قرآن کی تعلیم احادیث صحیحہ سے متصادم نہیں اور فقہ سمجھ کا نام ہے جو ہدایت دیتا ہے۔
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
فقہ حنفی میں قدوری کے مصنف کا درجہ فقہی حساب سے کنزالدقائق، ہدایہ اور درسِ نظامی میں فقہ کی دوسری کتابوں کے مصنفین سے بڑا ہے۔ قدوری میں فرض نماز وں کا ذکر ہے اور جن نمازوں کو سنت سمجھا جاتاہے ان کو قدوری میں نوافل لکھا گیا ہے۔ فرض نماز پڑھنا اللہ کا حکم ہے اور فرض نمازوں کی رکعتوں اور طریقہ کار کی ادائیگی کا نام سنت ہے۔ اگر نبیۖ کی سنت نہ ہوتی تو پھر فرض نماز کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں تھا۔ اسلئے اللہ نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول کی اطاعت کرو۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ” جس نے رسول کی اطاعت کی تو بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی”۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنا سنت رسول ۖ ہے۔ نبیۖ نے نمازوں میں کبھی رفع یدین کیا ہوگا اور کبھی نہیں کیا ہوگا لیکن نمازوں کی رکعتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
فقہ وسمجھ کے اعتبار سے صحابہ کرام میں بھی اختلاف تھا۔ تیمم سے نماز پڑھنے کے اختلاف کا ذکر صحیح بخاری میں حضرت ابن مسعود اور حضرت ابوموسیٰ اشعری کے حوالے سے موجود ہے۔رسول اللہ ۖ نے ایک سفر سے واپسی پر حضرت عمر سے فرمایا کہ ” غسل واجب ہوا تھااور نماز پڑھنا چھوڑ دی تو بہت اچھا کیا ”۔ اور حضرت عمار سے فرمایا کہ ” غسل میں تیمم کیلئے سارے جسم کو مٹی میں لوٹ پوٹ کرنے کے بجائے وضو کی طرح دو ضرب کافی تھے کہ صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرلیتے”۔ ابن مسعود نے حضرت عمر کے مؤقف کو ہی درست سمجھ رکھا تھا اور ابوموسیٰ اشعری نے حضرت عمار کی بات کو صحیح سمجھ رکھا تھا۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ‘تدوین فقہ” میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے اس اشکال کا ذکر کیا کہ ” جب نبی کریم ۖ نے حضرت عمار سے فرمایا کہ تجھے وضو کی طرح تیمم کرکے نماز پڑھنا کافی تھا ‘تو پھر حضرت عمر نے کیوں اس بات کو تسلیم نہیں کیا بلکہ یہ واضح طور پر کہا کہ عمار کی حدیث اس کے منہ پر پڑے۔ یہ بات بہت قابلِ تعجب ہے کہ حضرت عمر نے حضرت عمار کی بات تسلیم کرنے سے کیوں انکار کیا؟۔ اور اس سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ نبیۖ نے حضرت عمارکی طرح حضرت عمر پر یہ معاملہ کیوں واضح نہیں فرمادیاتھا؟”۔
شاہ ولی اللہ نے برصغیرپاک وہند میں عوام وخواص کو فقہ کی جگہ قرآن وسنت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا ہے اور فقہاء کے بارے میں لکھا ہے کہ ” بہت سارے بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی جگہ پر ایک ایسے قول کو گدھوں کی طرح مضبوطی سے جبڑوں میں پکڑلیتے ہیں جس کی کوئی بھی اہمیت نہیں ہوتی ہے”۔ پھر دوسرے علماء ومفتیان کے کیا حالات ہوں گے؟۔
حالانکہ قرآن وسنت میں کوئی تضاد نہیں۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ” نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم سمجھوجو تم کہہ رہے ہو اور نہ جنابت کی حالت میں مگر جو مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت میں واضح ہے کہ جنابت میں نماز پڑھنامنع ہے مگر مسافر کو اجازت ہے یہاں تک کہ نہالیا جائے۔ اللہ نے نماز پڑھنے سے نہائے بغیر روکا ہے مگر مسافر کو نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔
حضرت عمر نے اپنی فطرت کے مطابق گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور سفر میں نماز نہیں پڑھی اور حضرت عمار نے اپنی فطرت کے مطابق اس گنجائش کا فائدہ اٹھایا اور نماز پڑھ لی۔ آیت میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے بلکہ نماز پڑھنے کی مسافر کیلئے گنجائش رکھی گئی ہے۔ دونوں صحابہ کرام نے اپنے اپنے طبائع کے اختلاف سے اللہ کے حکم پر درست عمل کیا۔ نبیۖ نے بھی توثیق فرمائی۔ قرآن وسنت، صحابہ کرام کے عمل میں تضاد نہیں بلکہ تطبیق ہے۔ آج بھی بعض لوگ سفر کی حالت میں جنابت کی وجہ سے نماز نہ پڑھیں تو مسئلہ نہیں اور اگر کوئی تیمم کرکے پڑھ لیتے ہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ بعید نہیں کہ دعوت اسلامی و تبلیغی جماعت کے افراد حضرت عمارکی طرح نماز پڑھیں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکن حضرت عمر کی طرح نماز نہ پڑھیں۔ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ جس پر دیوبندی بریلوی اکابرتقسیم ہوگئے۔ اگر پیٹ پوجا نہ ہوتو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ یوٹیوب پر شیخ ابوحسان اسحاق سواتی صحابہ پر بھی انکار حدیث و قرآن کا فتویٰ نہ لگادیں۔ جاہلوں سے ایک طرف حضرت عمر وابن مسعود اور دوسری طرف حضرت عمار وابوموسیٰ اشعری پر منکر حدیث وقرآن کا فتویٰ لگانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
بریلوی مولانا نے ” بہارشریعت ” میں لکھ دیا کہ غسل اور وضو وغیرہ کے فرائض ظنی ہیں۔ دلیل کیساتھ ان کا انکار کرنا درست ہے لیکن دلیل کے بغیر ان سے انکار کرنا گمراہی ہے۔احناف کے نزدیک غسل کے 3 فرائض ہیں۔ منہ بھر کر کلی کرنا۔ ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا اور ایک مرتبہ بدن پر پانی بہانا۔ شافعی مسلک میںپہلے 2فرائض سے اتفاق نہیں۔ انکے نزدیک وضو کی طرح غسل میں بھی کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہے۔ امام مالک کے نزدیک جب تک مل مل کر جسم نہیں دھویا جائے تو پانی بہانے سے غسل ادا نہ ہوگا۔
کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس آیت میں اللہ نے وضو کا حکم دیا ہے تو اسکے بعد فرمایا کہ وان کنتم جنباً فطھروا ” اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہوتو خوب پاکی حاصل کرو”۔ قرآن میں اللہ نے واضح کیا تھا کہ جنابت سے غسل کرنا ہوگا اور وضو کے مقابلے میں نہانا اچھی طرح سے پاکی حاصل کرنا ہے۔ قرآن کے احکام میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ وضو اور غسل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ وضو میں چند اعضاء دھوئے جاتے ہیں، سر پر مسح کرنا ہے اور غسل یا نہانا پورے جسم کا ہوتا ہے۔ یہ مبالغہ بہت ہے۔ صحابہ کرام دورِ جاہلیت میں نہانا جانتے تھے، تمام اقوام اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے نہانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ چرندے ، پرندے اور وحشی درندے بھی نہانا جانتے ہیں۔ حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے سے پہلے قرآن کے اوراق مانگے تو آپ کی بہن نے نہانے کا کہہ دیا۔ حضرت عمر کیلئے نہانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔
نبیۖ اور صحابہ نے غسل اور وضووغیرہ کے فرائض ایجاد نہیں کئے تھے۔ فرائض کی ایجاد وبدعت صحابہ ، تابعین، تبع تابعین کے بعد کی کہانی ہے۔ فقہ کے ائمہ کی طرف بعد والوں نے مسائل منسوب کئے۔ جب پچکاری لگانے کا مسئلہ آیاتو سوال پیدا ہوا کہ معدے تک پانی پہنچا تو روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟۔ پھر بگڑتے بگڑتے بات یہاں تک پہنچی کہ بریلوی علامہ شاہ تراب الحق قادری نے نماز جمعہ کی تقریر میں کہا کہ ” روزے میں پاخانہ کیا تو اسکے ساتھ ایک آنت کا سرا نکلتاہے جو پھول نما ہوتا ہے۔ پھول کو دھونے کے بعد کپڑے سے سکھایا جائے اور اگر کپڑے سے سکھائے بغیر یہ پھول اندر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ پورا زور لگاکر اس کو مقعد کے اندر جانے سے روکا جائے۔ورنہ روزہ ٹوٹے گا”۔پھر بعد میںدعوت اسلامی کے مفتیوں نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی کہ” استنجا ء کرتے وقت سانس روکی جائے ورنہ پانی اندر جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائیگا”۔
مولوی خوش ہوتے ہیں کہ کوئی انوکھی بات بتائیں لیکن پھر عوام کو عملی طورپر بھگتنا پڑتا ہے۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے مرید نے پوچھا کہ پہلے روزوں کا کیاہوگا؟۔اور اس پر عمل بس سے باہر ہے اسلئے کہ آنت کو کنٹرول رکھنا ممکن نہیں۔ علامہ شاہ تراب الحق نے بھگادیا کہ میرا کام مسئلہ بتانا تھا باقی تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ پھر ہم نے اپنے اخبار ضرب حق میں اس کا پوسٹ مارٹم کیا اور بریلوی مکتب کے علماء کرام نے بھی ہماری تائید اور اس مسئلے کی تردید کردی تھی۔ طلاق کے حوالے سے اس سے زیادہ عجیب وغریب مسائل گھڑے گئے ہیں۔
میرے استاذ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر پرنسپل جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری کراچی وصدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ہماری تحریک کی تائید میں لکھا کہ” اس امت کی اصلاح اس چیز سے ہوگی جس سے اس امت کی پہلے دور میں اصلاح ہوئی تھی”۔اور امام مالک کے قول کا حوالہ دیا ۔ جب تک ہماری تعلیم کی اصلاح نہ ہوگی تو علماء ومفتیان ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے۔ سر کے مسح پر اختلاف ہے۔ مسلک حنفی میں سر کا ایک چوتھائی مسح وضو میں فرض ہے۔ مسلک شافعی میں ایک بال کے مسح سے فرض ادا ہوگا۔ مسلک مالکی میں ایک بال رہ جائے تب بھی فرض ادا نہیں ہوگا۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا : وامسحوا برء وسکم ” اور مسح کرو اپنے سروں کا”۔ حنفی مسلک کے نزدیک حرف ”باء ” الصاق کیلئے ہے۔ ہاتھ سر پر رکھ دیا تو مسح ہوجائیگا اور یہ ایک چوتھائی ہے۔شافعی مسلک میں باء سے مراد بعض ہے ۔ مالکی مسلک میں باء زایدہ ہے۔ عوام وخواص ان بکھیڑوں میں پڑنے کے بجائے تقلید کرنے لگے لیکن اگر ذرا غور کرتے تو تیمم میں یہی جملہ ہے لیکن اس میں سروں کی جگہ چہروںکا ذکر ہے۔ وامسحوا بوجوھکم باء کے حوالے سے اگر یہ خود ساختہ اختلافات درست ہوتے تو پھر تیمم میں چہروں پر مسح کرنے میںبھی فرائض کایہ اختلاف ہوتا؟۔
اگر اللہ چہرے کیساتھ ہاتھوں کو کہنیوں تک وضو میں دھونے کا حکم دیتے تب بھی سروں کا مسح کرنے کیلئے لوگوں کے ہاتھ خود بخود جاتے۔ علماء و فقہاء نے اپنی طرف سے فقہی مسائل کے بکھیڑے بناکر مسلمانوں کا بیڑا غرق کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تسخیر غسل، تسخیر وضو اور تسخیر استنجاء کا حکم نہیں دیا تھا۔ نبی ۖ اور صحابہ نے امت کو اس راہ پر نہیں لگایا تھا۔ خلفاء راشدین نے دنیا کی سپر طاقتوں کو مسخر کردیا اور ہم سردی گرمی میں استنجے کے ڈھیلوں کو آگے پیچھے سے گھمانے کی تعلیم دیکر عوام کو ذہنی مریض بنانے کی تسخیر پر لگ گئے حالانکہ قرآن کی کئی آیات میں تسخیر کائنات، تسخیر شمس وقمر، تسخیر بادل اور دیگر چیزوں کی تسخیر کی وضاحت ہے جس پر اغیار نے عمل کرکے دنیا کو اپنے سامنے مسلمانوں سمیت رام کرلیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ” جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے تو وہ زمین میں اپنا ٹھکانا بنالیتی ہے اور جو نفع بخش نہیں ہوتی تو جھاگ کی طرح خشک ہوکر اڑ جاتی ہے”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائیں”۔ فقہ میں فرائض اور واجبات کی بدعات ایجاد کی گئی ہیں لیکن وہ جھاگ کی طرح ناپید ہیں اور اغیار نے سائنسی ایجادات کرکے ہمیں بھی سہولیات پہنچائی ہیں۔ علماء منبر ومحراب سے اپنارویہ بدلیں۔ زکوٰة و خیرات ،ہدیات سے حالات کا بدلنا معراج نہیں استدراج ہے۔ اسلام عالم انسانیت کے مسائل حل کرنے کا پہلا اور آخری آپشن ہے۔
قرآن ہدی للمتقین ”پرہیزگاروں کیلئے ہدایت ہے”۔ ہدی للناس ”عوام کیلئے ہدایت ہے”۔فرقوں کے خواص کی مخصوص تراش خراش ہے اور ایک دوسرے کیلئے گمراہ اور ناقابل قبول ہیں جو بالکل درست ہے اسلئے کہ ان میں آج تک قرآن کی رہنمائی سے امام ہدایت پیدا نہ ہوسکا۔ جبکہ قرآن عوام و خواص کیلئے ہدایت ہے۔ جو قرآن کی واضح آیات سے انقلاب لائے وہی امام ہدایت ہے۔ قرون اولیٰ میں خلفاء راشدین قرآن کی وجہ سے سب کے سب امام ہدایت تھے۔ جب یہ اُمت قرآن کو چھوڑ کر روایات اور خرافات میں کھوگئی ہے تو نماز کی ہر رکعت میں صراط مستقیم کی ہدایت کیلئے دعا مانگتے ہوئے بھی اُمت مسلمہ کے عوام و خواص نشے کے بغیر بھی نشے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ اسلئے وہ کسی امام مہدی کا انتظار کررہے ہیں۔ کوئی ان کو اس نشے کی حالت سے نکالنے میں کامیاب ہوجائے تو پوری اُمت صاحب ہدایت و مہدی بن سکتی ہے۔ اللہ کرے کچھ تو سمجھے کوئی۔
حنفی مسلک کی کتب میں حرمت مصاہرت کے عجیب و غریب مسائل ہیں۔ درسِ نظامی میں مُلا جیون کی کتاب”نور الانوار” میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اگر اپنے بچوں یا ساس کو نیند میں یا غلطی سے شہوت کا ہاتھ لگ گیا تو بیوی بیٹی کی طرح حرام ہوجائے گی۔ اگر ساس کی شرمگاہ کو اوپر سے دیکھا تو شہوت میں عذر ہے لیکن اندر سے دیکھا تو بیوی حرام ہوگی۔حنفی اصولِ فقہ میں یہاں تک ہے کہ اپنی بیوی سے ایک اولاد پیدا ہوجائے تو اصولی طور پر وہ بیوی بھی شوہر پر اسکے بعض کا جزء ہونے کے سبب سے حرام ہوجاتی ہے لیکن ضرورت کے تحت حلال قرار دیا گیا ہے۔
ایک طرف عجیب و غریب قسم کے شرمناک اور بھیانک حرمت مصاہرت کے مسائل لکھے تو دوسری طرف وفاق المدارس پاکستان کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں لکھا ہے کہ ”ایک شخص نے حضرت علی سے کہا کہ میری بیوی فوت ہوگئی اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت علی نے کہا کہ مرحومہ بیوی کی بیٹی ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہاں! ۔ علی نے پوچھا کہ وہ بیٹی آپ سے ہے یا کسی اور شوہر سے؟۔ اس نے کہا کہ کسی اور سے!۔ علی نے کہا کہ وہ آپ کے حجرے میں پلی ہے یا دوسری جگہ ؟۔ اس نے کہا کہ دوسری جگہ!۔ حضرت علی نے کہا کہ پھر اسی سے شادی کرلو۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ جو تمہارے حجروں میں پلی ہوں ۔ مصنف عبد الرزاق۔ مولانا سلیم اللہ خان نے علامہ ابن حجر کے حوالے سے لکھا کہ اس میں اتنا وزن ہے کہ اگر دوسرا مسلک معروف نہ ہوتا تو اسی پر فتویٰ دیتے۔ جس میں بڑا وزن ہے”۔ قرآن کی آیات کی من گھڑت تفسیری روایات اور اُصول فقہ سے انکے تضادات کا تجزیہ اگر پیش کیا جائے تو مولوی صاحبان میں ذرا بھی شرم ہو تو بیہوش ہوجائیں گے۔
نبیۖ نے فرمایاکہ ” بنی قریظہ میں عصر کی نماز پڑھ لو” صحابہ دیرسے پہنچے تو کسی نے وقت پر نماز پڑھی ،کسی نے قضاء کرلی”۔ بے نمازی کیلئے سزا نہ تھی، پھر بعد میں قتل اور زد وکوب کی سزائیں گھڑی گئیں۔طا.لبان آج پریشان حال ہیں۔
پڑھیں ہم نے نمازیں بہت
مگرہم میں روح محمدی نہ رہی