اداریہ نوشتہ دیوار
دہشتگردی، ڈان کی خبر اور سیاسی واقعات و حالات
اوبامہ نے 10سال تک دہشت گردی جاری رہنے کا بیان اسوقت دیا، جب جنرل راحیل نے 2016ء کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دیا۔ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کا معاملہ اور ڈان کی خبر پر حکومت اور کورکمانڈرز کانفرنس کے درمیان تنازع ہے ۔ کرپشن کے الزام پر شہباز شریف نے عمران خان کیخلاف تقریراور 26ارب ہرجانہ کاعلان کردیا۔ میڈیااور لواحقین نے پولیس سینٹر میں دہشت گردی کانشانہ بننے والوں پر سوال اٹھایا تھا۔ محمود اچکزئی خاموش ہیں، مولانا فضل الرحمن کو انڈیا کی بارڈر پر خلاف ورزی نظر آئی۔ واقعہ دنیا میں کہیں بھی ہوسکتا ہے مگر سازش کا سوال پولیس وحکومت پر اُٹھ رہا ہے جسمیں ن لیگ اور اچکزئی شامل ہیں تو پھر کھل کر بات کیوں نہیں کی جاتی؟۔گرتی ہوئی لاشوں کا بھی کوئی ہوش ہے یا نہیں؟، اگر شہبازشریف اپنے ہتک عزت کا دعویٰ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ڈان نیوز کی خبر پریہ سنجیدگی اورکھل کروضاحت کرنے میں کیارکاوٹ تھی؟۔عدلیہ کے ذریعے الزامات ثابت کرنے ہیں توصد رزرداری کو 11سال جیل میں رکھنے کے باوجود کیوں گالیاں دیں؟۔ سویئس اکاونٹ اور پانامہ لیکس دونوں قومی دولت ہیں۔ شرافت اور عدالت کا تقاضہ ہے کہ قومی قیادت کو قومی دولت لانے کا پابند بنایاجائے۔مریم نواز نے ایک کھرب روپے ہرجانے کا دعویٰ کیا کہ ڈان کی خبر میں ملوث ہونے کا الزام لگایا مگر جب پوری فوج کی مٹی پلید کرنے کی خبر بناکر شائع کی گئی تو حکومت اپنی فوج کیلئے ازخود کھڑی نہ ہوئی، کیوں؟۔
اگر جھوٹی خبر بدنیتی سے فیڈ کی گئی توپاک فوج کی عزت برائے فروخت نہ ہوگی جس کی قیمت عدالتوں کے ذریعہ شہباز شریف سے وصول کی جائے بلکہ اس پر قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے۔ اے آر وای پر عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا کہ ’’یہ حکومت نوازشریف کو جنرل کیانی کے وقت میں فوج نے عطاء کی ‘‘۔ دھاندلی کا الزام سب جماعتوں نے لگایا۔جیوپر حامد میر نے ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ پشاور کے حلقہ سے عمران خان کیلئے بھی دھاندلی کے کھلے ثبوت پیش کئے تھے۔ موسمی پرندے پی ٹی آئی کے ایاز صادق وغیرہ اور ق لیگ والے ن لیگ کی طرف پرواز کررہے تھے تو سمجھدار لوگ تبصرہ کررہے تھے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کا فیصلہ ہواہے، ہارون الرشید نے کہا کہ ’’عمران خان بروقت امریکہ اور برطانیہ کو اعتماد میں لیتا۔۔۔ ‘‘۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے ایماء پر اسٹیبلشمنٹ سلیکشن کرتی ہے، جمہوریت کاخوامخواہ میں ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔
ہمارے حکمران جمہوری ہوں یا فوجی امریکی اور برطانوی ایجنڈے کو لیکر چلتے رہے ۔ یہ دیکھا جائے کہ جنرل کیانی کے دور میں پاکستان سب سے زیادہ دہشتگردی کا نشانہ بنا۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سب سے زیادہ دہشت گردوں کے حامی رہے ، الیکشن میں انکے علاوہ سب کیلئے مشکلات تھیں۔ بے نظیر بھٹو دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں اور پھر پیپلزپارٹی کے پیچھے نوازشریف اور عمران خان ہاتھ دھوکر پڑگئے۔جنرل راحیل نے پچھلی باریوم دفاع کے موقع پر جی ایچ کیو میں چےئرمین سینٹ رضاربانی اور امسال اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو ساتھ بٹھالیا۔جس سے حکومت کے وزراء کے چہرے اترے تھے ۔ ہارون الرشید کوکہنا پڑا کہ راحیل آرمی چیف کیلئے بالکل نااہل تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کو شیخ رشید، عمران خان اور پارٹی کے کارکن اور رہنماؤں سے کھلے عام معافی مانگنی چاہیے کہ ایک یو ٹرن مشرق و مغرب یا شمال اور جنوب کا ہوتا ہے، یہ تو بلندی سے پرواز کا رخ موڑ کر اپنی شخصیت ، جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو پاتال میں گھسیڑ دینا تھا۔ شیخ رشید نے کہا کہ ’’جہاں علامہ طاہرالقادری جائے،میں بھی وہاں جاؤں گا‘‘۔ طاہرالقادری نے عوام سے رائے مانگی ،عوام اسلام آباد کادھرنا دیکھ چکے تھے، اسلئے شریف برادران پر زیادہ دباؤ ڈالنا مناسب سمجھا، رائے آئی کہ اسلام آباد نہیں رائیونڈ جانا ہے۔ شیخ الاسلام نے رائیونڈ کا اعلان دبنگ انداز میں کیا۔یعنی اب علامہ طاہرالقادری کیلئے واپسی کی گنجائش نہ رہی۔ شیخ رشید، جمعیت علماء پاکستان کے ڈاکٹر زبیر الخیری و دیگر بھی تھے۔اتنی قلابازی کھانے پر رقم لینے تک کے الزام لگ گئے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذوقِ تقریر مثالی ہے، کوئی اہم اعلان کرنے سے پہلے اپنی لاش پر مرثیہ پڑھنے کی حد تک جاتے ہیں،جلسۂ گاہ میں سامعین اور ٹی وی پر دیکھنے والوں کا علان کرتے کرتے خون خشک کردیتے ہیں، دماغ کی دہی بنادیتے ہیں، عمران خان نے کوفت اٹھاکر اپنے فسٹ کزن کے اعلان کا انتظار کیا جب اس نے اعلان کیا تو عمران خان نے بھی رائیونڈ کا اعلان کردیا۔ پھر علامہ طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کرکے اپنے بیٹوں کو ساتھ میں بٹھاکرقائد کی حیثیت سے اعلان کیا کہ ’’ رائیونڈ جانا تو دور کی بات ہے اس راستہ پر جانا بھی شریعت میں جائز نہیں اور میں اس کو شریعت اور جمہوریت کیخلاف سمجھتا ہوں‘‘۔ اتنا بڑا یوٹرن لینے سے علامہ کی شخصیت کے سارے بھیدکھل گئے۔ علامہ نے بڑی متضاد قسم کی قلابازی کھائی۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’مشاورت کرلو، جب عزم کرلو تو پھر اللہ پر توکل کرو‘‘۔ علامہ نے مشاورت اور اللہ پر توکل کا اعلان کیا مگر پھر جانے کو ناجائز قرار دیا، جیسے شیخ الاسلام نہ ہوں بلکہ نئے نئے مسلمان بن گئے ہوں۔ پھر پینترے بدلتا رہا کہ نیاماڈل ٹاؤں کا واقعہ کروایا جارہا تھا، اپنے بندوں کو خود مار کر ہم پر مقدمات بنانے تھے؟۔
جب اس طرف کا رخ کرنے کو بھی اسلام اور جمہوریت کے منافی قرار دیاتو یہ اپنے کارکنوں کو ہی نہیں ، عوام اور شیخ رشید و دیگر کو بھی روکنے کے مترادف تھا، پیپلز پارٹی والے تو اخلاقیات کے منافی قرار دیتے تھے ، اس نے تو عمران خان اور شیخ رشید کے عزائم پر بھی سوالیہ نشان بنادیا،عوام کو جمہوریت اور اسلام کا فتویٰ بتادیا۔ عمران خان نے اسلئے سوچا ہوگا کہ یہ آدمی ہے یا پاجامہ؟۔ شیخ رشید تو ایک بار نہیں بار بار منجھا ہوا ہے۔ نوازشریف، مولانا فضل الرحمن، پرویز مشرف اور ہرقسم کے لوگوں کا دفاع کرنے میں حالات کے مطابق مگن رہتاہے، دھلے دھلائے ہانڈی کی طرح وسیع ظرف اور بڑا تجربہ ہے۔ اس کی کوشش پہلے عمران خان کو نرمی دکھانے میں ناکام رہی۔ عمران خان نے خود یہ بھی کہا تھا کہ میں تو شیخ رشید جیسے گندے آدمی کو چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔ پھر طاہرالقادری نے یورپی یونین سے مدد لینے کا بہانہ بنایا اور شاہ دولہ کے چوہے کے دماغ میں یہ بات نہ رہی کہ میں نے راحیل شریف سے بھیک نہ مانگنے کا فیصلہ کیا تھا ، یورپ کوئی خدا تو نہیں ۔عمران خان نے پیپلزپارٹی کے سعید غنی کو کہنے کاموقع دیا :’’ ایک اور نیازی نے ہتھیار ڈال دئیے‘‘۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ جنرل راحیل جارہا تھا مگر کمال کمینگی سے شریف برادران نے داؤ پیچ کھیل کر اپنے دامِ فریب کا خود ہی شکار ہوگئے۔ اگر فوج کا ارادہ خراب ہوتا تو طاہرالقادری یورپی یونین کیلئے فرار ہونے کے بجائے راحیل شریف پر اعتماد کا اظہار کرتا۔ اسکا اتنا بڑا یوٹرن لیناکہ اگر جہاز ہوتا تو پرخچے اڑ جاتے مگر علامہ بڑے مستقل مزاج یا ڈھیٹ ہیں کہ پرواہی نہیں کرتے۔ عمران خان نے ٹالنے کی بڑی کوشش کی مگر بالاخر30اگست کو جلسہ کیا۔نوازشریف نے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کے ذریعہ کھلے عام دھمکیاں دیکر واپس لیں۔ علامہ طاہر القادری کو ڈرانے کیلئے ماڈل ٹاؤن کا واقعہ کرایاتھا، 14شہداء کی لاشوں کے باوجود طاہرالقادری کو خطرہ تھایا فوج کو ملوث کرنا چاہتے تھے کہ امارات ائرلائن یرغمال بن گئی؟۔ عمران خان کا دل اور دماغ ایک ہے، جیسے پچھلے دھرنے میں شادی کا اعلان کیا، اس طرح 30اگست کے جلسے میں پھر تاریخ دیدی۔ یہ تو نوازشریف اور شہباشریف کی غلطی سے 6اکتوبرمیں ڈان کی خبر سے ماحول بدل گیا۔ورنہ اسلام آباد کا اعلان دوسری جماعتوں سے شرکت کی توقع پر کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کیلئے یہ نوازشریف کے گھر پر مظاہرہ نہ تھا۔ بلاول بھٹو نے 27دسمبر کا اعلان کیا لیکن جب ماحول کی تبدیلی دیکھ لی تو کہا کہ ’’7نومبر کو احتجاج کرنے کیلئے اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں‘‘۔ سب سیاسی جماعتوں میں قلابازی کھانے میں عمران خان اور طاہرالقادری کو کوئی دیر نہیں لگتی ہے۔