دسمبر 2020 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

وزیراعظم کا سپورٹر پختون بے غیرت ہے، فضل الرحمن: اداریہ نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
وزیراعظم عمران خان کی جتنی مخالفت نوشتۂ دیوار میں ہم نے کی ہے شاید کسی اور نے اتنی مخالفت نہیں کی ہوگی لیکن مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا کہ ”جو پختون عمران خان کو سپورٹ کرتا ہے وہ پختون نہیں بے غیرت ہے جو اس دلّے کی حمایت کرتا ہے خواہ وہ خٹک ہو، بنونچی ہو ،مروت ہو یا پھر بیٹنی ہو”۔
مولانا صاحب! آپ کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی ہے۔پی ڈی ایم (PDM)کے سربراہ بن گئے ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد اور نظام مصطفیۖ کی تحریک کے بعد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ ایک بڑا سیاسی اتحاد ہے۔ وہ بھی دھاندلی کیخلاف تھا اور یہ بھی دھاندلی کے خلاف ہے۔ اس میں بھی قومیت اور مذہب کا نعرہ شامل تھا اور اس میں بھی قومیت اور مذہبی جذبہ کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
اگر مولانا فضل الرحمن صرف پختونوں سے کہیں گے کہ جو پی ٹی آئی میں ہے وہ بے غیرت ہے پھر اسکا منطقی نتیجہ نکلے گا کہ دوسری قومیں پنجابی، سندھی ، سرائیکی، ہزارے وال، بلوچ اور مہاجر سب کے سب غیرت نہیں رکھتے؟۔ اگر عمران خان نے پختونوں کیساتھ اسپیشل زیادتی کی ہوتی تو حق بنتا تھا کہ انہی کو تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے پر بے غیرت قرار دیا جاتا۔ مولانا سے تو پی ٹی ایم (PTM )کے بچے اچھے ہیں جو پختون بھائیوں کی مظلومیت کا رونا اپنی جگہ پر ضرور روتے ہیںلیکن دوسری قوم والوں کو بے غیرت نہیں کہتے۔ چییونٹی کی موت کا وقت آتا ہے تو پر نکلتے ہیں۔ مولانا نے اُڑان بھرنی شروع کی ہے ۔ اللہ خیر کرے کہ اس کی موت کا وقت قریب نہ ہو۔
مولانا فضل الرحمن ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اپنے اخلاق ، کردار ، جمہوری روایات اور انسانیت ہر لحاظ سے بہت اچھے ہیں۔ عمران خان نے روایات اور سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر مولانا فضل الرحمن کے خلاف بڑی گھٹیا زبان استعمال کی، جو عمران خان کے نیچ پن کی دلیل ہے۔ خطیب العصر سید عبدالمجید ندیم نے جب الیکشن کے دوران ایک دفعہ عمران خان کو بندر سے تشبیہ دی تو مولانا فضل الرحمن نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کرنے سے بہت سختی کیساتھ روک دیا۔ مولانا ندیم صاحب نے ایک مرتبہ 8اپریل کو ڈیرہ اسماعیل خان میں کہاتھا کہ ہر سال مفتی محمود کی برسی کے موقع پر ہماری ملاقات حق نواز پارک میں ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ حق نواز پارک میں خوابوں کا شہزادہ (ڈاکٹر طاہرالقادری) آیاہے۔ حکومت نے 8 اپریل کو جمعیت علماء اسلام کے سالانہ کنوینشن کو دھچکا پہنچانے کیلئے ڈاکٹرطاہرالقادری کو بلوایا ہوگا۔ اس وقت اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نوازشریف اور جماعت اسلامی کی حکومت تھی اور ڈاکٹر طاہرالقادری میاں نوازشریف کے مذہبی رہنما تھے۔ مولانا سمیع الحق کو میڈم طاہر ہ کے اسکینڈل سے اخبارات میں بدنام کیا تھا ، حالانکہ چیئرمین پی ٹی وی (PTV) نعیم بخاری کی بیگم طاہرہ سید کیساتھ نوازشریف کا حقیقی اسکینڈل بن سکتا تھا لیکن اس کے خلاف زرخرید میڈیا نے کوئی اسکینڈل شائع نہیں کیا تھا۔ پی ٹی ایم (PTM)نے8اپریل کو پشاور میں جلسۂ رکھا تھا تو مولانا فضل الرحمن کو خدشات ہوسکتے تھے کہ ہمارے مقابلہ میں کوئی استعمال کررہاہے۔ جیسے پشاورپی ڈی ایم ( PDM)کے مقابلہ میں جماعت اسلامی نے سوات میں جلسہ رکھا تھا۔ مولانا شیرانی نے اسلئے پی ٹی ایم (PTM)کے خلاف بات کی تھی۔

اگر مولانا فضل الرحمن یہ کہتا کہ نوازشریف نے مولانا سمیع الحق شہید کو بدنام کیا تھا اسلئے خٹک اور پختون اور خاص طور پر علماء بے غیرت ہوںگے جو نوازشریف کا ساتھ دیں تو بات سمجھ میں آتی تھی ،اسی طرح نعیم بخاری کی بیگم چھین لینے پر اگر پنجاب کے لوگوں کو نوازشریف کا کہتے تو بھی بات بنتی تھی لیکن عمران خان کی حمایت کرنے پر پختونوں کو بے غیرت کہنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔
جب عمران خان نے ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن لڑا تو مجھے گلشاہ عالم برکی نے کہا کہ ہم آپکے مرید ہیں اور آپ ہمارے پیر ہیں۔ ہماری پارٹی تحریک انصاف کی حمایت کریں۔ میں نے کہا کہ یہودی کی؟۔ پھر مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی نے اپنے مرکز مولانا فتح خان کی جامع مسجد کوتحریک انصاف کا دفتر بنادیا۔ایوب خان بیٹنی صوبائی امیدوار تھے۔ جنرل ظہیرالاسلام عباسی ہمارے پاس آئے تو ایوب بیٹنی سے انہوں نے کہا کہ آپ یہودی کے ٹکٹ پر کھڑے تھے؟۔ میں نے وضاحت کی کہ” جے یوآئی کی مرکزی مسجد انکا دفتر تھا ” تو جنرل عباسی صاحب نارمل ہوگئے۔ تحریک انصاف کو دفتر دینے کی وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمن قومی سیٹ جیتنے کیلئے صوبائی امیدواروں سے اتحاد کرتا تھا۔ تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کی توجیہ یہ تھی کہ بیٹنی قوم بڑی ناراض ہے ، انہوں نے اپنے امیدوار کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کھڑا کیا اسلئے ہم نے تحریک انصاف کیساتھ اتحاد کیا جبکہ مولانا سمیع الحق کیساتھ اتحاد تھا لیکن ان کے مطالبے کے باجود جے یو آئی س کیساتھ ایک دفتر کیلئے تیار نہیں تھے۔ بیٹنی قوم کی ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ جے یو آئی کے موجودہ صوبائی رکن اسمبلی کا باپ حاجی رمضان قومی اسمبلی کیلئے کھڑا تھا اور جب مولانا فضل الرحمن اور رمضان دونوں ناکام ہوگئے تو حاجی رمضان نے کہا کہ میرا مقصد مولانا کو ہرانا تھا۔ پھر مولانا نے اپنا امیدوار حبیب اللہ کنڈی کے حق میں بٹھاکر حاجی رمضان کے بیٹے حاجی نثار کو ہروادیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن جانتے ہیں کہ سیاست میں غیرت کا معیار کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے؟ اسلئے دوسروں کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے غیرت اور بے غیرتی کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے سود فعہ سوچ لینا چاہیے ورنہ حریف للکاریںگے اور اپنے ساتھی مولوی مروت کی غیرت کو ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے تماشا بنادیںگے۔
مولانا فضل الرحمن کو پتہ ہے کہ علماء ومفتیان نے قرآن وحدیث اور چاروں اماموں کے برعکس جاگیردارانہ نظام کو ناجائز جواز بخشا ہے جس کی وجہ سے غلامی کے نظام کو دنیا سے ختم کرنے کے بجائے دوبارہ اسلام کے نام پر جاری رکھا گیا ہے۔ پھر تصویر کو بھی غلط طریقے سے ناجائز قرار دیا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر قرآن وسنت کی عظیم تعلیمات کے برعکس حلالہ کی لعنت کو جواز بخشا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس موضوع پر ضرور غور کریں۔ مدارس کے فتوؤں اور مفتیوں کی بداعمالیوں سے غیرت کا جنازہ نکل رہاہے ۔حلالہ کی لعنت جاری رکھنے والوں کو اس بے غیرتی کا احساس کرنا چاہیے ورنہ جس دن غیور عوام اُٹھیںگے تو بے غیرتوں کو غیرت کا سبق سکھا دیںگے اور پھر سب بہت حیران وپریشان ہوںگے لیکن ضمیر کی رسیوں نے سب کو قید کرکے رکھا ہوگا۔ پارلیمنٹ سے بازارِ حسن تک کی کتابوں میں عیاشیوں کی داستانیں لکھی ہوئی ہیں لیکن حلالہ کی داستانیں عوام کے سامنے آگئیں تو پھر کیا ہوگا؟
بچوں کے سکول کی ٹیوشن فیس ہے اگر مساجد کے ائمہ کو قرآن پڑھانے کیلئے ہدیہ دیا جائے تو مسجد کے امام کی تنخواہ پچیس (25)سے چالیس(40) ، پچاس (50)ہزار تک بن سکتی ہے۔ علماء کرام ہمارے دین اور ایمان کے محافظ ہیں لیکن غلط مسائل کھڑے کرنے کے بجائے اگر قرآن وسنت پر توجہ رہتی تو مساجد بھی ہدایت سے مالامال ہوتیں اور عوام کا رحجان بھی دین کی طرف بڑھ جاتا۔ مسلمانوں کو فرقہ واریت نہیں دین سے محبت ہے مگرعلماء اپنے اپنے فرقوں کیلئے قابل قبول اور دوسروں سے نفرت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کرپٹ ، سازشی، بداخلاق وبد کردار عناصر ہم پر حکومت کرتے ہیں۔ قرآن نے اسلام میں پورے پورے داخل ہونے کا حکم صرف لبادے کیلئے نہیں دیا۔

تقرر ِامام ہمارے اندورنی وبیرونی حالات کے تقاضے: عتیق گیلانی

تقرر ِامام ہمارے اندورنی وبیرونی حالات کے تقاضے
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
مولانا محمد خان شیرانی نے علامہ سید جواد نقوی کیساتھ ایک تقریب میں بیٹھ کر نصبِ امام کا ذکر کیا ہے۔ شیعہ سنی کی اکثریت اس بات کو نہیں سمجھ رہی ہے کہ ایران میں شیعہ حکومت قائم ہونے کے بعد امام مہدی غیب کے پردہ سے نکل کر تشریف نہیں لارہے ہیں اور سنی عقیدہ رکھنے والے امامت کا تقرر کرتے ہیں تو اس کو سب سے بڑا جرم اور بغاوت کا جھنڈا سمجھا جاتا ہے۔ اگر پاکستان حکومت کی سطح پر تقرر امام کا اعلان کرے اور اس پر شیعہ سنی متفق ہوجائیں۔ مولانا شیرانی نے امام تنظیم کا ذکر کیا ہے جس سے مراد ” اتحاد ملت اسلامیہ محاذ” ہے۔ عمران خان نے شیعہ لابی کی وجہ سے پاکستان کو سعودیہ سے دور کرکے ایران کے قریب کردیا ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں مولانا فضل الرحمن کیساتھ مولانا اویس نورانی کے علاوہ تحریک جعفریہ بھی شامل تھی لیکن پی ڈی ایم (PDM)کے محاذ میں اہل تشیع عمران خان کے خلاف اپوزیشن کا حصہ نہیں ہیں اور مولانا شیرانی بھی مولانا فضل الرحمن سے ناراض ہیں اسلئے امام کی طرف گئے ہیں۔
جب انجمن سپاہِ صحابہ کے مولانا حق نواز جھنگوی شہید جے یوآئی پنجاب کے نائب امیر تھے تو جمعیت کے اسٹیج سے شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے لیکن مولانا شیرانی کا انجمن سپاہِ صحابہ کو الگ ذیلی تنظیم کی حیثیت سے جمعیت میں شمولیت پر اتفاق نہیں تھا اور پھر آخر مولانا شیرانی کا مؤقف درست ثابت ہوا۔ سپاہ صحابہ پے درپے قیادت سے محروم ہوگئی تو مولانا فضل الرحمن کے خلاف نعرہ لگایا کہ شیعہ کافر جو نہ بولے وہ بھی کافر۔ مولانا شیرانی نے انتخابی سیاست چھوڑ کر انقلابی سیاست پر جمعیت علماء اسلام کو قائل کیا تھا اور ڈیرہ اسماعیل خان سے باقاعدہ مولانا فضل الرحمن نے مشاورت کے فیصلے کا بھی اعلان کیا لیکن جب لاہور مینارِ پاکستان میں عوام کو بڑے پیمانے پر خوشخبری سنانے اور انقلابی سیاست کا آغاز کرنے کیلئے بلایا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے پاک فوج کے افسران کی دھونس سے اعلان کو مؤخر کرکے عظیم اجتماع کو ٹال دیا تھا۔ آج مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اسٹیبلیشمنٹ سے مکمل آزادسیاست کیلئے گیارہ جماعتوں کا اتحاد ہے اور اس کیلئے مریم نواز نے آر یا پار کا اعلان کررکھاہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی تیار ہیں۔نتیجہ جو بھی نکلے وہ کچھ دنوں میں عوام کے سامنے آئیگا۔ پیپلزپارٹی اقتدار کی قربانی دے گی یا نہیں لیکن وہ اس ایجنڈے کے حق میں ہے۔ محمود خان اچکزئی مشن کے روح رواں اور باقی جماعتوں کے میا ں افتخار، اخترمینگل ، عبدالمالک ، آفتاب شیرپاؤ ،علامہ ساجد میر اور مولانا اویس نورانی سب اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے بے دخل کرنے پر متفق ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ایک مضبوط سیکشن کی طرف سے وزیراعظم ، اسپیکر قومی اسمبلی اور سینٹ کے چیئرمین کی تبدیلی کی آفر ہے جو پی ڈی ایم (PDM)نے رد کردی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے گودی سیاستدانوں کا سلسلہ ختم کرنے کا عندیہ ہے، جسکا اظہار پروفیسر احمد رفیق اختر کے ایک دوست نے ٹیلی فون پر مجھ سے کیا ہے۔سعودی ایران جھگڑے کی زد میں آیا ہوا پاکستان لسانی ، نظریاتی اور مفادات کی سیاست کا بھی بری طرح شکار ہے۔
میرا ایک ایسا کزن ہے جو نیشنلسٹ ہے اور افغان بادشاہ امیر امان اللہ خان ہی کو مانتا ہے جسکے علامہ اقبال بھی مداح تھے جو انگریز کا مخالف تھا اور جرمنی کا حامی تھا۔ وہ خیبر پختونخواہ کے ترقی یافتہ اضلاع پشاور ، چارسدہ، سوات، دیر، بنیر اور صوابی وغیرہ کو پشتو اسپیکنگ پنجابی سمجھتا ہے اور وزیرستان کے محسود اور وزیر کو بھی پنجابی قرار دیتا ہے جنہوں نے بڑے پیمانے پر طالبان کو سپورٹ کیا اور افغانستان کے پشتونوں کو بھی پنجابی ذہنیت قرار دیتا ہے۔ پنجابیوں سے مراد اسکے نزدیک انگریز کے وفادار ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ محسود اور وزیر بھی اس قابل ہیں کہ مچھر کے اسپرے سے ان کو مار دیا جائے۔ یہ بہت پرانی روایت ہے کہ انگریز مخالف برصغیر پاک وہند کے حریت پسندوں کو بیرونی ایجنٹ قرار دیا جاتا تھا اور اس میں کچھ نہ کچھ صداقت اسلئے تھی کہ جرمنی حریت پسندوں کا فیورٹ ہوتا تھا جہاں سے لیڈروں کو تحریک کیلئے بڑے پیمانے پر خفیہ امداد بھی ملتی تھی۔
جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو مہاجرین وانصار اور قریش واہلبیت میں یہ اختلاف ہوا کہ خلافت کا حقدار کون ہے؟۔ حضرت ابوبکر وعمر کے بعد حضرت عثمان اور حضرت علی نے شہادت پائی۔ حضرت امام حسن دستبردار اور حضرت حسین یزید کے لشکر کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ بنوامیہ، بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ تک موروثی اقتدار عروج پر رہا ۔ فاطمیہ ،مغل ، خاندانِ غلاماں موروثی اقتدار کے بعد انگریز نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ اچھے برے سب طرح کے حکمرانوں نے اپنی اپنی جگہ اقتدار کیا۔ محمودغزنوی، احمد شاہ ابدالی اور شیرشاہ سوری نے بھی نمایاں کارنامے انجام دئیے۔ انگریز کے جانے کے بعد سول وملٹری بیوروکریسی نے آزادی کی خاطر قربانی دینے والوں کو غدار اور گودی لے پالکوں کو وفادار کے سرٹیفکیٹ جاری کئے یہاں تک کہ فاطمہ جناح نے کہا کہ پاکستان کو نہیں بننا چاہیے تھا۔ اسلئے ان پر غداری کے الزامات عائد کئے گئے۔ نوازشریف نے جس طرح بھٹو کی پھانسی سے یوسف رضاگیلانی کی برطرفی تک اسٹیبلشمنٹ کے پالتو کتے کا کردار ادا کیا۔ پھر ملتان کے جلسے میں کٹھ پتلی کی تاریخ بیان کرکے مریم نواز نے نوازشریف کو ہیرو قرار دیا تو لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے اور آصفہ بھٹو کی مختصر گفتگو بہت اچھی اسلئے لگی کہ چرب زبانی کے گفتار کا جواب تاریخی کردار سے دیا گیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن نے کرونا کی وجہ سے مسجد میں نماز اور تراویح کو خیرباد کہا تھا تو ہم نے اس کو سراہا تھا اور اب اپوزیشن کی وجہ سے کرونا کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے تو یہ اس کی اپنی سیاست ہے۔ غربت سے تنگ عوام ریاست کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی تو بھی خون خرابہ ہوگا اور سیاسی مفادات کیلئے عوام کو ریاست سے لڑایا گیا تو بھی خون خرابہ ہوگا اوریہ اللہ کاشکر ہے کہ پی ٹی ایم (PTM)کو پی ڈی ایم (PDM) سے باہر کیا۔ طالبان کے نام پرقربانی دینے والی قوم پہلے ہی بہت مصائب کا شکار ہے۔محسود اور وزیر لشکری قوم ہے ، اگرچہ پی ٹی ایم (PTM) کو وزیرستان میں خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے لیکن اگر پی ڈی ایم (PDM)کیساتھ ملکر لاہور کی طرف لانگ مارچ ہوتا تو اس کے بہت خراب نتائج نکل سکتے تھے۔ کیونکہ کسی انقلاب کی بجائے یہ مریم نواز کے مفاد کی بھینٹ چڑھتے۔ قبائل کے باشعور طبقات کو یہ گلہ ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کیلئے قربانیاں دیتے رہے ہیں لیکن ہمارے مفاد کیلئے کوئی بھی نہیں آیا ہے۔ جب قبائل کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا تو بادشاہی خان محسود نے ان سے گلہ کیا تھا کہ کراچی سے مہاجروں نے آکر ہمارے لئے پناہ گزینوں کیلئے خیمے اور امدادپہنچائی مگر آپ لوگوں نے ان مشکلات میں ہمیں یاد کرنے کی کوئی زحمت نہیں کی تھی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ قبائل نے بالعموم اور وزیرومحسود نے بالخصوص بڑے پیمانے پر طالبان بن کر جی ایچ کیو(GHQ) ، آئی ایس آئی ملتان دفتر اور فضایہ کراچی تک کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ مساجد، بازاروں اور سرکاری دفاتر تک بہت لوگوں کا خون بہایا تھا۔ اب اگر پی ٹی ایم (PTM)کہتی ہے کہ پختون بے گناہ تھے۔ استعمال ہم ہورہے تھے ۔ ہمارے اندر کسی اور نے انگل ڈال کر مست کردیا تھا تو یہ قطعی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ وزیرستان سے ایک ایسے لشکر کی ضرورت ہے جو مینار پاکستان سے غیر متعصبانہ انقلاب کا اعلان کرے۔ پورے پاکستان کو ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کیلئے حق کی وہ آواز ہو جس سے مخلوقِ خدا بالکل خوش ہوجائے۔ امن اور سلامتی کی ضمانت دے اور بھارت کے مسلمان پاکستان کے نظامِ عدل پر رشک کرکے دنیا کو تباہی وبربادی کے راستے سے روک لیں۔ ہندو، سکھ، بدھ مت اور عیسائی سب کے سب خیرخواہ اور ہمنوا ہوجائیں۔

لوگوں کیلئے اسلام دین اور مذہب ہے لیکن اسلام پختونوں کی زندگی کا حصہ ہے، نور اللہ ترین

وزیرستان میں لوگ باجماعت نماز پڑھتے ہیں، تبلیغی جماعت میں سب سے زیادہ ہیں ، لوگوں کے نکاحوں میں اپنی بیگمات ہیں، نائٹ کلب نہیں، عورتیں اور مرد ایک ساتھ نہیں بیٹھتے
نفاذِشریعت کی ضرورت لاہور یا وزیرستان میں ہے؟، باجوڑ میں یا کراچی میں؟۔ تمہارے ہاںچوبیس گھنٹے ہیرا منڈی چلتی ہے، نائٹ کلبوں میں اتنی شراب جتنی ہم لسی نہیں پیتے ہیں!
پنجابی اور سندھی مولوی کہتا ہے کہ وزیرستان میں شریعت نافذ کرو۔ کیا ہمارا قرآن الگ ہے اور تمہارا قرآن الگ ہے یا کوئی اور؟
کراچی پی ٹی ایم (PTM)کے رہنما نے کراچی میں جلسۂ عام کیلئے ایک کارنر میٹینگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ جاؤ، دیکھو،وزیرستان میں لوگوں نے داڑھیاں رکھی ہیں، نماز باجماعت مسجد میں پڑھتے ہیں۔ سینما نہیں ہے کہ لوگ فلمیں دیکھیں، نائٹ کلب نہیں ہیںکہ اس میں عورتین اور مرد ایک ساتھ بیٹھے ہوں۔ لوگوں نے نکاح میں اپنی عورتیں بٹھا رکھی ہیں۔ ہر کسی سے تبلیغی جماعت میں بھی ہم زیادہ ہیں۔ پھر ہم سے کیا شریعت مانگتے ہو۔ میں تو جب سے پیدا ہوا ہوں ، شریعت محمدی سے میرا تعلق ہے۔ ایک بات یہاں ہم کرلیتے ہیں کہ اسلام لوگوں کیلئے دین ہوگا، لوگوں کیلئے مذہب ہوگا مگر پشتونوں کی زندگی کا حصہ ہے۔ پشتون پیدا ہو تو بھی مسلمان ہوگا اور مرے گا تو بھی مسلمان ہوگا۔ ہم سے کیا ہے؟۔ ہمارے اندر تو پہلے سے شریعت ہے۔ لیکن یہ ایک ڈرامہ تھا۔ پنجابی علماء کیا کررہے تھے، سندھی علماء کیا کررہے تھے، یہاں سے بیان دیدیتے تھے کہ وزیرستان کے علماء ٹھیک بات کرتے ہیں۔ شریعت ہے اور اس کا حق بنتا ہے کہ لوگ شریعت کا نظام پختونوں میں نافذکردیں۔ پنجابی علماء بھی یہی کہتے تھے، سندھی علماء بھی یہی کہتے تھے۔ اب ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ کیوں مولوی صاحب ! کیا پشتونوں کا قرآن الگ ہے اور تمہارا الگ ہے؟۔تیرے لاہور میں سرِ عام ہیرامنڈی کھلی ہوئی ہے۔ یہ اڈہ چوبیس گھنٹے تم چلاتے ہو۔ تو شریعت یہاں ضروری ہے یا وزیرستان میں ضروری ہے؟۔ شریعت کراچی میں لازمی ہے یا باجوڑ میں ؟۔ نائٹ کلب تمہارے ہیں ڈیفینس میں، تم جاؤ،رات کو لوگوں کو دیکھو۔ ہمارے لوگ خدا کی قسم اتنی لسی نہیں پیتے جتنی لوگ وہاں شراب پیتے ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ ڈرامہ تھا۔ شریعت مقصد نہیں تھا ،اگر شریعت مقصد ہوتا تو پھر چاہیے تھا کہ لاہور میں شریعت نافذ ہوتی، چاہیے تھا کہ کراچی میں شریعت کا نفاذ کرتے۔ یہ کیا تھا ڈرامہ تھا۔ شریعت کی بنیاد پر وہاں لوگ بیٹھ گئے اور کام کیا کیا؟
پہلا کام یہ کیا کہ جو تمہارے جرگہ والے لوگ تھے، خان ، سردار، ملک اس کو ذبح کر دیا۔ دوسرے مرحلے میں تمہارے تعلیم یافتہ لوگ وکیل، پروفیسر ، ٹیچر جو قوم کو شعور دے رہے تھے۔ قوم کو سمجھ وآگہی دے رہے تھے ۔ ان کو قتل کر دیا۔ آخر میں سڑک کو بموں سے اُڑا دیا، سکولوں کو بموں سے اُڑا دیا، اس کا شریعت سے کیا کام تھا؟۔
صرف اس بات سے ہمارے جوانوں کے سر کاٹ دئیے گئے کہ قمیص کا کالر جو تم نے کپڑے پہنے ہیں یہ شریعت کے مطابق نہیں ہیں۔ اس بنیاد پر بھی ہمارے پشتون جوانوں کے سر کاٹ دئیے گئے۔
راتوں کو بڑے بالوں والے آجاتے تھے انہوں نے پگڑیاں سروںپر باندھ رکھی ہوتی تھی، کلاشنکوف ساتھ ہوتے تھے۔ وہ ان کے گھر میں آجاتے تھے کہ ہمیں رات کو رکھوگے اور کھانا بھی دوگے۔ وہ بیچارا اکیلا ہوتا تھا، انکے ساتھ بال بچے، مائیں بہنیں ہوتی تھیں۔ بھائی ہوتے تھے اور یہ بلائیں ان کے ہاں آجاتے۔ پھر جب یہ چلے جاتے تو صبح فوجی آجاتے کہ تم ہی طالبان کو کھانا دیتے ہو؟۔ اگر طالبان کو روٹی دیدیتے تو فوجی مارتے اور اٹھاتے اور اگر نہیں دیتے تو طالب قتل کرتے اور یہ دونوں آپس میں حقیقت میں ایک تھے، صرف ہمارے علاقہ کیلئے چال بنایا تھا۔ اب پھر جب اس کے نتیجے میں ہمارے پشتون کراچی آگئے۔ یہاں ہم نے زندگی شروع کی تو ہمارے ساتھ کیا سلوک تھا؟۔ ہمیں پولیس اور رینجرز نے ستایا۔ کبھی ایم کیو ایم کو ہمارے لئے بلا بنادیتے تھے اور کبھی کسی اور کو۔ کتنے جنازے ہونگے جو تمہارے سلمان خیل قبیلے میں پہنچے ہوں گے؟۔ یعنی پشتونوں کے ہاں کوئی ایسا قبیلہ ، کوئی گاؤں اور کوئی گھر ایسا نہیں رہا جہاں لاش نہیں پہنچی ہو۔ تمہارے اربوں روپے کی جائیداد انہوں نے جلا ڈالیں۔ اور یہ کام کتنا عرصہ چلا؟۔ بارک خان 20 سال تک تو مسلسل یہ کام چلا ہوگا نا؟۔
مطلب یہ ہے کہ مسلسل مگر اب ہم پوچھتے ہیں اس دوران پاکستان کی آئی ایس آئی کہاں تھی۔ ایم آئی کہاں تھی؟۔ پولیس کہاں تھی، رینجرز کہاں تھی؟۔ انٹر نیشنل شہر میں ایک ایک دن میں سو سو( 100،100) پشتون قتل ہورہے تھے۔ اربوں روپے کی جائیداد یں لوگ ہماری جلا رہے ہیں۔ اور میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ میرا خوار غریب پشتون ہوٹل میں مزدوری کرتا ہے کوئی ڈمپر چلاتا ہے۔ کوئی نسوار بیچتا ہے۔ ان خوار غریب لوگوں کو دن دیہاڑے قتل کیا جارہاتھا، پھرادارے ہمیں دیکھ رہے تھے۔یہ اسلام کے نام پرجو اس ملک کو بنایا ہے ، یہ سب ہمیں کو دیکھ رہے تھے۔ پنجابی، سندھی ، بلوچ ہمیں دیکھ رہے تھے یہ سب ہمیں دیکھ رہے تھے۔یہ ادارے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ ہمارا کسی نے پوچھا تک نہیں ہے۔ کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ ان انسانوں اور مسلمانوں پر یہ ظلم کون کرتا ہے؟۔پھر راؤ انوار پیدا ہوگیا۔ راؤ انوار 19سال تک مسلسل بیٹھا رہا۔ ملیر کے ضلع میں۔ اس نے پھر ہلاکو خان اور چنگیز خان کی یادیں تازہ کردیں۔ ایک معمولی سا ایس ایس پی اور اسکے پاس اتنا بڑا پاور؟۔ اربوں روپے سہراب گوٹھ میں بھتے وصول کرتا تھا، ریتی والوں سے بھتہ لیتا تھا۔ وہ دکانوں پر قبضے کرتا تھا۔ مختلف لوگوں کو اس نے چھوڑ رکھا تھا۔ وہ پھر اتنا بدمعاش بن گیا کہ سرعام کہا کرتا تھا کہ پشتون ، پشتون میں خاص کر محسود میرے لئے اے ٹی ایم (ATM )کارڈ ہیں۔ جب ہمیں پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو محسود کو اٹھالیتے ہیں۔ پھر اس کو کہتے ہیں کہ پیسے دیتے ہو یا طالبان کے ساتھ تجھے فٹ کردیں؟۔ یہ واقعات اس نے بہت کئے۔ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں سینکڑوں لوگوں کو اس نے اٹھایا تھا۔ جو پیسے دیتا تھا تو وہ جان چھڑالیتا تھا اور اگر پیسے نہ دیتا تھا تو اس کو سپر ہائی وے پر لے جا تے اور قتل کردیتے۔ تھوڑے سے لمحہ کے بعد راؤ انوار نے کلاشنکوف اُٹھایا ہوتا تھا، جیکٹ پہنی ہوتی تھی۔ اور اعلان کردیتا تھا کہ اس کا فلاں کالعدم تنظیم سے تعلق تھا، اس کا ڈرائیور تھا، اسکے ساتھ یہ یہ تعلق تھا۔ اور قصہ ختم جوجاتا تھا۔ یہی پشتون پھر اپنے مردے کی لاش کو تین لاکھ چار لاکھ اور پانچ لاکھ میں اٹھاتے۔ چپکے سے رشوت نہ دیتے تو وہ لاش بھی حوالے نہیں کرتے تھے۔ اور دھمکی دیتے تھے کہ ہم رپورٹ کردیتے ہیں، یہ تو دہشت گرد تھا، یہ طالبان کا آدمی تھا، اچھا آپ اسکے چچازاد بھائی ہو، اسکے بھائی ہو تو بیچارہ پھر ڈرتا تھا اور چپکے سے پیسے دیتا تھا۔ ایک مرتبہ ہمارا بھائی ناکے پر مار دیتے تھے اور پھر اپنے بھائی کی لاش کیلئے پانچ لاکھ رشوت بھی دیتے تھے۔ راتوں رات اس کو وزیرستان لیجاتے تھے۔ یہ ہماری زندگی تھی۔ہمیں سب دیکھ رہے تھے کوئی ایک بھی پاکستانی مسلمان نظر نہیں آیا جس نے ہم پشتونوں کے سر پر ہاتھ رکھا ہو،کہ ان انسانوں اور مسلمانوں کیساتھ یہ ظلم کیوں کر رہے ہو۔ آخر انکا گناہ کیا ہے؟۔سب خاموش تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ نقیب کو شہید کردیا۔ راؤ انوار کے ہاتھوں۔ اس سے پہلے زیادہ طاقتور جوانوں کو مارا تھا مگر ہم میں ہمت نہیں تھی۔ اس سے زیادہ خوبصورت جوانوں کو مارا ۔ میں خود یہ کہتا ہوں کہ ہماری کسی ایک ماں یا بہن کی آہ کو خدا نے قبول کیا ہوگا ۔یہ اتنے مظالم ہم پر ہوئے تھے اسلئے راؤ انوار گرفت میں آیا۔ تم میرے گھر پر کالے چشمے اور سادے کپڑے پہن کر آجاتے ہو اور میرا بھائی یا بھتیجا اُٹھالیتے ہو اور چار پانچ ماہ تک مجھے پتہ نہیں چلتا ہے کہ کس جرم پر تم نے اس کو اٹھایا ہے۔ کس تھانے میں لے گئے ہو۔ اس طرح سے مت کرو، اگر میرے بیٹے، بھائی یا بھتیجے نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کو عدالت میں پیش کردو۔ہم کہتے ہیں کہ اس کو قرار واقعی سزا دیدو ۔ لیکن یہ مت کرو کہ نہ کوئی عدالت ہے اور نہ کوئی چیز ہے۔ کئی مہینے سے آپ نے غائب کیا ہے ، ہم سب روتے ہیں، مائیں بہنیںرورہی ہیں اور چار پانچ ماہ بعد پھر اسکی ایک جگہ لاش پڑی ہوتی ہے اور تم نے اس کو مارا ہوتا ہے یہ کونسا ڈرامہ ہے کہ شناختی کارڈ دکھاؤ۔ اور جب شناختی کارڈ دکھاؤ ،یہ تو وزیرستان کا ہے۔ یہ تو باجوڑ کا ہے ۔یہ تو چمن کا ہے۔ یار تمہارے نادرا والے نے دیا ہے ۔ اس کو میرے باپ نے تو نہیں بنایا ہے۔ یہ تمہارے پاکستان کا ادارہ ہے نادرا۔ میں پاکستانی ہوں۔ میں وزیرستان کا ہوں یا کراچی کا ہوں، مجھے فخر ہے وزیرستان پر، میرا وطن وزیرستان ہے۔یہ شناختی کارڈ کے بغیر بھی نہیں چھوڑتے اور اگر تمہارے پاس شناختی کارڈ نہ ہو توپھر واللہ ایک لاکھ روپے سے بھی جان نہیں چھڑا سکتے ہو۔ تیرے محلے میں سرکاری سکول نہیں ، کوئی سرکاری ہسپتال تمہارے محلے میں نہیں۔ کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بھی چھوڑیں کہ ان سہولیات سے محروم ہیں۔ بدلے میں کیا دیا ہے ۔ تمہاری گلی چرس کا اڈہ ہوگاشراب کا اڈہ ہوگا۔ چور کھلم کھلا گھومیں گے۔ میرا اور آپ کا نسل جب ہسپتال نہیں، سکول نہیں، خوبصورت پارک نہیں ہے۔کوئی سینٹر نہیں ہے۔ سائیڈ پر چرس ، ہیروئن اور شراب کے اڈے بنائے ہیں۔ ہماری نئی نسل جو پنپ رہی ہے۔ان سے کیا بنے گا چور اور دہشت گرد بنیںگے۔ معمار میں ہم ایک پارک میں گئے ، جسکی چاردیواری بھی نہیں تھی۔اس میں فیملیاں بیٹھی ہوئی تھیں، بچے تھے۔ ہم نے کیک کاٹا ، زندہ باد اور مردہ بعد کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ کسی منظم انداز میں بھی ہم نہیں گئے ، چند دوستوں کی ذاتی شوق سے ہم گئے۔ کیک کاٹا تو بچے بھی آئے۔ ہم نے ان کو بھی کیک دیا اور دوسری فیملیاں بیٹھی ہوئی تھیں، انہوں نے بھی کیک منگوایا۔ وہ اردواسپیکنگ تھے کہ خانصاحب ہمارے لئے بھی تھوڑا سا کیک بھیجو۔ کیک بہت بڑا تھا۔ بحرحال ہم نے سب کو کیک دیدیا۔ پھر بھی تھوڑا سا رہ گیا۔ اس میں پولیس کی انٹیلی جنس آئی۔ انہوں نے بھی ہمارے ساتھ کیک کھایا۔ انہوں نے کہا کہ کیا پروگرام تھا۔ ہم نے کہا کہ کوئی پروگرام نہیں تھا ویسے ہی آئے تھے شغل کیلئے اپنی طبیعت سے۔ کیک کاٹا اور کھالیا ۔ انہوں نے بھی ساتھ میں کھایا اور کہا کہ ٹھیک ہے مہربانی۔ جب ہم تھوڑا دور گئے تو اس طرف سے پولیس آگئی اور ہم پرکلاشنکوف ، پسٹل تھامے اور بلٹ جلد سے چیمبر کردئیے۔انکا یہ طریقہ کار۔ ہم نے کہا کہ بابا کیا مسئلہ ہے ۔خداخیر کرے یہ تم کیا کررہے ہو۔ پھر یہ کونسا طریقہ…

بھارتی میڈیا چینلوں کے گدھ اینکروں نے پاکستانی کشمیر میں انڈین فوجی اسٹرائک کے جھوٹےفوٹیج دکھادیئے

بھارت میں کچھ میڈیا چینلز اورمودی سرکار کو خوش کرنے کی دوڑ میں لگے ان میڈیا چینلوں کے
گدھ اینکروںکی وجہ سے ملک میں لوگوںنے صحافت کو دلالوں کا پیشہ کہنا شروع کردیا ہے۔
میڈیا چینلوں نے جھوٹ سے پاکستانی کشمیر فوج کے اسٹرائک کے فوٹیج دکھادئیے ، پھر انہیں آہستہ آہستہ اس خبر کی جھوٹ کا پتہ چل جانے کی خبر کے بعد ڈیلیٹ کرنا شروع کردیا تھا
چینل مودی کو خوش کرنے کیلئے کہ اتنا جھوٹ بولتے ہیںکہ عوام کے دماغ میں اس قدر بیٹھ جاتا ہے کہ جب ان کو سچ بتایا جائے تو اسکا یقین نہیں کرتے بلکہ غدار کہنا شروع کرتے ہیں
بھارتی پروگرام ”پولیٹیکل تماشہ.. ود.. ڈاکٹر عرشی”
بھارت میں کچھ میڈیا چینلز اورمودی سرکار کو خوش کرنے کی دوڑ میں لگے ان میڈیا چینلوں کے گدھ اینکروںکی وجہ سے ملک میں لوگوںنے صحافت کو دلالوں کا پیشہ کہنا شروع کردیا ہے۔ 19 نومبر جمعرات کی شام تقریباً 7بجے کو اچانک سے کئی بڑے چینل بھارت میں گودی میڈیا کے ٹی وی چینلوں آج تک، اے بی پی نیوز، ٹائمز ناؤ، ریپبلک ٹی وی سمیت کئی ٹی وی چینل کی اسکرینیں پاکستانی کشمیر میں بھارتی فوج کی ایئر اسٹرائیک کی خبروں سے جگمگا اٹھیں۔ فوج کی ایئر اسٹرائک والی بریکنگ نیوزکیساتھ ہی آناً فاناً کچھ چینلوں کے بکاؤ اینکروں نے اس موضوع پر ہوائی پینل ڈسکشن کا تماشہ بھی شروع کردیا۔ ویسے ہی ایک چینل پاکستان یا مسلمانوں سے جڑی ہر خبر کو اس طرح سے سجاتے سنوارتے ہیں کہ اس سے فائدہ ملک کی مودی سرکار کو ہو۔ اور پھر بھاجپا (بی جے پی) کے نیتا عوام کو جاکر بتاتے ہیں کہدیکھو مودی جی نے کتنا زبردست کام کیا۔ اب آپ بھوکے پیٹ فخر محسوس کریں۔ یہاں پر سب سے زیادہ مشکل اسی بات کی ہے کہ جب عوام تک اس میڈیا کی طرف سے چلائی ہوئی جھوٹی خبر کی سچائی پہنچتی ہے اس سے پہلے جھوٹ انکے دماغ پر قبضہ جما کر اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔ جھوٹ پھیلانے میں یہ بکاؤ میڈیا اتنا ماہر اور چست ہے کہ ان چینلوں کو دیکھنے والے بھارت کے کروڑوں لوگ ان کی طرف سے دکھائی گئی خبروں کو اس حد تک سچ مانتے ہیں کہ اگر آپ ان چینلوں کے دیکھنے والے کسی شخص کو سچ بتائیں گے بھی تو وہ آپ کی بات پر یقین ہی نہیں کرے گا اور الٹا آپ کو ہی دیش کا غدار کہے گا۔ کئی بار ان چینلوں کے کارنامے اور حقیقتوں کو سوشل میڈیا پر بے پردہ کراجاچکا۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ تک اس بات کو کہہ چکا ہے کہ میڈیا پر کسی طرح کا تو سیلف ریگولیشن تو ہونا ہی چاہیے۔ لیکن مودی سرکار کے سائے میں پنپنے والے یہ نفرت کا زہر بیچنے والے سیلز مین اور سیلز وومین دونوں کسی کی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان چینلوں میں بیٹھے دانشور دہشت گرد نفرتی زہر کا کاروبار بند کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اور حکومت کو خوش کرنے کیلئے یہ بنا کراس چیک کئے فرضی خبروں کو چلاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ لگاتار سوشل میڈیا پر بے عزت ہونے کے باوجود یہ اینکر سرکار کو خوش کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دیتے آرہے ہیں۔ اور جو نیا تماشہ ان نام چین چینلوں نے انجام دیا ہے وہ ہے 19نومبر 2020کو۔ جی ہاں! ان چینلوں نے یہ خبر چلادی کہ بھارتی فوج نے پاکستانی کشمیر میں ایئر اسٹرائک کردی ہے۔ ستا دھاری پارٹی بی جے پی کو سب سے زیادہ خوش کرنے کیلئے انہوں نے دھواں دھار طریقے سے اس خبر کو ٹی وی سمیت سارے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرتیز رفتاری سے دوڑادیا۔ان اینکروں نے جوش میں بڑے بڑے دعوے تک کردئیے۔ آج تک کے اینکر روہت سردانا نے چیخ کر کہا کہ اس وقت ایک بڑی خبر آپ کو دے دیں کہ پاکستان کے دہشت گردوں پر بھارت نے ایک اور ایئر اسٹرائک کردی ۔ وہیں ٹائمز ناؤ نے تو ایئر اسٹرائک کے ویڈیو کلپ تک چلادئیے۔ ساتھ ساتھ چینل کے دو سینئر خود کو جرنلسٹ کہنے والے لوگوں نے اس ایئر اسٹرائک پر تفصیلی بحث شروع کردی۔ اسی طرح ری پبلک ٹی وی نے تو اس خبر پر بات کرنے کیلئے پینل ہی بٹھادئیے۔ اوراے بی پی نیوز نے اس خبر پر مودی کو کریڈٹ دیتے ہوئے کہہ دیا کہ مودی سرکار کی بھارتی حکومت کی ایک اور بڑی کامیابی۔یہ تماشہ یہیں پر نہیں رکا ہر دن نیشنلزم اور دیش بھگتی کا ڈھول پیٹنے والے کچھ چاپلوس، فرضی اینکروں نے سرکار کو خوش کرنے کیلئے اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی اس افواہ کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج تک کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انجنا اوم کاشیاپ نے 7بجکر 4منٹ پر ٹوئٹ کیا کہ پی او کے (pakistan occupied kashmir)میں بھارتی فوج کی ایک اور بڑی اسٹرائک۔ پی او کے میں اب تک کا سب سے بڑا آپریشن۔ یہی حال نیوز نیشن کے دیپک چورسیا کا بھی رہا۔ جو کہ حال کے دنوں میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے فیک نیوز پھیلاتے ہوئے پکڑے گئے ہیں انہوں نے بھی لکھا کہ پی او کے میں اب تک کا سب سے بڑا اسٹرائک۔ دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ، فوج کے جوانوں کا آپریشن کامیاب۔ اے بی پی نیوز کی روبیکا لیاقت کا جوش تو اس دوران دیکھنے کے لائق تھا۔ انہوں نے تو ٹوئٹ میں اسٹرائک کا تو ذکر کیا ہی ساتھ ہی دوسرے اینکروں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اب کی بار آر پار کاٹیگ بھی چلادیا جیسے بہت ہی پختہ ثبوتوں کے ساتھ اس اسٹرائک کی پوری انفارمیشن انہوں نے حاصل کرلی ہو۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ پی او کے (POK)میں بھارتی فوج کی ایک اور بڑی ٹارگٹڈ اسٹرائک۔ دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تباہ۔ بارود سے ہوگا سب کا سواگت (استقبال) اب کی بار آر پار۔ چینلوں نے اس معاملے کو لیکراسکرینوں کو اتنا گرمادیا کہ بھارتی فوج کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل پرم جیت سنگھ کو خود سامنے آنا پڑا۔ اور چینلوں پر دکھائی جانے والی خبروں کو انہوں نے پوری طرح سے بے بنیاد اور فیک بتاکر ان جوکروں کے تماشے کو بند کرایا۔ اسکے بعد ان چینلوں کے گودی اینکروں نے آہستہ آہستہ اپنے ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنے شروع کردئیے۔ اب آپ کو بتادوں کہ یہ تماشہ آخر شروع کیسے ہوا تھا۔ دراصل اس خبر کی ابتدائی سورس انڈین نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے حوالے سے آئی ایک رپورٹ تھی۔ حالانکہ اس خبر کے کچھ ہی دیر بعد بھارتی فوج نے پی او کے (POK)میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائک جیسے کسی بھی ایکشن کو خارج کردیا۔ فوج نے بیان جاری کیا کہ ایسی کوئی اسٹرائک نہیں کی گئی ہے۔ اسکے بعد زیادہ تر ٹی وی چینلوں نے یہ خبریں ہٹالیں۔ لیکن اس خبر کی بنیاد پر کچھ گھنٹوں کے دوران ان چینلوں نے پورے ملک میں طوفان سا کھڑا کردیاتھا۔ بعد میں پی ٹی آئی نیوز ایجنسی کی طرف سے یہ وضاحت آئی کہ اس نے کسی نئے ایئر اسٹرائک کی بات نہیں کی تھی بلکہ اس نے 13نومبر کو اپنے ایک آرٹیکل میں ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزی پر اپنا صرف ایک تجزیہ ہی جاری کیا تھا۔ اس آرٹیکل کی لینگویج ایسی تھی جس پر بعض چینلوں نے اپنی مرضی سے ایئر اسٹرائک بتا کر چینلوں پر چلادیا۔ جبکہ سچائی یہ تھی کہ 19نومبر کو ایل او سی پر سیز فائر کی کوئی خلاف ورزی ہی نہیں ہوئی تھی۔ لگ بھگ تمام گودی میڈیا کے نیوز چینلوں نے اس حساس مسئلے کو تازہ ائیر اسٹرائک کے طور پر پیش کیا۔ اور ان نیوز چینل کے اینکروں نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے بے حد غیر ذمہ دارا نہ طریقے سے اس فرضی خبر کو چلایا اور پھیلایا۔ پوری دنیا کے سامنے ہنسی ور چاپلوسی کا نمونہ بن چکے ان نیوز چینلوں نے مودی سرکار کی واہ واہ کرنے اور مودی سرکار کو خوش کرنے کیلئے جو ہڑ بڑی اور جو گڑ بڑی دکھائی اس سے بہت آسانی سے بچا جاسکتا تھا۔ رپورٹنگ کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں وہ یہ کہ اس طرح کی بڑی اور حساس خبر کو ڈبل چیک کرنا۔ ساتھ ہی ساتھ کم از کم دو ذرائع سے ان کی تصدیق کرنا۔ لیکن صحافت کو دلالوں کا پیشہ بنانے والے ان لوگوں نے اپنے آقا کو خوش کرنے کی جلد بازی میں اصلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس فرضی خبر کو چلادیا۔ سب سے زیادہ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ ان اینکروں نے جب پہلا ٹوئٹ کیا تو اس میں پی ٹی آئی کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ لیکن فوج نے جیسے ہی اس خبر کو بے بنیاد بتایا تو ان اینکروں نے خود کو بچاتے ہوئے اس مسئلے کو پی ٹی آئی کے سرپر پھوڑ دیا۔ نیوز ٹی وی چینل اور اینکروں کے اس غیر ذمہ دارانہ تماشے کی وجہ سے دوسرے دن دن بھر ٹوئٹر پر فرضی گودی میڈیا معافی مانگے۔ ٹاپ پر ٹرینڈ کرتا رہا۔ ویسے چاپلوس میڈیا کی اتنی دھلائی ہونے کے بعد امید تو یہ ہونی چاہیے کہ ان کو عقل آجائے اور وہ حکومت میں بیٹھے حکمرانوں کو خوش کرنے کے بجائے عام پبلک کے مفاد سے جڑی خبروں کو دکھائیں لیکن بنا کچھ سوچے سمجھے اپنے اور مودی سرکار کے فائدے کیلئے پچھلے کئی برس سے فرضی خبریں چلا کر عوام کو بیوقوف بنانے والے یہ لوگ آسانی سے سدھر جائیں گے اسکی امید تو کم ہی ہے۔

 

 

نسل کی بنیاد پر کسی سے تعصب نہیں شکل کالا گورااللہ نے بنایا ہے ، منظور پشتین

پشتون دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ پشتون دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہم پر خواہ مخواہ میں دہشت گرد ہونے کا لیبل لگایا گیاہے۔
منظور پشتین وہی مؤقف پیش کررہاہے جو پاکستان کا دنیا کے سامنے ہے کہ پاکستان دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہے

کراچی(پی ٹی ایم جلسہ عام )یہ وضاحت کرتا ہوں کہ ہم نسل پرست نہیں۔ نسل کی بنیاد پر ، شکل کی بنیاد پر، کھانے پینے کی بنیاد پر، پہننے کی بنیاد پر ہم کسی کے ساتھ کوئی تعصب نہیں کرتے ہیں۔ کوئی کالا ہے سفید ہے سرخ ہے اس کو اللہ نے شکل دی ہے کس نسل کا ہے وہ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ کون کیا پہنتا ہے کیا نہیں پہنتا، کیا کھاتا ہے کیا نہیں کھاتا وہ ان کی اپنی مرضی لیکن ہمارے وطن کا استحصال کرکے اپنے آپ کو آباد کرو گے تب اس کے خلاف ہم اٹھیں گے۔ نسل نہیں استحصال کی بنیاد پر ہم اپنے وطن کا دفاع کریں گے۔ اپنے وطن کا دفاع کرتے کرتے پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوانوں نے اپنے سر کا نذرانہ پیش کیا۔ اور ارمان لونی جو یہاں کھڑے ہوکر تقریر کرتے تھے انہوں نے قربانی دی۔ خرکمر اوروانہ اور دیگر پشتون شہداء کو ہم اس مجمع کی طرف سے ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔

پاک فوج، حکومت، اپوزیشن، پی ٹی ایم اورایم کیو ایم،بلوچ اور سب لوگ یہ آیات غور سے پڑھ لیں!

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ (204) وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ (206) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَئُوْف بِالْعِبَادِ (207) یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوّ مُّبِیْن (208) فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَتْکُمُ الْبَیِّنَاتُ فَاعْلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْز حَکِیْم (209) ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَآئِکَةُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ (210) اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں آپ کو بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے اور جب پیٹھ پھیر کر جاتا ہے تو ملک میں فساد ڈالتا اور کھیتی اور نسل کو برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتااور جب اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو اپنی عزت کا مسئلہ سمجھ کر اور بھی گناہ کرتا ہے، سو اس کیلئے دوزخ کافی ہے اور البتہ وہ برا ٹھکانہ ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کیلئے اپنی جان بھی بیچ دیتے ہیںاور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔اے ایمان والو! اسلام میں سارے کے سارے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، کیوں کہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔پھر اگر تم کھلی کھلی نشانیاں آجانے کے بعد بھی پھسل گئے تو جان لو کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔کیا وہ انتظار کرتے ہیں کہ اللہ ان کے سامنے بادلوں کے سایہ میں آ موجود ہو اور فرشتے بھی آجائیں اور کام پورا ہو جائے اور سب باتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں( سورۂ بقرہ کی ان آیات کی روشنی میں سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیں)

عمران خان کی پہلی اولاد بھی ناجائز ہے اور پہلی حکومت بھی ناجائز ہے۔ چیئر مین پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن

وہ پشتون نہیں بے غیرت ہے جو پی ٹی آئی کا سپورٹر ہے۔چاہے خٹک ہو، مروت ہو یا بنوچی ہو یا پھر بیٹنی ہو۔جو عمران خان دلّے کو وٹ دے

مولانا فضل الرحمن نے مولانا امان اللہ حقانی کی یاد میں ایک تقریب سے لکی مروت میں خطاب کیا

مولانا فضل الرحمن نے لکی مروت میں مولانا امان اللہ حقانی کی یادگارمیں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ پشتون نہیں جو عمران خان کا سپورٹر ہو، چاہے وہ خٹک ہو، مروت ہو ، بنوچی ہو یا بیٹنی ہو”۔ عمران خان کی پہلی اولاد بھی ناجائز تھی اور پہلی حکومت بھی ناجائز ہے”۔ مولانا فضل الرحمن سے مروت قوم کے بعض لوگ بہت شدومد کیساتھ گلہ کررہے ہیں لیکن مولانا نے پشتون قوم کو غیرتمند قرار دیکر پاکستان کی دوسری قومیتوں پر سوال کھڑا کردیا ہے۔ مولانا کے اس بیان کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پنجابی، سرائیکی، بلوچ ، ہزارے وال ، کراچی کے مہاجر اور سندھی تو ویسے بھی بے غیرت ہیں اسلئے کہ ان کی اپنی جماعت کے راشد سومرو نے بھی لاڑکانہ میں پی ٹی آئی کا ساتھ دیا ۔ باقی قوموں کو اثر نہیں پڑتا ہے لیکن پشتون بے غیرت ہیں جو عمران خان کا ساتھ دیتے ہیں اور اس پر تفصیل سے صفحہ نمبر2میں روشنی بھی ڈالی ہے۔
پاک فوج، حکومت، اپوزیشن، پی ٹی ایم اورایم کیو ایم،بلوچ اور سب لوگ یہ آیات غور سے پڑھ لیں!
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہ وَہُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ (204) وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ (205) وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہ جَہَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ (206) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَئُوْف بِالْعِبَادِ (207) یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوّ مُّبِیْن (208) فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَتْکُمُ الْبَیِّنَاتُ فَاعْلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْز حَکِیْم (209) ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَآئِکَةُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ (210) اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں آپ کو بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے اور جب پیٹھ پھیر کر جاتا ہے تو ملک میں فساد ڈالتا اور کھیتی اور نسل کو برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتااور جب اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو اپنی عزت کا مسئلہ سمجھ کر اور بھی گناہ کرتا ہے، سو اس کیلئے دوزخ کافی ہے اور البتہ وہ برا ٹھکانہ ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا جوئی کیلئے اپنی جان بھی بیچ دیتے ہیںاور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔اے ایمان والو! اسلام میں سارے کے سارے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، کیوں کہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔پھر اگر تم کھلی کھلی نشانیاں آجانے کے بعد بھی پھسل گئے تو جان لو کہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔کیا وہ انتظار کرتے ہیں کہ اللہ ان کے سامنے بادلوں کے سایہ میں آ موجود ہو اور فرشتے بھی آجائیں اور کام پورا ہو جائے اور سب باتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں( سورۂ بقرہ کی ان آیات کی روشنی میں سب اپنے اپنے گریبان میں جھانک لیں)

اُم رباب چانڈیو کو آئندہ پی ڈی ایم کے جسلے میں مدعو کیا جائے

میہڑ دادو سندھ کی اُم رباب چانڈیو کے والد ، دادا ، چاچا کو 2017ء میں بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ۔ اُم رباب دُختر پاکستان ننگے پیر عدالت سے انصاف مانگ رہی ہے۔ اس کوجان کا خطرہ ہے اسلئے سکھر سے کراچی کیس منتقل کرنا چاہتی ہے لیکن اسکا مطالبہ ماننے کے بجائے الٹا کیس گھوٹکی منتقل کیا گیا۔ آئندہ PDMکے جلسے میں مدعو کیا جائے۔ جبری حکومتوں میں رہنے والے ظالم محروم ہیں مظلوم نہیں!۔

آصفہ بھٹو اورمریم نواز جس اقتدار کے سائے میں پلی ہیں اسی نظام سے غریب اور بے بس عوام نے چھٹکارا پانا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور چھوڑ کر گوادر موٹر وے کے رُخ کو تخت لاہور منتقل کرنیوالا خود غرض نواز شریف تھا۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے آواران میں موٹروے کی سیکورٹی پر مأمور اہلکاروں کو پھولوں کے گلدستے نہیں مزاحمت کا سامنا تھا۔ بلوچوں کے گاؤں جلانے یا اجتماعی قبروں کے ذمہ داراور اتحادیوں کی ابھی عدت پوری نہیںہوئی

جاہل مفتی : عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینے میں: عصر حاضر، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

جاہل مفتی : عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینے میں
حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے سینے سے نکال لے، بلکہ علماء کو ایک ایک کرکے اٹھاتا رہے گا۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ، ان سے مسائل پوچھیں گے وہ جانے بوجھے بغیر فتویٰ دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ متفقً علیہ ۔ (بخاری و مسلم)مشکوٰة شریف کتاب العلم صفحہ 33۔ مولانامحمد یوسف لدھیانوی

علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں علامہ آصف جلالی اور کچھ افراد کے درمیان نعرے بازی ہوئی تھی ۔انجینئر مرزا محمد علی نے علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کی طرف سے علامہ رضوی کی وفات پر دکھ اور رنج کے ساتھ تعریف کرنے پر اہلحدیث علماء کو چیلنج کیا تھا کہ وہ علامہ خادم رضوی کیلئے دعائے مغفرت کرکے دکھائیں۔ یہ ان کو مشرک سمجھتے ہیں اسلئے دعا کو جائز نہیں سمجھتے۔ جب حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی کو شہید کیا گیا تھا تو بعض لوگوں نے اپنے ہاں خوشیوں میں مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کا مؤقف علماء دیوبند، اہل حدیث ، شیعہ اور قادیانیوں کیلئے ایک جیسا تھا۔ علماء دیوبندمولانا احمد رضا خان بریلوی اور بریلوی مکتبہ فکر کیلئے زیادہ سخت مؤقف نہیں رکھتے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے داماد مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون نے بہت زبردست جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علامہ خادم رضوی کے جنازے میں سوا کروڑ افراد کی شرکت پر ایک سوال کا جواب دیا ہے کہ ”حدیث میں آتا ہے کہ جس مسلمان کا جنازہ چالیس ایسے افراد پڑھیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے گا۔ علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے میں 40افراد توحید پرست بھی ہوں گے اگر اپنے مسلک کے مطابق اکثر مشرک ہوں تو بھی کچھ توحید والے ہوں گے۔ ”
حضرت مولانامحمد یوسف لدھیانوی نے اپنی کتاب عصر حاضر میں ”جاہل مفتی” کے عنوان سے جو حدیث لکھی ہے وہ مفتی منیر احمد اخون پر صحیح صادق آتی ہے۔ اگر سوا کروڑ افراد کو بریلوی مکتبہ فکر سے وابستہ ہونے کی بنیاد پر مشرک قرار دیا جائے حالت یہ ہو کہ علامہ خادم حسین رضوی خود بھی کٹر قسم کے ہی بریلوی ہوں تو 40دیوبندی و اہل حدیث کی بنیاد پر کیسے فتویٰ دیا جاسکتا ہے کہ ان کی وجہ سے مغفرت ہوئی ہوگی۔ یہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے قابل طالبعلم مفتی اعظم امریکہ کا حال ہے۔ پہلے کہا تھا کہ کوئی صحابی کو نہیں میرے اور آپ کو کافر کہے تو بھی وہ کافر ہے۔ اسلام نے مشرکین مکہ اور ان عیسائیوں کے درمیان بھی فرق رکھا تھا جو تین خداؤں کے ماننے والے تھے۔ علامہ اقبال نے محراب گل کیلئے کہا تھا
تیری بے علمی نے رکھ بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان

خادم حسین رضوی کا دھوم سے جنازہ،اچانک وفات اورتحریکِ لبیک کے محرکات اور لوگوں کے بڑے خدشات

علامہ خادم حسین رضوی کا دھوم سے جنازہ،اچانک وفات اورتحریکِ لبیک کے محرکات اور اس پربہت سے لوگوں کے بڑے خدشات

تحریر: تیز و تند۔ عبد القدوس بلوچ

جب روس کیخلاف امریکہ کو اسلامی جہاد کی ضرورت تھی تو مجاہدین پیدا کئے گئے۔ پھر امریکہ اسامہ و طالبان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کو تباہ کیا۔ پھر پنجاب سے صوفی ازم کو زندہ کرنے کی ابتداء ہوئی کیونکہ جہادسے معاملہ خراب ہوا تو صوفی ازم والے اسلام کی پھر ضرورت پڑی۔ طاہرالقادری کی انٹری ناکام ہوئی لیکن پنجاب سے صوفیت کی کہانی شروع ہوگئی اس کا نتیجہ عاشق رسول علامہ خادم حسین رضوی کی شکل میں نظر آیا۔ آسیہ بی بی کو پہلے عدالت نے مجرم قرار دیا اور پھر سپریم کورٹ نے مظلوم قرار دیا۔جس پرگورنر سلمان تاثیر، عیسائی وزیراور ممتازقادری کے بعد مولانا سمیع الحق اس نظام عدل ہی کے ہاتھوں سوئے مقتل چلے گئے تھے۔
پاکستان نہیں تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ دیکھ کر دنیابڑی حیرت میں پڑگئی کہ پیغمبر اسلامۖ سے مسلمانوں کو اتنی والہانہ محبت ابھی تک اس حد تک موجود ہے کہ ہرمکتبۂ فکر کے لوگوں نے خراجِ عقیدت پیشکردی۔ مولانا فضل الرحمن نے جلسہ ٔ عام میںدعائے مغفرت و درجات کی بلندی کیلئے دعا کی۔ اہلحدیث مسلک کے علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے ختم نبوت و ناموسِ رسالتۖ کیلئے سب سے بلند آواز قرار دیا علماء کے ناقدصحافی حسن نثار بھی وفات کے بعد تعریف کرنے پر مجبور ہوا۔
اے خدا ،اے خدا ،اپنے بندوں کوخود سمجھا
ہر چڑھتے سورج کی کرتے ہیں یہ خود پوجا
ابوذر غفاری کا جنازہ چند افراد نے پڑھا اگر حسن نثار آرائیں اس وقت موجود ہوتا تو پہلا اور آخری فرد یہ ہوتا جو اُن پرتبرا کرتا
الطاف حسین ، صدر زرداری کی تعریف کی
ہجوم دیکھ کر یہ مخلص صحافی ہر ایک پر مراتھا
یہ حالت کسی ایک کی نہیں دیکھ لو شہید کربلا
یزیدکے دور میں کس نے آپ کو کندھا دیا
مولانا طارق جمیل نے زندگی بھر اس مشن کیلئے کبھی دعا بھی نہ مانگی ہوگی مگر جم غفیر کو دیکھ لحد پر پہنچ گئے اور اعلیٰ درجات کی دعا کردی۔ اسٹیبلیشمنٹ اور اپوزیشن کی سوشل میڈیا نے علامہ خادم رضوی سے عقیدت کا اظہار کیا۔ ایک کلپ بناکر کسی نے شرارت کی انتہاء کردی کہ فوج کو فیض آباد دھرنے میں بلانے کی وجہ سے ان کو قتل کیا گیا لیکن پوری بات سننے کے بعد یہ شرارت ناکام ہوگئی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ سازش کے ذریعے بھی فوج کو بدنام کرنے کا کام کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔
اگر یہ مان لیا جاتا کہ فیض آباد دھرنے کی اصل محرک فوج تھی تو علامہ خاد م حسین رضوی کے عشق رسول کا مقام ٹیشو پیپر میں بدل جاتا اور اگر بلیک میلنگ قرار دیا جاتا توبھی رضوی کی حیثیت ختم ہوجاتی لیکن فوج کے بدخواہوں نے سوشل میڈیا پر خود کو بدنام کردیا۔ اگر وہ نادانستہ طور پر یہ سب کچھ کر گئے تو ان کو اپنی غلطی کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے تھا ورنہ وہ لفافہ دار ہیں۔
جس طرح جہاد پر دیوبند کا اجارہ تھا ۔ امریکہ کیخلاف پاکستانی قوم نے طالبان کو سپورٹ کیا، اسی طرح عشق رسولۖ پر بریلوی مسلک کی اجارہ داری ہے۔ امام مولانا احمد رضا بریلوی نے قادیانی، دیوبندی، اہلحدیث، وہابی، چکڑالوی اور شیعہ کو یکساں کافر قرار دیا لیکن قادیانیوں پر گستاخی کا فتویٰ نہیں لگایا۔ قادیانی فرقہ واریت کو بھڑکانے کے حوالے سے ذمہ دار بھی ہوسکتے ہیں اسلئے کہ طالبان نے شیعہ، بریلوی اپنے دیوبندیوں تک کو نہیں چھوڑا اورISI ملتان کے دفتر، GHQ، فضائیہ کراچی تک پر حملہ کیا مگر ربواچناب نگر میں قادیانیوں کو کبھی نشانہ نہیں بنایا۔
علامہ خادم حسین رضوی کے علاوہ پیر افضل قادری مولانا اشرف جلالی کی شہرت تھی۔ پیرافضل نے مولانا اشرف جلالی کو نکالنے میں کردار ادا کیا اور اب پیرافضل قادری نے تحریک لبیک کے نئے امیر سعد حسین رضوی پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔ علامہ اشرف جلالی اور پیرعرفان شاہ کے درمیان بھی اچھا خاصا پھڈہ چل نکلا۔
جب امریکہ نے جہاد سے ہاتھ اُٹھا یا تو سعودیہ بھی صوفیت کو تقویت پہنچانے کا فلسفہ اپنا رہاہے۔ علامہ الیاس قادری کی دعوت اسلامی کو مدینہ میں مرکز بنانے کی اجازت شاید مل گئی ہے تو وہابیت و صوفیت ایک دوسرے کے قریب ہونگے۔ پنجاب میں اگر اس نعرے کو جذباتی تقویت ملے گی کہ ” گستاخ کی سزا ،سر تن سے جدا” تو اس کا نشانہ دیوبندی ،اہلحدیث ، جماعت اسلامی، تبلیغی جماعت اور بریلوی مسلک والے بھی بن سکتے ہیں۔ اسرائیل کیساتھ قادیانیوں کے مضبوط تعلقات ہیں اور وہ اپنی شناخت چھپانے کیلئے بریلوی مسلک ہی کا لبادہ استعمال کرسکتے ہیں اسلئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو سب سے پرانے ہیں۔
فوج پر قادیانیت کا راج تھا اسلئے بھٹو نے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا۔ ن لیگ کا پنجاب پر ہولڈ ہے اسٹیبلشمنٹ کے قریبی صحافی قادیانیوں کی مخالفت پر ن لیگ کو کمزور کررہے ہیں اور ن لیگ نے مولانا فضل الرحمن کو بندوق تھمادی ہے کہ قادیانیت کا فتویٰ فوج ہی پر لگانے کی تیاری جاری رکھی جائے۔
یہ ہتھیار دشمن کے خلاف استعمال کرنا بہت مشکل ہے، اگر قادیانیوں نے کہہ دیا کہ مولانا فضل الرحمن ہمارے ساتھ ہے تو مولانا فضل الرحمن کا بیڑہ غرق ہوگا اور اگر جنرل قمر جاوید باجوہ یا نوازشریف میں کسی کو اپنا مہرہ قرار دیا تو ان کا بیڑہ غرق ہوگا۔
انصار عباسی کو نذیر ناجی نے کتے کا بچہ کیوں قرار دیا؟۔ لیکن اتنے سخت الفاظ کے پیچھے وجہ تو ضرور ہوگی۔ انصارعباسی کو ن لیگ نے مری میں ذاتی گھر تک روڈ بناکر دیا توزرداری اور جمہوریت کا نہیں اسٹیبلیشمنٹ کا حامی تھا لیکن نوازشریف بھی اس وقت فوج ہی کی حمایت کرتا تھا۔ پھر عمران خان اور نوازشریف کا مقابلہ ہوا تو انصار عباسی نے فوج کیخلاف اپنا بیانیہ نوازشریف کیلئے وقف کیا۔ اب اس نے کہا کہ جنرل قمر باجوہ پر قادیانیت کا الزام تھا لیکن پھر ایجنسیوں نے اس کو کلیئر قرار دیا ۔ اوریا مقبول جان نے اسلئے باجوہ کے حق میں ایک خواب بھی بیان کیا تھا۔
اگر مذہبی، سیاسی ، صحافتی اور فوج کی تقدیر کے فیصلے الزامات کی رہین منت بن جائیں تو اس سے زیادہ ملک کی کمزور اور خراب پوزیشن کیا ہوسکتی ہے؟۔ خوشاب میں ایک راسخ العقیدہ بریلوی بینک منیجر پر قادیانیت وگستاخی کا بہتان شہید کرنے کے بعد لگا تو قاتل کے حق میں طوفان کھڑا ہوگیا۔ پنجاب کے لوگ حکومت و ریاست نے سب سے زیادہ پسماندہ اور بے شعور رکھے ۔ افغانستان میں مجاہدین کے نام پر اور پھر مجاہدین کو ختم کرنے کے نام پر سرمایہ آگیا تو پختون قوم تباہ ہوگئی مگر اوریا مقبول جان اور کرنل امام جیسے لوگ مجاہدین کا پیسہ کھا کرحمایت کر رہے تھے اسلئے کہ خود اور اپنے بچوں کے بجائے دوسرے تباہ ہورہے تھے۔ کرنل امام کو طالبان نے ذبح کیا تھا لیکن اگر اس جنگ کو پنجاب کی سرزمین پر زندہ کیا گیا تو اوریا مقبول جان کا سر بھی تن سے جدا ہوگا اسلئے کہ مسلک کی لڑائی فرانس یا امریکہ میں نہیں پنجاب میں لڑی جائے گی۔ طالبان تو امریکہ کیساتھ صلح کرکے بیٹھ گئے اور اس بات کو ذہن نشین کیا جائے کہ بریلوی بھی امریکہ سے صلح کرکے بیٹھ جائیںگے کیونکہ ان کی لڑائی گستاخوں سے ہے اور یہ گستاخ کون ہیں ؟۔ اس کی تعلیم مساجد میں دی جارہی ہے۔ علامہ آصف گیلانی نے جیو کے پروگرام میں کہا تھا کہ میرے دم سے کینسر اور دیگر مریض درست ہوگئے ہیں تو عتیق گیلانی نے کہا تھا کہ اپنا پھونک امریکہ کو بھی مار دو۔ پھر چائے کی نشست میں علامہ آصف گیلانی نے کہا کہ امریکہ دشمن نہیں بلکہ طالبان ہمارے دشمن ہیں۔ اب تو طالبان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ سے دوستی ہے لیکن افغان حکومت سے دشمنی ہے۔ جو رویہ پاکستان کے طالبان نے ریاست کیساتھ اپنایا،وہ پنجاب کے عاشقان کا بھی ریاست کیساتھ ہوسکتا ہے۔ ن لیگ کے خلاف دھرنا دیا گیا تو اس میں گیٹ4 کی طرف سے فیض آباد دھرنے کو حمایت دینے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے اسلئے کہ شیخ رشید اور فیض آباد کا ایک مشن تھا۔ پھر آسیا بی بی پر مولاناسمیع الحق کا قتل اور علامہ خادم رضوی کی جیل میں ٹیونگ ہوئی تو اس میں کسی اور کا ہاتھ نہیں ہوسکتا تھا اور اب کی دفعہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے یہ تاثر قائم کرنے کی اطلاع دی جارہی ہے کہ ن لیگ کا ہاتھ تھا۔ مذہب اور سیاست کو جس طرح کا کھیل بنایا گیا اور حکومت ، اپوزیشن، ریاست کے علاوہ سوشل میڈیا کی منافقانہ صحافت بھی بہت بڑا کردار ادا کررہی ہے جسکے نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں۔ مفاہمت کی راہ بھی کام اسلئے نہیں آئے گی کہ مہنگائی کا طوفان سب مل کر بھی کنٹرول نہیں کرسکتے ہیں اور کمانے والے پیٹ نہیں اپنی بھوک مٹا رہے ہیں جس کو قبر کی مٹی ختم کرسکتی ہے اور اگر اسلام کے شاندار مسائل عوام کے سامنے آگئے تو یہ قوم بچ سکتی ہے۔
جماعتِ اسلامی نے اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف سلیم صافی کی منظق میں آکر مجبوراً فتویٰ دیا تو امارت سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ اب سراج الحق نے PDMپشاور جلسہ کے خلاف مینگورہ سوات میں جلسہ رکھا تھا تو اس کو معلوم ہوگیا کہ فضاؤں کا موڈ اب فوج کے خلاف ہے اسلئے دیر میں جلسہ رکھا تو امیر جماعت اسلامی نے فرمایا کہ ”فوج کو اپنا سیاسی کردار ختم کرنا ہوگا”۔
نوازشریف اور جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوری اتحاد کس کے کہنے اور کس کے پیسوں سے بنائی تھی؟۔ جب کشمیر کا جہاد فوج کا نہیں بلکہ جماعت اسلامی نے کرنا تھا اور سیاست فوج نے کرنی تھی پھر آج اپنا کعبہ قبلہ بدل کر کیوں دوسرا رُخ اختیار کیا جارہاہے؟۔ پاک فوج نے کتے بھی پال رکھے ہوتے تو وفادار ہوتے مگر چڑھتے سورج کے پُجاری بے نسل آدمی جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔
ہم نے چپ کر اور نہ کھل کر اس طرح فوج کا نام لیکر انکے کردار کی حمایت کی تھی اور نہ آج کررہے ہیں لیکن جب ملک کی فضاء مخدوش بن جائے اور ہرطرف سے مقبول نعرہ فوج کی مخالفت بن جائے اور تو اور جماعت اسلامی بھی…………

آصفہ بھٹو اور مریم نواز کو چھوڑ دو،مظلومہ اُم رُباب دیکھ۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

دختر سندھ ، دختر پاکستان اور دختر انسانیت اُم رباب کے والد، دادا اور چاچا ایک ساتھ انتہائی بے دردی سے شہید کئے جاتے ہیں ۔ اُم رباب موبائل سے ویڈیو بناکر فیس بک پر چلادیتی ہے۔ اپنی آواز اقتدار کے بے حس ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کبھی چیف جسٹس کی گاڑی کے سامنے بیٹھ کر اپنی فریاد پہنچاتی ہے اور کبھی ننگے پاؤں احتجاج کرکے انصاف کی بھیک مانگتی ہے لیکن وہ ابتک اصل مجرم کو پکڑنے تک چین سے نہیں بیٹھ رہی ہے۔ تین تین دفعہ وزیراعظم کا مزہ لینے والے اور نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے مریم نواز اور آصفہ بھٹو اپوزیشن کے جلسوں میں عوام سے شکایت کرتے ہیں کہ انصاف کا نظام چاہیے۔ محمود اچکزئی کے کزن مجید اچکزئی نے کھلے عام سڑک پر ٹریفک پولیس کے غریب اہلکار کو کچل دیا، عدالت نے ثبوت نہ ملنے پر بری کردیا ، حالانکہ کیمرے کی آنکھ نے سارے میڈیا چینلوں پر دکھایا۔ ایک رینجرز اہلکار نے ڈکیٹ کو پکڑ کر غلطی سے گولی چلنے سے قتل کردیا تو اس کو عدالت نے نہیں چھوڑا۔ نظام اداروں کا نہیں بلکہ بااثر طبقات کا ہے۔سیاست پیسوں کے کھیل سے چلتی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کا بھائی PTCLسے DMGگروپ کا اسسٹنٹ کمشنر بن گیا۔ دھوکے ہی دھوکے کا سارا نظام ہے۔
عوام کا شعور پاک فوج نے نہیں سیاستدانوں اور صحافیوں نے بیدار کرنا تھا۔ پاک فوج کے جنرلوں سے لیکر سپاہیوں تک خود شعور نہیں رکھتے تو دوسروں کو کیا دیں گے؟۔ انگریز کی آمد سے پہلے ہمارے ہاں مغل بادشاہوں کی حکومت تھی جنہوں نے اپنی محبوبہ بیگمات کے نام پر تاج محل بنائے ہیں، اورنگزیب بادشاہ نے بھائیوں کوقتل کیا تھا اور فتاوی عالمگیریہ میں نامی گرامی علماء نے یہ اسلامی دستور بناکر دیا تھا کہ اگر بادشاہ قتل ، چوری ، زنا، ڈکیٹی ، زنا بالجبر کچھ بھی کرلے تو اس پر حد جاری نہیں ہوسکتی ہے اسلئے کہ بادشاہ دوسروں پر حد جاری کرتا ہے اس پر کوئی اور حد جاری نہیں کرسکتا ہے۔ پنجاب اور پختونخواہ میں راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت تھی۔ شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد بریلوی نے خراسان کے مہدی کا دعویٰ کرکے پشاور اور ہزارہ سے خلافت کا نظام زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ انگریز کو یہ اپنے مفاد میں لگ رہاتھا کہ رنجیت سنگھ کی حکومت کو مجاہدین کمزور کردیںگے۔ افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان کے بھائی پشاور، دوسرے کوئٹہ ، تیسرے کشمیر پر حکمران تھے جو راجہ رنجیت سنگھ سے معاہدہ کرکے بیٹھے تھے۔ افغانستان کے بادشاہ دوست محمد خان انگریز سے لڑائیاں لڑرہے تھے مگر اسکے اپنے بھائی نے انکے بیوی بچوں کو انگریز کے ہاتھوں بیچ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ ہتھیار ڈالنے اور صلح کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
انگریز نے مسلمانوں اور سکھوں سے نسبتاً بہترعدالتی نظام، نہریں، ریلوے، پولیس اور سہولیات دی تھیں۔ پشاور سے ٹانک اور کوئٹہ سے ژوب تک ریلوے لائن بھی ہمارے سیاسی اکابرین کھاگئے اور نوازشریف کی لوہے کی بھٹی میں جھونک دی۔ پیپلزپارٹی نے چین کیساتھ معاہدے اورمغربی کوریڈور کا معاہدہ کیا تھا لیکن نوازشریف نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی قوم کی اجتماعی لاشوں سے گزار کریہ شاہراہ تخت لاہور کے سپرد کردی۔ اختر مینگل ، محمود خان اچکزئی ، مولانا فضل الرحمن اپنی قوم کیلئے نواز شریف کیلئے فوج سے لڑائی لڑ رہے ہیں تو ان کو طالبان اور سرماچاروں کیساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ فوج ایک ادارہ ہے ،اس کا سربراہ اگر جنرل وحید کاکڑ پختون اور جنرل پرویزمشرف مہاجر ہوسکتا تھا تو جنرل عبدالقادر بلوچ بھی ہوسکتا تھا۔ جس نواز شریف نے فوج کی گود سے اترنے کی چیخم دھاڑ مچا رکھی ہے وہ آج بھی اسلئے روتا ہے کہ مجھے چھاتیوں سے لگ دودھ چاہیے۔ اندورنِ خانہ اس کو فوج کی طرف سے ہی اشیرباد بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ فوج کا یہ کم گناہ نہیں ہے کہ غلیظ قسم کے نکمے ٹولے کو پال کر قوم پر مسلط کیا ہے اور اسی کی سزا بھی بھگت رہی ہے۔
PTMکے سربراہ منظور پشتین نے ایڈیٹر نوشتۂ دیوار ملک محمد اجمل سے گلہ کیا ہے کہ اب آپ ہمیں کوریج نہیں دیتے ہیں۔پاک فوج کے خلاف جتنا ہم نے لکھا ہے شاید کسی سیاسی ، مذہبی ، لسانی اور صحافی فرد نے اتنی جرأت خوابوں میں بھی نہیں کی ہوگی لیکن ہم انصاف کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ پختون میری قوم ہے ۔ جب طالبان مقبول تھے۔ ہدی بھرگڑی اور معراج محمد خان تک کوئی ایسے مرد وزن نظر نہیں آتے تھے جو طالبان کی حمایت نہ کرتے ہوں لیکن ہم نے اپنی قوم کی عزتوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے شعور کی صدا بلند کی تھی۔ جس کی ہم نے سزا بھی پائی اور انعام بھی مل گیاکیونکہ مفت میں کربلا کا اعزاز بہت بڑی عزت ہے۔
ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور مضافاتی گاؤں ہندکو سپیکنگ جٹوں کے تھے۔ جٹ بدترین پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میرے کبیر پبلک اکیڈمی میں استاذ رفیع اللہ جٹ MSC رینجرز میں سپاہی بھرتی ہوا۔ دوسرا بھائیMSC کیمسٹری تھا، دونوں بھائی بہت قابلیت رکھتے ہیں ۔ دوسرا بھائی واپڈا میں چپڑاسی کی حیثیت سے بھرتی ہے جو حافظِ قرآن بھی ہے۔ میرے بھائی ایکسین واپڈا نے افسر کی سفارش پر بھی صرف اسلئے بھرتی کیا کہ وہ حافظِ قرآن تھا ورنہ اس پر وہ کسی قبائلی پختون کو بھرتی کرنے کا حق سمجھتے تھے جنکے پاس ٹانک کا دومیسائل بھی ہوتاہے، اگر حکومت نے جٹوں کے ایریا سے قبائل پختونوں کو بے دخل کردیا تو قبائل منظور پشتین کو بڑی ننگی گالیاں دینا شروع ہوجائیںگے۔ بی بی سی کے نمائندے نے پہلی مرتبہ ٹانک کے مضافات میں ان ہندکو اسپیکنگ جٹوں کے مسائل میڈیا پر اُٹھائے ہیں جو پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم ہیں۔ تعصبات کی بجائے ہمدردی کو ہوا دی جائے گی تو سب مظلوم اور محروم طبقات کے مسائل حل ہونگے۔
جب اپوزیشن اور حکومت دونوںنے بظاہر فوج کی حمایت میں ایکشن پلان تشکیل دینے کا فیصلہ کیا لیکن بباطن دہشت گردی کے خاتمے پر فوج کے خلاف محاذ بنایا تو PTMکراچی اور اسلام آباد میں پولیس کے خلاف نقیب شہید کے نام پر نکل آئی۔ کراچی کے بعد اسلام آباد کا دھرنا بھی ختم کردیا اور منظور پشتین نے صرف اتنا گلہ ذہن میں رکھا تھا کہ میڈیا اور ہماری حمایت میں آنے والے لوگوں کو معاہدے سے آگاہ کردیا جاتا۔ قبائلی ملکان نے پولیس اور فوجی ایکشن سے خوفزدہ بھی کردیا تھا لیکن ہم نے شامِ غریبان میں ان کو حوصلہ دیا۔ جس اسٹیج سے سپاہ صحابہ کے مولانا احمد لدھیانوی کے بھیجے ہوئے نمائندے کو خطاب کرنے دیا گیا ،اس اسٹیج سے مجھے موقع دینے سے گریز کیا گیا تھا۔ میں نے شامِ غریباں کا سماں چھا جانے کے بعد نشاندہی کی تھی کہ اس نوجوان طبقے میں درد ہے لیکن تعصب نہیں ہے۔ جب تک منظور پشتین قوم کے درد کی بات کرتا تھا اور تعصب کی نفی کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ظلم کوئی بھی کرے ، ہم اس کے خلاف ہیں تو ہم نے ان کو زبردست کوریج دی۔ پختون تحفظ موومنٹ کی جگہ مظلوم تحفظ موومنٹ کا نام دینے کا مطالبہ کیا۔ پھر کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے اہل تشیع کو بھی اسٹیج پر آنے کی اجازت دی۔ ہزارہ کیساتھ شیعہ کی بنیاد پر جو زیادتی کا رویہ کوئٹہ میں روارکھا گیا تھا تو ہمارے کانیگرم میں پاکستان بننے سے پہلے جو لوگ غمِ حسین کا خود ماتم کرتے تھے انہوں نے بھی ہزارہ برادری کی نسل کشی کی تھی۔
پختون قوم میں بالعموم اورمحسود قوم میں بالخصوص اسلام اور غیرت کامادہ ہے لیکن اس کی آبیاری کی بہت سخت ضرورت ہے اور بس!۔ سید عتیق الرحمن گیلانی