جون 2021 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں زیادہ خون بہاتے تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے

ghazwa e badar, ghazwa e uhud, imam mehdi, abhinandan, londi, ghulam

نبی کیلئے مناسب نہ تھا کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں زیادہ خون بہاتے تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے..

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اس آیت کا واضح اور درست مفہوم مسلمانوں کی سمجھ میں آجاتا تو وہ دنیا کو بدل سکتے تھے!

اس آیت میں قرآن کے اعلیٰ مقاصدصحابہ کرام کا تزکیۂ ، کتاب اور حکمت کی تعلیم ہے۔

قرآن کی ایک ایک آیت فیصلہ کن ہے جسمیں بیشمار حکمتوں کے زبردست خزانے ہیں

اللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں حتی کہ زمین میں خوب خون بہائے، تم لوگ دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ (القرآن) آیت میں میدانِ جنگ میں مشرکوں کا خون بہانے سے قیدیوں سے فدیہ لینے تک کی تمام روداد ہے۔ جب اللہ نے مسلمانوں کا پلہ بھاری کردیا تو صحابہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں اور نبیۖ کے چچا عباس اور داماد کو قیدی بنالیا۔ جب ان قیدیوں کو فدیہ لیکر چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا تو مسلمان جشن منارہے تھے کہ ان کو فتح بھی ملی۔قریبی رشتہ داروں کی جان بھی بچ گئی اور فدیہ کے ذریعے بہت سارا مال بھی کمالیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر وحی کے ذریعے وہ تاریخی ڈانٹ پلادی کہ سب کی طبیعت صاف کردی۔ حضرت عمر اور حضرت سعد نے یہ مشورہ دیا تھا کہ جو قیدی جس کا قریبی رشتہ دار ہو وہ اس کو قتل کردے۔ عباس حضرت علی کے چچا ہیں، فلاں فلاں کے عزیز ہیں لیکن باقی صحابہ نے مشورہ دیا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبیۖ نے وحی نازل ہونے کے بعد فرمایا کہ اللہ نے مجھے وہ عذاب بھی دکھایا جس کا قرآن میں ذکر ہے اور اگر وہ عذاب نازل ہوتا تو عمر اور سعد کے علاوہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ ان آیات اور احادیث صحیحہ کی درست تفسیر پیش ہو تو آج ہم صراط مستقیم پر چل سکتے ہیں۔ علماء کرام اور مفسرین نے اس واضح قرآنی آیات سے مثبت نتائج نکالنے کے بجائے تفسیر اور مفہوم کا بیڑہ غرق کردیا۔
اگر نبیۖ کے چچا اور داماد کو بدر میں دانستہ قید کرنے کی بجائے قتل کردیا جاتا تو خلافت راشدہ سے لیکر بنوعباس کے اقتدار تک مسلمانوں کے اندر نبیۖ کے داماد حضرت علی اور چچا کی وجہ سے تفریق وانتشار کے معاملات کا سامنا کرنا پڑتا۔اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے میں دنیاوی قرابت نے کردار ادا کیاہے۔
(1:)نبی ۖ نے مشاورت کیساتھ یہ فیصلہ کیا تو اللہ نے اس کو نامناسب قرار دے دیا کہ نبیۖ کیلئے یہ مناسب نہیں تھا۔ تم لوگ دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ یہ آیت انسانوں کیلئے بڑی رہنمائی ہے۔
کیا آج کا کوئی مذہبی اور سیاسی لیڈر یہ اعتراف جرم کرسکتا ہے کہ جس فیصلے میں رہنماؤںاور کارکنوں کو اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر آمادہ کرے اور پھر اقرار کرے کہ یہ نامناسب تھا اس میں میرا مفاد تھا؟۔
اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے یہ زبردست رہنمائی فراہم کردی کہ نبیۖ سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں اور جب نبیۖ کیلئے کوئی بات نامناسب اور دنیاوی مفاد ہوسکتی ہے تو پھر مذہبی اور سیاسی قیادتوں کی ساری کی ساری زندگی جب دنیاوی مفادات کی تابع ہو اور ایک بار بھی اعترافِ جرم کی جرأت نہ کرسکیں تو لعنت ہو ان جھوٹے منافقوں پر جو نبیۖ کی سیرت کو اعلیٰ نمونہ سمجھنے کے باوجود بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کریں۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” اگر خیر یعنی دنیاوی مفادات میرے ہاتھ میں ہوتے تو سب سمیٹ لیتا لیکن اللہ نے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں رکھا ہے”۔ اللہ نے ہر انسان کیلئے واضح فرمایا کہ انہ لحب الخیر لشدید ” بیشک وہ دنیا کی محبت میں بہت سخت ہے”۔ نبیۖ نے اللہ کی وحی کا اعتراف اس آیت کی تفسیر کی وجہ سے نہیں کیا تھا بلکہ یہ آپۖ کے ضمیر کی آواز اور نفس پاک کی وہ بے تکلفی تھی جس کا اعتراف ہرانسان کو کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں ہے کہ ” حضرت یوسف نے جیل سے رہائی کی پیشکش کو ٹھکرادیا”۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میں یوسف کی جگہ ہوتا تو ایسا نہیں کرسکتا تھا”۔ نبیۖ نے بشری تقاضے کو سامنے رکھ کر حقیقت کا اعتراف کیا لیکن یہ صلاحیت جب اللہ انسان میں وقتی طور پر پیدا کرتا ہے تو جس طرح حضرت موسیٰ کی والدہ کے دل کو تسلی کیلئے مضبوط کردیا تھا ،اس طرح وہ اپنی قدرت سے ہی انسانوں کو کامیاب کردیتا ہے اور اللہ نے قرآن میں بار بار اسکا ذکر فرمایا ۔مگرکچھ لوگ عقیدتمندوں کوغلط جھانسہ دیتے ہیں۔
اگر قرآن وسنت سے مسلمان رہنمائی لیتے تو آج ہم اتنے گرے ہوئے نہ ہوتے۔ نبیۖ کے وصال پر انصار و مہاجرین کے درمیان خلافت کے مسئلہ پر زبردست اختلاف اور اپنا اپنا استحقاق واضح کرنے پرفتنہ وفساد برپا ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تھا مگر اللہ نے اپنے فضل سے خیر کردی تھی۔قرآن کی اس آیت سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اکثریت کی رائے پر مشاورت کے بعد عمل ہو لیکن یہ امکان بھی رہتا ہے کہ اکثریت کی رائے مفادپرستی پر مبنی ہو اور اقلیت کی رائے ٹھیک اور اس میں خلوص بھی ہو۔
سیاستدان و مذہبی لیڈر اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر جس طرح مساجد کی امامت، مدرسوں کے چھوٹے بڑے عہدوں کیلئے جتن کرتے ہیں انکا ٹریک ریکارڈ بھی دیکھ لیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب کی موجودگی میںجس طرح انکے صاحبزادگان، مولاناحسین احمدمدنی و مولانا انور شاہ کشمیری کے صاحبزادگان میں پھڈا ہوا۔ اور دارالعلوم دیوبند دو حصوں میں بٹ گیا۔ جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں میں تقسیم کا عمل رہا۔ مولانا فضل الرحمن نے مولانامحمد خان شیرانی کا کہاکہ صوبائی امارت سے ان کو محروم کرنے کا معاملہ تھا یا اسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی تھی ۔ اوریہ دونوں باتیں مختلف ہیں۔ یہ الزامات اپنے ذاتی مفادات کو ایک تقدس کا ناجائز لبادہ پہنانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اگرعلماء کرام قرآن وسنت اور صحابہ کرام سے کچھ سبق سیکھ لیتے تو بہت ہی اچھا ہوتا۔
تبلیغی جماعت کو دیکھ لیں جس نے اپنے اصل مرکز بستی نظام الدین انڈیا سے بغاوت کرلی ہے۔ جو راستے میں دو یا تین افراد میں سے ایک کواپنا امیر بنانا شرعی حکم اور شیطان سے بچنے کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے ۔ آج انکا کوئی مشترکہ امیر تک بھی نہیں ہے۔
قرآنی آیات کو سامنے رکھتے تو بڑے بڑوں کو اعترافِ جرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ انسان بہت کمزور ہے اور دنیاوی خواہشات و لالچ کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن انکے پیچھے انسان کس حدتک گرسکتا ہے؟۔یہ انسانوں کے کردار اور شخصیات کا ذاتی معاملہ ہے۔جس میں ماحول کا عمل دخل ہے اورقرآن وسنت رہنمائی کابہترین ہیں۔
(2:) اگر اللہ بدری قیدیوں کے فدیہ لینے پر تنبیہ نازل نہ کرتا تو ہم قافلوں کی لوٹ مار اورفدیہ لیکر قیدیوں کو آزاد کرنے کو اسلامی فریضہ سمجھتے۔ اللہ نے نبیۖ اور صحابہ کی تنبیہ سے دنیاوی مفاد کاراستہ بند کیا۔ دہشتگردوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں نے اغواء برائے تاوان کی جو دھوم پاکستان میں مچائی تھی جس سے اسلام اور مجاہد بدنام ہوگئے ۔ اگر علماء ومفتیان ان آیات کو واضح کرتے تو اسلام کے نام پر بدکردار اور مفادپرست طبقہ اس مہم جوئی کی کبھی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ پختونوں کو معاملہ سمجھ میں آیا تو انہوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ طالبان اور پاک فوج کے لوگ انبیاء اور صحابہ کا درجہ رکھتے ہیں اور ہم عام لوگ کافر ہیں۔قرآن کی تعلیم واضح ہوتی تو طالبان مفادات کو تقدس کا نام نہ دیتے۔
اسلام کے نام پر خاندانی خلافتوں سے پہلے جو خلافت راشدہ کے دور میں قتل وغارتگری ہوئی تھی یا بعد میں حکمرانوں ، بادشاہوں اور مذہبی طبقات نے بشری تقاضوں کے مطابق اپنی کمزوریاں دکھائی ہیں تو ان کو تقدس کا لبادہ پہنانا غلطیوں پر غلطیاں ہیں۔
(3:) ہم صحابہ کرام کیلئے حسنِ ظن رکھنے کو سب ہی سے زیادہ بنیادی فرض سمجھتے ہیں کیونکہ مؤمنوں سے حسنِ ظن رکھنے کا حکم ہے اور وہ اولین مؤمنین تھے۔ صحابہ کرام نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے بچاؤ اور فدیہ کے حصول کیلئے یہ جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیکر اپنی موت کی قیمت پر جہاد کیا تھا اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا قرآن میں جھوٹ بولا ہے کہ ”تم لوگ دنیا چاہتے ہو”۔ جس کا سادہ جواب یہ ہے کہ دنیا سے مراد یہ تھا کہ نبیۖ سے صحابہ اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبت رکھتے تھے اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ ۖکے چچا عباس کو قتل کرکے نبیۖ کو تکلیف پہنچائی جائے۔
صحابہ کا تزکیہ ہوا تو خلافت راشدہ قائم ہوگئی کیونکہ نبیۖ کی قرابتداری اور دنیاوی محبت کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور حضرت ابوبکر پر قریش کے کمزور قبیلے سے تعلق کے باوجود بھی اتفاق کیاگیا۔ امریکہ نے کتنے عرصے بعد بارک حسین اوبامہ اور کالی بیگم کو امریکی صدر اور خاتون اول کا اعزاز بخشاتو اس سے زیادہ ابولہب و ابوجہل جیسے اکھڑ دماغوں کے غرور خاک وخون میں ملاکر پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر اتفاق بڑا کرشمہ تھا۔
خاندانی جاہلیت کے جذبات جاگ اُٹھے تو بنو امیہ اور بنو عباس کا اقتدار خلافت راشدہ نہیں رہا۔ آج مذہبی اور سیاسی موروثی طبقات میں کوئی اعلیٰ اقدار نہیں بلکہ نکمے قبضہ مافیا ہیں۔ جب طالبا ن کی دہشتگردی زوروں پر تھی تو ایک قبائلی رہنما گربز بیٹنی نے کہا تھا کہ ” ایک قوم کا بادشاہ مرگیا تو کوئی بادشاہ بننے کو تیار نہیں تھا۔ آخر کار ایک شخص نظر آیا جس نے بکری کا بچہ ڈنڈے سے ماردیا، بکری کی ٹانگیں توڑ دیں اور اس کو سرِ عام ظالمانہ طریقے سے گھسیٹنے لگا۔ یہ ظالمانہ منظر بعض لوگوں نے دیکھا تو یہ فیصلہ کیا کہ اسی کو بادشاہ بنانے کی پیشکش کرتے ہیں۔وہ بادشاہ بننے پر راضی ہوا تو لوگوں نے شاندار استقبال کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلا بادشاہ اچھا نہیں تھا وہ ہاتھ اُٹھا دیں۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ اُٹھالیا تو بادشاہ نے ان کو ایک طرف کھڑا کرکے ان کا سر قلم کرنے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر لوگوں پر دہشت طاری ہوگئی۔ پھر بادشاہ نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے کہ پہلا بادشاہ اچھا تھا تو اپنے ہاتھ اُٹھادیں۔ کچھ لوگوں نے ہاتھ اُٹھادئیے تو ان کو بھی لائن میں کھڑا کرکے سرقلم کرنے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر لوگ انتہائی خوفزدہ ہوگئے کہ کس مصیبت سے واسطہ پڑگیا ؟۔ پھر بادشاہ نے کہاکہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ پہلا بادشاہ اچھا بھی تھا اوربرا بھی تھا تو وہ اپنے ہاتھ اُٹھادیں۔ ایک شخص نے کہا کہ میں اس کا جواب دوں گا لیکن میں کان کا بھاری ہوں، سننے کی صلاحیت کم ہے۔ مجھے میرے کان میں بادشاہ سوال پوچھے۔ جب بادشاہ نے اس کو اپنے قریب کرلیا تو اس نے گلے سے پکڑ کر نیچے گرادیا اور کہا کہ اُلو کے پٹھے تم تو وہی بکری والے ظالم ہو۔ لوگوں نے اس کو انجام تک پہنچادیا اور اپنی جان اس ظالم سے چھڑالی۔ اب یہ طالبان دہشتگرد بھی اسی بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح ہیں ۔ ان کو گلے سے پکڑنے کی دیر ہے”۔
ہم پر مسلط عمران خان اور اسکے کھلاڑی و دیگر سیاستدان، ریاستی عہدوں پر موجودمنصب دار اور مذہبی طبقے سب کے سب اس بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح مسلط ہوگئے ہیں۔ جس دن عوام ان کی گردن پکڑیں تو ان کا حشر بنوامیہ و بنوعباس اور شاہ ایران اورانقلابِ فرانس سے بھی بدتر ہوگا۔
اہلبیت، بنوامیہ ،بنوعباس کی گروہ بندی سے مسلمان تقسیم اور تباہ ہوگئے ۔ اگروہ قرآنی آیت کو سامنے رکھ اپنی اپنی قیادتوں کے بھینٹ نہ چڑھتے تو قرآن چھوڑنے کی شکایت بھی نبی ۖنہ کرتے۔ اسلام نے انسانیت کی فلاح وبہبود کا فریضہ سونپ دیا اور مسلمان گروہی تعصبات میں پھنس کر رہ گئے ۔
(4:) ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس نبیۖ کیلئے اللہ نے فرمایا کہ ” آپ کو انسانیت کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے”۔ اور ” آپ کی سیرت و کرداردنیا کیلئے اعلیٰ نمونہ ہے” تو اس آیت میں کیا پیغام ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب بدری قیدیوں کو مدینہ لایا گیا تو کئی دن لگ گئے۔ نبیۖ نے اللہ کے حکم پر مشاورت سے فیصلہ فرمایا تھا، آپۖ یہ سوال بھی اٹھاسکتے تھے کہ اے اللہ! ہم نے تیری خاطر اپنوں سے لڑائی لڑی۔ بہت سوں کو خاک وخون میں نہلادیا۔ بہت سوں کو قیدی بنالیا۔ اگر میدان جنگ میں فرشتے اُترسکتے تھے تو پھر ایک وحی بھی نازل ہوسکتی تھی کہ پکڑنے اور قید کرنے کے بجائے ان لوگوں کو تہہ تیغ کرکے آخری فرد تک کو نہ چھوڑو۔ قرآن میں دیگر انبیاء کرام کی طرف سے بڑی فرمائشیں ہیں۔ عرضداشت ہیں ۔گزارشات ہیں مگر نبیۖ نے جائزعذربھی پیش نہ کیا اسلئے کہ اخلاق و کردار کے اعلیٰ ترین منصب پر فائزتھے۔
قرآن کی اس آیت میں تزکیہ نفس اور احسان و سلوک کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر کے غیر معقول معاملات پر صبر سے کام نہیں لیا لیکن نبیۖ نے ان غیبی آیات پر سرتسلیم خم کرکے بتادیا کہ غرور نفس کا بانکپن زندگی میں ہی ہم نے بھلادیا۔ فیض احمد فیض چھپکلی سے بھی ڈرتے مگر غارِ ثور میں سانپوں اور تعاقب کرنے والے دشمنوں کے خوف سے آزاد نبیۖ کی سیرت میں بڑاکمال تھا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نزول وحی کا ایک بہت اہم مقصد تزکیۂ نفس بھی بتایا ہے اور اس آیت کا بڑا بنیادی مقصد تزکیہ بھی تھا۔ نزولِ وحی کا دوسرا مقصد حکمت کی تعلیم بھی ہے۔ اس آیت میں نبیۖ اور صحابہ کے ذریعے حکمت کی تعلیم دنیا کو دی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ تنبیہ در اصل مشرکینِ مکہ کے ان قیدیوں ہی کو کرنی تھی جو فدیہ کے بدلے آزادی کے بعد جنگ کے میدان پھر اُترسکتے تھے۔ بعد کی آیات میں یہ تفصیل ہے کہ اگر انہوں نے اسکا غلط فائدہ اٹھالیا تو اللہ پھر موجود ہے اور اگراپنے دلوں میں خیر رکھی تو فدیہ سے زیادہ بہتربدلہ اللہ دے گا۔ یہ وہ حکمت کا کلام ہے جس میں ہرزبان کے اندر یہ کہا جاتا ہے کہ بیٹی آپ سے کچھ کہتا ہوں مگر بہو سنو آپ بھی۔ جس میں مقصد بہو ہی کو اس گھرکے اصول سمجھانا ہوتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہے کہ ایک پہلو لیکر کثیرالجہت مقاصد کو سبوتاژ کردیا جائے۔ اگر اس وقت رسول ۖ کے چچا حضرت عباس کفر کی حالت میں ماردئیے جاتے تو پھر ان کی اولاد کو خلافت پر قبضہ کرکے مظالم یا اسلام کو مسخ کرنے کا موقع بھی نہیں مل سکتا تھا۔ کسی بات کے قریب ودور کے اپنے اپنے نتائج ہوتے ہیں ۔
یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزا پائی
(5:) اللہ تعالیٰ اس آیت میں وقتی سرزنش سے انسانیت کی فلاح کا راستہ ہمیشہ کیلئے کھولنا تھا۔ جس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے اکھڑ بازی کو اپنا شیوہ بنالیا تو وہ ابلیس لعین کے راستے پر چلتے بنا۔ جب غزوہ اُحد میں صحابہ نے شکست کھالی اور امیر حمزہ سیدالشہداء کے کلیجے کو نکال کر چبا ڈالا گیا تو پھر مسلمانوں کو احساس ہواکہ بدری قیدیوں سے فدیہ لیکر ہم نے واقعی بڑا غلط کیا کہ معاف کیاتھا اور ایک کے بدلے ستر ستر کا ایسا حشر نشر کرنے کی قسمیں بھی کھالیں۔ لیکن اللہ نے اس کے برعکس فرمایا کہ
” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تمہیں اس حدتک نہ لے جائے کہ اعتدال اور انصاف کے دامن کو بھی چھوڑ دو”۔ (القرآن) نبیۖ اور صحابہ کرام کیلئے خوشی میں غم منانے اور غم منانے میں اعتدال کا سبق دیا اور دشمن سے بھی زیادتی کرنے کو ناروا قرار دیا۔ اللہ نے اس پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ بھی واضح فرمادیا کہ ” جتنا انہوں نے تمہارے ساتھ کیا ،ا تنا ہی تم بھی کرسکتے ہو۔ اگر ان کو معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے بلکہ ان کو معاف ہی کردواور یہ معاف کرنا بھی ہماری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ”۔( القرآن)
اللہ نے صحابہ کے نفوس قدسیہ کیلئے جس تربیت کا اہتمام فرمایا تو یہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ یہ تعلیم وتربیت نہیں دی کہ جب دشمن میدان جنگ یا کسی ماحول میں مضبوط ہوں تو تم معافی پر اتر آؤ اور جب تمہارے ہاتھ مضبوط ہوں تو انتقام کی راہ چلو۔ ایک دفعہ ہمارے ایک عزیز سے محسودوں کے ایک گروہ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی تو اس نے یہ مشورہ میرے والد صاحب سے کیا کہ اب میں کیا کروں؟۔ والد صاحب نے کہا کہ وہ معافی مانگ رہے ہیں تو معاف کردواور بات ختم کردولیکن اس نے بات نہیں مانی اور معاف کرنے سے انکار کردیا اور پھر ان مخالفین نے اپنی طاقت کا دھونس دکھادیا تو ہمارے عزیز نے میرے والد صاحب سے مشورہ کیا کہ اب کیا کروں؟۔ والد صاحب نے کہا کہ اب تو ان کو ہرگز معاف نہ کرو کیونکہ دھونس سے معافی کے مقاصد بدمعاشی ہوتے ہیں۔ اس عزیز نے کہا کہ آپ کیسے انسان ہو کہ جب مجھے جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا تو مشورہ دے رہے تھے کہ معاف کردو اور اب جب جان کو خطرہ ہوگیا ہے تو مجھے معاف نہیں کرنے کا مشورہ دے رہے ہو؟۔
طاقتور کو معاف کرنا در اصل اپنی جان کی امان مانگنا ہے۔جب طالبان نے ہمارے گھر پر حملہ کیا تو محسود قوم کے مشران کو اپنے ساتھ لائے اور کانیگرم وزیرستان میں جس تاریخ کو طالبان نے فیصلہ کرنا تھا تو محسود قوم کو آنے نہیں دیا گیا اسلئے کہ انکویہ پتہ تھا کہ اگر یہ خاندان ظالموں کے سامنے ڈٹ گیا توپھر بکری والے ظالم بادشاہ کی طرح ہماری گردن بھی دبوچ لی جائیگی اور انکو شاید کسی نے اطلاع بھی دی ہوگی کہ وقت کے سفاک یزید کے سامنے ڈٹ جانے والے حسن و حسین کی اولاد میں کچھ افراد ابھی زندہ ہیں جن کا سرکٹ سکتا ہے مگر جھک نہیں سکتا۔
علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں انہی فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کرنے والے خانزادگان کبیر کا تذکرہ کیا ہے۔ جہاں سے طلوع اسلام کیلئے اس ہاشمی خاندان سے پھر برگ وبار پیدا ہوں گے۔ ہم یہ کہہ نہیں سکتے ہیں کہ ہمارے اندر کمی ،کوتاہی ، غلطی، گناہ اور ڈر وخوف کا کوئی تصور نہیں ہے اور لالچ بھی نہیں رکھتے ہیں۔ نہیں بھئی نہیں ہم بہت کمزور ہیں اور ہم اپنے سے زیادہ کسی کو کمزور نہیں سمجھتے ہیں لیکن کوئی غرور اور تکبر کرتا ہے تو ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی ذات کو یہ زیب دیتا ہے۔ اگر کسی انسان میں اللہ نے کوئی خوبی رکھی ہے یا اس نے کسی اعزاز سے اس کو نوازا ہے تو یہ اللہ ہی کا اپنا کمال واحسان ہے۔
(6:) اس آیت میں ایک طرف اللہ نے قانون کا بھی واضح تصور دیا کہ فیصلہ اکثریت کی بنیاد پر ہوسکتا ہے اور یہ بتادیا کہ اقلیت کافیصلہ ٹھیک اور اکثریت کا غلط بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت واپوزیشن کے وجود کا اس سے زیادہ بہتر تصور کسی کتاب میں نہیں ہے۔
رسول اللہ ۖ کے دور اورخلافتِ راشدہ میں جمہوریت کی زبردست روح موجود تھی لیکن ووٹ کا مغربی طرزِ عمل وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ اسلام میں ووٹ کے ذریعے حکومت منتخب کرنے کی گنجائش ہے یا نہیںہے؟۔
عن سعد بن ابی وقاص قال قال رسول اللہۖ لایزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعة نبیۖ نے فرمایا کہ ”اہل مغرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے ” ۔ (صحیح مسلم)
اہل مغرب کیلئے حق پر قائم رہنے کی یہ پیش گوئی کس بنیاد پرہے؟۔ کیا ان کی خواتین کا عریاں لباس حق پر قائم رہنے کی نشانی ہے؟یا جدید سائنس میں ترقی اہل حق ہونے کی نشانی ہے؟یا چاہتے ہیں تو ملکوں اور قوموں کو تباہ کردیتے ہیں اسلئے وہ حق پر قائم ہیں؟یا ان کا تعلق بنی اسرائیل کیساتھ ہے؟۔ آخر کس وجہ سے اہل مغرب کو حق پر قائم رہنے کی خوشخبری دی گئی ہے؟۔حالانکہ مشرقی تہذیب وتمدن اور اقدار پر اہل مشرق فخر کرتے ہیں اور ہم ان کو فطرت کے قریب سمجھتے ہیں۔
اہل مغرب کی بڑی خوبی حکومت کو ووٹوں کے ذریعے بدلنا ہے۔ جہاں حکومت ووٹ کے ذریعے بدل سکتی ہو وہاں انسانوں پر ظالمانہ نظام قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ اللہ نے دین اور نظام میں جبر کو مسلط نہیں کیا بلکہ ابلیس کو اطاعت کی بجائے نافرمافی کرنے کا اختیار دیا ۔
(7:) اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ قیدیوں کو قتل نہ کرنے کا قانون اسلام نے اولین اصولوں میں رکھ دیا تھا۔ آیت میں قافلے کا مال لینے سے فدیہ لینے تک مجموعی صورتحال ہے۔ قرابتداروں پر تلوار چلانا بہت مشکل کام ہے۔ میدانِ بدر میں بھی جو فضاء تھی وہ بہت خطرناک تھی۔ رسول اللہۖ کی صاحبزادی حضرت زینب کیلئے یہ بہت بڑا مسئلہ تھا کہ مسلمان لشکر میں آپ کے والدنبیۖ تھے جبکہ دشمنوں میں آپ کے شوہر تھے۔ ایک عورت شوہر کی موت پر بھی خوش نہیں ہوسکتی تھی۔ مسلمانوں کو اللہ نے اتنی بڑی آزمائشوں سے گزار کر دنیا کی امامت عطاء کردی۔ ہم خطابت کے جوہر سے لوگوں کو بھی ورغلانے کا فن جانتے ہیں اور اپنا تن من پالتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ تن،من اور دھن سب کچھ اسلام اور وطن پر قربان کردیں گے۔
(8:) اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ فیصلہ ٹھیک ہو یا غلط مگر ایک دفعہ کرلیا جائے تو اس معاہدے کی پاسداری ضروری ہے۔ آیت میں قیدیوں کو قتل کے مشورے کی تصدیق نہیں بلکہ اس جذبے کی توثیق تھی جس کا لحاظ بدر کے میدان میں رکھا جاتا تو پھر قرابتداری کے ناجائزجذبات مستقبل میں بھی نہیں منڈلاسکتے تھے۔ انصاف یہ ہے کہ دیر نہ کی جائے۔ اگر ایک مرتبہ دیر کردی تو پھر معاملہ اُلٹ بھی سکتا ہے اور اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ بدر میں سب کو قتل کردیا جاتا تو بہتر تھا لیکن جب ایک دفعہ قیدی بنالیا گیا تو پھر ان کو قتل نہ کرنا ہی منشاء الٰہی کے عین مطابق تھا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے ہی وحی بھی نازل کرسکتا تھا۔ میدانِ جنگ میں وحی کے سننے اور سمجھنے کا موقع بھی نہیں تھا۔ ہماری عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں جتنی دیر لگادیتی ہیں تو اس میں بھی ظالم کو اپنے انجام تک پہنچانے سے زیادہ بہتر ان کو معاف کردینا ہے۔ مظلوموں کے اندر اس وقت تو انتقام کا وہ جذبہ بھی ماند پڑجاتا ہے۔
آج اسلام اور مسلمانوں کو عالمگیر خطرات کے سامنے اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی۔ اسلام نے جو عقائدونظریات اور تربیت وایمانیات کا سبق چودہ سو سال پہلے پڑھایا تھا ،اس کو دیکھنے، سمجھنے ، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
غلامی کا نظام امریکہ نے( 1864 عیسوی) میں ختم کیا جبکہ اسلام نے غلامی کا نظام بنانے والے ادارے جاگیرداری اورمزارعت کو چودہ سو سال پہلے ہی سود قرار دیکر ختم کردیا تھا۔ فقہ کے ائمہ اس پر متفق تھے مگر درباری ملاؤں نے بادشاہوں کے کرتوت کو ختم کرنے کے بجائے مذہب ومسلک کے نام پر جواز بخشنا شروع کردیا تھا اگر اسلام کے نام پر خاندانی اور موروثی بادشاہتوں کی جگہ قرآن وسنت کا نظام ہوتا تو دنیا سے جاگیردارنہ نظام کے خاتمے میں اسلام کا سب سے بڑا کردار ہوتا اور غلام ولونڈی کا نظام بھی بہت پہلے مٹ چکا ہوتا۔ حضرت سیدنا بلال حبشی اور دیگر غلامی کے نظام میں جکڑے ہوئے افراد نے اسلام کی آغوش میں پناہ لی تو وہ کسی جنگی قیدی سے غلام بن کر نہیں آئے تھے بلکہ جاگیردارانہ نظام نے ہی انکو غلام اور لونڈی بناکر مارکیٹ میں بیچا تھا۔
جب دور دراز سے کوئی غلام یا لونڈی مؤمنوں کی آغوش میں آتے تو انکو بڑی عزت اور بہت راحت بھی ملتی، حضرت زید بردہ فروشوں کے ہاتھوں غلام بن گئے تھے مگر نبیۖ کی آغوش سے وہ اپنے چچا اور خاندان میں جانے کیلئے تیار نہ تھے۔ محمود غزنوی کے غلام ایاز اپنے آقا کیلئے سب سے بڑا سرمایہ بن گئے۔ قرآن میں ان غلاموں کا بھی واضح ذکر ہے جو تیز دھوپ اور گرم ہواؤں سے خلاصی پاکر مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوں تو وہ اپنی مشکل کی زندگی سے بہت آسانی کی زندگی پانے پر اپنے رب کاشکر ادا کرینگے۔ جو ایک دوسروں پر تحائف کی طرح پیش کئے جائینگے۔ مسلمانوں نے وہ دور دیکھ ہی لئے ہیں لیکن ان کا قرآن سے اتنا تعلق مضبوط نہیں ہے کہ وہ قرآن کی واضح آیات کے واضح پیغامات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتے۔ جو بڑی غلطی ہے۔
جب مسلمان حکمرانوں میں خلیفہ عبدالحمید جیسے عثمانی خلفاء نے ساڑھے چار ہزار لونڈیا ں اپنی ملکیت میں رکھیں اور محمد شاہ رنگیلا نے عیاشیوں کے بازار گرم کئے تو امامت کا منصب ان سے چھن گیا۔ قرآن میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اسلام نے عبدیت صرف اللہ ہی کیلئے جائز رکھی ہے اور انسانوں کو انسانوں کیلئے اللہ نے عبدیت کی جگہ حریت عطاء کردی ہے۔ ہماری بڑی مشکل یہ ہے کہ عربی اور اردو کو مکس کرلیتے ہیں اور پھر معانی بھی بدل لیتے ہیں۔ ہمارے جدامجد شیخ الطریقت سیدعبدالقادر جیلانی نے اپنے خطبات میں سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ یا غلام جو عربی میں لڑکے کو کہتے ہیں ۔ اردو میں غلام عبد کو کہتے ہیں۔ پیرانِ طریقت نے غوث اعظم کے نام پر یہ خوئے طریقت ایجاد کرلی کہ مریدوں کو اپنا غلام سمجھ لیاحالانکہ اسلام میں غلامی جائزہی نہیں ہے۔
دورِ جاہلیت میں غلاموں اور لونڈیوں کو جانور کی طرح ملکیت کا درجہ حاصل تھا۔ اس کو قتل کرناہو یا آنکھ پھوڑ دینی ہو یا کان کاٹ دینے ہوں یا اسکے دانت توڑ دینے ہوں یا ہاتھ کاٹ دینے ہوں یا پھر مار کٹائی کرنی ہو ،سب کی اجازت تھی اسلئے کہ مملوک کیساتھ مالک کو سب کچھ کرنے کا حق تھا۔ اسلام کی تعلیمات نے غلام ولونڈی کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور جب نکاح کے حقوق ملتے ہیں تو معاشرے میں تمام انسانی حقوق خود بخود مل جاتے ہیں۔
غلاموں اور لونڈیوںکو ذاتی ملکیت کے درجہ پر نہیں رکھا گیا بلکہ ان کو ایک معاہدے کا درجہ دیدیا۔ ملکت ایمانکم اور غلام ولونڈی میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک معاہدہ کسی آزاد فرد سے بھی ایسا ہوسکتا ہے جیسے کسی لونڈی اور غلام سے ہوتا ہے۔ معاہدہ کیا ہے؟۔ ایک لونڈی یا غلام کو جتنے میں خریدا ہے اس کا وہ فرد مالک نہیں ہے بلکہ یہ انسان اسکے گروی ہیں۔ اسلام نے دنیا کو بدل دیا تھا مگر ہمارے مذہبی طبقے نے اسلام کی فطری تعلیم کو بھی بالکل غیر فطری بناکر رکھ دیا۔ الحمد للہ علماء و مفتیان کا ذہن کھل رہاہے اور کامریڈوں نے بھی اسلام کی افادیت کو اچھی طرح سمجھنا اب شروع کردیا ہے۔
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار
پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نے جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم و پیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار
دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلۂ عالم افکار

ایسی تحریک کی ضرورت جو مذہبی اور کامریڈ طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے خطے کو بحران سے نکال دے

Comrade, Leftist, Khilafat, Khilafat e Usmania, PTM

ایسی تحریک کی ضرورت جو مذہبی اور کامریڈ طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے خطے کو بحران سے نکال دے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

خطے کے طالبان ہتھیار رکھ کر اسلام کے عظیم مشن کیلئے جمہوری بنیاد پر اپنا مشن منوائیں!

قرآنی آیات اور سنت سے پوری دنیا کی انسانیت پر ہونے والے مظالم کا راستہ روکیں

کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے علاوہ گھروں سے لیکر ریاستی ظلم وستم کو ختم کریں

اسلام نے دورِ جاہلیت میں علم کی روشنی سے دنیا میں اجالا کیا مگر مسلمان جہالت کی اندھیر نگری میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی کی تلاش میں لگے ہیں۔ جاہلوں کابڑا سردار علامہ اقبال تھا جو اپنی شاعری اور اسلام کے اجتہادی فکر میں نہ خوابیدہ تھا اور نہ بیدار تھا۔ اسلام کے واضح احکام میں دنیا کو جاہلیت کے اندھیروں سے نکالنے کی صلاحیت ہے ۔ ان پڑھ قوم نے منصبِ امامت پر بیٹھ کر قیصرو کسریٰ کی سپر طاقتوں کو شکست دی تو اس لکھے پڑھے دور میں قرآن کی آفاقی تعلیم ہمیں جبر وظلم کے نظام سے خلاصی کیوں نہیں دے سکتی ؟۔
کامریڈوں کو پتہ چل گیا ہے کہ روس، چین اور دنیا میں مارکس کا نظریہ فیل ہوچکا ہے اور سودی نظام ہی دنیا میں ظلم وجبر کا حربہ ہے۔ جب قرآن میں سود کی حرمت والی آیات نازل ہوئی تو نبیۖ نے زمین کو بھی مزارعت پر دینا سود قرار دے دیا۔ زمین کو مزارعت پر دینے سے جاگیرادارنہ نظام بنتا ہے اور اس سے عوام کو غلام بنانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سودی نظام سے بھی معاشرے کے اندرعوام کی انفرادی اوراجتماعی زندگی اجیرن بنتی ہے اور عالمی بینک اور سودی نظام سے دنیا کے غریب ممالک کو غلام بنایا جاتا ہے۔ نوازشریف اور عمران خان سے لیکر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن اور شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی سب اس شیطانی نظام کے کارندے ہیں۔ احادیث صحیحہ میں مزارعت کو سود قرار دیا گیا ہے اور امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی متفق تھے کہ مزارعت سود، ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن حیلہ ساز علماء ومفتیان اور درباری مولویوں نے اسلام کو بدل دیا تھا۔ جس طرح یہود کے مہرے سودی نظام کواسلامی بینک کا نام دیتے ہیں یہ شروع سے ہی درباری علماء کابڑا دھندہ رہاہے۔
اسلام کے معاشرتی اور اقتصادی نظام کو مذہبی طبقات نے تباہ کیا ہے ۔اگر درست اسلامی نظام سامنے لانے کی کوشش کی گئی تو یہ طالبان اور کامریڈوں کا متفقہ ایجنڈہ ہوگا اور جب پشتون تحفظ موومنٹ کو ہم نے مظلوم تحفظ موومنٹ بنانے کا مطالبہ کیا تھا تو ہماری بات نہیں مانی۔ ہم نے لکھا کہ (PDM) ا ور (PTM) اور جماعت اسلامی سب زوال کی ا نتہاء پر ہیں۔ پی ڈی ایم (PDM) اور ن لیگ کے ایجنڈے کا حشر سب کے سامنے ہے ۔ پی ٹی ایم (PTM) کے محسن داوڑ نے نئی سیاسی جماعت کا اعلان کردیا۔ جے یو آئی کی بنیاد بلوچستان و پختونخواہ میں ہل گئی۔لیفٹ اور رائٹ کے نام پر قوم کو دائیں بائیں تقسیم کرنے والے چالاک وعیار لوگ کئی جماعتوں میں جماعتیں او ر پارٹیوں میں پارٹیوں کی تقسیم کے ایجنڈے پر لگ جاتے ہیں۔ نظرئیے اور عوام کیلئے کوئی مثبت کام کرنے کے بجائے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں ،حالانکہ ان کے پاس کوئی نظریہ ہوتا ہے اور نہ عوام کے مفاد کا کوئی ایجنڈہ۔ ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنا ہوگا جس کا ایک ایسا واضح ایجنڈہ ہو جو اقتدار تک پہنچنے کا وسیلہ بھی ہو اور اقتدار تک پہنچنے سے پہلے بھی عوام میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا زبردست ذریعہ بن جائے۔
اسلام نے عورتوں، مزدوروں ، غلاموں، لونڈیوں اور قیدیوں کو جو حقوق دئیے تھے اور جس طرح سے دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کیساتھ ساتھ اپنوں کا زبردست تزکیہ کردیا۔اپنوں کو حکمت اور معاشرت کی تعلیم دی اور کتاب کا دستور العمل دیا تواس نے پوری دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپاکردیا۔ قرآن وسنت کی تعلیم کا ایک آئینہ پیش کیا جائے تو دنیا حیران ہوگی کہ چودہ سو سال پہلے عورتوں کو یہ حقوق دئیے؟۔ کسانوں کو یہ حقوق دیدئیے؟ مزدوروں کو یہ حقوق دیدئیے؟۔ غلاموں اور لونڈیوں کی حیثیت بدل کر ان کو بھی نکاح کے حقوق دیدئیے ؟۔ جن غلاموں کی کوئی شناخت نہیں تھی ان کو اسلامی بھائی قرار دیدیا۔جن لونڈیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی تو اللہ نے فرمایا کہ ”یہ تمہارے ہی جیسی ہیں اور اللہ تمہارے ایمان کو جانتا ہے” النساء ۔ مذہبی طبقے اور کامریڈوں کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کرکے پاکستان سے دنیا بھر کیلئے بہت بڑے انقلاب کا آغاز کیا جائے۔

افغانستان و پاکستان گڈ اوربیڈ طالبان کو علمی تربیت گاہ سے اعتدال کی راہ پر لاکر مشکل سے نکالا جاسکتا ہے؟

9/11, 9/11, 9/11 Altaf Hussain, Jamat e Islami, Afghan Taliban, Molana Fazl ur Rehman

افغانستان و پاکستان گڈ اوربیڈ طالبان کو علمی تربیت گاہ سے اعتدال کی راہ پر لاکر مشکل سے نکالا جاسکتا ہے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ایک ایسی فضاء آئی تھی کہ بہت سارے لوگ اپنے دینی جذبات سے طالبان بن گئے!

عام انسانی معاشرے کی طرح طالبان میں بھی اچھے برے ہرطرح کے افراد شامل تھے

جب اچھے طالبان کو زبردست راستہ دیا جائیگا تو بروں سے اس خطے کو چھٹکارا مل جائے گا

نبیۖ نے فرمایا کہ ” لوگوں کی مثال معدنیات کی ہے جو جاہلیت میں سونا،چاندی تھے وہ اسلام میں بھی سونا چاندی تھے اور جو جاہلیت میں کوئلہ تھے وہ اسلام میں بھی کوئلہ کی طرح ہیں”۔( مفہوم حدیث)
جب نائن الیون (9/11) کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیاتو پوری دنیا کے مسلمانوں کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ امریکہ کے خلاف تھیں۔البتہ کچھ لوگ طالبان کے سخت گیر رویے کی وجہ سے انکے ذاتی مخالف تھے۔ آج امریکہ وطالبان کی دشمنی دوستی میں بدل گئی ہے اور طالبان کا رویہ بھی سخت گیر نہیں رہاہے۔ جب طالبان نے امریکہ کے سامنے سرنڈر ہونے کے بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا تو کوئی بھی ایسا مسلمان نہیں تھا جو دل سے امریکہ کیساتھ اور طالبان کے خلاف ہوتا مگر کچھ لوگوں کی کچھ مجبوریاں ہوسکتی تھیں۔ جن کی مجبوریاں تھیں ان کاتعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔ کچھ لوگ طالبان کے نظریہ ، مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر خلاف تھے اور یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ امریکہ، پاکستان اور افغانستان کی نظروں میں طالبان کے گڈ وبیڈ ہونے کا اپنا اپنا معیار تھا۔ ان تضادات کی وجہ سے سب نے اپنے مفادات بھی اُٹھائے اور نقصا نات بھی اُٹھائے۔
کون ہارا؟ کون جیتا؟۔ انسان ہارا! شیطان جیتا!۔ اگر اسلام کی درست تعلیمات ہوتیں تو امریکہ نے افغانستان، عراق ، لیبیا ، شام اور پاکستان کو اس حال پر کبھی نہیں پہنچانا تھا جس طرح کی تباہی وبربادی سے ہم مسلمان گزرے ہیں۔ ستر (70) ہزار سے زیادہ لوگ دہشتگردوں کے ہاتھوں کام آئے ہیں اور دہشتگردی کے نام پر کتنے لوگ کام آئے ہیں شاید ان کا شمار بھی نہیں ہوسکا ہے۔ جب ایمان والے طالبان عام لوگوں کی زباں میں دہشت گرد بن گئے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جس طرح تبلیغی جماعت میں بہت سے اچھے لوگ بھی اپنا وقت لگاتے ہیں تو بہت سے بدکرداروں کو بھی ٹھیک کرنے کیلئے تبلیغ میں بھیج دیا جاتا ہے، اسی طرح طالبان کو بھی بہت اچھے لوگوں نے بھی سپورٹ کیا اور اس میں شامل ہوگئے اوربہت بدکردار ، مکار اور بدمعاشوں نے بھی اس کواپنی پناہ گاہ بنایا۔ جن میں بہت اچھوں کے علاوہ ملوثی، ہم جنس پرست اور بھتہ خور سب شامل تھے۔
طالبان جسکے بھی وفادار ہیں وہ اپنا مخصوص حلیہ ، ٹائٹل اور شاخت کی نشانی رکھنے پر مجبور ہیں۔کہاوت ہے کہ ” میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے”۔ ایک شخص نے دریا میں کمبل دیکھ کر چھلانگ لگا دی مگر جب ساتھیوں نے اس کی کشمکش کو دیکھا تو کہنے لگے کہ کمبل کو چھوڑ دو، کہیں اس چکر میں اپنی جان سے بھی نہ چلے جاؤ۔ اس نے جواب میں کہا ہے کہ میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہاہے۔اصل میں وہ کمبل نہیں ریچھ تھا۔ جس سے یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔ طالبان نے اسلام سمجھ کر جس کمبل کو پکڑنا چاہا تھا تو اس سے اب انکی جان نہیں چھوٹ رہی ہے۔ افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان میں بہت اچھے اچھے لوگ ایک لہر کی وجہ سے شکار ہوگئے تھے۔ اگر طالبان کی بانی پیپلزپارٹی اور حامی ن لیگ اور تحریک انصاف کو باری باری پاکستانی اقتدار میں لایاجاسکتا تھا تو طالبان کو بھی ایک مؤثر تعلیمی تربیتی نظام سے معاشرے میں موقع دینا انسانیت، اسلام اور پاکستانیت کا تقاضہ ہے۔ ملا عمر اور افغانستان کے طالبان نے وہی کیا تھا جو انہوں نے اپنی شریعت کی کتابوں میں پڑھا تھا۔ پاکستان کی سرزمین میں صرف ہمارے ریاستی ادارے ، عدلیہ،سول وملٹری بیوروکریسی،سیاسی حکمرانوں نے کفر ونفاق اور بدعملی کا لبادہ نہیں اوڑھ رکھا تھا بلکہ علماء اور مذہبی طبقات بھی اسکا شکار تھے۔
پہلے جب طالبان کے جنازے ہوتے تھے تو بہت سے لوگ ان کی خوشبو بھی سونگھ لیتے تھے ۔ لیکن پھر جب لوگوں میں شعور بڑھ گیا تو لوگوں کو خوشبو آنا بھی بند ہوگئی ۔ الطاف بھائی کی تصاویر بھی درختوں کے پتوں پر عوام کو نظر آتی تھیں اور گوہر شاہی بھی عقیدتمندوں کو چاند میں دکھتا تھا جو دراصل چاند کی کالک ہوتی تھی۔

وزیرستان میں غیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟

Waziristan, Corruption in Education, Education Policy in Pakistan, Mawa, Latest news about Education in Pakistan

وزیرستان میںغیرفعال و غیر حاضر اساتذہ پر”ماوا” خاموش کیوں؟
آزاد صحافت: تحریر شفقت علی محسود

نوٹ: کالم کے آخر میں نوشتہ دیوار کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ وہ جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔

تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔

وزیرستان میں تعلیم کے حوالے سے سرکاری حکام کو دردِ دل کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے۔

(1:) تعلیم۔کی اہمت اور ماحول کا اثر:
تعلیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ ممالک، شہر، قوم یا افراد جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی وقت نے انہیں کامیاب کر کے دکھایا۔ تعلیم انسان کو شعور مہیا کرتی ہے اور ”شور” اور ”شعور” میں ”ع” حرف کا فرق ”علم”ہے۔اگر چہ تعلیم کے بعد انسان پر آسمان سے زر و دولت کی بوریا یا نوٹوں کے لفافے نہیں اترتے بلکہ علم سے حاصل شعور سے انسان دنیا کے خزانوں، مال و دولت، اور انسانی ذہن پر حکمرانی کا شرف حاصل کر لیتا ہے۔انسان پر ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے جو ماحول میسر ہوگا اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ ایک خانہ بدوش بچہ باقی دنیا سے کٹ کر صرف بھیڑ، بکریوں اور اپنے خیمے کی بات کریگا کیونکہ اسکے ماحول میں یہی چیزیں گردش کر تی ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانے کے بچے کو دیکھا جائے تو اسکے بول چال، عادات و اطوار گلی میں آوارہ بچے سے بالکل ہی مختلف ہونگی۔ یہ سب ماحول کی وجہ سے ہے۔نقل مکانی کے بعد وزیرستان کے لوگوں نے مختلف علاقوں میں رہائش کے دوران ماحول کا اثر لیتے ہوئے اپنے بچوں کو مختلف سکول اور مدرسوں میں داخل کرانا شروع کر دیا ہے۔
(2:)آپریشن کے بعد وزیرستان کا تعلیمی پس منظر اور رکاوٹیں:
میری تحریر کا مقصد وزیرستان کے موجودہ تعلیمی صورت حال پر روشنی ڈالنا ہے تو میں بات فوجی آپریشن کے بعد کے وزیرستان سے شروع کرنا چاہونگا۔فوجی آپریشن کے بعد اپنے آبائی علاقے میں واپسی شروع ہونے پر لوگ پاکستان کے دور دراز شہروں سے خاندان سمیت واپس وزیرستان میں آباد ہونا شروع ہوگئے ۔ جب دیکھا تو مکان، دکان، ہسپتال اور سکول مکمل طور پر منہدم ہو گئے تھے۔وزیرستان کا تعلیمی نظام مکمل طور پر غیر فعال تھا اب وزیرستان کو آباد کرنے کیلئے نئے سرے سے تعمیرات شروع کی گئیں ۔اکثر منہدم سکولوں کو دوبارہ تعمیر کر نے کا کام شروع کیا گیا اور جو سکول بچ چکے تھے وہ غیر فعال تھے۔پھر وقت کیساتھ ساتھ ان سکولوں کو فعال کرنا شروع کیا گیا۔پہلے سے موجود اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں تعلیم کی بہتری کیلئے ایجوکیشن مانیٹرنگ یونٹ بنائے گئے، نئے اساتذہ کو بھی بھرتی کیا گیا۔ خواندہ وزیرستان کے مقصد کیلئے مختلف ویلفئر بنائی گئیں۔ موجودہ تعلیمی سفر میں دو بڑے مسائل ہیں ۔غیر فعال سکول اور غیر حاضر اساتذہ ۔تعلیم یافتہ وزیرستان کے خواب کی تکمیل کیلئے ضروری تھا کہ موجودہ اساتذہ پوری ذمہ داری کیساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا ۔ اسکی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ فوجی آپریشن کے بعد اساتذہ کی تنخواہیں بدستور جاری رہیں اور (9) یا (10)سالوں تک بغیر ڈیوٹی انجام دئیے تنخواہیں وصول کرتے رہے تو شاید اس نے ان کو مفت خوری کا عادی بنا دیا ہو ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپریشن کے دوران اساتذہ مختلف کاروبار پراپرٹی، ڈسپنسری، دکان اور زمیندارہ وغیرہ شروع کر چکے تھے اب بھلا انکو چھوڑ کر تنخواہ پر گزارہ کرنا آسان نہ تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ غیر فعال سکول ہیں۔یہ سکول فوجی آپریشن سے پہلے فعال تھے لیکن آپریشن کے بعد ان میں سے بعض کی عمارت منہدم ہونے کے بعد آج تک بنی نہیں یا عمارت تو موجود ہے لیکن ابھی تک سکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں شروع نہیں ہوئیں۔یا یہ وہ سکول ہو سکتے ہیں جنکو مالکان، مشران اور علاقے کے بااثر لوگوں نے ان کو بطور مہمان خانہ اور بیٹھک بنائے ہوئے ہیں ۔سکولوں کی دوبارہ بحالی اور اساتذہ کو سکولوں میں ڈیوٹی انجام دینے کیلئے مختلف علاقوں کے نوجوان اپنی جدو جہد کرتے رہے اور آئی ایم یو (IMU)تک اپنی فریاد پہنچاتے رہے مگر کچھ دنوں کی حاضری کے بعد پھر وہی غیر حاضری ۔یہ اساتذہ مختلف بہانے بنا کر ان نوجوانوں کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے کبھی علاقائی امن کا بہانہ بنا کر اپنے آپکو کو غیر محفوظ کہتے تو کبھی رہائش و سہولیات کی عدم دستیابی کا بہانہ کر کے خود کو بے قصور کہتے ۔لیکن ان اساتذہ کی غیر حاضری کسی بڑے سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں۔
(3:) ماوا کی غیر فعال سکولوں اور غیر حاضر اساتذہ پر خاموشی کیوں؟؟
ماوا کا قیام وزیرستان میں تعلیم کے فروغ اور خواندہ وزیرستان کے نعرے سے ہوا اور لوگوں نے بھر پور انداز میں خیرمقدم کیا۔ماوا وزیرستان میں تعلیمی فروغ کیلئے ایجوکیشن سٹی کا قیام عمل میں لایا اور توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں اس سے کافی فوائد وابستہ ہیں،ماوا نے کچھ سکولوں کا سنگ بنیاد بھی رکھا جس میں بچوں کو تعلیم فراہم کی جا رہی ہے ۔ اسکے ساتھ مختلف علاقوں کے غریب بچوں کو پاکستان کے مختلف سکولوں میں فری تعلیم دلوانے اور پہلے سے داخل شدہ بچوں کے اخراجات بھی ماوا برداشت کر رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ماوا خواندہ وزیرستان کے خواب کو پورا کرنے کیلئے نیا سیٹ اپ لانا چاہتا ہے ؟کیا ایجوکیشن سٹی اور دوسرے طرز کے سکول بنا کر پورے وزیرستان میں پھیلانا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اس سیٹ اپ کو پھیلانے میں وقت لگے گا، پانچ (5) سال کے بچے کو اگر آج ہی قلم کتاب نہ تھمائی گئی تو پانچ (5) سال کے بعد یہی بچہ کہیں پر مزدوری ، کلینڈری کرتا نظر آئیگا۔ ہماری وہاں مقیم ایک اور نسل جہالت کے اندھیرے میں ڈوب جائیگی۔چونکہ ہر علاقے میں سکول پہلے ہیں۔ ان سکولوں کا سٹاف بھی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں ہے۔ ان سکولوں کو فعال کرنے اور ان میں معیاری تعلیم کی کوشش کرنا وقت کی ضرورت ہے۔اگر ماوا واقعی خواندہ وزیرستان دیکھنا چاہتا ہے تو پھر وزیرستان کے ہر علاقہ کے سکول کو فعال ، غیر حاضر اساتذہ کو ڈیوٹی انجام دینے کیلئے کوشش کرنی ہوگی ۔سرا روغہ گرلز مڈل سکول کے متعلق خبر چلی کہ سکول عرصہ سے بند ہے، آٹھ (8)فیمیل ٹیچرز کافی عرصہ سے غائب ہیں۔ کیا ضروری نہیں کہ اس طرف توجہ دی جائے۔ اکثر سکول غیر فعال ہیں یا اساتذہ غیر حاضر ہیں ۔کیا ماوا نے ان کی فعالی اور اساتذہ کی حاضری کیلئے آواز اٹھائی ہے اگر نہیں تو کیوں؟۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ متعدد سکول ماوا سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں یا انکے جان پہچان والوں کے زیر کنٹرول ہیں اور ان پر ڈیوٹی دینے والے اساتذہ انکے رشتہ دار ہیں؟۔وادی بدر کے غیر حاضر اساتذہ اور بند سکولوں کی بحالی کیلئے آواز اٹھائی گئی تو پہلے مختلف طریقوں سے ان نوجوانوں کو چپ کرانے کی کوشش کی لیکن جب نوجوانوں نے ایک نہ مانی اور مختلف ویڈیو رپورٹ سوشل میڈیا کمپیئن کے ذریعے انکے خلاف ڈٹے رہے تو ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران آئے اور علاقے کے مشران اور نوجوانوں کو دھمکیاں دیں کہ کیوں انہوں نے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف ویڈیوز رپورٹ بنائیں۔اس واقعہ کی تفصیل مشران کی زبانی ایک ویڈیو میں موجود ہیں۔کیا ماوا اس سارے واقعہ سے با خبر ہے۔ اگر ہاں تو خاموشی کیسی؟ ۔اور اگر نہیں تو کیا خواندہ وزیرستان کا نعرہ صرف بروند اور مولے خان سرائے تک محدود ہے؟ ماوا کے ذمہ داروں کو لوگوں کے تحفظات دور کرنے ہونگے، اعتماد میں لینا ہوگا لیکن اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں یہ تحفظات پوری جماعت کی ہونگی ،تب مطمئن کرنے میں کافی دیر ہو چکی ہوگی۔
جوابی تبصرہ : نور ولی محسود
محسود ویلفئیر ایسوسی ایشن اپنی بساط و دائرہ کار کے تحت مسئلے کو شروع دن سے ڈیل کررہی ہے۔ ماوا مشران نے ہر فورم پر اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ جب بھی متعلقہ محکموں کیساتھ بیٹھک ہوئی ہے، اس مسئلے کی جانب توجہ ضرور دلائی ہے۔ ابھی(5)مئی (2021) کو بھی ماوا کے مشران پر مشتمل ایک اعلی سطحی وفد نے سیکریٹری ایجوکیشن اور سیکریٹری ہیلتھ کے پی کے (KPK) کیساتھ خصوصی ملاقاتیں کیں۔ مقصد انہیں علاقے میں موجود غیر فعال تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کی نشاندہی اور ان کو از سر نو فعال کرنے کی جانب توجہ دلانا تھا۔ اگلی نشستیں عید کے بعد ہونگی۔
تبصرہ : ماہنامہ نوشتۂ دیوار کراچی
وزیرستان کی محسود قوم میں دونوں افراد کے جذبات کا مختصر خلاصہ پیش کردیا ہے۔ وزیروں نے اپنی ایک فلاحی تنظیم کے ذریعے سے اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کا اہتمام کررکھا تھا اور یہ جذبات محسود قوم میں بھی جاگ اُٹھے ہیں۔ فوجی آپریشن سے پہلے بھی مسائل کا سامنا قبائل کے تعلیمی نظام کو تھا۔ البتہ فوجی آپریشن سے پہلے طالبان کی دہشت گردی اور پھر فوجی آپریشن کے بعد تعلیمی نظام کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ شفقت علی محسود نے بھی ایک تنظیم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور اچھی اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔ نور ولی محسود نے بھی معقول جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ بندوق اور بارود کی جگہ تعلیم اور شعور کی طرف متوجہ ہوں تو بہت بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔
اسلام کی آفاقی تعلیم پر کامریڈ اور طالبان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ شعورکو اُجاگر نہ کیا گیا تو جاہلیت کا اندھیرا ماردے گا۔ علم کیساتھ نظام کا درست ہونا ضروری ہے ۔ یہ شعور کا خلاصہ ہے۔

مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، مفتی منیب الرحمن تمام مذہبی طبقات قرآن کی دو آیات کیلئے ایک کمیٹی بنادیں

Molana Fazl ur Rehman, Mufti Muneeb Ur Rehman, Jamat e Islami, Molana Modudi, Surah An-Nisa, Surah Al-Baqarah

مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، مفتی منیب الرحمن تمام مذہبی طبقات قرآن کی دو آیات کیلئے ایک کمیٹی بنادیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ بقرہ کی آیت(229)اور سورۂ النساء کی آیت(19) کی وضاحت کئی مسائل کا بڑاحل ہے

افغانستان، فلسطین اور کشمیر کی فکر کرنے والوں نے مسلمانوں کو کس حال پر پہنچادیا ہے؟

عورتوںکو قرآن نے کیا حقوق دئیے ہیں اور مذہبی طبقات نے اس کا کیا حشر کردیا ہے؟

سورۂ بقرہ کی آیات (222) سے (232) تک میں عورتوں کے حقوق اور طلاق کے مسائل کی زبردست تفصیل ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی اور ہم نے کتاب ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے نازل کی۔ ایک ایک آیت میں حیران کن عالمِ انسانیت کی تقدیر کی کایا پلٹ دی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ مذہبی طبقے نے یہودونصاریٰ کے علماء ومشائخ کی طرح انسانی فطرت کے عین مطابق دین کو اپنی جانور صفت جگالی سے چبا چبا کرکھائے ہوئے بھوسے کی طرح بنادیا ۔ یہ شکر ہے کہ قرآن کے الفاظ کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے دادا پیرمولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ” حیلہ ٔ ناجزہ” میں لکھ دیا ہے کہ ” اگر شوہر بیوی کو تین طلاق دیدے تو بیوی اس پر حرام ہے۔ پھر اگر شوہر مکر جائے تو عورت کو دو گواہوں کی ضرورت ہوگی اور اگر اسکے پاس دو گواہ نہ تھے اور شوہر نے قسم کھالی تو عورت کو خلع لینا چاہیے اور اگر شوہر خلع پر بھی راضی نہ ہو تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی”۔ یہ مسئلہ فقہ کی کتابوں کا ہے ۔ اگر قرآن کا درست ترجمہ وتفسیر سمجھ میں آجاتا تو اس قسم کی واہی تباہی کے مسائل گھڑنے کی کبھی نوبت نہیں آسکتی تھی۔
خلع و طلاق میں حقوق کا فرق ہے۔ خلع میں غیر منقولہ جائیداد شوہر کو واپس کرنی ہوگی جبکہ منقولہ اشیاء اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے اور طلاق میں منقولہ وغیرمنقولہ تمام اشیاء عورت کا اپنا حق ہیں۔شوہر نے بہت سارے خزانے دئیے ہوں تب بھی واپس لینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔ سورہ النساء کی (آیت19،20،21) میں یہ معاملات بالکل واضح ہیں۔ سورۂ بقرہ آیت (229) میں بھی طلاق کا معاملہ ہے جس میں تمام دی ہوئی چیزوں کو واپس لینے کا حلال نہ ہونا واضح ہے مگر ایسی صورت میں جب دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس بات پر متفق ہوں کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں میں علیحدگی کے بعد ایسا رابطہ بن سکتا ہے کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں تو ایسی صورت میں صرف وہی دی ہوئی چیز کے فدیہ کرنے میں ان دونوں پرکوئی حرج نہیں ہے”۔
آیت میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد اس صورتحال کی وضاحت ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ ”شوہر کی طرف سے دی گئی چیزوں میں سے کچھ بھی واپس لینا حلال نہیں ہے لیکن جب دونوں ایک مجبوری پر متفق ہوں کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے تو ایسی صورت وہ چیز جس کو واپس نہ کرنے کی وضاحت ہے اور ایک مجبوری کے تحت فدیہ کرنے میں واپس کرنے کی گنجائش نکالی گئی ہے تو اس کو خلع کیلئے معاوضہ قرار دینا بہت بدترین قسم کی جہالت ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیدمودودی نے اپنے ترجمہ وتفسیر ” تفہیم القرآن” میں اس جہالت کا بہت واضح الفاظ میں مظاہرہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا تنخواہ دار مولوی طبقہ بھی سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود اپنی نوکری کی خاطر اس جہالت سے پردہ نہیں اٹھاتا ہے۔
جب ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تومقرر نصف حق مہر اور وسعت کے مطابق آدھا حق مہر ضروری ہے۔ ہاتھ لگانے اور بچے پیدا کرنے کے بعد باقی نصف حق مہر کی کیا حیثیت رہتی ہے؟۔ حق مہر شوہر کی طرف سے عورت کو راضی رکھنے کی سیکورٹی ہوتی ہے ۔جب عورت خلع یا طلاق کے مرحلے سے گزرتی ہے تو قرآن نے اسکے اختیار اور حقوق کو پورا پورا تحفظ دیا ہے لیکن ہمارا مذہبی طبقہ اتنا بے ایمان ہوچکا ہے کہ اللہ کے واضح احکام کو سمجھنے کے باوجود بھی اپنے مفاد کیلئے قبول نہیں کرتا۔جب مولوی نے عورت کے حقوق کو غصب کردیا ہے تو پھر مولوی پنجابی ہو تو جہیز کی لعنت کا خاتمہ اس کیلئے ممکن نہیں اور پختون ہو تو حق مہر کے نام پر بیٹی اور بہن کو بیچنے کے خلاف آواز نہیں اُٹھا سکتا۔ قرآن وسنت سے لوگ بیگانہ اور مولوی اسپیئر وہیل ہے۔

قرآن کریم کا درست ترجمہ وتفسیر تمام مشکل مسائل کا بہترین حل ہے لیکن افسوس کہ غلطیوں پر غلطیاں ہیں!

Hamid Meer, Ghulam Ahmed Perwez, PDM, Molana Fazl ur Rehman, Surah Nissa

قرآن کریم کا درست ترجمہ وتفسیر تمام مشکل مسائل کا بہترین حل ہے لیکن افسوس کہ غلطیوں پر غلطیاں ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ النساء کی آیت اُنیس (19)کا ترجمہ وتفسیر بہت واضح ہے لیکن علماء نے اس میں خیانت کی

پھر غلام احمد پرویز کی فکر سے متأثر ہونے والوں نے مزید موشگافی سے معاملہ خراب کیا!

اب انصار عباسی جیسے لوگوں نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر قرآن و فطرت پر حملہ کردیا!

ےٰایھا الذین اٰمنوالا ترثوا النسآء کرھًا ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض مآ اتیتموھن الا ان یأتین بفاحشةٍ مبےّنةٍوعاشروھن بمعروفٍ فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئًاویجعل اللہ فیہ خیرًا کثیرًاO
ترجمہ ” اے ایمان والو! عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو۔ اور نہ اسلئے ان کو جانے سے روکو کہ جو کچھ بھی تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے بعض واپس لے لو مگر جب وہ کھلی فحاشی کے مرتکب ہوں۔ اور ان سے حسن سلوک کا برتاؤ کرو۔ اگر وہ آپ کو بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز بری لگے اور اس میں اللہ بہت سار ا خیر بنا دے”۔ (سورہ ٔ النساء آیت19)
سورۂ النساء (آیت19) میں عورتوں کے خلع کا حق اور آیات (20) اور (21) میںطلاق کے بعد عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت(229)میں طلاق کے بعد عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں مگر وہاں ناممکن انتہائی غلط طور پر خلع مراد لیا گیا۔ اگر قرآن کا ترجمہ وتفسیر درست طور پر سامنے رکھا جائے تو پوری دنیا سمیت تمام فرقے اورمسلک اس کو قبول کرنے میں لمحہ بھر دیر نہیں لگائیں گے۔
سورۂ النساء کی آیت(19)میں مردوں پر عورتوں کے خلع کا حق واضح کرکے فرمایا گیا ہے کہ ” اے ایمان والو! تم عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو اور نہ اسلئے ان کو روکو کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں بعض ان سے واپس لے لو مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی فحاشی کی مرتکب ہوں”۔ شوہر زبردستی سے بیوی کا مالک نہ بنے اور وہ ان چیزوں کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کا حق رکھے جو شوہر نے دی ہیں اور شوہر بعض چیزوں کو بھی واپس نہ لے سکے مگر یہ کہ جب عورت کھلی فحاشی کرے تو اس سے زیادہ عورت کو حق اور کیا چاہیے؟۔
جب کوئی عورت شوہر اور اپنے بچوں کا گھر اُجاڑ ے توپھر خدشہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکے ساتھ بدسلوکی کا برتاؤ کیا جائے۔ لیکن اللہ نے واضح حکم دیا کہ ” ان کیساتھ حسنِ سلوک کا برتاؤ رکھو، اگر وہ تمہیں بری لگتی ہوں توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اس میں اللہ بہت سارا خیر بنادے”۔ جب عورت کو زبردستی سے گھر میں روکا جائے تو وہ اپنی عزت اور شوہر کے ناموس کا ستیاناس کرسکتی ہے۔ خود کشی اور خود سوزی کرسکتی ہے۔ بچوں وگھر کے افراد کو زہر کھلا کر مار سکتی ہے ۔ کئی واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ عورت جانور نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر شوہر خود کو اس کا مالک تصور کرنے لگ جائے اور اس کی وجہ سے معاشرے کو بہت سنگین واقعات اور لڑائی جھگڑوں اور قتل وغارتگری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلئے اللہ کے اس حکم میں بہت سارا خیر یقینی طور پر اللہ نے رکھا ہے۔ عورت خلع لے یا اس کو طلاق ہو ،بہرحال حسنِ سلوک کے ساتھ اس کی رخصتی کا عمل معاشرے کے بہترین مفاد میں ہے۔ قرآن کی اس آیت میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔
آیت پر پہلا حملہ مفسرین نے کیا ہے کہ قرآن کے جملوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مسل کر رکھ دیا ہے اور وہ اس طرح سے کہ ” عورتوں کے زبردستی سے مالک بن بیٹھو اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ بعض چیزوں کو ان سے واپس لے لو”۔ میں دو الگ الگ طرح کی عورتیں مراد لیں۔ دوسرا حملہ پرویزیوں نے کیا کہ فحاشی کے باوجود بھی عورت کو حسنِ سلوک کیساتھ اپنے ساتھ رکھو ہوسکتا ہے کہ تمہارے لئے اس میں اللہ خیر بنادے۔علماء نے اپنی خود ساختہ شریعت میں قرآن وسنت کے بالکل برعکس عورتوں کے حقوق بالکل اتنے سلب کرلئے ہیں کہ کوئی انسانی اور فطری معاشرہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے اسلئے اللہ نے بعض انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا مگر جنہوں نے جہالت سے ایسا کیااوراس پر اصرار نہ کریں اور توبہ کریں تو پھر وہ اچھے لوگ ہیں۔

شیعہ عالمِ دین علامہ امین شہیدی کا اُم المؤمنین حضرت عائشہ کی ناموس کو سب سے زیادہ مقدس قرار دینا اور قرآن میں بہتان کے واقعہ پر اپنوں کیلئے دلیل پکڑنا!

Shia Sunni, Karbala, Hazrat Ayesha, Mufti Tariq Masood

شیعہ عالمِ دین علامہ امین شہیدی کا اُم المؤمنین حضرت عائشہ کی ناموس کو سب سے زیادہ مقدس قرار دینا اور قرآن میں بہتان کے واقعہ پر اپنوں کیلئے دلیل پکڑنا!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امین شہیدی نے واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ” یہ سب قرآن میں ہے” حالانکہ قرآن میںواقعہ کا اجمالی تذکرہ ہے!

اگر واقعہ میں اللہ کی حکمت یہی تھی کہ بہتان لگانے والوں کو کافر نہیں کہا گیا تاکہ برا بھلا کہنے والوں کو کافر نہ کہا جائے تو

پھر یہ حکمت بھی ہوگی کہ حضرت علی کے بارے میں غلو کرنے والے اہل تشیع بھی اپنے عقائد میں کچھ اعتدال پیدا کریں!

اہل تشیع کے معروف و معتدل عالمِ دین علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ ”حضرت عائشہ کے جوتوں پر لگنے والی گرد کو بھی ہم اپنی آنکھوں کیلئے بڑا اعزاز سمجھتے ہیںاسلئے کہ ام المؤمنین کا شرف آپ کو حاصل تھامگر آپ پر بہتان لگایا گیا تو ایک ماہ تک یہ ایک زبان سے دوسری زبان تک گردش کرتا رہا، نبیۖ نے قطع تعلق رکھا، حضرت عائشہ نے کہا کہ مجھ پر زمین تنگ تھی اور جن صحابہ نے یہ بہتان لگایا تو ان میں بدری شامل تھے۔ یہ سب واقعہ قرآن میں ہے۔اس سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ ام المؤمنین کو برا کہنے سے کوئی کافر نہیں بنتا، ورنہ ان سب صحابہ پر کفر کا فتویٰ لگتا۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ حضرت عائشہ کو برا بھلا کہنا جائز ہے۔ان کا احترام ہم پر ضروری ہے کیونکہ آپ مؤمنوں کی ماں ہیںلیکن قرآن کے اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اتنا بڑا بہتان لگانے والوں کو بھی کافر نہیں قرار دیا گیا، جس کی حکمت یہ تھی کہ آئندہ بھی کوئی برا بھلا کہے گا تو کافر نہیں ہوگا”۔
ہم علامہ امین شہیدی کے بیان پر تبصرہ ضروری سمجھتے ہیں۔ پہلی بات یہی ہے کہ قرآن میں وہ تمام تفصیلات نہیں ہیں جن کو علامہ نے قرآن کی طرف اپنی لاعلمی کی وجہ سے منسوب کیا ہے۔ غلام احمد پرویز نے یہ لکھا کہ ” اہل سنت کی احادیث کی کتابوں میں اہل تشیع نے سازش سے حضرت عائشہ کانام ڈال دیا ہے، قرآن میں حضرت عائشہ کے نام کی کوئی بات نہیں ہے”۔
تاہم جن قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ میں واقعہ کی تفصیلات ہیں وہ بھی اسلام کیلئے بہت بڑا اعزاز اور انسانیت کیلئے نجات کا ذریعہ ہیں۔ قرآن میں یہ بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اگر تم یہ بات سنتے ہی کہتے کہ یہ بہتان عظیم ہے تو یہی تمہارے لئے بہتر تھا”۔ (سورۂ نور) احادیث و تفسیر کی کتابوں میں بعض صحابہ کے نام موجود ہیں جنہوں نے اس کو بہتان ہی قرار دیا تھا۔یہ اعزاز ام المؤمنین حضرت زینبنے بھی حاصل کیا تھا جس کی حضرت عائشہ سے سوکن ہونے کی وجہ سے بنتی بھی نہیں تھی اور اس دشمنی کی وجہ سے آپ کی بہن حضرت حمنا نے بھی اس بہتان میں حصہ لیا تھا اور اس کی وجہ سے اسّی (80)کوڑوں کی سزا بھی کھانی پڑی تھی۔ اہل تشیع اپنی کتابوں میں دیکھیں کہ حضرت علی اس میں شامل تھے یا نہیں؟ اور اگر نہیں تھے تو دوسرے کئی صحابہ کی طرح ان کی شان پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا ہے ۔ البتہ جب ایک مہینے تک وحی نازل نہیں ہوئی تو علی مولائے کائنات نے اس مشکل میں رسول اللہۖ کی مدد کیوں نہیں کی؟۔ شاید اس کی وجہ یہی تھی کہ آنے والے مخلص شیعہ حضرت علی کی امامت کو نبیۖ سے بھی زیادہ اہمیت اور عقیدت سے دیکھیںگے۔ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ کی برأت کیلئے بھی حضرت نبیۖ اور حضرت علی کی موجودگی سے کوئی فائدہ نہیں تھا تو پھر بارہ امام اور آخری امام کی امیدوں پر اُمت کو ورغلانے کی بجائے قرآن کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت پر زور دیناتھا مگر افسوس کہ سنی شیعہ کسی نے بھی یہ نہیں کیا۔
اہل تشیع کے امام خمینی نے انقلاب برپا کرکے کمال کردیا اور ملاعمر نے بھی حکومت قائم کرکے کمال کردیا لیکن اسلام کے درست خدو خال اجاگر کیے بغیر کام نہیں چلے گا۔ تعصبات کی فضاؤں سے نکلنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔
خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علی کے قد کاٹھ بہت اونچے تھے اسلئے شیعہ سنی کے بونے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں کہ کس کا مقام بلند ہے اور کس کا درجہ کم ہے۔ کسی کو بڑا یا چھوٹا درجہ دینا ہمارا کام بھی نہیں ہے۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے درباری علماء ومفتیان کو کھلایا پلایا تو اس کو بھائیوں کے قتل اور باپ کو قید کرنے کی سزا بھی معاف کردی گئی۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد شیخ الاسلام ابویوسف قاضی القضاة چیف جسٹس تھے لیکن امام ابوحنیفہ کو جیل کے اندر تنہائی کی قید میں زہر دے کر شہید کردیا گیا تھا۔
مفتی محمود کو وفاق المدارس کے صدر اورمفتی اعظم پاکستان کا مقام ملا تھا۔ جنرل ضیاء الحق پر مفتی محمود کے علم وعمل کو قربان کیا گیا اور پھراسلام کے نام پر بھی ریفرینڈم میں جنرل ضیاء کو مجسمہ اسلام قرار دیا گیا۔ اکبر بادشاہ مغل اعظم کو بھی سجدہ تعظیمی کا مستحق قرار دیا گیا۔ ہردور کے یزیدکو اپنے وقت کے قاضی شریح بھی حسین کے قتل کیلئے میسر آگئے۔ ان کی بصیرت پر اعتماد کرکے خلفاء راشدین کے درجات بھی حکومت میں نمبروار کے حساب سے دئیے گئے۔ خلافت عباسیہ میں حضرت علی کی اولاد کو اقتدار سے محروم کرنے کیلئے حضرت علی کے باپ کو ہی دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی روایتیں گھڑی گئیں۔ حالانکہ ابوبکر،عمر ، عثمان کے باپوں سے زیادہ حضرت علی کے باپ نے اسلام کی خدمت کی تھی۔ قرآن کا واضح پیغام ہے کہ جنہوں نے نبیۖ اور مؤمنوں کو ٹھکانہ دیا اور مدد کی تو وہی سچے مؤمن ہیں۔ الذین آؤواونصروااولئک مؤمنوں حقًا حنفی مسلک والوں کا یہ فرض ہے کہ ابوطالب کے بارے ان روایات کو رد کریں جو قرآن کے منافی ہیں۔ یہ کس قدر بیکار بات ہے کہ حضرت علی سے زیادہ حضرت عباس کی اولاد خلافت کی مستحق تھی اسلئے کہ علی کے والد نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور چچاکے مقابلے میں چچازاد کی اولاد خلافت کی مستحق نہیں ۔ پھر خلفاء راشدیناور بنوامیہ کے خلفاء کا کیا بنے گا ؟ جو نہ چچاکی اولاد تھے اور نہ چچازادکی اولاد تھے۔
امام بخاری نے اہل بیت کیساتھ علیہ السلام لکھ دیا مگر ان کی روایات کو نقل کرنے سے گریز کیا اور پھر حضرت عائشہ پر ایسا بہتان باندھ دیا کہ اپنی بہن کے ذریعے دودھ پلاکر بڑوں کو محرم بناتی تھی۔ حنفی مسلک نے کئی روایات کو قرآن کے منافی قرار دیکر ٹھکرانے کا درست فیصلہ کیا۔امام بخاری نے اپنے خلوص اور حالات کے مطابق نیک نیتی سے جو کچھ کیا وہ حرفِ آخر بالکل بھی نہیں ہے۔

افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے بعد بھی پاکستان میں امریکن فوج کی موجودگی پر بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ کیا پاکستان کو مزید بربادی کی طرف دھکیلا جار ہاہے؟

American troops withdraw from Pakistan, Afghan Taliban, Molana Fazl Ur Rehman, 9/11,

افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے بعد بھی پاکستان میں امریکن فوج کی موجودگی پر بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ کیا پاکستان کو مزید بربادی کی طرف دھکیلا جار ہاہے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

اب القاعدہ کے نام پر امریکی فوج کو افغانستان میں کھیلنے کی اجازت پاکستان سے نہیں دے سکتے۔ مولانا فضل الرحمن

پارلیمنٹ نے” پرویزمشرف کی امریکی فوج کو اجازت منسوخ کردی تھی” جنرل کیانی راضی تھے۔سینیٹر مشاہد حسین سید

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ”عمران خان کی موجودگی میں کوئی امریکی اڈہ نہیں بن سکتا” لیکن پہلے اڈوں کااب کیا بنے گا؟

یکم مئی کو افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء ہونا تھا پھر ستمبر(2021) تک نئی ڈیڈ لائن ہے۔ میڈیا نے معید یوسف کو امریکی امور کاماہر پیش کیا تھا اور تحریک انصاف کی حکومت نے سرکاری معاملات اس کو ہی سونپ دئیے ہیں۔ جنیوا میں امریکن ذمہ دار نے معید یوسف سے ملاقات میں کیا بات طے کی ؟ امریکہ کا بیان آیاکہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مل گئی۔ قطر اور ازبکستان میں امریکہ کے پاس فوجی اڈے ہیں لیکن وہ سی پیک اور چین اور بھارت کے تنازعہ میں بھارت کا ساتھ دینے کیلئے پاکستان میں اڈے برقرار رکھنا چاہتا ہے اسلئے کہ جنگ ہوتو چین سے امریکہ کے اڈے بھارت میں محفوظ نہ ہونگے اور پاکستان میں امریکہ کی حفاظت پاکستان پر ہوگی۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ’ ‘ نائن الیون (9/11)کے بعد پرویزمشرف نے (2001) میں اڈے دئیے۔ سلالہ کا واقعہ ہوا تو پیپلزپارٹی دور میں رضا ربانی کی زیرِصدارت پارلیمانی کمیٹی نے یہ مشترکہ فیصلہ کیا کہ امریکہ سمیت کسی غیرملکی فوج کو پاکستان سے کسی دوسرے ملک پر حملے کی اجازت نہیں ہوگی۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی متفق تھے۔ ستمبر(2021) کو امریکی فوج افغانستان سے نکلے تو معاہدہ ختم تصور ہوگا جونائن الیون (9/11)کیلئے ہوا تھا”۔پچاس (50) ہزار سے زیادہ فضائی حملے کئے تو امریکہ نے(2004) میں یہاں سے آپریشن بند کیا اسلئے کہ ضرورت نہ تھی اور پہلے سے بند آپریشن کیلئے یہ جھوٹا تیر مارا گیا تھا جو فخر سے بتایا جارہاہے؟۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں کہا: ” عمران خان کی موجودگی میں کوئی امریکی اڈہ نہیں بن سکتا ”۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنے اڈے بنارکھے تھے تو اس کو پاکستانی اڈوں کی ضرورت بھی نہیں تھی۔اگر افغانستان سے نکلنے کے بعد پاکستانی اڈوں کو دوبارہ آباد کریگا تو پاکستان کیخلاف جہاد ہو گا۔ امریکی کیمپوں سے پشت پناہی ہوگی ،پاکستان مکافات عمل کا شکار ہوگا۔ امریکہ کی کرپٹ فوج کو اُمت مسلمہ کے خلاف کاروائی میں بڑے ٹھیکے ملتے ہیں۔ اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ کا کاروبار ہوتا ہے۔افغانستان اور پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کی فوج کو بھی کچھ مفاد ملتا ہے۔ جنگل کے طاقتور جانوروں کی طرح گوشت کا وافر حصہ بڑے ترقی یافتہ ممالک کی فوجیں کھا جاتی ہیں اور پسماندہ ممالک کی فوجوں کو لگڑ بگڑ کی طرح بچی کھچی ریزگاری پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے مؤقف پیش کیا کہ” پاکستان سے افغان طالبان کیخلاف امریکہ کو سازش نہیں کرنے دینگے۔ اب القاعدہ کے نام پر دوبارہ ڈرامہ نہیں چلے گا”۔ پی ڈی ایم (PDM)کے اجلاس پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس کا مطالبہ کیا۔
اوریا مقبول جان نے کہا کہ امریکہ میںنائن الیون (9/11)کے وقت آئی ایس آئی (ISI) کا چیف جنرل محمود بھیک مانگنے کیلئے گیا تھا لیکن امریکی حکام نے بھیک دینے سے صاف انکار کیا تھا، دوسرے دن نائن الیون (9/11) کا واقعہ ہوا توامریکی سی آئی اے کے چیف نے جنرل محمود کو روتے ہوئے گلے لگایااور امریکی امداد کے عوض پاکستان نے اڈے دینے اور بھرپور مدد کرنے کو اپنے لئے غنیمت سمجھ لیا تھا۔ دھمکی سے بات منوانے کا افسانہ غلط تراشا گیا ہے۔ یہ تو ازراہ تفنن ایک اضافی جملہ تھا اور کچھ نہیں۔
اوریا مقبول جان نے بتایا کہ ہمارا فیصلہ غیرت یا خوف نہیں مالی ضرورت پر ہوتا ہے۔ ملٹری وسول اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ، سیاستدان ، میڈیا اپنی اپنی منڈیوں کے ہیرے ہیں لیکن ہیرہ منڈی خوامخواہ بدنام ہے۔ امریکی سینیٹر نے کہا تھا کہ ”پاکستانی پیسوں کیلئے اپنی ماں کو بھی بیچتے ہیں”۔ جنرل محمود نے دھرتی ماں کو بیچا تو تبلیغی جماعت میں گناہوں کی تلافی کرالی۔ کوئی مزاروں اور زیارتوں سے گناہوں کی تلافی کراتا ہے ۔بلا سو چوہے کھاکر حاجی بنتاہے۔ بھلے شاہ نے کہا: تسبیح پڑھی مکاراں والی تے داڑھی کیتی چھٹی۔ اے ملا تیرے کولوں ککڑ چنگا۔
جج، سیاستدان، جرنیل، بیوروکریٹ ، ملااور صحافی کسی کا ایسا کردار نہیں جو حبیب جالب کی روح کو زندہ کرے۔ کوئی کہتاہے کہ پاکستان برائے فروخت ہے ،کوئی کہتا ہے کہ انصاف برائے فروخت ہے، کوئی کہتا ہے کہ فتویٰ برائے فروخت ہے، کوئی کہتا ہے کہ جہاد برائے فروخت ہے، کوئی کہتاہے کہ سیاست برائے فروخت ہے ۔ اب ہمارا معیار یہ ہوگیا کہ عامر لیاقت، مراد سعیداور فیاض الحسن چوہان جیسے بھانڈلیڈر بن گئے۔ لوگ اب یہ کہتے ہیں کہ کنجروں کو کمی پہلے بھی نہیں تھی مگر اب عمران خان کی شکل میں ان کو اپنا لیڈر بھی مل گیا ۔
سوشل میڈیا پر ایک طرف ملالہ یوسفزئی کو اسرائیل کاا یجنٹ کہا گیا کہ اس نے صرف عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کیوں کی؟ ، ظالم اسرائیل کی مذمت نہیں کی تو دوسری طرف چالیس اسلامی ممالک کے فوج کے سپاہ سالار کو عربوں کیساتھ تلوار اٹھاکر ناچتے ہوئے دکھایاگیا کہ اسرائیلی حملوں پر جشن منارہا ہے۔

The shameful role of smuggling coal from the heart of Waziristan, the forests of Badr Valley to Afghanistan continues with great shamelessness in Imran Khan’s government.

Plant for Pakistan, Plant for Pakistan Waziristan, Waziristan, Politics, Politics, Forests, Badr Valley, Badr Valley

وزیرستان کا دل وادیٔ بدر کے جنگلات(Forests) کوئلہ بناکر افغانستان because سمگلنگ کرنے کا شرمناک and کردار عمران خان کی حکومت میں بہت ہی بے شرمی و بے غیرتی کیساتھ جاری ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وزیراعظم عمران خان نے خیبر so پختونخواہ میں نئے درخت لگانے کا جوجھوٹا دعویٰ Badr Valley کیا تھا وہ تو اپنی جگہ لیکن وزیرستان کی بہار سرسبز وشاداب درختوں کے جنگل(Forest) بھی چوری کرکے کاٹ and دئیے گئے۔ وزیرستان میں گیس کا کوئی تصور نہیں ہے مگر لوگوں نے جنگلات(Forests) کی حفاظت پھر بھی کی ہے۔ وزیرستان کے دل and وادیٔ بدر کے درخت کاٹ کاٹ کر کوئلہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے جو افغانستان سمگل and ہورہے ہیں۔ یہ کتنی شرمناک بات ہے؟۔ متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی مگر نوٹس نہیں لیا ۔
صدر. مملکت Badr Valley عارف. علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی. آئی ایس آئی and (ISI)، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس

zarbehaq

پشاور ہائیکورٹ اسکا فوری نوٹس لے اور وزیرستان کی آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے .and کے بعد کم ازکم جنگلات(Forests) . کو بچانے میں کردار ادا کریں۔ درخت اور جنگلات(Forests) توکوئی گناہگار نہیں ہیں؟۔ سوشل میڈیا پر اس کی مکمل ویڈیو اور تفصیلات موجود ہیں۔ ریاست کا کام عوام کو سہولت فراہم Badr Valley کرنا ہوتا ہے، معاشرتی برائیوں اور ماحولیاتی آلودگیوں سے ان کو بچانا ہوتا ہے لیکن ہماری because ریاست اپنی نااہلی اور مفادپرستی so کی وجہ سے اُلٹا. لٹکنے کو ہی so اپنا حق اور فرض but منصبی سمجھتی ہے۔ ایسے حکمرانوں پر بہت برا وقت جلد آسکتا ہے۔
پشاور کے میٹرو کوبرج Badr Valley کے ذریعے اٹھا کر. یونیورسٹی. روڈ پر رحم کیا جاسکتا. تھا مگر پرویز because خٹک اور عمران خان نے مہنگے ترین کاروباری مراکز کا بیڑہ غرق کردیا۔

Is Ansar Abbasi’s attack on Quran the Trinity of Lahore the Islam of the Royal Mosque, Data Darbar, and Heera Mandi?

Orya Maqbool Jan, Orya Maqbool jan, Women rights in Islam, Reham Khan, Surah Noor, Journalist Ansar Abbasi, Reham Khan, Reham Khan, Reham Khan, Reham Khan, Reham Khan, Surah Noor, Surah Noor

انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) کا قرآن پرحملہ کیاتختِ لاہور کی تثلیث شاہی مسجد،داتا درباراور ہیرہ منڈی کا اسلا م ہے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

انصارعباسی نے کہا ”اگر بیوی سے کوئی بدکاری کا تعلق رکھے تو قرآن میںبستر الگ کرنے کا حکم ہے” حالانکہ یہ قرآن نہیں بہت بڑابہتان ہے ۔ اوریامقبول جان(Orya Maqbool Jan) ، راجہ سلمان اکرم اور حسن نثار نے بھی قرآن اور فطرت کاکوئی دفاع نہیں کیا۔

اللہ نے فرمایاکہ ” خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے ہیں ، پاک مرد پاک عورتوں کیلئے اور پاک (Surah Noor) عورتیں پاک مردوں کیلئے ہیں”۔سورۂ نور

اللہ نے فرمایا کہ ”زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کردیا گیا ہے”۔سورۂ نور(Surah Noor) ۔قرآن واضح ہے۔

اسلام کے نام پر امریکہ اور تختِ لاہور نے پختون معاشرہ دہشتگردی سے تباہ کردیا لیکن میڈیا پر اصلی اسلام اور قرآن کی جگہ من گھڑت اسلامی احکام کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھا ہے

کسی بھی شوہر کیلئے اپنی عورت کا سب سے بڑا سنگین معاشرتی جرم یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص سے جنسی تعلقات قائم کرے۔ جو انسانی فطرت اور غیرت کا جنازہ ہے۔ ایسا معاشرہ جانوروں سے بدتر ہے۔اللہ نے فرمایا ” زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی یا مشرک سے اور مؤمنوں پر یہ حرام کیا گیا ہے”۔ (سورۂ نور-Surah Noor) نعیم بخاری نے اداکارہ طاہرہ سید سے نکاح کیا، نواز شریف سے تعلق پر چھوڑ دیا۔ بیوی کے غلط تعلق پر بستر الگ کرنے کا معاملہ قرآن نہیں کوئی دیوث کریگا۔ کیپٹن صفدر اور مریم نواز کیلئے قرآن کے احکام میں تبدیلی کی حرکت بہت گھناؤنی سازش ہے۔
اچھے معاشرے کیلئے ضروری ہے کہ انسانوں کا نسب اور غیرت محفوظ ہو اسلئے کہ نسل وغیرت غیرمحفوظ ہو تو معاشرے میں ہر چیز بے اعتبار ہوگی۔ انتہائی کمینہ طبقہ بھی کہتا ہے کہ” عورتیں پرائی مگر بچے اپنے اچھے لگتے ہیں”۔ خبیث اور ناپاک معاشرے میں بیوی بچوں پر بھی اعتبار نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ہیں بھی یا نہیں؟۔ مذہب اور توحید کے مسئلے میں ہم ایکدوسرے کو گلے لگاسکتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کیا کہ ” دین میں کوئی زبردستی نہیںہے”۔ مسلمان کاعیسائی ویہودن عورتوں سے نکاح ہوسکتاہے۔ یہودی، ہندو اور عیسائیوں سے مسلمانوں کے شدید اختلافات کے باوجودسب اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے اسرائیل وفلسطین ، ہندوستان اور امریکہ و یورپ میں اچھے تعلقات رکھتے ہوئے امن وسکون سے رہ سکتے ہیں مگراپنی بیوی کی بیوفائی اور اس کی گود میں پرائے بچوں کی پرورش بالکل ناقابلِ برداشت ہے۔یہ انسانی فطرت اور غیرت کیخلاف ہے اور اللہ نے کوئی ایسا غیرفطری درس نہیں دیا ہے۔
انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) خود کوپکا مؤمن اور قرآن کا علمبردار سمجھتا ہے جو انتہائی درجے کا مکار ہے۔ سیاسی مفاد کیلئے اپنے کرتوت جیسے چاہے بدلے لیکن قرآن پر اتنا بڑا بہتان لگانا انتہائی درجے کی نااہلی ہے۔ اوریا مقبول جان(Orya Maqbool Jan) کو اللہ نے یہ حکم نہیں دیا ہے کہ وہ امام مہدی کی آمد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر ڈیڈ لائن اورلوگوں کو جھوٹی اُمیدوں کے جھانسے دے بلکہ قرآن ہی ہدایت کا ذریعہ ہے۔ سورۂ الفاتحہ میں یہ دعا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم ”ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت دے”۔ہر نماز کی ہر رکعت میں مسلمان سورۂ فاتحہ کی یہ دعا مانگتے ہیں۔
صراط مستقیم قرآن ہے۔ المOذٰلک الکتاب لاریب فیہOہدیً للمتقینOالذین یؤمنون بالغیب ”یہ وہ کتاب ہے جس میں شک نہیں ، ہدایت ہے پرہیز گاروں کیلئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں”۔ (البقرہ) قرآن میں کوئی شک نہیں اور اپنی طرف سے جو لوگ ذہنی تخمینہ لگاکر لوگوں کو اس کے پیچھے لگائے رکھتے ہیں تو اس کا سارا معاملہ مشکوک ہوتاہے۔ پورے کا پورا قرآن وہ علم غیب ہے جس پر ایمان لائے بغیر کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا ہے۔ علم غیب اسلئے ہے کہ اللہ کی طرف سے ہونے پر ایمان ہی علم غیب پر ایمان ہے۔
قرآن کا علم غیب انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مذہبی طبقات کے علاوہ پنجابی ، سندھی ، پختون ، بلوچ اور مہاجرکے رسم ورواج میں بڑابگاڑ ہے۔
اوریا مقبول جان(Orya Maqbool Jan) سے حسن نثار نے ٹھیک کہا کہ جب تک تمہارے جیسے لوگ ہوں گے تو یہ امت کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) نے قرآن پر اپنی طرف سے بڑا جھوٹا بہتان لگادیا لیکن مذہبی طبقات نے اسکا کوئی نوٹس نہیں لیا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا اپنی تعلیمات سے بھی یقین وایمان بالکل اُٹھ چکاہے۔
قرآن و حدیث کے نام سے نت نئے گروہ جنم لے رہے ہیں۔ ایک سیدھی بات سب کو سمجھانا ضروری ہے کہ ”اللہ کو سب مانیں لیکن اللہ کی کوئی نہیں مانے توہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں”۔ غیب پر ایمان یہ ہے کہ قرآن میں جو بھی ہے اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا مسائل کا حل ہے۔ قرآن میں بات نہ ہو تو اس کو قرآن کی طرف منسوب کرنا انتہائی غلط اور غلیظ حرکت ہے۔ قرآن کی تعلیم بہت سادہ،سہل سلیس ہے۔ جو مذہبی تشخص پیش کرکے اپنے سیاسی مفادات کو تحفظ دیتے ہیں انکے مکروہ چہروں سے نقاب کھینچنے کی سخت ضرورت ہے۔
نوازشریف نے پارلیمنٹ میں لندن فلیٹ کے حوالے سے تحریری مؤقف پیش کیا اور عدالت میں طلب کرنے پر دستاویزی ثبوت فراہم کرنے کا بیان دیا لیکن جب عدالت نے طلب کیا تو قطری خط پیش کیا اور پھر قطری خط سے انکار کردیا۔ اگر یہ جمہوریت اور عدالتی نظام ہے اور اس کو ہم آئین پاکستان کے عین مطابق قرآن وسنت سمجھ کر دفاع کررہے ہیں تو ایسے اینکرپرسن اور صحافیوں کو بڑی شاباش دینا چاہیے۔ اس معاشرے میں ہرقسم کے لوگ بستے ہیں تو صحافیوں کو بھی دلالی کے ذریعے اپنے بچوں کو پالنے کا حق بالکل ملنا چاہیے۔
انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) نے جس پروگرام میں کامران شاہد کیساتھ(2014 ) میں قرآن کے جعلی حکم نامے کا بیان ریکارڈ کروایا تھا تو اس کو 4سال پہلے یوٹیوب پر دیا گیا ہے۔ جس کو حقیقت سمجھ کر دیکھا جارہاہے لیکن اس پر کوئی ردِ عمل نہیں آیاہے۔ انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) کو پرواسٹیبلیشمنٹ سمجھا جاتا ہے اور اسلام کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے چند ماہ پہلے اسلام اور آئین پاکستان کے مضبوط تعلق کا ذکر کیا تو میڈیا نے اس کو زیادہ اہمیت نہ دی جس پر انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) نے میڈیا کو لبرل اور اسلام کیخلاف سازش قرار دیا ۔ حالانکہ درباری علماء سود کو جائز قرار دیتے ہیں تو سود کے نام پراسلام کو استعمال کرنے کا جواز نہیں ہے۔ مغربی سود اور اسلامی سود میں یہ فرق ہے کہ وہاں عوام کو کم شرح سودپر قرضہ ملتا ہے اور اسلام کے نام پر یہ شرح سود عام بینکوں کی طرح مزید بڑھایاگیا اور عذرِ گناہ بدتر ازگناہ بلکہ اسلام کو بدلنے کا جرم ہے۔
انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) دیگر کئی صحافیوں کی طرح ن لیگ کے سپوٹر ہیں مگر سیاسی سپوٹ کیلئے عدالتوں کے وکیل اور ٹی وی چینلوں کے اینکرپرسن کافی ہیں۔ قرآنی تعلیم کو مسخ کرنا انسانی فطرت کے منافی ہے۔ شوہر بیوی کے غلط تعلق پر بستر الگ کریگا تو دنیا اور تمام گھروں میں بڑا بگاڑ پیدا ہوگا۔مذہبی جماعتیں انصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) پر کھلے عام توبہ کرنے کیلئے بالکل واضح دباؤ ڈالیںیا ان کی دُم کو متحرک کرنا ضروری ہے؟۔
جب عمران خان نے ریحام خان(Reham Khan) کو طلاق دی تو قندیل بلوچ نے انکشاف کیا کہ عمران خان کا کسی عامل پیرنی سے تعلق ہے۔ اسی سے شادی کریگا پھر قندیل بلوچ قتل ہوگئی۔ کچھ عرصہ عمران خان تیسری شادی کی بات اور کسی خاتون کی نامزدگی کا زیرِ لب اظہار بھی کرتا رہا ۔ لیکن نام بتانے سے انکار کرتا تھا اور یہ بھی نہیں بتاسکتا تھا کہ وہ کنواری ، طلاق شدہ یا بیوہ ہے کیونکہ وہ کسی کے نکاح میں تھی۔ پھر شادی کی خبر آئی تو بشریٰ بی بی کے بچوں نے تردید کردی لیکن پھر شادی کا اعلان ہوا۔ جنگ اور جیو کے صحافی نے عدت کے اندر شادی کاکہہ دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان نے اپنے گھر کو لیگل کردیا ہے لیکن وہ اپنی بیگم کو کب لیگل کرے گا؟۔
اگرانصار عباسی(Journalist Ansar Abbasi) اسٹیبلیشمنٹ کی پیداوارسیاسی طبقہ نوازشریف، عمران خان اور مریم نواز کیلئے اپنا خود ساختہ اسلام بیان کررہاہے تو اس کیلئے قرآن کو مسخ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ درباری علماء کی طرف سے فتوے لیں۔ قرآن میں فحاشی پر اپنی عورت سے بستر الگ کرنے کی بات نہیں بلکہ گھر سے نکالنے اور لعان کا حکم دیاہے۔ بستر الگ کرنے کی بات کا فحاشی سے کوئی تعلق نہیں ۔ سورۂ النساء اور سورۂ الطلاق اور سورۂ النور(Surah Noor) میں معاملہ واضح ہے۔
غلام احمد پرویز نے قرآن کی خود ساختہ تعبیر کی ہے جس کی وجہ سے معاملات اتنے گھمبیر ہوگئے کہ بڑی بڑی فحش اور فاش غلطیوں کا بھی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔ جب مخلص اور اچھے علماء ودانشوروں کے اجتماع میں ان غلطیوں کے ازالہ کیلئے موثر کوشش کی جائے تو ہم اورسب لوگ مشکلات سے نکلیں گے اور اچھے دن بہت جلد دیکھنے کو ملیںگے۔انشاء اللہ


باد شاہی مسجدکی یہاںشریعت ہے، عقیدت داتا دربار سے اور عمل کا تعلق ہیرہ منڈی سے ہے۔ تختِ لاہور کی تثلیث نے(70)سالوں میں ملک کا آدھا حصہ پہلے گنوادیا۔پختونخواہ کو دہشتگردی سے تہس نہس،بلوچ کو ملیا میٹ، کراچی کے مہاجروں کو انسانیت کے دائرے سے باہر اور سندھیوں کو بدظن کردیا۔ پنجابیوں اور سرائیکیوں کا بھرکس نکال دیا۔ موٹروے ،ائرپورٹ ، سرکاری املاک کو بینکوں میں گروی رکھوادیا اور اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا اور غریب کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور آئین میں قرآن وسنت کی بالادستی ہے مگرمدارس پرغلط علماء اور میڈیا پر غلط سرکاری اورغلط صحافیوں کی اجارہ داری ہے۔