پوسٹ تلاش کریں

پاکستان امام کا کردار ادا کرے تو نہ صرف ایشیاء ، یورپ، افریقہ اور امریکہ بلکہ مشرق و مغرب کی حالت بدل سکتی ہے

پاکستان امام کا کردار ادا کرے تو نہ صرف ایشیاء ، یورپ، افریقہ اور امریکہ بلکہ مشرق و مغرب کی حالت بدل سکتی ہے

سنگاپور ،تھائی لینڈ ، میانمار ، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈیا اور چین کو ایران ،عرب ممالک، ترکی، روس اور یورپ سے ملانے کا پاکستان زمینی راستے کا بہت زبردست جنکشن ہے۔ صرف ٹول پلازوں سے ریاست اور ہوٹل وغیرہ سے پاکستان امیر ترین ملک بن جائیگا۔

پاکستان بھارت سے بنگلہ دیش ،میانماراور تھائی لینڈ تک رسائی کے بدلے بھارت کو ایران اور افغانستان تک رسائی دے۔ میانمار کے مسلمانوں کو سکون کا سانس ملے گا اور بدھ مت والے ٹیکسلا ، بونیر اورافغانستان وغیرہ بدھا کے تاریخی اور مذہبی مقامات دیکھنے کیلئے آئیں گے تو معاشی طور پر کاروبار ِزندگی رواں دواں ہوگا۔ افغانستان اور ایران اسکے بدلے میں عرب ممالک، ترکی ،روس اور یورپ تک رسائی دینگے اور چین اورایران کے ملاپ سے بھی پاکستان نعمتوں سے مالامال ہوگا جو ہماری ضرورت ہیں۔
٭

برطانوی ہندنے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت افغانستان کو بدلے میں واخان کاعلاقہ روس اوربرطانوی ہند کے درمیان بفر زون بنانے کیلئے دیا تھا۔ جب روس نے افغانستان میں قدم رکھے تو پوری دنیا نے پاکستان سے اسکے خلاف مزاحمت کی۔ اب پاکستان کو نفرتوں سے پاک کرکے محبتوں اور امن و امان کی آماجگاہ بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کو تاجکستان اورسمندر تک رسائی دیں تو پھر دونوں ممالک یکجان دوقالب بن جائیں گے اور تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں گے۔
٭

دنیاکا71.9حصہ پانی اور29.1حصہ خشکی ہے۔ پانی کا50%بحر الکاہل30%بحر ہند اور20%بحراوقیانوس ہے۔250سال قبل امریکہ ، فرانس اور برطانیہ نے نہر سوئیز کے101میل کے ذریعے4ہزار کلومیٹر کا سمندری راستہ کم کرکے بحر الکاہل اور بحر ہند کو ملادیا۔ مصر کے عظیم لیڈر جمال عبد الناصر نے1960کی دہائی میں نہر سوئیز کی ملکیت واپس لی تو اسرائیل کے ذریعے جنگ مسلط کی گئی ، سید قطب کامحاذبھی کھڑا کیاگیاجو فلسطینی مجاہدہ ہائی جیکر لیلیٰ خالد مدظلہا العالی کی آزادی کیلئے آخری امید تھے۔
٭

ڈاکٹر ہود بائی نے اپنے تازہ بیان میں کہاہے کہ پاکستان میں10سے15،20صوبے کی ضرورت ہے۔ فقط کراچی کی آبادی اسرائیل سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دفاع کوچھوڑ کر باقی انتظامی معاملات علاقائی سطح پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے اور دوسرے ممالک نے اپنے صوبے بڑھادئیے ہیں۔ ہسپتال ، اسکول اوردوسری ضروریات جب تک چھوٹے یونٹوں میں منتقل نہیں ہوں گے تو لوگ سہولیات سے محروم رہیں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس میں رکاوٹ کون ہے؟۔ ہود بائی نے جواب دیا اسلام آباد اورلاہور کے سیاستدان نہیں چاہتے کہ انکے ہاتھوں سے عوام نکل جائیں۔
ہودبائی کی بات ٹھیک ہے لیکن مرکز ، صوبے اور ضلعی حکومتیں بیرونی قرضوں پر چل رہے ہیں۔ جب تک صوبوں اور ضلعوں کی عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہ کیا جائے توصوبے بنانے سے خدشات کا سامناہوسکتا ہے ۔ اگر آزا د کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اعتمادکے ساتھ نقل و حمل کی اجازت ہو ، اسی طرح ہندوستان اور پاکستان کے پنجاب کو تجارت اور آسانی کے ساتھ نقل و حمل کی اجازت ہو ، سندھ کو بھارتی راجستھان کے ساتھ اور ایرانی بلوچوں کو پاکستانی بلوچوں کے ساتھ اور پختونوں کو ایران ، افغانستان اور چین کے ساتھ آزادانہ نقل و حمل اور تجارت کی اجازت ہو تو مقامی سطح پر لوگ معاشی طاقت بن جائیں گے۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے درمیان مرکزی ٹیکس کا نظام نافذ کردیا جائے تو لوگ بھی خوشحال ہوں گے اور مرکز بھی بڑا مضبوط ہوجائے گا۔ جب پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہترین بن جائیں گے تو بیرونی مداخلت کا کوئی تصور نہیں ہوگا۔ اگر یورپی ممالک فرانس اور جرمنی اپنی دشمنی ختم کرسکتے ہیں تو برصغیر پاک و ہند میںپاکستان اور ہندوستان کیوں نہیںکرسکتے ؟۔
ہندوستان پاکستان کے شر سے ڈرتا ہے اور پھر پاکستان ہندوستان سے خوفزدہ ہے۔ افغانستان پر پاکستانی مداخلت کا خوف طاری ہے اور پاکستان کو افغانستان سے خطرہ ہے۔ یہ خطہ حضرت آدم و حوا کی اولاد اور انسانیت کی میراث ہے یا پھر یہاں پر درندے اور گزندے رہتے ہیں؟۔ ایسا کچھ نہیں اور پاکستان ایک طرف انسانیت کے رشتے سے پوری دنیا مشرق و مغرب کے ساتھ وابستہ ہے تو دوسری طرف اسلام کے نام پر مسلمانوں اور تمام مذاہب کے ساتھ اخوت و محبت کا رشتہ ہے۔ تیسری طرف اپنے قریبی پڑوسی ممالک کے ساتھ زبان ، کلچر اور مختلف قومیتیوں سندھی، پنجابی، کشمیری، پشتون، بلوچ اور مہاجر حضرات پر مشتمل ہے۔ جن کے وجود سے ایک خوشگوار انقلاب آسکتا ہے۔
ایران کے تیل و گیس سے صوبہ بلوچستان اپنی حالت درست کرسکتا ہے اور اپنے بھائی صوبوں کو سستا تیل وگیس اورایرانی اشیاء فراہم کرسکتاہے۔ افغانستان کے پھلوں کو بلوچستان اورپختونخواہ اپنا بہت بڑا اثاثہ بناسکتے ہیں۔ جب چرس ، ہیروئن، شیشہ اوردنیابھر کی منشیات گلی محلوں سے لیکر لڑکیوں کے اسکولوں اورکالجوں تک دستیاب ہوں اور پھل فروٹ پر پابندی ہو تو انسانوں کی شکل میں انسان نہیں درندے اور گزندے ہی پنپیں گے۔
بچوںاور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں ، قتل ، اغواء اورگمشدگی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کی جعلی ادویات اورتعلیم کے نام پر جعلسازی سے لیکر اس قوم کے شاندار مستقبل کو کس طرف دھکیلا جارہا ہے۔ ریاست کا تحفظ بہت بڑا سرمایہ ہے کیونکہ ریاست نہ ہو تو بڑی سطح پر انارکی انتہا نہیں رہے گی۔ لیکن ریاست گردشی سودی قرضہ پر پل رہی ہو ، عوام پر مہنگائی کا بوجھ لاداجارہا ہو اور بیروزگاری ہو، تعلیم ، صحت ، انصاف، تجارت اور تحفظ کا ستیاناس ہو تو پھر عوام کو حکومت اور ریاست سے کیا ہمدردی ہوگی؟۔ہماری مقتدر طبقات سے التجا ہے کہ خود کو بھی بدلیں اور پوری قوم کو بھی بدلیں تاکہ ہم کسی بھی خوفناک انجام سے بچ جائیں۔
٭٭٭

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، خصوصی شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیادنیا اسلام سے خوفزدہ ہے کہ خلافت قائم ہوگی تو کفار کی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو لونڈیاں بنالیا جائیگا؟

جس مرد میں طاقت نہ ہو تو بیوی اس کو قریب نہیں چھوڑتی اور دوسری سے نکاح بھی نہیں کرسکتا۔ مگر ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہو تو اس کو چار تک محدود کرنا اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر” ایک بیوی یا جن سے معاہدہ ہو”۔
سوال یہ ہے کہ معاہدہ والیوں سے کیا مراد ہے؟۔
سلطنت عثمانیہ کے ایک بادشاہ کی4500لونڈیاں تھیں۔ کیا اللہ نے آیت میں لاتعداد لونڈیوں کی اجازت دی ہے؟۔ نہیں ہرگز بھی نہیں!۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عثمان نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ ایک عورت سے نکاح کرادیتا ہوں تو ابن مسعود نے منع کردیا۔ ابن مسعود نے اپنا شغل قرآن کی تعلیم کو بنایا ۔ نبیۖ نے ان سے سیکھنے کی تلقین بھی فرمائی تھی۔ ایک عورت سے نکاح کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔ کھانا، کپڑے، بچوں کی پیدائش اور ان کا خرچہ ۔ اس کیلئے مستقل کام کرنا پڑتا۔
ابن مسعودایک لونڈی کے فرزند تھے ۔ صحابہ نے نبیۖ سے کہا کہ کیا ہم خود کو خصی بنالیں؟۔ نبیۖ نے فرمایاکہ نہیں ایک دو چادرپر کسی سے جنسی تعلق رکھ سکتے ہو۔ لاتحرموا الطیبات ما احل اللہ لکم ”طیبات کو حرام مت کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں”۔قرآن۔( صحیح بخاری)
کوئی عورت نہیں رکھ سکتاتو کم حق مہر میں نکاح کرسکتا ہے۔ جو بیوہ ، طلاق شدہ ،کنواری ہوسکتی ہے جسے جنسی تعلق کیلئے شوہر کی ضرورت ہو لیکن وہ اپنا خرچہ خود اٹھاسکتی ہوں۔ قرآن میں یہ معاہدہ والیاں ہیں۔ اگر غریب یا نفسیاتی مریض ایک عورت کو انصاف نہیں دے سکتاتو معاہدے کا نکاح بھی کرسکتا ہے۔ قرآن نے معاہدے والی کا بغیر نکاح نہیں کہا۔ بلکہ ایک عورت سے نکاح یا کسی ایک معاہدے والی سے بھی نکاح مراد ہے۔
اللہ نے مرد کو مردانی کا ایک درجہ عورتوں پر دیاہے اسلئے کسی بھی صورت میں شوہر اپنا بوجھ اپنی بیوی پر نہیں ڈال سکتا ہے اور جب عورت اپنا بوجھ خود اٹھاسکتی ہو تو اپنی مرضی کا شوہر بھی اپنے لئے منتخب کرسکتی ہے ۔ مریم نواز کو صفدر عباسی پر فوقیت ہے۔ رسول اللہۖ نے چچاابوطالب سے بیٹی ام ہانی کا رشتہ مانگا۔ حضرت ابوطالب نے انکار کردیا۔ حضرت خدیجہ کی پیشکش کوابوطالب کی اجازت سے آپۖ نے قبول فرمالیا۔
لونڈی اور غلام سے بھی اللہ نے نکاح ہی کا حکم دیا ہے۔
وانکحوا الایامٰی منکم والصٰلحین من عبادکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنیھم اللہ من فضلہ واللہ واسع علیم O (سورہ النور آیت 32)
”اور نکاح کراؤ تم میں سے جو طلاق شدہ بیوہ ہیں اور صالح غلام اور لونڈیوں کا۔ اگر وہ غریب ہیں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو مالدار بنادے گا۔ اور اللہ وسعت رکھنے والا علم والا ہے”۔
ماریہ قبطیہ سے نبیۖ کے بیٹے، حاجرہ سے اسماعیل تھے اور کون گمراہ کہے گا کہ یہ لونڈیاں تھیں ، نکاح کرانے کا حکم تھا؟۔
خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کو پتہ ہوتا تو اتنی لونڈیاں نہ رکھتا۔ اتنی بکریوں پر ایک بکرا بھی کوئی نہیں رکھتا۔ خواتین کو درباری قسم کے علمائ،فقہائ، شیخ الاسلام، قاضی القضاة اور مفتی اعظم نے ہی جانوروں سے بدتر سمجھ رکھا تھااور انہی کا سکہ رائج الوقت تھا۔ امام ابوحنیفہکی جگہ حنفی مسلک شاگردابویوسف نے تشکیل دیا۔
غلام کے پاس حق مہر کیلئے کچھ نہیں ہوتا توپھر کیا ہوگا؟۔
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحًا حتی یغنیھم اللہ من فضلہ والذین پبتغون الکتاب مما مملکت ایمانکم فکاتبوھم ان علتم فیھم خیرًا واٰتوھم من مال اللہ الذی اٰتاکم ….. (سورہ النور آیت33)
”اور پاکیزگی اختیار کرلیں جو نکاح نہیں پائیں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے مستغنی بنادے۔اور جو لوگ غلاموں سے معاہدے کی لکھت چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر دیکھو تو ان سے تحریری معاہدہ کرواور ان کو وہ مال دو جو اللہ نے تمہیں دیا”۔
اگر کوئی بہن بیٹی کا رشتہ غلام سے چاہتے ہیں تو اگر ان میں خیر نظر آئے تو معاہدہ کرو اور اپنا مال ان پر خرچ کرو جو اللہ نے تمہیں دیا ۔ اس آیت کا ایسا غلط مفہوم نکالا کہ غلام آزادی چاہتا ہو اور اگر تمہیں اس میں خیر نظر آتا ہو تو پھر اس کے ساتھ آزادی کیلئے معاہدہ کرو۔ غلام اور آزادی میں خیر؟۔ اس کا جوڑ نہیں بنتا!۔ اللہ نے مال طلب نہیں خرچ کرنے کا واضح حکم دیا۔
آگے مزید دیکھو ! اللہ کے قرآن کا کیا حشر کیا گیاہے؟۔
ولاتکرھوافتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصن لتبتغوا عرض الحیاة الدنیا و من یکرھھن فان اللہ بعد اکراھن غفور رحیمO (سورہ نور آیت:33)
” اور اپنی کنواری لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو۔ اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں تاکہ تم اپنے دنیاوی مقاصد کو انکے ذریعے تلاش کرواور اگر کسی نے ان کو مجبور کیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد مغفرت کرنیوالا اوربہت رحم کرنے والا ہے”۔
ان آیات میں طلاق شدہ وبیوہ ، غلام ولونڈی اور کنواری کے نکاح کا مسئلہ حل ہے اور ذمہ داری بااثر افراد پر ڈالی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے طویل عرصہ حکومت کی مگر اکبر کے ”دین الٰہی” سے اورنگزیب کے” فتاویٰ عالمگیریہ” تک جس میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری ، فساد فی الارض پر سزا نہیں تھی اور پھر ایسٹ انڈین کمپنی نے ہندوستان پرقبضہ کرلیا۔
قائداعظم محمد علی جناح نے پارسی رتن بائی سے کورٹ میرج کی اور اس کی بیٹی دینا جناح نے پارسی سے کورٹ میرج کی تھی اور قرآن وسنت کو علماء نے فروغ نہیں دیا جس سے انگریز ی عدلیہ کو عدل وانصاف اور فطرت کے مطابق بہتر سمجھتے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید سے مولانا قاسم نانوتوی تک دینداری یہ تھی کہ جوان بیوہ بہنوں کا نکاح نہیں کیا جب وہ نکاح کی عمر سے گزر گئیں تو اپنے وعظ میں تاثیر لانے کیلئے بہنوں کی منت کی کہ اپنی ضرورت کو چھوڑدو ۔ہمارے لئے نکاح ثانی کرلو۔
لڑکی کو کسی سے محبت ہوگئی اور وہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اللہ نے حکم دیا کہ اس کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو کہ لڑکا ہمارا کفوء نہیں۔ خاندان کی عزت خاک میں ملے گی۔ اپنی دنیاوی اغراض کو تلاش مت کرو۔ لیکن اس کو کسی اور سے نکاح پر مجبورکیا گیا تواگرچہ اس کی اجازت نہیں لیکن مجبور عورت پر ناجائز اور حرام کاری کا فتویٰ نہیں لگایا جائے بلکہ اللہ غفور رحیم ہے۔
مفتی تقی عثمانی کی بیٹی نے ٹیوشن پڑھانے والے سے نکاح چاہا مگر مارپیٹ کر کسی اور نکاح پر مجبور کیا گیا۔اللہ نے اس جبر کو ناجائز قرار دیا لیکن حرام کاری نہیں اسلئے کہ لڑکی مجبور ہے۔
معاشرے میں ظالمانہ اقدام میں علماء بھی ملوث ہیں۔اور وجہ قرآن کامسخ مفہوم ہے۔ اس آیت کا یہ ترجمہ بیان کیا گیاکہ ”لونڈیوں کو زبردستی سے دھندے پر مجبورنہ کرو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور اگر ان کو مجبور کیا گیا تو اللہ غفور رحیم ہے”۔
عورت کی مرضی کے بغیر ولی نکاح نہیں کراسکتا(حدیث) بالغ لڑکی کا نکاح اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا تو چھوٹی بچی کا نکاح جبراً ہوسکتا ہے؟۔ مینا، طوطا اور کونج بچپن سے پالا ہو تو اس کا بھی حق ہے کہ مرضی کے بغیر حوالے نہ کیا جائے چہ جائیکہ اپنی نابالغ بچی کسی جنسی درندے کودی جائے؟۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد2” میں ظالمانہ غیرانسانی فتاویٰ جات کو دیکھ کر علماء کی غیرت جاگنی چاہیے تھی۔ اس کے کچھ فتاویٰ پہلے شائع کرچکا ہوں۔ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال معروضی حقائق کے بالکل منافی ہے جس پر تحقیقاتی کتابیں ہیں ۔ ہم نے خاصا مواد شائع کیا ہے۔
مفتی طارق مسعود نے کہا کہ بچی شوہر کی امانت ہے ۔ بچپن سے تعلیم کا خرچہ شوہر اٹھالے۔ فائدہ سسرال نے لینا ہے تو میکے والے نقصان کیوں بھریں؟ ۔PTVکی ماہ پارہ صفدر نے کہا کہ ”دورِ جاہلیت میں بعض قبائل اپنی بیٹیوں کو اس خوف سے ماردیتے تھے کہ دشمنی میں مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں سیکس کیلئے بنایا جاتا تھا۔ مفتی طارق مسعود بیٹیوں کو سیکس ورکر کی طرح بچپن میں دوسروں کے ذمہ لگانے پر تلا ہوا ہے” ۔
قرآن میں یتیم لڑکوں کیلئے حتی بلغوا النکاح کا ذکر ہے جس سے لڑکوں کا نکاح کی عمراور ذمہ داری اٹھانے کی حد تک پہنچنا واضح ہے۔ جاہلوں نے قرآن کے لفظ لم یحضن سے بالکل غلط استدلال کیا ہے کہ اس سے وہ بچی مراد ہے جس کو ابھی حیض نہیں آیا ہو۔ یہ سورہ اخلاص لم یلد کی نفی ہے کہ اللہ نے کسی کو جنا نہیں مگر مستقبل میں بچہ جن سکتا ہے نعوذ باللہ۔
الیکشن1937میں جمعیت علماء ہند نے مسلم لیگ کیساتھ اتحاد کیا کہ بچپن کی شادی ختم کرانے کیلئے قانون سازی ہوگی۔ مجلس احرارالاسلام نے قادیانی ٹکٹ ہولڈر وں کا مقابلہ کیا اور الیکشن میں ایک دوسرے کی مخالفت بھی ہوئی جس پر مولا نا مدنی سیدعطاء اللہ شاہ بخاری سے ناراض ہوگئے۔ بخاری نے مدنی کی پرواہ نہیں کی توپھر مولانا سیدحسین احمد مدنی منانے گئے۔
احمد نورانی نے اپنے ویلاگ میںدوبئی میں ایک18سالہ لڑکے کا17سالہ لڑکی سے جنسی تعلق پر سزا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں18سال نکاح کی قانونی عمر ہے اور اس سے کم عمر یا عمروں میں زیادہ فرق کیلئے عدالت سے اجازت لینا ہوگی۔
مغرب نے بھی نکاح کے قوانین رکھے ہیں اور اسلام نے بہت پہلے رکھے تھے لیکن فقہاء نے اپنی جہالت یا مفادات کی خاطر عورت کے حقوق کا خاتمہ کردیا۔ اگر حقوق نہ ہوں توپھریہ قانونی مسئلہ واقعی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اگر حقوق ہوں گے توپھر قانونی معاملات کیلئے والدین کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی کیونکہ طلاق میں مالی حقوق کا تعین کرنا پڑے گالیکن حلالہ کی لعنت کے مرتکب نکاح و طلاق کے حقوق کو کیا سمجھیں گے؟۔
دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث مدارس بورڈ1982کو منظور ہوگئے۔ مولانا مودودی مدارس کی افادیت کے سخت مخالف تھے لیکن جاوید غامدی کی خانقاہ کی طرح پھرجماعت اسلامی نے رابطہ المدارس بورڈ1987میں رجسٹرڈ کرایا۔
غزوہ حنین کی مشکلات میں نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ
انا نبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب
”میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں”۔
میدان جنگ اللہ نے سجدے و رکوع کا حکم نہیںدیا تھا اور نہ حضرت حسین نے اس پر عمل کیاتھا۔ علامہ اقبال نے کہا کہ
آگیا عین لڑائی میں وقت نماز
قبلہ رو ہوکے زمین بوس ہوئی قوم حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
لڑائی میں سر بسجود ہوں تو کون محمود وایاز زندہ رہیں گے؟۔ قرآن میں حالت جنگ نہیں حالت خوف کی نماز کا سورہ البقرہ آیات238،239میںحکم ہے۔ پھر سورہ النساء میں فرمایا :
” جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ نماز میں قصر کرو۔ اگر تمہیں خوف ہو کہ کفر والے لوگ تمہیں آزمائش میں ڈالیں،بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن تھے۔ اور جب آپ(ۖ) خود ان میں ہوں اور نماز پڑھانا چاہیں ان کیلئے تو ان کا ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہو اوراپناہتھیار ساتھ رکھیں۔جب وہ سجدہ کر چکیں تو وہ پیچھے ہوجائیں۔دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی۔پس وہ آپ کیساتھ نماز پڑھ لیںاور وہ بچاؤ کیلئے اپنی حاضر دماغی اور اپنا اسلحہ تیار رکھیںاور کافروں کو پسند ہے کہ اگر اپنے اسلحہ اور سامان سے غافل ہوں تو وہ ایک حملہ میں کام تمام کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ تمہیں کوئی تکلیف ہو بارش سے یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو اور اپنی حاضر دماغی بچاؤ کی رکھو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت کا عذاب مقرر کررکھا ہے۔ جب تم نماز پڑھ چکے تو اللہ کو یاد کرو اٹھتے ،بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر۔پس جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر اوقات کے مطابق فرض کی گئی ہے۔ (سورہ النسائ:101،102،103)
سفر میں نماز قصر کی اجازت ہے تاکہ مولوی اپنی دو رکعت کی نماز پڑھ کر مقتدیوں کی ایک بڑی تعداد کو شتر بے مہار کی طرح نہ چھوڑے۔ جب حالت یہ ہو کہ حنفی مسلک میں مقتدی کو بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہ ہو اور عوام کو پتہ نہ ہو۔ مجد د الف ثانی کا یہ حال ہو کہ حدیث میں فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور میں حنفی ہوں مگر نماز کی امامت کرتا ہوں تاکہ اپنی نماز ہوجائے۔( مقتدی بھاڑ میں جائیں)۔ حج کے اجتماع اور سفر میں نبیۖ ظہروعصر اور مغرب وعشاء کی نماز یں جمع کرتے۔
تبلیغی جماعت و جمعیت علماء اسلام کا لاکھوں کا اجتماع مگر زیادہ تر اوقات لیڑین ،انتظار اور وضو خانہ میں گزرتے ہیں۔ سورہ النساء میں سفر کی نماز کا حکم ہے اور نبیۖ کیلئے حساسیت بیان کی گئی اسلئے کہ کفار موقع کی تلاش میں تھے۔ صحابہ کرام نے دل وجان سے نبی ۖ کی حفاظت کی۔ شیعہ کی یہ عادت بری ہے کہ اختلاف کے علاوہ دوسروں کو حرامی تک بولتے ہیںلیکن طرز عمل کا اختلاف تو ائمہ اہل بیت اور ان کی اولاد میں بھی تھا۔ آج میڈیا کے باوجود کیا سے کیا پروپیگنڈے نہیں ہوتے؟۔
سورہ البقرہ کے پہلے دو رکوع میں مؤمنین ، کفار اور منافقین کی صفات ہیں۔فرمایاکہ” بیشک جو لوگ کافر ہیں ان کیلئے برابر ہے کہ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ایمان نہیں لائیںگے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور انکے سننے پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے”۔ کفر وانکار کی خصلت جن میں ہوتو وہ پیغمبروں کی بعثت پر عذاب کا شکار بنتے ہیں مگر ہردور میں اپنی خصلت سے پہچانے جاتے ہیں۔ نبی ۖ کے والدین کفر کی صفات نہیں رکھتے تھے۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے جن کا ایمان تھا ان کو قرآن نے اسلام پر دوہرے اجر کا مژدہ سنایا۔ نبی ۖ کی بعثت سے پہلے کسی کاانتقال ہوا تو کس جرم میں جہنم کا عذاب ہوگا؟۔ اب جو قرآن نہیں مانتے وہ مسلمان ہیں؟۔
بعض لوگوں پر منافقین کی صفات صادق آتی ہیں۔ قرآن کا آئینہ موجود ہے جس میں مؤمن، کافر اور منافق کا ایمان وکردار دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اللہ نے عورتوں کا حق مہر شوہر کی استعداد پر فرض کیا ۔ قد علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم وماملکت ایمانھم (الاحزاب:50)
”اور ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے ان پر بیویوں اور معاہدہ کرنے والیوں پر (حق مہر)فرض کیا ہے”۔ اللہ نے فرمایا کہ لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی الموسع قدرہ وعلی المقترہ قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنینOوان طلقتوھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضة فنصف مافرضتم الا یعفون او یعفوا الذی بیدہ عقدة النکاح وان تعفوا اقرب للتقویٰ ولاتنسوا الفضل بینکم ان اللہ بما تعملون بصیرًاO(البقرہ آیات236،237)

