پوسٹ تلاش کریں

زکوٰۃ (معروفات)

سورۂ توبہ میں ان مشرکوں سے برأت کا اعلان ہے جن سے مسلمانوں نے عہدوپیمان کیا کہ وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اللہ نے کافروں کو ذلت سے دوچار کرناہے۔ حج اکبر کے دن لوگوں میں اعلان کرنا ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اسکے رسول(ﷺ) بھی بری ہیں۔ اگر تم توبہ کروتوتمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم پھر گئے، تو اللہ کو عاجز نہیں بناسکتے، کافروں کو بشارت دو درد ناک عذاب کی۔ مگر وہ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے معاہدوں کی کچھ خلاف ورزی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی۔ تو ان کی مدت تک ان سے عہدو پیمان کو پورا کرو، اللہ پسند کرتاہے پرہیز گاروں کو۔ جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے لڑو،جہاں ان کو پاؤاور ان کو پکڑو اور ان کو محصور کردو، اور ان کیلئے ہرگھات پر بیٹھوپھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑدو، اللہ غفور رحیم ہے اور اگر کوئی مشرکین میں سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو،یہاں تک کہ اللہ کے کلام کو سن لے۔ پھر اس کو وہاں پہنچادو جہاں اس کو تحفظ حاصل ہو۔ یہ اسلئے کہ یہ وہ قوم ہے جو سمجھ نہیں رکھتے۔ مشرکوں سے اللہ اور اسکے رسول کا کیا عہد ہوسکتاہے؟۔ مگر جن لوگوں نے معاہدہ کیا مسجد حرام کے پاس اور پھر جب تک وہ قائم رہیں تو تم بھی قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند کرتاہے۔ (سورۂ توبہ)۔
قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ آیات میں ان مشرکین کا ذکر ہے جنہوں نے حجاز مقدس میں معاہدے کئے اور توڑے، جہاں حرمت کے چار ماہ میں جنگی بندی ہوتی تھی، جو معاہدے کے پابند رہے اور کسی دشمن کو مدد فراہم نہیں کی ان سے معاہدے پورے مدت تک قائم رکھنے کی تاکید ہے اور جنہوں نے معاہدے توڑے ان کیلئے بھی حرمت کے مہینوں کو برقرار رکھا گیا۔ پھر اللہ نے فرمایا ہے کہ فقتلوھم حیث وجدتموھم ’’ان سے لڑو، جہاں ان کو پاؤ‘‘۔ دہشت گردوں نے آیت کا یہی جملہ دیکھ کر اللہ کا حکم سمجھا کہ مشرک جہاں ملے قتل کرو۔ حالانکہ اس سے لڑنا مراد ہے، قتل کرنا نہیں۔ اگلا جملہ واضح ہے کہ واخذوھم ’’ اور ان کو پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات پر ان کیلئے بیٹھو‘‘۔ دشمن کو قتل کرنے سے زیادہ مشکل پکڑ لینا ہے۔ اللہ کرے کہ مسلمان بلندی پر پہنچ جائیں، کشمیر کو اقوام متحدہ کے بغیر بھی آزاد کرسکیں اور ہندوستان کی چھ لاکھ فوج پکڑ کر لائیں تاکہ بنگلہ دیش کا بدلہ اُتاردیں۔ البتہ ان آیات سے ہندو اور دیگر مشرکین عیسائی وغیرہ مراد نہیں ۔ یہود گستاخ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے تھے اور عیسائی تثلیث کا مشرکانہ اعتقاد رکھتے تھے تب بھی اللہ نے ان کی خواتین سے شادی کی اجازت دی ،بیویاں بناکر قتل کرنا مقصد تو نہ تھا۔ بریلوی دیوبندی حنفی ہیں لیکن ایکدوسرے سے اتنا بغض رکھتے ہیں جتنا اسلام نے یہودو نصاریٰ سے بھی بغض رکھنے کی تعلیم نہیں دی۔ صحابہؓ نے یہودونصاریٰ کی خواتین سے شادیاں کیں لیکن متعصب علماء ومفتیان مسلمان فرقوں میں بھی نفرت پھیلانے کے مرتکب ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے خلوص میں شک نہ تھا مگر آپؓ نے یہودونصاریٰ کو مشرکین قرار دیکر ان کی خواتین سے شادی کی اجازت منسوخ قرار دی۔ علم وفہم کو عام کرنا ہوگا۔
فرمایا: ’’اگر کوئی مشرک پناہ لے تو اس کو پناہ دو، یہاں تک کہ اللہ کی آیات سن لے اور پھر جہاں اس کو امن ہو وہاں تک پہنچادو‘‘۔ ہندو سپاہی آیا تو پاکستان نے واپس کیا،حالانکہ کوئی صلح حدیبیہ کا معاہدہ نہ تھا مگرہم نے دشمن کیساتھ وہ سلوک روا رکھا جس پر دنیا کا کوئی ملک عمل نہیں کرتا ، بھارت نے اس پر تشدد بھی کیا ہوگا مگراس اقدام سے ان عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اخلاقی معیار و قانون کی پاسداری نہ کریں۔مفتی محمد شفیعؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی تفاسیر میں حنفی مسلک کے نقطۂ نگاہ سے اختلاف ہے۔ مفتی شفیعؒ کا معارف القرآن دہشت گردوں کی ذہن سازی کا انتہائی غلط ذریعہ ہے۔ طالبان ، علماء ومفتیان نے میری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ کے بعدجس طرح تصویر کے مسئلہ پر مفتی محمد شفیع ؒ کا مؤقف مسترد کیا ، تشدد کے حوالہ سے بھی میرا مؤقف انشاء اللہ اپنائینگے۔

نماز (معروفات)

پنج وقتہ نماز کیلئے وضو و حالت جنابت سے غسل کا عمل صفائی ستھرائی کے علاوہ سفر حضر، گرمی سردی ہرموسم اور عمر کے ہر دور میں حضرات و خواتین کو بہار کی طرح تروتازہ رکھتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ’’بلاشبہ نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی ہے‘‘۔ مدینہ و مکہ میں چودہ سوسال پہلے خواتین و حضرات ، لڑکے لڑکیوں اور بچے بچیوں کا مسجد میں اجتماع منکرات سے بچنے کا ذریعہ تھا، آج خانہ کعبہ میں یہ منظر ملتا ہے مگر مسلمان تصور نہیں کرسکتا کہ ایک محلہ کی مسجد میں بھی عوام بیت اللہ کی طرح اکھٹے نماز پڑھیں۔ طرزِ نبوت کی خلافت ہو،خواتین کو حقوق ملیں تو مساجد بھر جائیں گی۔ خواتین اسلام سے محبت ،کرداراور عبادت میں مردوں سے کم نہیں ۔مارکیٹوں، مزاروں، تعلیمی اداروں اور سفر وحضر کے معمولات کی طرح مساجد میں مخلوط نظام عبادت کا تصور اُجاگر ہوگا۔ نیک گھرانے روزِروشن کی طرح نمایاں اور سب پر اثر انداز ہونگے۔دہشت گردی، چوری، ڈکیتی ،بے حیائی اور منکرات کا جڑ سے خاتمہ ہو گا۔ خواتین کی وجہ سے گھر کے مرد حضرات باجماعت نماز کی پابندی کرینگے۔ تشددکا خاتمہ اوراخلاقی معیار بہت بلند ہوجائیگا۔ محلہ میں گھر کی طرح نظام ہوگا،اڑوس پڑوس کا حق اُجاگر ہوگا،مساجدکی حفاظت کیلئے پولیس کی ضرورت ہوگی، نہ ریاست پر اضافی خرچے کا بوجھ ، ایکدوسرے کے غمی خوشی میں شریک ہونگے۔
کالج یونیورسٹی سے حج وعمرہ تک جو مسلمان اکھٹے مگر مساجد میں اجتماعی نمازنہیں جوتقویٰ اور فحاشی ومنکرات کے خاتمے کا ذریعہ تھا۔ پنجاب میں حجاب پر طالبات کیلئے اضافی نمبروں کی تجویز آئی تھی ۔ مساجد 1400سال پہلے جاہلانہ ماحول کو بدلنے کا منبع رہیں، آج بھی بن سکتی ہیں۔ خانہ کعبہ میں کوئی خواتین اور بچیوں کو اجتماعی عمل طواف اور نماز باجماعت سے نہیں روکتا، وہاں مذہب نہیں بلکہ ماحول بدلتاہے، پوری دنیا کا ماحول کو بدلنا ہوگا۔خانہ کعبہ میں ایک نماز کا ثواب لاکھ کے برابر ہے اور مسجد نبوی ﷺ اور بیت المقدس میں50ہزار کے برابرہے، مسجدوں کا رخ کرینگے تو یہ اللہ کے حکم پر عمل ہوگا کہ وارکعوا مع الراکعین ’’رکوع کرنے والوں کیساتھ رکوع کرو‘‘۔ نبی کریمﷺ نے حکم دیا کہ کوئی بیوی کو مسجد میں آنے سے نہ روکے ۔ ایک صحابیؓ نے اپنی بیگم کو روکا تو انکے والد نے زندگی بھر ان سے بات نہ کی کہ نبیﷺ کا حکم نہیں مانا ۔ یہ سنت ترک ہوئی تو ایسے شر کا دور آیا کہ عشرہ مبشرہؓ کے صحابہؓ نے بھی ایکدوسرے کو قتل کیا۔ عبداللہ بن زبیرؓ کے وقت میں کعبہ کا مطاف منجنیق کے ذریعے پتھر سے بھر دیا گیا۔ لوگوں پر مساجد میں ایسی خوف کی کیفیت طاری ہوئی کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ پڑھنا مسجد کے ائمہ کیلئے مشکل ہوگیا۔ حضرت امام شافعیؒ پڑھنا لازم قرار دیتے تھے’’ تو ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر گھمایا گیا کہ تم رافضی ہو‘‘۔آج مساجد کے ائمہ کی اکثریت بعض طبقوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں، حق بات سمجھ کر بھی حق کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔جس دن محلے کے لوگوں نے مل جل نماز پڑھنی شروع کی اور اس میں خانہ کعبہ کی طرح ماحول بنالیا تو پھر مخصوص مذہبی لبادے اور طبقے اپنی اجارہ داری مسجد اور امام پر مسلط نہ کرسکیں گے۔فرقہ واریت ختم ہوجائیگی۔ نبیﷺ نے فرمایا: ’’کہ لوگوں پرایک زمانہ آئیگاکہ اسلام کا کچھ باقی نہ رہیگا مگر اسکا نام ، قرآن میں سے کچھ باقی نہ رہیگا مگر اسکے الفاظ، مساجد لوگوں سے بھری ہونگی مگر ہدایت سے خالی اور انکے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے، ان سے فتنہ نکلے گا اور انہی میں لوٹے گا۔ (عضر حاضر)۔نبیﷺ نے ازواج مطہراتؓ سے فرمایا کہ’’ میرے بعد حج نہیں کرنا‘‘۔ حضرت عائشہؓ حج کیلئے گئیں اورپھرجنگوں کی قیادت کی۔ نبیﷺ نے اسی تناظر میں فرمایا کہ ’’وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی ، جس کی قیادت عورت کررہی ہو‘‘۔ (بخاری) حضرت عائشہؓ نے لبیدؓ کا شعر پڑھ کر فرمایاکہ وہ زمانے کی شکایت کررہا تھا اگر ہمارا زمانہ دیکھ لیتا تو کیا کہتا۔۔۔۔ (عصر حاضر)۔ سیاسی اور تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے معاشرے میں گروہی تقسیم کا نقشہ طرزِ نبوت کی خلافت سے بالکل یکسر بدل جائیگا۔ مساجد ہدایت سے خالی نہیں بلکہ رشدوہداہت کا محور ومرکز بن جائیں گی۔

ہم اُمت بچانے نکلے ہیں، آؤ ہمارے ساتھ چلو…

 

ummat-bukhari-muslim-quran-kitab-ul-fitan-syed-atiq-ur-rehman-gailani(2)

ہم ملت بچانے نکلے ہیں آؤ ہمارے ساتھ چلو، ہم فطرت بچانے نکلے ہیں آؤ…ساتھ چلوہم عزت بچانے …ہم قسمت … نکلے..
ہم حجت بچانے…آؤ..ساتھ چلو…ہم شریعت… ہم خدمت… ہم قدرت…ہم ندرت… ہم عدت…ہم رجعت …آؤ ہمارے….

یہ کون آیا جو ہم پر حجت تمام کرتاہے
سرِبازار حلالے کی عزت نیلام کرتاہے

فقیہ شہر کا فتویٰ ہے اس کی بات نہ سنو!
یہ شخص شعور کی دولت کو عام کرتاہے

فقہیانِ حرم نے بہت پامال کی حرمتیں
یہ عزتوں کو بچاکر ذلت بدنام کرتا ہے

قال رسول اللہ ﷺ: اذا حضر الغریبَ فالتفتُ عن یمینہٖ و عن شمالہٖ فلم یرالا غریباً فتنفس کتٰب اللہ لہ بکل نفس تنفس الفی الف حسنۃ و خط عنہ الفی الف السیءۃ فاذا مات مات شہیداً(الفتن: نعیم بن حماد)
waqar-atiq-gailani2
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اجنبی کو میرے پاس حاضر کیا گیا تو میں نے اس کی طرف دائیں جانب سے التفات کیا اور بائیں جانب سے التفات کیا ، وہ نظر نہیں آتا تھا مگر اجنبی، پس اللہ کی کتاب پوری عظمت کیساتھ اسکے سامنے روشن ہوگئی ، اس کو ہزارہا ہزار نیکیاں ملیں اور ہزار ہا ہزار گناہیں اسکی معاف کی گئیں۔ پس جب وہ فوت ہوا تو شہادت (گواہی) کی منزل پاکر فوت ہوا۔
یہ حدیث امام بخاری کے استاذ نعیم بن حماد ؒ نے اپنی کتاب الفتن میں نمبر 2002 درج کی ہے، یہ اجنبی کا تعارف بتایا گیاہے

قرآنی آیات کی روح کو سمجھنے کیلئے پرویز کی غلط فکر تھی: عتیق گیلانی کی ایک تحریر

اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراء و ربک الاکرم الذی:پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو علق سے پید اکیا، پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے عزت بخشی قلم سے سکھاکر‘‘۔لقنا الانسان من نطفۃ امشاج’’ہم نے انسان کو مشترکہ(والدین) نطفہ سے پیدا کیا‘‘۔ ونفس ما سواہا، فالھمہا فجروھا و تقوٰھا ’’ اور جان کی قسم اور جو اسکو ٹھیک کیا پھر اسمیں اسکی بدونیک خواہشات ڈالیں‘‘۔ نیک وبدخواہش بھی علق ہے کہ حلال وحرام بچے اسی کا نتیجہ ہیں۔ فرمایاقد افلح من زکٰھاوقدخاب من دسٰھا:بیشک فلاح پائی جس نے اسے پاک کیا، نامراد ہوا جس نے اسے خاکسترکیا۔تزکیہ وطہارت اور اسکے برعکس فجور کے ذریعے گند نفسانی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
قتل الانسان مااکفرہ من ای شئی خلقہ من نطفۃ ’’ مارا جائے انسان کیوں کر ناشکری کرتاہے،کس چیز سے پیدا کیا ؟، نطفہ سے!‘‘۔ خلق من ماء دافق یخرج من بین الصلب والترائب ’’ پیدا کیا گیاکودتے پانی سے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ سے نکلتاہے‘‘۔ علق کے معنی ’’لٹکاہوا‘‘ ۔ تخلیق کاہرہر مرحلہ علق ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہؒ نے لکھا کہ ’’جرمن ڈاکٹر نے جدید تحقیق کی کہ باپ کا سپرم ماں کی بچہ دانی سے لٹک جاتا ہے۔قرآن نے 14سو سال پہلے علق قرار دیا اور وہ اس بات پر مسلمان ہوگیا‘‘ جونک اور ہرمعلق چیز کو علق کہتے ہیں۔ مرداور عورت کی بیماری سے تخلیق کا مادہ بہتاہے۔ حمل گرتا ہے۔ جہالت یا اعلیٰ تمدن میں انسان کو اپنی اوقات یاد دلانے کی بات ہو تو یہ موٹی بات سمجھنا آسان ہے کہ انسان کو علق کی پیداوار کیوں کہا؟۔ عضوء تناسل بھی علق ہے۔دیہاتی روایات میں کھلے ڈھلے الفاظ کا بے دریغ استعمال ہوتاہے ،قرآن نے تہذیب وعلم کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ ابولہب وابوجہل کو قرآن کی بات سمجھ میں آئی کہ کھلے مہذب الفاظ میں قرآن نے انسان کو سمجھایاہے ۔ تکبر نے ابلیس کو عزازیل سے گرا کر شیطان بنا دیا۔قلم کے ذریعے عزت دینے کیساتھ ساتھ انسان کواپنی پیدائش کی اوقات بھی یاد دلائی گئی ہے ۔
جرمنی میں قادیانی ٹیکسی ڈرائیور سوال جواب پر ہمیں اپنے مرکز لے گیا، فرینکفرٹ میں مبلغ سے جواب نہ بنا تو کالون کے مبلغ کا پتہ بتادیا۔ مذہب کی شکل میں دھندہ ہے، مولوی تو ہر جگہ اللہ معاف کرے اب ملازم بن کر رہ گیاہے الاماشاء اللہ۔ میں نے قادیانی مبلغ سے کہا کہ ’’ مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا: میں مریم تھی، اللہ نے مجھ سے مباشرت کی تو خود سے پیداہوکر عیسیٰ بن گیا۔کیا مرزاکایہ مشاہدہ جرمنی میں لکھ کر سائن بورڈ لگالوگے؟۔ جس پر مبلغ نے کہا کہ ’’قرآن میں نطفہ کی پیدا وارکہاگیا تو کیا ہم اس کا بورڈ لگاسکتے ہیں؟‘‘ ۔ میں نے کہاکہ بالکل بہت شوق سے لگائیں۔ سب ہی کو اعتراف ہوگا کہ واقعی سچ ہے،قرآن نے بالکل درست کہا، تکبر ہمیں زیب نہیں دیتا‘‘۔
غلام احمد پرویز نے پڑھا لکھا طبقہ احادیث سے بدظن کردیاہے مگر علماء نے معقول جواب کے بجائے فتویٰ داغا، یہ ہتھیار کارگر ہوتا تو علماء ایکدوسرے پر لگاتے ہیں۔ دلیل کا جواب دینا چاہیے، امام ابوحنیفہؒ نے حدیث سے گریز کیا۔پرویز نے ان کوقرآن کیخلاف سازش قرار دیا، کہا کہ ’’ نبیﷺ امی (ان پڑھ) نہیں پڑھے لکھے تھے، اللہ نے فرمایا کہ اقراء پڑھ۔ ان پڑھ کیلئے یہ خطاب نہیں ہوسکتا۔ بخاری کی کہانی غلط ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ماانا بقاری میں پڑھ نہیں سکتا ۔ جبرئیل نے سینے سے لگایا تو پڑھنا آیا، گھبراہٹ ہوئی، حضرت خدیجہؓ نے دلاسہ دیا، چچا ورقہ بن نوفل کے پاس لیکر گئیں، اس نے نبوت کی تصدیق کی۔یہ یہودکی سازش تھی تاکہ یہ ثابت ہو کہ نبیﷺ نے ورقہ سے سیکھااور قرآن الہامی کتاب نہیں۔اللہ نے فرمایا: لنثبت بہ فوادک تاکہ قرآن سے تیرا دل ثابت قدم ہو۔ وحی گھبراہٹ کا ذریعہ نہ تھا، یہ کیا بات ہوئی کہ ایک خاتون نبیﷺ کو دلاسہ دے رہی تھیں ۔چچا کے پاس لے گئیں؟‘‘۔امام ابوحنیفہؒ نے حدیث کو آیت سے متصادم کہاتو بہت احتیاط برتی ، پرویز نے حدیث نہیں قرآن میں بھی من مانی سے دریغ نہیں کیا۔
پرویزی لکھا پڑھا طبقہ علماء کے طلبہ ، صوفیاء کے مریداور قادیانی چیلہ سے بھی زیادہ ہٹ دھرم بنتاہے۔ پرویز کو اسلئے مانا جاتاہے کہ وہ قرآن کا داعی تھا تو اگر اسکی بات غلط ہواور پھر بھی اس پر ڈٹا جائے تویہ ہٹ دھری ہے۔ اللہ نے اقراء ضرور فرمایا اور اس کا معنی قلم کے ذریعے لکھی تحریر پڑھنے کے ہیں لیکن سوال ہے کہ جبرئیل قرآن کو کس چیز پر لکھ کر لائے ؟۔ کوئی تختہ سیاہ تھا؟، کاغذ کا ٹکڑا تھا؟، نوشتۂ دیوار تھا؟، لوح وقلم کونسے تھے؟، نزل علی قلبک قرآن کو تیرے دل پر نازل کیا۔ سر کی آنکھ سے بھی پڑھناہے اوردل کی آنکھ سے بھی پڑھنا ہے، روایت میں دل کی آنکھ سے پڑھنا مراد ہے۔ ان الاعمیٰ عمی القلب ’’ اصل اندھا دل کا اندھا ہوتاہے‘‘۔ یہی ہٹ دھرمی ہے۔ اگرنبیﷺ کے دل پر قرآن نازل نہیں ہوا، تو ورقہ بن نے اوراق پڑھنے سکھادئیے؟ ۔
نبیﷺ کو جبرئیل نے سینے سے لگایا تو دل سے دل کو راہ ہوتی ہے، اللہ نے قرآن کو جبرئیل کی طرف بھی منسوب کیا: انہ لقول رسول کریم بیشک یہ عزت والے فرشتے کی بات ہے۔ پہلی وحی سے گھبراہٹ کی بات ہو تو اللہ نے فرمایا: لو انزلنا ھٰذا القراٰن علی جبل لرئیتہ خاشعًا متصدعًا من خشےۃ اللہ ’’ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو ہیبت کے مارے ریزہ ریزہ ہوجاتا‘‘۔ یہ بنیﷺ کا ظرف تھا جو برداشت کرگیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے آگ کی شکل میں اپنا جلوہ دکھایا ، پھر بتایا کہ میں اللہ ہوں۔پھر اپنے ہاتھ کے عصا سے گھبراگئے۔اپنا جلوہ دکھایا تو موسیٰ بیہوش گرپڑے۔ دنیا نے اگر ترقی کرلی تو دل کی بات دل کی آنکھوں سے بھی پڑھنے کامعاملہ سمجھ میں آئیگا۔ نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ دنیا اس قدر ترقی کریگی کہ بیوی کے بوٹ کے تسمہ پر کوئی چیز چپکا دی جائے گی جس سے شام کو سارا ریکارڈ دکھا جائے گا‘‘۔ صحاح ستہ کی ایسی حدیث کو ضعیف قرار دیا گیا لیکن اب اس کا سمجھنا آسان ہوگیاہے۔ پرویزی کھل کر پلٹ کر آجائیں!۔
نبیﷺ پر وحی کے نزول سے پہلی مرتبہ گھبراہٹ طاری ہوئی، زوجہ محترمہؓ نے دلاسہ دیا تو قرآن نے بیوی کو تسکین کا ذریعہ کہا، یہ صرف جنسی تسکین نہیں بلکہ ہر مشکل وقت میں ایکدسرے کا دکھ درد بانٹتا ہے، کوئی حادثے کا شکار ہو اور دوسرا دلاسہ دے تو انہونی بات نہیں۔پرویز نے مذہبی جذبہ سے عوام کو متأثرکیا۔ رسول ﷺ کا ناموس حساس معاملہ ہے۔احادیث صحیحہ میں سورۂ نور کی تفسیریہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگا، اللہ نے صفائی پیش کردی۔ قرآن و حدیث اور سیرت کی کتابوں کے بالکل برعکس پرویز نے لکھا کہ ’’ حضرت عائشہؓ پر نہیں کسی اور خاتون پر بہتان لگا، یہ روافض کی سازش تھی تاکہ بہتان کی راہ ہموار ہو، حضرت عائشہؓ پر بہتان کی سزا قتل ہے‘‘۔ احادیث کا ذخیرہ جھوٹ تھایا حضرت عائشہؓ پر بہتان کی سزا قتل نہیں تواس سے بڑھ کرتوہینِ رسالت کیاتھا؟۔ مذہبی طبقہ اور پرویزی مل بیٹھ کر مسئلہ حل کریں۔ افسوس کہ بریلوی مکتبہ فکرکے شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی نے سورۂ نور کی تفسیر میں جہاں حضرت عائشہؓ پر بہتان کا ذکر کیا، وہاں حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے واقعہ کی تفصیل لکھ دی جسکا قارئین پر غلط اثرپڑ سکتا ہے۔
یہ نبیﷺ کا ظرف تھا کہ اپنی زوجہ محترمہؓ پر بہتان برداشت کیا۔ کسی اور کی زوجہ پر بہتان لگتا تو برداشت نہ کر تا۔ اللہ نے عظیم بہتان کی سزا سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا خاتمہ کردیا۔ غریب ا امیر، کمزور طاقتور اور بڑے چھوٹے کی عزت کیلئے بہتان پرایک سزا مقررفرمائی۔ طاقتور طبقات نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوتاہے۔ پرویز مشرف کا قریبی ساتھی عمر اصغر خان کے بارے میں شواہد کہتے کہ وہ خود کشی نہیں کرسکتا تھا مگر شاہد کسی طاقتور کی کچار میں ہاتھ پڑگیا تھا۔ بہتان کمزوروں پر لگتے ہیں۔ عزتیں کمزوروں کی لوٹ لی جاتی ہیں ۔ناک، کان، آنکھ اور دانت کمزوروں کے ہوں تو خیر نہ ہوگی لیکن طاقتوروں کا کون کیا بگاڑ سکتاہے؟۔ ایک صحابیؓ کے بیٹے نے دوسرے کا دنت توڑ دیا۔ بدلے کی بات پر قسم کھالی کہ اپنے بیٹے کا دانت اسکے بیٹے کے بدلے نہ توڑنے دونگا۔ نبیﷺ نے بالکل بھی رعایت نہ دینی تھی لیکن مظلوم نے خود ہی معاف کردیا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ بعض لوگ اللہ کو اتنے پسند ہوتے ہیں کہ اگر قسم کھالیں تو اللہ اس کو پورا کردیتاہے‘‘۔(بخاری)صحابہؓ کی عقیدت اس حدیث میں بھی ہے، لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ اللہ کے مقبول ترین بندے نے بھی اپنی حیثیت کا لحاظ کیا۔ صحابہؓ پر تو انگلی اٹھانے والے بھی ہیں اور احادیث کی سازش قرار دینے والا طبقہ بھی ہے مگر قرآن کو توسب مانتے ہیں،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے گو غلطی سے مگر قتل تو کیا تھا؟، قانون کی بالادستی میں زبردستی نہ ہو تو رضاکارانہ طور سے خود کو پیش کرنا بہت مشکل کام ہے۔
نبیﷺ نے طائف میں اکیلے پتھر کھائے ،قوم کو معاف کردیا۔ یہودیہ کا کچرا ڈالنا برداشت کیا ، پھر بیمار پرسی کیلئے بھی تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان برداشت کرلیا ، یہ قربانیاں تو امت کے کمزور، غریب، بے بس اور بے سہارا طبقات کیلئے دی تھیں۔ نبیﷺ کو عظیم الشان مقام سے نوازا گیا ، بہتان کی سزا عام خواتین کے برابر اور جرم پر درگزر نہیں بلکہ ڈبل سزا کا حکم دیا۔ ہمارا اسلام انسانیت کیلئے بہترین نمونہ ہے لیکن مولوی اپنے دھندے میں مشغول ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل نے بیان دیا ہے کہ ’’یہ جناح کا نہیں یحییٰ خان کا پاکستان ہے۔ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کاہے کرایہ کے مجاہدین پالے اور اب کو ان کو دہشت قرار دیکر مارا جارہاہے۔ یہاں کرائے کے مولوی، صحافی اور سیاستدان مل جاتے ہیں‘‘۔ بالکل سو فیصد درست بات ہے لیکن کیا یہ وہ اسلام ہے جس کو اللہ نے نبیﷺ پرنازل کیا تھا، یا پھر علماء کی اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا مذہب ہے، اس پر بھی غور کرو‘‘۔ پانامہ کیس نوازشریف پر چلا، مروڑ مولوی کے پیٹ میں کیوں اُٹھتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کے شکار بڑوں کی سزاتصور نہیں کرسکتے ، مغلوں سے انگریزنے اقتدارلیا، اب انگریزی نظام کا اسٹیٹس کوچل رہاہے، جس کا خاتمہ انشاء اللہ پاکستان سے عالمی نظامِ خلافت سے ہوگا۔ پرویزی مکتبۂ فکر کے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غلام احمد پرویز نے احادیث سے زیادہ قرآن کی آیات کو دھچکا پہنچانے کی کوشش کی ۔بطور مثال حضرت مریمؑ نے کہا کہ مجھے اولاد کی خبر دی جبکہ لم یمسسنی بشر مجھے کسی بشر نے چھوا نہیں؟، اس طرح کے واقعات میں پرویز کو جھوٹا سمجھنا ہوگا یا قرآن کو، کیونکہ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔قرآن کی بہترین تفسیراحادیث صحیحہ ہیں، اللہ نے فرمایا: لایمسہ الا المطہروں ’’ قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاکباز‘‘ ڈاکٹر اسرار ؒ نے قرآن کی خدمت کی مگرغلط تفسیر کی تشہیر کی کہ’’ قرآن لوح محفوظ میں ہے اور یہ اسکی فوٹو کاپی ہے، جسکو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں‘‘ حالانکہ لایمسہ سے مرادہاتھ لگانا نہیں عمل ہے ۔عورت سے مباشرت کیلئے لٰمستم النساء ہے۔ جیسے الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوہا سے مراد توراۃ کو لادنا نہ تھا بلکہ عمل تھا ، اس طرح قرآن میں لایمسہ سے عمل کرنا مراد ہے،یہ تفسیر بخاری میں ہے۔ ڈاکٹرا سرار اور مفتی تقی عثمانی پر دباؤپڑا تو غلطی سے اعلانیہ رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے۔
قرآن وحدیث میں طلاق کا مسئلہ واضح ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ نے بیوی کو حیض میں طلاق دی توحضرت عمرؓؓ نے یہ ماجراء نبیﷺ کو سنادیا۔ نبیﷺ غضبناک ہوئے اور پھر سمجھادیا کہ پاکی کے دِنوں میں ہاتھ لگائے بغیر پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آئے۔ پھر پاکی کے دنوں میں پاس رکھو، یہاں تک کہ حیض آئے پھر پاکی کے دنوں میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دیدو، یہ ہے وہ عدت جس میں اللہ نے طلاق کا حکم دیا ہے۔ کتاب التفسیر سورۂ طلاق،بخاری۔صحیح بخاری کتاب الاحکام، کتاب العدت اور کتاب الطلاق میں بھی یہ ہے۔ مسلم میں حسن بصریؒ کی روایت ہے کہ ایک مستند شخص سے سنا کہ ابن عمرؓ نے ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ 20سال تک کوئی دوسرا شخص نہ ملا، جس نے تین طلاق کی ترید کی ہو، پھر زیادہ مستندشخص نے بتایاکہ ایک طلاق دی تھی، بہر حال اس حدیث میں تین مرتبہ طلاق کا تعلق 3طہرو حیض ہی قرآن کی تفسیر ہے۔
اللہ نے فرمایا :المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء ’’طلاق والیاں تین مرحلوں تک انتظار کریں‘‘ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوااصلاحا ’’ اور انکے شوہر ہی اس مدت میں صلح کی شرط پران کو لوٹانے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔ اگر حمل ہو تو پھر انتظار کی یہ عدت تین مراحل کی نہیں بلکہ بچے کی پیدائش تک انتظار کرنا پڑیگا ۔ آیت میں خواتین کے حق کا تحفظ ہے کہ عدت کے بعد وہ شادی کرسکتی ہیں ، یہ نہیں کہ آدھا بچہ باہر آیا تو رجوع کی گنجائش ختم ہوگی جیسا فتاویٰ شامی ہے اور مفتی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ نے اگلی آیت میں فرمایا الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحساناُس سے کیا مرادہے؟،جواب یہ ہے کہ اس سوال کی گنجائش بالکل بھی نہ تھی اسلئے کہ اسے پہلے عدت کی دوصورتوں کا ذکر ہے ایک حمل اور دوسری طہرو حیض کے تین مرحلے۔ ظاہر ہے حمل میں دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ رجوع یا چھوڑنے کی صورت نہیں بنتی تو مراد تین مرحلوں کی صورت ہے۔حضرت ابن عمرؓ نے سمجھنے میں غلطی کی تو نبیﷺ غضبناک اسلئے ہوئے کہ مسئلہ بہت واضح تھا۔ جب نبیﷺ نے وضاحت کی کہ طہروحیض کے تین مرحلے مراد ہیں تو پھر مزید وضاحت کی گنجائش تلاش کرنے میں قرآن کیساتھ حدیث کابھی تومذاق ہے،لیکن غلط فہمی مسئلہ نہیں، اللہ دین کی سمجھ دے۔
صحابیؓ نے پوچھا: یارسول اللہ!؛ قرآن میں تیسری طلاق کا ذکرکہاں ہے ؟۔ نبیﷺ نے یہ نہ فرمایا : فان طلقہا فلاتحل لہ ’’اگر پھرطلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں‘‘ تیسری طلاق ہے بلکہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ الطلاق مرتٰن کے بعد تسریح باحسان احسان کیساتھ رخصتی تیسری طلاق ہے‘‘یہ مزید وضاحت ہے کہ تیسری طلاق سے کیا مراد ہے؟۔
سوال ہے کہ مرحلہ وار تین طہرو حیض میں تین مرتبہ طلاق کا مسئلہ سمجھنا مشکل نہیں، تین مرتبہ طلاق بس طہرو حیض کی صورت میں ہونگے۔ پھر رجوع کی کیا صورت ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں رجوع ، دوسرے مرحلے میں رجوع اور تیسرے مرحلے میں تیسری مرتبہ طلاق دیدی توبھی رجوع ہے۔ نبیﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تیسری مرتبہ طلاق دی توپھر رجوع نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ سمجھایا کہ تیسرے مرحلے میں رجوع اور طلاق میں سے کوئی بھی صورت کا تعلق طلاق کے عمل سے ہے۔ اگر نبیﷺ یہ وضاحت بھی کرتے کہ تیسری مرتبہ طلاق دی تو رجوع نہیں ہوسکتا تو بھی امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کے ترازو سے قرآن و حدیث کو دیکھاجاتا، آیت ہے کہ ’’شوہرکواس مدت میں رجوع کا صلح کی شرط پر حق ہے‘‘۔ اور حدیث ہوتی کہ ’’تیسرے مرحلے میں رجوع کا حق ختم ہے‘‘ ۔ تو قرآن سے حدیث کو متصادم قرار دیکر ترک کیا جاتا۔حدیث میں تیسرے مرحلہ میں رکھنا یا چھوڑنا واضح ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نبیﷺ نے ابن عمرؓ کے کی طرف سے حیض میں طلاق کے باوجود اس کو شمار نہیں کیا بلکہ طلاق کو واضح طور سے طہرو حیض کا عمل قرار دیا، ورنہ تو چاہیے تھا کہ آپﷺ فرماتے کہ ایک مرتبہ کی طلاق توواقع ہوگئی، اب آئندہ دو مرتبہ کی رہ گئی مگر نبیﷺ نے اس کو شمار نہ کیا۔طلاق کو شمار کرنے کا تعلق عدت کیساتھ ہی ہے۔ روزے میں دن رات کی طرح نبیﷺ نے طہرو حیض سے تین مرتبہ عدت و طلاق کا تصوربتادیا۔
قرآن میں بھرپور وضاحت ہے اذا طلقتم’’ جب عورتوں کو طلاق دو تو عدت کیلئے دو، ۔۔۔ عدت کا احاطہ کرکے شمار کرو، انکو انکے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔۔۔ ہوسکتاہے کہ اللہ صلح کی راہ نکال دے۔ جب تم طلاق دے چکو اور انکی عدت پوری ہوچکی تو معروف طریقے سے رکھو یا معروف طریقے سے الگ کردواور دو عادل گواہ بھی بنالو۔ ۔۔۔ جو اللہ سے ڈرا، اس کیلئے اللہ راہ بنادیگا‘‘( سورۂ طلاق)۔علماء کو ترجمہ وتفسیر میں بھی ظاہری الفاظ سے ہٹ کر چلنا پڑا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی عدت کے بعد رجوع کی گنجائش ہے؟۔ جواب یہ ہے کہ بالکل ہے! ، سورۂ طلاق دیکھ لو۔ مرحلہ وار تین طلاق پر رجوع کی بھرپور وضاحت ہے۔ رکانہؓ کے والد نے رکانہؓ کی والدہ کو اس طرح سے طلاق دی۔ پھردوسری خاتون سے شادی کرلی، اس نے شکایت کی کہ وہ نامرد ہے۔ نبیﷺ نے اسکو چھوڑنے کا حکم دیا اور حضرت رکانہؓ کے والد کو حضرت رکانہؓ کی والدہ سے رجوع کا فرمایا، انہوں نے عرض کیا :وہ تو تین طلاق دے چکا۔ نبیﷺ نے فرمایا: مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیت پڑھ کر حوالہ دیا۔ (ابوداؤد)۔طلاق میں علماء نے بڑا مغالطہ کھایا، جیسے روزہ دن کے بجائے رات کو ٹھہرایا جائے بلکہ اس سے زیادہ کیونکہ پھر رات میں ایک روزہ رکھا جاسکتا ۔ الفاظ کی ملکیت کا تصور دیکر صرف قرآن و سنت کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ دنیا میں سب سے بڑا عجوبہ کی بنیاد رکھی، لکھا کہ ایک طلاق کے بعد بیوی کسی سے نکاح کرلے تو پہلا شوہر بدستور بقیہ2طلاق کا مالک ہوگا۔ فقہ میں یہ صورتیں ہیں1:پہلی و تیسری طلاق واقع بیچ والی باقی 2:پہلی و تیسری طلاق باقی بیچ والی واقع۔ 3: پہلی دو طلاقیں باقی اور تیسری واقع۔ بخاری میں ہے کہ’’ بیوی کو حرام کہنا کھانے پینے کی طرح نہیں بلکہ تیسری طلاق ہے‘‘، حالانکہ سورۂ تحریم میں حرام اور مجادلہ میں ماں کہنے کا مسئلہ واضح تھا۔ علماء مل بیٹھ کر معاملہ سلجھائیں تو انقلاب آئیگا۔
امام ابوحنیفہؒ کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ یہ خرافات ان کی جانب منسوب ہونگے۔ یہ بعد کے لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ اور ظرف کے مطابق کیا کیا مسائل کھڑے کردئیے ، یہ مسلک کیلئے نالائق وکالتوں کا شاخسانہ ہے۔ قرآن و سنت میں واضح ہے کہ دومرتبہ طلاق کا تعلق طہروحیض کے پہلے دو مرحلوں سے ہے اور نکاح کے بعد ہاتھ لگائے بغیر طلاق دی تو پھر دو تین مرتبہ طلاق کا تصور ہی ختم ہوجاتاہے۔ عورت کی عدت میں شوہر کیلئے مشروط رجوع کا حق ہے ۔اصولِ فقہ کی کتابوں کا اکثر مواد ہاتھ لگانے سے پہلے کی تین طلاقوں اور انکی عجیب و غریب غیرفطری اور غیر شرعی صورتوں سے بھراہواہے۔ بڑے علماء کرام اور مفتیانِ عظام خود غرض بن کر نہ سوچین یہ عزتوں کا مسئلہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ عدت میں اور تکمیلِ عدت کے بعد رجوع ہے تو آیت کا مطلب کیا ہے کہ ’’فان طلقہا فلا تحل لہ اگر پھر اسکو طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہ ہوگی ۔۔۔‘‘۔ جواب یہ ہے کہ آیت سے متصل یہ صورت واضح ہے جس میں میاں بیوی اور فیصلہ کرنے والے باہوش وحواس متفق ہوجائیں کہ میاں بیوی ایکدوسرے سے ملنے پراللہ کی حدود پامال کرنے کا خدشہ محسوس کریں تو عورت کی طرف سے وہ فدیہ دیا جائے۔ اس صورت میں شوہر کے مزاج کا خیال رکھتے ہوئے یہ قید لگائی گئی کہ عورت جب تک دوسری شادی نہ کرے اس کیلئے حلال نہیں۔ درسِ نظامی میں اصول فقہ کی کتاب ’’ نورالانوار‘‘ میں جمہور فقہاء کا مؤقف بتایا گیا کہ اس طلاق کا تعلق دو مرتبہ طلاق سے ہے اور بیچ کی بات جملہ معترضہ ہے مگرحنفی مؤقف یہ ہے کہ ف تعقیبِ بلا مہلت کیلئے آتاہے اسلئے اس طلاق کا تعلق اس سے ماقبل بیان کردہ صورتحال سے ہے۔ ابن تیمیہؒ کے شاگرد علامہ ابن قیمؒ نے ایک طرف حضرت ابن عباسؓ کے قول سے حنفی مسلک کی تائید کردی کہ اس طلاق کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد سیاق وسباق کیمطابق عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی صورتحال سے ہی ہے اور دوسری جانب تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے فدیہ کے بارے میں لکھا کہ ’’یہ طلاق نہیں بلکہ الگ چیز ہے‘‘۔ حالانکہ حنفی مؤقف اور حضرت ابن عباسؓ کا قول ایک معاملہ کی وضاحت کرتے ہیں کہ فدیہ کے بدلے میں جو طلاق دی جائے وہی مراد ہے۔
سورۂ بقرہ میں اس آیت230سے پہلے اور بعد کی آیات میں عدت وعدت کے بعد باہمی رضاسے رجوع واضح ہے۔ دورِ جاہلیت نہیں اب باہوش وحواس کوئی طلاق دے تو عورت کو مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتا ۔برطانیہ میں لیڈی ڈیانا اسی جرم پر ماری گئی ۔ قرآن کا حکم تسلیم کروالیا جائے کہ شوہر بیوی کو تمام شروط وقیود سے طلاق دے، تو قرآنی آیت کیمطابق عورت کو اس کی مرضی سے شادی کرنے دی جائے۔ کوئی حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں مگرحیلوں سے معاشرہ حلالہ کی بے غیرتی کا عادی بنادیا گیا۔جب قرآن وسنت کے عظیم معاشرتی نظام کو سمجھ کر نافذ کرینگے تو مغرب بھی اسلام کے سامنے چت ہوجائیگا۔علماء کرام اپنے حال اور امت پر رحم فرمائیں۔
حضرت عمرؓ نے جھگڑے میں یکدم تین طلاق کو ناقابلِ رجوع قرار دیا، طلاق کے بعد قرآن کیمطابق شوہر غیر مشروط رجوع نہیں کرسکتا۔ ائمہ نے طلاق کا درست فتویٰ دیا، ورنہ عدت کے بعد عورت شادی نہ کرسکتی، عدت وطلاق لازم ملزوم ہیں۔ عدت ختم ہو تو طلاق کی ملکیت باقی نہیں رہتی۔ضعیف روایت پر مسائل کاغلط ڈھانچہ بنایاگیا۔ اسلامی قانون نے صنفِ نازک اور کمزور کو تحفظ دیا مگر طاقت نے اسلام کا بیڑہ غرق کردیا۔ علماء کا حق کا اعلان کریں تو بھلا ہوگا۔ عتیق گیلانی

قرآن کی آیات سے واضح انحراف کا معاملہ: عتیق گیلانی کی ایک تحریر

فاذا اخصن فان اتین بفاحشۃفعلیھن نصف ما علی المحصنٰت من العذاب ذٰلک لمن خشی العنت منکم وان تصبیروا خیرلکم ۔۔۔؛ومن یفعل ذٰلک عدوانًا وظلمًا فسوف نصلیہ نارًا۔۔۔Oترجمہ’’ جب لونڈی نکاح میں لاؤ، پھر اگر وہ فحاشی کی مرتکب ہوں،تو ان پر عام عورتوں کی نصف سزا ہے۔ یہ اس کیلئے ہے جو تم میں سے تکلیف میں پڑنے سے ڈرتا ہواور اگر تم صبر کرلو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ غفور رحیم ہے۔اللہ چاہتاہے تمہارے لئے واضح کرنااور تمہیں بتانا ان لوگوں کا طریقہ جو تم سے پہلے گزرچکے اور وہ تم پر توجہ چاہتاہے اور اللہ علیم حکیم ہے۔ اللہ چاہتاہے کہ تم پر توجہ دے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں انکی چاہت ہے کہ تم میلان کا شکار ہوجاؤ ، بہت بڑے میلان کا۔ اللہ چاہتاہے کہ تم سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا۔ اے ایمان والو! آپس میں اپنے اموال باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگریہ کہ رضا سے تجارت اور اپنی جانو ں کو قتل نہ کرو، بیشک اللہ تم پر نہایت رحم والا ہے اور جس نے حد سے تجاوز (دشمنی)اور ظلم سے ایسا کیا تو ہم اسکو عنقریب جہنم میں جھونک دیں گے۔ اور اللہ کیلئے یہ بہت آسان ہے۔( سورۂ النساء: آیات:25تا30)
منکوحہ لونڈی کو آدھی سزا بھی اس کیلئے جو مشکل میں پڑنے سے ڈرتا ہو۔ کیونکہ فحاشی سے رُکنا مشکل ہوسکتاہے،اگر سزا کے بغیر صبرکیا تو یہ بہتر ہے۔ منکوحہ لونڈی کیلئے50کوڑے تو آزاد منکوحہ کیلئے 100 ہیں۔ لونڈی سے شادی ٹھیک ہے بعضکم من بعض ’’تم ایکدوسرے سے ہو‘‘۔ تفسیرو ترجمہ میں حقائق سے انحراف ہے کہ ’’ لونڈی سے نکاح مشکل میں پڑنے سے ڈرنے کیلئے ہے صبر بہتر ہے‘‘۔ فحاشی پر عورت سزا کے بغیر گھر سے نکلے یالُعان کے ذریعے حق سے محروم ہو،یا کوڑوں کی سزا ہو۔ یہ سب صورتیں حلالہ کی بے غیرتی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقابلہ میں اسلام کو بڑاعروج بخشیں گی۔
اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ آزاد عورت کے مقابلہ میں لونڈی کی آدھی سزا پہلے امتوں میں بھی رائج رہی ۔ باربار اللہ نے باور کرایا کہ اللہ تم پر خاص توجہ چاہتاہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی والے چاہتے ہیں کہ تم میلان میں مبتلا ہو، بہت بڑے میلان میں (بڑا میلان کیا؟، سنگساری اور قتل کا حکم 100 کوڑوں کے مقابلے میں!)اللہ چاہتاہے کہ تم سے بوجھ ( سنگساری کی سزا ) کو ہلکا کردے ۔انسان کمزور پیدا کیا گیا۔ آیات کاواضح مفہوم بگاڑنے کی کوشش کے بعد سیدمودودی کی فصاحت بھی معاملات کو سلجھا نے کے کام نہیں آسکی۔ اگرسیاق وسباق کے مطابق قرآن کا ترجمہ و تفسیر ہو تولوگوں کو ہدایت ملے۔
مذہبی طبقہ وکیلوں کی طرح احکام کی تشریح بدل کر باطل مال نہ اُڑائیں مگر باہمی رضا سے تجارت۔ اور اپنی جانوں کو قتل مت کرو۔ بیشک اللہ بہت رحم والاہے۔ خواتین کو اکثر و بیشتر بدکاری کے جرم میں قتل کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، جے یوآئی ، جے یو پی، وحدت المسلمین، اسلامی نظریاتی کونسل ، قومی اسمبلی اور سینٹ وغیرہ اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کرکے یہ اہم معاملات زیرِ بحث لائیں تاکہ اسلامی قانون سازی کی راہ ہموار ہو۔
پھر اللہ نے مزید وضاحت کردی کہ ’’اگر یہ سب کچھ حد سے تجاوز (دشمنی) اور ظلم سے کوئی کرتاہے تو اس کو اللہ جہنم میں جھونک دیگا‘‘۔ غلط فہمی اور خلوص کی بنیاد پر حقائق سے قاصر لوگوں کیلئے وعید نہیں ۔ حضرت عمرؓ نے حضرت مغیرہؓ پر سنگساری کا حکم جاری نہ کیا ، اگر غلط فہمی میں جاری کردیتے تو بھی ان پر وعید کا اطلاق نہ ہوتا۔ حضرت علیؓ سنگسار کرنے کا حکم دیتے ،تب بھی وعید کے زمرے میں نہ آتے۔ علماء نے بھی خلوص کی بنیاد پر غلط فہمی سے مفہوم نہ سمجھا مگر اب ہمارے لئے سب سے بڑا اثاثہ قرآن وسنت ہے۔ مفادات کو مدِ نظر رکھ کر حقائق سے انحراف کرنے پر مذہبی طبقے یقیناًوعید کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
حدودو تعزیرات نہیں معاشرتی معاملات اور حقوق میں بھی قرآن وسنت میں بہت ڈنڈیاں ماری گئیں ۔ الفاظ کی جنگ میں مبتلاء مذہبی طبقے اسلام کے درست مفہوم سے فرقہ وارانہ تعصبات چھوڑ سکتے ہیں اور ملتِ واحدہ بن کر دنیا میں اسلامی نظام کو غلبہ دلاسکتے ہیں۔ اہل تشیع یہ کہہ دیں کہ ’’جو فرق حسینؓ اور یزید میں تھا، وہی علیؓ اور عمرؓ میں بھی تھا‘‘۔ تو ہم نہیں روک سکتے ۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یزید کا کردار غلط تھا اور امام شافعیؒ و امام مالکؒ مقدس ہستی تھے لیکن اگر وہ یزید کی جگہ حکمران ہوتے تو دینداری، فقہ وسمجھ اور خلوص کے باوجود یزید اور بنی امیہ وبنی عباس کے امراء کی نسبت اسلام کا زیادہ بیڑہ غرق کرتے ،اسلئے کہ کربلا کے شہداء سے اسلام کو اتنا نقصان نہ پہنچا جتنا بے نمازی کو قتل کرنے سے پہنچتا، ابوبکرؓ و عمرؓ سے زیادہ اسلام کو علیؓ کے اقتدار سے نقصان پہنچتا۔ عثمانؓ کی شہادت کی افواہ پر نبیﷺ نے بیعت رضوان لی، یداللہ فوق ایدیھم ۔ علیؓ کے پروردہ محمد بن ابی بکرؓ نے پہلے عثمانؓ کی داڑھی میں ہاتھ ڈالاتھا، حسنؓ و حسینؓ دروازے پر حفاظت کر رہے تھے۔سنی عشرہ مبشرہؓکی لڑائی کومنافقت نہیں سمجھتے جو جنگِ صفین و جمل برپا ہوئی تھی۔اہل تشیع کا اس کومذہبی رنگ دینا اور اسلاف سے بدظنی غلط ہے ۔خوارج بھی علیؓ کا لشکر تھے ،پھر برگشتہ ہوئے۔ منصبِ خلافت سیاسی مسئلہ تھا۔ امام حسنؓ نے دستبردارہو کر شیعہ اور خوارج کی اصلاح کی ۔اگرخلافت کا پسِ منظر سیاسی نہ ہوتا تو مسلم اُمہ شروع سے مذہبی تفرقے کا شکار بنتی۔ شیعہ کا ایران وشام اورعراق میں اقتدار کامیاب ہے؟۔ خلافت مذہبی مسئلہ ہوتا تو علیؓ کا اختیارسونپ دینا، حسنؓ کی دستبرداری، حسینؓ کی طرف سے واپسی کے مطالبے سے لیکر آخری امام کی غیبت تک ذمہ داری ائمہ پر پڑتی،اسلئے تو خوارج نے علیؓ اور اسماعیلیہ نے حسنؓ کی امامت کا انکار کیا تھا۔
حضرت علیؓ نے فرمایاکہ ’’میں یہود کو توراۃ، نصاریٰ کو انجیل اور مسلمانوں کو قرآن سے فیصلہ دونگا‘‘ ۔ بظاہریہ خوش آئند ہے مگر توراۃ میں تحریف، انجیل میں حدود وتعزیرات نہیں اور قرآن میں واضح ہے: ومن الذین ھادوا ۔۔۔ یحرفوں الکلم من بعد مواضعہ۔۔۔ ؛فان جاء و ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم وان تعرض عنھم فلن یضرک شےءًاوان حکمت فاحکم بینھم بالقسط ۔۔۔ المائدہ: 41، 42۔اور یہود ۔۔۔ بات کو اپنی جگہوں سے ہٹاتے ہیں ۔۔۔ اگرآپکے پاس آئیں تو انکے درمیان فیصلہ کرو یا ان سے کنارہ کشی کرو، اگر اعراض کرو تو آپ کو نقصان نہیں پہنچاسکتے اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو‘‘۔ قرآن وتوراۃ کا حکم برابر ہوتو ٹھیک اگر نہیں تو قرآن برحق ہے اور یہی انصاف کا تقاضہ بھی۔ تفصیل آگے دیکھئے۔

فرقہ واریت کا بیج بونے والے غلام احمد پرویز پر اشرف میمن کا تبصرہ

نوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا : پاکستان میں فرقہ پرستی،متعصبانہ رویہ اور قتل وغارتگری میں نادیدہ قوت ملوث قرار دی جاتی تھی لیکن اس کی نشاندہی کرنے میں ریاست، علماء، دانشور، حکمران کامیاب نہ ہوسکے ۔ غلام احمد پرویز نے بڑاباریک کام کیا، قرآن کا نام لیکر فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی قرآن کے مقابلہ میں بہت سی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ حنفی مسلک کا ماحول غلام احمد پرویز کی پذیرائی کا بہت بڑا سبب بنا ، وہ روانی سے قرآنی آیات کے ترجمے اور مفہوم کو بیان کرتا تھا، پڑھا لکھا طبقہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا، بیوروکریسی افسران کی زیادہ تر تعداد غلام احمدپرویز کو اپنا مذہبی پیشوا مانتی ہے، علماء نے پرویز پر انکارِ حدیث کافتویٰ لگادیامگر اس کا کیا اثر پڑتا؟۔ علماء خود بھی تو اہلحدیث کی مخالفت کرتے تھے۔ غلام احمد پرویز نے ایک تو حدیث کی صحاحِ ستہ کو ایران و شیعہ کی بہت بڑی سازش قرار دیا۔ دوسرا یہ تشہیر کی کہ قرآن میں بہتان کا واقعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے متعلق نہ تھا، اس کو سازش کے تحت درج کیا گیا تاکہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی سیرت کو داغدار بنایا جاسکے۔ واقعہ کسی عام خاتون سے متعلق تھا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگادیا جاتا تو توہین رسالت و اذیت رسولﷺ کی وجہ سے 80کوڑے کی سزا نہ ہوتی بلکہ یقیناًان کو قتل کیا جاتا۔ جب پرویز کی اس فکر کو لکھے پڑھے طبقہ نے قبول کیا تو سنی مکتبۂ فکر میں اس واقعہ سے متعلق روایتوں کوشیعہ کی سازش قرار دیاگیا۔ جنکے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شیعہ نے اتنی بڑی سازش کی تو ان کو قتل کرنا ثواب سمجھا گیا۔ ہم غلام احمد پرویز اور اس کے ساتھیوں پر سازش کرنے کا الزام لگانا تو بہت دور کی بات ہے کوئی شبہ تک نہیں کرتے۔ جس طرح مولانا طارق جمیل نے نماز کیلئے پر جوش خطاب کیا اور فون کی بیل بنادیاگیا، اسی طرح غلام احمد پرویز کا پروگرام قتل وغارتگری نہ تھا۔ بیوروکریسی کی ذہنیت میں’’ اسٹیٹس کو‘‘کا خمار بڑی بات نہیں جیسے تبلیغی جماعت کے دل میں نماز کا خمار بیٹھ جاتاہے ۔ نماز کا پڑھنا بہت ہی زبردست کام ہے جو شرک، کفر، بے حیائی اور منکرات سے روکنے کا زبردست ذریعہ ہے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گرا ں سمجھتاہے ہزاروں سجدوں سے دیتاہے آدمی کو نجات
اسٹیٹس کو اور فرقہ پرستی نے بیڑہ غرق کردیا، پرویز اور مولاناالیاسؒ برابر نہیں ہوسکتے۔ یاد رہے کہ فرقہ پرستی واسٹیٹسکوکا باہمی تعلق سمجھے بغیرفتنہ وفساد ختم نہ ہوگا۔
غلام احمدپرویز نے نیک نیتی سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دفاع کیلئے اپنا نظریہ پیش کردیا، قبول کرنیوالے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بیوروکریسی اور حب رسولﷺ سے سرشارعوام تھی۔ بڑا افسر اپنے چپڑاسی اور چوکیدار کی عزت اپنے برابر نہیں سمجھتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓکے ناموس کو کسی عام خاتون کے برابر سمجھا جائے؟۔ ہمیں ان کی نیت، ایمان، خلوص، علم، سمجھ اور کسی بھی وہم وگمان پر ذرا بھی سازش کا کوئی شبہ نہیں ہوسکتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، اٹل حقیقت ہے، واضح حقیقت ہے، بے باک حقیقت ہے ، رب ذولجلال کی طرف سے انسانی وہم وگمان اور عام ماحول سے بالکل ہی بالاتر حقیقت ہے کہ بہتان ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر ہی لگایا گیا تھا۔ اس کی سزا بھی ایک عام خاتون کے برابر 80کوڑے کا حکم دیا۔ یہی نہیں بلکہ حضرت ابوبکرؓنے قسم کھائی کہ میں آئندہ ان بہتان لگانے والوں پر احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل کیا کہ مالداروں کی یہ شان نہیں ،احسان جاری رکھنا چاہیے۔( سورۂ نور)
تکبر ورعونت اور جاہلیت کے سرکردہ انسانوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اپنے برابر اپنے سے کمتر لوگوں کی عزت کا احسا س نہیں رکھتے ۔ یہ معاملہ اتنا باریک اور خطرناک ہوتا ہے کہ شیطان نے جنت میں اسی بات کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ اس نے تکبر اسلئے کیا کہ حضرت آدمؑ کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آگ سے پیدا کیا گیا۔ نبیﷺ نے عرب و عجم ، کالے گورے، سب رنگ ونسل والوں کو ایک آدمؑ کی اولاد قرار دیا لیکن اسلام نے جو سبق دیا تھا وہ ہم بھول گئے۔ انگریز کے پروردہ جاگیردار،سرمایہ داراورساختہ وپر داختہ بیوروکریسی میں نشو ونما پانیوالے دماغ کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آسکتی کہ عام عوام کی عزتیں دن رات لٹتی ہیں ، صبح و شام تماشہ لگتاہے اور کوڑی جتنی عزت رکھنے والی خواتین کی چیخ و پکار کو کچرا کنڈی میں ڈال دی جاتی ہے۔ جو ایسا ڈاکخانہ ہے کہ اس کی ہر ڈاک منوں مٹی میں دبا دی جاتی ہے، یا ری سائیکل کرکے اس کی شناخت تک مٹادی جاتی ہے اور اگر اس کی شناخت قائم بھی رہتی تو کون سے نتائج اسکے نکل سکتے ہیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے جان ، آنکھ، کان، ناک اور دانت کے بدلے میں کوئی فرق نہ رکھا۔ سب کیلئے یکساں قانون بنایا۔ عزت پر بھی یکساں حد نافذ کا حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اعلیٰ اخلاقی نمونہ قرار دیا۔ معاشرے میں کوئی طاقتور اپنی عزت کو کسی کمزور کے برابر نہیں سمجھتاہے ، اس روایت کو اسلام کے ذریعے ختم کردیا۔ طاقتور اور کمزور کی جان وعزت قانون کی نگاہ میں برابر ہوگی تو فتنہ وفساد اور خود کُش حملوں کیلئے کسی کو افراد میسر نہیں آئیں گے۔ دنیا کے سامنے قرآن و سنت کا یہ قانون آئیگا کہ جان اور انسانی اعضاء آنکھ، کان، ناک اور دانت میں تو برابری ہی ہے مگر اسلامی قانون میں عزتوں کا بھی کوئی فرق نہیں تو دنیا میں یہ بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنے گا اور سب سے پہلے پاکستان کی بیوروکریسی نے اس کا اعلان کرنا ہے اسلئے کہ جب ہمارا آئین پابند ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی تو یہ کونسا اسلام ہے کہ افتخار چوہدری کی ہتک عزت کا دعویٰ 20ارب ہو اور نعیم بخاری کی بیوی بھی چھن جائے تو اُف نہ کرسکے؟۔اس کو قرآن وسنت کے مطابق نہیں قرار دیا جاسکتا کہ شوہر اپنی بیوی کی ناک کاٹے، دانت توڑے اور کسی کمزور اورغریب سے جو سلوک روا رکھے اس پر قانون کی گرفت نہ ہو۔ ناک کے بدلے جیل کا قیدی بنانا بھی غلط ہے ، ناک کے بدلے میں ناک کاٹی جائے تو کوئی یہ جرم نشہ پی کر بھی نہ کریگا۔
دنیا میں اسلامی قانون سب سے ممتاز ہے اور اخلاقیات کے درس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، اس سے بڑھ کر کیا اعلیٰ اخلاق ہونگے کہ حضرت ابوبکرؓ جس رشتہ دار پر احسان کررہا تھا، اسی حضرت مسطح رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا تھا۔ صحابہؓ سے بڑھ کر جذبہ کس کا ہوسکتاتھا؟ اور حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ کس کو تکلیف ہوگی؟۔ پھر احسان جاری رکھنے کا حکم کس قدر اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدار کا نمونہ ہے۔ قرآن تعصبات کی آگ بھڑکانے کے بجائے عزت،جان اور مال کوکتنا تحفظ فراہم کرتاہے ؟ اور کتنے اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ترویج کرتاہے؟۔ غلام احمد پرویز نے سب کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا الیاسؒ نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ اسٹیٹس کو توڑدیا تھا۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحت کیساتھ بستر اٹھاکر گھوم رہے ہوں، ساتھ کھا پی رہے ہوں تو خاکساری اور تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سید عتیق گیلانی کے مرشد حاجی عثمان میمنؒ نے بھی اس جماعت میں بہت وقت لگایا تھا، حاجی عبدالوہاب سے پہلے کے بزرگوں میں تھے ۔ حاجی محمد عثمانؒ تبلیغی جماعت کے اندر بھی اسٹیٹس کو کے مخالف تھے۔ عوام کیساتھ اجتماعات میں بیٹھتے اور عوام کیساتھ دسترخوان پر کھاتے ۔ اسی وجہ سے یہ تأثر پیدا کیا گیا کہ ان کی وجہ سے تبلیغی جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہوسکتی ہے۔ عوامی اجتماعات میں انکے بیانات پر پابندی لگی، اس صورتحال کا مولانا طارق جمیل کو بھی کافی عرصہ سامنا رہاہے۔ ’’حاجی عثمانؒ کے خلیفہ سرورالنورسوسائٹی گلبرگ کراچی کی جماعت میں بدمعاش قمر ٹیڈی ایک نوعمر لڑکے کو ساتھ لیکرگھمارہا تھا تو عتیق گیلانی نے اسکی شکایت مکی مسجد میں شوریٰ سے بھی کردی کہ تبلیغی جماعت میں لوگ اصلاح کیلئے اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں‘‘۔ اگر مولانا الیاسؒ ہوتے تو ہماری تحریک کے بنیادی نکات کو اجاگر کرنے کا ٹاسک دیتے ۔جماعتی اکابرین کو چاہیے کہ مشاورت سے مثبت فیصلہ کریں،ورنہ مساجد پر قبضہ کرنیوالے غنڈے پھرجماعت پر بھی قابض ہونگے محمداشرف میمن

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بہت واضح تصور. عتیق گیلانی کی تحریر

اللہ نے معروف کا حکم و منکر کو روکنے پر امت کو بہترین قرار دیاہے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر’’تم بہترین امت ہو، نکالی گئی ہے لوگوں کیلئے، تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو‘‘۔ نماز ،روزہ، زکوٰۃ اورحج عبادات ہیں ، یہ معروف ہیں۔ قتل، زنا، شراب ، چوری، ڈکیتی اورجوا وغیرہ منکرات ہیں۔ فقہ میں کتاب الطہارت، کتاب الصلوٰۃ، کتاب الصوم اور کتاب الحج کے علاہ کتاب الحدود بھی ہے۔ حدود وتعزیرات کا تعلق جرائم اور سزاؤں سے ہے۔ یہ بہت بڑی نادانی ہے کہ معروف اور منکر کو خلط ملط کیا جائے۔ معروف و منکر کی تمیز ختم ہونے کی پیش گوئی احادیث میں ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج معروف احکام ہیں کسی کو زبردستی سے معروف پر مجبور نہیں کیا جاسکتا آذان حی علی الصلوٰۃ واقامت قدقامت الصلوٰۃ میں جبر کا عنصر نہیں۔ تبلیغی جماعت نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھ دی اسلئے کہ دین میں زبردستی کے تصور کو ختم کرکے تبلیغ، فضائل، تعلیم اور تلقین کو بنیاد بنادیا۔ طالبان نے نماز کے جبر کے تصور سے علماء ومفتیان کے مسلک پر عمل کیا لیکن اسلام کے خمیر سے ناواقفیت کی وجہ سے دین کو نقصان پہنچایا۔
خلافت کے اختلاف سے انصارؓ ومہاجرینؓکے درمیان فتنہ برپاہوتے ہوتے بچ گیا۔ ابوبکرؓ کی خلافت پر اکثریت نے اتفاق کیا لیکن اس اتفاق کے باوجود انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ پر خلافت سے انحراف کی وجہ سے کفر یابغاوت کا کوئی فتویٰ نہیں لگا۔ کم ظرف علماء و مفتیا ن کے پاس علم ودانش اور فقہ و حکمت کا فقدان نہ ہوتا تو خلافت کی اس جمہوری وسعت کو دنیا کے سامنے پیش کرتے کہ اسلام کی اعلیٰ وارفع تعلیمات کا یہ نتیجہ تھا کہ جبر نہیں کیاگیا۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے لُعان کی آیات پر عمل کرنے سے صاف انکار کیا ۔ لعان کی آیات میں وضاحت ہے کہ کوئی اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی کیساتھ بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو اسکے خلاف عدالت میں چار شہادات ان الفاظ سے دے گا اور پانچویں ان الفاظ سے دے گا۔ اس طرح عورت کیلئے جملے لکھے گئے ہیں۔زنا منکر ہے اور قتل بھی منکر ہے۔ زنا کی سزا100کوڑے اورقتل کی سزا قتل ہے۔ بیوی پر غیرت کھانا ایمان کا تقاضہ ہے۔ اس منکر کو جاری چھوڑنا بے غیرتی اور بے ایمانی بھی ہے۔ اس کو ہاتھ سے روکنا یہ ہے کہ علیحدگی اختیار کرلے، حقوق سے محروم کرنا چاہے تو لعان کرے اور حقوق سے محروم نہ کرنا چاہے تو سورۂ الطلاق کے مطابق گھر سے نکال دے۔ بیوی سے زیادہ غیرت تو کوئی کسی اور منکر پر بھی نہیں کھا سکتاہے؟۔ نماز کا چھوڑ دینا گناہ ہے مگر زبردستی سے نماز پڑھنے پر مجبور کرنا غلط ہے،حالت جنابت یا بے وضونماز پڑھ لے گا تو ؟۔نبیﷺ نے اسلام کے اجنبی بننے کی خبر بہت کچھ دیکھ کر دی تھی۔
سعد بن عبادہؓ نے کہا کہ قرآن پر عمل نہیں بیوی کو قتل کردونگا۔ رسول اللہ ﷺ تک جب بات پہنچی تو انصارؓ سے فرمایا کہ تمہارا صاحب کیا کہتاہے؟۔ انصارؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ درگزر فرمائیے، یہ بہت غیرتمند ہے، کبھی طلاق شدہ یا بیوہ سے شادی نہیں کی،ہمیشہ شادی کنواری سے کی اور جس کوطلاق دی اس کو کسی اور سے شادی نہ کرنے دی ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔(صحیح بخاری)۔ انصارؓ نے گرچہ حضرت سعدؓ کیلئے درگزر کا مطالبہ کیا مگروہ بھی قتل کرنا غیرت کا تقاضہ سمجھتے تھے اور جب وہ سمجھتے تھے تو پھر ان کا کیا قصورہے جو نہ صحابہ ہیں اور نہ قرآن کو سمجھتے ہیں۔بیوی اور لونڈی میں بڑا فرق ہوتاہے، سامنے اور پسِ پردہ میں بھی بڑا فرق ہوتاہے ، یقین اور شک میں بھی بڑا فرق ہوتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بالکل سچ فرمایا کہ میں سعد بن عبادہؓ سے زیادہ غیرتمند ہوں ، نبیﷺ کو شک ہوا کہ آپﷺ کی لونڈی ماریہ قبطیہؓ سے اسکے ایک ہم زبان کا ناجائز تعلق ہے تو حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ اس کو قتل کرو، حضرت علیؓ نے اس کو ڈھونڈا ، تو ایک کنویں میں نہا رہاتھا، جب اس کو باہر نکالا تو اس کا ذکر کٹا ہوا تھا، اسلئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ نبیﷺ کی ازواج سے آپؐ کی وفات کے بعد بھی نکاح نہ کیا جائے، اس سے آپﷺ کو اذیت ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ بھی سب سے زیادہ غیرت والا ہی سمجھتا تھا۔ اپنے احکام کو عملی جامہ پہنانے کی حکمت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان کا واقعہ پیش ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو گھر جانے دیا۔ پھر اللہ نے آپؓ کی صفائی پیش کردی۔ یہ واقعہ محض دکھ اور اذیت پہنچانے کا ذریعہ نہ تھا بلکہ بہت بڑاسبق اور زبردست نکات ہیں۔
1: بہتان ایک منکر ہے ، سزا 80کوڑے ہے۔2: امیر غریب کی عزتوں میں تفریق نہیں۔ 3:گواہی کے بغیر سزا نہیں۔4: بیوی پر فحاشی کا یقین ہو تو گھر سے نکالا جاسکتاہے۔ 5: کسی جھوٹی خبر کو پھیلانے کی غلطی کرنے سے زبان روکی جائے۔6: زنا کار مرد، عورت کی سزا قرآن میں 100 کوڑے ہے۔ 7: بہتان لگانے کی غلطی پر بھی کوئی غریب ہوتو احسان کا سلسلہ جاری ہی رکھا جائے۔ 8: رسول اللہﷺ کو اذیت پر قتل کا حکم نہ دیا۔ 9: چھان بین ہو۔ 10:توراۃ کاحکم نہیں قرآن معتبرہے۔
مسلم اُمہ کابڑا المیہ ہے کہ آیات کو قبول کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتاہے۔ ایک معروف اور منکر وہ ہیں جن کو معاشرے میں معروف یا منکر کہا جاتاہے اور دوسرے معروف ومنکر وہ ہیں جن کو قرآن میں معروف ومنکر کہا گیا، آج کسی بڑے آدمی کی بیوی پر بہتان لگایا جائے تو وہ اربوں روپے ہتک عزت ہی کا دعویٰ کریگا ، حالانکہ جسکے پاس بہت زیادہ دولت ہو تو اس کیلئے یہ کوئی سزا بھی نہ ہوگی۔ اور غریب آدمی کیلئے تھوڑا سا جرمانہ ادا کرنا بھی 80کوڑے کھانے سے بڑی سزا ہوگی۔ غریب آدمی کی عزت کو جس دن امیر کی عزت کے مساوی سمجھا جائے گا تو یہ قرآن کا بہت بڑا انقلاب ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں بھی کھلی ہوئی فحاشی کے ارتکاب کی صورت میں بیوی کو گھر سے نکالنے اور اس کو خود نکلنے کی اجازت دیدی ۔ انصارؓکے سردار سعد بن عبادہؓ نے قرآن کو سمجھ کر بھی قرآن کے قانون کو معاشرے کے رسم ورواج کے مطابق قبول نہیں کیا تو ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا، پھر جو ان پڑھ یا قرآنی تعلیمات سے جاہل طبقہ قرآنی آیت کو قبول نہ کرے تو اس پر فتویٰ کیوں لگایا جائے؟ لیکن بیوی بیٹی،یا ماں بہن کو قتل کرنا قرآن کی آیات سے انحراف ہے۔ مساجدو مدارس کے ارباب محراب ومنبر خود بھلے اس پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن عوام کو قرآن سے تو آگاہی دیں۔شاید کوئی عمل کرہی لے۔
پاکدامن عورت پر بہتان کی سزا80کوڑے کی طرح نہ سہی مگر بہتان کی سزا چند کوڑے بھی مقرر کئے جائیں اور ٹی وی پر اس کا نظارہ دکھایا جائے تو ہماری قوم کافی حد تک ادب وآداب سیکھ جائے گی۔ بولنے سے پہلے تولنے کی عادت پڑیگی ۔ لیڈر حضرات قوم کو اخلاقیات کی تعلیم دینگے۔ کوڑوں کی سزا سب کیلئے برابر اسلئے ہوتی ہے کہ درد سب کو ہی ہوتاہے اور بے عزتی سب کو بری لگتی ہے۔ جب سزا کا تصور ہوگا تو اس قوم کو مہذب بننے میں بالکل بھی دیر نہیں لگے گی۔ قرآن کی روشنی میں ایک ضابطہ اخلاق پر سب متحدو متفق ہوجائیں تو دنیا میں ہماری امامت مانی جائیگی۔لندن میں جیو ٹی وی چینل کے مطابق اے آر وائی کے پاس جرمانے کی رقم نہیں تھی تو چینل بند کردئیے گئے۔ اگر کوڑوں کی سزا ہوتی تو دنیا کو دکھادیا جاتا کہ کوڑے لگ رہے ہیں،کوڑے کھانے کیلئے پیسے ہونے کی ضرورت تو نہیں ہوتی۔ اے آر وائی بی بی سی پر کیس کردے کہ ہمارے وزیراعظم کی فیملی کو بدنام کیاہے اگر ثبوت نہ ہوں تو جرمانے کی رقم سے اپنا جرمانہ بھر لیں اور اگر ثبوت مل گئے تو اے آر وائی اپنے مقاصد میں بھی سرخرو ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی فرمایا کہ ’’ احسن طریقہ سے مجادلہ کرو، اس کی وجہ سے جس شخص کے ساتھ عداوت ہو وہ بھی ایسا ہوجائیگا کہ گویا وہ آپ کاگرم جوش دوست تھا‘‘۔ یہ بھی فرمایاہے کہ ’’ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں، جس سے اسکا بھیجا نکل جاتاہے اور وہ دفعۃً مٹ جاتاہے‘‘۔ قرآن میں دونوں طرزِ عمل کی ایک ایک بہترین مثال ملاحظہ فرمائیں تاکہ دماغ کی شریانیں کھل جائیں اور ہٹ دھرم و کٹر حجتی لوگوں کو حقائق سمجھنے میں کوئی بھی دشواری بالکل بھی نہ رہے۔
مشرک جوڑے میاں بیوی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے اعلیٰ وارفع تہذیب وتمدن ،ادب اور اخلاق کا بہترین و شاندار طرزِ تحریر کا بے مثال نمونہ پیش فرمایا ہے کہ ’’ جب اس نے ڈھانپ لیا تو اس کو حمل ہوا، خفیف سا حمل، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو اللہ سے دونوں نے دعا کی کہ ہمارے رب ہمیں صحت مند بچہ عنایت فرما، جب اللہ نے انکو صحت مند بچہ دیا تو اللہ سے شرک کرنے لگے‘‘ مشرک جاہلوں کیلئے اللہ نے جن کلمات سے ازدواجی عمل کا تذکرہ فرمایاہے ،اس سے زیادہ اچھے الفاظ میں میاں بیوی کے درمیان تعلق اور بچے کی پیدائش کا تذکرہ کرنا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
اب آئیے اور دیکھئے کہ مسلمان جب تہذیب وتمدن ، اخلاقیات اور انسانیت کے دائرے کا ادراک رکھنے کے بجائے انتہائی جہالت کا طرزِ عمل اپنانے کی طرف راغب ہوجائے تو اسکو کیسے بری طرح سے لتاڑا ہے، اسکے ضمیر کو پاش پاش کردیا، اس کی روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محرمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ تمہارے پر حرام ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں۔۔۔ بہن، بھانجی، بھتیجی، خالہ وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے بیوی کی مائیں اور تمہاری وہ سوتیلی بیٹیاں جن کی پرورش تمہارے گھروں میں ہوئی ہے جن کی ماؤں سے تم نے نکاح کیا ہے اور ودخلتم بھن جنکے اندر تم نے ڈالا ہے اور اگر تم نے ان کی ماؤں میں نہیں ڈالا ہے تو تمہارے لئے حلال ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ڈالنے کے الفاظ کا انتخاب اسلئے فرمایا ہے کہ ایک بدبخت شخص کسی طلاق شدہ یا بیوہ سے نکاح کرلے اور اس کی چھوٹی بچیاں ہوں، جب وہ جوان ہوجائیں تو اس کی نیت خراب ہوجائے کہ وہ پرائی بچیاں ہیں، ان سے نکاح یا ناجائز تعلق کے حرص میں پڑ جائے، اسلئے ان الفاظ سے روکنے کی بات کی گئی ہے۔ چند سال پہلے اس طرح کا ایک واقعہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں پیش آیا، خاتون نے اپنے خاوند کے ٹکڑے کرکے اس کو بڑے دیگ میں ڈال کر مرچیں اور مصالحے ملا کر پکایا تھا۔
جہاں کوئی بڑی خسیس اور ہلکی قسم کی حرکت کا مظاہرہ کرے، وہاں نرم الفاظ میں تلقین اور ارشاد کی کوشش اپنے ساتھ بھی دھوکہ ہے اور معاشرے کیساتھ بھی انصاف کا یہ تقاضہ نہیں ۔ اگر سخت الفاظ میں بات سمجھائی جائے تو پھر غلط حرکت سے بھی مخاطب بہت پرہیز کرتا ہے۔ بقول اقبالؒ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
مولانا طارق جمیل نے کہا ’’ جس زمین پر سجدہ ادا نہ ہو، اس سے بھی بڑا کوئی جرم ہے؟۔ زنا کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں نماز کا چھوڑ دینا زنا سے بڑا جرم ہے۔ رشوت کو گناہ سمجھتے ہیں، نماز کا چھوڑ دینا رشوت سے بڑا جرم ہے ۔ قتل کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں ، نماز کا چھوڑ دینا قتل سے بڑا جرم ہے۔شیطان نے سجدے ہی کا توانکار کیا تھا، شیطان نے کوئی زنا کیا تھا؟ کوئی شراب پی تھی؟ کوئی جوا کھیلا تھا؟ کیا کیا تھا؟ کوئی شرک کیا تھا؟ شیطان ۔۔۔‘‘۔ یہ تقریرجماعت کی روح ہے،جو مجرموں کی پناہ گاہ ہے اور یہ عیسائی مشنری کیلئے اثاثہ ہے ۔ مولانا الیاس قادری نے گناہ سے بچنے کیلئے ایک نیا مدنی پھول متعارف کرایاکہ باتھ روم میں گھر کے افراد مرد و خواتین ایک چپل استعمال کرتے ہیں جو گناہ ہے۔ اگر کموڈ ایک ہو تو ۔۔۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری نے کہا تھا کہ پاخانہ کرنے کے بعد جو پھول نکلتا ہے اگر دھونے کے بعد سکھا نہ لیا اور یہ واپس چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائیگا۔ بہار شریعت میں لکھا ہے کہ عورت میت کا عضوتناسل اپنے فرج میں داخل کرے تو غسل واجب نہیں‘‘۔ یہ خرافات ۔۔۔ اسلام کے نام پر ہیں۔
معروف اور منکر ماحول عوام کے سامنے بنتاہے۔ تبلیغی جماعت کا ماحول ایسا ہے کہ نماز چھوڑ نے کو تمام گناہوں ، جرائم اور غلط کاریوں سے زیادہ بڑا سمجھا جاتاہے۔ میرے دادا سید محمد امیر شاہ باباؒ کے بارے میں میری والدہ نے بتایا کہ زندگی میں ایک نماز قضا ہوگئی تھی تو اس پر بہت زیادہ خفا تھے اور بہت روتے تھے کہ پکڑ ہوئی تو کیا حشر ہوگا؟۔ اس وقت تبلیغی جماعت کا وجود بھی نہیں تھا، دادا سے بڑے عالم اور اللہ والے پردادا سید محمد حسن شاہ عرف بابوؒ تھے،ان سے زیادہ انکے پرداداسید یوسف شاہ کے پردادا حضرت سیدشاہ محمود حسن دیداریؒ تھے ، ان سے زیادہ انکے والد سید محمدابوبکر ذاکرؒ اور ان سے زیادہ انکے والد حضرت شاہ محمد کبیرالاولیاءؒ تھے، ان سے زیادہ ہمارے چوبیسویں پشت میں حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ تھے، ان سے زیادہ حضرت امام حسنؓ اور ان سے زیادہ امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہ تھے۔ صحاح ستہ کی حدیث ہے کہ رسول ﷺ فجر کی نماز کی تلقین کیلئے حضرت علیؓ کے پاس گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ جب اللہ سلادیتاہے تو پھرہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ جس پر نبیﷺ نے اپنے زانو مبارک پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ ’’ ان الانسان اکثر شئی جدلا۔ بیشک انسان اکثر باتوں میں جھگڑالو ہے‘‘۔
امام حسنؓکے بارے میں نبیﷺ نے فرمایاکہ ’’یہ میرا بیٹا سید ہے اسکے ذریعہ اللہ امت کے دو بڑی جماعتوں میں صلح کرادیگا‘‘۔ امام حسنؓ کی اولاد میں سے ایک اہلبیت کی بھی نبیﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ حضرت عبدالمطلب نے نبیﷺ کے بارے میں پیشگوئی کی تھی اور حضرت ابوطالب، عبدالمطلب نے ایام جاہلیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ہاشم سے اسماعیل ؑ اور ابراہیمؑ تک ایک مبارک شجرہ نسب تھا۔ ابوطالب کے بارے میں کہا جاتاہے کہ حضرت علیؓ کو حکم دیا تھا کہ رسول اللہﷺ کیساتھ بھرپور معاونت کریں، ایک دن نماز پڑھتے دیکھا تو ابوطالب نے نماز کی دعوت پر کہا کہ’’ خدا کی قسم مجھ سے ایسے چوتڑ نہیں اٹھائی جائے گی‘‘۔ میرے والد پیر مقیم شاہ نے چندوں کے بغیر اپنے خرچہ سے عالی شان مسجد بنوائی تھی، نماز کے بارے میں کہتے تھے کہ’’ پڑھنا اچھی بات ہے لیکن نماز کے چھوڑ دینے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر کسی انسان کی کوئی ضرورت ہو تو اس کو پورا نہ کرنے پر اللہ نہ چھوڑے گا، اسلئے کہ اللہ خود مدد کیلئے نہیں اترے گا‘‘۔ میں بذاتِ خود ایسی کیفیت سے گزرا ہوں کہ ہر حرکت ، سانس اور قول وفعل کو اسلام کے مطابق کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کیساتھ بہت سی غلط فہیماں دور ہوگئیں۔ اسلام کے بنیادی احکامات سے روگردانی کرکے چھوٹے چھوٹے خود ساختہ مسائل میں الجھنا دھوکہ ہے۔اس دھوکہ سے نکالنے کیلئے سخت زبان استعمال کرنی پڑتی ہے ورنہ مذہبی طبقے بیچارے سیدھے ہیں۔
ٹانک کے قرب و جوارمیں ایک 18سالہ دوشیزہ نے دعویٰ کیا کہ وہ لڑکا بن گئی ہے۔وہ ہندکو اسپیکنگ اور خاندان سید کہلاتا تھا۔ بایزید انصاری کی اولاد میں ایک شخص نے اس پر اپنی دکان سے مٹھائیاں نچاور کردیں۔ ٹانک سے اسلام آباد،لاہور اور کراچی تک عوام نے اس کا استقبال کیا اور اخبارات میں بڑی شہرت ملی۔ حکومت نے اسکا میڈیکل معائنہ کرنے کیلئے ڈاکٹروں کی ٹیم تشکیل دی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ یہ اس کی توہین ہے۔ وہ زنانہ لباس ہی پہنتی تھی اور اپنے سینے کو دوپٹے سے چھپاتی تھی۔ لوگ اس کو ولی اور بہت بڑی صاحب کرامت سمجھ کر دیدار کو ترستے تھے۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ یہ بکواس کرتی ہے۔ میڈیکل ٹیم پر کہا کہ عوام کے سامنے پیشاب کرلے تو پتہ چل جائیگا کہ اس کی دھار کہاں تک جاتی ہے۔ لوگوں نے پوچھاکہ کیا اللہ ایسا نہیں کرسکتاہے تو والد صاحب نے کہا کہ اللہ کرسکتاہے مگر کرتا نہیں یہ اس کی عادت نہیں ۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ والدصاحب گستاخانہ لہجہ استعمال کرکے برا کررہے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ فراڈ ہے، اس نے اپنے منگیتر سے جان چھڑانے کیلئے ایک ڈرامہ کیا اور اس کے نتیجے میں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ پشتو گانے کا ایک شعر ہے کہ ’’گپ لگار ہا تھا، گپ شپ میں بات سچی ہوگئی اور میری محبت گئی اور دنیا میں مشہور ہوگئی‘‘۔
دوشیزہ کا بھانڈہ پھوٹا کہ عورت ذات نے شادی کرکے بچوں کو جنا ۔ مولانا طارق جمیل نے تقریر سے مخصوص مذہبی طبقے کو خوش تو بہت کیا، جن کی آنکھوں سے پردہ اٹھنے میں شاید دیر لگے مگر خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، اسکی حالت اس دوشیزہ سے قطعی مختلف نہیں ۔افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی حکومت1919 ؁ء سے 1929 ؁ء تک رہی۔ پلاننگ میرے دادا سید محمدامیر شاہ باباؒ کے ہاں ہوئی تھی، پیر سعدی گیلانی المعروف شامی پیر جرمنی کے تعاون سے قبائل کو اٹھاکر افغان حکومت بدلنا چاہ رہا تھا۔ شروع میں علماء نے عوام کو اٹھاکر جلسے جلوس کئے کہ یہ انگریز میم ہے، کیونکہ شامی پیر کی عمرکم اور داڑھی نہ تھی ،جب بیٹھ کر بات ہوئی تو شامی پیر سگریٹ کے کش لگاکر دھواں علماء کی داڑھیوں میں چھوڑ رہا تھا۔ پیسہ دیکھنے کے بعد علماء نے اس کو مجاہد، عالم اور پیر طریقت سب کچھ مان لیا، جیسا آج علماء سیاستدانوں کو بھی مان لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن خود کوحضرت ابرہیمؑ اور موسیٰ ؑ کا جانشین اور نوازشریف کو نمرود و فرعون کا جانشین کہتا تھا۔ اب پنجاب کے شیروں سے پختونخواہ کے چوہوں کو ڈرانے کی بات کرتاہے، میرے دادا امیرشاہ باباؒ سے شامی پیر نے کہا تھا کہ آپ بڑے ہیں ،میری شہرت زیادہ ہے ،اگر جانشینی قبول کرلو، تو خلقِ خدا کو آپ سے استفادہ ہوگا، دادا نے کہا :’’اپنے گناہ اللہ سے بخشوا دوں تو بہت ہے آپ کی خلافت کے گناہ کا بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا ‘‘۔ پیرشامی دوبارہ امیرامان اللہ خان کی حکومت کیلئے آئے لیکن انگریز نے لشکر پر بمباری کردی۔ شامی پیر کو واپس جاتے ہوئے گرفتار کیا اور داڑھی مونڈھ کر اخبار میں تصویرشائع کی۔ بعض مریدبرگشتہ ہوئے بعض نے کہا کہ ہم نے کچھ دیکھ کر بیعت کی تھی۔
وزیرستان میں تبلیغی جماعت آئی تو پہلی حمایت ہمارے خاندان سے ملی کہ ’’یہ دین کا کام ہے‘‘۔ ہماری مسجد کے امام مولانا اشرف خان جو بہت نیک آدمی ہیں، مولانا الیاسؒ سے بھی ملے تھے، پٹھانوں میں رسم ورواج اور پرانے معاملے جوں کے توں تھے، دارالعلوم دیوبند کے فضلاء زبان کھولنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔ دارلعلوم دیوبند کے ایک فاضل مولانا ناظم کسی کے آگے نماز کی امامت نہ کرتے اور نہ ہی کسی کے پیچھے نماز پڑھتے اور میرے چچا سید محمدانورشاہ ؒ نے بتایا کہ وہ تبلیغی جماعت کے بارے میں کہتے تھے کہ ’’ اور کچھ ان کیساتھ نہیں کرنا چاہیے ، بس نقدی، گھڑی اور بستر چھین کر چوتڑ پر لات مار کر گالی دیکر کہنا چاہیے کہ اپنے گھر جاؤ‘‘۔ مولانا الیاس ؒ کے واحد خلیفہ مولانا احتشام الحسن کاندہلویؒ تھے، جنہوں نے’’موجودہ پستی کا واحد علاج‘‘رسالہ لکھا جو تبلیغی نصاب میں شامل ہے ،جسمیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالہ سے امت کو توجہ دلائی گئی ہے۔ مولانا یوسفؒ مولانا الیاس ؒ کے صاحبزادے تھے لیکن جماعت سے پہلے انکا کوئی تعلق نہ تھا، انکی وفات کے بعدمولانا انعام الحسنؒ امیر بنائے گئے، مولانا احتشام الحسنؒ نے بہت جلد تبلیغی جماعت کے کام کو فتنہ قرار دیا۔ مولانا زکریاؒ بھی آخرکار مخالف ہوگئے ۔ اب مولانا الیاسؒ کے پڑ پوتے مولانا سعد بستی نظام الدین بھارت میں تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کے امیر تھے۔ حاجی عبدالوہاب کی طرف سے ان کے کچھ مخالفین کو شوریٰ میں شامل کیا گیا ، جس کی وجہ سے وہاں دارالعلوم دیوبند سے فتویٰ لیا گیا، دارالعلوم دیوبند والے پہلے ہی نالاں تھے، وہاں سے تبلیغی جماعت کے کام کی عمومی صورتحال کے خلاف فتویٰ آیا، اس قسم کا فتویٰ دارالعلوم کراچی سے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی پہلے بھی دے چکے تھے۔جامعہ بنوری ٹاؤن کے مہتم ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کو شہید کیا گیا جو مسجد میں تبلیغی جماعت سے قرآن کے درس پر فیصلہ کرکے آئے تھے۔ مفتی تقی عثمانی کو بھی درسِ قرآن پر کہا گیا تھا کہ تم دین کے کام میں رکاوٹ بن رہے ہو، جس کی ریکارڈنگ نیٹ پر موجود ہے۔
مولانا سرفراز صفدر ؒ کے بھائی صوفی عبدالحمیدؒ نے ’’ مولانا عبیداللہ سندھی اور انکے علوم وافکار‘‘ میں لکھاکہ ’’مولانا الیاسؒ کا خلوص شک سے بالاتر ہے مگر اب اس جماعت پر منافع خور ، اسمگلر اور سودی کاروبار کرنے والوں کا قبضہ ہوگیاہے ، جو اپنا مذموم مقصد پورا کررہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختارؒ کے والد تبلیغی جماعت کے اکابرین میں تھے لیکن انہوں نے ایک عربی عالم شیخ عبداللہ ناصح علوانؒ کی کتاب ’’ مسلمان نوجوان‘‘ کا ترجمہ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ ایک جماعت مکی دور کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ مکی دور اور اسلام دونوں کو نہیں سمجھتے۔ مکی دور تو اسلام کا مشکل ترین دور تھا جس میں باطل کے عقائد کو چیلنج کیا گیا اور مدنی دور میں اسلام کا سیاسی نظام پایۂ تکمیل کو پہنچا، اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم ہے، اس جماعت پر مکی دور نہیں مرتد ہونے کے دور کا اطلاق ہوتاہے‘‘۔ (مسلمان نوجوان)۔
مولانا طارق جمیل اپنی تقریر میں قرآن کے منشور کو بیان فرمائیں اور حقوق کے حوالہ سے عوام کو شعور دیں تو لوگ بدلیں گے، رشوت خوروں…..وغیرہ. کوتسلی نہ دیں۔نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج معروف احکام ہیں انکی ترغیب دی جائے اور زبردستی سے ان پر مجبور کرنا بذاتِ خود منکرہے، رسول ﷺ مکی دور میں منکرات کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ رکھتے تھے تو زبان سے روکنا دوسرے درجے کا ایمان نہ تھا ۔ ہاتھ سے منکر روکنے کی طاقت ہو اور ہاتھ سے نہ روکے تو زبانی جمع خرچ پراسکا ایمان تیسرے درجے کا بھی نہیں۔ ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات افضل جہاد ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے پوری زندگی اور نبی ﷺ نے مکی دور میں ہاتھ سے جہاد نہیں کیا۔خود کش حملوں کا مسلمانوں کیخلاف استعمال سے اسلام نافذ ہوسکتا تو قرآن و سنت میں اسکی تلقین ہوتی۔طالبان اور تبلیغی جماعت علم سے روشناس ہوں۔
ہمارے عزیز پیر کرم حیدر شاہؒ کو مولانا ابولکلام آزادؒ نے اپنے ہاتھ سے قرآن کی اپنی تفسیر دی تھی۔ وہ فوج میں تھے، برطانیہ نے برصغیر پاک وہند کی آزادی کیلئے جنگِ عظیم جرمنی سے جیتنے کی شرط رکھی تھی اور پیرکرمؒ اس وقت وہاں گئے ، برصغیرفوج کی قربانی سے آزاد ہوا۔ پیرکرم شاہ ؒ کو لحد میں اتارا گیاتوان کے ایماندار ساتھی عبدالکریم قصوریہ چیف سیکرٹری پختونخواہ نے بتایا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ’’ لوگ بہت غلط حرکتوں میں مصروف تھے مگر پیرصاحبؒ نے نماز، تلاوت اور ذکر کے علاوہ اورکوئی شغل نہیں کیا‘‘۔ وہ اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈر بھی لایا تھا، مقامی مولوی سے آواز ٹیپ ہونے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ’’یہ عقیدہ رکھنے سے انسان کافربن جائیگا‘‘۔ جب مولوی کو اس کی آواز سنائی تو اس نے کہا کہ ’’یہ جادو ہے‘‘۔ اسلام نے مولوی کو بے شعور نہیں بنایا تھا لیکن مولوی قرآن و سنت سے جاہل تھا۔ قرآن میں بولنے والی کتاب اور تسخیرِ کائنات کا ذکر ہے اور حدیث میں ایسے اٰلہ کا ذکرہے کہ ’’آدمی بیوی کے بوٹ کے تسمہ سے چیزچپکا دیگاتو شام کو ریکارڈ دیکھے گا‘‘ یہ صحاح ستہ کی حدیث ہے۔
پیر کرم حیدر شاہؒ کا نادان توتلا پوتا زبیر تبلیغ میں گیا،بیان سیکھتے اٹک اٹک کر ہرچیزکو اللہ کی تخلیق کہا کہ’’ ٹریکٹر کو بھی اللہ نے پیدا کیا ‘‘ جس پر سامعین ہنسے، غلطی کے احساس پر تبلیغی اکابرکوگالی دیکر بھاگا ۔ مفتی اعظم مفتی شفیعؒ نے جاندار کی تصویر کے شرعی احکام میں لکھا کہ ’’مزدورجو مکان تعمیر کرتے ہیں یہ بھی اللہ کی تخلیق میں مداخلت ہے مگرمعاف ہے‘‘ ۔کیازبیر زیادہ ہوشیار نہیں؟۔مولانا فضل الرحمن بینظیر کی حکومت میں شامل ہوا، تومیرا چھوٹا معذور پاگل بھتیجا عمران کہتا:’’ انکل(پیر نثار) سے ڈر لگتا ہے ورنہ مولانا کو بم سے اڑاتا، پھر اسکا رومال، واسکٹ اور جوتے بینظیر کو دیتاکہ تبرکات باپ کی قبر پر رکھ لو‘‘۔ جمعیت کے ضلعی امیر مولانا عبدالرؤفؒ نے مولانا فضل الرحمن سے لڑنا چاہا، میں نے روکا تو کہا :’’ آپ نے ہماری آنکھیں کھولیں، مفتی محمودؒ اور مولاناہزارویؒ نے بھی اسلام آباد میں پلاٹ لئے۔ عتیق گیلانی

اسلامی منشور دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی جائے. عتیق گیلانی

اسلامی منشور مسلم اُمہ کو پستی سے نکال کر عروج پر پہنچادے توانسانیت جمہوری بنیاد پر ہماری امامت پر فخر کریگی۔ امریکہ میں مسجد جلادی گئی تو یہودیوں نے اپنی عبات گاہ اس وقت تک دیدی جب تک مسجد کی تعمیر مکمل نہ ہو۔ اسرائیل میں مسلم ممالک پر پابندی کیخلاف مظاہرہ ہوا مگر سعودیہ اور عرب امارات نے امریکی پابندیوں کا خیر مقدم کیا ،یہ مجبوریاں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کیخلاف ناک کے نتھنے سے آواز بھی نہ نکالی کہ ’’ حافظ سعید کو نظر بند کیا گیا‘‘، اگر نظر بند نہ کیا جاتا تو سعودیہ کے ہاں میں ہاں اس نے ملانی اورناک کٹوانی تھی۔ کتنے بے گناہ افراد خاتون عافیہ صدیقہ سمیت امریکہ کے حوالے کئے؟،ریاست کی بغل کا حافظ سعید بلکہ مولانا مسعود اظہربھی نہ مانگا گیا، امریکی سی آئی اے اپناکھیل کھیل رہی ہے ۔ بقول اقبال جو چھپا دے نظروں سے تماشۂ حیات،خیر اسی میں ہے تاقیامت رہے مؤمن غلام،( ابلیس کی مجلس شوریٰ)۔ اسامہ ، ریمنڈ ڈیوس بڑی بات نہ تھی توشکیل آفریدی کیا ہے ؟۔یہ تو ابتداء عشق ہے روتاہے کیا؟ آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟۔
اسلامی منشور دنیا بھر کے حکمرانوں اور عوام کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کی جائے۔ 1: قرآن میں توراۃ کے حوالے سے تصدیق ہے کہ ’’ جان کے بدلے جان، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، آنکھ کے بدلے آنکھ اور زخموں کا قصاص ہے‘‘۔ جب غریب امیر، مرد عورت، کمزور طاقتور، شریف و رذیل، چھوٹے بڑے، حاکم و محکوم اور ہر قسم کے لوگوں میں برابری کی بنیاد پرقانون سازی ہوگی تو دنیا میں سکون آجائیگا۔ قرآن کا فطری حکم جو توراۃ میں تھا۔ اللہ نے اس سے انحراف کو ظلم قرار دیا اور ہم کھلم کھلا منحرف ہیں تو دنیا میں ہمارے حکمران، ریاستیں اور عوام ذلیل و خوار ہونگے ۔دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے جلوس نکل رہے ہیں اور ہم ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں۔ 2: قرآن میں چور مرد اور چور عورت کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ پاکستان میں بادشاہی کا خواب دیکھنے والا کہتا ہے کہ چوری ثابت ہوگئی تو گھر چلا جاؤں گا۔ ہاتھ کاٹنے کا قرآنی قانون نافذ کیا تو آئین میں62اور63کے دفعات میں صادق اورامین کیلئے زیادہ غم کھانے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ جب ہاتھ کٹا ہو گا تو عوام کو دھوکہ دینے کیلئے تقریروں میں ہاتھ ہلاکر اشارے بھی نہ ہوسکیں گے۔ جمہوری نظام غیر اسلامی نہیں لیکن کرپشن کرنیوالے قانون کی پابندی کا بھی پاس نہیں رکھتے ۔…‘‘ 3: غریب اور امیر کی عزت برابر ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر بہتان لگانیوالوں کو وہی سزا کا حکم سنایا گیا ، جو ایک عام پاکدامن خاتون کے برابر تھا۔ ہماری عوام اور عدالتوں میں طاقت ور اور کمزور کی عزتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کسی کی عزت اربوں میں اور کسی کی لاکھوں میں بھی نہیں ہے۔ وہ عزت اللہ کی قسم عزت نہیں جس کی دنیا میں کوئی قیمت لگے۔ قرآن کے مطابق 80کوڑوں کی سزا دی جائے تو امیر غریب کی عزت میں فرق نہیں ہوگا اور سزا بھی دونوں کیلئے برابر ہوگی۔ امیر کیلئے رقم کی ادائیگی بڑی سزا نہیں لیکن غریب کیلئے رقم بڑی سزا ہے۔۔۔۔۔۔۔.‘‘ 4: رضامندی سے زنا کی سزا قرآن میں100کوڑے ہے۔ جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ۔ حضرت عمرؓ کے دور میں اگر کوڑوں کی سزا ہوتی توگورنر مغیرہ ابن شعبہؓ کو 100کوڑے سے بچانے کیلئے گواہوں کو80،80کوڑے مارنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس واقعہ پر قانون سازی اور فقہی اختلافات نے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مغیرہ ابن شعبہؓ کیساتھ ام جمیل پکڑی گئی ۔ ابولہب کی بیگم کا نام ام جمیل تھا اور اگر یہ بیوہ تھی اور باقاعدہ شادی کیلئے دونوں رضامند نہ تھے تو وقتی طور پر متعہ بھی کرلیتے۔ متعہ پر فقہ میں حد نہیں ۔ سعودیہ نے بھی مسیار کے نام پر متعہ کی اجازت دی اورعلیؓ نے فرمایا کہ ’’ عمرؓ متعہ پر پابندی نہ لگاتے توقیامت تک کوئی زنا نہ کرتا سوائے بد بخت کے‘‘۔پولیس اشارے پر دہشتگرد نہ رُکتا توبات تھی۔ طلاق شدہ لڑکی کی ماں نے بتایا کہ تین سال سے دوستی تھی، شادی شدہ لڑکے سے سعودی متعہ مسیار ہوتا تونہ بھاگنا پڑتااورنہ مرنایامارنا پڑتا۔ پولیس کی حوصلہ شکنی کی جائے تو دہشت گردوں کا حوصلہ بڑھے گا۔ 5: مغرب میں نکاح کے قوانین اس قدر سخت ہیں کہ باقاعدہ شادی کے بجائے گرل فرینڈ کو ترجیح دیتے ہیںیا ایگریمنٹ کرلیتے ہیں جس کی قانونی حیثیت متعہ کی ہے۔ اسلامی قانونِ نکاح کو دنیا کے سامنے لایا جائے تو مغرب قرآن کو قبول کرنے سے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں کریگا۔ پاکستان کے نکاح کے فارم میں عورت کو طلاق دینے کا حق حیلہ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ قرآن کے مطابق یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ باہمی رضا سے حق مہر شوہر پرفرض ہے، عورت کی طرف سے خلع کا فیصلہ ہو تو جو کچھ بھی عورت کو دیا ہو ، اس کو اس غرض سے روکنا قانونی طور سے غلط قرار دیا جائے کہ دئیے مال میں سے کچھ واپس لے۔ چاہے حق مہر کے علاوہ ہو۔ یہ تصورہی قرآن کے خلاف ہے کہ عورت شوہر کی ملکیت بن جاتی ہے،جس کو رد کرنا ضروری ہے۔(النساء: آیت19) 6: تین طلاق کی ملکیت کے غلط تصور کو بھی حرفِ غلط کی طرح معاشرے سے ختم کیا جائیگا۔ یہ کیا منطق ہے کہ شوہر ایک طلاق دے اور عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرلے ۔ وہاں سے طلاق کے بعد یہ بحث کہ شوہر پہلے سے موجود 2طلاق کا مالک ہوگا یا نئے سرے سے 3طلاق کا مالک ہوگا؟۔ یہ عجوبہ غیرفطری ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت دوسری شادی کرلے اور پہلا شوہربھی 2طلاق کا مالک رہے، قرآن نے شوہر کو طلاق کے بعد واضح خالی عدت کا حقدار قرار دیا ۔ 7: میاں بیوی کے حقوق، نکاح و طلاق اور متعہ کے درست تصورسے عالم اسلام اور عالم انسانیت میں عصمت فروشی کے دھندے ختم ہو نگے۔ قرآن نے لونڈی بنانے کو آل فرعون کی روایت قرار دیا لیکن معاشرے کی روایت عارضی قانون کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ حد اور تعزیر میں یہ فرق ہے کہ تعزیر کی سزا حکمران کی طرف سے قانونی ہوتی ہے جس میں کمی بیشی کی گنجائش ہے مگر اللہ نے جو حد مقرر کی، اس سزا میں کمی بیشی نہیں ۔ زنا کیلئے 100کوڑے ہیں اور اگر دومرد آپس میں بدکاری کریں تو انکو اذیت دینے کا قرآن میں حکم ہے اور اذیت کیلئے حکومت قانون سازی کرسکتی ہے۔ 8:اللہ نے جہاں لونڈی سے ازدواجی تعلق کی اجازت دی تو وہاں ان کی شادی کرانے کا حکم دیا۔ جس سے روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ معاشرے کی اس برائی کو برداشت بھی کیا گیا اور اس کی اصلاح کیلئے بھی راہ ہموار کی گئی۔ اللہ نے لونڈی بنانے کا حکم نہیں دیا اور کیسے دیتے جب اس کو آل فرعون کی روایت قرار دیا۔ اسلام نے غلامانہ نظام ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مشرکینِ مکہ پر فتح حاصل کرلی تو ان کو مخاطب کرکے نبیﷺ نے فرمایا: لاثریب علیکم الیوم وانتم طلقاء ’’ آج تم پر کوئی ملامت نہیں اورتم آزاد ہو‘‘۔ تین دن کے بعد سب کو واپس جانے کا حکم فرمایا، تین دن تک متعہ کی اجازت دیدی۔ (صحیح مسلم) علماء و مفتیان سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی ماں بہنوں کو چھین کر لونڈی بنایا جاتا تو ٹھیک تھا مگرمتعہ کی اجازت زناکی اجازت تھی العیاذ باللہ من ذلک 9: اللہ نے یہود ونصاریٰ کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ۔ان کو ولی نہ بنانے کا حکم جر گہ میں فیصلے کا مذہبی اختیار تھا۔ قرآن میں اگر میاں بیوی کے درمیان جدائی کا خطرہ ہو تو اللہ نے دونوں طرف سے ایک ایک رشتہ دار کو حکم بنانے کا حکم دیاہے اوراگر عمران خان اور اس کی بیگم جمائما خان کے درمیان جدائی پر دونوں خاندان ایک ایک حکم بناتے تو یہ قرآن کے مطابق ہوتا، البتہ اگر دونوں کو کسی بدکاری پر پکڑا جاتا اور یہودی ان کو توراۃ کے مطابق سنگسار کرتے اور مسلمان قرآن کے مطابق کوڑے لگاتے تو پھر یہودیوں کو ولایت یا اختیار دینے کی مذمت ہوتی ،جب ایک ہی حد سزاسنگساری ہوتی تو ولی بنانے کی مذمت کیونکر کی جاتی؟۔ اللہ کے احکام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 10:عیسائیوں کے پاس حدودوتعزیرات کیلئے اپنا مذہبی تصور نہیں ،وہ توراۃ کو مانتے ہیں۔ اسرائیل توراۃ کے مطابق مذہبی ریاست قائم کرلے اور مسلمان پاکستان سے اسلامی احکام کے مطابق حکومت قائم کرلیں تو انشاء اللہ پوری دنیا اسلامی قوانین کا خیرمقدم کریگی اور اسرائیل اپنا قبلہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کو بہت خوشی سے حوالے کردے گا۔ پاکستان اگر اسلام کیلئے نہیں حکمرانوں کے کرپشن اور غریب عوام کو غلام بنانے کیلئے بنا ہے تو امریکہ و بھارت کی سازش سے ہمارا خدا بھی ہمیں بچانے میں مدد نہیں کریگا جیسامشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا تھا۔یہ بھارت کی حوصلہ افزائی نہیں اپنے حکمرانوں کی حوصلہ شکنی کیلئے ہے،پاکستان بنگال نہیں۔
نیٹو کا حشر افغانستان میں بھارت نے دیکھا، ایٹمی جنگ نہ ہو توبھی بھارت ایڈونچر کرنے کی غلطی نہ کریگا، بنگال آزاد ہوامگر پاکستان نے کس سے آزادی حاصل کرنی ہے؟۔مجاہدین پاکستان کے مسلم حکمرانوں کو نشانہ نہیں بناتے۔ افغانستان میں افغان فوجی امریکیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ ہندو کو پاکستان کیخلاف اقدام پر بھارت کے مسلمان اور سکھ بھی معاف نہ کرینگے۔ بلوچ فطری طور پر باعزت ، بردبار اور باوقار ہیں۔ کمزوروں پر حملوں نے ان کا ضمیر گھائل کردیا ۔ریاست نے ان کوبھی بہت نقصان پہنچایا۔افہام وتفہیم مسائل کا حل ہے، ضمیر نہیں رہتا تو عزت فروشی کا دھندہ بھی ہوتاہے۔ جرمنی میں شکست کے بعد خواتین رات مہمان ٹھہرانے کیلئے دروازے پر کارڈ لگاتی تھیں۔ جنگ میں شکست کے بعد عورت کیلئے لونڈی بن جانا بھی عزت کا تحفظ ہے، دنیاخطرناک سمت جارہی ہے،اسلامی اقتدار میں انصاف ملے گا۔ انقلاب انقلاب اے انقلاب۔ عتیق گیلانی

مفتی محمد رفیع عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں زبردست خیانت کی ہے. مولانا شبیر احمد

ابوبکرؓ و عمرؓ نے نبیﷺ کے وصال پر خلافت کیلئے جمع ہونیوالے انصارؓ سے مناظرہ کیا۔ انصارؓ نے کہا کہ ایک امیر تمہارا ہو، ایک ہمارا۔ابوبکرؓ نے کہا کہ اس سے امت میں افتراق وانتشار ہوگا۔ تبلیغی جماعت کے مرکزبستی نظام بھارت میں مولانا الیاسؒ ،مولانا یوسفؒ ،مولانا انعام الحسنؒ کے بعد مولانا الیاسؒ کے پوتے مولانا ہارون کا بیٹا مولانا سعدامیر تھا اور رائیونڈ میں عبدالوہاب، مگر بھارت میں ان دوامیروں کی وجہ سے افتراق وانتشارہوا ۔ بقول پشتومزاحیہ شاعر’’6اسکے نمبر ہیں باقی سب تقاضے ہیں، تبلیغ میں مزے ہی مزے ہیں‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے حدیث پیش کی کہ ’’امام قریش سے ہونگے‘‘۔ عمرؓ نے ابوبکرؓ کی بیعت کی تو انصارؓ نے بھی بیعت کرلی، سردار سعد بن عبادہؓ اورعلیؓ نے یہ عمل ناگوار جانا۔ اس دن سے امت میں اختلاف ہے۔ علماء نے لکھا کہ قریش کی حدیث خبر واحد تھی پھر اجماع ہوا ۔حنفی مسلک کے شاہ ولی اللہؒ نے خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت کے زوال کے دور میں امام کیلئے قریش ہوناشرط قرار دیا، یہ خلافتِ عثمانیہ کے عدمِ استحکام کا باعث تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے امام مولانا احمد رضاخان بریلویؒ کا یہی فتویٰ تھا، علامہ عطاء محمد بندیالوی نے ضیاء الحق کے دور میں خلافت کے احیاء کو فرض اور امام کیلئے قریشی ہونا لازم قراردیا ۔ داعش کے ابوبکر بغدادی بھی اس وجہ سے القاعدہ اور طالبان سے باغی بن کر خود خلیفہ بن گئے ۔طالبان سے پہلے ایک عرب نے خیبر ایجنسی کے دور دراز علاقے میں امام بننے کا دعویٰ کرکے اپنی حکومت تشکیل دی تھی اور بعد میں بیمار یا ناکام ہوکرامریکہ چلا گیا۔
ہم نے بھی احیاءِ خلافت و تقرر امام کا اقدام کیاتھا جسکا روزنامہ جنگ میں اشتہار بھی دیا تھا۔ خلافت راشدہ کے آخر میں مسلمانوں میں قتل وغارت ہوئی۔ امام حسنؓ کی صلح کے بعد بنوامیہ کی خاندانی حکومت قائم ہوئی۔ واقعہ کربلامیں حسینؓ اور مکہ میں حجاج کے ہاتھ ا بن زبیرؓ کی شہادت سے اختلاف واضح ہے۔ امام حسنؓ کے بیٹے حسن مثنیٰ کے دو بیٹے محمد اور ابراہیم نے تحریک چلائی تھی۔ امام ابوحنیفہؒ کو ان کی خفیہ حمایت کرنے کی وجہ سے جیل میں زہر دیکر شہید کیا گیا۔دوسرے فقہی اماموں پر بھی تشدد ہوا۔
اجتہاد وہاں ہے جب قرآن و حدیث میں واضح موقف موجود نہ ہو۔ قرآن میں 114سورتیں ہیں اور114 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم موجود ہے۔ اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں لیکن پھر بھی مالکی مسلک کے ہاں فرض نماز میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں اسلئے کہ قرآن کا حصہ نہیں، شافعی مسلک میں بسم اللہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اسلئے کہ سورۂ فاتحہ کا حصہ ہے، امام احمد بن حنبل کے دو قول ہیں، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صحیح بات ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے مگراس میں شک ہے اور شک اتنا قوی ہے کہ کوئی شخص اس کی قرآنیت کا منکر بھی ہوجائے تو کافر نہیں بنتا ۔ فقہ حنفی کی درسِ نظامی میں اصول فقہ کی ’’نورالانوار‘‘ اور ’’ توضیح تلویح ‘‘ دیوبندی کے وفاق المدارس ، بریلوی کے تنظیم المدارس کے تحت چوتھے اور چھٹے سال میں لازمی امتحان کا حصہ ہیں مگر کم عقل مولوی مدرس بنتے ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں۔
کراچی کے علامہ شاہ تراب الحق قادری اور ٹانک کے مولانا فتح خان نے بالمشافہ ملاقات میں درسِ نظامی کی اس تعلیم کو غلط قرار دیا مگر اسکے خلاف آواز اٹھانے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ یہ ائمہ کامسلک نہیں انکے نام پر مسلک چلانے والوں کا شاخسانہ تھا۔ امام شافعیؒ نے جہری نماز میں بسم اللہ جہری پڑھنے کا حکم دیا ، تو گدھے پر بٹھایا، منہ کالا کر کے گھمایا کہ ’’یہ رافضی ہے‘‘۔ امام شافعیؒ نے اشعار کہے کہ ’’اگر اہلبیت سے محبت پررافضی کہتے ہو تو اقرار کرتا ہوں کہ میں رافضی ہوں‘‘۔
بنو عباس نے اقتدار چھین لیا تو وہ بھی اہلبیت کے اسلئے خلاف تھے کہ امارت چھن نہ جائے۔ پاکستان کے قانون میں کوئی عورت طلاق شدہ یا بیوہ بنتی ہے تو بھی اس کو ایک مرد سرپرست ظاہر کرنا پڑتاہے۔ مریم نواز کی مثال ٹھیک ہے یا نہیں؟۔ شریعت اور ملکی قوانین میں غیر ضروری معاملات آگئے ہیں،جہری نماز میں بسم اللہ کی جرأت سے بڑی تبدیلی کا آغاز ہوگا اور عورت کو حقوق دینے ہونگے۔
حدیث میں کنواری کیلئے بکر اور طلاق شدہ یا بیوہ کیلئے ایم کا لفظ آیاہے۔ لڑکی کنواری ہوتو سرپرست یا ولی باپ ہے ۔شادی کے بعد سرپرست شوہر ہے۔ کلثوم نواز کا سرپرست اس کا شوہر نواز شریف ہے تومریم نواز کا سرپرست اسکا شوہر صفدر عباسی ہونا چاہیے تھا۔ اگر شوہر سے علیحدگی ہوئی تو پاکستان کے مروجہ قانون کے مطابق اسکا سرپرست نوازشریف ہوگا، اور اب اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ سے وضاحت مانگنے پر کہا جارہاہے کہ مریم نواز خود مختار ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مریم نواز صفدر عباسی کی بیوی ہوکر بھی خود مختار ہے یا طلاق شدہ خود مختار ہے؟۔ سوال کا جواب پاکستان اور اسلامی معاشرے میں کیا ہے؟۔ اس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، اب یہ سوال اٹھانے کا بہترین وقت ہے۔
وانکحوالایامیٰ منکم و صالحین من عبادکم وایمائکم ’’اور نکاح کراؤ، اپنی بے نکاح خواتین کااور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کا‘‘۔ لونڈی کا ولی تو بلاشہ آقا ہوتا تھا۔ وضاحت ہے فانکحوھن باذن اہلھن ’’ان سے انکے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو‘‘۔ حدیث میں بکر کے مقابلے میں اَیم سے مراد بیوہ و طلاق شدہ ہے۔ توقرآن میں بھی ایامیٰ سے بیوہ و طلاق شدہ مراد ہیں۔ حدیث و فقہ میں تطبیق مسائل کا حل ہے۔ فقہ و حدیث میں کنواری اور بیوہ و طلاق شدہ کا فرق واضح ہے۔ اصولِ فقہ میں حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیا گیا۔ حتی تنکح زوجاً غیرہسے حدیث کی تطبیق ہوسکتی ہے کہ قرآن میں طلاق شدہ عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت دی گئی اور حدیث سے کنواری مراد لیا جائے۔ بیوہ کو بھی قرآن میں اپنی جان کا فیصلہ کرنے میں خود مختار قراردیا گیا ہے۔
حال ہی میں عدالت نے محبت کی شادی کرنیوالے جوڑے کو تحفظ دیا اور وکیل سے کہا کہ ’’ان کو سمجھاؤ، ایسی شادی کامیاب نہیں ہوتی‘‘۔ اگر معاشرے میں قرآن وسنت کو صاف طریقہ سے عوام کو پہنچایا جاتا کہ لڑکی کی مرضی کے بغیر باپ نکاح نہ کرے اور لڑکی کیلئے بھاگ کر شادی کرنا باطل نکاح ہے تو مذہبی نصاب بھی درست ہوجاتا اور معاشرے پر اسکا اثر پڑتا۔ جب نابالغ بچی کا نکاح پڑھانے پر بھی مولوی پکڑا جائے اور بھا گی لڑکی کا چھپ کر نکاح پڑھانے والے مولوی کو تحفظ حاصل ہو تو یہ معاشرے میں اصلاح کا باعث نہیں بن سکتا۔ بلوغت کے بعد لڑکی محبت کی شادی کرلے ، اقلیتی برادری سے تعلق ہوتا ہے تو اسلام کا سہارا بھی لے لیتی ہے۔علماء اور قانون سازی کرنیوالے پارلیمنٹ میں الجھتے ہیں۔
فقہ حنفی کے مطابق ’’ امام کیلئے قریش ہونے کی شرط قابلِ قبول نہ ہونی چاہیے‘ ‘ ۔ یہ خبر واحد کی حدیث تھی، جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو خلافت عثمانیہ والے قریشی نہ تھے ، ان پر بھی اجماع ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قریش کے امام ہونے کی احادیث کا تعلق پیش گوئیوں سے تھا اور جب نبیﷺ نے 12 امام پر امت کے اجماع اور اسلام کے غلبے کی خبردی تو لوگوں نے چیخ کرتکبیر کا نعرہ بلند کیا جس سے راوی کو کچھ الفاظ سمجھ میں نہ آئے۔ اہل تشیع بارہ امام اپنے والے سمجھتے ہیں مگران پر اہل تشیع کے فرقے بھی متفق نہیں۔بارہ خلفاء جو مشکوٰۃ کی شرح مظاہر حق کے مطابق اہل بیت سے ہونگے ۔ علامہ سیوطیؒ کا حوالہ دیکر مفتی رفیع عثمانی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں بدترین خیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ روایت ہے کہ مہدی چالیس سال تک رہیگا ، پھر قحطانی امیر ہوگا۔۔۔ پھر آخری امیر ہوگا۔ کونسا انصاف ہے کہ مہدی اور قحطانی امیر کو چھوڑ کر آخری امیر کا ذکر کیا جائے؟۔ یہ تینوں بارہ خلفاء میں سے ہونگے۔
نبیﷺ نے غدیرخم کے موقع پرخطاب فرمایا’’ جس کا میں مولیٰ ہوں یہ علی اس کا مولیٰ ہے‘‘۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ملا اور مولوی اب مولانا بن گئے ۔ جس کا معنیٰ ہمارا مولیٰ ہے۔ جس کو ہم اپنا مولیٰ یعنی مولانا کہتے ہیں کیا وہ ہمارا دوست ہوتاہے؟۔ مولیٰ اور ولی کے معنیٰ سرپرست اور آقا ہیں۔ نبیﷺ نے علیؓ کے بارے میں جو فرمایا ، اس کو مولوی نے دوست سے بدل دیا ، حالانکہ نبیﷺ کو کیا ضرورت تھی کہ علی کو دوست بنانے کا اعلان کرتے؟، اس غلط توجیہ کی وجہ سے قرآن کی آیت کا ترجمہ ومفہوم بھی بدل ڈالا، کہ ’’یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ‘‘۔ ان سے شادی کرسکتے ہیں تو بیوی سے بڑھ کر دوستی کیاہے؟۔ یا بیوی بناکر بھی دشمنی کی جائے؟۔ خلفاء ، علماء اور صوفیاء میں موروثی جانشینی کھلی حقیقت رہی ہے۔ حضرت عمرؓ سے کہا گیا کہ بیٹے عبداللہؓ ابن عمرؓکو جانشین بنادو، مگر عمرؓ نے پابندی لگاکر کہا کہ اس کو طلاق کا طریقہ معلوم نہیں اس کو خلافت کیلئے نااہل قرار دیتا ہوں۔ اسلام منطقی نہیں فطری دین ہے تو مشرکینِ مکہ سے قرابتداری کی وجہ سے رشتہ داری منع کردی۔ حضرت ابن عمرؓ نے منطق نکالی کہ نصاریٰ مشرک ہیں ان سے شادی جائز نہیں ، قرآن میں ان سے شادی جائزہے۔ صحابہؓ میں ابن عمرؓ مولوی تھے حضرت عمرؓ نے خلافت کیلئے نااہل قرار دیاتھا ،عقیدت اپنی جگہ مگرامانت اہل کو سپردکرنے کا حکم ہے۔
حضرت ابوبکرؓ ہنگامی بنیاد پر خلیفہ بن گئے، حضرت عمرؓ کو نامزد کیا گیا، حضرت عثمانؓ کو شوری ٰ کے چند ارکان میں سے اکثر نے منتخب کیا اور حضرت علیؓ فتنوں کے دور میں خلیفہ بنے اور امام حسنؓ کو وراثت میں خلافت ملی مگر دست بردار ہوگئے۔بنوامیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار میں موروثی اقتدار رہا۔ عرب میں اب بھی موروثی اقتدار ہے اور پاکستان کی جمہوری جماعتیں بھی موروثی اور شخصی ہیں، انگریز نے خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کوختم کیا تھا، پھر جمہوریت کی وجہ سے ملکہ برطانیہ کاا قتدار سمٹ گیا۔ برطانیہ کے بعدہم اپنا اسلامی نظام نہیں لاسکے۔ اقتدار تقسیم ہے، مولوی فتویٰ دے کہ طلاق ہوئی اور حلالہ کرلے تو قصائیوں کو جانور ذبح کرکے حلال کرنے کی اجازت ہے۔ مریم نواز کسی اندرونی کہانی کا شکار ہوسکتی ہے ،بہت خواتین طلاق کاماجراء بھگت رہی ہیں۔گھر، معاشرہ، ملکی ، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے مسائل ہیں جن کو اسلام نے حل دیامگر ہمارا مذہبی طبقہ توجہ نہیں دینا چاہتا ہے۔ مولانا شبیراحمد

یہود کے بعد نصاریٰ بھی دعوت توحید قبول کرچکے. عتیق گیلانی کی انقلابی تحریر

قوسِ قزاح کے رنگوں سے بھرپور ہمارا یہ معاشرہ !
قدرت کا کرشمہ ہے کہ بارش کے بعد افق پر 7رنگ کا ہالہ بنتاہے اور ہم نے اپنے غیر معصوم بچپن میں سمجھا تھا کہ ہر رنگ کی ایک جدا تعبیر ہے، زیادہ تفصیلات کاپتہ نہ تھا، بس سبز رنگ جنت کی نشانی اور سرخ رنگ جہنم کی علامت، جس نے پہلے قوسِ قزح دیکھ کر رنگ پسند کیا تو کسی دوسرے کو حق نہ پہنچتا کہ وہ بھی اسی کو پسند کرلے۔معصوم کے بھی مختلف رنگ ہیں۔ایک دانشور کہے کہ مغالطے کی شکار فکر معصوم نہیں ہوسکتی، دوسرا کہے کہ اس غلطی کے پیچھے مجرمانہ غفلت نہ تھی اسلئے معصومیت سے تعبیر کیا جاتاہے۔ معصومیت کی بحث میں بھی قوسِ قزاح کی طرح رنگ ہیں۔ انبیاء کرامؑ معصوم ہیں،شیعہ ائمہ اہلبیت کو معصوم سمجھتے ہیں اور عوام بچوں کو معصوم سمجھتے ہیں۔ وسیم بادامی کا معصومانہ سوال شہرت اختیار کرگیا، مولا بخش چانڈیو نے اسکو شرارت کہا ، بیوقوفی بھی معصومیت سے تعبیر ہوتی ہے، خاص معاملے کی بے گناہی بھی معصوم قرارپاتی ہے، اولیاء کرام ؒ محفوظ ہیں تویہ ایک طرح کی معصومیت ہے۔ عدلیہ مجرموں کو معصوم بنانے کی فیکٹریاں ہیں، دہشتگرد معصوموں کو مارتے ہیں، خفیہ ایجنسی کے اٹھانے پر مجرم بھی معصوم بنتے ہیں،سیاسی رہنما اپنے لیڈر کو معصوم ثابت کرتے ہیں۔ مذہبی طبقے کو اپنے مکتبۂ فکر کے علماء ومفتیان معصوم لگتے ہیں، دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت خود پر معصومیت کا عقیدہ رکھتی ہیں، یہود کے نزدیک ان کی نسل معصوم ہے اور نصاریٰ کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ معصوم شخصیت تھی جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور شادی تک نہ کی۔ آدمؑ نے جنت میں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی، موسیٰ ؑ نے قتل کیا، داؤد ؑ نے اللہ سے معافی مانگی اور یونسؑ نے اللہ سے معافی مانگی لیکن حضرت مسیحؑ اللہ کی پاک روح تھے۔
اہل تشیع بارہ ائمہ معصومین کا جوعقیدہ رکھتے ہیں وہ انبیاء ؑ سے زیادہ ہے اسلئے کہ نبی کریمﷺ کا فتویٰ کچھ تھا ، اللہ نے فیصلہ خاتون کے حق میں کیا۔سوال ہے کہ مجادلہ میں نبیﷺ کی معصومیت کی نفی ہے؟۔ یا یہ معصومیت کی دلیل ہے کہ اللہ نے نبیﷺ کی اصلاح کیلئے وحی سے رہنمائی کی؟۔ نبیﷺ نے اصحاب کہف کی تعداد بتانے کیلئے کل کا وعدہ فرمایا لیکن کئی دن وحی کا سلسلہ بند ہوا۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ کل کیلئے کوئی بات کہا کریں تو انشاء اللہ کہیں، یہ معصومیت کی نفی یا دلیل ہے؟۔ بدر ی قیدیوں کے فدیہ پر فرمایا کہ ’’نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ انکے پاس قیدی ہوں یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کرتے‘‘ یہ عصمت کی دلیل ہے یا اسکے منافی اللہ نے وحی اُتاری؟۔ یہ عقیدہ تھاکہ وحی سے رہنمائی کا نام عصمت ہے اور اسی وجہ سے اللہ نے بار بار قیامت تک صرف اور صرف اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کا حکم دیا، جہاں اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں اولی الامر سے اللہ نے واضح طور سے اختلاف کی گنجائش بھی رکھ دی ۔ رسول اللہ ﷺ کی رسالت وحی کی رہنمائی تھی ، ایک اولی الامر کی حیثیت سے صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اختلاف کیا ، سورۂ مجادلہ ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ ،حدیث قرطاس اور صلح حدیبیہ کے اختلافات واضح مثالیں ہیں۔ شیعہ ائمہ اہلبیت کیلئے بھی ایسے اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے تو نبیﷺ کیلئے کہاں سے رکھیں گے؟، اسلئے وہ صحابہ کرامؓ کو باغی اور گستاخ سمجھتے ہیں۔ اہلسنت کی اکثریت بھی حقائق سے ناواقف ہونے کی وجہ سے معصومیت کا غلط عقیدہ رکھتے ہیں اسلئے جب شیعہ مکتب کے دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں تو دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے ان پر گستاخی کا فتویٰ لگادیا جاتاہے۔ سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں کو حقیقی اسلامی بھائی بنانے کیلئے قرآن و حدیث کے خاکے پر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ورنہ فرقہ پرستی کے ناسور سے پاکستان سمیت مسلم امہ تباہ ہوگی۔
مہذب دنیا کو بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمان ہر چیز پر سمجھوتہ کرتاہے مگررسول اللہ ﷺ کی توہین برداشت نہیں کرتا ،ایسا کیوں؟ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ایمان کی حرارت کیلئے یہ آخری روشنی بچی ہے تو اس پر سمجھوتہ کیسے ہو؟۔ ہمارے پلے میں ایمان کو حرارت دینے کیلئے اور کچھ بچاہی نہیں۔ دنیا بھر میں جبر وظلم کا نظام ہے، بھارت گائے کے تقدس پر موت کے گھاٹ اتاردیتاہے حالانکہ بھارت گائے کے گوشت کا بڑاایکسپورٹر ہے ،بارڈر سخت نہ ہو تو عید قربان کے موقع پر پاکستان سے اچھا کاروبار ہوتا ہے۔ سورۂ فاتحہ کے بعد پہلی سورۂ بقرہ ہے جس میں گائے ذبح کرنے کا حکم ہے۔ پاک بھارت دوستی میں گائے کی ماں خیر منائے۔ اللہ نے انکے معبود کی حیثیت سے گائے کی توہین سے منع کیا، البتہ ان پر بوجھ اور ہماری ضرورت ہو تو سمجھوتہ ہوسکتا ہے۔ چین سے ہماری دوستی ہے،کتے ان کی ضرورت اور ہمارے لئے فالتو ہیں مگر یہ کاروبار ہم نہیں کرتے۔ مسلمان کو دوسروں کے معبودں کی اہانت سے منع کیا گیا تو رسول ﷺ کیلئے بھی ان کا حساس ہونا ایک فطری بات ہے۔ اہانت کے قوسِ قزح کی طرح کئی رنگ ہوسکتے ہیں، دیوبندی مکتبۂ فکر نے جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا سیداابوالاعلیٰ موددیؒ پر انبیاء کرامؑ اور ام المؤمنینؓ کی گستاخی کے سنجیدہ الزامات لگائے۔ بریلوی مکتبۂ فکر نے دیوبندی اکابرؒ پر گستاخی کے فتوے لگائے اور اہلحدیث کو بھی گستاخ قرار دیاگیا۔لیکن کیایہ قانون صرف کمزورطبقے کیلئے بنایاگیاہے؟۔
حضرت ابراہیمؑ کی اولاد بنی اسرائیل کے اندر نبوت کاسلسلہ جاری تھا،ان کو اپنی نسل پر گھمنڈ کرنے کازعم بیجا نہ تھااسلئے کہ قرآن نے مخاطب کیاکہ ’’ اے بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کرو، بیشک میں نے جہاں والوں پر تمہیں فضیلت دی ‘‘۔ جتنے انبیاء ؑ االلہ نے ان میں بھیجے، کسی قوم میں نہیں بھیجے۔ نبوت وبادشاہت کا سلسلہ عرصہ دراز تک ان میں جاری رہا۔ اچھے ممالک ، اسباب واموال اور بہترین ذہنی صلاحیتوں سے اللہ نے ان کو مزین رکھا، جسکے اثر ات اب بھی موجودہیں۔ جب وہ دنیاوی و مذہبی گھمنڈ اور فرقہ وارانہ تعصبات کا شکار ہوئے: وقالوالن یدخل الجنۃ الا من کان ہودا او نصٰریٰ وقالت الیہود لیست النصٰریٰ علی شئی و قالت النصٰریٰ لیست الیہود علی شئی وقال الذین لایعلمون مثل قولہم ’’ اور کہتے کہ کوئی جنت میں داخل نہ ہوگا مگر جو یہودیا نصاری ہیں اور یہودنے کہا کہ نصاریٰ کسی چیز پر نہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ یہودکسی چیز پر نہیں اور ویسی گفتگو کرتے وہ جو علم نہ رکھتے تھے‘‘ دین کا منکر طبقہ پراناہے، صابی کے بارے میں اقوال ہیں کہ وہ ستارہ پرست تھے، انبیاء کرام ؑ کے مذاہب کو نہ مانتے تھے ،یاکون تھے؟مگر دین کے منکر کی حیثیت ایسی بھی ہوسکتی ہے کہ مذہبی شدت پسندوں سے بیزار طبقہ جو کسی مخصوص فکر اور مکتبۂ خیال کا پابند نہ ہو، بس اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کو کافی سمجھتاہو اور اچھے عمل کو نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہو۔ موجودہ دور میں اس کا نام سیکولرہے اور اس دور میں اس کو صابی کہا جاتاہو۔ سیکولر مذہب کا انکار نہیں کرتے لیکن مذہبی شدت پسندی پر یقین نہیں رکھتے ۔ یہ حقیقت بھی مخفی نہیں کہ قائداعظم ؒ سیکولر تھے۔اوریا مقبول جان نے عرب حکمرانوں کا کہا کہ سیکولر ہیں مسلمان نہیں اور کہا کہ ’’قائداعظم کے اسلامی پروگرام پر عمل نہ ہوا‘‘۔
جب رسول اللہﷺ پر وحی نزول ہوئی، تو آپ ﷺ کو صابی قراردیاگیا، اسلئے کہ مکہ کا مشرک طبقہ خود کو دینِ ابراہیمی کا علمبردار سمجھتاتھا، یہود ونصاریٰ بھی حضرت ابراہیمؑ کو اپنا سمجھتے تھے اور اللہ نے فرمایا کہ ’’ ابراہیم ؑ یہودی نہ تھے اور نہ نصرانی تھے اور نہ ہی مشرکوں میں سے تھے‘‘۔ بہت بڑا اقدام اسلام نے یہ اٹھایا کہ مذہبی تعصب کی نفی کردی اور اس سے بڑھ کر کیا غیر متعصبانہ نظریہ ہوسکتاہے کہ قرآن نے وضاحت کردی کہ’’ اگراللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ دفع نہ کرتا تو مجوس، یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کی مساجد منہدم کردی جاتیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے ذکر ہوتاہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی نہیں آخرت کے اعتبار سے بھی قرآن میں یہ اعتقاد عام کردیا کہ ’’ بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، یہود ہیں، نصاریٰ اور صابئین ہیں، انمیں سے جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اچھے عمل کئے ان کو اجر بھی ملے گا اور وہ خوفزدہ اور غمگین بھی نہ ہونگے‘‘۔ فرقہ وارانہ مذہبی تعصب کے شکار دنیا میں قرآن کی تعلیم پر مشرکینِ مکہ کے جہلاء نے آپﷺ پر صابی (سیکولریابے دین) ہونے کا فتویٰ لگادیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم میں اللہ اور آخرت کا انکار نہیں تھا بلکہ مذہبی تعصبات کے شکار دنیا کو مثبت پیغام دیاگیا۔
نسلی گھمنڈ کے شکار بنی اسرائیل یہودونصاریٰ بنی اسماعیل کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے مگر جب رسول اللہ ﷺ نے جہالت کی اندھیر نگری میں علم کے چراغ روشن کئے تو سارا عجم اس روشنی کا علمبردار بن گیا۔ مولانامبارکپوری کی سیرت نگاری میں اول انعام یافتہ کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ ہے۔ رحیق اعلیٰ درجے کی شراب اور مختوم کا معنیٰ سیل بند ہے۔ پیار سے یہ نام رکھا گیاہے لیکن اگر فرقہ وارانہ تعصبات والے عناصر اسکے خلاف بھی منفی پروپیگنڈہ شروع کردیں تو مصنف، کتاب چھاپنے والے اور انعام دینے والے سب گستاخی کے فتوے کی زد میں آجائیں گے۔ گستاخی کے معیار کو اخلاق کے ترازو میں تولنے کے بجائے عدالتی ترازو میں جانچا جائے تو عدالت کی نافرمانی کو بھی گستاخی سمجھا جاتاہے۔ حدیث قرطاس میں حضرت عمرؓ کا رسول اللہﷺ کی طرف سے وصیت نامہ لکھوانے پریہ کہنا کہ ’’ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘ یقیناًموجودہ عدالت کی نگاہ میں گستاخی کے زمرے میںآتا ہوگااسلئے کہ عدالت اپنی حکم عدولی کو گستاخی سمجھتی ہے۔ کافی احادیث جن کو امام ابوحنیفہؒ نے اپنے معیار پر قرآن کے مطابق نہ سمجھا اور ان کی تردید کردی ، وہ بھی بغاوت کے زمرے میں آتا ہوگامگر نبیﷺ نے تو اپنے جانثارصحابہؓ کی تربیت ایسی کی کہ وہ ضمیر کے مطابق اختلاف کا اظہار کرتے بلکہ اللہ نے ان کا یہ فرضِ منصبی قرار دیا وامرھم شوریٰ بینھم ’’اورکسی خاص بات کو باہمی مشاورت سے طے کرتے تھے‘‘ ، صحابہؓ پر وحی نازل نہ ہوتی لیکن بسا اوقات کی ان کی رائے پر بھی وحی نازل ہوجاتی تھی جیسے بدری قیدیوں پر فدیہ اور سورۂ مجادلہ میں وضاحت ہے اسلئے نبیﷺ سے فرمایا : وشاورھم فی الامر ’’کسی خاص بات میں مشاورت کرلیا کریں‘‘۔اختلاف رائے پر گستاخی کا الزام اور سزا تو بہت دور کی بات تھی ، جبکہ صلح حدیبیہ کے معاہدے پر پوری قوم سراپا احتجاج بن گئی، نبیﷺ کو بغاوت کا گمان ہونے لگاتھا لیکن گستاخی کا فتویٰ کسی پر نہیں لگایا، ذی الخویصرہ نے واقعی گستاخی کا ارتکاب کیا،کہا کہ آپﷺ انصاف نہیں کرتے!نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون کریگا‘‘ ۔ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اسکو قتل نہ کردوں؟۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ اکیلانہیں، یہ گروہ در گروہ پیدا ہونگے ، یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال سے مل جائیگا۔ یہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اتریگا۔ ان کی نماز ، روزے کو دیکھ کر اپنی نماز اور روزے کو حقیر جانوگے۔یہ اسلام سے نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتاہے ‘‘۔ رسول ﷺ نے اس گستاخ کو کوئی سزا نہ دی، ابن صائد نے نبیﷺ سے کہا کہ آپﷺ امیوں کے رسول ہیں اور میں تمام جہاں کا رسول ہوں لیکن نبیﷺ نے اس کو قتل کرنے کا حکم نہ دیا۔جیوپر ڈاکٹر عامر لیاقت نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ ’’ صدیق اکبرؓ نے نئی نبوت والے کو توبہ کی ایک مہلت دی اور پھر انکے خلاف قتال کیا تھا‘‘۔پھر پاکستان میں قادیانیوں کا کیابنے گا؟۔جب ریاست کی طرف سے ایک آنکھ کا اشارہ ہوگا تو مذہبی طبقے اپنے ایمانی کیفیت کا مظاہرہ کرینگے۔ اپنے تضادات کو ٹھنڈے دل سے ختم کرنا ہوگا۔
عیسائی کے مقابلے میں یہود نے ضد میں عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنانا شروع کیا تھا، جیسے سپاہِ صحابہ والے 12ربیع الاوّل کے جلسے جلوس اور تعطیل و میلادالنبی ﷺ کو بدعت سمجھتے ہیں لیکن عشرہ محرم میں فاروقِ اعظمؓ کی تعطیل کیلئے حکومت پر زور ڈالتے ہیں۔ اس مرتبہ پختونخواہ کی حکومت نے پہلے محرم کو بھی یہ مطالبہ مان کر تعطیل کا حکم جاری کیا۔ اگر اہل تشیع محرم کے منانے سے پیچھے ہٹ جائیں تو وہ بھی تعطیل منانے کا مطالبہ نہ کرینگے۔ سعودیہ کا ماحول الگ ہے وہاں یومِ فاروق اعظمؓ منانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ اسلامی اقتدار قائم ہوا تو مدینہ کے یہودیوں میں پڑوسی ہونے کے ناطے شعور بیدار ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ان کا مؤقف بدل گیا، وہ کہنے لگے کہ ’’ ہم ہمیشہ سے توحید کے قائل رہے ہیں، کبھی شرک نہیں کیا‘‘۔ آج اسلام کی روشنی دنیا بھر میں پھیل گئی تو عیسائی بھی اپنا مؤقف بدل چکے ہیں۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ ہم اللہ کی شادی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ صرف عیسیٰؑ نہیں بلکہ اللہ کے تمام نیک مردوں اور خواتین کو ہم خدا کے بیٹے سمجھتے ہیں اور بیٹے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خدا نے شادی کی اور اس کی وجہ سے کوئی پیدا ہوا، اس سے اللہ کی ذات پاک ہے۔ حج کے بعداگلے دن تمام اخبارات میں آتا ہے کہ 30لاکھ فرزندانِ توحید نے فریضہ حج ادا کیا، توا س کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ حاجی خدا کے بیٹے ہیں یا مسلمان ان کو خدا کا بیٹا سمجھنے لگتے ہیں، اس طرح عیسائی بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا رشتے کی بنیاد پر بیٹا نہیں سمجھتے، حضرت داؤد علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ۔ اور خدا کی شادی اور جنسی بیٹے کو ہم بھی شرک سمجھتے ہیں‘‘۔(نیٹ پرایک خاتون پادری کا بیان موجود ہے)
پوری دنیا پر حکمرانی میں بڑے مقام پر فائز امریکن ، یورپین، آسٹریلین عیسائی یہ سمجھتے ہیں کہ:
توراۃ اللہ کی کتاب تھی لیکن یہود کی طرف سے اس میں رد وبدل ہوئی۔ حدود اور سزاؤں کا بہیمانہ نظام مسائل کا حل نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہی مؤقف تھا اسلئے انجیل میں حدود وتعزیرات کا وجود نہیں۔ قرآن میں توراۃ اور انجیل کی آدھی اورادھوری تعلیم ہے۔ مسلمانوں نے اسکے ذریعہ خود کو اسوقت عالمی سپر طاقت بنایا، جب نصاریٰ نے عملی طور پر خدا کے دین سے روگردانی کی۔ یہود نے حدود اور تعزیرات کی سخت سزاؤں کا اندراج کیا لیکن پھر اس پر خود بھی عمل نہ کرسکے اور یہی حالت مسلمانوں کی رہی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے زبردست حکمتِ عملی سے کام لیکر فرمایا کہ ’’ جس نے خود زنا نہیں کیا ہو،وہی پتھر مارے‘‘ جس سے سزا کا تصور معاشرے سے ختم ہوگیا، اسلئے کہ شریف لوگ دوسرے کو مارنے میں بہت محتاط ہوتے ہیں، بلکہ وہ معاف کرنے اور درگزر کا رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن جو لوگ خود بدمعاش اور بدکار ہوتے ہیں وہ دوسروں کو سخت ردِ عمل سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ ’’وہ بات کیوں کرتے ہو؟ جس پر خود عمل نہیں کرتے ‘‘۔ رسول اللہﷺ نے سنگساری کی سزا کو ٹالنے کی کوشش کی۔ ہاتھ سے پتھر نہیں مارا۔ لوگوں نے مارا، تو وہ بھاگا، کسی نے بڑاپتھر مارا ، نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ بھاگنے دیتے‘‘ اور جس نے مذمت کی کہ اپنا راز کیوں کھولا؟۔ تو نبیﷺ نے اسلئے اس کی تعریف کی کہ اس نے تو کسی کو نہیں مارا تھا۔ اپنے اوپر حد جاری کرنے کیلئے خود گواہی دی تھی۔ اسلئے نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اس کی توبہ اگر پورے مدینہ والوں پر بانٹ دی جائے تو سب کو پوری ہوجائے‘‘۔
حضرت عمرؓ کے سامنے بصرہ کے گورنرحضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کے خلاف زناکی گواہی دینے کیلئے چار افراد نے ایک ایک کرکے خود کو پیش کیا ۔ پہلے کی گواہی پر حضرت عمرؓ بہت پریشان ہوئے، دوسرے پر اس سے زیادہ پریشان ہوئے، تیسرے پر پریشانی کی انتہا ء نہ رہی تو چوتھے کو آتے ہوئے ترغیب دی کہ’’ اسکے ذریعے اللہ اس صحابیؓ کو ذلت سے بچائے گا۔ پھر وہ قریب آکر گواہی دینے لگا تو حضرت عمرؓ نے چیخ مار کر کہا کہ تیرے پاس گواہی کیلئے کیا ہے؟۔ چوتھے گواہ زیاد نے کہا کہ ’’ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، عورت کی ٹانگیں اسکے کاندھے پر گدھے کے کان کی طرح پڑی تھیں اور میں نے سرین دیکھا ‘‘۔ راوی نے کہا کہ عمرؓ نے اتنے زور سے چلاکر کہا تھا کہ تیرے پاس کیا ہے کہ قریب تھاکہ میں ڈر کے مارے بیہوش ہوجاؤں، عمرؓ نے شہادت رد کردی اور تین گواہ پر80کوڑے کی حدِ قذف جاری کردی۔ مغیرہؓ کو بچایا لیکن گورنری سے ہٹا دیا۔ اس نے کہا کہ مجھے گورنر بنادو، تو عمرؓ نے فرمایا کہ آپ گورنری کی بات کرتے ہو؟۔ اگرگواہ پورے ہوجاتے تو سنگسار کردیتا۔ ان گواہوں میں ایک صحابیؓ حضرت ابوبکرہؓ بھی تھے ، جب حضرت عمرؓ نے ان تین افراد کو حدِ قذف کے بعد یہ پیشکش کی کہ تم کہہ دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر آئندہ تمہاری گواہی قبول ہوگی۔ حضرت ابوبکرہؓ نے کہا : ضرورت نہیں کہ آئندہ میری گواہی قبول ہو ۔ باقی دو افراد نے کہا کہ ہم نے جھوٹی گواہی دی تھی۔ جمہورائمہ مجتہدین ؒ کے نزدیک عمرؓ کی پیشکش درست تھی اسلئے کہ قرآن میں توبہ کی گنجائش ہے، امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ پیشکش غلط تھی اسلئے کہ قرآن میں جھوٹی گواہی دینے والوں کی توبہ قبول نہیں ۔ بخاری میں ان دوگواہ کے بھی نام ہیں۔ وہ دو گواہ معتبر ٹھہرے اور بنی امیہ و بنوعباس اور خلافت عثمانیہ کے ادوار سے عدالت کو اس قسم کے معتبر شاہی اور درباری گواہوں سے تقویت ملتی رہی ۔ علیؓ سے حضرت عائشہؓ کی جنگ ہورہی تھی تو بخاری میں ہے کہ علیؓ کے لشکرمیں حضرت ابوبکرہؓ بھی تھے انہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی، جس کی قیادت عورت کررہی ہو‘‘۔ حضرت ابوبکرہؓ کی گواہی جب معتبر نہیں رہی تھی تو ان کی بیان کردہ حدیث کا بھی اعتبار ہے یا نہیں؟۔ حدیث کا اس خاص واقعہ سے تعلق تھا یا ہمیشہ کیلئے یہ بات ہے؟۔ بینظیر بھٹو کو نوازشریف اور زرداری سے بہتر قرار دیا جاتاہے۔ عشرہ مبشرہ کے دو صحابہ کرام طلحہؓ اور زبیرؓ حضرت عائشہؓ کے لشکر میں علیؓ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ یہ اسلامی حکومت کی قانون سازی سے ممکن ہوسکا کہ چور ی و سنگساری کی وحشیانہ سزا ئیں ختم ہوگئیں۔
فقہاء نے نہلے پر دھلا کرکے زنا کی گواہی کیلئے یہ شرط رکھ دی کہ سرمہ دانی میں سلائی کی طرح گواہ چشم دید گواہی دے۔ گویا جب تک انسانی اجسام شفاف شیشے کی طرح نہ ہوں یا الٹرا ساؤنڈ سے زیادہ اچھے مشین کی طرح نہ دیکھیں تو یہ گواہی معتبر نہیں ہے۔یورپی یونین کے دباؤ کی وجہ سے پیپلزپارٹی وغیرہ نے پاکستان میں قتل کے بدلے قتل کی سزا کو ختم کرنے کی کوشش بھی اسلئے کی تھی اور کافی عرصہ تک قتل کے بدلے قتل کا سلسلہ بھی پاکستان میں رکا رہا۔ اگر پیپلزپارٹی اور سول سوسائٹی کو بھاری اکثریت ملتی تو قانون میں تبدیلی بھی لائی جاتی۔عیسائیوں کا یہ مؤقف ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے عمل یہودیوں نے اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور اسلام نے انجیل کے مشن کو بہت بہترین انداز میں دنیا کے اندر نافذ کردیا۔ اسلئے عیسائی رسول اللہ ﷺ کو اول نمبر کا کامیاب قانون دان قرار دیتے ہیں ، حضرت عمرؓ نے بھی توراۃ کے شرعی حدود کو آثار قدیمہ میں ہی بدل ڈالا۔ بصرہ کے گورنر کی جو حالت بیان کی گئی ہے اس سے زیادہ تو مغرب کی دنیا میں آج بھی نہیں ۔ اسلئے حضرت عمرؓ کو بھی خاص مقام عیسائیوں نے دیا ۔ برطانیہ نے مرزاغلام احمد قادیانی سے جہاد کو منسوخ کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ نے روس کے خلاف پھر جہاد کو دنیا میں منظم کردیا۔ جب روس کو شکست ہوئی اور امریکہ سپر طاقت بن گیا تو ڈونلڈ ٹرمپ کو یہودی لابی نے کامیاب کروایا۔ جو اسرائیل اور روس سے بھرپور دوستی کریگا۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی غیر سیاسی جماعتیں ہیں جو نصاریٰ کے مشن کو ہی تقویت پہنچانے کا للہ فی اللہ کام کررہی ہیں کیونکہ حکومت ، حدود اورتعزیرات ان کے نصاب سے خارج ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں نے مغرب کے جمہوری نظام کو قبول کرلیا وہ بھی سمجھوتہ ایکسپریس ہیں اور مقبولِ عام علماء شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور ہلال کمیٹی کے چےئرمین مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن وغیرہ نے بینکوں کے سودی نظام کو اسلامی قرار دیا ہے۔ جن لوگوں میں خلافت کا جذبہ ہے وہ بغاوت کا سامنا کررہے ہیں ،ان میں بھی مچھلی اور جھینگے کا پتہ نہیں چلتا کہ کون شکار کررہاہے اور کون ہورہاہے؟۔ مدارس اسلام پڑھا رہے ہیں یا اپنا کاروبار جمارہے ہیں؟ ۔مینا اور طوطا کی طرح رٹے رٹائے اسلام کی تبلیغ اور دعوت دینے والے کامیاب ہیں اور اسلام کو اس کی روح کے مطابق زندہ کرنے والوں کیلئے مسلمانوں کے معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں، میڈیا کو بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس وقت اشہارات دیتی ہیں جب انکے ایجنڈے پر کوئی اثر نہ پڑے۔ سودکے جواز کا فتویٰ دینے والے گنتی کے چند علماء ومفتیان معتبر اور مخالفت کرنیوالی اکثریت کی حیثیت نہیں اور پھر بھی میڈیا پر میرٹ کا راگ الاپا جاتاہے۔ جو لوگ چند مراعات یافتہ طبقے کے خلاف عوام کی اکثریت کی بات میڈیا پر کرتے ہیں ان کو بھی پاگل سمجھا جاتاہے۔
قرآن نے تو شروع سے ہی اہل کتاب سے کہا تھا کہ ’’ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب آؤ، اس بات کی طرف جس میں ہم دونوں ایک ہیں،کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسکے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرینگے‘‘۔۔۔ ’’کوئی اسکے حکموں میں شریک نہ ہوگا‘‘۔ یہودونصاریٰ اپنے پیر اور علماء کے حلال و حرام کو اللہ کے حکموں میں شریک کرتے تھے اسلئے انکے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ’’ انہوں نے اپنے احبار ورھبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا‘‘۔ توحید کی جنگ ہم جیت چکے ہیں، یہودو نصاریٰ بھی توحید کے قائل ہوگئے ۔ اب اصل جنگ نظام کی ہے اور جب دنیا کو اسلام کے نظام کا پتہ چلے گا تو انسانیت توحید کی طرح اسلام کے احکام کو بھی دنیا میں نافذ کرنے پر آمادہ ہوگی، لیکن جب مسلمان خود بھی اسلامی احکام سے واقف نہیں ہونگے تو دنیا کیسے قبول کرے گی؟۔ عیسائیوں کو یہود سے خطرہ نہیں مگر فطری دین اسلام سے بااثرطبقہ ڈرتاہے کہ ’’دنیا بھر میں عادلانہ نظام نافذ نہ ہوجائے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان سچ ثابت ہوا ۔یہودکے نقش قدم پر خود ساختہ حلال و حرام کا دورآیا ۔ سودی نظام کو جواز فراہم کرنے کے علاوہ اجنبیت کے ادوار پر غور اورعملی اقدامات اٹھانے ہونگے اور جب معاشرے کو خالص قرآن و سنت کے مطابق ڈھال دینگے تو من حیث القوم مسلمان عروج کی منزل پر پہنچ جائیں گے۔ معاشرے میں انسانی کمزوری کی وجہ سے بہت سے دانستہ اور نا دانستہ غلطیاں ہوجاتی ہیں جن سے درگزر کی ضرورت ہے لیکن ان کا ازالہ کرنا چاہیے، ضد اور ہٹ دھرمی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ نبیﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع جاہلیت کے خون ختم کردئیے اور پہلے اپنوں میں سے ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون معاف کردیا اورچچا عباسؓ کا سود معاف کردیا تو حضرت عباسؓ نے اصل بھی معاف کردیا۔ ہمارے مولوی نے قرآن کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی، طلاق و حلالہ کی غلط راہ پر عوام کو لگادیا، اب سوچنے کی بات یہ ہے دارالعلوم کراچی سے قرآن و سنت کے حوالہ سے بتایا گیاکہ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر گناہوں میں سے کم از کم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ پھر جب عوام کے ذہن میں سود کی ایسی حرمت اور گناہ بیٹھے گا تو بینکوں کے اسلامی نظام کو بھی حلالہ کی لعنت سے بڑھ کر احسان سمجھیں گے اسلئے کہ ماں سے زنا تو بہت بڑی بات ہے۔ حضرت عباسؓ کو یہ وعید سنائی جاتی تو شاید پہلے ہی سود چھوڑ دیتے۔
قرآن کے نظام کو نافذ کرنے کیلئے طرزِ نبوت کی خلافت کا قیام ضروری ہے، نہیں تو کم ازکم حیلے کا عمل چھوڑ کر حرام کو حرام سمجھا جائے ، موقع مل جائے تو عملی طور سے ختم کیا جائے۔ سیدعتیق الرحمن گیلانی