پوسٹ تلاش کریں

غیرت ، حیاء اور سورہ بلد

الغیرة و الحیاء لاحدود لہ
ھٰذا برہان و شہود لہ
من بیت دنی ء لاشرف لہ
لاضمیر لہ ولا سدودلہ

”غیرت اور حیاء کی کوئی حدود نہیں ، یہ دلیل اوراسکے شواہد ہیں۔دنیا پرست خاندانی بے غیرت ہے جس کاکوئی ضمیر ہے اور نہ اس پر روک ٹوک”۔سورہ بلد کا عملی مظاہرہ نبیۖ نے ہند ابوسفیان کوپناہ دی تویزید پلیدنکلا۔ حسن شاہ بابو نے صنوبر شاہ کے یتیموں کو تحفظ دیاتویہ بلیلا نکلا۔ نبیۖ نے عبداللہ بن ابی سرح مرتد کا فرمایا : ” غلافِ کعبہ سے لپٹے تو بھی قتل کردو”۔ عثمان کی سفارش پر معافی قتل عثمان بن گئی !۔

(سورة البد ) بسم اللہ الرحمن الرحیم

لا قسم بھذا البد Oوانت حل بھذا البدO ووالداوما والدOلقد خلقنا الانسان فی کبد O ایحسب ان لن یقدر علیہ احدO یقول اھلکت مالًا لبدًاOایحسب ان لم یرہ احدO الم نجعل لہ عینینOولسانًا و شفتین Oوھدیناہ النجدینO فلا اقتحم العقبةOوما اداراک ما العقبةO فک رقبةOاو اطعام فی یوم ذی مسغبةO یتمیمًا ذا مقربةO اومسکینًا ذا متربةO ثم کان من الذین اٰمنوا وتواصوا بالصبرواالتواصوا بالمرحمة O اولئک اصحاب المیمنةO والذین کفروا باٰیٰتنا ھم اصحاب المشامةOعلیھم نار موصدةO

سورہ البد کا ترجمہ :اللہ نے فرمایا” نہیں! اس شہر کی قسم۔اور آپ اس شہر میں بستے ہیںاور باپ کی قسم اور جو بیٹا ہے۔بیشک ہم نے انسان کو مصیبت میں پیداکیا۔کیااسکا خیال ہے کہ اس کو کوئی قابو نہیں کرے گا؟۔ پکار اٹھے گا کہ مجھے مال نے تباہ کردیا۔ کیا خیال کرتا ہے کہ اس کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کیا ہم نے اسکے دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے۔اس کی دوپستانوں سے رہنمائی نہ کی؟۔ابھی وہ گھاٹی میں گھسیڑا نہ گیا اورتجھے کیا پتہ گھاٹی کیا؟،گردن چھڑانا۔ یافاقہ کے دن کھلانا ہے۔یتیم قرابت دارکو۔یا مسکین خاک نشین کو۔پھر وہ ان میں سے ہو جن لوگوں نے ایمان لایا اور انہوں نے ایکدوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایکدوسرے کو رحم کی وصیت کی اور یہی ہیں دائیں جانب والے۔جنہوں نے کفر کیاہماری آیات کا تویہی بائیں جانب والے۔ان کو آگ نے لپیٹ میں لیا ہے”۔
٭٭

یتخلص یوسف من الحزن والکیدین
ما خان وما سرق علیہ الشططین
فاعتبروا یا قارئین! احسن القصص
ھجمت رھط ابالیس علی الملکین
فتنة رجال اکثر بکثیر من نسائ
التوأمان الخبیثان جعلت لھماقبرین
انتظرت سبعة عشر سنةً و لکن
الالم والحریق والعاصفة بعدین
لاثریب الیوم علی المخلص ولکن
ذنبہ علی رأسہ دون خاصرتین
رأسہ بلا عقل ام کان دبرہ بلاغیرةٍ؟
من لاضمیر لہ فکشفتُ ذو وجہین
اقدار القبائل یؤخذ من افواھم
ادسہم فی التراب سیترفرف الاسمین
لایشم الحیاء ولایدرک الشرف
انتخرتم اوتجلبوا با صفقین
ھل ترٰی من الرجولة اوالحیائ؟
ایاکم والنفاق والنمیم ورقص علی طبلین
غل جاہت و مہر ملک خیرمن ذاکما
ان ثبت اجرامہا فعیلیہما حدین
وان فزت فرب الکعبة لافرح ولافخور
کتب اللہ غلبة الاسلام فی الکونین
جاھدالکفاروالمنافقین واغلظ علیھم
امرأت نوح وابنھا علی الکفر مغرقین
دنیء عائلی لا شرف فی اہلہ
ھل تعرف مقطوع الانف والاُذنَین
اذا کنت ضربت فادغمہ بلا شبة
فھذہ لطمة ساخنة علی الخدین
یرٰی غیر ضارلکن مثل الخنسیٰ
انھا تدق صاحبة الثدین
کمن کان لہ فی طفولتہ تذکرة
علی المقتر مئة علی الموسع مئتین
ابن درھم ابن الوقت ابن البطن
یبیع غیرتہ بخمس مئة او الفین
ان کان ھو اب او عم او خال
فضربة علی الرقاب و القدمین
لا جرم ان کنت فی ذاتک انت البطل
کان سیدنا بلال من ابوین عبدین
اتثق بین ابناء عموة شریف وخسیس
ابو لہب وامرأتہ کلاھما دسیسین
ما تلک الشجرة ذاقا آدم وحوائ؟
فقابیل من التقاء الختانین
ان کان ابوہ صالحا فماذا ترٰی؟
فنطفة الامشاج تیمم الخبیث لقمتین
من یُستعمل فلینظر الی دبرہ
شر متعة بالدبر دع قُبلتین
فئة قویةفاعلة ضیعفة مفعولة
فقرء وا فی کتاب اللہ فئتین
فقال الضعفاء للذین استکبروا
اناکنا لکم تبعًا:کلا اثنتین
فلذکر ان لایشتعل دبرہ قط
الافلیتبدل الجنس مع الخصیتین
من کان لا ضمیرلہ فشراجیرلہ
البائع والمشتری جائعین لشیئین
احدھما الفتنة وثانیتھما الفساد
الخنس یرقصن یعلون ویھبطن النہدین
لا للعلم و الایمان لا حاجة لھن
یبحثن االمالاوالنفاقا فی الصدرین
قد کنت سدت الحلالة فسخربی
بین الرِجلیھم ولحیھم بحرین
لا یجتنبن کبارمن الاثم والفواحش
طُحِنا ظلمةً بطاحونة الحجرین
بای ذنب قتلوناھذا نسئلوھم
الفحاشی والنفاق فیھم علتین
لقد اجداد ھم مجرمین قبل ھذا
ماھذان الحقبان ببعید فی القرنین
وامتازوا الیوم ایھا المجرمون
بُشری جدی ابن الحسن والحسین
تعالوا الی اطاعة اللہ ورسولۖ
قالۖ انی تارکم فیکم الثقلین

ترجمہ:

حضرت یوسف نے غم اور سازش کے دوچالوں سے خلاصی پالی۔
نہ اس نے خیانت کی اور نہ چوری کی ان پر دو جھوٹ بولے گئے۔
اے قارئین حضرات! بہترین قصے سے عبرت پکڑ لو۔
ابلیس کے لشکر نے حملہ کیا دو فرشتوں(یوسف وبنیامین )پر۔
مردوں کا فتنہ عورتوں کے مقابلہ میں بہت ہی زیادہ ہے۔
جڑواں دو خبیث بھائی جن کیلئے میں نے دو قبریں بنادی ہیں۔
میں نے سترہ سالوں تک انتظار کیا لیکن اس کے
باوجود بعد میں پھر بھی درد، جلنے اور طوفان (کا سامنا )ہے۔
آج کے دن مخلص پر کوئی ملامت نہیں ہے لیکن
اس کی دم اس کے سر پر ہے دونوں چوتڑوں پر نہیں ۔
اس کے سر میں عقل نہیں ہے یا پھر پچھاڑی میں غیرت نہیں؟۔
جس کا کوئی ضمیر نہیں تو میں نے دو چہروں والے کو واضح کردیا۔
قبائل کے اقدار ان کی زبانوں سے ہی لئے جاتے ہیں۔
میں نے ان کو مٹی میں دھنسا دیا عنقریب دو نام لہرائیں گے۔
وہ حیا کی بو نہیں سونگھتا ہے اور نہ غیرت کا ادراک رکھتاہے۔
تم خود کشی کرلو یا پھر دو تالیوں سے مال کماؤ۔
کیا تمہیں ان میں کوئی مردانگی اور حیادکھائی دیتی ہے؟۔
پس باز آجاؤ منافقت اور چغلی سے اور ڈھولوں پرناچنے سے۔
گل چاہت اور مہر لک بھی ان سے بہتر ہیں۔
اگر ان کا جرم ثابت ہوگیا تو ان کی دو سزائیں بنتی ہیں۔
اگر میں کامیاب ہوا تو رب کعبہ کی قسم کوئی اترانااور فخر نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسلام کا غلبہ لکھ دیا ہے دونوں کائنات میں۔
کفار اور منافقوں کیساتھ جہاد کرو اور ان پر شدت کی سختی کرو۔
حضرت نوح کی بیوی اور اس کا بیٹا کفرپر دونوںغرق ہوگئے۔
خاندانی بے غیرت ہے اس کے گھر میں کوئی وقار نہیں ہے۔
کیا آپ جانتے ہو جس کی ناک اور دونوں کان کٹے ہیں؟۔
جب میں ضرب لگاتا ہوں توبلاشبہ اس کا بھیجا نکال کر رکھ دیتا ہوں۔
یہ اس کے دونوں گالوں پر زناٹے دار تھپڑ ہے۔
وہ بے ضرر نظر آتا ہے لیکن اس کی مثال ہیجڑے کی ہے
بیشک وہ خوب ٹھمکے لگاتی ہے دو چھاتیوں والی ۔
یہ اس طرح کاہے جس کیلئے اس کے بچپن میں کوئی ٹکٹ تھا
غریب کیلئے 100(روپے)اور امیر کیلئے 200(روپے)۔
بیٹا ہے پیسوں کا۔بیٹا ہے وقت کا ، بیٹا ہے پیٹ کا
وہ اپنی غیرت بیچتا ہے پانچ سو یا دو ہزار میں۔
اگروہ باپ ہو یا چچا ہو یا ماموں ہو
توکاری ضرب کے لائق ہے اس کی گردن اور دونوں پاؤں پر۔
اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ اپنی حیثیت میں ہیرو ہیں۔
حضرت سیدنا بلال تھے غلام اورلونڈی والدین سے ۔
یقین کرو!چچازاد وں میں شریف اور رذیل ہوتے ہیں۔
ابولہب اور اس کی بیوی دونوں مکار سازشی جاسوس تھے ۔
وہ کونسا درخت جوحضرت آدم وحضرت حواء نے چکھا؟
پس قابیل دونوں ختنوں کے (اس) ملاپ سے پیدا ہواتھا۔
اگر اس کا باپ نیکو کار ہو تو اسکے بارے میں کیانقطہ نظرہے؟
تو والدین کا ملا جلا نطفہ حرام مال کے دو لقموں سے بنتا ہے۔
جس کو استعمال کیا جاتا ہو تو اپنی پچھاڑی کی طرف دیکھے
بدترین لذت پچھاڑی کی ہے دونوں اگاڑیوں کو چھوڑدو۔
طاقتور گروہ بطورفاعل اور کمزور بطورمفعول استعمال ہوتا ہے
اللہ کی کتاب میں دونوں گروہوں کو پس پڑھ لو۔
پس کمزوروں نے تکبر کرنے والوں سے کہا کہ
بیشک ہم تمہارے لئے تابع تھے۔ یہ دونوں ہیں۔
پس مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی پچھاڑی کو قطعی طور پر نہ سلگائے۔
مگر یہ کہ پھر اپنے جنس کو تبدیل کرلے دونوںخصیوں سمیت۔
جس کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا تو اس کیلئے شر بدلہ ہوتا ہے
فروخت کرنے والا اور خریداردونوں بھوکے دو چیزوں کے
ان میںسے ایک فتنہ ہے اور دوسری ان میں سے فساد ہے
ہیجڑے رقص کرتی ہیں، چھاتیاں اوپراور نیچے کرتی ہیں۔
علم اور ایمان کیلئے ان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔
مال اور نفاق کی تلاش میں لگے رہتے ہیں دونوں سینوں میں۔
بیشک میں نے حلالے کا راستہ روکا تو میرا تمسخر اُڑایاگیا۔
انکی دو ٹانگوں اوردو جبڑوں (زبان)کے بیچ دوسمندر ہیں۔
وہ اجتناب نہیں کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے۔
ہمیں پیس دیا اندھیرے میں چکی کے دو پتھروں کے درمیان۔
کس جرم میں ہمیں قتل کیا، یہ ہم ان سے پوچھتے ہیں؟۔
فحاشی اور منافقت یہ دو علتیں ان کے اندر ہیں۔
بیشک ان کے اجداد بھی اس سے پہلے مجرم تھے۔
اور یہ دوحقب(80+80سال)دُور نہیں دوصدیوں میں۔
اورآج کے دن تم الگ ہوجاؤ ، اے مجرمو!۔
خوشخبری دی گئی ہے میرے دادا حسن اورحسین کے بیٹے کو۔
آجاؤ ،اللہ جل جلالہ اور رسول ۖ کی اطاعت کی طرف۔
نبی ۖ نے فرمایا:میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑرہا ہوں۔
٭٭

خاندانی بے غیرتی…سحر ہونے تک…تحریر:
ڈاکٹر عبدالقدیرخان

ڈاکٹر عبدالقدیر خان روزنامہ جنگ 8اکتوبر2012ء میں خاندانی بے غیرتی…..سحر ہونے تک” کے عنوان پرلکھتے ہیں: ” 7اکتوبر 2009 کو میں نے ایک کالم اسی روزنامہ میں بعنوان ”اے غیرت تو کہاں ہے” اور دوسرا بعنوان ” بے غیرتی” 2 دسمبر 2009ء کو لکھا تھا ۔ ان دونوں کالموں میں نے آپ کو غیرت اور بے غیرتی کے بارے میںکچھ تفصیلات بتائی تھیںاور افسوس کے ساتھ یہ بھی بتایا تھا کہ پہلی خصوصیت اس قوم میں عنقا ہے ، دوسری خصوصیت کی افراط ہے۔ میں نے غیرت کا بتایا تھا کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے جس کا مترادف دنیا کے کسی اور زبان میں نہیں۔اردو میں یہ ایک محدود مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں اس کا مفہوم وسیع ہے۔ اس میں عزت نفس، وقار،بہادری اور اعلیٰ اقدار نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا ہے۔ تعلیم وتربیت اور اعلیٰ مثالوں کے ذریعے بزرگ یہ جذبات اگلی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔لیکن اگر کسی کے خاندان میں بے غیرتی، دروغ گوئی اور کم ظرفی کا خون رواں ہو وہ عقلی دلائل سے کچھ نہیں سیکھ سکتا ۔ یا تو کوئی فرد غیرت مند ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اگر حکمرانوں اور ممتاز شخصیات میں غیرت کا جذبہ ہو اور وہ باغیرت ہوں تو یہ جذبہ اجتماعی صورت اختیار کرلیتا ہے اور پوری قوم ، مملکت دنیا میں عزت وعروج حاصل کرلیتے ہیں۔

انسان کے اخلاق وکردار کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا بے غیرتی سے چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ منافقت اور بے حیائی۔ منافقت یعنی قول وعمل میں تضاد ، کھلے عام دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنا، جھوٹے وعدے کرنا، بھروسہ کرنے والوں کو دھوکہ دینا۔ یہ سب بے حیائی اور منافقت ہے۔ حیا غیرت سے بھی اعلیٰ ایک شریفانہ جذبہ ہے جو انسانی شرافت کی روح ہے جب حیا رخصت ہوجائے توپھر انسان ہر بے شرمی اور بے غیرتی کا کام بلا جھجک کرنے لگتا ہے ۔ بس ایک جملوں میں بیان کردوں کہ غیرت مند اور بے غیرت میں وہی فرق ہوتا ہے جو ایک پاکدامن خاتون اور طوائف میں ہوتا ہے ۔ ایک اپنی عصمت کی خاطر جان دیتی ہے اور دوسری چند ٹکوں کی خاطر عصمت فروشی کرتی ہے۔میں آہستہ آہستہ اپنے موضوع کی طرف آرہا ہوں ، کچھ لوگ بے غیرتی کا دل کھول کر مظاہرہ کررہے ہیں۔قبل اسکے انکے میرکارواں کا تذکرہ کروں۔……….”۔

نوٹ… اس آرٹیکل کے ساتھ بعنوان ” شہداء 31مئی2007ء کو18 برس ہوگئے ۔بفضل تعالیٰ بہت بڑابریک تھرو ہوگیا ۔ عبدالواحد نے آخرکارایک بہت بڑا”راز ” بتایا جس سے سراغ مل سکتا ہے! ” آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شاہ لطیف کون تھا؟… دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر

آج اس نے… پوچھا
شاہ لطیف… کون تھا؟

میں نے کہا:دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر!

اس نے پوچھا:کس طرح…؟
میں نے کہا…اس طرح کہ :

وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے؟

اس سوال کا جواب… ارسطو بھی… نہ …دے پایا
اس لیے… علامہ اقبال نے کہا تھا:

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ

عورت ایک مسئلہ ہے

اس حقیقت کا ادراک… صرف لطیف کو تھا کہ
عورت مسئلہ نہیں…عورت محبت ہے!
مگر وہ محبت نہیں …جو مرد کرتا ہے!

مرد کے لئے… محبت جسم ہے
عورت کے لئے …محبت جذبہ ہے

مرد کی محبت…جسم کا جال ہے
عورت کی محبت… روح کی آزادی ہے
مرد کی محبت مقابلہ ہے ،عورت کی محبت عاجزی ہے
مرد کی محبت پل بھر، عورت کی محبت پوری زندگی ہے
مرد کی محبت افسانہ …عورت کی محبت حقیقت ہے!

سارے شعرا ء شیکسپئر سے لیکر شیلے تک
اور ہومر سے… لیکر ہم تم تک

سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت… معشوق ہے
صرف شاہ …کو معلوم تھا کہ عورت… عاشق ہے

اس لیے …شاہ لطیف نے لکھا:
عورت …عشق کی… استاد ہے

سب سوچتے رہے کہ آخر عورت کیا چاہتی ہے؟

تخت؛ بخت اور جسم سخت؟…شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ عورت کو محبت چاہیے …نرم و نازک …گرم و گداز …جسم سے ماورا…جنس سے آزاد

مرد …جسم کے… جنگل میں
بھٹکتا ہوا ایک… بھوکا درندہ ہے

عورت روح کے چمن میں
اڑتی ہوئی… تتلی ہے
جو پیار کی پیاسی ہے

مرد کے لیے… محبت بھوک
اور عورت کے لیے… پیار
ایک… پیاس ہے!

صرف لطیف جانتا تھا

عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے

آنکھوں سے بہتے ہوئے…
اشکوں جیسا سمندر …جو نمکین بھی ہے…
…اور حسین بھی ہے!!…جس میں تلاطم ہے…
.جس میں غم ہے …جس میں رنج نہیں…

صرف اور صرف الم ہے

بزم سخن …پرنس ارمان۔ اسٹوڈنٹ کراچی یونیورسٹی

نوٹ: عورت کے حقوق کے حوالے سے شمارہ مئی صفحہ 4میں درج ذیل عنوان کے تحت یہ آرٹیکل پڑھیں۔

”اور آپ سے عورتوں کا فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اللہ انکا فتویٰ دیتاہے اورجو تم پر قرآن پڑھاجاتا ہے ”

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کی کل محکم آیات500ہیں؟ پھر 500آیات منسوخ بھی ہیں؟ اسلئے امت مسلمہ گمراہی کا شکارہے!

متقدمین کے ہاں 5سو آیات پھر علامہ جلال الدین سیوطی نے 19اورشاہ ولی اللہ نے5تک معاملہ پہنچادیا

اصول فقہ : ”قرآن سے مراداحکام کی پانچ سو آیات ہیں ۔ باقی قرآن قصے، وعظ ونصیحت ہے”۔

پانچ سو آیات کو منسوخ کہا توپورا قرآن منسوخ قرار دیا۔ ”رسول قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کریںگے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان:30)

ابن تیمیہنے مسالک کو فرقے لکھ دیا اسلئے کہ حلال وحرام پر اختلاف تھا ۔ بیوی کو ”حرام” کہنے پر خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین میں اختلاف تھا مگر ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے ”زادالمعاد” میں بیوی کو حرام کہنے پر20مسالک کے تضادات لکھ دئیے۔صحیح بخاری میں حسن بصری نے کہا کہ بعض علماء کے نزدیک یہ تیسری طلاق ہے جوکھانے پینے کی اشیاء کی طرح نہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے پھر حلال ہوجائے بلکہ حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔ جبکہ ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ حرام کا لفظ طلاق اور قسم کچھ بھی نہیں اور نہ اس کا کوئی کفارہ ہے۔

حالانکہ سورہ تحریم میں واضح ہے کہ اگر بیوی کو حرام قرار دیا تو کچھ بھی واقع نہیں ہوگا۔ نبیۖ کی ماریہ قطبیہ سے حرمت پر یہ نازل ہوئی تھی۔ محکم آیت کو بوٹی بوٹی کردیا۔اور اللہ نے واضح فرمایا کہ ” جیسے ہم نے بٹوارے کرنے والوں پر نازل کیا ہو جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیااور ہم ان سب سے پوچھیںگے”۔ (سورہ الحجر)یہی حشر طلاق کی آیات اور احکام کا بھی کردیا تھا۔سورہ البقرہ230 سے آیات 228،229 اور231،232 البقرہ اور سورہ طلاق کی آیات کو منسوخ قرار دے دیا تھا۔

علامہ سیوطی اور شاہ ولی اللہ کی نظر اصل گمراہی کی طرف نہیں گئی لیکن منسوخ آیات کو کم کردیا تھا۔

آیات کی منسوخی پر احکام کی منسوخی کا غلط ہے۔ توراة کی آیت سے یہود نے حلالہ کی لعنت مرادلی، انجیل کی آیت سے عیسائی نے طلاق کا خاتمہ مرادلیا اسلئے اللہ نے بہتر آیات قرآن میں نازل کردیں۔ حلالہ کا خاتمہ اور طلاق کی صحیح صورت واضح ہوگئی لیکن علماء نے پھر یہود ونصاریٰ کی طرح حلالہ کو بھی رائج کردیا اور طلاق کا درست تصور بھی ختم کردیا۔ سنیوں نے یہود کی طرح حلالہ کو رائج کردیا اور شیعہ نے نصاریٰ کی طرح طلاق کی آیات کے مفہوم سے واضح انحراف کردیا۔ سنی فقہاء نے اکٹھی تین طلاق کو رائج کردیا اور شیعہ نے تین ادوار میں گواہوں کی شرط رکھ کر عورت کے چھٹکارے کا راستہ روک دیا۔ دونوں قرآن وسنت اور فطرت کے خلاف ہیں۔

قرآن نے بہت وضاحتوں کیساتھ حلالہ سے بھی چھٹکارا دلا دیا ہے اور اگر عورت چاہے تو ایک ساتھ تین طلاق نہیں ایک طلاق بلکہ طلاق کا اظہار کئے بغیر ایلاء میں بھی عورت کو چھٹکارے کا اختیار دیا ہے۔ اسی طرح خلع کا بھی اختیار دیا ہے لیکن شیعہ سنی دونوں نے عورت کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے۔

جن پانچ آیات کو شاہ ولی اللہ نے منسوخ قرار دیا ہے وہ بھی منسوخ نہیں ہیں۔ بلکہ انتہائی کم عقلی کا مظاہرہ ہے لیکن جن آیات کے احکام کو منسوخ کردیا گیا ہے ان کی طرف تو کسی نے دھیان نہیں دیا ہے اور آج اس سے چھٹکار اپانے کا وقت آگیا ہے۔

1: تم پر فرض کردی گئی ہے وصیت اگر تم میں سے کوئی مال چھوڑے والدین اور اقارب کیلئے معروف طریقے ،متقیوں پر حق ہے (البقرہ 180)

ایک مالدار شخص جب فوت ہوتو اس کی اولاد اور والدین وغیرہ کیلئے متعین وراثت ہے لیکن وصیت یا قرض کے بعد۔ اسلئے کہ ایک تہائی مال کی وصیت کا اس کو حق دیا گیا ہے اور والدین بسا اوقات زیادہ ہی ضرورت مند ہوتے ہیںاور دوسرے رشتہ داروں میں بھی ایسے افراد ہوسکتے ہیں۔ جب علماء نے یتیم پوتے پوتیوں کو وراثت سے محروم کردیا ہے تو اس پر وصیت سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے۔ جن آیات کی بنیاد پر وصیت کی اس آیت کو منسوخ کردیا ہے تو ان میں وصیت کے بعد وراثت کے الفاظ موجود ہیں۔

2: ”اور جو تم میں مریں اور بیویاں چھوڑ یں تو ان پر اپنی بیویوں کیلئے سال کی وصیت ہے گھر سے نہ نکالنے کی۔ پس اگر وہ نکل گئیں تو تم پر حرج نہیں جو وہ اپنے حق میں فیصلہ کریں معروف طریقے سے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔(البقرہ240)

اس سے پہلے کی آیت البقرہ 234کو کہ بیوہ کی عدت4 مہینے 10دن ہے ، منسوخ قرار دینا حماقت ہے۔ بیوہ کا ضروری نہیں کہ عدت ختم ہوتے ہی نکاح ہو تو سال کی وصیت فطرت ہے۔

3: اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کریں تو ان پر اپنوں میں4 گواہ طلب کرو، اگروہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں روک لو یہاں تک کہ مریں یا ان کیلئے اللہ کوئی راہ نکال دے۔ (البقرہ:15)

ایک عورت کے بگڑنے سے معاشرہ خراب ہوتا ہے اسلئے اپنوں میں چار گواہی دیں تو اس کو گھرمیں روکنے کا حکم ہے ۔ اللہ کی طرف سے راستے نکالنے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی نیا حکم نازل کرے بلکہ اس کیلئے شوہر کا بندوبست ہوجائے۔ اسلئے کہ اسکے بعد بھی سنگساری کا حکم تو نازل نہیں ہوا بلکہ سورہ نور میں 100کوڑے کا حکم مرد اور عورت کیلئے یکساں ہے۔ کنواری لڑکی ماردی جاتی ہے ۔ شادی شدہ مرد نہیں مارا جاتا اسلئے کہ اللہ کے پپغام کو عوام تک علماء نے پہنچانے کے بجائے قرآن کی طرف دھیان نہ دیا۔ لعان میں شوہر بیوی کو رنگے ہاتھوں پکڑلے تو بھی قتل نہیں کرسکتا اور نہ کوئی سزا دے سکتا ہے بلکہ اگر جج کو پتہ ہو کہ مرد سچا اور عورت جھوٹی ہے تو بھی سزا ٹالنے کا اللہ نے حکم دیا ۔جب سیدہ پروین شاکر کو شوہر نے طلاق طلا ق طلاق کہا تو یہ غزل کہی:

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کردے گا
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام سے انتساب کردے گا

4: اے نبی! مؤمنوں کو جہاد پر ابھارو۔ اگر تم میں 20آدمی صابر ہیں تو وہ200پر غالب آئیں گے ۔اور اگر تم میں100 ہوں تو1000 پر غالب آئیں گے۔ان پرجنہوں نے کفر کیا اسلئے کہ وہ قوم سمجھتے نہیں ہیں ۔ (لانفال : 65)یہ مؤمنوں کی نفری کے پیش نظر ہے اسلئے کہ کم من فئة قلیلة غلب فئة کثیرة باذن اللہ ”کتنے چھوٹے گروہ ہیں جو بڑے گروہ پرغالب ہیں اللہ کے حکم سے”۔

آیت میں گنتی نہیں بلکہ کیفیت مقصود ہے اور اس کو کسی اور آیت سے منسوخ کرنا حماقت ہے۔

5: اے ایمان والو! جب تم رسول سے سرگوشی کروتو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دو،یہ تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے۔پس اگر تم نہیں پاؤ تو اللہ غفور رحیم ہے۔ (المجادلہ : 12) فرض نہیں بہتر قرار دیا۔ مذہبی طبقہ بکتا ہے۔ بانٹنے کا حکم ہوگا تو اس سے غریب کو فائدہ پہنچے گا ۔ طلحہ محمود مولویوں کو الٹی سیدھی نماز پڑھاتا تھا ۔بقول اقبال باغی مرید:

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھرپیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دیہاتی ہو ، مسلمان ہے سادہ
مانندِ بتاں پوجتے ہیں کعبے کو برہمن
نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا
ہر خرقہ سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں ہے عقابوں کا نشیمن

جاویداحمدغامدی ، مفتی محمدتقی عثمانی ،مولانا فضل الرحمن، پیر ذوالفقار نقشبندی ، مفتی مختار الدین ، تبلیغی اکابراور علماء ومشائخ کے احوال بہت اچھے ہیں لیکن غریب بھوک سے مررہاہے۔

میرے مرشدکے مرید گاڑیوں بنگلے والے اور حاجی عثمان بوسیدہ عمارت یثرب پلازہ میں آخری چھٹی منزل پر جو دھوپ کی تپش سے گرم توا بنتا تھا۔ جبکہ مریدوں نے علماء ومفتیان کو گاڑیوں، بنگلوں کا مالک بنادیاتھا۔ایک خلیفہ نے مولانا فضل الرحمن کی دعوت کی تو مولانا نے اس کو فیڈرل Bایریا کا امیر بنانے کا امر کیا لیکن میں نے علماء کو روک دیا تھا۔

ہمارا اصل معاملہ روایات کو اس حدتک بیان کرنا ہے کہ بریلوی دیوبندی اور شیعہ واہل حدیث توجہ کریں۔ باقی صحیح بخاری میں حضرت علی کی روایت ہے کہ نبیۖ نے مابین الدفین کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں چھوڑا۔ اور یہ قرآن کی سلامتی پر دلیل ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس نے اپنی بخاری کی شرح میں لکھ دیا کہ ” حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت علی سے قرآن کی سلامتی کیلئے یہ روایت اسلئے نقل کی ہے کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں تاکہ ان کی تردید ہو کہ تمہارا تحریف قرآن کا عقیدہ غلط ہے۔ لیکن حقیقت میں حضرت علی کی یہ بات درست نہیں ہے اسلئے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے”۔( کشف الباری شرح صحیح البخاری)

قرآن کے خلاف شیعہ اور سنی دونوں متحد ہیں۔ فرقہ واریت کوانہوں نے اپنا کاروبار اور پیشہ بنایا ہواہے۔ جس دن ان کی روٹی روزی بند ہوگی تو پھر ڈھول باجا اٹھاکر گانے کا گانا شروع کردیں گے۔

میاں نور محمد جھنجھانوی اور حاجی امداد اللہ مہاجرمکی کے مریداکابرعلماء دیوبنداپنے مرشد کی بات ” فیصلہ ہفت مسئلہ” پر عمل کرتے تو فرقہ وارنہ مذہبی اختلافات کی جگہ معاملہ سنجیدہ علمی مسائل پر آتا اور قرآن وسنت کی طرف رجوع ہوجاتا۔ حضرت علامہ عبدالحی لکھنوی ایک حنفی عالم دین تھے اور مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتاویہ رشیدیہ میں تین طلاق پر ان کا فتویٰ بھی نقل کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہوتی ہے اور تین والا بھی نقل کیا ہے۔

فمن شاء فلیرجع ومن شاء فلیحلل ” پس جو چاہے تو ایک مجلس کی3 طلاق پر رجوع کرے اور جو چاہے لعنت حلالہ سے دوجمع دو چار ہوجائے”۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے کہہ دیا تھا کہ ”جو زیادہ غیرت مند ہو اس کی بیوی کو حلالہ سے بچاؤ۔ جس میں غیرت کی کمی ہوبھلے شکار کرو”۔

حنفی اور اہل حدیث، سلفی اور پنج پیری ہر طرف سے ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ تم قرآن و حدیث اور اسلاف کے منکر ہو۔ چلو شیعہ کا قرآن یا اس کی تفسیر الگ صحابہ واہل بیت الگ۔ لیکن جن کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن ایک ہے، حدیث ایک ہے اور قرآن کے بعد صحاح ستہ اور بخاری صحیح ترین کتاب ہے وہ بھی ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں؟۔

آئیے ہم جائزہ لے لیتے ہیں کہ حق اور باطل کیا ہے؟۔ صحیح بخاری میں ” اکٹھی تین طلاق پر ایک آیت کا حوالہ ہے اور دو احادیث کا۔ آیت کا بھی جائز لیتے ہیں اور ان دونوں احادیث کا بھی ۔

الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان (البقرہ 229)یہ آیت ہے۔
ترجمہ:” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے”۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بخاری نے آیت کا درست حوالہ دیا ہے؟۔ غور سے دیکھ اور سمجھ لیجئے!۔

شافعی مسلک کے معروف بخاری کے شارح علامہ ابن حجر عسقلانی نے شافعی مسلک کی تائید میں لکھ دیا ہے کہ ” اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاق جائز، سنت اور مباح ہیں اسلئے کہ جب دو طلاقیں ایک مرتبہ میں ہوسکتی ہیں تو پھر تین طلاق کا ایک ساتھ واقع کرنا بھی جائز ہے”۔

حالانکہ قرآن نے اکٹھی 2طلاق کی بات نہیں کی بلکہ یہ واضح کیا ہے کہ دو طلاق بھی الگ الگ مرتبہ ہیں۔ امام ابوبکر جصاص حنفی رازی نے اپنی کتاب ”احکام القرآن” میں یہ واضح کیا ہے کہ اس آیت میں الگ الگ مرتبہ طلاق ہی مراد ہیں،جیسے 2روپیہ کو 2مرتبہ روپیہ نہیں کہہ سکتے بلکہ 2مرتبہ فعل کو کہتے ہیں ۔2مرتبہ حلوہ کھایا۔ 2حلوہ کھایا نہیں۔

حنفی ،اہل حدیث، پنج پیری اور دیوبندی اتفاق کریںگے کہ امام بخاری نے شافعی مسلک کی تائید میں حنفی مسلک کو کھڈے لائن لگانے کے چکر میں پھسل کر بہت بڑا توپ پدو مار دیا ہے۔ اسلئے کہ اللہ نے فرمایا کہ واطیعوا اللہ و رسولہ ولا تنازعوا فتشلوا و تذہب ریحکم واصبروا ان اللہ مع الصٰبرین ” اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور جھگڑو نہیں کہ پھر پھسل جاؤ اور تمہاری ہوا خارج ہوجائے۔اور صبر کرو ۔بیشک اللہ صبر والوں کیساتھ ہے۔(سورہ المائدہ :46)

عبداللہ بن عمر نے قرآن کے واضح طریقہ کار کو نہ سمجھا تو رسول اللہ ۖغضبناک ہوگئے اور سمجھایا کہ پاکی کی حالت میں طلاق دو ، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت آجائے ، پھر حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت آجائے تو اس کو رکھنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دو۔ یہی وہ طریقہ ہے جو اللہ نے قرآن میں عدت اور طلاق کیلئے امر کیا ہے”۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق، بخاری کی کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت )

بریلوی مفتی اعظم پاکستان وتنظیم المدارس کے صدرمفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی اور دیوبندی مفتی اعظم پاکستان اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی محمدتقی عثمانی کے استاذ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہۖ سے عدی بن حاتم نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”او تسریح باحسان سورہ بقرہ آیت 229ہی تیسری طلاق ہے”۔(نعم الباری ۔ کشف الباری)

شافعی اور حنفی مسلک میں پھڈہ ہے کہ حنفی کہتے ہیں کہ ” البقرہ 230میں فان طلقہا فلا یحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ کا تعلق الطلاق مرتان سے نہیں ہے بلکہ اس کے بعد فدیہ کیساتھ ہے اسلئے کہ ”ف” تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے”۔ جبکہ شافعی مسلک کا کہنا یہ ہے کہ ”اس کا تعلق الطلاق مرتان سے ہے”۔

جبکہ عدی بن حاتم کی روایت سے نہ صرف یہ کہ شافعی مسلک بالکل باطل ثابت ہوجاتا ہے بلکہ حنفی مسلک، عربی قاعدے اور حدیث کے مطابق تو الطلاق مرتان کا تعلق ”ف”کی تعقیب بلا مہلت کا تعلق فامساک بمعروف او تسریح باحسان سے ثابت اسٹیبلش ہوجاتا ہے۔

پاکستان میں کوکنی برادری شافعی مسلک سے ہی تعلق رکھتی ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی کوکنی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اور میرے کوکنی دوست منیر داؤد ملا شافعی مسلک چھوڑ کر حنفی بن چکے ہیں اور حنفی بھی وہ قرآن فہمی کی وجہ سے بن گئے ہیں لیکن اہل حدیث اور حنفی قرآن وحدیث کے مقابلے میں شافعی کو کبھی ترجیح نہیں دے سکتے ہیں۔ قرآن وحدیث سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ طلاق کا طریقہ کار الگ الگ طلاق دینا ہے۔ امام بخاری نے قرآن کی آیت کو شافعی مسلک کی تائید میں بالکل غلط پیش کیا ہے۔ جس کو پاکستان میں موجود سبھی طبقات مانیں گے۔

حنفی مسلک کی نالائقی ہے کہ اپنا مقدمہ اچھے انداز میں پیش نہیں کیا۔ چانچہ علامہ بدر الدین عینی نے ابن حجر عسقلانی کی تردید میں لکھ دیا ہے کہ” اس آیت میں دو مرتبہ کی طلاق کو اکٹھی ثابت کرنے پر تیسری مرتبہ کوقیاس کرنا ٹھیک نہیں ہے اسلئے دو بار طلاق سے رجوع ہوسکتا ہے جبکہ تیسری بار کی طلاق سے رجوع نہیں ہوسکتا ہے”۔ حالانکہ امام بخاری اور ابن حجرعسقلانی دونوں کی بنیاد ہی غلط تھی اور اس بنیاد کو ٹھیک قرار دینا علامہ عینی کی بھی بڑی غلطی تھی۔

ثریا سے علم، دین اور ایمان کو واپس لارہا ہوں تو ایمان والے میری مدد کریں ورنہ پھر تمہاری داستاں تک بھی نہیں ہوگی داستانوں میں۔ اسلئے کہ میں تم سے روٹی چائے نہیں دین کی مدد مانگ رہاہوں ۔ دین کی مدد اللہ کی مدد ہے اور اللہ پھر مدد کرے گا۔

مفتی گوہر علی شاہ سے مولانا ندیم درویش کہتا ہے کہ ”مروجہ جمہوریت مطلقاً کفر ہے” تو جواب میں کہا جاتا ہے کہ ”یہ جملہ اجتماع نقیضین ہے یعنی اس میں دونوں جملوں کا آپس میں تضاد ہے”۔ اور جب تضاد ہے تو دعویٰ بھی باطل تو تردید کی ضرورت بھی نہیں رہتی ہے۔ پھر مولانا درویش کو مجبور کیا جاتا ہے کہ کہو کہ عالم دین نہیں ہو ۔ منطق نہیں سمجھتے”۔

جب آیات 229اور230البقرہ میں اکٹھی تین طلاق کا ثبوت موجود نہیں ہے تو پھر اکٹھی تین کا حکم نافذ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟۔ میں مفتی اعظم پاکستان مفتی گوہر علی شاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن ہمیں جلدی تھی اور ان کو نکلنے میں دیر لگی تھی اس لئے ملاقات نہیں ہوسکی۔ مفتی منیر شاکر نے ان کی تعریف بھی کی تھی اور اپنا سلام بھی دیا تھا۔ پروگرام تھا کہ مفتی منیر شاکر اور علامہ جوادالہادی کی بھی ان سے ملاقات کراؤں گالیکن تقدیر میں نہیں تھی۔

امام ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب ”زادالمعاد” میںابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ فان طلقہا کا تعلق فدیہ اور دو الگ الگ مرتبہ طلاق کیساتھ ہی ہے”۔جس سے اہل حدیث کی طرف سے بھی حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ” اللہ نے سورہ ا بقرہ آیت :228میں عدت کے تین اداوار یا مراحل کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا (اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ وہ اصلاح چاہتے ہوں) اللہ نے عدت کی پوری مدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے؟” ۔تو کیا یہ حکم منسوخ ہے؟۔

ناسخ اور منسوخ کا علم رکھنے والوں نے نہیں بلکہ حلالہ کی لذت میں دیوانوں نے یہ آیت الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان سے منسوخ قرار دیدی ہے۔

حالانکہ دورِ جاہلیت میں دو جاہلانہ رسوم تھیں۔ ایک یہ کہ شوہر عدت میں جتنی بار چاہتا تھا غیرمشروط رجوع کرسکتا تھا۔ تو اللہ نے اصلاح اور معروف کی شرط رکھ دی اور جاہلیت کی رسم اڑاکر رکھ دی تھی اور دوسری جاہلانہ رسم یہ تھی کہ ” اکٹھی تین طلاق پر شوہر اور بیوی باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے بھی رجوع نہیں کرسکتے تھے بلکہ حلالہ کی لعنت سے جہنم کے چودہ طبق کی نچلی سطح سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس کا بھی ان آیات میں خاتمہ کردیا ہے۔

جب علماء وفقہاء نے معروف و اصلاح کی شرط کو خارج کردیا توبہت بڑا نقصان کیا ہوگیاہے؟۔

حنفی مسلک میں اگرنیت نہ ہو توبھی شہوت کی نظر پڑنے سے رجوع ثابت ہوجاتا ہے ۔

شافعی مسلک میں اگر نیت نہ ہو تو پھر جماع کی سروس جاری رکھنے سے بھی رجوع نہیں ہوتا ہے۔

قرآن کے معروف اور اصلاح کی شرط کو چھوڑ کر علماء ومفتیان عزت کمائیں گے؟۔ نہیں نہیں بلکہ حلالہ کی لذت اٹھاکر بارود سے اڑنے کی ذلت ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ طالبان نے استاذان کو کیوں مارنا شروع کردیا ہے؟۔ جب اس کو معلوم ہوگا کہ اسکی ماں کا حلالہ کیا ہے تو گمنام خود کش سے اس کو اڑائے گا۔ علماء ومفتیان قرآن کی بنیاد پر اپنی عوام کی عزتوں کو نہیں بچاسکتے ہیں تو شاہ ولی اللہ کا دور محمد شاہ رنگیلا کا تھا جو اورنگزیب بادشاہ کا پوتا تھا۔ جو لڑکیوں کو ننگا کرکے سیڑھیوں میں بالا پر چڑھنے کیلئے کھڑا کرتا تھا اور ان کے پستانوں کو پکڑ پکڑ چلتا تھا اس سے اس کا داد ابھی بہت بیکار تھا جس نے فتاوی عالمگیری میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری پر حد معاف کردی تھی ۔لیکن علماء ومفتیان اس سے زیادہ بیکار تھے جنہوں نے 26ویں ترمیم کی طرح فتاوی عالمگیریہ کا آئین مرتب کیا تھا اور حلالہ کے نام پر نکاحی عورتوں کے گل چھرے اڑاتے تھے۔

1857ء کی جنگ آزادی سے بدتر حالات کا سامنا افغانستان ، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین کے بعد ہماری تباہی وبربادی کا خدا انخواستہ ہوسکتا ہے۔

اگر اپنی طرف سے کوئی جھوٹ بولتا ہے کہ ایک مرتبہ آیت 228کے حکم کہ ”عدت میں باہمی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے ” کو آیت229البقرہ نے منسوخ کردیا تو یہ بھی جھوٹ ہے اور اگر کوئی کہتا ہے کہ آیت 230نے منسوخ کردیا تو بھی جھوٹ ہے۔ پھر تو آیت 231اور 232البقرہ میں عدت کی تکمیل کے بعد اجازت دیکر سب کو منسوخ کردیا ہے؟۔ اور سورہ طلاق کی آیت ایک کے بعد دوسری نمبر آیت سے بھی سب کو منسوخ کردیا ہے؟۔

قرآن میں کوئی تضادات نہیں تمہاری شہوت کا جذبہ امت مسلمہ کو جنت سے نکال رہاہے؟۔

بخاری میں پہلی حدیث یہ ہے کہ رفاعہ القرظی نے اپنی بیوی کوتین طلاق دی ، اس نے عبدالرحمن بن زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور نبیۖ کے پاس آگئی۔ اپنے دو پٹے کا پلو دکھایا کہ میرے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو نہیں لوٹ سکتی۔ یہاں تک دوسرے شوہر کا ذائقہ اس سے نہ چکھ لو جیسے کہ پہلے شوہر کا چکھ لیا ہے اور وہ تمہارا نہ چکھ لے”۔

کیا بخاری کی اس حدیث سے قرآن کی واضح آیات کو منسوخ کیا جاسکتا ہے؟۔ کہ عدت میں اللہ نے باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت دیدی ہے اور اس حدیث میں روکا گیا ہے؟۔ بالکل نہیں! بلکہ یہ حدیث بخاری کی دوسری احادیث سے بالکل متصادم ہے جن میں الگ الگ طلاق کا ذکر ہے اور یہ کہ اس کے شوہر نے کہا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں اپنی مردانہ قوت سے اس کی چمڑی ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ جس سے بخاری کے عنوان کو سپوٹ نہیں ملتی اور چاروں مسالک میں کسی نے بھی اس حدیث کی بنیاد پر اکٹھی تین طلاق کی دلیل نہ پکڑی یہاں تک کہ امام شافعی نے بھی ۔ پھر کسی عورت کو حلالہ کیلئے نامرد پر مجبور کرنا جس سے حلالہ نہیں ہوتا تو بھی نبیۖ کی شان میں بڑی گستاخی ہے۔

وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ ”اگرچہ مہمان ہو مگر اپنے خصیے چھپاؤ”۔ بخاری بڑا آدمی تھا لیکن قرآن کے سامنے کچھ نہیں تھا اور اس کی غلطی نے کافی لوگوں کی عزتوں بھرتا نکال دیا ہے۔

بخاری کی دوسری حدیث عویمر عجلانی والی ہے جس میں لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق دی گئی تھی اور وہ سورہ طلاق کے مطابق فحاشی کی صورت میں بہترین وضاحت ہے جس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ”اس کی وجہ سے عدت میں رجوع کی آیات کو منسوخ قرار دے دیا جائے”۔

علماء وفقہاء کا شروع میں یہی مؤقف تھا کہ اکٹھی تین طلاق بدعت ہیں یا سنت؟۔ شافعی کیلئے یہ سنت کی دلیل تھی اور حنفی اس کو سنت کیلئے دلیل نہیں مانتے تھے۔ قرآن کی تنسیخ کا تو کسی کو وہم وگمان بھی نہیں ہوگا کیونکہ وہ بڑی شان وعظمت والے تھے جو قرآن کو منسوخ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ علامہ انور شاہ کشمیرینے اس حدیث کے بارے میں بھی لکھا کہ ” ہوسکتا ہے کہ عویمر عجلانی نے الگ الگ تین بارطلا ق دی ہو”۔ (فیض الباری شرح صحیح البخاری) علماء کرام اور عوام الناس بتائیں کہ عویمر عجلانی کی روایت کے بارے میں حنفی ومالکی مؤقف درست ہے یا شافعی؟۔

پورے ذخیرہ احادیث میں یہی ایک حدیث وہ ہے جس پر سبھی کا اتفاق ہے کہ اس میں اکٹھی تین طلاق کا ذکر موجود ہے اور یہ صحیح متن اور مستند طریقہ سے نقل ہوئی ہے ۔باقی کوئی ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں اکٹھی تین طلاق کا ذکر ہو اور اس پر دوامام اورمسالک کے علماء ومفتیان متفق ہوں۔

کیا اس حدیث سے قرآن میں عدت کے اندر رجوع والی آیات کو منسوخ قراردیا جاسکتا ہے؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں اور قطعاًہی نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میں منکر حدیث ہوں؟۔صحیح بخاری کا گستاخ ہوں؟۔ اسلاف اور سلف صالحین کی عظمتوں کا منکر ہوں؟۔

نہ تو احادیث کا منکر ہوں،نہ امام بخاری کا میں گستاخ ہوں اور نہ ہی اسلاف اور سلف صالحین کی عظمتوں کا منکر ہوں لیکن قرآن کی بنیادپر، اسلاف کے متفقہ مؤقف کی تائید سے ایسی روایت کی تردید علم، ایمان اور دین کا تقاضاہے جو قرآن سے بھی متصادم ہو اور چاروں فقہی مسالک سے بھی اور خود بخاری کی دیگر احادیث سے بھی بالکل متصادم ہو۔

خیبرپختونخواہ کے دیوبندی،اہل حدیث، پنج پیری، شاکرمنیری اور بریلوی متفقہ طور پر یا انفرادی طور پر اپنا مؤقف لکھ کر اخبار کے اڈریس پر بھیج دو۔

جب یہ ثابت ہوگیا کہ اکٹھی تین طلاق کیلئے صرف اور صرف ایک حدیث ہے عویمر عجلانی نے لعان کے بعد جو دی ہے تو اس سے قرآن کی واضح آیات کو منسوخ کرنا تو دور کی بات ہے حنفیوں کے نزدیک تو طلاق سنت بھی ثابت نہیںہوتی ہے۔

اب مسئلہ آتا ہے ایک مشہور حدیث کا جس کو بہت غلط فہمی سے متفقہ سمجھا جاتا ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ رسول اللہ ۖ کو ایک شخص نے خبردی کہ فلاں آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں۔ جس پر رسول ۖ غضبناک ہوکرکھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہوجبکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ (سنن نسائی)

اگر اس حدیث کو امام شافعی مانتے تو اکٹھی تین طلاق کو سنت کیوں قرار دیتے۔ ان کے نزدیک یہ روایت بالکل بھی درست نہیں ہے اسلئے اس کو متفقہ قرار دینا انتہائی درجے کی بہت بڑی حماقت ہے۔

بخاری ومسلم نے اس روایت کو اس قابل نہیں سمجھا کہ صحیحین میں اس کو درج کردیا جاتا ۔ حالانکہ حنفی مسلک کی عمارت اس روایت پر کھڑی ہے کہ اکٹھی تین طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیں اور اس کو جب شافعی نہیں مانتے تو متفقہ ہرگز ہرگز نہیں۔

محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان کی صحیح بخاری کی شرح کشف الباری میں تفصیلات لکھی ہوئی ہیں اور علامہ غلام رسول سعیدی کی نعم الباری بھی دیکھ لو مگر اس میں یہ ایک غلطی ان سے سرزد ہوئی ہے کہ اگر قرآن میں فان طلقہا کا لفظ نہ ہوتا جس سے تعقیب بلا مہلت کے قاعدے کی وجہ سے اکٹھی تین طلاقیں ثابت ہوتی ہیں تو پھر جتنی آیات واحادیث ہیں تو ان سب سے الگ الگ طلاقوں کا ثبوت ملتا ہے۔ حالانکہ علامہ غلام رسول سعیدی نے مغالطہ کھایا ہے ۔ اس میں تو حنفی مسلک دو مرتبہ طلاق سے نہیں جوڑتا ہے بلکہ فدیہ سے جوڑتاہے اور جس کو ”نورالانوار: ملاجیون” میں بریلوی دیوبندی اپنے مدارس میں پڑھاتے ہیں، مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اس کو صحیح کرنے کا اعلان کردیں۔

رسول اللہ ۖ نے واضح فرمادیا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین ادوار سے ہے اور یہ سورہ بقرہ کی آیت 228اور 229کی واضح تفسیر ہے اور یہ وضاحت نہ سمجھنے پر غضبناک ہوئے تھے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر عویمر عجلانی والی روایت کا کیا بنے گا؟۔ اس کا جواب بالکل واضح ہے کہ فحاشی کی صورت میں سورہ طلاق کے اندر اللہ نے عدت میں روکنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ فحاشی کی بنیاد پر عدت میں مرحلہ وار طلاق کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ یہی قرآن وحدیث اور مسلک حنفی کا تقاضہ تھا اور اس پر سب اتفاق بھی کرلیںگے۔ انشاء اللہ

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمود بن لبید کی روایت کا بنے گا جس کو شافعی نہیں تو حنفی مانتے ہیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محمود بن لبید کی روایت کے دوپہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہے یا نہیں؟۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر واقع ہو تو پھر رجوع بھی ہوسکتا ہے کہ نہیں ہوسکتا ہے؟۔

پہلی صورت : تین طلاق واقع ہوسکتی ہیںاور یہ اچھی بات نہیں ہے کہ اکٹھی تین طلاق دی جائے۔

دوسری صورت: رجوع ہوسکتا ہے اسلئے کہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر باہمی اصلاح کی بنیاد پر رجوع کی عدت میں اجازت دی ہے۔

سوال: اگر رجوع ہوسکتا ہے تو پھر نبیۖ نے رجوع کا حکم کیوں نہیںدیا؟۔ غضبناک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
جواب: اس سے زیادہ مضبوط حدیث بخاری کی ہے جس میں نبیۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود عبداللہ بن عمر سے رجوع کا فرمایا تھا۔

اصل بات یہ ہے کہ محمود بن لبید کی روایات میں خبر دینے والے شخص، طلاق دینے والے شخص اور قتل کی پیشکش کرنے والے شخص کو چھپایا گیا ہے۔ حالانکہ دوسری روایات میں یہ افراد معلوم ہیں ۔خبر دینے والا شخص حضرت عمر تھے ۔ جس نے طلاق دی تو وہ عبداللہ بن عمر تھے اور جس نے قتل کی پیشکش کی تھی تو وہ حضرت عمر تھے۔ بخاری کی روایت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن عمر کی طلاق پر حضرت عمر نے خبر دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے۔ دوسری روایات میں بخاری کے اندر روایوں نے غضبناک ہونے والی بات کو چھپادیا ہے۔ لیکن تین چیزوں کا تو ثبوت مل گیا ۔ خبر دینے والے کا ، جس کی خبر دی گئی اور رسول اللہ ۖ کے غضبناک ہونے کا۔ چوتھی چیز قتل کی پیشکش کرنے والے کا؟۔تو روایات میں یہ موجود ہے کہ حضرت عمر نے ہی یہ پیشکش کی تھی۔

اب رہ جاتی ہے ایک ساتھ تین طلاق دینے کی وضاحت ؟۔ تو صحیح مسلم میں حضرت حسن بصری کی روایت ہے کہ ایک مستند شخص نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی تھیںاور 20سالوں تک کوئی اور شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص مل گیا اور اس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ (صحیح مسلم)

ان دونوں افراد کے ناموں کا ذکر کیا جاتا تو پتہ چل جاتا کہ کون زیادہ فقیہ اور کون زیادہ مستندتھا؟۔

بخاری کا راوی ذکر کرتا ہے کہ رفاعہ القرظی نے تین طلاقیں دی تھیں۔ دوسرا راوی ذکر کرتا ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں۔ بخاری کبھی ایک کو مستند سمجھ کر اکٹھی تین طلاق کو سنت قرار دینے کیلئے اس عنوان کے تحت درج کرتا ہے اور کبھی دوسرے کو مستند سمجھ کر الگ الگ طلاق کو واضح کردیتا ہے۔

رسول اللہ ۖ کے دور میں محمود بن لبید پیدا ہوئے تھے لیکن ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ اور حضرت عمر کے حوالہ سے جب سختی اور عبداللہ بن عمر کی طرف سے اکٹھی تین طلاق پر بعض لوگوں کیلئے پردہ ڈالنا زیادہ مناسب اسلئے تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد آپس کی قتل وغارت سے ناچاکی کی ایک فضا قائم ہوچکی تھی۔ عبداللہ بن عمر سے کسی نے کہا کہ حضرت عمر اپنا جانشین مقرر کریں گے ۔ جس پر اس نے قسم کھائی کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ پھر موقع مل گیا تو حضرت عمر سے پوچھ لیا کہ میں نے یہ سنا ہے اور میں نے قسم کھائی تو پوچھنا مناسب سمجھ لیا۔ حضرت عمر نے کہا کہ ”اگر میں اپنے بعد کسی کو بھی مقرر نہیں کروں تو بھی میرے لئے جائز ہے۔ اسلئے کہ نبیۖ نے کسی کو مقرر نہیں فرمایا۔اور اگر میں اپنے بعد کسی کو نامزد کردوں تو بھی میرے لئے جائز ہے اسلئے کہ ابوبکر نے اپنے بعد نامزد کیا تھا”۔

پھر حضرت عمر نے تیسرا راستہ اپنایا ۔ چھ افراد کی شوریٰ بنائی ۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ ، حضرت زبیر بن عوام۔

کسی نے مشورہ دیا کہ عبداللہ بن عمر ہی کو نائب بنادو۔ حضرت عمر نے کہا کہ اس کو طلاق کا طریقہ بھی نہیں آیا تو اس پر امت مسلمہ کی ذمہ داری لگاؤں؟ اور یہ ہرگزنہیں ہوسکتا ہے۔ یہ خلافت کیلئے نااہل ہے۔ حضرت عمر نے محسوس کیا کہ جس نے اتنی بڑی قسم کھائی کہ میرا والد نبیۖ کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تو وہ یہ نہیں جانتا کہ نامزد بھی اس کا والد ہی ہوا ہے؟۔ مگرحضرت عمر نے یہ نااہلی کی بنیاد نہیں بنایا بلکہ طلاق کے مسئلے کو نہ سمجھنا نااہلی کی بنیاد بنادیا۔

جب پھر خلافت قائم ہوگی تو شاید اس میں بھی طلاق کا مسئلہ سمجھنا اہلیت کی بنیاد بن جائے گا۔ اور لوگوں کی نااہلی یا ہٹ دھرمی سے یہ ثابت ہورہاہے کہ ایک دن طلاق کے مسئلے پر خلافت قائم ہوگی۔

حضرت عمر نے حکم دیا کہ حضرت صہیب3 دن تک نماز پڑھائے گا۔ تین دن تک شوریٰ کے تمام ارکان بند ہوں گے اگر فیصلہ نہیں کیا تو پھر سب کی گردن ماردی جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ کچھ نوجوانوں کو نگرانی کیلئے مقرر کردیا تھا۔

چھ افراد میں جن کی اکثریت ہو تو اس کو خلیفہ بنایا جائے اور دوسرے نہیں مانیں تو گردن اتاری جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہ میں اس کا امیدوار نہیں ہوں۔حضرت عمر نے کہا کہ اگر تین ایک طرف اور تین دوسری طرف ہوں تو جن تین میں عبدالرحمن بن عوف ہو تو اس کو خلیفہ بنایا جائے۔

حضرت زبیر نے اپنا ووٹ حضرت علی کے حق میں دیا اور حضرت طلحہ نے اپنا ووٹ حضرت عثمان کے حق میں دیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے اپنے ووٹ کا اختیار حضرت عبدالرحمن بن عوف کو دیا اور یوں حضرت عبدالرحمن بن عوفکی حیثیت ایک فیصلہ کن شخص کی ہوگئی۔ مدینہ کے انصار ومہاجرین اور اشراف وعوام سے تین دن تک رائے طلب کی اسلئے کہ خلافت کے دو امیدوار تھے۔ حضرت عثمان اور حضرت علی۔ ان دونوں میں ایک کو منتخب کرنا تھا۔

جب حضرت عبدالرحمن بن عوف نے دونوں کا انٹرویو لیا تو ایک سوال دونوں سے پوچھ لیا کہ اپنی خلافت کو ابوبکر و عمر کے طرز پر چلاؤگے؟۔ حضرت علی نے کہا کہ میں ان کا پابند نہیں ہوں ۔ نبیۖ کی سنت کا پابند ہوں۔ حضرت عثمان نے کہا کہ میں ان دونوں کے طرز پر خلافت کو چلاؤں گا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف خود بھی طلب گار نہیں تھے اور ان دونوں میں سے اپنے احساسات کے مطابق حضرت عثمان میں طلب نہیں دیکھی اور حضرت علی میں طلب دیکھی تو حضرت عثمان کے حق میں فیصلہ کردیا تھا۔ حضرت عمر نے سب کو تاکید کی تھی کہ کوئی بھی رشتہ داری کا لحاظ نہ کرے۔ خلیفہ بن جائے تو پھر اپنے اقارب کی جگہ عوام اور اہل کو ترجیح دے اور حضرت عمر نے سپہ سالار حضرت خالدبن ولید اور فاتح فارس حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی اپنے دور میں سپہ سالاری اور گورنری سے ہٹادیا تھا۔

آج کل دیوبندی علماء کرام ومفتیان عظام بھی دو گروپوں میں تقسیم ہیں ۔ایک جمہورریت کو کفر کہتا ہے اور دوسرا جمہوریت کو کفر نہیں کہتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے دلائل بھی دیتے ہیں اور امارت اسلامی افغانستان سے رہنمائی پر بھی متفق ہوجاتے ہیں۔

دیوبندی میں یزیدی اور حسینی کی تقسیم بھی ہے۔ جب امیر معاویہ نے یزید کو نامزد کیا تھا تو عبداللہ بن عمر نے کہا تھا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں پہنچتا تو اپنے حق میں فیصلہ کرواتا۔ حضرت امیرمعاویہ کو پتہ چلا تو اس نے کہا کہ ”میرا بیٹا اس سے بہتر اور میں اس کے باپ سے بہتر ہوں ”۔ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ” مجھے انتشار اور فتنے کا خطرہ تھا ورنہ تواس کو بہت سخت جواب دے سکتا تھا”۔

جو لوگ یزید کی نامزدگی کی تعریف کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن صحابہ کرام کی عظمت و شان اسلئے نہیں کہ صحابہ واہل بیت کے ہوتے یزیدکا حق نہیں تھا ۔ فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے صحابہ کرام کے درجات میں بھی فرق تھا تو یزید صحابی بھی نہ تھا۔

مکہ میں عبداللہ بن زبیر نے اپنی خلافت قائم کی تھی اور شام میں یزید کے مقابلے میں ایک صحابی کا خلیفہ ہونا زیادہ مناسب تھا۔ یزید کے بعد بنی امیہ کی دوسری شاخ مروان بن حکم کو خلیفہ بنایا گیا تھا۔ عبداللہ بن زبیر نے اس کے حملوں کو بھی ناکام بنایا مگر پھرعبدالملک بن مروان نے عبداللہ بن زبیر کی والدہ کے سامنے وہ حشر کیا جو ملاعمر دور میں ڈاکٹر نجیب اللہ شہید کی لاش کیساتھ کیا گیا تھا۔ نجیب کی والدہ پتہ نہیں زندہ تھی یا نہیں لیکن چھوٹے بچے تھے اور عبداللہ بن زبیر کی والدہ اسماء بنت ابی بکر 100 سال کی عمر میں نابینا زندہ تھی۔ عبداللہ بن زبیر نے اپنی ماں سے کہا کہ میں ہتھیار ڈال دیتا ہوں اسلئے کہ مرنے کے بعد میری لاش کا بہت برا حشر کریں گے۔ تو آپ کو تکلیف ہوگی؟۔ صدیق اکبرکی بیٹی ماں اسماء بنت ابوبکر نے کہا: بیٹا!تمہارے ٹکڑے کرنے سے زیادہ تکلیف تمہارے ہتھیار ڈالنے پر مجھے ہوگی۔ جب ایک دفعہ تمہیں قتل کیا جائے تو پھر ٹکڑے کرنے سے فرق نہیں پڑتاہے؟۔ بیٹے نے اپنا کاندھا آگے کیا کہ دعا دو۔ نابینا ماں نے پیٹھ پر تھپکی دی اور کہا کہ اللہ مدد کرے۔ پوچھا، پیٹھ سخت کیوں لگتی ہے؟۔ بتایا اماں زرہ پہن رکھا ہے۔ ماں نے کہا کہ بیٹا زرہ اتاردو۔ چنانچہ زرہ اتار دیااور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تو کئی دنوں تک حجاج نے لاش لٹکائے رکھی۔ حکم دیا کہ ماں کو قریب لاؤ اور پھر کہا کہ اپنے بیٹے کا حشر دیکھ لیا؟۔ اس کو کیا ملا؟۔ حضرت ابوبکر کی 100سالہ بیٹی اسماء بنت ابوبکر نے کہا کہ بیٹے نے سودا مہنگا نہیں کیا ہے۔ تم نے اس کی دنیا برباد کردی اور اس نے تمہاری آخرت برباد کردی۔ یہ تھی صحابہ کرام کی عالی شان۔

اگر یزید کے خلاف حضرت امام حسین کی قربانی کی طرح حضرت عبداللہ بن زبیر کے واقعہ کو بیان کیا جاتا تو اہل تشیع کے مقابلے میں بعض دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کو یزیدی بننے کی ضرورت نہ پڑتی۔ یزیدومروان اور بنوامیہ وبنوعباس کیلئے ہمارا ایمان اور اسلام خراب ہوتا ہو تو یہ بڑی حماقت ہوگی اورجب دیوبندی مکتبہ فکر کے حکیم الاسلام قاری محمد طیب نے اپنے بیٹے کو 50سال اہتمام کے بعد اپنا جانشین مقرر کرنا چاہا تو دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کی طرف سے مزاحمت ہوئی۔ وہ نعت لکھ دی جو ایک بریلوی خوشی کے عالم میںلکھتا ہے ۔ جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبداللہ درخواستی نے مولانا عبیداللہ انور ابن مولانا احمد علی لاہوریکو مفتی محمود کی جگہ قائد جمعیت علماء مقرر کرنا چاہا تو جمعیت علماء اسلام کی شوریٰ نے مولانا فضل الرحمن کو بنادیا تھا، جس سے جمعیت دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی۔رائیونڈ کی شوریٰ اور بستی نظام الدین بھارت کی امارت بھی تبلیغی جماعت کے دو گروپ میں تقسیم ہیں۔

قرآن کی طرف توجہ کی گئی تو فرقہ واریت اور گروہ بندیوں کی جگہ سب مساجد ومدارس اور مذہبی جماعتوں کو خدمات کا اتنا موقع ملے گا کہ تقسیم کے بجائے سب ایک دوسرے کی مدد گار ہوں گی۔

اگر صرف طلاق اور عورت کے حقوق کے حوالہ سے قرآن وحدیث کی درست تعلیمات کو عوام اور دنیا کے سامنے لایا جائے تو ایک بہت بڑی نمایاں تبدیلی آئے گی۔ امریکہ، یورپ، آسڑیلیا، بھارت اور مشرق ومغرب اورشمال وجنوب میں پوری دنیا کو اسلامی نظام کے حق میں ووٹ دینا پڑے گا۔ تمام زبانوں میں قرآن کے تراجم کافی ہوں گے۔ لیکن جب قرآنی آیات کے واضح مفہوم کو بگاڑ دیا گیا ہو تو پھر کون قرآن کو دیکھ اور سمجھ کر انقلاب کی امید رکھ سکتا ہے؟۔اسلئے ہم متوجہ کررہے ہیں۔

 

سورہ بقرہ کی آیات میں تسلسل کیساتھ 222 سے 237تک عورت کے حقوق ہی حقوق کا ذکر ہے۔ لیکن علماء وفقہاء نے اس کمزور طبقے کو بالکل محروم کرکے رکھ دیا ہے۔ خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔

 

آیت222البقرہ میں دو باتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ عورت کا حیض تکلیف اور ناپاکی ہے اور دوسری یہ کہ تکلیف اور ناپاکی سے بچنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور توبہ کرنے اور پاکی سے اللہ نے محبت کا فرمایا۔

جس کا مطلب ایک تو طلاق کیلئے یہ مقدمہ ہے اور پاکی وحیض کا طلاق کے احکام میں بڑا اہم کردار ہے اور بنیاد اس کی عورت کو تکلیف سے بچانا ہے۔

جب ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر احکام کا جائزہ لیں گے تو پھر ٹھوکریں کھانے سے بچت ہوجائیگی۔

آیت223البقرہ میں عورت کو اثاثہ قرار دیا ہے۔شوہر کیلئے عورت بچوں کی ماں ہوتی ہے ، گھر کی عزت ہوتی ہے، راحت وسکون کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اپنے گھر اور خاندان کی کشتیاں جلا کر آتی ہے اور اس کا خیال رکھنا انسانیت کا اہم تقاضہ ہے۔

آیت224البقرہ میں طلاق کا بنیادی مقدمہ ہے کہ اللہ کو اپنے عہدوپیمان کیلئے بطور ڈھال یوں استعمال نہ کرو کہ نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح نہ کراؤ۔ یعنی کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے کہ جب میاں بیوی بالخصوص اور دیگر عوام بالعموم صلح کریں تو اللہ اور مذہب کو اس میں رکاوٹ بنایا جائے۔

یمین کی دواقسام ہیں۔ نکاح اور طلاق کو بھی یمین کہتے ہیں اور حلف کو بھی یمین کہتے ہیں۔ جب یمین سے مراد حلف ہو تو وہ قسم اور کفارہ کو کہتے ہیں جس کا سورہ مائدہ میں ذکر ہے کہ ”یہ تمہارے یمین کا کفارہ ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ یہاں پر اس قسم کے کسی حلف کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، تفاسیر اور کتابوں سے قرآن کی واضح آیات میں مغالطہ دیا گیا ہے کیونکہ یہاں حلف کا کوئی تذکر ہ نہیں ہے۔

آیت225البقرہ میں تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ اللہ تمہیں یمین یعنی طلاق کے لغو الفاظ پر نہیں پکڑتا مگر جو گناہ تمہارے دلوں نے کمایا، اس پر پکڑتا ہے۔حدیث بالکل برحق ہے کہ طلاق مذاق میں معتبر ہے لیکن اس کا تعلق عورت کے حقوق سے ہے اور جب عورت طلاق کے بعد صلح نہیں کرنا چاہتی ہو تو پھر اس کی مرضی ہوگی اور مذاق کی طلاق میں بھی اس کو خلع کے حقوق نہیں بلکہ طلاق کے حقوق ملیں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے رکاوٹ نہیں بلکہ عورت کی طرف سے رکاوٹ ہے۔ اگر اس کو صلح نہیں کرنی تو پھر طلاق کے ظاہری الفاظ اور کنایہ الفاظ سب معتبر ہوں گے۔ مذاق بھی بالکل معتبر ہوگا لیکن اللہ نے ان آیات میں یہ سمجھایا ہے کہ اگر میاں بیوی آپس میں راضی ہوں اور کوئی مذہب کی بنیاد پر کہے کہ اللہ صلح کی راہ میں رکاوٹ ہے تو یہ فتویٰ غلط ہے اور اس کی وجہ سے اللہ نے وضاحتیں کردی ہیں۔

آیت226البقرہ میں ایلاء کی وہ گھناؤنی بلا ہے جس میں شوہر طلاق کا کھلے الفاظ میں اظہار بھی نہیں کرتا تھا اور مدتوں اس کو اپنی تحویل یا نکاح میں رکھتا تھا۔ اللہ نے اس کی ڈیڈلائن بتائی ہے کہ جب شوہر طلاق کے الفاظ کے بغیر ناراض ہو تو پھر عورت کیلئے چار مہینے انتظارکی عدت ہے۔اس میں اگر باہمی رضامندی سے صلح ہوگئی تو ٹھیک ہے اور نہیں ہوئی تو چارماہ کے بعد عورت جہاں چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔ یہ بہت اہم آیت اور اس میں بڑا اہم حکم ہے۔ جب ناراضگی کی عدت چار ماہ مقرر کی ہے اللہ نے تو کوئی شوہر اپنی بیوی سے ناراضگی کے بعد یہ نہیں سمجھے گا کہ مدتوںمیرے لئے بیٹھی رہے گی۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا اور ایک ماہ کے بعد رجوع کرنا چاہا تو اللہ نے فرمایا کہ پہلے ان سب کو طلاق کا اختیار دے دو تاکہ اگر وہ راضی نہ ہوں تو علیحدگی پر عمل ہو۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایلاء بھی حقیقت میں طلاق ہی ہے لیکن طلاق کا کھلے الفاظ میں ذکر نہیں ہے۔ جمہور کے نزدیک عورت پھر بھی ہمیشہ نکاح میں رہے 4 ماہ کے بعد بھی، لیکن احناف کے نزدیک چار ماہ بعد طلاق ہوگی۔ دونوں میں احناف کا مسلک پھر بھی کچھ اچھا ہے لیکن یہ بھی غلط ہے کہ چار ماہ بعد پھر اس کو تین ماہ مزید بھی عدت پر مجبور کرکے اذیت دی جائے۔ مسلک حنفی کی یہ بہت بڑی مگر دوسروں سے چھوٹی غلطی ہے۔

آیت227البقرہ میں اللہ نے یہ واضح کیا کہ اگر طلاق کا ارادہ تھا تو پھر یہ دل کا گناہ ہے اور اس پر پکڑنے کی اللہ نے وضاحت کردی ہے اسلئے کہ طلاق کے اظہار سے عدت 3 ماہ کے بعد ختم ہوتی اور مزید ایک مہینے کا اضافہ اور انتظار عورت کیلئے اذیت ہے اور اس تکلیف کا اللہ کو حساب دینا پڑے گا اسلئے کہ وہ ارادے کو بھی سنتا اور جانتا ہے۔

آیت228البقرہ میں اللہ نے تین ادوار کا ذکر کیا ہے اور حمل کو نہ چھپانے کا حکم دیا ہے اسلئے کہ یہ عورت کی عدت ہے۔ اور اس میں اصلاح کی شرط پر شوہروں کو لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ جس بیوہ کی عدت میں عورت کو اشارہ کنایہ سے نکاح کا پیغام دے سکتے ہیں تو طلاق کی عدت میں دوسرا شخص اس کا جواز نہیں رکھتا ہے۔ علماء وفقہاء نے اصلاح کی شرط بھی نکال دی اور شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دیا یا پھر اکٹھی تین طلاق میں رجوع کا حق ختم کردیا اور یہ دونوں باتیں جاہلیت کی تھیں اور اللہ نے ان کو ختم کیا تھا۔ شوہر کو نہ غیر مشروط رجوع کا حق ہے اور اگر میاں بیوی صلاح پر راضی ہوں تو کسی سے فتویٰ لینا جہالت ہے ۔ اللہ نے رجوع اور صلح نہ کرنے کے فتوے دینے سے روکا ہے لیکن قرآن کو مدارس نے ہی بوٹیاں بوٹیاں بناکر اس کے سر پیر کچل ڈالے۔

آیت229میں مزید وضاحت کردی کہ طلاق عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ ہے اور رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے یعنی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں کرسکتے۔ ان تمام آیات میں عورت کی اذیت کو نظر انداز کرکے فقہ سازی کی گئی ہے جس کا کوئی اخلاقی، قانونی ، شرعی اور فطری جواز نہیں ہے جس سے کتابیں بھردی گئی ہیں تضادات سے بھرپور اور انسانیت کے دائرے سے نکلی ہوئی۔

اگر طلاق کا فیصلہ کیا تو احسان کیساتھ رخصت کرنے کا حکم ہے، یعنی اپنے حق سے زیادہ نوازنے کا حکم ہے۔ جو بھی دی ہوئی چیزیں ہیں حق مہر کے علاوہ تمام کی تمام منقولہ وغیر منقولہ جائیدادیں اور چاہے خزانے دئیے ہوں۔ کوئی چیز واپس نہیں لے سکتے ہیں۔ البتہ کوئی ایسی چیز ہو کہ جس پر دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کا اتفاق ہو کہ اگر واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں۔پھر وہ عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میںدونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔فدیہ سے مراد فدائی کی قربانی ہے اور اس کو خلع قرار دینا انتہائی شرمناک حماقت ہے۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے اور یہ لوگ خلع کے نام پر بلیک میلنگ کا کاروبار کھولنا چاہتے ہیں۔

دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ طلاق کے بعد کہاں کا خلع ؟۔ خلع عورت اور طلاق مرد کی طرف سے ہوتی ہے۔ سورہ النساء آیت19میں خلع اور 20،21 آیات میں طلاق کے احکام کی وضاحت ہے۔

آیت230البقرہ میں اس فدیہ کا فیصلہ کرنے کے بعد کی طلاق مراد ہے۔ طلاق عربی لغت میں عورت چھوڑنے کو کہتے ہیں۔ شوہر عورت کو طلاق کے بعد بھی دوسری جگہ نکاح پر اپنی غیرت کا مسئلہ بناتاہے اسلئے اللہ نے واضح فرمادیا کہ دوسرے شوہر سے نکاح ضروری ہے تاکہ عورت کی جان آزاد ہو اور یہ حکم پہلی بار نہیں ہے بلکہ اگر مذاق میں طلاق دی یا ایلاء کیا۔ ایک بار طلاق دی یا دو بار جب تک عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو شوہر کیلئے رجوع ویسے ہی حرام ہے جیسے اس آیت میں حرام ہے لیکن جب تک ان الفاظ کا ذکر نہیں آیا تو پھر عورت کیلئے جان چھڑانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے اسلئے توراہ وانجیل کے بعد بہت تفصیل اور بہتری کیساتھ طلاق کے حوالے سے بھرپور آیات کھول کھول کر بیان کردیں تاکہ یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر مسلمان نہیں چلیں۔ لیکن پھر بھی چل پڑے ہیں اسلئے کہ قرآن کو چھوڑ دیاہے۔

آیت231میں پھر تفصیل سے ہے کہ عدت کی تکمیل پر بھی معروف رجوع ہوسکتا ہے تاکہ اس بات کو ذہن نشین کرلیا جائے کہ عدت میں رجوع کا اختیار عورت کی آزادی کیلئے دیا تھا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر عدت گزرنے کے بعد ان میں معروف رجوع کی خواہش ہو تو اللہ اس میں کوئی رکاوٹ ہے۔ علماء ودفقہاء نے آدھے بچے سے کم اور زیادہ کے حوالے سے رجوع کا جوشرمناک تصور پیش کیا ہے اس کو قومی اسمبلی میں کبھی مولانا فضل الرحمن یا شیر افضل مروت بیان کرے تو کمال ہوگا۔

آیت232البقرہ میں کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے نہ صرف رجوع کی اجازت ہے بلکہ معاشرہ ، مولوی اور سب کو خناس کا کردار ادا کرتے ہوئے رکاوٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ اس میں تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اورزیادہ تزکیہ ہے جو اللہ جانتا ہے ۔

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے اساتذہ قرآن کے ترجمہ اورتفسیر میں مولانا بدیع الزمان، قاری مفتاح اللہ اور مفتی محمد ولی تھے اور انوارلقرآن آدم ٹاؤن میں جلالین ومشکوٰة شریف کے استاذ مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید اور بیضاوی کے استاذ مولانا شبیراحمد رحیم یار خان والے تھے۔ مجھے اعزاز حاصل ہے کہ تفسیری عزیزی میں غلطیاں پکڑ میں آئیں تو مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی کے پاس بھی جواب نہیں تھا اور قاری مفتاح اللہ صاحب نے تفسیر کشاف کا مشورہ دیا اور اس وقت میں نے تفسیر کشاف لیکر قرآنی آیات کی مشکلات کا حل تلاش کرنا شروع کیا تھا۔ بیضاوی کی غلطیوں پر اور اصول فقہ کی غلطیوں پر اساتذہ کرام نے مجھے اپنی تائیدات اور حوصلہ افزائیوں سے نوازا تھا جن میں کنزالدقائق ، شرح الوقایہ اور نورالانوار و اصول الشاشی وغیرہ فقہ واصول فقہ کی کتابیں شامل تھیں اور مفتی عبدالمنان ناصر لورالائی کی طرف سے بھی فقہی مسائل میں کتابوں کے مقابلے میری تائید ہوتی تھی۔ ان اساتذہ کرام اور دیگر بہت سارے اساتذہ کرام کی تائیدونصرت اور حوصلہ افزائی ہی کا نتیجہ ہے کہ مجھے اللہ نے بڑی توفیق عطا فرمائی۔

غلام احمد پرویز نے حدیث کا انکار کرنے سے زیادہ قرآن کی واضح آیات کا انکار کیا ہے۔ جب اللہ نے بہت سلیس انداز میں مسائل کا ذکر کیا ہے تو پھر غلام احمد پرویز کو اپنی طرف سے تبویب القرآن لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ لیکن چونکہ علماء نے بھی قرآن کو بے ربط کرکے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیا تو پرویز کو موقع مل گیا اور بہت سارے علماء اور لکھے پڑھے طبقے کو متاثر کرکے نئی تعبیرات ایجاد کردیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی اس سے متاثر ہے لیکن طلاق کے حوالہ سے پرویز کا ذکر نہیں کیا ہے۔ جس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ احادیث کا ذخیرہ اور صحابہ کرام کے فتوے غلط ہیں ،بالکل بھی نہیں۔

حضرت عمر دارالافتاء میں بیٹھ کر مفتی نہیں تھے کہ کوئی فتویٰ دے رہے تھے بلکہ عدالت سے لوگوں کو انصاف فراہم کررہے تھے۔ ایک تنازعہ آیا کہ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہے۔ اب حضرت عمر نے کیا فیصلہ دینا تھا؟۔ ظاہر ہے کہ قرآن میں واضح ہے کہ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تو پھر شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے اور حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دے دیا۔ جب شوہر نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور جھگڑا حضرت عمر کے دربار میں آگیا اوران کا تصفیہ ہوگیا اور صلح کیلئے راضی ہوگئے تو پھر رجوع کا فیصلہ ہوگیا۔ فقہاء نے اس کو نام دیا کہ یہ حضرت عمر نے ایک طلاق قرار دی ہے۔ حالانکہ یہ قرآن وحدیث سے بہت بڑی ناواقفیت ہے۔

حضرت علی کے دور میں شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا اور رجوع نہ کرنے پر عورت ڈٹ گئی تو پھر حضرت علی نے فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ علماء وفقہاء نے اپنی کم عقلی سے حضرت علی پر تہمت باندھ دی کہ حرام کے لفظ پر تین طلاق قرار دیا ہے۔

 

حضرت عمر و حضرت علی میں حلال وحرام پر کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اگر قرآن اور سنت کو امت مسلمہ سمجھ لیتی تو حضرت عمر وعلی میں اختلاف نہیں دکھائی دے سکتا تھا۔ لیکن قرآن کو انہوں پس پشت ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے گمراہی پر گامزن ہوگئے۔

 

حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت کا مطلب یہی ہے کہ پہلے 3 طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی اور پھر حضرت عمر نے اکٹھی تین پر تین کا فیصلہ دے دیا کہ حضرت عمر کے دور میں پہلا تنازعہ کھڑا ہوا تھا ۔ پھر حضرت ابن عباس کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہے کہ اکٹھی تین طلاق کو ایک بھی قرار دیا اور تین بھی۔ بلکہ جس صورت میں عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تھی تو رجوع کا فتویٰ دیتے تھے اور عورت رجوع پر راضی نہیں ہوتی تھی تورجوع کا فتویٰ نہیں دیتے تھے اور یہی حال آپ کے پانچوں شاگردوں کا بھی تھا۔ جن میں اختلاف نہیں تھا بلکہ مختلف صورتحال پر فتویٰ الگ الگ طرح کا دیا جو قرآن کے مطابق ہوتا تھا اسلئے کہ عورت راضی ہو تو رجوع ہوسکتا تھا ۔عورت راضی نہ ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

جن احادیث میں تضادات نظر آتے ہیں تو ان میں بھی تضادات قطعی طور پر نہیں ہیں۔ مثلاً فاطمہ بنت قیس کے حوالہ سے ایک قسم کی روایات یہ ہیں کہ اکٹھی تین طلاقیں دیں اور دوسری قسم میں ہے کہ الگ الگ تین طلاقیں دی ہیں۔ اب دونوں کی تطبیق یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دی ہوں گی لیکن پھر شمار ایک ہوئی ہوگی اسلئے پھر الگ الگ بھی تین مرتبہ مرحلہ وار طلاقیں دی ہوں گی۔ احناف کے مسلک ضعیف روایات میں بھی تطبیق ممکن ہو تو تطبیق ضروری ہے اور کسی روایت کو حتی الامکان رد کرنے کی ضرورت نہ ہو تو رد نہیں کرنا چاہیے۔

پہلے دور میں یہ سوچ نہیں تھی کہ عدت میں بھی رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اماںعائشہ سے فتویٰ پوچھا گیا کہ عورت نے تیسرے حیض میں اپنی عدت کو مکمل قرار دیا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ بالکل ٹھیک ہے ۔ عدت کے تین ادوار سے مرادتین اطہار پاکی کے ایام ہیں۔ قرآن وحدیث میں بھی یہ بالکل واضح ہے مگر حنفیوں کو ریاضی کا جنون چڑھ گیاکہ اس طرح عدت میں 3کا عدد پورا نہیں ہوگا۔ جس طہر میں طلاق دی تو وہ ادھوری ہوگی اور دو طہر اور مل جائیں گے تو ڈھائی بن جائیں گے۔ اسلئے حیض مراد ہے تاکہ تین کا عدد مکمل ہوجائے۔

پھر جن پاکی کے دنوں میں طلاق دی ہے تو تین حیض کیساتھ وہ بھی شامل ہوں گے اور ساڑھے 3 بن جائیںگے؟۔تو قرآن کے خاص عدد3 پرعمل نہیں ہوگا۔ اتنی بڑی مدت کے اضافہ سے عورت کی اذیت میں اضافہ ہوگالیکن اس کی بھی پرواہ نہیں۔

جس طرح روزہ کی نیت سورج نکلنے کے بعد بھی کچھ کھائے پیئے بغیر ہوتی ہے اور روزہ پورا شمار ہوتا ہے ادھورا نہیں،اسی طرح طہر میں ہاتھ لگائے بغیر طلاق کی عدت کا عدد پورا شمار ہوگا ادھورا نہیں۔

حنفی فقہاء وعلماء نے طہر کو عدت الرجال ،حیض کو عدت النساء قرار دیا۔ جس کی وجہ سے سورہ طلاق کا ترجمہ بھی درست نہیں بن سکتا اسلئے کہ اللہ نے یہ فرمایا کہ فطلقوھن لعدتھن ”پس ان کو طلاق دو ان کی عدت کیلئے” تو ترجمہ ہوگا کہ حیض کیلئے ان کو چھوڑدو۔ جس میں مقاربت ویسے بھی منع ہے اور جس طہر میں طلاق دی جاتی ہے تو اس سے پہلے کی حیض میں بھی مقاربت نہیں ہوتی اسلئے وہ حیض بھی انتظار کی مدت میں شامل ہے۔ جیسے اعتکاف کے آخری دس دن میں جونہی عید کے چاند کی خبر ملتی ہے تو اعتکاف والے قید سے آزاد ہوتے ہیںاسی طرح جب عورت کوحیض آتا ہے تو عدت پوری ہوتی ہے البتہ عورت جدائی نہیں چاہتی اسلئے بڑھانے سے اس پر اثر نہیں پڑتا لیکن قرآن وحدیث کے برعکس جو غیر فطری مسائل گھڑے گئے ان سے جان چھڑانا بہت ضروری ہے۔ مولانا بدیع الزماننے قرآن و اصول فقہ کی تعلیم دی اور نصاب کے مقابلے میں میری حوصلہ افزائی فرمائی۔اس دور کے طالب علم اور اساتذہ کرام گواہی دیں گے۔

فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ (سورہ البقرہ آیت:230)
‘اگر پھر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے وہ نکاح کرے”۔

اس کا پہلا معرکة الآراء مسئلہ یہ ہے کہ اس میں موجود طلاق کا تعلق کس سے ہے؟۔ حنفی مسلک میں اس کا تعلق فدیہ کی صورت سے ہے جو عربی قواعد کا تقاضہ ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد علامہ تمنا عمادی مشرقی پاکستان ریڈیو سے قرآن کا درس دیتے تھے اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع، علامہ سیدمحمدیوسف بنوری،مولانا ابولاعلی مودودی ، علامہ شبیراحمد عثمانی اور حنفی واہل حدیث اور شیعہ علماء کرام اس کے علم کے سامنے خس وخاشاک تھے۔ انہوں نے کتاب ”الطلاق مرتان” لکھی ہے جس کا علماء نے جواب نہیں دیا بلکہ ڈائنوسار کی طرح اپنی بڑی بڑی دم رکھتے توگھسیڑ دیتے تھے۔ علامہ عمادی نے حنفی اصول اور عربی قواعد سے یہ طلاق خلع کیساتھ سے منسلک کردی ۔ اگر حنفی مسلک کا نام لیکر اس پر بس کرتے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا تھا لیکن تمناعمادی نے احادیث کی کتابوں کو قرآن کے خلاف سازش قرار دے دیا اور اپنی کتاب میں دو باتیں بنیادی ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ ایک یہ کہ قرآن نے مرد کی طرف سے تیسری طلاق کا خاتمہ کردیا تاکہ کوئی عورت مرد کی غلطی سے حلالہ کی شکار نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ حلالہ کو خلع سے منسلک کردیا کہ عورت کی طرف سے خلع ہوتا ہے تو سزا بھی اس کو ملتی ہے۔

اگر بالفرض علامہ تمناعمادی کا استدلال رائج ہوتا تو بھی انتہائی غلط تھا اور اس کا تدارک قرآن میں موجود تھا۔ جس ”ف” تعقیب بلا مہلت نے علامہ تمنادی اور فقہ حنفیہ کو یہاں تک پہنچادیا تھا تو اس کی وجہ دو مرتبہ طلاق فامساک بمعروف او تسریح باحسان میں دو مرتبہ کے بعد تیسری طلاق بھی وہاں ثابت ہوجاتی ہے اور پھر جب آیت231البقرہ نے تین مرتبہ طلاق اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے تو آیت232البقرہ میں خلع کے بعد بھی بغیر حلالہ کے رجوع ہوتا۔

الغرض علامہ تمنا عمادی بہت بڑے آدمی تھے۔ غلام احمد پرویز جیسے لوگ اس کی شلوار کی جیب میں ہوتے مگر علماء ومفتیان نے کراچی میں ان کو گمنامی کی قبر میں دھکیل دیا۔ مفتی تقی عثمانی اس وجہ سے کہتا ہے کہ بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں جن کی علمی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا مگر آج ان کا کوئی نام بھی لینے والا نہیں ہے۔ مفتی تقی عثمانی بھی ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان اور ہمارے پیر بھائی مولانا عبدالحق فاضل دیوبند کے شاگرد ہیں۔ اس نے تو اپنے استاذ کے پیر حاجی محمد عثمان پر بہت بڑا سازشی فتویٰ لگادیا۔ میرا اور اس کا مشترکہ استاذ حضرت مولانا بدیع الزمان اسکے غلط فتوے کا مقابلہ کرنے پر شاباش دے رہے تھے۔ پھر سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے مسئلے پر بھی اس کوچت کردیا تھا۔

حلال وحرام کا ڈھونگ اسلئے رچایا جارہاہے کہ سودی بینکاری جیسی معیشت کو عالمی سازش کیساتھ جائز قرار دیدی ہے جس پر جامعہ فاروقیہ الفاروق نے پورا مضمون شائع کیا اور بنوری ٹاؤن کراچی کی طرف سے بھی پھر وہی مضمون شائع کیا گیاہے۔

قرآن وحدیث اور فقہ حنفی کے ٹھیک مؤقف یا اقرب الی الصوب کو میری وجہ سے انشاء اللہ بہت پذیرائی ملے گی۔ اکابر دیوبند کے کراچی میں اصل جانشین دو ہیں ۔ایک مفتی حسام اللہ شریفی رکن مجلس تحقیقات رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ جو مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں جو قاری طیب، مفتی محمد شفیع ، مولانا یوسف بنوری وغیرہ کے بھی استاذ تھے اورحضرت شریفی صاحب شیخ الہندکے ایک واسطہ سے شاگرد ہیں۔ مولانا غلام رسولہزاروی شیخ الہند مولانامحمود الحسن کے شاگرد تھے۔مولانا محمد یوسف لدھیانوی شریفی صاحب کو استاذ کا درجہ دیتے تھے اور مفتی اعظم امریکہ میرے کلاس فیلو مفتی منیر احمد اخون کے شریفی صاحب دادا استاذ ہیں۔

شریفی صاحب کو مولانا احمد علی لاہوری نے بھی مسائل کا حل اور فتوے لکھنے کی اجازت دی تھی لیکن الحمدللہ شریفی صاحب میری تائید فرمارہے ہیں اور انہوں نے قرآن پر دوبڑی کتابیں بھی لکھی ہیں اور ان کا نام مولانا حسین احمد مدنی نے رکھا تھا اور انکے پاس اورنگزیب بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن بھی ہے۔ مجھ پر اتنی شفقت فرماتے ہیں کہ ان کے پاس جانے سے شرمندگی ہوتی ہے۔ اتنا بڑا انسان مجھ سے عقیدت رکھے تو شرمندگی کے سوا کیا ہوگا؟۔

اکابرعلماء دیوبند کی تحریکوں کے اصل دوسرے جانشین حضرت مولانا قاری اللہ داد صاحب ہیں۔ جمعیت علماء اسلام، تنظیم اہل سنت، تحفظ حقوق اہل سنت والجماعت ،سواداعظم اہل سنت اور سپاہ صحابہ سب کے اکابرین کے اصل جانشین ہیں۔ الحمدللہ میرے لئے سرپرست بڑے بھائی کی طرح ہیں۔

مولانا محمدامین شہیدہنگوکوہاٹ نے مجھے نماز کی امامت کیلئے زبردستی آگے کیا۔ مولانا نصر اللہ توحید آباد صادق آباد رحیم خان میرے استاذ تھے۔ بہت محبت رکھتے تھے۔مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے بیعت ہوگئے تھے ۔ مولانا مفتی کفایت اللہ فیوچر کالونی ، خطیب مولانا عبدالرحمن اور مولانا مفتی عبدالرؤف ہالیجیکے علاوہ بہت نام ہیں جن سے شاگردی کا شرف ملا اور ان کی دعائیں بھی الحمدللہ ساتھ ہیں۔ مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا عبدالکریم بیرشریف، مولانا سرفراز خان صفدر ، مولانا خان محمد امیرمرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت اور تمام مکاتب فکرکے پروفسیر شاہ فرید الحق جمعیت علماء پاکستان، علامہ شفاعت رسول نوری، حضرت مفتی خالد حسن مجددی، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالرؤف صدراتحادالعماء سندھ، علامہ طالب جوہری، علامہ حسن ظفر نقوی ، ڈاکٹر اسرار احمد اورمولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہلحدیث بڑے بڑے ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کی تائید کی ایسی مثال بہت مشکل سے مل سکتی ہے۔

پہلے سال جب جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا اورمولانا مفتی عبدالسمیع شہید سے سرِ راہ بحث ہوگئی جو شرح جامی کے بعد میں استاذ بن گئے اور پہلے استاذ نہیں تھے۔ طلبہ کا ہجوم جمع ہوا اور آخر میں انہوں نے کہا کہ ”تم افغانی پڑھ کر آتے ہو اور مقصد علم حاصل کرنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہوتاہے” اور پھر میر ی آنکھوں میں آنسو آئے اور کسی طالب علم نے مجھے کہا کہ صوفی صاحب چلو اور مسجد کے ایک کونے میں لے جاکر کہا کہ ”اپنا ذکر کرو”۔

