اکتوبر 2017 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مفتی شفیع کے نالائق نواسے کا حاملہ عورت کو تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ

darul-uloom-karachi-korangi-hamla-aurat-ko-talaq-per-halala-ka-fatwa

جامعہ دار العلوم کراچی کورنگی سے مفتی محمد شفیعٌ کے نالائق نواسے حسان سکھروی نے پھر حاملہ عورت کو تین طلاق پر حلالے کا فتویٰ دیا

دور جاہلیت کے حلالہ سے قرآ و سنت میں چھٹکارے کا پہلا طرز عمل

درسِ نظامی اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں واضح ہے کہ ’’ جس طلاق میں حلال نہ ہونے کا ذکر ہے وہ اپنے ماقبل فدیہ دینے کی صورت سے حنفی مسلک کے نزدیک خاص ہے ‘‘۔

علامہ ابن قیم نے زادالمعاد میں ابن عباسؓ کایہ قول نقل کیا ہے کہ ’’طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کی صورت دومرتبہ طلاق اور فدیہ سے خاص ہے‘‘۔

جاہلیت کا ایک غلط رواج ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ اور عدت کے اندر تاحیات باربار رجوع کی گنجائش تھی ۔ اس پر تفصیل کیساتھ اللہ نے سمجھایاہے کہ رجوع باہمی صلح سے مشروط ہے۔

اللہ نے تین طلاق کو الفاظ کے بجائے عدت کے تین ادوار میں طہرو حیض کیساتھ خاص کیا۔ رجوع کیلئے عدت رکھی اور حلالہ کی خاص صورت واضح کی

طلاق معاشرتی مسئلہ تھا اور قرآن نے معاشرتی انداز میں اسے حل کیا ہے۔ ایک طرف عورت کو طلاق کی صورت میں بھی اپنی مرضی سے شادی نہ کرنے دیجاتی تھی تو دوسری طرف رجوع کیلئے باہمی رضا مندی کے باوجود ان کورجوع نہیں کرنے دیا جاتا تھا اور حلالہ پر مجبور کیا جاتا تھا۔ سورہ بقرہ کی آیات میں بہت واضح انداز میں بھرپور وضاحتیں ہیں۔ پہلی وضاحت یہ کہ طلاق سے رجوع کا تعلق باہمی صلح اور رضامندی سے ہے۔ دوسری وضاحت یہ ہے کہ عورت پرعدت تک انتظار لازم ہے اورحمل کی عدت بچے کی پیدائش اور حیض کی عدت طہرو حیض کے تین ادوار ہیں۔ طہرو حیض کے تین ادوار کے دروان شوہر صلح کی شرط پررجوع کا زیادہ حقدار ہے ۔ سوال پیدا ہوگا کہ زیادہ حقدار کیوں کہا؟۔ جس کا جواب یہ ہے کہ خلع کی صورت میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’عورت ایک حیض کے بعد شادی کرسکتی ہے‘‘۔ شوہر اپنے حق سے دستبردار ہوجائے تو عورت تین حیض نہیں ایک حیض کے بعد شادی کرسکتی ہے، جب شوہر غلام ہو تو حدیث میں آتاہے کہ شوہر کی طلاقیں دو اور بیوی لونڈی ہو تو اس کی عدت دو حیض ہے۔ عورت 3حیض سے عدت پوری کرے اور شوہر طہرمیں پرہیز سے3 مرتبہ طلاق دے۔یہ قرآن و سنت میں بالکل واضح ہے۔ کوئی آیت، حدیث ، صحابہؓ اور اماموں کاایسا قول نہیں کہ تین طلاق پرعدت تک انتظارکے بعد حلالہ کرنے کا حکم ہو۔ قرآن میں 2مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی گئی کوئی چیز واپس لینا حلال نہیں۔ جب دونوں اور فیصلہ کرنیوالے با ہوش و حواس فیصلہ کریں تو پھر وہ چیز فدیہ کرنے میں حرج نہیں اور یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوزکرنیوالے ظالم ہیں۔ پھر طلاق دی جائے توعورت کیلئے دوسری جگہ مستقل شادی کا حکم ہے ، شوہر کیلئے رکاوٹ ڈالنا حلال نہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اسکے بعد سورہ بقرہ کی آیت نمبر 231اور 232میں تسلسل کیساتھ پھر وضاحت فرمائی ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے جب دونوں باہمی رضامندی سے صلح کرنا چاہتے ہوں تو رجوع کرسکتے ہیں۔
قرآن میں باہمی رضامندی کی صلح کو ہی معروف طریقے کی رجوع قرار دیا گیا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اسکے بالکل برعکس منکر طریقے سے رجوع کو انتہائی بیوقوفی سے اُمت مسلمہ میں رائج کرنے کی بڑی بدعت ڈالی گئی ہے۔ حنفی مسلک کے کتب میں رجوع کیلئے نیت شرط نہیں، اگر شوہر رجوع نہیں کرنا چاہتا ہو مگر بے دھیانی میں شہوت کی نظر بیوی پر پڑ گئی تو رجوع ہوگا۔ اس سے بڑی بات یہ کہ نیند کی حالت میں بھی شوہر کا ہاتھ لگ جائے تو رجوع ہوگا۔ اس سے بڑی بات یہ کہ نیند میں ہاتھ لگنے کی صورت میں بیوی کی شہوت بھی معتبر ہوگی۔ فقہی کتابیں عجائبات سے بھری ہیں

دور جاہلیت کے حلالہ سے قرآ و سنت میں چھٹکارے کا دوسرا طرز عمل

سورۂ طلاق کی میں عدت کے اندر ہی رجوع کی تفصیل بتادی اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف رجوع اور ہمیشہ رجوع کا دروازہ کھلا رہنا واضح کردیا

ابوداؤد کی روایت میں مرحلہ وار تین طلاق کے بعد بھی اُم رکانہؓ سے ابورکانہؓ کو سورۂ طلاق کا حوالہ دیکر حلالہ کے بغیر رجوع کرنیکا نبیﷺ نے حکم فرمادیا

عدت کی وضاحت کیساتھ باہمی صلح سے بار بار قرآن کی اجازت سے خود کو زبردستی سے اندھا کرنیوالے قیامت کو نابینا بن کر اٹھ سکتے ہیں العیاذ باللہ

اللہ نے فرمایا کہ ’’جو یہاں اندھا تھا وہ قیامت میں بھی اندھا رہے گا‘‘ ،خودکو اندھا بنانیوالا کہے گا کہ ’’ مجھے کیا ہوا کہ دیکھ نہیں رہا اور میں تو دیکھتا تھا‘‘۔

جب اللہ نے سورۂ بقرہ کی آیات میں بہت تفصیل سے واضح کردیا کہ تین طلاق کا تعلق طہرو حیض کی عدت میں تین مراحل سے ہے۔ ان مراحل میں صلح سے رجوع کا دروازہ بالکل کھلاہے۔ معروف طریقے سے رجوع کا مطلب بھی باہمی صلح ہے اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ حلالہ کے تعلق کو عدت کے دوران دومراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے تیسری مرتبہ رجوع کرنے کے بجائے طلاق کے فیصلے کو برقرار رکھنے کی حدتک بھی محدود نہ کیا بلکہ مزید وضاحت بھی کردی کہ دونوں اور معاشرے نے باہوش و حواس یہ فیصلہ کردیا تو فدیہ دینے میں حرج نہیں اور ان حدود سے تجاوز کرنا جائز نہیں، اسی صورت طلاق دینے کے بعد شوہر کیلئے یہ اجازت نہیں کہ عورت کا نکاح کسی اور سے کرانے میں رکاوٹ ڈالے۔ اس کو اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے دیا جائے۔ سورہ بقرہ کی آیت 230سے پہلے اور بعد میں خوب وضاحت ہے کہ عدت سے پہلے اور عدت کے بعد باہمی صلح سے رجوع ہوسکتا ہے۔ 228،229اور231،232 کی آیات میں واضح ہیں۔ صاحبِ ہدایہ ، فتاویٰ شامیہ ، قاضی خان ودیگر فقہاء نے جس طرح سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا جواز لکھا تھا اور100فیصد غلط تھا، اسی طرح حلالہ کیلئے بھی تمام حیلے بہانوں کے حوالے قرآن وسنت اور شریعت و عقل کے منافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ علماء وفقہاء نے حیلوں سے عوام کی عزتوں کو حلالہ کے نام پر تار تار کرناہے۔ خاندانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے۔ اسلئے سورۂ طلاق میں مزید وضاحت سے بتادیا کہ طلاق کا تعلق عدت کے مراحل سے ہے۔ تکمیل عدت پر رجوع کرو اور طلاق کا حتمی فیصلہ کرنے کی صورت میں دوعادل گواہ مقرر کرو۔ جو اللہ سے ڈرا، اللہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنادیگا۔ سورۂ طلاق بھرپور وضاحت کرتاہے مگر حلالہ والوں کو نشہ لگ گیاہے۔
حلالے کی لعنت نے فقہی کتابیں لکھنے والوں کے دماغ کو اتنا خراب کردیا ہے کہ قرآن کے روشن دلائل ان کے حلق سے نہیں اترتے۔ لیکن غیر فطری طلاقوں کے عجیب و غریب قسم کے مسائل پر ان کو یہی یقین ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب کا سب درست ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
قرآن میں وضاحت ہے کہ شوہر کا بیوی پر عدت کا حق ہے اور بیوی کو عدت میں انتظار کا حکم ہے۔ احادیث صحیحہ میں بھی اس کی بھرپور وضاحت ہے۔ انسان کی فطرت بھی اس کو قبول کرتی ہے لیکن یہ فقہاء اور محدثین کا کمال ہے کہ کسی ضعیف روایت پر عجیب و غریب خلاء تک بلڈنگ تعمیر کرلی۔ ایک عورت کو شوہر ایک طلاق دیتا ہے اور دو اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے۔ پھر دوسری ، تیسری ، چوتھی ، پانچویں سے ہزار اور ہزار سے زیادہ شادیوں تک نکاح کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو سب کی دو ، دو طلاقوں کی ملکیت عورت پر باقی ہونگی۔

کیا طلاق واقع ہونے کے بعد غیر محرم شوہر حلالہ کرسکا ہے، اُم معظم

kia-talaq-hone-k-baad-gair-mehram-shoher-halalah-kr-sakta-hai

اوکاڑہ : میں آپ کے بیانات کچھ عرصہ سے پڑھ رہی ہوں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ نے جو حلالہ اور طلاق کے نقطہ کو واضح کیا ہے اس سے بہت سے لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کام میں اور کامیابی عطا فرمائے۔ آمین
میرا سوال یہ ہے کہ کیا طلاق واقع ہونے کے بعد حلالہ شوہر سے کرنے کی اجازت ہے ؟ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے بیان میں ایک واضح الفاظ میں کہا کہ طلاق واقع ہونے کے بعد شوہر نا محرم ہے تو حلالہ شوہر سے کرنے کی اجازت ہے۔ آپ اس بارے میں بتائیں کہ کیا ایسا کیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ بات قرآن و حدیث کی روشنی سے ثابت ہے؟۔ اُم معظم اوکاڑہ پنجاب
جواب : قرآن میں جہاں شوہر کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے وہاں تو مروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں۔ میاں بیوی اور معاشرے میں موجود افراد کی طرف سے باہوش و حواس عدت کے مراحل میں دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری دفعہ علیحدگی کا فیصلہ ہو اور سب کا اتفاق ہو کہ آئندہ دونوں کے ملنے کی کوئی صورت باقی نہ رہے جس سے اللہ کے حدود پامال ہوں اور سب اتفاق سے فیصلہ کریں کہ آئندہ خاتون کی سابقہ شوہر سے کوئی تعلق نہ جڑے تو پھر ایسی صورت پر ہی طلاق کے بعد شوہر کو حلال نہ ہونے کا اسلئے کہا گیا ہے تاکہ سابقہ شوہر اس عورت کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ تفصیل صفحہ نمبر 6پر دیکھئے

مرزا غلام احمد قادیانی اور تبلیغی جماعت کے بانی میں بہت فرق تھا

mirza-ghulam-ahmad-qadiani-aur-tablighi-jamaat-k-baani-mein-boht-farq-thha

غلام احمد قادیانی نے شاہ اسماعیل شہیدکی کتابیں’’منصبِ امامت‘‘اور ’’الاربعین فی احوال المہدیین‘‘سے امام و مہدی اور مجدد کا دعوی کیا ۔منصب امامت کے ترجمہ پر مولانامحمد یوسف بنوریؒ کامقدمہ موجود ہے ۔ تلاش کے باجود ’’احوال المہدیین‘‘ کا سراغ نہیں ملا۔ نیٹ پر قادیانیوں کے مرکزربوہ سے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب کا عکس دیا گیاہے۔ کتاب کی چند سطریں پڑھنے سے معلوم ہوا کہ عجمی سازش سے عربی لکھ دی گئی ہے۔کتاب کی اصل تو صفحۂ ہستی سے غائب ہے ، نقل بھی موجود نہیں۔اس کتاب میں مشہور بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی کی پیش گوئیاں بھی ہیں۔ جس کا ایک شعر یہ ہے کہ ’’ اس شخصیت میں مہدی اور مسیح دونوں جھلک رہے ہونگے‘‘۔
شاہ نعمت اللہ کی پیش گوئیاں دستیاب ہیں۔ یہ شعر بھی اس میں موجود ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس شعر کی بنیاد پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ مہدی ومسیح ہے۔ بعض علماء نے فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، جو ہجرت نہ کریگا، کافرہو گا اور بیوی بھی طلاق ہو گی۔ بانی خدائی خدمتگار عبدالغفار خان نے لکھاکہ ’’ ہم نے طلاق کے خوف سے ہی افغانستان ہجرت کی تو بیگمات آگے بھاگ رہی تھیں‘‘۔ ہجرت ناکام ہوئی تو طلاق کا فتویٰ زیر بحث آیا اور انگریز کے تسلط میں جہاد کرنا مشکل تھا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرؒ کے زیرِ امامت علماء نے جہاد کا ارادہ کیا مگر نہیں کرسکے ۔دارالعلوم دیوبندسے اسلامی علوم کی حفاظت کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے علماء کی سرپرستی حکمران کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے دربار میں ہندوستان کے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے کلمۂ حق بلند کیا، قبائلی علاقہ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے بایزید انصاری عرف پیرروشان نے اکبر بادشاہ کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا اور اپنے بیٹوں سمیت افغانی قبائلی علاقے جلال آباد میں 1601ء میں شہید ہوگئے۔ مغلوں سے بغاوت کا جذبہ انگریز کے خلاف جہاد کرنے میں بھی کام آیا۔ پاکستان کیلئے عملی جہاد قبائلی علاقوں سے ہوا۔
پاکستان کی آزادی کے بعد 1948ء میں آرمی چیف انگریزاور وزیراعظم کے خواہشمند نوابزادہ لیاقت علی خان کی کشمیر سے دلچسپی نہیں تھی تو قائداعظم محمد علی جناح نے قبائل سے کہا کہ ’’تم کشمیر کی آزادی کیلئے آؤ‘‘۔ بیگم راعنا لیاقت علی خان ہندو تھی۔ قبائل نے سرینگر تک کشمیر فتح کیا تھا۔ جیسے کلبھوشن کو بچانے کیلئے عالمی عدالت میں کیس لیجایا گیا، ویسے کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کو حوالہ کردیا ،جماعت اسلامی کے مولانا مودودی نے فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں جہاد نہیں ہورہاہے بلکہ کٹ مررہے ہیں ‘‘۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ مسلم لیگ کے مخالف و جمعیت علماء ہند کے حامی مگر فتویٰ دیا کہ ’’کشمیر میں شرعی جہاد ہے، اگرمولانا حسین احمد مدنی سے بھی کشمیر پر سامنا ہوا تو انکے احترام کے باوجود انکے سینے میں گولیاں اتار دوں گا‘‘۔ میرے خاندان کے پیرمحمد امین شاہ نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا، جو وزیرستان سے تبلیغی جماعت کے پہلے فرد تھے۔ کانیگرم و علاقہ گومل کے اکثرپڑوسی تبلیغی جماعت کے خلاف تھے۔ مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہند نے ’’سنت کے بعد دعا بدعت ‘‘پر کتاب لکھی۔ مولانا شاد زمان عرف مولوی شاداجان نے سنت کے بعد دعا کو بدعت کہا تو وہاں کے مشہور علمی گھرانے کے سربراہ مولانا محمد زمان نے ان پر قادیانیت کا فتویٰ لگایا۔ میرے والد انکے ساتھ کھڑے تھے۔ ہماری مسجد میں مناظرے کا اہتمام ہوا، نتیجہ فارسی میں سنایا گیا، دونوں طرف کے حامیوں نے ڈھول کی تھاپ پراپنی اپنی فتح کا جشن منایا۔ عمائدین میں مشہور شخصیت حاجی میرول خان مرحوم آخرتک تبلیغی جماعت کے سخت مخالف تھے۔ ہماری مسجد کو ’’ درس‘‘ اسلئے کہا جاتا کہ یہاں طلبہ علم سے استفادہ کرنے آتے ۔ مفتی محمود مفتی اعظم کہتے تھے کہ ’’ پٹھان مسلکاً دیوبندی اور طبعاً بریلوی ہوتے ہیں‘‘۔ سنت کے بعد دعا کو لازم کہا جاتا اور آذان میں صلوٰۃ و سلام نہیں پڑھی جاتی۔ سہراب گوٹھ میں جنت گل کی مسجد میں یہ حال اور میرا کردار تھا۔
انگریز ی دور میں مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کو منسوخ کرنے فتویٰ دیا، علامہ اقبال نے مجذوب فرنگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ اس کا یہ فتویٰ بے اثر ہے۔ مہدی کے بدنام تخیل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ پاکستان بنا تو فوج پر مرزائیوں کا تسلط قائم ہوا۔ جہاد کو منسوخ قرار دینے والوں کی گرفت سے کشمیر کے بعد مشرقی پاکستان بھی گیا، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے کافر قرار دینے کی چھوٹ دیدی تو وہ لوگ بھی میدان آئے جو قادیانیوں کیساتھ مل کرختم نبوت سے تعاون نہ کرتے تھے۔ شورش کاشمیری ذوالفقار علی بھٹو کا سخت ترین مخالف تھا مگر قادیانیوں کو آئینی کافر قرار دینے پر بھٹو کی عظمت کو سلام کرنے لگا۔
چند سال پہلے اردو ڈائجسٹ میں دیوبند ی بزرگوں پاکستان و ہندوستان کے شیخ الاسلام کا مکالمہ شائع ہوا۔’’ کانگریس کے حامی نے کہا کہ مسلم لیگ کی حمایت انگریز سرکار کرتی ہے اور مسلم لیگ کے حامی عالمِ دین نے جواب دیا کہ انگریزسرکار تبلیغی جماعت کی بھی حمایت کر رہی ہے تو کیا اس وجہ سے تبلیغی جماعت کا کام غلط قرار دیا جائے؟‘‘۔ تبلیغی جماعت عملی جہادنہیں کررہی تھی مگر جہاد کو منسوخ نہ سمجھ رہی تھی۔ جب روس کیخلاف افغانستان میں جہاد کا سلسلہ جاری تھا تو قبائل، پٹھانوں اور تبلیغی جماعت نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ جب نصیراللہ بابر نے امریکہ کے کہنے پر طالبان کی حکومت قائم کردی تو تبلیغی جماعت افغانستان جاتی تھی ، میرے دوست مولانا دین محمد گئے تھے اور یہ شکایت کی تھی کہ افغانستان میں کھلے عام مزارات پر شرک ہورہاہے۔تبلیغیوں کی نگاہیں نظام پر نہیں مسلک اور عقیدے پر تھیں، بعض لوگ ملا عمر کو خراسان کے مہدی سمجھتے تھے مگر جب امریکہ نے اسامہ کا بہانہ بناکر حملہ کیا تو طالبان کی مزاحمتی تحریک کو جہاد کہنے میں کسی کو شبہ نہیں رہاتھا، خود امریکہ بھی اسکا قائل تھا۔ تبلیغی جماعت نے اس قبولیت عامہ میں جہاد کا ساتھ دیا۔ طالبان اور تبلیغی بزرگ شیر وشکر ہوگئے۔ جرائم پیشہ عناصر جہاد میں جانے سے پہلے حلیہ بدلنے کیلئے رائیونڈ کا رخ کرتے تھے اور پھر داڑھی کیساتھ چوتڑ تک عورتوں کی طرح بال بھی رکھتے تھے۔ بد کاری و بے حیائی کے حدود پار کئے بغیرکوئی شریف یہ حلیہ اختیار نہیں کرسکتا تھا۔ جرائم پیشہ لوگوں نے جہاد کو خوب بدنام کیا اور بہت شریف بھی اسکی نذر ہوگئے۔
سلیم صافی نے جیو پر مولانا طارق جمیل سے خود کش حملوں کیخلاف جملہ کہلانے کی کوشش کی مولانا نے کہاکہ ’’ہماری راہیں جدا ہیں، منزل ایک ہے‘‘۔اب مولانا طارق جمیل نے بوہرہ داؤدی کے سربراہ سے پرجوش ملاقات کی ہے اور یہ معمولی بات ہے مگر جب پاکستان پر جہاد کا معاملہ آرہاہے تو میرے بیٹے محمدعمرنے بتایا کہ ’’کمپنی کا ملازم کہتا ہے کہ کشمیر اور ہندوستان کی لڑائی وطن کیلئے ہے جو جہاد نہیں، چاچا فوج میں ہیں اور ماموں مولوی ہیں‘‘۔ مدارس تک میں دہشتگردی ہورہی تھی تو مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اس کو خلافِ اسلام قرار نہ دیا اور اب امریکہ اور انڈیا نے حملہ کیا تو یہ فتویٰ کہ ’’پاکستان کی طرف سے مدافعت جہاد نہیں ایک سازش ، جہالت اور بے غیرتی ہے‘‘۔
صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کا حلیف قبیلہ بنو خزاعہ کافر تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے بنوبکر کی مدد کرتے ہوئے بنوخزاعہ کو نقصان پہنچایا توصلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی نبیﷺ نے توڑ کر مکہ کو فتح کرلیا۔ اگر برما کے بدھ مت پاکستان کو حلیف بنالیں اور بنگلہ دیش کے مسلمان یا بھارت کے ہندو برماکے بدھ مت پر حملہ آور ہوں تو یہ فرض ہوگا کہ ’’ہم برما کے بدھ مت کی مدد کریں‘‘۔
اقوام متحدہ نے سوڈان کے ٹکڑے کردئیے اور عراق کے کردستان میں ریفرینڈم کرادیا مگر 70 سال سے کشمیریوں کو حق سے محروم رکھا۔ کیا یہ انصاف ہے لیکن جب تک اقوام متحدہ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا یا ہم اسکے معاہدے سے باہر نہیں نکلتے ، ہم اسکی تابعداری کے پابند ہیں۔ نبیﷺ نے جاہلیت کے’’ حلف افضول‘‘ کی تعریف میں فرمایا: ’’ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہے کہ میں اس میں شامل تھا‘‘۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، فتنے فساد کو رفع دفع کرتاہے مگر ظالم کے آگے لیٹنے کی تعلیم بھی نہیں دیتا۔ پاکستان ایک ریاست نہیں بلکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز بھی ہے۔پاکستان کا مستقبل روشن بنانے کیلئے کوشش کی ضرورت ہے۔ ملاعمر مجاہد جس سازش کا شکار ہوا، وہ سمجھ سے بالاتر تھی۔ ایک ملا، مولوی اور مولانا کو آج دنیا کے اختیارات مل جائیں تو اسلام کا نفاذ اسکے بس میں نہ ہوگا اور یہ اسلئے نہیں کہ اسلام کاروبار بن گیا بلکہ اسلئے کہ اسلام اجنبی ہے۔ خلافت راشدہ کا آخری دور حضرت عمرؓ کے بعد فتنوں کا دور تھا۔ نبیﷺ کے خانوادہ کو اقتدار نہ دیا گیا لیکن بنی امیہ کے یزید اور بنی عباس وبنی فاطمہ کے بعد خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت خاندانی بنیاد پر رہی۔ علماء رکاوٹ نہ بن جائیں ، تبلیغی جماعت کے کارندے مثبت کردار ادا کریں تو پاکستان میں کب کااسلامی انقلاب آچکا ہے۔ بس حقائق کو قبول کرناپڑیگا ، ورنہ افراتفری پھیل گئی تو کوئی بھی کسی کی بات نہ سنے گا۔ امن کی فضاء سے فائدہ اٹھائیں۔
تبلیغی جماعت کے اکابر ، بزرگ اور علماء کا کردار اس وقت اہمیت اختیار کریگا کہ جب یہ اللہ کے احکام اور نبیﷺ کے طریقے کا ایک معاشرتی نظام اپنے کارکنوں اورعوام کو دیں۔

اہلسنت کے نظریۂ خلافت اوراہل تشیع کے عقیدۂ امامت کا فرق

ahl-e-sunnat-k-nazaria-e-khilafat-aur-ahle-tashi-k-aqeeda-e-imamat-ka-farq

درسِ نظامی کی کتاب ’’ شرح العقائد‘‘ میں ہے کہ ’’خلافت کا قیام واجب ہے ، سنی کے نزدیک خلیفہ کا تقرر مخلوق پر واجب ہے ، شیعہ کے نزد خلیفہ کا تقرر اللہ پر واجب ہے۔ درست عقیدہ ہے کہ اللہ پر کوئی واجب نہیں ۔ شیعہ کا عقیدہ غلط ہے کہ اللہ پر کوئی بات واجب ہے‘‘
علم الکلام کا دوسرا نام علم العقائد ہے جس کا تعلق فلسفہ سے ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جوانی اس میں کھپادی ،آخر توبہ کی ،اس کو گمراہی قرار دیکر فقہ کی طرف توجہ کی۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمود بڑے قابل عالمِ دین تھے، مگر انہوں نے زیادہ تر توجہ سیاست کی طرف دی۔ شرح العقائداور دیگر چند کتابوں کے بارے میں وہ کہتے تھے کہ یہ شیعہ کی سازش ہے، ان کو اپنے نصاب سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔
اصول فقہ میں قرآن کی تعریف علم العقائد سے پڑھائی جاتی ہے۔ جس میں قرآن کی تحریر کومحض نقش قرار دیا گیاہے جو الفاظ ہیں اور نہ معنیٰ۔ حالانکہ قرآن کی بہت سی آیات سے یہ ثابت ہے کہ قلم کے ذریعہ علم، جو سطروں میں ہے ، جو ہاتھ سے لکھی جاتی ہے، یہ کتاب ہے، جاہل مشرک بھی سمجھتے تھے کہ جو صبح شام لکھوائی جاتی ہے یہ کتاب ہے۔ ایک بچہ، ان پڑھ اور جاہل بھی کتاب کی کتابت کا انکار نہیں کرسکتا۔
علم العقائد کی گمراہی میں حقائق کی شکل مسخ کی گئی ہے اسلئے امام ابوحنیفہؒ نے اس سے توبہ کی مگر اہل تشیع کے بڑے لوگوں نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو باقی رکھا اور اپنے نادان علماء ومفتیان بھی اس کا شکار ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ درباری علماء ومفتیان کا ہر دور میں راج رہا ہے جن کی وجہ سے اسلام اجنبی بنتا چلا گیا۔ قادیانیوں کیخلاف تحریک چل رہی تھی تو جب پاکستان کی ریاست نے نہیں چاہا کہ مرزائیوں پر کفر کا فتویٰ لگے تو ہماری عدالت و حکومت نے ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے نعرے پر پابندی لگادی۔ آج ریاست کا من چاہے تو مولویوں کو کھڑا کرکے آغا خانیوں پر نہ صرف کفر کے فتوے لگادے بلکہ انکے ہسپتال ، تعلیمی اداروں اور آبادیوں کا بھی بیڑہ غرق کردے۔
قادیانیوں پر کفر کا فتویٰ لگانا ریاست کا موڈ نہ تھا تو ختم نبوت کی تحریک پر مشکلات کا سامنا تھا۔ مولانا عبدالستارخان نیازی نے داڑھی مونڈھ ڈالی ، مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان ، مولانا احتشام الحق تھانوی درپردہ قادیانیوں کیساتھ تھے، تاریخ کے اوراق مٹ نہیں سکتے، ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کی کم تعداد کے باجود فوج میں انکی طاقت سے جان چھڑانے کیلئے تحریک ختم نبوت کو آزاد ی دی۔ تو قادیانی کافر قرار دئیے گئے۔ بھٹو کا تختہ الٹنے میں فوج کے اندرقادیانی اور باہر سے تحریک نظام مصطفی کے قادیانی ائر مارشل اصغر خان نے بڑا کردار ادا کیا اور جنرل ضیاء نے مرزائیوں سے مراسم بنانے کیلئے اعجازالحق کی شادی مشہور قادیانی جنرل رحیم کی بیٹی سے کرادی۔ مفتی تقی عثمانی نے اس کا نکاح پڑھانے کیلئے اپنے مرشد اور مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ ڈاکٹر عبدالحی کو استعمال کیا جس پرہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیر محمد بہت برہم تھے۔ اگرریاست کی طرف سے اشارہ یا پیسہ ملتا تو شیعہ کیخلاف مفتی تقی عثمانی دوسروں کا ساتھ دیتے، جیسے حاجی عثمانؒ پر فتویٰ لگایا تھا۔
قرآن کیخلاف شیعہ سنی کتابوں میں موجود تمام مواد کی نشاندہی کرکے فرقہ واریت کی سازش کو ناکام بنایا جاسکتاہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نبی و مہدی تو دور کی بات، قابل مولوی بھی ہوتا تو درسِ نظامی کی خامیوں کی نشاندہی کرتا۔ مولوی نصاب ٹھیک کریں تو قادیانیوں کی بھی آنکھ کھول دینگے اور انکے مربی توبہ کرکے حقائق کوقبول کرینگے۔ شیعہ مخمصے سے نکلیں گے کہ قرآن کو درست مانیں یا نہیں؟ بریلوی بھی علامہ انور شاہ کشمیری کی قرآن کے بارے میں تحریف کے عقیدے کی رٹ کوچھوڑ کر خود راہِ راست پر آئینگے اور دیوبند کے علماء بھی بدترین منافقانہ فضاؤں سے نکل آئینگے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ جیسے اللہ انبیاء کو مبعوث کرتاہے،ویسے ائمہ مبعوث کرتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانیوالا ہوں‘‘۔ اللہ نے آدم ؑ کونبی و خلیفہ بنایا۔ بعثت کے لفظ سے نبوت ورسالت کا ہونا لازم نہیں آتا۔ قابیل نے بھائی کو قتل کردیا تو اللہ نے فرمایا : فبعث اللہ غرابا’’ اللہ نے کوا بھیج دیا‘‘۔ بعثت سے کوا نبی نہ بنا۔ ابراہیمؑ سے فرمایا: ’’میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا۔ عرض کیا کہ میری اولاد میں سے بھی۔ فرمایا : میرا وعدہ ظالموں کو نہ پہنچے گا‘‘۔مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’اللہ نے جن الفاظ میں جواب دیا ، یہ دعا کی قبولیت ہے اور جب تک نبوت کا سلسلہ جاری رہا اللہ نے بنی اسرائیل اور پھر آخر میں حضرت محمدﷺ کی بعثت سے یہ وعدہ پورا کردیا۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو قریش کیساتھ قیامت تک وعدہ ہے‘‘۔صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ اور صحیح بخاری کی کتاب الفتن میں نبیﷺ کی حدیث ہے کہ قیامت تک ائمہ قریش میں سے ہونگے چاہے 2 آدمی باقی ہوں۔
خلافت راشدہ کے بعدبنو امیہ وبنوعباس تک خلافت قریش میں رہی اور خلافت عثمانیہ کے ترک خلفاء قریش نہ تھے۔ شیعہ مکتب کا کہنا ہے کہ عثمانی خلفاء کی طرح جو قابض بنوامیہ و بنوعباس خاندان تھے وہ شرعی خلفاء نہ تھے۔ بریلوی مکتب کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے خلافت عثمانیہ کی غیر قریشی خلفاء کو غیر شرعی قرار دیا تھا۔
جنرل ضیاء دور میں سید جمال الدین کاظمی نے دیوبندی بریلوی مشہور مدارس سے خلیفہ کی تقرری پر فتویٰ مانگا تھا تو دیوبندیوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔ بریلوی کے علامہ عطاء محمد بندھیالوی نے تفصیلی جواب دیا تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ کے رویہ میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی ، مہدی غائب کے غَیبت کبریٰ میں وہ مخلوق کی طرف سے امام کی تقرری کا فریضہ ادا کرنے کے قائل ہوگئے۔
شاہ ولی اللہؒ نے لکھا: ’’مشاہدہ میں نبیﷺ نے فرمایا کہ شیعوں کی گمراہی کی بنیاد امامت کا عقیدہ ہے‘‘۔بیشک اگرشیعہ عقیدۂ امامت نہ رکھتے تو صحابہؓ سے لیکر موجودہ دور تک وہ قرآن سمیت بہت سی باتوں سے بدظن نہ ہوتے۔ شاہ ولی اللہؒ نے لکھا کہ ’’میں اس مشاہدہ کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچا کہ عقیدۂ امامت در اصل ختم نبوت کا انکار ہے‘‘۔ اگریہ صحیح ہو توشاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے سید احمد بریلویؒ کو خراسان کا مہدی ثابت کرنے کی غرض سے ’’منصبِ امامت ‘‘ کتاب لکھ دی تھی اور اس میں بھی امام کیلئے بعثت کا عقیدہ ہے۔
شاہ اسماعیل شہیدؒ کے خلوص میں کوئی شک نہ تھا مگر انگریز نے ان کو راستہ اسلئے دیا تھا کہ پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ کااقتدار ختم ہو۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے لکھا کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کہا: ’’ جب تک امام مہدی کا ظہور نہ ہوگا، امت کی اصلاح نہ ہوگی اور مہدی میں اس قدر روحانی طاقت ہوگی کہ پوری دنیا کے حالات کو بدل دیگا‘‘۔ ایسا کوئی نبی اور رسول بھی نہیں آیا ۔ یہ عقیدہ قادیانیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے اسلئے کہ کہاں ظلی و بروزی نبی اور کہاں تمام انبیاء سے بھی طاقتور ہونے کا دعویٰ؟۔ شیعہ ،سنی اور قادیانی وغیرہ کتابوں کے مندرجات کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ سب کوخوش فہمی ہے اور مذہب کے نام پر پیٹ پوچا کا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شیعہ علیؓ کی خلافت کی ’’عید غدیر‘‘ منائیں تو یہ اس کی نفی ہے کہ امام کا تقرر اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مان لیا ، نبیﷺ کی طرف سے حضرت علیؓ کو امام و خلیفہ اور امیر بنایا تو صحابہؓ نے ارتداد کا راستہ اختیار کیا،علیؓ کے بعد 10امام مزید آئے ، ان کا طرزِ عمل اتنا جدا تھا کہ شیعوں میں بھی فرقے بن گئے۔ امامیہ کا 12واں امام مہدی غائب ہے ، ایرانی اقتدار حاضر خدمت ہے لیکن امام مہدی کا ظہور نہیں ہورہاہے۔ سخت مخالفین میں جینے والے شیعہ کے 11امام عوام کے اندر موجود رہے تھے۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے بھی کہاکہ مہدی آئیگا تو اختلافی مسائل کی اصلاح کردیگا۔ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب وہ مہدی اور مسیح تھا جس کا انتظار تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ طبعی موت مرچکے ۔مسیح اور مہدی دونوں ایک شخصیت ہے۔ مہلک ہتھیا روں کی موجودگی میں مرزا نے جہاد کو منسوخ کردیا اور مولوی بھی ریاست کے بغیر جہاد کا فتویٰ دینے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ یونیورسٹی کے طلبہ میں خلافت کا شعور حزب التحریر اجاگر کرتی ہے جو برطانیہ میں وجود میں آئی ۔ وہاں اس پر پابندی نہیں ۔ اوراس کی تحریر کا کوئی سر پیر بھی نہیں ہوتا ہے۔
اگر ریاستِ پاکستان ہمیں کینیڈا بھیجے تو ہم اسلام کے سفیر بن کر مسلمانوں کے گمراہ لوگوں کو خلیفہ وامام کی درست راہ دکھا دینگے، جس پر سب ہی متفق ہونگے بلکہ مغرب کی سازشوں کو مغرب میں ہی بے نقاب کرینگے۔ مغرب کی سازش سے زیادہ ہمارے اپنے پیچیدہ اور الجھے مسائل کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ جہادمدافعت اور ظالم کو ظلم سے روکنے کا فطری راستہ ہے ،قیامت تک اسکا انکار ممکن نہیں۔
ہزار سال قبل الماوردی کی کتاب ’’ الاحکام سلطانیہ‘‘ سے مدارس کے علماء وطلبہ واقف نہیں اور یونیورسٹیوں میں اس کا تعارف ہے۔ امام کا تقرر پہلے افراد کا کام تھا، اب ریاستوں نے مل کر اس فریضہ کو ادا کرنا ہے۔ خمینی فرانس میں بیٹھ کر امام بن گئے تو ایرانی انقلاب آیا۔ تمام مسلم ممالک کو متفقہ امام دینا ضروری ہے۔اور پاکستان، افغانستان اور ایران آغاز کریں۔

شیعہ سنی کا قرآن پر ایمان اور اس کیلئے عملی اقدام کی ضرورت

علامہ احمد لدھیانوی اورعلامہ حسن ظفر نقوی لوگوں کو دلیل سے ایک پلیٹ فارم پر لا ئیں تو قتل وغارت گری کا سلسلہ رُک جائیگا۔ جب برما کےshia-sunni-ka-quran-per-emaan-aur-us-k-liye-amli-iqdaam-ki-zarurat مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کی گئی تو ایک جلوس نکالا گیا جس میں ایران اور اسرائیل کی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس خبر کی خوب تضحیک ہوئی اور اہلسنت (سپاہِ صحابہ) والے کا مذاق اڑاگیا مگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنی برائیاں ہیں؟۔ زنا بالجبر، بدکاری کے بعد بچوں اور بچیوں کو قتل کردیا جاتاہے ، انواع و اقسام کی بدمعاشی ، مظالم ، رشوت، بے حیائی اور چوری ڈکیتیوں کا بازار گرم ہے کیا یہ سب اسرائیل و امریکہ کی سازش ہے؟۔
بے شعور عوام کو ہم کیا دے رہے ہیں؟، اگر کبھی امریکہ ، اسرائیل اور بھارت نے سازش کی اور شیعہ سنی ایکدوسرے سے لڑے تو کسی کاکردار ہو یا نہ ہو مگر ہم اپنی بداعمالیوں کی سزا ضرور کھائیں گے۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کے بعد اللہ نہ کرے کہ پاکستان کی باری آجائے۔ قرآن کہتا ہے کہ ظھر الفساد فی البر و البحر بماکسبت ایدی الناس ’’ خوشکی اورسمندر میں فساد برپا ہوگیا بسبب جو لوگوں نے ہاتھوں سے کمایا ہے‘‘ ۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم باقاعدہ سکالر اور عالم نہ تھے۔ البتہ قرآن کا ترجمہ سمجھانے کی بڑی خدمت کی۔ بڑے آدمی تھے اور بڑے کی غلطی بڑی ہوتی ہے۔ میرے ایک مہربان جماعت اسلامی کے عبدالرزاق بھٹی کا تعلق شیخ اتار گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا جوایک بڑے تاریخی کردار تھے۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ کمیونسٹ تھے، پھر جیل میں مولانا مودودی کی کتابیں پڑھ کر مسلمان بن گئے تھے۔ سید منور حسن گذشتہ امیر جماعت اسلامی بھی کالج کے دور میں کمیونسٹ تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے کالجوں میں کمیونسٹوں کا راستہ روکنے کی قربانی دی ہے مگر پہلے جو امریکہ جہادی فلسفہ پھیلارہا تھا ،اب خلافت، جہاد اور مذہب کی مخالفت کو شعار بنارکھا ہے۔عبدالرزاق بھٹی نے بتایا تھا کہ ڈاکٹر اسراراحمدنے لکھا کہ’’ اگرچہ شیعہ کا موجودہ قرآن پرایمان نہیں مگر مہدی غائب تک اہل تشیع نے موجودہ قرآن کو قبول کیا ہے تو اس بنیاد پر ہم ان کو مسلمان کہہ سکتے ہیں‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے شیعوں کیلئے اس نرمی کا مظاہرہ اسلئے کیا تھا کہ وہ خود بھی موجودہ قرآن کو مصحف عثمانی کہتے تھے ،جس کو اصل نہیں نقل سمجھتے تھے۔ جس میں کمی وبیشی کا تصور ہے اور برملا اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’ اللہ تعالی نے قرآن میں کہا کہ اس قرآن کو نہیں چھوسکتے مگر پاک لوگ۔ موجودہ قرآن کو ناپاک بھی چھو سکتے ہیں اسلئے یہ اصل قرآن نہیں بلکہ نقل اور فوٹو کاپی ہے ۔ اصل قرآن لوحِ محفوظ میں ہے جس کو ملائکہ کے علاوہ کوئی نہیں چھوسکتا‘‘۔
ڈاکٹر اسرار احمد اچھے انسان تھے ، مجھے انکے اپنے نظریات کا زیادہ پتہ نہیں تھا، انہوں نے میری کھل کر نہ صرف حمایت کی بلکہ کانفرنسوں میں بھی دعوت دی۔ میں نے سوچا کہ میڈیا کی سطح پر آواز پہنچانے کیلئے ان سے مدد لوں اور میں نے انکے سامنے یہ بات رکھ دی کہ مدارس میں قرآن کریم کے بارے میں تحریف کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر آپ میرا ساتھ دیں تو بہت اچھے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں کھل کر ساتھ نہیں دے سکتا لیکن میری خاموش حمایت آپ کے ساتھ ہوگی، جیسے امام ابوحنیفہؒ نے ائمہ اہلبیت کی خاموش حمایت کر دی تھی مگر زباں سے کھل کر اظہارنہیں کیاتھا‘‘۔
جب مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے یہ تشہیر بھی عام لوگوں میں کی ہے کہ اصل قرآن لوح محفوظ میں ہے ، ہمارے پاس نقل ہے تویہ منافقت میں نہیں کرسکتا تھا کہ اپنے حامی کیلئے نرم گوشہ رکھوں۔ اپنے ضرب حق اخبار اور اپنی کتاب’’ آتش فشاں‘‘ میں اس کا کھل اظہار کیا جو ڈاکٹر اسرار احمد کو ناگوار بھی گزرا۔ مجھے اپنے اساتذہ کرام کی بھی حق بات کے سلسلے میں کوئی پرواہ نہیں تھی تو کسی اور کیا کرتا؟۔ قرآن واحد ذریعہ ہے جو اس امت کا بیڑہ پار کرسکتاہے مگر ہمارے مذہبی طبقات قرآن کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود حقائق نہیں مانتے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ میں تمہیں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت۔اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لوگے تو گمراہ نہ ہوگے‘‘۔ یہ حدیث صرف شیعہ نہیں سنیوں کی کتابوں میں بھی ہے، صحیح مسلم ، ترمذی وغیرہ صحاح ستہ میں شامل کتابوں میں بھی یہ حدیث موجودہے۔ اہل تشیع کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ و امام جعفر صادقؒ کا تعلق ائمہ اہلبیت سے تھا اور ہم حدیث کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ائمہ اہل بیت کے مسلک پر گامزن ہیں۔ اہلسنت حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور معاویہؓ کو مان کر یہ حدیث نہیں مانتے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو مانتے ہیں مگر امام جعفر صادق ؒ کو نہیں مانتے۔
اہلسنت کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’دو بھاری چیزیں چھوڑے جار ہا ہوں قرآن اور میری سنت ‘‘۔ موطا مالک کی اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ قرآن و سنت کو ہی اطاعت کیلئے اپنامحور بنالیا جائے۔قرآن کا بار بار حکم ہے کہ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی ‘‘۔ ایک جگہ یہ ہے کہ ’’ جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی‘‘۔ قرآن اللہ کی وحی ہے ، اس وحی پر عمل وکردار کی مثالی شخصیت رسول ﷺ خود ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم قرآن میں ہے اور عملی کردار نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ رکوع وسجدہ ، روزہ اور طواف وحج کا حکم اللہ نے دیا مگر لوگوں کو خود کرکے نہیں دکھایا۔ رسول ﷺ نے احکام پر عمل کرکے دکھایا اور نبیﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ایک جگہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو اولی الامر ہیں ان کی اطاعت کرو، اگر کسی بات پر تمہارا تنازع ہوتو اللہ اور رسول کی طرف اس کو لوٹادو‘‘۔ اگرشیعہ کہیں کہ اولی الامر سے مراد ائمہ اہلبیت ہیں، آیت میں اولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے توانہیں ماننا پڑیگا کہ ائمہ اہلبیت سے اختلاف رکھنے کی گنجائش انکے ا دوار میں بھی تھی، آج بھی ہے۔ حضرت علیؓ نے مسند پر بیٹھنے والے خلفاء کرامؓ سے اچھے تعلقات رکھے، امام حسنؓ نے معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کا معاہدہ کیا، کربلا میں حضرت امام حسینؓ کو واپس جانے دیا جاتا تویہ سانحہ پیش نہ آتا اور مہدی غائب تک باقی ائمہ نے شہیدکربلا کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ ایک امام تو کسی عباسی خلیفہ کے جانشین بھی مقرر ہوئے۔ پھر اختلاف و افتراق کی شدت کوکم کرنا پڑیگا۔ ائمہ اہلبیت سے زیادہ باایمان اور تقویٰ وکردار رکھنے والا کوئی علامہ اور ذاکر نہیں ہوسکتا ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے ’’ تقلیدکی شرعی حیثیت‘‘ کتاب میں قرآن کی آیت پرلکھا: ’’ اولی الامر سے مراد ائمہ مجتہدین ہیں،اختلاف سے مراد یہ نہیں کہ ان سے اختلاف ہوسکتا ہے بلکہ فان تنازعتم فی شئی سے علماء کے آپس کا اختلاف مراد ہے۔ احادیث میں علماء کے اٹھ جانے کی خبر ہے۔ ان ائمہ کے بعدجاہل علماء ہیں جو خود بھی گمراہ ہونگے اور دوسروں کو بھی وہ گمراہ کرینگے۔ علماء کا کام ائمہ کی تقلید کرنا ہے، اور عوام کا کام براہِ راست قرآن و حدیث کے احکام کی پیروی کرنا نہیں بلکہ علماء ومفتیان کے توسط سے قرآن و رسولﷺ کی پیروی ہے۔ عوام کی غلط رہنمائی ہوتو انکا مواخذہ نہ ہوگا‘‘۔
جس طرح شیعہ مسلک و اعتقاد میں قرآن کے حوالہ سے تضادات ہیں ، مہدی نے قرآن غائب نہیں کیا مگر اپنی منطق سے گمراہی کا شکار ہیں۔اسی طرح ہر دور کے درباری شیخ الاسلام نے مسلم اُمہ کو قرآن سے دور لے جانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے جیل کی زندگی میں زہرکھاکر شہید ہونا قبول کیامگر اپنے فتوے سے رجوع نہ کیا کہ لونڈی کو بادشاہ کے باپ نے استعمال کیا ہو اور پھر بیٹا اس کیساتھ ازدواجی تعلق قائم کرسکے۔ جبکہ شیخ الاسلام کی طرف سے حیلہ بنالیا گیا کہ ’’ عورت کی گواہی کا انکار کرکے یہ تعلق قائم کرسکتا ہے ‘‘۔ اس پر بڑا معاوضہ بھی حاصل کیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی کی طرف سے اپنے جاہل عوام کو کہا گیا کہ ’’ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین سود ہے اور اسکے ستر سے زیادہ گناہ، وبال اور برائی میں کم از کم گناہ اپنی سگی ماں کیساتھ زنا کے برابر ہے‘‘ دوسری طرف معاوضہ لیکر سودکو جواز بھی فراہم کردیا ہے۔ تبلیغی جماعت کے کارکن اور رہنما شادی بیاہ کی رسم میں مفتی تقی عثمانی کے فتوے پر عمل نہیں کرتے مگرسود کادفاع کررہے ہیں۔
قرآن وسنت کے جھوٹے پیروکاروں کے منہ پر اللہ نے خوب طمانچہ مارا ہے۔ چاہے جو جس فرقہ ، جماعت اور مسلک کا لبادہ اُوڑھے وقال الرسول ربی ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا ’’ اور رسول کہے گا کہ میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ درسِ نظامی میں علماء ومفتیان قرآن پر حملہ آور ہوکر پڑھاتے ہیں کہ ’’ تحریری قرآن اللہ کا کلام نہیں، یہ الفاظ اور معانی نہیں صرف نقوش ہیں‘‘۔ اسی وجہ سے صاحبِ ہدایہ ، شامی اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھ دیاکہ’’ علاج کیلئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے‘‘۔ علماء نے تردید کرنے کے بجائے تائیدکا سلسلہ اب بھی جاری رکھا ہواہے۔علامہ اقبالؒ نے کہا:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

شیعہ پر کفر کے فتوؤں کے دلائل اور انکے محرکات کی حقیقت

shai-per-kufur-k-fatwon-k-dalail-aur-un-k-muhharekaat

ایران کے قائد امام خمینی محتاج تعارف نہیں اور مولانا محمد منظور نعمانی بھی بھارت کے مشہور عالم دین تھے۔ معارف الحدیث اور اسلام کیا ہے؟،وغیرہ انکی کتابیں ہیں۔ مولانا مودوی سے علیحدگی کے وجوہات بھی مولانا منظور نعمانی نے یہ لکھے ہیں کہ ’’جماعتِ اسلامی کے بانی کا الہ کا تصور عقیدے کی بنیاد پر غلط تھا‘‘۔
شیعہ مخالف تنظیم اہلسنت والجماعۃاور حقوق اہلسنت والجماعۃ کے خطیب اور مناظر میدان میں تھے۔ مولانا حق نواز جھنگوی شہید نے پھر ’’انجمن سپاہ صحابہ‘‘ بنائی تو ایرانی لٹریچر کا بہت زور تھا۔ پھر کراچی میں سواداعظم اہلسنت نے بھی شیعہ کے خلاف تحریک شروع کردی تھی۔
سپاہِ صحابہ نے مولانا حق نواز جھنگوی شہید کی تقریر شائع کی، اس میں وضاحت ہے کہ ’’شیعہ سے اختلاف قرآن کی بنیاد پر نہیں ، صحابہؓ کی بنیاد پر بھی نہیں، ہمارا اصل اختلاف شیعوں سے عقیدۂ امامت پر ہے‘‘۔
اس میں شبہ نہیں کہ مولانا حق نواز جھنگویؒ کا مؤقف 100فیصد درست تھا۔ سپاہ صحابہ نے بہت قربانیاں دیں، قیادت اور کارکن شہادت اور جیلوں سے نہ گھبرائے۔ کافر کافر شیعہ کافر کا نعرہ ہر دہلیز، چوکٹ، چوہراہا، ہرقیمت پر لگایا۔
شیعہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ اصل اختلاف یہی تھا، علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے حضرت صالحؑ کی اونٹنی ناقۃ اللہ اور علیؓ کے ہاتھ، پیر، اعضاء کو اہل اللہ اور اہل رسول قرار دیکر کہا کہ ’’یاعلی مدد اللہ ورسول سے مدد ہے۔ بدبخت ترین علیؓ اور صالح کے قاتل تھے‘‘۔ میری تقریر نیٹ پر ہے جس میں کہا کہ’’اللہ مظلوم نہیں ہوتا‘‘۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ مذکر و مؤنث کے عضوء سے پاک ہے، اسے کسی نے جناہے اور نہ اس نے کسی کوجناہے۔مظہرِ نور خداداتا گنج بخشؒ کو بھی سمجھا جاتاہے۔ کعبہ 360 بتوں سے بھرا تھااور داتا کی نگری میں ہیرہ منڈی ہے۔ دین میں زبردستی نہیں۔ اربابِ اقتدار کا کام نظام کی درستگی ہے ۔ اچھی فضاء بہت ضروری ہے۔
نہ تیرا خدا کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
سواد اعظم اہلسنت کی ابتداء ہوئی تو کراچی کے اکابر علماء مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفند یار خان ، مفتی احمد الرحمن ، مولانا زکریا تحریک کی قیادت کررہے تھے۔ مولانا زکریا کی مولانا سلیم اللہ اور مولانا اسفندیار نے پٹائی لگادی۔ مولانا زکریا لنگڑے جامعہ انوار العلوم گلبرک کراچی کے مہتمم معذور ڈنڈے سے پٹے تو کیا کرتے؟۔ البتہ اخبارات میں رازوں سے پردہ اٹھادیا کہ مولانا سلیم اللہ خان و مولانا اسفندیارخان نے سواداعظم کے نام پر رقوم، جائیداد ومفادات لئے ہیں۔ وہی مولانا زکریا صاحب سپاہ صحابہ کے مستقبل کے قائد مولانا اعظم طارق کے سوتیلے باپ تھے۔
سواداعظم کی قیادت میں لالو کھیت کے اندر اہل تشیع کی دکانیں جلائی جا چکی تھیں، پختون ایمانی جذبے میں پیش پیش تھے، جس کا خمیازہ مہاجر پختون فسادات میں بھگتنا پڑا ۔ میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو سواد اعظم کے تحت مزیدفسادات اُڑان کی موڈ میں تھے، مولانا زکریا چند ماہ پہلے علیحدہ ہوچکے تھے۔ 10محرم کے جلوس کو روکنے کیلئے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا اسفندیار خان اوردیگرمدارس کے علماء و طلبہ جامعہ بنوری ٹاؤن پہنچے تھے۔ تقریروں میں کہہ رہے تھے کہ ہم شیعوں کو اس مدرسہ مادر علمی کے دروازے کے سامنے جلوس گزارنے نہیں دینگے۔ پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ مقررہ راستے سے جلوس گزارتی۔جب سواد اعظم و پولیس میں مذاکرات ناکام ہوگئے تو خوف اور تشویش کی فضاء پیدا ہوگئی۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کے علماء ومفتیان نہیں چاہتے تھے کہ فساد ہو، جامعہ بنوری ٹاؤن کے اندر تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری تھا، علماء کے علاوہ ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی بھی پیش پیش تھا ہم طلبہ بڑوں کے معاملے سے واقف نہ تھے۔ جامعہ کے ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اسوقت ناظم تعلیمات تھے جواب پرنسپل ہیں۔ آپ نے ہمیں درس دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’باہر فسادی آئے ہیں۔ ان کی باتوں میں نہ آؤ، انکا مقصد فساد پھیلانا ہے۔ شیعہ کے جلوس یہاں سے گزرتا تھا تو مولانا بنوریؒ مسجد نیوٹاؤ ن کے مٹکے صاف ستھرے کرکے بھروا کر رکھتے تھے۔ مسجد کامین گیٹ کھلا رہتا تھا۔ جلوس کے شرکاء پانی پیا کرتے اور واش روم استعمال کرتے‘‘۔
پھر جب جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کے طلبہ نے جلوس پر پتھراؤکیا اور پولیس نے آنسو گیس کی سخت شیلنگ کی تو کئی بیہوش ہوگئے۔ میں نے بھی زخمیوں کی مدد میں حصہ لیا۔ درسگاہ میں دوسرے دن استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مجھے خصو صی طور پر مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’ تمہیں احساس نہیں، ہمارے بال بچے ہیں، آنسو گیس کی جس مصیبت کا سامنا کیا، وہ ہم اور ہمارے بچے جانتے ہیں۔تمہیں کیا ہے‘‘۔ مجھے شدید احساس ہوا کہ استاذ کی بات میں وزن ہے مگر مجھ سے یہ غلطی نہیں ہوئی تھی اسلئے معافی مانگنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ۔
ایک گھمبیر صورتحال میں مولانا منظور نعمانی کا استفتاء اور مفتی ولی حسن ٹونکی مفتی اعظم کے جوابات شائع کردئیے گئے۔ استفتاء میں تین سوالات تھے جنکا جواب دینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ سوالات جوابات بھی خود ہی تھے۔
پہلا سوال تھا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کا عقیدہ رکھتے ہیں۔کئی سارے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ شیعہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اور اگر شیعہ قرآن کو مانتے ہیں تو یہ تقیہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جسکا قرآن پر ایمان نہیں ہو تو اس سے بڑا کافر کون ہوسکتا ہے؟۔سوال کا جواب دینا بھی محض ایک خوامخواہ کا تکلف ہی تھا۔
دوسرا سوال تھا کہ اہل تشیع صحابہؓ کے بارے میں یہ اعقتاد رکھتے ہیں کہ وہ کافر ہیں، حضرت ابوبکرؓ کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے اور باقی صحابہؓ سنت اور اجماع سے ثابت ہیں اسکا انکار کرنے کی بنیاد پر اہل تشیع بذاتِ خود کافر ہیں، ان کے کفر کے ثبوتوں کے حوالہ جات کے انبار ہیں جس کی کوئی تردید نہیں کرسکتا ہے۔
تیسرا سوال تھا کہ شیعہ کا عقیدۂ امامت در ا صل ختم نبوت کا انکار ہے، وہ اپنے ائمہ کو انبیاء سے بڑھ کر سمجھتے ہیں، ڈھیر ساری کتابوں کے حوالہ جات موجود ہیں ، جس کی تردید کوئی نہیں کرسکتا اور اس وجہ سے بھی اہل تشیع اسلام سے خارج ہیں اور ان پر کفر کا فتویٰ لگتاہے۔
3 سوالات کی تفصیل پھرمزید حوالہ جات جوابات میں درج ہیں جو شیعہ کے کفر کو یقینی بناتے ہیں۔ پھر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ڈھیر علماء و مفتیان اور بہت سارے معروف مدارس کی تصدیقی تحریرو مہر تھے، البتہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اس فتوے کی تائید مفتی تقی، مفتی رفیع عثمانی دارالعلوم کراچی کورنگی کے ایریا نے نہ کی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’وہ عذر پیش کررہے ہیں کہ ہم سرکاری تانگے ہیں،اگر ریاست کا اشارہ نہ ملے تو ہم شیعہ کو کافر نہیں قرار دے سکتے ‘‘۔ اس فتویٰ میں واضح طورپر لکھا گیا کہ ’’قادیانی ختم نبوت کی آیت میں تأویل کرتے ہیں مگر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر تمام معاملات اہلسنت کے عین مطابق ہیں، قرآن و سنت اور صحابہؓ ،اسماعیل شہیدوا کابر دیوبند اور فقہی مسائل بھی ایک ہیں اور شیعہ کا ہر چیز میں اہلسنت سے عقیدت اور عقیدے کے مسئلے پر شدیداختلاف ہے۔لہٰذا شیعہ قادیانیوں سے بدتر کافر ہیں‘‘۔
یہ کتاب اور اس طرح کی دیگر کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار نے سلیم صافی کو انٹرویو دیا کہ ’’ علماء کرام کا معاشرے میں بہت اہم مقام ہے، ایک چھوٹا سا اقلیتی فرقہ ہے جو علماء کا نام سن کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے ، ہم اسکے اس رویہ کی وجہ سے علماء کرام کی قدر کم نہیں کرسکتے۔ کالعدم تنظیم کے مولانا احمد لدھیانوی ملتے تھے تو کیا حرج تھا؟، میں سب کا وزیر داخلہ تھا اور سب کیساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ کالعدم تنظیمیں الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہیں، تمام پارٹیوں کے اہم رہنما ان سے ملتے ہیں۔ علماء کرام نے بہت تعاون بھی کیا اور انہوں نے میری بات کافی حد تک مان لی۔ اس کا مجھے کریڈٹ بھی ملنا چاہیے تھا‘‘۔
وہ وقت بھی آیا کہ علماء ومفتیان نے بھی سپاہِ صحابہ سے اعراض کیا۔ ایم کیوایم کا دباؤ کافی بڑھ گیا، مولانا سلیم اللہ خان نے بنوری ٹاؤن کے ایک اجلاس میں مولانا اعظم طارق سے کہا کہ شیعہ پر کفر کا فتویٰ غلط ہے، یہ مشن چھوڑ دو، کوئی دوسرا راستہ اختیار کرلو۔ متحدہ مجلس عمل بنی تو شیعہ سنی کی اتحادتنظیمات المدارس بھی بنی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن نے اتحاد کیلئے فتویٰ جاری کیا تو ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں بات اٹھائی کہ یہ بھی بتایا جائے کہ شیعہ تائب ہوگئے یا تم نے غلط فہمی کی بنیاد پر فتویٰ دیا تھا؟۔
ایک طرف شیعوں پر فتویٰ تو دوسری طرف اتحادالمدارس شیعہ سنی اتحاد ہے ، آخر کیوں؟۔ تحریف قرآن کی بنیاد پر شیعہ کو کافر قرار دیا تو علامہ انورشاہ کشمیری نے بھی ’’فیض الباری‘‘ میں لکھا کہ ’’قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہوئی، بلکہ لفظی تحریف بھی ہوئی ، مغالطہ سے یہ کیا ہے یا پھر جان بوجھ کر ‘‘۔ مولانا عبدالکریم کلاچوی نے مفتی فرید اکوڑہ سے جواب مانگا۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے دارالعلوم کراچی سے حوالہ دئیے بغیر اس عبارت پر فتویٰ مانگا تو مفتی تقی عثمانی نے کفر کا فتویٰ لگادیا تھا۔ میرا خلیفہ عبدالقیوم و سپاہ صحابہ کے کارکنوں سے یہ طے ہوا تھا کہ مدارس کے نصاب پر بات ہوگی لیکن علماء نے ایسی فضاء بنادی کہ حکومت نے 16ایم پی او کے تحت گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھا راستہ: عتیق گیلانی

mazhabi-maamlat-me-aitadal-ka-seedha-rasta-(General-(R)-Ehsan-ul-Haq-Altaf-Hussain

مذہبی معاملات میں اعتدال کا سیدھاراستہ

مولانا عبد الرحمن کیلانی نے ’’خلافت و جمہوریت‘‘ نامی کتاب لکھ دی جو 1981 ؁ء اور پھر 1985 ؁ء کو شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے کچھ دلائل اور مندرجات دیکھنے سے اس نتیجے پر آسانی کیساتھ پہنچا جاسکتا ہے کہ خلافت پر خلفاء راشدینؓ کے دور میں بھی اتنا اچھا خاصہ افتراق تھا کہ کسی دلیل کو شرعی کہنا دشوار نہیں بلکہ سراسر غلط بھی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت ہنگامی طور پر منعقد ہوئی اور حضرت عمرؓ کو نامزد کیا گیا، حضرت عثمانؓ کو کثرت رائے سے شوریٰ نے بنایا ، حضرت علیؓ کی خلافت متنازعہ ہونے کے باوجود قابل اعتبار قرار پائی، اور حضرت حسنؓ سے تنہا ایک شخص نے بیعت کی تو خلیفہ بن گئے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو حضرت عمرؓ نے رکاوٹ ڈال دی اور حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں حضرت حسنؓ دستبردار ہوئے۔ دونوں معاملات اپنی اپنی جگہ پر مستحسن تھے لیکن رسول ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا اور حضرت امیر معاویہؓ کی وجہ سے خلافت کا نظام امارت میں بدل گیا۔ ایک طرف رسول اللہ ﷺ کی رائے سے اختلاف اور دوسری طرف حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری سے خلافت و امارت کے معاملے میں اسلام کا ظرف اتنا وسیع ہے کہ اسکے طول و عرض اور گہرائی و بلندی تک پہنچنے کیلئے بڑی بڑی قد آور شخصیات بھی انتہائی پستی کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔بس سمندری طوفان کے طلاطم خیز موجوں میں تیرنے والے کبھی جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ کو امیر المؤمنین کا نام دیتے ہیں، کبھی امام خمینی کو شرعی امام بنالیتے ہیں اور کبھی عرب ریاستوں کے متفرق بادشاہوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں شرعی خلیفہ و امام کا درجہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے ایک خطیب کی تقریر سوشل میڈیا پر چل رہی ہے جو حضرت امام حسنؓ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی کو ان کا یوم وفات معلوم نہیں اسلئے کہ شیعہ مُلا باقر مجلسی نے لکھ دیا کہ ’’امام حسنؓ خلافت سے امیر معاویہؓ کے حق میں دستبرداری کے بعد اس طرح سے امام نہ رہے جسطرح ان کے والد حضرت علیؓ نے ثالثوں کو اختیار دیا تھا اور وہ امام نہ رہے‘‘۔ اہل تشیع صرف امام حسینؓ کو مانتے ہیں باقی کسی کو نہیں مانتے۔ اگر مانتے تو امام حسنؓ کی شہادت کو کیوں اس طرح سے نہیں مناتے؟۔ اس خطیب نے لوگوں کو اہل تشیع کیخلاف خوب اکسا کر خوش کردیا اور امام حسنؓ کے فضائل سنانا بھی ان کی بڑی مہربانی ہے کہ اتحاد کی بات کررہے ہیں۔ لیکن تمام تقریر کے خلاصے کا یہ جواب ہے کہ شیعہ کلمہ و اذان میں علیؓ کا نام لیتے ہیں امام حسینؓ کا نہیں۔ اسلئے کہیں بھول تو نہیں ہوئی؟۔ دوسرا یہ کہ اگر امام حسنؓ کو خلافت سے دستبرداری کے بعد اپنی بیگم نے زہر کھلادیا تھا تو ان کی شہادت اور امام حسینؓ کی شہادت میں بہت فرق ہے۔بقول فیض
جس دھج سے جو مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
امام حسنؓ کے مشن کا حق تب ادا ہوگا جب انتشارنہیں اتحاد کی دعوت دیجائے۔ کربلا کے ذاکر و خطیبوں سے سنا کہ امام حسینؓ جہاد کررہے تھے تو کوئی لڑنے کی ہمت نہ کرسکتا تھا۔ مگر جب سجدے میں گئے تو ظالموں نے شہید کیا۔ قصہ گو ذاکرین سے علامہ اقبال تک نہ جانے کیوں قرآن اور فطری تعلیم بھول کر کہتے ہیں کہ آگیا عین لڑائی میں جب وقت نماز ، قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز، ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ لڑائی کے وقت نماز پڑھنے کا طریقہ عام حالات کے مطابق رکوع و سجود والا نہیں ، جس سے آگے پیچھے وار کرکے دشمن نقصان پہنچائے بلکہ فرجالاً او رکباناً ’’چلتے چلتے اور سوار ہوتے ہوئے نماز پڑھو‘‘۔ اگر ہندی یا پنجابی اقبال شعری جذبات میں مبالغہ آمیزی کررہے تھے تو قرآن کی آیت پر نگاہ نہیں گئی ہوگی لیکن امام حسینؓ نے یقیناًقرآن کی طرف زبردست توجہ دی ہوگی۔
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہ ﷺ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعۃ (کتاب الامارۃ، صحیح مسلم)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق پر رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے‘‘۔ صحیح مسلم کی اس روایت کا تعلق خلافت و امارت کے نظام سے ہے اسی لئے اس کو اس کتاب میں درج کیا گیا ہے۔ کم عقل قسم کے مولوی اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے جس بات کو شرعی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں حقائق اسکے بالکل منافی ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نبی ﷺ سے فرمایا کہ ’’اگر آپ زمین میں اکثریت کے پیچھے چلیں تو یہ آپ کو اپنی راہ سے گمراہ کردیں گے‘‘۔ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ نے اکثریت کے فیصلے کو مسترد کرکے معاہدہ کیا تو اللہ نے اس کو فتح مبین قرار دیا۔ اور بدری قیدیوں پر فدیہ کا مسئلہ آیا جب اکثریت کی رائے پر نبی ﷺ نے فیصلہ فرمایا تو اللہ نے اس کو غیر مناسب قرار دیا اور اقلیت کو چھوڑ کر اکثریت کیلئے عذاب کی وعید بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی۔
ان آیات اور واقعات کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اکثریت گمراہ ہوتی ہے اور اقلیت حق پر ہوتی ہے بلکہ ان میں اہل حق کیلئے یہ حوصلہ ضرور ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی بات پر ڈٹے رہیں اور محض اسلئے حق کو نہ چھوڑیں کہ اکثریت مخالف ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا اقتدار اسلئے کامیاب رہا کہ اکثریت ان کے ساتھ تھی۔ حضرت عثمانؓ کو خلافت شوریٰ میں اکثریت کی بنیاد پر ملی اور جب اکثر لوگ مخالف ہوگئے تو تخت خلافت پر شہید کردئیے گئے۔ جس سے آج تک اُمت اختلاف و انتشار کی کیفیت سے نہیں نکل سکی ۔ حضرت علیؓ کی خلافت کو اکثریت نے قبول نہیں کیا تو با صلاحیت ہونے کے باوجود خلافت کامیاب نہیں رہی۔حضرت حسنؓ نے اکثریت کی وجہ سے امیر معاویہؓ کو خلافت سپرد کردی۔ رسول اللہْ ﷺ نے امارت کے حوالے سے مغرب کے جمہوری نظام کی ہی تائید فرمائی ہے اور پیشین گوئیوں میں پہلی خلافت کا امام مہدی کے حوالے سے مغربِ اقصیٰ کا ذکر ہے۔ جمہوری طرز عمل سے وجود میں آنے والی خلافت سے ہی زمین و آسمان والے دونوں کے دونوں خوش ہوسکتے ہیں۔ اگر خلافت راشدہ کے دورسے جمہوری نظام رائج ہوتا تو ہماری اسلامی خلافت بدترین خاندانی بادشاہتوں میں تبدیل نہ ہوتی۔ درباری اور پیشہ ور مولویوں اور شیخ الاسلاموں نے بہت کم تعداد میں حق کی آواز بلند کی ہے۔ آنیوالے بارہ خلفاء قریش پر اُمت اکھٹی ہوگی لیکن بڑے بڑوں نے حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرکے رکھا دیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے 22اگست کے اعلان لا تعلقی سے قبل کہا تھا کہ اگر جنرل(ر) احسان کو الطاف بھائی کے پاس جائے تو الطاف بھائی ہر بات مانیں گے اور اب بھی مختلف رہنماؤں کو جنرل احسان کیساتھ بھیج دیا جائے تو الطاف حسین واپس آجائیگا، اگر الطاف اس ناراضگی کی حالت میں مر گیا تو کم عقل عقیدتمند مہاجروں کے دلوں کو صاف نہ کیا جاسکے گا۔

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات: سید عتیق الرحمن گیلانی

wikalat-k-nizam-ki-kharabian-aur-muzmirat

وکالت کے نظام کی خرابیاں اور مضمرات

وکالت کا نظام تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن نوازشریف کا وکیل ہو تو معصومیت کا سرٹیفکیٹ دلانے کی قسم کھالیتا ہے ، یہ اپنی نالائقی سمجھتا ہے کہ 100 فیصد مجرم کو 100فیصد بری کرنے میں کامیاب نہ ہو،یہ روزی حلال کرنے کا طریقہ ہے۔ بدکارعورتیں کسی کو دلال بنائیں تو اس کو بھڑوا کہتے ہیں۔ بھڑواگیری بری ہے لیکن اس سے زیادہ ظالم ، جابر، بدمعاش ، قاتل اور کرپشن کے سیاسی قائدین کا وکیل بننا ہے۔ اس نظام نے انسانیت کو غیرت، ضمیر، ایمان، اقدار اور شرم وحیاء سب سے محروم کردیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا ترجمان جان اچکزئی، جماعت اسلامی کا حنیف عباسی اور پرویز مشرف کا دانیال عزیز وامیر مقام وغیرہ ن لیگ کی ترجمانی کرکے شرم وحیاء غارت کررہے ہیں۔ زرداری کے تقدس کی قسم کھانے والا بابر اعوان عمران خان کیساتھ بیٹھ کر غیرت اور قدروں کو دفن کررہاہے۔ شاہ محمود قریشی جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف میں شانہ بشانہ کام کرکے بتادیا کہ سیاسی رہنما بیلوں کی طرح کہیں بھی جت سکتے ہیں۔
صحافت کیلئے دلالی و جانبداری شعبے کے بنیادی اور قانونی تقاضے کے منافی ہے لیکن صحافت کے تاجدار بے شرمی کے دریا میں ڈوب مرے ۔ جیو کو اپنی صحافت مثالی لگتی ہوگی ۔ مولاناحامد کاظمی پر جنگ کی شہ سرخی خبر لگی کہ وزیر مذہبی امور نے کرپشن کا اعتراف کرلیا۔ حالانکہ اسی دن شام کو مولانا کاظمی حلفیہ کہہ رہے تھے کہ ’’ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی ‘‘۔ مولاناحامد کاظمی کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ’’جن ذرائع سے خبر لیک کی تھی ، بعض اوقات خبر درست ثابت نہیں ہوتی‘‘۔ وہ آزاد تھے اور فون کرکے اعتراف کنفرم ہوسکتا تھا۔ یہ اسحاق ڈار کا عدالت میں اعترافی بیان نہ تھا۔ مولاناحامد سعید کاظمی کو کئی سال جیل کے بعد عدالت سے رہائی ملی مگر جنگ اور جیو کے ذمہ دار اور مالک کو کیا سزا دی گئی؟۔ یہ خبر نہیں مہم جوئی تھی اور یہ مہم جوئی اب جیو اور جنگ نوازشریف کے حق میں اور عدالت و فوج کیخلاف کر رہے ہیں۔ ٹریکٹرکے بڑے ٹائر ٹیوب میں پھونک سے ہوا بھرنے جیسی کوشش نواز شریف کا سیاسی مورال بچانے میں ہورہی ہے۔ پہلے مہم جوئی اسلئے تھی کہ ثابت کیا جاسکے کہ نواز شریف پارلیمنٹ ، قطری خط ، متضاد خاندانی بیانات اور تمام معاملے میں 100% بے گناہ ہے بس فوج نے عدلیہ کو پیچھے لگادیا ہے اور اب یہ کوشش ہے کہ کسی طرح فوج پر دباؤ پڑے کہ عدلیہ کو انصاف پر مبنی کاروائی سے روک کر نواز شریف کوکسی طرح سے ریلیف دلائی جائے۔جبکہ اس اقدام سے عدلیہ کے ساتھ ساتھ فوج کا چہرہ بھی کالا ہوجائے گا۔

پاکستان میں فوج اور جمہوریت کی لڑائی. سید عتیق الرحمن گیلانی

pakistan-me-fauj-aur-jamhuriat-ki-larai

پاکستان میں فوج اور جمہوریت کی لڑائی

پاکستان کی فوج انبیاء اور جمہوریت کے علمبردار صحابہ نہیں ۔ جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ اورمارشل لاء سے موجودہ جمہوریت کی مارشل آرٹ نواز شریف کی ن لیگ نے جنم لیا ہے۔ اللہ نے انبیاء ؑ و صحابہ کرامؓ سے مخصوص واقعات اسلئے سرزد نہیں کرائے کہ لوگ ان کی توہین کرتے ہوئے ان کی ارواح مقدسہ کو اذیت پہنچائیں بلکہ اس امر تک رسائی مقصود تھی کہ آنیوالے لوگ قیامت تک فرعون کی طرح خدائی کے دعویدار بننے سے گریز کریں۔
جب روس نے افغانستان میں قدم جمائے تو بھارت روس کا ساتھی تھا اور پاکستان کی دوستی امریکہ سے تھی۔ روس کی مخالفت میں امریکہ، یورپ، ایران، چین اور دنیا کے بہت ممالک عرب یہاں تک کہ اسرائیل بھی اس صف میں شامل تھا۔ پھر طالبان کی حکومت تک امریکہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت شانہ بشانہ تھے۔ افغانوں کے محبوب رہنما ڈاکٹر نجیب اللہ کی لاش کو ٹانگ کر کئی دنوں تک مسخ کرنے کی روش اپنا ئی گئی۔ امریکہ اور پاکستان کے گماشتہ طالبان رہنماؤں کے باقیات کو اس سنگین غلط اقدام پر معافی مانگ لینی چاہیے۔ بینظیر بھٹو کا قتل اور نوازشریف کی نااہلی سے بڑی بات ڈاکٹر نجیب اللہ سے زیادتی تھی۔ جسکا خمیازہ پاکستانی قوم ، طالبان اور ملا عمر کو گمنامی کی موت سے مل گیا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ دوسروں کو آسانی سے توپ مارنے والا آدمی اپنے چوتڑ میں ہلکا سا کانٹا چبھنا بھی برادشت نہیں کرتاہے۔ پاک رزق کو کھاکر ناپاکی بنانیوالی مشین انسان کو تکبرنہ کرنا چاہیے۔
اُسامہ کے بہانے امریکہ آیا تو القاعدہ قائدین پاکستان میں پکڑے اور مارے گئے۔ پاکستان نے صفایا کردیا اور افغانستان میں جہادیوں کی بھرمار ہے ۔گارڈ فادر ٹرمپ ایک بدمعاش ملک کا بدمعاش صدر ہے ۔ افغانستان، عراق ، لیبیا اور شام کے بعد پاکستان پر بھی بدمعاشی جمانے کی بات کررہاہے۔ باکردار ، بزرگ اور بااصول چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے درست کہا ’’امریکہ پاکستان کو اپنا قبرستان بنانا چاہتا ہے تو ویلکم‘‘۔ مگر یہ کام لوٹاکریسی اور طبلہ بجاکر سیاستدان نہیں کرسکتے ۔ یہ اسلام اور پاکستان کیلئے جہاد کا جذبہ رکھنے والے مجاہد کرسکتے ہیں۔ فوج کو حکم دیا جائے تو افغانستان میں بیٹھی نیٹو اور بھارت کو تباہ کرسکتی ہے مگر پھر اپنی جان بچانا بھی مشکل ہوگا۔ کراچی کے دل پر راج کرنیوالا الطاف حسین بھی کھلے عام قوم پرست بلوچوں کی طرح پاکستان توڑنے کی بات کررہاہے اور نوازشریف بھی عدالتی حکم ، ریاستی رویہ اور 70سالہ کینسر کی بات کرتاہے۔ دلوں کو حقائق بدلتے ہیں۔گالی دینے والا الطاف بھائی دُم اٹھاکر فوج کو دعوت دیتا تھا اور اب وہی دُم اپنے اندر گھسادی۔
امریکہ اور بھارت کو کھلا پیغام دیا جائے کہ پاک فوج کے جذبات ابھارکر ان کو شدت پسندی اور انتہاء پسندی کی طرف دھکیلنے کی سازشوں سے باز رہا جائے ورنہ خیر کسی کیلئے بھی نہیں ہوگی۔ جو کہتے ہیں کہ’’ پاکستان کا ایٹمی ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائے‘‘ وہی سازش کررہے ہیں کہ پاک فوج کے جرنیلوں کو بھی انہی کے صفوں میں دھکیلا جائے۔ صحتمند صحافت بھارت اور امریکہ کے خلاف ’’جیو اورجینے دو‘‘ کی آواز بلندکرتی تو کافی حد تک عوام میں شعور آتا۔ اختلافِ رائے رحمت ہے مگر تعصبات ، جھوٹ اور غلط پروپیگنڈے سے بڑی لعنت کوئی نہیں ۔ جیو ٹی وی نے آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈے پر معافی بھی مانگ لی اور سزا بھی بھگت لی۔ بول ٹی وی چینل پرانی یادوں سے پاک فوج کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اگر حامد میر پر قاتلانہ حملے کی رپورٹ شائع کرکے بتادیا جاتا کہ اصل مجرم وہ تھے تو پھر بھی پروپیگنڈے کا کوئی فائدہ ہوتا۔ پرویزمشرف پر لال مسجد کے شہداء اور بینظیر بھٹو کا کیس عدلیہ میں چل رہاہے تو یہ فوج کی بدنامی نہیں ، پھر آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزام کیوں ادارے اور فوج کی بدنامی تھی؟۔ امریکی سی آئی اے پر کس قسم کا الزام نہ لگا؟۔ خفیہ ایجنسیوں پر دنیا بھر میں الزام لگتے ہیں اور انکے سربراہ بھی الزامات کی زدمیں رہتے ہیں ۔
آرمی چیف جنرل باجوہ ٹھنڈے مزاج اور اچھے آدمی ہیں، ممکن ہے کہ اشفاق کیانی کی طرح ان کو بھی کرکٹ کا ٹک ٹک مصباح الحق کہا جائے۔ شاہد آفریدی کی طرح کیپٹن بعض اوقات ٹیم جتانے اور ہرانے میں اپنا کام دکھاتا ہے، کھیلوں کی طرح جنگوں اور لڑائی میں بھی مختلف مواقع پر مختلف طبیعتوں اور مزاج کے لوگ اپنی اپنی جگہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔ جنرل باجوہ کو ایک تھیلا کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا مگر یہ وہ تھیلا ہے جو دودھ بچانے کیلئے بکری کے تھنوں پر باندھا جاتا ہے۔حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر ریاستی لیلے ہیں۔ بکری سینگوں کو دشمن کیخلاف استعمال کرسکتی ہے، اپنے بچوں کے خلاف نہیں۔ڈان لیکس کی کہانی کو بہت غلط رنگ دیا گیا تھا ورنہ تو حقیقت یہ تھی کہ ’’فوج نے کہا کہ حکومت اپنے پالے ہوئے بچوں کو کاٹنا چاہتی ہے تو ہم رکاوٹ نہیں اور ہمیں حکم دے تو بھی اسکے پابند ہیں‘‘۔ حکومت کا یہی موقف ہوسکتا تھا کہ ’’تمہارے بچوں کو کاٹنے کا حکم ہم سے نہ لو ، ہم یہ حکم کیوں دیں؟۔ تمہارا کام ہے ، تم نے پالا اور تمہی ختم کرو، ہمارا نام لینے کی ضرورت نہیں ، یہ ہمارے ووٹر ہیں‘‘۔
پاکستان کی سرحدوں پر دشمن کے کانٹوں کی یلغار ہے اور جنرل باجوہ بہت کچھ سہنے کی صلاحیت رکھ کر اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔ قوم کی دعائیں، جذبات اور جان ومال کی قربانیاں ساتھ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان مشکل اوقات میں تمام اندورنی و بیرونی دشمنوں کا راستہ روکنے کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔نوازشریف کیساتھ عدلیہ، فوج اور میڈیا کی روش بہت اچھی ہے۔ سب کھلا سچ بولنا شروع کردیں تو عوام کے اندر بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔ اگر پاکستان میں فوج کی حیثیت نہیں رہی تو افراتفری کی فضاء میں پاکستان کے تھنوں سے دودھ رسنا بند ہوجائیگا۔ عدالتی نظام کو درست کرنے کی واقعی ضرورت ہے لیکن دھمکی اور بدمعاشی سے نہیں شرافت ، سیاست، حکمت اور قانونی طریقے سے نظام کو ٹھیک کرناہوگا۔
سینٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود نوازشریف کی نااہلی پر جماعت کی سربراہی کا راستہ ہموار ہوا، جب سینٹ میں مارچ کو اکثریت حاصل ہوگی تو قانون ساز ادارہ مزید قوانین پاس کریگا اور 2018ء کے الیکشن پر بھاری خرچہ کرکے 2 تہائی اکثریت حاصل کی گئی تو یہ قانون بھی بن سکتا ہے کہ ن لیگ اور نوازشریف کیلئے نااہلی کی سند جاری کرنے والے جج نااہل ہونگے۔ کرپٹ لیڈر اور صاحبزادی کی خواہشات قانون بنتے ہیں۔ فوج اور عدلیہ اپنی پاکٹ میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ اپوزیشن لیڈر بن کر عبوری حکومت نہ بننے دی جائے اور اگر اپوزشن لیڈر کا عہدہ نہ ملا تو جلسے جلوس اور دھرنے سے اسوقت تک انتخابات کا راستہ روکا جائے جب تک اسٹیبلشمنٹ کی ڈوریں ہلتی رہیں۔ گدھ منتظر تھا کہ گدھا مرے تو کھائے، گدھے کی سانس نکلتی تھی نہ گدھ کی لالچ ختم ہورہی تھی۔عوام کیلئے ایک طرح کی سیاسی پارٹیوں میں دلچسپی لینے کی کوئی خاص وجہ نہیں۔
اگر نوازشریف کو ’’مجھے کیوں نکالا ؟‘‘۔ کا جواب ملے کہ قیادت قوم کی ماں ہے مگرتم ضیاء الحق کی داشتہ رہی اورمحمد خان جونیجو جائز منکوحہ کیخلاف سازش میں حصہ لیا۔ ضیاء الحق کی موت پر بھٹو کو انگریز وں کے کتے نہلانے والا قرار دینے پر تعلق جائزنہیں بن سکتا تھا۔ بینظیر بھٹو نے جائزالیکشن جیت لیاتو پاکستان کو میزائل سے مالامال کرنیوالی محترمہ کیخلاف سازشوں میں شریک تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد سے تعلق جائز نہیں بن سکتا تھا۔سلمان اکرم راجا وکیل ہے، نکاح خواں نہیں۔جس نے اصغر خان کیس میں آئی ایس آئی سے پیسہ لینے کا الزام تم پر عدالت میں ثابت کردیا۔ لندن فلیٹوں پر پارلیمنٹ سے تحریری خطاب میں اعتراف کرلیا اسکے بعد ’’میاں مٹھو‘‘ کے وکیل فیس کھری کرسکتے تھے لیکن عدالت میں جھوٹا ہونے سے نہیں بچاسکتے اور نہ قوم اور دنیاکے سامنے کالے کوٹ سرخرو کرسکتے ہیں۔
نوازشریف نے جس طرح احتساب عدالت میں اسلحہ کی بھرمار کے رعب ودبدبہ میں پیشی بھگتادی۔ کیا آصف زرداری، محمود خان اچکزئی ، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن اور دیگر لیڈروں کیلئے اس کی گنجائش ہے؟۔ آرمی چیف جنرل باجوہ اور فوج کے کور کمانڈروں کو اس معاملہ پر ریاست کی پاسداری کیلئے سامنے آنا چاہیے تھا۔ اس سے تمام قانون شکن ، ریاست بیزار اور ملک توڑنے والوں ہی کی بہت حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ الطاف حسین نوازشریف اور مریم نواز کونذرانۂ عقیدت پیش کررہاہے۔ اور ٹھیک کررہاہے کہ ایک طرف الطاف حسین کی تصویر وتقریر کیلئے پابندی ہے تو دوسری طرف نوازشریف کو کھلے عام ملک توڑنے کی دھمکی اور عدالتی قوانین کی دھجیاں اُڑانے کی اجازت ہے۔ بلاول بھٹوزرداری کھدڑے کیطرح ’’مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے ‘‘ کا نعرہ صرف اسلئے لگاتا تھا کہ آصف علی زرداری کی طرف سے اینٹ سے اینٹ بجانے کی تقریر کا تدارک ہوجائے ۔
عمران نے طالبان کو خوش کرنے کیلئے 7محرم کو ریحام خان سے خفیہ نکاح کیا تھا ۔اب بریلوی اور شیعہ کو خوش کرنے بابوں کے مزارات پر چادریں چڑھا رہاہے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین کا ورد کرنیوالے اب درود پڑھ رہے ہیں۔عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی منکوحہ ہے، گرل فرینڈ ہے، داشتہ ہے، چہیتی ہے ، لاڈلی ہے یا متعہ کررکھاہے؟۔ ضرب عضب آپریشن دہشتگردوں کے سہولت کاروں کیخلاف بھی تھا اور عمران خان اس دوران پنجاب پولیس کو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکی دے رہاتھا۔ پختون خوا میں پولیس نہیں ٹوٹل اختیارات فوج کے پاس ہیں۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان جیل توڑنے پر فوجی افسروں کیخلاف تادیبی کاروائی بھی ہوئی؟ اور جب کہیں دھماکہ ، دہشت گردی اور مسلح نقل و حمل ہو تو اسکی ذمہ داری ایجنسیوں پر کیوں نہیں ڈالی جاتی ؟۔ چوہدری نثار نے کہا: ’’واہ کینٹ میں خود کش جیکٹ کیسے پہنچے ؟ میں ذمہ دار پوسٹ پر نہ ہوتا تو سازشوں کا بھانڈہ پھوڑ دیتا‘‘۔ اب چوہدری صاحب وزیرداخلہ نہ رہے تو فوج اور حکومت کا توازن برقرار رکھنے کیلئے کچھ تو بولیں۔ منافقانہ ریاستی نظام اور منافق سیاستدانوں سے شعور کی بنیاد پر جان چھڑانی ہوگی۔

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟ عتیق گیلانی

Fauj-Aur-Adlia-k-liye-khususi-istesna-magar-kiun

فوج اور عدلیہ کیلئے خصوصی استثناء مگر کیوں؟

مشکل وقت آئے توقومی اتحاد سے بڑی نعمت اور انتشار سے بڑی بیماری کوئی نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ گالی بن گئی، اسٹیبلٹی استحکام ہے، ریاست مستحکم نہ ہوتو بہت بڑی بدنصیبی ہے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے استحکام کیلئے قتل وغارت کی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’اے اللہ! میں خالد کے فعل سے بری ہوں‘‘۔ ریاستی استحکام کیلئے فوجی اہلکار حدود سے بھی تجاوز کرلیتے ہیں مگر ان سے رعایت برتنا فطرت اور سنت کے مطابق ہے۔
خالد بن ولیدؓ سپاہ سالار تھے ، رسول اللہﷺ نے غلط اقدام و ظلم پر بری الذمہ ہونے سے زبردست حوصلہ شکنی فرمائی۔ عدلیہ کا جج اور قاضی جو فیصلہ کرے وہ 100 فیصد غلط بھی ہوسکتاہے ۔غلطی پر سزا دی جائے تو کوئی منصف نہ بنے۔ حضرت خالدؓ کی غلطی سے نبیﷺ نے برأت کرکے بتادیا کہ دنیا میں پکڑ سے محفوظ ہے تو آخرت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ جبکہ قاضی اور جج کیلئے واضح کیاکہ ’’اگر وہ اجتہاد کرکے درست فیصلہ دیگا تو2نیکیاں ملیں گی ایک اجتہاد کی، دوسری ٹھیک بات تک رسائی کی۔ اگر غلطی کرلی تو اس کو ایک نیکی ملے گی ‘‘۔ اگر یہ ضمانت نہ ملتی تو کوئی اچھا ، تقویٰ دار آدمی قاضی اور جج بننے پر آمادہ نہیں ہوسکتا تھا۔
حضرت ابوبکرؓ نے منصبِ خلافت سنبھالاتو ریاست کو شدید عدمِ استحکام کا سامنا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کرنیوالوں کی سر کوبی کیلئے حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لشکر بھیجا، اس موقع پر حضرت خالد بن ولیدؓ سے یہ زبردست غلطی سرزد ہوگئی کہ مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی خوبصورت بیگم سے جبری شادی بھی رچالی۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ’’اس جرم پر خالد بن ولیدؓ کو سنگسار کردیا جائے‘‘۔حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ ’’ ان کی اس وقت ہمیں ضرورت ہے، اسلئے سزا دینے کے بجائے تنبیہ پر اکتفاء کرلیتے ہیں ‘‘۔
قرآن وسنت کی سمجھ نہیں اسلئے صحابہؓ کے واقعات سے مذہبی طبقے قاصر اور فرقہ وارانہ عصبیت کا شکار ہیں۔ بدری قیدیوں سے فدیہ لینے پر مشاورت ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی رائے فرمان نبویﷺ ارحم امتی بامتی ابی ابکر’’ میری امت میں سب سے زیادہ امت پررحم کرنیوالے ابوبکر ہیں‘‘ کے مطابق دشمن مشرکینِ مکہ کیلئے بھی رحم کی اپیل تھی جبکہ حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ ’’جو میرا قریبی رشتہ دار ہے، اس کو میں قتل کروں ، علیؓ، ابوبکرؓ اور عثمانؓ سب اپنے اپنے قریبی رشتہ داروں کو قتل کریں، کوئی زندہ نہ جائے ‘‘۔ نبیﷺ نے فرمایا :واشدھم فی امر اللہ عمر’’ صحابہؓ میں سب سے زیادہ اللہ کے حکموں میں سخت عمرہیں‘‘۔ مشاورت مکمل ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ کی رائے ابراہیم ؑ کی طرح ہے ، یعنی کفار کیلئے رحم کی اپیل اور عمرؓ کی رائے نوح ؑ کی طرح ہے ۔فرمایا کہ ’’ روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہ رہے‘‘۔ ابراہیم ؑ کی رائے پسند ہے اسلئے رحم کا فیصلہ ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کرتے۔ تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے، اگر پہلے سے اللہ لکھ نہ چکا ہوتا تو تمہیں سخت عذاب دیدیتا۔ جن سے تم نے فدیہ لیا ہے اگر انکے دل میں خیرہے تو اس فدیہ کے بدلے اللہ اور زیادہ دے گا۔ اور جن کے دل میں خیانت ہے تو اللہ پھر بھی ان سے نمٹ لے گا‘‘۔
نبیﷺ کو علم تھا کہ اللہ نے حضرت نوحؑ کی بات کو قبولیت بخشی اور حضرت ابراہیم ؑ کی اپیل قبول نہیں کی مگر پھر بھی حضرت ابراہیم ؑ کی بات کو ترجیح دی، جب طائف میں نبیﷺ کے خون بہانے پر اللہ ذوالجلال کا غضب جوش میں آیا تو بھی نبیﷺ نے ان کیلئے ہدایت کی دعا فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ان کی تقدیر میں ہدایت نہیں تو ان کی اولاد کو ہدایت عطاء فرمانا۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ باپ کی قسمت میں ہدایت نہیں ہوتی تو اللہ بیٹے کو ہدایت دیتا ہے۔ ابوجہل بدر میں مارا گیا تو اس کا بیٹا عکرمہؓ بن ابی جہل ایک مخلص صحابی بن گیا۔ حضرت امیر حمزہ کو شہید کرنیوالا وحشیؓ اور کلیجہ چبانے والی ہندہؓ کو بھی ہدایت مل گئی۔ جن کیلئے نبیﷺ نے چاہا کہ انہیں ہدایت ملے مگر نبیﷺ کے ہاتھ میں اپنی چاہت پوری کرنا نہ تھی۔ انک لا تھدی من احببت ’’بیشک آپؐ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے‘‘۔
قرآن میں اللہ نے واضح طور پر فرمایا کہ ’’ بدری قیدیوں پر فدیہ لینا مناسب نہ تھا‘‘ ۔ لیکن جو فیصلہ ہوگیا اس پر عمل در آمد روکنے کا حکم نہ دیا بلکہ تنبیہ کے باوجود اس پرعمل در آمد ہی کروایا۔ یہ اللہ کا حکم تھا: وشاورھم فی الامر واذا عزمت فتوکل علی اللہ ’’ کسی خاص بات میں مشاورت کریں، جب عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں‘‘۔ نظام زندگی میں کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ’’ مشاروت کے نتیجے میں کوئی عزم اور فیصلہ کیا جائے تو گومگو کی کیفیت میں مبتلاء رہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ غلطیوں سے سبق سیکھا جاسکتا ہے‘‘۔ بدری قیدیوں پر مفسرین کی رائے دیکھ لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقائق سے انحراف کرتے ہوئے معاملات بالکل غلط سمت لے گئے ہیں۔ قرآنی آیات اپنی جگہ مفصل ہیں، ہر چیز کی تفصیل بھی ان میں موجود ہے۔ان میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایکدسرے کیلئے تفسیر کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔اگر نبیﷺ کا فیصلہ غلط یا غیر مناسب تھا تو نبیﷺ کی معصومیت پر سوال اٹھے گا۔جس کا جواب بعض بہت معتبر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہاں نبی سے مراد کوئی اور ہے اسلئے کہ نبی ﷺ کا ہر قول وفعل حکم الٰہی تھا تو اس کو غیرمناسب کیسے قرار دیاسکتا تھا؟۔
مفسرین نے یہ توجیہ بہت غلط کی بلکہ قرآن کی واضح آیت کا انکار کیا کہ نبی سے مراد نبیﷺ نہیں تھے تو نعوذ باللہ اور کس کو نبی کہا گیاہے؟۔ نبیﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تو اللہ نے منع فرمایا۔ کوئی اور اتنی جرأت نہ کرتا کہ اس کھلے گستاخ کا جنازہ پڑھنے کی ہمت کرتا۔ نبیﷺ نے ثابت کیا کہ جب اللہ منافقین کو جہنم کا سب سے نچلا درجہ دیتا ہے تو رئیس المنافقین کیلئے مرنے کے بعد بھی نبیﷺ کا دل مبارک رحم کرنے کی اپیل سے نہیں چوکا بلکہ اللہ کو کہنا پڑا کہ اگر 70مرتبہ بھی استغفار کرو گے تو اللہ نے اس کو نہیں بخشنا ہے،یہ دنیا کے سامنے نبیﷺ کی رحمت للعالمین ہونے کی بہت بڑی سند ہے۔ جب آیت سے ثابت ہو جائے کہ نبیﷺ ہی مراد تھے تو کیا اس سے یہ ثبوت مہیا ہوتاہے کہ نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بہترین نمونہ نہیں تھا؟۔ یہ اقدام غلط تھا اور درست وہی تھا جو بدر کے قیدیوں کو معاف کرنے کے بجائے ان کا زمین میں خون بہادیا جاتا؟؟؟؟؟؟؟۔
نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ بیشک بہترین نمونہ تھا ، وہ جو زمین میں خدا بنے پھرتے ہیں ان کا تعلق فوج، عدلیہ ، سیاستدان، علماء اور صوفیاء جس طبقے سے بھی ہو اور غلطی کے امکان کو اپنی توہین سمجھتے ہیں ان کیلئے ڈوب مرنے کامقام ہے کہ نبیﷺ کی سیرت طیبہ کو اللہ نے بطور نمونہ پیش کیا۔ صحابہ کرامؓ کی بھاری اکثریت کا مشورہ رحم کی اپیل کا تھا اور حضرت عمرؓ و سعدؓ کی رائے مختلف تھی تو اللہ نے اکثریت کے مشورے پر عمل بھی ہونے دیا مگر اقلیت کی بات کو درست کہنے کی مثال قائم کردی۔ کیا اس سے ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار ہوسکتی تھی ؟، کیا اس سے جمہوری اکثریت کاقائد دوسروں کی تضحیک کا حق رکھتا ہے؟۔ حقیقی مسئلہ یہ نہ تھا کہ کافر نے جہاد کے دوران خوف سے کلمہ پڑھ لیا اور حضرت عمرؓ نے ناقابلِ قبول قرار دیکر قتل کردیا بلکہ مدینہ سے بدر کی بڑی مسافت کا راستہ تھا، 70قیدیوں کو لانے میں بہت وقت لگ گیا، ہم ہوتے تو اللہ سے شکوہ کرتے کہ وحی نازل نہ کی اور جب اللہ کے حکم مشاورت پر عمل کیا تو اسکو غیر مناسب قرار دیکر عذاب کی وعید بھی سنادی۔ ایسا اسلام ہمیں بالکل نہیں چاہیے۔
مسلمان شام سے آنیوالے قافلے کی لالچ میں گئے تو مشرکوں کا بہت بڑا لشکر آیا ، اللہ نے فرشتوں کی مدد سے مسلمانوں کو فتح سے نوازا، مسلمان اتنے نمک حرام نہ تھے کہ اللہ کی طرف سے تنبیہ پر برا مناتے۔ نبیﷺ کا فیصلہ بالکل 100فیصد درست تھا، اللہ کو بھی یہی منظور تھا تب ہی مشاورت اور فیصلے سے پہلے وحی بھی نازل نہیں کی اور ان آیات کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا کہ قیامت تک وحی کا سلسلہ بند ہوگا۔ جب ٹی وی اسکرین پر 2پیسے کمانے والے ریاستوں کے اہم معاملات پر بک بک کرنا شروع کریں تو ان میں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ مصلحت کی کار گزاری پر زیادہ سوالات اٹھانے سے تمہاری قابلیت نہیں بلکہ تعلیم وتربیت کا فقدان نظر آئیگا۔بک بک کرنیوالا اپنا جائزہ لے۔
غزوہ احد میں مسلمانوں کوشکست ہوئی تو نبیﷺ اور صحابہؓ نے سخت انتقام کی بات کہہ دی۔ اللہ نے فرمایا کہ کیا ہوا ؟، اگر تمہیں زخم لگا ہے تواس سے پہلے ان کو بھی زخم لگ چکا ہے۔ کسی کے انتقام کا جذبہ اس حد تک نہ اُبھارے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ۔ جتنا انہوں نے کیا ہے تم بھی اتنا ہی کرو، اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ معاف ہی کردو، اور ان کو معاف کرنا بھی اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے خود ہی بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کے فیصلے کو غیرمناسب کہا اور خوب خونریزی کی خواہش ظاہر کی، جسکے نتیجے میں اُحد کی شکست پر انتقام کا جذبہ ابھرنا تھا۔ صحابہؓ نے معاف کرنے کا مشورہ دیا تو اللہ نے خون بہانے کی بات کہی اور صحابہؓ انتقام لینے پر آمادہ ہوئے تو اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا۔ دونوں آیات میں تضاد نہیں اعتدال کا راستہ تھا۔ چنانچہ پھر اللہ نے یہ وضاحت بھی کردی کہ جنگی قیدیوں کو فدیہ کے بدلے چھوڑ دو یا بغیر فدیہ کے ، تمہیں اسکا اختیار ہے۔ اولی الامر کی حیثیت سے نبیﷺ نے جو فیصلے فرمائے تھے ان واقعات کے ذریعے سے قیامت تک قرآن میں تمام اولی الامر کیلئے بہترین مثالیں قائم کرنی تھیں۔
حضرت عمرؓ کی طرف سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس غلطی پر سنگسار کرنے کا مشورہ بھی قرآن وسنت کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں درست تھا اور حضرت ابوبکرؓ نے بھی درگزر سے کوئی غلط فیصلہ نہیں کیا ۔ کوئی کہہ سکتاہے کہ پھر بھی معاملہ خلط ملط نظر آتاہے ،قرآن نے کوئی واضح سمت متعین نہیں کی ؟ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ بدر کے قیدیوں میں اقرباء پروری کا جذبہ پنہاں تھا ، قریبی رشتہ داروں کو قتل کرنا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے ، یہ حقیقت ہے کہ حضرت نوح ؑ نے سب کافروں کیلئے موت مانگی اور دعا قبول ہوئی تو بیٹے کے کفر پر دھیان نہ گیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے مشرک باپ کیلئے بھی مرنے کے بعد دعا کی تھی۔ اُحد کے انتقام میں بھی اقرباء کے انتقام کا جذبہ تھااسلئے اللہ نے معاف کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضرت علیؓ کے چہرے مبارک پر دشمن نے تھوک دیا تو سینے سے اترگئے کہ اب ذاتی انتقام کا جذبہ بھی شامل ہوگیاہے۔ صحابہؓ سے محبت اور دشمنی کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تعصبات کو انتشار کا ذریعہ اور اپنے مفادات حاصل کرنیوالے غلیظ طبقات کو اپنی اصلاح پربھی توجہ دینی ہوگی۔
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خالد بن ولیدؓنے ہنگامی حالت میں قتل وغارت کی تھی تو فوجی کیلئے کرفیو کے دوران گولی مارنے کی اجازت سمجھ میں آتی ہے مگر جبری شادی پر معافی کیسے ملی اور اللہ کی بارگاہ میں حضرت خالدبن ولیدؓ کیلئے اتنی بڑی فحاشی والی حرکت کے باوجود ہم کیسے صحابیت کے تقدس کا تصور رکھ سکتے ہیں؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑا گناہ تھا اور حضرت عمرؓ نے ٹھیک مشورہ دیا تھا کہ اس پر سنگسار کردیا جائے لیکن یہ ایک اضطراری کیفیت کی بات تھی ، خالد بن ولیدؓ کا یہی مشغلہ نہ تھا۔ اللہ نے فرمایا : الذین یجتبون کبائرا لاثم والفواحش الا اللمم ’’ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور بڑی فحاشیوں سے مگر کبھی کبھار‘‘۔ حضرت آدم ؑ کا شجرہ کے قریب جانے سے مشاجرات صحابہؓ تک اللمم کبھی کبھارکی ایک لمبی داستان ہے۔ جب خوشحالی کادور آتا ہے تو حضرت داؤد ؑ کے بارے 99بیگمات کے باوجود اپنے مجاہد اوریا کی بیگم سے شادی کی خواہش پر واضح تنبیہ آتی ہے کہ لی نعجۃ ولہ تسع وتسعون نعجۃ ’’ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اسکے پاس 99دنبیاں ہیں‘‘ جس پر حضرت داؤد ؑ نے اللہ سے مغفرت طلب کی اور معاف کیا گیا، رسول اللہﷺ کے دل میں حضرت زیدؓ کی بیگم حضرت زینبؓ سے طلاق کے بعد شادی کی خواہش تھی مگر نبیﷺ نے عوام کے خوف سے اس خواہش کو چھپایا۔ اللہ نے فرمایا کہ’’ جس چیز کو آپ چھپارہے تھے ، اللہ نے اس کو ظاہر کرنا تھا‘‘۔کسی انسان کا دل اسکے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا ، جائز اور ناجائز خواہش کسی کے دل میں بھی داخل ہوسکتی ہے۔ نبیؐ نے ایک خوبرو خاتون کو دیکھا اور نفسانی جذبہ ابھرا تو اپنی بیگم سے شہوت پوری کرلی اور فرمایا کہ جس کی نظر ناجائز جگہ پڑے اور خواہش ابھرے تو اپنی بیگم سے خواہش پوری کرلے اسلئے کہ جو چیز اسکے پاس ہے جس سے خواہش ابھری ہو تووہی اس کی بیوی کے پاس بھی موجود ہے۔
اللہ واضح طور پر کہتاہے کہ ’’ اپنے نفسوں کی پاکی بیان مت کرو، اللہ جانتا ہے کہ کون کتنا پاکی رکھتا ہے‘‘۔ اللہ کی ذات ہی نفسانی خواہش سے پاک ہے اسلئے کہ وہ بیوی، بیٹے اور بیٹیوں کے تصور سے بالکل پاک ذات ہے۔ انبیاء کرام ؑ اور صحابہ کرامؓ فرشتے نہیں تھے بلکہ حضرت آدم ؑ کی آل ا ولاد تھے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے آقا کی بیگم پڑی توفرمایا کہ میں نفس کو بری نہیں کرتا مگر اللہ نے میری حفاظت کردی۔ جو نفس نہیں رکھتا وہ کھدڑا بھی خدا کا بندہ ہے مگر نفسانی خواہش سے بچنے میں یہ کمال نہیں۔ حضرات انبیاء ؑ کمالات والے انسان تھے۔ بعض صوفیاء اور علماء نے اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کیلئے لکھ دیا کہ ’’ حضرت زیدؓ نے نبیﷺ کی خواہش کیلئے غیرت کی قربانی دی اور داؤد ؑ نے اپنے مجاہد کی بیگم سے بدکاری کا جرم کیا‘‘ ۔یہ انتہائی گھناؤنے الزام ہیں اور ان تہمتوں کا اللہ کو حساب دیدیا ہوگا۔
حضرت داؤد ؑ نبی اوربادشاہ وخلیفہ تھے۔ اجتہادکا تقاضہ پورا کرکے دو قوموں کے درمیان فیصلہ کیا ، وہ انصاف کا تقاضہ پورا سمجھ رہے تھے مگر آپ ؑ کے صاحبزادے حضرت سلیمان ؑ نے کہا کہ ’’ اس سے ایک قوم کو انصاف ملے گا مگر دوسری قوم محروم ہوگی اور پھر خود ہی دونوں قوموں کے درمیان فیصلہ کردیا‘‘۔ داؤد ؑ نے فیصلہ کیا تھا کہ کھیت والوں کو نقصان کی قیمت میں جانور دئیے جائیں ۔ سلیمان ؑ نے فیصلہ دیا کہ کھیت جانور والوں کے ذمہ لگایا جائے جب تک وہ اپنی پوزیشن پر بحال نہ ہو اس وقت تک جانوروں سے کھیت والے اپنا فائدہ اٹھائیں۔ حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں اللہ نے واضح کیا کہ ہم نے اس کو زیادہ فہم دیا تھا۔ حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ ہر ایک ہدایت پر تھے۔حضرت آدم ؑ کو اس شجرہ کے قریب جانے سے منع کیاگیا، جس سے آدمی بھوکا اور ننگا ہوجاتاہے۔ شیطان نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہمیشہ رہنے والے شجرہ کی نشاندہی کردوں؟۔ پھر بیوی سے مباشرت کا طریقہ بتایا اور حضرت آدم ؑ نے جذبہ سے بے بس ہوکر اسکے قریب نہ جانے کے حکم کی خلاف ورزی کی مگر اللہ سے کہا کہ میں نے اپنے اختیار سے نہیں کیا ۔ حکم عدولی پر اللہ نے معافی دیدی مگر اسکے نتیجے میں قابیل پیدا ہوا، جس نے ہابیل کو اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کیلئے قتل کیا تھا۔