مارچ 2019 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

جواں سال منظور احمد پشتین کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے 

شمالی وزیرستان درپہ خیل میں منظور احمد پشتین نے قبائلی کلچر ڈے سے اپنے خطاب میں بڑی پیاری باتیں کیں مگر تعصب غلط تھا۔ ایک نوجوان جب جذباتی ماحول کی نذر ہوجاتا ہے تو معروضی حقائق سے زیادہ جذبات پر یقین رکھتا ہے۔ منظور احمد پشتین نے روایتی قبائلی عقل و فکر ، علم و تدبر اور فطری صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہوئے انتہائی خوش اسلوبی اور متانت کے ساتھ تقریر کی۔ پاک فوج نے اچھا کیا ہے کہ قبائلی عوام کے اعتماد کو بحال کرنیکی راہ ہموار کردی ہے، دہشتگردوں کے ظلم و ستم نے جو ڈر ، خوف اور بد اعتمادی کی فضا پیدا کی تھی اس کا واحد حل ایک ایسی قومی تحریک تھی جو لوگوں کو انکے اقدار کی طرف بہتر انداز میں لوٹائے۔
کافی عرصے سے ملک بھر میں بالعموم اور قبائلی علاقہ جات میں بالخصوص کچھ اس قسم کی تحریکوں نے جنم لیا تھا کہ قبائل کی سطح پر لوگ اپنے خونی رشتوں کو زیادہ سے زیادہ ترجیح دیں۔ ملکی سطح پر اعوان قومی تحریک کی مثال دی جاسکتی ہے۔ محسود و برکی قوموں کے علاوہ کانیگرم کے پیروں نے بھی اپنا ایک سیٹ اپ بنالیا تھا۔ کوئی شک نہیں کہ اپنے قبیلے سے محبت انسان کی فطرت و ایمان کی علامت ہے۔ بین الاقوامی طورپرخاندانی اقدار کو بحال کرنے کی تحریک اٹھے تو عالمی قوتیں ان کو سپورٹ کریں گی۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے مشورہ سے اللہ کے پیغمبر سے کہا کہ’’ اللہ نے جو عذاب ہم پر نازل کرنا ہو نازل کردے ، پتھر برسائے تو ہم مرہم پٹی کرلیں گے ،بیماری دے تو ایکدوسرے کی بیمار پرسی اور جنازے پڑھیں گے۔ جو کوئی مصیبت ہم پر اللہ نازل کردے ہمیں کوئی خطرہ نہیں اور ہم اللہ کو نہیں مانتے وہ جو عذاب نازل کرنا چاہے بیشک نازل کردے ۔ ہاں صرف آپس میں لڑانے کا عذاب ہم پر مسلط نہ کرے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں‘‘۔
اللہ کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم سے وعدہ کے باوجود اس عذاب کو ٹال دیا اور اللہ نے فرمایا کہ یہ میری نا فرمان اور کافر قوم ہے لیکن جو مشاورت سے ایک بات انہوں نے کی یہ میری بھی پسندیدہ بات ہے۔ عالم انسانیت کی تاریخ میں ایک واحد قوم حضرت یونس ؑ کی تھی جس پر عذاب کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ٹال دیا۔ اگر اعوان قوم سے قبائلی علاقہ جات تک اپنے قبیلہ کے لوگوں سے محبت ، اخوت و بھائی چارے کا ماحول قائم کرنے کے پیچھے وردی ہو تو بھی یہ زبردست اور بہترین بات ہے۔ اپنی قوم سے محبت رکھنا ایمان اسلئے ہے کہ اللہ نے نبیؐ سے فرمایا کہ مشرکین مکہ سے کہہ دو قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا مودۃ فی القربیٰ ’’ کہہ دیجئے کہ میں تجھ سے اس دینی تحریک پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا مگر قرابت داری کی محبت‘‘۔ یہ آیت مکی ہے جسکے اولین مخاطب مشرکین مکہ تھے۔ قرآن ہمیشہ کیلئے ہے اسلئے حدیث صحیحہ میں اس آیت کی تفسیر میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے اہل بیت کی محبت بھی مراد لی گئی ہے۔ دونوں تفسیر میں کوئی تضاد نہیں ہے اور دونوں فطرت کا عین تقاضا ہیں۔
مشرکین مکہ میں غیرت اور بے غیرتی کے مسائل تھے۔ قرآن میں ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔ یہ غیرت بھی اپنے حدود سے نکلی ہوئی تھی۔ دوسری طرف بخاری کی روایت ہے کہ لوگ اپنی بیگمات کسی اچھے نسل والوں کے حوالہ کرتے جب ان کو حمل ہوجاتا تھا تو واپس لے لیتے تھے تاکہ ان کا نسب اچھا ہوجائے اور یہ پھربے غیرتی کی انتہا تھی۔ قرآن کریم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عرب جاہلوں کی اصلاح کردی تو حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آنے والی قیامت تک صحابہ کرامؓ کی وہ ممتاز اور بلند درجہ جماعت تیار ہوئی جس کی کوئی مثال پہلے ادوار میں ملتی ہے اور نہ بعد کے ادوار میں اس کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے عربوں میں کسی قومی جذبے کی تحریک چلانے کا حکم نہیں دیا تھا ورنہ انکے نقائص اور بے غیرتیاں کبھی ختم نہیں ہونی تھیں۔
اگر مشرکین مکہ قرابتداری کی محبت کا پاس رکھتے تو مسلمانوں کو کبھی حبشہ اور پھر یثرب ہجرت کرنے کی کبھی ضرورت نہ پڑتی۔ جب مشرکین مکہ سے قرابت کی محبت کا تقاضہ قرآن کا حکم اور فطری بات تھی تو کوئی قوم بھی اپنوں سے محبت کی تعلیم کو ایمان اور فطرت کا تقاضہ سمجھ سکتی ہے۔قرآن نے مشرکین مکہ کے باطل عقائد اور بے غیرتی والے رسم و رواج کو چیلنج کیا تو انہوں نے قرابتداری کی محبت کا بھی پاس نہیں رکھا۔ جس طرح اپنی قوم اور اپنی زبان سے محبت ایمان کا تقاضہ ہے اسی طرح دوسروں سے نفرت اور تعصبات بے ایمانی اور کفر کا تقاضہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ لکل قوم ھاد ہر قوم کیلئے ایک ہدایت دینے والا ہوتا ہے۔ پختونوں کیلئے مشہور شاعر رحمان بابا ؒ کی حیثیت ہدایت کار کی ہے لیکن فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے ہدایت کار کی اصطلاح بری لگتی ہے۔ اس عظیم شاعر کی پوری شاعری پختون قوم کی فطرت اور انسانیت کا شاہکار ہے۔
پختون قوم کے سب سے بڑے سیاسی لیڈر خان عبد الغفار خانؒ و عبد الصمد خان اچکزئی شہیدؒ تھے جنہوں نے انگریز سے آزادی کیلئے قربانیاں دیں لیکن ان کے سیاسی اور قومی نظرئیے کا قبلہ کابل نہیں دہلی تھا۔ دو قومی نظرئیے میں وہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی بجائے متحدہ ہندوستان کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ یہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ اپنے پڑوسی پنجابی ، سندھی اور بلوچوں سے الگ ہوکر پختونستان کی الگ مملکت بنالیں۔ جب سیاسی لیڈر شپ وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو نے جھوٹے مقدمات بنا کر بلوچ اور پختون قیادت کو بغاوت کے مقدمے میں قید کرکے حیدر آباد جیل میں مقدمہ چلایا تو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء نے ان کو رہائی دلائی۔ اس کے پیچھے قابلِ فخر وردی تھی لیکن نا مردی نہیں تھی۔
قبائلی علاقوں میں فوج ، پولیس اور عدلیہ کا کوئی تصور نہ تھا لیکن عالمی المیہ تھا کہ بڑی تعداد میں امریکہ کی مزاحمت کرنے والے پہنچ گئے۔ وزیروں نے ان کا خیر مقدم کیا اور اپنے ہاں ان کو ٹھکانے دئیے ۔ کمزور لوگوں نے اپنی جگہ بنانے کیلئے طاقتور لوگوں کو ٹھکانے لگانا شروع کردیا۔ علی وزیر کی خاندانی حیثیت تھی اسلئے انکے خاندان کو شہید کردیا گیا۔ منظور پشتین و محسن داوڑ کا کوئی بڑا خاندانی بیک گراؤنڈ نہیں تھا اسلئے وہ طالبان سے زیادہ متاثر نہ ہوئے۔ یہ لوگ اپنی قوم کا درد لے کر اٹھے اور ان کو معروضی حقائق کے مطابق تعصبات کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا چاہیے۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے لکھا ہے کہ ’’سندھ ، بلوچستان، پنجاب، کشمیر، فرنٹیئر اور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب امامت کی حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ انہی قوموں نے کرنی ہے۔ اگر ہندو پوری دنیا کو ہمارے مقابلے پر لے آئے تو بھی ہم اس خطے سے دستبردار نہیں ہونگے‘‘۔ (المقام المحمود: تفسیر عم پارہ۔ امام انقلاب مولانا سندھیؒ )
قائدPTMمنظور پشتین کو چاہیے کہ علماء ومفتیان کے سامنے حقوق نسواں کو رکھیں۔ اگر پختونوں میں اصلاحات کا عمل ہو تو باقی قوموں کیلئے بہت آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ اپنے کارکنوں کو قرآنی تعلیمات کی طرف راغب کریں، یہ وقت کا بہترین تقاضہ ہے، دینداری صرف آخرت نہیں بلکہ دنیابھی میں کام آتی ہے۔

بھارت کی پاکستان سے ممکنہ جنگ کے خطرات و نتائج 

بھارت میں جمہوری نظام ہے، سیکولر بھارت میں ہندوستان کی بقاء ہے اور فرقہ پرست، متعصبانہ ذہنیت اور ہندو ازم بھارت کیلئے تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ جب من موہن سنگھ بھارت کا وزیراعظم تھا تو کارگل کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنیوالے بلکہ کریڈٹ لینے والے جنرل پرویزمشرف نے پاکستانی مجاہدین کا راستہ روکا تھا۔ پرویز مشرف کے دست راست وفاقی وزیرجسے بھارت نے ویزہ دینے سے انکار کیا تھا،شیخ رشید نے کہا تھا کہ ’’ مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستان کے مجاہدین سے تنگ تھے، وہاں جاکر کشمیریوں سے آدمی پوچھے کہ ان مجاہدین سے لوگ کتنے تنگ ہیں اور کس قدر مصائب کا شکار ہیں، حکومت نے اچھا کیا ہے کہ مجاہدین پر وہاں سے پابندی لگادی ‘‘۔ شیخ رشید کا بیان وعدہ معاف گواہ کی طرح نہیں تھا بلکہ یہ سلطانی گواہی ہے، لیکن یہ چاپلوسی اور غلط بیانی نہ تھی۔ کشمیر کے مجاہدین جو جانوں کا نذرانہ پیش کررہے تھے تو ہندوستانی فوج بدلے میں کشمیری خواتین کی عزتوں تک کو لوٹ لیتے تھے۔ مجاہدین کی اپنی مائیں بہنیں تو وہاں نہیں ہوتی تھیں۔ شیخ رشید نے کشمیری مسلمانوں کے دکھ درد کو صحیح سمجھ لیا تھا۔ مجاہدین کی بجائے کارگل جیسی کاروائی سے کشمیر کو آزاد کرنے پر پرویزمشرف کو یقین آیا تھا۔
جب پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کا سلسلہ بالکل بند کیا تواسکا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں نے آزادی کی تحریک تیز کردی۔ مودی سرکار نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو کشمیریوں کی طرف سے پھولوں کے گلدستوں کی امیدکیوں کی جاسکتی ہے؟۔ کشمیری مجاہدین کو ہوسکتا ہے کہ بھارتی فوج یا خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے خود اتنا بارود فراہم کیا ہو،اسلئے کہ ایک طرف بدترین تشدد سے دنیا بھر میں اس کا چہرہ بڑا بدنام ہوا۔ دوسری طرف پاکستان پر مداخلت کے امکانات نہیں رہے ہیں۔اگر کشمیر پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں تو کیا کشمیری مجاہدین کو کسی اور کی ترغیب سے خود کش کرنیکی ضرورت پڑ سکتی ہے؟۔ پاکستان پر امریکن ڈرون حملے ہوتے تھے، ازبک کمانڈروں کی یلغار ہوتی تھی اور بڑے پیمانے پر قبائلی پاک فوج سے تنگ تھے تو بھی عوام نے چپ کی سادھ لی تھی جب باہر سے مداخلت کا سلسلہ بند ہوا ، تو قبائل میں پشتون تحفظ موومنٹ نے جنم لیا۔ چیک پوسٹوں پر سختی ختم کرنے کا مطالبہ ہوا۔ مائن صاف کرنے کا مطالبہ ہوا۔ دونوں مطالبے پر عمل کا آغاز ہوا۔ PTMکے بے روزگار جوانوں کو ایک شغل مل گیا۔ چندوں اور شہرت نے منہ کی مٹھاس میں اضافہ کردیا۔ بین الاقوامی قوتوں نے پذیرائی بخش دی مگر فوج نے برداشت کا مادہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ کشمیر میں لوگوں کو مظاہروں کا موقع دیا جاتا تو روز روز اپنے بازار بند اور کاروبار زندگی مفلوج ہونے سے آخر تنگ آجاتے، جس طرح کراچی میں عوام ایم کیوایم کے جلسے جلوس اور ہڑتالوں سے تنگ آچکے تھے۔بھارت میں مودی سرکار کی حکومت نہ ہوتی اور کشمیریوں پر مظالم کا حکم بھارتی فوج کو نہ ملتا تو حالات ایسے خراب نہیں ہوسکتے تھے۔ بھارتی آزاد میڈیا اور اپوزیشن رہنما اور ہندوستان کی خالق پارٹی کانگریس مودی سرکار پر اسلئے تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ اگر وہاں آزاد میڈیا اور آزاد سیاست نہ ہوتی تو مودی سرکار فوج کو پاکستان سے جنگ کا حکم دے چکی ہوتی۔
جنگ کوئی بڑی نعمت ہوتی تو خوشحال عراق اور لیبیا بدحال نہ ہوتے۔ اب تو افغانستان کے لوگ بھی تنگ آمدبہ جنگ آمد سے تنگ آمد بہ امن آمد ہوچکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عالمی طاقتوں کی خواہش ہے کہ لسانیت کے نام پر ایک نئی اور تازہ جنگ شروع ہو۔ بیرون ملک سے ایجنڈے پر تیزی سے عمل دکھائی دیتاہے اور اگر اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کامیاب ہوگئی تو یہ خطہ ایک بار پھر جنگ کا سامنا کریگا۔ بیرونی لڑائی سے اتنا نقصان نہیں ہوتاجتناآپس کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے۔ ریاست اور عوام کی لڑائی میں جو تباہی بربادی قوم کی ہوتی ہے،اس کی واضح مثال افغانی ہیں۔ دربدر خاک بہ سرافغانی اور بارود کے ڈھیر سے کھنڈر افغانستان کی سرزمین عبرت ہے جس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے اگر پاکستان پر جنگ مسلط کردی تو اس خطے کی آگ کو بجھانے کا اختیارحکمرانوں کے ہاتھ سے نکل جائیگا۔ امریکہ کو چین سے خطرات ہیں اور ان خطرات سے نمٹنے کا ایک علاج ہے کہ ہندوستان و پاکستان میں لڑائی ہوجائے ۔ کشمیر کا تنازعہ عالمی قوتوں نے پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت رکھا تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کے اس تنازعہ کا حل ضروری ہے ، عالمی قوتوں کو موقع ملنے کی یہ واحد وجہ ہے۔برصغیر پاک وہند کے لوگ اپنے عظیم نسلی اور علاقائی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایران ، افغانستان اور عرب امارات و سعودی عرب کو بھی بھارت سے مسئلہ نہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنے دیرینہ مسئلہ کشمیر کو حل کریں تو دونوں ملک کی عوام اور ریاستیں ڈھیر ساری خوشیوں سے مالامال ہوسکتی ہیں۔ زید حامد نے ٹھیک کہا ہے کہ’’ اگر 7لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی مداخلت کا راستہ نہیں روک سکتی تو بھارت کو چاہیے کہ اپنی افواج کو کھیتی باڑی کے کام پر لگادے‘‘۔ دنیا کی کوئی بھی فوج ہو اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کے عہدے پر قبضہ جمائے رکھا تو ایک طویل دورانیہ تک پاک فوج کی اعلیٰ قیادتیں اپنے حقوق سے بھی محروم رہیں۔ نچلا طبقہ تو صرف حکم کا پابند ہوتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا تو اس میں فوج کا کوئی قصور نہیں ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اپنے مفادات کیلئے ملک اور قوم کو بری طرح سے استعمال کیا۔ ذو الفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان کو اقتدار کے مواقع ملے اور اس طرح سے دیگر کئی سیاسی و غیر سیاسی رہنما وزیر اعظم اور صدر کی حیثیت سے آئے گئے۔ مشرقی و مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان نے اے ڈی ،بی ڈی ممبروں کے چناؤ سے عوامی جمہوریت کا ایک بہترین آغاز کیاتھامگر بھٹو کے ذریعے فاطمہ جناح کیخلاف دھاندلی سے سیاست تباہ کی اور پھر مجیب الرحمن اور ذو الفقار علی بھٹو نے ملک کو دو لخت کرنے میں کردار ادا کیا۔
سول بیورو کریسی نے انگریز کے جانے کے بعد نہ سیاسی شعور ابھرنے دیا اور نہ ہی مذہبی تصورات کیلئے کوئی بنیادی کام ہونے دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن سول و ملٹری بیوروکریسی سے زیادہ بے شعور اور اسلام سے بے بہرہ ہمارے مدارس اور علماء و مفتیان تھے۔ شعور کی دولت عام ہوجائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگ آگاہ ہوں تو سب ٹھیک ہوجائیگا۔ بھارت کا با شعور طبقہ کبھی بھارتی فوج کو جنگ آزمائی کی طرف دھکیلنے کی کوئی کوشش نہیں کریگا۔ کم عقل دونوں طرف سے موجود ہوتے ہیں لیکن ایٹمی طاقت اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کو جنگ کی ہولناکیوں کی طرف لے جانا بہت خطرناک ہوگا۔ بھارت ہندو ازم اور جنگی جنون کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
پاکستانی پارلیمنٹ طلاق کے مسئلہ پر قرآن کے مطابق بحث کا آغاز کرے تو بھارت سے صلح کی راہ ہموار ہوگی اسلئے کہ غیرفطری طلاق انسانی المیہ ہے۔