پوسٹ تلاش کریں

خلافت کامختصر تصور: تحریر سید عتیق الرحمن گیلانی

رسول اللہ ۖ کے بعد تیس سالہ خلافت راشدہ ، پھر امارت، پھر بادشاہت، پھر جبری حکومت پھر طرزِ نبوت کی خلافت کا وہ تصور ہے جس سے آسمان وزمین والے سب خوش ہونگے۔دنیا کی سپر طاقت امریکہ میں جمہوریت کا نتیجہ خانہ جنگی کی نوبت تک پہنچ چکاہے۔ پاکستان میں بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی والے ایکدوسروے کو چوکوں میں گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ پھر عمران خان نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب سوات میں طالبان کو اپنا موقع مل گیا تھا تو ایک بریلوی پیر کو شہید کرنے کے بعد قبر سے نکالا تھا اور اس کی لاش کو چند دن چوک پرلٹکادیا تھا۔
پشاور کے حالیہ دھماکے میں مدرسے کے مہتمم نے بتایا کہ” داعش کا جلال الدین نامی شخص کسی مدرسے کے مہتمم کا داماد ہے جس نے کئی لوگوں کو ذبح کیا ہے اور یہ تکفیری لوگ ہیں”۔ جماعت اسلامی کے امیر سنیٹرسراج الحق اور MNA مشتاق صاحب مہتمم کی پریس کانفرنس میں دائیں اور بائیں جانب کھڑے تھے لیکن پشتو زبان کا اردو ترجمہ بھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نہیں پہنچایا۔ یہ خیانت ہے یا خوف کا نتیجہ ہے مگر یہی کام دہشتگردی کے عروج کے دور میں بھی ہوتا رہاہے۔ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور مولانا فضل الرحمن دہشت گردوں کی کھل کر مخالفت کرتے تھے اور ن لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی توپوں کا رخ کبھی بھی دہشت گردوں کی طرف نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کو حدیث کا حوالہ دیکر خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا تھا مگر اس وقت میڈیا دہشت گردوں کی حامی تھی۔ آج بھی مولانا فضل الرحمن نے وہی مؤقف اختیار کیا ہے جو اس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں جمہوریت کے حق میں اختیار کیا تھا۔ اس وقت مولانا فضل الرحمن پر مدارس نے کفر وگمراہی کے فتوے لگائے تھے اور آج مولانا کے حق میں دیوبندی مدارس کی اکثریت کھڑی نظر آرہی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے PDMکے سربراہ کی حیثیت سے مدارس کے ایک اصلاحی بیان میں فرمایا ِکہ ”جب مفتی محمود ہندوستان میں صد سالہ جشن دیوبند کانفرنس میں گئے تو اتنا بتایا کہ آزادی سے دوسال پہلے ہندوستان گیا تھا اور اسکے بعد پہلی مرتبہ بھارت جارہاہوں۔ پھر بعد میں ایک تحریر پڑھی جس میں لکھا تھا کہ ہندوستان میں علماء کا ایک اجلاس1945ء کو ہوا تھا جس میں مولانا زکریا بھی تھے اور مفتی محمود کا نام بھی اس میں تھا۔ علماء نے ہندوستان کی سرزمین پھر امارت شریعہ کے بارے میں شرعی رائے لینی تھی۔ مفتی محمود نے اس وقت اپنی رائے دی تھی کہ امارت شریعہ کیلئے قوت نافذہ کی حیثیت ایک رکن کی ہے اور اس کے بغیر شرعی امارت قائم نہیں ہوسکتی ہے”۔
مفتی محمود نے اپنی رائے سے علماء کے جم غفیر کو رہنمائی فراہم کی تھی۔ امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کو بھی لقب اسلئے ملا تھا کہ وہ ہندوستان میں حکومتِ الٰہیہ کا قیام چاہتے تھے۔ جب متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت تھی تو بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومت کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا گیا کہ اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دے سکے۔ وزیراعلیٰ کے خاندان پر طالبان نے حملہ کیا تو اکرم خان درانی نے میڈیا پر بیان جاری کیا کہ جس نے حملے میں طالبان کا نام لیا تو اس پر ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔ جب مجھے ٹارگٹ کرنے کیلئے طالبان نے میرا گھر نشانہ بنایا تو جمہوری حکومت کی کوئی رٹ نہ تھی ،ہماری حفاظت کیلئے پولیس نہیں فوج کھڑی تھی۔ طالبان بارودی سرنگ اور بم دفناکر گئے تھے تو حکومت نے بم ڈسپوزل اسکواڈ تک دینے سے انکار کردیا تھا۔ پرائیوٹ ادارے سے خدمت لینی پڑی تھی۔ ایسے میں امیرطالبان کے پاس قوت نافذہ تھی لیکن جمہوری حکومت اور پاکستانی ریاست کے پاس نہیں تھی۔ عوام کے تیور طالبان کیخلاف اس واقعہ کے بعد بدل چکے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کو خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا اور مولانا عطاء الرحمن نے بیان دیا کہ سیکورٹی فورس کی صرف حکومتی وریاستی ذمہ داری نہیں بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کو مار دیں۔ جس کے بھی ڈاکٹر شاہد مسعود کے کالم طالبان کے حق میں اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف چھپ گئے ۔ پھر پیپلزپارٹی اورANP کے دور میں جب طالبان کے مارگلہ کے پہاڑ تک پہنچنے کی خبر مولانا فضل الرحمن نے دی تو ن لیگ کے رہنما مولانا فضل الرحمن کو امریکہ کا ایجنٹ قرار دینے لگے۔ طالبان نے عمران خان اور نوازشریف کو اپنی طرف سے نمائندگی کرنے کیلئے نامزد کیا تھا۔ پنجاب میں کاروائیاں نہ کرنیکی شہباز شریف کا کھلا بیان تھا۔
مفتی محمود کے انتقال کے بعد جب مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام کی قیادت سنبھالی تو ایک بیانیہ یہ تھا کہ عقیدے کو بدلنے کیلئے دعوت کی ضرورت ہے اور نظام کو بدلنے کیلئے بندوق اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ انبیاء کی سنت ہے مگر علماء جہالت کا مظاہرہ کرکے بالکل الٹ چلتے ہیں، دوسرا بیانیہ یہ تھا کہ جمعیت علماء جماعت ہے اور احادیث میں اس جماعت سے ہٹنے کی وعیدوں پر اپنے مذہبی اعتقادات کا زور دیتے تھے۔ جب 1945ء میں ہندکے علماء نے امارت شریعہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا تومفتی محمود نے رکاوٹ ڈال دی، جب مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت پر امارت شریعہ کا اطلاق کیا اور الیکشن کی سیاست چھوڑنے کا فیصلہ کردیا تو پاک فوج نے ڈرا دھمکا کر فیصلے کے اعلان سے روک دیا تھا۔ پھر جب ہم نے ایک کتاب ” اسلام اور اقتدار” میں مولانا فضل الرحمن کو سمجھا دیا تو اپنی جماعت کو امارت شریعہ کا مؤقف چھوڑ دیا۔
وزیرستان کو اللہ نے اتنی حیثیت دیدی کہ پاکستان کی ریاست سے لیکر امریکہ تک اس کی دھاک دنیا میں بیٹھ گئی لیکن اس طاقت کا درست استعمال کرنے کے بجائے اپنی قوم کو تباہ وبرباد کرنا شروع کردیا۔ لیڈی ڈاکٹر تک کو اغواء برائے تاوان میں لے گئے۔ محسود قوم کی ناک کاٹ دی ۔ اب بھی وہ بے غیرت ہیں جو ان نکمے ، بدقماش و بدکردار طالبان پر اپنی فیک آئی ڈی سے فیس بک پر فخر کرتے ہیں لیکن اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ پنجاب میں پختون کے خلاف نفرت کی فضاء نہیں ہے اور اگر ایک دفعہ ہوا دی گئی تو پختونوں کیساتھ تاریخ میں مہاجر قومی موومنٹ کے مظالم بھول جائیںگے اسلئے کہ کراچی میں بہت علاقوں میں وہ اپنا ہولڈ رکھتے تھے۔ پنجاب میں پختون کا سارا کاروباری طبقہ ہے۔ پختونوں نے طالبان بن کر ناکامی کا ثبوت دیا لیکن اگر پنجاب کے لوگ طالبان بن گئے تو پھر انکا راستہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ سرنڈرطالبان سے بھی وزیرستان کے نام نہاد قبائلی ملکان کی حیثیت کمزور تھی جن پر حکومت اور ریاست کا انحصار ہوتا تھا۔ سرنڈر طالبان نے زبردستی سے پاکستان کا قومی ترانہ گایا ہے اسلئے اسلام کے وفادار نہیں ہوسکتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے۔
اگر داعش اور طالبان نے مل کر آپس میں لڑنے کے بجائے عوام کی فلاح وبہبود اور اسلام کا درست تصور سمجھ کر اس پر عمل کرنا شروع کیا تو پاکستان کی ریاست اور عوام بھی ان کو جمہوری بنیادوں پر پذیرائی بخشیںگے۔ خود کش حملے دشمن کو کمزور کرسکتے ہیں لیکن عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکتے ہیں۔ وزیرستان کی عوام میں آج بھی قوت نافذہ ہے اور جب وہ ہیروئن ومنشیات کو روک سکتے ہیں جس پر دنیا کو قابو کرنا مشکل ہے تو اسلام کی فطری تعلیم بھی نافذ کرسکتے ہیں۔ جب کس کے دل ودماغ اوروہم وگمان میں خلافت کا تصور نہیں تھا تو ہم نے وزیرستان سے اس کو شرعی فریضہ سمجھ کر اُٹھانے کی کوشش کی تھی اور تمام مکاتبِ فکر کے علماء ہماری حمایت کررہے تھے۔ دیوبندی مکتبۂ فکر ٹانک کے تمام اکابر علماء نے کھلی مجالس، جلسہ ٔعام میں ہماری حمایت کی تھی۔ اخبارات اور کتابوں میں تائیدات کی تفصیل بھی چھپ گئی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن اور اسکے بھائیوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں علماء اور ریاستی مشنری کو استعمال کیا اور ہم پر وہ فتویٰ لگوایا جس سے ہم نے ان کو بچانے میں مدد کی تھی پھر جب ناکامی ہوئی تو گھر پر آکر جھوٹ بولا کہ ”ہم نے ہمیشہ حمایت کی ہے”۔ اسکے بعد بھی جمعیت کے باغی مولانا عبدالرؤف کی مزاحمت سے ہم نے ہی بچایا تھا اور آج ایسے وقت میں ایک دفعہ ریاست ، حکومت اور اس اپوزیشن کو خبردار کرتا ہوںکہ اسلام خیرخواہی کانام ہے اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل جائیگاتوپھر رونا بھی کام نہیں آئیگا۔ امن کی فضاء بہت کچھ کہنے کی رعایت کیلئے سازگارہے۔
اسلام کی درست تعبیر پیش ہوجائے تو ملحدین اسلام کو بطورِ نظام قبول کرنے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ پوری دنیا اس خلافت کیلئے راضی ہوجائے گی جسے سب خوشی کی بنیاد پر قبول کرینگے۔ ریاست، حکومت اور اپوزیشن بہت زیادہ تضادات کا شکار ہے اور اس سے فساد کے علاوہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی

اسٹیبلیشمنٹ اورجمہوریت کی لڑائی میں آخری منزل!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ایمان کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک اقرار باللسان دوسری تصدیق بالقلب۔یعنی زبان سے اس کو تسلیم کرنا اور دل سے اس کی تصدیق کرنا۔
رسول اللہ ۖ کے دور میں اعرابی عرب نے اسلام قبول کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولٰکن قولوا اسلمنا ”اعرابیوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے ۔ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا”۔ قرآن میں اعرابیوں کے حوالے سے کئی آیات میں کہیں فرمایا کہ ”کفر اور نفاق میں اعرابی بہت سخت ہے جو اردگرد اور اہل مدینہ میں سے ہیں”۔ کہیں فرمایا کہ ” اعراب میں سے وہ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں”۔ عرب ادب کی کتابوں میں ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ”امام نے جہری نماز میں وہ آیت پڑھی جس میں ان پر تنقید ہے تو ایک اعرابی مقتدی نے ڈنڈا مارا ۔ پھر امام نے وہ آیت پڑھی جس میں اعرابیوں کی تعریف ہے تواعرابی نے کہا کہ ڈنڈے نے تجھے سیدھا کیاہے”۔ سوال یہ ہے کہ اعرابی کی نماز ڈنڈا مارنے سے ٹوٹتی یا تائید کا جملہ کہنے سے؟ لیکن اس بحث کی ضرورت نہیں ۔ اچھے اعرابی بن جا یئے۔
70سالوں میں ہمارے فوجی حکام اور جمہوری اعرابیوں نے اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے تو یہ دونوں طبقے اعرابی تھے۔ ان دونوں میں اچھی بری دونوں قسم کی صفات تھیں۔ کبھی مارشل لائی جمہوریت تھی تو کبھی جمہوری مارشل لاء تھا۔جب قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو ساری اپوزیشن جیل میں تھی اور جمہوری لیڈربغاوت کے مقدمات کا سامنا کررہے تھے۔اگر جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نہ آتا تو ہوسکتا تھا کہ ولی خان ، بزنجواور حبیب جالب وغیرہ سب پھانسی کے تختے پر لٹکادئیے جاتے۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیاء الحق کی صحبت میں سیاست کے داؤ وپیچ سیکھنے والی بھٹو کی پیپلزپارٹی اور نوازشریف کی مسلم لیگ ن کس طرح جمہوری ذہنیت رکھ سکتے تھے؟۔ جبکہ رسول اللہ ۖ کے دورمیں اعرابی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ الاعراب اشد کفر ونفاقًا ”اعرابی کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں ”تو جنرل ایوب خان سے لیکر جنرل ضیاء الحق ، جنرل بیگ سے لیکر پرویزمشرف تک اور جنر ل اشفاق پرویز کیانی سے لیکر جنرل قمر جاوید باجوہ تک فوجی حکام اور ان کے رفقاء کار جمہوری پارٹیوں کے قائدین کا کیا کہہ سکتے ہیں؟۔ ان میں ضرور اچھے اچھے لوگ بھی ہونگے لیکن نماز پڑھانے والے امام کو معقول تنخواہ اور ڈنڈا رسید ہوگا تو وہ دوسری طرح کی آیت پڑھنے پربھی مجبور ہوں گے۔
سیدھی بات یہ ہے کہ فوجی حکام اور جمہوری پارٹیوں دونوں کا مزا نہیں ہے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ جنہوں نے ملک کو کھالیا ہے وہ اصولوں کی نہیں مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں۔ہاتھیوں کی لڑائیوں میں ملک کے غریب طبقے کا نقصان نہ ہو، جن کو اپنی دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں ملتی۔ اپوزیشن کی موجودہ تحریک میں کھانے کے دانت نوازشریف اور دکھانے کے مولانا فضل الرحمن ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی ڈھکے چھپے نہیں کھلے ڈھلے گیم کھیلے جاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے پرویزمشرف دور میں پختونخواہ کی حکومت سنبھال رکھی تھی۔ اس وقت این جی اوز دکھانے کے دانت تھے اور بلیک واٹر کھانے کے دانت تھے۔ بیرون ملک سے پاکستان بہت بڑی امداد آئی تھی۔ سندھ کراچی ، بلوچستان، خیبر پختوانخواہ اور پنجاب پورے پاکستان کا حلیہ تبدیل ہوگیا۔یہ پرویزمشرف کا کمال نہ تھا بلکہ غیرملکی ایجنڈے پر پختون قوم کو تباہ کرنے کی قیمت تھی۔ محمود خان اچکزئی کی بات سوفیصد درست ہے کہ بلوچ، سندھی اور پنجابیوں سے گلہ ہے کہ ہمارے پشتون قوم کو تباہ کرنے کی قیمت ریاست وصول کررہی تھی ۔ چیچن ،ازبک اور عرب دہشت گرد بسائے گئے اور پختونوں کی لیڈر شپ، گھر بار اور علاقے تباہ کئے گئے اور کسی نے پشتونوں کے حق میں کسی بڑے شہر میں مظاہرہ نہیں کیا۔ بہت بجا بات ہے لیکن اس وقت تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ہمیں یاد ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی اپیل پر MQM نے کراچی میں مظاہرہ ازبک چیچن کے حق میں کیا۔ قاضی حسین احمد نے بھی الطاف بھائی کا بڑا شکریہ ادا کیا تھا۔ اس دور میں مولانافضل الرحمن سمیت سب نے پختون کے خون سے آنے والے مال ودولت میں اپنا منہ گندہ کیا تھا۔ پورے پاکستان میں اس دور کے اندر بہت ریکارڈ ترقی ہوئی ہے۔ اگر ہمارے فوجی حکام اور سیاستدان وہ پیسہ بیرون ملک منتقل نہ کرتے اور اپنی ذات پر لگانے کے بجائے ملک وقوم ہی پر لگاتے تو پختون کا خون بھی معاف ہوتا۔ سب سے زیادہ قربانی میرے گھر کے خون سے ہوئی ہے۔ میں نے اپنے اخبار ضربِ حق میں اس بات کی مخالفت کی تھی کہ بڑی سازش کے تحت بمباری کرکے قبائلی مجاہدین کا کیمپ تباہ کیا گیا جب کہ بالکل قریب میں ازبک کا کیمپ چھوڑ دیا گیا۔ جس کا انکشاف گورنر خیبر پختونخواہ جنرل اورکزئی نے جمعیت علماء اسلام کے مولانا عصام الدین محسود کے سوال پر جواب میںکیا تھا۔
جب فوج کہتی ہے کہ ”ہم جمہوریت کو سپورٹ کرتے ہیں ” تو زبان کی حد تک بھی جو مارشل لائی نظام کی تائید نہیں کرسکتے تو مدعی سست گواہ چست کی حماقت کرنے والے ٹاؤٹ اگر تنخواہ دار نہیں تو اپنی بکواس سے باز آجائیں۔ سب سے بڑا نقصان فوج کو وہی پہنچارہے ہیں جو سب سے زیادہ حمایت کا دم بھرتے ہیں۔ صحافی وہ بھی کہلاتے ہیں کہ اگر ابھی اپنا بیانیہ پیش کرنا چاہیں تو بڑی بے شرمی سے کہہ سکتے ہیں کہ جنرل قمر باجوہ بے چارے تو ایکسٹینشن کے حق میں نہیں تھے۔ یہ تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مجبور کیا کہ اگلا جرنیل کوئی خر دماغ بھی ہوسکتا ہے جو مارشل لاء کے نفاذ سے بھی دریغ نہ کرے اسلئے مدتِ ملازمت بڑھادی۔ جمہوری حلال زادے جو حرام کا نمک حلال کرنے کیلئے بکتے ہیں وہ نوازشریف سے پیسہ لیکر یہ کہہ سکتے ہیں کہ فوج نے ن لیگ کے رہنماؤں کو اسلئے لندن بھیج دیا تھا کہ نوازشریف جنرل باجوہ کے ایکسٹینشن کی حمایت نہ کریں تو وہیں پر ڈاکٹر عمران فاروق کی طرح دو چار اینٹ مارکر ٹھکانے لگادینا۔جس طرح پارلیمنٹ میں لندن کے فلیٹ کی جھوٹی کہانی پڑھنے پر جنرل شریف اور بعد ازاں جنرل قمر جاوید باجوہ نے عدالت میں قطری خط لکھنے اور پھر واپس لینے پر نوازشریف کو مجبور کیا تھا۔ عوام سب جھوٹ کو سمجھ رہی ہے۔
طالبان و بلیک واٹر کی شکل میں ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور کی بلا بہت مشکل سے اس قوم کے سر سے ٹل گئی تو اب داعش اور طالبان کے نام پر ایک اور مژدہ سنایا جارہاہے۔ شیعہ سنی، مہاجر سندھی ، بلوچ پشتون، سرائیکی پنجابی اور فوجی جمہوری جنگ وجدل کے علاوہ عورت اور مرد کے درمیان بھی تعصبات بڑھ رہے ہیں۔ محسن داوڑ کی باجوڑ میں جماعتِ اسلامی کے نوجوانوں کی طرف سے بے عزتی مہمان ہی کی نہیں میزبان کی بھی بے عزتی تھی، اسلام ہی کی نہیں پختون قوم کی بھی بے عزتی تھی۔ مسلمان ہی کی نہیں انسان کی بھی بے عزتی تھی۔ جماعتِ اسلامی کا یہ بڑاخراب ٹرینڈ ہے۔ جب عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی میں الف ننگاکرنے کی خبریں تھیں تو جماعتِ اسلامی پنجابی رہنماامیرالعظیم نے اسلامی جمعیت طلبہ کی مذمت کی لیکن جماعت اسلامی کے پختون رہنما ؤں میں یہ اخلاقی جرأت بھی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ”پیسہ آگیا ہے” تو پیسہ کیلئے سب ہوتا ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے اس خطے اور اسلام کو عالمی قصاب خانہ بنانے کی وضاحت کردی۔
اللہ کا شکر ہے کہ قاتلانہ حملوں میں دونوں قائدین بال بال بچتے رہے ہیں۔ دونوں نے سیاسی میدان میں اتنا کچھ کمالیا ہے کہ مینڈک تو ایک موسم سے دوسرے تک اپنی چربی پر گزاراہ کرتا ہے مگر یہ لوگ زندگی بھربسہولت گزر بسر کرسکتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اتنے بڑے بڑے فنڈز قوموں کو خریدنے کیلئے بیرون ملک سے آتے ہیں، البتہ افغان حمایت جہاد سے بہت لوگ گنگا میں نہائے اور طالبان مخالف فساد میںبہت لوگ جمنا میں نہائے۔ آنے والی سونامی میں پوری قوم کو ڈبونے کا کام بھی ہوسکتا ہے ۔جب مولانا فضل الرحمن کو نیب کا نوٹس ملااور آرمی چیف سے ملاقات کی خبر آئی تو 500ارب ڈالرز کی قسطوں کے معاملے سے پردہ بھی اُٹھادیا۔
صحافت کی دنیا میں حامدمیر گل سربد کی حیثیت رکھتا ہے۔ مفتی نظام الدین شامزئی کے حوالے سے روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں انکشاف کیا تھا کہ” رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے ذریعے واشنگٹن امریکہ سے جہادی تنظیموں کو ڈالر آرہے ہیں جو علماء کرام کو خریدتے ہیں۔ اگر یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو ہم چوراہے کے بیچ میں بھانڈہ پھوڑ دیںگے”۔ حامدمیر نے لکھا تھا کہ ” اگر واقعی یہ لوگ باز نہیں آئیں تو بھانڈہ پھوڑ دینا چاہیے”۔ وسیم بادامی کا معصومانہ سوال یہ ہے کہ جب پیسہ آرہا تھا تو بھانڈہ پھوڑنے نہ پھوڑنے کا کیا تُک بنتا تھا، پھوڑ ہی دینا چاہیے تھا۔ اگر علماء کو نہ خریدتے تو صحافیوں کو بھی خرید سکتے تھے؟۔ پھر حامد میر نے PTVکے ایک چینل ATVپر پیپلزپارٹی کی آخری دورِ حکومت میںانکشاف کیا کہ” بینظیر بھٹو نے امریکہ کے کہنے پر طالبان جنرل نصیراللہ بابر کے ذریعے بنائے تھے”۔ ہوسکتا ہے کہ اسی دباؤ کے نیچے زرداری نے اشفاق پرویز کیانی کو ایکسٹینشن بھی دی ہو۔ صحافیوں سے لیکر سیاستدانوں ،جرنیلوں ، مجاہدین اور علماء تک کس کس پر اعتماد کیا جائے؟۔
صحافت کا شعبہ کرائے اور غلط وکالت کرنے کا نہیں ۔قوم کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے کیساتھ سب سے زیادہ نقصان بھی صحافت سے پہنچتا ہے۔ ماضی میں جنگ کا دعویٰ تھا کہ وہ حکومتیں گرانے اور قائم کرنے میں بنیادی رول ادا کرتا ہے۔ جنگ اور جیو نے جتنی مار فوج سے کھائی ہے تو اس سے زیادہ فوج کو نقصان پہنچایاہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جھوٹا نواز بھی ریاست کا شوہر بنتا جارہاہے۔
میں سچ بولوں گی اور ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
کرپشن کے حوالے سے ن لیگ کے قائد نوازشریف پر عوام، سیاسی قیادت، صحافت، پارلیمنٹ اور عدالت سب گواہ ہیں، جنرل ضیاء الحق سے لیکر جنرل قمر باجوہ کو ایکسٹینشن دینے تک اس کا ماضی اور حال سب کے سامنے ہے ۔ ماڈل ٹاؤن میں چودہ بندوں کے قتل سے آصف زرداری کا پیٹ چاک کرکے سڑک پر گھسیٹنے اور چوک پرلٹکانے کے بیانات تک اور مولاناطارق جمیل سے ملاقات اورمولانا فضل الرحمن سے لاہور میں نوازشریف ، شہباز شریف اور مریم نواز کی طرف سے ملاقات سے گریز کرنے تک اسکے پلیٹ لیٹس کے اُتار چڑھاؤ کا سارا DNA معلوم ہے۔ مؤمن ایک سوراخ سے دودفعہ نہیں ڈسا جاتا ہے ۔ اگر مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کے دھرنے میں گلہ کرتے کہ جمعیت کے کاروان نے کراچی سے لاہور تک سفر کیا ۔
ہم چھالے چھالے پیروں ان سے ملنے آجاتے ہیں
وہ پھولوں جیسے ہاتھوں ہم پر پتھر برساتے ہیں
مولانا فضل الرحمن کو پیپلز پارٹی نے سندھ میں چھوڑ کر رخصت کردیا تھا اور ن لیگ نے لاہور میں بھی ملنا گوارا نہیں کیا ۔ اسفند یار ولی خان مولانا کی آمد سے پہلے اسٹیج پر تقریر کرکے چلے گئے۔ البتہ محمود خان اچکزئی نے اول سے آخر تک اسلام آباد میں بھرپور ساتھ دیا۔ عربی میں مچھلی اور گوہ کے تضاد کو ضرب المثل سمجھا جاتا ہے۔ اسلئے کہ مچھلی پانی سے نہیں نکلتی اور گوہ خشکی میں رہتی ہے۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کا بہت بڑا اسٹیک ہے۔ محمود خان اچکزئی اگر حکومت میں ہوتے تو جمعیت کو باہر رکھتے اور جمعیت حکومت میں ہوتی تو اچکزئی باہر ہوتے۔ اس دفعہ دونوں مرکز اور بلوچستان حکومت سے باہر ہیں۔
اگر اگلے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن مرکز اور اچکزئی صاحب بلوچستان کے اقتدار پر آجائیں تو امید ہے کہ سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ آرمی نے بین الاقوامی بلا سے بچنے کیلئے یہ قربانی دی کہ طالبان سے امریکہ کو مروانے کیلئے چھوڑ دیا جس کی وجہ سے پوری ریاست یرغمال بن گئی۔ پشتون قوم تباہ ہوئی ۔ ملک کو بڑی سطح پر اقتصادی اور اخلاقی نقصان پہنچا۔ جب تک عمران خان آرمی کے خلاف بھرپور طریقے سے بولتا نہ تھا تو لوگوں کو اس پر اعتماد بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ ایم کیو ایم پر جناح پور کے الزام لگاکر ان کی قوت کو کراچی میں پاش پاش کیا گیا لیکن پھر الطاف بھائی کی جماعت کراچی اور ملک کی ایک مضبوط قوت بن گئی۔ ہمارا مدعا یہ ہے کہ قرآن مسئلے کا حل ہے اور سنت اس کا عملی نفاذ ہے۔ دنیا ہمیں تباہ کرنے پر تلی ہے ۔اس سے بچنے کا واحد راستہ اسلام کا حقیقی چہرہ عوام اور دنیا کو دکھانا ہے اور بس۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

نوشتہ دیوار شمارہ اکتوبر 2020 کی اہم خبریں

اخبار سے طلاق کا مسئلہ سمجھا ، طلاق الفاظ نہیں عدت ہے باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے ماما قدیر بلوچ

جب میں نے نوشتہ دیوار پڑھا تو اس میں اسلامی مسائل تھے جو لوگوں کی آسانی اور سمجھانے کیلئے بہت کار آمد ہیں اسی طرح نوشتہ دیوار سے ہی طلاق کا مسئلہ سمجھا۔ طلاق دراصل الفاظ نہیں عدت ہے۔ یعنی ایکسپیریمنٹ ہے جو تین ماہ کے عرصے پر مشتمل ہے اگر میاں بیوی اپنی رضامندی سے ملنا چاہیں تو مل سکتے ہیں۔ مزید تفصیل فیس پر بک دیکھیں۔ 


پاکستان کے اندر ریپ کلچر کو عوامی تائید و توثیق حاصل ہے، ہدیٰ بھرگڑی

اتنی عجیب بات ہے کہ کس طرح سے ریاست یہ توقع کرتی ہے کہ ایک عورت کا ریپ ہورہا ہوگا دیکھنے کیلئے چار مرد گواہ مگر روکنے والا کوئی نہ ہوگا

تو میں یہ ببل برسٹ کرنا چاہوں گی آپ جہاد النکاح ISISنے شروع کیا تھا جس کے اندر عورتیں امریکہ اور پتہ نہیں کہاں کہاں سے شام جاتی تھیں۔ مزید تفصیل فیس پر بک دیکھیں۔


اگر ہم بگڑ گئے تو افغانستان میں امریکہ کا کیا حشر ہوا ؟خدا کی قسم یہاں تمہارا وہی حشر ہوگا۔ مولانا فضل الرحمن

مولانا فضل الرحمن کی مظفر آباد میںتہلکہ خیز تقریر کا متن

جنگ ہے تو پھر جنگ ہے۔ تم آج ہمارے خلاف جنگ چھیڑ رہے ہو ہم پہلے دن سے آپ کے خلاف جنگ چھیڑ چکے ہیں۔ اگر آپ بھی جنگ کے میدان میں اترنے کے خواہشمند ہیں تو صد بسم اللہ۔ ہم نے تو کشتیاں جلائی ہیں۔علماء کرام کو بتانا چاہتا ہوں کہ قیامت کے روز اٹھو تو کم از کم اپنے اکابرین کے سامنے شرمندہ ہوکر نہ ہو۔ ہمارے اکابر نے آزادی کیلئے جو قربانیاں دی ہیں کم از کم آقائے نامدارۖ تو بہت بڑی عظمت کی بات ہے کم از کم حضرت شیخ الہند کے سامنے منہ دکھانے کے قابل ہوجاؤ۔ اسلئے خوف کو قریب نہ لانا۔ انشاء اللہ جرأت کے ساتھ لڑنا ہے اور ان پر ثابت کرنا ہے کہ تمہاری یہ گیدڑ بھپکیاں کام نہیں آسکیں گی۔ مزید ویڈیو میں دیکھیں۔


مولانا صاحب ایسی تحریک کی ابتداء کیجئے جس طرح مصر میں تحریر چوک یا پھر جو ترکی میں ہوا محمود خان اچکزئی

محمود خان اچکزئی کا جمعیت کے پروگرام میں خطاب ویڈیو : آپ کے ٹینکوں کا ہم بندوبست کریں گے۔ آپ کے جہازوں کا ہم بندوبست کریں گے آپ کی گولیوں کا ہم بندوبست کریں گے۔ آپ کے کارتوسوں کا کریں گے۔ یہ ہم پر احسان مت ڈالو کہ ہم فوج میں ہیں قربانی دے رہے ہیں۔ بھئی فوج میں اپنی مرضی سے گئے ہو۔ مولانا عالم دین ہے، اس کا ایک بھائی فوج میں ہے ، دوسرا کمشنر ہے تیسرا تبلیغی ہے چوتھا میری طرح گڈریا ہے۔ یہ تو بھائیوں میں ہوتا ہے۔ یہ احسان نہیں ہے ملک میں برا وقت آئیگا مولانا نے ٹینک نہیں چلانا نہ میں نے ایف 16 چلانا ہے۔ تم نے آگے بڑھنا ہے تم نے لڑنا ہے ہم پیچھے سے پانی وانی دیتے رہیں گے آپ کو۔ مزید تفصیل ویڈیو میں دیکھیں


حضرت مولانا مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی کی طرف سے سید عتیق الرحمن گیلانی کی کتاب ’’عورت کے حقوق‘‘ پر تائید

شیخ الہند کے شاگرد مولانا رسول خان علامہ سید محمد یوسف بنوری، مولانا سید محمد میاں ، قاری محمد طیب مولانا ادریس کاندھلوی، مفتی محمود، مفتی محمد شفیع، مفتی محمد حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی کے اُستاذ تھے، شریفی صاحب کو مولانامحمد یوسف لدھیانوی شہیدایک اُستاذ کا احترام دیتے تھے۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


مولانا قاری اللہ داد صاحب مدظلہ کی علماء کرام سے استدعااور سید عتیق الرحمن گیلانی کی کتاب ’’عورت کے حقوق‘‘ پر تائید

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ و الصلوٰة و السلام علی من لا نبی بعد۔ اما بعد،
محترم قارئین کرام السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ ،اس وقت میرے سامنے ”عورت کے حقو ق” کے نام سے ایک کتاب ہے جو بڑے سائز کے 46صفحات پر مشتمل ہے اس کے مؤلف و مرتب محترم جناب سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب ہیں، گیلانی صاحب وقتاً فوقتاً یہاں تشریف لاتے ہیں۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


بھارت کی مودی حکومت بھی کٹھ پتلی نکلی

کرناٹکا کی آواز، ریئیلٹی آف انڈیا
کس نے دیکھا تھا وہاں پر مندر؟۔ اگر مندر تھا بھی اس وقت اتنے سال پہلے وہاں پر مسجد بن گئی تھی تو پھر سے اسے توڑ کر آپ کیوں بنائیں گے مندر؟۔ ہندو نہیں، دیش خطرے میں ہے، مودی جی امت شا جیسے لوگوں سے پرگیا ٹھاکر جیسے لوگوں سے۔ ہندو مسلم کرتے کرتے آپ نے کتنے لوگوں کو مروادیا، یہ وکاس ہے۔ رام مندر کیا ہے، آپ مجھے بتائیے؟۔ کیا بھگوان رام نے نیچے آکر بولا تھا کہ آپ میرے مندر کیلئے لوگوں کو مارو؟ ایک مسجد جو پہلے وہاں پر بنی تھی آپ اس کو توڑو۔ کیا رام جی نے آکر بولا تھا؟۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


مولانا منظور نعمانی کے فرزند مولانا سجاد نعمانی کا فرقہ واریت پر وار

مولانا منظور نعمانی کے فرزند مولانا سجاد نعمانی نے شیعہ سنی جنگ کرانے کی سعودی سازش بے نقاب کردی۔
یہ وہ سعودی حکومت جس کی موجودہ خارجہ پالیسیوں کے بارے میں نت نئے انکشافات روزانہ سامنے آرہے ہیں۔ یہ خبریں ہیں کہ وہ برصغیر کے بعض علاقوں میں شیعوں کیخلاف مسلح جدوجہد کیلئے سنی علماء کو آمادہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان طاقتوں سے معاہدے کررہے ہیں۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


علامہ جواد نقوی کا فرقہ واریت پر وار

تشیع اور تسنن کی بقاء نصیریت اور ناصبیت سے برأت میں ہے۔ علامہ جواد نقوی
عزیزان! اس وقت جو یہ فضاء بنائی جارہی ہے ، جو کھچڑی پک رہی ہے یہ جو جلسے جگہ جگہ ہورہے ہیں اور آپ سن رہے ہیں۔ جمعہ اتنا عظیم دن عبادت کا اب جمعہ کو تبدیل کردیا گیا ہے نفرت میں۔ جمعہ کے دن نفرت کی ریلیاں نکالو۔ نفرت کے اجتماعات کرو۔ دوسروں پر حملے کرو۔ یہ تو محبت کا دن تھا۔ یہ تو بندگی کا دن اللہ نے بنایا۔ ان کو اپنے اپنے زیر حمایت لوگوں کی طرف نگاہ کرنی چاہیے۔ تشیع سے کیا تعلق ہے نصیریت کا ؟۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


اگر سر عام سنگسار کیا جائے تو یقین کیجئے یقین جانئے درندوں کی روحیں کانپ جائیں گی۔ کرن ناز

السلام علیکم ! موٹر وے سانحہ کو آج چھ روز گزر چکے ہیں۔ آج بھی اسمبلیوں پر اسی بات پر لڑائی جھگڑا ہورہا ہے اور اسی پر بات ہورہی ہے کہ حدود میری تھی یا تیری تھی؟۔ حضرت عمر نے فرمایا جو عدل رسول ْۖ نے قائم کیا تھا، ابوبکر صدیق نے اس عدل کو قائم رکھا۔ میں عمر جسے تم نے چنا ہے میں قائم رکھوں گا۔ اگر میں اس سے ادھر اُدھر ہٹوں تو تم مجھے پکڑ کر سیدھا کردینا۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


جمعیت علماء اور جمعیت طلباء اسلام ،مدارس کے علماء مفتی اور طلباء جنگ کے قریب نہ جائیں۔ مولانا محمد خان شیرانی

لہٰذا آج کی دنیا 5 ممالک کے درمیان تقسیم ہے۔ اور ان پانچ کی مملوک اور محکوم ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس۔ ظاہر بات ہے کہ آپ حضرات نے سرداروں نوابوں کا تجربہ کیا ہوگا اگر کوئی ہو تو ناراض نہ ہو۔ نواب اور سردار اپنا لاؤ لشکر لیکر ایکدوسرے پر چڑھائی نہیں کرتے۔ اس زمانے میں اسکے گھر کے اندر لوگوں کو اٹھاتے ہیں دھمکی دیتے ہیں،ان کیلئے گلے کا طوق بناتے ہیں تاکہ وہ مجبور ہوجائے اور پیسے پر آجائے۔ لہٰذا آج جنگ نہ اسلام کے فائدے ، نہ امت مسلمہ کے، نہ عرب کے، نہ عجم کے، نہ پٹھان، نہ بلوچ کے فائدے میں ہے۔ جنگ ان پانچ ممالک میں سے کسی کوفائدہ پہنچائے گی۔ لہٰذا بندوق سے جمعیت علماء اسلام کا رکن اور جمعیت طلباء اسلام کا رکن مدارس کے علماء مفتی اور طلباء بچے رہا کریں۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


فون آیا کہ پیسہ آگیا ہے مولانا فضل الرحمن

یہاں مرکز میں وفدآیا، پاکستان کے چوٹی کے کاروباری طبقے کی قیادت بھی تھی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے تھے۔ میٹنگ ہوئی، اسلام آباد میں میٹنگیں ہوئیں ،ہفتے دس دن کے اندر تین چار میٹنگیں ہوئیں۔ ان کا خیال تھا کہ میں کہیں اقتدار میں شیئر کا طلبگار ہوں، مجھے آمادہ کیا جائے اچھا شیئر مجھے دینے کیلئے۔ میں نے واضح کیا کہ آپ مجھے سمجھے نہیں۔ اسلام آباد میں میں نے کہاکہ جس مقصد کیلئے آپ تشریف لائے، جس حکومت کیلئے مجھے آمادہ کررہے ہیں کہ میں اپنا مؤقف نرم کروں یا انکے ساتھ معاملات میں شریک ہوجاؤں تو میں آج اس میٹنگ میں اس چیپٹر کو بند کرتا ہوں۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


مفتی محمد انس مدنی جماعت غربا اہلحدیث کی تائید

نائب مدیر جامعہ ستاریہ اسلامیہ۔ گلشن اقبال کراچی۔چیئر مین مساجد سندھ

”عورت کے حقوق” کے عنوان سے سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب حفظ اللہ کی تحریر پڑھ کر یہ محسوس ہوا کہ نبی کریم ۖ کے فرمان انصراخاک ظالما او مظلوما ظالم اور مظلوم دونوں بھائیوں کی مدد کرو، کا علم بلند رکھنے میں گیلانی صاحب حد درجہ کوشاں ہیں۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


پروفیسر محمد خالد صدر شعبہ اسلامی تاریخ وفاقی اُردویونیورسٹی کی کتاب ’’عورت کے حقوق’’ پر تائید

مصنف: تاریخ اسلام برائے FA،برائے BA،برائے BSبرائے MA، اورسیرت النبیۖ کا خصوصی مطالعہ، اور کتاب تاریخ تہذیب و تمدن اسلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
عزت مآب محترم سید عتیق الرحمن گیلانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ موصوف نے متعدد تصانیف اور جرائد و رسائل تحریر کئے ان میں انہوں نے معاشرہ کے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے خصوصاً طلاق اور حلالہ کا مسئلہ جو پیچیدہ صورتحال اختیار کرچکا تھا اور معاشرہ اس پر انتہائی تذبذب کا شکار تھا لیکن موصوف نے ان مسائل کو عرق ریزی اور علمی بصیرت سے حل کردیا جو عوام الناس کی آگاہی اور قانون شریعت کے اساتذہ کرام اور طالب علموں کیلئے رہنمائی کا باعث ہوگا۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


سندھ میں یہ تشدد مرد پر ہورہا ہے مگر عورت کا احترام ہوتا ہے اور جنگی قیدی کو غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ غلام بنانے کیلئے وڈیرہ شاہی کے ظلم و تشدد میں نسل در نسل زندگی گزرتی ہے


بحریہ ٹاؤن کا سندھ میں اسرائیلی طرز

اس ویڈیو میں سندھی زبان کے اندر بحریہ ٹاؤن کے قبضہ مافیہ کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے اور بڑی مشینری کے ذریعے سے گاؤں مسمار ہورہے ہیں۔ پاکستان کے مقتدر طبقات غریبوں کی داد رسی کیلئے اقدامات کریں ۔ مظلوم کی بدعائیں عرش کو ہلادیتی ہیں۔
سندھ کی زمین پر قبضہ، بحریہ ٹاؤن نے ایک بار پھر سندھیوں کے گاؤں مسمار کرنے شروع کردئیے۔ سندھ میں اسرائیلی طرز کی دہشتگرد بحریہ ٹاؤن ریاست نا منظور۔غریب لوگوں کے گھر توڑنے کے ساتھ ساتھ ایک عورت کو گولی بھی ماری گئی۔ مزید تفصیل فیس بک پر دیکھیں


پختون کلچر ڈے پر قوم کی اصلاح

کیلئے سنگر ریاض کے زبردست انقلابی اشعار:وانا وزیرستان

اپنی قوم کی اصلاح دوسروں پر تنقید یا کسی کیخلاف منافرت پھیلانے سے نہیں ہوتی بلکہ اپنی خامیوں کی نشاندہی سے ہوتی ہے۔وزیرستان زندہ باد

کورېنا ړنګا وې  |  گھروں کو برباد کر دیتے ہیں
بیا داوۍ دۍ منصفون دې  |  پھر دعوے ہیں اور منصف بھی ہیں
په یک یوا سیړے سارا ویژنې مسلمون دې  |  ایک شاہ بلوط کے درخت پر مقاتلہ کرتے ہیں مسلمان ہیں
دې هچه نه منې، تریالې دی اتالان دې  |  کسی کی نہیں مانتے اور بہادر ہیں اور قومی رہنما ہیں
پروته دې والا وٹ دې ٹیپکے پا بلوتېنا  |  لیٹے ہیں ایکدوسرے سے لڑائی میں بندوقوں کے بلٹ پر
کورېنا ړنګا وې زلزله دو لاونګېنا  |  گھروں کو برباد کر تے ہیں یہ زلزلہ ہیںائے لونگین
دې تو براګه لونګې وخ دې مو شنکې خالونه  |  اے تیری رنگ برنگ پگڑی اور میری ہری بندیا
کورېنا ړنګا وې خلکه سخته بې خوندګې دو  |  گھروں کو برباد کرتے ہیں لوگو! بہت اخلاقی بدمزگی ہے
مېژ خوندې خرساوې په روپې ساوداګرې دو  |  ہم بہنوں کو بیچتے ہیں ، پیسوں سے سوداگری کرتے ہیں
نه دین شته نه پشتو مکملا اذادې دو  |  نہ دین ہے اور نہ پشتوکی روایات ہیں، مکمل آزادی ہے۔
خآلې دو پابندی په باجے او په ډولېنو  |  صرف پابندی ہے تو باجے اور ڈھولوں کے بجانے پر۔
کورېنا ړنګا وې دې میژ خوز وزیرستان دائ  |  گھروں کو برباد کر تے ہیں یہ ہمارا پیارا وزیرستان ہے
مسکن دې پیر روشان دے حاجې میر زالې خان دائ   |  جو پیرروشان اور حاجی میر زلی خان کا گھر ہے
دے مشر کریم خان دے ملا پیونده شان دائ  |  سردار کریم خان اور ملا پیوندہ کی شان ہے اور
دے مانې کاکا نوم غوړيدلے په ملکېنا  |  مانی کاکا کے نام کا چرچا دور دور کے ملکوں تک پھیلا ہواہے


جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں. فیض احمد احمد

جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کوٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر پویس کے ناکے ہوتے ہوں


بھکرپنجاب سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر کی سرائیکی شاعری افکار علوی

اساں تیڈے ویرتیڈے یار فوجیا   |  ہم تیرے بھائی ہیں فوجی
آپنڑاں کوں آپ تاں نہ مارفوجیا   |  اپنوں کو آپ تو نہ مار فوجی
ساکوں ساڈا دیس وڈا پیرا لگدئے   |  ہمیں اپنا دیس بہت پیارا لگتا ہے
ایندے اُتے اَکھ ساکوں آرا لگدئے   |  اس پر آنکھ ہمیں آرا لگتا ہے
جیویں اماں دیس اوں یار فوجیا   |  جیسے ماں دیس ویسے یار فوجی
آپنڑاں کوں آپ تاں نہ مارفوجیا   |  اپنوں کو آپ نہ مار فوجی
بئے تھوڑے رولے گاٹے پئی ودے ہئیں   |  پہلے تھوڑے مسئلے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں
اگئے ڈھیر آپڑیں رسئی ودے ہیں   |  پہلے بہت سارے اپنے ناراض کئے ہوئے ہیں
گھریں بئیاں کندھاں نہ اُسار فوجیا   |  گھروں میں اور دیواریں نہ بنا فوجی
آپنڑاں کوں آپ تاں نہ مارفوجیا   |  اپنوں کو آپ تو نہ مار فوجی
کیاں چاندھئیں اساں وی بندوخاں چؤں چا   |  کیا چاہتے ہو ہم بھی بندوقیں اٹھالیں
ہکوں تا ہئی ویڑھا ہیکوں بھئیں لؤں چا   |  ایک ہی ہے صحن کیا اسے آگ لگا دیں
اُکا کوئی کملا ہئیں یار فوجیا   |  تو کیا کوئی پاگل ہے یار فوجی
آپنڑاں کوں آپ تاں نہ مارفوجیا   |  اپنوں کو آپ نہ مار فوجی
یار دیس موتیاں دے ہار ہوندے ہن   |  دوست دیس موتیوں کے ہار ہوتے ہیں
دیس واسی موتیاں دے کار ہوندے ہن   |  دیس میں بسنے والے موتیوں جیسے ہوتے ہیں
موتی کِرے کتھے رہسی ہار فوجیا   |  موتی گر کر کہاں رہے گا یار فوجی
آپنڑاں کوں آپ تاں نہ مارفوجیا   |  اپنوں کو آپ تو نہ مار فوجی
اساں تاں حریفاں دے وی یار فوجیا   |  ہم تو دشمنوں کے بھی دوست ہیں فوجی
اللہ جانڑے کون ہے غدار فوجیا   |  اللہ جانتا ہے کون ہے غدار فوجی
آپنڑاں کوں آپ تاں نہ مارفوجیا   |  اپنوں کو آپ تو نہ مار فوجی


اللہ ربی چڑھتے سورج کو سجدہ نہ کرو   |   جمہوری دور میں تجدید بت کدہ نہ کرو

گُر سے رکھو بڑے کے کاندھے پر کلہاڑی   |   فرزند خلیلؑ! آتش نمرود پر شکوہ نہ کرو

اہل حق بن کر رہیں گے تیرے ساتھی   |   ان پیسہ ور مفتیوں کی پرواہ نہ کرو

ایجنٹ علما کے نام بتاؤ مفتی شموزئی!   |   امریکہ کے دلالوں کو خالی انتباہ نہ کرو

دھمکی سے دبائے مفتی جمیل یا لالچ سے   |   بھیانک سازش کو چھپانے کا گناہ نہ کرو

جہادی ذوق میری ملت کا سرمایہ ہے مگر   |   ایجنسی کے پلان پر اس کو تباہ نہ کرو

پرائے گُو پر ٹیٹ مارتے ہو جماعتی ٹھا   |   کرنا کچھ نہیں تو ہُوہا غوغا نہ کرو

میرے رہبر! میرے رہنما! اے میرے سرتاج!   |   اُمت غرق تیرے ہاتھوں اب گلہ نہ کرو

امریکہ کی منڈی میں خون شہادت کا بھاؤ؟   |   ضمیر فروشو! معصوم جانوں کا سودا نہ کرو

اسلام جہاں گیر ہے شعور کسے نہیں یارو!   |   تقرر امام پہ دو قربانی لڑ مرا نہ کرو

فرنگی نظام کے خلاف برپا کردو کربلا   |   مذہی مداری ڈگڈی بجائے تماشہ نہ کرو

کب تک ہوگا یہ اسلامی جذبے کا خوں؟   |   سیاسی چلن کے بازی گرو دھوکہ نہ کرو

میرا اسلام آیا ہے حکمرانی کے لئے مولانا!   |   پیشہ گداگری سے اس کو رُسوا نہ کرو

یہود کی لونڈی اقوام متحدہ سے اُمید تیری   |   امیر طالباں! مسند شاہ کو گدا نہ کرو

جہادِ افغان کی پشت میں تھا امریکی مفاد   |   مسلمانوں کے دشمن نصاریٰ پر بھروسہ نہ کرو

قدم اٹھاؤ عرب شہزادو! اے حرم کے امام!   |   اسرائیل مخالف جعلی فتوے پر اکتفا نہ کرو

ایرانی حکومت! انتشار امت کا سرغنہ تم ہو   |   دورِ وحدت قرونِ اولیٰ سے جفا نہ کرو

خلافت کرو قائم پاک وطن کے نا مرادو!   |   چھوڑو ورلڈ آرڈر ، طاغوت سے وفا نہ کرو

بیداری ملت کے لئے ضرب لگاتے جاؤ عتیق   |   برادران یوسف کو خوابوں سے آگاہ نہ کرو


غلامی کے نظام کا سب سے بڑا انسٹیٹیوٹ مزارعت؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

جب سود کی حرمت کے بارے میں قرآنی آیات نازل ہوئیں تو رسولۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیکر اس پر پابندی لگادی۔ائمہ مجتہدین حضرت امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی سب متفق تھے کہ مزارعت سود اور ناجائز ہے لیکن بعد میں احناف کے کچھ فقہاء نے اس کو جواز بخش دیا اور رفتہ رفتہ یہ تصور بھی ختم ہوگیا کہ ”مزارعت ناجائز ہے”۔ جس طرح آج سودی بینکاری کو اسلام کے نام سے جواز بخشا گیا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے ذہن میں یہ تصور بھی نہیں ہوگا کہ سود ناجائز تھا۔ مزارعت سے خاندان کے خاندان غلام بن رہے تھے اور سودی نظام سے ریاستوں کو غلام بنایا جارہاہے۔ پاکستان کے مصور علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
آج سندھ اور پنجاب کے مزارع غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جاگیردار ان پر بے تحاشا تشدد کریں، ان کے جسمانی اعضاء کاٹ ڈالیں۔ ان کی عزتیں بھی لوٹ لیں مگر ان میں مزاحمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور ہمارا مزارع طبقہ بھوک وافلاس کی آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے۔ جسکے پاس کاشت کی زمین ہو ، تو وہ اپنا پیٹ پال سکتا ہے۔ عشر سے کسی غریب کی مدد بھی کرسکتا ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم، خوراک ، پوشاک اور آسائش والی زندگی تک بھی اپنی محنت سے پہنچ سکتا ہے لیکن ہمارا محنت کش طبقہ سب سے زیادہ بری حالت سے دوچار ہے۔ اسلام کا معاشی نظام سود اور مزارعت سے پاک ہے ۔ ہماری ریاست بھی گروی ہے اور ہمارا کاشتکار طبقہ بھی گروی ہے تو خوشحالی کون کس کو دے سکتا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن نے جب سیاست میں قدم رکھا تھا تو مزارعت کا سودی نظام درست کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ سودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کے خلاف بیانات دیتا تھا لیکن شاید ا ب خود جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صفوں میں شامل ہوگیا ہے۔
ہم نے دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کسی کو غلام اور لونڈی بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہم مزارعت کا وہ نظام ختم کررہے ہیں جس کو اسلام نے اسلئے ختم کیا تھا کہ یہ غلامی کا سب سے بڑا انسٹیٹیوٹ ہے۔ آج سودی نظام نے ریاستوں کو بھی غلام بنانے کا نیا حربہ شروع کردیا ہے۔ جب ہم مزارع کو خاندانی غلامی اور ریاست کو عالمی غلامی سے نکالنے کا قصد رکھتے ہوں تو اس سے پہلے اسلام کا معاشرتی نظام بھی ہم نے ٹھیک کرنا ہوگا۔ جب نبیۖ نے آخری خطبہ پڑھا تو سود کے خاتمے کا اعلان کردیا اور سب سے پہلے اپنے چاچا عباس کا سود معاف کردیا اور جاہلیت کے قتل میں سب سے پہلے اپنے خاندان کے فرد کا خون معاف کردیا۔
آج مغرب نے عورت کو طلاق کے بعد زبردست حقوق دئیے ہیں لیکن ہم نے عورت سے بچے جنوانے کے بعد نہ صرف بچے چھین لینے ہیں بلکہ ان کو مالی حقوق سے بھی بالکل محروم کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن نے مغرب سے زیادہ حقوق عورت کو دئیے تھے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی شوہر کی قدرت کے مطابق عورت کا معروف طریقے سے خرچہ دنیا فرض کیا تھا۔ غریب اور امیر دونوں اپنی اپنی طاقت کے مطابق خرچہ دینے کے پابند تھے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے نصف حق مہر دینے کی قرآن میں وضاحت ہے۔ اگر ایک ارب پتی شخص چند ہزار یا چند لاکھ حق مہر کے نام پر دیتا ہے تو یہ وسعت اور معروف طریقے کے منافی ہے۔ ہمارا مذہبی طبقہ جس کلچر سے وابستہ ہوتا ہے وہی کرتا ہے۔ پنجاب میں جہیز کی لعنت اورپختونخواہ میں حق مہر کھاجانے کی رسم ہے لیکن مولوی اپنی فیس کھری کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں واضح کیا کہ نصف حق مہر فرض ہے۔ لیکن عورتیں چاہیں تو معاف کرسکتی ہیں اور جن کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ بھی درگزر سے کام لے سکتے ہیں اور اگر مرد درگزر سے کام لیں تو یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ یعنی مردوں کو ترغیب دی ہے کہ عورتوں سے معاف کرانے کی توقع یا لالچ رکھنے کے بجائے تم ہی درگزر سے کام لو اور پورا حق مہر دو۔ کیونکہ طلاق تم نے دی اسلئے جن کے ہاتھ میں”نکاح کا گرہ” سے ایک احساس دلادیا۔
مولوی نے اس لفظ کو پکڑ کر انسانی فطرت کے آخری کناروں کو بھی پار کردیا اور یہاں تک فتوؤں کی شریعت بناڈالی ہے کہ ” ایک آدمی نے بیوی سے کہا کہ تجھے تین طلاق۔ پھر مکر گیا۔ طلاق ہوگئی اور بیوی حرام ہے لیکن بیوی کو دوگواہ عدالت میں لانے پڑیںگے ۔اگر نہیں تو وہ اس کی بیوی ہے اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر وہ بدکاری اور حرامکاری پر مجبور ہے۔ یہ فقہ کی کتابوں کے خفیہ اور ناقابل عمل مسائل نہیں ہیں بلکہ آج بھی مدارس سے فتویٰ دیا جارہاہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے۔ حالانکہ جس آیت سے علماء خلع مراد لیتے ہیں آیت 229البقرہ ۔ اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتاہے بلکہ آیت19النساء میں خلع کو واضح کردیا گیا ہے۔ آیت20، 21 النساء میں طلاق کی صورت میں عورت کے حق کی وضاحت ہے۔ قرآن نے نہ صرف خلع کی اجازت دی بلکہ عورت کو شوہر کی طرف سے دی ہوئی تمام منقولہ اثاثہ جات ساتھ لے جانے کی بھی اجازت دی اور بعض اشیاء بھی واپس لینے کی ممانعت کی ہے اسلئے کہ یہ اس کا اپنا حق ہے۔ اگر شوہر خوش نہیں رکھ سکا یا وہ خود خوش نہ رہ سکی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ قرآن نے پھر حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے اور اللہ کی طرف سے اس میں بہت ساراخیر بنانے کو بھی واضح کیا ہے۔
جبکہ طلاق کی صورت میں تمام منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء خواہ خزانے کیوں نہیں دئیے ہوں ،کسی ایک چیز کے بھی واپس لینے کی گنجائش نہیں دی ہے اور بہتان لگاکر حق سے محروم کرنے کی بھی عار دلائی ہے۔ جب ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق بحال ہونگے تو اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ عورت کو آزادی بھی قرآن نے دی تھی۔ آج جاہلیت کے دور سے بھی عورت کا برا حال ہے۔ جبری جنسی زیادتیاں ہورہی ہیں اور اسلام نے جبری جنسی زیادتی پر گواہ کا مطالبہ نہیں کیا ہے بلکہ قرآن میں ان کو ملعون قرار دیکر جہاں پائے جائیں پکڑکر قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور حدیث میں نبیۖ نے عورت کی گواہی قبول کرتے ہوئے سنگساری کا حکم جاری کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نیب کے نوٹس پر ریاست کا حال امریکہ جیسا کرنے کی دھمکی دے سکتے ہیں لیکن عورتوں کی عصمت دری پر اسلامی قانون کی وضاحت نہیں کرسکتے ہیں تو اسکے ذریعے سے کونسا اسلامی انقلاب آسکتا ہے؟۔
ملکت ایمانکم کا مفہوم وسیع ہے۔عورت برابری کا معاہدہ کرسکتی ہے۔ ام ہانی نے ام المؤمنین بننا قبول نہ کیا تو ملکت ایمانکم کا استفادہ ملا۔ علامہ بدرالدین عینی نے ان کو 28ازواج مطہرات میں شمار کیا ۔ حضرت صفیہ جنگ کے نتیجے میں آئی مگر مجبوری نہیں خوشی سے ام المؤمنین کا شرف مل گیا۔ حضرت ہاشم کے بیٹے حضرت عبدالمطلب کو مکہ والے بڑے بھائی کا غلام سمجھتے تھے۔ حضرت اسماعیل کی شان کم نہیں تھی کہ اماں حاجرہ لونڈی تھیں۔ اسلام نے غلامی کا نظام ختم کیا۔ ابولعلاء معریٰ نے لکھاکہ ”عرب بادشاہوں نے یورپ کی سرخ وسفید عورتوں کو دیکھا تو لونڈی کو پھرجواز بخش دیا”۔ عورت کو اسلا م نے حقو ق دئیے مگر چراغ تلے اندھیرا ہے۔عورت کے حقوق پر کتاب اسلئے لکھ دی ہے ۔ جب لوگوں میںحقائق کا علم عام ہوجائے تو پھر معاشرے کا ہر جھول جلد بدل سکتا ہے ۔

پاکستان اور اسلامی حدود کے نفاذپر دنیا کے تحفظات!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

یورپ اور دنیا کا دباؤ ہے کہ اسلامی حدود کے نفاذ سے پاکستان پرہیز کرے کیونکہ یہ وحشیانہ ہیں۔ انسانیت کی توہین ہے اور اس سے دور نہیں رہا گیا تو امداد اور تعلقات بند کردیںگے۔ مولوی سمجھتا ہے کہ اللہ نے قرآن میں نبیۖ سے فرمایا : ولن ترضٰی عن الیہود ولن النصارٰی حتی تتبع ملتھم ”اور یہود ونصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے یہاں تک کہ آپ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں”۔ اسلئے یہودونصاریٰ اسلام کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
دوسری طرف احادیث میں ہے کہ پوری دنیا میں اسلامی خلافت قائم ہوگی اور آسمان وزمین والے دونوں ان سے خوش ہونگے؟۔کیا قرآ ن وحدیث میں اتنا بڑا تضاد ہوسکتا ہے؟۔ اس کا جواب بالکل ٹھنڈے دل کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔
قرآن میں مخاطب نبیۖ کی ذات ہے کہ آپۖ سے یہودونصاریٰ راضی نہیں ہونگے۔ یہاں تک کہ ان کی ملت کے تابع نہ بن جائیں۔ یہودونصاریٰ سے مراد ”ان کا مذہبی طبقہ ”اور ان کی ملت سے مراد” ان کا فسخ شدہ مذہب” ہے۔
آج یہودونصاریٰ نے مذہبی طبقے کو کھڈے لائن لگادیا ہے۔ نظامِ حکومت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ عیسائیوں کے ہاں عورت کو طلاق نہیں ہوسکتی تھی مگر پھر لند ن کے بادشاہ نے ایک مذہبی طبقہ پیدا کرکے اس مذہب سے جان چھڑا دی۔ آج مسلمانوں کی حالت یہود ونصاریٰ کے مذہبی طبقات کی طرح ہوچکی ہے۔ کوئی ان کا فرقہ اور فرقہ وارانہ ذہنیت جب تک قبول نہیں کرتا ،اکثریت ان کی حق باتوں کو بھی قبول نہیں کرتی ہے۔ فرقہ واریت کے علاوہ اسلام کا چہرہ بھی مسخ کیا گیا ہے۔
یہودونصاریٰ اور دنیا کو یہ خوف ہے کہ جب پاکستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز ہوگا۔ تمام مسلم ممالک اس کے گرد اکٹھے ہوجائیںگے تو یہ ہم سے جزیہ بھی وصول کرینگے اور اگر جزیہ نہیں دیا تو جہاد کے ذریعے فتح کرکے ہمارے مردوں کو غلام اور عورتوں کو لونڈیاں بنادیںگے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اسلامی سزاؤں پر عمل شروع ہوگا تو امن آجائے گا اور مسلمان مضبوط ہوںگے تو ہماری خیر نہیں ہوگی اسلئے کہ جو اسلام کے نام پر اپنی بیگمات کے بھی حلالے کروانے سے گریز نہیں کرتے تو وہ لونڈیوں کے نام پر ہماری بیگمات کو بھی ضرور ریپ کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ مسخ شدہ اسلام کا صحیح رُخ دنیا کے سامنے پیش کریں لیکن جب تک ہمارے مذہبی طبقات اور عوام اسلام کا درست چہرہ قبول نہیں کرینگے تو ہم ان مشکلات سے نکل نہیں سکتے ہیں۔ وہ لوگ ہمارے دشمن بلاوجہ نہیں ہیں۔ ہم سے بہت خوف کھارہے ہیں کہ اگر ان کو طاقت مل گئی تو ہماری خیر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنٰی و ثلٰث ورُبٰع فان خفتم الا تعدلوا فواحدةً او ماملکت ایمانکم” پس تم نکاح کرو، عورتوں میں سے جن کو چاہو۔دودو،تین تین،چار چار،اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک یاجن کامالک تمہارامعاہد ہ (ایگریمنٹ) ہو۔(النسائ:آیت3)
اس کی تفسیر علماء کے نزدیک یہ ہے کہ منکوحہ عورتیں چار تک جائز ہیں لیکن اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جو لونڈیاں تمہاری ملکیت میں ہوں۔
معروف صحافی سعداللہ جان برق نے اپنی کتاب”دختر کائنات ” میں لکھا ہے کہ ”سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے چار ہزار لونڈیاں تھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے محل کے بالاخانے تک جانے کیلئے سیڑھیوں میں ننگی لڑکیاں کھڑی کر رکھی ہوتی تھیںجن کے سینوں کو پکڑ پکڑ کر وہ سیڑھیاں چڑھتا تھا”۔ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے ریحام خان سے کنٹینر کے زمانے میں خفیہ شادی کی تھی تو بہت بے شرمی سے کہا تھا کہ ” تبدیلی آگئی ہے ، میں شادی کروں گا”۔ میرے بھائی پیرنثار احمدشاہ عمران خان کو محمد شاہ رنگیلا قرار دینے کے باوجود زیادہ مستحق سمجھتا تھا کہ اس کواقتدار مل جائے تو دوسروں سے بہتر ہوگا۔ دوسرے بھائی پیرامیرالدین شاہ کے خیال میں بھی عمران خان اس قو م کا مسیحا تھا۔ ایک بھائی سیاست اور دوسرے بھائی سول سرونٹ کی حیثیت سے بڑی بصیرت اور تجربات کے مالک بھی ہیں تو ہم دوسروں پر الزام نہیں لگاسکتے کہ انہوں نے عمران خان کے بارے میں حسنِ ظن رکھا تھا؟۔ آج لوگ عمران خان کیساتھ ساتھ اس نظام سے بھی مایوس ہوچکے ہیں۔
اگر دنیا ہمارے بارے میں یہ سوچے گی کہ انہوں نے حلالوں کے ذریعے سے اپنی عزتدار خواتین کی عصمتوں کو لوٹاہے اور لونڈی کے ذریعے سے ہمیں کہاں بخشیںگے تو مسلمانوں کے بارے میں ان کے تحفظات بالکل معقول ہیں۔
جب ابھی نندن کے جہاز کو گراکر پاکستان نے پکڑ لیا تو کیا اس کو غلام بناکر کوئی گھر کی خدمت لے سکتا تھا؟۔ مولوی کہتا ہے کہ ماملکت ایمانکم میں جنگ کاہر قیدی شامل ہے۔اگر چہ قرآن میں ماملکت ایمانکم سے مراد غلام اور لونڈی بھی مراد لئے گئے ہیں لیکن جنگ میں گرفتار ہونے کیساتھ یہ الفاظ بالکل بھی جوڑ نہیں کھاتے ہیں۔ غزوہ بدر میں 70قیدیوں کیساتھ کیا سلوک کیا گیاتھا؟۔ ان کی شایانِ شان مہمان نوازی کی گئی۔ صحابہ کرام خود بھوکے ہوتے تھے لیکن زیادہ امیر قیدیوں کو اچھے کھانوں کے علاوہ دودھ بھی پینے کیلئے پیش کیا جاتا تھا۔
جب تک ہم اسلام کا روشن چہرہ دنیا کو نہیں دکھائیں گے ،ہم اسلامی نظام کو لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسلام نے غلامی کا نظام قائم نہیں کیا ہے بلکہ اسلامی نظام نے غلامی کا نظام ختم کیا ۔ کیا یہ ممکن تھا کہ فتح مکہ کے بعد حضرت عمر حضرت ابوسفیان سے غلام اور اس کی بیگم حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا سے ایک لونڈی کی خدمت لیتے؟۔گھر میں ابوسفیان نے حضرت عمر کے عبد(غلام) کی حیثیت سے خدمت کرنی ہوتی اور ہندہ نے اَمة (لونڈی) بن کر رہنا ہوتا؟۔
عوام اور مذہبی طبقات اپنا دماغ کھول دیں۔ قرآن میں اللہ نے آل فرعون کی یہ صفت بیان کی ہے کہ ” وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل اور عورتوں کو ریپ کرتے تھے”۔ اسلام کو اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی نیابت کو زندہ کرنے کیلئے نازل نہیں کیا۔
لونڈی وغلام کے نسل درنسل اپنے اپنے خاندان ہوتے تھے۔ حضرت زید بردہ فروشوں کی وجہ سے غلام بن گئے تھے ،نسلی غلام نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”جنکے والد کا پتہ ہو تو ان کو والد کے نام سے پکارا جائے۔ جن کے والد کا پتہ نہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور موالات والے ہیں”۔ اسلام نے ان غلاموں اور لونڈیوں کو بہت اہمیت دی۔ آزاد مشرک سے مؤمن غلام ولونڈی کو نکاح کیلئے بہتر قرار دیا۔ اور طلاق شدہ وبیوہ کی طرح غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کرانے کا حکم دیا۔عبد یعنی غلام کے لفظ کو اللہ تعالیٰ کیساتھ خاص کردیا۔ مملوک کا تصور بالکل درست کردیا۔ پہلے غلام ولونڈی کی جان، انکے جسمانی اعضاء اور حرمت سب کچھ آقا کی ملکیت ہوتی تھی اور مالک چاہتا تو ناک کاٹتا، کان کاٹتا، ہاتھ پیر توڑ دیتا۔ جہاں چاہتا فروخت کردیتا۔ لیکن اسلام نے ان کے اسٹیٹس کو بدل دیا۔ گروی کی حیثیت دے دی۔
جنگی قیدی کا حکم ہے کہ ” ان سے فدیہ لیکریا احسان کرکے آزاد کردو”۔ (سورۂ محمد) اسلام نے دنیا کو انسانیت سکھا دی ۔دنیا نے دہشتگرد پیدا کرکے یہ تصور دیا کہ اسلام وحشیوں کا مذہب ہے۔وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ ایک عالمی کانفرنس منعقد کرکے حقائق کو سامنے لانے کا اقدام کریں۔

نوشتہ دیوار شمارہ ستمبر 2020 کی اہم خبریں

قاتل ہی کارواں کا اگر چیف ہوگیا حیرت نہیں جو قافیہ ردیف ہوگیا

وہ مذہب خوں بہانے کی اجازت دے نہیں سکتا
وضو کے واسطے جو پانی بھی کم بہاتا ہے

جرأتمند ہندو شاعرہ لتا حیاء


شہیدِآرمی پبلک سکول کے نام کھلاخط

فضل خان ایڈووکیٹ


حیات بلوچ کا قتل دلخراش واقعہ ہے۔ قتل کے وقت جو اہلکار موجود تھے ان سب کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ نواب اسلم رئیسانی کا بلوچستان اسمبلی میں خطاب


قاتلانہ حملے کے بعدمیر کلام وزیرکا اسمبلی میںبڑاخطاب


حسینی برہمن کون ہیں؟تاریخ وتحقیق

عدیل رضا عابدی:قلم کار


لاڑکانہ میں ہندو کی جائیداد پر قبضہ؟

ڈاکٹر بھگوان دیوی کی پریس کانفرنس:


سندھیوں نے مہاجروں کو کیا دیا؟

حقیقتوں کا اعتراف: تحریر: انور مقصود


بلرام پور/ لکھنو: دہلی کے دھولا کنواں سے گرفتار آئی ایس آئی ایس (ISIS) کے مشکوک دہشت گرد ابو یوسف عرف مستقیم کی گرفتاری کے بعد اہلیہ نے انکشاف کیا


مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیںکہ بعض کے مطابق امام مہدی اگلے وقتوں کے مولویانہ و صوفیانہ وضع و قطع کے آدمی ہونگے۔ تسبیح ہاتھ میں لئے مدرسہ یا خانقاہ کے حجرے سے برآمد ہونگے۔ انا المہدی کا اعلان کرینگے۔علماء و مشائخ کتابیں لیے پہنچیں گے اور۔۔۔۔۔۔۔۔


شیعہ خطیب سیدجواد نقوی نے کہا کہ ہمارے کاروباری علماء مذہب کے پلیٹ فارم پر فرقہ وارانہ باتیں کرتے ہیں۔ محرم آرہا ہے جو سب سے زیادہ فرقہ وارانہ باتیں کریگا اس کو سب سے زیادہ مجالس کی دعوت ملے گی۔


تم نے آل محمدسے وفا نہیں کی ہندوستان سے کیا وفا کرو گے؟

تم مسلمان نہیں ہو،تم نے اس دھرتی پر مغلوں اور ہتھیاچاروں کے ڈر سے شلوار پہنی تھی، تم کنورٹڈ ہو
ہندو کا مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر سخت ترین طعنہ


مہاجر خاتون کا صوبے کی بات کرنے پر اعتراض کرنے والوں کو جواب


پنجاب میں بال بچے دار خاتون کا اغوا


مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

تبلیغی جماعت کے ترجمان: حاجی نعیم بٹ


اہل سنت میں ہمارے یہاں ناصبیت گھس گئی ہے۔ مولانا طارق جمیل

ہم نے بغض شیعہ میں اہلبیت کی شان کو گھٹا دیا۔امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ طارق جمیل کو میرا سلام کہنا اور کہناکہ ہم نے صدیق میراثی بنالیا


کلیجہ چیردینے والی غزل ’’ لباس تن سے اتار دینا ‘‘


پاکستان ظلم وجبر کے نظام سے نکلنا چاہتا ہے تو؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی


پچھلے شمارے میں کتاب کے پہلے دوصفحات اخبار میں تھے اور شجرہ النسب کو بلیک اینڈ وائٹ کی جگہ رنگدار کرنے کے چکر میں اوراوپر نیچے کی ترتیب تبدیل کرنے کی وجہ سے ناموں کی ترتیب میں تھورا سافرق آگیا تھا۔ ریکارڈ درست کرنے کیلئے شجرہ دوبارہ شائع کردیا۔ اجمل ملک

پختونخواہ کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کیلئے تجاویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ہر گھر میں طالبان میزبان کوئی مہمان تھے۔ بوڑھے، عورت ، بچے جوان سبھی قدردان تھے۔ لوگ دھماکوں، خود کش سے پریشان تھے۔ ہم دلیری پر شادمان تھے۔ پاکستان پر قبضہ اپنے ارمان تھے۔ فضل الرحمن ، عمران خان ایک طالبان خان تھے۔ اپنے سر کی خیر مانگتے جب طوفان تھے ۔کشتی ڈوب جاتی تو قصور وار بادبان تھے۔
آج وزیرستان کاایک محسودپشتو کی اس زبان میں فیس بک پر کہہ رہاہے جس کو دوسرے پختون بھائی سمجھ بھی نہیں سکتے ہیں کہ ”طالبان پھر آگئے ہیں، اب زیادہ نہیں کم ہیں، ہم ان کا راستہ روک سکتے ہیں۔ اگر یہ پھر بڑھ گئے تو پھر جرگہ اور دھرنا سب کچھ بھول جاؤگے۔ یہ صرف مارنا اور ذبح کرنا جانتے ہیں اور کچھ نہیں۔ خود کش حملوں کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں ۔ ان کی فکر کرو، وقت سے پہلے پہلے”۔
فضل خان ایڈوکیٹ پر کچھ دن پہلے قاتلانہ حملہ ہوا تھا، اللہ تعالیٰ حفظ وامان میں رکھے۔ اسکے کھلے خط کی ایک ایک سطر اپنے بچے کے غم میں دل کے خون سے لکھی ہوئی ہے جس میں بچے کی ماں کا بھی درد پورا پورا جھلک رہاہے۔ ہم وہ نہیں کہ دوسرے کے دکھ پر بے حسی کا مظاہرہ کریں اور فتوے لگانے میں ملوث ہوجائیں لیکن حقائق کو بہت مشکل وقت میں بھی سچائی کیساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پوری پختون قوم کا جذبہ طالبان کیساتھ تھا اسلئے قتل وغارت کے باوجود ہماری ریاست ، فوج ، پولیس، عدالت اور جمہوری حکومت سب بے بس نظر آتے تھے۔ فضل خان ایڈوکیٹ صاحب! اگر 2014ء میں تمہارے معصوم پھول کی شہادت سے تمہارا اپنا ضمیر جاگ گیا تو بھی بڑی بات ہے۔ جب آرمی نے فیصلہ کیا کہ طالبان کو شمالی وزیرستان سے بھی بے دخل کرنا ہے تو ردِ عمل کا پہلے سے خطرہ تھا۔ عمران خان 2014ء میں پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیا کرتاتھا۔ شمالی وزیرستان میں احتجاجی مظاہرین کی لاشیں گھروں تک پہنچ گئیں لیکن معذرت کیساتھ احتجاج کی نمائندگی کرنے والے علی وزیر اور محسن داوڑ زندہ وتابندہ ہیں۔ شمالی وزیرستان کے ڈاکٹر گل عالم وزیر پہلے بھی اپنے قبیلے کے بڑے خان تھے اور آج بھی ہیں۔ پہلے طالبان کے ساتھی نہیں بلکہ بہت بڑے دلال تھے اور اب PTMکے بڑے رہنما ہیں۔ پہلے مذہب کے نام پر امریکہ نے پختونوں کا کباڑا کیا تھا اوراب قوم پرستی کے نام پر کررہی ہے۔ وائس آف امریکہ ، BBCاور اسکے تمام ذیلی ذرائع ابلاغ کے ادارے قوم پرستی کے مشن کو آگے بڑھارہے ہیں۔ پختون اب مذہب نہیں تو قوم پرستی کے نام پر ایک دفعہ پھر قربانی کیلئے تیار ہورہاہے لیکن جب اس دام کا شکار ہوںگے تو اپنی تمام کوتاہیاں دوسروں کے کاندھے پر ڈالیںگے۔ میرا وائس آف امریکہ نے انٹرویو لیا لیکن نشر نہیں کیا گیااور میں نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ نشر نہیں ہوگا، جس طرح جیو نے ہمارا پروگرام ریکارڈ کرنے کے بعد نشر نہیں کیا۔
ہماری ایک عزیزہ اور رشتہ دار نے اپنے لختِ جگر کو اپنے ہاتھوں سے خون میں نہلادیا اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ وہ دوسروں کیلئے فسادی کا کردار ادا کرسکتا تھا۔ بھارت میں بھی ISISداعش والے پہنچے ہیں تو کیا بھارت نے ان کو اپنا مہمان ٹھہرایا ہواہے؟۔ اگر بھارت کی ریاست مسلمانوں کو تباہ کروانے کیلئے یہ سب کچھ امریکہ کے کہنے پر کررہی ہے تو مسلمانوں کو خود استعمال نہیں ہونا چاہیے تھا اور جب داعش کا دہشتگرد پکڑا جائے اور بیگم صاحبہ کہے کہ ” دہشت گردی کا منصوبہ تھا اور میں منع کررہی تھی لیکن میری بات نہیں مانی اور اب اس کو معاف کیا جائے”۔
وزیرستان وقبائل میں پہلے بھی اغواء برائے تاوان وقتل کے کیس ہوتے تھے پھر طالبان کو ایکس ٹینشن ملی تو اپنی فطرت دکھادی۔ دیپالپور پنجاب میں بال بچے دارخاتون ایڈوکیٹ دوسری مرتبہ اغواء ہوئی تویہ ریاستی سازش ہے؟۔ بلوچوں کے گھر جلانے والے پشتو زبان بولتے ہیں۔ میرے دوست واحباب بلوچ بھی ہیں۔ ایک تعزیت میں بیٹھاتھا ۔ پختونوں کا بلوچوں کے ہاتھ قتل بڑی خبر تھی۔ بلوچوں نے کہا کہ یہ ایجنسیوں کا کام ہے۔ میں نے کہا کہ میری گھر والی کا چاچا تربت کا بلوچ ہے ، اس کو پٹھان سمجھ کر بلوچ قتل کررہے تھے۔اپنی غلطی کو ایجنسی کے سر ڈالنا مسئلے کا حل نہیں ۔ایف سی میں وہی لوگ بھرتی ہونگے جن کا کوئی قتل ہواہوگا۔ وزیرستان میں فوج پرحملہ ہوا تو منظور پشتین کے پڑوسی نے بتایا کہ” ایک پنجابی سپاہی شعبان زندہ بچا تھا تو اس نے PCOسے ماموں کو فون کیا کہ قید ہوں، میری ماں کو نہیں بتانا۔ اس خون خرابے کے بعد طالبان سے نفرت ہوگئی”۔اگر اس وقت محسود قوم اٹھ کر دہشتگردی کا خاتمہ کرتی تو بہت برے دن نہ دیکھنے پڑتے۔
جیش محمد کے مولانا مسعود اظہر اور سپاہ ِ صحابہ کے مولانا نیاز محمد ناطق بالحق سے میری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اچھی دوستی تھی۔ مولانا مسعود اظہر کہہ سکتا ہے کہ ”میری پچھاڑی اللہ نے بنائی ہے تو کیا اس کا تقدس کعبہ سے زیادہ ہے؟”۔ چوتڑ کو خوشبو لگانے والا ابوجہل فصاحت وحکمت کی بات کرتا تھا لیکن مؤمن عزت کو اللہ نے اپنی عطاء قرار دیاہے ۔ ایک بلوچ بڈھا غصے میں کعبہ مادر، کعبہ مادر کہتا تھا تو ایک چھوٹی بچی نے پوچھا کہ اسکا کیا مطلب ہے؟۔ اس نے کہا کہ مجھے کیا پتہ؟۔ ہندوستان میں امریکہ داعش کے ذریعے دہشت گردی پھیلائے۔ اور ہمارا مولانا مسعود اظہر کعبہ مادر اعتراف کرکے احسان اللہ احسان کی طرح محفوظ مقام پر جائے پھر پتہ چلے کہ امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر نے پاکستان کی ریاست اور بھارت دونوں کو تباہ کرنے کیلئے اپنا پلان بناکر ڈرامہ رچایا تھا۔ فوجی افسران غداری میں تختہ دار پر چڑھ گئے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا کے امریکی ایجنٹوں کو جب ہماری ریاست نہیں پکڑ سکتی ہے تو فوج میں بیٹھے ہوئے لوگ کس طرح سے کسی کے دسترس میں آسکتے ہیں؟۔بھارت میں مولانا مسعود اظہر آزادی سے ہر ہفتے حالاتِ حاضرہ پر ضربِ مؤمن میں لکھتاتھا، اس سے سازش کی بد بوآرہی تھی۔بھارت میں بھارتی ریاست، امریکی سی آئی اے اور وہ مسلمان خاندان جو داعش کیلئے کام کرتا ہے سب ملکر بھارت اور مسلمانوں کا بیڑہ غرق کرنا چاہتے ہیں لیکن مسلمان سیدھے ہیں۔
وزیرستان کی عوام اور منتخب نمائندے پاک فوج کیساتھ مل کر کھلے عام اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھیں۔ حکومت، فوج اور عوام ایک پلیٹ فارم پر مجرموں کو پکڑیں اور کسی بھی ایسے گڈ یا بیڈ کو اجازت نہ دیں جو اپنے ماں باپ سے الگ رہتا ہو۔ جب عوام ریاست کیساتھ بھرپور تعان کرینگے اور اپنے بھائی، بچے اور احباب دہشت گرد کو اپنے ہاتھوں سے انجام تک پہنچائیںگے تو امن وامان کا معاملہ بالکل حل ہوگا۔
بلوچ بڑی تعداد میں مرکھپ گئے اور اب آئندہ اپنی نسل بچانے کی فکر میں لگ گئے ہیں۔ ایک بے گناہ بلوچ سے پہلے ایک بے گناہ پشتون کے قتل پرردِ عمل آتا تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔وزیرستان میں قتل وغارت کے شروع میں طالبان پر قابو پایا جاتا تو اتنی تباہی وبربادی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ PTMکے لوگوں کو پتہ ہے کہ صرف فوج کی مخالفت سے طالبان ان کی حمایت کرینگے لیکن جب دوبارہ قومیت کے نام پر یہ کھیل شروع ہوگا تو کسی کے پاس جنت میں جانے ، حوریں پانے کا بھی کوئیسرٹیفکیٹ نہیں ہوگا۔ پشتون غیرت کے نام پر اپنی بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور ماؤں کو اسلامی حقوق دینا شروع کریں تو اس جبر سے نکلنے میں مشکل نہیں ہوگی جو ہم اور پوری دنیا پر مسلط ہے۔ کہیں ایک اور ڈرامے کاہم شکار نہ ہوجائیں۔
فیزبک پر پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں
پختونخواہ کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کیلئے تجاویز

سندھ کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کیلئے ایک تجویز!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
سندھی و مہاجر اپنی الگ الگ تہذیب وتمدن کیساتھ رہتے ہیں۔ مہاجر وطن ہندوستان چھوڑ کر سندھ میں آباد ہوئے اور سندھی پرانی تہذیب کیساتھ رہتے ہیں۔ ایک شیعہ بچہ داد لینے کیلئے کہتا ہے کہ لیڈر دو تھے، ایک محمدۖ اور ایک حسین ۔ جب محمدۖ نے دن کے وقت لوگوں کو بلایا تو کوئی نہیں آیا اور حسین نے رات کی تاریکی میں جانے کا کہا تو کوئی نہیں گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟۔
مہاجر بے وطن نہیں،پوراپاکستان مہاجر کا وطن ہے۔سندھی، پنجابی، پختون اور بلوچ اپنے اپنے علاقوں میں رہ سکتے ہیں اور ایکدوسرے پر اپنے علاقوں میں بھی رہائش کے دروازے بند کرسکتے ہیں۔ لیکن مہاجر پورے پاکستان کے باسی ہیں۔
مہاجرصوبہ سندھ کی تقسیم پر بن سکتا ہے جو سندھیوں کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ اگر کراچی کو صوبہ بنالیا تو سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں فساد بھڑک سکتے ہیں۔ بھارت سندھ سے لگا ہے۔ فسادات کے بعد بنگلہ دیش جیسی صورتحال سندھ میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ کچھ کٹھ پتلی قسم کے سمیع ابراہیم جیسے صحافی خود کو ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنٹ ظاہر کرکے نادانستہ طور پر پاکستان کو بحران کی طرف گھیسٹ رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے بہت غلط کیا ہوگا کہ اسکے چشمے کو مکا مار کر توڑ دیا تھا لیکن ایسی حرکت نہیں کرنا چاہیے کہ غلط تجاویز اور پروپیگنڈے سے ملک وقوم کو نقصان ہوجائے۔
رسول بخش پلیجو کے گلے شکوے سوشل میڈیا پر پھیل گئے تو انور مقصود نے بھی بہت اچھا بیان لکھ کر مہاجر بھائیوں کو حقائق سمجھانے کی زبردست کوشش کی۔ معاملہ اس وقت صلح ، امن و آتشی اور بھائی چارے کی طرف آئیگا کہ جب ایک دوسرے کی خوبیوں اور فوائد کی طرف نظر کرینگے اور اپنی خامیوں کو اجاگر کرکے اپنی قوم سے ہوا نکالیںگے۔ جب مہاجر صوبے کی بات عروج کی طرف بڑھ رہی تھی تو ایک عورت یا لڑکی کی طرف سے سوشل میڈیا پر بیان آیا جس نے اپنا تعلق حیدر آباد سے ظاہر کیا تھا اور سوشل میڈیا پر جعلی ایڈرس بھی ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق الطاف بھائی سے تھا۔ اور بہت مؤثر تحریر لکھی تھی کہ ” اپنا صوبہ بنانے سے اگر مسائل حل ہوتے تو بلوچستان اور پختونخواہ کے لوگ خوشحال ہوتے اور ریاستی جبر اور غلامی کا رونا نہ روتے۔ مہاجروں کو کراچی الگ صوبہ بناکر دیا تو ان کو مزید زیادہ مار پڑے گی۔ یہ بالکل کٹھ پتلی بن کر رہ جائیںگے۔ ہم پاگل نہیں کہ مہاجر صوبہ بنائیںگے بلکہ ہم الطاف بھائی کی قیادت میں سندھو دیش بناکر دم لیںگے”۔ الطاف بھائی کے کارکن عتاب میں ہیں اور ان سے اس قسم کے بیانات خلافِ توقع نہیں۔ پھر الطاف بھائی کا بیان بھی سامنے آگیا ،جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ”ہم نے پہلے بہت بڑی غلطی کردی کہ اپنا وطن ہندوستان چھوڑ دیا ۔ اب ہم سندھی ہیں، ہمارا کوئی دوسرا وطن نہیں ، سندھ سے غداری کی غلطی نہ کرو”۔ یہ معمول کی بات لگی کہ الطاف بھائی ہر اس قدم کی مخالفت کرینگے جسکے پیچھے وہ خود اور اس کی پالیسی کا عمل دخل نہ ہو۔ پھر ہندوستان کی اسمبلی میں پہلی بار سندھی زبان میں تقریر ہوئی اور ایک کروڑ سندھیوں کی ہندوستان میں نشاندہی اور سندھ کے مشترکہ اقدار منجو دھڑو وغیرہ کا ذکر کیا گیا۔ ہندوستان کے پنجاب میں سکھوں کیساتھ پہلی مرتبہ مراسم قائم کئے گئے۔ امریکہ کا حکمران طبقہ اسلحہ سازوں کا ایجنٹ ہے اور اس خطے کے ٹکڑے کرکے گریٹ پنجاب کیساتھ سندھ ، بلوچستان اور پختونخواہ میں بڑے پیمانے پر خونریزی کا چکر چلانا چاہتا ہے۔ ریاست کے دلال قوم پرستوں پر ایجنٹ کا الزام لگاکر خونریزی کی راہ مزید ہموار کررہے ہیں اسلئے کہ ایجنٹ ہونے کا کردار سب سے زیادہ پاکستان کی ریاست نے ادا کیا ہے۔
جب تک ہماری ریاست ہوش کے ناخن نہ لے اور عوام میں بیداری کی لہر نہ دوڑائی جائے ہم ایک نامعلوم اور بہت خطرناک منزل کی طرف جارہے ہیں۔ ایک نوکر پیشہ ملازم اور کٹھ پتلی سیاستدان کو اپنے ماحول کے نشے میں بات اسوقت تک سمجھ نہیں آتی جب تک اس کو سرکے بل پٹخ کر اس کی دنیاتبدیل نہیں کی جاتی۔ ہنوز دلی دور است ۔ ”ابھی دہلی دور ہے ” کی کہاوت بہت پرانی مشہور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور منافقوں کا زبردست نقشہ سورۂ نور میں کھینچاہے واذادعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم اذا فریق منھم مغرضونO ” اور جب ان کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ ہو تو ان میں ایک گروہ ٹال مٹول کرتا ہے” ۔ سندھ لینڈمافیا کا مرکز ہے۔ پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ سیکولر ازم ہے۔ اسلامی سوشل ازم کا نعرہ بھٹو نے لگایا تھا۔ آج قرآن وحدیث اور فقہ کے جمہوری مسالک کے مطابق مزارعت کا نظام سندھ میں ختم کیا جائے تو پورے پاکستان نہیں بلکہ دنیا میں انقلاب آئیگا۔ مزارعین کو مفت کی زمین کاشت کیلئے مل جائے تو سندھی عوام کی تقدیر بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ عوام کو اسلام بھی چاہیے اور اپنا مفاد بھی اور اسلامی مزارعت میں دونوں باتیں ہیں لیکن سیاسی پارٹیاں اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں اس میں وہی فریق ہیں جو اسلام سے اعراض میں قومی مفادات کو نظر انداز کرکے اپنے ذاتی وخاندانی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
اللہ اگلی آیات میں فرماتا ہے کہ ” اگر بات انکے حق میں ہو تو اس میں مطیع اور فرمانبردار ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ کیا انکے دلوں میں مرض ہے یا یہ شک میں ہیں؟ یا ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول ان پر خوف مسلط کردیںگے؟۔ بیشک یہی لوگ ظالم ہیں۔ مؤمنوں کی بات یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ انکے درمیان فیصلہ ہو تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اطاعت کرلی۔ اور یہی لوگ فلاح والے ہیں۔ اور جو اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس کا پرہیزگار بنے تو یہ لوگ کامیاب ہیں اور یہ لوگ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیںکہ ان کو آپ حکم دو تو سب گھروں سے قربانی کیلئے نکل کھڑے ہونگے ،ان کو کہہ دیجئے کہ قسمیں مت کھاؤ، معروف اطاعت کرو، بیشک اللہ جانتا ہے جو تم عمل کررہے ہو۔ ( سورۂ نور آیات۔ آیات48تا53)
جو عام معاملات میں لینڈ مافیا، کرپشن، ظلم وجبر اور ہرطرح کی حرام زدگیوں میں ملوث ہیں وہ ملک وقوم اور اسلام پر مشکل وقت آن پڑنے پر قربانیوں کی قسمیں کھاتے ہیں اور جوش وجذبے کے مظاہرے کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ قسمیں مت کھاؤ، معروف اطاعت کرو۔ وقت پر تمہارے بدلنے کی ضمانت تمہاری قسمیں اور عہدوپیمان نہیں ۔ جسکا تم نے حلف اٹھایا، اس کی پاسداری بھی تم سے نہیں ہوتی۔ جب قوم کو محکوم، مجبور، مظلوم اور بہت پسماندہ رکھا جاتا ہے تو ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک حکمران اپنی جگہ سے ہٹ جائے اور دوسرا آجائے۔ بنگلہ دیش پاکستان کی بنیاد تھا لیکن پھر آزاد ہوگیا تو آج خوشحال ہے۔ مزارع مزارع ہی رہے گا تو وہ ملک وقوم کیلئے کیوں قربانی دے گا؟۔ محنت کش خون پیسنے کی کمائی سے پیٹ نہیں پال سکتا تو کیوں بیوقوف بنے گا کہ سیاستدان نے ملک کو لوٹا ہے یا فوجی اسٹیبلیشمنٹ، عدالتی اسٹیبلیشمنٹ اور سول اسٹیبلیشمنٹ نے؟ اور کس کی حکومت آئے اور کس کی جائے؟۔ یہ درست ہے کہ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں بیرونی اور اندرونی قرضے نہیں بڑھے لیکن دونوں ادوار میں امریکہ کی جنگ لڑکر قوم کا اخلاقی اور جسمانی دیوالیہ بھی نکال دیا گیا اور افراد نے بہت کمایا لیکن قوم کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔ مہاجر سندھی بھائی بھائی زندہ پائندہ باد

بلوچستان کے مسائل کی بنیاد اور انکے حل کی ایک تجویز

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
حیات بلوچ کا بے گناہ قتل پوری پاکستانی قوم کا قتل ہے، تمام بلوچوں کا قتل ہے اور سب بے گناہوں کا قتل ہے اور پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ایک جوان کی وجہ سے ماںباپ کا گلستان اُجڑتاہے ،بیوی بچوں کی دنیا برباد ہوجاتی ہے۔ انسان کوئی بھی ہو اسکے قتل سے زمین وآسمان پر اس وقت لرزہ طاری ہوتا ہے جب اس بے گناہ کے خون سے زمین رنگین ہوجاتی ہے۔ اسی لئے تو اللہ کی بارگاہ میں فرشتوں نے کہا تھا کہ زمین میں فساد پھیلانے اور خون بہانے والی قوم کو کیوں پیدا کررہے ہو؟۔
کعبہ کا مقام ہے کعبہ حضرت ابراہیم نے بنایا، انسان کو اللہ نے بنایا ہے۔ حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ کی لشکر کشی پر خون خرابے کا ماحول پیدا نہ کیا تو اللہ نے ایسا پوتا دیا جو رحمة للعالمینۖ کے نام پر دنیا کیلئے اُسوہ ٔ حسنہ ہے۔ آپۖ نے حضرت امیرحمزہ، سیدنا فاروق اعظم، علی حیدر کرار وابوبکر صدیق اکبر اور حضرت عثمان جیسے جانثاروں کے ہوتے ہوئے مکہ میں خون خرابے کے بجائے ہجرت کو ترجیح دی۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے میں دس سال تک خانہ کعبہ کو 360 بتوں کی بھرمار کے باوجود مشرکینِ مکہ کے حوالے کیا۔ جب ابوجہل نے نبیۖ کو گالی گلوچ دی تو امیر حمزہنے ابوجہل کو للکارا کہ ” او چوتڑ پر خوشبو لگانے والے بزدل! تجھ میں یہ ہمت کیسے ہوئی کہ میرے بھتیجے کو گالی دی”۔ (سیرت النبی ۖ:الرحیق المختوم)
حضرت عمر اسکے بعد اسلام لائے اور اس وقت حضرت امیر حمزہ نے اسلام کو قبول بھی نہیں کیا تھا۔ اگر اس وقت مسلمانوں کو جہاد کا حکم ہوتا تو دہشت سے لوگوں کا بہت برا حال ہوسکتا تھا لیکن مکی دور میں جہاد کی اجازت نہیں تھی۔ فاروق اعظم نے اسلام قبول کیا تو اعلانیہ آذان بھی دی اور ہجرت بھی اعلانیہ کی تھی۔ چھاپہ مار جنگ کی اجازت ہوتی تو بدر میں مردار ہونے والے سردار مکی دور میں مارے جاچکے ہوتے۔
حیات بلوچ کی شہادت پہلی نہیں، بہت بڑی تعداد میں بلوچوں کے جوان بوڑھے، خواتین اور بچے شہید ہوئے ہونگے لیکن حیات کیمرے کے سامنے آگئے اور بہت ساروں کی تشدد زدہ لاشوں پر کوئی آواز بھی نہیں اُٹھ سکی۔ وجہ یہ ہے کہ جب ریاست کیخلاف کچھ نوجوانوں نے ہتھیار اُٹھالئے۔ ان کا بس چلتا ہے تو ریاستی اہلکاروں کو مارنے میں آسرا نہیںکرتے ۔جب ریاستی اہلکاروں کی زد میں آتے ہیں تو ریاست بھی ان سے دشمنوں جیسا رویہ روا رکھتی ہے۔ عدالت ، قانون اور انسانیت کی جگہ چھاپہ مار کاروائیاں ہوںتو زور آزمائی میں ایکدوسرے سے آگے نکلناہوتا ہے۔ کب تک یہ جنگ جاری رہے گی اور مزید کتنے بے گناہ اس جنگ کی آگ میں جھونک دئیے جائیںگے؟۔ اسکے آغاز اور خاتمے کا کچھ پتہ نہیں۔ اللہ کرے کہ ظالم اپنے ظلم سے رُک جائے ،حق وصداقت اور امن وامان کا پرچم جلد بلند ہو۔
آصف علی زرداری جب صدر مملکت اور پاک فوج کے آئینی سربراہ تھے تو انہوں نے بلوچوں سے معافی مانگ لی تھی مگر کس بات پر معافی مانگی تھی،اس کی کوئی خبر کسی کو نہیں ۔ جب تک پتہ نہ چل جائے کہ جرم کیا تھا؟۔ اس وقت تک اس معافی میں کوئی وزن بھی رہتا ہے۔ پھر تو استغفار اللہ ہی کی بارگاہ میں کرنا چاہیے۔ بندوں سے معافی مانگی جاتی ہے تو جرم کے ارتکاب پر ہی مانگی جاتی ہے۔
جب ذوالفقار علی بھٹومرکز میں وزیراعظم ،بلوچستان میں عطاء اللہ مینگل اور پختونخواہ میں مفتی محمود وزیراعلیٰ تھے تو بھٹو نے بلوچستان اسمبلی توڑ کر گورنر راج قائم کیا ۔عطاء اللہ مینگل کو ہٹاکر اکبربگٹی کوگورنر بنادیا ۔ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کو ہٹا کٹھ پتلی گورنر نامزد ہوا، اسلئے کہ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی اکثریت کو حکومت کا حق تھا۔ مفتی محمود نے ساز باز کرکے بلوچستان میں حکومت نیشنل عوامی پارٹی کو دی اور خود سرحد کے وزیراعلیٰ بن بیٹھے۔ اگر بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کی حکومت بنتی اور سرحد میں نیپ کاوزیر اعلیٰ خان عبدالولی خان ہوتے، تو جس طرح پنجاب سرکاری مسلم لیگ کا مرکزتھا اور سندھ پیپلزپارٹی کا مرکز ہے،اسی طرح پختونخواہ عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان جمعیت علماء اسلام کا مرکز بنتے۔ اگر یہ مفاد پرستی کی ساز باز نہ ہوتی تو آج پختونخواہ میں مذہبی جماعتوں کے بجائے قوم پرستوں کی حکومت ہوتی اوربلوچستان میں جمعیت علماء اسلام اور مذہبی جماعتوں کا اقتدار رہتا سرحد میں کٹھ پتلی حکومت مذہب کے نام پر قائم ہوئی اور بلوچستان میں کٹھ پتلی حکومت قوم پرستی کے نام پر قائم ہوئی تو کٹھ پتلی تماشے کا جمہوری بنیادوں پر آغاز ہوگیا۔ جمہوریت کٹھ پتلی بن گئی تو قوم پرستوں نے اقتدار کیلئے ریاست سے قوم کو لڑانے پر غور شروع کیا اور مذہب پرستوں کے دماغ میں دہشت گردی نے جنم لیا۔
مریم نوازکے شوہر صفدراعوان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”ذوالفقار علی بھٹو نے مرزائیوں کو کافر قرار دیا ، بھٹو شہید کو سلام پیش کرتا ہوں، فوج میں قادیانی بھرے پڑے ہیں، بھٹو کو قادیانیوں نے شہید کیاہے”۔
کوئی صفدر اعوان سے یہ پوچھنے والا نہیں تھا کہ جس بنیاد پرجنرل ضیاء الحق کی مخالفت کرتے ہو، اسی کی پیداوار تمہارا یہ ٹبر ہے جس میں نوازشریف،شہباز شریف اور مریم نواز شامل ہیں، اگر بھٹو کو جنرل ضیاء الحق پھانسی نہ دیتا اور شریف برادران کی سیاسی پرورش نہ کرتا تو آج ریٹائرڈ کیپٹن صفدر اعوان کسی پرائیویٹ کمپنی میں سکیورٹی گارڈ کی خدمت انجام دے رہا ہوتا۔ اگرکیپٹن صفدر اعوان میں سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ قومی اسمبلی کے فلور پر بیان دیتے ہوئے کم ازکم حقائق پر بھی بہت غور کرتے۔
حیات بلوچ شہیدکے پسِ منظر میں کٹھ پتلی قوم پرست سیاسی لیڈر شپ کا دامن بھی صاف نہیںہے۔ ریاست سے ملی بھگت کیساتھ خون دینے اور خون لینے کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے محفوظ مقامات پر بیٹھ کر پالیسی بیانات دینے کا معاملہ ہے۔ آزاد بلوچستان کا خواب دیکھنے والے اب درست کہتے ہونگے کہ ریاست بلوچوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے لیکن اپنا اور اپنے بچوں کو جنگ سے دور رکھ کر جنگ کی حمایت کرنے والے بھی معصوم خون کو بہانے میں بالکل برابر کے شریک ہیں۔ کوئی شک وشبہ نہیں کہ بلوچ بہادر، انسانی اقدار کے سب سے بڑے محافظ اور بہت شریف ، باغیرت، باضمیر اور سیاسی سمجھ بوجھ سے مالا مال لوگ ہیں ۔ ان کی جرأتمندی ، بہادری اور غیرت بہت مثالی ہے اور پاکستان میں قوم کی حیثیت سے یہ لوگ ہی سب سے زیادہ احترام ، عزت اور بہت پیار دینے کے لائق ہیں۔ ریاست کے کرتوت ایسے ہیں کہ اگر اتنی غیرت دوسری قوموں پنجابی، سندھی اور پختون میں ہوتی تو بنگلہ دیش سے بہت پہلے ہندوستان کی مدد سے نہیں اپنی طاقت کے بل بوتے پر فوج، پولیس، عدالت اور سول بیوروکریسی سمیت سب کو پکڑکر انگریز کی غلامی سے آزادی دلانے میں ستر سال ضائع نہ کرتے۔ قبائل مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کی فوج سے آزاد کرسکتے تھے تو کیا اتنی بڑی عوام اپنی ریاست کو سیدھا نہیں کرسکتی تھی؟۔
بلوچوں سے دست بستہ اپیل ہے کہ بندوق رکھ کر سیاسی راستہ اپنائیں تاکہ بلوچ قوم خونریزی کے اس عذاب سے نکل جائے اور اچھا انقلاب برپا ہوجائے۔ اسلامی منشور سے عرب کے صحراء سے نکلنے والے تہبند کے لباس میں ملبوس ساری دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔ آج بھی حج وعمرہ کیلئے احرام تہبند کا لباس پہننا پڑتاہے تو بہت بڑی بڑی گھیر والی شلوار پہننے والے غیرتمند بلوچ بھی اسلام کی بنیاد پر دنیا فتح کرسکتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ فتح مکہ کیلئے سب سے بڑی بنیاد بن گیا تھا کہ نہیں؟۔

قادیانیت ، شیعت اور قومیت کا مسئلہ اور اسکاحل کیا ؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جاوید احمد غامدی نے اپنا عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ وہ ”رسول اللہ ۖ کو آخری نبی مانتے ہیں ۔ رسول ۖ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔اور نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں مگر مبشرات ،جو رویائے صالحہ ہیں”۔
غامدی نے بتادیا کہ ” جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہوتو اس کو وہ کافر نہیں کہتا ”۔ غامدی نے ابن عربی کا بتا دیا کہ ” وہ رسول اللہۖ پر تشریحی نبوت ختم ہونے کے قائل مگر نبوت کے جاری ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے”۔ ڈنڈے کے زور پر مفتی محمود نے ایوبی دور میں معافی مانگی لیکن سیدابوالاعلیٰ مودودی نے معافی سے انکار کیاتھا۔
اگر مبشرات سے اصطلاحی نبوت مراد لی جائے تو ختم نبوت کا عقیدہ نہیں رہتا اسلئے کہ لوگ شیطانی جھولوں میں بیٹھ کر نبوت کے دعوے کرینگے۔ نبوت غیب کی خبر بھی ہے۔ وحی میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا۔ رسول ۖ سے سچا خواب کس کا ہوگا۔ حضرت عائشہسے فرمایا کہ آپ کی تصویر مجھے خواب میں دکھائی گئی کہ اس سے شادی ہوگی۔ سوچا کہ خواب اللہ کی طرف سے ہوگا تو پورا ہوجائیگا۔ ( صحیح بخاری)
غیب کی درست خبر رویائے صالحہ ہے ۔ قرآن میں تندرست بچے کی پیدائش کیلئے بھی صالح آیا ہے۔ کشف، الہام، نجوم اور خواب میں غیب کی خبریں بتانے والے شیطان یا انسان کے آلۂ کار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی کلپوں کو عام کیا جاتاہے۔ مہاجر، سرائیکی ،بروہی قومیت حقیقت ہے مگر اس کیلئے قرآن کے غلط حوالے دینا بڑی جہالت ہے۔ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذا ہٰذالقراٰن مھجورًا ”اور رسول کہیںگے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ مسلمانوں کیلئے قوم کا لفظ اس زیادہ کس دلیل کا محتاج ہے مگر علماء کرام پاکستان کے مخالف اور ہندوستانی قومیت کے ٹھیکہ دار بن گئے تھے۔
علماء کہتے ہیں کہ رسول ۖ کی امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔ امام غزالی کا خواب یا مشاہدے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مناظرے کی بات بھی کرتے ہیں ،صحابہ کا مقام علماء سے اونچا ہے مگر انبیاء سے اونچا نہیں ۔
مزراغلام احمد قادیانی مجذوبِ فرنگی تھا جس نے نبوت کا دعویٰ تو کیا لیکن دوسروں کو بھی اس کو نہ ماننے پر رنڈیوں کی اولاد قرار دیا۔ آج مرزائی سمجھتے ہیں کہ ان کو رنڈیوں کی اولاد کی طرح مسلمان مانا جائے توبھی بہت بڑی غنیمت ہے۔
جاوید غامدی اور انجینئرمرزا علی محمدالیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھائے ہیں۔ مرزا علی محمدنے قادیانیوں کی صف میں دیوبندی اور بریلوی کو بھی شامل کیا کہ اشرف رسول اللہ اور چشتی رسول اللہ کے خوابوں سے جب تک توبہ نہیں کی تو ان پر بھی بابی کا فتویٰ لگتا ہے۔ یہ کہنا باقی ہے کہ مرزائیوں نے کلمہ تو تبدیل نہیں کیاجبکہ جاوید احمد غامدی شیخ ابن عربی کی صف میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کھڑا کررہے ہیں۔
علامہ سید جواد نقوی نے آصف علوی کوبرطانیہ کی MI6ایجنسی کا ایجنٹ قرار دیا۔ آصف نے کہا کہ رسول اللہۖ نے حضرت علی کواپنا نفس قراردیااوراماں عائشہ کو طلاق دیدی۔ اگر شیعہ منطقی نتائج اپنے فرقے کیلئے نہ نکالتے تو شیعانِ علی آصف کا جبڑہ توڑ دیتے کہ جب علی نبی کے نفس ہیں تو پھر نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ سے نکاح کیسے ہوسکتا تھا؟۔ اہل تشیع کوان کی منطق کا جواب ان کی منطق سے دینا ہوگا۔ تب یہ اپنی مجالس سے داد حاصل کرنے اور اپنے ریٹ بڑھانے کے چکر سے باز آسکتے ہیں۔ایک شیعہ بچہ داد لینے کیلئے کہتا ہے کہ لیڈر دو تھے، ایک محمدۖ اور ایک حسین ۔ جب محمدۖ نے دن کے وقت لوگوں کو بلایا تو کوئی نہیں آیا اور حسین نے رات کی تاریکی میں جانے کا کہا تو کوئی نہیں گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑا لیڈر کون تھا؟ ہمارا جواب توجو بھی ہوگا سو ہوگا لیکن شیعہ کی اکثریت حسین کوبڑاسمجھ رہی ہے توکلمہ وآذان میں علی کی جگہ حسین کا نام لینا شروع کردیںاورحسینی برہمن کی صف میں شامل ہوجائیں۔ محمدۖ تو حسین کے باپ سے بڑے لیڈر اسلئے تھے کہ رسول اللہۖ نے مدینہ میں رئیس المنافقین کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا اور علی کو کوفہ میں بھی اپنے ہاتھ کے پلے ہوئے خوارج نے شہید کردیا۔ دوسری طرف اپنی دکان چمکانے کیلئے کہہ سکتے ہیں کہ ابوسفیان جب رسول اللہۖ کے سسر تھے تو ان کی بے ادبی اور گستاخی پر ہم کفر کے فتوے لگائیںگے۔ حالانکہ اس سسر کے خلاف صحابہ نے بدر، احدکے معرکے لڑے ہیں جس میں نبیۖ بنفسِ نفیس شریک تھے ۔
علماء کرام و مفتیانِ عظام سے گزارش ہے کہ جب تک آپ کا اپنا مؤقف درست اور مضبوط نہ ہوگا،اس وقت تک اسلام اور مسلمان کو خطرہ لاحق رہے گا۔ شیخ محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ” فتوحات مکیہ” میں تشریعی اور غیرتشریعی نبوت پر جو بحث کی ہے علماء واکابر کے درجات ،تصوف میں مشاہدے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے معاملے میں دلائل دینے ہونگے لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیںگے اور نبیۖ کی شریعت پر عمل کرینگے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کو اپنی شریعت ایجاد کرنے کی اجازت ہوسکتی ہے؟۔ قرآن میں سود کو اللہ اور اسکے رسول ۖ کیساتھ اعلانِ جنگ قرار دیا گیا اور نبیۖ نے 70سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ سود کھانے والے کیلئے اپنی ماں سے زنا قرار دیا۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی و مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن نے سودی نظام کو جائز قرار دیا ۔ کیا یہ نئی شریعت کی ایجاد نہیں ؟۔ نبیۖ کو بھی یہ حق نہیں تھاکہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال اور کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ اللہ ہی حرام و حلال قرار دیتا ہے۔ اللہ کے علاوہ اس مقامِ ربوبیت پر پہلے یہود ونصاریٰ کے علماء ومشائخ فائز تھے اور اب ہمارے علماء ومشائخ اور عوام انہی کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔
نکاح وطلاق اور نماز ودیگر معامالات کے حوالے سے حلال وحرام ، فرض اور نافرض اور شرعی حدود کے حوالے سے خود ساختہ تقسیم کیا نئی شریعتوں کی ایجاد نہیں؟۔ اجتہاد کا تعلق وقت کے حکمران، قاضی اور جج کا انصاف دلانے میں فیصلے کے حوالہ سے ہے۔ نت نئے مسائل گھڑنے کیلئے نہیں۔ غسل کے فرائض پر ائمہ کا اتفاق نہیں، بے نمازی کو سزا دینے پر اتفاق نہیں لیکن ایک ہی سزا ہے جس پر سب کا اتفاق بتایا جاتا ہے کہ عورت کو ایک ساتھ تین طلاق مرد دے تو حلالہ کی لعنت سے عورت کی عزت لوٹی جائے اور بس!۔ علماء اب بات سمجھ رہے ہیں لیکن کھلم کھلا تائید سے بڑے بڑے کترا رہے ہیں کیونکہ ان کو اپنا کاروبار ٹھپ ہونے کا اندیشہ ہے۔
اگر نبوت کا چالیسواں یا چھیالیسواں حصہ رہاہے اور اس سے مراد تشریعی علوم ہیں اور وہ فرائض اور شرعی حدود ہیں تو پھر تشریعی نبوت کے باقی ہونے کا عقیدہ ہونا چاہیے تھا۔ الہام کے اچھے برے ہونے کا تصور ہے لیکن شریعت مکمل ہوچکی ہے۔ الہامی بنیادوں پر شریعت کا اجراء نہیں ہوسکتا ہے ۔ خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے بے نمازی کیلئے کوئی سزا تجویز نہیں کی اور ائمہ نے قتل، قید، زدوکوب کی سزاؤںسے اپنی اپنی شریعت ایجاد کرلی۔ علماء نے اجتہاد کا دورازہ بند ہونے پر اتفاق کیا تھا لیکن جاویدغامدی اب مزید اپنی رائے سے نئی شریعت ایجاد کررہے ہیں۔ علامہ اقبال کی بات درست ہے کہ ” علماء ومشائخ کا بڑا احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہم تک دین پہنچاہے لیکن دین کی شکل اتنی بگاڑ دی گئی کہ رسول اللہ ۖ، جبریل اور اللہ فرمائیں گے کہ یہ وہ دین تو نہیں ہے جس کو ہم پہچان نہیں رہے ہیں”۔