دسمبر 2020 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

اب توپاکستان کے ایک نئے دور کا آغازہواچاہتا ہے! سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

زرداری چور کو پکڑنے والے شہباز شریف اور نوازشریف خود چور نکلے لیکن ان دونوں چوروں کو پکڑنے والے تحریکِ انصافی بھی چور بن گئے ہیں۔ کیا یہ سلسلہ جاری رہے گا؟۔ ریاستِ پاکستان سود تلے آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک کی اب لونڈی بن چکی ہے اور اس کو لونڈی بنانے تک پہنچانے والے مقدر طبقات کی گرفت موجودہ عدالتی ، مارشل لائی اور پارلیمانی نظام سے بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
آئینِ پاکستان میں قرآن وسنت کا نظام ہے۔ قرآن میں چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے۔ فقہاء کا اس بات پر اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں سے کاٹے جائیں تو منتخب حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے سے یہ متفقہ قانون پاس کرے کہ چوروں کی کیٹہ گری کا تعین کیا جائے۔ 7سٹار چوروں کے ہاتھ کاندھوں تک کاٹے جائیں اور 5سٹار چوروں کے ہاتھ کہنیوں تک کاٹے جائیں اور 3سٹار چوروں کے ہاتھ کلائی سے کاٹے جائیں اور ان کے خاندانوں کو بھی اس سزا میں برابر کا شریک کیا جائے۔
البتہ ساری دولت بمعہ منافع لوٹائی جائے تو پھر ان کو اس شرط پر معاف کرلیا جائے کہ آئندہ تمہاری نسلیں بھی اس فیلڈ میں خدمات انجام نہیں دیںگی اور پہلے کا جس طرح کفر معاف ہے اسی طرح چوروں کیلئے اسلامی جمہوری تعزیر بھی معاف۔ لوگ بھوک وافلاس سے مررہے ہیں اور یہ لوگ مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں بلکہ وسائل پر لڑرہے ہیں۔ حکمران کوئی بھی ہو ،اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن عوام اب عدل وانصاف چاہتے ہیں جو ان کو جی کر بھی نہیں ملتا ہے اور مرکر بھی نہیں ملتاہے۔
دنیا بھر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائے بغیر پاکستان کے قرضے ختم نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب تک قرضوں کے سود سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جائے تو بھاری بھرکم ٹیکسوں اور مہنگائی سے عوام کی جان نہیں چھوٹ سکتی ہے۔ پاک فوج میں اکثر اچھے ہی لوگ ہیں، سیاستدانوں میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں ، مذہبی طبقات میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں اور عوام میں بھی اکثر اچھے لوگ ہیں۔ ایک خوشحال انقلاب کیلئے کچھ کرپٹ عناصر کی قربانی اب مجبوری بن گئی ہے۔ ان لوگوں سے شرم وحیاء نکل گئی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ جب حیاء چلی جائے تو جو مرضی کرو۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی سے عمران خان بھی کم نہیں ہے لیکن زردای، نوازشریف، فضل الرحمن، پرویز الٰہی ، بھائی لوگ ایم کیوایم والے اور بلوچستان کی سیاسی لیڈر شپ کے نمونے بھی کوئی غنیمت نہیں ہیں۔ اگر محمود خان اچکزئی ایک غریب ٹریفک اہلکار کی موت پر عدالت کے اس فیصلے کے حوالے سے آواز اٹھاتا جو دن دیہاڑے مجید اچکزئی نے کچل دیا تھا تو انقلاب کیلئے اس کے نعرۂ تکبیر میں بڑی جان ہوتی اور فضل الرحمن کی امامت میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہوجاتا مگر بے عملی سے منافقین کا ٹولہ نااہل ہونے کا ثبوت دے رہاہے۔ مولانا فضل الرحمن نے طالبان کے خلاف ریاست کا ساتھ دے کر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ پختونخواہ کی پوری حکومت، بلوچستان کی آدھی حکومت اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا اپنا مفاد حاصل کیا اور طالبان کیساتھ جان گنوانے کی قیمت پر حکومت بھی زبردستی سے دھکیلتی تو نہیں جاسکتا تھا۔ اس کا تویہ پتہ بھی کسی کو نہیں چلتا تھا کہ طالبان کیساتھ ہے یا ریاست کے ساتھ ہے؟۔ لیکن ریاست کا خود بھی یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ طالبان کو پیدا کررہی ہے یا ختم کررہی ہے۔
صلاح الدین ایوبی کا تعلق کردستان سے تھا جہاں پر ترکی، ایران اور عراق اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کرد قبیلے کا ایک شہر کانیگرم وزیرستان کی سرزمین پر بھی آباد ہے۔ سلمان فارسی اصل میں کرد تھے۔ سید عبدالقادر جیلانی کے شہر گیلان کا تعلق بھی ایران کے کردستان سے تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عجم تھے اور نبیۖ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وجہ سے بعد میں عرب بن گئے تھے۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی کرد تھے اور نبیۖ نے حضرت سلمان فارسی کو اپنے اہلبیت میں شمار کیا تھا۔ عربی میں مدینہ شہر کو کہتے ہیں۔ وزیرستان کا مرکزی شہر کانیگرم بھی شہر کے لفظ سے مشہور ہے۔ افغانستان کے بادشاہ نے کانیگرم میں اپنے لئے جس جگہ قلعہ کیلئے جگہ مانگی تھی مگرہمارے آباء واجداد نے دینے سے انکار کیا تھا، اب وہی جگہ کانیگرم کے باشندگان نے اپنی پاک فوج کو اپنے افسران کے کہنے پر دی ہے۔ آئی ایس آئی کے اس افسر کے بھائی گلشاہ عالم کو طالبان نے اپنے ابتدائی دور میں لاپتہ کیا تھا اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن جب طالبان نے انگریزوں کو اسامہ بن لادن کی تلاش میں کانیگرم تک لانیوالے گائیڈ ہمارے عزیز پیر زبیر شاہ کو پکڑ لیا تو TV چینلوں پر خبر کی سلائیڈ چلنے کے 5منٹ بعد طالبان کے ترجمان نے خبر جاری کردی کہ پیر زبیرشاہ اور ایک سومرو صحافی کو رہا کردینگے۔
ہم نے طالبان کی منافقانہ جنگ اور قوم کی منافقانہ پالیسوں کی ایک ایک چیز کادیکھ لی ۔ فوج کے جوانوں اور افسران سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن سب چیز کا موردِ الزام انہی کا ٹھہرانا انتہائی بھونڈی حرکتیں ہیں۔ پوری محسود قوم میں طالبان کے ہم سے زیادہ سپوٹر کوئی نہیں تھے اور ہم سے زیادہ طالبان کے کوئی شکار بھی نہیں ہوئے اور ہم سے زیادہ منافقانہ اور بے غیرتی کا کردار بھی کسی نے ادا نہیں کیا ہے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
بہت ہی قابلِ احترام بزرگ سیاسی رہنما محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن کے جلسے میں کہا کہ افغانستان وپاکستان کے درمیان باڑ کو اکھاڑ پھینک دیںگے تو تاجر سے زیادہ اسمگلر طبقہ بڑا خوش ہواکہ پورے پاکستان میں کسٹم کے بغیر اسمگلنگ کا راستہ کھل جائیگا۔ لیکن جب چمن بارڈر پر سختی شروع ہوگئی اور بلوچوں کے راستے سے اسمگلنگ کا مال آنا شروع ہوگیا تو پختون تاجروں کا راستہ بند ہوا۔کوئٹہ جلسہ میں محمود اچکزئی اور اختر جان مینگل نے ایکدوسرے کی کاٹ کی اور ملتان جلسے میں اختر جان مینگل کی محمود خان اچکزئی نے تائید اور توثیق کی۔ حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت چھوڑنے کی عدت بھی اختر جان مینگل نے ابھی پوری نہیں کی ہے اور بلوچوں کی جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں اور آواران میں پختون ایف سی اہلکاروں نے جو انکے گھروں کو جلایا ہے تو اس کی ساری ذمہ داری مریم نواز کے بابا نوازشریف پر ہی پڑتی ہے۔ گوادر کو بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ سے چھین کر پنجاب کے تختِ لاہور تک پہنچانے والانوازشریف نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے علاقہ سے موٹر وے گزارنے کا کام کیا تو مزاحمت کاروں کے گاؤں فوج کو مسمار کرنے پڑے ۔ڈاکٹر اللہ نذر نے غدار سیاسی قیادت کی وجہ سے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمن اور اختر جان مینگل نوازشریف کیلئے سہولت کار نہ ہوتے تو پاک چین دوستی میں گوادر سے کوئٹہ اور پشاور مالا مال ہوتے۔ سرائیکیوں کو صوبہ دینے میں بہاولپور کے نام پر ن لیگ نے ہی منافقت کا بازار گرم کیا تھا لیکن اس نوازشریف کی مکار بیٹی مریم نواز بھٹو سے لیکر یوسف رضا گیلانی تک اپنے باپ کا سارا کردار بیان کرتے ہوئے شرم بھی محسوس نہیں کرتی ہے۔ قارئین اعتدال کا راستہ صراط مستقیم ہے جو پلِ صراط سے زیادہ مشکل ہے۔ گرتے پڑتے خود کو اس پر چلانے کی کوشش کرنی ہے اور بلند بانگ دعوے اور نعرے نہیں لگانے ہیں ۔ دوسری طرف منافقت کا بدترین راستہ ہے جو کفر اور اسلام کے درمیان ادھر ادھر دونوں کے درمیان بہت ہی قابل مذمت ہے۔

وزیرستان کی عوام میں اسلام کو نافذ کرنے کی صلاحیت۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب پاکستان اور ہندوستان کو انگریز نے آزاد کردیا تو افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان کا بیٹا مدراس بھارت کی جیل سے آزاد ہوا۔ حالانکہ افغانستان میں اسکے کزن نادر شاہ اور ظاہر شاہ کی حکومت تھی۔ اس بات سے افغانی یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کا دشمن دوسرا نہیں، جب تک خود ایکدوسرے کی دشمنی اختیار نہ کریں۔ جب پاکستان کی آزادی کے بعد بھی انگریز کی باقیات نے امیر امان اللہ خان کے خاندان کو مجرم سمجھا تو پاکستان کے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی سخت ضرورت ہے۔امیرامان اللہ خان کا بیٹا جنڈولہ فقیر بیٹنی کے پاس پہنچا لیکن اس نے کہا میں پاکستان کی حکومت سے تمہیں نہیں بچا سکتا ہوں اور یہ مشورہ دیا کہ محسود قبائل میں یہ طاقت ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان سے آپ کو پناہ دے سکتے ہیں ، چنانچہ عبدالرزاق بھٹی آف شیخ اُتار علاقہ گومل ضلع ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان امان اللہ خان کے بیٹے کو سردار امان الدین کے دادا رمضان خان کے پاس لے گئے۔ رمضان خان نے اس کو پناہ دیدی۔ پھر جب وہ اپنی مرضی سے کسی وقت پاکستان کے سیٹل ایریا میں آئے تو حکومت نے اس کو گرفتار کرلیا۔ جیل ہی میں عبدالرزاق بھٹی نے کیمونسٹ نظریہ سے توبہ کرکے جماعت اسلامی میں شمولیت بھی اختیار کرلی۔ پاکستان کی ریاست کا اس امیر امان اللہ خان کے بیٹے سے یہ سلوک تھا جس کی حکومت کی بحالی کیلئے علامہ اقبال نے چندہ مہم سے باقاعدہ کوشش کی تھی۔
جب افغان جہاد سے لوگ امریکی ڈالر کما رہے تھے تو وزیرستان اور قبائل نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ کچرہ چننے والے افغانیوں کی جانوں پر رقم بٹورنے والے مجاہد علماء ، رہنما اور جرنیل کوئی اور ہی تھے۔ اگر ہمایون اختر اور اسکے بھائی کی دولت کچرہ چننے والے افغانیوں میں بانٹ دی جائے تو ہمارا افغانستان کیساتھ بھائی چارہ بحال ہوگا۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو حوالے کرنے والی ہماری پاکستانی ریاست اس بات کو سمجھ لے کہ تحریک انصاف کے سابق رکن اسمبلی جناب داوڑ کنڈی کا والد ہیروئن کیس میں کراچی سے پکڑاگیا اور جیل سے وزیرستان پہنچا تو امریکہ اور دنیا بھر کے دباؤ پر فوج کو استعمال کرنے کی دھمکی پر بھی وزیرستان کی عوام نے اس کو حوالہ کرنے سے انکار کیا تھا، اسی طرح جب ایمل کانسی نے وزیرستان کی سرزمین پر پناہ لی تو اس پر آنچ نہیں آئی لیکن مقتدر طبقات نے دھوکہ کرکے اس کو بھی امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ افغان حکومت پر ہماری ریاست کے کٹھ پتلی صحافیوں نے ہمیشہ سخت تنقید کی ہے لیکن یہ نہیں دیکھا ہے کہ ہمارے اپنے کرتوت کیا ہیں؟۔
27اکتوبر یوم طلبہ یونین آزادی کے موقع پر ان عمر رسیدہ خواتین کو دکھایا گیا جو طلبہ یونین سے لاعلمی کا اظہار کررہی تھیں لیکن وہ ریاست سے شکایت کررہی تھیں کہ ہیروئن پر قابو نہیں پایا جارہاہے جس سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان کو بینظیر بھٹو نے امریکہ کے کہنے پر بنایا تھا اور اس کیلئے پختون جنرل نصیراللہ بابر استعمال ہوا۔ امریکہ کا مقصد وہاں ہیروئن کی کاشت تھی اور جب طالبان نے ہیروئن کی کاشت بند کردی تو امریکہ کے ڈرگ اور اسلحہ مافیا نے افغانستان کے بعد عراق ، لیبیا اور شام پر جنگوں کو مسلط کیا تھا اور جس شدت پسندی کو بلیک واٹر کے ذریعے کھڑا کیا وہ دنیا کیلئے ڈراؤنا خوب بن کر رہ گیا۔ امریکہ اس دہشت گردی کے مقابلے میں ایک طرف صوفیت کو لایا تو دوسری طرف توہین رسالت کے حوالے سے پارہ چڑھادیا، جسکے پیچھے جو یہودی لابی کام کررہی ہے ،اس کا توڑ صرف اور صرف وزیرستان کے لوگ ہی کریں گے۔ مولانا اکرم اعوان نے قسم کھاکر کہا تھا کہ ” وزیرستان کے لوگوں سے اللہ نے دنیا کی امامت کا کام لینا ہے”۔ علامہ اقبال نے بھی محراب گل افغان کے تخیلاتی نام سے وزیرستان کے محسود اور وزیر کا ذکر کرکے ان سے شکایت کی ہے کہ ابھی یہ خلعت افغانیت سے عاری ہیں لیکن ان میں کوئی نہ کوئی ایک مرد قلندر ضرور پیدا ہوگا۔
ایک فرد سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ فرد کی قوم میں ایسی صفات کا ہونا ضروری ہے جو امامت پراکثریت میں صادق آتی ہوں۔ وزیرستان کے لوگ ہی تھے کہ جب دنیا طالبان اور افغانستان کے خلاف جنگ کررہی تھی تو بھگوڑوں کو محسود اور وزیر پناہ دے رہے تھے۔ امریکہ کو شکست دینے کے بدلے ہر قسم کی قربانی کیلئے یہ قوم تیار تھی لیکن بد قسمت قوم کی قیادت ایک طرف آلتو ،فالتو اور پالتو طالبان کے ہاتھ میں تھی اور دوسری طرف انگریز کا کچرہ قبائلی عمائدین قوم کی نمائندگی کررہے تھے۔ جس کی وجہ سے وزیرستان کے لوگ فوج اور طالبان کے درمیان چکی کے دوپاٹوں میں پیس کر رکھ دئیے گئے۔ فوج اور طالبان کے درمیان سیاسی اور مذہبی دلالی کرنی والی قیادت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ جب نقیب شہید کے مسئلے پر محسود قبائل کا لشکر اسلام آباد پہنچا تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملاقات میں ان کو ڈرا دھمکا کر بھیج دیا کہ ” ہماری دوتہائی اکثریت تھی، وزیراعظم نوازشریف کو فوج نے وزیراعظم ہاؤس سے پکڑ لیا تو عام لوگوں کی کیا اوقات ہے کہ فوج سے لڑسکے”۔ محسود قبائل کالشکر سرکاری ملکان کیساتھ راتوں رات دھرنے کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ ہم نے نوجوانوں کا درد محسوس کیا اور شام غریباں میں حوصلہ دیا کہ وزیراعظم نے تم سے گیم کرلیا۔ فوج پر تنقید سے بھی کچھ نقصان نہیں پہنچے گا۔ ریاست کو ایسے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے کہ جو ملک وقوم کیلئے کام کریں۔ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے کا نعرہ لگانے میں بھی حرج نہیں۔ اپنی تحریک کی بنیاد دوچیزوں پر رکھ لو۔ ایک دل کا درد اور دوسرا تعصبات سے پرہیز۔ فوج کے خلاف کیا سے کیا کچھ بولنے والے اقتدار کی دہلیز پر پہنچ سکتے ہیں لیکن تعصبات ابھارنے والے ناکام ہی ہوتے ہیں اور ان کی آخری منزل دلالی کے سوا کچھ نہیں ہوتی ہے۔
PTMکے دھرنے میں اسٹیبلیشمنٹ کے مہروں کو تقریر کی اجازت مل گئی۔ ن لیگ، تحریک انصاف ، مولانا فضل الرحمن، سپاہِ صحابہ کے رہنما مگر پیپلزپارٹی کو جذبہ خیر سگالی کی اجازت بھی نہیں دی جارہی تھی۔ آج محسن داوڑ کہتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا مشکور ہوں جس نے کراچی، کوئٹہ اور ملتان کے جلسے میں مدعو کیا تھا۔ ن لیگ کی مریم نواز نے PDMمیں شامل ہونے کے باوجود PTMکو گجرانوالہ میںنہیں بلایا تھا جس کا PTMوالوں نے شکوہ بھی کیا تھا۔ پشاور جلسے میں PDM کی میزبان جمعیت علماء اسلام اور ANPتھے۔ یہ دونوں بھی ن لیگ کے دلال ہیں اور ان کی وجہ سے PTMکو پشاور کے جلسے میں آنے نہیں دیا گیا۔ اگرمولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی کو پختونوں سے باہر کیا جائے تو پختونوں کی اکثریت بالکل بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے اسلئے منظور پشتین نے مولانا فضل الرحمن اور محسن داوڑ نے ANPکے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا ہے۔ البتہ قبائل میں بالخصوص اور سیٹل ایریا میں بالعموم PTMہی جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کیلئے ایک نئی سوکن ہے ،اسی وجہ سے ایکدوسرے پر اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی شروع ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر سے ہیروئن کا خاتمہ نہیں ہوسکتا لیکن وزیرستان کی عوام کو اللہ نے یہ طاقت دی ہے کہ ہیروئن کا خاتمہ کرسکتے ہیں،اس طرح اسلام کیلئے بھی یہ لوگ زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں۔ منظور پشتین نے عورت کے حقوق کیلئے آواز اُٹھاکر آغاز کردیا اور عوام بھی بڑے پیمانے پر حقائق کی طرف جاسکتے ہیں۔

موجودہ گھمبیر صورتحال میں مملکت کی درست رہنمائی!سید عتیق الرحمن گیلانی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستانی عدلیہ کے مایہ ناز، قابلِ فخر ایماندار چیف جسٹس سیٹھ وقار کی وفات اور دیوبندی سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی طرح بریلوی کی شاندار شخصیت علامہ خادم حسین رضوی کا ایک ایسا خلاء ہے جو برسوں پورا نہیں کیا جاسکے گا۔ چیف جسٹس سیٹھ وقار اور علامہ خادم حسین رضوی سے ہزار اختلافات کے باوجود انکے خلوص، ایمانداری اور عوامی مقبولیت سے انکار کرنا سورج کو انگلیوں سے چھپانا ہے۔ فوج وسول اعلیٰ قیادت کی طرف سے دونوں کیلئے ایک یادگاری تقریب میں خراج عقیدت پیش کیا جائے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود صحافی نہیں ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹراسرار عالمِ دین اور پی ایچ ڈی نہیں ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ پنجاب کو خطابت کا فن قدرت نے دیا ہے۔ مسخروں سے لیکر سنجیدہ افراد تک ایک سے ایک خطیب پنجاب کی زر خیزمٹی سے مل سکتا ہے، زبان کی فصاحت انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن خلوص کا پایا جانا جس کی تصدیق اپنے اور پرائے سب کریں، سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد علامہ خادم حسین رضوی نے بڑی عوامی مقبولیت پائی ہے ۔قادیانیوں کو ڈاکٹراسرار نے اپنی جہالت سے قتل کا فتویٰ دیا تھا۔ مفتی محمود ، مولانا مودودی اور علامہ شاہ احمد نورانی نے یہ فتوی نہیں دیا تھا۔
رسول اللہ ۖ سے سچا عشق تمام مسلمانوں میں ہے۔جب تک انسان اپنے والدین، عزیز واقارب اور اپنی جان سے زیادہ رسول اللہ ۖ سے محبت نہ کرے تووہ مؤمن نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ محبت کے جذبات کو اپنے اپنے ماحول کے مطابق بھڑکانا بھی ایک فن ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” بیشک بعض بیان سحر ہوتے ہیں”۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان بریلوی قندھار کے پٹھان تھے اور ہندوستان میں بریلی دو مقامات ہیں۔ ایک رائے بریلی اور دوسرا اُلٹا بانس بریلی۔ رائے بریلوی ہندوستان میں علمی مرکز تھا۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید کے مرشد سید احمد بریلوی سے لیکر حقیقی معنوں میں شیخ العرب والعجم سید ابوالحسن علی ندویکا تعلق رائے بریلوی سے تھا۔ ادب اور علم کے لحاظ سے ہندوستان کا کوئی دوسرا شہر اس کا ثانی نہیں تھا۔ الٹا بانس بریلی تو بالکل جاہل، ان پڑھ اور لٹھ ماروں کا شہر تھا۔ ایک قندھاری پٹھان کو ماحول بھی جٹوں کا مل جائے تو سونے پر سہاگہ ہونا چاہیے تھا۔ تاہم مولانا احمد رضا خان بریلوی کے اندر عشق رسول ۖ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ شاہ ولی اللہ کے علمی خانوادے سے تصادم کا رسک ہر ایرے غیرے کا کام نہیں تھا۔ علماء دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تحریک اور کتابوں کو اس طرح سے قبول کیا جس طرح ملاعمر کی تحریک طالبان اور اقدامات کو اہمیت دی تھی لیکن پھر جس طرح طالبان نہ صرف اپنے پر تشدد مؤقف سے پیچھے ہٹے ہیں بلکہ علماء دیوبند کی بھی اب آنکھیں کھل گئی ہیں۔
اکابر دیوبند نے مولانا احمد رضاخان بریلوی کی وجہ سے تقلید کو دوبارہ قبول کیا بلکہ چاروں مسالک اور چاروں سلاسل سلوک کو شریعت کے مطابق قرار دیا۔ امام ابن تیمیہ نے چاروںفقہی مسالک کو دین میں تفرقہ قرار دیا تھا لیکن ان کی تحریک کامیاب نہ ہوئی ۔ شاہ اسماعیل شہید اور علماء دیوبند کی تحریک پر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے گستاخانہ عبارات کے حوالے سے بھی گرفت کی جسکے بعد علماء دیوبند نے دوسروں پر بھی اپنی گرفت کا سلسلہ جاری رکھ کر مولانا احمد رضا خان بریلوی کی توثیق فرمائی ہے۔
پنجاب میں دیوبندی بریلوی فسادات کیلئے آگ کی چنگاریاں اورپیٹرول کا ذخیرہ موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار شیعہ سنی ،بریلوی دیوبندی اور حنفی اہلحدیث فرقہ وارانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کرینگے تو پنجاب سے قادیانیت کا مرکز ربوا چناب نگر بھی اس آگ کی لپیٹ سے بچ نہیں سکے گا۔ محرم میں شیعہ سنی آگ بھڑکانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد حنفی اہلحدیث اور بریلوی دیوبندی فسادات کی کوشش کامیاب ہوگئی تو پھر وہ خون خرابہ ہوگا جس سے ریاست اور حکومت بھی نہیں بچ سکے گی۔ ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ پہلے بھی فرقہ وارانہ فسادات کروائے گئے تھے۔
پاکستان خوش قسمت اسلئے ہے کہ سوشل میڈیا پر ناپاک عزائم رکھنے والے بھی اپنے خبثِ باطن کا پورا پورا اظہارِ خیال کرسکتے ہیں تو دوسری طرف غلط پروپیگنڈے سے ان کا چہرہ بھی بے نقاب ہوجاتا ہے۔ کچھ زر خرید یا جن کی سرشست میں خباثت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انہوں نے پلاننگ کے تحت شوشہ چھوڑ دیا کہ جسٹس سیٹھ وقار اورعلامہ خادم حسین رضوی کو قتل کیا گیا ہے لیکن جنہوں نے علامہ خادم حسین رضوی کا کلپ چلادیا تو وہ اتنی عقل بھی نہیںرکھتے تھے کہ پوری بات بھی سوشل میڈیا پر ہے اور اسکے بعد ان کا خبثِ باطن بے نقاب ہوگایاپھر بھی شاید پیسوں کی خاطر کسی کی وکالت کرنے کا حقِ نمک ادا کرلیا۔ حکومت بہت بیکار ہے ورنہ ان نامی گرامی نام نہاد صحافیوں کو عوامی کٹہرے میں لاکھڑا کیا جاتا تاکہ آئندہ اس قسم کی حرکت نہ کرتے۔
جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاویدباجوہ سے پہلے دہشت گردی کا راج تھا۔ سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو لاہور اورملتان سے اغواء کرکے افغانستان پہنچایا گیا لیکن کسی میں آواز اُٹھانے کی جرأت نہیں تھی اور اب سیٹھ وقار اور علامہ خادم حسین رضوی کی طبعی موت کو بھی کھلم کھلا قتل قرار دیا گیاہے اور اس کا الزام فوج کے سر ڈالنے کی بہت ناکام کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے ان حالات میں فاطمہ جناح کے قتل پر اپنا پروگرام ریکارڈ کرایا ہے جس سے فوج کے بارے میں شکوک وشبہات کو عام کیا جارہاہے اور عمران خان سے کاشف عباسی نے انٹرویو لیا تھا جس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ”سپاہِ صحابہ کے لوگ میرے پاس آئے کہ شیعوں سے ہماری صلح کراؤ، ایجنسیوں کے لوگ ہمیں استعمال کرکے ان کا دشمن بنادیتے ہیں”۔ اب آئی ایس آئی کے دفتر میں وزیراعظم عمران خان اورفوج کے سربراہوں کا اجلاس ایسے وقت میں جب اپوزیشن کے ملتان کا جلسہ روکنے کی تیاری تھی اور اسکے خراب نتائج نکلتے تو حکومت کیساتھ اپوزیشن ریاست کو بھی نشانہ بناتی۔ کیا یہ دانشمندی ہوسکتی ہے؟۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اپوزیشن فوج کو دھائی دے رہی ہے کہ ہمارا ساتھ دو، ورنہ ہم ریاست کے خلاف آواز اٹھائیںگے، اس کی وجہ سے حکومت اور ریاست کو ایک طرف دھکیلا جارہاہے ، تو دوسری طرف فوج کی منطق کہ حکومت کی تبدیلی پارلیمنٹ کے ذریعے سے ممکن ہے ،اگرچہ یہ منطق بالکل درست ہے لیکن جب سینٹ کے الیکشن کے نتائج دیکھے جائیں تو سب ایک ڈرامہ سے زیادہ کوئی سنجیدہ بات نہیں لگتی ہے۔ ریاست، حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی جگہ پر مجبور اور درست بھی ہیں اور غلط بھی ہیں ۔ سوشل میڈیا کا طوفان عوام الناس کے ذہنوں کو متأثر نہ بھی کرے تو بھوک وافلاس اور جبری نظام تنگ آمد بہ جنگ آمد کی طرف دھکیل رہاہے۔ عوام کی نظرمیں یہ گر چکے ہیں اور پاکستانی ریاست اور عوام کو ایک پیج پر لانے کیلئے اسلامی انقلاب ناگزیز ہوچکا ہے۔
اسلامی انقلاب سول وملٹری بیوروکریسی اور عوام کی ملی بھگت سے بھی اسلئے آیا چاہتا ہے کہ ریاستی قوت سے نہتے عوام طاقت کے زور پر لڑ نہیں سکتی ہے اور مقتدر طبقہ اپنے لئے اخلاقیات کا کوئی معیار بنانے کیلئے تیار نہیں جسکے نتیجے میں طبقات کی جنگ پر بیچاری عوام خوشیوں کے شادیانے بجائے گی اور آخر کار مقتدر طبقات بھی لڑمر کر آخری حد تک پہنچنے سے پہلے پہلے اقتدار کی نکیل کسی ایسے فرد کے سپرد کردینے میں عافیت سمجھیںگے جو کسی کا بھی کٹھ پتلی نہ ہو۔ اسلام کو عالم اسلام نہیں پوری دنیا ہی قبول کرے گی اور وہ اسلام ملا کا اسلام نہیں ہوگا بلکہ اللہ اور فطرت کا اسلام ہوگا۔

مذہبی مدارس میں سمجھ بوجھ کے باوجود حلالہ کرنے اور کروانے والے علماء و مفتیان لعنت کے مستحق ہیں

اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللَّاعِنُوْنَ (159) اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا فَاُولٰئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْہِمْ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (160)
بے شک جو لوگ ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت کو جسے ہم نے نازل کر دیا ہے اس کے بعد بھی چھپاتے ہیں جو ہم نے لوگوں کیلئے کتاب میں واضح کر دیاہے، یہی وہ لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی اور اصلاح کر لی اوراس کا اعلان بھی کر دیا پس یہی لوگ ہیں کہ میں ان کی توبہ قبول کرتا ہوں، اور میں بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہوں۔سورہ بقرہ آیات 160-159

کتاب ”عورت کے حقوق” میں قرآن کی آیات اور احادیث اور اصولِ فقہ کے مسلمہ قواعد اور درس نظامی کے حوالے سے بالکل واضح کردیا ہے کہ اسلام نے جاہلیت کا حلالہ بالکل ختم کردیا تھا لیکن صحابہ کرام اور ائمہ اربعہ کے بالکل برعکس اسلام اجنبی بنادیا گیا۔ پھر بہت بعد کے فقہاء نے نہ صرف حلالہ کا جواز نکالا ، بلکہ اس کو کارِ ثواب بھی قرار دے دیا ۔ آج مدارس قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف میاں بیوی میں تفریق اور حلالہ سینٹر بن چکے ہیں۔ جناب سینٹر مشاہداللہ خان ن لیگ کے رہنما سینٹ اور قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھائیں۔ مولانا فضل الرحمن کو ہمارے ساتھ میڈیا پر بٹھائیں۔ مدارس کے علماء ومفتیان نے بھی حقائق کو سمجھ لیا ہے لیکن بعض اپنے مفادات کی وجہ سے مجبور ہیں اور بعض حلالہ کی لذت آشنائی سے محظوظ ہیں۔ جب تک ان کو بلڈوزر کے نیچے کچلنے کا خوف نہ ہو ، یہ ملعون اللہ کے احکام کو ماننے کیلئے کبھی آمادہ نہیں ہونگے۔ عورت جہالت کی وجہ سے قرآن وسنت کی غلط تشریح وتعبیر کی وجہ سے ہی حلالہ کی لعنت کا شکار ہورہی ہے۔ مدارس کے دارالافتاء کی حالت دیکھی جائے تو خواتین نے ایک ساتھ تین طلاق کی وجہ سے فتوؤں کی لائن لگارکھی ہوتی ہے۔ بڑے مدارس کا باشعور طبقہ اور مفتی صاحبان اس گھناونے کھیل کو سمجھ چکے ہیں لیکن سانڈ قسم کے مفتیوں کی دارالافتاؤں میں حکمرانی ہے۔ ریاست جس طرح پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے نہیں ڈرتی لیکن مولانا فضل الرحمن کے مذہبی فتوؤں سے خائف ہے، اسی طرح مدارس کے شریف علماء ومفتیان بھی اپنے بدمعاش اور بدقماش طبقے سے عاجز نظر آتی ہے۔ ہماری مولانا فضل الرحمن سے استدعا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے اقتدار کی راہیں ہموار کرنے کے حوالے سے مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کے بجائے دین کی حقیقت سے حقیقی انقلاب کی طرف رجوع کریں۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کی کتاب” عصر حاضر حدیث نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کے آئینہ میں” مدارس کے جاہل علماء ومفتیان اور سیاست میں دین کی پاسبانی کی جگہ دنیا داروں سے مل کر خیانت کا ذکر ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں اقتدار کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ علماء ومفتیان نے سودی نظام تک کو جائز قرار دیا ہے۔ مولانا مفتی محمود ، شاہ احمد نورانی اور مولانا مودودی موجود ہوتے تو ”عورت کے حقوق” کتاب کی وضاحتوں کے بعد یقینا حقائق کو مانتے اور سودی نظام کو جواز فراہم کرنے کو اسرائیل کی تسلیم سے بھی بدتر قرار دیتے۔ جن کو دیکھ کرشرمائے یہود نے اسرائیل اور مسئلہ کشمیر کو اپنے جرائم چھپانے کیلئے ڈھال بنایا ہوا ہے۔ ان لوگوں کو پیرا شوٹ کے ذریعے وہاں پہنچایاجائے تاکہ جہاد کا حق اداکریں اور یہاں فضول کی قوالیاں نہ گائیں۔

اگر رحمت للعالمینۖ کا یہ اسلام پیش کیا ہوتا تو سیاسی اور اسلامی انقلاب آچکا ہوتا۔

جاگیردارانہ نظام غربت، غلامی اور انسانی حقوق کی پامالی کیلئے بنیادی نرسری ہے اسلام کاشتکار کو زمین دینے کا حکم دیتا ہے اور مزارعت کو سود قرار دیتاہے

سیاستدان، جرنیل، جج اور جاگیردار طبقہ مزارعین کو مفت میں زمین کاشت کیلئے دیں یا پھر خود ہی کاشت کرنا شروع کریں تو غریب امیر کا فرق ختم ہوگا

اسلام میں غریب امیر کی خواتین پر بہتان لگانے کی ایک سزا ہے، سورۂ نور کی آیات سے دنیامیں رحمة للعالمینۖ کا دین پھیل کر انقلاب آجائے گا۔

انسانی حقوق کی علمبردار طلبہ تنظیموں تک ہماری کتاب ”عورت کے حقوق ” پہنچائی جائے تو مدارس کی جان حلالہ کی لعنت سے چھڑائی جائے۔ مدارس رشد وہدایت کی جگہ گمراہی کے قلعے بن چکے ہیں۔ اسلام بنیادی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اسلامی جذبہ ہے تو اپوزیشن کی ساری قیادت مولانا فضل الرحمن کے پیچھے کھڑی ہیں۔ درست اسلامی تعلیم کے کچھ نکات بھی منبر و محراب سے اُٹھنے شروع ہوگئے تو لیفٹ اور رائٹ ایک صف میں کھڑے ہونگے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے اگر سورۂ نور کی آیات سے اپنی قوم کی رہنمائی کردی ہوتی تو بہت آسانی کیساتھ انقلاب آسکتا تھا۔ حضرت عائشہ پر بہتان کی سزا قرآن وسنت میں80کوڑے تھے اور عام غریب خاتون پر بھی بہتان لگانے کی سزا80کوڑے ہیں۔ اگر محمود خان اچکزئی نے ہماری بات مانی ہوتی اور مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد دھرنے میں رحمت للعالمینۖ کا یہ اسلام پیش کیا ہوتا تو سیاسی اور اسلامی انقلاب آچکا ہوتا۔ لیکن نعرۂ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے عوام کو دھوکا دینے کیلئے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کبھی بھی عوام کی عزت وناموس کو اپنے برابر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ عمار علی جان اور منظور پشتین جیسے جوانوں کو چاہیے کہ زرخرید صحافیوں کو متنبہ کریں کہ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ حکومتوں کے مزے اڑانے والے اشرافیہ کا بھی آلۂ کار نہ بنیں۔ ہرقسم کی طبقاتی تقسیم سے بالاتر ہوکر قوم کے مسائل کا اجتماعی حل نکالیںگے تو غریب کے مسائل حل ہونگے۔ اسلام کا زرعی نظام غربت کی لیکر سے نکالے گا۔