دسمبر 2016 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

ایم کیوایم کا جن بوتل میں یا سرکٹی لاش بن گئی ہے؟:فیروز چھیپا

مہاجر نے کراچی سے ہمیشہ غریبوں کو اسمبلیوں میں بھیجا ایم کیو ایم پاکستان ، لندن اور PSP چلے کارتوس ہیں

نوشتۂ دیوار کے مہتمم فیروز چھیپا نے کہاہے کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی کیساتھ ایک ایسی فضاء قائم ہوئی ہے جہاں امیدومایوسی کا اظہار ہورہاہے۔ پاکستان کے طول وعرض کو دیکھا جائے تو ایسی قیادت نہیں جو کراچی کو اس فضاء سے نکالنے میں کامیاب دکھائی دے ۔ بکھری ایم کیوایم کے رہنماؤں کو حوصلہ کرنا چاہیے، چلے کارتوس کے خول ہیں، تاہم مہاجر زندہ دل ہیں۔ مہاجرقوم میں بے پناہ صفات ہیں۔ کراچی سے ہمیشہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ قومی و صوبائی اسمبلی میں گئے ہیں۔ جب بھی کوئی قومی سطح کی تحریک چلی ہے ،ہمیشہ کراچی کے زندہ دل لوگوں نے اس میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مصطفی کمال کی پارٹی ہو یا ایم کیوایم پاکستان و ایم کیوایم لندن یہ پارٹیاں بہت پہلے بن کر اپنے منطقی انجام تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔ جب کسی قوم میں نبی کریم ﷺ کی عظیم شخصیت بھی موجود تھی تو اللہ تعالیٰ صحابہ کرامؓ سے مشاورت کے باوجود بھی وحی کے ذریعے سے رہنمائی فرماتا تھا۔ کراچی میں ایم کیوایم لندن کے وہ کارکن جنہوں نے براہِ راست اپنے قائدالطاف حسین کے شب وروز اور معمولاتِ زندگی کو کافی عرصہ سے دیکھا نہیں ہے ان کا جذباتی لگاؤ فطری طور پر بہت زیادہ ہوگا۔ ان کے برعکس جن کا ملنا جلنا رہتا تھا وہ اتنا جذباتی لگاؤ نہیں رکھتے تھے۔ زیادہ تر مہاجروں کی مثال پیرکے مریدوں یا فوجی سپہ سالار کے سپاہیوں کی ہوتی ہے۔ وہ جزا وسزا کے خوف سے زیادہ حکم کی پاسداری کرنا ہی جانتے ہیں اور کسی قوم کیلئے اس وقت یہ بڑی کامیابی کی ضمانت ہے جب اس کی قیادت محفوظ ہاتھوں میں ہو۔جرمن قوم کی قیادت ہٹلر کے ہاتھوں میں تھی اور قوم کا اس پر بے پناہ اعتماد تھا، اکثر اوقات رہنماؤں کے مقابلے میں یہ حقیقت سامنے آتی تھی کہ ہٹلر ہی کی بات ٹھیک ہوتی تھی۔ جب ہٹلر نے آخر میں سب کیساتھ قوم کو لڑایا تب بھی ان کو ہٹلر کی بات کے درست ہونے کا یقین تھا لیکن عظیم قوم جرمن کا بیڑہ غرق ہوا، تو پتہ چلا کہ ہٹلر کا دماغ ہی چل گیا تھا۔ الطاف حسین عظیم انسان ہوسکتے ہیں لیکن پیغمبر تو نہیں ہیں؟۔
کراچی میں الطاف حسین کی قیادت ماننے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور قائد خود بھی اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر ہی ایمان رکھتے ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور مہاجرقوم نے اسلام کی وجہ سے ہی بھارت سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت کا جو معیار قرآن وسنت کے ذریعے دنیا کے سامنے متعارف کرایا ہے ، وہ صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام نہ تھابلکہ اللہ اور اسکے رسولﷺ کی اطاعت اور فرمان برداری کانام اسلام ہے۔ قرآن میں روزہ رکھنے کیلئے طلوع فجر سے رات تک کا واضح حکم ہے ۔ اگر مسلم اُمہ کی فوجی یا مریدی کی تربیت ہوتی تو جہاں سورج چھ ماہ تک غروب نہیں ہوتا،وہاں روزہ رکھنے سے مسلمان مرجاتے لیکن اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ مؤمن وہ ہیں ’’ جو اللہ کی آیات پر بھی بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتے ہیں‘‘۔ یہ بھی سورۂ مجادلہ میں ہے کہ اللہ نے عورت کا نبیﷺ سے جھگڑا سن لیا اور پھر اسی کے حق میں فیصلہ بھی دیدیا ۔غزوہ بدر کے موقع پر فدیہ لینے پر اکثریت کی مشاورت کے باوجود جب نبیﷺ نے فیصلہ کیا تو اللہ نے نامناسب قرار دیا اور حضرت عمر فاروقؓ کے مشورے کی توثیق کردی۔ عمر فاروقؓ نے حدیث قرطاس کے مسئلے میں رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ’’ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘۔ تو مسلمانوں نے قرآنی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں اس اختلاف کو گستاخی سمجھ کر قتل یا بغاوت کا فتویٰ جاری نہیں کیا۔ الطاف حسین نے بار بار قیادت سے دست برداری کے اعلانات کرکے یہ تربیت کردی تھی کہ مائنس ون فارمولے پر عمل ہوجائے تو ایم کیوایم کے رہنما اور کارکن مایوس نہ ہوں۔ ریاست کی یہ پالیسی بہت اچھی ہے کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہی بلاامتیاز کاروائی کا کہہ رہی ہیں۔ ایم کیوایم حقیقی کو پہلے میدان میں اتارا گیا، پھر بیت الحمزہ کو ملیامیٹ کردیا گیا تھا۔ اب ایم کیوایم کے دفاتر مسمار کردئیے گئے لیکن مسئلہ کا حل ریاستی جبر نہیں بلکہ سیاسی قیادت ہے۔
ریاست کی رٹ صرف کراچی نہیں بلکہ سب سے پہلے سوات میں بحال کی گئی تھی۔ پھر جہاں جہاں خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں ریاست کی رٹ نہیں رہی تھی وہ بحال کی گئی۔ کراچی میں بھی ایم کیوایم کے سیکٹر انچارج فیصلے کرتے تھے۔ اگر کراچی کی ایم کیوایم اور طالبان سے عوام بھی بہت خوش ہوتی تو ریاست کو مداخلت کی ضرورت نہ پڑتی۔ گورنر سندھ سعیدالزمان صدیقی نے موجودہ عدالتی سسٹم سے بچنے کیلئے عوام میں اپنا ایک فورم متعارف کرایا تھا جو اپنی مدد آپ کے تحت جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کے فلسفے پر بنایا گیا تھا۔ جب ایم کیوایم کے مقابلہ میں پیپلزامن کمیٹی کا وجود عمل میں لایا گیا، طالبان گروپ بھی کراچی میں بھرپور طریقے سے متحرک تھے، دوسری مذہبی و سیاسی جماعتوں کے حوالہ سے بھی عدالت نے فیصلہ دیدیا تو ریاست کو سب کیخلاف حصہ بقدر جثہ کاروائی کرنی پڑگئی۔ اب بھی ایم کیوایم ختم نہیں ہوئی ہے اور الطاف حسین کی مقبولیت میں بھی کمی نہیں آئی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ہمارے ساتھیوں کو22اگست سے پہلے کہا تھا کہ ’’ جنرل احسان الحق(ر+آئی ایس آئی چیف) کو الطاف بھائی کے پاس بھیجا جائے تو معاملہ ٹھیک ہوجائیگا اور اگرچہ اب اس تجویز پر عمل کرنے سے فائدہ ہوتاہے یا نہیں لیکن الطاف حسین کی قیادت کے بغیر یہ نہ سمجھا جائے کہ ایم کیوایم کا جن بوتل میں بند کیا گیاہے۔ اگر اس سر کٹی لاش نے بھوت بن کر کاروائیاں شروع کردیں تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔الطاف بھائی کو چاہیے کہ اگر ایم کیوایم پاکستان کی موجودہ قیادت پر ہی اپنے اعتماد کا بھرپور اظہار کردیں تو مہاجر قوم مشکل سے نکل سکتی ہے۔ مہاجر قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے اس نظام کی تبدیلی بڑی ضروری ہے جسکی وجہ سے ایم کیوایم بن گئی تھی۔ ایم کیوایم نہیں تو دوسرے کون سے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں؟۔

نشان حیدر، نشان ذی النورین، نشان فاروق اعظم، نشان صدیق اکبر… حنیف عباسی

نوشتۂ دیوار کے نمائندے حنیف عباسی نے اعلیٰ فوجی اعزازات کے حوالہ سے پارلیمنٹ، حکام کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ نشانِ حیدر سے بڑھ کردوسرے سول وملٹری اعزاز بھی قانون کا حصہ بنائے جائیں۔ ملک وقوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ملک ریاض کو نشانِ ذی النورین سے نوازا جائے۔ تاکہ دیگر لوگ بھی اپنا سرمایہ باہر سے اپنے ملک میں لگانے میں دلچسپی اور عزت و اعزاز سے ترغیب پائیں۔ جنرل راحیل نے مشکل ترین ہنگامی صورتحال میں ملک کو کھڈے لائن سے بچایا، اسلئے ان کو 7سٹار نشانِ صدیق اکبر دیا جائے، تاکہ قومی خدمات کے حامل افراد کو سادگی کے نام پر بیوقوف نہ کہا جائے۔اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پرفوج کا استحکام وقت کا تقاضہ ہے، جنرل زبیر ملک کے استحکام کیلئے نشانِ فاروق اعظم کا بنیادی کارنامہ انجام دیں ۔خلفاء راشدینؓ کے نام سے قومی اعزازات ملی یکجہتی کیلئے ضروری ہیں۔جنرل یحیےٰ خان کو بھی بالکل ہنگامی صورتحال کا سامنا تھا، اگر اس وقت قومی اعزازات میں رتبۂ شہادت پر فائز ہوئے بغیر بھی نشانِ ذی النورین، نشانِ فاروق اعظم اور نشانِ صدیق اکبر ہوتے تو سقوطِ ڈھاکہ مشرقی پاکستان بچانے میں جنرل یحیےٰ خان کو اہل تشیع ہونے کے باوجود نشانِ صدیق اکبر پر بڑا فخر ہوتا۔
قومی اعزازات سے فرقہ واریت کو ختم کرنے میں زبردست مدد ملے گی۔ پاک فوج پاکستان کے استحکام کیلئے بنیادی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے، نشانِ حیدر کا تعلق صرف محاذِ جنگ سے ہے۔ پاکستان میں جنگی محاذوں سے زیادہ مارشل لاؤں کے ادوار مسلط رہے ہیں جن سے پاک فوج کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچاہے۔ کرپشن کے حوالہ سے بھی یہ ادارہ دوسرے لوگوں سے مختلف نہیں رہا، جنرل راحیل شریف کی آمد سے قبل یہ زوال کے انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ پاکستان کے دوانگریز آرمی چیف سمیت جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک مقامی جرنیلوں کو عزت و احترام سے نہیں دیکھا جاتا، جنرلوں کی اولاد اور جنرلوں کے پیداوار سیاستدان بھی جرنیلوں کو سرِ عام برا بھلا کہتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے نہ صرف قوم اور بین الاقوامی عزت واحترام کا مقام حاصل کیا بلکہ حکومت اور اپوزیشن سمیت ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں میں بھی بڑی عزت پائی ہے۔ جنرل راحیل شریف کی باوقارشخصیت نے پہلی مرتبہ آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوکر نہ صرف یہ کہ زبردست عزت کمائی بلکہ اس منصب کو بھی جنرل راحیل کی وجہ سے عزت حاصل ہوئی ہے۔
جب آنیوالے وقت میں یہ کہا جائے کہ عزت پیسوں سے ملتی ہے، جنرل راحیل نے کرپشن کی عزت حاصل نہیں، منصب کا فائدہ نہ اٹھایا، مارشل لاء نہیں توسیع ہی لے لیتے تو صداقت ، کردار، شجاعت اور عدالت کے تقاضے پر عمل کرنے والی قوم میں امامت کے صفات کبھی پیدا نہ ہوں گے بلکہ ہمارے اندر پست ذہنیت کی پسماندگی سرائیت کر جائے گی۔ جو قومیں نوسربازوں، کرپٹ اور چالاک وعیار لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں وہ قوم ہمیشہ تنزلی کا شکار رہتی ہے۔ جنرل راحیل نے قومی ترقی کیلئے سادگی سے ہنگامی بنیادوں پر جو کارنامہ انجام دیا ہے ،اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ جنرل زبیر حیات جوائنٹ چیف آف سٹاف کی حیثیت سے ایسے اقدامات اٹھائیں جس سے قوم کے انتظام و انصرام میں حضرت عمر فاروق اعظمؓ کے احساسات پیدا ہوں۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے کمال ایمان سے کرپشن اور بدا نظامی کا راستہ روکنے میں اپنا کردار ادا کیا تو حضرت فاروق اعظمؓ نے بہترین انتظامی اجتماعی عدل وانصاف کا نظام کھڑا کرکے دنیا کی ہیت کو بدل ڈالا تھا۔ شارعِ فیصل کراچی کی ایک طرف فضائیہ اور دوسری طرف نیوی ہے۔ عوام کیلئے وسیع بہترین سڑکوں کی ابتداء کی جائے تو جنرل زبیرحیات اپنے عہدے کو بہت زبردست عزت بخش سکتے ہیں، شارع فیصل کے دونوں اطراف بہترین مارکیٹ، آفس، ہوٹل اور رہائش گاہوں سے فضائیہ اور نیوی کو بھی بڑی آمدن حاصل ہوگی۔ کراچی شہر کا حلیہ بھی بالکل بدل جائیگا۔ جب شہر کچرے سے کچراچی بن جائیگا تو سب کا نقصان ہوگا۔ پاک فوج نے کراچی کے امن کیلئے بہترین اقدامات اٹھائے ہیں لیکن اندرون سندھ، پنجاب اور دوسرے شہروں کا بھی کوئی خاص مزہ نہیں ہے۔ جب پاک فوج بہترین طریقے سے بنیادی اقدامات اٹھائے گی تو دیرپا امن اور خوشحالی مقدر بنے گی۔
قومی اعزاز کیلئے ملک ریاض کا نام بھی اسلئے لیا کہ ان کے ذریعے بیرون ملک مقیم لوگ اپنے سرمایہ باہر سے پاکستان میں لگارہے ہیں۔جب تعمیری سوچ کو اعزاز کیساتھ بڑھایا جائیگا تو بہت کرپٹ لوگ بھی اپنا سرمایہ باہر سے پاکستان لانے میں عزت محسوس کریں گے۔ تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں میں لوگوں کو توبہ کرنے اور اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کا موقع ملتا ہے تو عوام میں تخریب کاری کی بجائے تعمیری سوچ کو پذیرائی حاصل رہتی ہے۔ باعزت روزگارسے ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ایک شخص ملک ریاض ملک کی تعمیر وترقی اور روزگار کی فراہمی میں اتنی بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں تو پاک فوج نے بھی اس میدان میں زبردست پیش قدمی کرنی ہوگی۔ جنرل زبیر حیات اپنے منصب کے لحاظ سے جو خدمات انجام دے سکتے ہیں وہ آرمی چیف کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ آرمی چیف بری فوج کا سربراہ ہوتاہے، نیوی اور فضائیہ کے سربراہوں کی حیثیت اسلئے نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ ان کا عملہ زیادہ نہیں ہوتاہے۔ جنرل زبیر حیات کو قسمت سے آرمی چیف بھی بڑے خاکسار، ملنسار اور بڑوں کیلئے مثالی تواضع وانکسار رکھنے والی شخصیت جنرل قمر جاوید باجوہ ملے ہیں جن کی ہرممکن مدد حاصل رہے گی۔قرضوں سے ملک نہیں چل سکتے۔ پاک فوج اپنی مدد آپ کے تحت بڑے ہی منافع بخش ، حوصلہ افزاء اور تعمیرملت کے بنیادی پروگرام میں بہترین حصہ لے کر دفاع کے بوجھ کو بھی اپنے کاندھوں پر اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فرقہ وارانہ سوچ سے بالاتر پاک فوج کواپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کیساتھ طبقاتی کشمکش کے بجائے تعمیرِ ملت پر بھی اپنی توجہات مرکوز کرنی ہوگی اور مارشل لاء کی طرف جانے کے بجائے اپنی عوام سے مضبوط تعلقات مسائل کے حل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔جنرل راحیل نے ساتھیوں کیساتھ جو بنیاد رکھ دی ہے اس پر تعمیرکی بہت ضرورت ہے ۔

عمران خان نے محرم الحرام میں نکاح کیا یا متعہ؟ ارشاد علی نقوی

عمران خان شیعہ مخالف طبقوں کو محرم کے نکاح پر اپنا ہمنوا بناتا ہوگا اور اہل تشیع سے کہتا ہوگا کہ میں نے متعہ کیا تھا

نوشتۂ دیوار کے ڈیزائنرسیداشاد علی نقوی نے موجودہ دور کے فراڈ سیاسی قیادتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ مفاد پرستوں کے ہاتھوں قوم کے اخلاق، کردار ، اقدار، سیاست اور لیڈر شپ سب کچھ تباہ ہوں تواس کی ذمہ داری کس پر پڑے گی؟۔عمران خان نے نکاح کیا تھا لیکن کس ڈرامہ بازی سے کہہ رہا تھا کہ تبدیلی آئیگی اور میں شادی کروں گا۔
آصف علی زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہاتھا اور پھر اس کی غلط تعبیریں کرتے ہوئے بھی نہ شرمایا، نوازشریف اور شہباز شریف نے جب زرداری کو قومی دولت لوٹنے کا ذمہ دار قرار دیا تو معلوم ہوتا تھا کہ حبیب جالب کی روح ان میں جاگ گئی ہے لیکن پانامہ لیکس سے اپنے پاجامے بھی لتھڑے نظر آئے تو قوم کو پتہ چلا کہ انسان اور سیاستدان دوسروں کے خلاف نہیں بول رہے تھے بلکہ کتے بھونک ، گدھے ڈھینچو، ڈھنچو کررہے تھے۔ عمران خان دونوں کو جس طرح سے منافق، بے غیرت، بے شرم، ملی بھگت اور سازباز کا مرتکب قرار دے رہاتھا تو عوام محسوس کررہی تھی کہ عمران خان سیدھا، باغیرت، شرم و حیاء رکھنے والا، صاف ستھرااور بالکل پاکیزہ کردار رکھنے والا انسان ہے لیکن جب اسکی فائل کھلی ہے تو اس سے بڑا ڈرامہ باز کوئی نہیں لگتاہے۔ ہر چیز کی حد ہے مگر عمران خان نے رسی توڑدی ہے۔ 14اگست 2014ء کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا تاریخی دھرنا شروع ہوا تھا۔ اس دوران محرم الحرام اور عیدالبقر بھی آئے ، 31اکتوبر کو7محرم الحرام کی تاریخ تھی۔ریحام خان کے ساتھ نکاح کی خبر میڈیا میں جنوری کو دی گئی۔ مفتی سعید خان نے نکاح کے بارے میں جنوری میں میڈیا سے کہا کہ ’’ میں عمران خان کے بہاف پر کہہ رہا ہوں کہ ابھی عمران خان کا نکاح ہواہے‘‘۔ جب ریحام خان نے طلاق کے بعد انکشاف کیا کہ 31اکتوبر شادی کی سالگرہ تھی اور تحفہ مانگنے پر مجھے طلاق ملی تھی تو میڈیا نے مفتی سعید خان سے پوچھا کہ شادی کب ہوئی تھی؟۔ 31اکتوبریاپھر جنوری کو؟، مفتی سعیدخان نے کہا کہ ’’ 7محرم کو نکاح ہوا تھا، اس کے مطابق تاریخ دیکھی جائے‘‘۔ پھر میڈیا نے مفتی سعیدخان کے کلپ بھی چلائے۔ مفتی سعید خان کے کہنے میں کہ عمران خان کے بہاف پر کہہ رہا ہوں اور قطری شہزادے کے خط میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ جھوٹ کی بنیاد پراگر کوئی قومی اسمبلی اور سیاسی جماعت کی قیادت کیلئے نااہل ہوسکتاہے تو دونوں کو نااہل کیا جائے۔
دھرنے کے دوران ضرب عضب شروع تھا تو عمران خان ایک طرف امپائر کی انگلی اٹھنے کی دھائی دے رہا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالہ کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ آج میڈیا پر انکشاف ہورہا ہے کہ دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی چیف ظہیر الاسلام کا کردار تھا، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیوٹی وی چینل پر روزسنگباری کی جاتی تھی۔ انصار عباسی نے بھی کہا تھا کہ ’’دھرنے کے پیچھے آرمی چیف نہیں لیکن کچھ لوگ خود کو آرمی چیف سے زیادہ مضبوط سمجھتے ہیں‘‘۔یہ بھی عجیب معاملہ تھا کہ دھرنے میں عمران خان کو چاہنے والی لڑکیاں سرِ عام شادی کی پیشکش کرتی تھیں، روز روز کی گہماگہمی ایک تماشہ ہوتا تھا، جب شادی کرہی لی تھی تو اس کو چھپانے کی ضرورت کیا تھی؟۔ پھر ڈرامہ بازی کی ضرورت کیا تھی کہ ’’تبدیلی آئے گی اور شادی کروں گا‘‘۔ ایسا ڈرامہ تو کسی بھی سیاسی قیادت نے نہیں رچایا ہے۔ دوسروں کو ڈرامہ باز کہنے کی اس قدر جسارت اور خود اتنا بڑا ڈرامہ رچانے میں کوئی مشکل محسوس نہیں ہوئی؟۔ آصف علی زرداری نے سیاسی اداکار کے لقب سے ٹھیک یاد کیا تھا لیکن سیاسی اداکاری تو اب اس کا اپنا بیٹا بھی کررہاہے۔ سیاست ادکاری کی آرٹ ہو تب بھی قوم کے جاہلوں سے کھیلنے میں زیادہ حرج نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک سیاسی اداکارہی تھا جس کی نقل موجودہ سیاسی قیادتیں اتار رہی ہیں۔
اصل مسئلہ قلابازیاں کھانے، غیراخلاقی حرکتیں کرنے اور دوسروں کو ڈھٹائی سے موردالزام ٹھہرانے کیساتھ اپنی ایسی حرکات ہیں جن کی کوئی توجیہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ 7محرم کو نکاح سے طالبان ، لشکر جھنگوی اور داعش کو پیغام دیاگیا کہ عمران سے زیادہ اہل تشیع کا کوئی مخالف نہیں، عام سنی بھی محرم خصوصاً عاشورے میں نکاح اور شادی سے اجتناب کرتے ہیں۔ شادی کی بھی جائے تو اس کو چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جب طالبان کا غلغلہ تھا تو عمران خان انکی بڑی ڈھٹائی سے تائید کرتا تھا، طالبان کا دور نہ رہا تو جلسے میں ’’نعرۂ حیدری :یا علی‘‘کی آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کے بجائے اب یاعلی مدد کے نعرے بھی لگ جائیں تو مسئلہ نہیں لیکن قوم کے سامنے اس بات کی وضاحت تو کم ازکم کی جائے کہ ’’پہلے متعہ تو نہیں کیا تھا؟‘‘۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان کو اس نکاح سے جو پیغام دیا جارہاتھا اس کو اہل تشیع کے سامنے یہ دوسرا رنگ دینے میں بھی حرج محسوس نہیں کرینگے۔ تحریک انصاف علماء ونگ کے سربراہ مفتی عبدالقوی کا ویڈیو پیغام الیکٹرانک ، سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پہنچ چکا تھا۔ایک حرکت سے اس کو نکال دیا گیا تو کیا تحریک انصاف کے سربراہ کیلئے کوئی اخلاقی معیار شرط نہیں ہے؟۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی کے نازیبا تصویروں پر بھی امریکی قوم کو بہت اعتراض ہے لیکن عمران خان کس قسم کی مٹی سے بنایا گیا انسان ہے کہ اپنے لئے کسی اخلاقی معیار کو خاطر میں بھی نہیں لاتا ہے؟۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں میڈیا کو اس شرط پر تو اشتہارات نہیں دیتیں کہ عمران خان کا چہرہ بے نقاب نہ کیا جائے؟۔ سیاسی جماعتوں کی بہادری ملا، طالبان اور فوج سے نہ ڈرنے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں اور قائدین کیخلاف بولنے سے ہیجڑوں کو بھی ڈر نہیں لگتا۔سینٹر مشاہداللہ خان نے سماء ٹی وی چینل پر فیصل قریشی کے پروگرام میں کہاتھا کہ ’’ عمران خان پرائے بچے پال رہا ہے‘‘۔ مبشرلقمان نے دانیال عزیز کو یہودی ماں کا بیٹا کہہ کر اصل یہودی قرار دینے پر چیلنج کررکھاہے۔ قلابازی کھانے والے دانیال عزیز اور عمران خان کے کردار پر یہودبھی شرم کھا رہے ہوں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے اس کردار کی بنیادپر کہا کہ ’’جسے دیکھ کر شرمائے یہود‘‘۔
قوم کو شعور وآگہی دینا صحافتی فریضہ ہے۔ کسی جماعت کی وکالت اورکسی کیخلاف محاذ آرائی کرنا صحافت کے بنیادی فریضے کے منافی ہے۔ قوم کے شعور کو بیدار کرنے کا فرض نبھانا چاہیے۔ سیاسی قائدین قوم کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں اور ان پر تنقید کرنا انکے ذاتیات کا مسئلہ نہیں ۔ قوم کے سامنے خود کو قیادت کیلئے پیش کرنیوالا اپنی معاشرتی زندگی کو ذاتیات نہیں کہہ سکتا،لیڈر کی ذات پبلک پراپرٹی ہوتی ہے۔جج، جرنیل اور جرنلسٹ جانبدار بن جائے تو اس کا منہ ہی کالا ہے۔

آرمی چیف راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہیں، گھکڑ منڈی کے علامہ زاہد الراشدی و دیگر ذرائع سے سوشل میڈیا کی افواہ غلط ثابت ہوئی ہے۔ قرآن کی آیت سچ ثابت ہوئی ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی

انگریز کے جانے کے بعد بھارت اور پاکستان میں فوج ، عدلیہ اور بیورو کریسی کا نظام جوں کا توں ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا لیکن اسلامی نظام تو بہت دور کی بات ہے ہماری مملکت خدا داد میں فلاحی ریاست بھی قائم نہ ہوسکی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آغاخانی ، پہلے دو آرمی چیف انگریز ، پہلا وزیر خارجہ قادیانی اور پہلا وزیر قانون ہندو تھا۔ 1971 ؁ء میں سقوط ڈھاکہ پیش آیا، باقی ماندہ مغربی پاکستان میں ذو الفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا، آخر کار 1973 ؁ء میں پہلی مرتبہ پاکستان کو اسلامی جمہوری آئین ملا۔ پہلے ختم نبوت کی تحریک والوں پر بغاوت کے مقدمات قائم ہوئے ، تحقیقاتِ عدالت پنجاب کے نام سے حکومت نے جو کتاب شائع کی ، اسمیں جسٹس منیر کی سربراہی میں مرزائی اور ان کو تحفظ دینے والوں کو اصل مسلمان اور انکے مخالف فسادی قرار دئیے گئے، جن کو اسلام اور مسلمانوں کی تعریف کا بھی پتہ نہیں تھا۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کا نمازِ جنازہ پڑھایا لیکن وزیرخارجہ سر ظفراللہ نے یہ کہہ کر جنازہ پڑھنے سے انکار کیا کہ ’’ایک کافر کا جنازہ مسلمان نہیں پڑھ سکتا یا پھر ایک کافر مسلمان کا جنازہ نہ پڑھے‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو نے تحریکِ ختم نبوت والوں کی حوصلہ افزائی کی اور پاکستان میں قادیانیوں کو کافر قرار دینے کا قانون بنایا گیا۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر پھیلائی گئی ہے کہ غیرمسلم فوج میں بریگیڈئر کے عہدے سے زیادہ ترقی نہیں کرسکتا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج میں ترقی کیلئے قادیانیت کا مذہب ترک کردیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے سسر جنرل رحیم کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ کٹر قادیانی تھے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا عبد الکریم بیر شریفؒ لاڑکانہ کا اصرار تھا کہ جنرل ضیاء الحق قادیانی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے علماء کی تحریک پر نہ صرف قادیانیت سے برأت کا اعلان کیا تھا بلکہ قادیانیوں پر سخت ترین پابندیاں بھی لگادی تھیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے رشتے ناطے اپنے کزن پارسیوں سے تھے۔ قائد اعظم کو تعلیم بھی انکے والد کے دوست کراچی کی معروف پارسی شخصیت نے ہی لندن میں دلائی تھی۔ پاکستان بنتے وقت بنگلہ دیش اور چاروں صوبوں میں کسی کو بھی اُردو نہیں آتی تھی۔ سر آغا خان نے تجویز دی تھی کہ پاکستان کی قومی زبان عربی ہو، تاکہ قرآن و سنت اور عرب ممالک سے روابط پیدا کرنے میں آسانی ہو۔ ہمارے ارباب اختیار نے اردو کو مسلط کرکے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کو کھودیا۔ 69سال ہوگئے کہ قومی زبان اردو کو سرکاری زبان نہ بناسکے۔ سرتاج عزیز بھارت سے بے آبرو ہوکر نکالا جاتا ہے تو انگریزی میں تقریر کرکے عوام سے نہیں ڈونلڈ ٹرمپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ میڈیا پر اردو میں ترجمہ کرکے لکھا گیا کہ افغان صدر اشرف غنی کا بیان قابل مذمت ہے اس بیان سے اس کی گھبراہٹ واضح ہوتی ہے۔ سرتاج کا دماغ شاید چل گیا ہے ، جب افغانستان اور دنیا کو یہ شکایت ہے کہ پاکستان سے دراندازی ہوتی ہے تو یہ کہنا کہ ’’اشرف غنی کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ گھبراہٹ طاری ہے‘‘ سے وہی مؤقف واضح ہوتا ہے جس کا ہمارے بزرگ وزیر خارجہ نے ازالہ کرنا تھا۔اگر ہم افغان صدر کو ڈرانا چاہتے پھر یہ بیان درست ہوتا۔ ہماری دیرینہ خواہش یہ ہے کہ ہم سے انکا خوف نکل جائے۔
پاکستان کی تاریخ میں اگر رانا بھگوان داس کو ایک عرصے تک مستقل چیف جسٹس بنادیا جاتا تو عدالت کی تاریخ میں سب سے زیادہ انصاف اور قانون کیمطابق فیصلے ہوتے۔ انگریز آرمی چیف کی قیادت میں پاک فوج نے قبائلیوں کی مدد سے سرینگر تک کشمیر کو فتح کرلیا تھا۔ پھر سیاسی قیادت نے اقوام متحدہ کے آسرے پر پاکستانی افواج اور قبائلیوں کو واپس بلالیاپھر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو سکا، پہلے مسلمان آرمی چیف جنرل ایوب خان نے بیوروکریسی کے صدر کو معطل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا اور ذو الفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنادیا۔ بھٹوکو اپنے محکمے اور ملک میں قادیانی کی طاقت کا اندازہ تھا اسلئے مذہبی طبقوں کو قادیانیوں کے خلاف تحریک کی کھلی چھوٹ دے دی۔ پاکستان کی بنیاد ہی مکس ملغوبہ تھا۔ سیکولر لوگوں نے اسلام کے نام پر عوام میں مذہبی منافرت کی بنیاد رکھ دی تھی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ اگر شریعت میں اللہ کے سوا کسی کو سجدے کی اجازت ہوتی تو عورت کو حکم کرتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے‘‘۔ کمزور کو طاقتور سے نہ لڑانے کی یہ بہترین حکمت عملی ہے۔ صحافت و سیاست کے شعبے میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے کہ اگر آرمی چیف کو سجدے کی بھی ملک میں روایت ہوتی تو بہت سارے قطار اندر قطار کھڑے رہتے۔ مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں بھی درباری ملاؤں اور حکومت کے دست و بازو نے سجدہ تعظیمی کا ارتکاب کیا تھا۔ جنرل رحیم کے داماد جنرل ضیاء الحق نے جو احسانات نواز شریف اور اسکے خاندان پر کئے تھے ، احسان کے بدلے میں احسان کے طور پر ہی نہیں بلکہ سُود جیسے بدترین گناہ کے طور پر بھی اگر نواز شریف جنرل قمر باجوہ کو چیف آف آرمی اسٹاف بناتا تو قابل تعریف تھا۔ لیکن اگر اس نے پاک فوج کو کمزور پوزیشن پر لانے کیلئے کسی بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے تو اسکے نتائج بھی خود ہی بھگتے گا۔ بھارت میں سکھ نالاں ہیں اور باغیانہ ذہنیت رکھتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر سکھ ہی آرمی چیف بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں اقلیت سے تعلق رکھنے والے قادیانیوں پر بغاوت کا کوئی الزام نہیں ہے بلکہ پاکستان بنتے وقت قادیانیوں نے بھارت کے قادیان کو چھوڑ کر ربوا چنیوٹ پنجاب کو اپنا مرکز بنایا۔ جب طالبان ، مجاہدین اور پاک فوج کے جوان قبائلی عوام اور پاکستانیوں پر مظالم ڈھاتے تھے تو شریف برادران اور عمران خان وغیرہ کی ہمدردیاں طالبان سے ہوتی تھیں۔ عوام کے سمجھدار لوگوں میں یہ سوچ بھی موجود تھی کہ فوج میں قادیانیوں کا غلبہ ہے اور جان بوجھ کرخاص طور پرپختون اور عام طور پردوسری قومیتوں کے لوگوں کو قادیانی ذہنیت کی خاطر تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ جنرل راحیل شریف سے عوام کی محبت اسلئے بڑھی کہ ملک میں اس فتنے و فساد کا ایک حد تک قلع قمع کردیا گیا ہے۔
حضرت عمر فاروق اعظمؓ نے حضرت علیؓ کی مشاورت سے اپنے دور حکومت میں جو نظام تشکیل دیا اس میں پولیس ، فوج ، عدلیہ اور بیت المال وغیرہ میں دوسرے ممالک سے استفادہ لیا گیا۔ آج شدت پسند بھی اغیار کے فوجی تعلیم و تربیت اور جدید آلات سے ہی مدد لیتے ہیں۔ پاکستان بہت نازک موڑ پر کھڑا ہے ، میڈیا کا کردار عدل و اعتدال کے قیام کے بجائے افراط و تفریط پھیلانا رہ گیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو اور اس کو سمجھنے میں دشواری ہو تو اولی الامر سے تصدیق کرواؤ ۔ آج فاسق فاجر میڈیا کا فائدہ اٹھا کر جس طرح سے ہوش ربا خبریں پھیلاتے ہیں اور ملک میں جو صورتحال موجود ہے اس کے کچھ بھی نتائج نکل سکتے ہیں۔ بڑے علماء کرام اپنے نصاب تعلیم میں کفر کے مترادف مضامین کو تسلیم کرنے کے باوجود تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے توعام مسلمانوں سے کیا توقع ہوگی؟ ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے داعش کے اوپر احادیث کو فٹ کیا تو انہی احادیث میں یہ بھی ہے جو مولانا یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب ’’عصر حاضر حدیث نبوی ﷺکے آئینہ میں‘‘ نقل کیا ہے کہ ’’لوگوں پر ایک وقت ایسا بھی ضرور آئیگا جب کمینہ ابن کمینہ کو بہت معزز سمجھا جائیگا‘‘۔ موجودہ دور کی وہ شخصیات جنہوں نے محض اپنی چالاکیوں سے ایسا مقام حاصل کیا ہے کہ ہر قسم کی الٹی سیدھی ہانکتے ہیں مگر پھر بھی انکی سیکورٹی پر خاطر خواہ پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ کوئی ان سے درست بات پوچھتا بھی ہے تویہ جواب دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے ہیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی