پوسٹ تلاش کریں

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

عورت کیساتھ خلع وطلاق پر زیادتی دو آیات کا غلط ترجمہ وتفسیر کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے

سورۂ بقرہ آیت:229میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ اس کا ایک فیصد احتمال بنتا ہے کہ اس سے خلع مراد لیا جائے لیکن جاویداحمد غامدی ، مولانا مودودی اور مولانا وحیدالزمان نے بھی غلط کردیا

سورۂ نساء آیت:19میں خلع ہی مراد ہے مگراس سے خلع مراد نہیں لیا گیا، جس کی وجہ سے نہ صرف عورت کے حق کو پامال کیاگیا بلکہ دیگرقرآنی آیات میں بھی تضاد کا شکار ہوگئے!

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے۔ پس اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوںاللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تودونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کردیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (البقرہ آیت:229)
اس آیت میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری بار طلاق کی بھی وضاحت ہے اور نبی کریم ۖ نے ایک صحابی کے پوچھنے پرفرمایا کہ قرآن میں تیسری طلاق یہی ہے جس کا ذکر آیت229البقرہ میں ہے کہ معروف طریقے سے رکھنے کے بجائے اس کو احسان کیساتھ چھوڑ دیا جائے۔ مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اس حدیث کو اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کیا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں واضح ہے کہ مرحلہ وار تیسری مرتبہ طلاق کے فیصلہ کے بعد شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔
پھر دوشرائط کیساتھ اس شرط پر صرف اس صورت میں وہ چیز واپس لینا جائز ہے کہ جب ان دونوں کو خدشہ ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے ۔ اور یہ کہ فیصلہ کرنے والے بھی ڈرتے ہوں کہ اگر شوہر نے وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی تو حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔
ایسی صورت میں وہ دی ہوئی عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ اسلئے کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو پھر فیصلہ کن طریقے سے جدائی کے بعد وہ ذریعہ بنے گا اور اس کی وجہ سے ایکدوسرے کے رازوں سے آشنا جب میل ملاپ کریں گے تو پھر دونوں اللہ کی حدوں کو توڑ سکتے ہیں۔
آیت میں واضح ہے کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس لینا جائز نہیں ہے لیکن مجبوری میں زیادہ بڑے نقصان اور اللہ کی حدود توڑنے کے خدشہ پر واپس فدیہ کرنے کی اللہ نے گنجائش رکھ دی ہے۔
اس آیت میں خلع کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ تین مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آئے گا؟۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے کہ اس کا شوہر طلاق کے بعد بہت مجبوری اور زیادہ بڑے نقصان کے پیش نظر ایسی چیز واپس کرسکتی ہے جو شوہر نے دی ہے۔ لیکن جاوید غامدی اور مولانا مودودی نے بھی اس سے خلع مراد لے کر الٹا عورت کو بلیک میل کرنے کا راستہ ہموار کردیا ہے۔ اس غلط تشریح کی وجہ سے عورت ہی نہیں علماء وفقہاء بھی طلاق کے مسائل پر تضادات ہی تضادات کا شکار ہوکر گمراہی کے طوفان میں غوطہ زن ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” اے ایمان والو! عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے کہ اس میں سے بعض چیزیں واپس لے لو مگر یہ کہ جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہیں وہ بری لگتی ہوں اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیرکثیر بنادے۔(النساء آیت:19)
ایک آزاد عورت اور لونڈی میں یہی فرق ہوتا تھا کہ لونڈی مملوکہ ہوتی تھی اور آزاد عورت اپنی آزاد حیثیت سے اپنے شوہر کی بیوی ہوتی تھی لیکن عملی طور پر بیوی بھی شوہر کی مملوکہ سے بھی بدتر مملوکہ ہوتی تھی۔ جیسے پہلے یہاں لوگ انگریز کے غلام تھے اور آزادی کے بعد بھی مقتدر سیاستدان، پولیس، عدالت، فوج ، سول بیوروکریٹ ، طاقتور علماء ومشائخ اور ہر طاقتور طبقہ اپنے سے کمزور طبقے کو اپنا غلام یا مزارع اور خود کو وارث اور مالک سمجھتا ہے۔ راجن پور میں ایک رکشہ ڈرائیور کے ساتھ کار مالک نے جس طرح کا تشدد کیا وہ گوانتا ناموبے میں بھی قیدیوں کیساتھ نہیں ہوا ہوگا۔ جب طاقت کا توازن قانون سے بالاتر ہو جائے تو یہی زبردستی سے کسی کے وارث بننے کی بات ہے۔ اگر عمران خان اپنے دورِ اقتدار میں نعرہ لگاتاجب شہریار آفریدی کے عزیز نے ایک کمزور لڑکی سے زبردستی سے شادی کرنے کی کوشش کی اورپھر انکار پر اس کو قتل کردیا کہ لوگ غلام ہیں کیا تو آج ریاستی نظام سے خواتین پر مظالم کے سچے جھوٹے دعوؤں کی کوئی ضرورت پیش نہ آتی۔ الطاف حسین کا66سالہ بھائی گورنمنٹ ملازمت سے ریٹائرڈاور28سالہ بھتیجا جن کا ایم کیوایم اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا انکو اغواء اور پھر بہت ظالمانہ طریقے سے قتل کرکے لاشیں پھینک دیں۔ ایم کیوایم نے انسانی حقوق کی پامالی کی تھی اور حقیقی کی شکل میں انکے ساتھ وہی ہواتھا۔MQMاور طالبان کا راج تھا تو وہ بھی خود کو بدمعاشی سے مالک سمجھتے تھے۔
عورت کو اللہ نے شوہر کی مملوکہ نہیں بنایا ہے۔ جب بھی وہ خلع لینا چاہتی ہو تو وہ خلع لیکر گھر سے نکل سکتی ہے اور یہی اس کی طلاق ہے۔ شوہر طلاق دے تو عورت کی عدت تین مہینے ہے اور عورت خلع لے توعورت کی عدت ایک مہینے ہے۔ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ سعودیہ میں اس پر عمل ہوتاہے لیکن یہاں بشریٰ بی بی کی خلع پر ہنگامہ کھڑا کیا گیا اور وہ بھی بہت دیر سے خیال آیا۔
خلع میں عورت کو گھر اور تمام غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے دست بردار ہونا پڑتا ہے اور طلاق میں مرد کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے کیونکہ گھر عورت کا ہوتا ہے اور اگر خلع وطلاق کے یہ حقوق واضح ہوتے اور ریحام خان کو طلاق دینے کے بعد عمران خان کو بنی گالہ کا گھر چھوڑنا پڑتا تو ریاستِ مدینہ کی تصویر نظر آجاتی مگر علماء نے خلع اور طلاق کی درست وضاحت نہ کرکے اسلام کا کباڑہ کرکے رکھ دیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر مبنی مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ عثمانی

عورت کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر مبنی مفتی تقی عثمانی اور مفتی محمد شفیع کے فتاویٰ عثمانی

سوال:۔ ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیااور اسے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا، لڑکی کے والدین اس پر ناراض ہیں، کیونکہ لڑکی آرائیں قوم سے ہے اور لڑکے کا تعلق شیخ قوم سے ہے۔ (شیخ سے مراد کھوجہ قوم ہے) اور دونوں قوموں کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز سمجھے جاتے ہیں اور شیخ ذلیل، تو کیا اس صورت میں نکاح ہوسکتا ہے؟۔
جواب :۔ آرائیں اور کھوجہ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت میں نسل کا اعتبار نہیں ہے اور مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا ہے اسلئے نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں ۔ قال فی الدر المختار واما فی العجم فتعتبر حرےة واسلاما (شامی ج ٢، ص ٣١٩) واللہ سبحانہ اعلم احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بند ہ محمد شفیع عفااللہ عنہ فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ ٢٨٠
دوسری جگہ تقی عثمانی اسکے بالکل برعکس ایک اور طرح کا رباب بجاتا ہے۔
تنقیح:1:احمد کی لڑکی نے جس مرد سے نکاح کیاہے، وہ قومی اور خاندانی اعتبارسے احمدکا کفو ہے یا نہیں؟۔ یعنی دونوں خاندان میں اتنا فرق ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کو عرفاً عار اور عجیب سمجھتا ہو؟۔ یا اتنا فرق نہیں ہے اور دونوں خاندانوں میں بغیر کسی عار کے شادی بیاہ ہوتے ہیں۔
2:کیا دینداری کے اعتبار سے احمد کے گھرانے اور اس مرد کے گھرانے میں کوئی فرق ہے؟۔ ان دو سوالوں کا جواب لکھ کر بھیجئے ۔ محمد تقی عثمانی
جواب تنقیح: وہ مرد اور اس کے گھرانے میں اتنا فرق دینداری کے اعتبار سے ہے کہ احمد اور احمد کے گھرانے موحد ہیںاور جس مرد سے احمد کی لڑکی کا نکاح کیا گیا وہ مرداور اس کے گھرانے بدعتی ہیں، اور ان میں مشرکانہ صفتیں بھی ہیں۔ چند صفتیں یہ ہیں : حضور ۖ کو حاضر وناظر سمجھتاہے، مشکلات میں پیر کو پکارتا ہے، مرنے کے بعد عہدنامہ قبر میں دفن کرتا ہے ، نماز جنازہ پڑھ کر دائرہ بناکر اسقاط کرتا ہے، احمد ان باتوں کے خلاف ہے۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں احمد کی لڑکی کا نکاح جس شخص سے کیا گیا وہ احمد کا کفو نہیں ہے، لما فی ردالمختار:فانھم قالوا لایکون الفاسق کفو لبت الصالحین (شامی ج ٢،ص ٣٢٠ باب الاکفائ)اور فسق اعتقادی فسق عملی سے اشد ہے ۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں احمد کی رضامندی کے بغیر جو نکاح کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔ احمد کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ فوراً اس شخص سے الگ ہوجائے۔ لمافی ردالمختار: ولہ اذاکان عصبة الاعتراض فی غیر الکفو ما لم تلد منہ ویفتیٰ بعدم جواز اصلًا وھو المختار للفتویٰ للفساد الزمان.( شامی ج ٢ ص ٢٩٧) اللہ سبحانہ اعلم
فتاویٰ عثمانی جلدووم صفحہ 292،293
سوال :۔ زید بعمر5سال کا، سعیدہ بعمر2سال سے نکاح ہوا۔ بالغ ہونے پر سعیدہ نے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، زید نے نوٹس کے ذریعے سعیدہ کی رخصتی کا مطالبہ کیا، تو سعیدہ نے نوٹس کے جواب میں زید کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیااور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اسکے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور نکاح کو منسوخ قرار دیا جائے، سات سال کی مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے اس حق کو تسلیم کرلیا اور اس بات کی تصدیق کردی کہ نکاح منسوخ ہوگیا ہے ، اس کیخلاف اپیل کی جو مسترد ہوگئی ، اب فرمائیں نکاح شرعاً منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر سعیدہ کا نکاح خود اسکے باپ نے کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد سعیدہ کو اسکے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ،تاوقت یہ کہ وہ سوئے اختیار کو ثابت نہ کرے اور اگر سعیدہ کا نکاح کرنے والا خوداس کا باپ نہیں تھا، خواہ باپ کا وکیل ہی کیوں نہ ہو تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس صورت میں عدالت کا منسلکہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ ولزم النکاح ولوبغبن فاش…. اوبغیر کفوء ان کان والولی ………واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
سوال :۔ رحیم بخش نے اپنی حقیقی لڑکی کا نکاح بحالت نابالغی بعمر9،10سال کے خوشی و رضا مندی کیساتھ کردیا ، کچھ عرصہ بعد شیرمحمد باہر چلا گیا اور عدم الخبرہوا۔ عرصہ چار پانچ سال بعد لڑکی کے باپ نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا۔ مقدمہ سات آٹھ ماہ چلتا رہا، عدالت نے شیرمحمد کے وارثوں کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر اندر حاضر کریں، ورنہ حکم تنسیخ کردیا جائیگا، چنانچہ اس قلیل وقت میں لڑکے کو عدالت میں حاضر نہ کیا جاسکا تو عدالت نے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا۔ تنسیخ سے قبل عدالت نے سرکاری طور پر شیرمحمد کو تلاش نہیں کیا، نہ تو عدالت نے کوئی نوٹس دیا اور نہ اعلان یا اخبار میں اشتہار دیا، تنسیخ کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیدی گئی۔ چنانچہ بعد تین ماہ عدت گزارنے کے لڑکی کے باپ نے اس کی شادی ایک اور شخص محمد شفیع سے کردی ، نکاح کے دو تین ماہ بعد شیرمحمد آگیا اور اس نے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا مگر لڑکی کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ لڑکی دوسرے شخص محمد شفیع کے گھر میں رہے گی، کیونکہ عدالت نے نکاح ثانی کی اجازت دے دی ہے اور اب تک بضد قائم ہے۔ لہٰذا اب صورت مذکورہ میں کیا نکاحِ اول منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب :۔ اس سوال کیساتھ عدالت کا جو فیصلہ منسلک تھا،اس میں فسخِ نکاح خیار بلوغ کی بناء پر کیا گیا ہے ، جس پر تنقیحات کی گئیں، ان تنقیحات کے بعد مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوئے۔1:لڑکی کا نکاح خود باپ نے کیا تھا ۔2:لڑکی نے آثار بلوغ ظاہر ہوتے وقت نکاح نامنظور کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
لہٰذا اولاً تو یہ نکاح چونکہ باپ کا کیا ہوا ہے (اور اس کے سیئی الاختیار ہونے کا دعویٰ لڑکی نہیں کرتی) اسلئے اس میں لڑکی کو خیارِ بلوغ سرے سے حاصل ہی نہیں ہے، کما ھو مصرح فی سائر کتب الفقہ ، دوسرے اگرحاصل ہوتا تب بھی لڑکی نے خیارِ بلوغ کے حق کو استعمال کرنے کا وقت گزار دیا، لہٰذا شرعاً خیارِ بلوغ کی بناء پرعدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور شریعت کی رو سے اس کا فسخِ نکاح صحیح نہ ہوا ، لہٰذا محمد شفیع سے اس کا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اصل خاوند شیرمحمد بدستور لڑکی کا شوہر ہے۔البتہ اگر محمد شفیع لڑکی کیساتھ صحبت کرچکا ہو تو جب تک تین حیض نہ آجائیں شیر محمد کیلئے اس سے صحبت کرنا جائز نہیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احقر محمد تقی عثمانی ٤/٢/١٣٨٨ھ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفا اللہ عنہ فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ 282۔283

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!

درسِ نظامی میں دیوبندی بریلوی حدیث صحیحہ کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیںمگر جب یہ ثابت ہوکہ حدیث قرآن کے خلاف نہیںتھی تو فقہ حنفی کی بلند وبالا نئی بلڈنگ کھڑی ہوجائے گی ؟

پاکستان کی اکثریت دیوبندی بریلوی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پہلے اپنی بوسیدہ بلڈنگ گراکر ایک شاندار نئی عمارت کھڑی کردیں جس سے مساجدو مدارس کی رونق اور اعتماد بحال ہو

علماء نے اصول فقہ میں قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا ہے اور پھر کمال کی نالائقی یہ کی ہے کہ فقہ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے اس سے بڑھ کر گمراہی کیا ہوسکتی ہے؟

شریعت کے چار اصول ہیں ۔ پہلا اصل قرآن ہے اور قرآن سے مراد صرف وہ500آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں۔ باقی قرآن قصے ، مواعظ اور دیگر امور ہیں۔ پھر اصل معاملہ چھوڑ کر قرآن کو کیوں متنازعہ بنانا شروع کردیا ؟۔ کہ قرآن” المکتوب فی المصاحف ( قرآنی نسخوں میں لکھا ہوا ) ہے اور مکتوب سے مراد کلام اللہ نہیں کیونکہ یہ محض نقش ہے ”۔حالانکہ یہ قرآن سے پوچھنا چاہیے کہ مکتوب کیا ہے؟۔ ولوانزلنا ہذا القراٰن فی قرطاس لمسوہ ”اور اگر ہم اس قرآن کو کاپی میں لکھا ہوااتار دیتے اور یہ لوگ اس کو چھوتے”۔ پھر بھی انہوں نے اس کو جادو قرار دینا تھا۔ جوکہتے تھے کہ ھٰذا اساطیر الاولین اکتبھا بکرة ًواصیلاً( یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں جو صبح شام لکھوائی جاتی ہیں)۔کتابت کا لفظ عربی میں لکھائی ہے جس کا بہت زیادہ مرتبہ قرآن میں استعمال بھی ہواہے اسلئے کتابت اور وہ بھی قرآن کی کتابت کو محض نقش قرار دینا بہت بڑی نالائقی اور گستاخی ہے۔ جس کو کم عقل فقہاء نے یہاں تک پہنچایا ہے کہ سورۂ فاتحہ کو نکسیر اور پیشاب سے لکھنے کو علاج کیلئے نعوذ باللہ جائز قرار دیا ہے۔ قرآن کی تعریف میں یہ پہلا جملہ انتہائی خطرناک اور احمقانہ ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے جس علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی تھی اور فقہ کی طرف توجہ فرمائی تھی ، ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآن کی تعریف میں پھر اسی گمراہانہ تصور کو بنیاد بنادیا ہے۔
اہل حدیث کو لاجواب کرنا ہوتا تو ان کے نزدیک چھوٹے شیر خوار بچے کا پیشاب پاک ہے اور ہم ان کو جواب دے سکتے تھے کہ سورۂ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنے کا جواز تمہاری وجہ سے لکھ دیا گیاہے۔
قرآن کی مزیدتعریف کہ” المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبہ (جو آپۖ سے نقل کیا گیا ہے تواتر کیساتھ کسی شبہ کے بغیر)۔ متواتر سے غیر متواترآیات نکل گئیں جیسے خبر احاد اور مشہور ۔بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی۔ اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شک ہے اور شک اتنا قوی ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا انکار کرنے سے مسلمان کافر نہیں بنتا ہے۔ باقی کسی آیت سے انکار کرے گا تو کافر ہوجائے گا”۔
امام شافعی کے نزدیک موجودہ قرآن کے علاوہ دیگر آیات کا وجود ماننا قرآن کی تحریف کا عقیدہ ہے اور بسم اللہ میں شک کرنا کفریہ عقیدہ ہے۔ امام ابوحنیفہ نے یہی عقیدہ اپنے شاگردوں کو سکھایا تھا اور امام شافعی اصل میں امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد کے شاگرد تھے۔ امام ابویوسف اپنے استاذ امام ابوحنیفہ سے منحرف ہوگئے۔ امام ابوحنیفہ اسلئے جیل میں شہید اور امام ابویوسف قاضی القضاة چیف جسٹس بن گئے۔ مفتی محمود نے بھی آخر میں کسی کے ہاتھ پان اور دورہ قلب کی خاص گولی کھاکر شہادت کی منزل پائی اور مفتی محمد تقی عثمانی نے شریعت کورٹ کے جسٹس کا حلف اٹھالیا تھا۔ جب مفتی محمود نے پان کو بدتر قرار دیا تھا تو کھلانے کا کوئی تُک نہیں بنتا تھا اور اس پر یہ جھوٹ کہ بے تکلفی تھی اور بھیا کہہ کر پان مانگ کر کھالیتے تھے۔ امام شافعی پر درباری علماء ومفتیان اور وقت کے قاضیوں نے رافضی ہونے کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ وہ سراسر بہتان تھا۔
اگر قرآن کی500آیات لکھ دی جاتیں اور اس کا سادہ وسلیس مفہوم طلبہ اور عوام کو پڑھایا جاتا تو آج ساری دنیا مسلک حنفی کے مطابق چلتی۔ آیت کی ریاضی سے تشریح بھی غلط ہے اور جس آیت کے مقابلے میں حدیث صحیحہ کو ناقابلِ عمل قرار دیا،وہ آیت سے متصادم بھی نہیں ہے۔آیت228البقرہ میں ہے کہ المطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء ” طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں”۔ عورت کاایک دورحیض و پاکی کے دنوں کو ملاکر بنتاہے۔ حیض کی حالت میں مقاربت منع ہے اور جیسے روزہ رات کو نہیں دن کو ہوتا ہے۔ اسی طرح عورت کی عدت کا پہلا دور بھی حیض کے بعد طہر ہے۔ جس طہر میں عورت کو طلاق دی جاتی ہے اس سے پہلے وہ ایک حیض مقاربت کے بغیر گزار چکی ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ تین قروء یعنی3ادوار سے3اطہار مراد ہیں۔ جب ایک عورت کو طلاق مل گئی تو اس نے تیسرے طہر کے بعد عدت کو مکمل سمجھ لیا اور شوہرسے علیحدگی اختیار کرلی۔ جس پر کسی نے اعتراض کیا اور حضرت عائشہ نے وضاحت کی کہ اس نے ٹھیک کیا۔عبداللہ بن عمرنے حیض میں بیوی کو طلاق دی تونبیۖ نے شدید غصے کا اظہار فرمایا اور پھر سمجھایا کہ ” طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھو، یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں چاہو تو معروف طریقے سے رجوع کرلو اور چھوڑنا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم کیا ہے”۔ جب آخری طہر کے بعد حیض آگیا تو جس طرح رمضان کا چاند تیسرے عشرے کے اعتکاف میں نظر آنے کے بعد اعتکاف والے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں اس طرح عورت کی عدت بھی تیسرے طہر کے بعد حیض آتے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ حیض نہ آتا ہو تو تین ماہ کی عدت قائم مقام ہے۔
درس نظامی کی کتاب ”نورلانوار” میں ہے کہ ”3کا عدد خاص ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔ طہر میں طلاق دینا مشروع ہے۔ جس طہر میں طلاق دی جائے تو اس کو شمار کرنا ادھورا ہوجائے گا اسلئے3حیض کی عدت ہے۔ اگر تین طہر مراد لئے جائیں تو پھر یہ ڈھائی بن جائیں گے۔ حالانکہ اگر تین حیض مراد لیں تو پھر جس طہر میں طلاق دی ہے وہ بھی عدت میں شمار ہوگی اور ساڑھے تین بن جائیں گے؟۔ اگر دن کو روزے کی نیت کی جائے تو جب کچھ کھایا پیا نہیں ہوگا پھر روزہ پورا ہوگا نہ کہ ادھورا؟۔ کچھ بڑے درجہ کے علماء ومحدثین کہتے ہیں کہ ”حیض میں طلاق نہیں ہوتی ہے”۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ طلاق روزے کی طرح عمل ہے۔
نورالانوار میں قرآن اور حدیث صحیحہ کو یوں متصادم قرار دیا کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ (یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے )کے مقابلے میں حدیث لائی گئی کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔
نمبر1:قرآن میں عورت کو ولی سے آزادی دلانے کیلئے اللہ نے نہیں فرمایا کہ ”اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کرلے” بلکہ سابق شوہر سے آزادی دلانے کیلئے یہ فرمایا ہے اسلئے قرآن کے مقابلے میں اس حدیث کو لانا بھی موقع محل کے بالکل منافی ہے۔ قرآن سے حدیث صحیحہ کو پچھاڑ دیا۔
نمبر2:احناف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث میں تطبیق ممکن نہ ہو تو حدیث کو متصادم قرار دیا جائے۔یہاں تطبیق ممکن تھی اسلئے کہ قرآن میں طلاق شدہ کا ذکرہے اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔جمہور فقہاء نے غلط کیا کہ حدیث کی وجہ سے طلاق شدہ وبیوہ کا اختیار سلب کرلیا۔ طلاق شدہ وبیوہ کے احکام مختلف ہیں ۔ قرآن میں طلاق شدہ سے زیادہ بیوہ کیلئے خود مختار ہونے کی واضح الفاظ میں وضاحت ہے۔ ایک طرف حدیث کو ناقابلِ عمل قرار نہ دیا جائے تو دوسری طرف ہم جمہور کو قرآن کے واضح احکام پر متفق کرسکتے ہیں۔
جب کنواری لڑکی کا گھر سے بھاگ کرنکاح معتبر قرار دیا تو اس کی وجہ سے دوسری احادیث کابھی بیڑہ غرق کردیا ۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ نکاح پر دوعادل گواہ بنالو۔ حنفی فقہاء نے دو فاسق گواہ بھی کافی قرار دیدئیے اور حدیث میں ہے کہ دف بجاکر نکاح کا اعلان کردو،یہ کہتے ہیں کہ دو خفیہ فاسق گواہ بھی اعلان ہے۔ حدیث میں مساجد میں نکاح کرنے کا اعلانیہ حکم ہے اور یہ عدالت میں خفیہ دستاویز پیش کرنے کو بھی ٹھیک کہتے ہیں۔ جس سے خاندانوں میں دشمنی ، جنگ وجدل اور قتل وغارت کا ماحول بنتاہے۔ حالانکہ قرآن نے اس رشتے کو بھی دوسرے خونی رشتے کی طرح آپس میں محبت والفت اور احسان قرار دے دیا ہے۔ان نام نہاد غلط حنفی فقہی مسائل کی وجہ سے چھپ کر یاری دوستی کا ماحول قائم ہوتا ہے اور کورٹ میرج کا راستہ بنتا ہے۔
حدیث قرآن سے نہ ٹکرائے پھر بھی ناقابلِ عمل ہو لیکن فقہی مسئلہ سے قرآن کو ناقابلِ عمل قرار دیا جائے تو اس سے بڑی گمراہی کیا ہے؟۔ مہاجرعثمانی عاقلہ بالغہ لڑکی ایک مہاجر لڑکے سے نکاح کرے تو یہ فتویٰ دیا جائے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوا اسلئے کہ لڑکی کا لڑکا کفوء نہیں۔ کیا حدیث قرآن کے مقابلے میں ناقابل عمل ہے ؟۔ مگر فتویٰ کے مقابلے میں قرآن کو پچھاڑ دیا ہے ؟۔ کچھ تو شرم بھی ہوتی ہے ، کچھ تو حیاء اور غیرت بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ قرآن میں سب بنی آدم کو برابر اور مٹی سے پیدا کرنے کا تصور دیا گیا ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ ” عرب کو عجم پر ، عجم کو عرب پر، کالے کو گورے پر ،گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ،فضلیت کی بنیاد تقویٰ (کردار)ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ایک کیس کے ریمارکس میںلڑکی، لڑکا کا بھاگ کر شادی کرنا لبرل کا کارنامہ قرار دیا کہ پاکستان یورپ کے طرز پر پہنچ جائے گا۔ بھلے مجھے کوئی مولوی کہے ۔حالانکہ یہ مولوی کے ہی کرتوت ہیں۔ جسٹس صدیقیISIکے خلاف بول سکتا تھا لیکن مولوی کے خلاف نہیں۔حالانکہ مولوی کے پاس دلیل نہ ہو تو طاقت کے لحاظ سے یہ بہت ہی کمزور طبقہ ہے۔ بس اس کا ایک فائدہ ہے کہ جب جسٹس صدیقی مرے گا تو عرفان صدیقی اس کے حق میں لچھے دار لکھے گا۔
مفتی تقی عثمانی ایک طرف تقلید کی شرعی حیثیت میں لکھتا ہے کہ ” اجتہاد کا دروازہ ائمہ مجتہدین کے بعد بند ہے، اس کے بعد کوئی اجتہاد کرے گا تو گمراہ ہوگا اور دوسری طرف عالمی بینکاری کے سودی نظام کو اپنے اجتہاد سے جائز قرار دیا کہ دونیکیاں ملیں گی اور اگر غلطی کی تو ایک نیکی ملے گی۔ حالانکہ سود کو جواز بخشنے کا کیا اجتہاد ہوسکتا ہے؟۔ اجتہاد تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جو قرآن وحدیث میں موجود نہ ہوں۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: کنواری اور الایم یعنی طلاق شدہ وبیوہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے اور کنواری شرمیلی ہوتی ہے اسلئے اس سے نکاح کی اجازت مانگی جائے تو اس کی خاموشی رضامندی واجازت ہے اور الایم کیلئے زبان سے اظہار ضروری ہے۔( صحیح بخاری)۔ حدیث سے ثابت ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ مفتی تقی عثمانی نے فتوی لکھا کہ” عجمی نسل میں کفاء ت نہیں ۔ اگر لڑکی کو اغواء کرکے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا تو یہ رضامندی واجازت ہے اور اب لڑکی یا اسکا رشتہ دار نکاح کو ختم کرنا چاہے تو اسکے سواء راستہ نہیں کہ اس آدمی سے طلاق حاصل کی جائے ۔ (فتاویٰ عثمانی جلددوم :288)
جب سیاسی قائدین جبرکے سامنے سرنڈر کرسکتے ہیں تو کیا اغواء ہونے والی بالغ و نابالغ بچیوں کا نکاح باہمی رضامندی اور دلال کے ذریعے جائز ہوگا؟۔ فتاویٰ عثمانی میں اسلام کو کتنا غلط استعمال کیا جارہاہے؟۔
چھوٹی بچی کو نکاح کیا پتہ ؟۔ اس کی رضامندی بھی معتبر نہیں لیکن اس کے ساتھ زبردستی تو انتہائی درجے کی انسانیت سوز اور ناقابلِ قبول معاملہ ہے۔ ایک بچی کہتی ہے کہ میرا نکاح میری مرضی کے بغیرمیری لاعلمی میں کردیا گیا۔ اب لڑکا بالغ ہوچکا ہے اور میں اس سے آزاد ہونا چاہتی ہوں اور وجہ یہ ہے کہ نابالغ کا نکاح معتبر ہے لیکن طلاق معتبر نہیں ہے۔ اس بے چاری کو جواب ملتا ہے کہ اس سے اب بھی طلاق نہیں لے سکتی ہو اور آپ بالغ ہوجاؤ تو بھی اگر تیرے باپ یا دادا نے یہ نکاح کیا ہے تو اس سے خلاصی نہیں پاسکتی ہو۔ موجودہ دور میں عورت جو کہتی ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی ” تو اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ صابرشاہ کا جسم مفتی عزیز الرحمن کی مرضی اور مدرسہ کے طلباء کا جسم اور شیخ الحدیث مفتی نذیراحمد فیصل آبادی کی مرضی۔ ان لوگوں کا ضمیر غارت ہوچکا ہے اور جب تک اس جعلی اسلام کے خلاف مدارس، مساجد ، خانقاہوں اور امام بارگاہوں سے ایک مؤثر آواز نہیں اٹھے گی جو عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی دہلیز تک پہنچے اور ڈنڈے والی سرکار کے زور ان سب کو سیدھا کردے تاقیامت بھی مؤمن اسی غلامی اور ذکر صبح گاہی سے جان نہیں چھڑ اسکتا ہے۔
بچی کا نکاح9،10سال کی عمر میں اسکے باپ نے شیرمحمد سے کردیا۔ لڑکی نے بالغ ہونیکے بعد کئی سال تک رخصتی کا انتظار کیا۔ لڑکا بیرون ملک گیا اور5سال تک مفقود الخبر ہوا۔ عدالت میں شادی یا فسخ نکاح کا کیس دائر کیا۔7ماہ تک عدالت کے مطالبے پراسکے رشتہ دار نہیں لاسکے اور پھر جج نے نکاح فسخ کردیا۔ لڑکی نے عدت کے بعد والد کی مرضی سے محمد شفیع سے نکاح کیا ۔اسکے کئی مہینے بعد شیرمحمد نے واپس آکرلڑکی کا مطالبہ کیا تو لڑکی کے باپ نے انکارکردیا۔ مفتی تقی نے فتویٰ دیا کہ لڑکی شیرمحمد کے نکاح میں اب بھی ہے۔
دعا زہرہ کیس میں کیا کیا مشکلات حکومت ، ریاست ، صحافت اور معاشرت کو بھگتنے پڑے تھے؟۔ لیکن وہ کیس تو ہائی پروفائل بن گیا تھا۔ مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” بدترین نمونے ہیں۔ اگر عوام کے سامنے آگئے تو برمی بنگالی عورتوں اور بچیوںکو دلال کے ذریعے بیچنے سے لیکر دنیا میں اسلام کے نام پر عورتوں اور بچیوں کے حقوق کی ایسی خلاف ورزی کاوہ شاخسانہ نظر آئے گا کہ الحفیظ والامان کی صدائیں بلند ہوں گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں

عورت کی حق تلفی اور انتہائی بے غیرتی کا مثالی فتویٰ۔ عورت کے حقوق کیلئے کھڑے ہوں

___باپ کا کیا ہوا نکاح فسخ نہیں کیا جاسکتا___
سوال :۔ رحیم بخش نے اپنی حقیقی لڑکی کا نکاح بحالت نابالغی بعمر9،10سال کے خوشی و رضا مندی کیساتھ کردیا ، کچھ عرصہ بعد شیرمحمد باہر چلا گیا اور عدم الخبرہوا۔ عرصہ چار پانچ سال بعد لڑکی کے باپ نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کیا۔ مقدمہ سات آٹھ ماہ چلتا رہا، عدالت نے شیرمحمد کے وارثوں کو حکم دیا کہ تین ماہ کے اندر اندر حاضر کریں، ورنہ حکم تنسیخ کردیا جائیگا، چنانچہ اس قلیل وقت میں لڑکے کو عدالت میں حاضر نہ کیا جاسکا تو عدالت نے تنسیخ نکاح کا حکم دے دیا۔ تنسیخ سے قبل عدالت نے سرکاری طور پر شیرمحمد کو تلاش نہیں کیا، نہ تو عدالت نے کوئی نوٹس دیا اور نہ اعلان یا اخبار میں اشتہار دیا، تنسیخ کے بعد دوسری شادی کی اجازت دیدی گئی۔ چنانچہ بعد تین ماہ عدت گزارنے کے لڑکی کے باپ نے اس کی شادی ایک اور شخص محمد شفیع سے کردی ، نکاح کے دو تین ماہ بعد شیرمحمد آگیا اور اس نے اپنی بیوی کا مطالبہ کیا مگر لڑکی کے والد نے انکار کردیا اور کہا کہ لڑکی دوسرے شخص محمد شفیع کے گھر میں رہے گی، کیونکہ عدالت نے نکاح ثانی کی اجازت دے دی ہے اور اب تک بضد قائم ہے۔ لہٰذا اب صورت مذکورہ میں کیا نکاحِ اول منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب :۔ اس سوال کیساتھ عدالت کا جو فیصلہ منسلک تھا،اس میں فسخِ نکاح خیار بلوغ کی بناء پر کیا گیا ہے ، جس پر تنقیحات کی گئیں، ان تنقیحات کے بعد مندرجہ ذیل اُمور ثابت ہوئے۔1:لڑکی کا نکاح خود باپ نے کیا تھا ۔2:لڑکی نے آثار بلوغ ظاہر ہوتے وقت نکاح نامنظور کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔
لہٰذا اولاً تو یہ نکاح چونکہ باپ کا کیا ہوا ہے (اور اس کے سیئی الاختیار ہونے کا دعویٰ لڑکی نہیں کرتی) اسلئے اس میں لڑکی کو خیارِ بلوغ سرے سے حاصل ہی نہیں ہے، کما ھو مصرح فی سائر کتب الفقہ ، دوسرے اگرحاصل ہوتا تب بھی لڑکی نے خیارِ بلوغ کے حق کو استعمال کرنے کا وقت گزار دیا، لہٰذا شرعاً خیارِ بلوغ کی بناء پرعدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا اور شریعت کی رو سے اس کا فسخِ نکاح صحیح نہ ہوا ، لہٰذا محمد شفیع سے اس کا نکاح باطل وکالعدم ہے اور اصل خاوند شیرمحمد بدستور لڑکی کا شوہر ہے۔البتہ اگر محمد شفیع لڑکی کیساتھ صحبت کرچکا ہو تو جب تک تین حیض نہ آجائیں شیر محمد کیلئے اس سے صحبت کرنا جائز نہیں ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم احقر محمد تقی عثمانی ٤/٢/١٣٨٨ھ (فتویٰ نمبر٢١٢/١٩ الف ) الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ282۔283
سوال اور اس کا جواب دارالعلوم کراچی والوں نے خود مرتب کیا ہے اور اس میں کمالِ فن دکھانے کا بھی مظاہرہ کیا ہے لیکن اس سب کے باوجود جب شوہر مفقود الخبرتھا تو اصل فتویٰ یہ بنتا تھا کہ4سال انتظار کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور برصغیر پاک وہند کے حنفی علماء ومفتیان کا فتویٰ یہ تھا کہ نکاح فسخ ہوچکا ہے اور4ماہ10دن کی عدت گزارنے کے بعد وہ لڑکی شادی کرسکتی تھی۔ طلاق کی عدت بھی تین ماہ نہیں بنتی تھی اس لئے کہ لڑکی کی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ عدالت سے منسوخ نکاح کروانے اور اتنی مدت گزارنے کے بعد اگر رخصتی ہوچکی ہوتی اور عورت بچوں کی ماں بھی ہوتی تب بھی اس کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق تھا اور اس پر یہ فتویٰ لگانا کہ نکاح نہیں ہوا ہے اور یہ تعلق بھی جائز نہیں تھا ،انتہائی افسوس کی بات ہے۔ محمد شفیع کوئی بہت غریب بندہ ہوگا اور اس کا باپ بھی بے بس ہوگا اور شیرمحمد کوئی امیر ہوگا اور اس نے پیسہ بھی ان فتویٰ فروشوں کو دیا ہوگا۔ ان لوگوں نے دین اور فتوے کو کاروبار بنالیا ہے۔ انفرادی فتوے بھی ان کے بہت متضاد ہیں۔ ایک فتویٰ لکھ دیا کہ شیعہ سے سنی لڑکی کا نکاح جائز نہیں اور دوسرا لکھ دیا ہے کہ جائز ہے مگر مناسب نہیں ۔
جب حاجی عثمان پر انہوں نے فتویٰ لگایا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ یہ پیر کوئی اچھا آدمی ہوگا اور ان مفتیوں نے اس پر1970 عیسوی کے فتوے کی طرح مال کمایا ہوگا۔ دارالعلوم کراچی نے اس وقت بھی یہ کھیل ایسا کھیلا تھا کہ الاستفتاء میں لکھ دیا تھا کہ ” خلیفہ اول کہتا ہے کہ مجھے پیر بار بار مجبور کرتا تھا کہ تم نبیۖ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟”۔ حالانکہ ایسا عملاً نہیں ہوسکتا ہے کہ پیر خود تو نبی ۖ کو نہیں دیکھتا ہو لیکن مرید سے کہے کہ تم نے دیکھا ہے یا نہیں؟۔ اور زبردستی دیکھنے پر مجبور کرتا ہو۔ اگرایک خلیفہ ہوتا تو پھر بات ہوتی یہاں تو علماء ومفتیان ، بہت سارے خلفاء ،تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والوں کی ایک بہت بڑی فہرست تھی اور عام ہزاروں کی تعداد میں مکاشفات دیکھنے والے ان کے علاوہ تھے جن میں اہلحدیث بھی شامل تھے۔
دارالعلوم کراچی نے حاجی عثمان سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ نہیں آئے تو ہم یک طرفہ فتویٰ دیں گے اور پھر وہ فتویٰ جس پر کوئی یقین نہیں کرتا شائع کردیا اور علماء ومفتیان بکاؤ مال نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے حاجی عثمان سے تفتیش کے بعد فتویٰ دیا اور یہ نہیں بتایا کہ خلیفہ اول کے علاوہ جن علماء اور دیگر لوگوں نے مشاہدات دیکھے تھے تو وہ تمہاری بیویوں ، ماؤں اور بیٹیوں کے پاس چرنے گئے، چڑھنے گئے یا کیا کرنے گئے؟۔ ایک پر تو زبردستی کی لیکن دوسروں کا کیا بنے گا کالیا؟۔ ہم فوجی حکام ، مقتدر، علماء حق اور عوام الناس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان غلیظ علماء ومفتیان کا راستہ روکنے کیلئے بندوبست کرنا چاہیے ۔ہماراذاتی معاملہ تو ایک بہانہ ہے لیکن ہمارا اصل نشانہ غریب وبے بس لوگوں کو حلالہ ، سود ، حلال نکاح کو حرام قرار دینے ، جھوٹ ، فریب اور فتویٰ فروشی کی لعنتوںسے بچانا ہے اور بس!۔ہم پر حرامکاری اور اولاد الزنا کا غلط فتویٰ بہت مہنگا پڑاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی

قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کے مطابق ان افراد کا نکاح بلاشبہ درست تھا حلالہ کی ضرورت نہ تھی

اللہ تعالیٰ نے رجوع کا تعلق طلاق کی تعداد سے نہیں بلکہ عدت کیساتھ باہمی صلح واصلاح سے جوڑا ہے جو اتنا واضح ہے کہ سود خور مفتی تقی عثمانی اورمفتی عبدالرؤف سکھروی جیسوں کو بھی نظرآسکتا ہے

سندھ کی ایک بیٹی کیلئے محمد بن قاسم اس پورے خطے کو فتح کرسکتا ہے لیکن کیا ہماری فوج، ہمارے حکمران اور علماء ومفتیان اپنی خواتین کی عزتوں کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کرسکتے ؟

محمود شوکت اور فرحت کو ساڑھے چار سال کے بعدشک کی بنیاد پر حلالے کا فتویٰ دیا گیا، اس دوران اولاد بھی پیدا ہوئی ہوگی۔ سوال میں بیگم کا نام نہیں لیکن جواب میں ہے،دیدار بھی کیا ہوگا۔ اگر قرآنی آیات سے اُمت کو دور نہ رکھا جاتا تو سورہ ٔ طلاق کی پہلی آیت بھی رہنمائی کیلئے کافی تھی۔علماء میں یہ صلاحیت بھی نہیںکہ اس کا ترجمہ کرسکیں۔ اللہ نے فرمایا” جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت تک کیلئے طلاق دو”۔ طلاق کوئی ٹوپی اور دوپٹہ نہیں کہ مخصوص وقت کیلئے دی جائے۔ علماء کے نزدیک عورت کی عدت تین حیض ہیں۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ عورت کو حیض کیلئے طلاق دی جائے۔ حیض میں تو ویسے بھی مقاربت نہیں۔ عورت کی طہارت کے دنوں کو علماء نے عدت الرجال یعنی مردوں کی عدت قرار دیا ۔ جس میں مرد طلاق دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے عورتوں کی عدت کیلئے طلاق دینے کی وضاحت کردی تو علماء کے پاس اس کا جواب تک نہیں۔
بیوی کوچھوڑ نا طلاق ہے اللہ نے فرمایا: ” جب تم عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو عدت تک کیلئے ان کو چھوڑ و”۔ پھر فرمایا: ” ان کوانکے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کریں”۔ وجہ یہ بتائی کہ ” ہوسکتا ہے کہ اللہ نئی صورت پیدا کردے”۔ یعنی عدت میں دونوں آپس میں اکٹھے رہنے پر راضی ہوجائیں۔ اگر ہم مان لیں کہ اللہ نے حکم دیا کہ”عدت کیلئے طلاق دو” سے مراد یہ ہے کہ” پہلے طہر میں پہلی طلاق ، دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق”۔ تو پھر اگر ایسا کربھی لیا تو اللہ نے اگلی آیت2سورہ ٔ طلاق میں فرمایا: ”جب وہ عورتیں اپنی عدت پوری کرچکیں تو معروف طریقے سے ان کو روک لو یا معروف طریقے سے الگ کردو۔ اور اس پر اپنے میں سے دو عادل گواہ بھی بنالو۔ اللہ کیلئے گواہی قائم کیا کرو۔ اور جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے پھر بھی (اس مشکل ) صورت سے نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔ (آیت2سورۂ طلاق )
آیات میں یہ بالکل واضح ہے کہ اگر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع نہیں کیا اور پھر عدت کی تکمیل کے بعد آپس کی رضامندی سے رجوع کرلیا تو بھی ٹھیک ہے اور اگر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تواس پر دو عادل گواہ مقرر کریں ، تاکہ طلاق کی صورت میں عورت کو مالی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ پھر بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی اللہ کا خوف رکھے گا تو اللہ اس کیلئے اس مشکل سے نکلنے کا راستہ نکال دے گا۔
رکانہ کے والد نے رکانہ کی ماں کو تین طلاقیں دیں، دوسری عورت سے شادی کی،اس نے اسکے نامرد ہونے کاکہا تو نبی ۖ نے فرمایا کہ اسکے بچے اسکے مشابہ ہیںاور اس کو چھوڑنے کا حکم دیا اور فرمایا : ام رکانہ سے رجوع کرلو؟ ۔ عرض کیاگیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : مجھے علم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف) رکانہکے والد نے سورہ ٔ طلاق کے مطابق مرحلہ وار تین طلاق دی تھیں۔ آخر میں دو عادل گواہ بناکر عورت کے حقوق کی پاسداری کی تھی اسلئے اللہ نے راستہ بنادیا۔
مفتی محمد شفیع جیسے لوگ مدرسہ کے وقف مال میں اپنے بیٹوں کیلئے ناجائز مکانات خریدتے ہیں تو جب وہ تین طلاق اپنی بیگمات کو دیتے ہیں تو فقہ کی کتابوں سے حلالہ کی تجویز کے بغیر چارۂ کار نہیں پاتے ہیں۔وہ اپنے معتقدین کے ساتھ بھی حلالہ کی لعنت کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کیلئے تمام شبہات اور دلائل کو مسترد کرتے ہوئے حلال قرار دے دیا لیکن لوگوں کی عصمت کو بچانے کیلئے کھلی آیات نہیں دیکھتا۔
جب محمود شوکت اور فرحت نے صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کرلیا تویہ درست تھا۔ سورۂ طلاق کے علاوہ سورۂ بقرہ آیت228میں بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ” اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کے زیادہ حقدار ہیں”۔
اس آیت میں ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے غلط مذہب اور جہالت سے بھی امت مسلمہ کی اللہ نے جان چھڑائی ہے اور طلاق رجعی کے غلط تصور سے بھی جان چھڑائی ہے اسلئے کہ رجوع کو عدت میں صلح کیساتھ مشروط کردیا۔ صلح کیساتھ عدت میں اکٹھی تین طلاق ہو یا پھر مرحلہ وار تین طلاق ہو رجوع کا حکم واضح کردیا ہے۔ علماء بنی اسرائیل کی طرح ہمارے علماء ومشائخ نے بھی گدھوں کا کردار ادا کرنا تھا۔ اسلئے کہ صحیح حدیث میں اس کی وضاحت ہے اور ان گدھوں سے امت کو بچانے کیلئے رجوع کا مسئلہ واضح کیا۔
سورہ بقرہ آیت229میں مزید واضح کردیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے ۔پھر معروف طریقے سے روکناہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ جس طرح تین دن میں تین روزوں کا تصور واضح ہے کہ دن کو روزہ رکھا جاتا ہے اور درمیان میںرات کا وقفہ آتا ہے۔ اسی طرح آیت228البقرہ میں عدت کے تین مراحل کو واضح کیا ہے اور آیت229میں مرحلہ وار تین طلاق کا ذکر ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہی تیسری طلاق ہے جس کا ذکر229البقرہ میں ہے۔ پھر آیت229کے آخر میں اس صورت کا ذکر ہے کہ جب عدت بھی پوری ہوجائے، عورت کو اس کے مالی حقوق بھی دئیے جائیں اور دونوں اور صلح کرانے والے فیصلہ کرلیں کہ آئندہ ان دونوں میں رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ چھوڑا جائے۔ اسی صورت کے بعد آیت230البقرہ کا معاملہ ہے۔ لیکن اگر عدت کی تکمیل کے بعد بھی صلح کرنا چاہتے ہوں تو آیات231اور232البقرہ میں پھر بھی عدت کے فوراً بعد رجوع اور کافی عرصہ بعد بھی آپس کے نکاح سے نہ روکنے کے احکام واضح ہیں۔
احادیث صحیحہ، صحابہ کے فتوے اور فیصلے قرآن کے عین مطابق تھے۔ صلح کی شرط پر رجوع کا انکار نہیں کیا جاسکتاتھا۔ فقہاء اس فضول بحث میں لگ گئے کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوتی ہیں؟، بدعت ہے؟ یا سنت؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟

طلاق کی تعداد میں شک ہو تو کیا حکم ہے؟۔حلالہ کی لعنت پر زور کیلئے کیسے حدیں پار کردیں؟

سوال:قریباً ساڑھے4سال میں (محمود شوکت ) میری بیوی اور بیٹی عمر6ماہ کے ہمراہ اپنے سسرال میں قیام پذیر تھا۔ میرا اپنا گھر پنجاب میں ہے، یہاں کراچی میں رہنے کی وجہ سے مجھے گیس ٹربل کی تکلیف تھی ۔ایک روز شدید تکلیف کا دورہ ہوا ، چھوٹی سالی سے تکرار کر بیٹھا، اس کی باتوں کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے بیوی سے الجھا، اس سے پیشتر بیوی سے تعلقات اچھے تھے، کوئی جھگڑا نہ تھا، لیکن اس وقت شدید غصے میں اور مرض کی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہوئے نادانی میں تحریراً طلاق لکھ دی، یہ عمل صرف سسرال پر دباؤ ڈالنے کیلئے تھا، اسلئے مجھے طلاق کی تعداد کا کامل یقین نہیں کہ کتنی دفعہ دی ۔ دوسرے روز اپنی حرکت پر اس قدر پریشان ہوا اور اپنے سسر سے اپنی پشیمانی کا ذکر کیا،بیوی سے معافی مانگی، اس کو اپنے ہمراہ پنجاب چلنے پر آمادہ کیا ، میرے بار بار اصرار پر میری بیوی نے مجھے معاف کردیا، چونکہ اپنی بیوی سے تعلقات ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھا اسلئے بیوی و بیٹی کو لیکر اپنے بھائی کے گھر چلا گیا اور لیٹر بھی (طلاق نامہ) پھاڑ دیا، اس واقعے کے چوتھے روز میں خود مفتی محمد شفیع مرحوم کی قیام گاہ پہنچا ،انہوں نے تعداد کے یقین کے بارے میں پوچھا لیکن میں خود بھی تعداد کے بارے میں یقین نہیں رکھتا تھا اور اسی دن اپنی بیوی اور بچی کو لیکر پنجاب چلا گیا۔
آج واقعے کو گزرے تقریباً ساڑھے4سا ل گزر چکے لیکن سسر صاحب مطمئن نہیں ہوئے، انہوں نے مجھ سے اور اپنی بیٹی سے تعلقات منقطع کرلئے۔ یہ حالات ہمارے خاندان کی رسوائی کا موجب ہیں، ہمارے حالات اور میری نیت کو دیکھتے ہوئے شرعی فیصلہ دیں تاکہ ہم آئندہ زندگی سکون سے گزار سکیں ۔ نہ ہی میری بیوی کو تعداد کا یقین ہے کہ کتنی مرتبہ لکھی ہیں ، دو دفعہ یا تین دفعہ ۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں محمود شوکت اور فرحت دونوں کو پوری احتیاط اور غور وفکر کیساتھ یاد کرنا چاہیے کہ کتنی بار طلاقیں لکھی تھیں؟ جو دوسرے لوگ موجود تھے یا انہوں نے تحریر پڑھی تھی تو ان سے بھی تحقیق کرنی چاہیے، اگر خود یاد آجائے یا پڑھنے والے کے بیان سے گمان غالب ہو کہ تین طلاقیں دی تھیں تو فرحت شوہر پر حرام ہوگئی ، تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور حلالہ کے بغیر دونوں کے درمیان دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا، دونوں پر فرض ہے کہ فوراً ایکدوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں اور جتنا عرصہ طلاق کے بعد ساتھ گزرا ،اس پر توبہ واستغفار کریں، لیکن اگر غور وفکر اور تحقیق کے بعدیاد نہ آئے کہ کتنی طلاقیں لکھی تھیں اور نہ کسی طرف گمان غالب ہو تو صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ محمود شوکت کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں اور چونکہ محمود شوکت نے عملاًاس سے رجوع کرلیا ۔ اسلئے فرحت بدستور اسکی بیوی ہے ، البتہ اب محمود شوکت کو صرف1طلاق کا اختیار باقی ہے۔ یعنی اب وہ اگر ایک طلاق بھی دے گاخواہ غصہ میں دے یا مذاق میں دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔
مذکورہ صورت میں اگرچہ محمود شوکت کو اپنی بیوی کو رکھنے کا اختیار ہے لیکن چونکہ حلال وحرام کامعاملہ نازک ہے اور اس کو تردد پیدا ہوگیا ہے اور بعض فقہاء ایسی صورت میں بھی تین طلاقوں کے وقوع کا فتویٰ دیتے ہیں۔لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ وہ بہر صورت بیوی سے علیحدگی اختیار کرلے اور اس کی عدت گزار کر بیوی کسی اور جگہ نکاح کرلے، پھر اگر کسی وجہ سے شوہر خود طلاق دیدے تو اس کی عدت کے بعد محمود شوکت بھی اس سے نکاح کرسکے گا۔
والدلیل علی کل ذٰلک ما یأتی1:قال اللہ تعالیٰ ” فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ”۔ (سورة البقرہ آےة٢٣٠)2:عن علی قال : سمع النبی ۖ رجلًا طلق البتة فغضب وقال : تتخذون اٰیات اللہ ھزوًا أو لعبًا من طلقھا البتة الزمانہ ثلاثًا فلاتحل لہ حتی تنکح زوجًا غیرہ ….وفی حدیث ابن عمر قال : قلت یا رسول اللہ ! ارأیت لو طلتھا ثلاثًا ، قال : اذًا عصیت ربک وبانت منک امرأتک (المغنی لابن قدامة ج ٧ ص ١٠٣) وقد اخرج البیھقی قصة طلاق حسن بن علی امرأتہ ثلاثا وفی حدیث مرفوع الی النبی ۖ3:قال ابن نجیم: شک انہ طلق واحدة أو اکثربنی علی الاقل کما ذکرہ الاستیجابی الا ان یستیقن بالاکثر او یکون اکبر ظنہ علی خلافہ وان قال الزوج عزمت علی انہ ثلاثًا یترکھا…….
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مفتی کو علم غیب نہیں ہوتا، اسکے سامنے جیسا سوال کیا جا ئے گا وہ اس کے مطابق جواب دے گا، سوال کی صحت کی ذمہ داری سائل پر ہے اور چونکہ معاملہ حلال وحرام کا ہے اور ہر شخص کو آخرت میں اپنی جوابدہی کرنی ہے لہٰذا بہت احتیاط اور غور وفکر کے ساتھ یہ متعین کیا جائے کہ کتنی طلاقیں دی تھیں؟ اگر ذرا بھی گمان غالب تین طلاقوں کا ہو تو دونوں کا ساتھ رہنا جائز نہیں ہے ۔ واللہ سبحانہ اعلم (فتاویٰ عثمانی جلد دوم صفحہ346تا248)
کہاں قرآن کی واضح آیات میں بار بار بلا شبہ رجوع کی اجازت اور کہاں اس طرح گھیر گھار کر اس غریب کی بیگم کو حلالہ کا شکار بنانا؟۔ پہلے لکھا کہ دو طلاق ہوئی ہیں اب ایک باقی ہے اور سمجھایا یہی ہوگا کہ جب حلالہ کرو گے تو نئے سرے سے تین طلاق کے مالک بن جاؤ گے اور پھر صبر نہیں آیا شک پر تین کا فتویٰ دیا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!

عجمیوں کے درمیان نسب میں کفاء ت کا اعتبار نہیں:مفتی تقی عثمانی و مفتی شفیع کی جہالت!

سوال:۔ ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیااور اسے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا، لڑکی کے والدین اس پر ناراض ہیں، کیونکہ لڑکی آرائیں قوم سے ہے اور لڑکے کا تعلق شیخ قوم سے ہے۔ (شیخ سے مراد کھوجہ قوم ہے) اور دونوں قوموں کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز سمجھے جاتے ہیں اور شیخ ذلیل، تو کیا اس صورت میں نکاح ہوسکتا ہے؟۔
جواب :۔ آرائیں اور کھوجہ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت میں نسل کا اعتبار نہیں ہے اور مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا ہے اسلئے نکاح شرعاً منعقد ہوگیا، اب اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار نکاح ختم کرنا چاہتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں ۔ قال فی الدر المختار واما فی العجم فتعتبر حرےة واسلاما (شامی ج ٢، ص ٣١٩) واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بند ہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ ٢٨٠
درج بالا سوال میں واضح ہے کہ لڑکی کو اغواء کیا گیا اور ڈرا دھمکا کر نکاح پر مجبور کیا گیا۔ جواب میں بک دیا گیا کہ آرائیں اور شیخ عجمی نسلیں ہیں اور ان میں کفاء ت کا اعتبار نہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لڑکی عربی نسل عثمانی ہوتی تو والداور اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوا۔ مولانا عبداللہ درخواستی کی قوم آرائیں ہے۔درخواستی حضرات کواسلام اور حق کیلئے کھڑے ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ تقی عثمانی اسکے بالکل برعکس ایک اور طرح کا رباب بجاتا ہے۔
تنقیح:1:احمد کی لڑکی نے جس مرد سے نکاح کیاہے، وہ قومی اور خاندانی اعتبارسے احمدکا کفو ہے یا نہیں؟۔ یعنی دونوں خاندان میں اتنا فرق ہے کہ ایک خاندان دوسرے خاندان میں شادی بیاہ کو عرفاً عار اور عجیب سمجھتا ہو؟۔ یا اتنا فرق نہیں ہے اور دونوں خاندانوں میں بغیر کسی عار کے شادی بیاہ ہوتے ہیں۔
( اس میں سائل نے کچھ معاوضہ دیا ہوگا اسلئے عرف کا اعتبار کرلیا، دوسرے فتوے میں شیخ کھوجہ نے کچھ دیا ہوگا اسلئے معاملہ اسکے برعکس لکھا ۔عتیق گیلانی)
2:کیا دینداری کے اعتبار سے احمد کے گھرانے اور اس مرد کے گھرانے میں کوئی فرق ہے؟۔ ان دو سوالوں کا جواب لکھ کر بھیجئے ۔ محمد تقی عثمانی
جواب تنقیح: وہ مرد اور اس کے گھرانے میں اتنا فرق دینداری کے اعتبار سے ہے کہ احمد اور احمد کے گھرانے موحد ہیںاور جس مرد سے احمد کی لڑکی کا نکاح کیا گیا وہ مرداور اس کے گھرانے بدعتی ہیں، اور ان میں مشرکانہ صفتیں بھی ہیں۔ چند صفتیں یہ ہیں : حضور ۖ کو حاضر وناظر سمجھتاہے، مشکلات میں پیر کو پکارتا ہے، مرنے کے بعد عہدنامہ قبر میں دفن کرتا ہے ، نماز جنازہ پڑھ کر دائرہ بناکر اسقاط کرتا ہے، احمد ان باتوں کے خلاف ہے۔
جواب:۔ صورت مسئولہ میں احمد کی لڑکی کا نکاح جس شخص سے کیا گیا وہ احمد کا کفو نہیں ہے، فانھم قالوا لایکون الفاسق کفو لبت الصالحین (شامی ج ٢،ص ٣٢٠ باب الاکفائ)اور فسق اعتقادی فسق عملی سے اشد ہے ۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں احمد کی رضامندی کے بغیر جو نکاح کیا گیا ہے وہ باطل ہے۔ احمد کی بیٹی کو چاہیے کہ وہ فوراً اس شخص سے الگ ہوجائے۔ ولہ اذاکان عصبة الاعتراض فی غیر الکفو ما لم تلد منہ ….. شامی ج ٢ ص ٢٩٧)
جب حاجی عثمان کے معتقد کے بارے میں پہلا فتویٰ مفتی عبدالرحیم نے دیا تھا تو یہی حوالہ تھا۔جس میں ایک تو لڑکی کا باپ نکاح پر راضی تھا اسلئے کفو کا مسئلہ نہیں تھا ، دوسرا یہ کہ لڑکی والے زیادہ صالحین تھے۔ شامی میںبچے کی پیدائش سے پہلے کا ذکر ہے ، جس میں اولاد لزنا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ کہ ایک طرف عرفاً کفو کا اعتبار ہے اور دوسری طرف عجم نسل میں کفو کا انکار ہے؟۔ کیا فسق اعتقادی میں کفوء کا مسئلہ اسلئے ہے کہ اگر ولی راضی ہو تو پھر نکاح جائز ہے؟۔یہ قادیانیوں کو رشتہ دینے کیلئے راستہ ہموار کیا گیا ہے یا کچھ اور ہے؟۔
حضرت عائشہ کے بارے میں کتابیں ہیں کہ ان کی عمر نکاح کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت19سال تھی او ر جو9سال کا کہتے ہیںتو وہ ان کی اس عمر میں بلوغت کو ثابت کرتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کا ایک اورفتویٰ دیکھ لیں۔
سوال :۔ زید بعمر5سال کا، سعیدہ بعمر2سال سے نکاح ہوا۔ بالغ ہونے پر سعیدہ نے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، زید نے نوٹس کے ذریعے سعیدہ کی رخصتی کا مطالبہ کیا، تو سعیدہ نے نوٹس کے جواب میں زید کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیااور عدالت عالیہ سے درخواست کی کہ اسکے اس حق کو تسلیم کیا جائے اور نکاح کو منسوخ قرار دیا جائے، سات سال کی مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے اس حق کو تسلیم کرلیا اور اس بات کی تصدیق کردی کہ نکاح منسوخ ہوگیا ہے ، اس کیخلاف اپیل کی جو مسترد ہوگئی ، اب فرمائیں نکاح شرعاً منسوخ ہوگیا یا نہیں؟۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر سعیدہ کا نکاح خود اسکے باپ نے کیا تھا تو اب بالغ ہونے کے بعد سعیدہ کو اسکے فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ،تاوقت یہ کہ وہ سوئے اختیار کو ثابت نہ کرے اور اگر سعیدہ کا نکاح کرنے والا خوداس کا باپ نہیں تھا، خواہ باپ کا وکیل ہی کیوں نہ ہو تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے۔ اس صورت میں عدالت کا منسلکہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہوگا۔ ولزم النکاح ولوبغبن فاش…. اوبغیر کفوء ان کان والولی ………واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ الجواب صحیح بندہ محمد شفیع عفااللہ عنہ
سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا تھا کہ ”یہ قوالی سن کر مسلمان ہوئے ہیں ،اسلام میں حلالہ نہیں ”۔ مفتی تقی عثمانی کی شکل اور دانت بھی قوال کی طرح ہیں۔سودی نظام کو جواز دینے تک بتدریج پہنچا ہے۔ پہلے فتوے بیچتا تھا، پھر زکوٰة کا فتویٰ بیچ دیا اور پھر الائنس موٹرز کیلئے فتویٰ فروشی کا منصب سنبھال لیا۔ علم پر دنیا کو ترجیح دی تو بعلم بن باعوراء کودرجہ بہ درجہ استدراج کے ذریعے کتے کے درجہ تک پہنچادیا۔
یہ مولانا اشرف علی تھانوی کانام بدنام کرتے ہیں۔صفحہ ہٰذا کے نچلے نصف پر انتہائی گھناؤنے اٹکل پچو کا فتویٰ دیکھ لیں جس میں مولانا اشرف علی تھانوی کا فتویٰ بھی چھوڑ دیا ہے۔ حکومت وریاست کو چاہیے کہ مدرسہ ان لوگوں سے چھین کر اچھے علماء حق کے سپرد کردیں۔ یہ اب بینکوں کے موروثی ملازم اورغلام ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز

3 طلاق اور اس سے رجوع پر فقہی اختلافات اور احادیث صحیحہ گدھوں کو سمجھانے کا نیا انداز

اگرقرآن وسنت میں واضح ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے پھراحادیث ، حضرت عمر اور ائمہ مجتہدین کے ہاں اکٹھی3طلاق واقع ہونے کا کیا مطلب ہے؟

اہل تشیع اور اہلحدیث حضرت عمر کے فیصلے کو کیوں نہیں مانتے؟۔ ٹھیک کرتے ہیں یا غلط ؟۔ حنفی ومالکی کے ہاں اکٹھی تین طلاق بدعت و گناہ اور شافعی کے نزدیک سنت ومباح کیوں ہے؟

اللہ نے فرمایا:” طلاق والی عورتیں3مراحل تک انتظار کریں اور انکے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔البقرہ:228
اللہ نے فرمایا:” طلاق دو مرتبہ ہے ۔ پھر معروف طریقہ سے رجوع کرنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ نا ہے”۔ البقرہ:آیت:229۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ” قرآن میں تیسری طلاق احسان کیساتھ چھوڑنااسی آیت میں ہے”۔ جس کو مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح بخاری میں بھی نقل کیا ہے۔ جب قرآن وسنت سے یہ ثابت ہے کہ تین طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے تو پھر اختلاف کیا ہے؟۔جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو رسول اللہ ۖکو حضرت عمر نے اس کی خبردی۔ رسول اللہ ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے۔اور عبداللہ سے فرمایا کہ اس عورت کو اپنے پاس پاکی کے دنوں میں رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے اور پاکی کے دنوں میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے ایام میں طلاق دینا چاہتے ہو تو اس کو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دواور یہی وہ عدت ہے کہ جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا حکم دیا ۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق) یہ حدیث بخاری کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
قرآن وسنت میں یہ بالکل واضح ہے کہ تین مرتبہ طلاق ایک عدت کا عمل ہے جس کے تین مراحل ہیں اور اس سے آگے پیچھے معاملہ نہیں ہوسکتا ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے حنفی ، شافعی، مالکی اور حنبلی فقہاء کیلئے اکٹھی 3 طلاق کی بدعت یا سنت کیسے اس اُمت میں جاری کردی ہے؟۔
ہماری سب سے بڑی بنیادی غلطی یہ ہے کہ حفظ مراتب کا خیال رکھے بغیر حضرت عمر کے اس فیصلے کو قرآن پر پیش کرنے کی جگہ احادیث میںڈھونڈتے ہیں۔ جب احادیث میں ڈھونڈتے ہیں تو پھر حنفی ومالکی اس کو بدعت وگناہ قرار دیتے ہیں۔ شافعی اس کو سنت ومباح قرار دیتے ہیں اور حنبلی کا قول مختلف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ سنت ومباح ہے اور دوسرا یہ ہے کہ بدعت وگناہ ہے۔
جس بات پر فقہاء آپس میں متفق نہ ہوسکتے ہوں تو اس بات پر امت مسلمہ کو کیسے متفق کیا جاسکتا ہے؟۔اگر پہلے قرآن کی طرف رجوع کرتے اور پھر اس کا حل احادیث میں تلاش کرتے تو اختلافات کا بالکل خاتمہ ہوسکتا تھا۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کافی عرصہ درسِ نظامی کا نصاب پڑھایا اور جب مالٹا میں سوچ وبچارکا موقع مل گیا تو امت کے زوال کے دو اسباب کی وضاحت کردی ۔ایک قرآن سے دوری اور دوسرا فرقہ واریت ۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے آخری دور میں فرمایا کہ مسلکوں کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی۔ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔
میں نے اپنی جوانی اور صلاحیتیں الحمد للہ بہت زیادہ تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ قرآن وسنت اور دینی تعلیم میں خرچ کی ہیں اور فرقہ واریت کو ختم کرنے میں اپنا زبردست کردار ادا کیا ہے۔ میرا ماحول اور اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت دیوبندی مکتب والی تھی ، ہے اور رہے گی لیکن فرقہ بندی اور مسلک پرستی کو کبھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کا تعلق بھی تبلیغی جماعت اور دیوبندی مکتبہ فکر سے تھا لیکن اتحاد امت کے بہت بڑے علمبردار تھے۔
میرے اساتذہ کرام جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی،جامعہ یوسفیہ شاہو ہنگو کوہاٹ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی، دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپFBایریا کراچی،انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی، جامعہ فاروق اعظم بفر زون اور توحید آباد صادق آباد رحیم یار خان پنجاب نے میری زبردست رہنمائی وحوصلہ افزائی کی ہے۔ اللہ نے ذہن اور صلاحیت دی ہے تو اس کو بروئے کا ر لایا ہے۔
جب حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر میاں بیوی کے درمیان جدائی کا فیصلہ دیا تھا تو اس کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اہل حدیث نے یہ فیصلہ اسلئے مسترد کردیا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا: رسول اللہ ۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی تین سال تک اکٹھی تین طلاق کو ایک شمار کیا جاتا تھا پھر حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق کو نافذ کردیا ۔( صحیح مسلم)
اہلحدیث سمجھتے ہیں کہ جب رسول اللہ ۖ اور بعد کے ادوار میں اکٹھی تین کو ایک طلاق شمار کرتے تھے تو حضرت عمر نے یہ فیصلہ اجتہادی اور غلط کیا تھا۔
حالانکہ ذخیرہ احادیث میں ایک ساتھ تین طلاق کا ذکر بھی موجود ہے لیکن اہلحدیث نے ان روایات کو چھوڑ کر تعامل کی سنت کو قابل ترجیح قرار دیا ہے۔
اہل تشیع نے حضرت عمر کے فیصلے کو قرآن وسنت ، فقہ وحکمت کے منافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ طلاق کاواحد طریقہ یہ ہے کہ عدت کے پہلے مرحلہ میں پہلی طلاق مکمل شرعی صیغوں کیساتھ اور اس پر دوعادل گواہ کا مقرر کرنا لازمی ہے۔ اس طرح تین مرحلے میں تین مرتبہ کی طلاق ہے اور بغیر جانے بوجھے اس طرح طلاق کا واقع کرنا شریعت کیساتھ مذاق ہے ۔ اس سے معاشرہ تباہ ہوگا۔
اہل تشیع اپنے اس مسئلے کو اپنی فہم وفراست اور اہل بیت عظام کا بہت بڑا کمال اور دوسرے مذاہب کا بہت بڑا زوال سمجھنے میں حق بجانب بھی ہیں۔ لیکن جب شیعہ اپنے فقہ ومسلک کے مطابق اس طرح سے طلاق دیتے ہیں توپھر صلح و رجوع کا دروازہ بالکل بند سمجھتے ہیں یہاں تک کہ کوئی مستقل نکاح کرلے اور پھر اتفاق سے اس کی طلاق ہوجائے اور پھر پہلے سے دوبارہ نکاح ہوجائے۔
حالانکہ شیعہ کا یہ فقہ قرآن کے مطابق نہیں بلکہ سنی مکاتب فکر کے مقابلے میں ہے۔ قرآن کی سورۂ طلاق میں عدت کے تین مراحل اور اس کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ اور جب اس کو معروف طریقے سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا جائے تو پھر اس پر دو عادل گواہ مقرر کرنے کا حکم ہے اور اسکے بعد بھی سورۂ طلاق میں رجوع کا دروازہ بند نہیں کیا گیاہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے جو فیصلہ کیا تھا وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بالکل قرآن وسنت کے مطابق تھا۔
قرآن کے مطابق اسلئے تھا کہ اللہ نے عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی اجازت دی ہے لیکن صلح واصلاح اور باہمی رضامندی کی شرط پر۔ اگر عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہوتو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ تین طلاق تو بہت بڑی واضح بات ہے بلکہ ایک طلاق کے بعد شوہر کو بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا لیکن یہ فتویٰ نہیں تھا اسلئے کہ حکمران فیصلے کرتا ہے اور مفتی فتویٰ دیتا ہے۔ فیصلہ دو افراد کے درمیان ہوتا ہے۔ جب کوئی تنازع میاں بیوی آپس میں حل کرنے میں ناکام ہوں تو پھر معاملہ وقت کا حکمران حل کرتا ہے۔ جب شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں اور بیوی رجوع پر راضی نہیں تھی تو معاملہ حضرت عمر کے دربار تک پہنچا۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا کہ ” شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے اور فرمایا کہ آئندہ بھی کوئی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس پر یہی فیصلہ جاری کروں گا اور اس کو کوڑے مارنے کی سزا بھی دوں گا”۔ حضرت عمر نے قرآن کی پاسداری کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا۔ اگر صلح نہ کرنے کے باوجود بیوی کو لوٹادیتے تو قرآن وسنت کے بالکل منافی ہوتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق ایک طلاق رجعی ہے اور شوہر کو لوٹانے کا اختیار ہے تو اس سے قرآن وسنت اور فقہ کا کباڑہ کرتے ہیں اور ان کی یہ شریعت انسانی فطرت کے بھی بالکل منافی ہے اور شیعہ واہلحدیث دونوں کا فقہی مسلک اس کی زد میں سراسر غلط ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کے مطابق محض طلاق کے بعد صلح واصلاح کے بغیر یعنی بیوی کی مکمل رضامندی کے بغیررجوع کی اجازت نہیں ہے اور یہ قرآن میں بالکل واضح ہے۔ سورہ البقرہ آیت228میں اس کی بھرپور وضاحت ہے۔
جب قرآن میں یہ واضح ہے کہ الگ الگ تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کا دروازہ اللہ تعالیٰ نے بند نہیں کیا ہے۔ حضرت عمر نے اسلئے تین طلاق کا فیصلہ کیا تھا کہ بیوی صلح کیلئے راضی نہیں تھی تو پھر یہ بات بتادی جائے کہ حضرت محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول ۖ کو خبر دی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں ، جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔ اس حدیث کا پھر کیا جواب اور پس منظربنتا ہے؟۔
یہ وہی حدیث ہے جس کو صحیح بخاری میں ابن عمر کے واقعہ میں نقل کیا گیا ہے لیکن یہاں افراد کے نام مخفی رکھے گئے ہیں اور روایات میں یہ وضاحت بھی ہے کہ جس شخص نے تین طلاق دی تھیں وہ عبداللہ بن عمر تھے اور جس نے پیشکش کی تھی اسکو قتل کرنے کی ،وہ حضرت عمر ہی تھے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں جس سے رجوع کا نبی ۖ نے حکم فرمایا تھا۔ صحیح مسلم کی وہ روایت حضرت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مستند ہے۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ رسول اللہ ۖ ابن عمر پربہت غضبناک ہوئے مگر رجوع کرنے کا حکم بھی دیاتھا اور پھر طلاق اور عدت کو ایک دوسرے کیساتھ لازم وملزوم بھی قرار دیا تھا جس میں ابہام پہلے بھی نہیں تھا لیکن قرآن کی وضاحت کو نبی ۖ نے کم عقلوں کیلئے بھی مزید واضح کردیا تھا۔
اب یہ ابہام ہے کہ پھر مجتہدین اور جمہور کا اجماع اس پر کیسے ہوگیا کہ اکٹھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں؟۔حالانکہ امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہوسکتا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاق کا واقع ہونا الگ بات ہے اور اس کی وجہ سے باہمی اصلاح کے باوجود رجوع کا دروازہ بند کرنا الگ بات ہے۔ جب قرآن نے باہمی اصلاح کی شرط پر اللہ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے تو اس پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے۔ ائمہ اہل بیت کا اصل معاملہ تو اس حد تک تھا کہ اکٹھی تین طلاق واقع نہیں ہوسکتی ہیں تاکہ رجوع کا دروازہ بند نہ ہو اورحلالہ کی لعنت سے امت مسلمہ کو بچایا جائے۔ لیکن بعدکا رنگ پھرشیعہ فقہاء نے خود ہی چڑھادیا ہے۔حنفی فقہاء جب طلاق سنت کی بات کرتے ہیں تو ان کا بھی مؤقف اہل تشیع کے موقف کے عین مطابق ہوتا ہے۔
البتہ احناف بالکل حق بجانب ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا مصلحت اور قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ اسلئے کہ سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے مرحلہ وار عدت میں چھوڑنے یا طلاق دینے کا حکم دیا ہے اور سورہ بقرہ میں بھی الگ الگ مراحل میں تین مرتبہ طلاق واضح ہے اور نبی ۖ نے بھی اس کے برعکس عمل پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ کوئی بلاوجہ اکٹھی تین طلاق دیکر فارغ کرنے کا فیصلہ کرے تو طلاق وعلیحدگی ہوجائے گی لیکن یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔ البتہ فحاشی و لعان کی صورت میں اکٹھی تین طلاق اور فارغ کرنے میں حرج نہیں ہے۔
حضرت عویمر عجلانی کی طرف سے لعان کے بعد اکٹھی تین طلاق دینے کا واقعہ صحیح حدیث میں ہے اور اس کی بنیاد پر امام شافعی کے ہاں اکٹھی تین طلاق کا فیصلہ سنت ومباح ہے۔ احناف کے نزدیک دونوں الگ الگ صورتحال ہیں۔
بڑا سوال یہ ہے کہ نبی ۖ نے رفاعہ القرظی کی بیوی کو ذائقہ چکھ لینے کے بغیر رجوع کیوں نہیں کرنے دیا؟۔جواب یہ ہے کہ وہ کسی اور کی بیگم تھی۔ بخاری کی احادیث میں تفصیلات ہیں کہ رفاعہ نے الگ الگ مراحل میں تین طلاق دیکر فارغ کیا تھا، عدت کی تکمیل کے بعد اس کی دوسرے قرظی سے نکاح ہوا جس نے بہت مارپیٹ کی تھی۔ اس خاتون نے زخموںکے نشان حضرت عائشہ کو دکھائے تھے۔ دوسرے شوہر نے انکار کیا تھا کہ وہ نامرد ہے۔ اگربخاری کی تمام روایات کو نقل کیا جائے تو تین طلاق پر حلالہ کا تصور بھی ختم ہوگا اور اس حدیث سے حلالے کا باطل استدلال بھی کوئی نہیں لے گا۔ ایک نامرد کاکیسے حکم دیا گیا کہ اس کا ذائقہ چکھ لو جیسے پہلے شوہر کا چکھا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ مجھے اور مفتی تقی عثمانی کو اکٹھے بٹھادے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہوجائے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری شرح صحیح البخاری میں لکھ دیا ہے کہ اس حدیث کی وجہ سے احناف حلالے کا حکم نہیں دیتے بلکہ قرآن حتی تنکح یعنی نکاح سے ہم جماع مراد لیتے ہیں۔ صفحہ نمبر2میں قرآنی آیات اور اس آےة کی تفصیل لکھ دی ہے۔ اس طلاق سے مراد تیسری طلاق نہیں کیونکہ تیسری طلاق تو آیت229میں ہے بلکہ یہ وہ طلاق ہے کہ جس سے پہلے نہ صرف مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کا فیصلہ کیا گیا ہو بلکہ آئندہ دونوں کے درمیان دونوں خود بھی رابطے کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑیں اور فیصلہ کرنے والے بھی ،یہاں تک کہ عورت شوہر کی طرف سے دی ہوئی وہ چیز بھی فدیہ کردے جس کا فدیہ کرنے کو عام حالات میں قرآن نے ناجائز قرار دیا ہے۔ جب یہ کنفرم ہو کہ ان دونوں نے صلح نہیں کرنی ہے تو پھرایک غلط رسم عورت کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے کہ اس طلاق کے باوجود بھی شوہر کی طرف سے پابندی کا شکار نہ ہوجائے۔ اللہ نے اس غلط رسم کو توڑنے کیلئے زبردست تدبیر کرکے یہ حکم نازل کیا مگر اس کا غلط مطلب لیا گیا اسلئے کہ سیاق وسباق اور آگے پیچھے کی آیات چھوڑ کر فتویٰ سازی کی گئی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟

اسلام کے جعلی فتوؤں کے نام پر معصوم بچیوں سے نکاح کے نام پر بدترین کھلواڑکب تک؟

عجمیوںکی کوئی نسل ،خاص طور پر برمی بنگالی عورتوں اور بچیوں کو دلالی کے نام سے فروخت کیا جاتا تھا ، جس میں بالغ لڑکیوںاور نابالغ بچیوں کا دلال کے ذریعے نام نہاد نکاح بھی شامل تھا

دارالعلوم کراچی کے ” فتاوی عثمانی جلد دوم ، طبع جدید ستمبر2022 عیسوی” برمی کالونی کورنگی میں باقاعدہ عورتوں کی منڈی لگتی تھی ۔ ڈارک ویب اور جنسی تسکین کا دھندہ فتوؤں کی آڑ میں ہوتا تھا۔

عوام الناس کی زبان میں سادہ الفاظ کے اندر پیچیدہ معاملے کو سمجھنانے کی سخت ضرورت ہے۔پچھلے شمارے میں کچھ حوالہ جات دئیے اور اب مزید تفصیل کیساتھ کچھ دیگر معاملے کو بھی علماء حق اور عوام الناس کے سامنے لاتے ہیں۔
دنیا بھر میں معصوم بچیوں کیساتھ جنسی درندگی کا مکروہ دھندہ ہوتا ہے اور کوئی مہذب قوم ، ملک اور قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ پاکستان میں یہ دھندہ کراچی کے اندر مظلوم برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ جاری رہتا تھا۔ اور اس میں مولوی طبقہ دلال بن کر پیسے بٹورنے میں مصروف رہتا تھا۔
پاکستان میں16اور18سال سے کم عمر بچی کیساتھ نکاح قانوناً منع اور مجرمانہ فعل ہے جس میں پولیس کی مداخلت سے ایسے جرم میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔ ریاستِ پاکستان نے اس پر پابندی لگائی ہے۔ تاہم14اور15سال کی عمر میں بھی بچیاں جوان اور شادی کے قابل ہوتی ہیں، جس پر حکومت کی طرف سے نظر انداز کرنے کی بات سامنے آسکتی ہے۔
اسلام نے چودہ سو سال پہلے جن قوانین کا اجراء کیا تھا وہ معاشرے میں بڑا اچھا کردار ادا کرنے کے قابل تھے ، تب ہی دنیا کی دونوں سپر طاقتیں فارس اور روم خلافت راشدہ کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ عرب زیادہ طاقتور نہیں تھے بلکہ اسلام کے فطری قوانین میں یہ صلاحیت تھی کہ دنیا نے ان کو اپنے لئے بہترین سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی اور یہی وجہ تھی کہ1924عیسوی تک کسی شکل میں خلافت کا نظام قائم تھا۔ اگرچہ بہت ساری خوبیاں دوسروں نے اپنالی تھیں اور خامیاں ہم نے اپنی بنالی تھیں اسلئے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ” یورپ میں مسلمان نہیں ہے لیکن اسلام ہے اور یہاں مسلمان ہیں لیکن اسلام نہیں ہے”۔
آج بھی مسلمانوں سے دنیا میںزیادہ آبادی عیسائیوں کی ہے اور عیسائی مذہب میں اسلام کی آمد کے وقت طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا۔چند سوسال سے بادشاہ نے ایک ترقی پسند فرقہ بناکر طلاق کو جواز بخش دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ عیسائیوں نے معاشرتی مسائل نکاح ، طلاق ، عورت کے حقوق اور شوہر کے حقوق کیلئے جمہوری بنیادوں پر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کرنا شروع کردی اور آج انہوں نے مذہبی طبقات کو عبادت گاہوں تک محدود کردیا ہے۔
اسلام ایک عظیم دین ہے اور قرآن وسنت میں اپنی اصلی حالت میں محفوظ بھی ہے۔ قرآن میں لڑکے کیلئے نکاح کی خاص عمر کا معاملہ بالکل واضح ہے۔ یتیم لڑکوں کو اس وقت ان کا مال سپرد کرنے کا حکم ہے کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ حتی اذا بلغوا النکاح ( یہاں تک کہ وہ نکاح تک پہنچ جائیں)۔
لڑکی کے ساتھ کم عمری میں نکاح بہت بڑی زیادتی ہے۔ دورِ جاہلیت میں بھی بچپن کے اندر اگر کہیں رشتہ پکا کیا جاتا تھا تو رخصتی بلوغت اور نکاح کے عمر تک پہنچنے کے بعد ہی ہوتی تھی اور آج بھی یہ رسم ورواج معاشرے میںکہیں نہ کہیں موجود ہے جس میں دوستوں یا رشتہ داروں کا اچھا تعلق کارفرماہوتا ہے۔
پاکستان کے شہر کراچی اور خاص طور پر کورنگیKایریا وغیرہ میں برمی و بنگالی غریب الوطن افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔ پہلے دارالعلوم کراچی میں بھی غربت کا سماں ہوتا تھا۔ مفتی محمد تقی عثمانی اس کو بھی بڑی سعادت سمجھتا تھا کہ کوئی امیر اس کو اپنے فوت شدہ باپ کے بدلے حج بدل کی مزدوری پر بھیج دے۔ ان لوگوں کا ایک دھندہ غریب لوگوں کو پھانس کر فتویٰ فروشی بھی ہوا کرتا تھا۔
برمی و بنگالی بچیوں و خواتین کو جب دلال دوسری قوموں کے پاس بیچ دیتے تھے تو پاکستان کے قانون کے تحت انسانی سمگلنگ کی اجازت نہیں ہوتی تھی اس کیلئے ان کو شرعی فتوے کی ضرورت ہوتی تھی۔
دارالعلوم کراچی نے یہ فتوی عام دیا تھا کہ
نابالغ بچیوں کا نکاح باپ دادا کرے تو یہ شریعت کے عین مطابق ہے۔
اور اگر نابالغ بچیوں کا نکاح دلال کرے تو بھی شریعت کے مطابق ہے۔
بالغ لڑکی کو اغواء کرکے یا خرید کر اس کو نکاح پر مجبور کرے تو بھی یہ نکاح لڑکی کی اجازت اوررضامندی کہلائے گا اور شریعت میں منعقد ہوجائے گا۔
لڑکی کا خاندان عرف میں کمتر ہو تو پھر اس میں ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کرے، دلال کے ذریعے کرے یا اس کو اغواء اور زبردستی سے نکاح پر مجبور کیا جائے ، یہ سب رضامندی ہے اور شرعاً جائز ہے۔
ملک کے طول وعرض میں کتنی برمی اور بنگالی عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہے؟۔ اس کے اعداد وشمار کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے۔ چھوٹی بچیوں کے سیکس کو کاروبار بنانے والے اور اس کے خریداروں پر پروگرام لوگوں نے ریکارڈ کئے ہیں۔ ڈارک ویب میں بھی ایسی مظلوم خواتین کو مظالم کے لئے استعمال کرنے کے کرتوت کو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ انہیں بے سہاراخواتین کے ذریعے ایسی خوفناک ویڈیوز کا رواج عمل میں آسکتا ہے۔
ٹانک شہر میں ایک برمی یا بنگالی پاگل عورت تھی ، جس کیساتھ کسی نے زیادتی کی تھی اور پھر اس کو حمل ہوا تھا اور جب اس نے بچے کو جن لیا تھا تو کسی نے بچہ اس سے چوری کیا تھا۔ ٹانک شہر پر دہشت گردی کا عذاب بھی اس انسانی المیہ کی وجہ سے آسکتا تھا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کے کچھ فتاویٰ جات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں کو اسلام کے نام پر کس طرح سے انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے ” شرعی نکاح منعقد ہوگیا ” کے فتوے ملوث کئے گئے ہیں؟۔ مفتی محمد شفیع تک کا اسلام یہ تھا کہ ” بیوی بیمار ہوجائے تو اس کا علاج کرنا شوہر کے ذمہ نہیں ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے پھر بھی اس فتوے کو بدلنے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ جب برمی یا بنگالی عورت ٹانک شہر میں پاگل ہوگئی تھی اور اس کا علاج شوہر کے ذمہ نہیں تھا تو اس نے چھوڑ ہی دینا تھا اور جب دلال کے ذریعے عورت خرید لی جاتی ہے تو اس کا والدین کے پاس واپس جانے کا بھی کوئی خاص امکان نہیں ہوتا ہے اسلئے کہ یہ دلال کا دھندہ ہوتا ہے۔ برمی اور بنگالی قوم کو چاہیے کہ ان غلط فتوؤں کے خلاف حکومت کے سامنے پرامن احتجاج کریں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے رونا بالکل بجا ہے اسلئے کہ قوم کی بیٹی ہے لیکن ہماری مسلمان برمی وبنگالی بہنیں، بیٹیاں اورمائیں بھی خنزیرکی اولاد نہیں ہیں کہ ان کیساتھ جو کچھ بھی غیرانسانی سلوک ہو تو اس کو جواز بخشا جائے۔
برمی بنگالی بچیاں اور خواتین تو عرفاً دوسری قوموں کی برابری بھی نہیں رکھتے اور مفتی تقی عثمانی نے عرف کو بھی واضح کردیا ہے لیکن دوسری قوموںکو بھی فکر مند ہونے کی بہت سخت ضرورت ہے اسلئے کہ پختون، بلوچ، سندھی، ہندی، پنجابی اور افغانی سب کے سب عجمیوں کیلئے بھی شیخ الاسلام ومفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی کے فتوؤں میں کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ جب ان پر ظالم وجابر کا تسلط ہوگا اور ان کی بہنوں اور بیٹیوں کو اغیار اٹھاکر لے جائیں۔ ڈرادھماکر ان سے نکاح کرلیں تو پھر شرعی نکاح منعقد ہوگا اوروہ ان کی بیویاں ہوں گی۔ پھر عدالتوں سے بھی انصاف نہیں لے سکیں گے۔
ایک طرف عالمی سودی نظام کو اسلامی قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف اس طرح نابالغ بچیوں اور بالغ لڑکیوں اور عورتوں کے حوالے سے بھی بدترین انداز کی غلامی کا پورا پورا پروگرام موجود ہے۔ مجھے100فیصد معلوم ہے کہ ہمارے بڑے بڑے مدارس کے بڑے بڑے علماء ومفتیان کو بھی ان غلاظت سے بھرپور فتوؤں کا علم نہیں ہے اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائیوں کو تو اس کی بھنک بھی نہیں پڑی ہے۔ جب عالمی دہشت گردوں نے مظالم کے پہاڑ گرائے تھے تو مولانا فضل الرحمن نے ان پر خراسان کے دجال کی حدیث فٹ کردی تھی۔
سوات میں لڑکیوں اور خواتین کیساتھ زبردستی سے نکاح کا معاملہ میڈیا پر سامنے آیا تھا اور انہوں نے مفتی تقی عثمانی کے فتاویٰ سے اپنے لئے جبری نکاح کا معاملہ اخذ کیا ہوگا۔ فتاوی عثمانی جلد دوم کی پہلی اشاعت جولائی2007کو ہوئی تھی۔ سوات میں طالبان کی کاروائیاں2008کے بعد شروع ہوئی تھیں اور فتاوی عثمانی جلد دوم سے جبری نکاح کے شرعی مسائل اخذ کئے ہوں گے۔
سب سے پہلے کسی چیز کے جواز اور عدم جواز پر بحث ہوتی ہے اور پھر اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔2008سے2013تک پانچ اضلاع کی حالت ایسی خراب تھی کہ لوگوں نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو بیچنا شروع کردیا تھا۔ ایک قرارداد خیبر پختونخواہ کی حکومت میں متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی کہ ان پانچ اضلاع سے خواتین اور لڑکیوں کو نکاح کے نام پر بیچنے کا کاروبار بند کیا جائے اور قرار داد جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی کفایت اللہ صاحب رکن صوبائی اسمبلی نے پیش کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ جن لوگوں کے خطرناک دانت ہم نے توڑ دئیے، ہمیں طلب کریں اور ہم صورتحال کو سمجھادیں گے۔ اگر قومی اسمبلی و سینٹ میں غلط فقہی مسائل کے خلاف بل اتفاق رائے سے منظور ہوں گے تو الیکشن میں ملک کی سطح پر جمعیت علماء اسلام و جمعیت علماء پاکستان جیت سکیں گے۔
مذہبی طبقات کو یہ گلہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا اویس نورانی نے اسلام کی تعلیمات چھوڑ کر مسلم لیگ ن کا دوپٹہ پکڑلیا ہے۔لیکن جب ان کو یہ پتہ چل جائے گا کہ خرابی مدارس کے ان فتوؤں میں ہے جن کو پان کی طرح چبایا اور چیونگم کی طرح گھمایا جاتا ہے اور اپنی مرضی سے جس ڈسٹ بن میں ڈالا جائے تو کوئی بات نہیں ہوتی ہے لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔
برصغیر پاک وہند میں عورت اور بچیوں کا تحفظ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور اس میں باطل فتوؤں کی بہتا ت نے معاملے کو مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
افغان طالبان کے ہاں بھی فقہ کے بنیادی مسائل رکھ دئیے جائیں جو حنفی اصولِ فقہ کے منافی معاملات ہیں ان کو بھی سدھاردیا جائے تو اسلام دنیا کی سطح پر سب سے زیادہ محبوب اور قابل قبول دین بھی بن جائیگا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی عمر نکاح کے وقت16سال اور جب رخصتی ہورہی تھی تو19سال تھی۔ جس پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ایک حکیم نیاز احمدفاضل دارالعلوم دیوبند کی کتاب کشف الغمہ عن عمر عائشہ ہے ۔دیگر کتابیں بھی ہیں۔ بہت موٹی موٹی یہ ہیں کہ طبقات ابن سعد اور صحابہ کرام پر تاریخ کی مستند کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت ابوبکر کی ام رومان سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں بعثت نبی ۖ سے پہلے تھے۔ جن میں حضرت عائشہ اور اسماء بنت ابوبکربیٹیاں تھیں۔ حضرت اسماء عمر میں10سال حضرت عائشہ سے بڑی تھیں۔ نبی ۖ نے بعثت کے بعد پہلے5سال دارارقم میں گزارے اور ان میں یہ دونوں بہنیں بھی موجود ہوتی تھیں۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ11نبوی کو حضرت عائشہ سے نکاح ہوا اور اس وقت ان کی عمر6سال تھی تو پھر ماننا پڑے گا کہ بعثت کے5سال بعد حضرت عائشہ پیدا ہوئیں۔ پھر مشرکین مکہ کیساتھ اتنے سخت خراب حالات کے باوجود اس عمر کے بعد ایسے دشمن سے رشتہ کیسے ہوا؟۔ حضرت عائشہ کی بہن16سالہ حضرت اسماء موجود تھیں تو خاتون نے6سالہ بچی کی پیشکش کیسے کی تھی؟۔ البتہ حضرت عائشہ کی عمر16سال اور حضرت اسماء کی عمر26سال ہو تو پھر یہ معقول بات تھی۔اللہ تعالیٰ نے مشرک کے نکاح کی اذیت سے بھی بروقت چھڑادی تھی اور جب رخصتی ہوگئی تو نبی ۖ نے فرمایا کہ ” اللہ نے مجھے خواب میںاس کی تصویر دکھائی تھی،میں نے سوچا کہ اگر خواب شیطان کی طرف سے ہوگا تو پورا نہیں ہوگا اور اللہ کی طرف سے ہوگا تو پورا ہوگا”۔ ( صحیح بخاری)۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا محمدی بیگم کو تنگ کرنا کس قدر بے غیرتی تھی؟۔ جھوٹے نبی اور سچے دجال نے یہ بھی نہیں سوچا کہ شیطان کی طرف سے ہوسکتا ہے اور جعلی وحی کی عربی بھی غلط لکھ ڈالی۔اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زباں سے”۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو وحی پنجابی میں نازل کروانی تھی؟۔ اس نے کہا کہ ” جو میری نبوت پر ایمان نہیں لاتا ہے تو وہ رنڈی کی اولاد ہے”۔ حالانکہ باپ کا کیا قصور تھا؟۔ پھر تو جو بعد میں قادیانی بن گئے تو ان کے آباء واجداد پر بھی رنڈی کی اولاد کا فتویٰ لگے گا۔
مفتی عبدالرحیم اورمفتی تقی عثمانی نے حاجی عثمان کے معتقد کیساتھ نکاح کو عمر بھر کی حرام کاری اور اولاد الزنا قرار دیا۔ اس فتوے کا شکار مفتی منیراحمد اخون مفتی اعظم امریکہ سے لیکر کتنے لوگ بنیں گے؟۔مسجد الٰہیہ کا امام وہ بنے جو مفتی تقی عثمانی اور مفتی عبدالرحیم کے اس فتوے سے برأت کا اعلان کرے ۔ورنہ اس کی ذات کیلئے بھی یہ بہت بڑی بے غیرتی ہے۔؟۔اگرچہ یہ غیرت نہیں رکھتے۔
اسلام کے نام پر بڑا دھبہ یہ ہے کہ بچیوں کا نکاح باپ دادا کے ذریعے اور دلال کے ذریعے معتبر قرار دیا اور بالغ لڑکی کے اغواء اور ڈرادھمکا کر نکاح کو بھی اجازت ورضامندی قرار دیا ۔
نکاح منعقد ہونے کیلئے سب سے بنیادی شرط عورت کی رضامندی ہے ۔ لیکن مفتی تقی عثمانی اور کم عقل فقہاء نے عورت کا یہ حق اس سے چھین لیا ہے۔ نکاح کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے بنیادی شرط بھی عورت کی رضامندی ہے۔ عورت خلع چاہتی ہو تو عورت کو نکاح میں رکھنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ نکاح سے نکلنے کیلئے عدت ہے لیکن کم عقلوں نے عدت کاتصور ختم کردیا ہے۔ قرآن میں پہلی عدت 4ماہ کی ہے جس میں شوہر نے طلاق کا اظہار نہ کیا ہو۔ قرآن گنجلک ،بے بنیاد، غلط فقہی مسائل وتضادات سے نکلنے کا بڑاراستہ ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت اور بچی کے ساتھ اسلام کے نام پر جو مظالم ہیں وہ قرآن اور حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فقہی فتوؤں کی وجہ سے ہیں

عورت اور بچی کے ساتھ اسلام کے نام پر جو مظالم ہیں وہ قرآن اور حدیث کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فقہی فتوؤں کی وجہ سے ہیں

پٹھان، بلوچ، پنجابی ، سندھی، مہاجر ،برمی، بنگالی ہر عجمی نسل لڑکی کا اغواء اور ڈرادھمکاکر نکاح جائز !

علماء حق بالکل بھی فکر نہ کریں ، جس طرح مردہ زمین کو زندگی ملتی ہے اسی طرح اسلام کے آفاقی نظام کی نشاة ثانیہ کے ذریعے سے علماء حق اور مسلمانوں کو نئی زندگی ملے گی

___مفتی تقی عثمانی کی بالکل اچھوت والی غلط شریعت___
” جس لڑکی نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ یہ حدیث صحیح مگر قرآن حتی تنکح زوجاً غیرہ (یہاں تک کہ وہ نکاح کرے ) سے متصادم ہے”۔
حالانکہ صرف طلاق شدہ اور بیوہ کوقرآن نے خود مختار کہاہے۔فقہ حنفی میں قرآن وحدیث میں تطبیق ہو تو دونوں پر عمل ہونا چاہیے۔ حدیث میں کنواری لڑکی مراد ہے اور قرآن میں طلاق شدہ اور بیوہ کا ذکر ہے ۔
ایک طرف بلاوجہ نبی ۖ کی حدیث کو قرآن کے منافی قرار دیکر مسترد کیا ہے اور دوسری طرف اچھوت ذہنیت کے علماء وفقہاء نے خود کو جعلی عربی نسل بناکر اپنے لئے الگ معیار بنایا ہے اور عوام بیچاروں کیلئے انتہائی غیرفطری شریعت بناڈالی ہے۔ اس ظالمانہ فتوے کو دنیا کا کوئی غیرتمند انسان قبول نہیں کرے گا۔
سوال:ایک آدمی نے عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء اور ڈرا دھمکا کر نکاح کرلیا۔ لڑکی آرائیں اور لڑکا شیخ ہے۔ دونوں قوم کی شرافت میں فرق ہے۔ آرائیں معزز اور شیخ کھوجہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں تو نکاح ہوسکتا ہے؟۔
الجواب : آرائیں اور شیخ دونوں عجمی نسلیں ہیں اور عجمیوں کے درمیان کفاء ت کا اعتبار نہیں ۔ مذکورہ نکاح چونکہ عاقلہ بالغہ نے اپنی اجازت ورضامندی سے کیا۔ اگر لڑکی یا اسکے رشتہ دار نکاح کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اسکا واحد راستہ یہی ہے کہ لڑکے سے طلاق حاصل کریں۔ مفتی محمد تقی عثمانی (فتاویٰ عثمانی جلددوم صفحہ280)
اگر عثمانی لڑکی بغیر اجازتِ ولی عجمی نسل سے نکاح کرے تو شرعاً معتبر نہیں ۔کیا یہ بے غیرتی دنیا کو قبول ہے؟۔اگر لڑکا سید، صدیقی ، فاروقی ، عثمانی ہو تو بنت صالحین کاکفوء نہیں۔ صالح ہو تو مسلک وعقیدہ اور عرف میں کفوء نہیں۔ حدیث کا انکار اوراچھوت کا اعتبار؟۔ اچھوت مفتی کے فتوؤں کابڑاپوسٹ مارٹم حاضر ہے۔
٭٭

___انگریز عدالت کا فیصلہ بھی بھونڈے فتویٰ سے اچھا ___
صفحہ نمبر2پر مفتی تقی عثمانی کے ” فتاوی عثمانی” کے فتوے اور تضادات کو واضح کردیا ہے۔ پہلے یہ انفرادی فتویٰ فروشی کے دھندے میں ملوث تھے۔ اب یہ عالمی سودی نظام کے جواز پر معاوضے میں ملوث ہیں۔
یہ واضح تھا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کو اغواء کیا اور اس سے ڈرا دھمکاکر نکاح کرلیا مگر جواب دیا گیاہے کہ لڑکی کا یہ نکاح اپنی اجازت اور رضامندی ہے۔ یعنی اگر زبردستی سے مجبور کیا جائے اور اس کو اغواء کیا گیا ہو تب بھی نکاح منعقد ہوگیا ۔ اب اس سے خلاصی کیلئے کسی عدالت سے مدد نہیں لی جاسکتی ہے اور جب تک لڑکا اپنی مرضی سے طلاق نہیں دے گا تو لڑکی اسکے نکاح میں رہے گی۔ کچے کے ڈاکو اس فتویٰ کا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام اور پاکستان، جماعت اسلامی، تحریک لبیک ، اہل سنت والجماعت (سپاہ صحابہ) و دیگر مذہبی جماعتیں پہلے مل بیٹھ کر اس جعلی شریعت کا علاج کریں جو موجودہ عدالتی نظام سے بھی بہت بدتر ہے۔
عدالت میں کیس جائیگا تواس شریعت کے مقابلے میں کھربوں گنا بہتر ہے اسلئے کہ اگر لڑکی گواہی دے کہ زبردستی سے اغواء اور نکاح کیااور جنسی زیادتی کی تو اس پر اغواء اور جبری جنسی زیادتی کے دفعات لگیں گے۔ دہشت گردی کی دفعہ بھی لگ سکتی ہے اور معاونت کرنے والوں اورسہولت کاروں کو سزامل سکتی ہے۔
قارئین ! مفتی کی اس شریعت سے انگریزی عدالت کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ جمہوری نظام اچھوتوں کی جعلی شریعت سے جان چھڑانے کیلئے ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے کی پٹی ہے۔ پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کو زیردست رکھاہے اسلئے کہ یہ اچھوت کی شریعت ہے جس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ حضرت محمد عربی خاتم الانبیاء ۖ کی شریعت کے خلاف قادیانی اور ان علماء ومفتیان نے سازشیں کی ہیں۔
٭٭

___اصلی اسلامی شریعت کا فیصلہ سب کیلئے قابلِ قبول___
اگر قرآن وسنت کا نظام نافذ ہوگا تو والدین کو اجازت نہ ہوگی کہ بیٹیوں کے نکاح پر فیصلہ مسلط کریں۔ کسی مسلم و غیر مسلم لڑکی کو گھر سے بھاگ کر نکاح کی ضرورت نہ ہو گی ۔ ریاست ذمہ دار ہوگی کہ کسی عورت کو نکاح پر مجبور نہ کیا جائے۔ لڑکیاں والدین کے ناجائز اور غیرفطری روئیے سے گھر بار چھوڑ کر فرار ہوتی ہیں ۔ قرآن نے حکم دیا کہ تمہاری لڑکیاں جب نکاح کرنا چاہتی ہوں تو ان کو بغاوت اور بدکاری پر مجبور مت کرو۔ جبکہ حدیث واضح ہے کہ اگر لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اسلام نے چودہ سوسال پہلے متوازن معاشرتی نظام کی بنیاد رکھ دی جس کا اچھوت علماء نے کباڑہ کرکے رکھ دیا ۔
اسلام میںجبری جنسی زیادتی پر سرِ عام سنگساراور اسکے معاونین کو فساد فی الارض میں سولی پر لٹکانے ، ہاتھ اور پیر کو مخالف جانب کاٹنے اور قید کی سزا قرآن میں ہے۔ گوانتانا موبے میں مظالم کی انتہاکی گئی ہے ۔ اقبال نے ابلیس کی زباں سے لکھ دیا کہ: جانتاہوں میں یہ اُ مت حاملِ قرآں نہیں…ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں…جانتا ہوں کہ مشرق کی اندھیری رات میں… بے یدِ بیضاء ہے پیران حرم کی آستیں… عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف…ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں…الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر…حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں… موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کیلئے …نے کوئی فغفور و خاقاں،نے فقیرِ رہ نشیں…کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک…منعموں کو مال ودولت کا بناتا ہے امیں…اس سے بڑھ کر کیا فکر و عمل کا انقلاب؟… پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں…چشم عالم سے پوشیدہ رہے یہ آئین تو خوب…یہ غنیمت ہے کہ خود مؤمن ہے محرومِ یقیں ( ابلیس کی مجلس شوریٰ )

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv