اکتوبر 2017 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو اعلیٰ مودودی نے درس نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی.

maulana-maududi-ne-ulmaa-k-dabao-pr-dharhi-rakhi

جماعت اسلامی کے بانی ابواعلیٰ موددی نے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد منظور نعمانی اور دانشور طبقے نے جماعت کی آبیاری کی۔ علماء کے دباؤ پر داڑھی رکھی اور بتدریج اسی دباؤ کے نتیجے میں اتنی بڑھائی کہ پہلے کے مودودی اور بعد کے مودودی میں یہ واضح فرق نظر آیا جو تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔
علماء داڑھی رکھوانے کے بعد علیحدہ بھی ہوگئے۔ ایک عرصہ تک جماعت اسلامی اور علماء کرام کے درمیان شدید اختلاف بھی رہا اور مولانا مودودی نے یہ بھی کہا کہ ’’ اگر علماء نے مجھے قبول کرلیا تو سمجھ لو کہ علماء جیت گئے اور میں مشن ہار گیا ہوں‘‘۔ مولانا مودودی سے الگ ہونیوالے بڑے علماء نے ’’ الہ‘‘ کے تصور پر بنیادی اختلاف کا ذکر کیا۔
مولانا مودودی نے حق حکمرانی پر اقتدار کے حوالہ سے ایک الٰہ کا تصور پیش کیا۔ اسلام اور اقتدار کو لازم وملزوم قرار دیا ۔ شاہ ولی اللہ کے نعرے فک النظام اور للہ الامر کو بلند کیا ، جس کو بعد میں جمعیت علماء اسلام اور جمعیت طلبہ اسلام نے اپنا ’’ماٹو‘‘ بنالیاہے۔ مودودی نے درسِ نظامی پڑھا ہوتاتو نصاب کی اصلاح پر توجہ دیتے۔ درسِ نظامی وقرآن وحدیث کی تعلیم سے عاری مولانا مودودی کی صلاحیت قابلِ رشک تھی مگر وہ درختوں سے زرد پتے جھاڑتے رہے، شاخوں اور تنوں کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ سیدمودودی نے کہا کہ حج نہ کرنیوالا کافر ومرتد ہے اسلئے کہ حدیث ہے کہ ’’جو حج کی استطاعت رکھتا ہے اور حج نہیں کرتا تو اس کی مرضی ہے کہ یہود بن کر مرے یا عیسائی‘‘۔ علماء نے کہا کہ فقہ میں حج نہ کرنیوالے کو کافر کہا گیاہے تو سید مودودی نے کہا کہ ’’حدیث کے مقابلہ میں کسی فقہ اور اصول فقہ کو نہیں مانتا‘‘۔ علماء نے فتویٰ لگادیا کہ ’’مولانا مودودی گمراہ ہے، کیونکہ فقہ کو نہیں مانتا‘‘، حالانکہ فقہ میں نمازنہ پڑھنے پر کافر ہونے کا اختلاف فقہی اماموں کے درمیان موجود ہے مگر فتویٰ نہیں لگایاگیا۔
مولانا مودودی کمیونزم کیخلاف لڑے مگر جہاں سے مولانا نے الہ کا تصور شروع کیاتھا، جس اللہ نے سود کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے اعلانِ جنگ قرار دیا، اس سودی نظام کی گود میں روس کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا تو منافقانہ طرزِ سیاست مجبوری بن گئی جس سے جماعت نکل نہ سکی۔ ضیاء الحق، نوازشریف کو اسلامی جمہوری اتحاد میں کندھا دیا گیا۔ متحدہ مجلس عمل و ملی یکجہتی کونسل کے ڈرامے رچائے گئے۔ نظریاتی جماعتِ اسلامی کی تبرکات بھی نہیں رہی ہیں۔ قاضی حسین احمد ڈھولک اور سراج الحق نے یوم مئی پر لال ٹوپی پہن لی مگر وہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کیوں معاف نہیں ہوتا؟ ۔ وہ اپنے اصل کی طرف آئیں تو بات بنے!۔
حدیث میں مزارعت کو سودقرار دیاگیا۔ امام ابوحنیفہؒ ، مالکؒ و شافعیؒ نے متفقہ ناجائز کہا۔ نبی ﷺ نے اڑھت کی دلالی اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت فرمائی جو ساری کمائی کھا جاتے ہیں۔ مدارس کا نصاب درست ہونا چاہیے۔جماعت اسلامی مقصد کی طرف سفر شروع کرے تو اسکے پروں میں طاقتِ پرواز آسکتی ہے۔ مہرے کی طرح استعمال ہونے کا انجام ٹشوپیپر کی طرح ڈسٹ بین ہوتاہے اور جماعت اسلامی اپنی آنکھیں کھول لے۔

درس نظامی کے اصول اور ان سے انحراف کی تعلیم، مدارس اور انکے علماء و مفتیان

darse-nizami-ke-usool-aur-un-se-inheraf-ki-taleem-madaris-aur-unke-ulmaa-o-muftian

پیپلزپارٹی کی رہنما سسی پلیجو سابق وزیر سیاحت کیساتھ وزیر مملکت مولانا عطاء الرحمن تھے۔ سسی پلیجو نے میڈیاپروگرام میں بتایاکہ مولاناحمداللہ رہنما JUI نے اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھانے کو قانون بنانیکی قرار داد تھی جس کو انہوں نے ناکام بنایا کہ غیرمسلم کیلئے یہ کیسے ممکن ہوگا؟، یہ قدم قابل تعریف ہے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ سے پہلے مولانا یوسف لدھیانوی کی تقریر میں سنا کہ ’’ قرآن کے نسخے پر حلف نہیں ہوتا، یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ نقشِ کلام ہے‘‘ ۔ تو بڑا تعجب ہوا کہ جاہل عوام اور علماء میں اتنا فرق ہے کہ علماء کے نزدیک قرآن کے نسخے پر حلف نہیں ہوتا اور اللہ کے کلام کا لفظ کہنے پر حلف ہوتاہے جبکہ عوام قرآن کے نسخے پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے گھبراتے ہیں اور ویسے قرآن کا لفظ کہہ کر بے دھڑک قسم کھاتے ہیں۔
جامعہ بنوری ٹاؤن میں اپنے استاذ مولانا مفتی عبدالسمیع سے بحث کایہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے قرآن کا نسخہ دکھایا کہ یہ اللہ کتاب ہے؟۔ میں نے کہا کہ نہیں،تو مجھے کافر قرار دیا۔ جب میں نے مولانا یوسف لدھیانوی کا بتایا توکہنے لگے کہ تم لوگ پڑھ کر آتے ہو اور مقصد استاذ کو ذلیل کرنا ہوتاہے۔ پھر چوتھے سال نورالانوار میں پڑھا کہ المکتوب فی المصاحف سے مراد لکھی ہوئے قرآنی نسخے نہیں بلکہ 7 قاریوں کے الگ الگ قرآن ہیں کیونکہ لکھے ہوئے نقوش الفاظ اور معانی نہیں ہیں۔ جس پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا اسلئے کہ میرے علم یہ بات آئی تھی ،البتہ یہ معلوم ہوا کہ مولانا لدھیانوی بڑے عالم ہیں اور مولانا عبدالسمیع کی قابلیت زیرو ہے۔ پھر مفتی تقی عثمانی کی کتاب’’ فقہی مقالات‘‘ میں دیکھا کہ ’’ سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے، صاحب ہدایہ‘‘ تو دماغ پر بوجھ آیا اور بنوری ٹاؤن سے حوالہ دئیے بغیر خلاف فتویٰ لیا۔ اخبارمیں شائع کیا تو مفتی تقی عثمانی نے عوامی دباؤ سے تنگ آکر اپنی دوسری کتاب ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ سے بھی نکالنے کا اعلان کیا۔ سمجھ میںیہ بات نہیں آتی کہ صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب تجنیس میں یہ کیسے جائز قرار دیا، جو فتاویٰ شامیہ و قاضی خان میں بھی ہے۔ پھر اصول فقہ کا سبق یاد آگیا جو تحریری شکل میں قرآن کو الفاظ اور معانی نہیں مانتاہے اور فقہ میں قرآن پر حلف بھی نہیں ہوتا ہے۔ اصول فقہ میں قرآن کی تعریف آیات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پڑھنے اور پڑھانے والے اسکے بھیانک نتائج سے عاری ہیں، اس تعریف کی اصل وجہ علم الکلام ہے جسے حضرت امام ابوحنیفہؒ نے کھلی گمراہی قرار دیکر توبہ کرلی۔ نادان مسلکی فقہاء نے مغالطے سے پھر اس کی گمراہی نصابِ تعلیم میں داخل کردی ہے۔
اصولِ فقہ کا یہ قاعدہ ہے کہ قرآنی آیات سے حدیث ٹکراتی ہوتو اسے مسترد کردیا جائیگا۔ بہت سی احادیث پیش کی گئیں جو آیات سے نہیں ٹکراتی ہیں مگر خود ساختہ قیاس کے ذریعے سے ان احادیث کو بالکل رد کردیا گیاہے۔ یہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کا تقویٰ تھا کہ اللہ نے مجھ جیسے طالبِ علم کو اس ادارے میں تعلیم کا موقع دیا اور اسکے علاوہ دیگر مدارس میں موقع ملاتھا تو ان اساتذہ کرام کا مشکور ہوں جنہوں نے میری طرف سے تعلیمی نصاب پر حوصلہ دیا تھااور امید ظاہر کی تھی یہ بڑا کام میں کرلوں گا۔
مجھے تبلیغی جماعت کا بھی شکریہ ادا کرنا ہوگا کہ جہاں سے انبیاء کرام ؑ کی طرف بلا اجرت تبلیغ کی تعلیم وتربیت ملی تھی اور اس ذہنیت کی وجہ سے دارالعلوم کراچی کورنگی میں داخلے کے باوجود مجھ سے کہا گیا کہ آپ کا داخلہ نہیں ہوا۔
مولانا سیدیوسف بنوریؒ کی خواہش تھی کہ کوئی اچھا سا تعلیمی نصاب مرتب کیا جائے مگر وہ اس خواہش کو پورا نہ کرسکے۔مفتی محمودؒ نے بھی بعض کتب کو درسِ نظامی سے نکالنے کا کہا مگر جب وہ مدرس تھے تو کراچی سے ڈھاکہ تک مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ کے فتوے کی زد میں آئے، جب خود مفتی اعظم بن گئے تو سیاست سے فرصت نہیں تھی۔ مفتی رفیع عثمانی ومفتی تقی عثمانی نے زکوٰۃ کے مسئلے پر بھی ان کی بات نہیں مانی۔ مولانا فضل الرحمن پر بھی شروع میں علماء ومفتیان کا متفقہ فتویٰ آیا تھا جسکا دفاع میری قسمت میں تھا۔ میرے اشعار سے فتویٰ انجام کو پہنچا۔ پھر ہمارے مرشد حاجی عثمانؒ پر بھی فتوے لگائے گئے اور بکاؤ مال نے شکست بھی کھالی۔ ٹانک کے تمام نامور علماء کرام کی طرف سے میری کھل کر تائید ہورہی تھی جن کا تعلق علماء دیوبند سے تھا۔ جمعیت علماء اسلام (س+ف) اور ختم نبوت کے ضلعی امیر سب ان میں شامل تھے۔ مجھے امید ہے کہ جسطرح مفتی تقی عثمانی نے اکیلے پرواز کرکے معاوضہ سے سودی نظام کو جواز بخشا ہے تو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے نصاب اور فتوے کی اصلاح کا عمل بھی انشاء اللہ ضرور شروع ہوجائیگا۔
دارالعلوم کراچی کورنگی میں مفتی عبدالروف سکھری مفتی شفیع کے داماد ہیں ، اسکی نالائقی کا یہ عالم ہے کہ ٹی وی سے چپک جانیوالی مردہ لڑکی کا من گھڑت واقعہ بھی بیان میں بتایا۔ اب اسکے بیٹے حسان سکھروی نے یہ فتویٰ لکھ دیا ہے کہ ’’حاملہ عورت کیلئے بھی لفظی تین طلاق کے بعد حلالہ کرنے کا اطلاق ہوتاہے‘‘۔ باقی صاحبان لگتاہے کہ اللہ کا خوف کھارہے ہیں، مفتی عصمت اللہ نے کافی عرصہ سے ایسا کوئی فتویٰ نہ دیا۔ اندرونی صفحہ 3پر فتویٰ اور اسکے خلاف دلائل ملاحظہ کریں۔ان پر غور کرکے اسلام کے نام پر جہالت کے فتویٰ سے باز آجائیں۔ اللہ بنوری ٹاؤن کو ہمت کی توفیق دے۔ یہ وقت بہت نازک آگیا ہے۔

عالم اسلام کے سیاسی مذہبی مسائل کا حل کیا ہے؟

alam-e-islam-k-siasi-mazhabi-masail-ka-hal-kya-hai

رسول اللہﷺ نے 25سال کی عمر میں 40سال کی حضرت خدیجہؓ سے نکاح کیا اور آپﷺ بچپن سے بتوں سے بیزارتھے۔ بتوں سے بھرے کعبہ کو چھوڑ کر غارِ حراء کو مسکن بنایا تو پہلی وحی نازل ہوئی ۔ ’’پڑھ اللہ کے نام سے جس نے پیدا کیا، انسان کو لٹکے عضوء سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرے عزت والے ربّ کی قسم ! جس نے قلم کے ذریعے سکھایا۔ انسان کو سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ پہلی وحی میں انسان کو اسکے پیدائش کے اوقات بتادئیے۔ اللہ رب العزت کا مقام باورکرایا کہ انسان کی حقارت پیدائش کا آلۂ تناسل ہے ۔ اللہ رب العزت جس نے قلم سے وہ سکھادیا، جو وہ نہیں جانتاتھا
جاہل ابوجہل وابولہب انکار نہ کرسکتے کہ جہالت کے باوجود اپنے مقام کا دعویٰ کرنے والے جس چیز سے پیدا کئے گئے۔ کوئی معزز بات نہیں، عضوء کا نام تک لینا گوارا نہیں۔ مگر کیسے باور کریں کہ قلم کی طاقت سے کوئی غلام بھی اپنے سردار سے زیادہ معزز بن سکتاہے۔ آخر کار جہالت نے تمام تر بدمعاشی، دہشت گردی اور منافقت کی انتہاء کرنے کے باوجود اس مدرسہ کے اصحابؓ کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جس کا آغاز اقراء کے لفظ سے ہوا تھا۔ مشرکینِ مکہ کے جاہل قلم اور علم سے عوام کو ڈراتے تھے،اب جاہلوں کے جانشینوں نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر جاہلوں کا وہی کام کیا۔
اب کون دیکھتا ہے تیرے شمس کی طرف
سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے
مکہ فتح ہواتو رسول ﷺ نے حضرت علیؓ کی بہن اُم ہانیؓ کے مشرک شوہر کو پناہ دی۔ کیا مشرک شوہر مؤمنہ کو نکاح میں رکھ سکتا تھا؟۔ حضرت علیؓ نے قتل کا فیصلہ کیا اور اُم ہانیؓ اپنے شوہر کو زندہ رکھنا چاہتی تھیں، فیصلہ رسولﷺ نے حضرت اُمّ ہانیؓ کے حق میں کردیا۔ کیا یہ حضرت علیؓ کی شکست اور اُمّ ہانی کی جیت تھی ؟ رائے کی غلطی یا صواب فتح اور شکست نہیں بلکہ تحقیق ہے۔ سورۂ مجادلہ دیکھ لیجئے ، اللہ نے رسول ﷺ سے بحث وتکرار کرنیوالی حضرت خولہ بنت ثعلبہؓ کے حق میں وحی اُتاردی۔ نبیﷺ نے مشاورت کرکے بدر کے قیدیوں پر فدیہ لینے کا فیصلہ فرمایا تو اللہ نے کہا کہ’’ نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ آپکے پاس قیدی ہوں، یہانتک کہ زمین میں خوب خونریزی کریں‘‘۔ آےۃ آئینہ ہے کہ نبیﷺ نے جب مشاورت کے بعد فیصلہ کیا مگر وحی بر عکس نازل ہوئی تو اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ زارو قطار روئے، اللہ نے مسلم امہ کی تربیت کرنی تھی تاکہ روشن خیالی دل ودماغ میں سرایت کرجائے کہ وحی نے نبیﷺ کی رہنمائی کی تو کوئی اپنے آپ کو مولائے کل نہ سمجھے۔ مولانا اور علامہ نے ہٹ دھرمی چھوڑ کر حقائق کو قبول کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمن اور علامہ ساجد نقوی کو ایک جگہ بیٹھ کر پوری قوم کو سمجھانا ہوگا کہ ہم مرد ہیں اور مرادنگی کو پسند کرتے ہیں۔ قرآن میں موجود آیات اور سیرت طیبہ کے واقعات اگر عوام اور دنیا کو سمجھائے گئے تو اسلامی انقلاب کی آمد میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ اپنی بلّیوں کو اپنی تھیلیوں میں چھپانا مسائل کا حل نہیں۔
اُمّ ہانیؓ نے شروع میں اسلام قبول کیا مگر ہجرت نہیں کی۔ فتح مکہ کے بعد اسکا شوہر چھوڑ کر گیا تو نبیﷺ نے بجائے طعن کے شادی کی پیشکش کردی۔اُمّ ہانیؓ نے عرض کیا کہ یہ میرے بچوں پر گراں گزریگااور معذرت کرلی تو نبیﷺ اس خاتونؓ کی تعریف فرمائی۔ پھر اللہ نے آیات نازل کیں کہ رشتہ داروں میں جن خواتین نے ہجرت نہیں کی،ان سے نکاح نہ کریں۔پھر فرمایا کہ ’’آج کے بعد کوئی پسند آئے تب بھی اس سے نکاح نہ کریں‘‘۔
رسول ﷺ نے لونڈی ماریہ قبطیہؓسے حرمت کی قسم کھائی تو اللہ نے وحی نازل کی کہ ’’جسے اللہ نے تیرے لئے حلال کیا ،اسے خود پر کیوں حرام کرتے ہو، اپنی ازواج کی مرضی کیلئے‘‘۔ چندآیات ، سیرت طیبہ کے واقعات کو دنیا کے سامنے رکھا جائے تو کئی پیچیدہ فقہی مسئلے، فرقہ وارانہ عقائد، بین الاقوامی مسائل حل ہوجائیں گے۔ قانونی نکاح پر زنا کا فتوی نہ لگایا جائیگا۔کسی مؤقف پر ہٹ دھرمی کا جواز نہ رہیگا، ہتک آمیزکارٹون ختم ہونگے،مسلک سازی، فرقہ بندی ، جدّت طرازی ختم ہوگی۔
شیعہ سنی نے ایکدوسرے کو قرآن کا منکر اور تحریف کا قائل قرار دیا مگر اپنے نصاب کی اصلاح نہ کی۔ شدت پسندوں نے قربانیاں دیں اور جبہ ودستار فرشوں نے ہمیشہ مزے ہی اڑائے، اب حقائق کی طرف آنا پڑے گا۔

خانہ کعبہ بیت اللہ کی تعمیر، ہجرت اور صلح حدیبیہ کا معاملہ

khana-e-kaba-bait-ullah-ki-tameer-hijrat-aur-sulah-hudaibiya-ka-mammlah

سنی شیعہ علماء اپنے اپنے مسلکوں کو کاروبار بنانے کے بجائے راہِ حق کیلئے میدان میں کام کریں تو ملت اسلامیہ کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ صحیح بخاری کو کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین قرار دینے والے شیعہ کی طرح ائمہ اہلبیت کیساتھ علیہ السلام بھی پڑھا کریں یا واضح کریں کہ وہ بخاری میں غلط لکھ دیا گیاہے۔ منافقانہ رویہ کو چھوڑنے کیلئے کھلی کھلی باتیں کرنا ہوں گی۔
درسِ نظامی میں بسم اللہ کو مشکوک بتایاجاتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کے بلاشبہ ہونے کا عقیدہ نہیں رہتا۔ مساجد میں بنی امیہ کے دور سے پابندی لگائی گئی تھی کہ جہری قرأت میں بسم اللہ نہ پڑھی جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کو تشدد کا نشانہ بناکر جیل میں زہر دیکر شہید کیا گیا ، انکے شاگرد ابویوسف قاضی القضاۃ چیف جسٹس اور شیخ الاسلام کے منصب پر فائز تھے۔ ایسا تو موجودہ دور کے لوٹے سیاستدان وزیرکریں تو بھی شرمندہ ہوں۔ مساجد میں جہری نمازمیں جہری بسم اللہ سے انقلاب کا آغاز ہوگا تو مذہبی طبقے کے بند ذہنوں کی بندشریانے کھل جائینگی، آغاز اچھا ہو تو انجام بھی بہترین ہوگا۔
بنوامیہ کے بعد بنوعباس کاامارت پر قبضہ ہوگیا اور نبیﷺ سے نسبت قریب ہونے کا دعویٰ کرنے کیلئے ابوطالبؓ سے متعلق کفر پر مرنے کی روایت گھڑ ی۔ تاتاری بغداد کو تار تار کرگئے تو اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اقتدار قائم رہے۔ حرم سراؤں میں خوبصورت ترین لڑکیوں کو قیدرکھنے والے سلاطین اچھے تھے؟۔ انہیں لونڈیوں کی پیداوار بادشاہوں کی اولاد ہونے کے ناطے پھر تختِ خلافت پر بیٹھتے تھے۔ جنکے درباری ملا کے ہاتھوں میں اہل حق کی گردن زدنی کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ آج بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ تیز رفتار مواصلاتی نظام، کمپیوٹر اور چھپائی کے موقع نہ ہوتے اور اللہ کی حفاظت کا معاملہ نہ ہوتا تو ہم بھی کربلا کے شہیدوں میں شمار ہوتے۔ پشاور میں عمران خان کی جمہوری حکومت نے سول سوسائٹی آرمی پبلک سکول کے شہداء پر جلوس بھی نکلنے نہیں دیا تھا۔
یزید کے بیٹے معاویہ میں اتنی غیرت تھی کہ تخت خلافت سے 40 دنوں میں الگ ہوا کہ ظالمانہ نظام کا میں حصہ نہیں بنوں گا۔ ہمارا یہ حال ہے کہ یزید وابوجہل کو برا کہتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ابوجہل کے بیٹے مخلص صحابیؓ بن گئے ۔ ہماری قیادتوں کے خمیر اس سے بھی عاری ہیں۔ رئیس المنافقین ابن ابی کے بیٹے بھی مخلص صحابہؓ تھے۔ ہم نے جاہلانہ عصبیتوں کو اسلام ، جہاد اور فرقوں کا رنگ دیدیا ہے۔
امیر حمزہؓو علیؓ جیسے شیر، فاروق اعظمؓ جیسے دلیراورابوبکرؓو عثمانؓ جیسے اہل خیر موجود تھے جو ابولہب وابوجہل کی طبیعت صاف کردیتے مگر اللہ نے مسلمانوں کو دہشتگردی کی راہ پر نہیں لگانا تھا۔ مدینہ ہجرت کے بعد صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا، حضرت ابوجندلؓ نے زنجیریں توڑ ڈالی تھیں ، نبیﷺ نے معاہدے کے مطابق واپس کردیا۔خواتین بھاگ آئیں تو نبیﷺ نے ان کو حوالہ کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ یہ اللہ کی چاہت بھی تھی فرمایا کہ ’’ خواتین سابقہ مشرک شوہروں کو نہ لوٹائی جائیں یہ ان کیلئے حلال نہیں اور وہ بھی ان کیلئے حلال نہیں‘‘۔ حضرت علیؓ نے سمجھاکہ ’’ شرعی حلال مرادہے‘‘ اور حد سے تجاوز کرکے فتح مکہ کے بعد مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا۔ نبیﷺ نے اس کو امان دیدی۔ علماء کرام ومفتیان عظام نے حلالہ کی نوعیت پر بہت بڑا مغالطہ کھایا ، لوگوں کے گھر تباہ ہوئے، عصمتیں لٹ رہی ہیں اور اس سلسلے میں بعض فقہاء نے حلالہ کی لعنت کو کارِ ثواب قرار دیکر بہت غلط کیاہے۔ علماء کو چاہیے کہ رجوع کریں۔مجاہد قائدین کہہ دیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے ہمیں قید کرلیجئے گا۔
ہم نے چند مرتبہ وضاحت کی کہ ’’بخاری کی روایت میں قریش خواتین کو دنیا کی دیگر خواتین پراُ ونٹ کی سواری کی وجہ سے فضیلت دینے کا ذکر ہے اور سعودیہ میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی غلط ہے‘‘، اب سعودیہ نے پابندی اٹھادی توبہت اچھا ہوا اور اصلاح کا طریقہ یہ نہ تھا کہ دہشت گرد اپنی خواتین کو حکومتی احکام کی خلاف ورزی پر مجبور کرتے۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کیلئے مکہ میں تیر اٹھانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ اسلام نے ہی دنیا کوریاست کے آداب سکھادئیے تھے مگر ہم اسلام بھی بھول گئے اور قرآن وسنت کا سلیقہ بھی یاد نہیں رہاہے۔ آج حرمین شریفین میں صلح حدیبیہ کے مقابلہ میں زیادہ پابندی ہے۔

قبلہ اول بیت المقدس مسجد اقصی پر یہودی قبضے کا معاملہ

qibla-e-awwal-bait-ul-muqaddas-masjid-e-aqsa-per-yahoodi-qabze-ka-maamlah

حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ تھے۔ بنی اسرائیل کا تعلق حضرت اسحاق ؑ سے ہے ، بیت المقدس ان ہی کا مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل ؑ نے آخری نبی حضرت محمدﷺ کیلئے خانہ کعبہ بنایا تھا۔ جب غارِ حراء میں وحی نازل ہوئی اور مشکلات بڑھ گئیں تو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کیلئے باقاعدہ دعا سکھائی اور بعثت کے اس مرکز سے ہجرت کرنے کا حکم دیدیا۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد شروع میں مسلمانوں نے اہل کتاب کی پیروی میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا۔ جب نبیﷺ کی خواہش پر اللہ نے کعبہ کو قبلہ بنالیاتو بیوقوف لوگوں نے اعتراضات اٹھادئیے کہ کس چیز نے ان کو قبلہ بدلنے پر مجبور کیا؟۔ یہ تفصیل دوسرے پارہ کے شروع میں ہے۔
جب بیت المقدس ہمارا قبلہ نہیں تھا، تب بھی ہمارے قبضہ میں نہیں تھا۔ مسلمانوں نے اپنا رخ پھیر لیا تو اس پر قبضہ کرنا بھی غلط تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کہا جاتاہے کہ حضرت عمرؓ کو چابیوں کے مالک نے خود چابیاں پیش کردیں اور ان کی کتابوں میں موجود 17 پیوند والے کپڑے اور غلام کی سواری تھامنے والے خلیفہ حضرت عمر فاروق اعظمؓ ان نشانیوں پر پورے اُترے تھے۔ ایسی صورت اگر محمود غزنوی کیلئے بھی سومنات کا مندر فتح کرتے وقت سامنے آتی تو بھارت کے ہندو بھی اس پر اعتراض نہ کرتے۔ حدیث میں بیت المقد س فتح ہونے کی بشارت میں مزاحمت نہ ہونے کی پیشگوئی موجود ہے۔ فتح مکہ کے وقت جب کعبہ فتح ہوا تو بھی مشرکینِ مکہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی اور اگر وہ معاہدہ نہ توڑتے تو 10سال تک یہ گارنٹی موجود تھی کہ کعبہ بتوں سے بھرا ہوتا اور مسلمان نیام میں تلوار رکھنے کے علاوہ کوئی بھی ہتھیار ساتھ نہ لاتے۔ نبیﷺ نے زندگی بھر کیلئے یہ معاہدہ کیا تھا کیونکہ 6ہجری میں صلح ہوئی اور 10ہجری میں آپﷺ کا وصال ہوا،حضرت ابوبکرؓ کا پورا دور، حضرت عمرؓ کا آدھا دورِ خلافت بھی اسی میں آجاتا۔ مگر دشمنوں کی زیادتی تھی کہ پہلے ہجرت پر مجبور کیا اور پھر وہ معاہدہ بھی خود ہی توڑنے میں پہل کردی تھی۔
اسلام وہ دین ہے جس نے دین میں بھی زبردستی کی تعلیم نہیں دی اور نظام میں بھی جبر کا سبق نہیں سکھایا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دین کی دعوت نرمی سے دی ، نظام کیلئے بھی خود کش حملے نہیں کئے بلکہ ایک مرتبہ غلطی سے کوئی شخص قتل ہوا تو دوسری جگہ چلے گئے اور جب فرعون کو حق کی دعوت دیکر حجت تمام کردی ، تب بھی اپنے لشکر کو لیکر فرعون سے نجات حاصل کرنے کیلئے دریا عبور کیا۔ فرعون کو اللہ نے خود ہی اسکے لشکر سمیت غرق کردیا۔
اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کی فطری شکل معاشرے میں بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یزید نے ایک طرف قسطنطنیہ فتح کیا اور دوسری طرف کربلا میں امام حسینؓ کو ساتھیوں سمیت شہید کردیا۔ ایک طبقہ وہ بھی ہے جس کا عقیدہ ہے کہ یزید صحابی نہ ہونے کے باوجود بھی رضی اللہ عنہ کا حقدار اسلئے ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح پر حدیث میں جنت کی بشارت ہے۔ مفتی سید عدنان کاکا خیل نے بجافرمایا کہ مجھے اس طبقے کا علم نہیں۔ شاہ بلیغ الدین اور انکے علماء ومفتیان ساتھی ، محمود عباسی کے ساتھی علماء و مفتیان اور وفاق المدارس کی ا نتظامہ چلانے والوں میں بہت معتبر ہستیاں تقیہ کی پوزیشن پر فائز تھیں۔ دوسری طرف غلو کے مرتکب شیعہ واقعہ ایسا پیش کرتے ہیں،لگتاہے کہ اثناعشری امام حسین ؑ سے پہلے 2 اور بعد میں آنیوالے9 اماموں پر بھی طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ یہ رویہ ان کومحرم کے10دنوں تک محدود کردیتاہے۔
بکھرے تاریخی صفحات میںیزید و حسینؓ کی کئی داستانیں بھری پڑی ہیں، بنی اسرائیل نے مشکل سے گائے ذبح کی، تو ہندوؤں نے مقدس کی پرستش شروع کردی اور گائے کی وجہ سے خود کو گاؤ ماتا کے نام پر بھگوانوں تک محدود کرلیا۔ بدر کی فتح پر مشاورت کے بعد نبیﷺ و صحابہؓ کو اللہ نے وحی بھیج کر رلادیا تھا تو محرم کا غم صرف شیعہ نہیں سنی بھی ملکر منائیں تو مجھے بڑی خوشی ہوگی اور خون بہانے سے مزاحمت، جہاد، دنیا کے سامنے خانہ کعبہ میں رمل کی طرح ایک طاقت کا اظہار ہوگا اور خون بہانے سے سنگینی کی سنت عمل ہوگا، حلوہ کھاناسنت نہیں۔ بخاری میں بھی اہلبیت کیساتھ علیہ السلام ہے، زندوں و قبروں پر السلام علیکم، ’’ و علیہ السلام‘‘ اور نماز میں ’’السلام علیک ایھاالنبی، السلام علینا وعلی عبادللہ ‘‘ ہے نا؟۔

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے واضح نقصانات اور اصل فوائد کا آئینہ

barre-sagheer-pak-o-hind-ki-taqseem-ke-wazeh-nuqsanat-aur-asal-fawaid
تقسیم ہند کے زبردست اور واضح نقصانات

1: انگریز و یہود کے سودی نظام کو کمیونزم سے خطرہ تھا اسلئے برصغیر پاک و ہند کو تقسیم کرنے کا بھرپور ساتھ دیا۔ جنہوں نے آزادی کیلئے جیل کاٹی اور نہ بغاوت کا سامنا کیا۔ ’’لڑاؤاور حکومت کرو ‘‘ کی سیاست کا حق اداکیا۔ انہیں اپنے ایجنڈے کیلئے استعمال کیا۔ آج وہی انگریز و یہود اسلام کو سوشلزم کیخلاف استعمال کرنے کے بعد اسلامی ممالک کو تباہ کرتے کرتے یہانتک پہنچا ۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام کے بعد پاکستان پر دستک دی جا رہی ہے اور ہم ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ اگرتقسیم ہند نہ ہوتا تو یہ کھیل بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ برمی اور کشمیری مسلمانوں کو پاکستان سے الحاق کی کوشش نے بد حال بنادیاہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر شہری گولیاں کھاتے کھاتے عادی ہوگئے ۔ آرمی چیف نے کہا کہ مشرق مغرب کے دشمن سن لیں ان کا بارود ختم ہوجائیگا مگر ہمارے جوانوں کے سینے ختم نہ ہونگے‘‘۔ اگر بہادری نہیں کرسکتے تو کلبھوشن کو کنٹرول لائن کے پاس باندھ دیتے تاکہ ان کا اپنا ہی کوئی گولہ ان کو لگ جاتا۔ اقوام متحدہ نے کشمیر پر ہمیں دھوکہ دیا مگر پھر بھی کلبھوشن کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں چل رہا ہے۔ یہ کہنا کہ ’’لاالہ کے امین ہونے پر فخر ہے‘‘ مگر دشمن کے پیر وں کی جوتی بن کر بھی یہ رٹ ہے۔
2: افغانستان میں روس و امریکہ کی جنگ نہ لڑی جاتی، سپر طاقت روس کا خاتمہ نہ ہوتا۔ پڑوسی بھارت ،افغانستان اور ایران سے دوستی رہتی۔امریکہ ونیٹواس خطے کو اسلحہ فروخت کرنے اور ہیروئن کاشت کرنے کیلئے ٹھکانے نہ بناتے۔ منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ سے امریکی CIA اور اسکے گماشتے ذاتی اکاؤنٹ بناتے ہیں جس کاخمیازہ غریب ممالک بلکہ پوری انسانیت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان تباہ ہواتو بھارت کے مسلم و ہندو بڑے پیمانے پر امریکی و عالمی ایجنڈے کی زد میں آئیں گے۔جب تک بھارت اور پاکستان کو لڑاکر دم نہ لیں ،امریکہ اور یہودی اپنے مشن کی تکمیل نہیں کرسکتے ۔ پاک فوج بہت کمزور یا متحمل مزاج ہے۔ بھارت نے لاہور پر ہلہ بول دیااگر بھارت پاکستان کو فتح بھی کرلیتا تو مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بننا تھا، مغربی پاکستان کیا بنتا؟۔ نیٹو افغانیوں کو نہیں سنبھال سکتا تو بھارت کیا کرسکتا تھا؟ البتہ کارگل کی طرح نہیں بڑے پیمانے پر پاک فوج کشمیر پر ہلہ بول دیتی تو کشمیری نے بھارتی فوج کوپکڑ کر وہی کرنا تھا جو بنگالیوں نے پاک فوج کیساتھ کیا۔ یہ تمام کی تمام رنجشیں تقسیم ہند کا شاخسانہ ہیں۔ بھارت میں مسلمان اور ہندو برادری ایک ساتھ عدل وانصاف کے تقاضوں کیساتھ رہ سکتے ہیں ، پاکستان میں بھی رہ سکتے ہیں تو پھر تقسیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔ ہندو سیکولر اچھوت سے غیر انسانی برتاؤ کرتے ہیں۔اسلام ذات پات، عرب عجم ، کالے گورے نہیں کردا کو ترجیح دیتا ہے۔ عرب انگریز کو آقا اور برصغیر کے لوگوں کو غلام سمجھتے ہیں ۔سیکولر ہندو اور روشن خیال مسلمانوں نے مل کر ہندوستان سے انسانیت اور اسلام کو دنیا میں امامت کے مقام پر فائز کرنا تھا۔
3: اسلام کا درست تصور پیش ہوتا، کمیونزم کیخلاف محاذنہ بنتا تو متحدہ ہندوستان اسلام اور انسانیت کی بہتر تصویر پیش کرتا۔ اقبال نے کمیونزم پر فرشتوں کا گیت ’’جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو‘‘ نظم لکھ دی تھی۔ روس کے بارے میں اسلام قبول کرنے کی پیش گوئی کی تھی۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے اظہارِ خیال کیا تھا کہ شیطان کو اصل خطرہ آنیوالے کل میں کمیونزم نہیں اسلام سے ہے۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ پاکستان نے امریکہ کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا مگر صلہ کیا ملا؟۔ دنیا بھر کے علاوہ بھارت میں ان مسلمانوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو مغلیہ کے دور میں حکمرانی کرچکے ہیں۔ خلافت بحالی کیلئے انگریز کیخلاف ہندو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ تحریک چلارہے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر’’کامریڈ‘‘ کے نام سے صحافت کرتے تھے، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان نظریاتی مسلم لیگیوں کا رحجان انگریز ویہود کے سودی نظام نہیں روس کی طرف تھا۔ قائداعظم بھی پہلے کانگریس میں تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کانگریس میں شمولیت اسلئے اختیار کی تھی کہ ہندو نے انگریز سے آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی تھی ۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے کہا ’’ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں مگر تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے‘‘۔

پاکستان بننے کے زبردست اور واضح فوائد

1:مسلمانوں کی سب سے اہم کتاب قرآن مجید میں فاتحۃ الکتاب کے بعد پہلی سورت البقرہ ہے، جس میں گائے ذبح کرنے کو کسی واقعہ میں مسئلے کا حل بتایا گیاہے۔ پاکستان نہ بنتا تو حیلہ ساز علماء نے جس طرح اسلام کی تعلیم کو سود وغیرہ سمیت مسخ کرکے رکھ دیا ہے یہ بھی دیکھنے کو مل سکتا تھا کہ اکبر بادشاہ کی روحانی اولاد ہمارے درباری علماء و مفتیان فتوے جاری کردیتے کہ متحدہ ہندوستان میں قرآن کی سورۂ بقرہ کی تعلیم پر پابندی ہے جس میں گائے ذبح کرنے کاذکر ہے۔ عوام اور علماء کا قرآن سے براہِ راست رابطہ نہ تھا مگر جب قرآن کا ترجمہ عام ہونا شروع ہوا تو اس پر پابندی کے خطرات بھی منڈلاتے۔ ہندو بھائی چارے میں مسلمان پڑوسی اور برسرِ اقتدار طبقے کا خیال رکھتے ،تب بھی گائے ذبح کرنے پر پابندی کو دنیا قبول نہیں کرسکتی تھی۔ بھارت سب سے زیادہ گائے کا گوشت ایکسپورٹ کرنیوالا ملک ہے۔ پاکستان کا وجود بھارتی ریاست کو آکسیجن فراہم کررہاہے۔ گاؤ ماتا بوجھ بن کر بھارت کیلئے مسائل کھڑے کرتی ۔ مہاتما گاندھی کو انتہاپسند ہندو نے موت کے گھاٹ اُتارا۔ انگریز کو مصنوعی انتہاپسند مسلمان سے چڑہے توحقیقی انتہاپسند ہندو کو کہاں برداشت کریگا؟، رسول ﷺ نے اقراء کے سبق سے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا۔ اب پھر مسلمانوں کو جہالت کے اندھیرے نے گھیر لیاہے اور پاکستان بہتر تجربہ گاہ بن کر نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ ایشاء اور پوری دنیا کو بھی حقیقی روشنی فراہم کرسکتا ہے۔
2: دارالعلوم دیوبند و جمعیت علماء ہند نے ہندوؤں کیساتھ حکومت کی تحریک چلاکر نہ صرف دین اکبری کی پوزیشن کو زندہ کرنے کی کوشش کی بلکہ اسلام کو اقتدار سے بھی الگ کردیا تھا۔اکابر دیوبند نے کانگریس کے سیکولر نظام کو اسلام کا تقاضہ قرار دیا جبکہ پاکستان میں جمعیت علماء ہند کی بچی جمعیت علماء اسلام کا مؤقف سیکولر طبقات کے خلاف اسلام کے نام پر مذہبی محاذ تھا۔ جس طرح جمعیت علماء ہند نے بھارت میں کانگریس کا ساتھ دیا، اسی طرح جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا مگر موجودہ جمعیت علماء اسلام دراصل مسلم لیگ کی وہ حامی جماعت نہیں بلکہ جمعیت علماء ہند والوں نے اس پر قبضہ کرلیا ہے۔ مسلم لیگ کے نااہل نوازشریف اور دیوبند کے نااہل وارث مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مسلم لیگ کی مودی سے یاری زروروں پر ہے۔شعور واآگہی سے ایک عظیم انقلاب آسکتاہے۔
3: بھارت کی پاکستان سے دشمنی یہ ہے کہ ملک تقسیم کیوں ہوا؟۔ تقسیم ہند کا مقصد یہ نہ تھا کہ اپنے اپنے ملکوں اور ریاستوں کی محبت میں ایکدوسرے سے دشمنی کی جائے بلکہ مسلمانوں کا تعلق ملت اسلامیہ سے تھا، جو عرصہ سے اقتدار میں رہے ۔ اقتدار سے متعلق شرعی حدود اس بات کا تقاضہ کررہے تھے کہ مسلمانوں کی خود مختار حکومت ہو۔ یہ بھارت کے حق میں بھی بہتر تھا ورنہ بنگال، بلوچستان، سندھ، پنجاب، پختونخواہ، کشمیر اور وسط ہند یوپی، بہار اور دیگر مسلم اکثریتی حصوں میں اسلام کیلئے ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہتا۔ جب بارِ حکومت مسلمان کے کاندھے پر پڑگیا تو بھارت نے بھی سکھ کا سانس یقیناًلیا تھا۔ بھارت جموں و کشمیر پاکستان کے حوالہ کرکے تحفے میں دیدے تو دشمنی کی ساری بنیادیں دوستی میں بدل جائیں گی۔ بھارت کو پاکستان سے راہداری مل گئی تو ایران اور وسط ایشاء کے خزانوں سے خود بھی مالامال ہوگا اور اپنی ساری چیزیں وہاں ایکسپورٹ کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ جس طرح مشرکین مکہ اور مدینہ کے مسلمان مہاجرایک قوم قریش تھے اور آخر کار شیروشکر ہوکر پوری دنیا پر غالب آگئے، اس طرح پاک وہند نے مل کر دنیا کو فتح کرنا ہے۔ کشمیر اتنا بڑا مسئلہ نہیں اس میں بنگلہ دیش کا بدلہ بھی ہم چکالیں گے مگرنیٹو نے پاکستان کو تباہ کیا تو بھارت کی تباہی یقینی ہے۔ اتنے مسلم ممالک تباہ ہوگئے لیکن مسلمان پھر بھی اپنی موجودگی ظاہرکر رہاہے مگر بھارت تباہ ہوا تو ہندو کا نام اور نشان تک مٹ جائیگا۔
ہندو مذہبی ’’ویدوں‘‘ کی پیش گوئی میں نبیﷺ اور مہدی کے حوالہ سے معاملہ خلط ملط نہ ہوتا تو ہندو اسلام قبول کرلیتے۔مشرکین مکہ ابراہیم ؑ توہندو نوحؑ کے دین پر ہیں،حرم پاک سے اسلام کی نشاۃ اوّل ہوئی، ارض پاک سے نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوگا۔ علامہ اقبال نے ہندوستان کا گیت گایا تھا جہاں سے نبیﷺ کو ٹھنڈی ہوا آئی۔ ریاست مدینہ کی طرح پاکستان سے اسلام کا ماڈل پیش ہوگااور دنیا خلافت سے امن و سلامتی کا گہوارہ بنے گی۔

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے

پاکستان میں بڑا کھیل شروع ہوچکا۔اپریل 2018ء تک ملک توڑنا بھارت وامریکہ کی سازش ہے۔ بلوچستان کاخلفشار، سندھ و پختونخواہ میں بد اعتمادی توپنجاب و مرکز میں بھی ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضاء ہے، میڈیا بدترین وکالت سے شعلوں کو مزیدبھڑکا تا ہے۔
کبھی نبیﷺ کے فیصلے و اکثریت کے منافی وحی نازل ہوتی تھی ، جس سے قیامت تک آنیوالے مسلمان اعتدال سے نہیں ہٹ سکتے۔صلح حدیبیہ میں قوم کا جذبہ اور مشورہ رسولﷺ کی رائے کیخلاف مگر اللہ نے فتح مبین کہا، جسے صحابہؓ نے ذلت قرار دیا۔ بدر ی قیدیوں پر فدیہ لینے میں اکثریت کا مشورہ اور نبیﷺ کا فیصلہ ایک طرف تھا اور 2 حضرت عمرؓ اور حضرت سعدؓ نے رائے مختلف دی۔ اللہ تعالیٰ نے 2 کی رائے کو درست ،نبیﷺ کافیصلہ نامناسب قرار دیا ۔ کیا کوئی اپنی اوقات نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر سمجھ سکتا ہے؟۔نااہلوں کی کوئی فرعونیت نہیں چلے گی!۔
حکومت کے دربار میں عمرؓ اورسعدؓ جیسا ایک بھی ہوتا تو نوازشریف کے کان میں سہی لیکن بول دیتا کہ ’’ پارلیمنٹ میں کہا کہ سعودیہ ودبئی کی مِلیں بیچ کر 2006ء میں لندن کے فلیٹ خریدے ، جسکے تمام دستاویزی ثبوت اللہ کے فضل وکرم سے موجود ہیں۔ عدالت کے ججوں نے آخر تک کہا کہ اگر لندن فلیٹ کے کاغذات دکھا دو تو ہم کیس کو خارج کردینگے لیکن میاں جی! آپ نے نہیں دکھائے۔ یہ بیٹے سے تنخواہ وصول کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ مقدمہ یہی تھا کہ آپ اور بیٹوں کی جائیداد ایک ہے۔ اپنے مال سے کوئی بھی تنخواہ نہیں لیتا۔ مال آپ کا ہے اور نام بیٹوں کا‘‘۔
عدالت میں اس اندازسے راجہ رنجیت سنگھ پیش نہ ہوتا جیسے نوازشریف مسلح جتھے کیساتھ پیش ہوا۔رُول آف لاء کی رَٹ والاوزیرداخلہ احسن اقبال اس پر استعفیٰ دینے کی دھمکی دیتا تو جمہوریت مستحکم ہوتی۔ روزنامہ جنگ اور دیگر اخبارات کی شہہ سرخیاں تھیں کہ عدالت کو رینجرزکی تحویل میں دیا گیا، وزیروں اور جتھے پر پابندی ہے تو وزیر داخلہ کیسے بے خبر تھے؟۔ پولیس میں نوازشریف کے مسلح جتھے کو روکنے کی ہمت نہیں تھی تواسکے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
وزیرداخلہ اعلان کرتا کہ ’’ عدالتی پیشی پرہماری نااہلی سے بد مزگی کی وہ ناخوشگوار فضاء پیدا ہوئی کہ ایس ایس پی پولیس اسلام آباد کو اپنی بے بسی کی بنیاد پر رینجرز طلب کرنی پڑی ۔ فوجی تربیت قانونی تقاضہ نہیں سمجھ سکتی۔ وہ صرف حفاظت کرنا جانتی ہے،اسلئے نوازشریف کا وکیل بھی روک دیا گیا تھا۔ اس میں کسی اور نہیں وزیرداخلہ کی غلطی ہے‘‘۔
احسن اقبال اخلاقی جرأت سے کہے کہ ’’ نوازشریف کی عدالت میں پیشی کو قانونی و اخلاقی تقاضوں کے مطابق بنانا میرا کام تھا۔ شرمندگی نہیں قابلِ فخر ہے کہ پولیس نے رینجرز سے مدد مانگ لی اور قوم کو دکھا دیا کہ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ کے درمیان گٹھ جوڑ ہے اور نہ گھٹیا مراسم کہ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑا جائے اورہماری فورسز تماشائی بن کر بیٹھ جائیں۔ رینجرز کے کمانڈر کو شاباش دیتا ہوں ، جس نے اپنافرض اور اپنی ذمہ داری کو پورا کرکے دکھایا ہے‘‘۔
ایک بادشاہ نے تربیت یافتہ نوکر رکھا۔ پیشہ ور نوکر نے کہا کہ مجھے ڈیوٹی کی فہرست لکھ دی جائے۔بادشاہ نے ڈیوٹیوں کی لسٹ تھمادی۔ بادشاہ نوکر کو شکار پر لے گیا اور بادشاہ گھوڑے سے گر پڑا تو پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔ گھوڑا بادشاہ کو روند کر گھسیٹ رہا تھا ، بادشاہ مدد کیلئے چیخ رہا تھا لیکن نوکر اپنی ڈیوٹی کی فہرست دیکھ رہا تھا کہ اس کی ڈیوٹی میں یہ شامل ہے یا نہیں؟۔یہی حال حکومت، فوج اور عدالت کا ہے کہ پاکستان تباہ ہورہاہے اور یہ ڈیوٹی کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہماری ڈیوٹی کیا ہے؟۔ مریم نواز نے یہ کہا کہ ’’میں بھی نوازشریف ہوں، تم بھی نوازشریف ہو ۔ I LOVE YOU+ I LOVE YOU 2 ‘‘مگر قوم اور ملک کو اس عاشقانہ انداز میں نہیں چلایا جاسکتا۔
barre-sagheer-pak-o-hind-ki-taqseem-ke-wazeh-nuqsanat-aur-asal-fawaid-2
1906ء کو مسلم لیگ نواب وقارالملک اور سر آغا خان نے بنائی تھی۔نوازشریف تقریر کرتے کہ’’ 2006ء میں لندن فلیٹ خریدنے کے جھوٹ پر مجھے پارٹی صدارت کیلئے نااہل قرار دیاگیا۔ اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ مجھ سمیت سب کو مسلم لیگ کا صد سالہ جشن منانے کا خیال اسلئے نہ آیا کہ ہم موسم لیگی شروع سے اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں۔ہم نے تعصبات کی بنیاد پر تقسیم کا ایجنڈہ پورا کیااورہم اب بھی عالمی قوتوں کیساتھ تقسیم کے ایجنڈے پر کھڑے ہیں۔تعصب مفاد کانام ہے نظرئیے کا نہیں‘‘۔
یہ وقت ہے کہ بلوچی گاندھی کے نمائندے محمود اچکزئی اور حاصل بزنجو کہیں کہ ’’بابا اسٹیبلشمنٹ مخالف کا کردار ہم نے اسلئے ادا کیا کہ جھوٹ ، لاقانونیت ، کرپشن اور ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہو۔ ایسی گورنری اور بلوچستان کے اقتدار میں شمولیت کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں جہاں جمہوریت کے لبادے میں کھلے عام یہ سب کچھ ہورہاہے‘‘۔ مولانا فضل الرحمن و اسفندیارولی کہیں کہ ’’ سرحدی گاندھی غفار خان، بااصول سیاستدان ولی خان اورجمعیت علماء ہند و مفتی محمود کی ارواح کوعدالتی کٹہرے میں بدمعاشی اور عوام کے سامنے ڈھٹائی سے جھوٹ کے باوجودنوازشریف کا ساتھ دینے پر تکلیف پہنچے گی۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہم نے ثابت کرنا ہے کہ ہم کسی کے مہرے اور مفادپرست پہلے تھے ،نہ آج ہیں۔ جو اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ بنکے فوج کو بدنام کرتے تھے وہ آج جمہوریت کی لاش سے کفن کھینچ کر قوم کے سامنے خود بھی برہنہ پا، برہنہ سر اور برہنہ دھڑ کھڑے ہیں الحفیظ والامان‘‘جس سے پاکستان، جمہوری نظام اورخطے کو استحکام ملتااور تاریخ کے داغ دھبے بھی دورہوتے۔ ملازم اور ایجنٹ میں فرق ہوتاہے۔ مسلم لیگی پہلے انگریز دور میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے ٹاؤٹ تھے اور پاکستان میں بھی ہمیشہ رہے۔ فوج انگریز ی دور میں ملازم رہی اور آج بھی ملازم ہے۔ علماء کا فتویٰ تھا کہ انگریز کی ملازمت جائز نہیں مگر مولانا فضل الرحمن کاوالد ملازم تھا اور مولانا اشرف علی تھانوی پر بھائی کی وجہ سے الزام لگاتھا۔
صحافیوں پر پردے کے پیچھے پہلے بھی الزام لگتا تھا مگر اب حالت بہت خراب ہوئی ہے۔’’ عرب لڑکی نے فون کیلئے رعایت مانگی، دکاندار نے کہا: برقعہ اٹھایا توملے گی۔ اس نے برقعہ اٹھایا تو برہنہ تھی۔ یہ رعایت کی قیمت تھی‘‘۔ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پر شیخ رشید و جماعت اسلامی نے ختم نبوت کے مسئلے پر خوب آواز اٹھائی۔ میڈیا پہلے سے آواز اُٹھا چکا تھا ، شہباز شریف نے کہا کہ وزیر برطرف کیا جائیگا مگرکامران خان اپنے شومیں یہ سب کچھ دیکھ کر جان بوجھ کرکہہ رہاتھاکہ ’’کمپیوٹر کی غلطی سے جو لفظ مٹ گیا ، وہ صحیح کردیا گیا مگر سب نے اس پر خوب سیاست کی‘‘۔ اس ننگِ صحافت پرکامران خان نے عرب دوشیزہ کی طرح قیمت وصول کی ہے یا بڑھاپے کی وجہ سے ذہن کام نہیں کررہاہے ؟۔یہ بہر حال المیہ ہے۔سید عتیق الرحمن گیلانی

بریلوی مکتب نے مولانا طارق جمیل پر تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا مگر یہ تنقید غلط ہے

Imam-of-Bohri-community-Mufaddal-Saif-Uddin-sahab-first-time-ever-with-Maulana-Tariq-Jameel-sahab
تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل ،مفتی زبیر وغیرہ وفد نے داؤدی بوہرہ جماعت کے سربراہ سے ملاقات اور تحائف کا تبادلہ کیا، جسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہوئی۔ بریلوی مکتب نے تنقید سے اپنائیت کا مظاہرہ کیا،مگر یہ تنقید غلط ہے۔ قائداعظم آغا خانی تھے، جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھایا۔

وکالت نہ ہوتی تو پانامہ کی بات اقامہ تک نہ پہنچتی، اجمل ملک

Allama-Shah-Feroz-uddin-Rehmani-Muhajir-Ittehad-Tehreek-Dr-Saleem-Haider-lieutenant-commander-imran-awan-rahila-tiwana

نوشتۂ دیوار کے ایڈیٹر اجمل ملک نے کہا: اگرجھوٹ کے سینگ ہوتے تو وزیر داخلہ احسن اقبال پھنسا بارہ سینگا ہوتا۔ ڈکٹیٹر کی نشانی ایک شخص نوازشریف کیلئے آئین میں ترمیم ہوئی۔ دنیا کو پاکستان کا خراب چہرہ دکھادیا جو جمہوری مُنی کو بدنام کرگئی۔ اسلامی لگاؤ، پاک دامنی کا زعم، جمہورپسندی کا دعویٰ سب ایوان، پارٹی منشورکے اقدامات سے برہنہ پا، سر اور دھڑ ہوگئے ۔دیکھ لو جمہوریت۔ چین میں 300وزیروں کو کرپشن پر سزائے موت اسلئے ملی ہے کہ وہاں وکالت کا نظام نہیں۔ دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں پر تمام پارٹیاں اسلئے متحد ہوئیں کہ سول عدالتی نظام سے سزائیں ملنا ان کو ممکن نہیں تھیں۔

Allama-Shah-Feroz-uddin-Rehmani-Muhajir-Ittehad-Tehreek-Dr-Saleem-Haider-lieutenant-commander-imran-awan-rahila-tiwana-ajmal-malik
شفاف عوامی جمہوری نظام کیلئے ضروری ہے کہ کرپشن کے مقدمات میں وکالت کا نظام ختم کردیا جائے۔ نوازشریف کا کیس کو وکیل نہ لڑتے تو پانامہ سے ہٹ کر بات اقامہ تک کبھی نہ پہنچتی۔ پارلیمنٹ میں نوازشریف نے کہا تھا کہ اللہ کے فضل سے سعودیہ مل وسیع تر اراضی اور دبئی مل سے ملنے والی کثیر رقم سے لندن کے فلیٹ2006ء میں خریدے گئے۔ وکلاء کو بیچ سے نکال کر سچ بتایا جائے کہ قطری خط درست تھا یا پارلیمنٹ کی تقریر؟۔ اپنا وقت ضائع کئے بغیر قوم کو سچ بتایا جائے تو عدالتوں کا چکر نہیں رہ سکتا۔ جب نوازشریف کے باپ و پوتوں میں بھی جائداد کی تقسیم نہیں ہوئی تو اپنے بچوں سے نوازشریف کیسے الگ ہوگئے؟۔ کیا بلوچستان کا کرپٹ مشتاق رئیسائی ان پیسوں کو بچوں کے نام کردے تو نیب کا کیس ختم ہوگا اور جب نوازشریف اپنے غیر ملکی بچوں کا باپ اور ملازم ہے تو پاکستانیوں پر حکومت کرنے کا کیا حق بنتاہے؟۔ منی لانڈرنگ ان بچوں کے نام پر کی گئی جن کا ایڈریس بھی نامعلوم ہے؟۔

داعش کے ابوبکر البغدای کا اصل نام سائمن ایلیٹ ہے. حامد میر

Daish-made-by-America-Former-Afghanistan-President-Hamid-Karzai-hamid-mir-capital-talk

9/11کے بعد بڑی بڑی طاقتوں نے القاعدہ کے نام پر بڑے بڑے فائدے اٹھائے۔ لیکن آپ سن رہے ہیں کہ پچھلے دو تین سال سے القاعدہ کی جگہ داعش نے لے لی ہے۔ داعش کیا چیز ہے؟ انٹرنیشنل میڈیا نے حال ہی میں ہمیں بتایا ہے کہ لیبیا میں داعش کا ایک لیڈر پکڑا گیا ہے جو دراصل اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کیلئے کام کرتا تھا۔ اور اس کا جو یہودی نام ہے وہ ہے افراہیم بینجمن، لیکن یہ اسرائیلی یہودی ہے اور یہ داعش میں گھسا ہوا تھا اور یہ وہاں پر ایک مسجدکا امام بھی تھا۔ اور ایک اور بھی میرے پاس خبر ہے دی اسٹار کی یہ کہہ رہا ہے کہ ISISکے لیڈر جو ابوبکر البغدادی ہے یہ بھی اسرائیلی ایجنٹ ہے اور اس کا جو اصل نام ہے اس کے حوالے سے بھی ہمیں انٹرنیشنل میڈیا میں بہت سی خبریں ملتی ہیں۔ اور بتایا جارہا ہے کہ ابوبکر البغدای کا اصل نام سائمن ایلئیٹ ہے۔ اور ایک انٹرویو ہے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی صاحب نے ایک انٹرویو میں جو کہ انہوں نے ٹائم میگزین کو دیا ہے میں نے کہا ISISاور امریکہ میں کوئی فرق نہیں ہے داعش دراصل امریکہ کیلئے کام کررہی ہے۔(11ستمبر 2017)

حامد میر کے بیان پر تبصرہ: قدوس بلوچ

جیو کے صحافی حامد میر اچھے ،پیارے، باکردار، باخبر اور باصلاحیت صحافی ہیں مگر دودھ میں مینگنی ڈالنے کا کمال بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج جس القاعدہ کو امریکی مفاد کہا جارہاہے ، اسامہ اور فلسطین تک کی صحافت بھی حامد میر کرتے رہے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ کل فلسطین کے مجاہدین کے بارے میں کوئی خبر بریک کریں۔ ابوبکر البغدادی کے بارے میں بڑی مدت سے یہ خبر تھی۔
جب مولانا فضل الرحمن کو حامد میر نے GHQ میں ملاقاتیں کروائیں۔ ڈیڑھ سو سالہ جشن دیوبند کانفرنس میں اسامہ اور ملا عمر کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ اسامہ پیغام کی مولانا فضل الرحمن نے نفی کی اور مجاہدین کو اسٹیج پر لانے کے باوجود کوئی کردار نہیں دیا، مولانا حسین احمد مدنی کے فرزند مولانااسد مدنی کی خاطر کشمیر کے جہاد کو نظر انداز کیا تو حامد میر نے لکھا کہ ’’ اسامہ نے کہا کہ میں وقت پر مولانا فضل الرحمن کو دیکھ لوں گا‘‘۔ حامد میر بتائیں کہ وہ کیا حقائق تھے، اب تو عرصہ سے مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی پر براجمان ہوتے ہوتے پک چکے ہیں؟۔
بلوچ، سندھی، پختون ہندوستان کی غلامی کرتے یا پنجاب کریں؟ ۔انگریز گیا مگرٹاؤٹ اب نوازشریف نے یہی تہیہ کر رکھاہے کہ پاکستان میں سب سے زیادتی ہو، توکوئی بھی مسئلہ نہیں لیکن اگر مجھے کبھی پارلیمنٹ اور پریس کانفرنس میں وکیلوں کی لکھی ہوئی اپنی تقریروں میں صاف جھوٹا ہونے کے باجود سچا نہیں قرار دیا تویہ ملک ٹوٹ جائیگا۔خلافت کے قیام کیلئے سب سے پہلے ہم نے آواز اٹھائی، عمران خان کرکٹ کھیلتا تھا توہم عملی میدان میں تھے، سارے مکتبہ فکر کے اکابر نے ہماری تائید کی مگر سازش سے خلافت کو بدنام کیا گیا۔ شف شف نہ کرو بلکہ بول دوشفتالو ۔