ترجمہ:” کوئی گناہ نہیں ہے تم پر اگر عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی یا کوئی حق مہر مقرر کرنے سے پہلے۔ پس ان کو خرچہ دو وسعت والے پر اپنی قدرت کے مطابق اور فقیر پر اپنی قدرت کے مطابق معروف طریقے سے خرچہ ہے۔حق ہے اچھوں پر۔ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی اور ان کیلئے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو پھر مقرر کردہ کا آدھا دینا فرض ہے الا یہ کہ جن عورتوں کا حق ہے وہ چھوڑ دیں یا جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ آدھے سے زیادہ کا درگزر کرلیں۔ اگر مردوں تم درگزر سے کام لو یعنی آدھا سے زیادہ دو تو یہ تقویٰ کے قریب ہے اور آپس میں ایکدوسرے پر فضل کرنا نہ بھولو۔ بیشک کہ جو کچھ بھی تم کررہے ہو ۔اللہ اس کو دیکھ رہاہے ”۔
اللہ تعالیٰ ان آیات میں واضح کررہاہے کہ مردوں پر حق مہر ان کی استعداد کے مطابق ہے۔ کھرب پتی اور فقیر دونوں پر اپنی اپنی قدرت کے مطابق حق مہر اللہ نے فرض کیا ہے۔
اللہ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق پر آدھا حق مہر فرض کیا مگر عورتیں رعایت کریں یا مرد اور مردوں کی رعایت تقویٰ کے زیادہ قریب ہے جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے۔
ایک عام آدمی حیران ہوتا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر بھی طلاق میں عورت کو آدھے حق مہر کا تحفظ دیا گیاہے؟۔ پھر رعایت کی بھی دو طرفہ گنجائش ہے لیکن مردوں کی طرف سے ہی رعایت کو زیادہ تقویٰ کے قریب قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ طلاق کا اقدام بھی وہی اٹھارہے ہیں تو اپنے کئے کا بدلہ انہی کو اٹھانا چاہیے۔ شیخ چلی پن کی انتہاء یہ ہے کہ فقہاء نے اس سے یہ مراد لیا کہ ”طلاق صرف مرد کا حق ہے اور عورت کو خلع کا حق نہیںہے”۔
حالانکہ یہاں مالی حق کا مسئلہ ہے اور طلاق کا اقدام مرد ہی اٹھارہاہے تو یہ وضاحت ہے کہ مرد کو رعایت دینی چاہیے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت کو اختیار سے محروم کردیا گیا۔ جب شوہر طلاق کے بعد عورت کو اس کے مالی حقوق سے محروم کرنے کیلئے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا:
وکیف تأخذونہ وقد افضٰی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقًا غلیظًاO (النسائ:آیت:21)
”اور اس سے کیسے لیں گے اور تحقیق وہ ایک دوسرے سے قربت کرچکے ہیں اور ان عورتوں نے ان سے سخت عہد لیا”۔
اس آیت میں عہد کی نسبت عورت کی طرف ہے تاکہ اس کو محروم نہیں کیا جائے ۔ آیت237البقرہ میں مردوں کی طرف نسبت ہے تاکہ عورت سے رعایت کیلئے تقاضے میں شرمائے۔
فقہاء کی حماقت اور شیخ چلی پن کی انتہاء ہے کہ قرآن کو رائج تو نہ کیا لیکن اپنی حماقت سے اسکے مفہوم میں معنوی تحریفات سے بالکل بخرے کرکے رکھ دئیے ہیں۔صدر وفاق المدارس پاکستان استاذ العلماء محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا:
” عورت کا فرض حق مہر مختلف فقہی مسالک میں الگ الگ ہے ۔ جتنی رقم پر چور کا ایک عضو ہاتھ کٹتا ہے تو اتنی رقم میں شوہر عورت کے ایک عضو شرمگاہ کا مالک بن جاتا ہے۔10درہم،3درہم ، درہم کا چونی اور ایک پیسہ وغیرہ پر مختلف اماموں کے ہاں چور کا ہاتھ کٹتا ہے۔ (کشف الباری شرح صحیح البخاری)
قرآن نے شوہر کی استعداد پر عورت کے حق مہر کا معاملہ رکھا ہے اور حدیث میں نبیۖ نے شوہر کے استعداد پر حق مہر کا معاملہ واضح کیا ہے۔ ایک عورت نے نبیۖ کو خود کو ہبہ کیا نبیۖ نے اسے دیکھا پھر ایک صحابی نے کہا کہ آپۖ کو ضرورت نہ ہو تو مجھے نکاح میںدیں، نبیۖ نے پوچھ لیا کہ آپکے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک چادر ہے ،اگر اس کو دوں گا تو خود کیا کروں گا؟۔ جس پر نبیۖ نے فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ ۔ بھلے لوہے کی انگھوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس نے دیکھا اور واپس آکر کہا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ نبیۖ نے پوچھا کہ قرآن کی کچھ سورتیں یادہیں؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! نبیۖ نے اسے سورتوں کی تعلیم ذمہ لگادی۔
یہ اس فقیر کا حال تھا جس کی کل مالیت نبیۖ نے حق مہر میں دے دینی تھی لیکن اس کے پاس تن پر کپڑے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اللہ نے قرآن میں واضح کردیا کہ ” نبی کیلئے یہ خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے،اگر نبی کا ارادہ نکاح کا ہو”۔ تاکہ آنے والے دور میں قیامت حیلہ بازمولوی ہبوں میں اپنی اولاد کیلئے مریدوں اور اپنے لئے عورتیں لیناشروع نہ کریں۔
مفتی تقی عثمانی نے بھتیجے کیلئے مرید کی بیٹی لے لی۔ اس نے بچوں کو بڑا کیا تو پھر جب وہ گھر گئی تو پیچھے سے طلاق بھیج دی۔ جس قوم کے افراد بیوی سے جہیز کا مطالبہ کریں اور بیٹی کو حق مہر کے نام پر بھاری رقوم سے فروخت کردیں تو اس میں ملا کہاں سے غیرتمند پیدا ہوسکتے ہیں؟۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ”جمہور کے نزدیک نکاح سے پہلے عورت کا چہرہ ہتھیلیاں دیکھ سکتے ہیں تاکہ خوبصورتی اور نرمی کا پتہ چلے۔ امام اوزاعی کے نزدیک شرمگاہ کے علاوہ پورا جسم دیکھ سکتے ہیں امام داؤد ظاہری کے نزدیک شرمگاہ بھی دیکھ سکتے ہیں”۔ (کشف الباری)
کاش !علماء اپنے نصاب کو ٹھیک کرنے کی طرف توجہ دیں۔
”اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ جب تم نشہ میں ہو یہاں تک کہ سمجھو کہ جو کچھ تم بول رہے ہو اور نہ جنابت میں مگر مسافر یہاں تک کہ غسل کرو….تیمم….”۔(النسائ:43)
جو بغیر نشے بھی نماز سمجھ کر نہیں پڑھتے تو وہ خود کو بے نمازیوں سے افضل نہ سمجھیں۔ہرنماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی دعا مانگنے والوں کا خود کو ہدایت پر دوسروں کو گمراہ سمجھنا بیوقوفی ہے۔
حضرت عمر نے کہا: سفر میں تیمم سے نماز نہ پڑھی۔نبیۖ نے فرمایا: اچھا کیا۔حضرت عمار نے کہا: زمین میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی۔ فرمایاۖ: ہاتھ و چہرے پر مسح کرنا کافی تھا۔
قرآن واضح ہے کہ نماز کی مسافر کو تیمم سے اجازت ہے اور تیمم سے نہ پڑھی تو صحیح۔ عمر نے عمل کیا، نبیۖ کی تصدیق مل گئی۔ عمار نے تیمم کا واضح مسئلہ نہ سمجھا تو نبیۖ نے سمجھادیا۔
نبی ۖ نے فرمایا کہ بنوقریظہ پہنچ کر عصر کی نماز پڑھو۔ کچھ نے راستے میں پڑھی اور کچھ نے مغرب کیساتھ پہنچ کر پڑھ لی۔
” نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔اللہ کیلئے عاجزی سے کھڑے ہو۔اگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ یا سوار ہوکر۔ پس جب امن میں آجاؤ تو ویسے اللہ کو یاد کرو (نماز پڑھو) جیسے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے”۔ البقرہ238،239
یہ حکم جنگ نہیں حالتِ خوف کا ہے۔ فقہاء ، قصہ گو واعظین، مصنفین اور طاغوتی شعراء نے امت مسلمہ کو قرآن وسنت سے دور کرکے اپنا اور ہم سب کا بیڑہ غرق کرنے میں کردار ادا کیا۔
آیت میں جنابت کیلئے غسل کا حکم واضح ہے ۔و ضو کیلئے اللہ نے فرمایا کہ ” جب تم نماز کیلئے اُٹھو تو اپنے چہروںو ہاتھوں کو دھو ؤ اور مسح کرو اپنے سروں کا اور اور اپنے پاؤں کو دھوؤ اور اگر تم جنابت میں ہو تو خوب پاکی حاصل کرو”۔ (المائدہ:6)
صحابہ کرام وضو کرتے اور نہاتے تھے مگرانہوں نے اس میں مختلف اور متضاد فرائض ایجاد نہیں کئے۔ فقہاء نے فضول کے اختلافات کئے کہ ”خوب پاکی حاصل کرو” سے کیا مراد ہے؟۔ وضو کے مقابلے میں غسل کرنا خوب پاکی ہے۔ کوئی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض قرار دے ، کوئی نافرض اور کوئی پورے جسم کو مل مل کو دھونا فرض قرار دے اور کوئی نہیں لیکن ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ یہی حال وضو میں سر کے مسح کا ہے ۔ کوئی چوتھائی فرض قرار دے تو کوئی بال برابر اور کوئی بال برابر بھی رہ جائے تو فرض ادا نہیں ہوگا۔ اگر یہ پتہ ہو کہ چہرہ دھونا ہے، ہاتھ کہنی تک دھونے ہیں تو سر کا مسح نہ بھی کہا جائے تو کرلیںگے۔
قرآن قیامت تک انسانوں کیلئے ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں جمعہ کی تقریر میں فرمایا کہ ” ایک یہودی نے اعتراض کیا کہ قرآن میں ان ھٰذا لشئی عجاب عربی جملہ نہیں ہے تو ایک دیہاتی عرب کو بلاکر چندبار اٹھک بیٹھک کرائی گئی اور پھر کہا کہ جاؤ تو اس نے کہا:ان ھٰذا لشئی عجاب جس پر یہودی مان گیا۔ ومن یشتری لھوالحدیث (اور جو لغو بات خریدتا ہے) تو جب آڈیو نہیں تھا تو بات خریدنے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا مگر قرآن میں موجودہ دور کیلئے اللہ نے یہ فرمایا ہے”۔
حدیث ہے کہ” آدمی اپنے ہاتھ کی چیز سے دور رہ کر بھی اپنا گھر دیکھے گا اور بیوی کے جوتے کے تسمہ پر (کیمرہ) لگائے گا تو سب ریکاڈنگ دیکھ سکے گا”۔ ملحدین قرآن واحادیث کے عجائب نہیں مانتے تھے لیکن سائنسی ترقی ثابت کررہی ہے۔
قرآن نے چاند، سورج ، بادل اور کائنات کی تسخیر سے دنیا کو منافع بخش بنانے کا حکم دیا تھا اور علماء ومفتیان اور مذہبی طبقہ غسل، وضو اور استنجے کی تسخیر پر قوم کی زکوٰة وخیرات کا پیسہ بہت ضائع کررہے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ایٹم بم بنادیا اور مفتی تقی عثمانی ومفتی منیب الرحمن نے سود کو اسلامی نظام قرار دیدیا۔ مذہبی طبقات کی مصیبت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے لیکن قرآن کو ٹکڑے کرنے میں سب مل کر ٹوکے اٹھالیتے ہیں۔ یہ رویہ اب بدلنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
قرآن میں اللہ نے محرمات کی فہرست کے آخر میں 5ویں پارہ کے ابتداء میں فرمایا: والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم کتب اللہ علیکم واحل لکم مارواء ذٰلکم ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسٰفحین فما استمتعتم بہ منھن فاٰتو ھن اجورھن فریضة ً ولا جناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضة ان اللہ کان علیمًا حکیمًاO(النسائ:24)
اس آیت پر بھی صحابہ وجمہور میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا جس کا اصل میں تعلق بعد کے ادوار سے تھا۔ سب سے بڑی حرمت شادی شادہ عورت سے نکاح کی ہے۔ عربی، اردو، انگلش اور تمام زبانوں میں عورت کیلئے بیگمات کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اگر عورت کا شوہر مرچکا ہو تب بھی اسکے احترام میں بیگم صاحبہ ہی بولا جاتا ہے۔ ایک بڑے فوجی شہید افسر کی بیگم صاحبہ اپنے شوہر کے نشان حیدر یا مراعات قربان کرکے کسی اور شوہر سے نکاح اپنی توہین اور اپنے مفادات کے خلاف سمجھ رہی ہوتی ہے اسلئے اس کو نکاح کا پیغام دینا محرمات کے درجہ میں ہے۔
لیکن اگر اس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت جنسی تعلق قائم کیا جائے جس سے اس کے مفادات بھی متاثر نہ ہوں اور ایک معقول جنسی ذریعہ بھی مل جائے جیسے سعودی عرب میں بھی مسیار کا مسئلہ چل نکلا ہے تو اس سے معاشرے کی بہت خرابیوں پر قابو پانے میں زبردست مدد مل سکتی ہے۔ سورہ احزاب:50میں اللہ نے نبیۖ سے فرمایا کہ ” وہ چچا کی بیٹیاں آپ کیلئے ہم نے حلال کی ہیں جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ہے”۔ اور پھر سورہ احزاب آیت51میں نبی ۖ کو کسی سے بھی نکاح کرنے سے اللہ نے منع فرمایا کہ چاہے کسی عورت کا حسن کتنا اچھا لگے تو نکاح نہیں کرسکتے اور نہ کسی کو چھوڑ کر بدلے میں کسی اور عورت سے نکاح کی اجازت ہے مگر جس سے معاہدہ ہو”۔
حضرت علی کی بہن ام ہانی نے ہجرت نہیں کی ۔ بدرالدین عینی نے ام ہانی کو نبیۖ کی28ازواج میں شمار کیا۔ حالانکہ وہ بیوی نہیں بن سکتی تھی۔ معاہدے کا نکاح ہوسکتا تھا۔ جس نے پہلے نبیۖ کی دعوت نکاح قبول کرنے سے معذرت کی کہ میرے بچے بڑے ہیں۔ پھر اللہ نے بھی منع کردیا اور ظاہر ہے کہ نبیۖ کی ازواج امہات المؤمنین کی شہرت رکھتی ہیں۔ معاہدہ والی ایک ام ہانی ہیں۔ام المؤمنین ام حبیبہ نے بیٹوں کی پیشکش کی نبیۖ نے فرمایا یہ مجھ پر حرام ہیں۔(صحیح بخاری)
اگر مغرب میں اس نکاح کو قانون بنایا جاتا تو سیتا وائٹ کی بیٹی ٹیرن کو صاحبزادی کی عزت مل جاتی اور کیس کرنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ اسلام کی افادیت دنیا مان سکتی ہے۔
عبداللہ بن زبیر نے متعہ کو زنا قرار دیا تو حضرت علی نے کہا کہ آپ بھی متعہ کی پیداوار ہو۔ (زادالمعاد :علامہ ابن قیم ) اور شیعہ علماء کہتے ہیں کہ ابوطالب کے اسلام کو نہیں ماننے والے تو نبی ۖ کے حضرت خدیجہ سے نکاح پر حملہ آور ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوطالب نے ام ہانی کا رشتہ ایک مشرک کو دیا تھا۔ شیعہ علماء وذاکرین نفرتوں کو دلوں سے نکال باہر کریں اور اسی میں ان کا اور سب کا فائدہ ہے۔ ہم اپنوں کو سدھاریں گے۔
نکاح اور معاہدے میں یہ فرق ہے کہ نکاح میں عورتوں کو اپنا پورا پورا حق ہر لحاظ سے ملتا ہے جبکہ معاہدے میں باہمی رضا مندی کا معاملہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں مروجہ معاملہ نکاح نہیں معاہدے والا ہے اسلئے کہ نکاح میں جو حقوق قرآن وسنت نے عورت کو دئیے تو وہ تمام حقوق سلب ہیں۔ بلکہ معاملہ بہت بدتر ہے ۔ اسلئے مرتدجرمنی میں سعودیہ کی خواتین کو سپلائی کرتا تھا۔ قرآن و سنت کے فطرتی احکام سے سعودی عرب، افغانستان، پاکستان، بھارت اور دنیا بھر کی مسلمان خواتین کو درست حقوق ملتے تو پھر خواتین کیساتھ روز ناجائز حدود پار کرنے کی خبریں سوشل والیکٹرانک میڈیا پر نہ آتیں بلکہ غیر مسلم بھی بہت تیزی کیساتھ اپنا ماحول اسلامی معاشرتی نظام سے ہی لے لیتے۔
اگر عورت سے کئی بچے جنواکر نہ صرف اس کو گھر سے نکالنا شوہر کا حق ہو بلکہ اس سے بچے چھین لینے کا بھی حق ہو تو یہ نکاح کہاں ہوسکتاہے؟۔ سورہ الطلاق میں واضح طور پر گھر کو عورت کا قرار دیا گیا ہے۔ لاتخر جوھن من بیوتھن ”ان کو انکے گھروں سے مت نکالو”۔(الطلاق) ام رکانہ سے طلاق پر ابورکانہ نے گھر نہیں چھینا تھا بلکہ وہ اپنے بچوں کیساتھ گھر میں رہی تھیں۔ ٹانک گل امام کے مشہور عالم دین مولانا عبدالرؤف نے بیوی کو طلاق دی تھی تو اپنا گھر بیوی بچوں کیلئے چھوڑ دیا تھا۔
قانون اور اخلاقیات میں اتنا فرق نہیں ہوتا کہ ایک طرف بیوی سے کئی بچے جنواکر اس کو گھر اور بچوں سے محروم کیا جاسکتا ہو اور دوسری طرف اخلاقی بنیاد پر ان کو گھر سپرد کیا جاتا ہو؟۔ طلاق کے بعد عورت کے اصل حقوق کا پتہ چلتا ہے۔ حق مہر اور خرچہ عورت کا حق ہے۔ نبیۖ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ ودیگر ازواج مطہرات اپنے گھروں کی مالک تھیں۔
علماء کہتے ہیں کہ میاں بیوی میں ایک فوت ہوجائے تو ایک دوسرے کیلئے اجنبی۔ نبیۖ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ پہلے فوت ہوگئیں تو میں غسل دوں گا، حضرت ابوبکر کی میت آپ کی بیوی اور حضرت فاطمہ کی میت کو حضرت علی نے غسل دیا۔ مفتی کی بیوی20سال بعد مرتی ہے تواس کا بیٹا اپنی ماں کی قبر پر اجنبی شوہر کی تختی لگا دیتا ہے کہ زوجہ مفتی اعظم فلاں۔
اللہ نے فرمایا:” اور اگر یہ طاقت نہ ہوکہ بیوہ وطلاق شدہ کو نکاح میں لاسکو تو پھر مؤمنات معاہدے والیاں تمہاری لڑکیوں میں سے ۔اللہ تمہاراایمان جانتا ہے ۔بعض تم خود بعض سے ہو ، پس ان سے نکاح کرو انکے اہل کی اجازت سے۔ انکوانکا حق مہر دو معروف طریقے سے۔ نکاح کی قید میں لاکر نہ فحاشی سے اور نہ چھپی یاری سے۔جب نکاح میں لاؤ اور پھر وہ فحاشی کریں تو ان پر بیگمات کی آدھی سزا ہے۔یہ اس کیلئے ہے جو تم میں سے مشکل میں پڑنے کا خوف رکھے اور اگر صبر کرو تو تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے”۔ (سورہ النساء : آیت25)
بدکاری پر100اور50کوڑے کی سزا قرآن کے مطابق ہوتی تو عمل بھی ہوتا۔ سورہ نسائ:15میں عورت پر4گواہ کے بعد گھر میں تاموت قید کا حکم ہے یا کوئی راستہ اللہ نکالے۔ یعنی نکاح ہوجائے۔ مفتی شفیع و مفتی ولی حسن ٹونکی نے سنگساری مراد لیا اور پھر اللہ نے دو مرد کو بدکاری پر اذیت کا حکم دیا اور اگر توبہ کریں تو طعنے سے روکا ۔ (النسائ:16) علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کو مینار پاکستان سے گرایا ؟۔
مااصاب من مصیبةٍ فی الارض ولافی انفسکم الا فی کتابٍ من قبل ان نبرأھا ان ذٰلک علی اللہ یسیرOلکیلا تأسوا علی ما فاتکم ولاتفرحوا بما اتاکم واللہ لایحب کل مختالٍ فخورٍOسورہ الحدید
”جو مصیبت زمین اور خود تم کو پہنچتی ہے تو کتاب میں پہلے سے ہوتی ہے ہمارے پیدا کرنے سے۔یہ اللہ کیلئے آسان ہے تاکہ تم نقصان پر افسوس اور عطاء پر فخر نہ کرو۔اللہ پسند نہیں کرتا ہر اترانے فخر والا”۔مولانا منظور مینگل نے کہا کہ سُود ، زنا اور قتل شرعاً و عقلاً ناجائز ہیں، شیعہ زنا کو جائز کہتے ہیں۔ اگر ہندو اور یہودی شرعاً سُود کو حرام اور ہمارا مفتی حلال سمجھے تو پھر؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جنوری 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!

طالبان اور پاک فوج کے درمیان جنگ کو صلح میں بدلنے کیلئے ایک واقعہ کی تحقیق کی جائے!

طالبان نے بھی اس پر معافی مانگی تھی اور محسود قوم کو بھی ساتھ لائے لیکن پھر محسود قوم طالبان کے سامنے بے بس تھی اورکانیگرم میں طالبان نے ان کو آنے نہیں دیا تھا۔اس وقت وزیرستان طالبان کے مکمل کنٹرول میں ہی ہوتا تھا

پھر ضرب عضب کے بعد طالبان کی رٹ ختم ہوگئی۔ طالبان گروپوں نے ایک دوسرے کو بھی مارا تھا۔ اگر علماء اسلام اور اشرافیہ پشتو کیلئے کردار ادا کرتے تو طالبان اسلحہ رکھ دیتے اورامن کیلئے مسئلہ نہ بنتے

ڈاکٹر ظفر علی شاہ سے میں نے کہا کہ” اگر مجھے موقع ملا تو قوم سے کہوں گا کہ یہ واقعہ ہمارے ساتھ ٹھیک ہوا ۔ معاف کردو تو مہربانی ہوگی ۔دوسروں کو قتل کیا جا رہا تھا تو ہم نے ٹھکانہ دیا۔ اپنے کئے کا بدلہ مل گیا”۔ جس پر ڈاکٹر ظفر علی خوش ہوگئے تھے۔
کریم کے بیٹے عثمان نے حماد سے کہا کہ اب تو فوج کے خلاف جہاد فرض ہے۔پشتونوں کیساتھ ظلم ہورہاہے۔ حماد نے کہا کہ” پہلے طالبان کے نام پر ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھائے ،اپنی عورتوں کو چھوڑ کر بھاگے۔ اب قوم پرستی کی بنیاد پر غلطی نہ کرو۔ اگر ریاست کے خلاف جہاد کرنا تھا تو طالبان سے کیوں ہٹ گئے”۔ عثمان نے کہا کہ وہ تو ظالم تھے۔
عثمان کے دادا سرور شاہ ریلوے ملازم نے بڑی رقم چوری کی تو بندے کانیگرم اسکے پیچھے پہنچ گئے۔ رقم کھالی، میرے دادا سید امیر شاہ نے وہ رقم دی۔ اسکے باپ کریم نے بھائی یعقوب شاہ سے فراڈ کیا۔ عثمان نے طالبان اورPTMمیں قربانی نہیں مال بٹورنے اور مفادات کیلئے شرکت کی ہے۔
سبحان شاہ کی اولاد ایکدوسرے کو انصاف دیں یا معافی تلافی کریں۔ہمارے دادا سیدامیر شاہ اپنی چھوٹی بہن فیروز شاہ، سرور شاہ ، میرمحمد شاہ اور کرم حیدر شاہ کی والدہ کے بارے میں کہتے تھے کہ ”یہ میری پگلی بہن ہے ۔ گھر سے چیزیں لے جاتی ہے اور کہتی ہے کہ تمہارے بچے کھائیں گے اورمیرے بچے نہیں کھائیں گے”۔حجت جتانے پر خوش تھے۔
شہداء کے واقعہ سے پہلے منہاج سے کہا تھا کہ ”اصحاب کہف کی تعدادمیں اپنے6بیٹوں کو تاکید کی ہے کہ اگر مجھے قتل کیا جائے تو نقاب پوشوں کو نہیں انکے سہولت کاروں میں ایک کو ٹھکانے لگادو”۔ اس موقع پر جہانزیب ، عبدالواحداور عبدالوہاب کے علاوہ ناصر محسود وغیرہ موجود تھے۔
جہانزیب نے کہا کہ” منہاج کو ایسا کردیا کہ وہ اپنی تھوک نہیں نگل سک رہا تھا”۔ میں نے کہا کہ منہاج نہیں دوسروں کے بارے میں کہہ رہا تھا تاکہ جہانزیب اسکے پیچھے نہ لگ جائے۔
واقعہ کے بعد خیبر ہاؤس پشاور میں شہریارنے کہا کہ ”طالبان کی ذہن سازی کی گئی تھی کہ بڑے ظالم لوگ ہیں ۔ لوگوں کی بیویاں چھین لی ہیں”۔
میں نے شہریار سے کہا کہ ”طاہر سے کہہ دو کہ شکر کرو کہ تیرا بھائی واقعہ میں مرا ہے۔ جب چیخوں کی آواز سنتا تھا تو میرے دل کو ٹھنڈک پہنچتی تھی اور اپنے جذبات کو قابو کرنے میں مدد ملتی تھی۔ ورنہ تو منہاج کے گھروالوں پرگولیاںچلادیتا۔میں نے مشکل سے خود کو روکا کہ ایک تو دشمن خوش ہوگا ، دوسرا منہاج کے گھر والے کہیں گے کہ سعدالدین نے مروادیا۔ طاہر سے کہہ دو کہ طالبان کو میری بیوی اور بچی کے بارے میں پتہ تھا اگر ان کو لے جاتے تو کیا میں اس کی ماں ،بہن اور خواتین کو چھوڑ دیتا؟”۔
غیاث الدین نے میرا بیٹا ابوبکر دیکھا تو کہا کہ ”اس سے بچوں کو بچاؤ، سندھی کلہاڑی سے مارتے ہیں”۔ ہمارے قریب مری بلوچ کی بدمعاشی سے علاقہ بیزار تھا ۔ پولیس بھی تنگ تھی لیکن ابوبکر نے سریا سے مارا تو اتنا گرم ہوا کہ ہاتھ سے پھینکنا پڑا۔ وہ مری طالبان کے سہولت کاروں سے زیادہ ہیں پھر بدمعاشی بھی ختم ہوگئی اور ہمارے دوست بن گئے ۔ ابوبکر کانیگرم چیلنج کرنے آرہا تھا۔ عثمان تک پہنچنے سے عمرکو منع کیا۔ عمر موٹر سائیکل چلا کر فون پر بات کررہاتھا تو دوست نے دوسرابھی فون دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ سے بات کی اور ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ عثمان کی اوقات نہیں پھر جہانزیب کو فون کیا اور مسیج ڈیلیٹ کرکے اُٹھائی ہوئی دُم واپس پیچھے ڈال دی۔
کراچی میں سکیورٹی ایجنسی نے بڑا چھاپہ مارا ۔ چھوٹا حمزہ کو تھپڑ مار کر کہا کہ بتاؤ باپ کہاں ہے؟۔ اس نے کہا کہ مجھے ذبح بھی کردو تو نہیں بتاؤں گا۔ یہ بتادو کہ مجھے تھپڑ کیوں مارا ؟۔ پھر انہوں نے اس سے معافی مانگ لی اور تلاشی لئے بغیر چلے گئے؟۔
منہاج کے گھر میں فوج گھس گئی تو انکے احوال کا پتہ ہے۔ بہادری اور بزدلی کی بات نہیں۔ ظالم ڈرتا ہے اور جس نے ظلم نہیں کیا وہ جھپٹتا ہے۔ حمزہ سے پڑوسیوں نے پوچھا کہ کون تھے؟۔ اگر بھائی منع نہ کرتا تو سیکورٹی فورسز دہشتگردی کو ختم نہ کرسکے مگر ہم انکے سہولت کاروں کیخلاف کاروائی کرکے کراچی سندھ ، کوئٹہ بلوچستان ،KPاور پنجاب سے دہشتگردی کو ختم کرتے۔ پہلے میری بیوی بچے خود کش کرتے۔ ہم دلے نہیں کہ دوسروں کو تو استعمال کریں لیکن خود آرام سے بیٹھے رہیں۔ اس طرح کی گھٹیا ذہنیت گھٹیا لوگوں کی ہوسکتی ہے۔
طاہر دلا اپنے مزارع سے لڑا تو بھی حماد کو ساتھ لے گیا اور پھرحکیم کوٹ والوں کو لے گیاتھا۔ اگر ان کو پتہ چلتا کہ میرے پاس اس کی کوئی اوقات نہیں ہے تو پھر مزارع کیساتھ بھی بدمعاشی کبھی نہیں کرتا۔
ہمارے واقعہ پر جامع تحقیقات کرکے حقائق سامنے آئیں گے تو لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ پاک فوج اور طالبان سے زیادہ قصور پشتون معاشرے میں موجود بہت ہی گھٹیا لوگوں کا ہے۔
اگر منہاج کہہ دیتا کہ اورنگزیب نے کتنی قدر کی ہے؟۔ اس کی یتیم بچی کو تنگ مت کرو؟۔ بچے چھینا اورقتل کی دھمکی غلط ہے توسعد الدین رُکتا۔ میں نے کئی باتیں منوائی ہیں۔ وہ ضدی اور ہٹ دھرم نہیں۔ منہاج نے جرگہ کی بات کی لیکن جب جہانزیب نے گالیاں دیں تو بات چھوڑ دی۔ جرگہ اس بات پر کرتے کہ طالبان کی سہولت کاری کیوں کی؟۔ اور ان کے ایماء پر چلنے کا مقصد کیا تھا؟۔
اگر میں نہیں ہوتا تو ماموں سعدالدین اپنا خون بہانے کے بجائے کسی اور کاخون بہا دیتا۔ میں نے اپنا بڑا وقت اس پر خرچ کر ڈالا۔ اب پھر کانیگرم کی زمین پر منہاج خون خرابے کے چکر میں تھا۔
محسود وں پر طالبان اللہ کی رحمت تھے۔ طاقتور لوگ کمزوروں پر ابوجہل بننے کی کوشش کرتے تھے۔ طالبان کی ظالمانہ طاقت نے سبھی کا پانی اُتاردیا۔ اشرف علی نے ایک طاقتوربرکی کا بتایا کہ وہ تکبر سے آیااوراسکے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کیا گیاتھا۔ طالبان کا ساتھی مظہرنظریاتی تھا۔اس کو مارنے کی جگہ کریم کا چہرہ واضح کرنا تھا۔ ضیاء الدین ومنہاج نے تو اپنی بیٹھک میں طالبان کوخوب بسایا۔ یہ بے غیرت فوج کے ایک چھاپے کی مارتھے ۔جو ادھر کے رہے نہ ادھرکے۔اللہ نے فرمایا ہے کہ
”منافق مرد اور منافق عورتیں انکے بعض بعض سے ہیں۔برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں۔انہوں نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے بھی ان کو بھلادیا۔ بیشک منافقین ہی فاسق ہیں۔ اللہ نے وعدہ کیا ہے منافق مردوں اور منافق عورتوں سے جہنم کی آگ کا۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہی ان کیلئے کافی ہے اوراللہ ان پر لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے کھڑا عذاب ہے”۔
(سورہ توبہ، آیات:67،68)
جس طرح ریاستی اداروں میں بیٹھے لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے اداروں کو بدنام کئے ہوئے ہیں اسی طرح سے طالبان کو بھی ذاتی مفادات والوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ چاہے وہ ان کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں یا انکے بدبخت سہولت کار۔ یہی حال ہمارے پورے معاشرتی نظام کا ہے۔
پچھلے شماروں میں اشتعال جان بوجھ کردلایا۔ تاکہ جس جانب سفر ہے اس میں کچھ چوہے اپنے بلوں سے نکل کر آجائیں۔مسئلہ یہ ہے کہ بہن ایک سائیڈ پر کھڑی ہے اور بھائی دوسری سائیڈ پر تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ اصل کردار کون کون ہیں؟۔
طالبان میرے لئے تیزاب کا ڈرم ساتھ لائے تھے۔ خیال تھا کہ اورنگزیب سرنڈر ہوجائے گا۔ مال ودولت بھی لوٹ لیں گے ۔ مجھے اور میرے بچوں کو نشانِ عبرت بناکر کس بات کا بدلہ لے لیں گے؟۔
جب فوج نے چھاپہ مارا تو ماموں کھوپڑی ہلاکر کہہ رہا تھا کہ ضیاء الدین کو بھی اٹھاکر لے گئے؟۔ جیسے بہت برا ہوگیا۔ پشتون قوم میں غیرت اور بے غیرتی کی تمیز بھی نہیں۔ ظالم اور سہولت کار پر ہاتھ پڑتا ہے تو خودکو مظلوم سمجھنے میں غیرت ، شرم اور حیا محسوس نہیں کرتا۔معاشرہ ٹھیک کرنا آسان نہیں۔ بیٹے کے خود کش سے بیٹی بیچنا زیادہ بے غیرتی ہے۔ مجھے حاجی ہمیش گل محسود نے مفت میں بیٹی دینے کی پیشکش کی تھی جسکا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور دوسرے علما ء ومفتیان کو مفت میں دی تھیں۔ لیکن مفت سے مسائل کم نہیں بلکہ بڑھ سکتے ہیں۔
طالبان نے قتل اور لوٹ مار کی تھی۔ حاجی یونس شاہ اور حاجی قریب برکی کی ہمدردی ہمارے ساتھ تھی لیکن منہاج نے سارے حربے ہمارے خلاف اور طالبان کے حق میں استعمال کئے تھے۔
ومن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ ”جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا” طاغوت کا انکار نہ ہوتو ایمان قبول نہیں۔ پہلے لاالہ طاغوت کا انکارکرنا ہے پھر الاللہ پر ایمان لاناہے۔ انگریز کی ناجائز خانی سے لیکرکسی کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے معاملات طاغوت نہیں تو اور کیا ہے؟۔ طالبان نے ہم پر حملہ کرکے مان لیا کہ طاغوت کیلئے استعمال ہوگئے مگر یہ طبقہ شیطان کیساتھ کھڑا تھا۔ طاہراور احمدیار نے شروع سے مخالفت کی۔ حالانکہ انکے آباء اجداد کا مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ ہندواور انگریز کا راج قائم ہوجائے تو اجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مراعات لیں گے۔ منورشاہ مظفرشاہ دیندار تھے۔ کرم حیدر شاہ نے جرمنی میں کردار کی حفاظت کی۔حسین شاہ اور محمدامین شاہ دیندار تھے۔
ایک بار کہیں چوری کرنے گئے تھے تو میزبان کی گائے چوری کرنے لگے۔ حسین شاہ نے کہا کہ یہ میں نہیں کرنے دوں گا۔ حسین شاہ فطری غیرت رکھتا تھا، عبادت میں اپنے ماموں امیر شاہ پر گیاتھا اور محمد امین شاہ بھی سادہ انسان تھا ۔ مقامی ہاتھ کے بنے چھال کے جوتے استعمال کرتا تھااور جہاد کشمیر میں ہندو عورتوں کی عزت محسودوں سے بچائی تھی۔ تبلیغی جماعت میں اس وقت 4ماہ لگائے تھے جب لوگ چلہ میں ولی اللہ بن جاتے تھے۔ سانپ کو بھی پکڑلیتے تھے اسلئے نانا بابویا ماموں کے حکم پر بچپن میں سانپ پکڑلیا تھا۔ حسین شاہ اور محمد امین بڑے اچھے اور دیندار انسان تھے۔ بعض معاملات میں وہ بڑے بھائی سلطان اکبر کے ہاتھوں مجبور تھے۔
سلطان اکبر کو سیدامیر شاہ نے حکمت سکھائی تو اس میں لوگوں کی سخت شکایات تھیں۔ حسین شاہ کو ٹھیکیداری پسند تھی جو غیرت والا کام تھا۔ اسکے بیٹے گل امین نے سرکاری نوکری سے خوب کمایا اورمال و متاع سب پر لٹایا۔ پہلے جائیداد میں چوتھائی دیا اور پھر انکار کرکے آخری عمر میں خوب ستایا تھا۔
ایک بندہ فیل ہوا تھا،17نمبر تھے۔ کسی نے کہا کہ16نمبر ہیں تو اس نے کہا کہ نہیں17ہیں۔ اگرکہیں ہماری معلومات میں19اور20کافرق ہوتو تصحیح کیلئے حاضر ہیں۔ مگر یہ رونا بالکل فضول ہے کہ بہت خراب کیا، یزید کی اولاد بنادیا۔ یزید کے بیٹے معاویہ کی تاریخ میں نظیر نہیں جس نے باپ کی گدی ٹھکرادی کہ ظالم اور غاصب ہے۔ باپ دادا، دادی صحابی۔ کافرابوسفیان نے بھی قیصرروم سے سچ بولا۔ ہندہ کا باپ، چچا ، بھائی بدر میں قتل ہوگئے ۔
یزیدنے دوسروں کے کاندھے پر بندوق چلائی اور درپردہ محاذ سنبھالا۔ چھپے نہیں کھلی سپورٹ کرنے والوں سے پوچھتاہوں کہ یہ تمہارا مذہبی یا انقلابی جذبہ تھا، جنون تھا، خوف تھا؟،یاری دوستی تھی؟ ہم نے تمہاراکچھ بگاڑا تھا؟۔ کیا ہم تمہارے دشمن کو یوں رکھ سکتے ہیں؟۔سوال اٹھانا بھی جرم ہے؟۔
رائل فیملی نے ہمارے دشمن کو رکھا تھا بلکہ ان کی طرف داری اور ہماری مخالفت میں لمحہ ضائع نہیں کیا۔حالانکہ بھانجے داؤد اور واحد نے مکمل ڈیوٹی کی مگر چچازاد کو یہ لشکر سمجھتے ہیں جیسا کہ شمن خیل محسود کی رائل فیملی بادینزئی کو لشکر سمجھتے ہیں۔ خیر خواہی کی بنیاد پر ”خان” کے تصور کا بھانڈہ پھوڑ دیا تاکہ جنکے دلوں و سماعت پر مہر، آنکھوں پر پردہ نہ ہواور اصلاح کی گنجائش ہے تو ان کی درست اصلاح ہوسکے۔
حسام شہید اچھا تھا، ناصر اچھاہے۔ جھوٹ کے ابوسفیانوابوجہل غلط ہیں۔ کوئی نسلی اچھا برا نہیں۔ ذہنیت بری ہے۔ برکی، محسود ،وزیر، بیٹنی ،مروت، پختون، پنجابی،سندھی ،بلوچ سبھی ہمارا افتخار ہیں۔
قرآن اللہ کا نور مشرقی اور نہ مغربی۔ جوان لڑکی کو80کوڑے نہیں قتل کیاجائے اور جبری زیادتی والوں کو چھوڑ دیا جائے تو یہ ہرگز اسلام نہیں ہے۔
جب کانیگرم میں کمزور لوہار نسل والوں پر ناجائز زیادتی کی گئی تو وہ طالبان بن گئے ۔ میرا والد عوام میں انصاف کی بنیاد پر فیصلہ کرتا تھا تو کانیگرم میں دہشتگردی نہ تھی ۔ اشرافیہ نے انصاف کیساتھ کھیلا تو راہ گیر بم سے اڑ گئے۔ بے گناہوں کو نقصان پہنچا۔ حالانکہ طالبان تھے اور نہISIتھی۔ہر چیز نامعلوم پرڈالنے کی جگہ خود احتسابی کا عمل ضروری ہے۔ فوج نے عبدالرزاق کے گھر پر کئی مہینے کمیٹی کا قبضہ رکھا اور ضیاء الدین کو اٹھایا۔ ”یہ جو دہشتگردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” کا نعرہ محض کمزور طبقے کا حوصلہ بڑھانے کیلئے لگا دیا تھا ،ورنہ دہشتگرداور انکے سہولت کارسبھی کو معلوم ہیں۔ اسلام، وطن اور قوم کی حفاظت کیلئے مجرم کے چہرے سے نفاق کا نقاب کھینچنا پڑے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

چوہے کی بل سے آواز ایک بڑا راز ؟ فیس بک پر انگریزی کی تحریر کا ارود ترجمہ اور اس کاجواب!

چوہے کی بل سے آواز ایک بڑا راز ؟ فیس بک پر انگریزی کی تحریر کا ارود ترجمہ اور اس کاجواب!

ہمارے خاندان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب ہے جو اس وقت شروع ہوا جب ہمارے اپنے ہی خون کے ایک فرد نے امام مہدی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا،اس شخص نے بہت نقصان پہنچایااور ہمارے خاندان پر دہشت گردانہ حملے کا باعث بنا۔
ہم نے اس کیلئے جو قربانیاں دیں،اس نے اس کا بدلہ غداری سے دیا۔ ہمارے بارے میں جھوٹ پھیلائے اور مختلف مضامین میں ہماری شہرت کو داغدار کیا۔ اس نے ہم سب کے نام لیکر یہاں تک کہ ان لوگوں کے بھی جو فوت ہوچکے ہیں۔
اور عورتوں کے بھی نام لئے جن کی حفاظت کرنی چاہیے تھی بدنام کیا۔ اس کی حرکات ہمیں اس کہاوت کی یاد دلاتی ہیں ”بھیڑ کے لباس میں بھیڑئیے سے ہوشیار رہو”۔ کیونکہ اس کا فریب ایک گہری غداری تھی۔شاعر مرزا غالب نے کہا تھا ”جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہے؟”،ہم بھی پوچھتے ہیں وہ شخص جو اپنے خاندان سے غداری کرتا ہے اس میں عزت کہاں ہے؟۔اس کے نقصان دہ الفاظ اور حرکات ہماری میراث پر ایک داغ ہیں اوراس کی بزدلی اور بے غیرتی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسے بے نقاب کرنے میں ہم انصاف چاہتے ہیں ، اپنی عزت واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے سچائی زمین پر کچلی جائے گی تو پھر اٹھے گی متحد کھڑے ہیں۔ہماری روحیں مضبوط ہیں۔ غدار کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے تیار ہیں۔ اسکے جھوٹ ہماری ثابت قدمی کی روشنی میں مٹ جائیں گے اور تاریخ ہمیں اس کی غداری نہیں بلکہ اسکے سامنے ہماری استقامت کیلئے یاد رکھے گی۔ (انگریزی خط کا ترجمہ جوشاید ریمنڈڈیوس کو لکھا ہے جو کانیگرم لایا گیا تھا۔ورنہ پھر اردومیں لکھ لیتے؟)

جوابی وار: انکشاف :دھڑدنگ نمبر1

تمہارا سیاہ باب سیداکبر شاہ و سید صنوبر شاہ نے انگریز سے پیسہ لیکراپنی قوم کے7افراد کے قتل سے شروع کیا ۔ جن پر دہشتگردی میں ملوث ہونے کے سیاہ وسفیدداغ تھے اب دونوںکا ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونا مبارک ہو۔ میرامقصد اصل میں یہی تھا۔
سن1991میں جب کچھ افراد پیدا نہیں تھے اور کچھ ماؤں کی گود میں تھے میں جیل گیا اور رہائی کے بعد میدان میں رہا۔ سن2007میں17سال بعد میرے گھر پر دہشتگردانہ حملہ ہوا اوریہ واحد حملہ ہے جس پر انہوں نے غلطی مان کر پوری محسود قوم کے نمائندوں کیساتھ تاریخی معافی مانگی۔17سال بعد واقعہ کاآئینہ دکھادیا تو کتیا کی دُم پر پاؤں پڑ گیا ۔
چچازاد عثمان، فادر ان لاء احمدیارمولانا آصف کے سامنے اسکے استاذ قاضی فضل اللہMNAنے میرے متعلق پوچھا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا: ”یہ ہم سے بڑا انقلابی ہے مگر تھوڑا جذباتی ہے”۔
وزیرقوم کیخلاف انگریز نے اقدام اٹھانا چاہا اور محسودقوم سے کہا تھا کہ” تم ساتھ مت دو۔ وزیر نے بھی تمہارا ساتھ نہیں دیا ”۔ محسودوں نے کہا کہ اگر ہم ساتھ نہ دیںتو ہماری عورتیں پتھروں سے تمہارا مقابلہ اورہمیں چوڑیاں پہنادیں گی”۔ اگر حملے کے بعد مردوں میں ہمت نہ تھی کہ طالبان کو ہٹنے کا کہتے تو عورتوں کا بتادیتے کہ وہ پراٹھے نہیں پکا سکتی ہیں۔ عرش تا فرش مخلوق حیران تھی کہ تم کس مٹی سے بنے ہو جو ان دہشتگردوں کو اپنے گھروں میں بساتے ہو جو خود کہتے ہیں کہ ”ایسا ظلم تو اسرائیل کے یہودنے فلسطین میں بھی نہیں کیا”۔نبی ۖ نے سچ فرمایا:”جب حیاء چلی جائے تو جو مرضی کرو”۔ کمینہ پن، بے غیرتی ، دلا گیری، بے حیائی اور بے ضمیری کے علاوہ ڈھیٹ پن کی انتہاء ہے کہ قتل بھی ہمیں کروایا، ایکدوسرے کیخلاف گواہ بھی تم ہو، کھلے ، چھپے انکے ساتھی بھی تم ہو، پھر اس کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی؟۔ گھر میرا تباہ کیا بدنام تمہارا خاندان ہوا؟۔ یزید کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی کہ کن دلوں سے ملادیا؟۔

جوابی وار:انکشاف:دھڑدنگ نمبر2

انگریزی خط لکھ کر تشہیر کرنے والی سبحان شاہ کی رائل فیملی ہے اور اس کی تائید کریم کا بیٹا عثمان اورعبدالرزاق کا بیٹا سعود کررہا ہے۔ ایک طالبان کی سہولت کار تھی دوسرے کے گھر میں دہشتگردوں نے کئی دنوں سے منصوبہ بندی کرکے حملہ کروادیا تھا۔ ان دونوں طبقے کی اس ناقابلِ فراموش قربانیوں پر لعنت بھیج دوں یا خراج تحسین پیش کروں؟۔ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ لوگ کریں گے۔ دنیا دیکھے گی اور وہ بھی انتظار کریں اور میں بھی منتظر ہوں۔
کریم کے بیٹے کا قصور نہیںاسنے دھمکی دی ہے کہ” گومل اور کانیگرم میں میرے سامنے بھگوڑے اور اسکے بیٹے کو بیٹھنے کی جرأت نہیں ہے۔ طالبان کی میٹنگ میں میں موجود تھا”۔حالانکہ اس کا تعلق اب القاعدہ اور طالبان سے نہیںPTMسے ہے۔ شکر ہے کہ سرور شاہ کی اولاد میں کوئی بہادر پیدا ہوا ہے۔ چشم بددور۔ سرور شاہ اور فیروز شاہ کا باپ مظفرشاہ کا قتل بھی صنوبر شاہ کی پاداشت میں ہوا۔ پھر خانی بھی اکیلے قبضہ میں لے لی اور ان کو زمینوں میں دونوں کو بہنوں کی طرح ایک بھائی کے برابرحصہ دیا ۔ اگر ان کی اولاد میں غصہ ہے تو بجا ہے۔کہیں تو وہ نکالیں۔ ہم سے کوئی شکایت بھی ہوگی تو حق بجانب ہیں۔
منہاج ، طاہراور احمدیارکامیں نے کیا بگاڑا؟۔ اور انہوں نے کونسی قربانیاں دیں؟۔دہشتگردوں کی سہولت کاری قربانی ہے؟۔ آؤ! میں بتاتا ہوں ۔ یہ لوگ تو نہ طالب تھے اور نہ القاعدہ والے۔جب ان پر کانیگرم میں بم دھماکے ہوئے تو میں نے بھی انکے ساتھ ڈیوٹی کی۔ انہوں نے ہمارے ساتھ ایک دن ڈیوٹی نہیں کی۔ حالانکہ شہریار کی گلی کے بچوں اور طاہر کی اپنے مزارع سے لڑائی ہو تو سہیل اور حمادکو بلالیتاہے۔ یہ جارج پنجم اور ملکہ وکٹوریہ کی اولاد سمجھ رہی ہے کہ سیداکبر اور صنوبرنے انگریز سے پیسہ لیکر اپنی قوم کا قتل کیا اور ہم نے تمہیں چھوڑ دیا۔ اوریہی قربانی ہے،اسلئے تاریخ بتانی ضروری ہے۔داؤد اور عبدالواحد نے ڈیوٹی کی تھی مگر وہ تو کچھ نہیں کہتے؟۔

جوابی وار:انکشاف:دھڑدنگ نمبر3

سبحان شاہ کی پڑپوتی واقعہ کے بعد دہشتگردوں سے رابطے میں تھی اور کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اور واقعہ سے پہلے بھی کسی پڑپوتی نے جاسوسی کی تھی ۔اگر فوت شدگان اور عورت کے ذکر کی ممانعت ہوتی تو ابولہب کی بیوی، حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کا قرآن میں ذکر نہ ہوتا۔ تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ پشتو اور اسلام دونوں کی غیرت سے عاری ہو۔
پروپیگنڈہ کیا کہ ریاض نے حاجی یونس کو پیچھے سے انگل دیا۔ میں نے ریاض سے کہا کہ یہ برا کیا ہے۔ ریاض نے کہاکہ یہ جھوٹ ہے۔پھر ریاض پروپیگنڈے کا شکار ہوا تو کہا کہ مینک کی زمین کیلئے تیری ماں نے بھیک مانگی ۔آئندہ کیلئے جھوٹا اثاثہ چھوڑنا ہمارے بچوں کیلئے بارودی سرنگیں ہیں۔
ہلال بن امیہ نے بیوی سے لعان کیا تو قرآن نے عورت کی عزت کیلئے اسکا جھوٹ معتبر قرار دیا۔ عورت نے کہا: اقرار سے قوم کو بدنام نہ کروں گی۔ جھوٹا الزام لگاکر قتل کیا جائے تو مقتول کے ورثاء قاتل کی عزت کا زیادہ نقصان سمجھ کر بدلہ نہیں لیتے۔
صنوبر شاہ کا قتل کسی اور کھاتے میں ڈالا۔ معاملہ کچھ اور تھا۔ پھر محمود کا قتل کسی اور حساب میں ڈالا۔ ایک خانی کے مفاد سے ہرقیمت پر چمٹے رہے لیکن اب ہمارے قتل میں دو قصووار لگتے ہیں ایک میںاور دوسرا میرا بھائی اورنگزیب۔ جس نے مزاحمت کی۔ لخ لعنت ہو تم پر۔ یہ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے کہ غلطی کس کی ہے کس کی نہیں۔ میں نے سبحان کی پڑپوتی کا بھی ذکر نہیں کیا کہ کوئی مجبوری ہوگی اور برقعہ بھی اسلئے پہن لیا کہ طالبان تمہاری عورتوں کو اٹھاکر نہیں لے جائیں کہ بندہ یہاں تھا تو وہاں چھاپہ ڈلوایا؟ کیونکہ وہ دلیل سنتے تھے اور نہ مانتے تھے۔میں نے تو اسی دن کہا تھا کہ اب ضرور خلافت قائم ہوگی ۔ یہ یوسف رضا گیلانی اور سلمان تاثیر کے بیٹوں کو ملتان اور لاہور سے لے جاسکتے ہیں تو پھر تمہاری؟۔ پہلے دل پر پتھر رکھ کر بہت ڈھیل دی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا۔ طاہر کے غلیظ مسیج برداشت کئے۔

جوابی وار:انکشاف:دھڑدنگ نمبر4

مظفرشاہ،منور شاہ ،صنوبر شاہ قتل تو سبحان شاہ اور سیداکبر کہاں گئے؟۔ ہم نے انگریز یا کسی ظالم کے ساتھ مل کر کوئی قتل نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ سے غلطی میں قتل ہوا تو پیغمبری و معجزات اور اللہ کا حکم ملنے کے باوجود خوف کھارہے تھے۔ عثمان جرم کا اقرار کرکے دھمکی دیتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہود بہت بزدل تھی، اسرائیل کے یہود کی پشت پر امریکہ کھڑا ہے تو فلسطینیوں پر ظلم کررہاہے۔ بزدل کتیا گرم ہو اور اپنے پیچھے کتوں کا ریلہ دیکھے تو اس میں حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اب تو تمہارا گرم موسم ختم ہوگیا ۔پھر بھی بھونکنے کی علت نہیں چھوڑی ؟۔
غیرت و بے غیرتی کا مسئلہ نسل درنسل چلتا ہے، ابوجہل چوتڑ کو خوشبو لگاتا تھا یا نہیں مگر غیرت رکھتا تھا اسلئے بدر میں کہا کہ گردن کو ذرا نیچے سے کاٹو تاکہ سردار کی گردن لگے۔ عکرمہ نے اسلام قبول کرکے بتادیا کہ غیرتمندابوجہل کا بیٹا قربانی دے سکتا ہے۔
تم بے غیرت انگریز سے طالبان تک ہر طاقتور کے ٹانگوں کے درمیان لٹک کر پیشاب چوستے ہو۔ جس طرح ڈھول اور ناچ کی کمائی میراثی کا پیشہ ہے اسی طرح انگریز سے لیکر جہاں ممکن ہو وہاں سے مفادات کی چوسنی لینا تمہارا تو پیشہ ہے۔ میرے پردادا، دادا، باپ ، بھائیوںتک کس کو چھوڑا ہے؟۔
اچھا ہے کہ منہاج اور طاہر کے گھر سے کھل کر یہ اظہار ہورہاہے کہ وہ کریم کے بیٹے عثمان کیساتھ ہی کھڑے ہیں۔ ضیاء الدین نے خالد سے پچھوایا کہ سب عتیق الرحمن کیساتھ متفق ہیں؟ مگر یہ واضح نہیں کیا کہ یہ خط متفقہ لکھا ہے یا بے نامی خط میں کوئی خاص افراد ملوث ہیں؟۔ میں کھل کر سامنے آیااور میرے دشمن نقاب اوڑھ کر نہیں بیٹھے رہیں۔
جب تک یہ واضح نہیں ہوتا کہ کون مجرم ہے تو قاتل اور انکے سہولت کار اپنے خاندان کی عزت کا مسئلہ بھی میرے کھاتہ میں ڈالیں گے؟۔
قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کُشتوں کا قتل کیونکر؟
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا

جوابی وار:انکشاف:دھڑدنگ نمبر5

الفاظ نہیں عملی اقدام سے ڈگمگانے پر قابو پاؤ۔ اخبار میں جرائم کی فہرست میں ایک جھوٹ ہو تو تردید کردو۔ میں تمہارا ساتھ تمہاری طرح منافقت کی تمام حدود عبور کرکے نہیں دوں گا بلکہ تہہ دل سے مان جاؤں گا اور یہ میرے لئے فخر کی بات ہوگی کہ ماموں کا خاندان بری ہوجائے۔ بغیر نکاح کے دہشتگرد شوہروںنے واردات کی اور طعنہ عبد الو ہاب کو دیا کہ” تیرے ساتھی نے کیاہے”۔ کھسرے باتیں عورتوں کی کرتے ہو اور خود کو مرد سمجھتے ہو؟۔ غیرتمند بن کر ایک طرف کھڑے ہوجاؤ۔وہاب نے میری وجہ سے سختیاں جھیلیںمگر کوئی شکایت نہیں کی ہے۔ داؤد ، عبد الواحد ، جنید اور طفیل وغیرہ نے ہمارے ساتھ ڈیوٹی کا حق ادا کیا تھا۔ ہمیں مجرموں کی تلاش ہے۔حملے میں ملوث عناصر کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ غنی خان نے کیا خوب کیا ہے ۔
خوراک کوی د سپی او مسلی د ملایانو
بانگونہ د بلال او لنگوٹے د چنگڑیا نو
پرتوگ دی یارہ نشتہ خو شملہ نیغہ د خان
شل خزی دی ساتلی خو سحر وائی اذان
پہ جنگ کی بہادر او مستانہ لکہ چنگیز
پہ مینہ کی بی شرمہ بی پرواہ لکہ انگریز
وربوز دی د قاضی دے طبیعت دی د ھٹلر
آواز دی د پخنڑو دے او انداز د منسٹر
انجام دی تبخے دے اے مجنونہ د ڈیران
یو ورز بہ ورستے بانگ اوکڑی ڈوڈء بہ اوکڑی خان
ترجمہ:کھانے کتے کے کھاتے ہیں اور مسئلے ملاؤں کے بیان کرتے ہیں۔ آذانیں بلال کی اور پگڑیاں چنگڑوں کے ہیں۔ شلوار نہیں ہے اور پگڑی جیسے خان۔ بیس عورتیں رکھی اوردیتے ہو صبح آذان ۔ جنگ میں جری و مستانہ جیسے چنگیز ۔ محبت میں بے شرم بے پروا جیسے انگریز۔ تھوبڑا قاضی کا اور طبیعت ہٹلر کی۔ آواز لاف زن کی،انداز منسٹر کا۔ تیرا انجام تو توا ہے،اے گندگی کے ڈھیر کے مجنون،ایک دن پیچھے آذان ہوگی اور کھانا ہوگا خان کا۔

جوابی وار:انکشاف:دھڑدنگ نمبر6

اچھے مقصد کیلئے مشکل پہاڑ عبور کرنے کو مستقل مزاجی اور غلطی پر ڈٹنے کوڈھیٹ پن کہتے ہیں۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی
جو فقر ہوا تلخیٔ دوراں کا گلہ مند
اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
مجھے کسی سے کسی قسم کا کوئی گلہ اور شکایت نہیں ۔ البتہ کچھ ٹھوس معلومات کی بنیاد پر تحقیق درکار ہے۔
1:دہشت گردوں کے ساتھ مذہبی جذبے کے تحت کون کون رشتہ دار شامل تھے جن کا جرم اتنا نہیں اسلئے کہ کئی سارے مذہبی شخصیات کو بھی قتل کیا گیا۔
2:وہ کون تھے جنہوں نے مہم جوئی کی کہ یہ لوگ بڑے ظالم ہیں لوگوں سے بیوی بچے چھین لئے ہیں اور دہشتگردوں کو آلۂ کار کے طور پر ہی استعمال کیا۔
3:جن لوگوں کے مذہبی جذبات تھے تو یہ ایک عام وبا پھیلی ہوئی تھی اور جن لوگوں کے ہاتھ ہم تک نہیں پہنچ سکتے تھے تو یہ مجبوری ہوگی کہ دہشتگردوں کو استعمال کریں، لیکن جو لوگ ان دونوں طرح میں نہ تھے تو وہ اپنی تکلیف بتائیں گے کہ کیوںانہوں نے ہمارے خلاف کام کیا؟۔ حسد تھی یا بھاڑا لیا ہے؟۔
جن لوگوں نے ایک طویل عرصہ سے برقعہ پہن رکھا ہے ، وہ اپنے ایک چوتڑ کو دہشتگردوں کی ران پر اور دوسرا چوتڑ ہماری ران پر رگڑ رہے تھے تو ان کا یہ برقعہ اب اتارنے کا وقت آگیا۔ منافقین کایہ ٹولہ طالبان سے ہٹ گیا اور میں بھی اچھال رہا ہوں۔ انتظار اس بات کا ہے کہ سبھی مجرموں کو ان کی کیٹہ گری کیساتھ الگ کرکے پوری دنیا کو دکھانا ہے۔
کریم بھابی کی فوتگی پر کوڑ طالبان کیGHQمیں بیٹھتا مگر جٹہ میں ملا جو طالبان کاIS1سینٹر تھا۔ احمد یار نے بچی کریم کے بھتیجے کی بیٹی سے چھینی ۔ میں گیاتا کہ احمد یار بیوی کو بچی لوٹا دے۔کریم یہ باور کرانے آیا کہ بھتیجے کے نہیں احمدیارکیساتھ ہوں؟۔ یا میری آمد کا پتہ چلا ؟، مشورہ لینے آیا ؟۔ تفتیش سے انٹرلنک کا مقصداور سازشوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں

پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں

پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی طرح ہے اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں، ہر وقت پر اپنا پھل دیتا ہے۔ خبیث بات کی مثال خبیث درخت کی طرح ہے اس کو زمین کے اوپر سے اُکھاڑ پھینکاجاتا ہے اس کو دوام حاصل نہیں ہوتاہے۔اللہ ایمان والوں کو ثابت بات سے ثابت قدم بنادیتا ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میںاور ظالموں کو گمراہ کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (سورۂ ابراہیم:آیت24تا27)

اصل نسب نہیں کردار ہے لیکن نسب کی اہمیت کا انکار نہیں۔ تقویم عربی میں کیلنڈر کو کہتے ہیں۔ سورۂ یوسف کا قصہ قرآن میں احسن القصص ہے۔ ایک طرف یوسف علیہ السلام تھے ،دوسری طرف ظالم بھائیوں کا کردار تھا۔ نسب ونسل میں ایک کیلنڈرتھا۔ باپ حضرت یعقوب ، دادا اسحاق اور پردادا ابراہیم تھے۔حضرت یوسف علیہ السلام کا کردار بھائیوں سے بالکل مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم رددنٰہ اسفل السٰفلین الاالذین امنوا وعملوا الصٰحٰت فلھم اجر غیر ممنون
”بے شک ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔ پھر اس کو سب سے نچلے درجے کی طرف لوٹا دیا ہے مگر جن لوگوں نے ایمان لایااور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے بدلہ ہے جس پر کسی کا احسان نہیں”۔
یوسف اور آپ کے بھائیوں کے قصہ میں ظالم ذلت کو پہنچ گئے ۔ یوسف پر کسی نے احسان نہیں کیا مگر ایسا بدلہ ملا جو رہتی دنیا کیلئے خوشنمامثال ہے۔
حضرت علیکے والدابوطالب نبی ۖ کے والد عبداللہ ، دادا عبدالمطلب اور پردادا ہاشم قریش عرب میں ممتاز تھے۔ شکر کہ میرے باپ ، دادا اور پردادا پر دھبہ نہیں۔ ٹانک کے پیر صابر شاہ سن1880میں کانیگرم آیا۔ محسود لوگوں سے کہتا تھا کہ سیدامیر شاہ سے استفادہ کرو۔امیر شاہ کی بہن کا رشتہ پیر صابر شاہ نے مانگا مگراس کو نہیںدیا۔ سبحان کی اولاد صابر شاہ کی مریدتھی ۔ٹانک میں گھر تھا۔ سید حسن شاہ بابو نے انگریز ایجنٹ اکبرشاہ کا رشتہ مسترد کیا تھا۔باقی بھائیوں صنوبر شاہ ،مظفرشاہ، منور شاہ کو رشتہ دیا لیکن افسوس کہ صنوبر شاہ استعمال ہوا۔ مظفر شاہ و منور شاہ کا طریقت اور دم تعویذ کی طرف رحجان ہوگیا۔میرے دادا امیر شاہ ، پردادا حسن شاہ اور لکڑ دادااسماعیل شاہ نے مسجد کی امامت، مردوں کو غسل، دم تعویذ، مزار کی فیض فروشی اور پیری مریدی کسی مذہبی رسم کو دھندہ نہیں بنایا ۔کانیگرم اولیاء کا شہر کہلاتا ہے مگر ہمارے آباء واجداد کے طرزِ عمل کی وجہ سے مزارات کھنڈر بن گئے۔ گھر میں شجرہ نسب ہونے کے باوجود کبھی سیدگیلانی کا لکھنا گوارا نہیں کیا۔ لوگ پیر صاحب کہا کرتے تھے اور احترام کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن یہ پیری کا نہیں کردار کا کمال تھا۔ پیر تو بہت تھے جن کا کردار دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ ”ہم سنار اور برکی ہیں پیر تھوڑی ہیں”۔ چچامحمدانور شاہ سے پوچھا: ” لوگ کہتے ہیں کہ تم سید ہو اور سبحان ویل نہیں تو اس نے کہا کہ نہ ہم ہیں اور نہ وہ ہیں ، جھوٹ سے چچا بھتیجے بن گئے۔ لوگوں کو دھوکہ دیا ،ہم اور وہ الگ ہیں”۔
حاجی عثمان نے وصیت کی کہ ”شجرہ ڈھوند لو، مل جائے تو اچھا ہے”۔ میں اوچ شریف گیا توایک شجرہ سید کبیر کے نام سے مل گیامگر کیسے پتہ چلے کہ یہ وہی ہمارے جد امجد ہیں؟۔ پیر فاروق شاہ نے سیدکبیر تک شجرہ نسب لاکر رکھ دیا کہ یہ میرے پاس ہے۔ اس میں لکھ دیا کہ ”ہاشم ٹھٹھہ گیا ہے۔ سید یوسف شاہ کے تین بیٹے تھے۔ ابراہیم ، عبداللہ اور عبدالوہاب۔ عبدالوہاب ہوشیار پورانڈیا گیا ”۔اور یہ بھی بتایا کہ ” مستونگ میں سید کبیر کی اولاد ہے”۔ پھر جلیل شاہ نے سید کبیر سے اوپر عبدالرزاق تک بڑا سلسلہ دیا۔ مجھے خوشی کیساتھ حیرت ہوئی کہ ”سید کبیر کا باپ ہاشم اور اوپر تک بڑا سلسلہ تھا لیکن فاروق شاہ نے بہت بڑی خیانت کی تھی ۔ایسے سیدکبیرکو ہم کیا کرتے کہ جس کا پورا نسب نامہ بالکل آخر تک تبدیل تھا؟”۔
مستونگ بھی گیا اور ٹھٹھہ میں ہاشم شاہ کے مزار کا شجرہ بھی دیکھا۔ فاروق شاہ نے جھوٹ بولا تھا اور ہاشم شاہ کا نام ایک طرف اپنے شجرے سے غائب کردیا اور دوسری طرف ٹھٹھہ کی معروف شخصیت اور مصنف کا بھی اپنے شجرے میں جعلی ٹچ دیدیاتھا۔
عبدالرزاق کے نام سے اوچ شریف میں تمام شخصیات کا شجرہ ڈھونڈ کر لکھ لایا ۔ خلیفہ گل محمد نے کہا کہ یہ عبدالقادر جیلانی کا بیٹا ہوگا مگر میں نے کہا کہ مجھے اوچ شریف کی اولاد میں تلاش کرنا ہے۔ جب میں نے یہ بات بدیع الزمان کو بتائی تو اس نے کہا کہ سیدعبدالقادر جیلانی کا بیٹاعبدالرزاق لاولد تھا۔ میں نے بتایا کہ کتابوں میں ان کو کثیر الاولاد لکھا ہے اور گدی پر بھی وہی تھے۔ کافی عرصہ بعد اس کی اولاد میں جانشین لاولد تھا جسکا داماد عبدالوہاب کی اولاد سے پھر جانشین بن گیا۔ بدیع الزمان نے کہا کہ ”پھر تو شجرہ ہم نے اپنے ہاتھ سے بگاڑ دیا اسلئے کہ شجرے میں عبدالرزاق بن عبدالقادر جیلانی تھا”۔
پھر اقبال شاہ نے کہا کہ ”یہ تحریری شجرہ سیدامیر شاہ کا لکھوایا ہوا ہے،ہماری فلاں خاتون کو یاد تھا”۔ ان چکر بازیوں سے دل کو اطمینان نہیں مل سکتا تھا مگر پھر جب پتہ چلا کہ فدا کو اپنے داداسیدایوب شاہ کی کتاب میں شجرہ ابراہیم خلیل سکنہ کانیگرم ملا ہے تویہ اطمینان بخش بات تھی۔ کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ہم وہ بے غیرت نہیں کہ اپنا شجرہ تبدیل کرنے سے بھی گریز نہ کریں ۔ امیر شاہ نے شجرہ ابراہیم خلیل کا لفظ سفا خیل کی جعلسازی اور انگریز ایجنٹوں سے بچنے اور نفرت کا اظہار کرنے کیلئے لکھا۔ہماراآبائی گھر بیچنے میں غیرت نہیں کھائی ۔لیکن جب انگریز کیلئے رقم کی بنیاد پر اپنے وطن کے اچھے اور انقلابی لوگوں کو بے غیرت قتل کرسکتے ہیں تو ان سے اور کس غیرت کی توقع ہے؟۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کی تحقیق سے ہماری عورتوں کے کپڑے اتر جائیں گے لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ غلط کاموں والے کے کپڑے ہوتے کہاں ہیں؟۔ طالبان سے رابطہ کاری میں کپڑے نہیں اترے تو تحقیق وتفتیش سے کیا مسئلہ ہوگا؟۔
ہمارا حوصلہ ہماری کمزوری نہیں شرافت ہے۔ اگر تم نے مظفرشاہ ومنور شاہ کے قتل کوقبائلی جنگ کا شاخسانہ قرار دیکر جان چھڑائی اور صنوبر شاہ کو عورت کے کھاتے میں ڈال کر بھلادیا اور محمود کو ڈکیت کے کھاتے میں ڈال دیا تو تم نے بھی انگریز کیلئے بندے مارے تھے۔ہمارا کوئی قصورہوتا تو چپ رہتے اور خدا کی تقدیر پر ڈال دیتے۔
مظہر ، عثمان ، ڈاکٹر ظفر طالبان یا القاعدہ تھے تو عمران خان کی اولاد عدت نکاح کی روحانیت میں بھی بدمست ہوجاتی ہے ۔منہاج ، شیرو کے آباء و اجداد نے تو کبھی انقلابیوں کا کتاتک نہیں سونگھا تھا ، کیسے طالبان بن گئے اورآج کہاں کھڑے ہیں؟۔
تنگی بادینزئی میں دو بھائی کی اولاد تھے یوسف خیل اور سفاخیل۔ وہ یوسف اور تم سفیان کی اولاد۔ گوگل سرچ کرو، سفیان خیل سے سفاخیل بنتا ہے۔ اگر تمہارا یوسف سفیان ہوتا تو بہتر تھا۔ہمارے شجرہ سے میرمحمد شاہ اوریوسف شاہ چوری کیا؟۔
اوچ تمہارے والے سید ایوب شاہ کو لے گئے اور جعلی شجرہ بنانے کی تجویز دی مگر سیدایوب شاہ نے انکار کیا تو پھر پھیلادیا کہ بابوویل کا شجرہ جھوٹا نکلا۔ ہمارا دبا کے رکھا اور اپنے پاس چھپاکے رکھا۔ اب یہ میں کہتا ہوں کہ ” الگ ہوجاؤ،آج اے مجرمو!”۔
مسئلہ شجرہ کا نہیں جو دنیا کو معلوم ہے بلکہ ہم پر جو حملہ ہوا اس میں ملوث عناصر کی نشاندہی کا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کانیگرم سے تنگی:خوانین براستہ خواتین

کانیگرم سے تنگی:خوانین براستہ خواتین

نوشتۂ دیوار باکمال لوگ لاجواب سروس

اگربالفرض بلاول بھٹو،آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو ، آصف علی زرداری کا پورا خاندان نواب شاہ سے نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہو اور اندورنِ خانہ مشہور ہو کہ بھٹو نہیں نواب شاہ کے زرداری ہیں۔ پھر وہ مرحلہ آجائے کہ اصل بھٹو کو خطرہ لاحق ہو۔ عوام ان کو بھی زرداری سمجھنے لگیں تو بھٹو خاندان کو یہ حق ہوگا کہ یہ بتائے کہ وہ ہم نہیں یہ لوگ ہیں ۔جن پر زرداری سے بھٹو بننے کی بات لاڑکانہ سے نواب شاہ اور سکھر سے کراچی تک موجود ہے؟۔
سبحان شاہ کی اولاد سو بار تنگی بادینزئی سے سید بنے ۔دنیا سیدوں سے بھری ہے۔ ہمیں کیا؟۔ ہمارا یہ حق ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ جن پر بادینزئی کا الزام ہے وہ ہم نہیں آل سبحان ہیں ۔ ان کے ساتھ بھانجے ماموں والا رشتہ ہے۔ جیسے آصف علی زرداری کی اولادبھٹو اور اصل بھٹو خاندان کا ہے۔
بلاول بھٹو کو پیپلزپارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے ملی ہے۔اگر یہ منصب وراثتی ہوتا تو پھر بلاول بھٹو زرداری کی جگہ کوئی بھٹو مستحق ہوتا۔
ہمارا نانا ”خان” سے مشہور تھا۔ حتی کہ اس کا نام اور وجہ تسمیہ کسی نے معلوم نہیں کیا ۔سلطان شاہ ولد صنوبر شاہ ولد سبحان شاہ۔سبحان شاہ کے4بیٹے تھے ۔ سیداکبر شاہ، صنوبر شاہ، منور شاہ ، مظفرشاہ ۔
وزیرستان پر انگریز کا قبضہ نہ تھاتو بلوچستان طرز پراثر بڑھانا شروع کردیا۔جہاں خان، نواب، سردار کا کوئی وجود نہ تھا ۔ بلوچستان میں ”خان آف قلات” بڑی چیز تھی۔ نواب اور سردار کی قبیلے پر چلتی تھی۔ وزیرستان میں ”خان” گمنام جاسوس کے دو چہرے تھے۔ ایک انگریز سرکار کو خفیہ رپورٹ دینا اور دوسرا عوام میں اپنی اوقات کے مطابق کام۔ سید اور ملا کی عزت تھی۔انگریز نے جن کو استعمال کیا عوام کی نظر میں قابل نفرت جعلی سید اور جعلی ملا تھے اور اس کی مثال سیداکبر اور ملا سالم کا چرچا تھا۔
سیداکبر شاہ کو سید حسن شاہ بابو نے ایجنٹ قرار دیکر رشتہ نہیں دیا۔ سبحان شاہ کے باقی 3بیٹوں منور شاہ، صنوبر شاہ اور مظفر شاہ کو رشتہ دیا۔ کانیگرم کا ”خان” لاولد تھا۔ ایک بیٹی اپنے خاندان کے شخص میانجی خیل کودی اور دوسری سیداکبر شاہ کودی، پھر خان کی وراثت کا مقدمہ تنگی بادینزئی کے سیداکبر شاہ کی بیوی کے حق میں دغا بازی سے جیت لیا۔
آل سبحان میں ”خان” کی نوکری میانجی خیل ”خان” سے اس کی بیٹی کے توسط سے منتقل ہوئی۔ سیداکبر شاہ کا نواسہ اور خان کا بیٹا ”محمود” بلاول کی طرح مگر نانی کا جانشین بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو دو خواتین تھیں ۔ محمود سے پہلے اس کی ماں اور اس کی نانی خان تھیں اور اگر یہ سلسلہ سیداکبر سے شروع ہوتا تو پھر سب آل سبحان کا اس پر حق بنتا تھا۔ محمود کے قتل کے بعد سیداکبر شاہ کا سن ان لاء سلطان اکبر شاہ آصف علی زرداری کی طرح ”خان” بن گیا۔ سلطان صنوبر کی جگہ سلطان اکبر بن گیا۔ ”خان” کا منصب سلطان اکبر سے لیکر پیر منہاج تک مفادات کی چوسنی تھی۔
انگریز پولیٹیکل ایجنٹوں سے پاکستان بننے کے بعدآج تک بھیک کا حصول فطرت ثانی ہے۔
اے ذوق دیکھ دختر زر کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
قابض انگریز سے ظالم طالبان تک کی ٹانگوں میں لٹک کر چوسنی سے منہ لگائے رکھنے والے خان کو دنیا جانتی ہے۔جس کاسب سے گھناؤنا دھندہ سفید کاغذ پر دستخط کرکے مفادات حاصل کرنا تھا۔
جن کا جدی پشتی دھندہ یہی رہاہو تو پھر ان کا کیا کہنا؟۔ پہلے سلطان اکبر شاہ نے اپنے عزیزوں کا استحصال کیا۔ استعمال اپنے بھائیوں کو کیا۔ جو پاگل اور سادہ لوگ تھے۔ پھرماموں غیاث الدین نے استعمال کیا تھا۔ جس سے سب کی نظرمیں گرگئے۔ اب منہاج استعمال کرکے بیڑہ غرق کررہا ہے۔
میں نے بفضل خدا قرآن کی بنیاد پر مسلمانوں کے چودہ طبق روشن کئے ۔ آل سبحان پر تبصرہ حفظ ما تقدم کے طور پر منہاج کے شر سے بچنے کیلئے کردیا۔
کوئی بعید نہ تھا کہ کانیگرم میں ہمارے اور آل سبحان کے کچھ بچے زمینی تنازعہ پر ایکدوسرے کو قتل کردیتے۔ منہاج اور اسکے بچے آرام سے بیٹھتے۔ طالبان اور ہمارے درمیان یہ کھلم کھلا کھیل رہا تھا۔ شیطان اپنی منصوبہ بندی اور اپنا مکر کھیلتا ہے۔رحمن اپنے کھیل سے اس کو ناکام بنادیتا ہے۔ طالبان کی دشمنی سے تو ملک بدر نہ ہوئے ۔نثار نے رؤف سے کہا کہ” زمین کے معاملے پر ملک بدرہوں گے”۔
بھٹو کی بیوی نصرت بھٹو صدر سکندر مرزا (پوتا میر جعفر)کی بیوی کی کزن تھی۔ نصرت بھٹو کی وجہ سے بھٹو کو اہمیت ملی۔ سکندر مرزا سے غداری کرکے بھٹو نے جنرل ایوب خان کا ساتھ دیا۔ جمہوریت سے غداری کرکے شیخ مجیب کو حکومت نہیں دی ۔ پھر سن1977میں دھاندلی کرکے سیاسی قیادت کو جیل میں ڈال دیا۔ اگر کر اس بلاول بھٹو زرداری سے ذوالفقار جونیئر یا فاطمہ بھٹو کی سیاسی وراثت پر جنگ شروع ہوگئی تو بلاول کہہ سکتا ہے کہ نصرت بھٹو کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے مقام پایا جو ایرانی تھی۔ اور اگر بلاول بھٹو زردای کو ماردیا جائے تو آصف علی زرداری بھٹو بن سکتا ہے کہ وہ سن ان لاء ہے۔
سلطان اکبر شاہ جب کانیگرم میں گھر بنارہا تھا تومقامی مزدوروںنے انکار کیا۔ باہر سے مزدور لایا گیا تو بم دھماکے میں دو کشمیری مزدور مارے گئے۔ مظفرشاہ مولانا عبداللہ درخواستی کے پیر بھائی تھے۔ فیروز، کرم شاہ، سرور شاہ نے کانیگرم کا بنابنایاگھر ایک برکی سے خریدا۔کانیگرم والے سبحان شاہ کی اولاد سے نفرت کرتے تھے ، ہماری وجہ سے رعایت دی۔ نفرت کی وجہ سید اور برکی کا تعصب نہیں تھا بلکہ ان کا اپنا نامہ اعمال تھا ورنہ ہم سے کیوں عقیدت و محبت رکھتے ہیں؟۔یہ حقائق واضح کرنا فریضہ تھا۔
میرے والد نے ایک دنیا کو مالی مفاد دے کر بہت خوش رکھا لیکن بھائی بڑے بڑے عہدوں پر رہ کر قرابتداروں کو خوش نہ رکھ سکے اسلئے کہ رائل فیملی کی لالچ، بدتمیزی اور کم نیتی کی وجہ سے بھائیوں لوگ دور رہتے تھے ۔ ہم دو چھوٹے بھائیوں سے بھی یہ لالچی لوگ بڑا خار رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ نثار نے جہانزیب کو حفاظت کیلئے بھیجا تو ماموں کہہ رہا تھا کہ نثار مشترکہ گھر پر قبضہ کررہا ہے۔
نظم مگہ چوہاکی طرح آدمی کو نہیں ہونا چاہیے
اوسے پہ کندو کے یارہ غل یی پلار دے غل وو
مور دے غلچکے وہ ستا نیکہ د بدو مل وو
قوم دے حرام خور دے قبیلہ دے حرام خورہ
دہمڑ شوے پہ غوڑو پسے لکے دے تورہ سپورہ
دہستا وڑوکے خیٹہ دے ھمہ جھان مڑہ نہ کڑہ
ستا کا سیرہ تندہ د عمرونو غلا سڑہ نہ کڑہ
ترجمہ: تو غلے کے کٹھیاں میں رہتا ہے تو بھی چور ہے اور تیرا باپ بھی چور تھا، تیری ماں بھی لٹیری تھی اور تیرا آباوجداد بھی، تیری قوم حرام خور ہے تیرا قبیلہ بھی حرام خور ہے، روغن کے پیچے مر رہے ہو اسی لئے تو تمہاری دم سوگھ گئی ہے، تیری چھوٹی سی پیٹ کو دنیا بھر کے خوراک نہ بھر سکی، تیری کمینی پیاس کو تمام عمر کی چوری نہیں بجھا سکی۔
اگر عقابوں کے پر کاٹ کر نشیمن پر دھاوا بول دیا ہے اور مہمانوں سمیت بہت لوگوں کو تہہ تیغ کیا ہے تو کیا ہوا ؟۔ کوئی انجام سے نہیں بچے گا۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سیداکبر و صنوبر شاہ کا سیاہ باب اپنی قوم کے7افراد کے سازشی قتل سے شروع ہوکر ہمارے مہمانوں سمیت13شہداء تک پہنچ جاتا ہے!

سیداکبر و صنوبر شاہ کا سیاہ باب اپنی قوم کے7افراد کے سازشی قتل سے شروع ہوکر ہمارے مہمانوں سمیت13شہداء تک پہنچ جاتا ہے!

”یہ ایک ایسا کیس تھاجسے مستقبل میں ان قبائل کیساتھ ہمارے معاملات میں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ محسود اور درویش خیل کی مخلوط گارسن نے گومل کھلنے کی تکمیل میںہماری ایک پوسٹ کا کامیابی سے دفاع کیااور ایک پختہ حملے کو پسپا کیااور اپنے ہی لوگوں کو گولیاں ماردیں قبائلی لوگ جو مسلسل خونریزی کو جنم دے رہے تھے۔ یہ ایک اچھا امتحان تھا ۔سررابرٹ سنڈمن کا اندازہ غلط نہیں تھاکہ اگر مناسب طریقے سے ہینڈل کیا جائے تووہ اعتماد اور بھروسہ کے قابل ثابت ہوں گے” ۔صفحہ207
سنڈیمین نے اس خطے کی عوام کو غلام بنانے کیلئے بلوچستان میں تجربہ کیا ۔ پھر وزیرستان میں تجربہ کرلیا۔ کس طرح سیداکبر شاہ ایک طرف اپنی قوم کے قتل میں ملوث تھااور دوسری طرف قوم کی طرف سے انگریز کا ٹاؤٹ تھا؟ ۔انگریز دور سے وزیرستان دوغلے پن کا شکار ہے ۔ایک طرف سرکاری عمائدین پاک فوج کے سامنے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور دوسری طرف طالبان کو پالتے ہیں۔ منہاج اس کی مثال ہے۔ جسکے پردادا صنوبر شاہ اور لکڑ دادا سبحان شاہ کانیگرم کے باشندئے نہیں تھے۔ قاتل صنوبر شاہ اوراسکے بھائی مظفرشاہ ومنورشاہ کے بہیمانہ قتل کے بعد سلطان اکبر اور اسکے یتیم چچازاد بھائیوںکو ہم نے کانیگرم میںپناہ دی ۔ انگریز کیلئے اپنی قوم، وطن اور اسلام سے غداری کی اور دہشتگردوں کیلئے ہمیں قتل کردیا۔ یہ سید ہیں ؟۔جسے دیکھ کر شرمائے یزید؟۔نسب نہیں کردار بناتاہے بندے کو پاک یا پھر پلید۔ انسان کو کردار کیساتھ اچھی صفت یا بری خصلت موروثی ملتی ہے۔ ہمارے ساتھ ہوا تو میںنے اپنوںکی غلطی مانی ۔ اکبر علی کی بہن ، منہاج کے بھائی کی شہادت ہوگئی تو طالبان کے سہولت کاروں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔بدنسل اور اصیل میںیہی فرق ہے۔
٭٭٭

PAGE:207,257
انگریز اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے

Stimulating incidents were not wanting to keep us up to the mark. The Taji-Khel section of the Derwesh-Khels of Wana, who, not without some good grounds, were discontented with the distribution of service allowances made at Appozai, in which they thought their claims had not received due consideration, threatened to attack the KajuriKach post and prevent its being built. I urged Mr. Donald to push on with all his might the finishing of the outer walls and to get the gate up. This he did, and the very day after the gate had been fixed the Taji-Ehels came down with a force some hundreds strong and attacked the post. The garrison consisted of eighty of the lately enlisted Waziri levies, Mahsuds, and Derwesh-Khels of Wana, and a few Border police. Syud Akbar Shah and his brother, Sanobar Shah, Mahsuds of Kanigoram, both non-commissioned officers in the levies, were in charge. They had a few rifles, of which they made good use, as they successfully repulsed the attack and killed seven of the Taji-Khels, including two men of note. This was one of that class of cases which, in our future dealings with these tribes, should not be lost sight of. A mixed garrison of Mahsuds and Derwesh-Khels, in fulfilment of their engagements for the opening of the Gomal, loyally defended one of our posts, repulsed a determined attack, and shot down their own tribesmen, thereby inheriting a legacy of relentless blood feuds. It afforded a good test that Sir Robert Sandeman was not mistaken in his estimate that, if properly dealt with, they would prove deserving of 4 trust and confidence. 9 I may appropriately relate here the conclusion of the affair, as I shall not have to refer to it again. Government, on my recommendation, gave handsome rewards to the defenders of the post. After a short time the Taji-Khels, who were completely crestfallen at the defeat and loss they had suffered, came in and made submission. I realised from them in cash a fine of 700 rs., and took adequate security from them for their future good conduct. I put the case of their alleged grievances before a Council of Elders of the tribe, who settled it to the satisfaction of all parties con* cerned.
٭٭٭
As I could not, therefore, hold out the threat of a punitive expedition, I was obliged to modify the terms, and content myself with inflicting heavy fines and taking security for the future good behaviour of the incriminated persons. I fined the Derwesh-Khels 10,000 rs., and the Mahsuds 9,000 rs. The surety bonds, with agreements on the part of the Maliks in regard to distribution of fines, and holding themselves responsible for the future good conduct of the prisoners, with other conditions, were then drawn up in writing ; the Maliks affixing their seals to them, and swearing on the Koran to abide by their conditions. All the arms and other Government property stolen had been previously restored. The execution of these proceedings, which were carried out in the presence of Mr. Donald and myself, was a very striking and interesting spectacle. Some three hundred Waziris were seated on the ground in a large circle in front of my bungalow at Tank. In the centre was a chair with the Koran wrapped up in a cloth placed on it. Syud Akbar, Shah of Kanigoram, and Mullah Salem, Alizai Malik, stood beside the Koran, and each of the head men of the sections, considered to be in any way implicated or responsible for the offences, and each of the prisoners who had been brought from the lock-up, went up one by one, and, having taken off his shoes, placed the Koran on his head, and had the oath administered to him by the Syud and Mullah, swearing that he would abide by the terms of the agreement. The 19,000 rs. fines were then paid in, and I released the prisoners, and made them over to the Maliks in durbar. I know some people think no good comes from such pro-ceedings, but I cannot agree in this view, and I could refer to many similar ceremonies carried out under the directions of Sir Bobert Sandeman and myself by the Brahoe, Beluch, and Pathan tribes of Beluchistan, with the most excellent results. The Governments of India and the Punjab expressed much satisfaction at the settlement I had made, and in the letter of the Secretary to the Government of India to the Punjab Government sanctioning it he wrote thus :The Governor-General in Council desires to express his cordial concurrence in the Lieutenant-Governor’s high commendation of Mr. Bruce, and the other local officers mentioned by him, especially Mr. Donald, who have been concerned in bringing this matter to so satisfactory a termination.

قوم ، وطن،اسلام کے غدارسیداکبر اور صنوبر شاہ کی کہانی انگریز کی زبانی سادات کے نام پر وہ دھبہ لگادیا ہے جو چنگڑ قوم بھی قبول نہیں کرے گی

انگریز کاترجمہ: ہمارے حوصلے بلند رکھنے کیلئے دلچسپ واقعات کی کمی نہیں تھی۔ وانا درویش خیل کا تاجی خیل سیکشن جو اپوزئی میں خدمات کے الاؤنس کی تقسیم سے ناخوش تھے، جس میں ان کے دعوؤں کو مناسب اہمیت نہیں دی گئی ، نے کھجوری کچ پوسٹ پر حملہ کرنے اور اس کی تعمیر کو روکنے کی دھمکی دی۔ میں نے مسٹر ڈونلڈ پر زور دیا کہ وہ بیرونی دیواروں کی تکمیل اور دروازہ نصب کرنے کا کام پوری قوت سے جاری رکھیں۔ انہوں نے ایسا کیااور دروازہ نصب ہونے کے اگلے دن تاجی خیلز نے سیکڑوں کی تعداد میں آ کر پوسٹ پر حملہ کیا۔ گارسن میں اسی حالیہ بھرتی کیے گئے وزیر لیویز، محسود، اور وانا کے درویش خیلز اور چند سرحدی پولیس شامل تھے۔ سید اکبر شاہ اور اسکے بھائی صنوبر شاہ کانیگرم کے محسود، جو لیویز میں نان کمیشنڈ افسر انچارج تھے۔ ان کے پاس چند رائفلیں تھیں، جن کا انہوں نے بہترین استعمال کیا، کیونکہ انہوں نے حملے کو کامیابی سے پسپا کیا اور تاجی خیل کے7افراد کو ہلاک کیا، جن میں2اہم افراد شامل تھے۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جسے مستقبل میں ان قبائل کے ساتھ ہمارے معاملات میں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ محسود اور درویش خیل کی مخلوط گارسن نے، گومل کے کھلنے کے معاہدوں کی تکمیل میں، ہماری ایک پوسٹ کا وفاداری سے دفاع کیا، ایک پختہ حملے کو پسپا کیا اور اپنے ہی لوگوں کو گولی مار دی قبائلی لوگ، جو مسلسل خونریزی کی وراثت کو جنم دیتے تھے۔ یہ ایک اچھا امتحان تھا کہ سر رابرٹ سنڈمن کا اندازہ غلط نہیں تھا کہ اگر انہیں مناسب طریقے سے ہینڈل کیا جائے تو وہ اعتماد اور بھروسے کے لائق ثابت ہوں گے۔ میں یہاں اس معاملے کے اختتام کو مناسب طریقے سے بیان کر سکتا ہوں، کیونکہ مجھے دوبارہ اس کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ حکومت نے میری سفارش پر پوسٹ کے محافظوں کو عمدہ انعامات دیے۔ کچھ عرصے بعد، تاجی خیل، جو شکست اور نقصان پر مکمل طور پر مایوس ہو چکے تھے، آئے اور تابعداری کی۔ میں نے ان سے نقدی میں700روپے کا جرمانہ وصول کیا اور ان کے مستقبل کے اچھے رویے کیلئے مناسب سیکیورٹی لی۔ میں نے ان کی مبینہ شکایات کا معاملہ قبیلے کے بزرگوں کی ایک کونسل کے سامنے پیش کیا، جنہوں نے اسے تمام فریقین کی تسلی کے ساتھ حل کیا۔
٭
چونکہ میں سزا دینے والی مہم کی دھمکی نہیں دے سکتا تھا، اسلئے میں نے شرائط میں ترمیم کی اور جرمانے عائد کرنے اور مجرموں کے مستقبل کے اچھے رویے کیلئے سیکیورٹی لینے پر اکتفا کیا۔ میں نے درویش خیلز پر10ہزارروپے اور محسود پر9ہزار روپے کا جرمانہ کیا۔ ضمانتی بانڈز مالکان کی طرف سے جرمانوں کی تقسیم کے حوالے سے معاہدوں کے ساتھ اور قیدیوں کے مستقبل کے اچھے رویے کیلئے ذمہ دار ہونے کی شرائط کیساتھ تحریری طور پر تیار کیے گئے۔ مالکان نے ان پر اپنی مہر ثبت کی اور قرآن پر حلف اٹھا کر ان شرائط کی پابندی کا وعدہ کیا۔ تمام چوری شدہ اسلحہ اور دیگر سرکاری املاک پہلے ہی بحال کی جا چکی تھیں۔ ان کارروائیوں کا انعقاد، جو مسٹر ڈونلڈ اور میرے سامنے کی گئیں، ایک انتہائی شاندار اور دلچسپ منظر تھا۔ تقریبا300وزیروں کو میرے بنگلے کے سامنے ایک بڑے دائرے میں زمین پر بیٹھایا گیا۔ مرکز میں ایک کرسی تھی جس پر کپڑے میں لپٹا ہوا قرآن رکھا ہوا تھا۔ سید اکبر شاہ آف کانیگرم اور ملا سالم علیزئی ملک قرآن کے پاس کھڑے تھے، اور ہر ایک سربراہ جو کسی بھی طرح سے جرم میں ملوث یا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا اور ہر ایک قیدی جو لاک اپ سے لایا گیا تھا، ایک ایک کر کے اوپر آتا اور اپنے جوتے اتار کر قرآن کو اپنے سر پر رکھتا، سید اور ملا کے ذریعے حلف لیتا کہ وہ معاہدے کی شرائط کی پابندی کرے گا۔پھر19ہزار روپے کے جرمانے ادا کیے گئے اور میں نے قیدیوں کو رہا کر دیا اور انہیں دربار میں مالکان کے حوالے کر دیا۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن میرا تجربہ مختلف تھا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی کارروائیوں سے کوئی فائدہ نہیں لیکن میں اس نظریے سے متفق نہیں ہوںاور میں بلوچستان کے بروہی، بلوچ، اور پٹھان قبائل کے ساتھ سر رابرٹ سنڈمن اور میرے تحت کی گئی بہت سی ایسی ہی تقریبات کا حوالہ دے سکتا ہوں جن کے بہترین نتائج نکلے ہیں۔ ہندوستان اور پنجاب کی حکومتوں نے اس تصفیے پربہت اطمینان کا اظہار کیااور حکومت ہند کے سیکرٹری نے پنجاب حکومت کو اس کی منظوری دیتے ہوئے ایک خط میں یوں لکھا:”گورنر جنرل ان کونسل، لیفٹیننٹ گورنر کی جانب سے مسٹر بروس اور دیگر مقامی افسروں خاص طور پر مسٹر ڈونلڈ کی اعلی تعریف میں اپنی پوری ہم آہنگی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے اس معاملے کو اطمینان بخش انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

300وزیروں کوبڑے دائرے میں زمین پر بٹھایا گیا، مرکز میں کرسی پر کپڑے میں لپٹا ہوا قرآن رکھا ہوا تھا

300وزیروں کوبڑے دائرے میں زمین پر بٹھایا گیا، مرکز میں کرسی پر کپڑے میں لپٹا ہوا قرآن رکھا ہوا تھا

Syed Akbar Shah and his brother, Sanobar Shah, Mahsuds of Kanigoram, both non-commissioned officers in the levies, were in charge. They had a few rifles, of which they made good use, as they successfully repulsed the attack and killed seven of the Taji-Khels, including two men of note.Date1900

سید اکبر شاہ اور اسکے بھائی صنوبر شاہ کانیگرم کے محسود جودونوںلیویز میں نان کمیشن افسر انچارج تھے،انکے پاس چند رائفلیں تھیں جس کا انہوں نے اچھا استعمال کیا۔انہوں نے کامیابی سے حملہ پسپا کیااور7افراد تاجی خیل کے قتل کردئیے ،خاص طور پر جن2افراد کی نشاندہی کردی گئی تھی

300وزیروں کوبڑے دائرے میں زمین پر بٹھایا گیا، مرکز میں کرسی پر کپڑے میں لپٹا ہوا قرآن رکھا ہوا تھا

سید اکبر شاہ آف کانیگرم اور ملا سالم علیزئی ملک قرآن کے پاس کھڑے تھے، اور ہر ایک سربراہ جو کسی بھی طرح سے جرم میں ملوث یا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا اور ہر ایک قیدی جو لاک اپ سے لایا گیا تھا، ایک ایک کر کے اوپر آتا

اپنے جوتے اتار کر قرآن کو اپنے سر پر رکھتا، سید اور ملا کے ذریعے حلف لیتا کہ وہ معاہدے کی شرائط کی پابندی کریگا۔19ہزار روپے کے جرمانے ادا کیے گئے ،میں نے قیدیوں کو رہا کردیا اور دربار میں مالکان کے حوالے کر دیا

انگریز مصنف نے سن1900میں کتاب لکھ کر حقائق سے پردہ اٹھادیا تھا۔ میرے سینے میں بھی بڑے راز تھے اور کچھ بہت کھلے حقائق بھی تھے۔ جس کے بوجھ نے میرے کُوب کو بہت دوبھر کردیا تھا۔ ایک عالم نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ جب وہ طالب علم تھا تو اُستاذ نے تسلے میں انگارے منگوائے۔ میرے ہاتھ جلنے لگے اور چیخنے لگا۔ عطاء اللہ شاہ بخاری نے تسلہ لیا اور جب اس سے برداشت نہیں ہوسکا تو ہوا میں اچھال کر کہا کہ تصلیٰ نارًا حامیًا (گرم آگ پہنچ گئی)۔ میں نے جو حقائق اگل دئے ہیں یہ بڑے سنجیدہ نتائج کے حامل ہیں۔

سبحان شاہ کے بیٹے سیداکبر شاہ ، صنوبر شاہ کانیگرم کے محسود لیویز کے غیربھرتی افسران تھے ۔ چند رائفلوں کا اچھا استعمال کیا اور حملے کو پسپا کیا ۔7وزیر مار دئیے جن میں2کی ان کوخاص طور سے نشاندہی کی گئی تھی۔
یہ انہوں نے بھیس بدل کر کیا ۔ دیگرکرائے کے ٹٹو استعمال کئے ۔ اندر سے حملہ ہو تو بڑا لشکر پسپا ہوتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف7افراد کو قتل کروایا تھا بلکہ بڑی تعداد میں لوگوں کو پکڑوایا۔ ان کا یہ گھناؤنا کردار وزیرستان کی تاریخ کا پہلا سیاہ باب تھا۔ کانیگرم کے محسود تھے یا سید ؟ مگر کرداریزید کی اولاد سے زیادہ بھیانک تھا۔ جس قوم کیساتھ غداری کی تھی ،ان کو قتل کیا تھا، ان کو شکست بھی دلوائی تھی اور پکڑوایا بھی تھا تو جب ان کی رہائی کیلئے اس وقت ایک معاہدے کی کاروائی کا وقت آیا تو سید اکبر شاہ اور ملاسالم علیزئی ملک نے قرآن پر سب سے حلف لیا اورخود کو مذہب کے جھوٹے پیشوا ء کے طور پر پیش کیا۔
صنوبر شاہ کے پڑ پوتے منہاج وغیرہ کو معلوم تھا کہ انگریز سے پیسہ لیکر اسلام ، وطن اور قوم سے غداری کے سیداکبر شاہ اور صنوبر شاہ مرتکب تھے اور انہوں نے قتل کئے ہیں اور اس ظالمانہ ، بہیمانہ ، بزدلانہ اور بے غیرتی پر مبنی اقدام کو یہ لوگ اپنا پیشہ اور کمائی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس پرمنہاج اور طاہرکو بہت بڑا فخر ، تکبر اور غرور ہے۔
ہمارے واقعہ میں بڑے پیمانے پر جامع تحقیقات کی ضرورت تھی اسلئے جلدبازی سے کام نہ لیا۔جب واقعہ کے بعد پہلی مرتبہ خیبر ہاؤس پشاور آنا ہوا تھا تو شہر یار نے کہا تھا کہ ” حملے سے پہلے طالبان کی ذہن سازی کی گئی تھی کہ یہ لوگ بڑے ظالم ہیں، لوگوں کی بیویاں اور بچے چھین لئے ہیں”۔ شہریار نے خیبر ہاؤس کے کچن کی خوشبو اور رقم ملنے کی خواہش کے ردھم میں اس بات کاتو اظہار کردیا لیکن میں نے پلٹ کر طاہر پر وار کیاتھا۔
کریم کے بیٹے عثمان نے پشاور میں آکر بتایا کہ اس حملے میں عبدالرزاق کے بیٹے ملوث تھے۔ وہاں کئی دنوں کی میٹنگ سے کریم اوراس کابیٹا کیسے لاعلم تھے؟۔ میں نے منہاج کو تنبیہ کی، جودہشتگردوں کو سپوٹ کررہا تھا ۔


جب صحافتی تحقیق کا آئینہ دکھادیا تو مجرمانہ کرتوت کی فہرست میں شامل افراد کی گھبراہٹ شروع ہوگئی۔ عثمان بدمعاشی پر اتر آیا۔ منہاج کے گھر سے ضیاء الدین کے بیٹے اور احمدیار نے انگریزی میں متفقہ ”تحریر” لکھ ڈالی، عثمان نے دھمکی ڈیلیٹ کردی تھی ۔ تحریراً مجھے طعنے دئیے اور مجھے ہی مجرم ٹھہرایا۔ مجھ سے محبت رکھنے والے جنید کو چار افراد نے مل کر زدوکوب کیا۔ پھر ایک سے فون کروایا کہ ”جنید کہہ رہا تھا کہ اورنگزیب طالبان سے ملا ہوا تھا، لوگوں کو ذبح کروایا مگر اپنے بھائی کو طالبان کے حوالے نہیں کیا،اسلئے ہم نے جنید کومارا ہے”۔ جو اورنگزیب کو شہید کرچکے تھے ان کو ٹھکانہ دیا اور جس نے بات کردی تو اس کو زد وکوب کیا؟۔ پھر جب جاکر زبانی معافی تلافی بھی کرادی۔ یہ غداروں کی اولاد کا طریقہ ٔ واردات تھا۔ میرے دادا سیدامیر شاہ کو پتھر لگا تھا تو اس کے بھتیجے نے ایک کے ہاتھ پیر توڑ کر باندھ دیا تھا کہ آئندہ پھر دیکھ کر غلطی نہیں کروگے۔ میں اپنے بھتیجوں اور بیٹوں کے غصہ کو کنٹرول کرنے کیلئے ڈھال بنا ہوں ورنہ تو بہتوں کے پیچھے مرچ ڈال کرہم ایک ایک راز اگلواسکتے ہیں۔
بدر میں قریش کے3افراد کا مقابلہ کرنے ا نصارکے3آئے تو کہا کہ ہم اپنے چچیرے چاہتے ہیں۔ جس پر نبی ۖ نے فرمایا: عبیدہ بن حارث، حمزہ اور علی اُٹھو!۔ قریش کافرمگر نسلی تھے،احمدیار نسلی نہیں ۔ بدنسل اور اصیل کی صفات ہوتی ہیں۔اچھے سبحان ویل سے معذرت۔
منہاج کابہنوئی کریم کا بھانجااعجازبڑا ہمدرد بنا پھرتا ہے جو تحریروں سے ڈرتا ہے؟۔انگریز سے دہشتگردوں کے ٹاؤٹ بننے تک غیرت، حیائ، ضمیر، ایمان اور پشتو ہر چیز سے فارغ لوگوں کو راہِ پر لاناہی انقلابِ عظیم ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آپریشن کے ہاتھ عدم استحکام کا شکارہیں مولانا فضل الرحمن

آپریشن کے ہاتھ عدم استحکام کا شکارہیں مولانا فضل الرحمن

مولانا فضل الرحمن نے قومی اسمبلی میں خطاب کیا:آپ نے عزم استحکام آپریشن کے نام سے کیا چیز کردی۔ ہم2010سے مار کھارہے ہیں انہی آپریشنوں کے ہاتھ سے دہشتگردی کیخلاف جنگ، کیا دہشتگردی کیخلاف جنگ یہ بین الاقوامی ایجنڈا نہیں؟ ۔ یہ پہلو ہم کیوں نظر انداز کررہے ہیں؟۔ باجوہ صاحب نے کہا کہ میں نے باڑ لگادیا۔ کسی کا باپ افغانستان جاسکتا ہے اور نہ آسکتا ہے۔ کوئی دہشتگرد نہیں آسکتے ۔40،50ہزار آچکے۔ معاف کیجئے بہت درد اور دکھ سے کہہ رہا ہوں، محسوس ہورہا ہے کہ اگلے دو چار مہینوں میں ڈیرہ اسماعیل خان، وزیرستان، لکی مروت، بنوں اورکرک میں امارات اسلامیہ قائم ہو ۔ پاکستان کی رٹ نظر نہیں آرہی۔ مغرب ہوتے ہی تمام تھانے بند ہوجاتے ہیں۔ انکو حکم ہے کہ گشت پرنہیں جانا۔ یہ ہے اپ ڈیٹ۔ کہاں کھڑے ہیں ہم؟۔ فکر کی بات ہے حضرت۔ پہلے عرض کیا آج بھی کہتا ہوں یہ عزم استحکام نہیں یہ چین کو جواب دے رہے ہیں کہ جس عزم استحکام کی بات کی تھی آپ نے۔ ہم وہ استحکام لانا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ عدم استحکام کی طرف ہم جارہے ہیں۔
اگر قوم کو حقوق نہیں دے سکتے توپھر کیا آپ قوم سے ٹیکس وصول کرنے کا حق رکھتے ہیں؟۔ قوم آپ سے دو چیزیں مانگتی ہے۔ ایک امن جان ، مال اور عزت و آبرو، انسانی حقوق کا تحفظ اور دوسرا معاشی خوشحالی۔ عام آدمی کو یہ اطمینان ہو کہ میرے بچوں کیلئے اگلے ہفتے اور مہینے کیلئے خوراک موجود ہے۔ اس کا انتظام ہوسکتا ہے لیکن کیا ہم نہیں سمجھتے ۔ آج کئی جگہ لوگوں کی حالت فاقہ کشی تک پہنچ گئی ہے۔

تبصرہ نوشتۂ دیوار

احادیث میں مزارعت کو سود قرار دیا۔ علماء نے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا۔ سودکی ادائیگی کی رقم ملکی ٹیکس سے بھی زیادہ ہے۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سودی نظام کو تبدیل کرنا مسئلے کا حل تھا، عوام اورریاست کا حلالہ ہورہاہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پشتوزبان کا عظیم اور مقبول انقلابی شاعر گلامن وزیر شہید کا شعر اُردو ترجمہ:اگر مظلوم کی خاطرمیرا خون بہہ گیا تو اپنوں اور پرایوں کا افتخار بن جاؤں گا۔

پشتوزبان کا عظیم اور مقبول انقلابی شاعر
گلامن وزیر شہید کا شعر اُردو ترجمہ:اگر مظلوم کی خاطرمیرا خون بہہ گیا تو اپنوں اور پرایوں کا افتخار بن جاؤں گا۔

گلامن شاعر کی المناک موت
ایک جوان پشتون شاعر گلامن وزیر کی المناک موت بہت بڑا سانحہ ہے۔ شاعر برائے شاعر قومی اثاثہ ہے۔ جب شاعر تحریک سے وابستہ ہو تو اس کا روحِ رواں ہوتا ہے۔PTMکے منظور پشتین، علی وزیر سمیت تمام رہنماؤں اور کارکنوں سے دلی ہمدردی اورتعزیت کا اظہار کرتے ہیں، ہم تمہارے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔ جانثار ساتھی دنیا سے جاتا ہے تو اسکا غم ، دکھ اور تکلیف خونی رشتوں سے کم نہیں ہوتا۔ ایک ایک ساتھی کی داغ مفارقت پر پتہ ہے کہ دل کس طرح توے پر کباب بن جاتا ہے۔ عبدالقدوس بلوچ، حنیف عباسی ، جی ایم اور کئی وہ ساتھی جو ہمارے ارمانوں پر پانی پھیر کر دنیا سے گزرگئے تو ان کی یادیں آج بھی موسم خزاں کی طرح دلوں کو ویران کئے ہیں لیکن یہ دنیا تو چند دنوں کا قید خانہ ہے اور سب کو رہائی ملے گی۔
گلامن وزیراپنی چھ بہنوں کا چھوٹا بھائی اور چھوٹے بچوں کا جوان باپ اور سب سے بڑھ کر بوڑھی والدہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ دونوں بھائی خاندان کاایک ایک فرد بیوہ سمیت بڑی آزمائش سے گزررہے ہیں۔ اللہ تعالی سب کو صبر جمیل اور متبادل ایسی خوشیاں عطاء فرمائے کہ اس غم کو بھول جائیں۔
مزاحمتی تحریک والے اپنی لاش زندگی میں اپنے کاندھے پر اٹھائے لئے گھومتے ہیں ،جب کوئی ان کی لاش کو کندھا دیتا ہے تو سارے غم عمر بھر کیلئے دماغ سے اتر جاتے ہیں۔ قرآن میں انعام یافتہ لوگوں کی فہرست میں پہلے انبیاء پھر صدیقین پھر شہداء اور پھر صالحین کا ذکر ہے تاکہ لوگ اس بات کو سمجھ لیں کہ شہید بڑا رتبہ پالیتا ہے اور زندگی بھر صالح ونیک رہنے والوں سے آگے نکل جاتا ہے لیکن صدیق کا درجہ شہید سے زیادہ ہوتا ہے اسلئے کہ اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ شہادت سے گزرتاہے۔
گلامن وزیر میں اپنی قوم سے محبت کا فطری جذبہ تھا اور یہ ایمان کا عین تقاضا ہے۔ اس کو اپنی قوم کے غموں سے فراغت اور فرصت نہیں تھی کہ دوسری قوموں کے بارے میں سوچتا اور دنیا نے دیکھا کہ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے میدان میں اپنی بہادری کا مظاہرہ کیا توPTMکی قیادت، پشتون شعراء اور سیاستدانوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ بلوچ ہے بلکہ بہت کھل کر اپنی بے پناہ عقیدت ومحبت سے نواز دیا۔ گلامن وزیر شہید کے قتل میں جو ملوث ہو اللہ تعالیٰ اس سوچ اور قوت کو تباہ کردے۔
PTMنے پشتون نوجوانوں میں سیاسی شعور کی ایک نئی لہر دوڑادی ہے۔ گلامن کی شاعری جب تک پشتون قوم اور پشتو زبان دنیا میں موجود ہے وہ لوگوں کا لہو گرماتی رہے گی۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ کس طرح شہید کو خراج تحسین پیش کروں؟۔
حبیب جالب نے زندگی جیلوں اور مشکلات میں گزاری۔ فیض احمد فیض اور سبھی انقلابی شاعروں نے قربانیاں دی ہیں۔ پشتون معاشرے میں تشدد اور انتشار ہے۔ اپنی غلطی کو دوسروں کے کاندھے پر ڈالنا آسان ہے مگر خاطر خواہ نتائج نہیں نکلتے۔ محسن داوڑ و علی وزیر کو کس سازش نے جدا کیا؟۔ گلامن وزیر اور آزاد داوڑ میں اختلاف تھا یا نہیں؟۔ ہمارا معاشرہ جنونی ہے۔ پنجابیوں نے جہاد کیا مگر اپنا صوبہ تباہ نہ کیا۔ پشتون معاشرے میں تشدد کا انکار پشتون قوم کی نفی ہے۔ جوانوں کو تشدد سے روکنا ہیPTMکا کارنامہ ہے۔ سوات سے کوئٹہ تک نوجوانوں اور مسنگ پرسن کے لواحقین کو وزیرستان لانے لیجانے پرخرچہ ہوا ہوگا؟۔ اگر بلوچ، سندھی یا پنجابی کے ہاں جانے پر خرچہ کرتے تو سمجھ میں آتا لیکن وزیرستان کے جلسے کیلئے جہاں کوئی دوسری قوم نہیں،اتنا خرچہ بہت فضول قسم کا تکلف ہے۔ اگر تحریک کے رہنماؤں نے اسلام آباد ، پشاور اور بڑے شہروں میں اپنا شغل لگانے کیلئے رہائشوں کا اہتمام کیا ہے تو مزہ ہے مگر فائدہ نہیں۔ ایکدوسرے سے حسد ہوگی اور ڈنڈے مارمار کر ہلاک کروگے تو پشتون قوم اپنے قیمتی جوانوں کا بہت بڑا اثاثہ کھو دے گی۔
ملا کو اکابر پرستی اور چندوں سے فرصت نہیں۔ ہماری تحریک اسلام کے بنیادی حقوق کے حوالے سے ہے جس سے کسی قوم کا اجتماعی نظام وابستہ ہو تو تقدیر بدل جائے گی۔ منظور پشتین نے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ” ہم من حیث القوم ایک اجتماعی ظلم کا شکار ہیں۔ بہن بیٹی پر پیسہ کھا جانا بہت بڑا اجتماعی ظلم ہے ۔ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں، جس کا اجتماعی ظلم پر اتفاق ہو۔ آج میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ اجتماعی ظلم کو پشتون قوم سے ختم کریں گے اور میں خود اپنی بہنوں اور بیٹیوں کا ایک پیسہ نہیں لوں گا۔بلکہ جتنی میرے اندر استطاعت ہے تو اپنی طرف سے خریداری بھی کرکے دوں گا”۔ منظور پشین کی تقریر ہوا ؤںکی نذر ہوئی۔
پشتون قوم میں ایسے عناصر کی کمی نہیں کہ اگر یہ پتہ چلے کہ مفت میں بیوی ملے گی تو چار چار کریں گے اور سبقت کے چکر میں ایکدوسرے کے سر توڑیں گے۔ پھر پالنے کیلئے وہ روزگار نہ ہو تاکہ بچے پالیں تو مدارس میں ڈالیں گے اور معاشرے پر بوجھ بڑھتا جائے گا۔ پہلے لوگ مسالک چھوڑنے پر واجب القتل کا فتویٰ لگادیتے تھے اور اب خوش ہوتے ہیں کہ ایک کا بوجھ تو کسی دوسرے فرقہ کے کاندھے پر پڑگیا ہے۔
عورت کو پشتون اور پنجابی کے علاوہ دنیا کے مسلمانوں کسی ملک، قوم، فرقے، مسلک اور مذہبی معاشرے میں کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ عورت کو اسلام نے خلع کا نہ صرف حق دیا بلکہ بھرپورمالی تحفظ بھی فراہم کیا ۔ قرآن کا غلط ترجمہ اور مفہوم نکال کر عورت کو نہ صرف خلع کے حق سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ اس کو جہاں اللہ نے واضح مالی تحفظ دیا ،وہاں علماء نے انتہائی غلط ترجمہ کرکے عورت کے مالی استحصال کا حق بھی شوہر کو دیا ہے۔
پشتون معاشرے میں مقتدر علماء و مفتیان موجود ہیں جن کو پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت حاصل ہو تو نہ صرف پشتون عورت کو ظلم واستحصال سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں گے بلکہ افغانستان ، پاکستان ، سعودی عرب اور دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی قیادت کریں گے اور پوری دنیا کے ممالک کے لوگ اسلام کے ان بنیادی حقوق کی بنیاد پر نئی دنیا آباد کریں گے۔ عورت استحصال سے نکلے گی تو اس کا شوہر، بچے، بھائی اور تمام مقدس رشتوں کا ووٹ بینک صحیح استعمال ہوگا۔
عمران خان سے جن کی جنونی وابستگی ہے اگر9مئی کے واقعات مزید ہوجائیں تو ان کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگا۔ طالبان کے تشدد اور نفرت کو لوگ بھول جائیں گے اور ایک نہیں ہزاروں گلامن کے سر ٹوٹیں گے۔ جب نظام نہیں ہوتا توMQM، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، سنی تحریک ، تحریک لبیک اور تحریک طالبان جیسی تنظیموں کو وجود میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مولانا فضل الرحمن جذباتی الفاظ استعمال کرکے اس کو گھمانے کا گر جانتا ہے۔ ایک عرصہ سے نعرہ تھا کہ قائدا شارہ کوا بیا ئے تماشا کوا” قائد اشارہ کرو،پھر تماشا کرو”۔ مولانا فضل الرحمن نے محسوس کیا کہ اب یہ نعرہ اہمیت نہیں رکھتا تو پشتو میں کہا کہ ”اوس اشارے نہ خبر تیرے سوا اوس بہ برید کوو”۔ اشارے سے اب بات آگے نکلی، اب حملہ کرنا ہے۔ انقلاب لانا ہے ۔ جس پر سامعین اور شرکاء خوش ہوگئے کہ منزل قریب آگئی لیکن مولانا فضل الرحمن نے پھر مہارت سے وہ کہا کہ رہتی دنیا تک انقلاب نہیںآسکتا ۔” سمندر نے مچھلی سے پوچھا کہ تمہارے اندر تیرنے کی کتنی ہمت ہے؟۔ مچھلی نے کہا کہ جتنی تمہارے اندر موجیں ہیں اتنی مجھ میں تیرنے کی ہمت ہے”۔ سامعین کو یہ پتہ نہیں چلا کہ ان کے انقلاب کیساتھ کیا ہاتھ ہوگیا؟۔
مفتی منیر شاکر نےPTMکے پروگرام میں اچھی تقریر کی لیکن جب پولیس والے ان کو جلسہ گاہ تک نہیں چھوڑتے تو بھی وہ نہیں جاسکتا ۔PTMکے جوانوں میں اتنی ہمت ہے کہ پولیس کیساتھ اپنی جوانی کی طاقت سے کھیل کر جان چھڑاسکتے ہیں اور یہ بھی بہت بڑی بات ہے ۔ لیکن اگر طالبان نے ناکہ لگایا ہو تو پھر وہاں سے نہیں گزر سکتے ہیں اسلئے ان کو اعلان کرنا پڑا کہ گڈ طالبان ہوں یا بیڈ سب ہمارے ہیں۔ مسنگ پرسن کا رونا بھی طالبان کے حق میں ہی رویا جاتا ہے جو اچھی بات ہے لیکن جب ان کو آزاد کیا جاتا ہے تو بھی اعتراض ہوتا ہے کہ تم نے دہشت گردوں کو رہاکرکے ہمارے اوپر چھوڑ دیا ہے۔
جب تک معاشرے کی بنیادی حقوق کی بحالی نہیں ہوگی تو ہم حق کیلئے آواز اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ مغرب نے جتنے حقوق دئیے ہیں تو اتنی آزادی اور امن بھی قائم ہے۔ ہمارے ہاں امن اور آزادی دونوں کیلئے خطرات ہیں اسلئے کہ ہمارا جہاں بس چلتا ہے تو وہاں اصلاح نہیں کرتے اور جہاں بس نہیں چلتا ہے وہاں چلو بھر کر سمندر کو پہاڑوں پر لانے کے عمل کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔ انسان نفسانی خواہشات رکھتا ہے ۔ ضروریات رکھتا ہے ، اچھی بری صفت خصلت رکھتا ہے۔ اللہ نے بھی فرمایا کہ ”اپنی پاکیزگی بیان مت کرو، اللہ جس کو پاک کرنا چاہتا ہے یہ اس کی مرضی ہے”۔ یہ سب سے بڑی اور بنیادی سچائی ہے۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ” جو لوگ فحاشی اور بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں مگر…….. اللمم کا لفظی ترجمہ نہیں ہے۔ یہ ایک خالی جگہ ہے جہاں انسان اپنے اپنے ماحول کے مطابق اس کو پورا کرتا ہے۔
اگر عورت کو خلع کا اسلامی حق مل جائے۔حق مہر اور خرچہ شوہر کی استطاعت کے مطابق ہو۔ طلاق اور خلع کے حقوق کی وضاحت کرکے پشتون معاشرے میں رائج کیا جائے۔ حلالہ کی لعنت سے پشتون اور عالم اسلام کو چھٹکارا دلایا جائے۔ اور ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی عورت کو آدھا حق مہر دیا جائے ۔ ہاتھ لگانے کے بعد کی طلاق میں بھی وہ تمام حقوق مل جائیں جو قرآن دیتا ہے تو ایک پشتون عورت ریحام خان کی مجال نہیں تھی کہ عمران خان کے خلاف کتاب لکھ دیتی۔ جب وہ حقوق نہیں ملتے جو فطرت اور اسلام نے دئیے ہیں تو پھر معاملہ بالکل بدل جاتا ہے۔ ایک عورت کو استعمال کرکے جب چاہو پھینک دو اور اس کے کوئی ایسے مالی حقوق نہ ہوں جس سے اس کے شوہر پر کوئی اثر پڑتا ہو تو عورت کے پاس ایک ہی ہتھیار رہ جاتا ہے کہ اپنے سابق شوہر سے جیسے ممکن ہو انتقام لے۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو کمزور اور صنف نازک ضرور بنایا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کو طلاق دینے پر عرش ہل جائے بلکہ وہ شوہر ہل جاتا ہے جو اس کو طلاق دیتا ہے اسلئے کہ طلاق کے بعد شوہر کو وہ گھر عورت کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ اس کو خزانے بھی دئیے ہوں تو واپس نہیں لے سکتا ہے۔ جب شوہر بیوی کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہ بیوی کسی اور شوہر سے اسی گھر میں شادی کرلے تو آسمان شوہر پر گرے گا۔ سورۂ طلاق میں اللہ نے فرمایا ہے لاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن الا ان یأتین بفاحشة مبینة ”ان کو انکے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ طلاق سے پہلے بھی گھر عورت کا ہے ، طلاق کے بعد بھی گھر عورت کا ہے۔ ابورکانہ نے ام رکانہ 3طلاق سے الگ کردی۔ ابورکانہ نے اپنے لئے ددسری عورت اور گھر تلاش کیا۔ دوسری کو طلاق دی تو نبی ۖ نے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو 3 طلاق دے چکا ہے ۔ نبی ۖنے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور سورہ طلاق کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف)
خلع میں عورت کو گھر اور غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ سورہ النساء آیت19میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ لیکن منقولہ اشیاء کپڑے، زیورات، نقدی ، گاڑی اور تمام وہ چیزیں جو لے جائی جاسکتی ہیں شوہر کی دی ہوئی وہ چیزیں لے جاسکتی ہیں۔ خلع کے باوجود شوہر کو حسن سلوک کا حکم ہے۔ اور خلع کی عدت بھی ایک ماہ ہے۔ جب شوہر نے استطاعت کے مطابق حق مہر دیا ہو اور اس کے علاوہ بھی چیزیں دلائی ہوں اور عورت خوش نہ ہو تو پھر علیحدگی میں بھی مشکل نہیں ہے۔ لیکن طلاق کی صورت میں تو منقولہ اور غیر منقولہ اشیاء سب دی ہوئی چیزوں سے شوہر کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ یہ سورہ ٔ النساء کی آیات20،21میں یہ واضح ہے۔ حلالہ کی لعنت کے بغیر قرآن نے رجوع کی اجازت دی ہےPTMغیرت کرے۔
قرآن کی متعلقہ آیات میں معاشرے کو حلالہ کی لعنت سے بچانے کی مہم چلائی گئی ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے اور عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعدباہمی اصلاح اور معروف طریقے کے بغیر رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔آیت230البقرہ سے پہلے کی دو آیات اور بعد کی دوآیات میں بالکل واضح ہے اور آیت230البقرہ کا تعلق آیت229البقرہ سے ہے جس میں یہ واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے اور اگلی آیت میں عورت کو اس طلاق کے بعدپابندی سے بچانے کیلئے یہ حکم لگایاہے۔ اگر پشتونوں کو حلالہ سے بچایا تو یہ انقلاب ہوگا۔اور اس کے اثرات افغانستان کے طالبان پر بھی پڑیں گے اور پشتون قوم بے غیرتی کو خیر باد کہہ دے گی۔ جس کا مثبت اثر بلوچ، پنجابی،سندھی ، مہاجر سب پر پڑے گا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جولائی 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv