پوسٹ تلاش کریں

راشد مراد کی کھریاں کھریاں میں مولانا فضل الرحمن کو چھڑیا ںچھڑیاں

راشد مراد کھریاں کھریاں میں ن لیگ کا دلال بن کر مولانا فضل الرحمن سے جہاد کا اعلان کروانا چاہتا ہے لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے۔راشد مراد نوازشریف اور مریم نواز کو مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دینے پر کیوں نہیں کہتاہے؟

جب مریم نواز نے شہباز شریف کو عمران خان کا متبادل کہا اور کراچی میں اسرائیل کیخلاف پی ڈی ایم (PDM) کی ریلی میں شرکت نہیں کی تو پیپلزپارٹی کو بھی اپنی سیاست کا پورا پورا حق پہنچتاہے

مولانا فضل الرحمن نے بندوق اُٹھاکر جہاد کرنے کی بات نہیں کی اور جس سیاسی جہاد سے پیچھے ہٹنے کو گناہ قرار دیا تھا ،دونوں پارٹیاں پیچھے ہٹ کر منافقت منافقت ہی کھیل رہی ہیں!

راشد مراد سوشل میڈیا آر ایم ٹی وی (RM.TV) پر بیٹھ کرکھریاں کھریاں کے عنوان سے فوج کیخلاف جہاد کررہا ہے۔ پہلے اس نے پی ٹی ایم (PTM) کے جوانوں اور پٹھانوںکو فوج میں بغاوت کرنے پر اُکسایا تھا اور اب مولانا فضل الرحمن سے مطالبہ کیا کہ فوج کے خلاف جہاد کے اعلان سے پیچھے نہ ہٹے۔ بلکہ واضح اعلان کردے کہ فوج کے خلاف جہاد ہے لیکن راشد مراد نوازشریف اور مریم نواز سے یہ مطالبہ نہیں کرتا ہے البتہ ان کو سیاسی مفادات حاصل کرنے کے گُر سکھاتا ہے اور ان کی ہر غلطی اور منافقت کے کردار پر پردہ ڈالنے کیلئے صرف پیپلزپارٹی کوہی تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

شپیزمائی خان(چاند میاں) پی ٹی ایم (PTM)کے نوجوانوں میں فوج کیخلاف نفرت کے جراثیم ڈال کر پٹھانوں کو افغانستان میں امریکہ کی فوج سے مل کر کردار ادا کرنے کی دعوت دیتا تھا۔ اب میڈیا سے ایسا غائب ہوا کہ اس کا کوئی سراغ بھی نہیں ملتا ہے۔ مجھے شپیزمائی خان کی بات اچھی لگتی تھی کہ اپنی قوم کی جہالتوں پر گرفت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ تاریخ کے لٹیروں کو اپنا ہیرو مت سمجھو اور اپنی جاہلانہ رسم ورواج سے نکل جاؤ۔ باہر ملکوں میں رہنے کی وجہ سے اس میں شعور بھی تھا۔پی ٹی ایم (PTM) والے سمجھ سے بالکل عاری لگتے ہیں۔ پچھلے دنوں آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحہ پر کراچی میں سوگ منایا تو بہت ہی کم افراد تھے جن میں چند ہمارے وہ ساتھی بھی تھے جو پنجابی اور میمن تھے۔ میری تقریر کے بعد مقررین نے اپنی تقریر میں کہا کہ ”اس واقعہ پر بلوچ، سندھی ، پنجابی اور دوسری قوم والے سوگ نہیں کرتے ۔ ہمارے غم میںصرف پشتون ہی شریک ہیں”۔ تقریر کرنے والے نوراللہ ترین اور شیرمحمد محسود تھے جو کراچی پی ٹی ایم (PTM)کے کوآرڈینیٹر اور نائب کوآرڈینیٹر ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اس میں کتنے پشتون شریک ہیں؟۔ پی ٹی ایم (PTM)کا ایک رہنما جو بہت اہمیت رکھتا ہے وہ رحمت اللہ محسود بھی ہمارے بلانے پر شریک ہوا تھا۔ مستونگ میںدو سو (200)بلوچوں کا قتل ہوا لیکن میڈیا نوازشریف کی آمد اور شہباز شریف کی طرف سے احتجاجی جلوس کو لاہورکی گلیوں میں گھمانے پر لگا تھا۔

ریاست اور حکومت کو چاہیے کہ جب ن لیگ اور پیپلزپارٹی پی ڈی ایم (PDM)کی تحریک سے پیچھے ہٹ گئے تو مولانا کے پیچھے ہاتھ دھوکے نہ پڑے۔ اگر مولانا فضل الرحمن کو دیوار سے لگانے کے بجائے کھلا چھوڑ دیا جائے تو اقتدار والوں کا فائدہ ہے۔ یہ تأثر دینا کہ جب پی ڈی ایم (PDM)ایک ساتھ تھی تو مولانا پر ہاتھ نہیں ڈالا،اور اب اکیلے ہوگئے ہیں،اسلئے ہاتھ ڈال رہے ہیں ہماری ریاست اور حکومت کیلئے بھی اچھا نہیں ہے۔ اس تأثر میں کوئی حرج نہیں کہ جب ہمیں خطرہ تھا تو نیب سے پکڑوانے کی کوشش کی اور خطرہ ٹل گیا تو مولانا کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب مولانا آزاد پھریں، پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے شکوے کریں تو یہ زیادہ اچھی حکمت عملی ہوگی۔

ایک بونیر کے سادہ لوح لڑکے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اس کو کسی نے کہا کہ پچاس (50)روپے کی سی این جی (CNG)بوتل میں ڈالو۔ اس نے پیسے پمپ والے کو دیدئیے اور پمپ والے نے بوتل میںسی این جی (CNG)بھر نے کا ڈرامہ کیا تو وہ سادح لو لیکر چلا گیا۔

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے بہت سے اینکر اپنی جھولی اُٹھائے اقتدار والوں کی دُم کے پیچھے پیچھے گھومتے ہیں کہ ہوا خارج کرو تو ہم جھولی میں اس کو دبوچ لیں گے۔ راشد مراد کھریاں کھریاں میں اردو کے علاوہ پنجابی میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو فوج کے خلاف اُکساتا ہے اور اگر مریم نواز اور نوازشریف نے روایتی خاموشی اختیار کرلی اور پھرمولانا کوبھی گرفتار کرلیا گیا تو پاگل مولوی پٹھان اور بیوقوف عمران خان نادان کی لڑائی کا گہرا اثر پنجاب پر بھی پڑے گا۔ ن لیگ کے کرتے دھرتے ، کھریاں کھریاں اور نجم سیٹھی ٹائپ کے لوگ بہت حکمت کیساتھ فوج کی کھال چھیل دیں گے اور معاملات بہت خراب ہوجائیںگے۔ کنٹینروں میں فائل لاکر میڈیا کے اسکرین پر ارشد شریف نے سب کچھ دکھادیا تھا مگر نوازشریف کو پھر بھی ججوںنے اقامہ پر نکال دیا۔ ٹرائل میں ”مجھے کیوں نکالا” سے پارلیمنٹ کی لکھی ہوئی تقریر کا بھی سوال نہیں اور قطری خط سے انکار بھی مان لیا تھا۔

جب نوازشریف اور شہبازشریف سے ایک دھیلا بھی نہ نکالا۔ چوہدری برادران کو کلین چٹ دیدی اور عمران خان کو ریاست کے خلاف بغاوت اور پی ٹی وی (PTV)پر حملے میں گرفتار نہیں کیااور فارن فنڈنگ کیس میں قصور ایجنٹوں پر ڈالنے والے عمران خان کو کلین چٹ دینے کی تیاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو جی ایچ کیو پر دھرنے کی دھمکی دینے کی سزا دی جائے تو محمود خان اچکزئی کا بیانہ سچ ثابت ہوگا کہ یہ ملک فوج کیلئے ہے، فوج ملک کیلئے نہیں ہے۔

پھر راشد مراد کو پنجاب ، محمود خان اچکزئی کو جنوبی پشتونخواہ بلوچستان اور اختر مینگل کو بلوچوں کے بلوچستان اور عوامی نیشنل پارٹی کو خیبر پختونخواہ اور سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کو سندھ میں اپنے مضبوط بیانیہ کا موقع ملے گا۔ امریکہ اور نیٹو سے جتنا فنڈز القاعدہ اور مجاہدین کومارنے، پکڑکر حوالے کرنے اور قتل کرنے کا ریاستِ پاکستان میں پرویز مشرف نے لیا ہے تو اس سے بڑی غداری اور بے غیرتی کیا ہوسکتی ہے؟ اور کس کے خلاف راہ ہموار ہوگی؟۔

دھرنے کے ذریعے حکومت کو ہٹانا مولانا فضل الرحمن کے حق میں بھی نہ ہوگا کیونکہ اس مرتبہ اس کا صاحبزادہ بھی شاید کامیاب نہ ہو۔ ہمارے اخبار کی وجہ سے ڈیرہ اور ٹانک کے علاوہ جہاں بھی جمعیت کا ووٹ بینک ہے وہاں یہ بات واضح ہے کہ مولوی اقتدار کا حقدار تو بہت دور کی بات ہے اپنے فرائضِ منصبی کا حق بھی ادا نہیں کررہاہے بلکہ اسلام پر مظالم میں بھی انکا ہاتھ ہے۔

مولانا فضل الرحمن کچھ بیروزگار جوانوں کو پرائیویٹ سکیورٹی کے نام پر اپنے ساتھ رکھیں تو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کروڑ نوکریاں نہ سہی مگر چند نوکریاں دینے کا وعدہ تو پورا ہوگا۔ اگر مولانا فضل الرحمن کو نشانہ بنایا گیا تو فیض احمد کی شاعری پھر سے خوامخواہ میں نوجوانوں میں زندہ ہوگی۔

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والاطواف کو نکلے
نظر چراکے چلے، جسم وجاں بچاکے چلے
ہے اہل دل کیلئے اب یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا فضل الرحمن جیسے فرزند مائیں روز روزنہیں جنتی ہیں

مولانا فضل الرحمن جیسے فرزند مائیں روز روزنہیں جنتی ہیں۔قذافی، ملاعمر،بینظیربھٹو اورنوازشریف سے مولانا بڑا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اگر مولانافضل الرحمن نہ ہوتے تو جنرل راحیل اور پاک فوج دہشتگردوں کا خاتمہ نہیں کرسکتی تھی ۔

جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار نہ ہوتا تو پختون دہشتگردوں سے اپنی جان نہیں چھڑا سکتے تھے، مولانا فضل الرحمن کی زندگی جہدِ مسلسل سے اعتدال پر گامزن ہے!

اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کو مولانا شیرانی چلائیںگے۔ صابر شاکر۔ اسلئے کہ شیرانی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کاکہا؟ ،صابر شاکر فوج کوہی نقصان پہنچارہاہے

مولانا فضل الرحمن دینی مدرسہ اوربی اے (BA)کی تعلیم سے اس مقام تک نہیں پہنچے بلکہ اپنی جرأت ، کردار اور ذہانت کی بدولت یہ مقام حاصل کیاہے۔ جب مولانا مسعود اظہر انڈیا کی جیل سے آزاد ہوئے تو اس سے پہلے ایک بار جمعیت طلباء اسلام کے شاہ ولی اللہ کانفرنس میں مولانا مسعود اظہر کو میری وجہ سے تقریر کا موقع دیا گیا۔ مسعود اظہر اس وقت جامعہ بنوری ٹاؤن کا طالب علم میرا دوست تھا۔ اس نے اشارہ کنایہ سے بزرگ علماء کی تعریف کرتے ہوئے جمعیت ف کے مقابلے میں درخواستی کی حمایت میں بات کی۔ جمعیت ف کا طالب علم دوست ناراض ہوا کہ قربانیاں ہم نے دی ہیں اور تقریر کا موقع اس کو دلوادیا، جس نے تمہارا لحاظ بھی نہیں رکھا؟ ۔ میں نے کہا کہ تمہارا پتہ چلتا کہ اس پروگرام میں شرکت کی ہے تو مدرسہ والے نکال بھی دیتے۔ یہ مدرسے والوں پر حجت ہوگئی کہ اس کو نہیں نکالتے اور اچھا ہوا کہ اس نے منافقت کرنے کی بجائے اپنے ضمیر کا کھل کراظہار کیا ہے۔

مولانا مسعود اظہر نے انڈیا سے آزادی کے بعد مولانااعظم طارق کیساتھ تقریریں شروع کیں تو پاکستان میں افغانستان کے طرز پر تحریک طالبان کی طرح امیر المؤمنین بننے کا نقشہ پیش ہورہا تھا۔ مجھے اس وقت اسی دوست نے خط لکھا کہ تمہاری وجہ سے ترقی وعروج کے اس مرتبہ پر مولانا مسعود اظہر پہنچے،اگر شاہ ولی اللہ کانفرنس میں آپ نے دعوتِ خطاب کا جرم نہ کیا ہوتا تو مسعود اظہر کسی کی نظر میں آتا اور نہ یہاں تک پہنچ پاتا۔ اب آپ ہی اس فتنے کا تدارک بھی کیجئے گا۔

میں نے اپنے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میںاس پر ایک مضمون لکھتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ” مجھے چالیس ایف سی آر کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں ایک چھوٹے سے انقلابی کی حیثیت سے قلم اور کاغذ کی سہولت میسر نہیں تھی بلکہ اس پر سخت پابندی تھی اور مولانا مسعود اظہر کے حالاتِ حاضرہ پر تہاڑ جیل سے مسلسل ضربِ مؤمن کراچی میںمضامین شائع ہورہے ہیں، یہ آئی ایس آئی (ISI) اور بھارت کی را سے بالا بالا امریکی سی آئی اے کا گیم ہے۔ مولانا اظہر کا یہ کہنا کہ تہاڑ جیل میں بارہ (12) سرنگ کھودے گئے تھے جن میں ایک سرنگ میرے سائز کا بھی تھا۔ کیا یہ خالہ جی کا گھر تھا؟ اور مولانا کے سائز کا ایک سرنگ سب کیلئے کافی نہیں تھا؟”۔ یہ تحریر جماعت اسلامی کے امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد کو بھی بہت پسند آئی تھی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کوئٹہ میں ضربِ حق کے نمائندے امین اللہ بھائی کا تعارف قاضی حسین احمد سے کروایا توقاضی صاحب بہت پُر جوش انداز میں امین اللہ بھائی سے ملے مگر جب امین اللہ نے سوال کیا کہ ”شیعہ مسلمان ہیں یا کافر؟” تو قاضی صاحب بہت سخت ناراض ہوگئے کہ مجھ سے یہ سوال کیوں پوچھ لیا؟۔ حالانکہ ملی یکجہتی کونسل کے تحریری معاہدے پرسپاہِ صحابہ اور اہل تشیع کے دستخط تھے کہ” ہم ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کریںگے”۔

جب امریکہ جہاد کی سرپرستی کرتا تھا تو اسرائیل کا بھی وہی سرپرست تھا۔ پھر امریکہ کے خلاف جہاد کا مسئلہ آیا تو مولانا فضل الرحمن کے جھنڈے کے نیچے جماعت اسلامی بھی کھڑی ہوگئی۔ امریکہ کو للکارنا مولانا کی جرأت کا آئینہ تھا۔پھر جب متحدہ تنظیمات المدارس اورمتحدہ مجلس عمل کیلئے شیعہ سنی اتحاد کا فتویٰ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے دیا تو فتویٰ لکھنے والے ہمارے وزیرستان کانیگرم شہر کے پڑوسی مفتی شاہ فیصل برکی تھے۔ بنوری ٹاؤن نے اہل تشیع پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا جس پر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے علماء نے دستخط تھے۔ تین (3)وجوہات سے شیعہ کو قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا گیا تھا۔
(1) قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔
(2) صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں۔
(3)عقیدۂ امامت کی وجہ سے ختم نبوت کے منکر ہیں۔ جبکہ قادیانی صرف ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں۔

میں نے اس پر تبصرہ لکھا تھا کہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی اس اتحاد کی وضاحت کریں کہ اہل تشیع نے اپنے عقائد سے توبہ کی ہے یا پھر انہوں نے غلط فتویٰ لگایا تھا؟۔ اگر دونوں میں سے کوئی بات نہیں تو کیا قادیانیوں کو بھی وہ اس سیاسی اور مدارس کے اتحاد میں شامل کرلیںگے؟۔ مفتی شاہ فیصل برکی نے مجھ سے میرے سکول کبیرپبلک اکیڈمی علاقہ گومل میں تشریف لاکر کہا کہ ”آپ ہمیں کہیں بھی نہیں چھوڑتے۔ شیعہ پر کفر کے فتوے پر مخالف تھے اور اب اتحاد کی بھی مخالفت کرتے ہیں؟” لیکن میرا کہنا تھا کہ میں صرف حق کی بات کرتا ہوں باقی کسی کو کافر قرار دینا یا مسلمان قرار دینا یہ میرا کام نہیں ہے۔ آپ لوگ اسلام کے نام پر عوام کے جذبات سے مت کھیلو”۔

مولانا فضل الرحمن اور اہل مدارس کو سب سے زیادہ خطرہ تنظیم فکر ولی اللہ سے تھا لیکن مولانا عبدالخالق آزاد اور مفتی عبدالقدیر کے دانت بھی میں نے مفتی شاہ فیصل برکی اور دوسرے علماء کے سامنے کراچی میں کٹھے کئے تھے۔

تحریک طالبان عوام کی امنگوں کی اس وقت ترجمان بن گئی کہ جب امریکہ نے افغانستان پر یلغار کردی تھی۔ اگر مولانا فضل الرحمن ایجنسیوں کی راہ پر چلتے ہوئے جہادیوں کی حمایت کرتے تو پاکستان کا کباڑہ ہوچکاہوتا۔ مولانا نے معتدل کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ کو مات دینے کی حمایت جاری رکھی اور تحریک طالبان سے اپنے لوگوں کی بربادی کو بھی بچانے کی اپنی بھرپور کوشش کی۔ طالبان کے حامی مولانا عبدالغنی اور مخالف مولانا محمد خان شیرانی کے درمیان مولانا فضل الرحمن نے میانہ روی کا راستہ اپنایا۔ جب سپاہ صحابہ نے اہل تشیع کا قتل شروع کیا تو مولانا فضل الرحمن نے ہی ان کو دہشت گرد قرار دیا تھا اور جب تحریک طالبان پاکستان نے دہشتگردی کی تو مولانا فضل الرحمن نے ان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا۔ شاہد مسعود جیسے چند ٹکوں کے صحافیوں نے مولانا کی حمایت کرنے کے بجائے مولانا کی کردار کشی شروع کردی تھی۔

پھر جب جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا تو مولانا فضل الرحمن اور مولانا عطاء الرحمن کے فتوؤں کا اس میں کلیدی کردار تھا۔ ہمارا میڈیا یہ جرأت تو نہیں کرسکتا تھا کہ خراسان کے دجال والی بات کو سامنے لایا جاتا لیکن مولانا عطاء الرحمن کا بیان مشرق پشاور میں چھپا تھا کہ ”سیکیورٹی کے اداروں کی یہ صرف سرکاری ذمہ داری نہیں کہ دہشت گردوں کو قتل کریں بلکہ یہ ان کا شرعی فریضہ بھی ہے”۔ سن(2007ئ) میں یہ کہنا کسی کمزور مائی کے لال کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔ عمران خان مچھ کے واقعہ پرہزارہ کے پاس کوئٹہ جانے کیلئے تیار نہیں تھا اور مولانا فضل الرحمن نے جمعہ کے بھرے اجتماع میں طالبان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا اور جب وہ ہمارے گھر میں اسکے بعد ٹانک سے تعزیت کیلئے آرہے تھے تو اپنے دوستوں نے کہا کہ وہ قتل نہیں کردیں؟۔ مولانا نے کہا کہ میں ان سے نہیں ڈرتا۔ میرے بھائی نے پولیس کو بیٹھک اور آنے جانے والوں کی تلاشی سے منع کردیا کہ مہمانوں کی بے عزتی ہے۔ پولیس والوں نے کہا کہ یہ ہمیں حکم ہے لیکن بھائی نے کہا کہ پھر تعزیت کیلئے مولانا نہ آئیں۔ پھر پولیس نے تلاشی نہیں لی اور مولانا تشریف لائے۔ وہاں بھی خراسان کے دجال والی حدیث دھرائی ۔

مولانا فضل الرحمن کو جتنے جھوٹے طعنوں سے ڈیزل پر بدنام کیا گیامگر یہ کسی کو پتہ نہیں چلا کہ ڈیزل کے پرمٹ سے مولانا سے پہلے اور بعد میں کس نے کتنے پیسے کمائے ہیں؟ مولانا نے متعددمرتبہ تحقیقات کی پیشکش بھی کردی اور ترقی یافتہ ممالک کی عدالتیں ہوتیں تو مولانا کو اس طعنے سے اتنی دولت مل جاتی جتنی دوستوں کی طرف سے ہدیات دینے کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ جب نوازشریف پر اسامہ بن لادن سے بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کیلئے رقم لینے کا الزام تھا تو لیبیا کے صدر قذافی نے مولانا فضل الرحمن سے کہاتھا کہ اگر اس نے تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیا تو مدرسہ جامعہ معارف الشریعہ کیلئے وہ پیسے نہیں دیںگے۔ مولانا نے پھر بھی تحریک عدم اعتماد میں حصہ لیا۔ حالانکہ مولانا کے قریبی حلقوں کا کہنا تھا کہ صدر قذافی کی پیشکش کرنا اچھا تھا۔

بینظیر بھٹونے امریکہ کے کہنے پرنصیراللہ بابر کے ذریعے طالبان کو تشکیل دیا، مولانا فضل الرحمن بیرون ملک دورے پر گئے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی نے شکایت لکھی کہ پاکستان کو مولانا فضل الرحمن کے کردار کی افغانستان میں ضرورت تھی تو مولانا رفوچکر ہوگئے۔ مولانا نے کابل فتح کرتے وقت ملاعمر سے افغان صدر نجیب اللہ کو پناہ دینے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ملاعمر نے کہا تھا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں۔جس پر مولانا نے کہا تھا کہ ”ملاعمر کی اس بات سے مارے شرم کے میرے کپڑے اتر گئے ہیں”۔

مولانا فضل الرحمن معمر قذافی، ملاعمر، بینظیر بھٹو اور نوازشریف سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہیں۔ عمران خان بیرونی اور اندرونی قوتوں کا مہرہ ہیںجو ٹکوں کے بھاؤ درجنوں اور کلوکے حساب سے ملتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جیسے فرزند مائیں روز روز نہیں جنتی ہیں۔ مولانا راشد سومرو کے باپ ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید کے مرشد جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا عبدالکریم بیرشریف نے جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دیکر لاڑکانہ آنے سے روکا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے جنرل ضیاء الحق کے جنازے میں شرکت کی تھی۔ اگر جنرل ضیاء الحق کو علماء ومفتیان کھلے عام قادیانیوں کیخلاف آرڈینینس نافذ کرنے پر مجبور کرسکتے تھے تو جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاک فوج کیخلاف بڑی شدت سے جذباتی لوگ علماء اور مذہبی عوام کو کھڑا کرسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن فرشتہ نہیں انسان ہیں لیکن یہاں کوئی دوسرابھی فرشتہ تو نہیں ہے۔

پاکستان کی ریاست سوشل میڈیا کے ان ٹٹوؤں اور الیکٹرانک میڈیا کے ان کردار کو شٹ اپ کی کال دیں جو پاک فوج زندہ باد کہہ کر اپنے دلوں کی بھڑاس نکالتے ہیں اور ملک وقوم اور ریاست وعوام میں بدظنی کی فضاء پھیلا رہے ہیں۔ یہی لوگ پاک فوج کو بدنام کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ اگر خدانخواستہ مولانا فضل الرحمن حادثاتی طور پر بھی دشمن کے تیر کا شکار ہوجاتے تو مینڈک مافیا کے اس ٹرانے سے حادثہ ایجنسیوں کے کھاتے میں جاسکتا تھا۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حریم شاہ مدرسہ میں پڑھی اور مفتی قوی نے ٹی وی پر حلالے کی پیشکش کی

تحفظِ حقوقِ نسواں موومنٹ کی خواتین مذہب پر یقین رکھنے والی عورتوں کو جانور سمجھ کر حلالہ کیلئے کیا علماء ومفتیان کے رحم وکرم پرچھوڑ رہی ہیں؟اور تبدیلی سرکارکے علماء ونگ کا مفتی عبدالقوی ملانی حریم شاہ سے عزت کمارہاہے؟

حریم شاہ نے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ، مفتی عبدالقوی نے ٹی وی پرحلالہ کی پیشکش کی، پھر تحریک انصاف علماء ونگ کا سربراہ بنااور قندیل بلوچ کے قتل نے علماء ونگ سے معزول کیا !

اُمت کا بڑا فتنہ مال ہے۔رشوت، سود، قتل، حرام کاری ، عزت فروشی، ظالموں کی وکالت، ملک وقوم کو لوٹنے ، مذہب کو بیچنے ، غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے اورہرقسم کے جرائم کراتاہے

پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں نالائقی، اندھیر نگری، تعصبات، مفادات اور ظلمات بعضھا فوق بعض (تہہ بہ تہہ اندھیرے)، ضعف الطالب والمطلوب (طالب اور مطلوب دونوں کمزور)ایک کی وکالت بھی ضلالت اور دوسرے کی وکالت بھی خجالت ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا کردار بھی قابلِ ملامت، ریاستی اداروں کا کردار بھی قابلِ لعنت، حکمران ہوں یا اپوزیشن ہرشاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا؟۔ آئی ایم ایف سے بھاری بھرکم قرضہ سودپر لیا جاتا ہے اور اتنی ہی رقم متعلقہ کمپنی کوریکوڈٹ پرجرمانہ ادا کرنے کا حکم عالمی عدالت سے ملتا ہے۔ نیب جتنی ریکوری کرتی ہے اتنی رقم براڈشیٹ کے ٹھگوں سے مل کراپنے اصحابِ حل وعقد جعلی کمپنیوں کے مالکان کو ادا کرتے ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات اسلئے نہیں کہ اچھے سے اچھے کھانوں کو بدترین کھاد میں بدل کر سرخرو ہوتا ہے یا تازہ ہواؤں سے آکسیجن کوبدبودار ہوا میں خارج کرتا پھرے، یہ اِن پُٹ اور آوٹ پُٹ انسانی ذات کی کمزوری ہے اسلئے اس کو اپنی پاکی اور تعریف کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ خالق کائنات کی تعریف، توصیف اور تسبیحات بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ہمارے پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ترجیحات وہی ہیں جن پر صبح شام لعنت و ملامت کا بازار گرم ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی وکالت میں اچھا ہے کہ پاک فوج کی پاکیزگی بھی بالکل خاکستر ہوگئی کیونکہ بھٹو اورنوازکے بعد عمران کی نالائقی کے پیچھے بھی سارا گند اسی کا ہے۔ عمران خان نے دوسری پارٹیوں کیساتھ اپنے اس کیس کی بھی کھلی سماعت کا کہہ دیا ہے جس کو وہ عرصہ سے چھپاتا پھر رہاتھا اور اس کی وجہ یہ نہیںکہ اگرپاک فوج ساتھ ہو تو پھر کوئی اور کچھ نہیں بگاڑ سکتا بلکہ یہ حریم شاہ کا مفتی عبدالقوی کو چیلنج ہے۔ پہلے تو میڈیا ٹرائل کی بات ہوتی ہے لیکن اب سبھی حضرات گٹروں میں تیراکی کرتے ہوئے اس حمام میں نہیں اس گندے نالے میں سب ننگے ہیں۔

اہم سوال ہے کہ (2016ئ) میں ن لیگ کی حکومت تھی اور اس وقت بھی براڈ شیٹ کے معاملے میں لندن کی عدالت کے اندر کسی بڑی کمزوری کا شاخسانہ لگتاہے۔ پھر(2018ئ) میں عدلیہ کے پاک جج نے نگران حکومت کی طرف سے فیصلہ لندن کی سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا تھا بلکہ رقم ادا کردی گئی۔ ان دونوں اہم موڑوں پر کمیٹی اصل محرکات کا پتہ چلاکر ن لیگ اور نگران حکومت کے کرتے دھرتوں سے ہی رقم وصول کرے۔نگران وزیراعظم ریٹائرڈ جج نے اپنے بڑے اثاثے ظاہر کئے تھے اور ن لیگ اور دوسرے نالائق طبقات آج ریاستِ پاکستان سے زیادہ امیر ہیں۔ اگر سارے کرپٹ عناصر کو خوفِ خدا یاد دلایا جائے تو یہ اپنی حرام کی کمائی کی زکوٰةسے بھی قرضے ادا کرسکتے ہیں اوراپنے محسن ملک پاکستان کا حق نمک ادا کرنے میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی۔

پہلے علماء کرام اور اولیاء عظام اپنے بڑے بڑے شہروں کو چھوڑ کر دیہاتی اور پسماندہ علاقوں میں غریبوں کے اندر مذہبی تعلیم وتربیت سے شمعیں جلایا کرتے تھے۔ چراغ سے چراغ جلتے اور لوگوںکو اخلاقیات کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم وتربیت ملتی رہتی تھی۔دنیا میں سچ،انسانیت، علم، کردار، تقویٰ، قربانیوں ، معیاری اخلاقیات کی زبردست قدر ومنزلت تھی۔ پھر آہستہ آہستہ ہم تنزلی اور گراوٹ کی منزلیں اترتے ہوئے یہاں تک پہنچے ۔ بقول اقبال

ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی

گھر پیر کا چراغوں سے ہے روشن

شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے فرمایا تھا کہ ” اب دنیا میں اتنا بگاڑ آچکا کہ کسی جماعت سے اصلاح نہیں ہوگی بلکہ معاملہ بگڑتا ہی چلاجائے گا۔ اب امام مہدی جیسی روحانی شخصیت سے ہی دنیا میں انقلاب آئے گا ”۔ آپ کے شاگرد مولانا اشرف علی تھانوی اس قول کو لیکر تصوف وسلوک کی خانقاہ میں بیٹھ گئے۔ دوسرے شاگرد مولانا الیاس نے تبلیغی کام شروع کردیا، ایک شاگرد مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہند نے فقہ وافتاء کے محاذ پر خدمات انجام دیں، مولانا انور شاہ کشمیری نے درس وتدریس سے بڑے بڑے شاگرد پیدا کئے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے جمعیت علماء ہند کے محاذ پر کام کیا اور مولانا شبیراحمد عثمانی نے جمعیت علماء اسلام کے محاذ پر تحریک پاکستان کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد شروع کی۔ مولانا خلیل احمد نے کتاب لکھ کر اپنے مسلک دیوبند کا تحفظ کیا۔ اور مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن کی بنیاد پر عوام میں اسلام کی نشاة ثانیہ کی طرف نوجوانوں میں رحجانات کو بڑھایا تھا۔

شیخ الہند کے فیض کو تبلیغی جماعت کی صورت میں دیکھو تو ایک دنیا میں اس کام کو انجام دیا جارہاہے۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے مولانا الیاس قادری اور اہل حدیث کے مولانا الیاس اثری نے بھی اسی طرز پر اپنی جماعتیں بنائی ہیں اور مدارس کی شکل میں دیکھو تو دوسرے فرقوں اور مسالک نے بھی ان کی اتباع کر رکھی ہے اور سیاست کی شکل میں دیکھو تو دوسرے بھی میدان میں اُترگئے اور خانقاہوں کی شکل میں دیکھو توپیری مریدی نے بھی جدت اختیار کی ہے۔

اپنے مرشد حاجی محمد عثمانکی شخصیت کو شیخ الہندکے استاذوں کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکیکی مسند پر بیٹھے دیکھا جہاں مفتی محمد تقی عثمانی و مفتی محمد رفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق کو خلافتِ عظیمہ کا منصب ملا تھا۔ تبلیغی جماعت کے کارکن، مدارس کے اساتذہ ، فوج اور پولیس کے افسروں سے لیکر مدینہ کے عرب تک، جماعت اسلامی واہلحدیث والے بھی حاجی محمد عثمان سے بیعت تھے۔ پھر سقوطِ بغداد کی طرح حالات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اکابر کے فتوؤں میں انتہائی درجے جہالت کا مظاہرہ بھی دیکھا ہے۔ مفادپرستی، ہٹ دھرمی اور گرتے ہوئے انسانوں کو اسفل السافلین تک پہنچتے بھی دیکھا ہے۔

جب مولانا فضل الرحمن کا کراچی کے مدارس کے علماء وطلبہ نے پہلی بار لیبیا کے دورے سے آمد کے موقع پر استقبال کیا تو اس وقت انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی درخواستی کے مدرسے سے طالب علموں کو استقبال کیلئے میں لیکر گیا ۔ جمعیت علماء اسلام کراچی کے مولانا شیر محمد نے مزدا ٹرک مجھے طلبہ کیلئے مہیا کیا تھا۔ انصار الاسلام کی خاص ڈیوٹی میرے ذمہ تھی۔جو ٹرک مولانا فضل الرحمن کیلئے ائرپورٹ پہنچایا گیا تھا تو اس میں علماء ورہنماؤں کے علاوہ کسی اور کو نہیں چڑھنے دینا تھاتو یہ ڈیوٹی میری تھی۔ کراچی کے اکابر علماء سواداعظم اہلسنت (شیعہ سنی فسادات) کے چکر میں قید تھے اور طلبہ کو اسلئے بھیجا گیا تھا کہ مارشل لاء کے دور میں مولانا فضل الرحمن اپنی دھمکیوں سے اکابر علماء کو رہا کرنے کا مطالبہ کرے۔ میں نے اپنے پیر بھائی اعجاز ملتانی کو بھی ٹرک پر چڑھادیا تھا اور جب دیکھا کہ جلوس میت گاڑی کی طرح اپنے جذبات خالی خاموشی کیساتھ جارہاہے کوئی جوش اور ولولہ نہیں ہے تو میں نے جلوس میں نعروں کی گونج کا بھی اضافہ کردیا تھا جس پر مولانا فضل الرحمن نے خوش ہوکر قہقہہ لگایا تھا۔

جب مدارس مولانا فضل الرحمن کے پروگرام میں شرکت پر طلبہ کو نکالتے تھے، تب بھی مدارس کا آخری وسیلہ مولانا فضل الرحمن تھا ۔ آج توسب معترف ہیں۔ ایم آر ڈی (MRD) میں بھی مولانا فضل الرحمن کی جماعت دوسروں سے ممتاز تھی۔ جب نشترپارک کراچی میں ایم آر ڈی (MRD)کا جلسہ ہوا تھا تو بی بی سی (BBC)نے تبصرہ کیا تھا کہ جمعیت علماء اسلام کا جلسہ لگ رہاتھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب بینظیر بھٹو پاکستان سے باہر تھیں اور مولانا فضل الرحمن پر بڑے مدارس کے علماء ومفتیان نے متفقہ کے عنوان سے گمراہی کا فتویٰ لگایا تھا۔پھر جب حاجی عثمان کے معاملے پر ہم نے علماء ومفتیان کی دھجیاں بکھیر دیں تو مولانا فضل الرحمن نے کہاتھا کہ” دنبے کو لٹایا ہے ، ذبح کردو ، ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے”۔

مولانا فضل الرحمن نے اس وقت اتنی جرأت پھر حاصل کرلی تھی کہ تقریر میں برملا کہاتھا کہ ”میں اسلامی اقتدار کی جنگ لڑرہاتھا اور قیدوبند کی صعوبت برداشت کررہاتھا اور تم مجھ پر فتوے لگارہے تھے ، تمہارے فتوؤں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں”۔ آج ریاست اور حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پی ڈی ایم (PDM)کے اصل فوج مخالف بیانیے سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔لسانی جماعتوں کی روح نے پی ڈی ایم (PDM)کے پلیٹ فارم سے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اپنے جذبات کے سمندر میں مدوجذر اُٹھاکر دل صاف کردئیے ہیں۔ چاند کے عروج میں مدوجذر رات کے گھپ اندھیرے میں چاندنی سے مدھم روشنی پیدا کرکے فطرت کے نظارے کو دوبالا کردیتا ہے۔ پاکستان کا سیاسی مدوجذر اچھا تھا ورنہ انڈوں سے نئے نکلنے والے چوزوں نے پی ٹی ایم (PTM)و دوسری لسانی تنظیموں کی شکل میں اپنے جوان جذبے سے مشکلات کا طوفان اٹھا دینا تھا۔

جب سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی اور تحریک جعفریہ میں گرم جنگ لڑی تھی تو مولانا جھنگوی جے یو آئی پنجاب کے نائب امیرتھے۔ ایرانی انقلاب کے لٹریچر اور سپاہِ صحابہ کے ردِ عمل میں مولانا فضل الرحمن نے اعتدال کا کردار ادا کیا۔ کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ مولانا حق نواز جھنگوی جمعیت کے پلیٹ فارم سے نہیں لگاتے تھے اور صحابہ کرام کے خلاف گستاخانہ مہم جوئی کے خلاف بھی مولانافضل الرحمن نے اپنا کردار ادا کیا۔ جب مدارس نے اہل تشیع پر متفقہ فتویٰ لگایا تھا تو مولانا فضل الرحمن اس کا حصہ نہیں تھے اور ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ سے قاضی حسین احمد اور مولانا سمیع الحق کو پذیرائی نہیں ملی۔ متحدہ مجلس عمل کو مولانا فضل الرحمن کی وجہ سے بھرپور پذیرائی مل گئی تھی۔

مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی نے مدارس اور کالج ویونیورسٹیوں می اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے باوجود عوامی مقبولیت کا وہ گراف کبھی نہ بنایا جو مولانا فضل الرحمن کی تقدیر کا حصہ ہے۔ حالانکہ پی ڈی ایم (PDM)کی تحریک کو چھوڑ کر میڈیا ہمیشہ آپ کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑتا ہے۔ اب تو نوازشریف کیوجہ سے کچھ صحافیوں کی مہربانیاں ہیں۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

پاکستان میں جمہوری اسلامی انقلاب کیلئے اِس قابلِ قبول منشور کی ضرورت

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

نمبر….1 ……
نظامِ عدل کی جلد از جلد فراہمی۔ دنیا میں اقتدار کا اصل تعلق نظامِ عدل سے ہے ۔انسانوں اور جانوروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جانور میں طاقتور سے حساب نہیں لیا جاتا اور انسانوں میں کمزور کو تحفظ ملتا ہے طاقتور کیخلاف
پاکستان میں یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو انصاف نہیں ملتا ہے کیونکہ انصاف کیلئے طاقتور ہونا بھی ضروری ہے اور انصاف کے حصول کیلئے اچھے خاصے پیسے بھی!!
پارلیمنٹ تک پہنچنے کیلئے طاقتور طبقے کی حمایت اورپیسوں کی ضرورت ہے اور پارلیمنٹ میں کمزور طبقے اور غریب کیلئے قانون سازی نہیں ہوتی ہے جسکے نتیجے میں حالت بھی بگڑ گئی ہے
نظامِ عدل کیلئے چند بنیادی باتوں کو سمجھنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔

(1) پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور پاکستان کا آئین جمہوری ہے۔ اگر اسلام میں جمہوریت کی گنجائش نہ ہو تو پھر پاکستان کی بنیاد غلط ہے۔ اسلام نے ہی دنیا میں جمہوریت کی روح پھونک دی ہے۔ اسلام دین ہے اور دین میں جبر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لااکراہ فی الدین( القرآن) جب مکہ میں جاہل مشرکوں نے اسلام کے خلاف دشمنی کی انتہاء کردی تو جبری نظام کے ذریعے سے جاہلوں کا قلع قمع کرکے مکہ میں انقلاب برپا کیا جاسکتا تھا۔ حضرت سیدالشہداء امیر حمزہ، حضرت علی اور حضرت عمرفاروق اعظم کی قیادت میں چھاپہ مار کاروائی کے ذریعے سے ابولہب، ابوجہل اور ابوسفیان کو قتل کردیا جاتا تو سب اہل مکہ رام ہوسکتے تھے اسلئے کہ بنوہاشم کا خانوادہ ایک طاقتور اور شریف گھرانہ تھا جو انقلاب کے ذریعے حکومت قائم کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں عدمِ تشدد کی پالیسی پر مسلمانوں کو گامزن رکھا۔ اپنے گھربار، شہروعلاقہ اور وطن کو چھوڑ کر ہجرت کا حکم دیدیا۔
ریاستِ مدینہ کی بنیاد بھی اسلام نے انقلابی نہیں جمہوریت کو بنالیا تھا۔ داخلہ پالیسی میں یہود کیساتھ میثاقِ مدینہ اور خارجہ پالیسی میں صلح حدیبیہ کی بنیاد بھی خالصتاً جمہوری بنیادوں پر تھیں۔ دنیا کو اسلام نے جمہوری بنایا ہے۔

(2) اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ان حکمت بین الناس فاحکم بالعدل ”اگر آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف کیساتھ فیصلہ کرو”۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حکمران ، جج اور قاضی کو عدل کیساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے تو دوسری طرف حکمران سے اختلاف کرنے کی گنجائش بھی رکھی ہے۔ فرمایا:” اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول (ۖ) کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہو ،اس کی اطاعت کرو اور اگر تمہارا آپس میں کسی چیز پر اختلاف ہوجائے تو اس کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوٹادو”۔ (القرآن)
حضرت عمر نے غزوہ بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے اور حدیث قرطاس میں رسول اللہۖ سے اختلاف کیا تھا۔ قرآن وسنت میں جب رسول اللہۖ اولی الامر تھے تو بعض معاملات میں صحابہ کرام نے اولی الامر کی حیثیت سے رسول اللہۖ سے اختلاف کیا ہے۔ سنی مکتبۂ فکر کا اسلام جمہوری ہے اسلئے پاکستان میں جمہوری انقلاب کی ضرورت ہے۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے بعد جن لوگوں نے اپنی تائید سے ان تین خلفاء راشدین کو منتخب کیا تھا ، انہوں نے حضرت علی کو بھی منتخب کیا تھا۔ نہج البلاغہ میں حضرت علی نے خود بھی اپنے لئے یہ حوالہ دیا ہے۔ ایران میں انقلاب کے ذریعے ہی سے بادشاہت ختم ہوگئی لیکن پھر جمہوری نظام ہی کو بعد میں اختیار کیا گیا۔

(3)خلافت راشدہ کے دور میں عوامی جمہوریت کی طاقت مضبوط تھی لیکن اس کا غلط استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے حضرت عثمان مسندِ خلافت پر شہید کئے گئے اورپھر بھی خلافتِ راشدہ کا تسلسل جاری رہا۔ پھر یزید کے دور میں آمریت نے کربلا اور دوسرے سانحات سے جمہوریت کی بنیاد ختم کردی تھی تو بنوامیہ کے بعد بنوعباس اور سلطنت عثمانیہ کا اقتدار قائم ہوامگر خلافت نہیں قائم ہوسکی۔ آج پھر جمہوریت ہی کے ذریعے بادشاہت اور امارت نہیں خلافت کے قیام کی سخت ضرورت ہے۔ جمہوری نظام مغرب میں کافی مدت بعد آیا۔ جمہورِ امت، جمہورائمہ حدیث، جمہورائمہ فقہ اور جمہور کی اصطلاح بہت پرانی ہے۔ رسول اللہۖ کے وصال کے بعد انصار ومہاجر اور قریش واہلبیت کے درمیان خلافت کا مسئلہ جمہوریت ہی کی بنیاد پر حل ہوا تھا۔ حضرت علی ، حسن و حسین نے خلافتِ راشدہ میں اولی الامر کیساتھ اپنے اختلاف کی روح زندہ رکھی لیکن جب یزید نے اختلاف رائے کا حق چھین لیا تو باقی ائمہ اہلبیت نے امام مہدی کے خروج اور قرب قیامت تک سکوت اختیار کرلیا ۔ امام خمینی نے انقلاب برپا کرکے اہل تشیع کو ایک نئی جہت سے بھی آگاہ کردیا ہے۔
رحمن ملک نے چھ ہزارافراد کا داعش میں جنوبی پنجاب سے بھرتی ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ اس سے پہلے بلیک واٹر نے کیا کیا؟،وہ بھی قابل غور ہے۔

(4) پاکستان میں جمہوریت، مارشل لاء اور اس سے پہلے سول ایڈمنسٹریشن کا حال سب نے دیکھ لیا ہے۔ غریب عوام مایوس ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے تاریک ماضی کی بدولت صرف پیسوں کی بنیاد پر انقلاب نہیں لاسکتی ہیں اسلئے پہلے قومی اتحاد کے نو(9)ستاروں نے مفتی محمود کی قیادت میں تحریک کو نظام مصطفی کا نام دیا اور پھر مارشل لاء لگ گیا۔ اب نو (9)اوردو(2)گیارہ جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میںپی ڈی ایم (PDM)تشکیل دیا ہے۔ جمہوریت کیساتھ مذہبی رنگ نہ ہو تو عوام قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ پہلے پاک فوج پر تو عوام کو اعتماد تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اسلام کی بنیاد پر تحریک کامیاب ہوئی اور اس کا فائدہ جنرل ضیاء الحق نے اٹھایا۔ اب پاک فوج پر خلائی مخلوق، محکمہ زراعت کے بعد پاپا جونز کے پیزا نے عوام کا اعتماد ختم کردیا ہے۔ پاک فوج جبر سے کام نہ لے تو ہلڑبازی پر تحریک انصاف قابو نہیں پاسکتی ہے اور اگر جبر سے کام لیا گیا توملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ریاست کیلئے انواع واقسام کی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ عوام کو اقتدار نہیں انصاف اور دو وقت کی روٹی چاہیے ۔ حکومت نے گردشی سودی قرضے لیکر ریاست کو بھی اس قابل نہیں چھوڑا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر چل سکے۔ اغیار کی بیساکھیوں پر چلنے سے حکمرانوں نے امیر کوامیرتر اور غریب کو غریب تر بنادیا ہے اور بس!۔

نمبر….2 ……
غیر اسلامی نظام اور اسلامی نظام میں معیشت کا بہت ہی بڑا فرق ہے۔ سودی نظام کو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولۖ کیساتھ اعلان جنگ قرار دیا جبکہ اسلام زکوٰة سے سود کے برعکس بھتہ خورکے مقابلہ میں حاجت مند کی مدد کرتاہے
قدیم دور میں جاگیردارانہ نظام ہی سودی نظام اور انسانی غلامی کی سب سے بڑی بنیاد تھا۔ اسلام نے سودی نظام کیساتھ ساتھ جاگیردارانہ سودی نظام کا بھی مکمل خاتمہ کرکے رکھ دیاتھا
جب سود کی حرمت کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے زمین کو مزارعت پر دینے کو بھی سود قرار دیدیا۔ فقہ کے ائمہ امام ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی نے مزارعت کوسود قرار دیا تھا۔

(1)آج اگر پاکستان پر سودی قرضے نہ ہوتے توہمارے حکمران کسی کے بھی غلام نہ ہوتے۔ حکمرانوں کے دل چھلنی ہوجاتے ہیں جب وہ پٹرول اور اشیاء خورد کی قیمتوں پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف(IMF) سے قرضہ اسی شرط پر ملتا ہے جب بجلی،گیس اور دیگر اشیاء مہنگی کردی جائیں۔
مہنگائی کے دور میں اچھے بھلے لوگوں کا بھی جینا دوبھر ہوجاتا ہے ۔ غریب لوگوں کا تصور کرنا بھی دل ودماغ پر بوجھ بنتا ہے کہ وہ کس طرح سے گزارے کی زندگی بسر کررہے ہوںگے؟۔ کسانوں کے نام پر جو اربوں کی سبسڈیاں حکومت کی طرف سے ملتی ہیں وہ بھی آٹے ، چینی مافیاز کی نذر ہوجاتی ہیں۔
پاکستان میں بڑی نعمت پانی کا بہاؤ ہے۔ جس سے زراعت اور سستی بجلی کی پیداوارمیں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر عوام کو مفت کی زمین مہیا کرکے کاشت کیلئے دی جائے تو لاکھوں خاندانوں کو فوری طور پرروز گار ملے گا۔ جاگیردارانہ نظام میں مزارعین کی حیثیت غلاموں اور لونڈیوں کی تھی اور اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ جاگیردارانہ نظام کو ختم کرکے انسان کو انسان کی غلامی سے نکالنے کا سامان فراہم کردیا۔ مدینہ کے مالکی فقہا ء کرام نے شروع میں ان حنفی فقہاء حضرات کی سخت مخالفت کی جنہوں نے حیلے سے مزارعت کے نظام کو امام ابوحنیفہ کے مسلک سے بغاوت اختیار کرکے جائز قرار دیا تھا۔ شافعی مسلک کے فقہاء کرام نے بھی بھرپور مزاحمت کی تھی لیکن رفتہ رفتہ اہل اقتدار اور شیخ الاسلاموں کی ملی بھگت سے جاگیردارانہ نظام جائز قرار پایا۔ مزارعین اپنی روٹی، اپنے جسم اور اپنے مفادات کے مالک بھی نہیں ہوتے تھے۔جاگیردارانہ نظام کی زکوٰة و خیرات پر پلتے تھے۔ علماء وفقہاء بھی اسی جاگیردارانہ نظام کی اسی زکوٰة پر پلتے تھے جو درحقیقت سود ہوتا تھا۔
جس طرح بینکوں کے سود سے زکوٰة کٹتی تھی جس کو مفتی محمود نے سود قرار دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن اس کوشراب کی بوتل پر آبِ زم زم کا لیبل قرار دیتے تھے مگر پھر بینظیربھٹو کے دور میں شریکِ اقتدار ہوگئے تو جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں کو زکوٰة چیئرمین کے عہدوں پر فائز کردیا۔ اب تو علماء ومفتیان کا وہی طبقہ مسلط ہے اور وہی معتبر کہلاتا ہے جنہوں نے اپنے اسلاف وجمہور سے اختلاف بلکہ ہٹ دھرمی اختیار کرتے ہوئے بینکنگ کے سودی نظام کو جواز بخشا ہے۔ علماء حق پہلے کی طرح موجودہ دور میں دب کر رہ گئے ہیں۔

(2) علامہ اقبال نے ”فرشتوں کا گیت” کے عنوان سے لکھ دیا تھا کہ
اُٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے دَر و دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
تحریک خلافت کے معمار مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی صحافت کامریڈ کے نام سے کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے بھی مندرجہ بالا گیت روس کے نظام سے متأثر ہوکر لکھی تھی۔ اگر قرآن وحدیث اور جمہور فقہاء کیخلاف جاگیردارانہ نظام کو جواز نہ بخشا جاتا تو کارل مارکس اور لنین کے کمیونزم نظام کی دنیا کو ضرورت بھی پیش نہ آتی۔ جمعیت علماء ہند اور مجلس احرار الاسلام بھی امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں روسی نظام کو اسلام کے قریب سمجھتے تھے۔پاکستان میں جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء اسلام کے رہنماؤں نے اتحاد کرلیا تو جمعیت علماء ہند کی فکر رکھنے والوں پر دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ لگایا گیا۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان، مولانا رسول خان ہزاروی،مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ کے فتوؤں کی زد میں مفتی محمودوغیرہ آگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھا لیکن علماء ومفتیان نے ان کی درست رہنمائی نہیں کی تھی۔ اگر اسلام کے مطابق مزارعت کے حوالے سے درست فیصلہ کیا جاتا تو خلقِ خدا مشکلات سے نکل سکتی تھی۔
جب بھٹو نے نعرہ لگایا کہ مزدور کسان ملوں اور کھیتوں پر قابض ہوجائیں تو پختونخواہ کے ترقی یافتہ علاقے سوات، دیر،مالاکنڈ میںایک طرف علاقائی نظامِ عدل کا خاتمہ کردیا گیا تودوسری طرف کسانوں نے زمینوں پر قبضہ کیا۔ جس کے نتیجے میں بڑے لوگ قتل ہوگئے اور وہ رپورٹ بھی نہیں ہوتے تھے۔ والئی سوات کے دور میں سوات اور بونیر میں مثالی امن ہوتا تھا دشمنیوں کا کوئی تصور تک نہیں ہوتاتھا۔ جب کوئی کسی کو قتل کردیتا تھا تو اس کے گاؤں میں ہی والئی سوات کی فورس پہنچ جاتی۔ قاتل خاندان کے ذمے فورس کو کھانا فراہم کرنا ہوتا تھا۔ دو چار دنوں میں قاتل کا بھائی اپنے قاتل بھائی کو خود ہی حاضر کردیتا تھا۔ مقتول کے وارثوں سے پوچھا جاتا تھا کہ معاف کرنا ہے، بدلہ لینا ہے یا دیت لینی ہے؟۔ وارث جو فیصلہ کرتا تھا اس پر فوری طور پر عمل ہوتا تھا۔

(3) اگر پورے پاکستان میں مزارعین کو مفت زمینیں فراہم کی جائیںتو یہ اسلامی انقلاب کی ابتداء ہوگی۔ مالاکنڈمیں مزارع زمینوں پر قابض ہوگئے۔ مالکوں نے ایک چوتھائی زمینیں دینے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے لیکن پاکستان کے عدالتی نظام نے مالکوں کو انصاف دینے میں بڑے عرصہ سے تاخیر کر رکھی ہے اور کافی عرصہ سے ان کو اپنی جان کے بھی لالے پڑے ہیں۔ سوات میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت اور تحریک طالبان کے پیچھے اسلامی نظام کے امنگوں کا بڑا عمل دخل تھا جس کو اے این پی کی حکومت نے بھی مان لیا تھا۔
اگر پورے پاکستان میں غریب مزارعین کو مفت زمینیں نہیں دی گئیں تو پھر داعش میں بھرتی ہونے کی خبروں میں صداقت ہو یا نہ ہو لیکن ایک دن وہ افراتفری پھیل جائے گی کہ جسکے بعد انقلابِ فرانس کو بھی لوگ بھول جائیں گے۔ بڑے پیمانے پر حرام کمانے والے سیاستدانوں، ججوں ، جرنیلوں ،سول بیوروکریٹوں اور مختلف طبقات نے اپنے باہر ٹھکانے بنارکھے ہیں لیکن جب طوفان اُٹھے گا تو حضرت نوح علیہ السلام کے اس بیٹے کی طرح جس کوقرآن نے ”عمل غیر صالح ” قرار دیکر فرمایا کہ ”وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے”۔ کوئی بھی شاید نکل کر بھاگنے میں پھر کامیاب نہ ہو۔ وہ کہتا تھا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا لیکن موجوں نے اس کو غرقاب کردیا تھا۔
پاکستان کے مسائل تو کسی نے حل نہ کئے لیکن مسائل پیدا کرنے والے وسائل پر لڑ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مالاکنڈ کے لوگوں کو اپنی زمینوں سے ہی محروم کردیا اور خود سندھ کی سرکاری زمینوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ یہی صورتحال نہ صرف مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام کی ہے بلکہ ریاستی اداروں میں بڑے اثرو رسوخ کے مالک بھی یہی کام کررہے ہیں۔ ہوس ختم ہونے کا نام نہ ہو تو اس کا انجام کیا ہوگا؟۔ لوگوں کو انکے آپس میں لڑنے مرنے سے کوئی سروکار نہیں ۔ منتظرہیں کہ ایکدوسرے سے ٹکراکرعوام کی جان کب چھوڑیں گے؟۔
جب عوام کی جان،مال اور عزتیں محفوظ ہوں گی تو سیاستدانوں اور اپنے حکمرانوں سے ان کو محبت اور ہمدردیاں بھی ہوں گی۔ حکومت وریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ عوام کی جان وعزت کو تحفظ دے سکیں بلکہ ان کو اپنے تحفظ پر ہی سارے وسائل خرچ کرکے بھی تسلی نہیں ہوتی ہے کہ ہوسکتا ہے کسی وقت بھی ان کو نقصان پہنچانے والے اپنے مقاصد پورے کرلیں۔

(4) عزیز ہم وطنو !کا نعرہ ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر لگتا رہاہے۔ایک مرتبہ پارلیمنٹ سے یہ آواز بلند کی جائے کہ مدینہ کی ریاست کا نظام لانے کی ابتداء ہوگئی ہے۔ زمین پر قبضہ مافیا فوری طور پر ناجائز قبضے کو چھوڑ دے۔ جس نے ناجائز قبضہ یا دعویٰ کیا ہو تو اس کو سخت سے سخت سزادی جائے گی۔ جج غلط فیصلہ اور وکیل غلط وکالت کریں تو ان کو بھی الٹا لٹکایا جائے گا۔
جاگیردار جتنی زمین کاشت کرسکتے ہوں اتنی خود کاشت کریں اور اسکے علاوہ جس کو مرضی دیں مگر مفت دیں تو غربت کی لکیر سے عوام کو اوپر لانے میں زیادہ دیرنہیں لگے گی۔دریاؤں اور نہروں پر پن بجلی کے ذریعے چھوٹے بڑے یونٹ کی بجلی پیدا کرکے عوام کو رینٹل پاور سے مہنگی بجلی اور حکومت کو سبسڈی دینے کی مشکل سے آزاد کیا جائے۔ سستی بجلی کے ذریعے سے غریب اور فیکٹری ومل مالکان کو نہ صرف بجلی چوری سے روکا جاسکتا ہے بلکہ بڑے پیمانے پر بجلی کے استعمال سے ریاست کو ٹیکس کی مد میں بہت کچھ مل سکتا ہے۔ محنت کش عوام ، تاجر اور اشیائِ ضرورت کے خریدار عوام کے درمیان سے دلّالوں کا کردار ختم کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے مگر ہمارے اہل اقتدار خود مافیا ہوتے ہیں۔ عمران خان کو اقتدار کی دہلیزتک لانے اور پہنچانے والے بھی یہی تھے۔
خیبر پختونخواہ کے لوگوں میں بڑی طاقت ہے۔ مزدور کسانوں نے قبضہ مافیا کا کردارمالاکنڈمیں اس وقت ادا کیا جب ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو شئے دی۔ طالبان کو بینظیر بھٹو نے امریکہ کے حکم پر تشکیل دیا تو وزیرستان کے لوگوں نے امریکہ کی طرف مشکلات کھڑی کرنے پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ جب پچھلے الیکشن عدلیہ نے کروائے تو آصف علی زرداری نے آراوز کا الزام لگایا کہ سلیکشن ہوئی ہے۔ پھر فوج نے الیکشن کروائے تو فوج پر دھاندلی کے الزام لگ گئے۔ الیکشن میں مقررہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے اور بدمعاش طبقہ الیکشن میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
جب ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کے سامنے قبضہ کیا ، عدالت کو دھوبی گھاٹ بنایا، پولیس کی دھلائی کردی، پی ٹی وی(PTV) پرقبضہ کیا تو پولیس کے اندر سیاسی کارکنوں کو قابو کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ فیض آباد دھرنے کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی فوج پر اعتماد کیا گیا۔ ملک میں اگر انارکی پھیل جائے تو فوج کے بغیر چارہ نہیں ہوتا لیکن معاملہ بگڑ رہاہے۔

نمبر….3 ……
صحافت کی آزادی سے سچ و جھوٹ کے درمیان تفریق واضح ہوجائے گی۔ جب حق آتا ہے تو باطل مٹ جاتاہے اور زنا کی سزا قرآن میںسو(100)کوڑے ہیں جبکہ بہتان کی سزا اسی (80)کوڑے ہیں،جھوٹ پر گرفت ضروری ہے۔
الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خواہشات اور پیسوں کی بنیاد پروکالت اورجھوٹ کی فیکٹریوں کا خاتمہ کرنا ضروری ہے جس نے قوم کو بالکل گمراہ کرکے رکھ دیا۔سچ کو قومی شعار بنانا ہوگا۔
ہٹ دھرمی اور فضول کی بکواس نے قومی مرض کی شکل اختیار کرلی ہے، حدیث خیرالکلام ماقل ودل ”بہترین کلام وہ ہے جو مختصر ہو اور نشاندہی کرے” پر صحافیوں کو عمل کرنا پڑے گا

(1)الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو جھوٹ کے بازار کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

تخریب کاری اور صحافت میں بڑافرق ہے۔ تخریب کاری یہ ہے کہ ایک فریق کی وکالت کرکے دوسرے سے صحافت کے نام پر دشمنی کی جائے اور یہ سب سے بڑی خطرناک تخریب کاری ہے۔ الیکٹرانک، پرنٹ ، سوشل میڈیا کے صحافیوں میں اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں ، چمن کی زینت انہی کی مرہونِ منت ہے۔اللہ زندہ وتابندہ اور ہمیشہ جیتا اور ہنستا بستا رکھے ۔ قوم کو شعورسے مالامال کرنے والی صحافت ہماری دنیا اور عاقبت کابہت بڑا سرمایہ ہے ۔لیکن صحافت اور وکالت میں بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ وکیل کو قانون نے اجازت دی ہے کہ وہ مجرم کو بھی بے گناہ ثابت کرے لیکن صحافی کیلئے کسی کی بھی وکالت کرنا ایک بہت بڑا مجرمانہ فعل ہے۔ قانون میں کسی سیاسی پارٹی کو اپنا چینل، اخبار اور سوشل میڈیا نیٹ ورک کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ہم سے اخبار کی رجسٹریشن میں سیاسی وابستگی نہ ہونے کی صفائی بھی مانگی گئی۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا کہ میتوں سے بلیک میل نہیں ہوںگے ۔ ہزارہ اور شیعہ پاکستان میں اقلیت شمار ہوتے ہیں لیکن بریلوی مکتبۂ فکر کی بہت بڑی اکثریت ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے دھرنا دیا تو تحریک لبیک کیساتھ وعدہ کیا گیا کہ ”فرانس کے سفیر کو ملک بدر کردیںگے”۔ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت بلیک میل ہوگئی تھی یا دل کی گہرائیوں سے سچا وعدہ دیا تھا؟۔ صحافت کو فریق کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ جب فرانس کے خلاف اشتعال تھا تو تحریک لبیک نے اپنا مؤقف وقتی طور پر ٹال دیا تھا لیکن جب عوام کا اشتعال نہیں رہا تو لوگوں سے اپیل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے ہیں۔
حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن کے درمیان معاہدہ تھا کہ امیرمعاویہ کی وفات کے بعد اقتدار یزید کو نہیں حضرت حسن کو منتقل کیا جائیگا۔ جب حضرت حسن کا انتقال پہلے ہوگیا توحضرت معاویہ نے یزید کو نامزد کردیا تھا۔

(2)اُمت مسلمہ کو اعتدال کے راستے پر لانے کی سخت ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر شیعہ اور سنی علماء کے درمیان ایکدوسرے کے خلاف جس انداز سے گفتگو ہورہی ہے یہ شیعہ سنی فسادات کا بڑا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے اور یہ بڑی عاقبت نااندیشی ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں یہ آگ جلانے والے پاکستان کو اپنا میدانِ جنگ بنارہے ہیں۔پاکستان کی ریاست شیعہ سنی فسادات کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ شیعہ سنی کے علاوہ دیوبندی بریلوی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ فرقہ واریت کے پیچھے جہاں مذہبی جذبہ ہے وہاں سب کا اپنا اپنا مفاد بھی ہے۔ باہرسے پیسوں کا کھیل ختم ہوجائے تو بھی اچھا ہوگالیکن جب ماچس اور تیل کا ایندھن موجود ہو تو فرقہ واریت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
جب حضرت عثمان نے بھرے شہر میں شہادت پائی تو حضرت عائشہ نے گھر سے نکل کر شامی لشکر کی قیادت فرمائی۔ جب حضرت حسین نے کربلامیں شہادت پائی تو تحریک کا پرچم بی بی زینب علیہاالسلام نے اٹھالیا۔ اُم المؤمنین کے کردار سے سیاسی اختلاف اپنے وقت کے مسلمانوں نے بھی کیا اور آج تو اس اختلاف پر شیعہ فرقہ وجود میں آیا ہے لیکن ”گھر میں بند رہنے کے حکم” کو بیان کرنا درست نہیں ہے۔ جب صلح حدیبیہ میں حضرت عثمان کی شہادت پر بیعت لی گئی تو رضوان کی سند مل گئی، جب خبر جھوٹی نکلی اور صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے پر نبیۖ نے صحابہ کے رویے پر مایوسی کا اظہار فرمایاتواُم المؤمنین نے مشورہ دیا کہ بال مومڈلیں ،جسکے بعد صحابہنے فوراً بال مونڈدیئے تھے۔
صحابہ کرام نے جس مشکل صورتحال میں آپس کی جنگیں کرکے ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتاردئیے تھے،اب اگر مشکل حالات پیدا کئے گئے پھر لاکھوں اور کروڑوں تک بات پہنچنے سے بھی نہیں رُکے گی۔ اہل تشیع کو اپنے عقائد کا پورا پورا حق ہے لیکن جس طرح وہ اپنے ائمہ کرام کیلئے احترام چاہتے ہیں اور گستاخی برداشت نہیں کرسکتے ہیں اسی طرح اہلسنت کے جذبات بھی مجروح ہوتے ہیں،دلائل کا سب کو حق ہے لیکن گستاخی سے معاملہ بگڑے گا۔

(3) صحافت سے خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کرلیا کہ اقتدار سے پہلے حقائق معلوم نہیں تھے۔ جب دہشتگردی کی فضاء میں آصف زرداری ہزارہ برادری کے دکھ درد میں اسلئے شریک نہیں ہوسکتے تھے کہ صدر مملکت کا اپنا پروٹوکول ہے اور اپوزیشن کے رہنما عمران خان اس سے واقف نہیں تھے تو یہ ناواقفیت تھی لیکن جب خود وزیراعظم بن گئے تو حالات کا پتہ چل گیا۔ ہزارہ برادری والوں نے عمران خان کی اپوزیشن کا کردار دیکھا تھا جب وہ اہل اقتدار کو آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے اور انکے کردار کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بات کررہے تھے۔ شہبازشریف نے ملک اسحاق اور اسکے بیٹے کو ساتھیوں سمیت پولیس مقابلہ میں مروابھی دیا۔ جب عمران خان نے کہاتھا کہ سپاہ صحابہ والوں نے مجھ سے کہا کہ شیعہ سے صلح کرادو، آئی ایس آئی (ISI)جب چاہتی ہے ہمیں لڑا دیتی ہے، جب عمران خان کہتا تھا کہ میں نوے (90) دن میں دہشتگردی ختم کردوں گا اور یہ الزام نہیں لگاؤں گا کہ بھارت سے دہشتگردی ہورہی ہے بلکہ اندر سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کروں گا۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا غلط تھا کہ میں نے سب مطالبات مان لئے ہیں جبکہ ہزارہ برادری کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ میت دفن ہونے سے پہلے عمران خان کو آنا ہوگا۔ عمران خان نے انکے سارے مطالبات مان کر بلیک میلنگ قبول کرلی لیکن غلط بیانی سے کام لیا۔ ہزارہ کی آڑ میں سب شیعہ دہشتگردوں کو چھوڑنا کونسا جائز مطالبہ تھا؟۔وزیراعظم کو شاید پہلے یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ دھرنے کے علاوہ کسی خاص جگہ پر بھی میت کے لواحقین سے مل سکتے ہیں لیکن جب یہ پتہ چل گیا تو اسامہ ستی کے والد کو بھی وہاں بلالیا جہاں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی (ISI)سے ایک دن پہلے ملاقات کی تھی۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے مچھ میں غفلت کے مرتکب افسران کو برطرف کردیا ہے۔ مچھ دور دراز کا وہ علاقہ ہے جہاں مزدوروں کے قتل کا شاید کسی کو اندیشہ نہ تھا۔

(4) اعتمادکی فضاء پیدا کرنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔

جب اہل مدارس کو اپنے علم پر بھی اعتماد نہ ہو اور علم کی روشنی پھیلانے کو ہی اپنی موت سمجھتے ہوں تو پھر جہالتوں سے خیر کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟۔ ریاست جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا، سیاست جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا، مدارس جیسے تیسے بھی ہیں ان پر اعتماد کرنا ہوگا، صحافت جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا، عدالت جیسی تیسی بھی ہے اس پر اعتماد کرنا ہوگا۔
رسول اللہۖ کی شخصیت پر اعتماد کیا گیا تو عرب کی جاہلیت روشنی میں بدل گئی۔ پہلے دو خلفاء راشدین پر اعتماد کیا گیا تو اسلامی سلطنت نے استحکام پکڑ لیا اور جب حضرت عثمان اور حضرت علی سے قوم بدظن ہوگئی تو صحابہ نے فتنوں اور فسادات میں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ اعتماد کی بنیاد پر قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ میڈیا نے جہاں قوم کے اعتماد کو بہت ٹھیس پہنچانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے وہاں قوم کے اعتماد کو بحال کرنے میں اس سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ میڈیا کو بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنا ہوگا۔ یہ زیادہ اہمیت کی بات نہیں تھی کہ ہزارہ شہداء کی میتیں دس (10)ہیں یا گیارہ(11)ہیں لیکن یہ تو نہیں تھا کہ غلطی سے ایک فِگر جاری ہوگیا تو اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی تھی۔ مجال ہے کہ ایک دفعہ کسی ہٹ دھرم چینل کے سکرین پر فِگر آجائے کہ پھر اپنی غلطی کی اصلاح کرلیں۔ یہ رویہ بہت غلط اور قابلِ مذمت ہے ۔
صحافت کو مٹھاس، اعتماد اور خوشگوار فضاء بنانے کیلئے استعمال کیا جائے تو پاکستان کے پاس غم کھانے کیلئے بیدردی سے شرمناک حرکت کرتے ہوئے بچیوں ، بچوں، خواتین اور خواجہ سراؤں کو قتل کرنے کا غم کھانے اور اس کے تدارک کرنے کیلئے کوئی موقع ملے گا۔ وسائل پر لڑنے والے عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ میڈیا اپنا سارا وقت اور لوگوں کا وقت ایک ایک بات کو چباچبا کر اور مرچ مصالحے لگالگاکر پیش کرتی ہے تو لوگ اسی کو مسئلہ سمجھنے لگتے ہیں۔ صحافت کو اپنا سنجیدہ کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے۔
نمبر….4 ……
ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ہاتھوں قتل کئے جانے والے افراد مسلم لیگ ن کے کردار پر دھبہ ہے یا عمران خان کی بے بسی کا شاخسانہ ہے؟۔ یہ پولیس گردی ہے، سیاست گردی ہے ، عدالت گردی ہے؟قوم کو کچھ تو پتہ چلے گا؟۔
معاشرے میں یہ نعرہ بڑامشہور اور مقبول ہوا کہ ”یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہے” لیکن ماڈل ٹاؤن کے واقعہ کا سراغ ابھی تک نہ مل سکا کہ نامعلوم کیا اور معلوم کیا ہے؟۔
اگر ہماری حکومت اور ہماری ریاست میں سزاؤں کا تصور واضح ہوتا تو غلط نعرے نہ لگتے اور معاشرے میں مجرم چھپائے نہ جاتے تو بڑے پیمانے پرمسنگ پرسن کا کوئی معاملہ نہ ہوتا۔
(1) جب مرکز میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں شہبازشریف کی حکومت تھی توڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا سے آکر انقلاب برپا کرنا چاہا۔ کراچی میں ایم کیوایم کے الطاف حسین نے بھی اس کیلئے ایک جلسے کا اہتمام کیاتھا۔ لیکن آصف زرداری نے اپنی حکمت عملی سے ناکام بنایا تھا۔لاہور سے انقلاب کا سفر شروع ہوا ، اسلام آبادمیں خواتین اور بچوں سمیت ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہلّہ بول دینا تھا مگر پھر قمر زمان کائرہ نے اس کی نقل اُتارنے کے بعد نہ صرف اسکے غبارے سے ہوا نکال دی بلکہ مذاکرات کرکے آرام سے بھیج بھی دیا ۔
پھر جب پنجاب اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت تھی تو ڈاکٹر طاہرالقادری نے پھرسے آنے کی تیاری شروع کردی۔ تیاری سے پہلے ن لیگ نے لاہور ماڈل ٹاؤن میں اسکے لشکر کو نشانہ بنایا اورچودہ(14)افراد شہید کردئیے۔ حکومت نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے جہاز کو اسلام آباد کے بجائے لاہور میں اتار دیا تو اس نے جہاز سے اترنے سے انکار کردیا کہ فوج مجھے لینے آجائے ، حکومت مجھے مار سکتی ہے۔ پھر اس وقت موجودہ پنجاب کے گورنر پر اعتماد کیا گیا ۔پھر عمران خان کیساتھ مل کر اسلام آباد کا دھرنا دیا۔ جس میں آخر کار طاہر القادری نے دھرنے سے چھٹی کرلی اور عمران خان نے کہہ دیا کہ میں نے رشتہ تو نہیں مانگا تھا؟۔ آج ڈاکٹر طاہرالقادری انصاف لینے بھی نہیں آرہے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب شروع کررکھا تھا۔ میرانشاہ میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی مخالفت میں ن لیگی حکومت، صحافی طبقے کی اکثریت ، جماعت اسلامی اور عمران خان وغیرہ وغیرہ پیش پیش تھے لیکن جب آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ ہوا تو عمران خان نے دھرنے کی چھٹی کی اور قومی ایکشن پلان پر پاک فوج اور سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوا تھا۔ ردِ عمل میں کراچی ائرپورٹ، سہون شریف اور شاہ نورانی کے دربار پر بھی حملے ہوگئے۔ نوازشریف اور اسکے بچے پانامہ لیکس، پارلیمنٹ کی تحریری تقریر اور میڈیا کے بیانات میں پھنس گئے۔ الزام فوج پر ڈال دیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ردالفساد کے نام سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ انڈیا کی سرحد پر بڑا پاکستانی جھنڈا لہرانے کا پروگرام کیا اور افغانستان میں گھس کر بھی دہشت گردوں سے بدلہ لے لیا۔ جب سب نے مل کر اس کیلئے آئین میں ترمیم کر ڈالی اور ن لیگ کو عدالت میں سپورٹ نہیں دی تو ن لیگ نے مولانا فضل الرحمن کیساتھ مل کر توپوں کا رُخ اِدھر کردیا۔

(2) محسود قوم کیساتھ بہت بڑی زیادتی اور کچھ اس کی اپنی غلطیاں تھیں

جنوبی وزیرستان میں محسود قوم کے ایک طرف شمالی وزیرستان کے وزیر اور داوڑ ہیں تو دوسری طرف جنوبی وزیرستان میں وزیر اورسلیمان خیل ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہوشیار پرندہ پھنستا نہیں لیکن جب پھنس جاتا ہے تو شکنجے میں اسکے دونوں پاؤں پھنس جاتے ہیں۔وانا جنوبی وزیرستان میں وزیر قوم نے شروع میں طالبان کو خوب سپورٹ کیااور شمالی وزیرستان میں بھی وزیر قوم نے ان کو خوب سپورٹ کیا۔ طالبان کے ذریعے بدمعاشوں اور اثرو رسوخ رکھنے والی قیادت کو نیست ونابود کردیا۔ عوام بڑے خوش تھے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے اس دہشت گردی کی بلا کے بعد۔ جنوبی وزیرستان میں بھی وزیر قوم نے ازبک مہمانوں کیساتھ حسن سلوک کیا ، رشتے ناتے بھی کئے لیکن پھر جب ازبکوں کی بدمعاشی حد سے بڑھ گئی تو وزیر قوم نے اپنے مجاہدین اور پاک فوج کی امداد سے ان کو شکست دیدی اور اپنے علاقہ سے مار بھگایا۔ پہلے وزیر کہتے تھے کہ اس دور میں ازبک صحابہ کرام کی طرح نیک اور مجاہد ہیں لیکن مخالف ہوگئے تو کہتے تھے کہ ”ہم نے ایک ازبک کو بیٹی دی ہوتی تھی اور یہ چھ چھ اور آٹھ آٹھ اس بیچاری کو استعمال کرتے تھے”۔ سچ اور جھوٹ بر گردن راوی۔
ہمارا بیانیہ تھا کہ پہلے بھی وزیر جھوٹ کہتے تھے کہ صحابہ کی مانند ہیں اور پھر اب بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ جانوروں جیسا سلوک عورتوں سے روا رکھتے تھے لیکن ہمارا مقصد عوام کو اعتدال پر لانا تھا۔ قاری محمد حسن شکوی شہید نے خود مجھے کہا تھا کہ ”القاعدہ کے لوگ بہت نیک ہیں۔ عبادات میں مشغول اور شکل سے بہت معصوم لگتے ہیں” ۔انہوں نے اپنے مدرسہ میں ان کو جگہ دیدی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ان بیچاروں کو شاید معلوم بھی نہ ہو لیکن امریکہ کی سازش اور خواہش پر اس علاقہ کو تباہ کر نے کیلئے ان کو یہاں لایا گیا ہے۔ پھر قاری صاحب نے میری بات کا یقین کرلیا اور ان کو شہید بھی کیا گیاتھا۔
جب ازبکوں کو وزیر قوم نے اپنے ہاں سے بھگایا تو محسود قوم میں جگہ دی گئی ۔ امریکہ سیٹلائٹ سے اسامہ بن لادن کا پیچھا کرسکتا ہے تو دہشتگردوں کو بھی نیست ونابود کرسکتا تھا لیکن اتنی انسانی جانوں کو قتل کرنا بھی بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ازبکوں کو محسود قوم نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بسایا تھا اور ازبک کے پاس بے پناہ دولت بھی تھی۔ غریب طبقہ نے طالبان بن کر نہ صرف مال کمایا بلکہ پورے پاکستان کو بھی سرپر اٹھالیا تھا۔

(3) محسود تحفظ موومنٹ سے لیکر پشتون تحفظ موومنٹ تک

کوئٹہ سے سوات تک طالبان پورے پشتون خطے میں موجود تھے اور انکو سب کی ہمدردی بھی حاصل تھی۔ بہت ساری زیادتیوں کے باوجود بھی سب نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔بیت اللہ محسود،قاری حسین اور حکیم اللہ محسود پاکستان میں دہشت کی علامت بن چکے تھے۔ عبداللہ محسود نے بھی لنگڑے پیر سے سب کو پریشان کررکھا تھا۔ پاک فوج جب محسود علاقہ میں آپریشن کرنا شروع کرتی تو طالبان آس پاس کے وزیر علاقہ میں منتقل ہوجاتے۔ آپریشن ختم ہونے کے بعد دوبارہ جب لوگ آتے تو وہ بھی آجاتے۔ اس سے پہلے گورنر پختونخواہ جنرل جان محمداورکزئی کے دور میں ایسا بھی ہوا تھا کہ علاقائی طالبان کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا اور قریب میں ازبک کے کیمپ کو ویڈیو بنانے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ جب گورنر نے قبائلی عمائدین کو بلایا اور شکایت کی کہ آپ لوگوں نے ازبکوں کو ٹھکانے دئیے ہیں تو مولانا عصام الدین محسود نے گورنر سے عرض کیا کہ” صاحب ! جان کی امان چاہتاہوں ،جو معلومات ازبک سے متعلق آپ نے دی ہیں یہ تو ہمارے پاس بھی نہیں لیکن پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جب آپ ازبک کے پیچھے آئے تھے تو مقامی طالبان کے کیمپ کو کیوں کر نشانہ بنایا گیا؟۔پھر تو ازبک کو نشانہ بنانا چاہیے تھا”۔ گورنر اورکزئی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا بس یہ کہہ دیا کہ ” اگر ہم نا مارتے تو امریکہ تمہیں مارتا”۔ اس کے بعدیا اس سے پہلے طالبان کے پاس قبائلی نمائندے بھیجے گئے تھے اور پیچھے سے گولہ باری کرکے ان کو شہید کیا گیا تھا۔ ہم نے لکھ دیا تھا کہ محسود قوم کو چاہیے کہ حکومت سے اس کا معاوضہ لینے سے انکار کردے لیکن انہوں نے معاوضہ لے لیا۔ لالچ بری بلا ہے اور اس سے قوم تباہ ہوتی ہے۔
جب بار بار محسود قوم کے علاقہ میں آپریشن کیا گیا اور طالبان آس پاس کے علاقہ میں نکل جاتے تھے اور پھر قوم آجاتی تو طالبان بھی آجاتے تھے توہوا یہ کہ جب راحیل شریف نے آپریشن شروع کردیا تو پھر بھی کافی لوگوں نے اس کو گپ شپ سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ جب رات کو وہ آگ یا دئیے جلاتے تو پاک فوج دہشت گرد سمجھ کر ان پر بمباری کرتی۔ اسلئے منظور پشتین نے اپنے ضمیر کے مطابق اپنی قوم کیلئے تحریک شروع کردی اور محسود تحفظ موومنٹ کے ساتھ دوسروں نے ہمدردی کا اظہار کیا تو اس کو پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل دیا۔ علی وزیر کراچی میں بھڑکیاں مارتا ہے لیکن اس کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔

(4) محسود قوم میں بالخصوص اور وزیر قوم میں بالعموم بڑی صلاحیتیں ہیں۔

والئی سوات، نواب آف دیر اور نواب آف ٹانک سے لیکر بلوچستان کے پشتون اور بلوچ سرداروں اور نوابوں تک عوام کا مزاج الگ ہے ۔ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقہ جات کا مزاج بالکل دوسرا ہے۔ اگر محسود قوم کچھ معاملات سے ابتداء کرلے تو پورے پاکستان کو بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کیلئے طالبان کی طرح بہت زیادہ قربانی اور بربادی کی ضرورت نہیں۔
محسود قوم آزاد منش ہے۔ پیر، ملا اور سردار کی غلام نہیں ہے۔ علی وزیر کا دادا کریم خان ایک نامی گرامی شخصیت تھی۔ منظور پشتین کا تعلق ایک عام اور غریب گھرانہ سے ہے۔ محسود بہادر، آزاد منش، بااعتماد، سخی، متحرک، ہوشیار، غیرتمند اوربہت سی ان خوبیوں سے مالامال ہے جو کسی دوسری قوم میں نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے محسود قوم نے اپنے صدر مقام مکین جنوبی وزیرستان میں فیصلہ کیا کہ”منشیات پر پابندی ہوگی”۔ محسودقوم میں یہ خوبی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بھی اپنی قوم پر منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب ایسی قوم شرپسندی پر آئے تو بھی اپنی شرپسندی میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ طالبان سے پہلے محسود قوم کے جوان طبقے نے ٹی ٹی ایف (TTF)کے نام سے ایک بدمعاش کی قیادت میں تحریک اُٹھائی تو اس نے بڑی مثال قائم کردی۔ پھر اسکے بعد گل ساخان کی قیادت میں چوروں اور ڈکیتیوں کے خلاف تحریک چلائی تو پھر کمال کرکے دکھادیا۔
اب ایک ایسی تحریک کی ضرورت ہے جو فیصلوں پر معاوضہ ” خالوت” کو ختم کردے۔ سارے جوان، بوڑھے اور ادھیڑ عمر کے لوگ اس برائی کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔ غریب لوگوں سے زبردستی فیصلوں کے نام پر لاکھوں روپے بٹورے جاتے ہیں اور یہ دہشتگردی سے بھی بڑا ناسور ہے۔ ذاتی مفادات کی بنیاد پر مجبور لوگوں سے فائدہ اُٹھانے سے بڑا حرامی پن کوئی نہیں ہے جس کو وہ شرافت کے لبادے میں مجبور اور غریب لوگوں پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔
اسلام کا شعور شروع کیا جائے تو علماء ، تبلیغی جماعت اورپیرانِ طریقت کو وزیرستان میں انقلابی اقدامات اُٹھانے کی توفیق ملے گی۔ جس کے بعد پورا پاکستان بھی بدلے گا اور پوری دنیا بھی بدلے گی۔ علامہ اقبال نے ” محراب گل افغان” کے تخیل سے محسود اور وزیر قوم کو انقلاب کا پیش خیمہ قرار دیا تھا۔ علامہ اقبال دوسروں سے مایوس اسلئے تھے کہ وہ آزاد منش نہیں رہے تھے۔
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتہ ٔسلطانی وملائی وپیری
نمبر….5 ……
پاکستان کا بیڑہ کیوں غرق ہے اور مشکلات سے یہ کیسے نکل سکتا ہے؟۔بیماری کی تشخیص کے بعد اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ سودی قرضے لیتے جاتا ہے، لیتے جاتا ہے ، لیتے جاتا ہے اور کھاتا جاتا ہے، کھاتا جاتاہے اور ……
کرونا سے بچنے کیلئے کسی موٹے سے بچے کا اشتہار یاد پڑتا ہے جو ہاتھ دھوتے جاؤ، دھوتے جاؤ، دھوتے جاؤ ، دھوتے جاؤ کی رٹ لگاتا تھا، پاکستان کا بھی قرضہ لینے کا وہی حال ہے
قرآن میں سود کو اللہ اور اسکے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا ہے اور حدیث میںتہتر(73)گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر گناہ قرار دیا گیا مگر ہم سنجیدہ نہیں۔

(1) شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کی حالت دیکھ لیجئے گا۔

جامعہ دارالعلوم کراچی میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کے داماداور خلیفۂ مجاز مفتی عبدالرؤف سکھروی کے مواعظ کتابی صورت میں شائع ہیں جن میں لکھا ہے کہ ” ہمارے ہاں شادی بیاہ کی رسم نیوتہ میں لفافے کی لین دین کو علماء ومفتیان نے سود قرار دیا ہے۔ حدیث میں سود کے ستر سے زیادہ گناہ ہیں اور اس کا کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے”۔ مفتی عبدالرؤف نے شادی بیاہ کی تصاویر پربھی احادیث کی وعیدیں سنائی ہیں اور وہ اپنی تصویر سے بھی گریز کرتے ہیں، جب ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار میں مفتی تقی عثمانی کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ایک شخص نے ان سے پوچھ لیا۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے بتایا کہ ہمارا مقصد ہندوستان میں ہندو انہ رسم ورواج تھا ، جبکہ مسلمانوں کے ہاں یہ تحفہ ہے اور مفتی صاحب خود بھی دیتے ہیں۔ ہمارا کہا کہ ان سے اس بات کا ذکر بھی کریں ورنہ وہ پھر کچھ الٹا سیدھا بولیںگے۔
اگر پاکستان سودی قرضے لینے کو حیلہ کے نام سے اسلامی قرار دے تو پھر کیا ہمارے حکمرانوں کا یہ فعل اپنی ماں ریاست کیساتھ زیادتی نہیں ہوگا؟۔ سینٹ وقومی اسمبلی کامشترکہ اجلاس پارلیمنٹ میں طلب کیا جائے اور پورے ملک سے جید علماء ومفتیان کو بھی بلایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ اگر ریاست اپنے تحفظ کیلئے جہادی تنظیمیں، لیاری ایکشن کمیٹی اور اسلام کا بیڑہ غرق کرنے والے علماء ومفتیان کو پالے گی تو پھر کبھی پاکستان کی سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
آج بہترین موقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان جانے سے پہلے پہلے اس اقدام کی جرأت کریں۔ دنیا میں سود کی شرح کم سے کم اور ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ ہے مگر کیا اس سے پوری قوم کی ماں چُد جانے سے بچ جائے گی؟۔ حدیث میں سودکی بنیاد پر ماں کی گالی اسلئے دی گئی ہے تاکہ کوئی شخص اور کوئی قوم اس قسم کی غلطی کا ارتکاب بھولے سے بھی نہ کرے۔ ریاستِ مدینہ نے تو پہلے حق کی آواز بلند کرنے اور گالی دینے سے ہی سودی نظام کا قلع قمع کیا تھا۔ قرآن نے سود کو اللہ اور اسکے رسول کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا لیکن پھر بھی حس بیدار نہیں ہورہی تھی اسلئے رسول اللہ ۖ کو یہ الفاظ کہنے پڑے تھے۔

(2) سودی نظام اور اسکے بدترین نتائج کا پاکستان کو سامنا ہے۔

جب پرویزمشرف نے ڈالر لے کر ڈاکٹر عافیہ صدیقی تک کو بیچ ڈالا تھا تو امریکہ میں یہ آواز اُٹھی تھی کہ ”پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں”۔ اگر پاکستان سودی قرضے تلے بے ضمیری کا عادی نہ بنتا تو ہماری غیرتمند پاک فوج کے سربراہ کو کم ازکم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوامریکہ کے حوالے کرنے پر تھوڑی بہت مزاحمت کرنے کی ہمت ہوتی۔ زرداری اور نوازشریف کے دور میں جو بیرونی گردشی قرضہ گیارہ(11)سوارب ڈالر تھا ،اب نیازی نے چوبیس (24)سو ارب ڈالر کر دیا ہے اور گراؤنڈ میں کچھ کام بھی نظر نہیں آرہاہے۔ پانچ سال پورے کرنے پر بات کہاں تک پہنچے گی؟۔ چوروں کو پکڑنے کے دعویدار نے سزایافتہ مجرم کو علاج کیلئے باہر جانے دیدیا۔ اگر چوہدری شجاعت مولانا فضل الرحمن کے دل کا آپریشن کرنے کیلئے قادیانی ڈاکٹر مبشرکو امریکہ سے بلاسکتا تھا تو نوازشریف کیلئے بھی بیرونِ ملک سے ڈاکٹر بلائے جاسکتے تھے اور نہیں تو کم ازکم عدالت کو مطلوب حسن نواز، حسین نواز کو بلانے کی شرط پر اجازت دینی تھی۔
مدینہ کی ریاست نے زمینوں کو مفت دینے سے سودی نظام کے خاتمے کی ابتداء کی اور جب حجاز پر اقتدار مستحکم ہوگیا تو رسول اللہۖ نے پہلے پہلے اپنے چچا عباس کا سود معاف کردیا اور اپنے خاندان سے خونِ جاہلیت معاف کرنے کی ابتداء فرمائی ۔ جب غریب لوگوں کو مفت میں زمینیں دی جائیں گی تو وہاں سے قابل ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ ، سائنسدان اور ہرشعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پیدا ہوںگے۔ پہلے ڈاکٹر وغیرہ بننے کیلئے قابلیت کی ضرورت ہوتی تھی اور اب پیسوں کی بنیاد پر گدھے بھی ڈاکٹر وغیرہ بن رہے ہیں جس سے ہماری قوم کا بیڑہ غرق ہورہاہے۔ قوم اس وقت ترقی کرتی ہے جب دماغ میں بھوسہ رکھنے والے مضبوط صحت کے لوگوں سے ہاتھ پیر کا کام لیا جائے اور صحتمند دماغ رکھنے والوں کو دماغ کے کام کیلئے تعلیم وتربیت دیدی جائے۔ ترقی یافتہ دنیا کے انسانوں اور ہمارے اشرافیہ نے فارمی مرغیوں کی حیثیت حاصل کرلی ہے اور پسماندہ مسلمانوں کی حیثیت دنیا میں اصلی مرغوں کی ہے جس سے فارمی طبقہ خوفزدہ ہے اسلئے غریبوں کو مذہب اور قومیت کی بنیاد پر ختم کرنے کے منصوبے دُنیا تیار کرتی ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے۔

(3) غلط علم غلط عمل کے فساد کیلئے سب سے بڑی بنیاد بنتا ہے۔

پہلے مذہبی طبقات جمعیت علماء اسلام، تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی اور جماعت اسلامی وتنظیم اسلامی کے اچھے لوگ عوام میں مذہب کا جذبہ بیدار کیا کرتے تھے۔ مدارس اور مساجد میں بینک کے سائے سے بھی نہ گزرنے کی تبلیغ کی جاتی تھی لیکن اسلامی بینکاری کے نام سے شیخ الاسلاموں نے اسلام کی روح چھین لی ہے۔ حلیہ کے اعتبار سے رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”یہود کی طرح اپنی سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ اہلحدیث اس وجہ سے داڑھیوں کو رنگتے ہیں۔ حلیہ کے اعتبار سے احادیث کے ذخیرے میں سب سے زیادہ مضبوط روایت یہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عبدالواسع، مفتی کفایت اللہ اور مولانا پیر ذوالفقار کی سفید داڑھیوں میں کوئی کشش اسلئے نہیں ہے کہ مذہب کو اپنی درویشی کا کاروبار بنایا گیا ہے۔
حلالہ کی لعنت سے اسلام اور مسلمانوں کی عزت وناموس کی دھجیاں بکھیر دی گئیں لیکن ان لوگوں کو اپنی لیڈری اور بزرگی کی پڑی ہوئی ہے۔جب کسی کو معلوم نہیں تھا تو کسی کا قصور بھی نہیں تھا لیکن جب اتمامِ حجت ہوگئی ہے اور پھر بھی گونگے شیطان بنے ہوئے ہیں تو یہود کے علماء ومشائخ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ حضرت علی ، حضرت حسن اور حضرت حسین سے ناصبیت کو بغض کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اقتدار کی طلب رکھتے تھے۔ ضلع ٹانک کے تمام بڑے علماء کرام جمعیت علماء اسلام ف اور س کے ضلعی امیر، جنرل سیکرٹری، سرپرست اور ختم نبوت کے ضلعی امیر کے علاوہ پاکستان بھر سے اکابر علماء نے بھی ہماری تائید کی تھی لیکن پھر بھی ہمارے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا اور پھر شکست بھی ان کو کھانی پڑی تھی۔ چلو علماء خود بھی ایکدوسرے کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔
لیکن جب حلالہ کی لعنت سے سادہ لوح عوام کی جان چھڑانے کیلئے چار کتابیں لکھ ڈالیں اور بڑے مدارس کے بڑے مفتیان اعتراف بھی کررہے ہیں تو سادہ لوح عوام کی عزتوں سے کھیلنا کونسی شرافت اور اسلام کا تقاضہ ہے اور اس کیلئے حق کی آواز اُٹھانے میں موت کیوں نظر آرہی ہے؟۔ اسلام کسی نے ٹھیکے پر ان کو تھوڑی دیا ہے؟۔ طالبان نے امریکہ کیخلاف ہتھیار اٹھالیا اور اپنوں پر استعمال کرلیا۔ مولوی اپنے عقیدتمندوں کی عزتیں لوٹ رہاہے۔

(4) اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین اور طریقت کا تزکیہ۔

تبلیغی جماعت اور طریقت کے نام پر لوگوں میں روحانیت کی فضاء قائم کی جاتی ہے۔ جب کوئی جذباتی تبلیغی یا صوفی ایک دَم اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور پھر اپنے فعل پر پچھتاتا ہے تو مدارس سے حلالہ کی لعنت کا فتویٰ لے لیتا ہے۔ مفتی صاحب شرعی گواہوں کی موجودگی کی شرط لگاکر یہ تأثر دیتا ہے کہ باشرع گواہوں کی صورت میں یہ کام ہوسکتا ہے جو مدارس کے علاوہ شاید کسی اور جگہ میسر نہ ہوں ۔ فتوے کیلئے قرآن وحدیث کی غلط تشریح کا حوالہ دیکر اس کو مرغوب کردیتا ہے اور فقہ کی کتابوں سے التقاء الختانین کی شرط سے واضح کردیتا ہے کہ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے کسی اور سے نہیں ہوگا۔
جامعہ دارالعلوم کراچی سے اس قسم کے فتوے نکلتے ہیں جو ہم نے شائع بھی کردئیے ہیں۔ وہاں کے کچھ علماء ومفتیان نے طلاق کا فتویٰ دیناچھوڑ دیا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو زبانی فتویٰ دیتے ہیں کہ حلالہ کی ضرورت نہیں اور جب سائل کو تشفی نہیں ہوتی ہے تو ہمارے پاس تحریری فتوے کیلئے بھیج دیتے ہیں۔
جنگ گروپ کے اخبارِ جہاں میں” آپ کے مسائل اور ان کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں ” مفتی محمد حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی ایک مدت تک حلالے کا فتوی دیتے رہے مگر جب ان سے ملاقات ہوئی اور دلائل پر بحث ہوئی تووہ اب ہمارے فتوے کی تائید فرماتے ہیں۔ صرف اسرائیل کے سوا باقی پوری دنیا کے تقریباً سارے مشہور ممالک سے ہمارے پاس استفتاء آئے ہیں اور ہم نے ان کو قرآن وسنت اور حنفی مسلک کے مطابق حلالہ کے بغیر فتوے دیئے۔ پاکستان کے کئی شہروں سے علماء کرام نے عوام کو ہماری طرف فتوی لینے کیلئے متوجہ کیا ہے۔ اگر بڑے بڑے حق کا کھل کر ساتھ نہیں دیںگے تو بہت سے لوگوں کی عزتیں خاک میں مل جائیںگی۔ مولانا طارق جمیل و تبلیغی جماعت کو کردار ادا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ نہ تو حلالہ میں کامیابی کا یقین ہوسکتا ہے اور نہ بچوں کو برباد کرکے بیوی کو چھوڑنے میں کامیابی کا یقین آسکتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ اسلام اجنبی بن گیا۔ پہلے لوگ طلاق دیتے نہ تھے اور دیتے تو حلالہ کی لعنت میں ملوث نہیں ہوتے تھے، اب طلاق کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اور حلالہ کی لعنت میں ملوث مدارس نے کاروبار بنالیا ہے۔
نمبر….6 ……
اگر علماء کرام ومفتیان عظام ، مذہبی سیاسی جماعتیںجمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان اور جمعیت اہلحدیث صرف نکاح و طلاق کے مسئلے کو خود سمجھ کر دوسروں کو سمجھانا شروع کردینگے تو بہت بڑا انقلاب آئیگا
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل پر باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کو واضح کردیا ہے جس کی کسی بھی صحیح حدیث میں کوئی تردید نہیں ہوئی ہے
حضرت عمر کا فیصلہ اور ائمہ اربعہ کا فتویٰ قرآن کے مطابق سوفیصد درست اسلئے تھا کہ عدت میں بھی صلح کے بغیر تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا لیکن صلح کی صورت میں ہوسکتاہے

(1) درسِ نظامی کی تعلیمات اور امام ابوحنیفہ کے مسلک کا فتویٰ۔

درسِ نظامی میں اصولِ فقہ کے قواعد پڑھائے جاتے ہیں لیکن بحث اور مباحثہ صرف اور صرف جزیات سے متعلق ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کایہ مسلک پڑھایا جاتا ہے کہ اگر صحیح حدیث بھی قرآن کے خلاف ہو تو اس پر عمل نہ ہوگا۔
قرآن میں حتی تنکح زوجًا غیرہ ( یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے)کے مقابلے میںحدیث ہے کہ ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔
جمہور کے نزدیک حدیث صحیح ہے ، عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ احناف کے نزدیک قرآن میں طلاق کے بعد عورت کو نکاح کیلئے خود مختار قرار دیا گیا ہے۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ قرآن وحدیث دونوں میں پہلے تطبیق کی کوشش کی جائے ،اگر تطبیق نہ ہو تو حدیث پر عمل نہیں۔
ہم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں تھے تو اصولِ فقہ کا یہ پہلا سبق مولانا بدیع الزمان نے پڑھایاتو میں نے اسی وقت عرض کیاتھا کہ قرآن میں طلاق شدہ اور حدیث سے کنواری مراد ہے۔جس پرمولانا بدیع الزمان نے حوصلہ افزائی فرمائی اور الحمدللہ استاذ کے حکم کے مطابق اچھے نتیجے پر پہنچ گیاہوں۔
:المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء …. و بعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور طلاق والی تین ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں۔ …… اور انکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح کرنا چاہتے ہوں”۔(البقرہ:228)
جب اللہ نے اصلاح کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی ہے تو کوئی صحیح حدیث بھی اسکے مقابلے میں ہوتی تو احناف کے اصول کے مطابق اس کو قابلِ عمل قرار دینا غلط ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے چیلنج کیا ہے کہ قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے لہٰذا کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہوسکتی ہے کہ اصلاح کی شرط کے باجود اللہ نے رجوع کی گنجائش کو عدت میں ختم کردیا ہو۔ اگلی آیت(229) میں عدت کے تین ادوار کی مزید وضاحت ہے کہ پہلے دو ادوار میں دومرتبہ طلاق کے بعدعدت کے تیسرے دورمیں معروف طریقے سے رجوع یا پھر احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ حدیث میں اسی کو تیسری مرتبہ طلاق قرار دیا گیا ہے اور طہروحیض کے تین ادوار میں طلاق کو واضح کیا گیا ہے۔

(2) تین طلاق کے حوالے سے بہت بڑے مغالطے کا بہترین حل۔

زمانہ جاہلیت میں ایک ساتھ تین طلاق کا تصور تھا اور عدت میں بار بار طلاق کے بعد غیر متناہی رجوع کا تصور بھی تھا۔ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا اور بار بار ایک طلاق دیکر عورت کو زندگی بھر کیلئے نکاح میں رکھنے اور دوسری جگہ نکاح سے روکنے کا بھی تصور تھا۔
اللہ نے عدت میں باہمی رضامندی کی شرط پر رجوع کا دروازہ کھول دیا تو ایک طرف ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ کا معاملہ ختم کردیا تو دوسری طرف رجوع کیلئے اصلاح کی شرط بتاکر بار بار نہیں ایک بار بھی تنگ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ صحابہ کرام نے قرآن کے مطابق اس پر عمل کیا۔ جب ایک صحابی کا پتہ چلا کہ ایک ساتھ تین طلاق دئیے ہیں تو ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ قرآن نے رجوع کا دروازہ بند کررکھا تھا بلکہ اسلئے کہ مرحلہ وار طلاق دینے کے بجائے قرآن کے خلاف یکبارگی کی طلاق جاہلیت کا عمل تھا۔ جب عویمر عجلانی نے لعان کے بعد ایک ساتھ تین طلاق دئیے تو نبیۖنے اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک ساتھ تین طلاق دئیے یا حیض میں طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوگئے اور ان کو بلاکر رجوع کا حکم دیا اور طہرو حیض کے تین ادوار میں طلاق اور رجوع کا معاملہ سمجھایا۔جس شخص پر ایک ساتھ تین (3) طلاق کی اطلاع پر غضبناک ہونے کا ذکر ہے وہ بھی یہی عبداللہ بن عمر تھے۔
اگر عبداللہ بن عمر کی بیگم رجوع کیلئے راضی نہ ہوتی تو ایک طلاق کے بعد بھی نبیۖ رجوع کا نہ دیتے اور نہ قرآن میں اس کی گنجائش تھی۔ حضرت عمر کے دور میں ایک معاملہ پہنچا ۔ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دی تھی اور وہ پھر اس کو لوٹانا چاہتا تھا۔ عورت راضی ہوتی تو مسئلہ نہیں تھا لیکن جب عورت راضی نہیں تھی تو حضرت عمر نے قرآن کے مطابق جدائی کا فیصلہ دینا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اللہ نے جو گنجائش دی اسکا غلط فائدہ اٹھایا۔
جب یہ بحث چھڑگئی کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں یا نہیں ؟۔ تو اسکے جواب ائمہ اربعہ اور جمہور محدثین نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوسکتی ہیں لیکن اسکا مقصد عورت کی جان چھڑاناتھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ قرآن کے خلاف باہمی رضامندی سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔

(3) فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ

قبائلی معاشرے میں تو آج بھی یہ رسم ہے کہ عورت کو طلاق کے بعد اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتے لیکن جب برطانوی شہزادہ چارلس نے بھی لیڈی ڈیانا کو طلاق دی تو دوسرے کیساتھ اس کا تعلق اپنی غیرت کے منافی لگا تھا اسلئے فرانس کے شہر میں لیڈی ڈیانا اور دودی الفاید کے حادثے پر قتل کاشبہ ظاہر کرکے عدالت میں کیس چلایا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان اصلاح کاتوازن قائم کیا ہے جس پر ترازو کی طرح میاں بیوی کی طلاق اور رجوع کا انحصار ہے۔ صلح کی شرط پر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور صلح کی شرط کے بغیر عدت میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے آیت(228)البقرہ میں صلح کی شرط پر عدت میں رجوع کو واضح کیا۔ مرد کے موٹے دماغ میں صلح کی شرط غائب ہوگئی۔ اللہ نے مزید واضح کردیا کہ عدت کے تین مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ میں معروف کی شرط پر رجوع ہے یا احسان کیساتھ رخصتی ہے۔ لیکن معروف یعنی صلح واصلاح کی شرط نظر انداز کردی گئی۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ شوہر کو دومرتبہ طلاق رجعی کا غیرمشروط حق دیا گیا۔ قرآن کی آیت میں تین ادوار کو حدیث میں طہرو حیض کے حوالہ سے سمجھایا گیا مگر وہ بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔
حدیث میں یہ بتایا گیا کہ آیت(229)میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق کا ذکر ہے لیکن مجال ہے کہ قرآن وحدیث کی طرف کسی کا دل ودماغ جاتا، پھر تیسری طلاق کے بعد اللہ نے یہ واضح کیا کہ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو……….”۔ پھر اس کے بعد آیت(230)میں طلاق کے بعد اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ باہوش و حواس عدت کے تین مراحل میں طلاق کے بعد جب واپسی کا ارادہ نہ ہو توپھر ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ عورت کو اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے دیا جائے۔ اس کے مقابلے میں ولی کی اجازت والی روایت لانا بھی درست نہیں ہے اسلئے کہ پابندی اور غیرت کا مسئلہ طلاق کے بعد بھی شوہر بناتا ہے اور شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کیلئے یہ جملہ ایک تریاق کی حیثیت رکھتا ہے اور بعض لوگ تو حلالہ بھی زبردستی سے کرواتے ہیں۔ بنوں میں کچھ عرصہ پہلے ایک واقعہ سوشل میڈیا پر آیا تھا جس میں مولوی کو جیل بھی بھیج دیا گیا ہے۔

(4) آیت(230)البقرہ کے سیاق وسباق کی آیات کو دیکھا جائے۔

مدارس کے مفتیان ایک حدیث پیش کرتے ہیں جس میں رفاعة القرظی نے اپنی بیگم کو مرحلہ وار تین طلاق دیکر فارغ کیا تھا۔ اس نے پھر عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی تھی۔ بخاری میں اس روایت کی تفصیل ہے کہ نبیۖ کے پاس وہ عورت آئی ،اس نے اپنا جسم حضرت عائشہ کو دکھایا تھا کہ شوہر نے اس طرح سے مارا ہے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اس کے جسم پر اسکے کپڑے کی طرح ہرے رنگ کے نیل پڑے تھے، میں نے آج تک کسی پر اتنا تشدد نہیں دیکھا ہے۔ اس عورت نے نبیۖ سے شکایت کی کہ شوہر نامرد ہے۔ اس کا شوہر بھی اپنے بچوں کو لیکر آیا۔ اس نے عورت کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں نامرد نہیں ہوں، یہ جھوٹ بولتی ہے۔ میں اس کی چمڑی ادھیڑتا ہوں۔ نبیۖ نے اس کے بچوں کو دیکھ کر عورت کی بات کو غلط سمجھا اور اس کو لوٹ کر جانے کا حکم دیا۔ صحیح بخاری میں واقعہ کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ علماء ومفتیان درست حدیث کو چھپارہے ہیں۔
جب قرآن کی آیات (228)اور (229)میں عدت کے اندر باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے اور آیات (231) اور (232) میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش ہے ۔ میں نے اپنی کتابوںنمبر(1)ابررحمت۔ نمبر(2) تین طلاق کی درست تعبیر۔ نمبر (3) تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل اور نمبر(4) عورت کے حقوق ۔ میں تفصیل کیساتھ ایک ایک بات کی وضاحت کردی ۔شیخ الحدیث والتفسیر مفتی زرولی خان نے آخری کتاب ”عورت کے حقوق ” پڑھنے کے بعد اس کی زبردست تعریف کی تھی۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے میں نے ملاقات بھی کی تھی اور اگر ان کا وصال نہ ہوتا تو ہوسکتا ہے کہ وہ بہت کھل کرتائید بھی کرلیتے۔
غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
حضرت مفتی محمدزرولی خان جلالی شخصیت اورکتابوں کے بڑے ماہر تھے ان میں بے خوفی بھی تھی اور منافقت بھی نہیں تھی۔ میرے ہم سبق عالمِ دین نے کہا تھا کہ ”مفتی زرولی خان سے تائید حاصل کرلو تو دھماکہ ہوجائیگا، باقی تو ایسے منافقین ہیں،ان کا کوئی اعتبار مت کرنا ”لیکن میں ایسا ہرگزنہیں سمجھتا۔
نمبر….7 ……
عدل وانصاف کا وہ تصور جس کی ضرورت پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا کو ہے جو قرآن وسنت میں بڑا واضح ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا ہے اور اگر اس پر عمل ہونا شروع ہوجائے تو دنیا بھر کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں
قرآن میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے کا ذکر ہے جس میں انصاف کیساتھ فیصلے کو بھی عدل کے خلاف قرار دیکر انصاف کاتقاضہ بھی پورا کیا گیا تھا
حدیث میں دو خواتین کا ایک بچے پر جھگڑے کے بعد اجتہادی خطاء اور ٹھیک فیصلے کیلئے جس حکمتِ عملی کا ذکر ہے اسکے بغیر انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے کا تصور نہیں ہوسکتا۔

(1) قرآن وسنت میں نظام عدل کا بہترین تصور موجودہے۔

جب ایک قوم کے جانوروں نے دوسری قوم کی فصل کو نقصان پہنچایا تھا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے دونوں کی قیمت لگاکر فیصلہ کردیا کہ جانور اس قوم کو دیدئیے جائیں جس کی فصل کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کیونکہ جانوروں اور فصل کی قیمت برابر تھی۔ بادی النظر میں یہ عدل کا فیصلہ تھا اسلئے کہ دونوں چیزوں کی قیمت برابر تھی۔ نقصان کا ازالہ انصاف کے عین مطابق ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان فیصلہ میں کرلیتا ہوں۔ جانور والے کے ذمہ فصل کی خدمت لگادی اور فصل والے کے سپرد جانور کردئیے کہ جب تک فصل اپنی جگہ پر واپس نہ آئے تو اس کے دودھ،اُون اور گوبر کا فائدہ اٹھائیں۔ جب فصل اپنی جگہ پر آئے تو مالک کو واپس لوٹائی جائے اور جانور اپنے مالک کو واپس کئے جائیں۔ اگر جانور والے کو بالکل محروم کردیا جائے تو پھر اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔
قرآن نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے فیصلے کو زیادہ دانشمندانہ قرار دیا ہے اور یہ نہ صرف اُمت مسلمہ بلکہ ساری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔اب ہمارا عدالتی نظام دیکھ لیجئے۔ لوئر کورٹ سے سپریم کورٹ تک جج کی دیانت یہ ہوتی ہے کہ قانون اندھا ہے۔ کس کو انصاف ملتا ہے اور کس کو نہیں؟۔ اس سے جج کا کوئی سروکار نہیںہوتاہے۔ لوئر کورٹ اور سول کورٹ میں فیصلہ کچھ ہوتاہے اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کچھ ہوتا ہے۔ جسکے پاس زیادہ سے زیادہ قابل وکیل ہو،وہ کیس جیت جاتا ہے۔ انصاف میں تاخیر کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے لیکن طاقتور کے رحم وکرم پر کمزور تاریخوں پر تاریخ کی سزا خواہ مخواہ میں نظامِ عدل کے ہاتھوں بھگتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ دو عورتیں بچوں کیساتھ جنگل سے لکڑیاں لینے گئیں۔ ایک کے بچے کو بھیڑئیے نے اٹھالیا۔ اس نے دوسری کا بچہ اٹھا کر قبضہ کرلیا۔ حضرت داؤد نے عدالت میں اسی کے حق میں فیصلہ کردیا جو تیز طرار تھی۔ حضرت سلیمان نے فرمایا کہ یہ فیصلہ میں کروں گا۔ تلوار منگوائی کہ بچے کو دو ٹکڑے کرکے آدھا آدھا بانٹ دیتا ہوں۔ جو اصل ماں تھی اس نے کہا کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے اسی کو دیدو اور دوسری نے کہا کہ آدھے بچے پر بھی میں خوش ہوں۔ اس طرح اصل ماں کو اسکا اپنا بچہ حضرت سلیمان نے لوٹادیا تھا۔

(2) عدالت کی بنیاد کہاں ٹیڑھی ہوئی اور کہاں انتہاء کو پہنچ گئی تھی؟۔

ایک یہودی نے حضرت علی کا ذرہ چوری کیا۔ معاملہ حضرت قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔ حضرت علی نے گواہی کیلئے اپنے بیٹوں اور غلام کو پیش کیا لیکن قاضی شریح نے کہا کہ باپ کے حق میں بیٹوں اور آقا کے حق میں کسی غلام کی گواہی قبول نہیں ہے۔ ذرہ حضرت علی کا ہے لیکن گواہی قابل قبول نہیں اسلئے یہودی کو سپرد کردیا تھا۔ اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ پہلے لوگ خائن نہیں تھے اسلئے باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول ہوتی تھی لیکن بعد میں خائن بن گئے ،اسلئے باپ کے حق میں بیٹے اور آقا کے حق میں غلام کی گواہی ناقابلِ قبول بن گئی۔ حضرت عمر کے حق میں انکے بیٹے کی گواہی قابل قبول تھی مگر امام حسن و امام حسین کی گواہی حضرت علی کے حق میں ٹھیک نہ تھی۔
انگریز سے پہلے مغل کا نیک ترین بادشاہ اورنگزیب تھا۔ جس نے اپنے بھائیوں کو حکومت پر اکیلے قبضہ کرنے کیلئے قتل کیا تھا۔ پانچ سو علماء نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کیا جن میں شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم بھی تھے۔ جس میں لکھ دیا گیا ہے کہ ” بادشاہ پر قتل، چوری، زنا، ڈکیتی اور کسی قسم کی کوئی بھی حد جاری نہیں ہوگی، اسلئے کہ بادشاہ دوسروں پر حد نافذ کرتا ہے ، اس پر کوئی دوسرا حد جاری نہیں کرسکتا ہے”۔ فتاویٰ عالمگیری کے مقابلے میں انگریزکی عدالت میں زیادہ انصاف تھا اسلئے برصغیر کے لوگوں نے اس کو قبول کرلیا ہے۔
آج لوگ علماء اور شیخ الاسلام کی عدالت سے بھی ڈرتے ہیں اور انگریز کی عدالت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا تعلق بھی اشرافیہ کے مفادات سے ہی ہوتا ہے۔ ساحل سمندر پر مچھیروں کے کاروبار پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ جزیرے صدارتی آرڈنینس کے تحت آئین کے بالکل منافی وفاق نے قبضہ کرلئے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے لوگ حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آواز اٹھارہے ہیںمگر عدالتیں عوام کو انصاف فراہم نہیں کررہی ہیں۔ شوگر مافیا، آٹا مافیا اور زمینوں پر قبضہ مافیا لوٹ مار میں مگن ہے۔
جب طاقتور طبقہ حقائق کو سمجھنے کے بجائے اپنے مفادات میں لگا رہتا ہے تو مغل بادشاہوں کی طرح نہ صرف اپنے اقتدار کا خاتمہ اغیار کے ہاتھوں کرتا ہے بلکہ رعایا بھی محکوم ہوجاتی ہے لیکن رعایا اسلئے خوش ہوتی ہے کہ اغیار سے پھر بھی کچھ نہ کچھ مراعات ،انصاف اور محنت کا صلہ ملنے کی توقع ہوتی ہے۔

(3) حکومت کفر کیساتھ چل سکتی ہے مگر ظلم کیساتھ نہیں چل سکتی ہے۔

حکومت کاکام انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ عدل توازن کوکہتے ہیں۔ جب انسان کا ذہنی توازن خراب ہوجاتا ہے تو وہ معذور شمار ہوتا ہے اور جب حکومت عدل وانصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اُترے تو ظالم کہلاتی ہے۔ ظلم کا نزلہ عوام پر گرے تو وہ ریاست کو ماں کے بجائے ایک ڈائن سمجھتے ہیں۔ موجودہ دور میں صرف برصغیر پاک وہند ،ایشیااور افریقہ نہیں یورپ و امریکہ سمیت پوری دنیا ظلم وجور میں ڈوبی ہوئی ہے۔ آٹھ (8)مارچ کو عورت پر جنسی تشدد کا دن پاکستان میں اب منانا شروع ہوا، جب عورت کیساتھ جنسی تشدد بڑھ گیا ہے۔پوری دنیا میں خاص طور پر ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں اس سے بہت پہلے یہ احتجاج شروع ہوا ہے۔ ہمارا خوشحال طبقہ عورت کے حقوق کی بحالی کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ دنیا میں بدحال طبقہ اس کیلئے نکلتا ہے۔
مزدور کے حقوق کی جدوجہد بھی ”جب لال لال لہرائے گا” والے شگاگو کے امریکی مزدوروں کے شہداء یکم مئی سے مناتے ہیں۔ جب انصاف پیسے کا محتاج ہو تو غریب ، مزدور اور کسان کو انصاف کہاں فراہم ہوسکتا ہے؟۔ ہماری بڑی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں میں پیدا کیا ہے، بھارت ، کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے علاوہ کسی مسلم ممالک میں بھی کوئی ایسی آزادی اور انصاف نہیں ہے جو پاکستان سے کسی طرح سے بھی بہتر ہو۔
ہم اپنی آزادی کا درست فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں۔ ایم کیو ایم (MQM) نے کراچی میں کتنی پاور حاصل کرلی تھی؟۔ ملٹری ڈکٹیٹر شپ پرویز مشرف کو اپنی طاقت کا اتنا بھروسہ نہیں تھا جتنا ایم کیو ایم (MQM) کی طاقت پر تھا۔اس آزادی کا فائدہ کیا اُٹھایا؟۔ کراچی میں سگریٹ کی اشتراک پاکستان سے غیرملکی کمپنی میں کام کرنیوالے ملازم نے بتایا کہ کمال کی مزووری اور کمال کی مراعات ملتی تھیں مگر ایم کیو ایم (MQM)کے بھتے کی وجہ سے بند کردی۔جب ریاستِ پاکستان اپنے شہری کو کراچی میں تحفظ فراہم نہ کرسکتی تھی تو ایم کیو ایم (MQM) عوام کا بہت بڑا وسیلہ بن گیا۔ رفتہ رفتہ قتل وغارتگری کے بعد بھتہ خوری حد سے بڑھ گئی۔ بازار اورسڑکیں بند ہوتی تھیں۔ عوام تنگ آگئے تو ریاست نے جان چھڑائی۔ لیاری ایکشن کمیٹی کی سرپرستی وزیرداخلہ سندھ ذوالفقارمرزا نے شروع کی تو زرداری نے نکال دیا۔ عذیر بلوچ نے لیاری میں جو کچھ کیا اسلئے اب آزاد بھی ہواہے۔

(4) اپنے فرائض اور اپنے حقوق کا درس عوام میں عام کرنا ہوگا۔

معاشرے میں الٹی رسم وروایت چل پڑی ہے کہ اپنے حقوق سے آگہی کا درس دیا جاتا ہے لیکن اپنے فرائض سے آگاہ نہیں کیا جاتا ہے۔ جب فرقے اور قوم پرستی کے نام پر کسی معاشرے، گھر، گاؤں، شہر اور علاقے میں غیرملکی فنڈز سے دہشتگرد اپنے علاقے کا امن تباہ کررہاہو اور لوگوں کو یہ نہ بتایاجائے کہ تمہارا فرض ہے کہ خود پکڑ کراس کا ہاتھ روک لو۔پولیس کو اطلاع دو اور اپنا فرض پورا کرلولیکن دہشتگرد مسنگ پرسن ہوجائے تو پھر واویلا شروع کردو کہ اپنی ریاست ہمارے ساتھ ظلم کرتی ہے۔ عدالت میں پیش کیا جائے۔ حالانکہ جو عدالت ایک ٹریفک وارڈن کو بھرے بازار میں بے گناہ قتل ہونے پر انصاف فراہم نہیں کرسکتی ہے تو وہ دہشتگرد کو کہاں سے کیا سزا دے گی؟۔
سب سے بڑے منافق اور معاشرے کا ناسور وہ ہیں جو پرائے گو پر اپنی لیڈری چمکاتے ہیں۔ خود اپنے بچوں سمیت پُر تعیش رہائشی علاقوں میں رہتے ہیں اور غریبوں کے بچوں کو پراکسی میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم اہل اقتدار طبقے کی بھی یہ بہت بڑی نالائقی ہے کہ سوئی گیس جہاں سے پاکستان کے تمام علاقوں میں پہنچا ہے وہاں ڈیرہ بگٹی کے لوگوں کا کیا حال ہے؟۔ محموداچکزئی کی تقریر سے عوام اتنی متأثر نہیں ہوئی ہے جتنی روف کلاسرا کے اس پروگرام نے اثر ڈالا ہے جس میں پراکسی جنگ کے شکار ڈیرہ بگٹی کے مکینوں کو مصنوعی ٹانگیں دی جارہی ہیں۔ جن کی حالت دیکھ کر اقتدار کی کرسی پر رہنے والے سیاسی اور ملٹری لیڈرشپ دونوں طبقے کے ضمیر پر لعنت بھیجنے کو جی چاہتا ہے۔
سول وملٹری کے غریب ملازمین میںوہ افسران بھی شامل ہیں جنکے چولہے حد درجہ حرام کی کمائی سے نہیں چلتے ہیں بلکہ تنخواہ کے علاوہ گزارے لائق حرام پر گزارہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طبقات ہیں جنہوں نے اپنی اوقات کی پرواہ کئے بغیر اس حد تک حرام کے پیسے کمائے ہیں کہ انکی شخصیات اسکے تصور سے چلوپھر پسینے میں ڈوب مرنے کے قابل ہے۔ بڑے کرپٹ قسم کے جرنیل، جج،صحافی ، سول بیوروکریٹ ،سیاستدان ، مولوی اور پیر حضرات کی لیڈری پیسوں کی ریل پیل سے چمکتی ہے اور غریبوں کی زکوٰة تک کھاتے ہیں۔ اگر معاشرے میں فرائض و حقوق کا درست تصور عملی طور سے پیش نہیں کیا گیا تو پاکستان کی بقاء وسلامتی بنگلہ دیش کی طرح تشویشناک ہوسکتی ہے۔
نمبر….8 ……
پاکستان اسلام کے نام پر بناہے اور اسلام کی بنیاد پر ہی یہاں انقلاب آسکتا ہے لیکن اسلام وہ نہیں جو مولوی نے سپیرے کی طرح سانپ کو اپنی پٹاری میں چھپارکھا ہے بلکہ وہ اسلام جو قرآن وسنت میں من وعن آج محفوظ ہے
مولوی کہتا ہے کہ پہلے مجھے اقتدار دو پھر اسلام کا مزہ چکھا دوں ۔ سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں ملاؤں کے اسلام سے لوگوں کا فائدہ ہواہے جو پاکستان میں نیا تجربہ کرینگے؟
عمران خان تبدیلی کی بات کرتا تھا،آج سرکے بل اُلٹا ٹنگ گیا۔عافیہ صدیقی کو حوالے کرنے والوں کے ہاں اسامہ بن لادن مارا گیا لیکن پھر بھی دنیا میں نمبرایک کی رِٹ یارَٹ ہے؟

(1) ہندو، سکھ، عیسائی ، قادیانی اور غیرمسلم پارٹیوں کا سربراہ نہیں۔

ریاستِ مدینہ کی بات کرنے والا عمران خان، غریبوں کی رَٹ لگانے پر اقتدار میں آنے والی پیپلزپارٹی، خود کو بانی پاکستان کی جماعت قرار دینے کی دعویدار جنرل ضیاء الحق کی پیداوار مسلم لیگ ن اور اسلام کے نام پر ریاست کو چیلنج کرنیوالی جمعیت علماء اسلام کے علاوہ دیگر چھوٹی بڑی قومی ،علاقائی،لسانی اور اسلامی جماعتیں سبھی مسلمان ہیں اور غریبوں کی خیرخواہ کہلاتی ہیں۔
جب سود کی آیات نازل ہوئیں تو نبیۖ نے مزارعت کو سود قرار دیدیا اور مدینہ میں پابندی لگادی کہ کوئی زمین کو کرایہ اور بٹائی پر نہیں دے سکتا ۔ اس کی وجہ سے غریب خوشحال بن گئے اور جو آرام کے عادی تھے وہ محنت کش بن گئے۔ زمین کی کاشتکاری کیلئے وہی خاندان خود کو وقف کرسکتا ہے جو بھوک کی وجہ سے مجبور ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اصل وارث اس کا پوتا ذوالفقار جونیئرکبھی بھی اپنی زمین کاشت کرنے کیلئے نہیں آسکتا ، بلکہ زرداری اس پر قبضہ کرلے اور بلاول بھٹو زرداری اسکا خاندان کبھی زمین کاشت نہیں کرسکتا،اسی طرح یہ حال مریم نواز ، حمزہ شہباز اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے خاندان کا ہے۔ حالانکہ کاشتکاری سے ان کی صحت بھی ٹھیک رہتی اور اچھی گزربسر ہوتی۔
اگر سیاسی خانوادے یہ فیصلہ کرلیں کہ مزارعین کو اپنی زمینیں مفت میں ہی دینی ہیں تو ایک انقلاب آجائے گا۔ پاکستان میں ایک صحت مند سکیم شروع ہوجائے گی۔ جاگیرداروں کی صحت ٹھیک ہوجائے گی اور غریبوں کو اپنا بہت بڑا روزگار مل جائے گا۔ جب مفت میں زمین کاشت کیلئے مل جائے تو بڑے پیمانے پر لوگ زمین کی کاشت میں لگ جائیںگے۔ جو جو آسودہ حال ہوتے جائیںگے وہ زمین چھوڑ کر شہروں کا رخ کریںگے۔ غریبوں کے پاس پیسہ آجائیگا تو وہ اپنی تعلیم، صحت ، رہن سہن اور بہتر زندگی گزارنے کے لائق بھی بن جائیںگے۔ پھر تاجر برادری کے روز گار بھی بڑھ جائیںگے۔ کپڑوںو بجلی کے آلات اوردیگر اشیائے خورد ونوش وغیرہ لوگ خریدیں گے۔
جاگیردارانہ نظام ہی کی وجہ سے دنیا میں غلامی اور لونڈی کا رواج عام تھا ، جس کو ختم کرنے کیلئے ساڑھے چودہ سوسال پہلے اسلام نے بنیاد رکھ دی تھی۔ امریکہ کے ابراہم لنکن نے (1964ئ) میں غلامی کا نظام ختم کیا تو امریکہ کی امیر ریاستوں نے بغاوت کردی تھی۔ دنیا کو اصلی اسلام سے خطرات لاحق ہیں۔

(2) مولوی نے اسلام کی پاسداری کیساتھ اس کی روح نکال دی۔

جنگ میں قید کئے جانے والوں کو غلام بنانے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتاہے کیونکہ قیدی نقصان پہنچائے گا۔ اسلام کے پہلے غزوہ بدر میں ستر (70)قیدی تھے لیکن ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ بنانا ممکن تھا۔ غلام وہ افراد ہوتے تھے جن کو جاگیردار اچھی تعلیم وتربیت دیکر منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔اور لونڈیوں کا بھی دنیا میں یہی تصور تھا کہ جاگیرداروں کے ہاں ان کی تربیت ہوا کرتی تھی البتہ جنگوں میں کنیز اور غلام ہاتھ آتے تو غنیمت شمار ہوتے تھے اور جن بے یار ومدد گار خواتین کو چھوڑ کر مرد بھاگ جاتے یا قتل ہوتے تو یہ بدقسمت کسی کے ہاتھوں فروخت ہوتیںیا مالِ غنیمت بن جاتی تھیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ ناظرہ قرآن سے لیکر اسلام کے تمام خدوخال کی پاسداری علماء کرام اور مفتیانِ عظام نے کی ہے اور ان کا اُمت پر بہت بڑا احسان ہے۔ ہم بھی مدارس کی خاک چھان کر اسلام کی تعلیم تو نہیں دیتے ہیں لیکن جتنی تعلیم حاصل کرلی ہے اس کی ہم تھوڑی بہت جگالی کرلیتے ہیں۔ جس دن اسلام کی تعلیم عوام کے سامنے آگئی تو مشرق ومغرب میں مقبولیت کا ڈنکا خود بخود بجنا شروع ہوجائے گا۔ ابھی تو اسلام کا اعتماد مدارس کے گمراہی کے قلعوں میں بند ہے اور ہم جنگلی سانڈ کی طرح ان کی درودیوار سے ٹکریں مارتے پھرتے ہیں۔ دیوانے کی بڑ سے زیادہ ہماری آواز کی اوقات نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیگم حضرت حاجرہ لونڈی تھی اور شہزادی بھی تھی۔اُم المؤمنین حضرت صفیہ مال غینمت میں ملی تھی ، پہلے کسی صحابی کودی گئی اور پھر بتایا گیا کہ کسی اچھے خانوادے کی ہے تو نبیۖ نے شادی کرلی، اسکے پیچھے بہت بڑا فلسفہ یہ تھا کہ نبیۖ کو اپنی چچازاد حضرت اُم ہانی سے بھی نکاح کی اجازت نہیں ملی جو حضرت علی کی ہمشیرہ اور اولین مسلمانوں میں سے تھیں لیکن انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ بخاری کے شارح علامہ بدرالدین عینی نے اُم ہانی کونبیۖ کی اٹھائیس(28)ازواج میں غلط شمار کیا ہے۔ قرآن کے مطابق ان سے ملکت ایمانکم کے آزادانہ ایگریمنٹ کی اجازت تھی مگر نکاح کی اجازت نہیں تھی۔ قرآن نے لونڈیوں کی شادی کا حکم دیا تھا اور آزاد عورتوں سے ایگریمنٹ کی اجازت تھی۔تفصیل کیلئے میری کتاب ” عورت کے حقوق” کا مطالعہ کریں اورحکومت پاکستان علماء کی ایک عالمی کانفرنس بلائے۔

(3) جب معاشرے میں عورت اور بچوں کو حقوق نہ ملیں تو؟۔

اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعد مرد پر اپنی استطاعت کے مطابق اپنی عورت کو نہ صرف خرچہ بلکہ عدل وانصاف کا ماحول فراہم کرنے کی ذمہ داری ڈالی۔ طلاق کی صورت میں بار بار باہمی اصلاح سے رجوع کی اجازت دی ، جدائی سے پہلے انصاف پر فیصلہ کرنے کیلئے میاں بیوی کے خاندان میں سے ایک ایک شخص کو حکم مقرر کرنے کا واضح فرمان جاری کیا لیکن ہمارے معاشرے کی رسم وروایت یہ ہے کہ طاقتور اپنے دست وبازو کے زور پر دوسرے کے حقوق چھین لیتا ہے اور پھر ہر فریق اپنے اپنے ماحول میں کبوتر کی طرح اپنے اپنے دڑبے میںغٹرغوںغٹر غوں کی فریاد اور دھمیکوں کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ قرآن نے جس طرح اس بات کو احسان قرار دیا ہے کہ پرائی نامحرم بچی اپنے شوہر کیلئے جائز اور حلال بن جاتی ہے ،اسی طرح سے اسکے حقوق کو بھی تحفظ دیا ہے۔ ہمارے ہاں حقوق وفرائض کا عوام کو سرے سے علم ہی نہیں۔
ہماری ریاست اور حکومت کو اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے اور علماء ومفتیان مسلکوں اور فرقوں کے مسائل سے چھٹکارا نہیں پاتے ہیں مگر عوام کو بھی حقائق سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کافی عرصہ سے ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے بڑے بنیادی مسائل حل کئے ہیں لیکن میڈیا کو بھی ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ خوف ودہشت کا شکار ہے۔ اب تولوگ پاک فوج کے خلاف بولنے سے بھی نہیں کتراتے ہیں تو مولوی کیا چیز ہے؟۔ جس سے سب ڈرتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا انتہائی غلط رویہ ہے۔ جن لوگوں کو اس ریاست نے بھونکنے کیلئے سوشل میڈیا پر چھوڑا ہواہے وہ یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ ڈرون حملوں سے پاکستان کے شہریوں کی حفاظت جدید اسلحہ سے لیس فوج کا کام تھا یا محسن داوڑ کا؟۔ اسامہ کی ہلاکت پر دفاع نہ کرنا زرداری کی بے حسی تھی یا پاک فوج کی غفلت؟۔ تحریک انصاف کی خاتون رکن اسرائیل کو بیت المقدس سونپنے کی بات کرتی ہے لیکن شوسل میڈیا پر مولانا فضل الرحمن کیخلاف بھونکنے والے چیختے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کررہاہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ مراد سعید اور فیصل واوڈا جیسے ٹائیگر اور شیرو ںکے ہاتھوں میں پاکستان کا دفاع ہوگا تو اس ملک کا کیا بنے گا؟ مولانا فضل الرحمن بھی اسلام نہیں اپنی کاز کیلئے کام کرتے ہیں ،ختم نبوت کیلئے ن لیگ کے وقت میں کیا کارکردگی دکھائی؟۔

(4) پاکستان میں اسلام کی درست تعبیر وتشریح کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کی طاقت کو توڑنے کیلئے وہ کام شروع کیا ہے جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مدارس اور ائمہ مساجد کو تنخواہیں دینے کا اعلان کیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کی جماعت بلوچستان اور سندھ میں زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ اس بات کو دنیا جانتی ہے کہ خیبر پختونخواہ میں مفتی محمود نے اپنے لئے وزارت اعلیٰ بھی بلوچستان کے بل بوتے پر حاصل کی تھی اور جب اسٹیبلشمنٹ نے پہلی اور آخری مرتبہ بڑے پیمانے پر خیبرپختونخواہ میں علماء ومفتیان کو جتوادیا تھا تو پھر وزیراعلیٰ کیلئے مولانا فضل الرحمن کے پاس کوئی مولوی نہ تھا، اکرم خان درانی کو مختصر داڑھی رکھواکر وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھادیا گیا۔
وہ لوگ جو مولانا فضل الرحمن کے سیاسی مقابلے میں ہوتے تھے ، نواب قیذار خان کے صاحبزادے شفیع اللہ ،حاجی رمضان کے بیٹے اب جمعیت کی ٹیم میں شامل ہیں۔ مذہبی لبادے توہاتھی کے دانت دکھانے کے ہیں ، کھانے والے تو دوسرے سرمایہ دار ، جاگیردار اور وڈیرے ہیں۔ اگر مذہبی طبقات بھی درست اسلام پیش کریںگے تو اسلام اور مذہبی طبقات کا بول بالا ہوسکتاہے۔ اللہ نے فرمایاکہ ”اور(دیکھو) بے دل نہ ہونااور نہ کسی طرح کا غم کرنا،اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب رہوگے۔اور اگر تمہیں زخم لگاہے تو ان کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ ایمان والوں کو جدا وممتاز کردے اور تم میں سے گواہ بنائے اور اللہ بے انصافوں کو پسند نہیں کرتا”۔ (سورۂ آل عمران آیت139،140)
اللہ نے فرمایا کہ ” اے ایمان والو! بات کروبات سیدھی تواصلاح کردیگا تمہارے اعمال کی اور تمہارے گناہ معاف کردے گا”۔ جب تک اس اُمت میں درست بات کو اجاگر نہ کیا جائے تو بداعمالیوں کے بوجھ سے چھٹکارانہیں مل سکتا ہے۔ اب تو یہ لاعلاج بیماری لگتی ہے کہ دوسروں کی اصلاح پر توجہ دی جاتی ہے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی اور ہڈ حرامی نے ایک ایک شخص کے اعصاب پر قبضہ کرلیا ہے۔دنیا کی امامت کیلئے سب سے پہلے طہارت ضروری ہے۔اگر اپنی زیرِ جامہ غلاظت کی پپڑیوں سے استنجاء نہ کیا جائے تو پوری انسانیت کا نہیں دورکعت کا امام بھی کوئی نہیں بن سکتاہے۔

پاک سرزمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوچکا مگر علماء وعوام آمادہ ہوں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں میاں بیوی کے درمیان طلاق کے بعدباہمی اصلاح اورمعروف طریقے سے عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے لیکن باہمی اصلاح کے بغیر طلاق کے بعد عدت کے اندر بھی شوہر کو رجوع کی اجازت نہیں دی ہے اور ایسی صورت میں جب میاں بیوی طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے اصلاح پر آمادہ نہ ہوں تو چونکہ شوہر کی غیرت کا تقاضہ ہوتاہے کہ طلاق کے بعد بھی عورت اپنی مرضی سے کہیں شادی نہ کرلے ،اسلئے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا ہے کہ” طلاق کے بعد اس کیلئے حلال نہیںیہاں تک کہ وہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے ”۔جس طرح برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو طلاق دی اور پھر کسی اور سے اس کا تعلق برداشت نہ ہوسکا اور فرانس کے شہر پیرس میں قتل کردی گئی، جس کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔
افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مدارس کے علماء ومفتیان قرآن وسنت کے صریح احکام کے برعکس باہمی رضامندی کے باوجود بھی حلالہ کی لعنت کا فتویٰ دیتے ہیں۔جس طرح آج سودی نظام کو اسلامی نظام کے نام سے جائز قرار دیا گیاہے۔ آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے فقہ کی کتابوں میں حلالہ کی لعنت کو سندِ جواز بلکہ کارِ ثواب قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے عورت کی جان چھڑانے کیلئے جو کارنامہ انجام دیا تھا جو قرآن کی آیات اور حضرت عمر کے فیصلے اور ائمہ اربعہ کے فتوے سے ثابت ہے وہ علماء ومفتیان نے بالکل خلافِ فطرت وبال جان اور زوالِ اسلام بنادیا ہے۔اسلام نے مسلمانوں کو جس جہالت سے نکالا تھا، فقہاء نے مسلمانوں کو پھر بدترین قسم کی جہالتوں کی طرف دھکیل دیا ہے۔ شادی شدہ عورتوں کی اسلام کے نام پرحلالہ کی لعنت کے عنوان سے مدارس میں عصمت دری سے بڑی غضبناک بات کیا ہوسکتی ہے؟۔معاشرے میں عصمت دری کے واقعات کی روک تھام کیلئے گمراہی کے قلعوں مدارس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔حلالہ کی لعنت میں منہ پر کالک ملنے والے مذہبی لبادوں میں ملبوس شیاطین الانس بچوں اور بچیوں کیساتھ درندگی سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔جب تک اسلام کا درست تصور پیش نہ کیا جائے تو بدکردار قسم کے لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے اسلام کے نام پر معاشرے کی شرافت کو اپنی بداخلاقی کی بھینٹ چڑھاتے رہیںگے ۔
پاکستان کی حکومت ، ریاست ، صحافت اور اپوزیشن بندگلی میںبری طرح پھنس چکے ہیں۔دن دیہاڑے مجید اچکزئی نے کیمرے کے سامنے ٹریفک کے غریب سارجنٹ کو کچل دیا، تمام میڈیا چینلوں نے دکھا دیا۔ مجیداچکزئی کے پیچھے ریاست نہیں کھڑی تھی لیکن عدالت نے عدمِ ثبوت کی بناء پر رہا کردیا۔ کیا ہزارہ برادری کے10مقتولین کے قاتلوں کو سزا ملے گی؟ جس کی ایف آئی آر بھی30گھنٹے تک اسلئے درج نہیں ہوسکی کہ پولیس اور لیویز کے ایریا کا تنازعہ تھا۔ میاں نوازشریف پر1995,96ء میں لندن فلیٹ کا کیس بن گیا۔ پرویزمشرف کے دور میں عدالت نے سزا سنائی۔ پھر عدالت نے جلاوطنی کے بعد بری کردیا۔ پھر میاں نوازشریف نے پارلیمنٹ میں خطاب کیا کہ الحمدللہ 2005ء میں سعودیہ مل کی وسیع اراضی اور دبئی مل بیچ کر 2006ء میں یہ لندن فلیٹ خرید لئے جسکے تمام دستاویزی ثبوت موجود ہیں جو عدالت میں پیش کرسکتا ہوں پھر پانامہ لیکس کی وجہ سے عدالت نے طلب کیا تو وہ دستاویزی ثبوت پیش کرنے کے بجائے قطری خط لکھ دیا پھر قطری خط سے مکر گیامگر عدالت نے اقامہ پر نااہل قرار دیا۔ سزا کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے عدالت کے ڈر سے چھوڑ دیا کیونکہ ایمرجنسی عدالت نے باہر جانے کا حکم دیا اور وزیراعظم کو یہ سمجھ نہیں آیاکہ عدالت نے چھوڑا یا خود چھوڑنے کا فیصلہ کیا ؟ ،ایک دن اتوار کو اسلئے چھٹی بھی منالی تھی۔ ریاست کے اس نظام سے کسی عام آدمی کو انصاف کی توقع نہیں ،البتہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے سب کی جان نکل رہی ہے۔ اگر ملاؤںنے آذانیں دینااور ہارن بجانے سے احتجاج کیا تو بھی حکومت چھٹی کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔

مہدی و دجال کا حدیث صحیحہ میں تصور مگر ڈاکٹر طاہرالقادری و مفتی محمد رفیع عثمانی وغیرہ نے بڑا مغالطہ دیاہے

مہدی و دجال کا وہ تصورجو حدیث صحیحہ میں ہے مگر ڈاکٹر طاہرالقادری و مفتی محمد رفیع عثمانی وغیرہ نے بڑا مغالطہ دیاہے،قرآن سے استفادہ ہدایت ہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے بھائی مفتی اعظم مفتی محمد رفیع عثمانی نے بیان دیا کہ ”شیعہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں جو تعمیرِ پاکستان میں ہمارے ساتھ تھے۔ ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگانا چاہیے” جس پر کالعدم سپاہ صحابہ جماعت اہلسنت کے مولانا احمد لدھیانوی اورمولانا منظور مینگل نے سخت ردِ عمل دیا۔ پھر جب علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال پر مولانا منظور مینگل نے کہا کہ ”ہمارے علماء دیوبند کی آنکھیں نیچی ہیں اور علامہ خادم حسین رضوی نے ختم نبوت وناموسِ رسالت کیلئے قربانی دی ہے ” تو مفتی زرولی خان نے کہا کہ ”جب ہم حج پر جاتے ہیںتو اللھم لبیککہتے ہیں ۔یہ جاہل لبییک یارسول اللہ کہتا ہے۔ دیوبند کی آنکھیں اور ٹانگیں بھی اوپر ہیں۔ جس نے خادم رضوی کی مغفرت کیلئے دعا کی وہ نکاح کی تجدید کرے”۔
مولانا منظور مینگل نے مفتی رفیع عثمانی پر چڑھائی کی اور اسکا بدلہ مفتی زر ولی خان سے پالیا۔ مولانا مینگل سے پہلے مولانا فضل الرحمن نے علامہ خادم حسین رضوی کے درجات کی بلندی کیلئے پشاورپی ڈی ایم کے جلسے میں دعا مانگی تھی لیکن پانی سے اللہ نے ہر جاندار کو پیدا کیا ہے اور پانی کی فطرت یہ ہے کہ وہ کمزور جگہ پر چڑھائی کرتا ہے۔ جب سپاہ صحابہ کے بانی مولانا حق نواز جھنگوی جمعیت علماء اسلام ف پنجاب کے نائب امیر تھے تو جمعیت کے پلیٹ فارم سے کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔ جب سپاہ صحابہ مضبوط ہوگئی تو مولانا فضل الرحمن پر کافر کا فتویٰ لگانے کیلئے نعرہ لگایا کہ ” کافر کافر شیعہ کافر ، جو نہ بولے وہ بھی کافر”۔ اگر سعودی عرب حرم کی حدود میں شیعہ کو داخل ہونے دیتے تھے ، حالانکہ وہاں کافروں کا داخلہ ممنوع ہے تو سعودی حکمران مسلمان مگر مولانا فضل الرحمن کافر؟”۔
مولانا محمد منظور نعمانی نے سعودیہ سے پیسہ لیکر شیعہ پر پاکستان کے علماء ومفتیان سے فتویٰ لگوایا۔ حالانکہ اس کا آغاز انکے اپنے ملک ہندوستان کے دارالعلوم دیوبند سے ہوسکتا تھا لیکن شاید بھارت کی خفیہ ایجنسی سازش کو پکڑ لینے میں کامیاب ہوتی کہ پیسوں کے ذریعے بھارتی شہریوں کو لڑایا جارہاہے۔ وزیراعظم عمران خان کا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر چل رہاہے ۔اے آر وائی کے کاشف عباسی سے کہا کہ” سپاہ صحابہ والے میرے پاس آگئے کہ شیعہ سے ہماری صلح کراؤ۔ آئی ایس آئی نے ہمیں ان سے لڑادیا ”۔ پاکستان کو سعودیہ نے اللہ واسطے مدد نہیں دینی تھی جو ملازم ، مزدور اور تاجروں کا پیسہ بھی ہڑپ کرجاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ اچھی نہیں اسلئے اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ علماء بھی حق کیلئے کبھی نہیں اٹھتے ہیں۔ عوام بے شعور نہیں بلکہ مفادات کے جہالتوں کے مارے ہوئے ہیں۔
بریلوی مکتبۂ فکر کے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی امید انقلاب تھی اورامام مہدی کی آمد سے مایوس ہوگئے۔ تو احادیث کا ذخیرہ اٹھاکربیان جاری کیا کہ ”امام مہدی کی آمد پونے آٹھ سوسال بعد(2004)ہجری میں ہوگی”۔
حدیث میںدو سو (200)سال کا ذکر ہے۔ بنو امیہ کے بعد بنو عباس کے دور میں مہدی نام اسلئے رکھا گیا کہ امام بننے میں آسانی ہو۔ ایک روایت ہے کہ مہدی عباس کی اولاد سے ہوگا۔ عمر بن العزیز کا تعلق بنی امیہ سے تھا تو اس پر بھی گمان نہیں مہدی کا اطلاق کیا گیا لیکن پھر یہ کہہ کر اس کی تردید کی گئی کہ اگرچہ مہدی یہ بھی ہیں لیکن اصل مہدی آئیںگے تو پوری دنیا میں عدل قائم ہوگا اور اس دور میں ایسا نہیں ہوا۔ اہلسنت خلافت راشدہ پر مہدی کا اطلاق کرتے ہیں خلفاء راشدین کو مہدیین کہتے ہیں۔ جو مہدی کی جمع ہے۔ یعنی حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی سب مہدی تھے۔ نبی ۖ نے فرمایا علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین” تم پر میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کی اتباع لازم ہے” اور اس صحیح حدیث کو علماء جمعہ کے خطبات میں پڑھتے ہیں۔
اوریا مقبول جان نے احادیث اور علم الاعداد کی بہت ساری پیش گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنا بیان ریکارڈ کیا ہے کہ” 2021 کے شروع میں عرب وایران پر اللہ کے عذاب کا اندیشہ ہے اور ٹرمپ جاتے جاتے دھماکہ کرسکتا ہے اور2021 میں امام مہدی کا ظہور بھی ہوسکتا ہے”۔
جب دو سو (200)سال نکلنے کے کافی عرصہ بعد علماء مہدی کے ظہور سے مایوس ہوگئے توحدیث کی تشریح ہزار سال کے بعددو سو (200)سال گزرنے سے کردی، پھرجب تیرہویں صدی کی آمد آمد ہوئی تو امام مہدی کے ظہور کی باتیں پھر سے شروع ہوگئیں، شاہ ولی اللہ نے لکھ دیا کہ” مہدی نکلنے کیلئے تیار ہیں”۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنے مرشد سید احمد بریلویکو مہدی قرار دیا اور کتاب ”منصبِ امامت ” لکھ دی، مدینہ کے علاوہ خراسان سے بھی ایک دوسرے مہدی کا حوالہ دیا اور پشاور سے خلافت کے قیام کی جدوجہد شروع کردی تھی۔ تحریک کی ناکامی کے باوجود کئی عقیدتمندسمجھتے تھے کہ سید احمد بریلوی غائب ہیں، دوبارہ آکر قیام کرینگے۔ 1970میں ایک عورت نے اپنی شرمگاہ میں آلہ رکھ کر دعویٰ کیا کہ اسکے پیٹ میں مہدی ہیں۔ پاکستان ودیگر اسلامی ممالک نے سرکاری دوروں کی دعوت دی۔ مولانا احتشام الحق تھانوی ومولانا محمدشفیع اوکاڑوی نے مہدی ہونے کی تصدیق کی ۔ لاکھوں افراد کیساتھ مل کر اس عورت کے پیچھے نماز پڑھ لی ۔ جناح ہسپتال کراچی کے ڈاکٹروں نے اس عورت کا فریب پکڑ لیا اور اس نے اعتراف کیا کہ سستی شہرت کیلئے دعویٰ کیا۔
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری ، مفتی محمد رفیع عثمانی اور مفتی نظام الدین شامزئی نے مہدی کے حوالے سے احادیث درج کی ہیں جس مہدی کے بعد قحطانی امیر کا ذکر ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری اور مفتی رفیع عثمانی نے اپنی اپنی کتاب میں علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب ”الحاوی للفتاویٰ” کے حوالے سے یہ حدیث بھی نقل کی کہ ” مہدی کے بعد قحطانی امیر ہونگے مہدی کے بعد سوراخ دار کانوں والے قحطانی امیر چالیس سال تک رہیںگے۔ پھر آخری امیر مہدی آئیںگے جو نیک سیرة ہونگے”۔ ہم نے کئی دفعہ اپنی تحریرات میں مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور مفتی رفیع عثمانی اس حدیث کی درست وضاحت کریں کہ قحطانی امیر سے پہلے اور قحطانی امیر کے بعد والے ان دونوں مہدیوں میں کیا فرق ہے؟۔ لیکن یہ دونوں گونگے شیطان بن کر حق کی آواز بولنے کی ہمت نہیں کرسکے ہیں۔
روایات میں قحطانی امیر سے منصور مراد لیا گیا جو عدل میں مہدی کی طرح ہونگے۔ مولانا یوسف بنوری کا شاگرد اپنی کتاب میں مہدی کے حوالے سے بڑی تفصیلات سے لکھتا ہے کہ ” مہدی کے بعد انقلابات آئیںگے اور پھر منصور ہونگے” ۔ منصور سے مراد ملا عمر ہیں۔ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاد مولانا محمد ہمیں منطق کی کتاب ”قطبی” پڑھاتے تھے۔ جب کسی بات کا جواب آگے آنا ہوتا تھا اور کوئی طالب علم سوال کرتا تو کہتے کہ ” کیماڑی ابھی آئی نہیںاور تو نے نیٹی جیٹی پر شلوار اتار دی”۔مہدی کی آمد سے پہلے منصور مراد لینا کونسی علمی دانش ہے۔
الحاوی للفتاویٰ میں علامہ جلال الدین سیوطی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” احادیث میں بارہ امام کا ذکر ہے جس میں سے کوئی ایک بھی ابھی تک نہیں آیا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا”۔ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے اپنی کتاب ”تصفیہ ما بین شیعہ وسنی ” میں لکھ دیا کہ بارہ اماموں کا احادیث میں ذکر ہے جو ابھی تک نہیں آئے۔ مشکوٰة کی شرح مظاہر حق میں واضح ہے کہ ان بارہ اماموں کا تعلق حضرت حسن اور حضرت حسین کی اولاد سے ہوگا۔ پہلے چھ افراد امام حسن اور پھر پانچ افراد امام حسین کی اولاد سے ہوںگے۔ آخری شخص پھر حسن کی اولاد سے ہوگا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری امام سے فرمائیںگے کہ ” نماز کی امامت خود کرو، اسلئے کہ آپ بعض میں سے بعض کیلئے امام ہو” تو اسکا مطلب یہ ہوگاکہ اس سے پہلے امت میں انتشار کا نہیں امامت کا دورہوگا۔
شیعہ بھی یہ حدیث مانتے ہیں کہ ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جسکے اول میں میں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ”۔ شیعہ عالم دین نے اپنی کتاب ” الصراط السوی فی احوال المہدی” میں لکھ دیا کہ ” درمیانہ زمانہ کے مہدی سے ہوسکتا ہے کہ عباس کی اولادکا مہدی مراد ہوں”۔ حالانکہ اس مہدی کا تو بڑا مرکزی کردار ہوگا۔ ہلاکت سے بچنے کیلئے وہ ثالث ثلاثہ تین افراد میں تیسرے ہونگے۔ پہلے دور میں ہلاکت سے بچنے کاسبب رسول اللہۖ پھر درمیانہ زمانے میں ہلاکت سے بچنے کا ذریعہ مہدی اور آخر میں حضرت عیسیٰ ہلاکت سے بچنے کا ذریعہ ہونگے۔
الصراط السوی فی احوال مہدی میں یہ راویت بھی نقل کی گئی ہے کہ ” مہدی کے بعد گیارہ افراد اور آئیںگے جو حکومت کریںگے” اور اس پر شیعہ عالم نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر یہ درست مان لی جائے تو پھر اس کا آخری امیر ہونا آخری نہیں رہے گا۔ حالانکہ اگر درمیانے زمانہ سے حقائق کو تسلیم کیا جائے تو پھر یہ تشویش بے معنی رہ جاتی ہے۔ مہدی کے حوالے سے علامہ بدرعالم میرٹھی نے اپنی کتاب ” ترجمان السنة” میں جو جاندار حاشیہ لکھ دیا ہے اور اس کو مفتی نظام الدین شامزئی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مولانا یوسف لدھیانوی نے اسکی تائید کردی ہے ۔ وہ کمال کا حاشیہ ہے جو ہٹ دھرموں کی ہٹ دھرمی ختم کرنے کیلئے بہترین بنیاد بھی ہے۔
بعض علماء نے ملاعمر کو خراسان کا مہدی بھی قرار دیا ہے تو مولانا فضل الرحمن نے طالبان کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” مجھ سے پہلے جو بھی نبی آیا ، اس نے دجال سے اپنی امت کو متنبہ کیا اور میں تمہیں تنبیہ کررہاہوں۔ ہوسکتا ہے کہ دجال آئے تو تم اس کو پہچان نہ سکو، بیشک دجال تم سے ہے اور اللہ اس کو پہچانتا ہے۔وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی دوسری آنکھ انگور کے دانے کی طرح ابھری ہوئی ہوگی۔تمہارے مال، جان اور عزت کی حرمت ایسی ہے جیسے آج کے دن (یوم عرفہ) کی حرمت اس مہینے (ذی الحج )میںاور اس شہر (مکہ) میں ہے۔خبردار میرے بعد کافرنہ بن جانا کہ تم ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ (آخری خطبہ)
دجل کا معنیٰ فریب ہے۔ طالبان نے جس طرح کی دہشت گردی کرکے مسلمانوں کی جان، مال اور عزتوں کی حرمت ختم کردی تھی جب تک وہ ایسا نہ کرتے تو کوئی بھی ان کو دجالی لشکر نہیں قرار دے سکتا تھا۔ ابن ماجہ میں ابوبکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ خراسان کی طرف سے دجال آئیگا، اس کی اتباع ایسی قومیں کریں گی جن کے چہرے کمان کی طرح گول اور ہتھوڑے کی طرح لمبوترے ہونگے۔ ازبک اور پٹھانوں نے دجالی لشکر بن کر جس طرح کی تباہی مچائی تھی ، مسلمانوں کی جان، مال اور عزتوں کی حرمت ختم کردی تھی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے اور لوگ اس دجل کو سمجھنے سے قاصر تھے یابڑا خوف تھا اسلئے اس کا اظہار بھی نہیں کرسکتے تھے۔
علامہ طالب جوہری نے مہدی کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ” دجال مشرق سے نکلے گا اور اسکے مقابلے میں حسن کی اولاد سے ایک شخص ہوگا۔ اس روایت میں دجال سے مراد معروف دجال نہیں بلکہ دوسرا دجال ہے اور بعض روایات میں اسکے مقابلے میں حسین کی اولاد سے تعلق ہونے کا ذکر ہے لیکن حسن کی اولاد کے حوالہ سے تفصیلات ہیں۔ اس سے مراد سید گیلانی ہیں”۔
علامہ طالب جوہری کا تعلق اہل تشیع سے تھا اور کتاب کی اشاعت 1987ء میں ہوئی تھی۔سنی شیعہ علماء مل بیٹھ کر امت کے سامنے اتحاد واتفاق اور وحدت کا نقشہ پیش کریں۔ ہمارے نقش انقلاب کی ڈاکٹر اسرار احمد کے علاوہ بریلوی دیوبندی بہت سے علماء کرام نے تائید کی ہے لیکن کسی نے آج تک اس کی تردید نہیں کی ہے۔ 1991ء کی دہائی سے مسلسل ہم یہ نقش انقلاب پیش کررہے ہیں۔
جب الطاف حسین پر لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے چھاپہ پڑگیا تو بڑے پیمانے پر نقد پیسے برآمد ہوئے ۔ ایم کیوایم نے چندوں کی رسیدیں بناکر جمع کردیں اور معاملہ ختم ہوگیا۔ مولانا فضل الرحمن پر نیب کے الزامات کیسے ثابت ہونگے جبکہ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں جھوٹی تقریر اور قطری خط لکھ کر مکر جانے کے باوجود اقامہ پر سزا کھائی ہے؟۔ ہماری عدالتیں مجرم کو سزا نہیں دے سکتی ہیں، نیب پر کسی کا بھی کوئی اعتماد نہیں ہے۔البتہ علمی بنیاد پر انقلاب آئے گا۔
حکومت اور ہماری ریاست اگر اسلام اور مدینہ منورہ کی ریاست سے مخلص ہیں تو پھر علمی میدان میں پہلے کام کرنا ہوگا۔ حال ہی میں تحفظ مساجدمدارس کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام کے مولانا غفور حیدری کے ساتھ قاری محمد حنیف جالندھری ترجمان وفاق المدارس پاکستان نے کہا کہ ” پاکستان کی عدلیہ میں عائلی قوانین میں خلع کا حق غیراسلامی ہے۔ ہم اس کیلئے تحریک چلائیںگے”۔
جاہل عوام کو جاہل مذہبی طبقات نے سڑکوں پر نکال لیا تو ریاست و حکومت کیلئے وہ مشکلات پیدا ہونگی جسکا تصور بھی مشکل ہوگا۔ میں نے اپنی کتاب” عورت کے حقوق” میں نہ صرف طلاق و خلع کی وضاحت کی ہے بلکہ علماء کے نصاب ”درسِ نظامی” میں قرآنی آیات کے حوالے بہت واضح احمقانہ غلطیوں کی بھی زبردست نشاندہی کردی ہے۔
قرآن میں خلع کا ذکر آیت انیس(19)سورۂ النساء میں ہے لیکن علماء آیت229البقرہ میں تین طلاق کے بعد کے حکم سے خلع مراد لیتے ہیں۔ آیت کی درست تفسیر بھی ان سے نہیں ہوسکتی ہے۔اسلامی نظریانی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز صاحب، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی، جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی اور دارالعلوم کراچی سمیت ملک بھر سے ذمہ دار ومخلص علماء کرام اور دانشوروں کی ٹیم تشکیل دی جائے تو نتائج نکلنے میں وقت نہیں لگے گا۔مولانا عبدالغفور حیدری نے تحفظ مساجدمدارس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” حلف نامہ میں ترمیمی بل کی سازش کامیاب ہوگئی تھی۔ قومی اسمبلی سے بھی یہ بل پاس ہوگیا۔ جب سینیٹ میں پاس ہونے کیلئے پیش ہورہاتھا تو چیئرمین موجود نہیں تھا اسلئے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے میری صدارت ہی میں یہ بل پاس ہونے کیلئے پیش ہورہاتھا۔ مجھے خوف تھا کہ ویسے تو یہ بل پاس ہوجاتا تو بھی بڑی بات نہیں تھی اس لئے کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی پاس ہوجاتا مگر میری صدارت میں پاس ہوجاتا تو پھر کیا ہوتا؟۔ پھرجب سینیٹ میں رائے شماری ہوئی تو بل پاس نہیں ہوا۔ جس پر حکومت نے حلف میں ترمیم کے بل کو مشترکہ اجلاس میں پیش کیاتھا۔ مولانا غفور حیدری کی اس تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیرداخلہ شیخ رشید کی بات سوفیصد درست تھی کہ اس جرم میں جمعیت علماء اسلام بھی مکمل طور سے شریک تھی۔
مولانا غفور حیدری کو معلوم تھا کہ قومی اسمبلی سے یہ بل پاس ہوا اور سینیٹ سے بھی پاس ہوجائیگا لیکن اس کی اپنی صدارت میں یہ کارنامہ نہ ہو۔ اگر پتہ نہیں تھا تو خوف کس بات کا تھا ؟ اور پتہ تھا تو اپنی صدارت میں رائے شماری کی سازش کیسے کامیاب ہونے دی؟۔ شیخ رشید وہ واحد شخص تھا جو پکار پکار کرکہہ رہاتھا کہ جمعیت علماء اسلام والو! تم ختم نبوت کیخلاف سازش پر خاموش کیوں ہو؟، سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو کیا منہ دکھاؤگے؟۔ پھر جماعت اسلامی نے بھی آواز اُٹھائی۔ پھر فیض آباد دھرنے کے نتیجے میں وہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں متعلقہ وزیر کو فارغ کیا گیا۔
جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری عبدالغفور حیدری اپنے بیان میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ نیب کا قانون متنازعہ ہے لیکن اسلام کو تحفظ دینے کے بجائے اس کیخلاف سازش میں شریک ہونے کا جرم کتنی گھناؤنی بات ہے؟۔ مولانا منظور مینگل نے ٹھیک کہا تھا کہ علامہ خادم حسین رضوی بازی جیت گئے ،علماء دیوبند کی آنکھیں نیچی ہیں۔ عائلی قوانین اسلام کے مطابق ہیں یا نہیں لیکن اس بات کی نشاندہی موجود ہے کہ مولوی کے اسلام کے خلاف ہیں پھر ایوب خان پر مفتی محمود نے اعتراض کیوں نہ کیا؟ الزام یہ ہے کہ مفتی محمود نے ایک لاکھ کی رقم ایوب خان سے وصول کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی ، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کو بطور رشوت ایک ایک پلاٹ اسلام آباد میں دینے کی پیشکش کی تھی تو جمعیت علماء اسلام کے مولانا غلام غوث ہزاروی اور مفتی محمود کے علاوہ کسی نے بھی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا ۔ جمعیت علماء اسلام ٹانک کے ضلعی امیر مولانا عبدالرؤف گل امام نے مجھ سے کہاتھا کہ ”مولانا فضل الرحمن کی آپ نے پہچان کرائی ، اسکے والد بھی یہی چیز تھے۔ پہلے ہمیں اسلام آباد میں پلاٹ لینے پر برا لگا تھا لیکن ہم نے سوچا کہ اکابر ہیں بہتر سمجھتے ہیں”۔مولانا فضل الرحمن اور مفتی محمود اچھے انسان مگر فرشتے نہیں، کمزوریاں سب میں ہیں۔
حامد میر کے پروگرام میں انصار عباسی نے مولانا راشد محمود سومرو کے سامنے پرویزمشرف کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو زمینیں دینے کا انکشاف کیا تھا لیکن انصار عباسی کو گھر تک شہبازشریف نے روڈ بناکر دیا ہے اسلئے وہ اس وقت مولانا کے خلاف میدان میں آئیںگے جب نوازشریف اور شہباز شریف کی طرف سے اشارہ ہوگا۔
ہمارا اصل ہدف اسلام کے احکام سے مفاد پرستی کے دھبے ختم کرنا ہیں اور اب اس کا زبردست وقت آچکا ہے۔ حکومت مشکلات میں ہے۔ پی ڈی ایم (PDM)نے19جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا ہے اور علامہ سعد رضوی نے فرانس کا سفیر نکالنے کیلئے17جنوری ڈیڈ لائن مقرر کی ہے۔ سندھ، بلوچستان، پختونخواہ کے بعد پنجاب میں بھی بغاوت کا جذبہ اُٹھ چکا ہے ۔ مسئلہ عمران خان کا نہیں وہ تو پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ ہے۔

جمعیت علماء اسلام ہے یایہ جمعیت جہلاء بے ایمان؟؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جب ہندوستان کو انگریز چھوڑ کر اپنی جان چھڑا رہا تھا تو جمعیت علماء ہند نے متحدہ ہندوستان میں کانگریس کیلئے بی (B)ٹیم کا کردار ادا کیا۔ اور جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کیلئے بی (B)ٹیم کا کردار ادا کیا تھا۔ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی جمعیت علماء ہند کے صدر اور مہاتماگاندھی کے دُم چھلہ تھے۔ شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی قائداعظم محمد علی جناح کے دم چھلہ تھے۔ کوئی ہندوؤں کا دُم چھلہ اور کوئی شیعہ کا دُم چھلہ۔کیا علماء میں امامت کی اہلیت نہیں تھی؟۔ پاکستان میں جب جمعیت علماء ہند والے جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوگئے تو جمعیت علماء ہند والوں نے جمعیت علماء اسلام والوں کو اسلئے پچھاڑ دیا کہ ایکدوسرے پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ امارت ایسی بلا ہے جس نے تبلیغی جماعت کو بھی سرکٹی لاش بنادیا ۔انصار ومہاجرین اورقریش واہلبیت کو قرون اولیٰ کے ادوار میں بھی فتنوں کا شکار کردیا ۔ دارالعلوم دیوبند بھی تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کا سیاسی نظام فردوس عاشق اعوان ، فیاض الحسن چوہان ، عمران خان ،شبلی فراز اور مراد سعید سے چلنے والا نہیں۔ لال کرتیوں والے فوج کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتے اور لال حویلی والا شیخ رشید کس قسم کا بندہ ہے جتنی پارٹیاں بدلی ہیں کیا جی ایچ کیو (GHQ)کے گیٹ نمبرچار(4)کیلئے بدلی ہیں؟۔اور اب پانچ (5)نمبر پر ہے؟۔
نظام کی تبدیلی میں اہم چیز عقیدے اورنظرئیے کیلئے افکار کا کردار ہوتا ہے۔ بھارت نے بغل میں چھرا اور منہ میں رام رام کا کردار ادا کرتے ہوئے سیکولر حکومت قائم کی تو متعصب ہندو کا نشانہ بن کرگاندھی قتل ہوگیا۔ پاکستان اسلام کے نام بنا تھا لیکن مدارس کا نصابِ تعلیم اسلامی تو بہت دور کی بات ہے بدترین درجے کا کافرانہ ہے۔ قصر ناز کراچی میں مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا عطاء الرحمن سے اپنی ملاقات کا حال لکھ چکا ہوں۔ پاکستان کا مذاق اُڑانے والوں سے مدارس کے نصاب میں قرآن کی تحریف کا حوالہ دیا تو مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ ”بھوکے کو روٹی نہیں مل رہی تھی تو سادہ آدمی کہنے لگا کہ پھر وہ پراٹھے کیوں نہیں کھاتا؟۔ ہم پاکستان کا رونا رو رہے تھے اور اس نے اپنا مطلب بھی حاصل کرلیا”۔ مولوی مدارس کے نصاب پر بات کرنے سے بھی بھاگ رہا ہو تو وہ کسی دوسرے کا دُم چھلہ نہیں بنے گا تو اور کیا کرے گا؟۔ ہماری چاہت ہے کہ پاکستان کا غیر اسلامی نظام بدلے اور اسلامی نظام نافذ ہوجائے۔یہ مارشل لاء کی پیداوار کٹھ پتلی سیاستدانوں اور کسی مولوی کا کام نہیں ہے۔ ان کو حصہ بقدر جثہ چاہیے اور اسی پر ان کی لڑائی ہے۔
ایک غریب پنجابی ، سندھی ، پشتون اور بلوچ کو کروڑوں روپے دیدو تو وہ کبھی اپنی بہن، بیٹی، بہو اور ماں کو مریم نواز کی طرح میک اپ کرکے مردوں کے اسٹیج پر نہیں چڑھائے گا۔ مسئلہ پنجابی اور پختون کا نہیں ہے، بیگم نسیم ولی کس زمانے میں یہ سیاست کرتی تھی؟۔ بشریٰ گوہر نے کس کٹ کے بال رکھے ہیں؟۔ ہمیں عورت پر اعتراض نہیں کہ سیاسی کردار کیوں ادا کرتی ہے؟۔ بلکہ پنجابی پختون تعصب کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ فرعون کی بیگم حضرت آسیہ علیہا السلام کتنی بہادر خاتون تھی ؟جس نے اپنے بادشاہ شوہر کے خلاف مظلوموں اور حق کا ساتھ دیا اور حضرت نوح و لوط کی بیگمات ظالموں کیساتھ تھیں اسلئے مردوں اور عورت کا مسئلہ بھی نہیں۔ حضرت مریم نے بھی اپنا کردار ادا کیا اورام المؤمنین حضرت عائشہنے حضرت عثمان کی شہادت کے بعد اور حضرت زینبدختر علی نے بھی کربلا کے بعد اپنا کردار ادا کیا تھا۔
اسلام وہ عظیم دین ہے کہ حضرت عائشہ پر بدکاری کا بدترین بہتان لگا تھا تو بہتان لگانے والوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بجائے اسی اسی (80، 80)کوڑے کی سزادی گئی اور اگر کسی عام جھاڑو کش عورت پر بھی یہی بہتان لگتا تو یہی سزا دی جاتی۔ آج پاکستان میں غریب کیساتھ کیا ہوتا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیںرینگتی ہے مگر جب مریم نواز کے شوہر کو پی سی (PC)ہوٹل کراچی سے گرفتار کیا گیا توسندھ پولیس احتجاجاً چھٹی پر چلی گئی۔ فوج نے اپنے افسروں کے خلاف کاروائی کی ۔ قائداعظم کے مزار کا غم ہوتا تو اے آر وائی (ARY)کے اقرار الحسن نے اپنے پروگرام میں کتنا شرمناک معاملہ پیش کیا لیکن کوئی جنرل جذباتی نہیں ہوا۔ سیاست کے جذبات ایسے ہوتے ہیں جیسے غیر سیاسی بچے سردی میں منہ سے نکلنے والے بخارات کو مزے سے سگریٹ کا دھواں قرار دیتے ہیں۔ مولانا محمد خان شیرانی کی بات درست ہے کہ سچوں کیساتھ ہوجاؤ یہ قرآن کا حکم ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ پر سب تگنی کا ناچ عوام کو نچارہے ہیں۔
مولوی اور پٹھان کے علاوہ سندھی، بلوچ اور پنجابی کی بھی یہ فطرت ہے کہ وہ عزت کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہندوستان اور مہاجروں سمیت یہ دنیا کا دستور ہے کہ عزت ہر چیز پر مقدم ہوتی ہے۔ لاڑکانہ چلو نہیں تو تھانہ چلو میں اداکارہ نے بھٹو کے شاہی مہمانوں کیلئے گیت نہیں گایا تھا تو حبیب جالب نے نظم لکھ ڈالی۔ اگر پاکستان سے ہتک عزت کا یہ قانون ختم کیا جائے کہ کرپٹ لوگوں کی عزت اس ملک کے قانون اور عدالتی نظام کے مطابق اربوں میں ہو اور غریب کی عزت ٹکے کی بھی نہ ہو تو اس ملک کو اس کا اپنا نظام دیمک کی طرح چاٹ لے گا۔اس کھوکھلے نظام کو اپنی روح کے مطابق زندہ دفن کرنے کیلئے اسلامی نظام کی ضرورت ہے اور علماء ، طلباء اور مدارس کا اسلامی نظام نہیں جسے یہ خود دیمک کی طرح چاٹ چکے ہیں بلکہ قرآن وحدیث کے مطابق ۔ غلام احمد پرویز نے صرف احادیث کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ تعلیم یافتہ لوگوں میں جہالت کی روح پھونک دی تھی کہ قرآن میں بہتان کی سزا حضرت عائشہ کے حوالے سے بخاری ومسلم کی احادیث میں اہل تشیع کی ہی سازش ہے۔ حضرت عائشہ پر بہتان لگایا جاتا تو وہ صحابہ واجب القتل ہوتے۔ یہ حدیث کا انکار نہیں بلکہ قرآن کی روح اور مساوات کا بھی انکار ہے۔ قادیانی نبوت کا دعویدار کافر وگمراہ تھا جس نے قرآن وحدیث کی روح سے انکار کیا تھا اور اس کے دو گروہ بن گئے تھے لاہوری اس کو نبی نہیں مہدی مانتے تھے ، قادیانی نبی مانتے تھے۔ پرویز پر بھی علماء نے یہی فتویٰ لگایا تھا۔ پنجابی پرویزی بلوچستان کے ذکریوں کی طرح سے نماز نہیں پڑھتے اور نہ مانتے ہیں اور پٹھان پرویزی بھی نماز پڑھتے ہیں۔
علماء کی جان اسٹیبلشمنٹ اور بھٹو نے قادیانیوں سے چھڑائی ہے مگر پرویزی تو جاہلوں کی جان ہیں۔ چٹ بھی گمراہوں کی ہے اور پٹ بھی گمراہوں کی ہے ۔علماء استنجوں کے ڈھیلوں کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور پھینک دئیے جاتے ہیں اور انکا اپنا نصاب سب سے زیادہ گمراہی کا شکار ہے۔ اگر نصاب کو درست کرلیا اور عملی شکل دیدی تو قادیانیوں اور پرویزیوں کے علاوہ تمام مسلمان بھی رشد وہدایت پائیںگے اورمساجد کے ائمہ آسمان کے نیچے حدیث کے مطابق بدترین مخلوق نہیں ہونگے بلکہ بہترین مخلوق ہونگے، مقتدی گمراہ نہیں مہدی ہونگے۔ مدارس کے مفتی صاحبان نہ خود گمراہ ہونگے نہ پوچھنے والوں کو گمراہ کرینگے۔ پاکستان میں اسلامی نظام آجائے تو فوج بیرکوں میں خدمت انجام دیگی۔ اچھے سیاستدان سیاست کرینگے ۔ میڈیا فلاح وبہبود اور انسانیت کی خدمت کریگا۔ عدالتیں جلد سے جلد عوام کو انصاف فراہم کرینگی۔ پولیس لوٹ مار کی بجائے عوام کو تحفظ فراہم کریگی، سول بیوروکریسی عوام کا خون نچوڑنے کے بجائے خدمت کریگی اورپاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا۔ پڑوسی اور مختلف زبان اورمذہب والے ایک دوسرے سے محبت کریںگے۔دنیا میں پاکستان انسانیت کی امامت کریگااورسبھی خوشحال ہونگے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

پشتون تحفظ پی ٹی ایم (PTM)اور پی ڈی ایم (PDM)ایک راہ کے دومسافر

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
لاہور میںپی ڈی ایم (PDM)کا جلسہ ہوا تو اخترجان مینگل نے پاک فوج کو جس طرح چارج شیٹ کیا ، انگریز فوج سے بدتر قرار دیا ، واضح طور سے کہا کہ پاک فوج سے ہماری عزتیں محفوظ نہیں۔ لاڑکانہ جلسہ میں کریمہ بلوچ کے قتل اور پرویز مشرف کا حوالہ دیا کہ چوہدری نثار سے کہا تھا کہ الطاف حسین کو مار دیںگے اور ہمارا نام بھی نہیں آئے گا۔ اختر جان مینگل کی ابھی عمران حکومت کو چھوڑے ہوئے عدت بھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے جس طرح عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ ایجنٹ مرکز میں قرار دیا جاتا ہے اس سے بڑھ کر بلوچستان میں اختر جان مینگل کو بھی اسٹیبلشمنٹ کا پکا مہرہ سمجھا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق اور مفتی کفایت اللہ کی زبان میں پاک فوج کو سیاست سے بے دخل کرنے میں کوئی فرق نہیں ۔
عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں مولانا فضل الرحمن کے ڈیزل پرمٹ اور عمران خان کی طرف سے پیٹرول کو کنٹرول کرکے ذخیرہ اندوزی کے ذریعے سے پیسہ کمانے کا موازنہ کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد کا گھر دوستوں نے گفٹ کیا اور عمران خان کو بنی گالہ کا گھر بیوی نے جہیز میں دیا۔ ایک سابق وزیراعلیٰ کا بیٹا ہے اور دوسرا پنجاب کے پٹواری کا بیٹا ہے۔ ایک پر بی آر ٹی (BRT)پشاور میں اربوں اور دوسرے پر ٹانک پیزو روڈ میں کروڑوں کے غبن کا الزام ہے ۔ سائیکل کے چوروں کی طرح دونوں کا ریمانڈ لیا جائے تو عمران خان سے زیادہ پیسہ نکل آئے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکس ٹینشن غلط یا درست ملی لیکن پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے کھل کر ووٹ دئیے ہیں۔ فیصل واوڈا نے فوجی بوٹ میز پر رکھ دیا کہ چاٹ لیں۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی واضح کیا تھا کہ باجوہ کے ایکس ٹینشن کے خلاف نہیں ۔
اگر عدالت کے خلاف اصل تحریک پنجاب سے اُٹھے اور علامہ خادم حسین رضوی کو چھوڑ کر مولانا سمیع الحق کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔ پاک فوج کے خلاف مریم نواز اور نوازشریف سب سے بڑا خطرہ ہوں اور قربانی کا بکرا مولانا فضل الرحمن کو بنایا جائے تو عالمی قوتوں کے علاوہ مقامی باغی بھی سر اٹھائیںگے اور پاکستان کو قائم رکھنا بہت مشکل ہوگا۔آج پاک فوج کے حوالے سے لوگوں کے تیور بدل گئے ہیں۔ اختر مینگل کے بیانات پر ایک حرف بھی سوشل میڈیا میں ان لوگوں کی طرف سے نہیں آیا جن کا کام گیدڑوں کی آواز میں سارا دن رات چور مچائے شور ہے لیکن محمود خان اچکزئی کی طرف سے اہل لاہور پر تنقید کا تماشہ بنادیا گیا۔ لیگی جاوید ہاشمی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کیلئے قطب نما ہیں لیکن اس نے اچکزئی کی حمایت کردی ۔
بچپن میں یحییٰ خان و اندرا گاندھی کا تصور تھا تو میں ماحولیاتی ملی غیرت سے مجبور ہوکر گڈی گڈے کا مقابلہ کراتا تھا۔ گڈی کو اندرا گاندھی کے نام پر پتھروں سے خوب مارتا۔ یحییٰ خان کی وجہ سے گڈے سے بڑی محبت تھی ۔ پھر جوانی میں مولانا فضل الرحمن کی تقریر سن لی تو جنرل ضیاء الحق کا مخالف بن گیا، حتی کہ اس کا اسلام بھی قبول نہیں تھا کہ اسکا کام وردی میں اپنی ڈیوٹی دینا ہے۔ جب مفتی تقی عثمانی کے پیر ڈاکٹر عبدالحی کے جنازہ میں جنرل ضیاء الحق سے سامنا ہوا تو اینٹ ، پتھر اور مٹی کا ڈھیلہ نہیں ملا،ورنہ شاید اُٹھاکر ماردیتا۔ مٹی اُٹھاکر منہ پر پھینکنے سے اسلئے رُک گیا کہ جنازے کی بے حرمتی ہوجائے گی۔ جب نواز شریف کو پکڑ کر پرویزمشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تب بھی اپنے اخبار ضرب حق کے اداریہ میں لکھا کہ ”فوج کی تعلیم وتربیت دشمنوں سے نمٹنے کیلئے ہوتی ہے ،اپنوں سے سلوک کرنے کیلئے نہیں ہوتی۔ فوجی بیرکوں میں کہتے ہیں کہ فوجی وہ جانور ہے جو دن کوجنگل ، شام کو لنگر اور رات کو کمبل میں پایا جاتا ہے”۔ حالانکہ جمہوریت پسند مٹھایاں بانٹ رہے تھے۔ پی ٹی ایم (PTM) کا نعرہ پاکستان کے وکیلوں نے لگایا، ن لیگ والوں نے لگایا۔ اب اگرمولانا فضل الرحمن کو مار دیا گیا تو گلی کوچوں اور بازاروں میں فوج کے خلاف انقلاب آجائیگا۔
اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ فوج مخالف بیانیہ کی وجہ سے جو حشر بشیر بلور اور میاں افتخار حسین کے بیٹے کا ہوا، وہ ن لیگ کا بھی طالبان کردیںگے۔ شیخ رشید بھی یہ کہتا تھا مگر وہ وزیرریلوے تھا۔ جب پی ٹی ایم (PTM)کے علی وزیر کوسندھ حکومت نے گرفتار کیا تو باغی طالبان فیس بک پر پی ٹی ایم (PTM)کے ایکٹیوسٹوں کو طعنے دیتے تھے کہ احتجاج کرلو اور عدالت میں جاؤ۔پی ٹی ایم (PTM)کے رہنما گلہ شکوہ کررہے تھے کہ اے پی ایس (APS)پشاور کے بچوں کا قاتل احسان اللہ احسان چھوڑ دیا گیا حالانکہ سلیم صافی نے اس پر بڑااچھا پروگرام کیا۔ ہارون الرشید قسم کی مخلوق فوج کی طاقت پر نہیں گو پر پدو مارتے ہیں لیکن عوام کو حقائق نہیں بتاتے۔ ان سے تو سلیم صافی اچھا نکلا جس نے اچھا پروگرام کیا ہے۔
سرنڈر طالبان کو زبردستی قومی ترانہ گانے پرمجبور کرکے بہت اچھا کیا لیکن ان سے بہادری کی اُمید خام خیالی ہے۔ ان کو سلنڈر کہا جاتا ہے اور یہ طعنہ ان کی نسلوں کیلئے بھی کافی ہے ۔ دوسری طرف افغانستان میں بیٹھے طالبان بغاوت کا تمغہ اپنے اوپر نہیں سجاتے بلکہ ستر (70)سال سے پاکستان کو اسلامی نظام سے دور رکھنے کی بات کرتے ہیں اور بہت بڑا قصوروار فوج اور اسکے کٹھ پتلیوں کو قرار دیتے ہیں۔اگر سرنڈر مذہبی مجاہدین یا آلۂ کاروں کے ذریعے قوم پرستی کا جذبہ دبانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور قومی سیاسی قیادت کو بھی نشانہ بنایا گیا تو عوام میں نفرت بہت بڑھے گی اور پاکستان کی ریاست ناکام ہوجائے گی۔ ایک فوج کی قوت نہ ہو تب بھی ریاست کا نظام ہمارے کرپٹ سول بیوروکریسی، عدلیہ، پولیس اور انتظامیہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ مصنوعی مجاہدین اور مصنوعی سیاسی ستاروں کا نظام بری طرح پٹ چکا۔
ایک بات جملہ معترضہ کی طرح لکھ دیتا ہوں کہ جنوبی وزیرستان میں محسود قوم کو زیادہ قربانی کا بکرا بننا پڑا ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ جنوبی وزیرستان میںوزیر قوم نے طالبان کا زیادہ ساتھ دینے کے باوجود اس کا غلط فائدہ نہیں اُٹھایا۔ کسی بھی پڑوسی کو انہوں نے تکلیف نہیں پہنچائی جبکہ محسود قوم کے طالبان نے بیٹنی قوم کے علاوہ پورے پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے سب سے زیادہ نقصان سب کو پہنچایا ہے۔ ہمیں بھی طالبان نے نقصان پہنچایا ہے اور ہمارے خاندان والوں نے بھی طالبان کو سب سے زیادہ سپورٹ دی تھی۔ جب تک اپنی غلطیوں کا بہت کھل کر اعتراف نہیں کیا جائے تو پھراگردہشتگردی کی فضاء قائم ہوگی تو زیادہ نقصان ہوگا۔
بلاول نے گلگت میں دھاندلی کے بعد پشاور جلسے میں آئی ایس آئی (ISI)کے دفتر آبپارہ اور لانگ مارچ کا رُخ بھی یہی بتایا ۔ ن لیگ والوں میں ہمت ہوتی تو اسلام آباد کے پہلے دھرنے میں مولانا کے پاس اپنے کارکنوں کو پہنچنے کیلئے کہتے ۔ خیر اس وقت نوازشریف کو ریلیف درکار تھی اور اب مریم نواز کی قلفی جم گئی ہے تب بھی اپنے خول سے باہر ہے۔ پنجاب کے جوان بہت بہادر ہوتے ہیں۔ احمد خان کھرل نے انگریز کا مقابلہ کیا ،اگر وہ وزیرستان کا باشندہ ہوتا تو رزمک سے وانا تک کیمپ اور روڈ بنانا انگریز کیلئے ممکن نہ ہوتا۔ ہمارے بے غیرت قبائلی عمائدین انگریز سے کہتے تھے کہ ”تم پہاڑ کی طرح ہو اور ہم ندی کے پانی سے سیفٹی کیلئے مصنوعی کنکریٹ کی دیوار”۔ توس لاکہ غار میژ لاکہ ڈھونگہ۔حوالہ انگریزی کتاب ”میژ ” وزیرستانی پشتو میں”ہم”
بلوچستان کے پشتون اور بلوچ سرداروں اور نوابوں کو آقا سمجھتے ہیں لیکن آزاد قبائل کے لوگ خانوں اور ملکوں کو انگریز کا جاسوس سمجھتے ہیں۔ طالبان نے کٹھ پتلی کے شبہ میں زیادہ تشدد کیا لیکن بہت سوں نے اپنے جنسی تشدد کا انتقام عوام سے لیا۔

جمعیت علماء اسلام بزرگوں کی جماعت تھی ،ہے ،نہ ہوگی

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جب تحریک نظام مصطفی کے نام سے مفتی محمود نے پیپلزپارٹی کے خلاف قومی اتحاد کی قیادت شروع کردی تو مولانا غلام غوث ہزاروی بزرگ تھے اور پیپلزپارٹی کو بچانے نکلے لیکن مولانا غلام غوث ہزاروی کا ہزاروی گروپ تنہائی کا شکار ہوا اور مفتی محمود کیساتھ علماء کی اکثریت تھی۔ مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن نے ایم آر ڈی (MRD) میںبحالیٔ جمہوریت کیلئے قربانیاں دیں تو مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مولانا سرفراز خان صفدر گوجرانوالہ اور مولانا احمد علی لاہوری کے فرزند مولانا عبیداللہ انور سے لیکر مولانا عبداللہ درخواستی ، قاضی عبدالکریم و قاضی عبداللطیف ، مولانا علاء الدین ڈیرہ اسماعیل خان ، مولانا اللہ داد ژوب اور کراچی کے مدارس تک سب مولانا فضل الرحمن کے خلاف تھے لیکن مولانا فضل الرحمن نے سب کو شکست دی۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کابڑا کٹھ پتلی نوازشریف تھا۔ بے نظیر بھٹو پر نوازشریف نے امریکی ایجنٹ کا الزام لگایا تھا اور بے نظیر بھٹو نے نوازشریف پر اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگایا تھا۔ اوصاف اسلا م آباد کے ایڈیٹر حامد میر تھے ، ان کو اس وقت کی خبروں کا بھی پتہ ہوگا۔ مولانا اجمل قادری نے جمعیت کااپنا گروپ بناکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم شروع کی ۔ مولانا احمد لاہوری کا پوتا اور مولانا عبیداللہ انور کا بیٹا گوشہ گمنامی کا شکار ہوا۔ مولانا شیرانی کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ ان سوشل میڈیا کے گیدڑ چھوڑوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے جو مولانا فضل الرحمن کے خلاف جھوٹی افواہیں چھوڑتے ہیں۔
جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ جماعت شخصیت پرستی اور وراثت سے پاک ہو۔ رسول اللہۖ کی رہنمائی وحی سے ہوتی تھی۔ کسی بھی فیصلے میں رسول اللہ ۖ کی ذاتی اور خاندانی حیثیت صحابہ کی جماعت پر اپنا اثر نہیں ڈالتی تھی۔ رسول اللہۖ کے چچا عباس بدر میں گرفتار ہوگئے تو صحابہ کی بھاری اکثریت نے فدیہ لیکر معاف کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت عمر اور سعد بن معاذ نے سب کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔ رسول اللہۖ نے اکثریت کا مشورہ مان لیا جس میں حضرت ابوبکر، عثمان اور علی بھی تھے لیکن اللہ نے اسکے خلاف وحی نازل کرکے صحابہ کی وحی سے تربیت فرمائی۔ اُحد میں رسول اللہۖ کے چچا سید الشہداء امیر حمزہ کے ٹکڑے کئے گئے اور کلیجہ نکال کر چبایا گیا۔نبیۖ نے انکے ستر (70)افراد سے اس طرح کا بدلہ لینے کا اظہار فرمایا لیکن اللہ نے اعتدال اور صبر کی تقلین کرتے ہوئے معاف کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
پہلے مولانا عبداللہ درخواستی امیر اور مفتی محمود جنرل سیکرٹری تھے۔ پھر مولانا سراج احمد دین پوری امیر اور مولانا فضل الرحمن جنرل سیکرٹری بن گئے ۔ مولانا سراج احمد دین پوری پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تو مولانا عبدالکریم بیرشریف لاڑکانہ کو امیر بنایا گیا۔پھر مولانا فضل الرحمن نے مولانا عبدالکریم بیرشریف سے خود امارت سنبھالی اور حافظ حسین احمد کی جگہ مولانا عبدالغفور حیدری کو جنرل سیکرٹری کیلئے راز داری سے جتوانے میں کردار ادا کیا۔ سندھ میں مولانا محمدمراد سکھر، مولانا عبدالصمد ہالیجوی، مولانا محمد شاہ امروٹیاور ڈاکٹر خالد محمود سومروسب کی قربت اور قربانیوں کا خیال رکھتے ہوئے مولانا عبدالکریم بیرشریف کو امارت سے ہٹانے کی زیادتی پر سندھیوں کو افسوس تھا اور مولانا فتح خان ٹانک نے بھی کہا تھا کہ پنجاب اور سندھ کے علماء کے پاس امیر یا جنرل سیکرٹری میں ایک بڑا عہدہ ہونا چاہیے۔ دونوں بڑے عہدوں کا پختونخواہ اور بلوچستان سے ہونا جمعیت کی وحدت کو کمزور کردیگا ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی کے بعد مولانا سراج احمد دین پوری پیپلزپارٹی کا حصہ بن گئے اور مولانا عبدالکریم بیرشریف جنرل ضیاء الحق کی صفائی کو بھی نہیں مانتے اور اس کو قادیانی قرار دیتے تھے لیکن مولانا فضل الرحمن نے جنرل ضیاء الحق کے جنازہ میں شرکت کرلی۔ مولانا فضل الرحمن کو ایک طرف امارت پر قبضہ کی سوجھی تھی تو دوسری طرف مولانا عبدالکریم جنرل ضیاء الحق کو قادیانی قرار دے رہے تھے۔ پنجاب اور سندھ کا علماء طبقہ جمہوری تھا ، مولانا محمد مراد سکھر نے جمعیت علماء کی مرکزی شوریٰ میں اپنی رائے پیش کی تھی کہ جمعیت علماء ہند کے دور سے ہماری جماعت انقلابی نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد والی جماعت ہے ، جس کی وجہ سے اکثریت کا رخ جمہوری جدو جہد کی طرف مڑ گیا تھا ، پھر مولانا شیرانی نے انقلابی سیاست کیلئے دلائل دئیے تو اکثر کی رائے بدل گئی اور اکثریت نے انقلابی سیاست کی رائے دیدی اور فیصلہ بھی اسی پر ہوگیا۔ جب مولانا فضل الرحمن نے فوج کے کہنے پر جمعیت کے کارکنوں سے ہاتھ کیا اور انقلابی سیاست کا فیصلہ مؤخر کردیا تو مولانا شیرانی صاحب کو اصولی طور پر اس وقت مولانا فضل الرحمن کو جماعت کی امارت سے ہٹانے کا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
مولانا فضل الرحمن کے پچھلے دھرنے میں حافظ حسین احمد نے تحریک انصاف کی رہنما زرتاج گل سے کہا تھا کہ ” مدرسے کے بچے نہیں سب کے پاس شناختی کارڈ ہے ۔پندرہ (15)سال میں بچے بالغ ہوجاتے ہیں اور اٹھارہ (18)سال میں شناختی کارڈ بنتا ہے۔ اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو ہم ہر طرح کی تسلی کرواسکتے ہیں”۔
مولانا فضل الرحمن سے افراد کی ناراضگی اسلئے ہے کہ بلوچستان کی امارت کو اپنی جاگیر سمجھنے والے مولانا شیرانی امارت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔پہلے آئینی اور نظریاتی گروپ بن گئے لیکن انکے اصل سرغنے بھی دوبارہ مولانا فضل الرحمن سے مل گئے۔ مولانا گل نصیب خان نے مولانا عطاء الرحمن سے شکست کھائی تو یہ احساس ابھرنے لگا کہ صوبائی اپوزیشن لیڈر مولانا کے بھائی مولانا لطف الرحمن ہیں، سینیٹ میں جمعیت کے لیڈرصوبائی امیر مولانا عطاء الرحمن ہیں، قومی اسمبلی میں بھی پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ مولانااسعد محمود ہیں۔ مولانا نے ٹیلی فون کے محکمے سے اپنا بھائی ڈی ایم جی گروپ میں منتقل کرکے پاکستان کی میرٹ کی دھجیاں بکھیر دیں۔
اگر کربلا کے واقعہ میں حضرت حسین کیساتھ اپنے نو (9)بھائی ابوبکر، عمر، عثمان اور دیگر شہادت کی منزل کیلئے جاسکتے ہیں تو مولانا فضل الرحمن بھی کربلا کی طرح سے سربکف نکل کر پنڈی اور اسلام آباد کا رخ کرلیں۔ جس محمود خان اچکزئی کو یزیدی لشکر کا حر سمجھا جاتا تھا وہ بھی اس لشکر کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی ، ن لیگ اور دیگر جماعتوں نے دھوکہ بھی دیا تو مسئلہ نہیں انقلاب کی منزل مل جائے گی اسلئے کہ اگر خیر خیریت ہوئی تو غازی بن جائیںگے ، پیپلزپارٹی اور ن لیگ سمیت کوئی بھی بے وفائی کرنے والی جماعت اور اس کی لیڈر شپ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی اور اگر شہادت کی منزل پالی تو لاکھوں لوگ اُٹھ کھڑے ہونگے اور انقلاب برپا کرنے میں نام روشن اور تابندہ وپائندہ رہے گا۔ ن لیگ نے ہاتھ دکھایا بھی تو مسئلہ نہیں لیکن نوازشریف باہر ہیں اسلئے آر یا پار کا رسک لینے میں مریم نواز کا فلسفہ کام کرسکتا ہے۔ گڑھی خدا بخش کے شہداء اور مریم نواز کی امی اور دادی کی موت میں نمایاں فرق تھا۔ گڑھی خدا بخش والوں کو مولانا طارق جمیل بھی جنازے کیلئے نہیں مل سکتا ہے۔ زرداری کھلاڑیوں کابڑا کھلاڑی اور شکاریوں کا بڑاشکاری لگتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بینظیر بھٹو کی برسی پر جو اشعار پڑھے وہ پی ڈی ایم (PDM)کے مہمانوںکی توہین تھی۔شہید مرتضی بھٹو کا بینظیر زرداری سے اختلاف درست تھا کہ ”صدارت کیلئے ایم آر ڈی (MRD)کے قائد نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو ووٹ دینا منافقانہ کھیل تھا جس پر اب بھی پیپلزپارٹی زرداری کاربند ہے”۔ عوام تو اپوزیشن میں رہتی ہے اسلئے مولانافضل الرحمن پاکستان کی عوام کو لیڈ کریںگے۔

مولانا فضل الرحمن کی سیاست اورپاکستان کی ریاست

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جب دبئی کے بعد سعودیہ اور پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات سامنے آئی تو مولانا فضل الرحمن نے باچا خان مرکز پشاور میں صحافیوں کو بڑا سخت مؤقف پیش کیا اور دبئی کے حکمرانوں کو کٹھ پتلی قرار دیا۔صحافی سلیم صافی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ”مولانا فضل الرحمن نے سفارتی آداب کو بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھا ۔ حالانکہ مولانا کا امارات ،سعودیہ اور عرب ممالک کیساتھ بہت خوشگوار تعلق ہے”۔
صحافی عمران خان بہت گھٹیا انداز میں میاں افتخار حسین کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیکر مولانا فضل الرحمن پر برس پڑا تھا کہ ”دبئی اور سعودیہ سے چندہ آتاہے اسلئے مولانا فضل الرحمن میاں افتخار حسین کی باتوں پرخاموش تھے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سازش میں شریک ہیں”۔ صحافی عمران خان کا کردار دیکھ کر مجھے گھر کے پاس فالتو کتیا یاد آگئی، جس نے قریب میں بچے دئیے تھے تو مجھے اس پر رحم آتا اور گھر میں بول دیا تھا کہ اس کو کھانا ڈال دیا کریں۔ کئی دفعہ دیکھا کہ کتیا ہمیں دیکھ کر اِدھر اُدھر دوڑ کر بھونکنا شروع کردیتی ہے تو یہ جان لیا کہ بے چاری ہمیں خوش کررہی ہے کہ وہ ڈیوٹی دے رہی ہے۔ حالانکہ وہاں پر بھونکنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی۔ کوئی توہم پرست ہوتا تو یہ سمجھتا کہ جنات دیکھ کر شاید بھونکتی ہے لیکن ہمیں اس کی چالاکی یا بیوقوفی کا پتہ چل گیا۔
عارف حمید بھٹی نے جس طرح سکندر مرزا سے نوازشریف اور ایوب خان سے جنرل ضیاء الحق یاپرویزمشرف تک اپنی کم عقلی اور جہالت کا نقشہ پیش کرکے سیاستدان پر کیچڑ اچھالنے کی ناکام کوشش کی ہے وہ سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ پاک فوج واقعی میں بڑی بدقسمت ہے کہ کھلم کھلا حمایت کرنے والے صحافی صابر شاکر، چوہدری غلام حسین، عمران خان، عارف حمید بھٹی اور کئی الیکٹرانک و سوشل میڈیا والے صبح سے گیدڑوں کی طرح مکروہ آوازیں نکالنا شروع کرتے ہیںکہ شام ہوجاتی ہے بلکہ رات گئے تک شغل رہتا ہے وزیراعظم عمران خان اور اسکے ساتھیوں کا اس سے زیادہ برا حال ہے۔ شوکت بسرا حافظ حمداللہ کو فوج کے خلاف اُکسارہاتھا کہ جی ایچ کیو (GHQ)پر چڑھائی کرو گے یا نہیں؟۔ اور یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان بہادر کی ہزارہ کے پاس جانے پربھی ہوا خارج ہورہی ہے۔شوکت بسرا پیپلزپارٹی کا بھگوڑا ہے جو گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ یوتھیے بہت بے شرمی سے گیدڑوں کی جھنکار میں اپوزیشن اور پاک فوج کے درمیان فساد کا بازار گرم کرنیکی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس فساد میں نقصان پاکستان اور عوام ہی کا ہوگا۔
انسان کو اللہ نے کمزور قرار دیا ہے۔ طاقتور طبقہ تو بہت بڑی بات ہے ،ہم تو فالتو کتوں سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ جائے نماز پر کھڑا ہو یا تخت وتاج کا مالک ہو ،بہرحال وہ ایک بے کار کھاد کی مشین بھی ہے۔ جب وہ تھوڑی عزت دیکھ لیتا ہے تو اپنی یہ اوقات بھول جاتا ہے کہ وہ دن میں کتنی بہترین چیز سے پوٹی اور پیشاب کی پیداوار بنالیتا ہے۔ اپنی ساری کمزوریوں کو بھلا کر خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھنے لگ جاتا ہے۔ حالانکہ وہ بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے جو دوسروں کی خوبی اور اپنی کمزوری سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ کب انسان اپنی انسانیت پر رہتا ہے اور کب انسانیت سے گر کر جانور سے بھی بدتربنتاہے۔
کتے بہت وفادار بھی ہوتے ہیں۔کام بھی آتے ہیں اور سمجھدار بھی ہوتے ہیں۔ مولانا عبداللہ شاہ نے پٹھانوں کے پاس رسول اللہۖ کے صحابہ کا ذکر کیا ہے اور پھر پٹھانوں کے وفدکا نبیۖ سے براہِ راست ملنے کا ذکر کیا ہے ۔ پٹھانوں کو بنی اسرائیل کے بارہ میں سے دوقبائل قرار دیا ہے۔ پشتو بولنے والے افغانوں کو پشتون اور غیر پشتو بولنے والوں کو راجپوت پٹھان قرار دیا ہے کہ دونوں عربی لفظ سے بگڑ کربنے ہیں جو کشتی کے مضبوط حصے کو کہتے ہیں۔ نبیۖ نے فتحان کہا، جس سے پختانہ اور پٹھان بن گیا۔ مولانا عبداللہ شاہ نے محمود غزنویکا قصہ بتایا کہ چوروں کا گروہ بیٹھا ہوا تھا۔ محمود غزنوی ان سے مل گیا۔ چوروں میں سے ایک ایک نے اپنی اپنی خاصیت بیان کی۔ ایک نے کہا کہ میں جانور کی آواز کو جانتا ہوں، دوسرے نے کہا کہ جب کوئی شخص مجھ سے ایک بار ملے تو اس کا روپ کتنا بدل جائے پھر بھی پہچان لیتا ہوں۔ ایک نے کہا کہ مضبوط دیوار میں آرام سے سوراخ کرکے راستہ بناسکتا ہوں، ایک نے کہا کہ میں سونگھ کر قیمتی اشیاء کا پتہ لگا سکتا ہوں۔ محمود غزنوی سے کہا کہ تمہارے اندر کیا خوبی ہے؟، اس نے کہا کہ میں داڑھی ہلا دوں تو پھانسی کے پھندے سے رہائی دلاسکتا ہوں۔ چوروں نے فیصلہ کیا کہ سب اپنی اپنی جگہ پر بہت خوبیاں رکھتے ہیں اور پھانسی کے پھندے سے مجرم کو چھڑانیوالا چور تو ہم سب سے زیادہ مفید ہے ، لہٰذا ہم بادشاہ کا گھر لوٹ لیتے ہیں۔ رات کو چور شہر پہنچے تو کتے بھونکنے لگے۔ ایک کتے نے مخصوص آواز نکالی تو دوسرے کتے چپ ہوگئے۔ رات کو چور بہت بڑی چوری کرکے سومنات کے لوٹے ہوئے خزانوں پر ہاتھ صاف کر گئے اور مال تقسیم ہوا۔ سب اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ صبح ہوئی تو بادشاہ کا تخت سج گیا اور چوروں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر لایا گیا ۔ محمود غزنوی بہت غصہ میں تھے کہ یہ لوگ بادشاہ کے گھر پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کیسے کرگئے۔ سب کو پھانسی دیدو۔ پھانسی سے پہلے سب کو اپنی آخری خواہش کے اظہار کا موقع دیاگیا۔ سب نے باری باری اپنی اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ جو جانور کی آواز پہچانتا تھا ، اس نے کہا کہ ایک کتے کی آواز سے پتہ چلا کہ بادشاہ بھی ہمارے ساتھ شریک تھا، جس کو روپ بدلنے کے باوجود آدمی کو پہچانے کی مہارت تھی اس نے کہا کہ محمود غزنوی ہمارے ساتھ شریک تھے۔ جس میں ہمت اور جرأت کا مادہ تھا تو اس نے بادشاہ کے جذبات کو نظرا نداز کرتے ہوئے کہا کہ سب نے اپنے فن کا مظاہر ہ کیا ، لہٰذا اب آپ بھی داڑھی ہلائیں اور ہمیں پھانسی سے چھٹکارا دلائیں۔ چنانچہ بادشاہ محمود غزنوی نے داڑھی ہلا کر سب کو بخش دیا تھا۔
آج پاکستان کیلئے اندونِ خانہ اور بیرونی ممالک سے جن خطرات کا سامنا ہے ملک کی سلامتی داؤ پر لگی ہے۔ بے خبر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھونک رہے ہیں، کوئی باخبر سب کو خاموش کرکے بادشاہ کے شریک جرم کی خبر دے رہا ہے۔ سارے چور اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان، جج اور مقتدر حلقے حکومت اور اپوزشن سبھی اپنا اپنا کردار بحسن و خوبی ادا کررہے ہیں۔ کسی نے بھی محنت مزدوری نہیں کی ۔ غزنوی نے سومنات کو لوٹا تھا اورچوروں نے خوشحال رعایا سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور آخر کا ر بادشاہ جب چوروں کیساتھ خود شریکِ کار بن گیا تو بادشاہ کے گھر پر بھی نقب لگا۔ چور ایک سے ایک اپنی مہارت رکھتا تھا اور پھانسی کے حکم تک بات پہنچ گئی اسلئے کہ سب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ لیکن آخر کار سب کو معاف کیا گیا کیونکہ بادشاہ سلامت نے اپنا وعدہ پورا کرلیا۔ امریکہ اور دوسری دنیا سے جتنی امداد ملی ہے پاکستان اسکے ذریعے سے یورپ بن سکتا تھا لیکن سینٹرل چور اسٹیبلیشمنٹ بے تاج بادشاہ کیساتھ دوسرے بھی بھرپور طریقے سے شریک تھے۔ اب ملک میں بادشاہ بھی لٹ جائے تو پھر آخر کار نتیجہ خیر کی شکل میں نکلے گا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ ، جے یوآئی،جماعت اسلامی ، اپوزیشن کی دیگرجماعتیں سب مل کر جی ایچ کیو (GHQ)پر نقب لگارہی ہیں لیکن انشاء اللہ پاکستان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بحران کھڑا ہوگا لیکن نتیجہ خیر ہی کی شکل میں نکلے گا۔ سوشل میڈیا کے صحافی سید عمران شفقت اپنی دانش اور حرکتوں سے نوازشریف کے بغل کے بال صاف کرنے والا نائی لگتا ہے۔ وہ کہہ رہاہے کہ میری حیثیت صحافی کی ہے اور سیاستدان بڑی چیز ہوتی ہے ، نوازشریف کا مقصد ن لیگ والے نے بتادیا کہ ”عمران خان کو ڈھائی سال پورے کرنے دینے ہیں، صرف فوج اور عمران خان کو گندا کرنا مقصود ہے”۔