پوسٹ تلاش کریں

پاکستان اپنے سفرکے اہم ترین چوراہے پر

14اگست 1947ء تاریخ کا آخری سیاہ ترین دن تھا جسکے گزرتے ہی یہ وطن عزیز آزاد ہوا، لیکن ہم نے رٹ لگائی ہے کہ رات 12بجکر1منٹ پر پاکستان آزاد ہوا، ٹی وی چینلوں پر روزانہ رات 12بجتے ہی تاریخ بدل جاتی ہے۔ یوں ہم ہر سال 13اگست کو 12بجتے ہی یومِ آزادی مناتے ہیں جسمیں غلامی کا آخری سورج طلوع وغروب ہوا۔ جب ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقریرو تصویر پر پابندی نہ تھی تو جلسۂ عام میں کہا کہ’’ پاکستان 15اگست کو آزاد ہوا تھا‘‘۔ جسکے جواب میں حامد میر نے وضاحت کی کہ’’ پاکستان رات 12بجکر1منٹ پر آزاد ہوا، برطانیہ کی چاہت یہ تھی کہ آزادی کی خوشی اس دن منائی جائے جب امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرائے تھے لیکن قائداعظم نے اسکی خواہش کیخلاف آزادی کو 14اگست کو منانے کا اعلان کیا‘‘ ۔ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقریر وتصویر پر پابندی لگی اور حامد میر کو اپنی منافقہ وکالت کے صلہ میں گولیاں ماری گئیں۔
مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے والے جنرل نیازی بھارت کی قید سے آزاد ہوئے تو کراچی میں شاندار استقبال ہوا تھا ۔ اب باقی ماندہ پاکستان بھی اس اہم چوراہے پر کھڑا ہے جس میں جھوٹ کے سہارے چلنے والی قوم ، ریاست اور حکومت کو معروضی حقائق سمجھ کر اپنی اصلاح کی طرف آنا ہوگا ، یا خاکم بدہن دوسرے ممالک اور قوموں کی طرح ہمارا بھی حشر نشر ہوگا، ہمارا ہوش ٹھکانے نہ آیا توبہت بُرا ہوگا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ریاستی دہشت گردی کی تھی اسکے نتیجے میں بھٹو کے ڈیرے پر زرداریوں کا بسیرا ہے۔اصل بھٹو خاندان تنہائیوں کا شکار ہے جو مرتضیٰ بھٹو کی اولاد ہے، ذولفقار علی بھٹو کے والدشاہنوازبھٹو کے وارث ذوالفقار جونئیرو فاطمہ بھٹو کا گھر 70کلفٹن ہے، آصف زرداری نے اپنے بیٹے بلاول کا نام اپنے دادا کے نام پر رکھا اسلئے بلاول ہاؤس پر بھٹو کی چھاپ درست نہیں، گڑھی خدابخش لاڑکانہ میں بھٹو کے ڈیرے پر زرداریوں کا بسیرا بھٹو کی یتیم اولاد کیساتھ بڑی زیادتی ہے جو شہیدوں کی قربانیوں کا نہیں بلکہ جن کیساتھ بھٹو نے زیادتی کی تھی ان کی بددعاؤں کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقارکھوسہ نے کہا کہ ’’ قدرت نے جنرل ضیاء الحق سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا انتقام لیا، جسکے جسم کے ٹکڑے بھی نہ ملے اور جھوٹ سے قبر بھی بنادی‘‘۔ معروف ٹی وی چینلوں نے یہ سچ قوم کو دکھانے کے بجائے نشریات کا رخ موڑ دیا۔ قوم کے سامنے سچ بولنے والا کوئی نہ تھا جو اتنا کہہ دیتا کہ بھٹو نے بھی کم مظالم نہیں کئے ہیں حبیب جالب نے اس پر شاعری بھی کی تھی اسلئے بھٹو اپنے انجام کو مکافات عمل کی وجہ سے پہنچے ، البتہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہتھوڑا گروپ جیسے واقعات ہوئے تھے تو گمنام قاتل اور مقتول کا انتقام قدرت نے جنرل ضیاء اورجنرل اختر وغیرہ سے لیا تھا۔فوج اورسیاستدان کی طبقاتی کشمکش کا آئینہ خناس بن کر میڈیا پر دکھایا جاتا ہے ، عوام الجھ جاتی ہے کہ کس کا قصور ہے اور کس کا نہیں؟۔ مگر عوام کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کا انتقام تو گویا خدا بھی نہیں لیتا، بس اللہ سیاستدانوں کا ہے یا فوجیوں کا ہے، دونوں عوام کی ہمدردیاں بھی سمیٹتے ہیں اور عوام کو پتلی تماشہ بھی دکھاتے ہیں، مشرقی پاکستان ہاتھوں سے گیا لیکن جنرل نیازی اور بھٹو قوم کے ہیرو یا زیرو ٹھہرے ، عوام تماشہ دیکھتی رہ گئی۔
وزیردفاع وبجلی خواجہ آصف نے کہا کہ ’’ افغانیوں کو ہم نے پناہ دی ، اب آنکھ دکھا رہے ہیں‘‘۔ خواجہ آصف کاباپ جنرل ضیاء کی شوریٰ کا چیئرمین تھا،امریکہ کے ایجنٹوں نے افغانی دلے گل بدین حکمت یار اور پاکستانی دلے ہارون الرشید جیسے لوگوں کے ذریعہ اپنے مفاد کیلئے خطہ کو تباہ کیا،کرایہ کے جہاد کی قیادت اور حمایت کی سعادت حاصل کرنے والوں نے دوسروں کے بچے مروا نے کی قیمت پر اپنے بچوں کیلئے جائیدادیں بنادیں ہیں۔ فتنوں کی آگ سلگانے اور پھونکیں مارنے والوں کے چہروں سے نقاب اٹھ جائے تو عوام کو پتہ چل جائیگا کہ حبیب جالب اور ڈاکٹر نجیب اللہ پاکستان اور افغانستان کے ہیرو تھے جو اپنی قوم اور مٹی سے محبت کا دم بھرتے تھے اور سفید چمڑی کے گلبدین حکمت یار اور کالی دمڑی کے ہارون الرشید اس خطے میں اپنی قوم، وطن، ریاست ، ملک کے دشمن اور اغیار کے ایجنڈہ پر چلنے کے مجرم اور ایجنٹ ہیں،بہت نقصان اٹھاچکے ،اب مزید اس کردار وافکار سے بچیں۔
تحریک انصاف کے شہریار آفریدی نے کہا کہ ’’ پشاور میں کوئی مکان بکتا ہے تو افغانی مہنگے دام خریدنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے‘‘۔ تاجر برادری نے افغانستان کیخلاف جلوس نکالے لیکن جب ہمارے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے دنیا بھر میں اثاثے خریدے، تو افغانی بیرون ملک محنت مزدوری کرکے اپنا سرمایہ پاکستان میں لگائیں تو اس میں کونسی برائی ہے؟۔ مسلم لیگ(ن) کی وہ حکومت جس نے بھارتی جاسوس کلب (کتا) ہوش (پکڑو) ن (لیگ) پر چپ کا روزہ رکھا تھا، جب بھارت نے مسلسل پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری کرکے بے گناہ لوگ شہید کیے تو کوئی خاص ردِ عمل سامنے نہیں آتا۔ دنیا کودکھایاکہ افغانستان و پاکستان کی جنگ کتنی آسانی سے ہوسکتی ہے؟،مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا’’ افغان طالبان رہنما پاکستان میں ہیں‘‘ افغانستان نے واضح کیا کہ ’’پاکستان مخالف طالبان پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے‘‘۔
امریکہ پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کیخلاف مؤثر کاروائی کا مطالبہ کر رہا ہے اور پاکستان اپنے مخالف طالبان کو ٹھکانے نہ لگانے پر امریکہ سے خفا ہے مگر ہماری حیثیت پشتو کی کہاوت کیمطابق’’ گاؤں کے میراثیوں کی طرح ہے جن سے گاؤں والے ناراض ہوجائیں تب بھی میراثیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میراثی ناراض ہوجائیں تب بھی میراثیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘‘۔امریکہ کی ہمدردیاں بھارت کیساتھ ہیں، ایران سے بھی لڑائی نہیں رہی ، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی سرپرستی میں بھارت، افغانستان اور ایران کا سہہ فریقی اتحاد کھل کر قائم ہوگیا ہے، پاکستان چین کیساتھ ساتھ روس سے بھی تعلق استوار کررہا ہے اور اس نئی صف بندی میں پاکستان وافغانستان کو ڈیورنڈ لائن پر لڑانے کی کوشش ہوگی تو پاکستان کے مقابلہ میں افغانستان کو ایران اور عالمی قوتوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ اٹک سے میانوالی تک کے علاقہ پر افغانستان کا دعویٰ ہے۔ تیسری بار وزیراعظم پر پابندی کے خاتمہ کیلئے (ن) لیگ’’سرحد‘‘کا نام بدلنے پر راضی ہوئی، سرحد تنازعہ کا نشان تھا۔اگر نیٹو نے اس جنگ میں افغانستان کا ساتھ دیا تو پاک فوج کو حکم دیا جائیگا کہ متنازعہ علاقہ خالی کرو اور وہ اقوام متحدہ جو 1948سے مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے نہ کراسکا مگر سوڈان میں اپنی فوج بھیج دی، جسمیں پاکستانیوں نے بھی حصہ لیا۔ یہاں بھی اقوام متحدہ کی فوج آئے تواس میں اسلامی ممالک کے علاوہ بھارت کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی ہماری فوج اور پولیس کو پاکستان کا بٹوارہ کرنے کیلئے زیادہ تنخواہ ملے تو ہماری ریاست بھی حصہ دارہو گی۔
امریکہ کی ریاست اسلحہ سے چلتی ہے، دنیا بھر میں جہاں لوگوں کو مرغے، کتے، بٹیر، تیتر،اونٹ ، بیل،دنبے، بھینسے اور دیگرجانور اور پرندے لڑانے کا شوق بلکہ کمائی کا ذریعہ اور پیشہ بھی ہوتا ہے ،امریکہ ریاستوں کو لڑانے، ڈھانچے تباہ کرنے اور قوموں کو لڑانے کاخوگر و پیشہ ور ہے۔پاکستان میں فرقے و لسانی لڑائی کے علاوہ سیاسی تعصب اور میڈیا کے ذریعہ خناس کا کردار ادا کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ اگرہم نے قوم کے سامنے سچ کو واضح کیا تو جھوٹوں کے منہ کالے اور عوام قومی مفاد ، پاکستان کی تعمیر اوردنیا میں سرخروئی کے متوالے ہونگے۔ پاکستان واقعی عظیم ملک، پاکستانی عظیم قوم ہے اورآئندہ اپنی عظمت منوانے کے دن آرہے ہیں۔ انشاء اللہ ، سید عتیق الرحمن گیلانی

پاک فوج سے بدگمانی کے عوامل اور اسکے نتائج

پاکستان میں مختلف ادوار کے اندر فوج نے اقتدار سنبھالا ہے، ایوب خان کے دور سے پہلے بھی عوامی قیادت نہیں تھی، بیوروکریسی کے سکندر مرزا سے حکومت چھین لی گئی تو عوام کا مسئلہ نہیں تھابلکہ انگریز کے تیار کردہ سول اور فوجی قیادت کی لڑائی تھی، ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی جنرل ایوب خان کی ٹیم سے نکل کر بعد میں عوام کا رخ کیا تھا اور بھٹو جب فوج کے ہاتھ سے تختہ دار تک پہنچے تو جنرل ضیاء الحق کے آغوش میں نواز شریف نے پرورش پائی، بھٹو نے فوج اور قوم پر قابو پانے کی کوشش کی ، نوازشریف بھی آنکھیں دکھا رہا ہے، اسلئے نوازشریف کامتبادل تلاش کیاجارہا ہے۔ نوازشریف کی خواہش ہے کہ باقی فوج جو کچھ کرتی پھرے خیر ہے مگر فوج اسکے برے وقت میں کام آئے، مخالف تحریکوں کو دبائے، پانامہ لیکس پرمٹی ڈال دے اور حکومت کے خلاف بولنے والوں کو لگام دے، نہیں تو فوج کی یہ نوازشریف سے بے وفائی ہے۔
پاک فوج ضربِ عضب میں تنہائی کا شکار تھی، حکومت کسی کام میں مشورہ بھی نہ دیتی تھی، سول لوگوں کیساتھ سیاسی طور سے نمٹ لینا فوج نہیں سیاستدان کا کام ہے، وزیرستان میں فوج کو کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو وہ ان کیساتھ ویساہی سلوک کرتی ہے جیسے فوج کی ڈسپلن، تربیت اور جو خودپر بیت چکی ہوتی ہے، مشہور ہے کہ گدھے کی محبت لات مارنا ہوتا ہے۔ فوجی طرز کی سزا ؤں میں پاک فوج کے جوان اپنائیت محسوس کرتے ہیں لیکن عوام میں ان سے نفرت بڑھ جاتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جان بوجھ کر ہماری توہین کی جاری ہے۔ حالانکہ یہ سزائیں فوجی خود بھی بھگتے ہیں اور دوسروں کو دینے کا مقصد بھی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ ڈسپلن اورتربیت ہوتی ہے۔
وزیرستان میں گھروں کے چھتوں سے برف نہ ہٹائی جائے توخراب ہوجاتے ہیں، کئی سالوں سے عوام کو جانے نہیں دیا جارہا تھا تو شہروں اور گاؤں کا ملبہ ٹھیکہ پر بیچاگیا، عوام نے گھروں کا حال دیکھا تو بہت پریشان ہوگئے کہ فوجی بھوکے ہوتے ہیں ، ہمارے گھروں، دکانوں اور بڑے بڑے درختوں کو کاٹ کر کھا گئے ہیں لیکن ان کو یہ کام کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہ آئی کہ ایک تو پناہ گزین بنایا گیا ، دوسرا ٹھیکوں پر سب کچھ بیچ ڈالا گیا۔ پرویزمشرف کے دور سے ایسا لگتا تھا کہ فوج کو ایک مہم کے تحت بدنام کرنے کیلئے ایسا کردار دیا گیا ہے تاکہ عوام ان سے نفرت کریں۔ سرکاری محکموں ، روڈ کے ٹھیکوں اور بدترین سلوک کی ان گنت کہانیاں عوام کے دل و دماغ پر نقش ہیں، فوج پرکوئی آفت آئے تو لوگ اس کو خدا کی طرف سے پکڑ اور قہر سے تشبیہ دیں گے۔ عوام کے دل ودماغ کو مثبت انداز میں سوچنے کیلئے مؤثر قیادت ہوتی تو پھر مشکلات حل کرنے میں بہت آسانی ہوسکتی ہے ورنہ عالمی منصوبہ سازوں نے یہ کسر نہیں چھوڑی ہے کہ کسی بڑی سازش کا مقابلہ ہوسکے۔
جس طرح ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ دوسرے کی عزت کوئی عزت نہیں لگتی، دوسرے کا نقصان کوئی نقصان محسوس نہیں ہوتا، قتل وغارتگری، مال ودولت کی پوجاو پاٹ ،اخلاقی بے راروی اور ہرقسم کی گراوٹوں کی آماجگاہ ہیں، فوج بھی اسی قوم وملت کا حصہ ہے، بس فرق جنگلی اور شہری انسانوں میں ضرور ہوتا ہے۔ قیادت اگر درست ہاتھوں میں رہے تواسکو ٹھیک ہونے میں زیادہ عرصہ بھی نہ لگے ۔ قبائل کو اس نے سدھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے تو اس پر گلہ کرنے کی بجائے خوش ہونا چاہیے۔ گاؤں ٹھیکے پر دئیے ہیں تو یہ نسبتًا سلجھا ہوا طریقہ ہے ورنہ تو ہمارے ہاں جس کو سزا دی جاتی تھی اسکے گھر کی لوٹ مار کی جاتی تھی، اب آئندہ قبائل کسی کو بھی سزا دینگے تو لشکرکشی کے ذریعہ لوٹ مار کی بجائے معروف طریقہ سے اشتہار دیکر ٹھیکہ پر گھر دینگے۔ امریکہ نے چاہا تھا کہ ہماری قوم کو بالکل خصی بنادے لیکن اب ہم بہت سلجھ گئے ہیں ، انشاء اللہ آنے والے وقت میں ہماری قوم امریکیوں کی امامت اسلئے کرے گی کہ وہ سلجھے ہوئے نہ ہونگے ایک دوسرے سے رنگ، نسل ،قوم اور مذہب کی بنیاد پر لڑیں گے اور ہم انکے درمیان بھی مصالحت کا کردار ادا کرینگے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہم یکیدون کیدًا واکیدکیدًا ’’بیشک وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں‘‘۔ مہدئ سوڈانی نے انگریز کوشکست دی تو اب سوڈان سے مغرب نے اپنا بدلہ لیا ہے، پختونخواہ کے لوگوں نے انگریز سے لڑائیاں لڑی تھیں تو انکے خلاف بھی بہت سازشیں کی گئیں۔ پختون قوم کو منصوبہ بندی کے تحت تباہ کیا گیا لیکن اس سے ان میں بین الاقوامی معیار کا شعور بھی آیا ہے، اب پھر افغانستان اور پاکستان کو لڑانے اور پختونوں کو مزید کچلنے کی سازش تیار ہورہی ہے۔ ہماری افغانوں سے کوئی لڑائی نہیں مگر جہاں تک ڈیورنڈ لائن کا تعلق ہے تو اگر ہمیں یہ اختیار دیا جائے کہ افغانستان یا پاکستان میں کس کیساتھ رہنا پسند کرینگے تو اب ہمیں افغان پر حکمرانی بھی نہیں چاہیے لیکن پاکستان کی رعایابن کر رہنا ہی پسند ہوگا۔ پنجابی، سندھی، بلوچ اور کشمیری سے جو انسیت ہے وہ افغانوں سے نہیں، اگر بالفرض پاکستانی اسلام کا نام چھوڑ دیں تب بھی راجہ رنجیت سنگھ کی اولاد کے نام پر بھی انگریز نے پنجاب کو نہیں چھوڑنا ،ہم انکے مقابلہ کی سکت نہیں رکھتے، علامہ اقبال کی بکواس ؂کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کسی کام کی نہیں ، قرآن کیمطابق اپنی استطاعت سے دفاع کی طاقت حاصل کرکے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن پر رعب طاری کرنا ہے، بھارت کی حد تک ایٹم بم اور میزائل پروگرام تشکیل دیا لیکن اپنی استطاعت سے بڑھ کر دفاع کا بجٹ بنانے کے باوجود امریکہ کے دست نگر رہتے ہیں۔ ایسے اقدامات کرنے ہونگے جن میں امریکہ کی چبائے ہوئے چیونگم کی طرح امداد کے نشے کا انتظار نہ رہے۔کوئی امداد روکنے کا بل پیش کرتا ہے اور کوئی مسترد کرتا ہے تو ہماری روح ہی تڑپ جاتی ہے کہ جان نکلے گی یا جان بچے گی، ایسی دفاعی امداد پر لعنت بھیجو۔
پاک فوج نے کم عقل سیاستدانوں کو استعمال کرکے بہت مشکلات پیدا کی ہیں، اگر وہ شہروں سے باہر اپنے ٹھکانے بنالیں تو شاید بیرونی دشمنوں سے خطرہ لگتا ہے اور اگر عوام کیلئے راہیں کھول دیں تو اندرونی دشمن کا خوف مسلط ہے۔ جب تک اس طرز زندگی کو تبدیل نہیں کرینگے تو عوام اور پاک فوج میں محبت کی جگہ نفرت پیدا ہوتی رہے گی۔ فوج کی ٹریننگ دشمن سے نمٹنے کیلئے ہے۔ خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور کراچی میں ایسے حالات بنائے گئے کہ دشمن بھی اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا،موجودہ فوجی قیادت نے اس چیلنج کو قبول کرکے کافی حد تک معاملات کو حل کردیا ، فوجی سپاہیوں اور افسران سے پولیس کی طرح توقع رکھنا بھی ایک غلطی ہے۔ اب تو فوج کو اتنا عرصہ قبائلی علاقوں ، بلوچستان اور کراچی میں ہواکہ ان کو پولیس کی طرح ٹریننگ دی جائے اور بطور پولیس بھرتی کرنے میں بھی حرج نہ ہونا چاہیے۔ اسلئے کہ اب یہ جنگلوں میں نہیں رہ سکتے ، البتہ شہروں میں جنگلی بن کر نہ رہنا چاہیے۔ یہی فوج ،قوم، ملک، سلطنت کے مفاد میں ہوگا۔قبائل کالے قانون کے عادی تھے اسلئے کہ پولیٹیکل انتظامیہ کرپشن کرکے قوم کو ناکردہ گناہوں کی اجتماعی سزا دیتے تھے۔
پاک فوج کامطلب پاکیزہ نہیں بلکہ پاکستان کا مخفف پاک ہے، فوج دوسروں کی طرح خود کو بھی پاکیزہ نہ سمجھے اور نہ دوسروں کو یہ حق ہے کہ فوج پاکیزہ نہیں اور وہ خود پاک ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لاتزکوا انفسکم اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو۔ ہماری سیاست قیادتیں پاکی کے دعوے کرکے منتخب ہوتی ہیں حالانکہ ان کا کردار درست ہوتا تو قوم بھی ٹھیک ہوجاتی۔وزیرستان، بلوچستان اور کراچی والے بھی خود کو پاک نہ سمجھیں ،اندرون سندھ اور پنجاب کوپاک ہونے کی ضرورت ہے، جہاں خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہیں، پاک فوج اپنی غلطیوں کو وہاں نہ دھرائے مگر وہاں بھی بدمعاشی کے نظام کو ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔سید عتیق گیلانی

جنرل راحیل شریف کا کردار اور پختون قوم کی شکایت

پختون قوم کی اکثریت اپنے گناہوں کی سزا کھا رہی ہے ظھرالفساد فی البر والبحر بماکسبت ایدی الناس ’’ فساد ظاہر ہوا خشکی اور سمندر میں بوجہ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے ‘‘۔ مگر اسکو گلہ پاک فوج کے جوانوں سے ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو پوری پاکستانی قوم کی ہمدردیاں طالبان کیساتھ تھیں اور پختون من حیث القوم طالبان بن گئے۔طالبان کے شدت پسند حامی کہتے تھے کہ ’’ اللہ کرے کہ انڈیا ہماری فوج کو پکڑلے‘‘۔ فوج کی طرف سے طالبان کیخلاف کوئی موثر کاروائی ہوتی تو بغاوت بھی پھیل سکتی تھی۔پوری قوم کی طرح پاک فوج بھی طالبان کیخلاف نہ تھی، امریکہ بھی القاعدہ کا مخالف تھااور طالبان رہنماؤں کو دنیا بھر میں آزادی سے نقل وحمل کی اجازت تھی ،امریکہ و طالبان کی مشترکہ منڈی کامرکزقطر تھا،اس اندھی لڑائی میں دوست دشمن کی تفریق ممکن نہ تھی، پاکستان اور امریکہ بھی ایک دوسرے کے برابر دشمن بھی رہے اور دوست بھی۔
جنرل راحیل شریف سے پہلے پرویزمشرف کے دور میں پاک فوج کو عوام نے بہت قریب سے دیکھا، جنرل کیانی کے چھ سالہ دورِ اقتدار میں پاک فوج نے عوام کو اپنا چہرہ اورقریب سے دکھایا، فوج کے اہلکار بوتلوں میں پیٹرول اور ڈرموں میں ڈیزل سڑکوں پر بیچتے تھے، پولیس کی طرح جرائم پیشہ عناصر سے تانے بانے بھی کھل کر ملتے تھے، ریاست کی رٹ بالکل ختم ہوگئی تھی۔ ایک نابینا مولوی کا لطیفہ تھا کہ اپنے شاگرد سے کہا کہ جب لوگ کھانے کے مشترکہ تھال میں کھانا شروع کریں اگردوسرے تیز کھائیں تومجھے بھی ہلکا سا اشارہ کردیں، پسلی پر ہاتھ مار دیں ،پھر میں بھی تیز کھانا شروع کرونگا۔ شاگرد طالب کو اس کی بات ناگوار لگی اور اسکے ذہن سے بات بھی نکل گئی، جب کھانا شروع ہوا تو نابینا نے پہلے سے بڑے بڑے نوالے لینا شروع کردئیے، شاگرد نے سوچا کہ اشارے سے سمجھا دیتا ہوں کہ بُرے لگتے ہو اور ہلکا سا ہاتھ مار کر اشارہ کردیا، مولوی نے سمجھا کہ تیز کھانے کیلئے کہہ رہا ہے۔ اس طرح شاگرد اس کو منع کرنے کیلئے اپنا ہاتھ مارتا رہا اور مولوی مزید تیز ی سے کھاتا رہا اور آخر شاگرد نے زور دار طریقہ سے مکا مارا،کہ بس کرے اور اس نے کھانا اپنے دامن میں دونوں ہاتھوں سے ڈالنا شروع کیا اور گالیاں بھی دے رہا تھا کہ میں رہ گیا اور سب نے لوٹ کر کھانا کھایا ہے جبکہ لوگ اس حریص ہی کا تماشہ دیکھتے رہ گئے۔
جنرل اشفاق کیانی کی قیادت میں بس یہی جملہ کراچی کے رینجرز سے فوج کے تمام اداروں میں مشہور تھا کہ اگرملک زرداری اور اسکے ساتھی کھالیں، لوٹ مار کریں تو ہم کیوں کر مستحق نہیں ہیں، جنرل راحیل شریف کی قیادت میں سب سے پہلے جو ہاتھ ڈالا گیا وہ اپنے ادارے اور اسکے لواحقین پر ڈالا گیا۔ ایگزیکٹ کی طرح دنیا بھر میں جعلی تعلیمی ادارے اسناد بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں اور بڑے کھل کر کرتے ہیں مگر جنرل راحیل شریف کی ٹیم نے سارے مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ان تمام افراد پر پہلے ہاتھ ڈالا،جنکے تانے بانے اپنوں سے ملتے ہوں۔ اس انتھک محنت، جدو جہد اور مؤثر کاروائیوں کے نتیجے میں ملک تاریکی سے اجالے، دہشت گردی سے امن وامان اور کرپشن سے دیانت وامانت کی طرف گامزن ہوا ہے۔
ایک شخص جنرل راحیل شریف اپنی ٹیم کیساتھ بہت کچھ کر گیا اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، چیف جسٹس انور ظہیرجمالی بھی بذاتِ خود ایک بہت اچھے انسان ہیں، جن سیاستدانوں کو کرپشن کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا، ان پر ہاتھ ڈالے بغیر قوم کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے، سازشوں کی لہریں اٹھ رہی ہیں، موجودہ حکمرانوں میں اہلیت نہیں ، قوم کو صرف اس طرف لگایا گیا ہے کہ زیادہ کرپٹ، بدمعاش، بداخلاق اور بدکردار سیاستدان ہیں یا پاک فوج ہے؟۔ دونوں اسی دھرتی کے باسی اور ماشاء اللہ وسبحان اللہ ہیں۔دونوں میں اچھے برے ہیں، دونوں نے غلطیاں کی ہیں،دونوں کو قربانیاں دینی پڑیں گی اور پاکستان کی ترقی کیلئے ایک نئے سرے سے لوگوں میں انسانیت، اخلاقیات، صداقت، عفو و درگزر ، شجاعت ، دیانت ،امانت اور ایمانیات کا احساس اجاگر کرنا ہوگا۔
یہ قوم مردہ ، ضمیر فروش، اخلاق باختہ ، انسانیت کُش اور تمام طرح کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوچکی ہے۔ تہذیبِ اخلاق کیلئے صرف جذبہ سے نہیں بلکہ مؤثر قانون سازی اور کردار سے اس میں اعلیٰ انسانیت کی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ یہ کس کی سازش ہے کہ ہم سڑکوں پر انسانیت کے تمام معیارات بھول جاتے ہیں؟۔ یہ ہمارے رول ماڈلز کا تحفہ ہے جن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں عوام کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں سڑک کشادہ ہونی چاہیے تھی، وہاں بااثر طبقہ کی طرف سے اپنی جان کی امان کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام کا جینا دوبھر کرنے کا سامان کیا گیا ۔رائے ونڈ محل کی سیکیورٹی سے عوام کو مشکلات کا سامنا نہیں لیکن تحریک انصاف کی جہاں حکومت ہے وہاں کے صدر مقام پشاور میں کورکمانڈر ہاؤس کے سامنے ایک طرف کی سڑک رات کو بند کی جاتی ہے، ہمارے دفاعی ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہیں یا اپنے تحفظ کیلئے عوام کا جینا دوبھر کرنے کیلئے؟۔
ایسے سیاسی حکمران بھٹو، نواز شریف اور عمران خان تک کسی کام کے نہیں جو فوجی افسران کا دم چھلہ ہوں، فوج کا کام عوام پر حکمرانی کرنا نہیں اپنی ڈیوٹی انجام دینا ہے اور سیاسی حکمران اگر عوام کے درست معنیٰ میں خادم اور نوکر ہوں تو فوج عوام کی غلام ہونی چاہیے۔ انگریز نے اپنی غلامی کیلئے جن کو بنایا ہے ، یہ اپنی عوام پر حکمرانی کرینگے تو گدھوں کی دولتی سے عوام کی ناک بھی ٹوٹے گی، ناک نہ رہے تو عزت کیا رہے گی؟۔ حکمران غلاموں کے غلام ہونگے تو ان میں اخلاقیات کا کیا معیار ہوگا؟۔ پاک فوج کا سربراہ اپنے غلام حکمران کو کیا سلام کریگا؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان جیسے لوگ شرم ، حیاء، اخلاقیات، انسانیت اور اسلام کے کسی اصول کو نہیں مانتے۔جسطرح نوازشریف نے کاروبار سیاست سے فائدہ اٹھاکر اخلاقیات کیلئے کوئی رول ماڈل کا کردار ادا نہ کیا، اسی طرح فلاحی اداروں کے بل بوتے پر اپنا مفاد حاصل کرنے والا کوئی ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتاہے۔ پاکستان میں شریف اور اچھے لوگوں کی کسی بھی ادارے میں کمی نہیں مگر اہل لوگوں کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے اور بک بک کرنے والوں اور بے شرمی سے گھناؤنا کردار ادا کرنے والوں کو ہی آگے لایا جاتا ہے۔
سوات میں افضل خان لالا مرحوم نے دہشت گردی کے خلاف جو کردار ادا کیا، اگر حکومت ،میڈیا،سیاستدان اور عوام ان کو پذیرائی بخشتے تو ملالہ یوسف زئی کو آدھا نوبل انعام ملا، اس سے پہلے افضل خان لالا پورے نوبل انعام کے مستحق تھے، اس طرح میاں افتخار حسین نے جن مشکلات کے دور میں جو کردار ادا کیا ، تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسکے گھر پر تماشہ لگاکر کتنا مضحکہ خیز کردار ادا کیا؟۔ اس پر قتل کا پرچہ کٹوایا گیا۔ کوئی شریف آدمی تحریک انصاف کے بداخلاق رہنماؤں کیساتھ کسی ذمہ دار عہدے پر کام کرنے کیلئے بھی آمادہ نہیں ہوتا ۔ مولانا فضل الرحمن کا حال تو اتنا بُرا ہوا کہ ہمارے ہاں ایک ریٹائرڈفوجی حوالدارہے جس کو بالآخر یہ تک شرارتی بچہ پارٹی کہتی تھی کہ دو روپیہ میں اپنا چوتڑ دیوار سے ٹکراؤ، وہ رقم کی خاطر ریورس گیر لگاکر چوتڑ کو دیوار سے ٹکرا دیتا تھا، مسلم (ن) کا ایک گھٹیا کارکن بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح نہ کہتا کہ ’’پنجاب کے شیروں کو پختونخواہ کے چوہوں نے للکارا ہے‘‘۔ فوج تبدیلی کی خواہش رکھتی ہو تو خود بھی حکمرانی کی کوشش نہ کرے اور گھٹیا سیاستدانوں کو بھی نہ لائے، شریف لوگوں کے ذریعہ نظام کو درست کرنے کیلئے قومی حکومت ہو تو اچھے نتائج نکلیں گے۔عوام چہروں کی نہیں نظام کی تبدیلی چاہتی ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنااورکچھ معروضی حقائق

یوں تو پتہ نہیں چلتا کہ خودکش حملوں اور پلانٹ کردہ بموں کے اصل کردار کون ہیں مگرماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کی انکوائری مشکل نہیں ، البتہ لاہورکے تازہ واقعہ میں شہید ہونے والے70افراد حرفِ غلط کی طرح بھُلادئیے گئے جن کی چپقلش بھی نہ تھی بس تاریک راتوں میں مارے گئے۔اسلام آباد دھرنے میںPAT کے کارکنوں نے ایس ایس پی کی جس طرح ٹھکائی کردی، اسلام آباد ائرپورٹ پر جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کے جیالوں نے پولیس کو مارا، وہ کسی سے مخفی نہیں، ماڈل ٹاؤن میں پہلی مرتبہ ڈنڈے مارنے اور جوش کا مظاہرہ کیا ہوگا تو پولیس نے گولیاں چلائی ہونگی۔ اس سانحہ کی ذمہ دار صرف ریاست نہیں بلکہ PAT بھی ہے جس نے غریبوں کو ڈنڈے مارنے اور گولیاں کھانے کیلئے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
پہلی مرتبہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا تو کراچی آئے اور ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین گویا اسکے فسٹ کزن تھے جبکہ دوسرے دھرنے کے دوران عمران خان فسٹ کزن قرار پائے جو الطاف حسین کو ہزاروں افراد کا قاتل ، ظالم اور جابر کہتا ہے۔ اب اس سوال کا جواب چاہیے کہ 14افراد کے قتل پر آسمان و زمین کی قلابیں ملانے اور انقلابیں برپا کرنے والے کو اس وقت ہزاروں افراد کا قاتل الطاف اپنی طرح ایک مسیحا اور بھائی لگتے تھے اور نظام کی تبدیلی کیلئے اسی کا ساتھ چاہیے تھا ؟۔ اگر یہ سب جھوٹ اور غلط پروپیگنڈہ ہے تو اپنے بھائی کے حق میں آواز کیوں نہیں اُٹھائی جارہی ہے؟۔ تقریر و تصویر پر پابندی تو دنیا کے بڑے بڑے دہشت گردوں کی بھی نہیں لگی تو کیا اس پابندی نے الطاف حسین کو دنیا کا واحد مقبول لیڈر نہ بنایا؟۔ کراچی کی عوام لکھی پڑھی ہے، اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح الطاف حسین کا متضادرویہ اور تقریروں کا عجب انداز سامنے لایا جاتا تو عقیدت و محبت میں کیا اضافہ ہوتا؟۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ویڈیو دکھائی جاتی ہے جسمیں سینہ کھول کر وہ کہتے ہیں کہ گولی مار دو میں نہیں ڈرتا، اور پھر لوڈسپیکر پھٹنے پر حواسہ باختہ دکھایا جاتا ہے،حالانکہ قوتِ مدافعت سے اچانک لرز جانا کوئی بزدلی بھی نہیں ۔
البتہ جب ڈاکٹر طاہرالقادری امارات کے جہاز میں چپک کر بیٹھ گئے اور کہاکہ ’’میں اتروں گا نہیں ورنہ ماردیا جاؤں گا‘‘۔ تو اتنا کہہ دیا جاتا کہ تم نے اس وقت خوف کا مظاہرہ کیا ،اپنے عقیدتمندوں کے سامنے بھونڈی حرکت کی ضرورت نہ تھی کہ کوٹ کھول کر سینہ دکھایا اور کہا کہ میں گولی سے ڈرنے والا نہیں۔ یہ کہنا اسوقت ججتا ہے جب کوئی بزدل دشمن بندوق لیکر نشانہ بنانے سے ڈراتا ہے کہ میں بزدلوں کے ڈرانے سے نہیں ڈرتا ۔ قوم کا درد رکھنے اور خاندانی سیاست نہ کرنے کی بات وہ کرے جو خود ملوث نہ ہو۔ جب اسلام آباد کی سردی میں دودھ پیتے بچے ٹھنڈ سے بدحال تھے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے جوان بیٹے ، بیٹی محفوظ کنٹینر میں دندناتے تھے۔ ابھی تک قوم کو پتہ نہیں کہ حکومت کو ڈھیل اسلئے دی کہ ڈاکٹر طاہر القادری بیمار تھے یا حکومت کو وقت دینا چاہتے تھے؟ اور تیسرا دھرنا اسلئے ملتوی کیا کہ خرم نواز گنڈہ پور کی زبان کی پاسداری کی، یاپھر رمضان میں لوگوں کوتکلیف نہ دینا چاہتے تھے؟۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ’’میرے لئے کرسی پر بیٹھ کر تقریر کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن میں نے کھڑے ہوکر تقریر اسلئے کی کہ یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ میں بالکل فٹ ہوں، میں بیٹھ کر تقریر محض اپنے سہولت کیلئے کرتا ہوں، یہ میری مجبوری نہیں‘‘۔ جب ڈاکٹر صاحب نے فجر کی نماز پڑھائی تو سجدے میں جانے کی بجائے کرسی ہی پر بیٹھ جاتے تھے، یہ انکا عذر اور مجبوری ہے یا ان کی کرسی سے محبت اللہ کے سامنے سجدہ کرنے سے بھی روکتی ہے؟۔جنرل راحیل شریف اپنی چھڑی سے نوازشریف کو سبق سکھائیں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی اللہ کے سامنے سجدے کا اشارہ کریں ، اللہ کیلئے نہیں تو جنرل کیلئے ضرور مصلے پر سجدہ کریں گے۔ڈاکٹر طاہرالقادری مصلہ پر بیٹھ کر سجدہ نہیں کرسکتے توکیسے کہا کہ ’’میں نے مصلہ پر گڑگڑا کر بہت دعائیں مانگ لیں کہ اے اللہ! میری عزت کا پاس رکھنا، اگر 14غریب شہداء کے لواحقین میں سے کوئی ایک بھی بک گیا تو میری عزت خاکستر ہوجائیگی، شکر ہے اللہ نے میری عزت رکھ لی ، حکومت نے بہت پیشکش کی کہ دیت لے لو لیکن کوئی ایک بھی نہ بکا‘‘۔
کارکنوں کی کیا حیثیت ،رہنماؤں کے بدل جانے سے بھی قائدین پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یہ بات ہوتی تو پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ،تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی کیا عزت رہتی؟،کتوں کے ریلوں کی طرح سیاسی رہنما پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ اور جب رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ مرتد ہوگئے تو اس پر بھی نبیﷺ کی عزت پر کیوں کر اثر پڑتا؟۔ البتہ جب نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ شہر میں جنگ لڑیں تو اچھا رہیگا اور نوجوان صحابہؓ نے ضد کی کہ ہم باہر نکل کر مقابلہ کرینگے تو نبیﷺ کا ارادہ بدل گیا اور شہر سے نکلنے کیلئے زرہ زیبِ تن فرمایا، نوجوانوں کو بڑوں نے ڈانٹا کہ اپنی رائے پر اصرار کیوں کیا تو وہ عرض کرنے لگے کہ ہماری رائے بدلی ہے، شہر میں جنگ لڑیں گے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ جب نبی ایک دفعہ زرہ پہن لے ،پھر مناسب نہیں کہ اس کو اتاردے۔ اب شہر سے باہر ہی جنگ لڑیں گے۔ پھر گھمسان کی جنگ میں بعض صحابہؓ کے پیر اُکھڑ گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا انا نبی لاکذب انا ابن عبدالمطلب ’’ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ،میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں‘‘۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے قوم کے سامنے کفن لہرایا کہ ’’ اس کو میں پہنوں گا یا اس کو نوازشریف کی حکومت پہنے گی‘‘۔ دونوں باتیں نہیں ہوئیں بلکہ جسکو فسٹ کزن قرار دیا تھا اسکو بھی چھوڑ کر بھاگا، کیونکہ بھکر میں انتخابات کانتیجہ دیکھ لیا تھا۔ عزت رکھنے کی بات ہوتی تو اپنی بات پر قائم رہ کر خود اپنی عزت رکھ لیتے۔ کارکن دیت لیتے بھی تھے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی اجازت اسلئے نہ دی تھی کہ غریب کے عمل سے باتوں کے سکندروں کی عزت پامال ہوتی۔البتہ جب ریمن ڈیوس نے صرف شہریوں کو قتل نہیں بلکہ ریاست کی بھی خلاف ورزی کی تو اس وقت صوبائی ومرکزی حکومت اور فوج وعدلیہ کے کردار نے اپنی عزت داؤ پر لگادی۔ عمران خان اگرچہ نیازی ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کی طرح باپ سے زیادہ ماں اور ماں کے خاندان کا نام لیتے ہیں، جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا نسب قادری نہیں تو کس اعتبار سے فسٹ کزن ہیں؟۔ کیا امپائر کی انگلی اٹھنے یا توقعات کے حوالہ سے فسٹ کزن ہیں؟۔
خرم گنڈہ پور نے میڈیا پر مسلسل کہا ’’ اگر ہمارے پاس اسلحہ ہوتا تو انکو بھی نشانہ بنادیتے، میں تربیت یافتہ فوجی ہوں، میری نااہلی پاکستان آرمی کی نااہلی ہے‘‘۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے خرم نواز گنڈہ پور کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا اور کہا کہ ’’ہمارے پاس پاک آرمی کے ریٹائرڈ تربیت یافتہ کمانڈوز تھے میرے بیٹے حسن اور حسین نے منتیں کرکے ان کو کمروں میں بند کیا کہ ہمارے ابا کا حکم ہے، سب کو بھی مار دیا جائے تو پُر امن رہنا۔ اگر اس وقت ان کی اجازت ملتی تو 14لاشیں ان کی بھی گرجاتیں‘‘۔ اگر ایک بیٹا گارڈز کو روکتا اور دوسرا گولی کھانے والوں کیساتھ گولی کھا لیتا تو شاید پروفیسر طاہرالقادری کو اسی وقت پاکستان آنے کی توفیق مل جاتی لیکن جو غریب مرتے ہیں ان کی کیا اوقات ہوتی ہیں، اگر حکمرانوں میں عقل ہوتی تو وہ یہی کہتے کہ اسلام آباد کی بجائے لاہور ہم زبردستی سے اسلئے لائے ہیں کہ دعا اور تعزیت کا خیال تو رکھو۔ عمران خان اسپیشل جہاز سے کراچی آئے تو ایم کیوایم کیخلاف ایک لفظ بھی نہ کہا اور اپنی جماعت کی خاتون رہنما زہرہ شاہد کی تعزیت بھی نہیں کی۔ ہمارا مستقبل ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے جن کا اپنا کوئی حال نہیں ۔
جمہوریت کی بساط لپیٹی جائے توتمام سیاسی مقاصد و فوائد حاصل کرنے والے طبقے کو ایک ہی چھڑی سے سیدھا کیا جائے تاکہ ماضی کی غلطیاں نہ دھرائی جائیں۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

پانامہ لیکس چھوڑئیے اسحاق ڈار کے ذریعہ ملک کو تباہ کیا گیا…

پاکستان اسلام کی بنیاد پر بناہے، اسلام پاکستان کا مستقبل ہے، پاکستان اسلام کی بنیاد پر ہی ترقی کرسکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد کے مطابق 2009,2010ء میں اندرونی قرضے کا سود576.77ارب روپیہ تھا، جو صرف 5سال بعد 2015,2016میں یہ سود دگنے سے بڑھ کر.676. 1168رب روپیہ ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی 63سالہ تاریخ میں مجموعی طور سے جتنے قرضہ پر جو سود دیا جارہا تھا ، صرف پانچ سالہ دور میں اس سے وہ قرض کتنا بڑھ گیا ہے جس میں اسکے دگنا سے بھی زیادہ سود دیا جارہا ہے۔ یہ وہ سود ہے جو اندرونِ ملک قرضہ پردیا جارہا ہے، بیرونی قرضہ اور اس پر سود اسکے علاوہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اندورنِ ملک سے اتنا بڑا قرضہ کیسے لیا ہے؟، اس کا اثر قوم، ملک، سلطنت زندہ بادپائندہ باد پر کیا پڑیگا؟۔ اگر عوام کو یہ بات سمجھ میں آگئی تو قومی ترانہ میں زندہ باد پائندہ باد کی بجائے قوم ملک سلطنت کامرثیہ گاگا کروزیراعظم کو مارآستین سمجھ کر کہیں گے کہ’’ گزندہ باد،شرمندہ باد‘‘۔ پرویزمشرف نے مفت میں حبیب بینک کو بیچا تھاتو بھی ہمارے اخبار کی شہ سرخی تھی، پھر اسٹیل مل کو بیچا جارہا تھا، تب بھی ہم نے شہ سرخی لگائی تھی، اسوقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سب سے بڑی نیکی اور کارنامہ یہی تھا کہ پرویزمشرف کو سپریم کورٹ نے روک دیا تھا۔ جس پی آئی اے کو نوازشریف کھڑا کرنے کی بات کررہے تھے اس کو پرائیویٹ کردیا گیا، بندے بھی مارے گئے اور پی آئی اے بھی نہ بچ سکی۔
ایک انتہائی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں نوازشریف کا نہیں، انکے بچوں کا نام تھا، وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ میرا بچوں سے کیا تعلق ہے؟، وہ بالغ اور خود جوابدہ ہیں، جو چور ہوتا ہے ، وہ اپنا نام کھل کر ظاہرنہیں کرتا‘‘۔ پھر ایک ڈرامہ رچایا گیا کہ وزیراعظم کا نام بھی ہے، نہیں ہے، پانامہ نے معافی مانگ لی، نہیں مانگی، اپوزیشن اور حکومت کی مداری پارٹی قیادت نے جھاگ کی طرح شور اٹھایا، پھر یہ ختم ہوجائیگا، سرکاری پیسہ جو عوام کی ٹیکس سے بنتا ہے، وزیراعظم کے بچوں کی صفائی کیلئے خرچ کیا گیا۔ تحریک انصاف اس پر آواز اُٹھاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ تم غریبوں کی زکوٰۃ ، خیرات، صدقات کے پیسوں سے کاروبار کرتے ہو، اپنی ماں شوکت خانم کی بجائے ہسپتال غریبوں کے نام پررکھتے، عمران خان نے شوکت خانم میں دو دفعہ علاج کیا تو بھی غلط تھا، اربوں روپے کے مالک پر تو زکوٰۃ نہیں ہوتی اور زکوٰۃ کی رقم کاروبار میں کیسے استعمال کی؟۔ بنی گالا بھی بیوی نے آف شور کمپنی سے خرید کردیا تھا تو عوام حکومت اور اپوزیشن کے ایکدوسرے پرالزامات میں خود کوبھول جاتی ہے۔
پہلے امیروں کو انکم ٹیکس دینا پڑتا تھا، جس کی کم آمدنی ہوتی تھی، وہ قانونی طور پر ٹیکس سے آزاد ہوتا تھا،پھر پرویزمشرف کے دور میں سیل ٹیکس کا آغاز کردیا گیا، جو امیر غریب سب کیلئے برابر ہے کیونکہ ضروریات کی چیزیں سب کو خریدنی پڑتی ہیں، پرویزمشرف نے پروگرام بنایا تھا کہ 15%سے اس کو5%پر لائیں گے مگر اب تو مختلف اشیاء پر بہت زیادہ بڑھادیا گیا ہے، پیٹرول پر45%ہے، پرویزمشرف کی نسبت3گنا بڑھا کر نوازشریف تقریر میں کہتا ہے کہ ’’مہنگائی کی کمر توڑ دی ہے‘‘ تو ڈھورڈنگر عوام تالیاں بجاتے ہیں،سیاسی مشیروں، وزراء اور ممبران اسمبلی میں اپوزیشن والے بھی حقائق سے بے خبر رہتے ہیں۔ پانامہ لیکس سے بڑی خبریں ملک ہی میں دیگر ہیں مگر سیاستدانوں کو خبر نہیں تو عوام بیچاروں کا کیا قصور ہوسکتا ہے؟۔
عوام کو پتہ چلتا کہ پی آئی اے اور سٹیل مل وغیرہ کی طرح ائرپورٹ اور سڑک بیچے جارہے ہیں تو حکمرانوں کو عوامی جلسوں میں جانے کی جرأت بھی نہ ہوتی۔ہمارا بے شعور معاشرہ شاہی سیاسی خانوادوں اور شخصیات کے رحم وکرم پر ہی آسرے میں بیٹھ کر خوابِ خرگوش کے مزے اڑا رہا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر اسلامی بینکاری کے نام سے کراچی ائرپورٹ کو 300ارب میں گروی رکھ چکا ہے، حکومت اور اسلامی بینکوں کے درمیان M-2لاہور تااسلام آبادموٹروے اور کراچی ائرپورٹ میں سے ایک کو گروی رکھ اس رقم کو سودی قرضہ کی مد میں لینے پر بحث کی گئی، اسلامی بینکوں کے ڈائریکٹروں نے کراچی ائرپورٹ لینے پر اتفاق کیا۔ جب حکومت بھاری بھرکم سود کی ادائیگی سے عاجز آجائیگی تو شور شرابے کی نوبت بھی نہ ہوگی اور کراچی ائرپورٹ اسلام کے نام پرسودی کاروبار کرنے والوں کے خود بخود حوالہ ہوجائیگا۔ پھر وہ اسکو مہنگے داموں ٹکڑوں میں بیچ بیچ کر سود خوری کا پیسہ پورا کریں گے۔ چیف آف آرمی جنرل راحیل شریف کورکمانڈزکانفرنس بلاکر تمام معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں ورنہ پھر سیاستدان حکمران کہیں گے کہ دفاع کیلئے ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑاتھا،جب ملک ہی نہ رہیگا تو دفاع کس چیز کا کریں گے؟۔
جس طرح نوازشریف اپنے بچوں کی بیرون ملک دولت سے لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے، اسی طرح سے عوام اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی بے خبر ہوگی اور پورا ملک ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ شریف خاندان بڑا ’’وار داتیہ‘‘ ہے، دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگانے والے چھپے رستم نکلے۔ اگر رینجرز اور فوج نے امتیازی سلوک یا اپنا الو سیدھا کرکے کرپشن کے خلاف ڈرامہ ہی کرنا ہے، ڈاکٹر عاصم حسین کو اندرونِ خانہ جیب کترے کی طرح لوٹ کر نظام کی ناکامی کو بنیاد قرار دینا ہے تو سوبسم اللہ۔ وقت کیساتھ ساتھ عوامی شعور بڑھے گا، پھر مخلص افسر اور سپاہی بھی قابو میں نہ رہیں گے اور باشعور طبقہ اٹھے گا اور حکمرانوں، سیاستدانوں کے علاوہ کرپٹ ریاستی عناصرکو بھی کوئی بچا نہ سکے گا۔ سپاہی جان ان کیلئے دیتے ہیں جن کے پاس اعلیٰ اخلاقی، اسلامی یا وطن پرستی کے جذبات ہوں ، بے حسی میں کوئی بھی اچھا جذبہ پنپ نہیں سکتا ہے۔
معصوم، فرشتہ اور بے گناہ تو کوئی بھی نہ ہوگامگر وزیراعظم کے شریف خاندان کو جس شرافت کیساتھ کرپشن اور چوری سینہ زوری کی سوجھی ہے، لگتا یہ ہے کہ ان سے تو قوم کو چھٹکارا مل ہی جائیگا مگر فوج میں اپنی عوام کیساتھ سیاست تو دور کی بات ہے، اچھے طریقہ سے جنگ کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی، کیونکہ ان کی تربیت دشمن سے نمٹنا ہوتا ہے اپنوں سے نہیں۔کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں بڑی قربانیوں کے باوجود وہ نتائج نہ مل سکے جس کی توقع تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے لوگ بولتے نہیں بھونکتے ہیں، نوازشریف پر 36کروڑ روپے کی گھڑی کے خریدنے کا الزام لگایاگیا، جبکہ اس کی قیمت36لاکھ ہے۔دنیا کی وکالت کا موجودہ نظام بے گناہی بھی ثابت کردیگا کہ ایک صفر بڑھانا کوئی اضافہ نہیں اور سیاستدان بجا طور سے کہہ سکتا ہے کہ صفر صفر ہوتا ہے چاہے آگے سے اضافہ ہو یا پیچھے سے۔
ایک دوسرے پر الزام تراشی، کرپشن، بداخلاقی اور بد تہذیبی کا سفر جاری رکھنے کی بجائے حقائق کی طرف آنا ہوگا۔ نوازشریف نے پاکستان کو کیا دیا؟ مگر پاکستان نے نوازشریف کو بہت کچھ دیا ۔ سیاست کی قیمت اپنے خاندان اور دوستوں کو بنانا ہو تو پیپلزپارٹی کے بھٹو خاندان نے جو قربانیاں دی ہیں ، اسکے مقابلہ میں نوازشریف کو خالی چٹکی نوچی گئی ہے۔ عمران خان نیازی شاید اتنا بھی نہ برداشت کرسکے بلکہ جنرل نیازی کی طرح اپنا ہتھیار بڑے اہتمام کیساتھ دشمن کے آگے ڈال دے، آدھا ملک گنوانے کے علاوہ فوج کو بھی تاریخی بے عزتی سے دو چار کردے۔ عزت کردار سے آتی ہے، اسلام کردار کا دین ہے اور کردار ہی سے دنیا میں عزت ملتی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے کردار سے اپنی قوم اور اداروں کو عزت دلانی ہوگی۔ دنیا اور ہمارے اردگرد ماحول کے تیور بدل رہے ہیں، کردار نہ ہو تو خود کا خود بھی ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ ہمارے پاس وقت کم رہ گیا ہے ، پاکستان کا استحکام اچھے کردار کیساتھ اتحاد واتفاق اور یگانگت کا متقاضی ہے، ہمارا حال قابلِ رحم ہے۔

پاکستان نے اپنی عزت خود کرانی ہوگی مگر کیسے؟

ڈرائیور لوگ گدھے کو تھانیدار کہتے ہیں اسلئے کہ گدھا دوسرے جانوروں کی طرح سڑک چھوڑ کر راستہ نہیں دیتا بلکہ سر جھکا کر ، کان لٹکاکر ، دُم ہلاکر راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات کے متعلق یہودی علماء کے رویہ کو گدھے سے تعبیر کیا جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کردی،نبیﷺ نے فرمایا :یہ امت یہود اور نصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلے گی، یہود نے حکومتی امور میں توراۃ کے احکام بدل ڈالے اور نصاریٰ نے اپنی کتاب میں تصوف کے احکام بدل ڈالے۔احبار و رہبان حلال و حرام کا جو فیصلہ کرتے تھے اس کو ان کی عوام مان لیتی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے احبار ورہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا تھا۔
آج ہماری قوم بت پرستی کے کئی شعبہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جس بت پرپیسہ زیادہ لگے وہ بڑا بن جاتا ہے،سول اور فوجی بیوروکریسی میں اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں مگر انکا کام مشین کے پُرزوں کی طرح ہوتا ہے، اصل کام سیاستدان کا ہوتاہے جو سماجی معاشرے میں پروان چڑھ کر قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ سیاستدان کا کام عوام کو نظریاتی شعوراور قوم کوبلند معیار دینا ہوتا ہے۔ ہمارا مستقبل بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز کے علاوہ تحریک انصاف کے سلیمان عمران سے وابستہ ہے، اسلئے کہ پارٹی میں نظریہ سے زیادہ شخصیت کی اہمیت ہے ، پہلے پارٹی میں قائد اہم ہوتاہے پھر اسکے فرزند کی اہمیت ہوتی ہے، پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے۔
نبی کریمﷺ کی واحد نرینہ اولاد اللہ نے بچپن میں اُٹھالی، اپنے غلام کواپنا منہ بولا بیٹا بنایا تواللہ نے فرمایاکہ ماکان محمد آباء احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین’’ اور محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر اللہ کے رسول اور انبیاء کے سلسلہ کے آخری مہر،نگینہ یا نبی۔ جسکے بعد وحی اور نبوت کا سلسلہ نہیں‘‘ ۔ اسلام کی تاریخ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ مقرر ہوئے اور دوسرے حضرت عمرؓ نامزد ہوئے، حضرت عثمانؓ کو چندا فرادکی نامزد شوریٰ نے چن لیا اور حضرت علیؓ بھی ہنگامی حالات میں خلافت کی مسند پر بیٹھے ۔سب کا تعلق الگ الگ خاندانوں اور قبیلوں سے تھا۔ پھر خاندانوں نے مسند پر قبضہ کرنا شروع کیا۔
قائداعظم کی اکلوتی بیٹی تواپنی مرضی سے بھاگ گئی تھی اسلئے نواسوں کو اہمیت نہ مل سکی، اکلوتی بہن فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان نے فوجی مضبوط بیگ گراؤنڈ کی وجہ سے سیاست میں ابھرنے کا موقع نہ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کی سیاسی کوکھ سے نکل کر سیاست شروع کی تو ڈکٹیٹر شپ کے مزاج سے بھی جان نہ چھوٹ سکی اور آخرکار اسی کی نذر بھی ہوئے۔ میاں شریف مرحوم برادران7بھائی تھے جو اتفاق مل کے مالک تھے، بھٹو نے سارے پاکستان میں سوشلزم کے زیراثر فیکٹریوں اور ملوں کو ضبط کرکے قومی تحویل میں لیا تو اس کی زد میں یہ لوگ بھی آئے۔ نواز شریف نے پہلے اصغر خان اور پھر جنرل ضیاء الحق کیساتھ مل کر سیاست شروع کی تو پیپلزپارٹی سے اقتدار کی رقابت اپنی جگہ مگر سیاست کاروبار میں بدل گئی۔
پاک فوج نے جو سیاسی تحفے قیادت کی شکل میں قوم کو دئیے ہیں، کسی سے محبت اور کسی سے نفرت کی تفریق کے بغیر پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے۔ اگر پاکستانی قوم کا مستقبل قائداعظم کے نواسوں کے ہاتھ میں نہیں تو بھٹو اور پھر نواز شریف یا گولڈسمتھ کے نواسوں کے پاس کیوں جائے؟۔رسول اللہﷺ کے نواسے حضرت حسنؓ نے قوم کو متحد کرکے اقتدار کی قربانی دی ۔ حضرت حسینؓ نے یزیدیت اورموروثیت کے خلاف کربلا میں قربانی دی۔ زرداری، نوازشریف اورعمران خان کا اقتدار کے سوا کیا نظریہ ہوسکتا ہے؟۔ لوٹا کریسی، کرپشن، میڈیا کی سیاسی قدآوری نہ ہو تو گلی محلہ کے لوگ ان لوگوں کے کسی نظریہ سے متأثر نہ ہوں۔ طوطا مینا کی طرح کچھ بولنے کی رٹ لگاتے ہیں جو اپنے دل ودماغ نہیں بلکہ ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں الیکشن کے ذریعہ آزاد امیدواروں کوعوام جتوائیں ، سیاسی پارٹیوں سے پہلے نجأت پائیں ، پھر کوئی عوامی جمہوری سسٹم بن سکتا ہے، امریکہ میں جمہوری سسٹم کے ذریعہ بارک حسین اوبامہ منتخب ہوسکتا ہے مگر ہمارے ہاں معین قریشی سے شوکت عزیز اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نوازشریف تک مختلف رنگ روپ، نسل قوم سے تعلق رکھنے والے ملک کے وزیراعظم بننے کے باوجود پاکستان کے لوگوں کو ایسا سیاسی شعور نہ دے سکے جہاں علامہ اقبال ؒ کے افکار کی ذرا بھی جھلک دکھائے، یہ ایک ہنگامہ تھا جو طالبان نے ریاست اورعوام کی بھرپور حمایت سے برپا کردیا تھاجو اسلامی و سیاسی شعور دینے کی بجائے وقت کی بے رحم موجوں کی نذر بھی ہوگیاہے۔
بے تحاشا رقم خرچ کرکے سیاسی ریلیوں اور دھرنوں سے کوئی انقلاب آتا توبڑی بات ہوتی مگر یہ تماشے عوام بہت دیکھ چکے ، فوجی انقلاب سے بھی عوام بدظن ہیں لیکن تمام سیاسی جماعتوں کے کرپٹ عناصر کو بلاامتیاز پکڑا جائے تو عوام خوش ہوں گے۔ جن لوگوں کے دل ودماغ میں عہدوں کی ہوس صرف اسلئے ہو کہ اسکی اوقات بدل جائے تو عوام ان کو بالکل مسترد کرسکتے ہیں، جو لوگ فوج کے سہارے سے خود کو آگے بڑھانے کی امید رکھتے ہوں ان کو بھی بلاامتیاز مسترد کردیا جائے۔ مایوسی کی طرف جانے سے قبل ریاست کو مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ زرداری کے جگری یار ذوالفقار مرزا، الطاف بھائی کے لے پالک مصطفی کمال، نوازشریف کا دوست ذوالفقارکھوسہ اور دوست محمد کھوسہ وغیرہ کیا تبدیلی لائیں گے؟۔
عمران خان گالیاں دیتا تھا کہ بے غیرت لوٹے جماعتیں بدل بدل کر آجاتے ہیں مگر اپنی جماعت کے جگ، گلاس کو ہٹاکر دوسروں کی لیٹرینوں سے لوٹے اٹھاکر سجالئے ہیں۔ دوسروں کو رشتہ داری کے طعنے دینے والے نے اپنی طلاق شدہ بیوی کی لندن میں بھی سیاسی رشتہ داری کا خیال رکھا۔ لوگوں کے ذہن میں ایکدوسرے سے نفرت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ثابت ہوں گے۔ نوجوانوں اور قوم کے جذبات سے کھیلنا کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔قوم کوایسا نظریہ چاہیے جس میں کرپٹ سیاسی سسٹم اور فوج کی پشت پناہی سے آگے آنے کی بجائے لوگوں کو اپنے عمل وکردار سے قوم کی خدمت کا موقع مل جائے۔
اوبامہ انتظامیہ پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینا چاہتی تھی مگر امریکی گانگریس نے پاکستان کی فوجی امداد روک دی جس کی وجہ سے ایف سولہ نہیں خرید سکتے ہیں اور ہماری معیشت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پاس گروی اور دفاع امریکہ پر منحصر ہوتوکشکول توڑنے والے بین الاقوامی شاہی ملنگ پاکستان کو پتہ نہیں کس ترقی کے سفرپر لے گئے ہیں؟۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ ’’ افغانستان کی طالبان قیادت پاکستان میں ہے‘‘۔ بھارتی لابی نے امریکی کانگرس کو قائل کیا کہ پاکستان کو فوجی مدد نہ دی جائے، امریکی کانگرس نے اعلان کردیا کہ پاکستان ہمارے ساتھ ڈبل سٹنڈر گیم کھیل رہا ہے، اسلئے دفاعی امداد روک دی۔
پاکستان دنیا کا واحد وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں قدرتی طور پر ضرورت سے زیادہ پانی میسر ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم خشک سالی میں کربلا کی کیفیت میں ہوتے ہیں اور سیلابوں کے دور میں طوفان نوح کا سامنا کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر دریا کو چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی طرح رکھا جائے تو زیر زمین پانی بھی میٹھا ہوگا زرخیز پاکستان کا منظر بھی دیکھنے کو ملے گا کربلا اور طوفان نوح کے عذاب سے بھی بچیں گے ماحولیاتی آلودگی کا بھی یہ قوم زبردست مقابلہ کر سکے گی۔ کراچی سے لاہور پائپ لائن بچھانے کے بجائے ایران سے سوئی تک ہنگامی بنیادوں پر گیس لائی جائے اور انڈیا کو بھی گیس اور پاکستان سے راہداری دی جائے تو اس کی گردن ہمارے ہاتھ میں ہوگی اور کشمیر کو آزاد کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کاش کوئی کچھ تو سمجھے خدا کرے۔