دوسرے دن شہرت ہوئی کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتازانی ہیں۔ میں نے کہا کہ میری قابلیت نہیں اور اپنے استاذ مولانا عبدالمان ناصر سے وہی پوچھا تو سیکنڈ وں میں جواب دیا۔یہ سب صرف تحدیث نعمت کے طور پر نہیں بتارہاہوں بلکہ وہ علمی حقائق ہیں جس سے مولانا فضل الرحمن سمیت سب علماء ومفتیان سب اچھی طرح سے آگاہ بھی ہیں۔

ایک طالب علم کو قرآن وحدیث کچھ پتہ نہیں ہوتا ہے او راس کو پڑھایا جاتا ہے کہ آیت حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ میں عورت خودمختار ہے کہ وہ جس سے چاہے نکاح کرے۔ احادیث میں ولی کی اجازت کو ضروری قرار دیا ہے تو 200کے قریب احادیث قرآن کے اس حکم کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔

حالانکہ حنفی مسلک کا تقاضہ تھا کہ اس میں تطبیق کی جاتی کہ آیت سے مراد طلاق شدہ عورت ہے اور حدیث میں کنواری کا ذکر ہے۔ بیوہ کو اس سے زیادہ واضح الفاظ میں اپنی جان کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اجازت ہے۔ ایک طرف جمہور کی مت ماری گئی ہے کہ قرآن کی واضح آیات کے اندر بیوہ اور طلاق شدہ کو خود مختار قرار دیا گیا ہے لیکن یہ احادیث کی وجہ سے اس کو نہیں مانتے۔ پھر دوسری طرف احناف تواتر کی حد تک پہنچنے والی احادیث کو نہیں مان رہے ہیں۔ جب قرآن و احادیث پر اتفاق نہیں ہوگا تو اجماع کہاں سے آئے گا؟۔

پاکستان میں حنفی مسلک والوں کی اکثریت ہے لیکن آئے روز انتہائی تشویشناک خبریں آتی ہیں۔ ہزارہ میں کورٹ میرج کرنے والی لڑکی کو اپنی 6ماہ کی بچی کے ساتھ جس بہیمانہ انداز میں شہید کیا گیا تو یہ علماء کے اختلافات کا شاخسانہ بھی ہے۔ علماء و مفتیان کو قرآن و احادیث اور اسلام سے زیادہ اپنا مدرسہ اپنے پیٹ کیلئے آباد کرنے کی فکر لگی ہے۔

ایک بات علماء ، دانشور اور پڑھے لکھے لوگوں کو غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے سابقہ صدر اُستاذ العلماء محدث العصر شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ

” خبر واحد سے احناف کے نزدیک حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ میں نکاح پر حلالہ میں جماع کا اضافہ نہیں ہوسکتا ۔لیکن احناف احادیث کی وجہ سے نہیں بلکہ نکاح کا معنی جماع کرنے کی وجہ سے ہی حلالہ میں جما ع کا حکم لگاتے ہیں”۔

ایک طرف علم کی یہ بہت بلند چوٹی ہے کہ حنفی مسلک میں اتنے زبردست اصول ہیں کہ اگر کسی حدیث میں جماع کا حکم ہو تب بھی اس سے جماع ثابت نہیں ہوتا بلکہ قرآن میں جماع کا ذکر ہوتا پھر ثابت ہوتا۔ یہ بہت بہترین اور زبردست علم ہے۔

دوسری طرف یہ کہنا کہ نکاح سے جماع مراد ہے بہت بڑا معمہ ہے جس کو حل کرنا ضروری ہے۔ نکاح کو جماع قرار دینے سے جن گھمبیر مسائل نے جنم لیا ہے ان کے بھیانک انجام سے مولانا سلیم اللہ خان صاحب بھی بے خبر نہیں تھے۔ لیکن جب بڑھاپے میں دار العلوم دیوبند یوپی انڈیا اور اپنے ملک پاکستان کے تمام علماء کرام و مفتیان عظام کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے شاگرد مفتی تقی عثمانی کو سودی بینکاری پر نہیں منواسکے تو اکابر کے نصاب سے لڑنا پیرانہ سالی میں ایک انتہائی مشکل مسئلہ تھا۔

تیسری طرف اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی ضعیف حدیث میں بھی حلالے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ جس پر حلالے کی امارت کھڑی کی گئی ہے جس کا تفصیل سے ذکر کردیا ہے۔

چوتھی طرف اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب حنفی اصولِ فقہ کے مطابق نکاح پر حدیث سے جماع کا اضافہ نہیں ہوسکتا ہے تو پھر قرآن میں کتنی واضح واضح آیات میں باہمی صلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ جن کے مقابلے میں کوئی بھی خاطر خواہ حدیث نہیں ہے تو پھر مذہب کے نام پر کتنی بڑی بلڈنگ کھڑی کردی گئی ہے؟۔ میں علماء و مفتیان کا دشمن ضرور ہوں مگر ان کا جو شیطان کے نائب اور اسلام کے دشمن ہیں اور علماء حق میرے سر کے تاج اور اُستاذ ہیں۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ النساء آیت 15 میں بدکاری کی چار شہادتوں پر گھر میں نظر بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ اس کو موت آجائے یا پھر اللہ اس کیلئے کوئی راستہ نکال دے۔

ظاہر ہے کہ یہ شکایت اور گواہی کسی مرد کے ساتھ پکڑے جانے کی صورت میں نہیں ہوسکتی بلکہ بے راہ روی کا شکار کوئی بیوہ ، طلاق شدہ ، کنواری کا معاملہ ہوسکتا ہے۔ جب تک اللہ کسی شوہر سے اسکا مسئلہ حل نہ کردے تو ماحول کو بگاڑنے نہ دیا جائے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ سورہ نور کی آیات سے اس کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ جس میں زناکار مرد و عورت کو 100، 100 کوڑے لگانے کا حکم ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ شادی شدہ کیلئے سنگساری کا حکم ہے۔

جس آیت سے سابقہ آیت منسوخ ہوگئی تو اس میں سنگساری کا ذکر نہیں ہے تو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی لکھتے ہیں کہ پہلی آیت النساء 15سے سنگسار کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ ہم بنوری ٹاؤن میں پڑھتے تھے تو مولانا سلطان محمد محسود دورۂ حدیث میں تھا۔ اس نے بتایا کہ تخت پر بیٹھے مفتی ولی حسن بخاری پڑھا رہے تھے اور پاجامہ پھٹا ہوا تھا۔ طلبہ ہنس رہے تھے اور اچانک مفتی صاحب کی نظر وہیں پڑی تو ا س نے کہا کہ ”میں بھی بڑا چوتیا ہوں”۔ جب بیگم راعنا لیاقت علی خان نے قادیانیوں کے حق میں کوئی بیان دیا تھا تو روزنامہ جنگ کراچی میں مفتی ولی حسن کا بیان چھپا تھا کہ” اس کی رگ پھڑک رہی ہے”۔ جس پر عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ ہوا۔ مفتی ولی حسن سے جج نے مطالبہ کیا کہ معافی مانگو۔ مفتی ولی حسن نے کہا کہ میرا تعلق علماء دیوبند سے ہے معافی نہیں مانگ سکتا۔ جس پر قاری شیر افضل خان نے مفتی اعظم پاکستان کا نعرہ لگایا۔ اس دن سے وہ مفتی اعظم پاکستان بن گئے۔

قرآن میں عورت کی جان چھڑانے کیلئے آیت 230البقرہ میں کسی اور شوہر سے نکاح کا حکم ہے۔ پشاور کے کھیتوں سے ایک خاتون کی لاش ملی تھی جو حلالہ کے وقت دوسرے شوہر سے خوش ہوگئی اور پھر جدا نہیں ہونا چاہتی تھی اور اس کو سزا مل گئی۔ عورتوں کو معاشرے میں سزا مل جاتی ہے اور جتنی شریعت یا مولوی کے مذہب میں ہے اس سے زیادہ ملتی ہے۔ قرآن اور حدیث کو ٹکرائیں گے تو مولویوں کے سر ٹوٹ جائیں گے لیکن اتفاق نہیں ہوگا۔ حنفی مسلک میں اگر کنواری لڑکی کو کورٹ میرج کی اجازت ہو تو پھر مساجد میں کھلے عام تبلیغ کرنی ہوگی ۔ قتل کی بھی مذمت کرنی ہوگی۔ احادیث اپنی جگہ پر بالکل ہی درست ہیں جس کی وجہ سے ناگوار معاملات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور اس کا دائرہ کار غیر مسلموں کی لڑکیوں تک بھی بڑھانا چاہیے۔ البتہ قرآن اور حدیث کی اس تعلیم کو عام کرنا چاہیے کہ لڑکی راضی نہیں ہو تو اس کا نکاح زبردستی سے کرنے کی باپ کو بھی اجازت نہیں ہے۔ جہاں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور دیگر جاہلوں نے بچیوں کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے جو ان کی مرضی کے بغیر ہو تب بھی تو ان کو الیکٹرانک میڈیا پر لاکر بے نقاب کرنا چاہیے۔

اگر کسی کنواری لڑکی کو کسی سے عشق ہوجائے تو پھر قرآن سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ جہاں اللہ نے فرمایا ہے کہ ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردنا تحصنًا لتبتغوا عرض الحیاة الدنیا ومن یکرھن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیم ”اور اپنی لڑکیوں کو مجبور مت کرو بغاوت پر جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم دنیاوی زندگی اس کے ذریعے تلاش کرو اور جس کو مجبور کیا گیا ہو تو ان کی مجبوری کے بعد اللہ غفور رحیم ہے۔ (النور:33)

جو لوگ اپنی دنیاوی وجاہت کی غرض سے اپنی لڑکیوں کو ان کی مرضی کے مطابق نکاح کی اجازت نہیں دیتے تو ان کی دنیا بھی تباہ ہوجاتی ہے اور اگر اللہ کے حکم کے مطابق ان کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ان کا نکاح کردیتے تو اللہ کے حکم پر عمل ہو تا۔ جب لڑکی کورٹ میرج کرتی ہے تو بسا اوقات اپنا مستقبل تاریک کردیتی ہے۔ اسلئے احادیث میں ان پر روکنے کیلئے زور ڈالا گیا ہے ۔ لیکن قربان جائیں اس اللہ پر جس نے اپنے قرآن میں ایک ایک مسئلے کا حل اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس کو دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجائیں۔ لیکن افسوس کہ مسلمان مسلمان نہیں ہوتے۔ نبی ۖ نے بھی اگر ایک طرف لڑکی کو اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سے روکنے کی بات کی ہے تو دوسری طرف ولی کو بھی پابند کیا ہے کہ اس کی مرضی سے ہی اس کا نکاح کیا جائے۔ قرآن و سنت کے جس توازن سے مسلمان جہالتوں کے جس اندھیرے سے نکل سکتے تھے وہ پوری دنیا کیلئے مشعل راہ ہے۔ مسلمان مذہبی طبقات پر تکیہ کرکے بیٹھے ہیں کہ وہ کچھ کریں گے تو پھر ہم اپنی جہالتوں سے نکل سکیں گے لیکن علماء اپنی جہالتوں سے نکل جائیں تو بھی یہ مرد کے بچے ہوں گے۔ قرآن اپنی آیات کو منسوخ نہیں کرتا بلکہ توراة اور انجیل کی بھی تصدیق کرتا ہے اور دنیا کے تمام درست مذاہب کی تصحیح بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علماء کرام ، مشائخ عظام ، طلباء واجب الاحترام کو توفیق دے کہ یہ سال نصاب میں ضائع کرنے کے بجائے نصاب کو درست کرنے پر ہی لگادیں۔ ماحول سے نکلنا مشکل کام ہے لیکن نکلنا بھی ضروری ہے اور نکلیں گے۔ انشاء اللہ العزیز

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حرمت مصاہرة کا راکٹ سائنس علماء ومفتیان کی سمجھ سے بالاتر

(قولہ : فلاحرمة) لانہ بانزال تبین أنہ غیرمفض الی وط ء ھدایة… فان أنزل لم تثبت والا ثبت لا انھا ثبت بالمس ثم بالانزال تسقط ؛ لأن حرمة المصاہرة اذا تثبت لاتسقط أبدا

(اسکا قول:تو حرمت نہیں)اسلئے کہ انزال واضح کرتاہے کہ لمس جماع تک نہیں پہنچائے گا۔ہدایہ….. پس اگر انزال ہوا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں اور اگر انزال نہیں ہوا تو حرمت مصاہرت ثابت ۔ اسلئے نہیں کہ حرمت ثابت ہے شہوت سے چھونے پر اور انزال سے ساقط ہوگی کیوںکہ جب حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے تو پھرساقط نہیں ہوتی ہمیشہ کیلئے۔

(واصل مساتہ وناظرة الی ذکرہ والمنظور الی فرجھا) المدور(الداخل) ولونظر ہ من زجاج أو ماء و ھی فیہ والعبرة للشھوة عندالمس أوالنظر لا بعدھما وحدھا فیھا تحرک آلتہ أو زیادتہ بہ یفتی

”اصل شہوت سے چھونے ،دیکھنے میںعورت کا مرد کے ذکرکواور مرد کا عورت کے فرج کے اندورنی حصہ کو دیکھنا ۔ اگر شیشہ میں دیکھا یا پانی میں اوروہ اس میں ہو۔ اور شہوت اس وقت معتبرہے کہ جب لمس یا دیکھتے وقت ہو ،بعد میں نہیں۔ حد اس کی آلہ کی حرکت یا حرکت کا زیادہ ہونا ۔ اسی پر فتویٰ ہے۔

وعلی ھذا ینبغی ان یکون المس الفرج کذلک بل اولیٰ لأن تاثیرالمس فوق تأثیرالننظر ”چاہیے کہ فرج کا چھونا بھی ہواسلئے کہ ٹچ کی ثاتیر نظر سے زیادہ ہے”۔

فتاویٰ شامی میں کتب کے حوالہ جات، اعتراض اورجواب: جو بنوری ٹاؤن کراچی کے ویب سائٹ پر ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر ساس کی شرم گاہ کے داخل پر شہوت کی نظر پڑگئی، اگرچہ شیشہ یا پانی میں ہو توبیوی حرام ہوگی تو شرم گاہ کو چھونے سے بدرجہ اولیٰ حرمت ثابت ہونا چاہیے اسلئے کہ عضوتناسل کو شرم گاہ کے بیرونی حصہ پر رگڑنے کی تاثیر نظر پڑنے سے زیادہ ہے تو اس کا جواب دیا گیا کہ شہوت سے رگڑا لگانے اور چھونے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے بلکہ شہوت چھونے کے بعد موقوف ہوتی ہے۔ اگر انزال ہوگیا تو واضح ہوا کہ حرمت ثابت نہیں ہوئی اوراگر انزال نہیں ہوا تو پھر حرمت ثابت ہوگئی اسلئے کہ مصاہرت کی حرمت ثابت ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتی”۔مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی اور علماء ومفتیان کا اسلام ماننے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں یہ قرارداد پیش کریں کہ محرمات کو شہوت سے چھونے کے بعد انزال تک نہ چھوڑو۔ تاکہ بیوی حرام نہ ہو۔اسلئے کہ انزال نہیں ہوا تو بیوی حرام ہوگی۔تمام الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی اعلانات کرو ۔اور اگریہ غلط ہے اور واقعی غلط ہے تو مدارس کو لگام دی جائے۔ دہشت گردی پر کیسے قابو پاسکتے ہیں؟۔ خالی فقہی مسائل کو اٹھانے سے بھی دہشت گردی کا نہ صرف خاتمہ ہوگا بلکہ نفسیاتی مریض مفتیوں کا علاج بھی کرنا پڑے گا۔ پھر ہمارا ریاستی اورعدالتی نظام بھی ٹھیک ہوجائے گا ۔

پیداہوا وکیل تو شیطان نے کہا

لوآج میں بھی صاحب اولاد ہوگیا

اکبر الٰہ آبادی نے وکیل کو شیطان کی اولاد قرار دیا اور حنفی مسلک کے وکیل تو ان سے آگے ہیں ۔ اسلام کے نام پر فقہی مسائل کی صورتحال اس سے بدتر ہے۔

جس طرح اکثر نالائق جب دوسری ڈگری حاصل نہیں کرسکتے تو وکیل بن جاتے ہیں ،اسی طرح اکثرنالائق علماء بھی مفتی کا کورس کرلیتے ہیں۔

داتا گنج بخش اورمولانا اشرف علی تھانوی کی کتابوں میں نبیۖ اور داؤد کے حوالہ سے شہوت کی نظر پڑنے پر اوریا اور زید کی بیوی کا نکاح میں آجانے کا مسئلہ بھیانک ہے جس کے خلاف عالم اسلام کے علماء نے لکھا۔ غلط مسائل سے جان چھڑائیں۔جس شہوت کی تاثیر اتنی ہوتوقرآن میں مرد اور عورت کو شہوت کی نگاہ سے بچنے کا حکم ہے ورنہ حج وعمرہ میں عورت کو چہرہ کھلا رکھنے کا حکم کیوں دیا جاتا؟۔

 

مرج البحرین یلتقیان بینھما برزخ لا یبغیان

اس نے دو سمندر کو ملادیا جو باہم ملے ہوئے ہیں ،دونوں میں پردہ ہے، نہیں کرتے حد سے تجاوز

کیاحنفی اور شافعی مسلک واقعتا اہل حق کے2دریاہیں؟

سوال:فقہی احکام میں اتنے تضادات کے باوجود حنفی اور شافعی دونوں مسالک اہل حق کیسے ہیں؟۔

جبکہ صورتحال یہ ہے کہ حنفی مسلک میں اگر بہو یا ساس کو شہوت سے ہاتھ لگادیا اوربغیر کے کپڑے یا اتنا باریک کپڑا تھا کہ حرارت محسوس ہورہی تھی تو حرمت مصاہرت ثابت ہوگی لیکن شافعی مسلک میں زنا سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں اگر بیوی کی سوتیلی بیٹی حجرے میں نہ پلی ہو تو اسکے ساتھ بھی نکاح جائز ہے۔

جواب : حنفی مسلک میں انزال کے بعد حرمت مصاہرت نہیں تو اسلئے مصر میں30اگست کو ”یوم البوسہ” منانے کیخلاف دونوں متحد ہیں کہ کیا پتہ چلے گا کہ انزال ہوا یا نہیں؟،اور کون حنفی اور کون شافعی ؟ ۔ ہاہا ہا….

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ قوام حکمرانی نہیں بلکہ طاقتور کا کمزور کوعدل وتوازن کا سہارا ہے

اذا انفقوا لم یسرفوا و لم یقتروا وکان بین ذٰلک قوامًا”خرچ میں نہ اسراف نہ بخل انکے درمیان اعتدال”

الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ قوام حکمرانی نہیںبلکہ طاقتور کا کمزور کوعدل وتوازن کا سہاراہے

الاتطغوافی المیزان

آسمانی توازن اللہ نے قائم کیا ۔ زمین کاتوازن قائم کرنے کی ذمہ داری ارضی خلیفہ انسان پر ہے۔

دماغی توازن بگڑا توپاگل ،جسمانی توازن بگڑا تو فالج زدہ اور کرداربگڑا تو بدچلن ہے۔ دائیں ہاتھ و پاؤں بائیں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں تو بوجھ، لڑائی اور بھاری کام دائیں ہاتھ سے لیتے ہیں اور فٹ بال کی کک دائیں پاؤں کا کام ہے۔ یہی فطرت ہے اور اسلام بھی فطری نظام حیات ہے۔

والذین اذا انفقوالم یسرفواولم یقتروا وکان بین ذٰلک قوامًا ”اور جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اورنہ بخل اور انکے درمیان متوازن ہیں”۔ (الفرفان:67)

قوام کا معنی متوازن ہے ۔قرآن میں مردوں کو صنف نازک عورتوں پر حکمران نہیںقوام بنایا گیا ۔
قوام صنف نازک کی مدافعت ، کمزوری پر قابو رکھنا ہے۔ حکمران کا کام بھی رعایا کی کمزوری کیلئے طاقت کا توازن معتدال بنانا ہے۔ جیسے ماں بچوں کی کمزوری کا دفاع کرتی ہے اسی طرح حکمران اور شوہر کا کام کمزوری کا دفاع ،عدل وتوازن ہے۔

اگر اس کی حقیقت سمجھ میں آجائے تو بیویوں اور رعایا پر ظلم نہیں ہوگا۔ سکیورٹی طاقت کا بنیادی مقصد کمزور کو تحفظ دینا ہے۔ سزا کا کام عدالت کا ہے اور اگر طاقتور شوہر یا ڈکٹیٹر حکمران اپنی رعایا پر ظلم کرے تو عدل وتوازن کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔

پروفیسر نورالامین نے کہا :” ہم پشتون بدھ مت تھے۔ اسلام نے ہمیںمتشدد بنادیا ۔پشتو میں پت اور ہندی میں پتی ۔ لکھ پتی، کروڑ پتی ۔ شوہر ٹرسٹ ہوتا تھا جوبیوی پر بالادست نہیں سہاراہوتاتھا”۔
قوام پر مال کاخرچہ ۔ صالحات، قانتات حافظات للغیب بما حفظ اللہ ایک درجہ مردکااور3درجات عورت کے ہیں۔شوہر خود پر بہتان برداشت کرتا ہے لیکن بیوی پر نہیں۔کیا کوئی فاسق، متکبراور خائن شوہراپنی صالحہ، عاجزہ ،عصمت کی محافظہ عورت سے محض مال خرچ کرنے پر افضل ہوسکتا ہے؟۔اگر برعکس عورت مال خرچ کرتی ہو مگر خائنہ ہو توپھرکیا شوہر اس کو افضل سمجھے گا؟۔

عورت کو عزت کامحافظ اللہ نے بنایا۔ زناکی سزا100، عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے ہے ۔ فطری خائن شوہرکو زیادہ عورتوں سے نکاح کاکہا۔ عصٰی اٰ دم ربہ فغوٰی (طٰہٰ:121)”آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی توبہکا”۔محرک حواء نہ تھی۔

اوالتٰبعین غیر اولی الاربة من الرجال ” ان تابع مردوں سے جو ٹھرکی نہ ہوں ،عورتوںکو اپنی زینت چھپانے کا حکم نہیں ”۔ (سورہ نور:31)

سوال: پھر عورت کے مارنے کا حکم کیوں دیا ؟۔

جواب : شوہر طیش میں مارتاہے، منصوبہ بندی سے بیوی کو نہیں مارتا تو اللہ نے مار سے بچانے کیلئے واضح کیا کہ مارنے سے پہلے ایک مرحلہ میں سمجھاؤ۔ پھر دوسرے مرحلہ میں بستر الگ کرلو۔ پھر تیسرے مرحلہ میں مارو لیکن اس کی اصلاح ہو تومارنے کیلئے راستہ مت ڈھونڈو۔مارنے کیلئے کیا منصوبہ ہوگا؟۔

پھول مارنا ،ہاتھ اٹھانا ناقابل برداشت انسلٹ توہین ہے لیکن بیوی بہت وفادار ہوتی ہے اوربڑی مارکھاسکتی ہے مگرشوہر سے جداپھر بھی نہیں ہوتی۔

شوہر بیوی کو رنگے ہاتھ پکڑلے تو بھی تشدد نہیں لعان کرسکتا ہے اور عورت لعان میں جھوٹ بولے اور شوہر سچا ہو تو تب بھی عورت کو سزا نہیں ہوگی۔

موسٰی نے ہارون کو داڑھی سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور ایک شخص کو مکا ماراتومرا۔ بیوی کو مارتے تو؟۔ 3 مراحل کی مار اور 3 مرتبہ کی طلاق کوہم نے کہاں تک پہنچادیا ؟ ، توراة اورانجیل کے ساتھ یہود اور نصاریٰ نے یہی کچھ کیا تھا۔

یہود نے تورات سے حلالہ کی لعنت کو رائج کردیا تھا اور نصاریٰ نے طلاق کا تصور ہی ختم کردیا تھا۔ قرآن نے جب ان کے درمیان اس افراط وتفریط کو اپنی واضح آیات سے ختم کردیا تو اس کے نتیجے میں انہوں نے قرآن کیخلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کیا تھا کہ اللہ کی آیات کو جو تورات اور انجیل میں تھیں مٹادیاہے اور بھلا دیا گیا ہے۔

مثلاً آج قرآن سے سورہ بقرہ آیت 230 کو نکال دیا جائے تو ایک طرف حلالے کا تصور ختم ہوگا اور مسلمان بہت خوش ہوں گے کہ اللہ نے بڑا فضل کیا اور بہت بڑی مصیبت سے جان چھوٹ گئی لیکن دوسری طرف پھر قرآن کی آیات سے طلاق کا تصور بھی ختم ہوسکتا ہے اسلئے علماء ومفتیان قرار دیں گے کہ اللہ نے عدت میں بھی شوہر کو رجوع کا یکطرفہ اختیار دیا ہے اور عدت کے بعد بھی رجوع کا اختیار دیا ہے جس کی وجہ سے عورت کی آزادی بالکل ہی سلب ہوجاتی ہے۔ کوئی شوہر نہیں چاہتا ہے کہ اس کی بیوی سے طلاق کے بعد کوئی اور شخص ازوداجی تعلق رکھے۔ کمزور کے خلاف ویسے بھی قانون ہی قانون بنتے ہیں۔ قرآن کی آیات میں میں عورت کے تحفظ کی کوئی کمی اللہ نے نہیں چھوڑی ہے لیکن پھر بھی سارے حقوق علماء وفقہاء نے سلب کرلئے۔

مثلاً آیت 226 البقرہ میں ایلاء کے بعد شوہر کو عدت میں بھی رجوع کا یکطرفہ اختیار نہیں ہے۔ عورت راضی ہوگی تو شوہر رجوع کرسکتا ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کے بعد رجوع کیا تواللہ نے کہا کہ سب ازواج کو طلاق کااختیار دو۔ اگر وہ نہیں چاہیں گی تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

آیت 228 البقرہ میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق شوہر کو دیا مگر اصلاح کی شرط کو نکال کر فقہی مسائل کا کباڑخانہ بنادیا گیا ہے۔

229البقرہ میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت ہے لیکن معروف یعنی صلح و اصلاح کی شرط کونکال کر رجوع کو بڑا مذاق بنادیا گیاہے ۔
یہی حال دیگر آیات 231، 232 البقرہ اور سورہ طلاق کی پہلی دوآیات کابھی کیا گیا ہے ۔

تمام آیات میں عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ آیت 230 البقرہ میں یہ حلالہ ملعونہ کا کمال ہے کہ میرا بھی حقائق کی طرف دھیان گیا ہے۔عورت کے حق کی اللہ نے رجوع کیلئے بھرپور وضاحت کی ہے اور دنیا کے سامنے حقائق آجائیں تو مسلمانوں کی بہت زیادہ ملامت کریں گے۔ تورات اور انجیل کی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے بلکہ بہتری لائی گئی ہے لیکن اس بہتری کی جگہ علماء نے قرآن کے احکام کا بیڑہ غرق کردیا۔ ایک طرف یہ بتایا کہ احکام کی کل آیات 500 ہیں تو دوسری طرف یہ بھی بتایا کہ 500 آیات منسوخ بھی ہوچکی ہیں اسلئے قرآن کی کسی ایک آیت کے حکم پر بھی فقہاء کا کوئی اتفاق نہیں ہے۔ اصول فقہ میں جتنی آیات پڑھائی جاتی ہیں ان پر اختلافات اور تضادات ہیں۔

ماننسخ من آیةٍ او ننسھا نأت بخیرٍ منھا او مثلھا الم تعلم ان اللہ علی شی ئٍ قدیر O ہم جو کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہترلاتے ہیں یا اسی کی طرح، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورہ البقرہ ۔ آیت106)

اس آیت سے کون تصور لے سکتا ہے کہ اللہ نے کسی آیت کو منسوخ کرکے پہلا حکم بدل دیا ہے؟۔ یہ تو دلیل ہے کہ پہلے سے موجود آیت کو مزید بہتری یا پھر اسی جیسی آیت نازل کی گئی ہے۔ کوئی تبدیلی کا تصور اس میں نہیں دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ، عدالت اور دنیا کے کسی بھی تعلیمی اداروں میں اس کی حقیقت سمجھنے کیلئے پیش کردو تو کوئی دشواری اس میں نہیں۔

اللہ نے فرمایا:” اور تمہاری عورتوں میں سے کوئی بدکاری کرے تو اپنوں میں سے چار گواہ لاؤ۔ اگر وہ گواہی دیں تو اس کو گھر وں میں روکے رکھو۔ یہاں تک کہ ان کوموت سے وفات آجائے یا پھر اللہ ان کیلئے کوئی راہ نکال دے”۔ (البقرہ:15)

جیسے شوہر لعان کے بعد گھر سے باہر نکال دیتا ہے۔ اس طرح کوئی عورت ماحول کو بگاڑ رہی ہو تو معاشرے میں اس کی شکایات آتی ہیں۔ جس پر اس عورت کو تادم حیات بند کرنے کا حکم ہے اسلئے کہ ایسی گرم عورتوں سے لوگوں کے گھر اور بچے بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ اگر عملی طور پر کوئی ایسی عورت کو دیکھا جائے گا تو ”میرا جسم میری مرضی” والی بھی اس کو گھر میں نظر بند رکھنے پر متفق ہوں گی۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی راستہ اللہ نکال دے۔ شوہر اس کو مل جائے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی متبادل حکم نازل ہوجائے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن کے مضامین اس پر کتابی شکل میں موجود ہیں جس میں حماقت کی انتہا کی گئی ہے کہ اس آیت سے ”رجم” مراد ہے۔

جہاں تک سورہ نور کی آیت میں 100 کوڑے کی سزا کا حکم ہے تو سزا کیلئے عورت اور مرد کو ایک ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑنے یا اقرار جرم کی صورت میں ہے۔ اس میں بھی رجم نہیں۔ بہت ہی محترم اور اچھے ویلاگر بلال غوری نے عمران اور بشریٰ بی بی پر انتہائی گھناؤنی تہمت لگانے کا ذکر کیا ہے۔ اگر اس بات کو واقعی درست سمجھ لیا جائے کہ عمران خان اور بشری بی بی کئی بار پکڑے گئے تو بھی80کوڑے کی سزا اس نوکر گواہ کو ملتی مگر یہاں معاملہ کچھ اور تھا۔

سورہ نور میں اللہ نے یہ واضح کردیا کہ زنا کار مرد کا نکاح زنا کار عورت سے کرادیا جائے۔ پھر بھی شریعت کا تقاضہ یہی تھا کہ ان دونوں کی آپس میں شادی کرائی جائے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے تدوین القرآن میں مولانا عبیداللہ سندھی اورمولانا محمد حنیف ندوی وغیرہ نے اس پر بہت اچھا لکھا ہے لیکن اگر تسلی بخش نہیں تو میں تسلی کرواسکتا ہوں اور کئی مرتبہ اس پر لکھ بھی چکا ہوں۔ جاویداحمد غامدی نے بھی ان لوگوں سے استفادہ کیا ہوگا لیکن جاویداحمد غامدی کی یہ بات سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ” آیت میں نسخ کی مثال سورہ مجادلہ کی آیات ہیں کہ اللہ نے فرمایا کہ ”جب تم نبی سے سرگوشی کرو تو صدقہ دو”۔ پھر دیکھا کہ ”مؤمن اس سے ڈر گئے تو اللہ نے معاف کردیا کہ” مت دو” اور حکم بدل دیا۔ حالانکہ اس عظیم الشان حکم میں بڑی حکمت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اگر مذہبی شخصیت سے امیرآدمی کی خصوصی ملاقات سے پہلے صدقہ دینے کا حکم ہو تو یہ غریب غرباء کیلئے زبردست ہوگا۔ لیکن اگر وہ نہیں دینا چاہے تو اس کی عزت بھی پھر خصوصی ملاقات سے نہیں بڑھے گی۔ سینیٹر طلحہ محمود کو علماء نے نماز کیلئے بھی آگے کیاتھا۔ پھر زرداری کی پارٹی میں چلاگیا۔

غامدی کا بھی کوئی ATM ہوگا اگر اس کو حکم ہو کہ غرباء کو صدقہ دو تو ATM کی حیثیت صدقے سے بنے گی۔ اگر غریب کو کچھ نہ دے تو غامدی کو بھی ہدیہ دینا بیکار ہوگا۔ یہ ا س حکم کی حکمت ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد کے پروگرام میں افغانستان کا نائب سفیر حبیب اللہ فوزی میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے 10 لاکھ کا چیک پیش کیا۔ ملاعمر نے ملاقات کیلئے یہ فیس رکھی تھی اور افغانستان کے انتظام میں اس سے مدد ملتی ہوگی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ منسوخ کے بارے میں آیت کا متن سمجھے بغیر کئی آیات کو مضحکہ خیزانداز میں منسوخ قرار دیا گیا۔ بیوہ کو سال تک نہیں نکالنے کو عدت سے منسوخ قرار دینا حماقت ہے۔ اگرشادی کرنا چاہتی ہو تو عدت ہے اور نہیں کرنا چاہتی ہو تو ایک سال تک نہیں نکالنا فطرت ہے۔ جاوید احمد غامدی پڑھاکو بچہ ہے۔ پڑھ پڑھ کے دماغ خراب ہوا ہے اور ناسخ ومنسوخ کے چکر میں پتہ نہیں کہاں جاکر دم لے گا؟۔وہ حمیدالدین فراہی کو دین کی تعبیر جدید کا بانی اور مولانا مودودی کو اسلاف کی تفسیر کی آخری کڑی قرار دیتا ہے مگر یہ خام خیالی ختم ہے۔

تفسیر کیلئے دماغ سوزی اور لغات میں گمراہ کن تعبیرات ڈھونڈ کر اسلام کو مزید اجنبیت کی طرف دھکیلنا بڑی حماقت ہے۔ علماء وفقہاء کی مصیبت یہ تھی کہ نماز کی رکعتوں میں تین مختصر سورتوں میں بھی درمیان کی سورت چھوڑنا ممنوع قرار دی تاکہ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا تصور قائم نہ ہوجائے ۔اور پھر طلاق کے مسائل میں حلف کو داخل کردیا۔ جدید مفسرین نے سلیس انداز میںگمراہی کو عام فہم بنادیا اور غلام احمد پرویز نے تبویب القرآن میں آسمان و زمین کی قلابیں ملاکر نئی تعبیر ایجاد کی مگرعلامہ بنوری کے تقویٰ ، درخواستی کی قربانی ، حاجی عثمان کی صحبت ، والدہ کی محنت ، اجداد کی برکت، مولانا نصراللہ کی دعا اور نبیۖ کی رحمت نے مجھے اعزاز بڑا بخش دیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی رشید ، مفتی حنیف قریشی اورمفتی طارق مسعود کیلئے تحریری تحفہ

قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑرکھا تھا”(الفرقان)اورفرمایا” جیسا ہم نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی کردیاہے”(الحجر)۔ علماء کا طلاق و دیگر مسائل پر یہی کردار ہے۔

جو علماء ومفتیان قرآن، سنت اور خلفاء راشدین پر متفق ہیں اورمسئلہ طلاق پر قرآن میں ڈھیر ساری وضاحتوں کے باوجود متفق نہیں ہیں اور دجالی میڈیا پر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں تویہ بتادیں کہ قرآن پر متفق کیوں نہیں ہوتے؟۔ قرآن کو کیوں چھوڑ رکھا ہے اور قرآن کو چھوڑ کر تیسری صدی ہجری میں لکھی جانے والی روایات وحدیث کی کتابوں میں کیوں امت کو الجھاتے ہیں؟۔ روایات سے قرآن کو بوٹی بوٹی بنانے کے جرم کے مرتکب کیوں بنتے ہیں؟۔

قرآن میں عدت تین مراحل یا بچے کی پیدائش ہے اور اس میں شوہر کو باہمی اصلاح کی بنیاد پر اللہ نے رجوع کا حق واضح کیا ہے۔ (البقرہ: 228)

جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ صلح کے بغیر شوہر عدت میں ایک طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دومرتبہ طلاق کے بعد بھی معروف طریقے رجوع کرنے یا رخصت کرنے کی اجازت واضح کردی۔ (البقرہ: 229)

اللہ کا حکم معروف رجوع واضح ہے کہ صلح اصلاح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے قرآن میں تضاد نہیں۔
حنفی اور شافعی مسالک کے نام پر قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیاگیا۔ حنفی کے نزدیک نیت نہیں ہو تب بھی شہوت کی نظر پڑگئی تو رجوع ہے اور شافعی کے ہاں نیت نہ ہو تو جماع سے بھی رجوع نہیں ہوگا۔ قرآن میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کو کتوں کی طرح نوچ نوچ کر بوٹی بوٹی بنادیا ہے۔ TV کے اینکر اور یہ مولوی سب مل کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

مولانا سلیم اللہ خان ، علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح”کشف الباری” اور ”نعم الباری ” میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت تمیم داری نے نبی ۖ سے پوچھا کہ ” قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے ؟۔ تونبیۖ نے فرمایا کہ آیت 229 البقرہ میں دو مرتبہ طلاق اور معروف یا تسریح باحسان اچھے انداز میں رخصت کرنا تیسری طلاق ہے”۔ آیت 228 میں عدت کے تین ادوار کی وضاحت ہے اور آیت 229 میں عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔

سورہ طلاق میں کی پہلی آیت میں بھی عدت کے 3 مراحل میں 3 مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔

کتاب التفسیر ، کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت صحیح بخاری میں نبیۖ نے واضح کیا کہ 3مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے3ادوار سے ہے۔ جب اللہ نے رجوع کا تعلق عدت سے قرار دیا ہے اور نبیۖ نے بھی یہ سمجھایا ہے تو پھر مجہول روایات سے عورتوں کی عزتیں برباد کرنے کا دھندہ کیوں نہیں چھوڑا جاتا ہے؟۔

جامعة الرشید کے مفتی رشیدنے کہا کہ ایک شخص کے بارے میں نبیۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے فرمایا کہ کیا تم اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کررہے ہو ۔ جب کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔

1:اس حدیث کا ذکر بخاری ومسلم میں نہیں۔

2:یہ واحد حدیث ہے جو حنفی مسلک میںاکٹھی تین طلاق کو بدعت اور گناہ قرار دینے کی دلیل ہے جس کو شافعی تسلیم نہیں کرتے۔

3:شافعی کے ہاں واحددلیل عویمر عجلانی کا واقعہ ہے جس سے اکٹھی تین طلاق کو سنت قرار دیتے ہیں جس کو حنفی نہیں مانتے۔

4:اس حدیث میں مجہول شخص عبداللہ بن عمر اور قتل کی پیشکش والے حضرت عمر تھے۔

5:یہ واقعہ بخاری میں زیادہ واضح ہے جہاں رسول اللہۖ غضبناک ہوئے اور رجوع کا حکم بھی دے دیا اور یہ بھی واضح فرمادیا کہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل ہے۔

6:صحیح مسلم میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھ تک ایک مستند راوی سے یہ بات پہنچی کہ عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں ۔پھر 20 سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا۔ اسکے بعد ایک زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ جس سے یہ واضح ہوا کہ منصوبہ بندی سے ہی روایات مستند لوگوں نے بگاڑے اور اگر نام بتائے جاتے تو سب ہی اس پر تبصرہ کرتے۔کیا اس کی وجہ سے قرآن پر قصائی کاٹوکا چلایا جا سکتا ہے؟۔

اگر ہم مان لیں کہ مجہول حدیث حقائق کے بغیر درست ہے تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ وہ شخص رجوع کرنا چاہتا تھا اور نبیۖ نے حلالہ کرنے حکم دے دیا۔ اگر وہ رجوع چاہتا تو نبیۖ آیت 228 البقرہ اور سورہ الطلاق کے مطابق پھر بھی بغیر حلالہ کے رجوع کا حکم فرماتے۔

جہاں تک بخاری کی روایت ہے کہ رفاعہ نے بیوی کو تین طلاق دی، پھر اس نے عبدالرحمن القرظی سے نکاح کیا اور نبیۖ کی خدمت میں عرض کیا کہ اسکے پاس کپڑے کے پلو جیسا ہے۔نبیۖ نے فرمایا کہ آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو ؟ اور نہیں جاسکتی یہاں تک آپ اس کا شہد چکھ لو جیسے کہ پہلے شوہر کا شہد چکھا اور وہ بھی تیرا شہد چکھ لے۔

بخاری نے اس کو اکٹھی تین کیلئے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔

1:چاروں مسالک بخاری کی اس بھونڈی حرکت کو تسلیم نہیں کرتے کہ ایک ساتھ تین طلاق کیلئے یہ حدیث دلیل ہے۔

2:بخاری میں بھی اسکے برعکس دو حدثیوں میں یہ نقل ہے۔ ایک میں یہ واضح ہے کہ رفاعہ نے الگ الگ طلاقیں دی تھیں۔ دوسری میں عبدالرحمن بن زبیرالقرظی نے کہا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں اس کی چمڑی مردانہ طاقت سے ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔

3:نامرد سے حلالے کا کوئی بھی قائل نہیں تو نبیۖ کی طرف اس ظلم کو منسوب کرنا بہت بڑی گستاخی ہے۔

بخاری کو غلط پیمپر پہنانے ، خواتین کی عزتوں کو تار تار کرنے اور لوگوں کے اموال کو ناجائز طریقے سے کھانے کیلئے ان علماء ومفتیان نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ یہ سارے دلائل اور اس سے کہیں بڑھ کر ہم بار بار دے چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے مسلکوں کے دنیادار لوگوں سے مال بٹورنا ہے اور غریبوں کا عقیدت کے نام پر استحصال کرنا ہے۔

اکابرصحابہ اور تابعین کی طرف من گھڑت قصے نقل کئے گئے ہیں۔ حضرت عمر نے تنازعہ کی وجہ سے اکٹھی تین طلاق پر ٹھیک فیصلہ دیا اسلئے کہ جب ایک طلاق کے بعد بھی عورت راضی نہ ہوتو صلح کے بغیر قرآن نے رجوع کو منع کردیا ہے۔ حضرت عمر مفتی نہیں حکمران تھے ۔جو لوگوں کے درمیان قرآن پر فیصلہ کرتے تھے۔ علی برسراقتدارآگئے تو ایک شخص نے بیوی کو حرام کہا تھا۔عورت صلح پر راضی نہیں تھی تو علی نے فیصلہ دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا، قرآن کا یہی تقاضا تھا۔ عمرنے حرام کے لفظ پر رجوع کا فیصلہ دیا تھا، اسلئے کہ عورت راضی ہوگئی تھی۔ قرآن ہی نہیں روایات و صحابہکے فیصلوں کا بھی کباڑہ کیا ہواہے۔

قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ میں تضادات نہیں ہیں۔ صرف اور صرف ایک حدیث ہے جس کو امام شافعی نے طلاق سنت کی دلیل بنایا ہے اور وہ لعان کے بعد عویمر عجلانی کی حدیث ہے۔ اس میں حلالہ کا کوئی سوال نہیں بلکہ قرآن کی تفسیر ہے کہ اگر عورت نے فحاشی کا کھلا ارتکاب کیا تو عدت میں بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ جیسے سورہ طلاق میں واضح ہے۔

متقدمیں علماء میں حلالہ کا چکر نہیں تھا، ان کا اس بات پر اختلاف تھا کہ اکٹھی تین طلاق کا دینا سنت ہے یا بدعت؟۔اسلئے کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو تو یہ مصلحت کے خلاف ہے۔ پھر تنازع بڑھا تو سنت وبدعت میں بٹ گئے۔ مزید معاملہ بڑھاپھر حضرت عمر پر سوال اٹھ گیا؟۔پھر آخرکار حلالہ تک نوبت پہنچ گئی اور آج یہ کاروبارہم خرما وہم ثواب ۔

فاطمہ بنت قیس کے متعلق احادیث میں مرحلہ وار طلاقوں کاذکر ہے اور اکٹھی3 طلاق کا بھی۔ جن میں تطبیق یہ ہے کہ ناگوار صورت کی وجہ سے اچانک تین طلاق دی اور پھر مرحلہ طلاقیں دیں ۔ عدت نابیناحضرت عبداللہ بن مکتوم کے پاس گزاری۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ” فاطمہ بنت قیس اپنے حق سے محرومی کی بات نہ کرتی تو یہی اس کیلئے بہتر ہوتا۔ عبداللہ بن عباس کے شاگردوں کا اختلاف بھی اس بنیاد پر تھا کہ جب تین طلاق کے بعد عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تو رجوع کا فتویٰ دیا اور عورت راضی نہ ہوتی تو عدم رجوع کا دیتے۔

البقرہ آیت 229 میں تین مرتبہ طلاق کے بعد دیا ہوا مال واپس لینا حلال نہیں مگر جب دونوں اور فیصلہ کرنے والوں کو خدشہ ہے کہ اس سے رابطہ ہوگا تو دونوں جنسی تعلق سے اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ فدیہ عوض اور خلع نہیں ہوسکتا بلکہ فدائی حملے کی طرح قربانی مراد ہے ۔تاکہ عورت کی عزت محفوظ ہو۔ پھر رجوع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اسلئے اسکے بعد اللہ نے فرمایا: ”پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاںتک وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” (البقرہ آیت:230)

اس کے بعد البقرہ آیات 231 اور 232 میں معروف اور باہمی رضامندی کی شرط پر عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی اجازت دی ہے بلکہ اس کی زبردست تاکید سے وضاحت فرمائی ہے۔

سورہ تحریم میں بیوی کو حرام قرار دینے کی بڑی وضاحت ہے لیکن فقہاء نے چارخلفائ ، چار ائمہ اور ایک درجن دیگر تضادات سے اس کی 20 بوٹیاں بنادی ہیں جو ابن قیم کی کتاب زارالمعاد میں ہیں۔

جس سے قرآن کی پہلی FIR ثابت ہوگئی۔

وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھٰذا لقراٰن مھجورًاO(سورة الفرقان:30)
”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔
سورہ تحریم کو دیکھتے تو اجتہادی غلطیاں نہ کرتے اور قرآن چھوڑنے کے جرم کا ارتکاب سرزد نہ ہوتا۔

قرآن کی دوسری FIR بھی ثابت ہوگئی۔
لا تمدن عینیک الٰی ما متعنا بہ ازاوجًا منھم ولاتحزن علیھم واحفض جناحک للمؤمنین O وقل انی انا النذیر المبین O کما انزالنا علی المقتسمین O الذین جعلوا القراٰن عضین O فوربک لنسالنھم اجمعین O عما کانوا یعملونO فالصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین O انا کفیناک المستھزئین O الذین یجعلون مع اللہ الٰھًااٰخر فسوف یعلمونO

”اپنی آنکھیں اٹھاکربھی مت دیکھو جو ہم نے ان کو چیزیںدے رکھی ہیں۔اپنے بازومؤمنوں کیلئے جھکائیںاورکہو کہ میں کھلا ڈرانے والا ہوں۔ جیساہم نے بٹوارہ کرنیوالوں پر نازل کیا،جنہوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔پس تیرے رب کی قسم ہم ضروربضروران سے پوچھیں گے جو وہ کرتے تھے۔پس آپ دھماکہ کردو جس کا تجھے حکم ہے اور مشرکوں سے پہلوتہی برت لو”۔( حجر:88تا94)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اَلا کل شیئٍ ما خلا اللّٰہ باطل وکل نعیم لامحالة زائل نبیۖ کا یہ پسندیدہ شعر تھا اور مفتی منیر شہید اس کی تصویر تھے

محمد بن قاسم نے سندھ عورت کی عزت کیلئے فتح کیا اور اکبر بگٹی نے سندھی مہمان ڈاکٹر شازیہ خالد کی عزت کیلئے بلوچ راج کو ریاست پاکستان سے ٹکرادیا جس کے شعلے آج بھی بھڑک رہے ہیں

اللہ شہید مفتی منیر شاکرکی قبرکو جنت الفردوس کا باغیجہ بنادے اور لواحقین کو صبرجمیل عطاء فرمائے۔ مردان کے شاعراور صحافی شعیب صادق کے توسط سے ایک ملاقات میں کچھ مختصر باتیں ہوگئی تھیں۔ پھر ڈاک سے کتابیں بھیج دیں۔گزشتہ رمضان میں فون آیا۔ طلاق کے مسئلے پر کچھ وقت مانگا۔ کچھ دیر بات کے بعد میں نے کہا کہ پشاور آجاتا ہوں۔ ہم پہنچے توکوئی افغانی مریض لایا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہم پہلی مرتبہ آئے اور ساتھ اندر داخل ہوا۔ پوچھا: مفتی صاحب دم کرتے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ دم کے مخالف ہیں۔ اس نے کہا کہ مفتی کا چاہنے والا ہوں۔ مفتی صاحب آگئے تو اپنے خادم پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ میرے کمرے میں بٹھاتے۔ ہمارے ساتھ افغانی بھی آیا۔ مفتی صاحب نے مجھے کہا کہ آپ ایک موضوع پر ٹکتے نہیں۔افغانی نے اپنی استدعا کی۔ مفتی شہید چونک گئے اور مجھ سے کہا کہ آپ کا ساتھی نہیں؟۔ میں نے کہا کہ یہ مریض دم کیلئے لایا ہے اور میری خاطر باہر دم کرنا پڑے گا۔ مفتی صاحب اسکے ساتھ باہر گیا ۔تو میرے بھتیجے کا رنگ بگڑا تھا۔ میں نے کہا کہ کیا ہوا؟۔ اس نے کہا کوئی فون آیا تھا۔ میں نے کہا کہ اپنا موڈ ٹھیک کرو نہیں تو مفتی صاحب سمجھے گا کہ مجھ پر غصہ ہے۔

پھر مفتی صاحب نے اپنے درس کی چھٹی کا اعلان کیا اور ظہر سے عصر تک نشست رہی۔ہم باہر گئے تو بھتیجے نے کہا کہ مجھے اسی پرغصہ آیا کہ اس نے آپ سے ایسی بات کی ۔ میں نے کہا کہ اس نے جو سمجھا وہی کہا اور بہت لوگوں کو یہ شکایت ہے۔

مفتی صاحب نے اس مہمان کا دل رکھنے کیلئے دم کیا۔ مفتی شہید کا کلپ ہے کہ ” تم اپنی انا توڑدو یا میراسر توڑدو۔ خطرہ ہے اسلئے تلاشی لیتے ہیں”۔

عبداللہ شاکرکااللہ حافظ وناصر۔ایک طرف پنج پیری ساتھی ،دوسری طرف پشتون ۔ہاتھ اٹھانا دعا کی رسم ہوتب بھی گناہ نہیں۔منافق کی قبر پر کھڑا ہونا منع ہے مؤمن کے نہیں۔ مفتی زندہ ہوتے تو تعزیت کرنے والوں کیساتھ ہاتھ اٹھاتے ۔

شاہ اسماعیل شہیدسے مرشد سیدبریلوی نے کہا کہ نماز کا رفع یدین فرض نہیں سنت لیکن لوگوں کو غلط فہمی سے بچانا فرض ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان پر حملہ کیا گیاکہ کوئی نیا دین لائے ہیں اور علماء دیوبند نے ہندوستان اور پنجاب میں سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیامگر سندھ، پختونخواہ، بلوچستان اور افغانستان میں علماء دیوبند آتے تو سرینڈرتھے۔ دیوبندی اور پنج پیری اسلئے الگ الگ ہوگئے۔ مفتی منیر شہید اب اس دوڑ سے آگے نکل چکے تھے۔

میں نے قرآن کے حوالہ سے کچھ معاملات بتائے۔تو مفتی صاحب نے کہا کہ ایک دن افطاری میں آجاؤ پھر رات کو اطمینان سے بات کریںگے۔ چنانچہ افطاری کے بعد سے سحری تک پہلے طلاق کے مسئلے پر اور اسکے بعد مختلف مقامات سے قرآنی آیات کا میں نے بتایا کہ اس کا یہ ترجمہ و تفسیر ہے۔ مفتی صاحب نے پوچھا کہ آپ نے کونسی تفسیر پڑھی ہے؟۔ میں نے کہا کہ اصل معاملہ تفاسیر نے خراب کیا ہے۔ اس نے کہا کہ امام ابوبکر جصاص رازی حنفی بہت اچھے ہیں ۔ میں نے اس کی وکالت میں بھی تضاد کی نشاندہی کردی۔ میں نے کہا کہ قرآن کا متن بہت واضح ہے۔ پھر پوچھا کہ عربی پر مہارت کیسے حاصل کی ہے میں نے کہا کہ عربی لٹریچر سے۔

مفتی شہید توحید پرست تھا۔ رسول اللہ ۖ نے عربوں میں سب سے اچھا شعر لبید کا قرار دیا:

اَلا کل شیئٍ ما خلا اللہ باطل
وکل نعیم لامحالة زائل

”خبردار! ہر چیز اللہ کے سواء باطل ہے۔
اور ہر نعمت لامحالہ زائل ہوکر رہے گی”۔

بریلوی، شیعہ علماء سے مفتی شہید کی دوستی کرانی تھی۔ توحیدی گدھے نے لکھا کہ نماز میں نبیۖ کا خیال آنے سے گدھے کا خیال بہتر ہے۔ گدھا یہ نہیں سمجھتاتھا کہ نماز سنت طریقہ ہے۔ درودشریف بھی نماز میں پڑھتے ہیں تو خیال کیسے نہ آئے گا؟۔

امام ابوحنیفہ پر بھی منکر حدیث کافتویٰ لگاتھا۔ ابویوسف اور عبداللہ بن مبارک امام ابوحنیفہ کے شاگرد تھے۔ ابویوسف فرمانبدار با ادب شاگرد اور ابن مبارک باغی وگستاخ مگر ہزار ابویوسفعبداللہ بن مبارک کے پیروں کی خاک پر قربان ہوں۔ کہاں ایک مرد مجاہد، کہاں ایک حیلہ ساز اور دین فروش؟۔ کبھی بھی دونوں برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔

مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیر شاکردونوں مولانا سلیم اللہ خان کے شاگرد۔ ایک مجاہد اور دوسرادین فروش کہاں برابر تھے؟۔ معارف القرآن اور مفتی عبدالرؤف سکھروی اور دارالعلوم کراچی گواہ ہے کہ شادی بیاہ میں لفافہ کی لین دین کو سود قرار دیا اور 70 سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم اپنی سگی ماں کیساتھ زنا کے برابر قرار دیا۔ لیکن پھر معاوضہ لیکر سودکا عالمی نظام کو جائز قرار دیا اور اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خان اور میرے استاذ ڈاکٹر عبدالررزاق سکندر وفاق المدارس کے صدر کی بات نہیں مانی جو اس کے پیشروتھے اور سبھی علماء کا فتویٰ مسترد کیا۔

مولانا عبدالحق ثانی کو اللہ جزائے خیر دے کہ مولانا طیب طاہری تعزیت کیلئے جامعہ اکوڑہ خٹک گئے تو نمازمغرب کی امامت کروائی۔ علماء دیوبند کیلئے یہ سنگ میل ہے اور مولانا حامدالحق شہید نے مولانا فضل الرحمن کو جامعہ میں خطاب کی دعوت دیکر عظیم اتحاد کی بنیاد رکھ دی۔ مولانا فضل الرحمن نے مفتی منیر شاکرشہید کے بچوں پر دست شفقت رکھ کرحق ادا کیا اور مولانا یوسف شاہ کی قیادت میں حقانیہ اور مولانا عطاء الرحمن کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام کے وفد نے مفتی منیر شاکر کی تعزیت کی اور علامہ خضر حیات بھکروی نے مولانا حامدالحق کیلئے دعائے مغفرت کرنے پر مولانا طیب طاہری کو منافق قرار دیا اور بہت برا بھلا کہا۔ یہ اس کا حق تھا اور جو اس نے ٹھیک سمجھا وہ اس نے کیا۔ اگر علماء نے افہام وتفہیم کا ماحول نہیں بنایا تو یہ غلطی ہوگی۔

نبیۖ نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھایا۔ نبیۖ نے ابن ابی رئیس المنافقین کا جنازہ پڑھایا۔ پھر اللہ نے حکم دیا: ولاتصل علٰی احدٍ منھم مات ابدًا ولاتقم علی قبرہ انھم کفروا باللہ ورسولہ وماتوا وھم فاسقون ( سورہ التوبة:84)

” اور ان میں سے کسی پر جنازہ نہ پڑھنااور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہونا، بیشک انہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی ناشکری کی اور فاسقی میں مرگئے”۔

یہ حکم نبیۖ کیلئے خاص تھا اسلئے کہ منافقین کے عزیزواقارب بھی تھے۔ عبداللہ بن ابی کے بیٹے سچے صحابہ تھے۔نبیۖ نے بارہ منافق کے نام حذیفہ بن یمان کو بتائے۔ نبیۖ نے امت میں بھی بارہ منافق کابتایاتھا۔(صحیح مسلم کی روایات)

مفتی شہید کو جب طلاق کی قرآنی آیات سمجھ میں آئیں تو کہا کہ 50 سال بعد مسلمان کردیا۔

خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے حالات کہاں تک پہنچیں گے ؟۔ مذہبی طبقے نے ہتھیار بھی اُٹھایا ہے اور علماء شہید بھی ہورہے ہیں۔ قوم پرستوں نے ہتھیار بھی اٹھائے ہیں اور احتجاج بھی چل رہا ہے۔ جمہوریت کے بس کی بات ہے اور نہ ڈکٹیٹر شپ یہ مسئلہ حل کرسکتی ہے۔اگر ہم اپنے مسائل چھوڑ کر یہ فیصلہ کرلیں کہ پاکستان کو عوام اور تمام طبقات کیلئے سورہ رحمن کے مطابق جنت نظیر بنائیں گے اور قوم کی اصلاح کریں گے تو بہتر ہوگا۔ مفتی منیر شاکر کی شہادت سے پہلے قریب میں چار پائی کے مسئلے پر پانچ افراد نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ پشاور متھرہ میں ایک خاتون کی لاش ملی جو حلالہ کے بعد پہلے شوہر کے پاس جانے سے مکر گئی تھی۔ بونیر میں شاہ وزیر نے بتایا کہ کسی کو 3 طلاق کا مسئلہ پیش ہوا تھا تو مسجد کے مولانا نے اپنے اخبار کی وجہ سے بغیر حلالہ کے رجوع کا فتویٰ دے دیا ہے۔ مفتی منیر شہید سے مسئلہ طلاق پر میٹنگ کرنی تھی۔

قیام کے بعد مشرقی پاکستان کی آبادی 54 فیصد اور مغربی پاکستان کی 46 فیصدتھی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی کچھ آبادیوں کو پنجاب میں شامل کیا جس سے پنجاب کی آبادی تین صوبوں کے مقابلے میں 60 فیصد ہوگئی۔ اگر تینوں صوبے ایک طرف اور دوسری طرف پنجاب ہو تو حکومت پنجاب کی ہی بن سکتی ہے۔ اگر متحدہ ہندوستان ہوتا تو پھر شاید اس سے بھی بڑا مسئلہ ہوتا اسلئے کہ بھارت کا پنجاب بھی اس میں شامل ہوتا۔ انگریز نے نہری نظام صرف پنجاب میں بنایا تھا۔ دانشمندی یہ ہوتی کہ پنجاب کا کچھ حصہ بلوچستان ، پختونخواہ اور سندھ میں شامل کیا جاتا۔ اگر بلوچستان میں پشتون ، بلوچ ، بروہی ، ہزارہ اور کرد قبائل تھے تو سرائیکی بلوچ بھی اسی کا حصہ ہوتے۔ انگریز وطن کا نہیں ریاست کا وفادار تھا اور ہماری ریاست ہمیں انگریز سے ورثہ میں مل گئی۔ ہم نے ریاست کیلئے مشرقی پاکستان قربان کردیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ریاست اور وطن پرستی کا جذبہ کیا ہے؟۔ اللہ تعالیٰ سب کو جلد ہدایت عطا فرمائے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شکوہ وجواب شکوہ لاجواب : پیر عابد

گزشتہ سے پیوستہ: شاہ صاحب کا شکوہ وجواب شکوہ لاجواب ہے۔ دور جبروت کے بعد ہی دورِ نبوت (کی طرز پر خلافت) نے آنا ہے۔ اجنبی اور نامعلوم میں بڑا فرق ہے۔

حدیث میں اجنبی کا ذکر ہے اور ایف آئی آر نامعلوم کے خلاف درج ہے۔ہم ایک پراکسی جنگ کی طرف دھکیل دئیے گئے ہیں۔ دشمن نامعلوم ہے اور الزام اجنبی پر ہے۔ تاریخ سے کوئی قاضی فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ابھی ہم یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہمارا مستقبل امریکہ یا اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔جٹہ واقعہ سے بہت زیادہ ظلم غزہ کے مظلوم فلسطینی بچوں پر ہواہے اور ہورہا ہے۔ جذبہ شہادت سے سرشار شامی وفلسطینی بچے اس دور کے امام مہدی ہیں۔اگر کوئی نہیں مانتا تو نہ مانے ، ہمارے بچے پراکسی جنگ کا حصہ بن جائیں۔قومی عصبیت کے نام پرایک دوسرے کی گردن دبانا اور عزت تار تار کرنا یہ اگر سعادت ہے یا دین ہے یا غوثیت یا قطبیت یا مہدیت ہے تو لعنت ہے ایسے دین پر اور اس کے پیروکار پر۔ اسلام امن وسلامتی سے نکلا ہے ۔ دینِ ابراہیمی کی بنیاد وحدت اور سلامتی پر ہے۔خانہ کعبہ کی بنیاد رکھتے ہوئے ریاست کا وجود نہیں تھالیکن دعا میں ایسی ریاست مانگی جہاں باہم محبت ، اخوت، مساوات ، معاشی ترقی اور امن ہو ۔ ایک دوسرے کو صدق دل سے معاف کردو اور آپس میں امت پناہ بن جاؤ۔یہ قرآن کا تصور اور سنت کی راہ ہے،نہیں تو فتنہ وشر نہ پھیلاؤ،اپنے گناہوں کی اجتماعی معافی اللہ پاک سے مانگیںاور ظلم کو پاک رب پر چھوڑدو۔وہی بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ یا اللہ کی رضا کیلئے معاف کردو یا پھر شریعت مطہرہ کے مطابق شرعی ثبوت کے ساتھ ریاست کے حوالہ کردو اور مطمئن ہوں۔

پہ خیر راغلے ہر کلہ راشہ،دغہ دغہ بیابیابیا

عابد بھائی ! آپ بھی منیر نیازی کے پنجابی اشعار لکھتے کہ

کُج اونج وی رَاہواں اَوکھیاں سَن
کُج گَل وِچ غم دا طوق وِی سی
کُج شہر دے لوک وِی ظالم سَن
کُج مینوں مَرن دا شوق وِی سی

شاہ صاحب کا شکوہ جواب شکوہ لاجواب ہے لیکن پھر بھی جناب کے زیر عتاب ہے؟۔آپ نے خود ہی ہمیں سبحان شاہ کا غلام بنادیا۔ اپنے لئے بھی غلام ابن غلام لکھ دیا مگر تمہیں فرق کیا پڑتاہے؟۔ غلام کو عربی میں ”عبد” کہتے ہیں۔ اس کی تانیث کو اَمة کہتے ہیں۔ مرد غلام توعورتیں لونڈیاں یا کنیزیں!۔ شیعہ تو کلب علی اور کنیز فاطمہ (علی کا کتا، فاطمہ کی لونڈی) شوق سے نام رکھتے ہیں۔ ہمیں اللہ اپنا کتا نہیں بلکہ اپنابندہ بنادے۔

جب کانیگرم میں شیعہ ماتم کرتے تھے تو یوسف شاہ کا والد آپ کے دادے کا بھائی میرمحمد شاہ بھی جوش وخروش سے ماتم کرتا تھا۔ کانیگرم کے لوگ کہتے تھے کہ تم شیعہ ہو یا پھر مسلمان؟۔ شاید اسی وجہ سے یوسف شاہ کے باپ کو کوئی رشتہ بھی نہیں دیتا ہوگا اور سوات کی منڈی سے اسکی ماں لانی پڑی۔

اس میں کوئی عیب کی بات نہیں کہ اماں جان لونڈی ہو۔ حضرت اسماعیل کی والدہ بھی لونڈی تھیں لیکن نبیۖ تک یہ خاندان اسی کی بدولت چلا۔ کسی نبی کی بعثت کی ضرورت بھی پیش نہ آئی۔ یہود، نصاریٰ اور مشرکین مکہ سب ابراہیم کی ملت کے دعویدار تھے۔ قریش کو عرب نے تلوار کی زور پر مکہ سے بھی بے دخل کیا تھا لیکن جب ایک قریشی کی بنوخزاعہ کی عورت سے شادی ہوئی تو پھر ماموں کے توسط سے دوبارہ قریش مکہ مکرمہ میں آباد ہوگئے۔ اسلئے بنوخزاعہ نے جب اسلام قبول نہیں کیا تو بھی مسلمانوں کے ہمدرد اور حلیف تھے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی بنوخزاعہ کے خلاف بنوبکر کی قریش مکہ نے مدد کی تو ٹوٹ گیا اور اگر میرا ننھیال طالبان کو پال کر میری صحیح پوزشن بتاتے تو اس حملے سے طالبان بھی اتنے بدنام نہ ہوتے۔ چلو میری مخالفت کرتے تو مردوں کی طرح میدان میں کھڑے ہوجاتے ۔

آپ نے اچھا کیا کہ شرعی گواہ اور حکومت کی عدالت میں اس کے مطابق مقدمہ کرنے کی تجویز پیش کردی۔ آپ نے یہ کہا تھا کہ مجھے بھی معلوم ہے کہ اس واقعہ میں کون کون ملوث ہیں ۔ ابھی مشکل بڑھ سکتی ہے اسلئے وقت آنے پر بتادوں گا۔ جہاں تک شرعی گواہ کا تعلق ہے تو بیوی کو تین طلاق دو اور مکر گئے تو گواہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ حرام کاری پر مجبور؟۔ اس سے بھی بڑھ کر امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب ہے کہ ”اگر کسی کی بیوی کو چھین لیا اور عدالت میں اس پر گواہ بنادئیے تو وہ حقیقی بیوی کی طرح جائز ہے”۔ جبکہ دوسرے اس کو حرام کاری سمجھتے ہیں۔ اسی شریعت کے غلط تصورات کو ٹھیک کرنے کی جدو جہد ہے۔

پہلے شہر کو آگ لگائیں نامعلوم افراد
اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد
لگتا ہے انسان نہیں ہیں کوئی چھلاوا ہیں
سب دیکھیں پر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد
ہم سبھی اسی شہر ناپرساں کے باسی ہیں
جس کا نظم و نسق چلائیں نا معلوم افراد
لگتا ہے کہ شہر کا کوئی والی نہ وارث
ہر جانب سے بس دھوم مچائیں نامعلوم افراد
پہلے میرے گھر کے اندر مجھے قتل کریں
اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد
ان کا کوئی نام نہ مسلک ، نہ ہی کوئی نسل
کام سے بس پہچانے جائیں نامعلوم افراد
شہر میں جس جانب بھی جائیں ایک ہی منظر
آگے پیچھے دائیں بائیں نامعلوم افراد

جب عمران خان کے عروج اور اقتدار کا دور تھا تو مجھے اس وقت ایک ساتھی بہت اصرار کرتا تھا کہ اس کی حمایت کروں۔ ایک دن اس نے کہا کہ ” صرف ایک خوبی تو عمران خان کی بتاؤ تو پھرمیں نے کہا کہ خاور مانیکا بے غیرت سے بیوی چھین کر بڑا اچھا کیا ہے”۔ پھر جب عمران خان پر زوال آیااور دوسرے ساتھی نے کہا کہ ”آئندہ وزیراعظم نوازشریف ہوگا۔ اگر نہیں بنا تو میں بکرا کھلاؤں گا اور بن گیا تو آپ کھلا دیں” ۔ میں نے کہا کہ یہ یک طرفہ شرط رکھتا ہوں کہ اگر نوازشریف بن گیا تو میں کھلاؤں گا اور نہیں بنا تو آپ مت کھلانا”۔ عوام کے موڈ کو ہم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے ساتھی اخبارات کو عوام میں بیچ رہے ہوتے ہیں۔

عابد بھائی!

میں خورشید کا تربور (چچیرا) ہوں ۔ اس نے کالج میں مخالف پر دوسری منزل سے چھلانگ لگائی تو وہ بیہوش ہوگیا اور اس کے پیر میں چھوٹ آئی۔ میں نے کہا کہ نیچے اترکر لڑتے تو اس نے کہا کہ میں نے سوچا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ لڑائی ختم ہوجائے اور کوئی بیچ بچاؤ کرادے۔ میں نے بھی سوچا کہ صلح کی ہوا چلنے سے پہلے کچھ تاریخی حقائق لکھ دوں تاکہ نسلوں میں بھی جھوٹ پھیلانے کی کبھی جسارت نہیں ہو۔ اپنے قریبی بزرگ کی قبر وں کا پتہ نہیں اور ابوبکر ذاکر کی قبر پر بھی جھوٹی کہانی گھڑ دی؟۔اللہ نے فرمایا:” قتل ہو انسان ، کیوں ناشکری کرتا ہے؟ اس کو کس چیز سے پیدا کیا؟۔ نطفہ سے۔ اس کو پیدا کیا، پھر اس کی تقدیر بنائی، پھر اس کا راستہ آسان کیا۔پھر اس کو موت دی اور پھر قبر دیدی ”۔ سورہ عبس:آیت:17تا21)اس میں قبر کو بھی احسان کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ عالم برزخ کی حیات کا تصور الگ ہے۔ کبیرالاولیاء سے میرے پردادا سید حسن شاہ بابو تک کی کچی قبریں تھیں۔ دادا سیدامیر شاہ کی قبر میرے والد کو شاید اسلئے پکی کرنی پڑی کہ سبحان شاہ کے پوتوں کو اپنے باپوں کی قبر کا خیال آئے۔ میں نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب پڑھ لی تو1976میں بہت چھوٹا تھا۔ کدال اٹھائی کہ پکی قبر جائز نہیں ۔ اس کو توڑوں گا۔ میرے والد نے مجھ پر غصہ کیا کہ” قبر سے کون مانگتا ہے؟۔ جب تک پکی قبر نہ ہو تو کوئی دعا بھی نہیں کرتا ہے۔ میں نے اسلئے قبر پکی کردی ہے”۔ کسی یونیورسٹی کی لڑکی نے پوچھ لیا کہ قبر کو سجدہ کرنا، بوسہ دینا اور جھکنا جائز ہے تو مولاناشاہ احمدنورانی نے جواب دیا کہ ” صاحب قبر کیلئے فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا جائز ہے باقی کچھ بھی جائز نہیں ہے”۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے قبر پرستی کی بہت سخت مخالفت کی ہے لیکن جب عمران خان نے بشریٰ بی بی کے کہنے پر پاک پتن کی راہداری کو بوسہ دیا تو علامہ کوکب نورانی اور توحیدپرستی کا دعویٰ کرنے والے یکساں تائید کررہے تھے اسلئے کہ توحید ومسلک سے زیادہ لوگ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔

ہمارے ایک ساتھی حافظ شارق کا خاندان بریلوی اور کچھ اہل حدیث ہیں توان کی بہن امریکہ میں زیادہ عمر گزارنے کی وجہ سے مزید کٹر اہل حدیث بن گئی۔ گھر میں شدت کا مذہبی اختلاف تفریق کا باعث تھا۔ میں نے بتایا کہ میراDNAبھی وہابی والا ہے اسلئے کہ ہمارے اجداد سید عبدالقادر جیلانی سے حنبلی مسلک کے تھے اور امام احمد بن حنبل کوفقہاء نہیں محدثین میں شمار کیا جاتا ہے۔ باقی رفع الیدین وغیرہ علاقائی رسم ہیں۔ جب عبدالقادر جیلانی حنفی ماحول میں تھے تو حنفی تھے ۔پھر حنبلی بن گئے۔جب ہمارے اجداد حنفی ماحول میں آئے تو حنفی تھے۔

جب خاتون کے سامنے یہ بات رکھی کہ شرک قرآن نے سکھایا ہے۔ جب عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کوئی دیکھے گا تو وہ شرک ہی کرے گا کہ اس سے بڑا مشکل کشا کیا ہوگا کہ جو مٹی کا پرندہ بنادے اور پھونک سے روح ڈال دے۔ ابرص کا مرض ٹھیک کردے اور مردے کو زندہ کردے۔ میں خود تو وہابی ہوں لیکن دم درود سے کسی کو صحت مل جائے تو اس کو شرک نہیں کہتا۔ اسلئے کہ پھر قرآن بھی شرک کی تعلیم والا ہے۔ خاتون پھر بیٹے کو امریکہ سے لائیں اور کسی اہل حدیث دم درود والے سے روحانی علاج بھی کروایا۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم کی کتاب ”اذکار مسنونہ” میں یہ وضاحت ہے کہ پہلے نبیۖ نے منع فرمایا لیکن پھر اجازت دیدی کہ اگر کوئی شرکیہ کلمات نہ ہوں اور فائدہ پہنچتا ہو تو ٹھیک ہے۔ بریلوی علماء ومشائخ نے جرأت نہیں دکھائی ورنہ مشرک وہ بھی نہیں تھے۔ دیوبندیوں کی جرأت نے بڑی تبدیلی لائی ہے ۔ مفتی منیب الرحمن مفتی اعظم پاکستان وغیرہ بھی درگاہوں کے رسوم کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں لیکن اس سے بڑی مصیبت فقہاء کی ان عبارات پر فتوے ہیں جن سے علماء ومفتیان بھی پہلے اتنے واقف نہیں تھے اور اگر تھے تو اس کو عوامی سطح پر اور علماء کی سطح پر عام نہیں کیا۔ اب اسکے خلاف طبل جنگ بجانا بہت بڑا جہاد اور ایمان کی محنت ہے۔

عابد بھائی!

آپ کی باتیں علم، عمل، تاریخ اور حقائق سے جوڑ نہیں کھاتی ہیں۔ اپنی صلاحیت کو درست استعمال کرو۔اپنا وقت ضائع مت کرو۔ آپ کے خلوص ومحبت میں شک نہیں۔ میراشکوہ جواب شکوہ پسند نہیں ہے اسلئے لعنتیں بھیجی ہیں حالانکہ اس بہتر تھا کہ میںبھی پھر ثقیل برکی کی تک بندی کرتا کہ

پورے وورے تکے شجہ وغیاں دے کاٹکے
اس پار اس پار چٹانیں اور بیوی چودھ دوں کاٹکے کی

جس کے جواب میںثقیل کو مقابلے کیلئے بلایا کہ مقابلہ کرو۔ کاغذ پر اشعار لکھے ہوئے تھے اور ثقیل کے خلاف پڑھا کہ

ووینا دیر ووخلا پہ ووینا کشے مخ کاتلائی نہ شے
طانبل دیر ووخلابے طانبل پائسے گاٹلائی نہ شے
آئینہ اُٹھاؤ آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ نہیں سکتے
کشکول اٹھاؤ ، بغیر کشکول کے پیسہ کما نہیں سکتے
ثقیل برکی نے دوبارہ سنانے کا کہا اور پھر فی البدیہہ کہا
بے طانبل پائسے گا ٹلائی نہ شہ پہ وویناکشے مخ کاتلائی نہ شہ
مور دے زاڑہ خوردے پہ شل زرہ کاولئی ن شہ
کشکول کے بغیر پیسہ کما نہیں سکتاآئینہ میں چہرہ دیکھ نہیں سکتا
تیری ماں بوڑھی ہے تیری بہن کو20ہزار میں خرید نہیں سکتا

 

عابد بھائی!

کاٹکے برکی کے بیٹے نے گالی کا جواب بہت ہی مہذب انداز میں منہ توڑ دیا اسلئے کہ ثقیل برکی پاگل تھا ،اس کا کوئی کاروبار تھا نہیں تو لوگ اس کی کچھ امداد بھی کردیتے تھے اور اس کی شکل بھی واقعی کوئی قابل رشک نہیں تھی تو کاٹکے کے بیٹے نے گالی کا جواب بہت زبردست انداز میں دیا لیکن جب ثقیل برکی نے جوابی شعر میں پہلے سے زیادہ بڑی گالی دی تووہ نہ صرف سرنڈر ہوااورکاغذپر لکھے ہوئے اشعار چھوڑ دئیے بلکہ ثقیل کا500روپیہ جرمانہ بھی دے دیا کہ بس آگے اور اشعار مت بناؤ۔ یہ کانیگرم کی ہزار سالہ مہذب قوم کی تاریخ ہے ،اس قابلیت، غیرت ، شرافت اور صلاحیت کو دنیا دادبھی دے گی ۔

 

عابد بھائی!

جب اسرائیل فلسطین پر بے تحاشا بمباری کرتا تھا تو آپ کو فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں تھی اور مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کروں تو کیا کروں؟۔ان کی بچیوں کے گلے شکوے سے دل پھٹ رہاتھا۔ مشہور عربی ڈاکٹر خالد الفجرنے میری تجویز پر درس قرآن دینا شروع کیا تھا تو اس نے سورہ الناس سے شروع کیا۔ میں نے اس کو تجویز دی کہ قرآن کو تجویدوقرأت کے قواعد سے پڑھنے کے بجائے سادہ زباں کی ادائیگی میں پڑھو۔ اس نے سورہ فلق کی تفسیر عام مفسرین کی طرح کی تو میں نے اس کی ویب سائٹ پر یہ بھی لکھ دیا کہ

تمہاری صلاحیت اور فصاحت وبلاغت بہت اچھی ہے۔ قل اعوذ برب الفلقOمن شرمن ماخلق …

فلق سے طلوع فجر کے علاوہ پھول کھلنے سے لیکر کائنات کی توسیع میں تمام تغیرات مراد ہیں۔ جن میں کوئی شر ہو تو اس سے پناہ مانگی ہے۔ اس سے مفسرین بہت ساری وہ توہمات بھی لیتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ فلسطین پر بم اور میزائل گرتے ہیں تو پھٹنے والے شر کی زد میں جس طرح سے وہ آتے ہیں تو ان کو اس سورة کا صحیح معنوں میں ادراک ہے۔ بندوق کی گولی سے وہ زہریلے بم جو بڑے پیمانے پر پھٹ کر بڑی تباہی مچاتے ہیں۔ جسے ڈاکٹر خالد الفجر نے بہت سراہا تھا۔

میں نے اس میں مولانا عبیداللہ سندھی کے افکار کا بھی ٹچ دے دیا تھا کہ من شر نفٰثٰت فی العقد سے وہ گروہ اور جماعتیں مراد ہیں جو قوموں میں اقدار کو توڑنے کی مہم جوئی ، سازش اور معاشرے میں فتنہ وفساد برپا کرتے ہیں۔

مشرکین عرب کا معاشرہ حضرت اسماعیل کے بعد بھی انہی اقدار کی وجہ سے قائم تھا۔ بنی اسرائیل میں ہزاروں ابنیاء کرام بھیجے گئے۔حضرت یوسف کے والد، دادا، پردادا انبیاء کرام اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے تھے لیکن یوسف کو پھربھی بھائیوں نے قتل یا کنویں میں پھینکنے کی ترتیب لڑائی۔ بھیڑئیے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا۔ آخر کار یوسف کی قسمت نے پہلے انکے جھوٹ سے پردہ اٹھایا کہ انہوں نے کہا کہ اگر یوسف کا بھائی چور ہے تو اس سے پہلے اس کا بھائی یوسف بھی چور تھا۔ پھر جب پہچان لیا توکہا کہ کیا آپ یوسف ہیں؟۔ پھر معاف بھی کردیاتھا۔

طالبان نے اپنی غلطی مان لی اور معافی کیلئے بڑی عزت بھی بخش دی۔ مہمان نہ ہوتے تو ہم معاف کرچکے ہوتے۔جو یہ کہتے ہیں کہ اورنگزیب شہید نے بھائی کو بچانے کیلئے سب کو قربان کردیا تو وہ اسلام، قبائل ، انسانیت، علی کی اولاد اور فطری غیرت سے نابلد ہیں اور جب تک اقدار کے نشیب وفراز سے یہ لوگ واقف نہیں ہوں گے تو اگر ہمارے والے ان کو سارادن بھی کاندھے پر گھمائیں گے تو یہ کہیں گے کہ ہماری چوتڑیں توڑ دی ہیں۔میں واقعہ کی نہیں دراصل اقدار کی جنگ لڑرہاہوں۔

عابد! سرنڈرکو وہاں سلنڈرکہتے ہیں ۔سر+نڈر نہیں۔ سلنڈر میں زیادہ گیس ہو تو پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ آپ نے اچھا کیا کہ اپنی بیہودہ معلومات پر سلنڈر بن گئے۔ ممکن ہے کہ پھٹنے کے ڈر سے یہ ہوا چھوڑی ہولیکن اپنی کاوش جاری رکھو۔

آپ نے کانیگرم کو اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز اور سیاست کا محور بتایا اور شیخ الہند اور مجدد سبحان شاہ کی بنیادپر سیاست کو محور بناکر اس بات کا اظہار کیا کہ مہدی کی شخصیت بقیہ صفحہ ھذا نیچے بڑی ہے اور منصور کا کام تم نے کرنا ہے اور خود ساختہ پیران پیر بن گئے۔ آپ غلام قرار دو ، جھوٹی تاریخ لکھو توٹھیک اورمجھے سچ بولنے پر لعنت اور تعصبات ؟۔

شیخ الہند کی سیاست کے پہلوان مولانا فضل الرحمن کے شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے استاذ شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی مولانا سبحان محمود نے ”اخبار الاخیار” کا ترجمہ کیا اور میں نے اس کا ایک فتویٰ میں صرف حوالہ دیا تو اس نے اپنا نام بدل کر سحبان محمود رکھ دیا۔جس سے اس نے خود کو بہت بڑا جاہل ثابت کیا کہ ساری زندگی ایک ناجائز نام رکھا ہوا تھا۔

سبحان شاہ کی اولاد جھوٹی کہانی دم توڑنے پربغیر ماں باپ والے اکاؤنٹ سے گالیاں بک رہی ہے۔ پتہ نہیں چلتا کہ لڑکے ہیں لڑکیاں؟۔ حالانکہ شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ سچ کی وجہ سے انسان توبہ کرتا ہے اور تکبر اور دھوکے میں نہیں رہتا۔ عابد بھائی ! آپ ان کی وکالت ضرور کریں مگر کچھ حق بھی بولیں۔

سبحان شاہ کے بیٹوں مظفرشاہ و صنوبر شاہ کے پوتے زندہ ہیں۔ دادوں کی قبر تلاش نہیں کرسکتے اور ابوبکر ذاکر کی قبر اور قتل پر بیہودہ60خوارج کے بدلے میں قتل کی جھوٹی کہانی بناؤ اور پھر انہی برکی قبائل کو خوارج بھی قرار دے دو؟۔ چلو شجرہ اور قبروں تک رسائی نہیں تو اکاؤنٹ پر نام لکھ سکتے ہو۔ وہ بھی نامعلوم ۔FIRتو نامعلوم کے خلاف ہی درج ہوتی ہے ۔

مولانا قاسم نانوتوی نے ایک کارنامہ انجام دیا کہ بیوہ اور طلاق شدگان کیلئے شاہ اسماعیل شہید کے طرز پر تحریک چلائی مگر اپنی ایسی بوڑھی بہن کو قربانی کی دنبی بنایا جس کی عمر قرآن کے مطابق نکاح سے گزر چکی تھی۔ نوشہرہ میں مولانا گل حلیم شاہ نے بتایا کہ ایک شخص اپنی بوڑھی ماں کو ٹوکری میں لئے قرآن پر عمل کیلئے نکاح کرانا چاہتا تھا تو میں نے یہ سمجھادیا کہ غلط کررہا تھا ۔ جہاں کسی نے دہشت گرد پالے تھے تو بہادری کے باوجود بھی خواتین بچانے کیلئے بازو تڑوانے کا قصہ ہے۔ میری خواہش تھی کہ ضرورت ہو تو عمر کا لحاظ رکھے بغیر مرد حضرات قربانی دیں اور سب سے پہلے میں ، میرے بچے ، بھائی اوربات ماننے والے پیرعبدالوہاب ، عبدالرحیم ، عبدالواحد وغیرہ تیار کردئیے تھے لیکن ماموں سعدالدین نے کہا کہ یہ مشکل کام ہے۔

جنڈولہ سے وانا کے راستے میں آپ لوگوں کی بڑی زمین ہے۔ جس قبیلہ نے بیچی تھی تواس نے پھڈہ کھڑا کردیا۔ جب اس پربڑا جرگہ بٹھادیا تو معمول کیمطابق ایک طرف ہمارے والے بیٹھ گئے اور دوسری طرف وہ بیٹھ گئے۔ ثالثوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے زمین بیچی ہے لیکن اس کا پانی نہیں بیچا ہے۔ میرے والد نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجھے کہہ رہاہے کہ میں نے عورت بیچ دی ہے لیکن اس کی پیشاب گاہ کو نہیں بیچا ہے۔ پانی کے بغیر زمین ایسی ہے جیسے عورت کی وہ چیز نہیں ہو۔ ثالثوں نے ان سے کہا کہ ”پیر صاحب کی بات ہم مجمع عام نہیں بتاسکتے۔ کچھ افراد الگ ہوجاؤ تو ان کو بتادیں گے لیکن انہوں نے زور لگایا کہ اب تو خواہ مخواہ بھی بتاؤ گے۔ جب بتایا تو کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہوئے کہ معاملہ ختم ہے۔

کبھی صرف بات کرنے سے بہت بڑے فساد ٹل جاتے ہیں۔ میرے بھائیوں نے والد کی زندگی میں والد کو بے خبر رکھ کر مینک برکی کی غلط ڈیمانڈ پر فیصلہ کیا کہ یا ہم قرآن کا حلف اٹھائیں تو210کنال میں105ہماری ہے۔ یا وہ حلف اٹھائیں گے کہ ہماری70کنال ہے۔ ماموں غیاث الدین کی موجودگی میں ہمارے بھائیوں نے ان کو حلف اٹھانے کیلئے کہہ دیا۔ ایک جھوٹے حلف پر ہم35کنال سے محروم ہوگئے تو ہمارے رشتہ داروں کو اس پر فخر کرنا چاہیے تھا کہ لالچ کی جگہ زمین کی قربانی دیدی۔ ہماری مخالفت میں اس پر فضا بنائی گئی کہ جیسے ہم نے مینک برکی سے حلف اٹھواکر بڑا ظلم کردیا۔

اس کے پیچھے پھر حلف کا معاملہ تھا کہ وہ اٹھاتے اور زمین بھی لیتے اور بدنام بھی ہمیں کرتے۔ میں نے مولانا سبحان محمود کاواقعہ بھی بہت مختصر نقل کیا ہے جو دارالعلوم کراچی والوں کا دادا اور بنوری ٹاؤن والوں کا ننھیال تھا اسلئے کہ مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر دونوں اسکے شاگرد تھے۔ بنوری ٹاؤن کراچی کے اکثر اساتذہ پہلے دارالعلوم کراچی میں تھے۔ اپنی ننھیال سبحان شاہ کے معاملات بھی ضروری حد تک بیان کیے لیکن تفصیل کی ضرورت آئے تو آسرا نہیں کروں گا ۔ بڑے مقاصد کے حصول کیلئے چھوٹی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بہت لوگ کچھ نہیں سمجھتے اور خدا کرے کہ کچھ نہ سمجھے کوئی اور بڑا مقصد بھی مل جائے۔ قدرت بڑی مہربان ہے۔ اگر یہ مد بھیڑ نہ ہوتی تو پھر سورہ سبا اور دیگر سورتوں کی تفسیر سمجھنے میں بھی مشکل ہوتی۔

مولانا پیر گل حلیم شاہ نے کانیگرم کے جلسہ میں میری والدہ کا نام لیا تو ماموں نے اپنی بہن اور بھائی نے اپنی والدہ کی بے حرمتی پر اس کو پکڑنے کے بجائے مجھے ہی جیل میں ڈال دیا۔ حالانکہ مولاناگل حلیم شاہ کو ٹانگوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا تو لوگ بھی کہتے کہ غلط کیا تو بھگتے بھی۔ پھر میں نے اس پر پہلے اتمام حجت کی اور اپنی کتابوں کا کہا کہ دیکھو اس میں کیا غلطی ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں مولانا فتح خان سے پوچھ لو۔ تو میں نے کہا کہ جب پتہ نہیں تو پھر مخالفت میں بولو بھی مت۔ پھر اس کی حقیقت سے”نیولے اور ٹرانسفارمر ” نقاب کشائی کی۔

نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے
اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے

مجاہد شا ہ ولی مروت ، شین مینار مسجد کے مولانا عنایت اللہ محسود اور سپاہ صحابہ کے شاہ حسین گواہ ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کے علماء اور کلاچی کے قاضی، کراچی کے مدارس اور حاجی عثمان کے مریداور ضرب حق دیکھ لو۔

ابوسفیان کی بہن ام جمیل ابولہب کی بیوی تھی ۔ قرآن کی مذمت پر قریش نے نبیۖ پر الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ ولید بن مغیرہ کو ترجمان بنایا۔اللہ تعالیٰ نے بھرپور جواب دیا ۔ فرمایا:

”ن قلم کی قسم اور جو اس سے لکھتے ہیں۔آپ اپنے رب کی نعمت سے دیوانہ نہیں ہیںاور آپ کیلئے بیشمار اجر ہے۔ اور بے شک آپ تو اخلاق کے عظیم مرتبہ پر ہیں۔ پس عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم سے کون فتنہ میں مبتلا ہے؟۔ بیشک تیرا رب جانتا ہے کہ کون راستے سے گمراہ ہے۔ اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ پس آپ جھٹلانے والوں کا کہا مت مانو۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ بھی چاپلوسی کرو تو وہ بھی چاپلوسی کریںاور ہر قسم کھانے والے ذلیل کا کہنا نہ مانیں۔جو طعنے دینے والا چغل خور ا، نیکی سے روکنے والا، حد سے گزرا، گناہ گار۔ بدتمیز اور پھرناجائز نسبت والا ۔ اگرچہ وہ مال واولاد والا ہے ۔جب اس پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ پہلوں کی کہانیاں ہیں۔ عنقریب ہم اس کو سونڈ پر داغ دیں گے۔بیشک ہم نے ان کو آزمائش میں ڈالا، جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمائش میں ڈالا۔جب انہوں نے قسم کھائی کہ ہم صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ دیں گے اور انہوں نے استثناء نہیں کیا۔ پھر ایک گھومنے والاتیرے رب کی طرف سے آیا اور وہ سوئے ہوئے تھے۔پھر وہ باغ کٹی ہوئی کھیتی کی طرح تھا”۔ (سورہ القلم آیت1تا21)

حضرت خالد بن ولید کے والد ولید بن مغیرہ بہت تیز طرار ، چالاک، عقل ودانش کے پیکر قریش مکہ کے ترجمان نے زبان کی تیزی دکھائی اور نبیۖ پر ڈھیر ساری بداخلاقی اور عزتوں کو تار تار کرنے کا الزام لگادیا تو سورہ قلم کی ان آیات سے خالق کائنات نے جواب دیا تھا۔ بعض مترجمیں نے ”زمیم” کا ترجمہ” ناجائز اولاد” کیا ۔ اس سے خالد بن ولید کی شخصیت اور نسب پر کتنا برا اثر پڑا؟ ۔جس کا بھائی ولید بن ولید مسلمان تھا۔ خالد بن ولیدمسلمان ہوا تو یہ آیات سنانے کا مطالبہ کیا جو اس کے باپ کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں۔ پٹھانوں کو پتہ ہوتا تو وہ کبھی خود کو خالد بن ولید کی اولاد نہ کہتے۔ جب کچھ لوگوں نے سازش کی اور ہمارے ساتھی خانقاہ کے امیر شفیع بلوچ کو میرے سامنے کھڑا کیا تو اس نے کہا کہ ہم بلوچ بھی امیر حمزہ کی اولاد ہیں۔ پھر میںنے کہا کہ اگر میں تجھے مجمع میں چیلنج کرتا اور پھر یہ کتاب دکھاتا کہ امیر حمزہ لاولد تھے تو کیا حشر ہوتا؟۔ اس نے شکریہ ادا کیا کہ مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔ طاہر شاہ نے لکھا کہ ”کیا دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی کہ مہدی کو دریافت کرسکے”۔ مہدی کی نسبت روحانی ہے اور سائنس ابھی روحانیت تک نہیں پہنچ سکی ہے لیکن طاہر شاہ ایک ویڈیو میں اپناتشخص، تعارف اور شجرہ نسب دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ یہ تو وہ شخص ہے جو کہتا تھا کہ ”وزیرستان کا سپر خاندان ہم ہیں۔ انگریز نے بتادیا ہے”۔

یہ بد قماش جو اہل عطا بنے ہوئے ہیں
بشر تو بن نہیں سکتے خدا بنے ہوئے ہیں
میں جانتا ہوں ایسے عظیم لوگوں کو
جو ظلم سہہ کے سراپا دعا بنے ہوئے ہیں
وہ مجھ سے ہاتھ چھڑا لے تو کچھ عجب بھی نہیں
اسے خبر ہے کہ حالات کیا بنے ہوئے ہیں
لڑھکتا جاؤں کہاں تک میں ساتھ ساتھ ان کے
مرے شریک سفر تو ہوا بنے ہوئے ہیں
تو خلوتوں میں انہیں دیکھ لے تو ڈر جائے
یہ جتنے لوگ یہاں پارسا بنے ہوئے ہیں
کبھی کبھار تو ایسا گماں گزرتا ہے
ہمارے ہاتھ کے ارض وسما بنے ہوئے ہیں
ہمیں سے پہنچنا ہے تم کو منزل تک
گزر جانا کہ ہم راستا بنے ہوئے ہیں
ہزاروں لوگ بچھڑتے ہیں مل مل کر
سو زندگی میں بہت سے خلا بنے ہوئے ہیں
کسی سے مل کے بنے تھے جو زرد لمحوں میں
وہ سبز خواب میرا آسرا بنے ہوئے ہیں

عابد بھائی!

میں نے تو بارہایہ کہا کہ مجرم کوئی اور نہیں ہم خود ہیں ۔ دہشتگرد قوم کو نقصان پہنچارہے تھے تو ہم نے پالا۔ اگر اس کی سزا اس سے زیادہ ہے جو ہمیں ملی ہے توقبول ہے ۔

ہماری مسجد کے امام حافظ عبدالقادر شہیدکے گاؤں میں یہ بات پھیلائی گئی کہ اس کی موت حرام کی ہوئی ہے۔ جب اسکے بھانجے کو پتہ چلا کہ حرام کی موت نہیں ہوئی ہے تو بہت خوش ہوا کہ اس کی آخرت خراب نہیں ہے۔ یہ کس کس کا پروپیگنڈہ تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا؟۔ مجھے شہداء کیلئے کچھ حقائق سے پردہ اٹھانا ہوگا۔ منہاج کا ماموں پیر سجاد بھی یہ تشہیر کرتا تھا اور مجھے اس پر گرفت کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہمارے شہداء کے وارث پریشان ہوں اور لوگ اپنی کم عقلی یا کمینگی سے غلط پروپیگنڈہ کریں۔

قاتل کو زعم چارہ گری ، اب دردِ نہاں کی خیر نہیں
اترا وہ خمار بادۂ غم ، رندوں کو ہوا ادراک ستم
کھلنے کو ہے مے خانے کا بھرم، اب پیرمغاں کی خیر نہیں
اب تک تو کرم کی نظروں نے، فتنۂ دوران روک لیا
اب دوش پہ زلفیں برہم ہیں، اب نظم جہاں کی خیر نہیں
سوچا ہے شکیل انکے دلوں کو میں فتح کروں گاسجدوں سے
یا میری جبیں کی خیر نہیں، یا کوئے بتاں کی خیر نہیں

مولانا فتح خان سے کوئی پوچھتا کہ” نامعلوم نے ہمارے آدمی کو قتل کیا تو یہ شہید ہے یا نہلائیں؟”۔ تو مولانا فتح خان جواب دیتے تھے کہ احتیاطاً نہلانے میں حرج نہیں ۔ شہادت نہلانے سے خراب نہیں ہوتی ہے۔ لیکن جب حاجی رفیق شاہ شہید کیلئے مولانا فتح خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ”یہ اس اونچے درجہ کے شہید ہیں کہ نہلانا تو دور کی بات چہرے پر گرد پڑا تو اس کو بھی مت ہٹاؤ”۔ پھر یہ کون ہیںجنکے نزدیک حافظ عبدالقادر شہید حرام کی موت مرا؟۔ اسکے بھانجے کو بتادیا کہ حرام کی موت نہیں مرا تو بڑا خوش ہوا۔ اورنگزیب شہید کی تصویرپر ڈیرہ میں یہ کہاگیا کہ” ہمارا عزیز تھا یہ غلط تھا”۔تو عام آدمی نے اس سے کہا کہ” تصویر سید کی ہے تم سید نہیں لگتے ”۔

جس طرح فلسطین کے مجاہد بچے مہدی ہیں اسی طرح جن مجاہدین نے امریکہ کے خلاف جہاد کیا تو وہ بھی مھدی ہیں۔ مجھے مجاہدین کی ان ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کو دکھ اور تکلیف پہنچنے کا جٹہ قلعہ کے واقعہ سے زیادہ احساس ہے جن کا اپنا کوئی گناہ نہیں تھا اور وہ بے گھر اور بے عزت کئے گئے ۔ اگر میں موجود ہوتا تو اپنے سکول اور گھروں میں ان کو ضرور بساتا اور ان کیلئے جتنا ہوسکتا تو خرچے کا بندوبست بھی ضرور کرتا۔

مجھ سے پیر طارق شاہ نے کہا کہ ” پیر یعقوب شاہ سے آپ بات کرلو تو صلح پر راضی ہونگے”۔ میں نے کہا کہ اس کیلئے کچھ ایسی تجویز ہو جو بخوشی سے قبول کریں۔ پھر اس بات کا اظہار کیا کہ پیرغفار لوگوں نے زندگی ماموں کے گھر میں گزاردی اور اب گھر چھوڑنے کی قیمت پر صلح کیلئے یہ بات بڑھانی ہوگی۔ پیر غفارجٹہ قلعہ آئے تو میں نے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ حالانکہ بظاہر یہ بالکل غلط تھا لیکن اس کا اتنا بڑا دل ہے کہ مجھ سے ناراضگی کی وجہ پوچھ لی۔ میں نے کہا کہ تم صلح نہیں کرتے۔ اس نے کہا کہ آپ کو ہر طرح کا اختیار ہے۔ میں نے کہا کہ اگر کسی اور دشمن کیلئے بات ہوتی تو میں کبھی نہیں بولتا۔ برکی قبائل کیلئے محسود ملک دینائی نے بندے مارنے کے بعد وطن چھوڑا تو عار بن گیا مگراپنے عزیزوں کیلئے یہ قربانی کوئی بے عزتی نہیں۔ وہ بالکل تیار تھا اور پھر دوسرے بھائیوں سے مشورہ کرکے بھی بتایا کہ ٹھیک ہے لیکن پھر پتہ نہیں کس ابلیس نے مشورہ دیا اور مجھے کہا کہ ”گھر چھوڑنے والی بات پر ہم سوچ میں پڑگئے”۔

اگر اس وقت معاملہ حل ہوجاتا تو مجھے یقین ہے کہ یعقوب شاہ بہت خوش ہوتے اور پہلے کوڑ چھوڑنے کیلئے اپنے ڈیرے کا گھر دیتے اور پھر اپنے ساتھ ڈیرہ سے ان کو واپس لاتے کہ بھئی اپنی چیز خود سنبھال لینا۔اچھوں کی کمی نہیں تھی مگر ماحول بہت تیزی سے بگڑ گیا اسلئے کچھ ضربیں برداشت کرو۔

نمازکی امامت پر میری کوشش ہوتی تھی کہ تاخیر سے جاؤں تاکہ کوئی اور امامت کرے۔ ایک دن حاجی بدیع الزمان مجھے آگے کررہے تھے اور میں اس کو امامت کی دعوت دے رہاتھا۔ ڈاکٹر آفتاب نے اس کو کہا کہ آپ پڑھائیں مگر اس نے مجھے آگے کیا۔ میرے دل میں ڈاکٹر آفتاب سے محبت بڑھی کہ اس نے اقدار اور چھوٹے بڑے کا بڑا خیال رکھا۔ آج بھی دل میں اس کی مٹھاس محسوس کرتا ہوں۔ حاجی یونس شاہ نے ہمیشہ اپنی گاڑی دوسروں کی غم شادی میں پیٹرول سے بھری انکے گھر پر کھڑی کرکے رکھی تو میں نے کہا تھا کہ سب سے اچھی گاڑی حاجی صاحب کیساتھ ججتی ہے جبکہ ماموں سعدالدین نے مسجد میں حاجی شاہ عالم کے بھائی دین حاجی سے ہاتھ ملایا تو پوچھا کہ کون ہے۔ صمد نے بتایا کہ مزیانی ہے ، تواس نے کہا کہ گم ہوجائے۔ صمد نے کہا کہ دبئی سے آیا مہمان ہے تو اس نے کہا کہ دبئی سے بھی گزرے۔چھوٹے ان سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ ۔

حاجی یونس شاہ الیکشن کمپین کا خرچہ دیتا تھا اور بدتمیز مخلوق مذاق اڑاتی تھی۔ میرا کتا بس نے ماردیا تو ڈرائیور نے کہا کہ آدمی کی دیت دوں گا۔ حاجی یونس شاہ نے کہا : چائے پیتے ہوتو پلادیتا ہوں ،کتے کا کون پوچھتا ہے جاؤ۔ یہ ہوتا ہے معیار !۔

منہاج اور شہریار کی غیرت کتے کی غلطی کو معاف نہیں کرتی لیکن مہمان اور عورتوں سمیت جمع غفیر پر کبھی غیرت نہیں آئی۔
پیر طارق شاہ بہت اچھا تھامگر اللہ نے مجھ سے کام لیاہے۔ ”اللہ فاسق سے بھی دین کی خدمت لیتا ہے”۔(حدیث) گالی کھانا اور دینا اچھا نہیں مگر مجبوری ہوتو علی سے ابوسفیاننے کہا: ہماراجدایک عبدالشمس تھا تو علی نے کہا کہ صخر ابوطالب کی طرح تھا،نہ حرب عبدالمطلب اورنہ ہی امیہ ہاشم کی طرح۔ نبیۖ نے سچ فرمایا:انانبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب اللہ کا کلینڈر شاہکارہوتا ہے تعصبات نہیں۔فارمی نہیں سمجھ سکتا۔

عابد! آپ اور مولانا آصف میری تعلیم کو پہنچاتے تو سبحان شاہ ، مظفرشاہ ، سرورشاہ اور جلیل شاہ کا نام بھی روشن ہوتا اور مولانا فضل الرحمن اور اس کے ٹبر سے بھی بہت ہی آگے نکلتے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بیٹی کو شہوت سے زبردستی آلہ تناسل پکڑایا اگرانزال نہ ہوا تو بیوی حرام اور انزال ہوگیا تو بیوی حرام نہیں ہوگی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کی جہالت سے بھرپور حماقتوں سے دل دہلانے والے حنفی فقہاء کی خباثتوں کا فتویٰ

(حرمت مصاہرة کے غلط مسائل سے جان چھڑانے کا قرآنی حل آخر میں پڑھیں)

دار الاافتاء جامعة العلوم علامہ بنوری ٹاؤن
ویب سائٹ لنک
https://www.banuri.edu.pk/readquestion/hurmat-e-musaaharat-ki-sharaet-o-ahkaam-144603102755/28-09-2024

https://www.banuri.edu.pk/questions/fasal/hurmat-e-musaharat

 

کیا سوتیلا نانا (یعنی سوتیلی ماں کا والد)محرم ہے؟

محارم ، بہو اور سالی کو شہوت سے چھونا اور مصافحہ کا حکم….

نو سال سے کم بیٹی کو برہنہ دیکھنے کی صورت میں حرمت کا حکم

ساس سے زنا کرنے کی صورت میں بیوی سے نکاح ……

امام ابوحنیفہ اورامام شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک حرمت……

بیٹی کیساتھ زنا سے آدمی پر اپنی بیوی حرام ہوجاتی ہے۔

بھتیجی کو شہوت سے چھونے کے بعد اس کیساتھ بیٹے کا نکاح

بیٹے کا ماں کو شہوت سے چھونے سے حرمت کب ہوگی؟۔

ہم بستری کے وقت بیوی کی والدہ کا تصور کرنے سے نکاح.

حرمتِ مصاہرت کی شرائط و احکام

عورت کو چھونے کے بعد انزال سے حرمت مصاہرت کا حکم

بھانجی کیساتھ ہم بستری کرنے پر ماموں کے نکاح کا حکم….

سوتیلی بیٹی کے ہاتھ میں زبردستی آلہ تناسل پکڑوانے…..

ساس کے پستان کو چھونے سے حرمت مصاہرت کا حکم

سسر کا بہو کو شہوت کے ساتھ چھونا

……بقیہ (بکواسات)

 

حرمت مصاہرت کی شرائط و احکام

سوال:1۔ اگر داماد ساس کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو کیا اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجاتی ہے؟ اسی طرح اگر سسر اپنی بہو کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟

2۔اگر باپ پیار و شفقت سے اپنی بالغ بیٹی کابوسہ لے اور اسے پیار سے چومے تو کیا بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجاتی ہے؟۔ راہ نمائی فرمائیں۔ جواب

(1) واضح رہے کہ مرد کے کسی عورت کو محض شہوت سے دیکھنے یا چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، شرعا چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

6۔شہوت سے دیکھنے یا چھونے کی صورت میں اس وقت انزال نہ ہوا ہو، اگر اسی وقت انزال ہوگیا تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔

(2) اگر باپ پیار و شفقت کی بنا پر اپنی بالغ بیٹی کو بوسہ دے اور اسے پیار سے چومے تو بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام نہیں ہوگی البتہ اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت پیدا ہوجائے یا

بوسہ دینا اور چومنا شہوت کیساتھ ہو اور اگر پہلے شہوت تھی تو وہ بڑھ گئی ہو تو اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کیلیے حرام ہوجائے گی، نیز اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت کا غالبِ گمان ہو تو اپنی بالغ بیٹی کو چومنا یا بوسہ دینا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی:(وأصل ماستہ وناظرة الی ذکرہ والمنظور الی فرجہا) المدور (الداخل).. …(قولہ : فلاحرمة) لانہ بانزال تبین أنہ غیرمفض الی وط ء ھدایة…. فان أنزل لم تبت والا ثبت لا انھا ثبت بالمس ثم بالانزال تسقط ؛ لأن حرمة المصاہرة اذا تثبت لاتسقط أبدا ایچ ایم سعیدکمپنی

فتاوی عالمگیری :ووجود الشھوة من احدھما یکفی وشرطہ أن لاینزل حتی لوانزل عندالمس أو النظر لم تثبت بہ حرمت المصاہرةکذا فی التبیین . قال صدر الشہید وعلیہ الفتویٰ کذا فی الشمنی شرح النقایة : ولومس فأنزل لم تثبت بہ حرمة المصاہرة فی الصحیح لانہ تبین بالانزال انہ غیر داع الی الوط ء .کذا فی الکافی۔ ( ج:1مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

 

عورت کو چھونے کے بعد انزال سے حرمت مصاہرت کا حکم

سوال :اگر کوئی شخص کسی عورت کو شہوت کیساتھ ہاتھ لگائے یا گلے لگائے یا گلے لگاتے ہی انزال بھی ہوجائے لیکن اس میں برہنہ کچھ نہیں کیا ہو تو کیا اس عورت کے بچوں کیساتھ اس مرد کی شادی ہوسکتی ہے؟۔یا اس عورت کے بچوں کے ساتھ اس مرد کے بچوں کی شادی ہوسکتی ہے؟۔

جواب: واضح رہے کہ حرمت مصاہرت جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا اور شرائط معتبرہ کیساتھ دواعی زنا ( شہوت کیساتھ چھونے اوردیکھنے) سے بھی ثابت ہوجاتی ہے،مس یعنی چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہونے کیلئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ شہوت ختم ہونے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو۔اگر انزال ہوگیا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

 

سوتیلی بیٹی کے ہاتھ میں زبردستی آلہ تناسل پکڑوانے…..

سوال :ایک شخص نے مطلقہ سے شادی کی۔ شادی کے بعد اس مطلقہ بیوی کی تیرا سالہ بیٹی کے پیٹ کو چھوا،اوراس کے ہاتھ میں زبردستی اپنا آلہ تناسل پکڑوادیا، تو کیا اس شخص کا نکاح اس مطلقہ سے برقرار رہا یا ٹوٹ گیا؟۔

جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی اپنی بیٹی ( چاہے سوتیلی ہو یا سگی)………… صورت مسئولہ میںاگر سوتیلے باپ کو اس وقت انزال نہ ہوا ہو تو حرمت مصاہرةقائم ہوگئی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی ہے اور دونوں کا مزید ساتھ رہنا شرعاًدرست نہیںہے جس کی وجہ سے شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر یا نکاح سے خارج کرنے کے الفاظ کہہ کر اس سے علیحدگی اختیار کرے۔

 

ساس کے پستان کو چھونے سے حرمت مصاہرت کا حکم

سوال:ایک شخص نے دھوکہ سے ساس کے پستان کو پکڑلیا،شہوت کا پایا جانا توظاہر ہی ہے ………چانچہ فتاویٰ ہندیہ میں: ولو اخذ ثدیھا وقال ما کان شھوة لا یصدق لان الغالب خلافہ وکذا فی الشامی، البحر والمیط (اور اگر اس کو پستان سے پکڑلیا اور کہا کہ شہوت نہیں تھی تو تصدیق نہ ہو گی اسلئے کہ یقینِ غالب اسکے خلاف ہے)۔اس جزیہ میںفقہاء نے لفظ اخذ استعمال…
جواب: …. لمس کے بجائے ”اخذ ” کا تذکرہ عرف کی وجہ سے ہے۔ ….

فتاوی دارالعلوم دیوبند :زید شہادت دیتا ہے کہ عمر اپنے فرزند کی زوجہ ہندہ کیساتھ برہنہ لیٹا ہوا تھااور زوجہ کے پستان پکڑے ہوئے تھا ، خالد شہادت دیتا ہے کہ عمر نے فرزند کی زوجہ کا بوسہ لیا، حرمت مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں؟

الجواب: پستان کا پکڑنا شہوت کیساتھ تھا یا نہیں؟۔ اسی طرح بوسہ میں بھی شہوت کا ذکر نہیںہے اور بوسہ دینا ایک گواہ کا بیان ہے اور پستان پکڑنا ایک شخص کا بیان ہے ۔دوگواہ امر واحد پر متفق نہیںلہٰذا حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
٭٭

 

حرمت مصاہرة کے غلط مسائل سے جان چھڑانے کا قرآنی حل

سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہۖ نے ”حرمت مصاہرت” پر ایسا بیہودہ درس نہیں دیا۔فرمایا: ”تم بھی اہل کتاب کے نقش قدم پر چلوگے ۔ اگر ان میں کوئی گو کے سوراخ میں گھسا ہوگا یا کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو تم میں بھی ایسے افراد ہونگے”۔ قرآن نے اہل کتاب کے مذہبی طبقے کا بتایا کہ” اس کی مثال گدھے کی ہے جس پر کتابیں لادی گئی ہوں”۔ اور یہ بھی ” اس کی مثال کتے کی طرح ہے ، جس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپے اور چھوڑ دو تو بھی ہانپے”۔ ( الاعراف:176۔الجمعہ:5)

حرمت علیکم امہاتکم …….وامھات نسائکم وربائبکم الاتی فی حجورکم من نساء کم الاتی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ماقد سلف ان اللہ کان غفورًا رحیمًا

”تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں………اور تمہاری عورتوں کی مائیںاور تمہاری وہ لے پالک جو تمہارے حجروں میں پلی ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن کے اندر تم نے ڈال دیا ہے اور اگرتم نے ان کے اندر نہیں ڈالا ہے تو تمہارے اوپر حرج نہیں اور تمہارے سگے بیٹوںکی عورتیں۔اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے سے گزر چکا ہے۔بیشک اللہ مغفرت والا رحم والا ہے”۔ (سورہ النسائ:23)

قرآن نے حضرت آدم وحواء کا قصہ ایسے الفاظ میں ذکر کیا کہ” لوگوں کو آج تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ وہ کوئی درخت تھا یا شجرہ نسب ؟جس سے منع کیاگیا”۔ مشرکوں کا فرمایا کہ ”پھرجب مرد نے اس کو چادر اُوڑھادی تو اس کو ہلکا حمل ٹھہرا، جس کو لیکر وہ چلتی رہی، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ ہمیں تندرست بچہ دیا تو ہم شکر گزار ہوں گے۔ پھر دونوں کو تندرست بچہ ملا تو دونوں اس کا شریک ٹھہرانے لگے”۔(الاعراف:189،190)

ایک توطلاق کے مسائل کی قرآن نے بھرپور وضاحت کی ہے جسے علماء نے نظرانداز کیااور دوسرا حرمت مصاہرت کے مسائل کو قرآن نے بہت واضح کردیا تاکہ سادہ لوح عوام کو انسانوں کی شکل میں گدھے اور کتے ورغلا نہیں سکیں۔

نکاح کے بندھن کیساتھ اپنی عورت میں ڈالنے کی وضاحت اور نہ ڈالنے کی صورت میں جائز ہونے کا تصور حنفی شافعی مسالک کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ایک طرف شافعی مسلک کی گنجائش نہیں بنتی اسلئے کہ نکاح سے زیادہ اہم ڈالنا ہے اور دوسری طرف حنفی مسلک کے بیہودہ مسائل کو بالکل ملیامیٹ کردیا کہ نکاح اور ڈالنے کی صریح وضاحت کردی ہے۔جس کے بعد شہوت سے چھونے اور فرج داخل کو دیکھنے وغیرہ کے بکواسات کی قطعی طور پر گنجائش نہیں رہتی ہے۔

عن زید بن براء عن ابیہ قال: لقیت عمی ومعہ رایة فقلت لہ این ترید ؟، قال: بعثنی رسول اللہ ۖ الی رجلٍ نکح امرأة أبیہ فأمرنی ان اضرب عنقہ واخذ مالہ ”زید بن برائ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ میری اپنے چچاسے ملاقات ہوئی اور میں نے کہا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟۔ اس نے کہا کہ رسول اللہۖ نے میری تشکیل کی ہے ایسے شخص کی طرف، جس نے اپنے باپ کی عورت سے نکاح کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اس کی گردن ماردوں اور اس کا مال لے لوں”۔سنن ابی داؤد ۔ شیخ الالبانی اورشیخ زبیر علی زئی نے صحیح لاسناد قراردی۔

دارالعلوم کراچی نے شادی بیاہ میں نیوتہ لفافہ کے لین دین کو سود اور کم از کم گناہ اپنی ماںسے زنا کے برابر حدیث سے قرار دیا اور پھر عالمی سودی بینکاری کو جواز فراہم کردیا۔ کہاں حدیث میں محارم پر قتل کا حکم اور کہاںیہ حیلہ سازیاں؟۔

امام ابوحنیفہ نے بادشاہ کی خواہش پوری نہیں کی اسلئے جیل میں زہر سے شہید کردئیے گئے۔ امام ابویوسف نے معاوضہ لیکر باپ کی لونڈی بادشاہ کیلئے جواز کا حیلہ نکال دیا۔ پھرامام ابوحنیفہ پر تہمت باندھی کہ شہوت کیساتھ چھونا بھی حرمت مصاہرت قرار دیا ہے۔پھر ساس کی داخلی شرمگاہ تک شہوت کی نظر سے دیکھنے پر حرمت مصاہرت کے مسائل پہنچاکر دم لیا۔ جس میں بیہودہ پن کی انتہاکردی ۔ مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کشف الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی کے دلائل کو وزنی قرار دیکر حنفی بیہودہ مسائل سے جان چھڑانے کی بنیاد ڈالی ۔ایک مدرسہ کے بڑے مفتی نے بتایا کہ” اکابرعلماء نے حرمت مصاہرت کے مسائل سے جان چھڑانے کیلئے میٹنگ کی تھی”۔مفتی تقی عثمانی جان چھڑانے کیلئے نہیں مان رہا؟۔

” ایک شخص کی عورت فوت ہوگئی ۔ علی نے پوچھا کہ اس کی بیٹی ہے؟۔وہ شخص: ہاں۔ علی: تم سے ہے یا کسی غیر سے ؟۔ شخص: غیر سے ہے۔ علی: تمہارے حجرے میں پلی ہے یا باہر؟۔ شخص: باہر۔ علی : پھر اس سے نکاح کرلو”۔ ( مصنف عبدالرزاق ،ابن حجر عسقلانی۔کشف الباری) یہ شافعی مسلک والوں کا من گھڑت غلو ہے جس میں سوتیلی بیٹی کیساتھ شادی کے جواز کا قصہ گھڑا گیا ہے۔ دوسری انتہاپر حنفی مسلک نے امام ابوحنیفہ پربیہودہ تہمتوں کے انبار لگادئیے ہیں۔

ایک طرف انڈیا کے فلموں ، ڈراموں اور معاشرے کی بدترین صورتحال سے لوگ اسلامی ، قومی اور اخلاقی غیرت کھوگئے ہیں تو دوسری طرف شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن لاہوراور شیخ الحدیث مولانا نذیرفیصل آباد جیسے اسکینڈل زدہ علماء کے شاگرد مسند افتاء وارشاد پر انتہائی بیہودہ فتوے جاری کررہے ہیں۔ مذہب ایک کاروبار بنادیا گیا ہے اسلئے غیرت ایمانی مسلمانوں سے رخصت ہورہی ہے۔

جاوید احمد غامدی نے ”مرد وعورت کا مصافحہ” پر کہا کہ ”ہندمیں رواج نہیں۔ ملائشیا میں شافعی خواتین کا ماحول مذہبی ہے وہ مصافحہ کرتی ہیں”۔غامدی کو حنفی نزاکت کا پتہ نہیں ہوگا کہ حنفی فقہ کے مسائل میں کیا قباحت اور خباثت ہے ؟۔

میں نے37اور40سال پہلے فقہ واصول فقہ اور تفسیر پڑھی تھی تواللہ والے اساتذہ تھے۔ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے فرمایا کہ” فقہ، اصول فقہ اور تفسیر کی کتابوں اور درسِ نظامی کوآپ درست کرسکتے ہو”۔ آج ایسے نالائق افتاء کی مسند پر بیٹھے ہیں جن کو صرف اپنی نوکری اور مدارس میں گاہک پکڑنے سے غرض ہے۔ جبکہ مفتی محمود اور مولانا سیدمحمد بنوری کے قاتلوں کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے۔
٭٭

مشہور شیخ الحدیث اور مفتی نے سنایا: ”فقہاء نے حلالہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیااسلئے کہ جب بادشاہ ، اور سردار کی بیوی کا حلالہ کردیتے تھے تو وہ آنکھ نہیں اٹھاسکتا تھا۔ ایک نواب کی بیوی ایک مولانا کو پسند آئی تو اس نے کہا کہ پیشاب کرتے ہوئے تیرا رُخ قبلہ کی طرف تھا،بیوی طلاق ہوگئی۔ پھر تجویز دی کہ اس کا نکاح مجھ سے کردو، کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ نواب نے دیکھا کہ ایک دن مولانا نے پیشاب کرتے ہوئے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا تو کہا کہ بیوی تجھ پر طلاق ،تو اس نے کہا کہ میں نے چیز کا رخ موڑ ا تھا”۔ مولوی حضرات عوام الناس کے خاندانوں کو تباہ کرتے ہیں لیکن جب اپنا مسئلہ ہو تو پھر دیانت سے کام لینا تو دور کی بات ہے۔ ننگے لیٹے پستان کو پکڑنے کیلئے بھی لکھا کہ شہوت کا ذکر نہیں اور گواہ متحد نہیں۔اللہ نے فرمایا یا اھل الکتٰب لا تغلوافی دینکم غیر الحق ”اے اہل کتاب دین میں ناحق غلو مت کرو”۔یہ غلیظ مسائل اہل کتاب نے چھوڑ دئے فقہاء نے رائج کردئیے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وَبدَّلنَاھُم بِجَنَّتَیھم جَنَّتَین ذَوَاتَی اُکُلٍ خَمط واَثلٍ وشَی ئٍ مِن سِدرٍ قَلِیل ”اور ہم نے انکے دو جنت کو بدل دیا ،دو ایسے جنت بے ذائقہ پیلو اور کریرہ والے اور کچھ کم تعداد بیروں کی ”۔( سورہ سبا:16)

سورہ الرحمن، الاعراف ، المرسلٰت ،الحج، الواقعہ اور سورہ الدھر میں انقلاب عظیم کی خبر اور خلافت کا گزشتہ شمارہ میںبتایا۔ فارس، خراسان، ہند، سندھ اور مشرق کی احادیث ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے سورہ القدر کی تفسیرمیں لکھا کہ ” اسلام کی نشاہ ثانیہ کیلئے قرآن ضروری ہے۔پنجاب، کشمیر ،سندھ، بلوچستان، فرنٹیئراور افغانستان میں جو قومیں بستی ہیں یہ امامت کی حقدار ہیں۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلہ میںلائے توبھی ان علاقوں سے ہم دستبردار نہیں ہوسکتے۔ نشاہ ثانیہ کا یہی مرکز ہیں۔( المقام المحمود) فرنٹ لائن پاکستان کی فرزانہ علی توجہ دیں۔

کانیگرم وزیرستان اورگومل ڈیرہ اسماعیل خان قوم سبا کے مصداق ہیں۔ جہاں کا امن وامان دہشت گردی میں بدل گیا۔ لذیذ باغ کے بدلے پیلو کے پھیکے چیونگم اور کریرہ کے پھل اور بیری کے چند درخت نشان ہیں۔

وزیرستان میں دہشتگردی کی بنیاد ڈیڑھ سوسال پہلے پڑی۔ وزیرستان کا امن وامان بہت مثالی تھا۔ برطانیہ نے دہشتگردی کے واقعات کو1900میں کتاب میں شائع کیا۔ قبائلی ملکان کوقابل شرم وظیفہ کچھ عرصہ پہلے تک دیتاتھا۔ پھرحکومت پاکستان نے غالباً بینظیر انکم سپوٹ کے تحت اپنے ذمہ لیا ۔
وزیراعظم متحدہ ہندوستان جواہر لال نہرو نے جب باچا خان کیساتھ جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا تو قبائلی ملکان سے کہا کہ چند ٹکے سے انگریز کے ہاتھوں مت کھیلو۔ جس پر یہ کہہ کر ورغلایا گیا کہ تمہیں گالی دی گئی ہے۔

اگرگالی تھی توپھرچند ٹکوں کے لفافے آج کھانا بند کیوں نہیں کئے؟۔ یہ زکوٰة و خیرات غریب غربائ، مساکین فقراء اور بیوہ و یتیم بچوں کا حق ہے جو خان و ملک کھارہے ہیں۔
قبائلی مستحکم اقدار کو ملکان نے تہس نہس کیا اور قومی اسمبلی میں بکنے کا رواج بھی انہوں نے ڈالا۔ پچ کے دونوں طرف دہشگردی کا بازار گرم کرنے میں بھی انہی کابڑاکردار تھا۔
جب ملک منہاج کے بھائی ضیا ء الدین نے بتایا کہ گوانتا ناموبے کی قید سے آزادی پر عبداللہ محسود نے سب ملکان کو رلادیا تو میں نے اس وقت لکھا کہ” ملکان خدا کیلئے تو کبھی روئے نہیں۔اسکے پیچھے بھی لفافوں کا چکر لگتا ہے”۔ ملکان فوج و طالبان کے درمیان ڈبل گیم کھیلتے تھے۔ مصطفی نواز کھوکھر نے فرزانہ علی کو بتایا کہ وزیرستانی کو فوج نے سند دی کہ ”اسکے دوبیٹے فوج کی طرف سے طالبان سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے”۔ لیکن پھر بھی فوج نے اس کا شناختی کارڈ بلاک کردیا تھا۔

سورہ سبا میں سیل العرم سے شدت پسندی اوردہشت گردی کی لہر مراد ہے۔

 

سیل کے معنی لہر ، طوفان ، سیلاب اور عرم کے معنی شدت ، تیزی اور سختی کے ہیں۔ پانی کاسیلاب، چوہے اور ٹڈی سے امن وامان کے مقابلے میں بدامنی نہیں آتی اسلئے وہ لہر ہی مراد ہوسکتی ہے جو امن کے مقابلہ میں ہو اور اثل کا معنی بے ذائقہ پھل ہوسکتا ہے جبکہ اس سے سایہ دار درخت مراد نہیں لیاجا سکتا۔ پہلی بار دنیا کے سامنے سیل العرم اور اثل کا درست ترجمہ اور تفسیر آئے گی ۔ انشاء اللہ

 

خلافت کی عظیم پیش گوئی قرآن میں وزیرستان اور گومل کے امن وامان کے بعد دہشتگردی کی لہرکا بڑاواضح تذکرہ

 

بیشک قوم سبا کے شہر میں نشانی ہے، دو باغ تھے دائیں بائیں جانب۔ کھاؤ اپنے رب کا رزق اور اسکا شکر ادا کرو، پاک شہر اور بخشنے والا ربّ۔توپہلوتہی برتنے لگے تو ہم نے ان پردہشت گردی کی لہر بھیجی اور ہم نے بدل دیا انکے دو باغ کو ، دوباغ بے ذائقہ پیلو اورکریرہ والے اور کچھ چند بیری کے درخت۔ یہ ہم نے ان کو بدلہ دیا ان کی ناشکری کا اور ہم ناشکروں کو برا بدلہ دیتے ہیں اور ہم نے انکے اور برکت والے گاؤں کے درمیان بہت گاؤں ظاہری آباد کردئیے تھے اور ہم نے ان میں کئی ٹھہرنے کی منزلیں مقرر کی تھیںکہ اس میں دن اوررات امن کیساتھ چلو،تو کہنے لگے اے ہمارا رب! ہماری اسفاردستاویز میں دوری کردو اور ظلم کیا اپنی جانوں پر، پس ہم نے انہیں کہانیاں بنادیا۔ اور ہم نے ان کوچیرپھاڑ کر تہس نہس کردیا۔
بیشک اس میں صبر شکر کرنے والے کیلئے نشانیاں ہیں اور بیشک ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچ کر دکھایاتو سب اسکے تابع ہوگئے سوائے ایمان والے ایک گروہ کے۔ حالانکہ ان پر اس کا کوئی زور نہیں تھا مگر یہی کہ تاکہ ہم جان لیں کہ کون آخرت پر ایمان لاتا ہے اور کون اس سے شک میں ہے؟اور تیرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے”۔ (سورہ سبا:15تا21)

٭

چچا کے گھر کے نیچے کھنڈرجگہ پر باغیچہ تھا اور دوسراباغ ہماری موجود ہ زمین پر تھا۔گھروں کی راہ میں دائیں بائیں کبھی یہی دو باغ تھے۔ان دونوں باغوں کا اجڑ نابھی بڑا تاریخی واقعہ تھا۔

یہ میرے پردادا سید حسن بابو نے نواسوں کو دئیے جو میرا ننھیال تھا اور انہوں نے1923میں جٹہ قلعہ علاقہ گومل خریدلیا تو اس میں دو پھیکے باغ تھے۔ جو ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے بعد میں ختم کردئیے گئے۔اور کچھ بیر کے درخت مزیدار تھے جو کافی عرصہ تک بڑی یادگار تھے۔
دل بند،مظفرشاہ، منور شاہ کا قتل ، حسین شاہ کا کان کٹنا، صنوبرشاہ کا قتل، حسین شاہ کا بیوی سمیت دوافراد کا قتل پھر محمود کا قتل7وزیرانقلابی افرادکے بدلے میں بڑی دہشتگردی کی لہرتھی۔

کانیگرم اولیاء کا پاک شہر تھا،1920سے پہلے روڈ نہیں تھا۔ ٹانک اور کانیگرم کے درمیان کئی رات پیدل چلنے کی منزلیں تھیں۔ جہاں خانہ بدوش سفر میں پڑاؤ ڈالتے تھے اسلئے کہ سامان، عورتوںاور بچوں کیساتھ پیدل سفر تھا۔ بعد میں پھر یہی گاؤں بس سٹاپ بھی بن گئے۔ وزیرستان امن وامان کا بہترین مرکز تھا۔ ٹانک اور کانیگرم تک کاسفرپر امن تھا۔پھر انہوں نے دستاویزکی تبدیلی سے دل بندشاہ کی نوکری پر قبضہ کیااور شجرہ نسب بدلا۔ ( اسفار سورۂ جمعہ آیت:5والا) انہوں نے خودپر ظلم کیا ،دواپنجہ کی تقسیم ، زمین پرجبری قبضہ کیا۔دہشتگردی میں ملوث ہوگئے اور اللہ نے ان کو کہانیاں بنا ڈالا اوران کے دل ودماغ پھاڑ کر تہس نہس کردیا۔

صبر شکر کرنے والوں کیلئے یہ عبرت ہیں ۔ جن بے گناہ لوگوں کو مظلوم بنایا تھا تو وہ ان کے اپنے کمزور عزیز ہی تھے۔ جب دہشتگردی کے مسئلے پر انتہائی منافقانہ کردار ادا کیا تو ابلیس نے اپنے گمان کے مطابق ان کو بالکل سچا پایا ہے اور یہ سب ابلیس ہی کے تابع ہوگئے۔البتہ ان میں ایمان والا اچھا گروہ بھی ہے جو ابلیس کی چالوں میں نہیں آیا۔اگر اتفاق ہو۔ افغان طالبان،TTPاور ہمارے ریاستی ادارے دہشتگردی کیلئے میٹنگ کرنے والوں کو بے نقاب کریں تو امت مسلمہ کی تقدیر بدل جائے گی۔ ابلیس کیلئے استعمال ہونے پر مجبور نہ تھے۔ اللہ نے پرکھا کہ کس کا آخرت پر ایمان ، کون شک میں ہے۔ حضرت محمدۖ کے رب کی نگہبانی ماننی ہوگی۔
٭

 

خلافت کیلئے احادیث صحیحہ کا استدلال ہے لیکن قرآن میں اتنی بڑی خبر کا ذکر نہیں ؟۔اللہ نے فرمایا:
”اورکافر کہتے ہیں کہ ہم پر انقلابی لمحہ نہیں آئے گا۔ کہہ دو کہ کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم کہ تم پر ضرور آئے گاجو عالم الغیب ہے۔ اس سے غائب نہیں آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابرچیز۔ نہ اس سے چھوٹی اور نہ بڑی مگر کھلی کتاب میں موجود ہے۔ تاکہ ایمان اوردرست عمل والوں کو بدلہ دے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے مغفرت اور عزت والی روزی ہے اور جو ہماری آیات کو عاجز بنانے کی کوشش کریںان کیلئے عذاب ہے مذموم دردناک اور جن لوگوں کو علم دیا، وہ دیکھتے ہیں جو تیری طرف تیرے رب سے نازل ہوا کہ وہ حق ہے۔اور وہ ہدایت دیتا ہے زورآور تعریف والے کی راہ کی طرف۔ اور کہتے ہیں جن لوگوں نے کفر کیا کہ کیا ہم اس شخص کی نشاندہی کردیں جو کہتا ہے کہ ہمارے تہس نہس کے بعد بھی ہماری نشاة ثانیہ ہوگی؟۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے یا اس پر جنات ہیں؟۔بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے تو عذاب اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (سورہ سبا:3تا8)

مکہ مکرمہ کے شرارتی لوگ نبیۖ کے خلاف سازش کرکے اس وقت کے دہشتگردوں کو بتاتے کہ ایسا شخص جو حجاز کے عربوں کا کہتا ہے کہ تمام ادیان پر اس کا غلبہ ہوگا۔ یہ انقلاب کبھی نہیں آئے گا اور حضرت عمر جیسے بہادروں کو نبیۖ کے خلاف خسرے سردار ابوجہل اور دوسرے سردار ورغلاتے تھے۔ امیرحمزہ نے ایک دفعہ ابوجہل سے کہا کہ اے چوتڑ پر خوشبو لگانے والا!تیری ہمت کیسے ہوئی کہ میرے بھتیجے محمد کو گالیاں دیں؟۔ شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری نے آیت کا ترجمہ پشتو میں یوں کیا کہ ” ان کا سابقہ پڑتا ہے تو تمہیں گانڈ دکھاتے ہیں کہ ہماری یہ مارو۔ ہم کونہ مارو”۔شیخ اپنے مخالف دیوبندی علماء کو بھی مشرک اور گانڈو کہتے تھے۔

اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی تو اچھے اور بدکردار دنیا کے سامنے آئیںگے۔ مولانا شاداجان پنج پیری نے کانیگرم میں دیوبندی مسلک کے مطابق سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں مانگی تو مولوی محمد زمان نے قادیانیت کا فتویٰ لگادیا۔غلط فتویٰ لگانے پر پھر گالی پڑتی ہے اور کریکٹر لیس بھی سمجھا جاتا ہے۔

ایک طرف اسامہ بن لادن کوتلاش میں کانیگرم تک انگریزوفد لیکر جانا ۔ دوسری طرف دہشتگردوں کو میری نشاندہی کرنا کہ اسلام کی نشاة ثانیہ اور دنیا میں انقلاب کی خبر دینے والا یہ شخص ہے اور اس مشن میں خاتون کا کردارسوالیہ نشان ہے ۔امریکی بلیک واٹر کیلئے کام کرنے والا طبقہ ایک طرفTTPکے لوگوں سے گہرا تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف ان کا مذہبی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا تھا۔ فتنہ الدھیماء کا ذکر حدیث میں ہے۔ دھیما ء کا معنی چھوٹی کالک ہے۔ گرہن کو ”دھن” کہتے ہیں۔ سورج اور چاند گرہن کو دھن سیاہ کی وجہ سے کہتے ہیں۔ اللہ نے آگے فرمایا:

”اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کیلئے بشارت دینے والااور ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو۔ کہو کہ تمہارے لئے مقررہ وقت ہے جس سے تم ایک لمحہ پیچھے ہوسکتے ہو اور نہ آگے بڑھ سکتے ہو۔ اور کافر کہتے ہیں کہ ہم اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اس پر جو ہاتھ کامعاملہ ہے۔ اورجب آپ دیکھوگے کہ ظالم اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔ بعض بعض کی بات کو رد کریں گے۔ جو کمزور ہوں گے وہ متکبر سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم ایمان لاتے۔ تکبر والے کمزور وں سے کہیں گے کہ کیا ہم نے تمہیں ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی؟۔ بلکہ تم خود ہی پہلے مجرم تھے اور کمزور کہیں گے تکبروالوں کو کہ بلکہ تمہارا رات دن کا فریب جاری تھا جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ اللہ کا انکار کریں اور اس کیلئے کسی کو شریک (کسی سے مدد لینے کیلئے)ٹھہرائیںاور جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو بہت پشیمان ہونگے ہم طوق کافروں کی گردنوں میں ڈالیں گے۔ وہ اپنے کئے کا بدلہ پائیں گے اور ہم نے کسی بھی گاؤں میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجے مگر ا س کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ جو تم لائے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم مال اور اولاد میں زیادہ ہیں اور ہم کوئی عذاب کھانے والے نہیں ہیں ۔(سبا:28تا35)

جو بے غیرت طبقہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال ہوتا ہے ان کو زیادہ ندامت ہوگی۔ انشاء اللہ العزیز

فرمایا:پس آج بعض بعض کو نفع نہیں پہنچا سکتے اور نہ نقصان اور ہم کہیں گے ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا کہ آگ کے عذاب کا مزہ چکھو بسبب جو تم جھٹلاتے تھے۔ اور جب ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی تھیںتو کہتے تھے کہ یہ اور کچھ نہیں بس اس شخص کا ارادہ ہے تمہیں ان سے ہٹادے جن کو تمہارے آباء پوجتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ نہیں مگر جھوٹ ہے تراشا ہوا ۔اور کافروں نے کہا ہمیشہ جب حق ان کے پاس آیا کہ یہ کھلا جادو ہے۔ اور ہم نے ان کو کچھ کتابیں نہیں دیں جن کا یہ درس دے رہے تھے اورجھٹلایا ان سے پہلے لوگوں نے اوریہ لوگ تو اس کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے جو ہم نے انہیں دیا تو انہوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا۔پس میری پکڑ کیسی ہوگی؟۔ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوںکہ تم اللہ کیلئے دو دو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤپھر غور کرو کہ تمہارے ساتھی کو جنون ہے؟۔وہ نہیں ہے مگر تمہارے لئے ڈرانے والااس سخت عذاب سے ڈرانے والاجو ہاتھوں میں ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں تم سے کچھ بدلہ مانگتا ہوں تو وہ تمہارے لئے ہے۔ میرا اجر اللہ پر ہے۔وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ کہہ دیجیے کہ میرا رب حق پھینک مارتا ہے جو غیب خوب جانتا ہے۔کہہ دیجیے کہ حق آگیا اور باطل جو ابتداء کرتا ہے اور جس انتہا ء کو لوٹتا ہے۔ کہہ دیجیے کہ اگر میں گمراہ ہوں تو اپنے لئے اور اگر ہدایت پاگیا ہوں تو جو میرے رب نے مجھ پر وحی کی ہے۔ وہ سننے والا قریب ہے اور اگر آپ دیکھ لیتے کہ جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں پس نہ ہوگی ان کی بچت اور دھر لئے جائیں قریبی جگہ سے اور کہیں کہ ہم ایمان لائے اس پر ۔لیکن ان کیلئے پل کے نیچے بہت پانی بہہ چکا دور جگہ تک ۔ جبکہ پہلے وہ انکار کرچکے اور دور کی جگہ سے غیب پھینکتے تھے۔ اور ان میں اور ان کی چاہت میں حائل کیا جائے گا۔ جیسا انکے جیسوں سے پہلے ہوتا رہا ہے۔ بیشک وہ شک میں شک سپلائی کرتے تھے۔(سبا:42سے آخر )

جیسے آئینہ میں ہر شخص کو اپنا چہرہ نظر آتا ہے اور نیٹ پر معلومات حالات کے مطابق ملتی ہیں اور دنیا بھر کے جدید آلات سے رگوں تک پہنچنا ممکن ہے اس سے کہیں زیادہ قرآن میں انسان کو روحانی ، جسمانی، تاریخی حقائق کی روشنی میں بھرپور طریقے سے آگاہی ملتی ہے۔ آج کل جرائم پیشہ عناصر کے ڈیٹا سے بہت کچھ برآمد ہوتا ہے۔قرآن کا یہ کمال ہے کہ منافقین کے دلوں تک پہنچتا ہے۔ اگر منافق کو خود پر بھروسہ ہوتا ہے تو اللہ ایسا ماحول بنادیتا ہے کہ منافق سمجھ جاتا ہے کہ فضول کا دلا ہے۔ اللہ منافقوں کو بے نقاب کردے اورہونگے۔ انشاء اللہ

ماموں نے کہا کہ اگر انقلاب آیا تو میری قبر پر پیشاب کرنا مگر دہشتگردی کی میٹنگ کہاں ہوئی؟۔ یوسف شاہ کا کردار کیا؟۔ عورت پر غیرت ؟ اور بہن کی بات آئی تو سائڈ لائن یا کرائم کے پیچھے لگا؟۔

 

وزیرستان اورقوم سبا کے امن وامان کی بنیاد کیاتھی؟، ظالم ظلم سے توبہ نہیں کرتا یا کرائے پر استعمال ہوتو ضمیر بھی مرتا ہے

 

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

 

وزیرستان صدیوں سے امن وامان کا گہوارہ تھا اور باوجود اسکے کہ وزیرستان میں حکومت،حکمران اور ریاست کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر امن وامان کی ایسی مثالی صورتحال کیسے ممکن ہوسکی ہے؟۔

 

1:شخصی آزادی:

کا وہ تصور جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ مشہور شخصیت عارف خان محسود کتابوں کے مصنف اور زام پبلک سکول کے پرنسپل نے وزیرستان میں جلسہ عام کیا تھا جس میں اس نے اعلان کیا کہ ”جس خدا کے کان، ناک اور سر ، پیر وغیرہ نہیں یہ تو پھر ایک بوتل ہے”۔
لوگوں کے ہاتھ اپنے کانوں تک گئے لیکن کسی نے عارف خان محسود کے گریبان میں ہاتھ نہیں ڈالا اور جب تک اس نے خود اپنی مرضی سے توبہ نہیں کی تو اس پر ذرہ برابر کوئی دباؤ کسی نے نہیں ڈلا تھا۔

جب کانیگرم کے لوگوں نے مشاورت سے فیصلہ کیا تھا کہ جو رمضان کا روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر جرمانہ ہوگا تو کچھ جوانوں کا روزہ تھا لیکن انہوں نے دن دیہاڑے روزہ نہیں رکھنے کا اعلان کرکے کھلی جگہ کھانا پکایا تھا۔

جہاد کشمیر سے1948میں کوئی مجاہد ایک ہندو چھوٹی بچی لایا تھا تو معروف قبائلی رہنما فرمان اللہ خان عرف خنڈائی شمن خیل نے حکم دیا کہ کہ سیدھا میرے پاس لاؤ۔ پھر اس نے دو افراد مقبوضہ کشمیر بھی بھیج دئیے تاکہ ورثا مل جائیں مگر ورثا نہیں ملے اور پھر ہندو بچی کو اختیار دیا کہ مسلمان ہونا چاہتی ہو یا ہندو بن کر رہنا چاہتی ہو۔یہ تمہاری مرضی ہے۔
بچی نے ہندو بن کر رہنا پسند کیا اور خندائی نے اس کو اپنی بیٹی بناکر پالا۔ جب جوان ہوگئی تو ایک ہندو سے مشتہ وزیرستان میں اس کی شادی کردادی اور پھر اس کا شوہر فوت ہوا تو دوسرے ہندو سے اس کی شادی ہوگئی۔ پھر کافی عرصہ بعد جب دوسرا ہندو شوہر بھی فوت ہوگیا تو فرمان اللہ خان کی ہندو بیٹی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔ پھر مسلمان سے اس کی شادی ہوگئی۔ طویل عمر پائی۔ تقریباً چار سال پہلے اس کا ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقال ہوگیا اور وہیں پر تدفین عمل میں آئی۔ اس کا نام میرو تھا۔
وافی :خنڈائی شمن خیل : امین اللہ شمن خیل شیر عالم برکی کیساتھ یوٹیوب پر دیکھ لیں۔ خنڈائی اس وقت بھی ننگے سر نماز پڑھتاتھا۔ انگریز کے خلاف انہوں نے اس وقت دیسی توپ کا استعمال بھی کیا ہے جو ابھی وانا کیمپ میں نمائش کیلئے موجود ہے۔

 

قوم سبا میں بھی شخصی آزادی ہوگی اسلئے کہ شخصی آزادی کے بغیر امن وامان کا قیام انسانوں کی جگہ جانوروں کی طرح ہے۔ اقبال نے درست کہاکہ

افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

 

2:مشاورت کا عمل

:جب کوئی بھی اہم فیصلہ ہو تو اس پر پہلے مشاورت کا قرآن میں بھی ذکرہے۔
وزیرستان کے امن وامان میں سب سے بڑی بنیادمشاورت کا عمل تھا ۔ مکمل شخصی آزادی کے بغیر مشاورت کا تصور بھی بے کار بن جاتا ہے لیکن جب تک مشاورت نہ ہو تو قوم کے اجتماعی نظام کا تصور نہیں بنتا ہے۔ حضرت ابوبکر کی خلافت ہنگامی تھی۔ حضرت عمر نامزدگی سے خلیفہ بن گئے ۔ جبکہ حضرت عثمان کی مشاورت میں چندا افراد تھے اور انصار بھی شامل نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ23سال نبیۖ کی محنت سے دنیا کی تاریخ کی سب سے بہترین اور مقدس جماعت صحابہ کے25سالہ دور خلافت میں حضرت عثمان مسند خلافت پر شہید کردئیے گئے اور پھر حضرت علی کے دور میں عشرہ مبشرہ کے صحابہ نے بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔
وزیرستان صدیوں امن وامان کا مرکز تھا ،جب کوئی وزیرستان کی حدود میں داخل ہوجاتا تھا تو وہ اپنی جان، مال اور عزت کا تحفظ پالیتا تھا۔ صحابہ نے اسلام کیلئے قربانی دی تھی۔ حضرت سعد بن عبادہ انصارکے سردار خلافت کے مسئلہ پر ناراض ہوئے اور شام دمشق کے قریب ایک گاؤں میں زندگی کے بقیہ لمحات گزارنے گئے لیکن وہاں بھی جنات نے شہید کردیا تھا۔ جو انسانی جنات بھی ہوسکتے ہیں۔

قوم سبا کے پاس13پیغمبر آئے اور آخر میں وہ دہشت گردی کا شکار ہوئے تو عذاب سے ہجرت کرنی پڑگئی۔ قوم یونس نے کفر کے باوجود جب یہ مانگا کہ آپس میں لڑائی کا عذاب ہم پر نہیں آئے تو اللہ نے ان کفار اور نافرمان قوم سے عذاب کا فیصلہ بھی ٹال دیا اور عذاب کی خبر پر حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ میں دعا مانگنی پڑگئی کہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین ۔ ”کوئی الٰہ نہیں مگر تو پاکی تیری بیشک میں ظالموں میں تھا”۔ امت مسلمہ کو صرف آپس کے لڑنے کا عذاب ہوگا۔

 

3:ظلم کیخلاف متفقہ اقدامات کا کرشماتی تصور

وہ زبردست بنیاد ہے جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال بہت مشکل سے مل سکتی ہے۔ ایک عربوں نے اس وقت حلف الفضول کا معاہدہ کیا تھا جس میں ظلم حد سے بڑھ گیا تھا اور قوم سبا کی بھی یہ صورت ہوگی۔

وزیرستان میں ظلم کے خلاف قوم کا اجتماعی قدم وہ بنیاد تھا جس نے امن وامان کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ایک عورت رونقہ کو کسی نے برائی کی دعوت دیتے ہوئے جبر کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ میں خود آتی ہوں۔ وہ بندوق لے کر آئی اور اس کو قتل کیا۔ عورت کا خاندان کمزور تھا ، مقتول کے خاندان نے اسکا محاصرہ کیا تو قوم نے نہ صرف اس خاتون کا دفاع کیا بلکہ اس کیلئے ایک اعزازی قلعہ بھی تعمیر کردیا۔ پھرکون ظلم کی جرأت کرسکتا ہے۔
بیرون ملک سے کوئی شخص آیا تو کسی نے اس کو خاندان سمیت قتل کردیا۔ پڑوسیوں کو تفتیش سے پتہ چل گیا کہ مجرم کون ہے؟۔ میدان میں سب کو اکٹھا کیا اور ایک بوڑھے کو رونے کیلئے چھوڑ کر باقی سب کو قتل کیا اور ان کی لاشیں پل کے نیچے لٹکادیں اور کئی دنوں کے بعد بغیر جنازہ کے دفن کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وزیرستان میں پہلے تو کوئی ظلم کرتا نہیں تھا اور جس نے غلطی سے ظلم کیا تو اس نے بھگتا ۔

یہ تو پچھلے25،30سال قبل کے واقعات ہیں لیکن وزیرستان کے اقدار کبھی اس طرح کی حرکت کی اجازت نہیں دیتے۔آزادمنش قوم کی تباہی اس وقت شروع ہوگئی کہ جب مشیران نے عوام کے فیصلوں میں تاخیر، زیادتی اور ظلم کے عنصر کو شامل کردیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ چوری اور ڈکیتی سے ہوتے ہوئے معاملہ دہشت گردی تک اس وقت پہنچ گیا کہ جب طالبان کا دور دور تک بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ پہلے راستے میں بم رکھے گئے اور پھر قومی مشیران کے گھروں کے دروازے بھی بموں سے اڑائے گئے تھے۔ انگریزی ملکان نے ماحول کو خراب کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔

 

4:علاقہ اور قوم کے لوگ اپنے اپنے علاقے پر کسی بھی قسم کے جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے

اور جب کوئی جرم کرتا تو علاقہ کے لوگوں کیلئے وہ جواب دہ ہوتا تھا۔ مثلاً برکی قوم بہت تھوڑے لوگ ہیں اور وزیرستان میں ان کا علاقہ بھی زیادہ نہیں ہے لیکن وہ کسی کو اپنے علاقہ میں دشمن مارنے کی کبھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اسی طرح ہرعلاقہ کے لوگ اپنی اپنی حدود میں جرم کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی نے اپنے دشمن کو قتل کرنا ہوتا تو وہ اپنے علاقہ ہی میں قتل کرسکتا تھا۔ اگر کسی اور کے علاقہ میں اپنا دشمن قتل کیا تو جس سے دشمنی کا حساب تھا تو اس کے علاوہ جس علاقہ میں قتل کیا تو اہل علاقہ بھی اس کو پھر اپنا مجرم سمجھتے تھے اور اس کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا۔

 

5:کسی مجرم کی سہولت کاری بھی جرم تھا۔

ایک مجرم کو رہائش، ہتھیاراور کسی طرح کی مدد کرنے پر سہولت کار بھی جرم میں برابر کا شریک تصور ہوتا تھا اور اس کو مکمل طور پر اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا تھا۔

 

اگر کسی کے ہاں کسی کے دشمن نے سہولت کاری حاصل کرلی تو دشمن پھر کوئی مجرمانہ واردات کرنے کی جسارت اسلئے نہیں کرتا تھا کہ اس کو تین طرح کا سامنا ہوتا تھا۔ سہولت کار بھی اس کے خلاف خود بھی مدعی بن جاتا تھا کہ اگرجرم کرنا تھا تومیرا سہارا کیوں لیا۔ ان چیزوں کا دشمن اور دوست سب خیال رکھتے تھے۔ جس طرح اپنی پچھاڑی چھپانے کیلئے کسی سے مدد لینے یا معاوضہ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو اس طرح قبائلی رسم واقدار بھی غیرت کا مسئلہ تھا۔

 

6:فیصلہ کرنے کیلئے مکمل آزادی ہوتی تھی

کہ جو فریقین شریعت یا علاقائی رسم پر کسی کو اختیار دیں۔ جب ایک مرتبہ فیصلے کا اختیار دے دیا جاتا تھا تو پھر اس کو نہیں ماننے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور اس پر فائدے اور نقصان کو نہیں اپنی غیرت، عزت اور وقار کو دیکھا جاتا تھا۔ بسا اوقات جگہ کم قیمت کی ہوتی تھی لیکن اس سے کئی گناہ زیادہ نقصان فریق کو صلح کے مراحل اور معزز مہمانوں کی دعوت میں خرچ کرنے پڑتے تھے۔ بکری اور دنبی نہیں بلکہ بکرے اور نبے کھائے جاتے تھے۔ جس کا گوشت اچھا ہوتا تھا اور مہنگا پڑتا تھا۔ وزیرستان کے لوگوں کاDNAاقدار کے تحفظ کیلئے اصیل مرغوں کی طرح ہوتاتھا۔

 

کٹ مر سکتے تھے لیکن اپنی روایت سے وہ نہیں ہٹ سکتے تھے۔ پھر ہم نے بچپن میں اپنے ماموں کے ہاتھوں مولوی کو فیصلہ بدلنے کیلئے رشوت دیتے دیکھ لی۔ وانا سے معزز مہمانوں کیلئے بکروں کی جگہ بکریاں لائی گئیں تو میرے والد کو ان پر بہت غصہ آیا تھا۔ اصل میں وزیرستان کے اندر ان کی دوسری پشت تھی ۔ پہلے ٹانک میں رہتے تھے اور خانہ بدوش بن کر محسود ایریا میں گرمیاں گزارتے تھے۔

 

7:مکان کی تعمیر میں دشمن کو مزدور سے روکنا۔

وزیرستان کی خمیر میں یہ بڑا زبردست رسم ورواج تھا کہ جب کسی تعمیر کی اجازت نہیں دیتے تھے تو پھر وہ مزدور کو بیچ سے ہٹا دیتا تھا۔ کیونکہ قتل کا مسئلہ آتا تھا اور قتل کیلئے مزدور کو استعمال کرنا بھی بے غیرتی تھی اور اس کو مارنا بھی بے غیرتی تھی۔ اسلئے یہ اقدار کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تو اس سے بڑی مشکلات کا تصور ہوگا کہ مزدور پر بھی پابندی لگائی جائے لیکن جب مالک خود کام کرے تو اس کو قتل نہیں کیا جائے؟۔ نہیں پھر ہر صورت میں اس کو قتل ہی کرنا پڑتا ہے اور اگر مزدورکو روک لیا اور مالک کو کام کرتے وقت قتل نہیں کیا تو نسلوں تک بھی کلنگ کا بہت بڑا ٹیکہ ہے۔ ایسی غلطی کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ البتہ یہ ہمارے ماموں غیاث الدین نے توڑ دیا تھا۔ علامہ اقبال نے جو کہاہے کہ

اے میرے کہستاں تجھے چھوڑ کر جاؤں کہاں؟
تیری چٹانوں میں ہے میرے اب وجد کی خاک

 

اس کے پیچھے فطریDNAکا بہت بڑا فلسفہ ہے۔ ہمارے جن چچیرے کزنوں نے سامنے کی طرف سے وہ لپائی کی تھی جس سے مزدور پر کام بند کیا تھا تو وہ ان میں ایکMBBSڈاکٹر تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ کوئی رد عمل نہیں آرہاہے تو پھر آواز لگاکر کہا کہ ”تربور ( چچیرے) کیسی لپائی کی ہے؟”۔ پشتو میں والد کی طرف سے کزن کا الگ اسٹیٹس ہے اور والدہ کی طرف سے الگ ہے۔ عربی میں بھی چچیرے کے الفاظ ہیں۔ انگلش میڈیم نے کزن دونوں کی طرف سے استعمال کرکے فرق کو مٹادیا ہے۔ حالانکہ وزیرستان اور پشتون کلچر کا اہم حصہ ہے۔ جیسے علماء ومشائخ میں معاصرت کا لفظ مخصوص معنوں میں دشمنی اور عصبیت کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اسی طرح تربور کے لفظ کی بھی خاص چاشنی ہے۔ دوسرے ماموں سعدالدین نے کہا کہ یہ لوگ ڈرپوک ہیں تو میں نے کہا کہ کانیگرم پر اتنی بڑی تہمت مت باندھو۔ اگر واقعی میں وہ بزدل ہوتا بھی تو وزیرستان کی مٹی کے روایات میں یہ گولی مارنے کے برابر ہے لیکن جب حقائق اس کے منافی ہوں تو پھر کسی کی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

8:وزیرستان کے محسود اور وزیر کے قانون میں یہ فرق ہے کہ محسود میں کمزور وقتی طور پر فیصلہ کرلیتا ہے اور جب اس کو موقع ملتا ہے تو اپنا بدلہ لیتا ہے اور دیت واپس کردیتا ہے لیکن وزیر پہلے فیصلہ نہیں کرتا لیکن جب ایک دفعہ فیصلہ کرلیا تو پھر بدلہ نہیں لیتا ہے۔ جیسے شریعت اور پشتو قانون الگ الگ ہیں ایسے قوموں کے رسم ورواج میں بھی فرق ہے۔

 

9:کسی پر عورت سے تعلق کا الزام لگاکر قتل کیا جائے تو مقتول کا بدلہ وارث نہیں لیتے

لیکن یہ اتنی عار کی بات ہے کہ نسلوں تک بھی عورت کے الزام پر قتل عورت والوں ہی کو بھاری پڑتا ہے۔ اگر خمیر میں مٹی کا ضمیر نہیں ہو تو پھر الزام لگاکر قتل میں بے غیرت کو فرق نہیں پڑتا ہے لیکن ایسا کرنیوالا صرف اور صرف ایمان نہیں بلکہ غیرت ، ضمیر، انسانیت ، پشتو اور ہر طرح کی اخلاقیات سے نکل جاتا ہے۔

 

10:کسی بندے کو مارنے کا بدلہ خاندان کے کسی بھی ایسے شخص سے لیا جاسکتا ہے جس کو مقتول کے وارث اپنی پسند سے منتخب کرلیں۔
یہی وجہ ہے کہ قتل میں پہل کرنے سے لوگ بہت پرہیز کرتے ہیں کہ کوئی ریڑھ کی ہڈی جیسا شخص بدلے کرکے تشریف کے بل بٹھادے گا۔
واضح رہے کہ چند مثالیں عرض کردی ہیں ورنہ تو بہت بڑا موضوع ہے اور وزیرستان کی کہانی جاپان کی کہانی سے زیادہ مزیدار ہے۔ بہت سخت دشمنی کی حالت میں بھی عورت کو قتل نہیں کیا جاتا۔ تعزیت کا سلسلہ چل رہا ہو تو دشمن ایک دوسرے کو قتل کرنا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ رات کی تاریکی میںسوتے وقت حملہ بے غیرتی اور کسی کو قتل کرنے کیلئے معقول وجوہات نہ ہوں تو اسکا قتل کرنا بہت بڑا عار ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ قاتل کی ماں ،بہن، بیٹی اور بیوی پر چڑھا ہوگا۔اسلئے کوئی اس قسم کی غلطی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور لالچ کی بنیاد پر قتل تو انگریز نے ہی شروع کرایا جس کی سزا آج قوم بھگت رہی ہے

 

یہی اقدار ہی امن کی ضمانت تھے۔قوم سبا میں امن وامن کیلئے اس قسم کی صفات ہوں گی۔

 

1991میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک محسود کو اپنے والد نے اسلئے بند کرایاتھا کہ اس نے کہا تھا کہ2ہزار روپے میںکسی کیلئے قتل کروں گا۔ اسی سالBBCکا نمائندہ سیلاب محسود میڈیا سے خبر شیئر کرنے جیل میں آیا تھا۔ امان اللہ کنڈی کیلئے جب وزیرستان کے گاؤں پر فوج نے ٹینک توپوں سے چڑھائی کی دھمکی دی تو عوام ڈھول کی تھاپ پر ناچ کر کہہ رہی تھی کہ ہمیں مارو۔ کنڈی حوالہ نہ ہوگا اور پھر مذاکرات میں حکومت سے کہا گیا کہ ہمارے اجداد نے تمہارے اجداد انگریز سے معاہدہ کیا تھا تو اسمیںکسی بھی پناہ گزیں کو حوالہ نہ کرنا شامل تھا۔ پھر یہ خبر چھپی کہ کنڈی کو جیل میںوہ مراعات حاصل ہونگی جو فرار سے پہلے حاصل تھیں۔امریکہ کے حوالہ نہیں کیا جائے گااور اس کیلئے بطور ضمانت ایک اس درجہ کا امریکی شہرت یافتہ شخص ہم مہمان رکھیں گے۔ پھر یہ خبر اخبارات کی سرخی بن گئی کہ رشدی کو ہمارے حوالہ کرو ،کنڈی تم لے لو، رشدی سے زیادہ بڑا مجرم کنڈی نہیں۔تو اس حوالہ سے خبروں پر مکمل پابندی لگی۔ اس وقت میں جیل میں ہی قیدی تھا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مارچ 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv