاتعلق پاکستانیوں سے جن میں لڑکیوں سے زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے اور لڑکیوں کو قتل اور انکے سر کی قیمت رکھی جاتی ہے۔ بظاہر بڑا خوشنما ، خوش آئند اور دنیا کیلئے قابل قبول لگتا ہے کہ حنفی نے حدیث پر قرآن کو فوقیت دیکر آزادیٔ نسواں کاپرچار کیا ہے مگر حقائق اسکے بالکل برعکس ہیں۔ قرآنی آیات میں جو اختیار بھی عورت کو دیا گیا اسکے حنفی بھی دوسرے مذہبی طبقات کی طرح بالکل منکر ہیںاور قرآن میں اکثراختلافات کا تقریباً سبب یہی ہے کہ اللہ نے عورت کو واضح الفاظ میں جو اختیارات دئیے ہیں ان کو خاطر میں لانے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان کا اختیار سلب کرنے کا اب تک کسی نے احساس تک اجاگر نہیں کیا ہے اور اگر حقائق کی طرف توجہ ہوتی تو اتفاق میں دیر نہ لگتی۔
اگر مدارس میں حنفی مسلک کے مطابق آیت228البقرہ تعلیم دی جاتی کہ ” واضح الفاظ میں طلاق کے بعد عدت کے اندر باہمی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے ” ۔کیا اس آیت سے حلالہ کی لعنت کا خاتمہ نہیں ہونا چاہیے تھا؟۔اس آیت کے دو بنیادی مقاصد تھے ۔ایک اکٹھی تین طلاق کے بعد حلالہ کا خاتمہ اسلئے کہ واضح الفاظ میں عدت واصلاح کو بنیاد بناکر رجوع کی اجازت دی گئی۔دوسرا طلاق رجعی کا خاتمہ جس میں عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو رجوع کا حق ملا ہواتھا۔
حضرت عمر نے صحیح فیصلہ کیا اسلئے کہ اکٹھی3طلاق پر شوہر اور بیوی میں رجوع پرتنازع تھا۔ حضرت عمریہ فیصلہ نہ دیتے تو قرآن کی مخالفت ہوجاتی اسلئے کہ صلح اور معروف کے بغیر اللہ نے شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا۔ حضرت عمر نے قرآن پرفیصلہ کرلیا اور دنیا کی کسی بھی عدالت اور مذہب میں قرآن کا اور حضرت عمر کا یہ فیصلہ لے جایا جائے تو یہی فیصلہ دیں گے۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر نے غلط فیصلہ کیا تو وہ قرآن کو نہیں سمجھتے۔ قرآن طلاق کے بعد باہمی صلح کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دیتا۔ تین طلاق کے بعد عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو رجوع کی اجازت دینا کتنی بڑی گمراہی ہے جس میں شیعہ، اہلحدیث اور حنفی مبتلا ہیں جو طلاق رجعی کا قرآن و سنت اور فطرت کیخلاف غیرمشروط تصور رکھتے ہیں۔ عوام کو پتہ نہیں کہ مذہبی طبقے نے پوٹی سے کیسے اپنی شلواریں بھر دی ہیں؟۔ شوہر نے بیوی سے کہا: تجھے3طلاق پھر مکر گیا۔ عورت کے پاس گواہ نہ تھے اور شوہر نے حلف اٹھایا تو عورت خلع لے گی اور شوہر خلع نہ دے تو پھر وہ حرامکاری پر مجبور ہے جب شوہرجماع کرے تو وہ لذت نہ اٹھائے۔ (حیلہ ناجزہ : مولانا اشرف علی تھانوی)
قرآن کہتا ہے ” جنہوں نے قرآن کو بوٹیاں بوٹیاں کردیا تو ان سب سے اللہ پوچھے گا”۔ رسول ۖ کویہ شکایت ہوگی کہ ”رسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ قرآن کو بوٹیاں کرنے والی قوم قصائی جعلسازقریشی،صدیقی، فاروقی، عثمانی ،غامدی وغیرہ ہیں۔ مسند اقتدار پر بنو امیہ، بنوعباس ، خلافت عثمانیہ کا قبضہ تھا۔ انہوں نے جعلی مذہب اورنسب ناموں سے دین کا بیڑہ غرق کردیاہے۔
قرآن کے واضح متن کیخلاف متضاد روایات گھڑ دیں اور فقہی تضادات کی بھرمار کردی۔اب بدترین فراڈ سے قرآن و حدیث کے واضح احکام کیخلاف اسلامی بینکاری کے نام پر اللہ اور اسکے رسولۖ سے جنگ سودی نظام کو جائز قرار دیاہے۔
٭٭٭

الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان البقرہ229”طلاق دو بار ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یااحسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”

اللہ کو علم تھا کہ امت مسلمہ کو کیسے الجھا کر گمراہ کیا جائیگا؟۔ اسلئے واضح الفاظ میں فرمایا کہ” طلاق دو بار ہے”۔ کسی بھی زبان میں دو اور دوبار میں فرق ہے۔ دو گاجر کھائے کہنا درست ہے لیکن دو حلوے کھائے نہیں کہہ سکتے بلکہ دومرتبہ حلوہ کھایا۔
2گاجر2عدد ہیں ۔2بار حلوہ کھانا2الگ الگ فعل ہیں۔10گاجر اکھٹی لیکن2مرتبہ ملاقات الگ الگ ہی کرنا ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ حضرت عمر نے کیسے اکٹھی3 طلاق پر فیصلہ دیدیا؟۔ جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر فیصلہ نہیں دیا بلکہ اس طلاق کے بعدعورت رجوع پر راضی نہ تھی۔
شوہر نے بیوی کو حرام کہا ۔عورت صلح پر راضی ہوئی، حضرت عمر نے رجوع کا فیصلہ کیا۔ شوہر نے بیوی کو حرام کہا اور عورت صلح پر راضی نہ تھی تو حضرت علی نے رجوع کو حرام قرار دیا۔ اختلاف عمر وعلی میں نہیں تھا بلکہ جن عورتوں کو حرام کہا گیا تھا ان کی مرضی میں فرق تھا۔ طلاق ، حرام ، ایلاء اور علیحدگی کے ہرلفظ پر عورت کا اختیار واضح ہے۔یہ بالکل غلط کہاگیا کہ حضرت علی کے نزدیک حرام3طلاق یا تیسری طلاق ہے اورحضرت عمر کے نزدیک حرام کا لفظ ایک طلاق رجعی ہے۔یہ گھڑا گیا ہے۔
دوبارطلاق رجعی کا تصور غلط ہے۔228البقرہ میں باہمی اصلاح کی شرط پرعدت میں رجوع ہے۔229البقرہ میں معروف کی شرط پر رجوع ہے۔اگر عورت راضی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے ۔ یہی باہمی اصلاح اور معروف طریقہ ہے ۔
قرآنی مفہوم چھوڑ دیا تو حنفی کے نزدیک شہوت کی نظر غلطی سے پڑنے پر نیت نہ ہو تو بھی رجوع ہے اور شافعی کے نزدیک نیت نہ ہو تو جماع سے بھی رجوع نہیں ہے۔قرآن کا معروف منکرات سے بدل دیا اور بنیادی وجہ عورت کے اس اختیار کو ختم کیا جس کو اللہ نے مسلسل ان آیات میں بہت واضح کیا ہے۔
3چیزیں سنجیدگی اور مذاق میں معتبر ہیں۔ طلاق ، عتاق اور رجعت۔(حدیث) عورت رجوع پر راضی نہ ہو تو مذاق معتبر ہے ۔ رجوع پر راضی ہو توسنجیدہ طلاق پر بھی رجوع معتبر ہے ۔ اصل معاملہ انسانی حق کا ہے۔ طلاق میں عورت کے مالی حقوق خلع کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ خلع پر عورت کو گھر ، غیر منقولہ جائیداد زمین، باغ،دکان سے دستبردار ہونا ہو گا لیکن منقولہ دی ہوئی چیزیں زیورات، گاڑی میں بعض بھی نہیں لی جا سکتی ہیں۔ طلاق میں خزانہ بھی نہیں لے سکتے۔النسائ:19،20اور21
طلاق سے شوہر مکر گیااور بیوی کے پاس گواہ نہ تھے تو حلف پر خلع کا حق ملے گا جو طلاق کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔
٭٭٭

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ(البقرہ230) ” پس اگر اس نے طلاق دی تووہ حلال نہیں یہاں تک کسی اور شوہرسے نکاح کرلے ”۔
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف (البقرہ231) جب عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روک لو۔

صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ ” دومرتبہ طلاق کے بعد آیت229البقرہ میں تیسری مرتبہ احسان کیساتھ چھوڑ ناہی تیسری طلاق ہے”۔ (کشف الباری مولانا سلیم اللہ خانو نعم الباری علامہ سعیدی)
اس آیت میں اللہ نے تین مرتبہ طلاق کے بعد فرمایا ہے کہ ”اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لومگر جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے اور ( فیصلہ کرنے والو!) اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے تو دونوں پر حرج نہیں عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں….”۔
نظم قرآن کے جاوید احمد غامدی اور مولانا موددی کی تفسیر تفہیم القرآن پر تعجب ہے کہ آیت کا کتنا غلط ترجمہ لکھ دیا؟۔اس بات کی وضاحت تو ہوچکی ہے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد شوہر اپنا دیا ہوا مال واپس نہیں لے سکتا مگر جب آپس میں رابطے اور اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا خوف ہو جو جنسی سکینڈل ہے تویہ دی ہوئی چیز عورت قربان کردے تو دونوں پر حرج نہیں۔ فدیہ فدائی خود کش حملہ کی طرح عورت کیلئے اپنی عزت بچانے کی راہ ہے۔ لیکن اس سے خلع مراد لینا؟۔ اللہ نے عورت کومالی تحفظ دیا تو اس کو خلع کے ذریعے بلیک میل کرنے سے بہتر تھا کہ علم و سمجھ کی جگہ ہیرہ منڈی کے سامنے گدھے ڈھینچوڈھینچو کرتے۔
فقہ حنفی میں البقرہ آیت230میںفان طلقہا کی طلاق کا تعلق فدیہ سے ہے جس کی بنیادپر حنفی عالم علامہ تمناعمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” لکھ ڈالی۔ علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب زادالمعاد میں ابن عباس کا قول نقل کیا کہ اس طلاق کا تعلق الگ الگ مرتبہ اور فدیہ کی صورت سے سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ جس سے مروجہ حلالہ کی بیخ کنی ہوجاتی ہے۔ لیکن اصل بات کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی ہے اور وہ ہے کہ طلاق کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ شوہر طلاق دے ۔ عورت خلع لے اور دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ طلاق کے بعد دونوں میں رابطہ کیلئے چیز باقی نہ رہے۔ تیسری صورت اس آیت230کی طلاق سے پہلے بالکل واضح ہے۔
طلاق کے بعد عورت مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی تھی تو اللہ نے بہت بڑا مسئلہ حل کردیا کہ” جس سے مرضی نکاح کرے”۔ اجازتِ ولی کی حدیث کو غلط مدمقابل لایا گیا۔ شہزادہ چارلس کو طلاق کے بعد لیڈی ڈیانا کارشتہ برداشت نہیں تھا۔ جو فرانس کے شہر پیرس میں قتل کی گئی۔خاور مانیکا کو بھی تکلیف ہے؟۔
اگر اللہ تعالیٰ کا مقصد تیسری طلاق پر حلالہ کی لعنت ہوتی تو پھر آیت231البقرہ میں عدت کی تکمیل پر، آیت232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت بلکہ بہت واضح ترغیب کیوں دیتے؟۔ مولوی کی عقل اتنی ماری گئی کہ آیت231البقرہ کو بھی عورت کے اختیار کو سلب کرنے اور غیر مشروط طلاق رجعی کیلئے استعمال کرتا ہے۔ معروف کی شرط کانا دجال نہیں دیکھتا۔
سورہ الطلاق میں ان تمام آیات کا خلاصہ ہے۔ عوام کیلئے تو سورہ الطلاق ہے اور قانون سازی کیلئے سورہ بقرہ کی ان آیات کی تفصیل تھی۔ ملاجیون پر ایک طرف شیخ چلی سے زیادہ بڑے احمقانہ لطیفے بیان کئے جاتے ہیں اور پھر اصول فقہ کی نورالانوار بھی انہی کی پڑھائی جاتی ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت کو باربار دوہرایا۔
فقہاء نے فتویٰ لکھ دیا کہ ”اگر بچہ نصف سے زیادہ ماں کے پیٹ سے نکل چکا ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا اور نصف سے کم نکلا ہو توپھر رجوع ہوسکتا ہے”۔اگرمفتی اعظم اور شیخ اسلام نے بیوی کو طلاق کے بعد اس وقت رجوع کیا ہو کہ جب بچہ ففٹی ففٹی ہو تو پھر اس کا رجوع کرنا حلال کاری ہوگی یا حرامکاری ہوگی؟۔
شیخ الہند نے مالٹا کی جیل کے بعد کہا کہ” امت کے زوال کے دو سبب ہیں۔قرآن سے دُوری اور فرقہ واریت”۔ مفتی اعظم مفتی شفیع نے لکھا کہ” فرقہ واریت قرآن سے دوری کے سبب ہے اسلئے ایک سبب ہے قرآن سے دوری”۔ گاؤں کے سردار نے فیصلہ کیا میراثیوں کوگاؤں سے نکالنا ہے تو مراثیوں نے بھی ڈنڈے اٹھائے۔ مولانا تھانوی ، مولانا کشمیری ، مفتی عزیزالرحمن عثمانی، علامہ شبیراحمد عثمانی ، مولانا مدنیاور قاری محمد طیب اور مفتی شفیع جیسے لوگوں کیلئے تو شیخ الہند نے فرمایا تھا۔ پھر علامہ انور شاہ کشمیری نے آخری وقت میں یہ کہا کہ ”مدارس میں ساری زندگی ضائع کی۔قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہ کی”۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ ” مولوی کو کوڑھ دماغ اپنا نصاب بناتا ہے۔اگر اصول فقہ پر کسی عقل والے کی نظر پڑگئی تو سارا نظام دھڑام سے گر جائیگا لیکن علماء نے نہیں مانا”۔ علامہ یوسف بنوری نے اپنا مدرسہ طلبہ کیلئے نہیں علماء کو قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم دینے کیلئے بنایا۔ مفتی کا کورس پہلے نہ تھا۔ مدرسہ کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ۔ مجھے اللہ نے وہاں تعلیم کی توفیق دیدی۔ مولانا الیاس کی محنت نے مدارس کو علماء وطلبہ سے بھر دیا ۔تبلیغی جماعت کو حلالہ کی لعنت میں عزت لٹوانے کے سوا کچھ نہیں ملا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خطرناک ترین شرک علماء کے خود ساختہ حلال وحرام؟

اتخذوا احبارھم ورھبانہم اربابًا من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا اِ لہًا واحدًا لاالہ الا ھو سبحانہ عما یشرکونOترجمہ :” اور انہوں نے اپنے علماء اور اپنے پیروں کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنایا ہے اور مسیح ابن مریم کو ۔حالانکہ ان کو یہی حکم ہوا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ اسکے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ پاک ہے اس سے جو اس کیساتھ کسی چیزکو وہ شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (سورہ التوبہ:آیت:31)
کرسچن نے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے پوچھا کہ
”عدی بن حاتم نے کہا کہ نصاریٰ علماء ومشائخ کو نہیں پوجتے تھے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ کیا تم ان کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے؟۔ عدی نے کہا کہ یہ توہم کرتے ہیں۔ نبیۖ نے فرمایا کہ یہی تو رب بنانا ہے”۔
جن لوگوں کا خدا کی توحید پر درست ایمان نہیں تو وہ مظلوم عیسیٰ اور علی سے کیا عقیدہ رکھیںگے؟۔ نمازاور عبادت میں شرک نہ ہونے کے برابر ہے۔ خطرناک شرک اللہ کے احکام میں حلال وحرام ہے اور مسلمان اورتمام مذاہب والے منع ہوں گے توپھرلادینیت اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہوسکے گا۔
قل یاایھا الکتٰب تعالوا الی کلمةٍ سوائٍ بیننا وابینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئًا ولا یتخذ بعضنا بعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولوافقولوا اشھدوا بانا مسلمونO”کہہ دو کہ اے اہل کتاب! آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور آپ میں برابر ہے کہ ہم عبادت نہ کریں مگر اللہ کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم بعض بعض کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنائیں اور اگر وہ منہ موڑلیں تو کہو کہ تم گواہ رہو کہ بیشک ہم مسلمان ہیں(سورۂ ال عمران:آیت64)
مفتی محمود نے بینک کی زکوٰة کیخلاف فتویٰ دیا تو مولانا فضل الرحمن کہتا تھا کہ ” یہ شراب کی بوتل پر آب زمزم کا لیبل ہے”۔ علماء نے اسلامی سودی بینکاری کو فراڈ کہا ۔”تویہ گدھے کے پیشاب پر گنے کے رس کا لیبل نہیں”۔ علماء ومشائخ کو رب بنالیا؟۔ اللہ اور اسکے رسولۖ کیساتھ سودکی جنگ جائز ہے توپھر یہ کونسا اسلامی نظام ہے؟۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کیا۔ اسلامی بینکاری کی بنیاد پر یہود مسلمانوں کی رگِ جان کو بھی فرنگ کی طرح سودکے پنجہ استبداد میں لے رہاہے اور مفتی ومولانا استعمال ہورہے ہیں۔
ولاتقولوا لما تصف السنتکم الکذب ھٰذا حلال وھٰذا حرام لتفتروا علی اللہ الکذب… ”اور اپنی زبانوں سے جھوٹ نہیں بولو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ کا بہتان باندھو…”۔(سورہ النحل: آیت116)
امریکہ ، برطانیہ ، جرمنی، فرانس، بھارت اور ہم سودی نظام سے تباہ ہیں۔ بینک10کروڑ پر70لاکھ سود کی رقم دیتا تھا۔دیندار طبقہ اس کو مستحق افراد میں تقسیم کرتا تھا۔ کہیں مسجد،مدرسہ کے لیٹرین اور کہیں کسی کا قرض ادا کردیا جاتا تھا۔25لاکھ زکوٰة غرباء میں بانٹ دیتا تھااور5لاکھ صدقات بھی۔
10کروڑ میں 30لاکھ امیر کی جیب سے نکلتے اور ایک کروڑ غریبوں کو جاتاتھا۔ حکومت نے زکوٰة لینی شروع کردی تو 25 لاکھ زکوٰة کٹ جاتی اور10کروڑ محفوظ اور سود45لاکھ مل جاتا۔ مفتی محمود نے کہا کہ سود کی رقم سے زکوٰة ادا نہیں ہوتی ۔
پہلے سود کو جواز بخش دیا۔ پھر فتویٰ آیا کہ سود دینا جائز ہے لینا جائز نہیں۔ بینکوں نے اعلان کیا کہ5ارب رکھنے پر سود نہیں ۔ میزان بینک نے کہا کہ ایک ارب پر بھی سود نہیں اور رکھنے پربھی چارج کیا جائے گا۔ اسلامی بینکاری میں علماء ومفتیان کا بھی2فیصد حصہ رکھا گیا ہے۔ مولوی سرمایہ دار بن گیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

فرشتوں کا آدم کو اور بھائیوں کا یوسف کو سجدہ شرک نہیں تھامگر اپنے فتویٰ سے حلال اورحرام کو تبدیل کردینا شرک ہے

لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجکOقد فرض اللہ تحلة ایمانکمO” کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے آپ کیلئے حلال کیا اپنی ازواج کی خوشنودی کیلئے بیشک اللہ نے مقررکردیا تم لوگوں کا عہدوپیمان حلال کرنا”۔(التحریم)
ولاتجعل اللہ عرضة لایمانکم ان تبروا وتتقواوتصلح بین الناس واللہ سمیع علیم”اورمت بناؤ اللہ کواپنے عہد وپیمان کا ذریعہ کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سننے والا علم والاہے”۔ (سورةالبقرہ:224)

عام مسلمان نکاح وطلاق کا مسئلہ نہیں سمجھتے تھے مگر سودکو توسمجھتے ہیں

مفتی محمد تقی عثمانی سے سوال تھا ”بیوی کو حرام کہنا طلاق بائن کیوں ہے جس میں نکاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے؟”۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا کہ ” یہ سمجھنے کیلئے آپ کو اسلامی مدارس میں تعلیم حاصل کرنی ہوگی”۔(فتاوی عثمانی جلد دوئم) اسلئے کہ مفتی محمد تقی عثمانی اورا کابرین دیوبند سبھی مقلدین ہیں۔
حرام کہنا حضرت عمر کے ہاں ایک طلاق رجعی اور حضرت علی کے نزدیک یہ3طلاق ہیں۔( اجتہادات خلفاء راشدین )
صحیح بخاری میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ حرام کے لفظ سے جو نیت کی جائے۔ بعض علماء نے کہا کہ یہ تیسری طلاق ہے اور یہ کھانے کی چیزوں کی طرح نہیں کہ کفارہ سے حلال ہو۔ جبکہ ابن عباس نے کہا کہ بیوی کو حرام کہنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے نہ طلاق ،نہ حلف اور نہ کفارہ اور یہی نبیۖ کی سیرت ہے۔
امام ابوحنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کے درمیان بھی اختلافات کو علامہ ابن تیمیہ نے فرقہ واریت قرار دیا مگر مسئلے کا حل نہیں نکالا۔ ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے تو20اجتہادی مسالک حرام کہنے پر اپنی کتاب ”زاد المعاد ” میں لکھ دئیے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کو اللہ نے ہر چیز کوو اضح کرنے کا کریڈٹ دیا ۔ وانزلنا الکتاب تبیانًا لکل شی ئٍ تو کیا بیوی کوحرام کا لفظ کہنے پر کوئی واضح حکم نہیں نازل کیا؟۔
جواب یہ ہے کہ نبی ۖ نے حضرت ماریہ قبطیہ جب اپنے اوپر حرام قرار دی تو اللہ نے اس پر سورۂ تحریم نازل فرمائی اور تحریم کا مطلب ہی ”حرام قرار دینا” ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اللہ نے عورت کے اختیار کو بہت اچھے طریقے سے واضح کیا مگر مولوی خر دماغ کا ذہن عورت کا اختیار ماننے کو آمادہ نہیں ہوتا۔
نبی ۖ کے ایلاء سے رجوع پر اللہ نے فرمایا کہ ازواج کو علیحدگی کا اختیار دو۔ اللہ نے عورت کے اختیار کو واضح کیا ہے۔ اللہ نے مختلف آیات میں عورت کے اختیار کو واضح کردیا ہے مگر فقہاء ومحدثین نے قرآن سمجھے کی طرف رجوع بالکل نہیں کیا۔
سورہ تحریم میں عورت کو حرام قرار دینے کا مسئلہ واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ” تمہارے عہدو پیمان (اَیمان) کو اللہ نے حلال کرنافرض قرار دید یا ہے”۔ تاکہ مولوی کا دماغ کھل جائے کہ مذہب کے نام پر صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
پھر طلاق کے مسائل کا مقدمہ ان الفاظ میں بیان کیا:
”مت بناؤ اللہ کواپنے عہدوپیمان کا ذریعہ کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔(البقرہ:224)
جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی عنوان،الفاظ اور فتویٰ سے میاں بیوی کے درمیان اللہ کو صلح کیلئے رکاوٹ نہیں بنایا جاسکتا۔
” اور اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا مگر جو تمہارے دلوں نے کمایاہے۔ (البقرہ:225)۔اس کا تعلق حلف سے نہیں۔ سورہ المائدہ میں واضح ہے کہ یمین کا تعلق اگر حلف سے ہوگا تب کفارہ ہوگا۔یہ طلاق کے احکام ہیں۔ حلف کے نہیں۔ یعنی طلاق صریح وکنایہ کے جتنے الفاظ ہیں ان پر اللہ کی طرف سے کوئی پکڑ نہیں۔البتہ عورت پکڑسکتی ہے اور اصل مسئلہ عورت کے اختیار کا ہے اسلئے حدیث میں مذاق کی طلاق معتبر ہے۔
جو اپنی عورتوں سے ایلاء کریں تو ان کیلئے چار ماہ ہیںپس اگر آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے۔ (البقرہ:226)
ایلاء کی عدت نہ تھی۔ اللہ نے سب سے پہلے اس کی عدت4ماہ مقرر کردی ۔جو طلاق سے ایک ماہ زیادہ ہے۔ اس میں طلاق کا اظہار نہیں تھا۔ یہ بھی واضح کیا کہ ”اور اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے والا علم والاہے”۔ (سورہ البقرہ227)
یعنی اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار کے بعد عورت کو3ماہ کی عدت کا انتظار کرنا پڑرہاتھا۔1ماہ کی اضافی اذیت بھی اللہ کیلئے قابل قبول نہیں اور جمہور فقہاء ومحدثین نے تو بالکل حد کردی کہ ساری زندگی انتظار کرنا ہوگا جن کے مقابلے میں حنفی بہتر ہیں اسلئے کہ انہوں نے4ماہ گزرنے پر طلاق کا حکم لگادیا ہے اور پھر3ماہ طلاق کی عدت گزارے گی۔ جمہور کے نزدیک شوہر کا نکاح برقرار ہے ۔ حنفی فقہاء کے نزدیک4ماہ بعد نکاح قائم نہیں رہاہے۔ کیا اتنا بڑا اختلاف ایک قرآن وسنت کو ماننے والوں میں ہوسکتاہے؟۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ اللہ نے عورت کا اختیار واضح کیا ہے کہ اگر وہ عدت میں بھی رجوع نہیں کرنا چاہے تو شوہر زبردستی نہیں کرسکتا۔ عدت گزرنے کے بعد عورت چاہے تو دوسرا نکاح کرے اور چاہے تو اسی شوہر سے رجوع کیلئے راضی ہو۔ فقہاء نے غلط تخمینہ لگایا کہ شوہر نے اختیار استعمال کیا ہے یا نہیں؟۔
٭٭٭

للذین یؤلون من نسائھم تربص اربعة اشہرفان فأوا فان اللہ غفور رحیمO”ان لوگوں کیلئے جو اپنی عورتوں سے نہ ملنے کا عہد کرتے ہیںچار مہینے ہیںپھر اگر وہ آپس مل گئے تو اللہ معافی والا رحم والا ہے”۔(سورہ البقرہ:آیت226)

اللہ اور فقہاء کا اسلام جدا جدا؟
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
حنفی مسلک ہے کہ” ایلاء میں چار ماہ تک شوہر نے رجوع نہیں کیا تو عورت طلاق ہے ”۔جمہور فقہائ و محدثین ، علامہ ابن تیمیہوابن قیم اور اہل حدیث واہل تشیع کا مذہب یہ ہے کہ” چار ماہ کے بعد بھی نکاح قائم ہے جب تک شوہر طلاق کا واضح الفاظ میں اظہار نہیں کرتا ہے”۔ ہر چند کے حنفی مسلک قرآن کے مطابق نہیں مگر قریب ہے کیونکہ پھرتو آیت میں چار ماہ کی وضاحت بالکل بے فائدہ بن جاتی ہے ۔
پھر اس ستم ظریفی پر اپنا سر پیٹ کر ماتم کرلیجئے کہ
جب عورت کا شوہر گم ہوجائے توحنفی فقہاء کے نزدیک وہ80سال تک انتظار کرے گی۔امام مالک کے نزدیک انتظار کی مدت 4سال ہے۔ جب ایک حنفی عورت عیسائی بن گئی کہ80سال تک انتظار نہیں ہوسکتا تو مولانا اشرف علی تھانوی نے ” حیلہ ناجزہ” کتاب لکھ دی اورمالکی مسلک پر فتویٰ دے دیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حنفی مسلک میں انتظار کی مدت کم اور مالکی مسلک میں زیادہ ہوتی اسلئے کہ ایلاء میں حنفی مسلک نے4ماہ بعد طلاق کا حکم جاری کیا ہے اور جمہور نے تاحیات انتظار کا حکم دیاہے لیکن معاملہ بالکل الٹ کردیا۔ امام مالک ایلاء کو قسم و حلف کیساتھ خاص نہیں سمجھتے بلکہ ناراضگی بھی ایلاء ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسم جاہلیت ختم کرنے کیلئے وہ صورت واضح کردی کہ جس میں شوہر طلاق کا اظہار نہیں کرتا اور عورت کو عمر بھر انتظار کرنا پڑتا ہے اور وفات کی عدت4ماہ10دن مقرر کی اور جب شوہر زندہ ہو اور طلاق کا اظہار نہیں کیا ہو تو عورت کی عدت4ماہ رکھ دی اور اس میں بھی شوہر کو اس صورت میں دل کا گناہگار قرار دیا جب اس کا طلاق کا عزم تھا۔ اللہ نے اس میں عورت کو 4ماہ کی عدت کے بعدکسی اور نکاح کا اختیاردیا۔
آیت228البقرہ میں طلاق کی عدت3ادوار (یا3ماہ) ہے۔ جس میں باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن فقہاء نے عورت کے حق کو نظر انداز کرتے ہوئے طلاق رجعی سے شوہر کو ایک طرف غیر مشروط رجوع کا حق دیا اور دوسری طرف طلاق مغلظہ سے باہمی صلح سے بھی رجوع کا حق ختم کردیا۔
٭٭٭

کما انزلنا علی المقتسمینOالذین جعلوا القراٰن عضینOفو ربک لنسئلنھم اجمعینO”جیسا کہ ہم نے بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ۔ جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔ پس تیرے رب کی قسم کہ ہم ان سے ضروربضرور پوچھیں گے۔ (سورہ حجر:90،91،92)
وقال الرسول یارب ان قومی اتخذواھذا القرآن مھجورًاO
” اور رسول کہیںگے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ ( سورہ الفرقان آیت:30)

مذکورہ بالا آیات میں فقہاء اور عوام کے خلاف دوFIRدرج ہیں!

رسول اللہ ۖ نے نشاندہی فرمائی تھی کہ ”میری امت بھی سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلے گی ” ۔ (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق پرسے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا تو اسکے پیچھے قرآن کا فلسفہ عورت کا اختیار تھا۔جب عورت راضی ہو تو معاملہ حکمران کے دربار میں کیوں جاتا؟۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ایک بلکہ تین طلاق کے بعد بھی طلاق رجعی ہے تو یہ بہت بڑی جہالت ہے۔ شیعہ فاروق اعظم کی مان لیںگے۔ عورت صلح کیلئے راضی ہو تو حلالہ قرآن کے احکام، عورت کی عزت و ناموس اور انسانی فطرت کو کچل کر رکھ دینا ہے۔
حنفی فقہ ” فتاویٰ قاضی خان ”کا حوالہ فتاویٰ تاتار خانیہ میں ہے کہ ”ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تیری شرمگاہ میری شرمگاہ سے خوبصورت نہ ہو تو تجھے طلاق اوربیوی نے کہا کہ اگر تیری شرمگاہ سے میری شرمگاہ خوبصورت نہ ہوتو میری لونڈی آزاد۔ اگر دونوں نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی ہے تو بیوی طلاق ہوجائے گی اسلئے کھڑے ہونے کی صورت میں عورت کی شرمگاہ خوبصورت ہوتی ہے۔ اگر دونوں بیٹھے ہیں تو عورت کی لونڈی آزاد ہوجائے گی اسلئے کہ بیٹھنے کی صورت میں مرد کی شرمگاہ خوبصورت ہوتی ہے اور اگرشوہر کھڑا ہے اور عورت بیٹھی ہوئی ہے تو مجھے بھی پتہ نہیں کہ پھر کیا حکم ہے ؟۔ البتہ فضل بن ابوبکرنے کہا کہ مناسب ہے کہ دونوں کا عہد و پیمان(ایمانھما) واقع ہو۔اسلئے کہ کھڑے ہونے کی صورت میں مرد اور بیٹھنے کی صورت میں عورت کی شرمگاہ خوبصورت نہیں ہے۔ شوہر کی طلاق واقع ہو اور بیوی کی لونڈی آزاد ہو”۔ یہ فتاویٰ کوئٹہ سے بھی چھپا ہوا ہے۔ایوارڈ ملنا چاہیے۔
سلیم انسانی فطرت کے منافی مذہبی مسائل سے مغرب کی بغاوت ٹھیک ہے۔ نبیۖ نے فرمایا: ”اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ الساعہ آجائے”۔ (صحیح مسلم ) الساعہ سے مراد قیامت نہیں بلکہ خلافت کے قیام کا انقلاب ہے
جاہلیت کے مسائل کا حل قرآن وسنت نے پیش کردیا۔
1:ظہار میں بیوی کو حقیقی ماں سمجھ لیا جاتا تھا تو سورۂ مجادلہ و سورہ احزاب میں اس کا بہترین حل پیش کردیا۔
2:عورت کو حرام قرار دیاتو سورہ تحریم میں حل پیش کردیا۔
3: عورت سے نہ ملنے کے عہدوپیمان کو صلح میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا تو اللہ نے اس کو البقرہ224میںجڑ سے ختم کردیا۔
4: اکٹھی تین طلاق کے بعد حلالہ ضروری تھا تو سورہ البقرہ آیت228میں رجوع کا تعلق اصلاح کیساتھ جوڑ دیا۔
5: عدت میں طلاق رجعی کا غیر مشروط تصور تھا تو آیت228اور229میں اصلاح ومعروف کی شرط سے جوڑ دیا۔
6: طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کا حق طاقتور شوہر نہیں دیتا تھا تو آیت230میں مکمل جان چھڑادی۔
حالانکہ آیت226،228اور229میں بھی جان چھڑائی تھی اسلئے کہ ایلاء اور طلاق کے بعد عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا لیکن فقہاء کو عورت کا مفاد اور اللہ کے واضح احکام سمجھ میں نہ آئے جونہی آیت230البقرہ میں حلال نہ ہونے کا دیکھ لیا تو اس کو پکڑکر بیٹھ گئے۔ حالانکہ یہ تین طلاق کے بعد اور فدیہ کی اس صورتحال سے مشروط تھا جس میں فیصلہ کرنے والے اور وہ دونوں آئندہ رابطے کی بھی کوئی صورت نہ چھوڑیں اور پھر اللہ نے عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف اور باہمی رضامندی کی شرط پر حلالہ کے بغیر رجوع کی اجازت دی اور سورہ طلاق کی دو آیات میں ایک مختصر جامع خلاصہ بھی پیش کردیا لیکن حلالہ کی لذت میں گرفتار پھر کہاں سنتے تھے؟۔
7: اللہ نے محرمات کی فہرست میں سب سے پہلے آباء کے نکاح والی عورتوں کو منع کیا مگر یہ کہ جو پہلے ہوچکا ہے۔
ابو حنیفہ کے شاگرد شیخ الاسلام ،مفتی اعظم خلافتِ عباسیہ اور قاضی القضاة ( چیف جسٹس ) نے بڑی بھاری رقم کا معاضہ لیا اور بادشاہ کیلئے اس کے باپ کی لونڈی جائز قرار دے دی ۔
شکر ہے کہ نالائق تھا اور سورہ مجادلہ سے حکم کا استنباط نہیں کیا کہ ”مائیں صرف وہی ہیں جنہوں نے جنا”۔ لونڈی اور سوتیلی ماں کا جواز ہے۔ توراة عبرانی زبان میں تھا اور یہودی علماء اس کا عربی میں ترجمہ کرتے تھے اسلئے نبیۖ نے فرمایا کہ ان کی تصدیق اور تکذیب مت کرو۔ (صحیح بخاری)۔ مفتی کامران شہزاد نے اپنی ویلاگ میں بزرگ کااپنے مرید کو شرمگاہ سے مارنے اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تائید کا ذکرکیا ہے۔ بس بہت ہوچکا ۔اللہ کیلئے قرآن وسنت کی طرف پلٹ جاؤ!۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل نظر کی خوشخبری۔۔لمبے قد ، چھوٹی داڑھی کا آدمی جس کے ہاتھوں پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے!!

اہل نظر کی خوشخبری۔۔لمبے قد ، چھوٹی داڑھی کا آدمی جس کے ہاتھوں پاکستان کی تقدیر بدلنے والی ہے!!

پاکستان اور افغانستان دنیا کے نقشے پر ایک بہت بڑی فیڈریشن کے طور پر ظاہر ہونگے۔ اوریا مقبول جان

پاکستان کی3خصوصیات۔
1:جوانوں میںمنافقت ختم ہوگئی ۔2:کھل کر بات کرنے کی صفت پیدا ہوگئی ہے۔
گورے سسٹم نے بہت منافقت میں ہمیں رکھاتھا ۔3:قوم نے8فروری کو ثابت کیا کہ کام کرسکتی ہے

گذشتہ تقریباً کوئی15،20دن سے کچھ اہل نظر کچھ باتیں کررہے ہیں۔ پاکستان میں اہل نظر کے حوالے سے جو گفتگو ہوتی ہے اس کو مذاق میں اڑادیا جاتا ہے۔ مثلاً جنرل باجوہ کے بارے میں جس پروفیسر شہزاد صاحب نے خواب دیکھا تھا پروفیسر شہزاد صاحب کہتے تھے میں اس خواب کو دیکھ کر کانپ گیا تھا کیونکہ اسکے اندر ایک وارننگ بتائی ہوئی تھی انہوں نے بایاں ہاتھ بڑھا یاتھا رسول اللہ ۖسے کوئی چیز لینے کیلئے تو یہ علامت تھی کہ اس شخص سے نقصان بہت پہنچے گا۔ لیکن ہم تو سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کا خواب ہے تو وہ پوزیٹیو خواب ہوگا ۔ کیونکہ وہ رسول اللہ ۖ وارننگ کیلئے بھی آتے ہیں بشیر اور نذیر۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر تین خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں اور یہ سارے اہل نظر کہتے ہیں۔ پاکستان کی جو65%نوجوان نسل ہے اس کے اندر منافقت ختم ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہیں تو ساتھ ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ کام کروانا ہے تو چلو بینظیر کے ساتھ ہوجاتے ہیں، نواز شریف کے ساتھ ہوجاتے ہیں، نہیں ۔ دوسری خوبی وہ کہتے ہیں یہ پیدا ہوگئی ہے کہ قولاً سدیداکھل کر بات کرتے ہیں۔ دوسری خوبی ہے۔ میری نسل منافق نسل تھی کیونکہ میری نسل نے گورے کو دیکھا ہوا ہے میرے والدین نے بھی گورے کے سسٹم کو دیکھا ہوا تھا۔ بہت منافقت میں ہم رہے ہیں۔ تیسری جو اہم ترین بات ہے وہ یہ ہے کہ اس قوم نے باقاعدہ8فروری کے دن ثابت کیا کہ وہ کام کرسکتی ہے۔ تو ہم گذشتہ کافی طویل عرصے سے نعمت شاہ ولی سے لیکر اب تک دیکھ رہے ہیں کہ یہ جو معرکہ اب سال دوسال میں برپا ہونے والا ہے اس معرکے کے اندر ایک بات پاکستان اور افغانستان دنیا کے نقشے پر ایک بہت بڑی فیڈریشن کے طور پر ظاہر ہوں گے۔ اب یہ اللہ جانے کہ یہ کیا بات ہے اور اس خطے کی ساری کی ساری صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے، کیونکہ ہونا یہ ہے کہ اس کرائسس کے اندر امریکن انڈین جو ہیں وہ بیچ میں کودتے ہیں تو مدد افغانوں کی طرف سے آئے گی اور وہ کہتے یہ ہیں کہ جن صاحب نے مدد کرنی ہے اس عمران خان والے سارے معاملے کے اندر یا جو بھی قائد بنے گا چھوٹی چھوٹی اس کی داڑھی ہے قد مجھ سے کافی لمبا ہے ، یہ نہ ہو کہ میرے کھاتے میں ڈال دیں۔ جو دکھائی گئی ہے شکل ہمارے صوفیا اور بزرگوں کو۔ اور وہWellVersedہے دنیا کے مختلف نظاموں سے تو دن کوئی زیادہ دور نہیں ہے۔ البتہ ایک بات ہے کہ صفائی بہت زبردست ہونے والی ہے ، ایسی ہونے والی ہے کہ رہے نام مولیٰ کااور یہ بہت نزدیک ہے اور بہت بڑی خوشخبری ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

میں مدینہ چلی گاگاکراورباریش ہجڑہ ابوہریرہ ،دوپٹہ اوڑھے تلاش سید چمن علی شاہ تبلیغی جماعت نام نہاد سنت زندہ کرتے ہوئے اپنے انجام کی طرف رواں دواں

میں مدینہ چلی گاگاکراورباریش ہجڑہ ابوہریرہ ،دوپٹہ اوڑھے تلاش سید چمن علی شاہ تبلیغی جماعت نام نہاد سنت زندہ کرتے ہوئے اپنے انجام کی طرف رواں دواں

تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس اور ان کے فرزند مولانا محمد یوسف بہت اللہ والے لوگ تھے۔ مدارس، خانقاہیں اور جہادی مراکز اس جماعت کے جگائے ہوئے جذبے کی وجہ سے آباد ہیں۔ مدارس برقی نظام ہیں جہاں سے قرآن ، احادیث، فقہی مسائل ، عربی، ناظرہ ، ترجمہ اور قرآن کے درس کا اہتمام ہوتا ہے۔ جس طرح بجلی سے گھر کے بلب، پنکھے، فرج ، ائیرکنڈیشن ، پانی کی موٹر، استری، جوسر اوراو ون چلتے ہیں۔ کارخانے ، فیکٹریاں اور مل چلتے ہیں ، الیکٹرانک اور مواصلاتی نظام میں اسکے بغیر چارہ نہیں ہے اسی طرح مدارس کی افادیت ہرشعبہ میں ہے ۔ سیاست، عقائد کا تحفظ،دین کے ہر شعبے کی رہنمائی مدارس کے علماء کرام ہی کرتے ہیں۔
خانقاہوں کی مثال ہاتھ کے ٹارچ کی طرح ہے جس کی افادیت اپنی جگہ بالکل مسلمہ ہے۔اسکا باطن روشن اور ظاہر بالکل پراسرار ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی معجزاتی اصلاح ہوجاتی ہے یہاںتک کہ علماء بھی بے علم لوگوں کے ہاتھوں بیعت ہوجاتے ہیں۔ صوفی برکت علی لدھیانوی، بابا دھنکا، بابا فرید کے دربارپرسیاسی و ریاستی شخصیات بھرپور حاضری لگانے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ اورنگزیب بادشاہ کے دربار میں500علماء نے فتاویٰ عالمگیریہ مرتب کیا جن میں شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی شامل تھے۔ ایک مرتبہ بہروپیہ نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی دربار میں رکھ لو۔ اورنگزیب بادشاہ نے کہا کہ پہلے مجھے آزمائش سے دھوکہ دے دو،پھر رکھ لوں گا۔ متعدد مرتبہ بہروپیہ اپنے لباس واطوار بدلتا مگر اورنگزیب اس کی شناخت بتادیتا۔ ایک مرتبہ کئی خدام اپنے پاس رکھ لئے اور حکمت کی ڈھیر ساری ادویات کے ساتھ اپنا روپ بدل کر اورنگزیب بادشاہ سے کہا کہ فلاں بادشاہ نے مجھے خدمت کیلئے بھیج دیا ہے لیکن اورنگزیب نے فٹ سے پہچان لیا۔ پھر اورنگزیب کو یقین ہوگیا کہ اس ناکامی کے بعد دوبارہ یہ کوشش بھی نہیں کرے گا۔ پھر اورنگزیب محاذ جنگ پر جارہا تھا تو اس کو بتایا گیا کہ اللہ والا ہے۔ اس غار میں عرصہ سے رہتا ہے۔ زاہد اور تارک دنیا ہے، بس عبادت میں مشغول ہے۔ کسی سے کوئی کام غرض نہیں رکھتا۔ جو چل کر آجائے تو اس کو بھی مشکل سے فرصت کے لمحات میں کچھ دیر کیلئے اپنا جلیس بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اورنگزیب بادشاہ نے سوچا کہ بادشاہ کا سن کر خود ہی اپنی اوقات بدل دے گا اور ایک اشرفیوں کا تھیلہ بھی ساتھ لیا جس کے آگے پیروں، علماء اور مجاہدین کی آنکھوں میں چمک آتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ روزی روٹی کا نتیجہ بہت بدبودار کھاد کی صورت میں نکلتا ہے لیکن زندگی اسی سے قائم ہے کہ آدمی کھا د کی مشین بنارہے۔ اورنگزیب بادشاہ نے اللہ والے کے در پر حاضری دی تو خدام نے بتایا کہ کسی سے بھی نہیں ملتے۔ بادشاہ کا اعتقاد مزید مضبوط ہوا کہ یہ واقعی اللہ والے ہیں۔ پھر جب حاضری دی تو گٹھنے پر سررکھ دیا کہ دعا دیجئے اور اشرفیاں بھی پیش کیں۔ اس نے اشرفیاں واپس کیں اور بتایا کہ وہی بہروپیہ ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ میں نے نوکری پر رکھ لیا ہے تو اس نے کہا کہ نوکری نہیں چاہیے، یہ بہروپ میں اتنی عزت ہے تو اصل کی کتنی عزت ہوگی؟۔ ملاجیون اور مولانا عبدالرحیم بھی موجود تھے لیکن اورنگزیب بادشاہ کسی سے بھی عقیدت نہیں رکھ سکتاتھا اسلئے کہ فتاویٰ عالمگیریہ میں سب کا ایمان دیکھ چکا تھا کہ کس طرح بادشاہ کیلئے قتل، چوری ، زنا اور ڈکیتی کی شرعی سزا معاف کی؟۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی چراغ سے چراغ جلانے کا کام کرتے ہیں۔ خود مٹی کے تیل کی بدبوکی طرح جہالت سے بھرے ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو اندھیر نگری کی جگہ دین سے روشناس کرتے ہیں۔
ان میں سب سے بے نفس اور بے غرض ہجڑے ہی ہوسکتے ہیں اسلئے کہ وہ جنسی خواہشات اور اولاد کی فکر سے آزاد ہوتے ہیں۔ چراغ سے زیادہ ان میں ترقی کی کوئی صلاحیت بھی نہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” میں لکھا ہے کہ ” پانچواں عالمگیر فتنہ ہوگا جو لوگوں میںپانی کی طرح سرایت کر جائیگا جواس کو چھوڑ دے گا تو کہیں گے کہ اس نے سنت چھوڑ دی۔ حالانکہ وہ سنت پر نہیں ہونگے”۔
طالبان لوگوں کوقتل کررہے تھے تو تبلیغی جماعت نے سپورٹ کیا۔ مولانا طارق جمیل نے سلیم صافی سے کہا کہ طالبان اور ہم ایک ہیں ،راستے جدا مگر منزل ایک ہے لیکن طالبان کو بھی ذولخویصرہ کی اس اولاد نے گمراہ کیا ۔ سعودی عرب کی پابندی تو اپنی جگہ انہوں نے رائیونڈ اور بستی نظام میں ایکدوسرے پر پابندی لگائی ہے اوراللہ کے احکام کو نہیں سمجھتے۔بس حلالہ کی لعنت کی سپلائی کرتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جھوٹ نے قوم کو اندھا کردیا؟

جھوٹ نے قوم کو اندھا کردیا؟

پشتو کی مشہور کہاوت ہے کہ ”جب سچ آتا ہے تو جھوٹ گاؤں کو پہلے سے بہا چکا ہوتا ہے”۔ رات کے آخری پہرکبیرپبلک اکیڈمی میں مولوی شبیر صاحب نے گھر کے دروازہ پر بہت شدت سے دستک دی اور کہا کہ بہت بڑا زلزلہ آنے والا ہے۔ کوہاٹ بالکل غرق ہوجائے گا۔ میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ آرام سے نکلو۔ اپنے ساتھ بستر بھی لے جاؤ ۔ سخت سردی تھی ۔ چھوٹے بچے محمد نے زور زور سے اللہ کا ذکر شروع کردیا۔ میں نے کہا کہ گھبراؤ مت زمین جھولا بن جائے گا۔ اس نے کہا کہ زمین کو تو خدا ایسا جھولا بنادے کہ ہمارے لحاف گھر سے باہر جا پڑیں۔ دوسرے بچے عمر نے کہا کہ پانی بھی آئیگا۔ جاپان میں سونامی گزر چکا تھا تو میں نے کہا کہ پانی نہیں آئے گا۔ باہر غازی عبدالقدوس بلوچ کا بیٹا فضیل بھی سردی میں کھڑا تھا۔ میں اس کے ساتھ گیا کہ سردی سے بچنے کیلئے کوئی چیز لے لو اور پھر جٹہ قلعہ اڈے کی طرف گیا۔ وہاں میں نے پوچھا کہ کوئی افواہ تو نہیں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان ، بنوں، کوہاٹ ، ہزارہ ، سوات اور اسلام آباد تک سب لوگوں نے رات باہر گزاری ہے۔ میں نے بچوں سے مکالمہ بتایا تو بڑے بھائی ممتاز شاہ نے کہا کہ تم مسلمان ہو، خدا کا خوف نہیں؟، زمین پر اتنا بڑا عذاب آئے گا اور تم کہتے ہو کہ زمین جھولا بنے گا؟۔ میں نے عرض کیا کہ اگر واقعی کوئی مصیبت آنے والی ہے تو بچوں کا دل نکالنے کے بجائے آزمائش کی گھڑی حوصلے کیساتھ گزاریں۔ اگر جھوٹ ہے تو بھی خوامخواہ کا خوف غلط ہے۔ مجھے کراچی میں صبح دفتر آتے ہوئے رنچھوڑ لائن میں ساتھی نے بتایا کہ ایک افواہ چلی کہ مولانا فضل الرحمن کو قتل کردیا گیا لیکن تصدیق ہوگئی ہے کہ جھوٹ ہے۔ پھر رات کو 11بجے کسی نے خبر سنائی کہ لالو کھیت سے آیا ہوں اور مولانا فضل الرحمن کو قتل کیا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ جب کراچی کا یہ حال ہے جہاں دکانوں میں بھی TVرکھے ہیں تو گاؤں دیہاتوں اور دیگرشہروں کا کیا حال ہوگا؟۔ پھر کسی سے پوچھ لیا کہ زلزلے کی خبر TVمیں آئی ہے؟۔ تو اس نے کہا کہ TVپر یہ خبر نہیں ہے۔ پھر میں نے کہا کہ بس پھر تو صاف جھوٹ ہے اور گھر میں بھی بتادیا ۔
کوئی بھی افواہ اور جھوٹا بہتان کسی کے خلاف پھیلانا ہو تو پہلے زبان کی دیر تھی اور اب سوشل میڈیا نے طوفان برپا کیا ہوا ہے۔ اگر سزا وجزاء کا قانون دنیا میں نہیں ہو تو پھر بہت مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ حکومتوں کو بدلا جاتا ہے۔ ریاست کو بدنام کیا جاتا ہے اور سیاسی جماعتوں کا بیڑہ غرق کردیا جاتا ہے۔ فرقہ واریت کا طوفان اٹھایا جاتا ہے۔ توہین مذہب کے نام پر اشخاص، گھر اور گاؤں تباہ کردئیے لیکن یہ قوم کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ پنجاب کے اندر جو بل پاس ہواہے تو قانون سازی کی افادیت سے انکار نہیں لیکن مزید خرابیوں کا خدشہ بھی ہے۔
میڈیا کے عنوان میں جھوٹ ہوتا ہے، جس پر جرمانہ لگایا جائے تاکہ یوٹیوب کی کمائی کیلئے یہ شیطان لعین کی طرح جھوٹ سے کام نہ لیں۔اگر قرآن وسنت کا قانون ہتک عزت کے حوالے سے کمزور وطاقتور کیلئے نافذ کردیا جائے تو بڑے انقلاب کی توقع ہے۔ اس قوم کا ضمیر بالکل مرچکا ہے اور لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ قرآن وسنت کے ذریعے مردہ ضمیروں میں روح ڈال کر زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس کیلئے بنیاد کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت یوسف کے بھائی حضرت یعقوب کے بیٹے، حضرت اسحاق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑپوتے تھے لیکن اپنے نبی بھائی حضرت یوسف کیساتھ انہوں نے حسد کی وجہ سے کیا سلوک کیاتھا؟۔ پاکستان میں سیاسی، طبقاتی، لسانی، فرقہ وارانہ اور مفادپرستانہ کشمکش کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے۔ہمارے مہمانوں، قرابتداروں اور گھر کے افراد سمیت 13لوگوں کو شہید کرنے والے طالبان کو ہمارے کچھ عزیز وں نے کیوں غلط راستے پر استعمال کرلیا؟۔نامعلوم سے زیادہ معلوم لوگوں کا اس میں کردار تھا۔

عمران خان کا عدت نکاح کیس اور حسن نثار کی بیہودہ بکواس اور ملک بھر میں جرائم کی داستانیں

قرآن میں عدت کی یہ اقسام ہیں ۔1: ایلاء کی عدت ، 4ماہ۔ البقرہ 226۔ 2: طلاق کی عدت ۔ 3ادوار طہرو حیض یا3 ماہ اور حمل کی عدت وضع حمل۔ 3: بیوہ کی عدت 4ماہ 10دن۔ اور حدیث میں خلع کی عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے۔
ہم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی نہ وکالت کرتے ہیں اور نہ مخالفت اسلئے کہ جب اچھے دن تھے تو سب ٹھیک تھا اور برے دن آئے تو سب غلط ہوگیا۔ عدل و انصاف ، غیرت و حمیت اور اخلاقیات کا یہ تقاضہ نہیں کہ اس طرح تلپٹ ہو۔ تاہم حسن نثار اور جاوید غامدی وغیرہ مذہب کے نام پر انتہائی بیہودہ بکواس نہ کریں۔ جب شوہر قرآن و سنت کے مطابق حیض کے بعد پاکی کے دنوں میں ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیتا ہے تو اس کو پتہ ہوتا ہے کہ پیٹ میں بچہ نہیں۔ مگر اسکے باوجود عدت کا تصور قرآن و سنت میں بالکل واضح ہے۔ حسن نثار بہت بھونڈے انداز میں کہتا ہے کہ آج کے دور میں الٹراساؤنڈ سے بچے اور بچی کا پتہ چل جاتا ہے تو عدت کی اس دور میں ضرورت دقیانوسی ہے۔ حسن نثار کی صحافت گٹھیا ہے۔ علماء احتجاج وہاں کرتے ہیں جہاں ان کا کوئی فائدہ ہوتا ہے یا کوئی ان کی دُم ہلا دیتا ہے۔
قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں عورت پر عدت نہیں اور مرد پر آدھا حق مہر ہے۔ قرآن میں حق مہر امیر و غریب پر اپنی اپنی وسعت کے مطابق رکھا گیا ہے۔ چند دن پہلے ایک مغربی گوری خاتون کا پاکستانی کے ساتھ نکاح ہوا تو اس میں حق مہر 5ہزار رکھا گیا۔ یہ علماء نے قرآنی احکام کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے اور جب تک قرآن کی طرف رجوع نہیں کریں گے تو ہماری اصلاح نہیں ہوگی۔
ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں حرج نہیں۔ عورت کو ہاتھ لگایا جائے تو پھر عدت اسلئے ہے تاکہ حتی الامکان نباہ کی صورت نکلے اور بچوں کیلئے بھی والدین کا ساتھ رہنا عظمت کی بات ہے۔ جب میاں بیوی جدا ہوتے ہیں تو بچوں پر اسکے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔قرآن میں ہر چیزکا تعلق فطرت سے ہے اور یہ بہت گٹھیا بات ہے کہ بچوں کو عدت اور نکاح ثانی کا پتہ تک بھی نہیں ہو ۔
سعودی عرب سے قاضی صدیق نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اس کی شادی شدہ بھتیجی کا کسی آشنا سے تعلق تھا۔ پھر وہ نکاح میں اس کے ساتھ بھاگی اور لاہور کی عدالت سے اس کو اپنے آشنا کیساتھ جانے کا پروانہ مل گیا۔ یہ کیسا اسلام ہے ؟۔ یہ کیسی عدالت ہے؟۔ یہ کیسی غیرت ہے؟۔ میں آؤں گا تو اپنے بڑے قاضی احسان اور سب ذمہ داروں سے پوچھوں گا۔ میرا یہ پیغام عام کیا جائے۔
پاکستان اپنے پڑوسی اسلامی برادر ممالک میں سب سے زیادہ آزاد ملک ہے اور اس میں سب سے زیادہ آزادی کا تصور ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اپنی آزاد ی کو اچھے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بجائے اپنے مفادات اور گالی گلوچ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ سندھیوں کو کچے کے ڈاکوؤں سے مسئلہ ہے ، بلوچستان کے بلوچوں کو سرکاری باوردی فورسز سے مسئلہ ہے۔ صحافی بایزید خروٹی نے ایک ویڈیو بناکر کمال کردیا جہاں پولیس والے اپنے دوستوں کیساتھ لوٹ مار میں مصروف تھے اور یہ پتہ نہیں چل ر ہا تھا کہ انکا تعلق کس محکمے سے ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ” خیبر پختونخواہ میں ریاست کی رٹ ختم ہوچکی ہے اگر کچھ مسلح افراد پہنچ جائیں تو جنرل بھی چائے روٹی دیں گے”۔ پنجاب کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹیوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز غنڈوں کو کورٹ کچہری اور پولیس کی مدد فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے شریفوں کے پنجاب میں شریف لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ تنویر احمد مغل نے مریم نواز کو درخواست لکھی ہے۔ پنجاب میں بدمعاشی ختم کرنے سے مسئلہ حل ہوگا ورنہ توپھر غریب طالبان بن جائیں گے۔ جمہوریت کو جمہوریت کے علمبرداروں نے خراب کیا ہے وہ درست کرسکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv