featured Archives - Page 47 of 47 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مہاجر کیا سوچ رہا، کیاسوچنا چاہیے؟:ایڈیٹراجمل ملک

اپنی مٹی پر دیوانہ بنا پھرتا ہوں لوگ کہتے ہیں مہاجر مجھ کو

Ajmal_Malik_Sep2016

کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں عوام کی نمائندہ جمہوری جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایم کیوایم پر بحران آیاتو مہاجر کیا سوچتے ہیں؟۔ اس کی تصویر سید شہزاد نقوی نے کارٹون کی صورت میں اپنے ذہنی تخلیق سے اتاری ہے، سید شہزاد نقوی کا تعلق ایم کیوایم سے بالکل بھی نہیں ، اس نے شکوہ کیا ہے کہ اپنی مٹی پر رہتا ہوں تو لوگ مجھ کو مہاجرکیوں کہتے ہیں؟۔جب ایک غیرسیاسی مہاجر یہ دیکھتا ہے کہ ایم کیوایم کے دفاتر اچانک مسمارکردئیے، وہ لوگ جو اپنے قائد کے خلاف معمولی بات پر جذباتی ہوجاتے تھے، اسی قائد کیخلاف عجیب الزامات، ہر قسم کی مغلظات اور پھرپور طریقے سے سرگرم ہیں، اب ایم کیوایم پاکستان نے بھی لندن سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے، مہاجر کہاں کھڑے ہیں؟، لوگ انکے بارے سوچ کیا رکھتے ہیں؟، یہاں پلے بڑھے، پاکستان اور کراچی کی گلیوں کے سوا کچھ دیکھا نہیں، پھر کیوں بے وطن مہاجر سمجھا جارہا ہے۔ کس قیمت پر یہ وطن اپنا ہی بن سکتا ہے؟، طالبان نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن ان کو پرائے ہونے کا احساس نہیں دلایا گیا۔
جے سندھ، بلوچ قوم پرست اور پاکستان کے گناہ میں شرکت نہ کرنے پر فخر کرنے والا مولانا فضل الرحمن، متحدہ ہندوستان کے حامیوں کی اولاد اسفندیارخان، محمود خان اچکزئی ، قائداعظم کو کافر کہنے والا مولانا مودودی اور مولانا احمدرضاخان بریلوی کی روحانی اولادآج سب پاکستانی مگر جنہوں نے ’’بن کے رہیگا پاکستان، بٹ کے رہیگا ہندوستان ‘‘ کے نعرے لگاکرقربانیاں دیں، ان کی اولاد کی محب وطن ثابت کرنے کیلئے کس طرح سے ناک رگڑوائی جاری ہے؟۔ شاہ زیب خانزادہ نے واسع جلیل سے کہاکہ ’’تم نے رضاحیدر کے قتل کا الزام اے این پی پر لگایاتو100پٹھان ماردئیے گئے، بعد میں پتہ چلا کہ لشکرِ جھنگوی نے ماراتھا‘‘ مگراس وقت تو ریاست نے کوئی کاروائی نہ کی ،حالانکہ الطاف حسین رو رو کے کہہ رہا تھا کہ ان بیچاروں کا کیا قصور تھا جن کو مارا گیا؟۔ 12مئی کا واقعہ بڑا تھا یا 22اگست کا؟۔طالبان نے کیا کچھ نہیں ، وہ خود قبول کرتے تھے کہ ہم کررہے ہیں ، ان کے ہمدرد کہتے تھے کہ نہیں یہ طالبان نہیں امریکہ کروا رہاہے؟، شہباز شریف طالبان سے کہتا تھا کہ ’’پنجاب کو نشانہ مت بناؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ’’را کاملازم کلبھوشن نوازشریف کے مِل ملازموں سے رابطے کی وجہ سے پکڑا گیا‘‘۔ کوئٹہ دھماکہ پر جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’بھارت کی را ملوث ہے‘‘تو اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی روزمانہ جنگ میں سرخی لگی کہ ’’تم جھوٹ مت بولو یہ گھر کا معاملہ ہے، تم نے جو مسلح بردار تنظیمیں پال رکھی ہیں ، کیا یہ کرائے کے قاتل نہیں؟‘‘۔محمود خان اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ ’’میں پاکستان زندہ باد نہیں کہوں گا‘‘۔کسی نے بھی اپنے بیان سے توبہ نہیں کیالیکن الطاف حسین نے اپنا بیان واپس لیا، کسی کی جماعت نے اپنے قائد اور رہنما سے لاتعلقی کے اعلان کی زحمت محسوس نہ کی لیکن ایم کیوایم نے کھل کر اظہار لاتعلقی کیا۔کسی کاسرکاری عہدہ نہیں چھینا گیا مگر ایم کیوایم کے دفاتر بھی مسمار کردئیے گئے کیوں؟۔
مہاجر بے وطن خوار ہے، غدار ہے، بیکار ہے، ناہموار ہے، بیچار ہے، عبرت کا جھنکارہے؟ ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا لے کر شہر کی آبادیوں میں بھی اپنی آواز کو صدا بسحرا سمجھ رہاہے اور ہر روز ہر ٹی چینل پر نئے ایک سے ایک نیا شوشہ کھڑا کرکے ڈاکٹر فاروق ستار مجرم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے، الزامات کی برکھا برسائی جاتی ہے، روز نئے بادل اُمڈ تے اور چھٹتے ہیں، ژالہ باری کرکے مہاجروں کی نمائندہ منتخب قیادت کی بے توقیری کی جاتی ہے لگتا ہے کہ مہاجر آزاد نہیں مجبور ہیں، محب وطن نہیں غدار ہیں، پاکستانی نہیں بھارتی ایجنٹ ہیں۔ انکا جمہوری حق چھینا جارہاہے، نتائج بدلنے میں سرِ عام کوئی شرمندگی بھی نہیں ہورہی ہے۔ سارے اینکروں، ٹاک شوز، ملمع سازی کرنے والے ٹاؤٹ قسم کے مخصوص نام نہاد رہنماہم پر چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ ساری توپوں کارخ مہاجروں کی جانب موڑ دیا گیا ہے، بے یقینی کی کیفیت ہے، ایک زمانہ میں جیو اور جنگ کا جو حال کیا گیا تھا،اسرائیل، بھارت اور امریکہ کے ایجنٹ، اہلبیت کے گستاخ، ملک کے دشمن اور ڈھیر سارے مقدمات کا نشانہ بن گئے۔ آج ایم کیوایم کی باری ہے تو کل مسلم لیگ (ن) کی بھی آئے گی۔ جمہوریت کی علمبرداری کیا صرف اسٹیبلشمنٹ کی وفاداری سے مشروط ہے؟۔ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ہو، تو 100خون معاف،12مئی کیا بستیوں کے بستیوں کو آگ لگادے لیکن جب وہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ نہ ہو تو پوری قوم اسکے ناکردہ جرائم کی سزا کھائے، الزامات بھگتے؟۔
مصطفی کمال نے کمال کیا کہ سب سن لیں، ایم کیوایم کے ووٹر خود کو لاوارث نہ سمجھیں ہم موجود ہیں انکے حقوق کیلئے لڑینگے؟۔فاروق ستار میں شروع سے شرافت کا ایک معیار ہے، مصطفی کمال جذباتی ہے کیا مہاجروں کو پھر جذبات کی رو میں بہائے جانے کاسلسلہ جاری رہے گا۔ آج وہ مصطفی کمال جو الطاف حسین کے خلاف ایک ذوی معنیٰ لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا، ایک ہیجان میں مبتلاء ہے، قاتل، لٹیرے، جن پر بھارت میں تربیت لینے کا الزام ہے وہاں پناہ لے رہے ہیں، آڑے تڑے کی زباں استعمال کی جارہی ہے، جس کاضمیر ہی قتل اور بہت سے الزامات کے اقرارِ جرم اور اعترافِ بد دیانتی میں پل بڑھ کر جوان ہوا ہو، کیااس کی غیرت جاگ گئی ہے تو اس کو مہاجر قوم کی قیادت سپرد کی جائے؟۔ مصطفی کمال تو چھوٹا الطاف ہی لگتا ہے، وہی تعلیم وہی تربیت، وہی ذہنیت، وہی معیار، وہی لہجہ، وہی درشتی، وہی الزام کا قرینہ اور وہی شخصیت بس ہوا کا رخ بدلا۔ مخلص ،معصوم،نڈر، جری، مثالی بہادر، جذباتی رونے دھونے والااور آسمان سے تارے لانے کا وہی طریقۂ واردات ، اگر ڈاکٹر فاروق ستار گستاخی ، لعن طعن اور 24گھنٹہ الطاف حسین سے رابطے کے باوجود خطرات سے دوچار ہے تو مصطفی کمال نے کس سے سلامتی کا تعویذ لیکر مہاجروں کی کشتی پار لگانے کیلئے ملاح کا کردار ادا کرنے کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے؟۔
خدارا! ڈاکٹر فاروق ستار کی زندگی داؤ پر لگانے کیلئے ٹی وی اسکرین پر اس کو ایسے الفاظ کہلوانا چھوڑ دو، جس سے اس کی زندگی خطرے میں پڑ جائے، جینا مشکل بنے، مار دیا جائے یا ڈاکٹر عامر لیاقت کی طرح ہتھیار پھینک دے، آخر عزت بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، شرم بھی نہیں آتی کہ ایک لا چار شخص کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑے ہو۔ عام لوگ ان سے کیا توقع رکھیں؟،جو ایم کیوایم کے دورِ عروج میں دم دبا کر بیٹھے رہے، طالبان کی پشت پناہی کرتے رہے اور پھر یکایک رخِ زیبا ایسا موڑا کہ گویا کبھی شناسائی ہی نہ تھی۔ ایم کیوایم کے قائد سے ایک طلاق اور تین طلاق کی باتیں منظر پر آرہی ہیں، حالانکہ پاک سرزمین پارٹی تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر ہی پاک ہوگئی ہے۔کیا نوازشریف کے ساتھی دانیال عزیز، طارق عظیم، طلال چوہدری اور عطاء مانیکا وغیرہ نے (ق) لیگ سے حلالہ کروایا تھا کہ دوبارہ نکاح میں آگئے ہیں؟۔تحریک انصاف میں کتنے لوٹے حلالہ پر حلالہ کرواکے شاہ محمود قریشی وغیرہ عزت سے بیٹھے ہیں لیکن مہاجروں کیساتھ آخر کار ایسا کیوں؟۔
اب نہ تو ملک چھوڑ کر جاسکتے ہیں، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے، چپ رہ بھی نہیں سکتے۔ باغی ہیں کیا اور غدار ہیں کیا؟۔ مہاجر نام نہ لیتے تو بے شناخت تھے سندھی مکھڑ، بلوچ پناہ گیر، پٹھان ہندوستانی کہتے تھے۔ نام لیا تو مجرم بن گئے، مہاجر قومی موومنٹ کو تحریک چلانے والوں نے نام بدل کر متحدہ کردیا، پھر حقیقی مہاجر قومی موومنٹ کو ریاست نے سپورٹ فراہم کی اور متحدہ بھی مجرم بن گئی، ایک نسخہ ناکام ہوتا ہے تو سنیاسی باوا نے دوسرا ٹریلر چلا کرقوم کی تباہی کا سامان تیار کر رکھا ہوتا ہے۔ اگر یہی روش ہے تو قانون بنایا جائے کہ پاکستان یا مہاجروں کی اپنی نمائندہ جماعت نہیں بن سکتی ہے اور جس نے سیاست کرنی ہو وہ اسٹیبلشمنٹ کے پیرول ، خواہشات اور طے کردہ منزل پر گامزن رہ کر ہی سیاست کرسکتا ہے، ہر نئے فوجی سربراہ کی طرف سے ایک نیا سرکلر جاری ہوگا جس میں ایک وضاحت ہوگی کہ اسٹیٹ کی پالیسی یہ ہے، طالبان کو سپورٹ کرنا ہے، ایم کیوایم کو سپورٹ ہے یا نہیں، بلاول بھٹو زرداری کب بلو رانی اور کب شہزادہ کہلائے، شیخ رشید کی زبانی معلوم ہوگی کہانی۔ جنرل ضیاء الحق کشمیر پر پالیسی بنائے تو مسلح تنظیمیں پالی جائیں، پرویز مشرف اپنے اقتدار کیلئے سہی لیکن کشمیر کے مؤقف سے پیچھے ہٹے تو جس پر مجاہدین کے کیمپ چلانے کا الزام تھا،وہ شیخ رشیدTV سکرین پر یہ وظیفہ باربار دہرائے کہ ’’مقبوضہ کشمیر کے لوگ مجاہدین سے بہت سخت تنگ تھے‘‘۔ مگر جنرل راحیل شریف کشمیر کو تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈہ قرار دیکر اہمیت دے تو پھر پاکستان کیلئے یہ سب سے بڑا اہم مسئلہ بن جائے۔ مہاجر تو باعزت لوگ ہیں رنڈوے رشید کو کراچی میں اپنی تربیت کیلئے بھی نہیں بلا سکتے ہیں، کہتے ہیں کہ عمران کی بھی اس نے ریحام خان سے طلاق کرادی،نوازشریف پرویزمشرف سے ناراض ہوتے ہیں تو بلوچستان کیساتھ زیادتی کے حوالہ سے پیش پیش ہوتے ہیں اور حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کو مولی گاجر کی طرح کاٹنے پر بھی آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔
مہاجر کس سے کیسی سیاست سیکھیں، جماعتِ اسلامی جنرل ضیاء الحق کے دور میں ٹاؤٹ کا کردار ادا کررہی تھی تو ہڑتال کیلئے رات کو گاڑیاں جلاکر شہر کو بند کردیا جاتا ، مخالفین کو تعلیمی اداروں میں تشدد کا نشانہ بایا جاتا تھا، اسلام کے نام پر جنرل ضیاء نے ریفرینڈم کرایا تو جماعتِ اسلامی اور تمام مذہبی فرقوں کے بڑے مدارس جنرل ضیاء الحق کو سراپا مجسمۂ اسلام قرار دے رہے تھے، تحریکِ انصاف کے عارف علوی نے اکیلے کراچی پولیس کا مقابلہ کرکے پیہ جام کروایا حالانکہ پولیس اس کی سپورٹ نہ کرتی تو کیا پھدی کیا چھدی کا شوربہ۔ ایسے ماحول میں مہاجر کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ بھارت کی ایجنٹ ایم کیوایم نے آخر کونسے جہاز استعمال کرکے ایبٹ آباد کے امریکی کمانڈوز سے زیادہ کمال دکھایا کہ اتنے آفس بنالئے جو اچانک مسمار کر دینے کا فیصلہ ہوا، مہاجر کیا سوچے؟۔
مہاجرکو یہ سوچنا چاہیے کہ جو گلے شکوے اسکے دماغ میں بیٹھ گئے ہیں، ان کو نکال دے۔ کیا نوازشریف کی حکومت کے ہوتے ہوئے مارشل لاء نہیں لگا؟۔ نوازشریف نہیں روتا رہا کہ مجھے بھی ہتھکڑیاں لگاکر جہاز کی کرسی کیساتھ بھی باندھ دیا گیا؟۔ کیا اس پر کوئی گلہ شکوہ کرتا ہے کہ مہاجر بڑا سخت گیراور بے توقیری کرتا ہے؟۔ پرویزمشرف مہاجر تھا مگر انکی وجہ سے الزام مہاجروں کے سر نہ آیا ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی ، پنجاب میں ن لیگ کی صوبائی حکومتیں ختم کی گئیں، محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی گئی، بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کرکے اکبر بگٹی کے ذریعہ گورنر رائج قائم کیا گیا، اپوزیشن کی ساری قیادت کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں ڈالا، بغاوت اور غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ یہ تو جنرل ضیاء نے جمہوری حکومت قید کرکے جمہوری لوگوں پر غداری کے مقدمات ختم کیے ورنہ اپوزیشن کی ساری جمہوری جماعتیں قائد عوام بھٹو کے زمانے میں غداری کے مقدمہ میں تختۂ دار کو پہنچتیں۔ جب کراچی کے سیاہ وسفید کی مالک مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم تھی تو کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں اعلیٰ درجے کی تعلیم، تربیت، امن وامان ،روشن خیالی اور مذہب شناسی کے نمونے اور مثالیں قائم کرکے مہاجر پاکستان کے دوسرے لسانی کائیوں کے قابلِ تقلید بن سکتے تھے۔پاکستان میں بہت زبانیں ہیں جن کی تاریخ بڑی قدیم ہے، اردو کو پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیکر اردو بولنے والوں میں احساس پیدا کیا گیا کہ ’’تم حکمران ہو‘‘۔ ہجرت کرنے والے تو پنجاب ، پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی بہت ہیں، کراچی میں بڑی تعداد ان کی بھی ہے جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہیں جوگھروں میں اردو کی بجائے دوسری زبانیں بولتے ہیں۔اردو اسپکنگ دوسروں کی طرح خود کو مہاجر نہ بھی کہلواتے تو میمن، چھیپا، مارواڑی، صدیقی، فاروقی ، عثمانی ، علوی ، سید اور اپنے اپنے پیشے اور قومیت سے اپنا تعارف رکھ سکتے تھے۔
مہاجر کہلانے میں بھی کوئی عیب نہیں، صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد مہاجروں کی تھی ،نبیﷺ بھی مہاجرین میں سے تھے۔ حضرت آدمؑ بھی جنت سے زمین پر مہاجر بن کے آئے۔ حضرت اسماعیلؑ بھی مہاجر تھے، قبائل تعارف کیلئے ہوتے ہیں، سب ایک آدم کی اولاد ہیں،زبان رابطے کا ذریعہ ہے۔آج کوئی برطانیہ، امریکہ، مغرب کے دیگر ممالک یا آسٹریلیا کی قومیت اختیار کرکے فخر کرتا ہے تو پاکستان بنا ہی مسلمانوں کیلئے تھا۔خاص طور سے ہندوستان سے آنے والوں کیلئے۔ وہاں وہ اقلیت میں تھے، نظریۂ پاکستان کی وجہ سے پڑوسیوں سے تصادم کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ پاکستان ایک خطۂ زمین ہے اس پر اسلامی نظام کے نفاذ کی ذمہ داری حکمران طبقہ اور علماء کرام پر تھی۔اردو اسپکنگ اپنی مادری زباں کی وجہ سے سب سے بڑھ کر کردار ادا کرسکتے تھے۔لوگوں نے نظام پر توجہ نہ دی اور نوکریوں باگ ڈور سنبھالنے اور مراعات کے چکر میں لگ گئے۔
پہلی مرتبہ آزادانہ انتخاب کا نتیجہ ادھر ہم ادھر تم نکلا، بنگلہ دیش الگ ہوا، فوج کو بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑگئے۔ بھٹو نے اقتدار سنبھالا ،تو170قابل ترین بیوروکریٹوں کو فارغ کیا اورکوٹہ سسٹم قائم کرکے پنجابیوں اور مہاجروں کا گٹھ جوڑ ختم کرکے سندھیوں کو پنجابیوں سے ملادیا۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے ہتھوڑے گروپ سے لیکر کراچی کے لسانی فسادات تک پیپلزپارٹی کو مٹانے کا منصوبہ بنایا، جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا نورالہدی کو سات ماہ تک جیل رکھا، اسلئے کہ وہ پیپلزپارٹی کے جیالے شیخ نورالہدی مرحوم کو قید کرنا چاہتے تھے مگر بیوروکریٹ کمشنر نے اپنی جان فوجی دماغ سے چھڑانے کیلئے مولوی کو پکڑ کر بتایا یہ کہ ’’جیالا پکڑ لیا ہے‘‘۔ جب شیخ نورالہدیٰ پکڑ لیے گئے تو مولانا نورالہدیٰ کی جان چھوٹ گئی، ان کو چھوڑدیا گیا۔ اوریا مقبول جان خود بھی کمشنر رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سول بیوروکریسی ہمیشہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مغالطہ دیتی ہے،اسلئے ملک کی حالت بہتر نہیں ہورہی ہے۔بیروکریسی کو سدھارنے کیلئے کون کام کرے گا؟۔
اچھی تعلیم کیلئے ایک زبرست ماحول کی ضرورت ہوتی ہے،پہلے طلبہ تنظیموں نے پھر یہ معیار کراچی میں ایم کیوایم کے عروج کی وجہ سے گرگیا، اب تو کوٹہ سسٹم کی ضرورت ہی نہ رہی ہے اور تعلیم کے علاوہ تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم سے کوئی معیاری معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا، تربیت کے بعد پھر تزکیہ بھی ضرورت ہوتی ہے، قوموں اور قیادت پراونچ نیچ کے ادوار آنے سے انسانوں کا تزکیہ ہوتا ہے۔ ایم کیوایم کے رہنما ؤں کو جب وقت ملا تھا تو عوام سے خوش اخلاقی سے پیش آتے۔عاجزی ، انکساری، رواداری ، اخلاق ، مروت اور اچھا انداز اپناتے تو آج تیز وتند ، تلخ و ترش اور گھن گرج کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آزمائش اللہ تعالیٰ بڑے لوگوں پر ہی ڈال دیتا ہے لیکن یہ عذاب نہیں بلکہ گناہوں کی معافی اور تزکیہ ہے۔مہاجر کا شریف طبقہ ایک طرح سے یرغمال بناہوا تھا اس پر عام مہاجر کو پریشان نہیں خوش ہونا چاہیے۔ اجمل ملک ایڈیٹر نوشتہ دیوار

قرآن میں اہم ترین معاشرتی مسائل کا حل اور امت کا اس سے کھل کر انحراف

دنیا میں ایک طرف امریکہ اور اتحادی ریاستیں ہیں جو دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ایک ہی نعرہ لگارہی ہیں تودوسری طرف دہشت گردی ختم نہیں ہورہی ہے بلکہ پھیل رہی ہے۔ ریاستوں کی منافقت یا مجبوری کی یہ حالت ہے کہ سب ایک دوسرے پر الزامات بھی لگارہے ہیں، اچھے اور برے دہشت گردوں کے بھی تصورات موجودہیں اور دہشت گردوں کی شر سے بچنے کیلئے دہشت گردوں کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔اس گھناؤنے کھیل میں ہیروئن اور اسلحہ کا کاروبار کرنے والے جو فائدہ حاصل کررہے ہیں انہوں نے اس کو جاری وساری رکھنا ہے۔ امریکہ ڈرون حملے سے ایران سے آنے والے طالبان کے امیر ملااختر منصور شہید کرتا ہے یا ہلاک کردیتا ہے، جہنم رسید یا جنت کو پارسل کردیتا ہے؟۔ یہ فیصلہ کرایہ کے جہادکے بانی امریکہ کے ایماء پر ہمارے ریاستی اداروں اور میڈیا کے کرتا دھرتا لوگوں نے کرنا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’ پاکستان کی سرزمین پر یہ ڈرون حملہ قبول نہیں اور اس کیلئے مذمت کے الفاظ بہت معمولی ہیں‘‘۔ اگر ہمارے پاس قیادت کا فقدان نہ ہوتا تو جنرل راحیل شریف کو اس طرح کے بیان کی ضرورت نہ پڑتی۔ ضربِ عضب کے دوران بھی شمالی وزیرستان میں ڈرون ہوتے تھے، ایران پاکستان کی طرح امریکہ کا نہیں کھاتا۔
جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کے بڑے اڈے کو ختم کرکے دنیا کو دکھا دیا کہ اسکے پیچھے ہم نہیں افغانستان میں موجود نیٹوکی افواج دہشت گردوں کو پال کر اپنے مقاصد حاصل کررہی ہیں۔ میڈیا کو سوال کرنا تھا کہ نیٹو افغانستان کی سرزمین پر کیا کررہا ہے؟۔ دہشت گردوں کو پال رہا ہے، ہیروئن کی اسمگلنگ کررہا ہے یا اس خطہ میں حالتِ جنگ کو دوام دیکر دنیا بھر کی طرح یہاں امریکہ کو اسلحہ فروخت کرنے کا ریکارڈ توڑنے کا موقع فراہم کررہا ہے؟۔ اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کا فلسفہ امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں ہمارے ریاستی ڈھانچوں کے ذریعہ سے عام کیا گیا ۔ عوام کے جذبات کو امریکہ بھڑکارہا ہے اور اس کی آلۂ کار قوتیں دہشت گردی کی آبیاری کررہی ہیں۔یہ اتفاق نہیں کہ ملامنصور کو امریکہ نے ڈرون حملے سے مارا اور افغانی عمر متین کو امریکیوں سے بدلہ لینے کا موقع ملا بلکہ یہ اس جنگ کو جاری رکھنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔شیطان خوفزدہ ہے بقول علامہ اقبالؒ کے
الحذر آئینِ پیغمبرؐ سے سوبار الحذر حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفرین
اگر یہ آشکارا ہوا تو سب کچھ دھرا کا دھرا رہ جائیگا۔ اسلئے اس امت کو ذکر صبح گاہی میں مست رکھو اور مزاج خانقاہی میں پختہ تر کردو‘‘۔( شیطان کا اپنی مجلسِ شوریٰ سے خطاب: علامہ اقبالؒ )۔
ہمارا حال یہ ہے کہ پرویزمشرف کے دور میں عورتوں کو جبری جنسی تشدد سے بچانے کا قانون لایا گیا کہ ’’اس کو حدود سے نکال کر تعزیرات میں شامل کیا جائے،اسلئے کہ چارمرد گواہوں کو اکٹھے لانا بہت مشکل کام ہے، جس کی وجہ سے کوئی مجرم سزا نہیں پاسکتا ‘‘۔ اس پر مفتی محمد تقی عثمانی نے مخالفت میں ایک بہت ہی بھونڈی تحریر لکھ دی جس کو جماعتِ اسلامی نے پملفٹ کی شکل میں بانٹا، اسکے جواب میں سید عتیق الرحمن گیلانی نے بہت مدلل انداز میں تردیدلکھ دی جو ہم نے شائع کردی لیکن اس کو مذہبی حلقوں، ہماری ریاستی اداروں اور حکومت واپوزیشن نے کوئی اہمیت بھی نہ دی۔
مفتی تقی عثمانی کی تحریر کا خلاصہ یہ تھا کہ’’ اللہ نے سورۂ نور میں زنا کی حد بیان کی ہے اس میں جبری زنا اور زنا برضا کی کوئی قید نہیں‘‘۔ حالانکہ یہ سراسر بکواس ہے، اللہ نے زنا برضا کی وضاحت کی ہے’’مرد یا عورت میں سے کوئی بھی زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو 100کوڑے کی سزا ہے‘‘۔ علماء ومفتیان کا وطیرہ ،تعلیم اور تربیت ہی یہ ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں وہاں کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ مطلق حکم بیان کیا ہے، اس میں کوئی قید نہیں ہے، حالانکہ وہ یہ دھوکہ منافقوں کی طرح خود کو بھی دیتے ہیں اور اپنے عقیدتمندوں اور عوام کو بھی دیتے ہیں۔
قرآن میں بالکل واضح ہے کہ جو مردیا عورت فحاشی کا ارتکاب کرے، یہ جبری نہیں بلکہ برضا ورغبت کی بات ہے۔ جہاں تک جبر کی بات ہے تو اللہ نے واضح کردیا ہے کہ جو لونڈی زبردستی سے بدکاری پر مجبور کی جائے تو اس پر اسکی پکڑ نہ ہوگی بلکہ اگر کلمۂ کفر پرکسی کو مجبور کیا جائے تو بھی اللہ نے اس کو مستثنیٰ قرار دیا ۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو زبردستی سے تنگ کرنے والوں کو مدینہ سے قریب کے دور میں نکالنے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلے بھی ایسے لوگ ہوا کرتے تھے، فاینما ثقفوا فقتلوا تقتیلاً ’’ پھر جہاں بھی پائے گئے،تو وہ پھر قتل کئے گئے‘‘۔خاتون نے رسول اللہﷺ کو شکایت کردی کہ ایک شخص نے زبردستی سے اس کی عزت لوٹی ہے،نبیﷺ نے اس شخص کو پکڑ لانے اور سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ وائل ابن حجرؓ کی یہ روایت ابوداؤد کے حوالہ سے مشہور کتاب ’’موت کا منظر‘‘ میں زنا بالجبر کی سزا کے عنوان سے ہے۔بعض روایتوں میںیہ اضافہ ہے کہ ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا کہ’’ اس نے نہیں میں نے یہ کام کیا ہے تو نبی ﷺ نے پہلے کو چھوڑ کر اس کو سزا کا حکم دیا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت اور قرآن سے یہ واضح ہے کہ زنا بالجبر کی سزا 100 کوڑے نہیں بلکہ قتل ہے اور یہ کہ جج یا قاضی کوچار گواہوں کی بجائے دل کا اطمینان ہونا چاہیے کہ یہ جرم ہوا ہے۔ کوئی بھی کسی عورت سے زبردستی جنسی زیادتی کی اس سزا کو فطرت کے منافی نہ قرار دیگا جو قرآن وسنت میں موجود ہے۔ علماء ومفتیان ایک طرف غیرت کے نام پر عورت کے قتل کو جائز سمجھ رہے ہیں اور معاشرے میں اس کو سپورٹ کرتے ہیں تو دوسری طرف زبردستی سے جنسی تشدد کیلئے شرعی حدود اور چار گواہوں کو لازم قرار دیتے ہیں جو قرآن وسنت کے بالکل سراسر منافی ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے پرویزمشرف کے دور میں زنا بالجبر کیلئے اسی حدیث کا حوالہ دیا جس میں ایک عورت کی ہی گواہی قبول کی گئی۔ سید عتیق گیلانی کی حق بات قبول کی جاتی توآج جنرل راحیل کو اس قدر مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا بلکہ دنیا بھر میں مسلمان سکون، عزت اور ایک فعال کردار کی زندگی گزارتے۔ گیلانی صاحب نے مفتی عثمانی کو حدیث کے کھلے مفہوم سے انحراف پر مرغا بننے کا مشورہ دیا تھا۔ جماعتِ اسلامی اپنی منافقانہ کردار کی وجہ سے پسِ منظر میں جارہی ہے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ جماعتِ اسلامی کے اہم رہنما ہیں، وہ میڈیا پر قرآن کی اس آیت کو رسول اللہ ﷺ کی اذیت سے جوڑ رہے تھے جس میں خواتین کو تنگ کرنے کے حوالہ سے قتل کی وضاحت ہے۔حالانکہ نبیﷺ کی اذیت کا ذکر اس سے پہلے والے رکوع میں ہے، جس میں قتل کا کوئی حکم نہیں ہے، لعنت کا مستحق تو جھوٹے کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہؓ پر بہتان سے بڑھ کر نبیﷺ کو کیا اذیت ہوسکتی تھی؟ مگر بہتان لگانے والے صحابہؓ حضرت حسانؓ، حضرت مسطح ؓ اور حضرت حمناؓ وغیرہ میں سے کسی کو قتل نہ کیا گیا بلکہ جب حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی کہ آئندہ اس اذیت کی وجہ سے اپنے عزیز مسطح کی مالی اعانت کا احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں ایسا کرنا مؤمنوں کی شان کے منافی قرار دیتے ہوئے روکا اور حکم دیا کہ احسانات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
البتہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں زناکار مرد وعورت کیلئے شادی شدہ یاغیر شادی شدہ کی قید کے بغیر 100کوڑے سزا کا حکم دیا ، جس پردل میں رحم کھانے سے روکا گیا اور مؤمنوں کے ایک گروہ کو گواہ بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ اسکے برعکس توراۃ میں شادی شدہ بوڑھے مردو عورت کو زنا پر سنگسار کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ مناظر احسن گیلانی ؒ نے قرآن کے مقابلہ میں توراۃ کے تحریف شدہ حکم کو مسترد کردیا ہے اور ان کی کتاب ’’تدوین القرآن‘‘ پر بنوری ٹاؤن کراچی کے عالم نے حاشیہ لکھ دیا ہے جوبازار میں دستیاب ہے۔ توراۃ کا حکم لفظی اور معنوی اعتبار سے بہت ناقص اور ناکارہ ہے۔ اگر جوان شادی شدہ بھی زنا کریں تو اس کی زد میں نہیں آتے اور بوڑھے شادی شدہ نہ ہوں تب بھی زد میں آتے ہیں،جو بوڑھے نکاح کے قابل نہیں رہتے تو زنا کہاں سے کریں گے؟۔ صحیح بخاری میں ایک صحابیؓ سے پوچھا گیا کہ ’’سورۂ نور کی آیات کے بعد کسی زناکار کو سنگسار کیا گیا؟۔ تو جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں کہ اسکے بعد کسی کو بھی سنگسار کیا گیا ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شادی شدہ لونڈی کیلئے آدھی سزا کا حکم دیا ہے تو سنگسار ی میں آدھی سزا نہیں ہوسکتی۔ البتہ 100 کی جگہ 50 کوڑے ہیں، امہات المؤمنین ازواج مطہراتؓ کو مخاطب کرکے دوہری سزا سے قرآن میں ڈرایا گیا ہے تو 100کا دگنا200ہیں، سنگساری میں ڈبل سزا کا تصور نہیں ہوسکتا۔
یہود کے ہاں شادی شدہ کیلئے سنگساری اور غیرشادی شدہ کیلئے 100کوڑے اور ایک سال جلاوطنی کی سزا تھی۔ قرآن میں قتل اور جلاوطنی کی سزا کا سورۂ نور میں کوئی تذکرہ نہیں بلکہ بہت تاکید کیساتھ صرف 100کوڑے کی سزا سے یہود کے ہاں رائج قتل اور جلاوطنی کی سزاؤں کی تردید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈی کو آدھی سزا کے پسِ منظر میں ہی یہ وضاحت بھی قرآن میں کردی ہے کہ ہم نے پہلے والوں کو قتل نفس اور جلاوطنی کی کوئی سزا نہیں دی تھی۔یعنی یہ ان کی طرف سے گھڑی ہوئی سزائیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے فرمایا کہ’’ اگر یہ اہل کتاب اپنی بات کا فیصلہ کرانے کیلئے آپکے پاس آجائیں اور آپ انکے درمیان فیصلہ کرنے سے انکار کردیں تو یہ آپکو نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں‘‘۔ پھر فرمایاکہ ’’ انہوں نے اپنی کتاب میں تحریف کی ہے اور آپکے پاس جو حکم ہے وہ محفوظ ہے۔ ان کو فیصلہ کرکے دینا ہو تو ان کی کتاب سے نہیں اپنی کتاب کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر ان کو انکی کتاب سے فیصلہ کرکے دیا ،تب یہ آپ کو اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے‘‘۔ اور پھر اسی تناظر میں اللہ نے فرمایا کہ ’’ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنے اولیاء مت بناؤ، جو انکو ولی بنائے تو وہ انہی میں سے ہے‘‘۔ ولی سے مراد عام دوستی نہیں بلکہ مذہبی معاملہ وحدود میں ان کو اختیار سپرد کرنا مراد ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘۔ علماء ومفتیان ومذہبی بہروپیوں نے مشہور کیا کہ’’ یہود ونصاریٰ سے دوستی قرآن میں منع ہے‘‘۔ پاکستان کی فوج ، حکومت، ریاست اور سعودیہ سے بڑھ کر امریکہ کے دوست بلکہ چاکری کرنے والے کون ہوسکتے ہیں؟۔ مگر مذہبی بہروپیوں نے کبھی بھی یہ فتویٰ نہیں لگایا ہے کہ یہ ان کے دوست ہیں اور انہی میں سے ہیں۔ بلکہ روس کیخلاف جہاد کے نام پر استعمال ہونے والے امریکیوں کو اہل کتاب کہتے تھے اور روس کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ملحد اور ماں ، بہن ، بیٹی کو نہیں پہچانتے ہیں، حالانکہ چین بھی روس ہی کا نظریہ رکھتا تھا لیکن وہ پھر امریکہ سے بھی زیادہ اچھا دوست تھا۔
جب یہود ونصاریٰ کی پاکدامن خواتین سے قرآن نے شادی کی اجازت دی ہے تو دوستی کی کیوں نہیں؟۔ کیا بیوی سے بڑھ کر دوستی کا کوئی تصور ہوسکتا ہے؟۔ جس بات سے قرآن نے منع کیا تھا کہ ان کو ولی مت بناؤ، اس کی وجہ تو صاف ظاہر تھی کہ انہوں نے اللہ کے احکام کو بدل دیا تھا، اگر ایک مؤمن اپنی بیوی یا کسی دوسرے کو سنگسار کرنا چاہتا تو اللہ کے قرآن میں اسکی اجازت نہ تھی اور توراۃ میں یہ تحریف شدہ حکم موجود تھا۔اللہ نے ان سے فیصلہ کروانے کیلئے یہودونصاریٰ کو ولی اور حاکم بنانے سے منع کردیا۔ اب تو یہودونصاریٰ کو ولی بنانے سے منع کرنے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ، اسلئے کہ مسلمانوں نے انہی کے نقشِ قدم پر چل کر قرآن کے حکم میں توراۃ کے ذریعہ مذہبی نصاب میں تبدیلی کردی ہے۔ مذہبی طبقات کی حکومت قائم ہوگئی تو سنگسار کرنے پر ہی عمل ہوگا۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں بیوی کو کھلی ہوئی فحاشی کے ارتکاب پر قتل کرنے کا حکم نہ دیا بلکہ گھر سے نکالنے اور اس کو نکلنے کی اجازت دی، اس کے خلاف گواہی دینے پر لعان کا حکم دیاتھا جس پر نبیﷺکے دور میں ایک مرتبہ عمل بھی ہوا۔ انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کا کھل اس آیت کے خلاف عمل کرنے کے اعلان کا بھی بخاری شریف میں ذکر ہے۔ مذہبی طبقہ کو شرم بھی نہیں آتی ہے کہ کھل کر اللہ کے حکموں سے انحراف کو عوام کے سامنے بیان کرنے سے ڈرتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی حمایت قرآن کا حکم نہیں بلکہ جاہلانہ غیرت کا نتیجہ ہے۔ مذہبی طبقہ نے پرائے گو پر پاد مارنے کے کارنامے ہمیشہ انجام دئیے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کی اجازت ہو تو پھر مدارس اور مساجد میں بچوں کیساتھ جبری جنسی زیادتی پر قتل کا فتویٰ دیا جائے۔ مفتی محمدتقی عثمانی کے دوست شیخ الحدیث مفتی نذیر احمد جامعہ امدادالعلوم فیصل آباد کیخلاف کئی طلبہ نے روتے ہوئے جبری جنسی تشدد کا نشانہ بننے کا مسجد میں اعلان کیا۔ علماء وفقہاء نے یہ بکواس لکھ دی ہے کہ لواطت کی سزا کا ذکر قرآن وسنت میں نہیں، اسلئے اس پر آگ میں جلاکر مارنے یا دیوار گرانے کے ذریعہ سزا پر اختلاف ہے۔ حالانکہ قرآن میں اذیت دینے کا ذکر ہے، البتہ زبردستی سے زیادتی کی سزا تو کسی خاتون کے مقابلہ میں بچے یا مرد کیلئے بھی قتل ہی ہونی چاہیے۔ علماء ومفتیان نے اسلام کو اپنے گھر کی کھیتی سمجھ کر کھانے یا اجاڑنے کو اپنا حق سمجھ رکھا ہے،جس کی جتنی مذمت کی جائے بہت کم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وضاحت کردی ہے کہ طلاق کے بعد عدت میں بھی شوہر کو مشروط رجوع کا حق حاصل ہے، صلح کی شرط پر ہی رجوع ہوسکتا ہے۔ اسکے بعد کوئی کم عقل انسان بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ’’عدت کی تکمیل پر شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق دے‘‘۔ جہاں ایک طرف رجوع کیلئے صلح کی شرط واضح کرنے کے بعد کہاگیا ہے کہ عدت کی تکمیل پرشوہر معروف طریقہ پر رجوع کرے یا اس کومعروف طریقہ سے چھوڑدے۔ علماء ومفتیان عقل کے اندھوں بلکہ دل کے اندھوں نے کہا ہے کہ شوہر کو مطلق رجوع کا حق حاصل ہے لیکن عدت میں باہمی رضامندی سے بھی یہ مطلق رجوع کا حق ان کو اس وقت نظر نہیں آتا جب حلالہ کروانے کی بات آرہی ہو۔ لوگوں کو حقائق کا پتہ چلے تو یہ نہیں کہ دوسرے لوگ بلکہ اپنے عقیدتمند ہی قرآنی آیات کو جھٹلانے والوں سے حساب لیں گے۔
ایک عرصہ سے ہم نے طلاق کے مسئلہ پر حقائق عوام اور علماء کرام کے سامنے رکھے، بہتوں کی سمجھ میں بات بھی آئی لیکن محض ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں، جو بے وقوف ،کم علم ، جاہل اور بے خبر ہیں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ بڑے بڑوں کا یومِ حساب قریب ہے، ان کو بہت ڈھیل مل چکی ہے اور درجہ بدرجہ استدراج کا عمل ان کو گرفت سے بچانے کیلئے نہیں ، اللہ کو اپنی مخلوق سے بہت محبت ہے، کافر، مشرک، ہٹ دھرم اور سب ہی لوگ اللہ کی مخلوق ہیں، ایک طبقہ کواتمامِ حجت کے بعد بھی اچھی خاصی ڈھیل دینا اللہ کی ہمیشہ سنت رہی ہے۔ اگر وہ وقت پر حق کا ساتھ دے کر خود کو بچالیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مغفرت اور بہت رحم کرنے والا ہے۔مگر دین کے نام پر لوگوں کے گھروں کو تباہ کرنے، بلاجواز حلالہ کی لعنت پر مجبور کرنا اور قرآن وسنت کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا بہت سنگین جرم ہے، ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب ہٹانا ضروری ہے اور یہ ہماری مجبوری ہے، اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کرکے جینے سے مرجانا مہنگا سودا نہیں ہے۔
1: یہ بات ذہن نشیں بلکہ دل نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواجی تعلق قائم ہونے کے بعد طلاق کیلئے عدت کا لازمی تصور رکھا ہے۔ عدت کا یہ حکم صرف صلح ورجوع کی گنجائش کیلئے ہی ہے جس کی اللہ نے بار بار قرآن کی مختلف سورتوں کی بہت سی آیات میں کھل کر وضاحت فرمائی ہے۔ شوہر اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر برابر حقوق کی وضاحت ہے البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ ہے۔ یہ درجہ بالکل واضح ہے اسلئے کہ شوہر طلاق دیتا ہے اور بیوی عدت گزارتی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا درجہ ہوسکتا ہے؟۔ شوہر کو صلح کی شرط پر ہی رجوع کا حق دیا گیا ہے، بیوی راضی نہ ہو تو شوہر اس کو عدت میں بھی رجوع پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔ عدت میں رجوع کے حق کی وضاحت اسلئے ہوئی ہے کہ عدت کے بعد عورت دوسری جگہ بھی شادی کرسکتی ہے لیکن باہمی رضامندی سے عدت کے بعد بھی رجوع اور ازدواجی تعلق کو معروف طریقہ سے قائم رکھنے کی اجازت اللہ نے واضح کردی ہے بلکہ رکاوٹ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے اسی میں معاشرے کیلئے تزکیہ اور پاکی کا ماحول ہے۔یہ وضاحتیں قرآن کی سورۂ بقرہ اور سورۂ طلاق میں تفصیل سے دیکھی جاسکتی ہیں۔
2: طلاق مرد کا حق ہے اور خلع عورت کا حق ہے۔ طلاق اور خلع دونوں میں زبردست مغالطہ مذہبی طبقات نے کھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں صرف طلاق ہی کا ذکر کیا ہے مگر افسوس کہ مغالطہ سے وہاں خلع مراد لیا گیا۔ جس کی وجہ سے قرآن کی واضح آیات کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر ایسا پیش کیا گیا ہے، جس کا سیاق وسباق سے معنوی اور لفظی اعتبار سے کوئی تعلق بن ہی نہیں سکتا ہے۔
سورہ بقرہ کی آیت نمبر229الطلاق مرتان فامساک بمعروف اوتسریح باحسان ، ولایحل لکم ان تأخذوا ممااتیتموھن شئی الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدوداللہ شئی فلا جناح علیھما فیمافتدت بہ تلک حدود اللہ فل تعتدوھا ومن یتعد حدوداللہ فأولئک ھم الظٰلمون
(طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقہ سے روکنا یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے)۔ اس آیت کا یہ حصہ اس سے قبل آیت نمبر228کی ہی تفسیر ہے، جس میں عدت کے تین مرحلوں کی وضاحت ہے۔ اللہ نے اس میں فرمایا کہ حمل کی صورت نہ ہو تو عدت کے تین مراحل ہیں، حمل کی صورت میں عدت حمل ہوتی ہے، حمل کا تین مراحل سے تعلق نہیں ۔ عدت کا تعلق حمل سے ہو یا طہر وحیض کے تین مراحل سے بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس میں رجوع کو صلح کی شرط پر شوہر ہی کا حق قرار دیا ہے۔ بخاری کی احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے وضاحت ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق طہرو حیض کی عدت میں طلاق کے عمل سے ہی ہے۔طلاق کے الفاظ اور اس میں اختلاف کا گورکھ دھندہ قرآن وسنت نہیں بعد کے ادوار کی پیداوار ہے جس میں اختلافات کے انبار ہیں۔
اگر شوہر نے عدت کے تین مراحل میں رجوع کا فیصلہ کرلیا تو مسئلہ نہیں اوراگر طلاق کا فیصلہ کیا تو پھر اس صورت میں آیت کے دوسرے حصہ میں اس کی مکمل تفصیل ہے جس کا خلع سے کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہ کی گئی تو اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے اوراگر تمہیں( اے فیصلہ کرنے والو!) یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں جو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کی جائے، یہ اللہ کی حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو، جو اس سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔ آیت کا یہ دوسرا حصہ مقدمہ ہے اس طلاق کی صورت کیلئے جس کا ذکر اور وضاحت آیت نمبر230میں فوراً ہے کہ فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ ’’ اگر پھر اس کو طلاق دی تو اس کیلئے اس کے بعد حلال نہیں ، یہاں تک کہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے۔۔۔‘‘۔ شوہرایسا ظالم ہوتا ہے کہ جب ایسی طلاق ہوجائے جس میں آئندہ ملنے کی کوئی راہ نہ چھوڑی جائے تب شوہر عورت کو مرضی سے دوسرے شوہر کا حق نہیں دیتا، سعد بن عبادہؓ تو انصار کے سردار تھے،جو طلاق کے بعد بھی بیوی کو شادی نہ ہونے دیتے تھے، برطانیہ کے شہزادہ چارلس نے لیڈی ڈیانا کو قتل کروایا، جبکہ ریحام خان نے عمران خان سے طلاق کے بعد برملا کہا کہ’’ پٹھان کو جان پر کھیلناآتاہے ،پاکستان آئی ہوں‘‘۔ عمران خان نیازی ضرورہیں مگر روایتی غیرتمند نہیں، اگر ریحام کسی مخالف سے شادی کرنا چاہتی اوربنی گالہ کے محل میں عمران خان نے ایک کمرہ دیا ہوتا اور اگر عمران خان کہتا کہ میں کنگلا ہوں تو طلاق کے حتمی فیصلہ پر وہ کمرہ ریحام کی طرف سے فدیہ کرنے پر دونوں اور سب کا اتفاق ضرور ہوجاتااسلئے کہ آئندہ ملنے جلنے اور ساتھ رہنے پر دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہنے سے ڈرتے۔
3:اللہ نے سورہ النساء میں خلع کا ذکر فرمایا : لاترثوا النساء کرھا فلا تعضلوھن۔۔۔ ’’اور عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اوران کو مت روکو(جانے سے) تاکہ بعض وہ چیزیں ان سے واپس لے لو جو تم نے ان کودی ہیں مگر یہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں۔۔۔‘‘۔ اس آیت میں علماء ومفتیان جس فریب ودجل سے کام لیا ہے، اللہ کی پناہ۔النساء سے مرادیہاں اپنی بیویاں ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے بار بار النساء سے آیات میں بیویوں کا ذکر کیاہے، دوسری مراد ہوتی تو پھر کیونکر کہاجاتا کہ اسلئے ان کو مت روکے رکھو کہ جوتم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے بعض واپس لو مگر اس صورت میں واپس لے سکتے ہو جب کھلی ہوئی فحاشی میں مبتلا ہوں۔خلع کے مسائل اور احادیث کو اس آیت کے ضمن میں لکھا جاتا تو قرآنی وضاحت سے معاشرتی مسئلے حل ہوتے۔
پاکستان واحد وہ نظریاتی ، اسلامی اور جمہوری ملک ہے جہاں مسلک، قرآن کی درست تعبیر اور فکر کی مکمل آزادی ہے لیکن افسوس کہ اسکا فائدہ نہیں اٹھایاگیابلکہ عوام کو دام فریب میں الجھایاگیا اور اسلام کے نام پر ریاست اور معاشرے کو دھوکہ دیاگیا، اس میں سب سے زیادہ قصور ہٹ دھرم علماء ومفتیان کا ہے۔جنرل راحیل شریف نے عوامی سطح پر اگر علماء حق کو ٹی وی اسکرین پر موقع دیا تو عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر تمام سیاسی قیادتوں اور مذہبی بہروپیوں کو بہا لے جائیگا۔ پاکستان اور اُمت کی قسمت جاگے گی، سیاسی اشرافیہ سے نجات کے دن بہت ہی قریب لگتے ہیں۔ اجمل ملک

غربت ختم کرنے کا ذریعہ زکوٰۃ مگر…..

حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب یہ اُمت شراب کو مشروب کے نام سے ، سُود کو منافع کے نام سے اور رشوت کو تحفے کے نام سے حلال کرلے گی اور مال زکوٰۃ سے تجارت کرنے لگے گی تو یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہوگا، گناہوں میں زیادتی و ترقی کے سبب۔
رواہ الدیلمی ، کنز العمال ص ۲۲۶ ج ۱۴ ، حدیث نمبر ۳۸۴۹۷۔ عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ ۔
مکتبہ بینات علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نمبر ۵۔ ملنے کے پتے: مکتبہ شیخ الاسلام جامع مسجد فلاح بلاک نمبر 14نصیر آباد ، ایف بی ایریا کراچی۔
اسلامی کتب خانہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، مظہری کتب خانہ گلشن اقبال نمبر۲کراچی، مکتبہ بینات جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

نماز ، روزہ اور حج کی طرح زکوٰۃ بھی ایک اسلامی فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی قرآن میں تلقین فرمائی ہے۔ زکوٰۃ میں ایک بنیادی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ کسی مستحق شخص کو زکوٰۃ کے مال کا مالک بنادینا ضروری ہے۔ جو فلاحی ادارہ اور مدرسہ بھی زکوٰۃ لوگوں سے مانگتا ہے کیا وہ شرعی تقاضہ کو پورا کرتے ہوئے مستحق افراد کو زکوٰۃ کا مالک بناتاہے یا نہیں؟۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے بانی حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ مدرسہ کیلئے 8 مہینے کا بجٹ بنادیتے تھے ، شعبان اور رمضان کی چھٹیاں ہوتی تھیں ، شوال سے رجب تک 8مہینے طلبہ تعلیمی نصاب مدرسہ میں پڑھتے تھے، جن میں ہر ماہ طلبہ کو زکوٰۃ کے وظیفے کا باقاعدہ مالک بنادیا جاتا تھا، پھر جو طلبہ مدرسہ کے لنگر کا کھانا کھاتے تھے وہ کچھ رقم کھانے کی مد میں جمع کرتے تھے اور کچھ اپنی ضروریات کیلئے رکھ لیتے تھے ۔ مثلاً 150روپے ہر طالب علم کو وظیفہ ملتا تھا اور اس میں سے 120کھانے کیلئے اور 30 روپے ضروریات کیلئے ہوتے تھے۔ اگر مدرسہ میں ہزار طلبہ پڑھتے تھے تو 8ماہ کے حساب سے ماہانہ بجٹ150×1000=150000 ڈیڑھ لاکھ اور سالانہ بجٹ 150000×8=1200000، بارہ لاکھ بنتا تھا۔ مولانا بنوری ؒ 12 لاکھ سالانہ کے بعد زکوٰۃ کی رقم لینا بند کردیتے تھے۔ اگلے سال کیلئے مزید زکوٰۃ لینا جائز نہیں سمجھتے تھے، کیونکہ اس طرح سے سالانہ زکوٰۃ کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
دار العلوم کراچی کے ارباب اہتمام زکوٰۃ کیلئے مخصوص مقدار کے بجائے لا متناہی رقم لیتے تھے۔ جہنم کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ وہ کہے گا کہ ھل من مزید کیا اور بھی ہے۔ دار العلوم کراچی کے ارباب اہتمام زکوٰۃ کے خود ہی وکیل بن جاتے اور خود ہی منصف۔ زکوٰۃ کے بارے میں مذہبی طبقہ کی طرف سے حیلے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ حضرت امام غزالیؒ نے لکھا کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد شیخ الاسلام قاضی ابو یوسف سال ختم ہونے سے پہلے اپنا سارا مال بیوی کو ہبہ کردیتے تھے اور اگلے سال بیوی سارا مال اس کو ہبہ کردیتی تھی، یوں زکوٰۃ سے بچنے کا حیلہ بنارکھا تھا۔ امام غزالیؒ کی کتابوں کو اس وجہ سے مصر کے بازاروں میں جلایا گیا۔ ان کو امام ابو یوسف کی بدنامی سے زیادہ فکر اپنے حیلوں کو بچانے کی تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے لکھا کہ دیوبند کے ایک بزرگ بڑے عالم دین بھی یہی حیلہ کرتے تھے اور یہ یہود کے نقش قدم پر ہوبہو چلنے کے مترادف ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سلیم صافی کو انٹرویو میں کہا کہ میری بیرون ملک اور اندرون ملک کوئی جائیداد اور دولت نہیں ہے ، صحیح کہا ہوگا کہ جب حکمران وزیر اعظم نواز شریف کی بیوی بچوں کی کمپنیاں وزیر اعظم کی نہیں تو کسی اور کی کیا ہوں گی؟۔ اسحٰق ڈار کے بیٹے چالیس چالیس لاکھ درہم باپ کو تحفہ میں دیتے ہیں، وزیر اعظم اپنی صاحبزادی کو کروڑوں تحفے میں دیتے ہیں، بچے کروڑوں وزیر اعظم کو دیتے ہیں ، جس طرح کرپشن کا پیسہ مالدار خاندانوں کے درمیان ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ تک گردش میں رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچنے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہیں اسی طرح زکوٰۃ کے مال کیلئے بھی بڑے بڑے مدارس اور فلاحی اداروں کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس سے زکوٰۃ کا فریضہ ادا نہیں ہورہا ہے بلکہ ایک مخصوص طبقہ زکوٰۃ کے نام پر کاروبار کررہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ صحابہؓ سے کہتے تھے کہ مجھ پر زکوٰۃ کے مال کی ذمہ داری ڈالنے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے خود مستحقین کوزکوٰۃدیں، اللہ نے فرمایا انہ لحب الخیر لشدید انسان مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا کہ ان سے زکوٰۃ لیں یہ انکے لئے تسکین کا ذریعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود اپنے اوپر ، اپنی اولاد ، گھر والوں اور رشتہ داروں پر زکوٰۃ کو حرام کردیا۔ جب انسان اپنے مال کی زکوٰۃ دے تو اسکو ترجیحات کا حق بھی پہنچتا ہے لیکن کسی اور کی زکوٰۃ مانگنے کیلئے بے چین روح بن جائے اور ترجیحات خود طے کرے تو اس میں وہ لذت ہے جس کو آپ بڑے بڑے اشتہارات کی شکل میں دیکھتے ہیں، حالانکہ اپنے لئے بھی بھیک مانگنا بہت مشکل کام ہے چہ جائیکہ دوسروں کیلئے مانگی جائے۔ اگر اس رمضان کو صرف اور صرف زکوٰۃ کا مال غریب طبقہ تک پہنچ جائے تو پاکستان میں ایک بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔
مستحقین کو زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے دیجائے تو جو لوگ کھانے کیلئے بھوکے ہوں ان کے تن پر کپڑوں کی ضرورت ہو یا علاج اور تعلیم کی ضرورت ہو وہ غریب خود اپنی ترجیحات طے کرینگے۔ زکوٰۃ کے نام پر اشتہارات میں جو پیسہ خرچ کیا جاتا ہے ، بڑی عمارتیں بنائی جاتی ہیں ، بڑے بڑے ادارے پالے جاتے ہیں یہ غریبوں ، ناداروں اور مسکینوں کی حق تلفی ہے۔کاروبار اسی وجہ سے تباہ ہیں کہ غریبوں کو زکوٰۃ بھی نہیں مل رہی ہے ، ایک مرتبہ کی زکوٰۃ مستحقین تک پہنچائی جائے تو ثابت ہوگا کہ اللہ کا فرمان سچ ہے کہ’’ صدقہ مال کو بڑھاتا ہے‘‘۔ جیسے بتوں کو سجدہ جائز نہیں اسی طرح غیر مستحق کو زکوٰۃ کے نام پر پالنا غلط ہے

jun2016(fazlurehman_cartoon)

کبھی تیر کے اورکبھی شیر کے بھی شکار ہیں        زکوٰۃ بھی کاروبار خدمات بھی مستعار ہیں