فروری 2024 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

رسول اللہ ۖ ، صحابہ ، امام ابوحنیفہ ، شاہ ولی اللہ اور دار العلوم دیوبند کے سپوت کپوت تک کا سلسلہ

خلفاء راشدین سپوت اور ذوالخویصرہ کپوت ، عبد اللہ ابن مبارک سپوت، ابویوسف کپوت، جامعہ بنوری ٹاؤن سپوت اور دار العلوم کراچی و جامعة الرشیدکپوت

رسول اللہ ۖ پر قرآن نازل ہوا ، خلفاء راشدین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسن، حضرت امیر معاویہ جیسے عظیم سپوتوں کے بعد سلسلہ یزید و مروان بدترین کپوتوں تک پہنچ گیا۔ ابو سفیان کے دو بیٹے تھے۔ ایک یزید بن ابی سفیان اور دوسرا امیر معاویہ بن ابی سفیان۔ یزید بن ابی سفیان تو امیر معاویہ کے مقابلے میں بھی زیادہ اچھے صحابی تھے۔ بہرحال حضرت حسن نے امیر معاویہ کے حق میں اپنی خلافت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تو امیر معاویہ نے20سال تک بہت کامیابی کے ساتھ امارت کا نظام چلایا تھا۔ یزید سے نااہلی کا سلسلہ شروع ہوا تو یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید بھی عظیم سپوت تھے۔ جس نے تخت پر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ پھر مروان بن حکم سے کپوتوں کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری خلیفہ تک جاری رہا لیکن ان میں بھی حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت نے جنم لیا تھا۔ پھر بنو عباس میں سپوتوں اور کپوتوں نے تخت پرقبضہ کیا اور آخر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بنو عباس کی امارت ختم کردی۔ پھر سلطنت عثمانیہ سے نئی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جو1924تک جاری رہا۔ برصغیر پاک و ہند سے مولانا محمد علی جوہر وغیرہ اور ہندو سکھ رہنماؤں نے خلافت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ پھر تقسیم ہند کے بعد بر صغیر پاک و ہند میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں بھی سپوت اورکپوت کا یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح و قائد ملت لیاقت علی خان اورپہلے دو انگریز آرمی چیف سے اب تک عمران خان و شہباز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ وحافظ سید عاصم منیر تک سپوتوں اور کپوتوں کا سلسلہ قائم ہے۔ حکمرانوں کے علاوہ مشائخ و علماء حق اور علماء سوء کا بھی سلسلہ حضرت علی و قاضی شریح سے لیکر حضرت امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل سے موجودہ دور تک کے سپوتوں اور کپوتوںتک جاری ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اکابر دیوبند کے شیخ المشائخ تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی ، شیخ الہند محمود الحسن اور مولانا محمد الیاس بانی تبلیغی جماعت ، مولانا یوسف ، مولانا شیخ زکریااور حاجی محمد عثمان تک بھی سلسلہ حق تھا۔ مولانا انور شاہ کشمیری ، مولانا یوسف بنوریاور مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن و دار العلوم کراچی تک کا سلسلہ ۔ مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ،مولانا سراج احمد دین پوری، مولانا عبد اللہ درخواستی ، مولانا عبد الکریم بیر شریف، مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی تک سپوت و کپوت کا سلسلہ ہر میدان میں جاری ہے۔1970میں جب مشرقی و مغربی پاکستان اکھٹے تھے تو علماء حق جمعیت علماء اسلام پر ایک کفر کا فتویٰ لگاتھا جس میں سرغنے کا کردار مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ، مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ نے ادا کیا تھا۔ لیکن دوسری طرف حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی وغیرہ نے علماء حق کے خلاف اس سازشی فتوے کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔
پھر1977میں جمعیت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود نے ذو الفقار علی بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی و قوم پرستوں کا ساتھ دیا تھا جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی نے سازش کو بھانپ کر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے معروف رہنما مولا بخش چانڈیو لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بلوچ رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ نہیں دیا لیکن ولی خان و دیگر پشتون رہنماؤں نے بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء کا ساتھ دیا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مفتی محمود نے نصرت بھٹو کے ساتھMRDکے اتحاد پر جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک پر اتحاد کیا لیکن دوسری طرف جماعت اسلامی اور دار العلوم کراچی کے مفتی تقی عثمانی وغیرہ نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دینا شروع کیا۔ رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر نے جب زبردستی سے زکوٰة لینے کا فیصلہ کیا تو حضرت عمر اس پر متفق نہیں تھے۔ مگر مجبوری میں ایک خلیفہ وقت کا ساتھ دیا تھا۔ پھر حضرت عمر نے وفات سے پہلے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش ہم رسول اللہ ۖ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھ لیتے۔ (1):زکوٰة نہ دینے والوں کیخلاف قتال کا ۔(2):نبی ۖ کے بعد جانشین خلفاء کے نام۔ (3):کلالہ کی میراث کے بارے میں۔
اہل سنت کے چاروں امام امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے شریعت کا یہ حکم واضح کیا تھا کہ ”مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنا جائز نہیں ہے”۔ حضرت عمر و حضرت عثمان کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل چکے تھے اسلئے مانعین زکوٰة کیخلاف قتال کرنے اور نہ کرنے پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اہل سنت کے چاروں اماموں نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر مکمل اعتماد کے باوجود بھی اپنے اختلاف رائے سے اسلام کی حفاظت کا سامان کیا تھا۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ بہترین دور میرا ہے، پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے دور سے ملے ہوئے ہیں۔ پھر ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد والوں سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ عقیدہ بن گیا کہ صحابہ کرام اُمت مسلمہ کے افضل ترین لوگ ہیں۔ پھر تابعین اور پھر تبع تابعین تک یہ سلسلہ پہنچتا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ”بدعت کی حقیقت” میں لکھا ہے کہ پہلی صدی ہجری تو صحابہ کرام کی ہے، دوسری صدی ہجری تابعین کی ہے اور تیسری صدی ہجری تبع تابعین کی ہے۔ ان پہلے تینوں صد ہجری میں ”تقلید کی بدعت” ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ تقلید چوتھی صدی ہجری کی بدعت ہے۔ لہٰذا چاروں مسالک کی تقلید بدعت ہے۔
علامہ ابن تیمیہ و علامہ ابن قیم نے بھی بہت پہلے تقلید سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے چاروں فقہی مسالک کو چار الگ الگ فرقے قرار دیا تھا۔ شاہ اسماعیل شہید نے بھی علامہ ابن تیمیہ سے متاثر ہوکر مسالک کی تقلید کو بدعت قرار دیا تھا۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے شاہ اسماعیل شہید کی کتاب ”بدعت کی حقیقت” کے اردو ترجمہ پر اپنی تقریظ میں زبردست حمایت بھی کی ہے اور ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل شہید کی دوسری کتاب ”منصب امامت” کی بھی تائید فرمائی ہے۔
سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں کا تعلق علامہ ابن تیمیہ کے مسلک سے ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں مسالک کے الگ الگ مصلے تھے جو تقلید ہی کی وجہ سے اپنی الگ الگ جماعت کراتے تھے۔ علماء دیوبند کے اکابر نے شاہ اسماعیل شہید کی حمایت کی تو اس وقت حرمین شریفین میں شریف مکہ کی حکومت تھی۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے علماء دیوبند پر فتویٰ لگایا کہ یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کے ماننے والے ہیں تو اس وقت کے حرمین شریفین والوں نے مولانا احمد رضا خان بریلوی کے فتوے پر دستخط کردئیے۔ دیوبندی اکابر نے اپنی صفائی کیلئے ”المہند علی المفند” کتاب لکھی اور اس میں واضح کیا کہ ہم چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور خود حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ تصوف کے چاروں سلسلوں کو برحق مانتے ہیں اور خود مشرب چشتی سے تعلق رکھتے ہیں اور علامہ ابن تیمیہ کو بھی بہت برا بھلا کہہ کر برأت کا اعلان کیا۔
جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تھی تو قرآن نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد والے صحابہ کے اندر واضح فرق رکھا ہے۔ بدری اور غیربدری صحابہ کے اندر بھی واضح فرق تھا۔ جب حضرت عمر کے دور میں فتوحات کے دروازے کھل گئے تو حضرت عمرنے بدری صحابہ کے لئے الگ وظائف مقرر کئے اور غیر بدریوں کیلئے الگ۔ حضرت حسن اور حضرت حسین بدری صحابہ نہیں تھے لیکن اہل بیت ہونے کی وجہ سے حضرت عمر نے ان دونوں کیلئے بھی بدری صحابہ کے درجے پر وظائف رکھے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے جب عرض کیا کہ مجھے بھی حسنین کی طرح بدری صحابہ کے برابر وظیفہ دیا جائے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ ”وہ نبی ۖ کے نواسے ہیں آپ نہیں ہو، ان کی برابری کاسوچو بھی مت”۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے پہلا دور نبی ۖ کا ، دوسرا حضرت ابوبکر و عمر کا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا بہترین قرار دیا ہے۔ حضرت علی کے دور کو فتنے میں شمار کیا ہے جو خیر القرون میں داخل نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کے دور کو قیامت تک کیلئے فتنوں میں مثالی دور قرار دیا ہے اور میرے نزدیک نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اس لئے کہ حضرت ابوبکر کے دور میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی تھی۔ پھر حضرت عمر کا دور ہے جس میں مال و وظائف کے اعتبار سے طبقاتی تقسیم کا آغاز ہوگیا تھا۔ تیسرا دور حضرت عثمان کا دور ہے جس میں خاندانی اور طبقاتی کشمکش کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں۔
جب حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تو ذوالخویصرہ نے اپنے قبیلے کے10ہزار افراد کے ساتھ دعویٰ کردیا کہ حضرت عثمان کے قاتل ہم ہیں۔ حضرت عثمان کے قاتلین دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف وہ حضرت علی کے ساتھ تھے اور دوسری طرف وہ حضرت علی کے مخالفین کے ساتھ تھے۔ حضرت علی کی بیعت کرنے اور نہ کرنے والے بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ حضرت امیر معاویہ نے قاتلین عثمان سے بدلہ لینے کا جو مطالبہ حضرت علی سے کیا تھا اس پر عمل کرنا بہت مشکل تھا۔جس کی وجہ سے اہل حق کے دو گروہوں میں قتل و غارت ہوئی۔ ان میں حق پر کون تھا؟۔ یہ حضرت عمار کی شہادت سے نبی ۖ نے بتادیا تھا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا جس کو عمارجنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلائیں گے۔
حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے حضرت حسن و حسین کی طرف سے حفاظت ہورہی تھی اور محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی داڑھی میں سب سے پہلے ہاتھ ڈالا تھا۔ محمد بن ابی بکر بھی حضرت علی کے پالے ہوئے تربیت یافتہ بیٹے تھے۔ جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو شک تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت میں حضرت علی کا بھی ہاتھ ہے۔ یہاں سے اُمت کی جو تفریق شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ آج تک جوں کا توں موجود ہے۔
حضرت علی کے بعد امام حسن کی خلافت قائم ہوگئی تو حسن نے امیر معاویہ کے حق میں دستبردار ہوکر مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائی۔ لیکن یہ پھر یزید کی نامزدگی کے بعد واقعہ کربلا سے معاملہ شروع ہوا تو یزید کی سرکردگی میں عبد اللہ بن زبیر کے خلاف مکہ میں کاروائی ناکام ہوئی۔ یزید نے اہل مدینہ کو کچل کر اہل مکہ کو بھی کچلنا چاہا تھا۔ یزید کے مرنے کے بعد یزید کے بیٹے معاویہ نے تخت نشین ہونے سے دستبرداری اختیار کی تو مروان بن حکم جو بنو اُمیہ کا دوسرا سلسلہ تھا وہ اقتدار میں آگیا۔ مروان نے پھر حضرت عبد اللہ بن زبیر کی خلافت کو بھی مکہ مکرمہ میں کچل دیا تھا۔ مروان کا سلسلہ بنو اُمیہ کے آخری حکمران تک جاری رہا جن میں حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے عظیم سپوت بھی شامل تھے۔ بنو اُمیہ کے شروع دور میں مدینہ کے7مشہور فقہاء نے مسند سنبھالی جن میں حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم بن محمد بن ابی بکر اور نواسے عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ شامل تھے۔ حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو بھی بہت بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔
امام ابو حنیفہ نے بنو اُمیہ کے آخری اور بنو عباس کے شروع دور میں اپنی خدمات انجام دیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے100سال بعد احادیث کی کتابیں مرتب کرنے کی اجازت دی تھی۔ جب ضعیف و من گھڑت اور صحیح احادیث کا ایک سلسلہ مرتب ہونا شروع ہوا تو امام ابو حنیفہ نے قرآن کے مقابلے میں ان احادیث کو بھی مسترد کرنے کی بنیاد رکھ دی جن کی سند بظاہر صحیح لیکن خبر واحد یعنی کسی ایک شخص کے توسل سے نقل تھیں۔
امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کا تعلق دوسری صدی ہجری سے تھا۔ امام مالک اہل مدینہ تھے۔ امام ابو حنیفہ کا تعلق فارس سے تھا۔ امام شافعی نے امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے فقہ کی تعلیم حاصل کی تھی اور امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد رشید تھے۔ ان ائمہ نے اپنے اپنے دور کے حکمرانوں سے سخت سے سخت سزائیں کھائی ہیں۔ جن کو تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے ایک شاگرد عبد اللہ ابن مبارک تھے جس کو محدثین اور صوفیاء میں بھی بہت بلند مقام حاصل تھا۔ عبد اللہ ابن مبارک اپنے اُستاذ امام ابو حنیفہ کے عظیم سپوت تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاة (چیف جسٹس) کا منصب اسلئے مل گیا کہ وہ درباری تھا اور اس نے یہ گھناؤنا کام کیا تھا کہ بادشاہ کا دل جب اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو بادشاہ نے اپنے باپ کی اس لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کیلئے حیلہ تلاش کیا۔ امام ابو حنیفہ نے درباری بن کر بادشاہ کی خواہش کو پورا نہیں کیا تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ امام ابو حنیفہ نے واضح کیا تھا کہ اگر باپ نے لونڈی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم رکھے ہیں تو بادشاہ کیلئے اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا قطعی طور پر حرام ہیں۔ جبکہ امام ابو یوسف نے بادشاہ کیلئے یہ حیلہ نکال دیا کہ لونڈی عورت ہے اور جب وہ بولے کہ تیرے باپ نے میرے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے تو اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک اچھا خاصہ معاوضہ بھی طے کیا گیا۔ جب امام ابو یوسف نے حیلہ بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ صبح خزانے کا دروازہ کھل جائے گا تو معاوضہ لے لینا۔ امام ابو یوسف نے کہا کہ مجھے ابھی راتوں رات وعدے کے مطابق معاوضہ دے دینا۔ میں نے بھی تمہارے لئے رات ہی کو بند دروازہ کھولا ہے۔
یہ واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء اور امام غزالی نے اپنی کتابوں میں لکھ دئیے تو امام غزالی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مصر کے بازار میں ان کی کتابیں جلائی گئی تھیں۔ جس کے بعد امام غزالی نے فقہ کی راہ چھوڑ کر تصوف کی راہ کو اپنالیا تھا۔ تصوف کے مشائخ اور فقہ کے علماء کے درمیان اختلافات کا بھی ایک سلسلہ ہے اور علماء نے اہل تصوف سے بیعت و سلوک کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے۔ امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید و خلیفہ مولانا قاسم نانوتوی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر سے ان کے علم کی وجہ سے بیعت ہوں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا کہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے علم کی بنیاد پر اختلاف رکھتا ہوں مگر عمل کی وجہ سے بیعت ہوں اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا منظور مینگل نے کہا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی واحد شخص ہیں جو علامہ ابن تیمیہ سے عقیدت رکھتے ہیں جبکہ دوسرے تمام اکابر نے ابن تیمیہ کی سخت مخالفت کی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کے شاگرد مولانا حسین علی کے شاگرد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور شیخ القرآن مولانا محمد طاہر پنج پیری تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پنج پیری طلبہ کو پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ یہی حال جامعہ فاروقیہ و دیگر مدارس کا بھی تھا۔ حالانکہ دونوں کا تعلق دیوبند سے تھا۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے ”توحید خالص” وغیرہ کتابیں لکھ کر اکابرین پر شرک و کفر کے فتوے لگائے تھے۔ جس طرح عام دیوبندی پنج پیری طبقے کو اپنے سے الگ اور گمراہ سمجھتے تھے اس سے بڑھ کر ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی کتابوں سے پنج پیری الرجک تھے۔ آج خود کو بہت بڑا شیخ الحدیث ، شیخ القرآن ، جامع العلوم سمجھنے والا ڈاکٹر منظور مینگل کہتا ہے کہ میں نے ابن تیمیہ اور پنج پیری کو بڑا کافر گمراہ کہہ کر گالیاں دی ہیں مگر ابھی توبہ کرتا ہوں۔
حنفی مسلک پر دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا اتحاد ہے اور درس نظامی میں فقہ ، اصول فقہ ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں بھی ایک ہیں۔ ایک نصاب کے باوجود دونوں میں اختلافات بھی ہیں۔ ابوبکر صدیق اکبر نے جبری زکوٰة کی وصولی شروع کردی تو اہل سنت کے چاروں اماموں نے اختلاف کیا تھا۔
مالکی و شافعی مسالک نے بے نمازی کو واجب القتل قرار دیا تو حنفی مسلک نے ان سے اختلاف کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضرت ابوبکر نے زکوٰة نہ دینے والوں کے خلاف قتال کیا تو بے نمازی کے خلاف قتال بدرجہ اولیٰ بنتا ہے۔ حنفی مسلک والوں نے جواب دیا کہ جب حضرت ابوبکر کے فیصلے سے تمہارا اتفاق نہیں ہے تو اس پر نماز کو کیسے قیاس کرسکتے ہو؟۔ مفتی محمد شفیع مفتی اعظم پاکستان نے اپنی تفسیر ”معارف القرآن” میں لکھ دیا کہ بے نمازی کے خلاف قتال کرنے کا حکم سورہ توبہ اور حضرت ابوبکر صدیق کے فعل سے ثابت ہوتا ہے۔ تو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر ”تبیان القرآن” میں اس کو مسلک حنفی کے خلاف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ مفتی شفیع نے حنفی فقہاء کے مسلک سے انحراف کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے جب بادشاہ کیلئے لونڈی کی گواہی کو غلط قرار دینے کی بدعت جاری کردی تو ایک طرف حدیث صحیح کے خلاف زنا بالجبر میں بھی عورت کی گواہی کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ کے نام پر حرمت مصاہرت کا غلط پروپیگنڈہ کرکے انتہائی غلیظ مسائل کو فقہ کا حصہ بنایا گیا۔ چنانچہ اورنگزیب عالمگیر مغل بادشاہ کے دور میں لکھی گئی کتاب ”نور الانوار:ملاجیون” درس نظامی میں داخل نصاب ہے۔ جہاں یہ مسئلہ پڑھایا جاتا ہے کہ ”اگر ساس کی شرمگاہ کو باہر سے شہوت کے ساتھ دیکھ لیا تو عذر کی وجہ سے معاف ہے لیکن اگر اندر کی طرف سے دیکھا تو اس سے بیوی حرام ہوجائے گی”۔
اسی طرح مفتی تقی عثمانی سے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تک نے پرویز مشرف کے دور میں یہ نام نہاد غلط شرعی مسئلہ اُجاگر کیا کہ ” کسی عورت کو زبردستی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو اگر اس کے پاس چار سے کم گواہ ہوں تو وہ زیادتی پر بھی خاموش رہے اسلئے کہ اگر تین افراد نے بھی اس کے حق میں گواہی دی تو ان سب پر بہتان کی حد جاری کی جائے گی”۔
جب جنرل ضیاء الحق نے بینکوں کے سُودی نظام سے زکوٰة کی کٹوتی کا فیصلہ کیا تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ جس پر مفتی محمود نے دونوں بھائیوں کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں طلب کیا۔ دونوں نے چائے پینے سے انکار کیا کہ ہم دن میں ایک بار چائے پیتے ہیں۔ مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن اگر کوئی کم پیتا ہے تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ مفتی تقی عثمانی نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی محمود نے کہا کہ یہ تو چائے سے بھی بدتر ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں یہ نہیں لکھا تھا کہ اسکے باوجود میں نے پان کھلایا جسکے بعد مفتی محمود پر دورہ پڑگیا۔ اور مفتی رفیع عثمانی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈال دی۔ مگر مولانا یوسف لدھیانوی نے یہ لکھ دیا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اپنا بیانیہ بعد میں بدل دیا کہ مفتی محمود بے تکلفی میں وہ مجھ سے پان مانگ کر کھایا کرتے تھے۔

دارلعلوم دیوبند کے سپوتوں کی چند یہ مثالیں

علماء حق کی یاد گار جامعہ بنوری ٹاؤن عظیم یہ شخصیات
علامہ سیدمحمدیوسف بنوریکی ایک یاد گار تقریر ماہنامہ البینات میں شائع ہوئی جو ماہنامہ نوشہ ٔ دیوارنے قارئین کیلئے شائع کی ،جو سودی نظام کے خلاف تھی ،جس میں اسلام کے معاشی نظام پر زور تھا۔علامہ بنوری کے دامادمولانا طاسین نے مزارعت پر تحقیق کا حق ادا کرکے قرآن وسنت سے اس سود کو واضح کیا۔جب سود کی حرمت پرآیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سود قرار دیا تھا۔ جس کی وجہ سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ دونوں نظام کا خاتمہ ممکن تھا اور محنت کشوں کیلئے بڑا متوازن روزگار تھا۔ اس سے محنت و دیہاڑی کا ایک مناسب معاوضہ بھی خود بخود معاشرے میں رائج ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں پانی کا بہاؤ ایک نعمت ہے جس سے سستی بجلی پیدا کرنے اور سستی خوراک ملنے میں مثالی مدد مل سکتی ہے۔ رسول اللہ ۖ نے مدینہ میں یہ نظام قائم فرمایا تو پوری دنیا میں اسکا ڈنکا بج گیا۔ روم و فارس کے بادشاہوں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پیغام مل گیا کہ اب دنیا میں انسان اپنی طاقت ، جاگیر اور سرمایہ کے ذریعے سے دوسرے انسانوں کو غلام نہیں بناسکتا ہے۔ آج پاکستان سے پھر پوری دنیا کو یہ میسج جائے گا تو سُودی نظام کا خاتمہ ہونے میں دیر نہ لگے گی۔

دارالعلوم دیوبند کے کپوتوں کی یہ چند مثالیں

دارالعلوم کراچی وجامعة الرشید علماء سوء کی یہ یادگاریں
ہمارے مرشد حضرت حاجی محمد عثمان سے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ بڑی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور بڑے بڑے مدارس کے علماء و مفتیان حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ سعودی عرب کے سرکاری افسران اور شام کے عرب بھی بیعت تھے۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی، مفتی عبد الرحیم اور مفتی تقی عثمانی نے ان کے خلاف الائنس موٹرز سے کچھ مالی مفادات اٹھاکر جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ اب بھی مفتی تقی عثمانی کے ”فتاویٰ عثمانی جلد دوم” میں موجود ہے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی میں بھی ان فتوؤں کی سرسری روداد موجود ہے۔ ہمیں ذاتیات سے غرض نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے کتابیں چھاپ کر شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کے لین دین کو سُود قرار دیا تھا اور نبی کریم ۖ پر بھی آیت کی من گھڑت تفسیر لکھ کر سُود کا بہتان لگایا تھا اور سُود کو 73گناہوں میں سے کم از کم اپنی سگی ماں کے ساتھ بدکاری کے برابر گناہ قرار دیا تھا لیکن پھر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہوئی کہ پوری دنیا کے سُودی نظام کو حیلے بہانے سے جائز قرار دیا۔ حالانکہ سبھی علماء اور مفتیان نے ان کے خلاف متفقہ فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ انتظار کریں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خالد خان مروت کااحتجاج رنگ لایا

خالد خان مروت کااحتجاج رنگ لایا

ویلی کونسل ناظم خالد خان مروت عمر خیل ضلع ٹانک نے یہ احتجاج نوٹ کراتے ہوئے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسلحہ اٹھاؤ مگر ہم کس لئے اسلحہ اٹھائیں۔ تنخواہیں سیکورٹی فورسز کو ملتی ہیں اور جب ان سے ہم کہتے ہیں کہ مسلح افراد کے خلاف کاروائی یا کوئی طریقہ کریں تاکہ وہ یہاں سے چلے جائیں تو جواب نہیں دیا جاتا اور پھر اچانک لڑائی میں عوام ماری جاتی ہے۔ یہ احتجاج عمر اڈہ ٹانک میں کچھ بے گناہ افراد کے مارے جانے پر ہوا تھا جس کی قیادت صدر بیٹنی اتحاد مولانا نقیب اللہ نے کی تھی اور کہا تھا کہ فوج اور طالبان آبادیوں کو میدان جنگ نہ بنائیں۔ اگر کافر بھی مظلوم ہو تو اس کا ساتھ دینے کا اسلام حکم دیتا ہے۔
خالد خان کے فوجی قیادت کیساتھ کامیاب مذاکرات پر عبد اللہ ننگیال و دیگر مہمانوں کا وقت پر ساتھ دینے کیلئے شکریہ ادا کیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مسلح افراد کیلئے کبھی احتجاج نہیں کیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

مسلح افراد کیلئے کبھی احتجاج نہیں کیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

اسلام آباد میں دھرنے میں شریک لواحقین کے4لاپتہ افراد کو مچھ واقعہ کے بعد زندان سے نکال کر قتل کردیا گیا
ریاست پرامن جدوجہد کا راستہ اپنانے والے بلوچوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناکام کرنا چاہتی ہے

معزز صحافی حضرات ! آپ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ گذشتہ دو مہینے سے زائد عرصے تک بلوچستان انسانی حقوق کی سنگین پامالی بلوچ نسل کشی جس میں سر فہرست ہے۔ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کیخلاف کیچ سے دھرنے کی شکل میں اسلام آبادکی طرف مارچ کیا بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں سے ہزاروں لوگوں نے ریاستی ظلم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیااور سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ بلوچ عوامی رد عمل کے باوجود ریاست بلوچستان میں اپنی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں۔ لانگ مارچ میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس امید اور بھروسے پر لانگ مارچ میں حصہ لیا کہ انکے پیاروں کو فیک انکاؤنٹر میں قتل نہیں کیا جائے۔ بدقسمتی سے ریاست ظالمانہ پالیسی کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ حالیہ مچھ واقعہ میں جس طرح زندان سے لاپتہ افراد کو نکال کر قتل کیا گیا یہ ظلم اور جبر کی انتہاء ہے۔ ریاست مسلح افراد کی کاروائیوں کا جواز بنا کر لاپتہ افراد کو قتل کرکے غیر انسانی عمل کا ارتکاب کررہی ہے۔ ریاست نے جھوٹے بیانئے پر بلوچ نسل کشی جاری رکھی ہے کہ لاپتہ افراد پہاڑوں پر ہیں۔ لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ جو لوگ مسلح لڑائی لڑ رہے ہیں ان کیلئے کبھی بھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج نہیں کیا ریاست مسلح جدوجہد کا جواز بناکر جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کا قتل عام کررہی ہے اور قتل عام کو جھوٹے بیانئے کے ذریعے متنازع بنارہی ہے۔ لیکن ہم ریاست پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے پر ہم کسی بھی صورت خاموشی اختیار نہیں کریں گے۔
مچھ واقعہ میں جتنے مسلح افراد شامل رہے ہیں ان میں سے کسی ایک کا نام بھی لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل نہیں۔ اور ناہی ان کے خاندان نے ان کے جبری طور پر گمشدہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ریاست روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افراد اٹھاتی ہے۔ انہیں دو مہینے چار مہینے حتیٰ کہ کئی کئی سالوں تک خفیہ زندانوں میں رکھا جاتا ہے۔ اور بعد ازاں انہیں رہائی حاصل ہوتی ہے۔ جن کی خبریں میڈیا اور لواحقین کی جانب سے آتی ہیں۔ ان افراد کی تعداد اندازاً لاکھوں میں ہوگی۔ ہمارا اصولی مؤقف قائم ہے کہ جبری گمشدگی اقوام متحدہ سمیت ازخود پاکستان کے اپنے آئین اور قانون کے مطابق سنگین جرم ہے۔ اگر ریاست کسی کو مجرم سمجھتی ہے یا کوئی الزام ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ ملکی قوانین کے تحت انہیں پیش کیا جائے تاکہ عدالتیں اور قانون فیصلہ کریں کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں یا مجرم ہیں۔ اگر کوئی بھی جرم ثابت ہوتا ہے تو انہیں سزا دینے کیلئے عدالتیں موجود ہیں۔ لیکن غیر قانونی طور پرلوگوں کو جبری گرفتار کرکے انہیں مہینوں اور سالوں خفیہ زندانوں میں قید رکھنا اور کسی بھی مسلح کاروائی کے رد عمل میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو حراست سے نکال کر قتل کرنا انسانیت کی دھجیاں اڑانے اور ریاستی قانون اور آئین کو توڑنے کے مترادف ہے۔ مچھ واقعہ کے بعد پانچ میں سے چار لاشوں کو ان کے لواحقین نے شناخت کیا ہے۔ جو پہلے سے ریاستی اداروں کے پاس جبری گمشدہ تھے۔ ایک لاش کا ہمیں خطرہ ہے کہ وہ بھی جبری گمشدگی کا شکار فرد ہی ہے۔ جن کی شناخت ہوگئی ہے ان میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری جنہیں2جولائی2023کو اٹھایا گیا، تیسراصوبیدار ولد گلزار خان ہرنائی بازار سے9ستمبر2023کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا۔ ان تینوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور چوتھی لاش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زہری سے ہوئی ہے۔ جن کی شناخت ان کے خاندان نے کی۔ خاندان کے مطابق4جون2023کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔ جن لواحقین کے افراد نے دھرنے میں شرکت کرکے بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ آج وہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے آئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریاست بلوچستان میں پرامن جدوجہد کی تمام راہیں بندکرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ لوگ ریاست سے مایوس ہوں۔ جبکہ دوسری جانب سول ہسپتال میں لائی گئی لاشوں کیلئے آنے والے خاندانوں کو ذہنی کوفت سے گزارا گیا وہ قابل افسوس ہے۔ آج بلوچستان میں ریاست کے حوالے سے بڑھتی مایوسی کی ذمہ دار ریاستی ادارے ہیں۔ جو مسلسل غیر قانونی اور غیر انسانی کاروائیوں سے خوف پیدا کرنے میں لگے ہیں۔ ارمان مری اور بشیر مری اور صوبیدار کے لواحقین اس امید سے اسلام آباد آئے تھے کہ انہیں اس ریاست سے انصاف ملے گا جو کہ ہر شہری امید رکھتا ہے۔ لیکن انصاف کے بجائے انہیں انکے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ جبکہ ایک لاش اتنی مسخ کی گئی کہ اس کی شناخت نہیں ہوپارہی ہے۔ جو بلوچ دشمنی اور بلوچوں سے نفرت کی واضح مثال ہے۔ جن پانچ لاشوں کو کل سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا تھا ان کے حوالے سے ریاستی ادارے یہ جھوٹا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ پانچ افراد مسلح تھے جو اس واقعہ میں مارے گئے ہیں۔ لیکن ریاست اس چھوٹی سے بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جھوٹے بیانئے بنانے سے ریاست اپنے ظلم اور جبر کو چھپا نہیں سکتی۔ ان خاندانو ںکو اپنے بچوں کی لاشو ںکو لینے کیلئے ایک غیر قانونی فارم زبردستی دستخط کرنے کیلئے دیا جارہا ہے۔ جن میں زبردستی ان کے بچوں کو دہشت گرد ثابت کیا جارہا ہے۔ لہٰذا جن جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا انکے خاندان کسی صورت غیر قانونی فارم پر دستخط نہیں کریں گے۔ جبکہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت بلوچ قوم کی نسل کشی جاری ہے اور اس میں روز بروز شدت لائی جارہی ہے۔ لاپتہ افراد کو پھر جعلی مقابلوں میں قتل کرکے ریاست نے پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گی۔ ہم اقوام متحدہ سمیت ہیومن رائٹس اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ان واقعات کا نوٹس لیں۔ جبکہ بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر خاموشی کے بدلے سیاسی جدوجہد کی راہ اپنائے۔ اور ہم اس پریس کانفرس کے ذریعے بلوچستان کی کوئٹہ کی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد سول ہسپتال پہنچیں اور جو لاپتہ افراد کے لواحقین اتنے عرصے سے درد اور کرب میں مبتلا تھے جن کے پیاروں کی لاشیں یہاں پر پھینکی گئی ہیں ان لاشوں کو ان لاپتہ افراد کے لواحقین کوہینڈ اوور کرنے میں ان کی مدد کریں۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ لاپتہ افراد کے لواحقین آج نہیں تو کل اپنی لاشیں یہاں سے لیکر جائیں گے پیچھے جو رہ جائیں گی وہ صرف نفرتیں ہوں گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لشکر ساتھ تھا تو خاور کی بیگم چھین لی تعلق خراب ہوا تواپنی بیگم چھن گئی؟کیا تأثر پھیل رہاہے؟

لشکر ساتھ تھا تو خاور کی بیگم چھین لی تعلق خراب ہوا تواپنی بیگم چھن گئی؟کیا تأثر پھیل رہاہے؟

کہ اللہ دسرہ مل نہ وی رحمانا کہ لشکرے دسرہ وی یک تنہا یے (رحمان بابا)ترجمہ : اگر اللہ ساتھ نہ ہو اے رحمان تو لشکربھی ساتھ ہوں گے تو اکیلے ہو!
کہ لشکر در سرہ مل نہ وی عمرانا کہ خلق در سرہ وی یک تنہایے ترجمہ: اگر لشکر ساتھ نہ ہو اے عمران ! تو اگر عوام ساتھ ہوں گے پھر بھی تم اکیلے ہو!

عمران خان و بی بی کو عدت میں نکاح پر سزاہوئی ؟ بنیاد یہ ہے کہ خاور مانیکا نے کہا کہ اس کا حق رجوع کا حق مجروح ہوا۔ حالانکہ خاور مانیکا نے بشریٰ کے کہنے پر خلع دیا ۔ خلع میں شوہر کو رجوع کا حق نہیں ۔عدت بھی ایک ماہ ہے۔ طلاق میں بھی شوہرعورت کی رضا کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا لیکن فقہاء نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو روند ڈالا۔ اگرمولانا فضل الرحمن، مفتی تقی عثمانی، مفتی سعیدخان اور تمام فرقوںکے علماء ومفتیان کو حافظ عاصم منیر کورکمانڈرز کانفرنس میں بلالیں تو خواتین سے زیادتی رک جا ئے گی۔ عورت کو قرآن وسنت نے یہ واضح حق دیا کہ عدت میں اس کی مرضی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تو جج نے کس طرح5سال بعد شوہر کا حق رجوع کو تسلیم کرکے نکاح کو ناجائز قرار دیا؟۔یہ عمران خان کا نہیں بلکہ قرآن وسنت، انسانیت اور امت کا مسئلہ ہے۔یہ ریاستی منہ پربہت بڑا طمانچہ ہے کہ کس کس طرح اپنے معزز شہریوں سے انتقام لیتی ہے؟۔
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بڑی دُور کی سوجھی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

اللہ نے فرمایا: ”اپنے یمین کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔آیت224البقرہ۔قرآن نے صراط مستقیم عطاء کی مولوی نے برج اُلٹ دیا؟
نیکی کرنا توبڑی قربانی ہے۔تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑی تربیت مانگتا ہے لیکن لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں کوئی مشکل نہیں اور قرآن کو بالکل الٹا پیش کرکے صلح پر پابندی کا ذریعہ بنایا گیا!

آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کی ہوگی ، اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، تمام قوانین قرآن اور سنت کے تابع ہوںگے، قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، پھر1973سے لیکر آج تک کوئی قانون سازی ہوئی کیوں نہیں؟۔ اسلئے کہ ایوانوں کو ایسے لوگوں سے بھردیا جاتا ہے کہ جن کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ہمیں اس رُخ پر بھی سوچنا ہوگا۔ اس پہلو کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارے ملک کا ایک قومی المیہ ہے آج تک جس کا ہم سامنا کررہے ہیں۔ جس کو ہم اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ تو یہ چیزیں مد نظر رہیںآپکے۔ قائد جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ٹھیک کہا ہے کہ1973کے آئین کے بعد ایسے لوگ پارلیمنٹ میں نہیں لائے گئے جو قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کو یقینی بناتے۔قومی اتحادجمع تحریک نظام مصطفی ۖ، ضیاء الحق کا اسلامی ریفرینڈم، اسلامی جمہوری اتحاد،اسلامی جمہوری محاذ اور اسلامک فرنٹ سے لے کر متحدہ مجلس عمل اور عمران خان کے ریاستِ مدینہ و جنرل سید حافظ منیر کی طرف سے قرآنی آیات کے حوالے دینے تک عوام سب پر اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔
قرار داد مقاصد سے پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ الا اللہ ! اور پاکستان دولخت ہونے تک دھوکہ بازی کے سیاہ دھوئیں ہی نظر آتے ہیں۔ کیا انگریز کی آمد سے پہلے اورنگزیب مغل بادشاہ کے دور میں جن500علماء نے فتاوی عالمگیریہ مرتب کیا تھا تو وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔جس پر شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم نے مہر تصدیق ثبت کی تھی؟۔ جس میں بادشاہ پر قتل ،زنا،چوری اور ڈکیتی کی کوئی سزا نہیں ہے؟۔ جیو ٹی وی پر سلیم صافی نے اپنے جرگہ پروگرام میں مفتی عبدالرحیم کو بڑاہی مستند ومعتبر بناکر پیش کیاتھا جس نے یہ شریعت بھی واضح کردی کہ حجاج بن یوسف نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کوقتل کیا مگر اسکے خلاف بھی بغاوت جائز نہیں تھی؟۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ نے یہ واضح کیا تھا کہ بنوامیہ کے ظالم حکمرانوں سے جہاد ایسا ہے جیسے نبی ۖ نے بدر میں مشرکینِ مکہ کے خلاف جہاد کیا تھا۔جب امام زید نے خروج کیا تھا تو امام ابوحنیفہ نے اس کو شریعت کے منافی نہیں قرار دیا تھا بلکہ کامیابی کی امید نہیں تھی۔یزید کے خلاف امام حسین کا قیام خلاف شریعت نہیں تھا لیکن کوفیوں سے وفا کی امید نہیں تھی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل نے کتاب ” شہید اہل بیت امام ابوحنیفہ” لکھ کر شائع کی ہے۔
درباری مولوی بے چارہ توہمیشہ طاقتور کیساتھ ہی رہاہے اور اگر یزید کے مقابلے میں امام حسین کی فتح ہوتی تو یہ خوف تھا کہ مولوی شیعہ بن کر حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور امیر معاویہ کی خلافت وامارت کو بھی باطل قرار دیتا۔ شیعہ سنی فرقے اللہ نے نہیں بنائے ہیں بلکہ شیعہ سنی علماء نے پیٹ کیلئے بنائے ہیں۔
جب بنوامیہ کا تخت الٹ دیا گیا تو علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا کہ خلافت بنو عباس کا حق ہے اسلئے کہ حضرت عباس نے ہی اسلام قبول کیا تھا،نبی ۖ کے چچا ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔چچا کی موجودگی میں چچازاد بھائی حضرت علی اپنے نبی ۖ کی وراثت کا حقدار نہیں تھا۔ لہٰذا علی کی اولاد سے زیادہ چچا عباس کی اولاد خلافت کی حقدار ہے۔ ایک طویل عرصہ تک فقہ کی دنیا پر بادشاہت کرنے والے عباسی خلفاء کو سادات سے نفرت دلانے کیلئے فتوے دیتے رہے۔ حالانکہ پھر تو فتوے کی زد میںوہ خلفاء راشدین اور بنوامیہ کے حکمران بھی آرہے تھے جو نہ چچا تھے ، نہ چچازاد اور نہ ان کی اولاد؟۔ بنگلہ دیش میں جتنے بنگالی مفتی تقی عثمانی ومفتی رشیداحمد لدھیانوی کے قبیلے یا مسلک سے ہیں ان سے فتویٰ پوچھ لیا جائے کہ بنگال کا پاکستان سے آزادی حاصل کرنا درست تھا تو جواب دیں گے کہ بڑا جہاد تھا! اور پاکستانی علماء ومفتیان اس کو بغاوت اور ناجائز کہیں گے۔
ان سے فتویٰ پوچھا جائے کہ خاور مانیکا سے ریاست نے بیوی چھین کر عمران خان کیساتھ عدت میں بیاہ دی تو فتوی دیں گے کہ اگر بشریٰ بی بی کی رضانہ ہو تو بھی ریاست نے یہ ٹھیک کیا ہے اور اب شریعت کے مطابق عمران خان کاہی اختیار ہے۔ جبری نکاح کے جواز سے ان کے فتاویٰ بھرے پڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف جب فتویٰ لگتا تھا تو فتوے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے کی بات کرتے تھے۔جب مولانا فضل الرحمن کی حیثیت کمزور تھی توفتوے لگتے تھے اور مولانا بھی سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔ اب تو اسلام کے نام پر سودی بینکاری کو جواز بخش دیاہے اسلئے کہ غیبی مدد سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صفوں میں تگنی کا ناچ اپنی جماعت کوبھی نچارہاہے۔اسلامی سود، اسلامی ناچ اور اسلامی جاگیرداری سب کچھ دنیا میں رائج ہورہاہے۔ پہلے سے ہی آوے کا آوا بہت بگڑا ہواہے جس سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔
سورہ بقرہ کی آیات224سے232میں تک ہدایت کا وہ نور ہے جس کی طرف امت نے اگر توجہ کرلی تو ایک ہی دن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عظیم انقلاب آسکتا ہے۔ آیت نمبر224البقرہ میں تین بنیادی باتیں ہیں:
نمبر1:اللہ کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی نہ کرسکو۔ نیکی کرنا تو بہت بڑے درجے کی فضیلت ہے لیکن اس میں بہت قربانی کا بھی معاملہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر کے رشتے دار مسطح نے حضرت عائشہ پر بہتان لگایا تو حضرت ابوبکر نے یہ عہدکرلیا کہ آئندہ اس پر احسان نہیں کروں گا۔ اللہ نے قرآن کی سورہ نور میں آیت نازل فرمائی کہ ”تم میں سے جو مالدار ہیں وہ یہ عہد نہ کریں کہ وہ مستحق لوگوں کیساتھ احسان نہیں کریں گے”۔
حضرت ابوبکر کی طرف سے نیکی کرنا پہلے بھی بڑی بات تھی اور پھر بہتان عظیم کے باوجود بھی نیکی کرنا بہت بڑی قربانی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حکم واضح کیا کہ تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ نیکی کرنے سے ہاتھ روک لو۔ نیکی ہر میدان میں اللہ نے دشمنوں کو معاف کرنے سے لیکر ہرسطح پر جاری رکھی ہے اور اس کی ایک بڑی مثال یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ ۖ کی طرف سے واضح حکم آیا کہ چار افراد کا قتل مباح ہے۔اگرچہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف میں چھپ کر پناہ لیں تب بھی قتل کریں۔ ان میں ایک وحی کا کاتب مرتد بن گیا تھا۔حضرت عثمان نے اس کو چھپایا اور نبی ۖ کی خدمت میں معافی کی درخواست کی تو نبی ۖ نے چہرہ انور پھیر لیا۔حضرت عثمان نے پھر آکر دوسری مرتبہ درخواست کی تو نبی ۖ نے پھر دوسری طرف منہ مبارک پھیر لیا۔ پھر حضرت عثمان نے اس طرف درخواست کی تو نبی ۖ نے تیسری مرتبہ معاف فرمادیا اور لوگوں سے فرمادیا کہ تم لوگوں نے میری بات کو سمجھ کر معاف کرنے سے پہلے قتل کیوں نہیں کیا؟۔ مرزا محمد علی جہلمی ایک مخصوص ماحول کی پیداوار ہے اسلئے اس واقعہ کو اس انداز میں بیان کیاکہ جیسے حضرت عثمان نے کوئی بڑی گستاخی کا ارتکاب کیا ہو؟۔ حالانکہ حضرت عثمان کیلئے یہ بہت بڑے اعزاز کی تھی۔ یہ نبی ۖ رحمت للعالمین تھے اور اس واقعہ سے دشمنان رسول ۖ بھی نبی کی اس عظیم صفت پر ایمان لاسکتے تھے۔ ابوجہل کا بیٹا حضرت عکرمہحالت کفر میں بھی نبی ۖ کی اس صفت پر ایمان لایا تھا۔ہند نے بھی یہ صفت دیکھ لی۔ نیکی کرنا مشکل کام ہے لیکن اللہ نے اس کا راستہ نہیں روکا ہے اور یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
نمبر2:سورہ بقرہ کی آیت224میں دوسری بات تقویٰ اختیار کرنے سے نہ رکنے کا حکم ہے۔ تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے۔ جب حضرت یوسف کے پیچھے عزیز مصر کی بیوی زلیخا پڑگئی تو حضرت یوسف نے فرمایا کہ اگر میرے رب کی طرف سے برھان نہ ہوتی تو میں اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا تھا۔ رشوت، حرام ، جنسی خواہشات سے بچنے کیلئے انسان کو حد درجہ تعلیم وتربیت اور اچھے ماحول کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء کو جنت میں تمام چیزیں اپنی خواہشات کے مطابق کھانے پینے کی اجازت دی لیکن شجرہ ممنوعہ سے روک دیا تھا۔ فرمایا:لاتقربا ہذہ الشجرہ فتکونا من الظالمین ” اس درخت کے قریب نہ جاؤپھر تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے”۔ پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا ۔ تقویٰ اختیارکرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔جہاں برائی کے مواقع ہوں اور آدمی تقویٰ اختیار کرے تو یہ بھی عظیم لوگوں کی بڑی عظمت ہے۔ اس کیلئے زبردست اچھے ماحول کی بہت ضرورت ہے۔ اچھی تعلیم وتربیت کے بغیر تقویٰ اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔مدارس و خانقاہوں کے ماحول میں بھی تقویٰ اختیار کرنا بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بہت ساری آیات میں تقویٰ کی تعلیم دی ہے۔ جب تک دنیا و آخرت میں سخت مواخذے کا خوف نہ ہو تو تقویٰ اختیار کرنا بہت بڑی بات مگر مشکل کام ہے۔
نمبر3:سورہ بقرہ کی آیت224میں تیسری بات یہ ہے کہ اللہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے لوگوں کے درمیان صلح میں رکاوٹ مت ڈالو۔ ان آیات کا اصل موضوع یہی ہے۔
پل صراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بال سے باریک ہے ، تلوار سے تیز ہے اور پانی سے نرم ہے۔5سو میل چڑھائی ہے،5سو میل سیدھا ئی ہے اور5سو میل اترائی ہے۔ مفتی منیر شاکر نے اس پر ایک وزیرستانی کالطیفہ بھی سنادیا ہے۔آخرت کو چھوڑ دو۔قرآن کی ان آیات میں بھی پل صراط کا منظر ہے۔
آیات224سے232البقرہ اور سورہ طلاق میں بھی دو باتوں کی وضاحت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے انکے درمیان صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔ بجلی کے کرنٹ کی طرح دنیا اس پل صراط پر گزر جائے گی مگر جس نے مفتی کا کورس کیا ہوگا وہ اس سے قطعی طور پر بھی نہیں گزر سکے گا اسلئے کہ اسکے دل اور دماغ پر فتاویٰ شامیہ وغیرہ کی وہ چھاپ لگی ہوگی جس نے اس کی انسانی صلاحیتوں کو زنگ لگادیا ہوگا۔ پنج پیری مزاج کاانسان قرآن کی رٹ لگائے گا مگر قرآن میں حضرت خضر، حضرت عیسیٰ ، حضرت ابراہیم اور نبی ۖ کا واقعہ معراج اس کے دماغ میں کبھی نہیں اتر سکے گا۔ اگر قرآن و سنت کا حوالہ دئیے بغیر اس کا تذکرہ ہوگا تو اس کو عقل، دل اور شریعت کے منافی لگے گا۔ بھیا ڈھول کی تھاپ پر جتنا چاہو ، دوسرے پر شرک وکفر کا فتویٰ لگاؤ لیکن طلاق کا مسئلہ تو سمجھ لو۔ فتاویٰ شامیہ میں تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر تمہارے لئے تو پنجاب کی شلوار بابا والی سرکار بھی معتبر ہونا چاہیے۔ فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ سے بڑھ کر اور کیا گمراہی ہوسکتی ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے تک جائز قرار دے دیا۔ مفتی تقی عثمانی کو تو ہم نے تائب کرادیا لیکن مفتی سعید خان نے ریاست مدینہ سرکار کا نکاح پڑھایا تھا وہ تو اتنا بڑا جرم تھا یا نہیں؟۔ لیکن اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں جو فتاویٰ قاضی خان کی بات کو درست قرار دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے؟۔ اسکا کالیا سرکار کے پاس جواب ہوگا؟۔ فقہی مسائل صراط مستقیم ہیں یا پل صراط کی گمراہانہ پگڈنڈیاں؟ جبکہ ” اللہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ میں رکاوٹ ہی رکاوٹ ہے”۔ حالانکہ اللہ نے موٹر وے سے زیادہ واضح کردیا ہے کہ یہ مذہبی فتویٰ نہیں ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور مفتی مذہب کے نام پر ان میں کوئی رکاوٹ کھڑی کردے۔ یہی نیکی اور تقوے کا تقاضہ بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کوئی بھی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے ۔ اسلامی مدارس میں قرآن کی اس صراط مستقیم اور موٹر وے کے خلاف سب سے زیادہ گمراہی کے فتوے اسی سلسلے میں ہی دئیے جاتے ہیں جن پرآخر میںو اللہ اعلم بالصواب بھی لکھاجاتا ہے۔یعنی اس پل صراط پر ظن وتخمین سے یہ سبھی چلتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ واضح کردی ہے کہ اگر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو صلح کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ آخری حد تک زبردست وضاحتوں کے باوجود بھی پل صراط کی یہ چڑھائی مفتی صاحبان کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔اسلئے جج کی طرف سے فیصلہ آ گیا ہے کہ5سال پہلے عدت میں خاور مانیکا کا استحاق مجروح ہوا تھا اور بشریٰ بی بی نے عمران خان سے جو نکاح کیا تھا تو اس میں اس نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں اسلئے اس کو رجوع کا حق تھااور اس حق کی وجہ سے معزز عدالت نے بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ جس میں دونوں کو7،7سال قید اور5،5لاکھ جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔ فقہ حنفی میں حدیث صحیحہ کے خلاف عورت کی عدت خلع میں بھی3مہینے ہے۔ خاور مانیکا نے جو تحریری طلاق دی تھی تو اس میں ایک ماہ سے زیادہ مگر3بلکہ2ماہ سے بھی کم مدت گزری ہے۔ تحریری طلاق میں3طلاق کے الفاظ نہیں جس کی وجہ سے عدت میں خاور مانیکا کو رجوع کا حق تھا۔ جج نے اسلئے نہ صرف خاور مانیکا کے استحقاق کو مجروح قرار دیا ہے بلکہ عدت میں نکاح پر سزا اور جرمانہ بھی عائد کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے درست کہا ہے کہ1973کے آئین کے مطابق قرآن و سنت کی قانون سازی ضروری تھی۔ جو اسلئے نہیں ہوسکی کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کو لایا جاتا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کو ترجیحات میں نہیں رکھتے۔ اگر فقہ حنفی کے مطابق قانون سازی ہو تو پارلیمنٹ میں علاج کیلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا بل بھی پاس ہوسکتا ہے۔ مولوی کا نصاب بذات خود قرآن و احادیث سے بالکل متصادم ہے تواس کے مطابق قانون سازی نہیں ہوسکتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی سرپرستی میں قرآن و سنت کی درست تشریح کیلئے ایک لائحہ عمل تشکیل دیا جائے تو نہ صرف مدارس کے نصاب میں خوشگوار تبدیلی آئے گی بلکہ پوری دنیا پر اس کے زبردست مثبت اثرات پڑیں گے۔ میاں بیوی کیلئے یہ فتویٰ بالکل عام ہوجائے گا کہ ناراضگی کے بعد طلاق رجعی کا کوئی تصور نہیں ہے اور اگر میاں بیوی راضی ہوں تو طلاق مغلظہ اور طلاق بدعت کا کوئی تصور نہیں ۔ جب میاں بیوی کیلئے صلح کے دروازے قرآن نے کھول رکھے ہیں اور مولویوں نے بند کردئیے ہیں تو دوسرے انسانوں اور مخلوقات پر بھی صلح کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ قوم پرستوں اور طالبان کے ساتھ بھی صلح کی ر اہیں ہموار ہوں گی اور پڑوسی ممالک ہندوستان، ایران، افغانستان، چین، سعودی عرب، عمان اور دوبئی وغیرہ کے ساتھ بھی مثالی تعلقات قائم ہوں گے۔ پاکستان میں سونے کے بیش بہا خزانے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کے اندر سیندک ، ریکوڈک سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایران کی سرحد پر دریافت ہوا ہے۔ اس طرح وزیرستان میں سونے اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ مذہبی اور لسانی تعصبات انسانیت کو نگلنے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ سلال بلوچ کا تعلق پنجگور بلوچستان سے تھا۔ جس نے بیرون ملک اپنی نوکری چھوڑ کرBLAمجید بریگیڈ کے فدائین میں حصہ لیا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ وصیت کی تھی کہ مجھ پر شہادت کے بعد کوئی غم نہ منایا جائے۔ اسکی والدہ اور بہنوں نے کتنے بڑے دل کیساتھ اس کی وصیت پر عمل کیا ہوگا؟۔ ہمارے خانقاہ کے امیر شفیع محمد بلوچ نے اپنے بیٹے سے معاہدہ کیا تھا کہ ایک دوسرے کی میت کو غسل دیں گے۔ بیٹا ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوا اور باپ نے جب میت کو غسل دیا تو شاید ان کا دل پھٹ گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا تھا کہ اگر ہماری مذمت سے کام چلتا ہے تو کردیتے ہیں اور بہت لاشیں اٹھاچکے ہیں اب مزید لاشیں اٹھانے کو ختم کرنا ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv