رجحان ساز خبریں Archives - Page 2 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

دارالعلوم دیوبند کے قاری طیب کی یہ فریادی نعت قاری محمد طیب نے اپنے بیٹے کودار العلوم دیوبند کا مہتمم بنانا چاہا اور شوریٰ نے نہیں بننے دیاتویہ نعت پڑھی

دارالعلوم دیوبند کے قاری طیب کی یہ فریادی نعت
قاری محمد طیب نے اپنے بیٹے کودار العلوم دیوبند کا مہتمم بنانا چاہا اور شوریٰ نے نہیں بننے دیاتویہ نعت پڑھی

نبی اکرم شفیع اعظم ۖدُکھے دِلوں کا پیام لے لو!
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو!
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا، نظر سے روپوش ہے کنارہ
نہیں کوئی نا خدا ہمارا ، خبر تو عالی مقامۖ لے لو!
یہ کیسی منزل پہ آگئے ہیں نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے
تم اپنے دامن میں آج آقا ۖ تمام اپنے غلام لے لو!
عجب مشکل میں کارواں ہے نہ کوئی جأ نہ پاسباں ہے
بہ شکل رہبر چھپے ہیں رہزن ، اٹھو ذرا انتقام لے لو!
کبھی تقاضہ وفا کا ہم سے کبھی مذاق جفا ہے ہم سے
تمام دنیا خفا ہے ہم سے تمہی محبت سے کام لے لو!
قدم قدم پہ ہے خوف رہزن زمیں بھی دشمن فلک بھی دشمن
زمانہ ہم سے ہوا ہے بدظن خبر تو خیرالانام لے لو!
یہ دل میں ارماں ہے اپنے طیب مزار اقدس پہ جاکے اک دن
سناؤں ان کو میں حال دل کا کہوں میں ان سے سلام لے لو!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان میں اسلامی انقلاب کیلئے عتیق گیلانی کی صدا کو اللہ جلد کامیاب کرے۔ مفتی سید انس مدنی

پاکستان میں اسلامی انقلاب کیلئے عتیق گیلانی کی صدا کو اللہ جلد کامیاب کرے۔ مفتی سید انس مدنی

کیا آپ جانتے ہیں کہ قوموں کو غلام کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ عین الیقین و حق الیقین سے کہتا ہوں کہ قرضوں پر تالا لگ گیاہے
فائنانس منسٹر امیر جماعت اسلامی نے ورلڈ بینک سے متحدہ مجلس عمل کیلئے قرضہ لینا تھا مگر خواتین کی تصاویر ہٹانے پر نہیں دیا گیا

جماعت غرباء اہلحدیث کے مرکزی امیر مولانا عبدالرحمن سلفی اور محمد سلفی کے بھائی جامعہ ستاریہ گلشن اقبال کراچی کے مفتی محمدانس مدنی نے اپنے یوٹیوب چینل پر بیان میں کہاہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دور میں قوموں کو غلام کیسے بنایا جاسکتا ہے؟۔ آئی ایم ایف کے قرضوں پر تالا لگ گیا ہے۔ کب اورکس طرح سے ۔میں یہ بات کوئی سنی سنائی نہیں بلکہ عین الیقین اور حق الیقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ آپ کو یہ خبر دے رہاہوں۔ سراج الحق جو جماعت اسلامی کے امیرہیں، خیبرپختونخواہ میں فنانس منسٹر تھے۔2003اور4کا صوبائی بجٹ جو پاس ہوا تھااور ملنا تھا ورلڈ بینک کی طرف سے5ارب مختص کردئیے گئے کہ دئیے جائیں گے۔لیکن7،8مہینے گزرگئے اور کچھ پیسہ ہی نہیں ملا۔سراج الحق صاحب نے کنٹری ڈائریکٹر شاہ نواز صاحب سے مطالبہ کیا کہ قرضہ جو مخصوص کیا گیا تھا وہ اب تک نہیں ملا ہے۔ جواب کیا دیا جارہاہے؟۔ خواتین کی تصاویر پشاور کی سائن بورڈوں سے ہٹادی گئیں ، اتروادی گئیں اور قرضے کا مطالبہ کررہے ہو؟۔ سراج الحق صاحب نے کہا کہ ان تصاویر کا قرضوں سے کیا تعلق ہے؟۔ تو آگے سے جواب مل رہاہے کہ قرض لینا ہوگا تو کلچر بھی لینا ہوگا۔یہ نہیں ہوسکتا کہ داخلہ اور خارجہ پالیسی اپنی چلاؤ اور قرض ہم سے لو۔ جب قرضہ ہم سے لوگے تو داخلہ اور خارجہ پالیسی بھی ہماری ہی چلانی ہوگی۔ پیسہ ہمارا اور کلچر تمہارا یہ ممکن نہیں ہے۔ آپ کو پتہ چلا کہ کس طرح پاکستان کے کلچر کو قرضے کے نام پر بدلنے کی کوشش چلی آرہی ہے؟۔اور میں مبارکباد دوں گا جناب سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کو جو نوشتۂ دیوار کے چیف ایڈیٹر ہیں۔کئی سالوں سے یہ آواز بلند کررہے ہیں کہ پاکستان کے اندر اصلاح اسی وقت ہوسکتی ہے کہ جب اسلامی انقلاب آئے۔ جب تک اسلامی انقلاب نہیں آتا،پاکستان اسی طرح دلدل میں پھنسا رہے گا اور غربت پہ غربت آتی رہے گی۔ اور انسانیت مرتی رہے گی۔ یہ جمہوریت کا تحفہ ہے، جب اسلامی انقلاب آئے گا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عتیق گیلانی کی صدا کو قبول کرتے ہوئے اسلامی انقلاب بپا فرمادے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اصل قرآن کے دو نسخے ملے جو ائمہ اہل بیت نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے تصدیق ہوئی تو منظرعام پر لائیں گے، علامہ شبیر میثمی

شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔

اَللّہُ نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہ کَمِشْکَاةٍ فِیْہَا مِصْبَاح اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ کَاَنّہَا کَوْکَب دُرِّیّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبَارَکَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّّلَا غَرْبِیَّةٍ یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَار نُّوْر عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَآئُ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم (النور:35)

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے،اسکے نور کی مثال طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہو، چراغ شیشے میں ہو ، وہ شیشہ چکمدار ستارے کی طرح ہو،جو جل رہاہو زیتون کے مبارک درخت سے،جونہ مشرقی ہو اورنہ مغربی۔قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہوجائے ،اگرچہ اس کوآگ نہ چھوئے۔یہ روشنی پر روشنی ہے۔اللہ اپنے نور کی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور اللہ لوگوں کو مثالیں دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی اس آیت میں اللہ نے اپنے نور کو جس انداز سے بتایا اور جو مثال دی، وہ بالکل واضح ہے۔ اللہ کے نور پر مشرقی اور مغربی ہواؤں اور تہذیب کے کچھ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور قریب ہے کہ اس کی روشنی آگ چھوئے بغیر بھی دنیا میں بھڑک اٹھے۔ اسلام کے فطری دین کو مولوی اور پیروں کو پھونکیں مارنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اس کی انقلابی روشنی مذہبی طبقات کی تحریکات کے بغیر بھی جل اُٹھ سکتی ہے جو پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کا باعث بن جائے۔ علامہ اقبال اورقائداعظم محمد علی جناح کی علماء ومفتیان نے مخالفت کی یا پھر ان کی قیادت کے پیچھے آخری صفوں میں کھڑے ہوگئے ۔ افغانستان میں طالبان نے الیکشن کمیشن کا محکمہ ختم کردیاہے اسلئے کہ ان کو خوف ہے کہ اگر انتخابات کروائے تو کوئی اوراقتدار میں آسکتا ہے۔ ڈکٹیٹر شپ اور آپس کے کچھ یا زیادہ اختلافات کے باوجود افغانستان میں ایکدوسرے کے خلاف بدتمیزی کا وہ طوفان برپا نہیں ہے جو پاکستانی جمہوری انتخابات میں ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اہل غرب قیامت تک ہمیشہ حق پر رہیں گے” اور اس سے جمہوری نظام مراد ہے اسلئے کہ حضرت ابوبکر کی ہنگامی ، حضرت عمرکی نامزد گی، حضرت عثمان کی مختصر شوریٰ اور حضرت علی و حضرت حسن کی خلافت اچانک منعقد کرنے کے بجائے جمہوری طرزکے انتخابات رائے عامہ سے ہوتی تو امت میں اختلاف کی بنیاد نہ پڑتی۔ حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی کی شہادت اوربنوامیہ وبنو عباس کاخاندانی قبضہ بھی نہ ہوتا۔ شیعہ سنی کے اپنے اپنے دلائل ہیں لیکن بحث کا ابھی فائدہ نہیں۔ حضرت حسن کے بیٹوں کے نام ابوبکرو عمر تھے ، حضرت حسین کے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر و عمر تھے اورمیرے بیٹوں کے نام بھی ابوبکر وعمر ہیں۔
ہندوستان میں ایک شیعہ وسیم نے سپریم کورٹ میں قرآن کے خلاف مقدمہ کیا کہ اس میں دہشتگردی کی جہادی آیات ہیں، ہمارا مسلمانوں سے تعلق نہیں ۔ جس کے خلاف شیعہ سنی دونوںنے زبردست احتجاج کیا۔ پھر پاکستان میں شیعہ عالم دین نے انکشاف کیا کہ” اوریجنل قرآن کے دو نسخے مل گئے جو اہل بیت کے ائمہ نے لکھے تھے۔ برطانیہ سے اس کی تصدیق ہوتو منظر پر لائیں گے، شیعہ سنی میںاختلافات کا معاملہ بڑھ سکتا ہے اسلئے اس پر بات نہیں کروں گا”۔ علامہ سید جواد حسین نقوی نے سخت الفاظ میں تردید اور بھرپور وضاحت کی کہ شیعہ میں روایت پر ست اہلحدیث کی طرح کچھ عناصر گزرے ہیں جنہوں نے ضعیف روایات کا سہارا لیکر قرآن میں بھی تحریف کی بات لکھی، جس میں ایک معروف عالم کی کتاب ”فصل الخطاب” ہے لیکن اس نے پھر دوسری کتاب اس کی تردید میں لکھی ہے جو معروف نہیں ہوئی۔ شیعہ معروف عالم دین کے بیان سے نیا فتنہ کھڑا ہوگا ، اہل بیت کے مخالفین کو اہل بیت پر طعن وتشنیع کا موقع ملے گا کہ وہ قرآن کی تحریف کے قائل تھے۔ یزیدکے کارناموں کو پیش کیا جائیگا اور جن میں حضرت علی کا بغض ہے وہ اپنے بغض کا شیعانِ علی کے خلاف نیامحاذ کھڑا کرینگے۔
کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا رب نواز حنفی اور علامہ اورنگزیب فاروقی نے اپنی تقاریر میں کہا کہ وقت نے ثابت کردیا کہ مولانا حق نواز جھنگوی کا مؤقف بالکل درست تھا ۔ شیعہ کو جب بھی موقع ملے گا وہ اپنے قرآن کی تصدیق برطانیہ سے کروائیں گے کیونکہ موجودہ قرآن پر ان کا ایمان نہیں۔ علامہ شبیر میسمی نے اپنے بیان کی واضح تردید کردی کہ میرا مقصد یہ تھا کہ اہل بیت کے قرآنی نسخوں سے موجودہ قرآن کی تصدیق ہورہی ہے۔ حالانکہ پھر اختلاف بڑھنے کا اندیشہ کیونکر ہوسکتا تھا؟۔ علامہ شہر یارعابدی نے اپنے یوٹیوب چینل پر علامہ میسمی سے تردید کروادی ،جو متعصبانہ رویہ ہمیشہ نمایاں کرتا ہے ۔ ہماری چاہت ہے کہ دین میں کسی پر زبردستی نہ ہو اور ہرکوئی اپنے دفاع کا بھرپور حق اور دوسرے کی مخالفت کا حق رکھتا ہے۔ اسلام کے دامن میں ستر سے زیادہ متضاد فرقوں نے پناہ لی اور کچھ اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ خلافت پر شروع سے اختلاف رہاہے۔
قرآن کے حوالے سے شیعہ سنی تنازع کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے اور امت مسلمہ کو اتفاق رائے سے قرآن کے مسئلہ پر واضح ہونا چاہیے کیونکہ دونوں طرف سے خراب معاملات موجود ہیںجن کی ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مختلف شماروں میں وضاحت کردی ہے۔اگر جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن میدان میں آگئے ، قرآن کے تحفظ اور آیات کی درست تشریح میں بھرپور کردار ادا کیا تو پھر بعید نہیں کہ اسلامی انقلاب آئے ۔ مولانا فضل الرحمن کو اپنے پرائے امام انقلاب مان لیں گے۔ سپاہ صحابہ بھی پھر ان کی ہم آغوش ہو گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبدالمنان ناصراور نمائندہ نوشتہ دیوار امین اللہ بھائی

لورالائی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن نیوٹاؤن کراچی کے سابق استاذ حضرت مولانا مفتی عبد المنان ناصر مدظلہ العالی جو بانگی مسجد رنچھوڑلائن کراچی کے امام و خطیب بھی رہے اور پھر بلوچستان حکومت میں قاضی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ تربت اور دیگر شہروں میں فرائض انجام دئیے، اللہ تعالی انکی عمر میں برکت عطا فرمائے۔ نوشتۂ دیوار کے نمائند گان عبدالعزیز اور امین اللہ ان کی خدمت میں حاضری دیتے ہیں۔ اس مرتبہ آپ نے رات کومہمان ٹھہرایا۔اللہ تعالی علماء حق کی شوکت میں اضافہ فرمائے۔ جب سید عتیق الرحمان گیلانی نے تحریک شروع کی تھی تو استاد مفتی عبدالمنان ناصر سے کسی نے کہا کہ اس نے مہدی کا دعویٰ کیا ہے۔ استاذ نے کہا کہ اگر یہ وہی عتیق ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور ثابت بھی کردیگا۔البتہ کوئی اور ہے تو میںکچھ نہیں کہہ سکتا ۔ عتیق گیلانی کی کتاب تحریر1991ء کانیگرم”خلافت علی منہاج النبوت کے وجود مسعود کا اعلان عام”میں اس کا ذکربھی ہے۔ جب عتیق گیلانی نے جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا تو علم الصرف کے استاذمفتی عبدالمنان ناصر اور مولانا عبدالقیوم چترالی تھے جبکہ درجہ اولیٰ کے دیگر فریقوں کو مفتی عبد السمیع شہید پڑھاتے تھے ۔مولانا عبدالمنان ناصر نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ میں نے طالب علمی کے اٹھارہ سالوں اور تدریس کے دوران اتنا قابل انسان طلبہ اور اساتذہ میں نہیں دیکھا ۔ ایک مرتبہ سرِراہ مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے صیغہ پوچھا اور اسکا پس منظر یہ تھا کہ ہر جمعرات کو مفتی عبدالسمیع سارے سیکشنوں کے طلبہ کو بلا کر مناظرہ کرواتے لیکن عتیق گیلانی اس میں شرکت سے انکار کرتے تھے۔عتیق گیلانی کے سیکشن کو یہ شکایت پیدا ہوگئی تھی کہ ہمیں استاذ اچھا نہیں پڑھاتے لیکن عتیق کہتے تھے کہ ہمیں بہت اچھا پڑھایا جارہاہے۔ عتیق گیلانی کے سیکشن میں مفتی اعظم امریکہ مفتی منیر احمد اخون بھی تھے ۔عتیق گیلانی نے بلاسوچے سمجھے مولانا عبدالسمیع کو جواب دیاکہ مجھے اس صیغے کا پتہ نہیں اور ایک چھوٹا سوال بھی کر دیا کہ ماضی کے صیغوں میں ضربتما دو مرتبہ کیوں لکھا ہے جبکہ صیغہ ایک ہے۔ مفتی عبد السمیع سے اسکا جواب نہیں بن رہا تھا اور آخر کار تقریباً گھنٹوںبحث میں بات یہاں تک پہنچی کہ مفتی عبد السمیع نے قرآن کا مصحف منگوا کر کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے؟۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ نہیں یہ نقش کلام ہے۔ مفتی عبدالسمیع نے کہا کہ آپ کافر ہو گئے اسلئے کہ اللہ کی کتاب کا انکار کر دیا۔ عتیق گیلانی نے کہا کہ مولانا یوسف لدھیانوی کے پاس چلتے ہیں وہ بھی کافر ہو گئے اسلئے کہ یہ مسئلہ انہوں نے بتایا ۔اسوقت طلبہ کا بڑا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا، مولانا عبدالسمیع نے عتیق گیلانی سے غصے میں کہا کہ” تم افغانی ساری کتابیں پڑھ کر آتے ہو، تمہارا مقصد پڑھنا نہیں ہمیں ذلیل کرنا ہے”۔ ایک طالب علم نے عتیق گیلانی کا بازو پکڑا اور مسجد کے سائیڈ میں لے جاکر کہا کہ صوفی صاحب بیٹھ کر اپنا ذکر کرو۔ دوسرے دن پورے مدرسے میں یہ چرچاتھا کہ صوفی صاحب تو علامہ تفتا زانی ہیں۔ مفتی عبدالسمیع کے بھی چھکے چھڑادئیے۔ عتیق گیلانی کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ میں قابل نہیں، مفتی عبد السمیع نالائق ہیں۔ استاذ مفتی عبدالمنان سے یہی سوال پوچھتا ہوں۔ مفتی عبدالمنان نے جواب دیا کہ مبتدی طالب علم کو سمجھانے کیلئے یہ صیغہ الگ الگ لکھ دیا تا کہ مذکر اور مونث کیلئے الگ الگ پہچان ہو۔ آگے کی کتاب ”فصول اکبری” میں یہ صیغہ ایک دفعہ لکھا ہے۔ جب عتیق گیلانی نے مولانا بدیع الزمان سے اصول فقہ کی کتابوں میں یہ تعلیم حاصل کی کہ کتابت کی شکل میں قرآن کے مصاحف اللہ کا کلام نہیں تو تعجب نہیں ہوا لیکن جب مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب ”فقہی مقالات” میں یہ دیکھا کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کی غلط تعریف کا معاملہ بھی کھل گیا اور اپنے استاذ مفتی محمد نعیم بانی جامعہ بنوریہ سائٹ ایریا سے بھی اس پر بات کی اور انہوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی مولانا عطاء الرحمان اور قاری عثمان سے بھی اس پر بات کی تھی۔ علاوہ ازیں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد سے بھی قرآن کی اس تعریف کی غلطی منوائی تھی جو امریکہ اور کراچی یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر رہے ہیں اور اصول فقہ میں یہ غلط تعریف علم کلام کی وجہ سے آئی تھی جس سے امام ابوحنیفہ نے توبہ کی تھی۔
مولانا سید محمد یوسف بنوری کے ایک شاگرد نے سقوطِ طالبان حکومت کے بعد ظہورمہدی پر ایک کتاب میں پاکستان سے ڈنڈے والی سرکار کا بھی ذکر کیا اور ملاعمر کے حوالے سے لکھا کہ وہ بھی ایک مہدی تھے لیکن اس میں حماقت یہ کی ہے کہ ملاعمر سے پہلے بھی ایک مہدی کا ذکر کیا ہے۔ جب ملاعمر سے پہلے مہدی آیا نہ ہو تو پھر دوسرے نمبر کے مہدی کا تصور کیسے ہوسکتا تھا؟۔ عربی یوٹیوب چینل اسلامHDمیں یہ انکشاف ہے کہ فتنہ الدُھیما کا حدیث میں ذکر ہے جس میں99فیصد لوگ قتل ہوں گے۔ یہ فتنہ مہدی کے40سالہ، منصور کے20سالہ اور سلام اور امیرالعصب کے ادوار کے بعد ہوگا۔ پھر آخر میں دجال اور آخری مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔ اس میں نبیۖ کے بعد مختلف فتنوں اور صدیوں کے سرے پر مجددوں کے ادوار لکھے ہیں اور2022ء کو بھی ایک مجدد کا دور قرار دیا ہے اور اس میں پہلے مہدی کی خلافت کے آغاز کی بھی بات کی ہے۔ اس چینل میں ایک شخص نے مہدی امیر اول کا نام بھی جابر بتایا ہے۔جب مولانا شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے اور گیلانی نے طلاق کے حوالے سے سمجھایا تو شیرانی نے کہا کہ ”آپ ہم پر زبردستی سے اپنی بات مسلط مت کرو”۔
یوٹیوب پر عربی میں گھنٹوں کے حساب سے مہدی کے ظہور کے حوالے سے کئی کئی خواب ایک ایک چینل میں اپ لوڈ ہورہے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہاکہ
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخرزمانی
قرآن کی واضح آیات اور سنت کی طرف توجہ کئے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی اور یہی بات ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہماری تحریک کیلئے لکھ دی تھی۔محمد فاروق شیخ

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

اللہ اور اسکے رسول ۖ اُمت سے سخت ناراض ہیں ،چار راتوں سے سو نہ سکا ۔ طالبان وزیراعظم ملامحمد حسن

افغانستان کے طالبان نے نہ صرف ڈیورنڈ لائن کی باڑ اکھاڑ پھینکی ہے بلکہ اٹک تک پیچھا کرنے کی بات بھی ویڈیو میں موجود ہے۔ افغان طالبان کے وزیراعظم ملامحمدحسن اخون نے روتے ہوئے ایک خواب بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ۖ اس امت سے سخت ناراض ہیں جس کی وجہ سے چار راتوں سے سو نہیں سکا ہوں۔ ظاہر شاہ کے وقت سے مختلف آزمائشوں کے ہم شکار ہیں اور امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ پہلے بھی آزمائش سے نکلے تھے اور اب بھی نکل گئے ہیں لیکن ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ میں تمام ولایتوں (صوبوں) کے حکمرانوں کو اپنی شخصی اصلاح اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کر تا ہوں۔ ملاعبدالغنی برادر اور کسی سے میں کوئی عناد نہیں رکھتا ہوں۔
قرآن وسنت کا نفاذ ہمارے لئے ضروری ہے۔ دشمن ہمیں قرآن وسنت سے دور رکھنا چاہتا ہے۔

تبصرہ نوشتہ دیوار
پچھلے مہینے افغان طالبان کی حکومت نے خواتین کی آزادی اور حقوق کی بھی بحالی کا اعلان کیا تھا جو خوش آئند ہے۔ ایک بات پوری امت مسلمہ کے تمام افراد، شخصیات، قائدین، جماعتوں، ملکوں اور اداروں کو یاد رکھنی چاہیے کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف اپنی اصلاح بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس بھی کرنا چاہیے۔ یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ دوسرے کی اصلاح کی جائے اور گلہ کیا جائے کہ ہمارے ساتھ یہ ہورہاہے اور وہ ہورہاہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کیسے پوری کررہے ہیں اور ہمارے اندر کتنی تخریب ہے جس کی ہم پر اصلاح کرنا ضروری ہے؟۔ جب وزیرستان میں دہشت گرد ظلم کررہے تھے تو ہمارے خاندان نے ان کو سپورٹ کیا تھا۔ جب ہم پر حملہ ہوا تو میں نے اپنی غلطی کو اجاگر کیا تھا۔ جب اسلام آباد میں طالبان کے حامیوں نے اپنا نعرہ تبدیل کیا تھا تو ہم نے طعنہ نہیں دیا کہ اب تمہاری سمجھ کھل گئی ہے؟۔ بلکہ ان کی آواز سے اپنی آواز ملائی کہ واقعی تم مظلوم ہو! یہ نہیں کہا کہ جب طالبان کیساتھ حملے کے بعد محسود قوم کے تمام مشیران آگئے اور پھر کانیگرم میں تاریخ رکھ دی تو اپنے لونڈے باز طالبان نے تمہیں بزدل بناکر آنے نہیں دیا ۔
کانیگرم کے ایک برکی دوست نے کہا کہ ”ایک محسوددوست نے مجھ سے کہا کہ تم لوگ شیعہ کی طرح قوم پرست ہو۔جب سے کانیگرم کے پیروں کیساتھ واقعہ پیش آیا تو کانیگرم کے لوگ طالبان سے کنارہ کش ہوگئے ۔ جسکے جواب میں میں نے کہا کہ ہم تو ہیں شیعہ۔ ہم طالبان کیساتھ کیسے ہمدردی رکھ سکتے ہیں”۔
حالانکہ کانیگرم کے بہت سے برکی بھی طالبان کیساتھ اپنے جذبے اور خوف کی وجہ سے طالبان کیساتھ اُچھل کود رہے تھے اور ہمارے خاندان کے بعض لوگ طالبان سے اپنے بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔ محسود اور وزیر خاندانوں نے اپنے بڑوں کی مارا ماری دیکھ لی تو بھی زبان سے کوئی جنبش نکالنے کی ہمت نہیں دکھائی اور آج جب کوئی محسود مارا جاتا ہے تو اسکے خاندان والے کہتے ہیں کہ اس نے اپنے بچوں کو پاک فوج میں اپنی خدمات اور فرائض انجام دینے کیلئے بھیجنے کی خواہش پال رکھی تھی۔ ہمیں کسی کو کم تر اور نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور خود کو بھی برتر اور کم تر سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ چھت پر بیٹھا ہوا فرد فرش پر بیٹھے ہوئے فرد کو ایسے انداز سے دیکھے کہ وہ اونچا ہے یا فرش والا سمجھے کہ وہ نیچا ہے تو اس سے برتری اور کم تری کا احساس پیدا ہونا آنکھوں کا ہی نہیں بلکہ دل کا بھی نابینا پن ہے۔ ہم یہ سوچتے اور دل سے سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری جگہ طالبان ہوتے اور ہم طالبان کی جگہ پر ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ زیادہ مظالم کرتے لیکن بس اطمینان کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کو فتح نصیب کردی تو ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کیساتھ حسنِ سلوک رکھا اور جب کربلا میں یزید کے لشکر کو موقع ملا تو حضرت حسین ، آپ کے خاندان اور ساتھیوں کو شہید کردیا گیا۔
ہمارے لئے اطمینان اور اعزاز کی بات صرف یہی ہے کہ اللہ نے ہمیں ظلم کا موقع فراہم نہیں کیا تھا۔ جب ہمیں اللہ تعالیٰ موقع دے تو ظلم کرنے سے بھی پناہ دے ۔یہ اس کا احسان ہوگا لیکن اس کو احساس برتری نہیں بلکہ ایک خود اعتمادی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے دنیا کیلئے نہیں بلکہ اپنی اس آخرت کیلئے بھی رکھی ہیں جس کے جزا وسزا کا بار بار اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے اور جب تک آخرت کے میدان میں سرخروئی نہ ملے تو بنوامیہ ، بنو عباس اور خلافت عثمانیہ کی طرح خاندانی خلافتوں کے ملنے سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔
لوگوں کو بہت بڑا اعتراض ہے کہ چند مسائل کا بار بار ذکر ہوتا ہے لیکن جب تک یہ حل نہ ہوجائیں تو اگر پوری دنیا میں انقلاب آنا ہے تو ان مسائل کے حل سے ہی آئے گا۔ کیا مدارس اور مساجد میں تین طلاق اور حلالے کے مسائل اب حل ہوگئے ہیں؟۔ اگر نہیں ہوئے ہیں تو پھر جن لوگوں کی عورتوں کو حلالے کے پراسیس سے گزارا جائے تو وہ اس لعنت اور بے غیرتی کے عمل سے گزرنے کے بعد ہمارے انقلاب پر لعنت نہیں بھیجیں گے؟۔ تبلیغی جماعت ہمارے سروں کی تاج اور ہماری محسن ہے اسلئے کہ دین کی طرف دعوت دینے کا اہم فریضہ یہ لوگ ادا کررہے ہیںلیکن جن چھ باتوں کو دہرایا جارہاہے ،اس سے کسی کو ذاتی فائدہ یا نقصان ملتا ہے۔ کیا تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو پھر رجوع نہ کرنے میں یا پھر حلالہ کروانے میں کامیابی ہے؟۔ظاہر ہے کسی میں بھی کامیابی نہیں۔
اگر لاالہ الااللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین دلوں میں آجائے اور غیروں کے حکموں میں ناکامی کا یقین ہمارے دل میں آجائے تو پھر تبلیغی جماعت کے مخلص کارکن جب غصے میں بیوی کو تین طلاق دیتے ہیں اور کسی مفتی اور عالم سے حلالہ کروالیتے ہیں تو غیرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کیا کسی صحابی کا ایسا واقعہ ہے کہ اس نے ایک ساتھ تین طلاق دیدئیے ہوں اور نبیۖ نے کسی سے حلالہ کروانے کا حکم دیا ہو؟۔ تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ۖ کا مطلب اللہ کے رسول کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے۔
اللہ کے احکام قرآن میں ہیں اور اللہ کے احکام پر عمل کا طریقہ سنت ہے۔غسل ، وضو اور نمازکا حکم قرآن میں ہے اور عملی طور پر غسل کرنا، وضو کرنا اور نماز پڑھنا سنت ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاس نے اسی مقصد کیلئے جماعت بنائی تھی۔ نماز،غسل اور وضو کے فرائض قرآن وسنت میں نہیں ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی نے دیوبندی اکابر سے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کا راستہ روک لیا تھا۔ فقہی مسائل میں فرائض اور واجبات کا تعلق قرآن وسنت سے نہیں تقلیدی مسائل سے ہے۔ مولانا الیاس کی چاہت تھی کہ مسائل علماء کیلئے چھوڑ دئیے جائیں اور فضائل سے قرآن کے احکام اور نبیۖ کی سنتوں کو زندہ کردیا جائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی سب اکابر کا اصلی مؤقف یہی تھا۔ بریلوی مکتبۂ فکر کے لوگ بھی غیرمتنازع تبلیغی جماعت کیساتھ عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔ تبلیغی نصاب میں شامل ”فضائل درود” کی وجہ سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوجاتی تھی کہ یہ وہابی لوگ نبیۖ کے دشمن ہیں۔ بعد میں تبلیغی جماعت نے سعودی عرب کی وجہ سے تبلیغی نصاب کا نام” فضائل اعمال” رکھ دیا۔ اور یہ صرف دیوبندی فرقے کی طرف منسوب ہوگئی ۔ حالانکہ اس میں زیادہ تر لوگ بریلوی مکتب سے تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے تھے۔
مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب” بہشتی زیور” کے مقابلے میں بریلوی مکتبہ فکر نے ” بہار شریعت ” کتاب لکھی ہے۔ اس کی ابتداء میں عقیدے کے حوالے سے یہ وضاحت ہے کہ ” نبیۖ اور سارے انبیاء بشر ہیں”۔ اگر اس کتاب پر اتفاق کرلیا جاتا تو دیوبندی بریلوی اختلافات کو اتنی زیادہ ہوا نہیں مل سکتی تھی۔ بہارِ شریعت میں ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ فرائض کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک فرائض عینی ہیں۔جیسے نماز، روزہ ، زکوٰة اور حج ۔اس کامنکر کافر ہے ۔ دوسرے فرائض ظنی ہیں جیسے غسل ، وضو اور نماز کے فرائض۔ دلیل کی بنیاد پر ان فرائض سے اختلاف کرنا اور ان کو فرائض نہ ماننا جائز ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کا انکار کرنا گمراہی ہے۔ بہارشریعت بریلوی مکتب نے فقہ حنفی کی بنیاد پر لکھی ہے۔
بریلوی مکتب نے دیوبندی اکابر پر اسلئے گمراہی کے فتوے لگائے تھے کہ کسی دلیل کے بغیر فقہی تقلید اور فرائض ظنی کو بدعت قرار دے رہے تھے۔ شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب ” بدعت کی حقیقت ” میں تقلیدکو چوتھی صدی کی بدعت قرار دیاتھا۔ اس کتاب پر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نے تقریظ بھی لکھ دی ہے۔ جبکہ علامہ سید محمد یوسف بنوری کے والد محترم حضرت مولانا محمدزکریا بنورینے فرمایا تھا کہ ” ہندوستان میں فقہ حنفی کی حفاظت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی وجہ سے ہوئی ہے”۔ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری کے استاذ مولانا انور شاہ کشمیری نے فرمایا تھا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی ، فقہ کی وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔ اب وقت آگیا ہے کہ مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک، مولانا سید محمدیوسف بنوری ، مفتی محمد شفیع کراچی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا سید محمد میاں لاہوری اور دیگر پاکستان کے دیوبندی اکابر کے استاذ مولانا محمدانور شاہ کشمیری کی آخری خواہش کو عملی جامہ پہنادیں۔جس کو بہارشریعت کا مکتب بھی دل وجان سے ضرورتسلیم کرلے گا۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا الیاساور مولانا عبیداللہ سندھی نے اسی انقلاب کیلئے جدو جہد فرمائی تھی۔
نبیۖ اور خلافت راشدہ کے دور میں غسل کے فرائض اور اس پر اختلاف کا تصور نہیں تھا۔ حضرت شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے کہ پہلی تین صدیوں میں جو فقہی مسائل پیدا ہوئے ہیں وہ خیرالقرون میں شامل ہیں۔جس کا حدیث میں ذکر ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم ”بہترین دور میرا ہے اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں اور پھر جو اس کے ساتھ ملے ہوئے لوگ ہیں”۔ عام طور پر اس حدیث سے صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین مراد لئے جاتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ نے لکھا کہ ” اس حدیث میں پہلا دور نبیۖ کا دور تھا۔ دوسرا دور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کا تھا اور تیسرا دور حضرت عثمان کا تھا۔ جبکہ حضرت علی کے دور میں خلافت منتظمہ نہیں تھی اسلئے خیرالقرون کے تین ادوار میں آپ کی خلافت کادور شامل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کیساتھ خلافت کا وعدہ کیا تھا اور عربی میں جمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے، پہلے تین خلفاء کیساتھ یہ خلافت کا وعدہ پورا ہوگیا تھا۔ اس سے خوارج خوش ہونگے کہ حضرت علی کے دور کو خلافت سے نکال دیا تو آپ کا دور خلافت راشدہ میں شامل تھا اور قیامت تک کیلئے حضرت علی ایک امام انقلاب کی حیثیت سے قابل اتباع ہیں”۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ” حضرت شاہ ولی اللہ سے مجھے تھوڑا سا اختلاف ہے۔ میرے نزدیک حضرت ابوبکر کا دور نبیۖ کے دور میں شامل تھا اسلئے کہ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ دوسرا دور حضرت عمر کا تھا جہاں کچھ تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ حفظ مراتب کے اعتبار سے مختلف لوگوں میں مال کی تقسیم کی گئی تھی اور اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام نے پورا تسلط قائم نہیں کیا تھا لیکن اس کا پھر بھی آغاز ہوچکا تھا جبکہ حضرت ابوبکر کے دور میں بقدر ضرورت وظائف ملتے تھے۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام میں بھی ایک یہ ہے کہ محنت اور صلاحیت کے مطابق تنخواہ دی جائے اور دوسرا یہ کہ افراد اپنی محنت اپنی صلاحیت کے مطابق ہی کریں لیکن تنخواہ ضرورت کے مطابق لیں۔ گویا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نظام حکومت کو مولانا عبیداللہ سندھی نے روس کے دورے کے بعد اپنی بدلی ہوئی نگاہ سے تھوڑا مختلف محسوس کیا تھا اور دیانتداری سے بیان بھی کردیا تھا۔
حدیث میں نبی ورحمت کے دور کا ذکر ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا ذکر ہے اور پھر امارت کا ذکر ہے اور پھر بادشاہت کا ذکر ہے اور پھر جبری حکومتوں کا ذکر ہے اور اس اعتبار سے نبوت ورحمت کا دور سب سے اچھا ہے۔ پھر خلافت راشدہ کا دوسرا نمبر ہے اور پھر امارت کاتیسرا نمبر ہے جس میں اگرچہ یزید جیسے لوگ تھے تو پھر امیرمعاویہ، معاویہ بن یزید اورہند زوجہ یزید اور حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے لوگ بھی تھے ،اسی طرح عباسی دور میں بھی اچھے برے لوگ تھے۔ خلافت عثمانی میں بھی اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ تھے اسلئے لوگ خلافت عثمانیہ کھونے پر روتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے عرب وعجم مسلمانوں کیساتھ خلافت کا وعدہ پورا کیا تھا اوراب جمہوری اور جبری دور کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوہ کا دور ہے۔
جب حضرت ابوبکر نے زبردستی زکوٰة کی وصولی کا فیصلہ کیا تو بعض واقعات کی وجہ سے نبوت ورحمت کے دور اور خلافت راشدہ کے دور میں فرق واضح ہوا۔ حضرت عمر کے دور اور حضرت عثمان کے دور میں معاملات مزید آگے بڑھ گئے۔ حضرت علی اور حضرت حسن کے دور میں خلافت راشدہ کا نظام بہت زیادہ فتنوں کا شکار تھا۔ حضرت علی کے حق میںاسلئے بہت ساری احادیث ہیں ،حضرت حسن کی صلح کی توثیق ہے۔ اگر بنو اُمیہ ، بنو عباس، خلافت عثمانیہ و مغل سلطنت اور خاندان غلاماں نے خاندانی بنیاد پر حکومتیں کی ہیں تو بنی فاطمہ نے بھی اقتدار کی منزل حاصل کی ہے۔ حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین کے بعد امامیہ کے باقی ائمہ نے بنو اُمیہ اور بنو عباس کے ادوار میں بہت امن و سکون کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ جبکہ امام حسن کی اولاد پر عباسیوں نے مظالم ڈھائے تھے۔
بار امانت میں خود اعتمادی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جدوجہد کرنے کے بعد منزل ملے یا نہ ملے لیکن انسان احساس محرومی کا شکار نہ ہو۔ ائمہ اہل بیت کے برعکس ان کے نام لیوا سب سے زیادہ احساس محرومی کا شکار نظر آتے ہیں۔
خلفاء راشدین کے دور میں زبردستی سے زکوٰة کی وصولی کے مسئلے سے بڑا معاملہ نماز کیلئے زبردستی اور سزاؤں کا تصور تھا۔ جس نے اسلام کو اجنبیت میں لوٹادیا۔ جن ظنی فرائض کے تصورات قرآن و سنت اور خلفاء راشدین کے ہاں نہیں تھے ان کا وجود اور ان کی تقلید اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی زبردست انتہاء تھی۔ بہار شریعت میں دلیل کے ساتھ غسل ، وضو اور نماز وغیرہ کے فرائض کی مخالفت کا جواز دیا گیا ہے۔ احناف کے نزدیک غسل کے تین فرائض ہیں۔ (1)منہ بھر کر کلی کرنا۔ (2)ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔ (3)پورے جسم پر ایک مرتبہ پانی بہانا۔ شوافع کے نزدیک غسل میں پہلے دو فرائض نہیں بلکہ سنت ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک پورے جسم کو مل مل کر نہ دھویا جائے تو فرض پورا نہ ہوگا۔ غرض کسی ایک فرض پر بھی اتفاق نہیں ہے۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ وضو کی آیت کے بعد اللہ نے فرمایا وان کنتم جنبًا فاطھروا ”اگر تم جنبی ہو تو خوب پاکی حاصل کرو” ۔ شوافع کے نزدیک پہلے دو فرائض وضو میں سنت تو غسل میں بھی سنت ہیں۔ احناف کے نزدیک غسل طہارت میں مبالغہ ہے اس وجہ سے پہلے دو فرائض ہیں۔ مالکیہ کے نزدیک جب تک مل مل کر پورا جسم نہیں دھویا جائے تو طہارت میں مبالغے پر عمل نہیں ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولا جنبًا الا عابری السبیل حتیٰ تغتسلوا ”اور نہ نماز کے نزدیک جنبی حالت میں جاؤ مگر یہ کہ کوئی مسافر ہو یہاں تک کہ نہالو”۔ اس آیت سے نہانے کو فرض قرار دیا گیا ہے اور وضو کے مقابلے میں نہانا طہارت میں مبالغہ ہے ۔
رسول اللہ ۖ ، خلفاء راشدین ، صحابہ کرام اور مدینہ کے سات فقہاء تابعین نے اس طرح کے ظنی فرائض بنانے اور اس میں اختلافات ڈالنے کی حماقت نہیں کی ہے۔ اگر بریلوی مکتبہ فکر کو دلیل کی بنیاد پر سمجھایا جائے تو وہ ماننے کو بھی تیار ہوجائیں گے۔ افغانستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے طالبان کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور اب وہ دلیل کے ساتھ نہ صرف قرآن و سنت کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب لاسکتے ہیں اسلئے کہ مولوی بیچارہ ایک کمزور حیثیت رکھنے والا شخص ہوتا ہے جس کو نماز پڑھانے کیلئے محلے والے تنخواہ پر رکھتے ہیں۔ اور جب اس سے کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو اس کو مسجد سے بھگادیتے ہیں۔ طالبان کے پاس اقتدار ہے اور اس اقتدار کا درست استعمال بہت ضروری ہے۔ تین طلاق سے رجوع اور حلالہ کے بغیر باہمی اصلاح کیلئے ہم نے بفضل تعالیٰ بہت تفصیل سے دلائل دئیے ہیں۔ اگر طالبان اس کو سمجھ کر حلالہ کے خاتمے کا اعلان کریں گے تو ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اور عوام ان کے اس اقدام کو بہت زبردست خراج تحسین پیش کریں گی۔
جب لوگوں کو معلوم نہیں تھا تو عورتوں کو حلالہ کے ذریعے سے زندہ دفن کرنا اور میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرنا ایک جاہلانہ مجبوری تھی۔ اب جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قرآن و سنت میںمروجہ حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی بار بار معروف طریقے سے باہمی رضامندی کی بنیاد پر رجوع کی اجازت دی ہے تو اللہ اور اس کے رسول ۖ کی ناراضگی کا طالبان وزیر اعظم کا خواب میں دیکھنا ایک تنبیہ ہے جس کو سُود کو جواز فراہم کرنے والے نہیں سمجھ سکتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

یہ آپ کے سامنے نوشتہ ٔدیوار ہے ، سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کی بڑی کاوشیں ہیں۔ مفتی انس مدنی

یہ آپ کے سامنے نوشتہ ٔدیوار ہے ، سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب کی بڑی کاوشیں ہیں۔ مفتی انس مدنی

پاکستان کے معروف اہلحدیث مولانا عبدالرحمن سلفی اور مولانا محمد سلفی کے بھائی حضرت مفتی محمدانس مدنی جامعہ ستاریہ کراچی نے یوٹیوب چینل پرکہا کہ آپ کے سامنے نوشتہ دیوار۔ مولانا سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب۔ آپ کی بڑی کاوشیں ہیں۔ بڑی محنتیں ہیں اور بڑے بڑے علماء کو انہوں نے جھنجھوڑا ہے کہ آپ اپنی مسند کے اوپر بیٹھ کر قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی ذہنی فقہ کو لے کر چل رہے ہیں۔ آپ قرآن و سنت کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے للکارا اور یہاں تک انہوں نے کہا کہ جو بھی مناظرہ کرنا چاہتا ہے گفتگو کرنا چاہتا ہے ٹی وی پر مناظرہ ہوگا۔ تاکہ کل عالم دیکھے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟۔اس معاملے کے اوپر کئی سال ہوگئے ان کو یہ چیلنج کئے ہوئے کہ آج کل تین طلاق کو تین شمار کیا جارہا ہے۔ گھر برباد کئے جارہے ہیں۔ اور لعنت والا کام جس پر اللہ نے بھی لعنت بھیجی اور رسول اللہ ۖ نے بھی لعنت بھیجی حلالہ کروایا جارہا ہے۔ بڑے بڑے مولوی، بڑے بڑے مفتی، بڑے بڑے علامہ فلامہ جبے قبے پہننے والے ، میڈیا کے اوپر آکر درس دینے والے، وہ سب اسی طرف لے جارہے ہیں عوام کو۔ جہالت کی طرف لے جارہے ہیں۔ تو میں یہ کہوں گا آپ یہ نوشتہ دیوار ذرا پڑھا کریں تو آپ کی انشاء اللہ آنکھیں کھل جائیں گی کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے۔ اور اب تک الحمد للہ بڑے بڑے علماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سید عتیق الرحمن گیلانی صاحب جو بھی بات کرتے ہیں طلاق کی مناسبت سے نکاح کی مناسبت سے حلالے کی مناسبت سے عدت کی مناسبت سے وہ قرآن و سنت کے مطابق کرتے ہیں۔ دیوبندی کئی علماء مان چکے ہیں، سنی کئی علماء مان چکے ہیں اور دیگر جماعتوں کے بھی کئی علماء مان چکے ہیں۔ آپ بھی ذرا توجہ کیجئے علم حاصل کیجئے۔ اور علم کے بغیر عمل جو ہے وہ ناکارہ ہوتا ہے۔ اس میں نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اسی کو آگے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

Tragedy of Dr. Abdul Razzaq Sikandar:Maulana Talha Rahmani,Jamia Uloom Al Islamia Allama Banuri Town Karachi.

ڈاکٹر عبدالرزاق سکندرکا سانحۂ ارتحال : مولانا طلحہ رحمانی ، جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

الوداع الوداع. اے شیخ سکندر الوداع.یاد گار اسلاف،آفتاب علم ماہتاب عمل،نابغہ روزگارہستی،محبوب العلما و الاتقیائ،شیخ المحدثین،محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کے گلشن کے باغباں اور مسند نشیں حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمہ اللہ رحم واسع کے سانحہ رحلت نے امت مسلمہ کی دنیائے علم کو سوگوار کردیا،آج اس باغیچہ بنوری کے درودیوار ماتم کناں ہیں۔علم و دانش کی اس عظیم درسگاہ کی مسندیں ایک مرد درویش کی تلاش میں مغموم اور افسردہ افسردہ سی ہیںلیکن انوارات سے منور اور روح پروری سے لبریز ایک ”گوشہ ” آباد ہے ۔تصورات کی دنیا میں کئی خوشگوار احساسات کا منظر دماغ میں آ رہا ہے تو یادوں کا اک جہاں بھی معطر معطر سا ہورہا ہے۔اس ”گوشہ” کے چاروں مکین نئے آنے والے مہمان کی آمد پہ کس طرح نہال ہورہے ہونگے۔ گزشتہ تین دنوں سے جو محفل سجی ہوگی اور اس دلبر ماحول میں گزرے دنوں کی کتنی یادوں کا ذکر چل رہا ہوگا۔چلیں دل کا یہ پھپھولا پھر کبھی ان شااللہ۔ حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کی حیات کے درخشندہ وتابندہ پہلوں میں ایک بہت بڑا پہلو ان کی عالی و ارفع نسبتیں ہیں۔ کئی نسبتوں کے امین اس عظیم المرتبت شخصیت پہ بہت کچھ تحریر و تقریر کی شکل میںآرہا ہے اور اس مرد قلندر کیلئے کروڑوں دلوں میں لاکھوں عشق و عقیدت کے جذبات کا سیل رواں بھی آج اشکوں کی صورت ہر طرف بہہ رہا ہے۔پیکر علم و حلم لازوال محبتوں کے مرجع ایک حسین اور وجیہہ شبیہ کی صورت کا سراپا سب کی نظروں میں گھوم رہا ہے۔ سردست تو مسنون تعزیت کے تیسرے دن کا اختتام ہوااور ان تین دنوں میں ”ان”کے بارے بہت کچھ لکھنا ضروری تھا۔ لیکن کچھ غم واندوہ کے پرکیف ماحول اور ملک بھر سے مسلسل مہمانوں کی کثیر تعداد میں آمد کی مصروفیت کیوجہ سے باوجود کوشش کے نہ لکھ سکا۔ ان تین دنوں میں مختصرا بعض احباب کی مختلف انداز میں خراج عقیدت کی تحریریں نظم ونثر کی شکل میں نظر سے گزریں۔کچھ درد میں ڈوبی صدائیں بھی سماعت سے ٹکرائیںلیکن مکمل انہماک سے نہ سن پایا۔ آج پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خواں برخوردار حافظ ابوبکر سلمہ اللہ تعزیت کیلئے جامعہ آئے تو انکے پاس دو تین شعرا کے کلام تھے۔انہوں نے سنائے تو نہیں لیکن پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔اس میں ایک کلام محترم آفتاب احمد (جن کا تعلق سانگھڑ سے )کا تھا۔اس منظوم خراج عقیدت کو حافظ صاحب سلمہ اللہ نے فوری طور پہ اسٹوڈیو جاکر ریکارڈ کروایا۔ابھی کچھ دیر قبل شاعر موصوف کے کلام کو حافظ صاحب کی زباں ملی تو سن کر دل حضرت ڈاکٹر صاحب نوراللہ مرقدہ کی فرقت پہ مزید مغموم ہوگیا ۔بہرحال وہ کلام اپنے برخوردار حافظ ابوبکر کی خوبصورت آواز میں آپ حضرات کیلئے شئیر کررہا ہوں۔سنیںاورحضرت رحمہ اللہ کے رفعت درجات کی بلندی کیلئے ضرور اہتمام سے دعا فرمائیں۔وہ ہماری دعاں کے شاید اتنے محتاج نہیں جتنے ہم جیسے سیاہ کاروں کو ضرورت ہے۔ لاکھوں افراد نے ان کو جس عقیدت بھرے احساسات اور والہانہ جذبات کیساتھ الوداع کیا۔ جنازہ کا وہ منظر کراچی جیسے شہر نے شاید اس سے قبل کبھی نہ دیکھا ہو۔الوداع الوداع۔ اے شیخ اسکندر الوداع ،اس صدی کے اے قلندر اے سکندر الوداع۔ علم احمد مجتبی کے اے سکندر الوداع ۔الوداع الوداع، اے شیخ اسکندر الوداع۔ مولانا طلحہ رحمانی صاحب ……جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹان کراچی۔
الوداع الوداع اے شیخ سکندر…تیری گردِ پا کو بھی نہ پہنچے کوئی قلندر
لالچ تھی نہ شہرت کی کوئی طلب…. تحمل کے سمندر،علم نبویۖ کے البدر
اے عربی لغت کے شبِ قدر ….. طلوع ہو گی تیرے فیض سے الفجر
ازماہنامہ نوشتہ دیوار کراچی
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv

Dajjal would appear from the East (Mashriq) and be opposed by a person from the family of Hazrat Imam Hassan (R.A) which I mean is Syed Gilani: Allama Talib Johri

allama talib johri
syed gilani
dajjal
khorasan
general hameed gul
general amjad shoaib

مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص ہوگا اور اس سے مراد سید گیلانی ہے: علامہ طالب جوہری
مین اسٹریم اور سوشل میڈیانے جس لایعنی بکواس میں لوگوں کو ڈالا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بڑا نرم ہاتھ رکھ کر شائستہ گفتگو

تحریر: سید عتیق الرحمان گیلانی :
سب کے دل جیت کر ایک پلیٹ فارم پر لاتے لیکن ماحول کی وجہ سے لہجہ سخت کئے بغیر ہماری آواز صدا بصحرا ہوگی!
لوگوں کے کان پک چکے ہیں کہ مریم نواز کا بابا با کردار ہے یا اسکے کالے کرتوتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے مگر میڈیا نے مجبوراعوام کو زبردستی اپنی زرخریدوکالت کے ہی قصے سنانے ہیں
اگر خدانخواستہ ایک مرتبہ افراتفری پھیل گئی تو پاکستان کی ریاست، خوشحال اور بد حال لوگوں کی حالت خراب سے خراب تر ہوجائے گی اور اس کا ذمہ دار خوشحال طبقہ ہوگا جو کھیل کھیل رہاہے
پسماندہ غریب لوگوں کو جہاد، سیاست اور مختلف ناموں اور کاموں کی بنیاد پر خرید کر اپنے مقاصد حاصل کئے جاتے ہیں۔ روس کے خلاف جہاد لڑنے والے جرنیلوں، سیاستدانوں، تاجروںاور علما کی اولادیں امریکہ سے مراعات لیکر زندہ وتابندہ ہیں۔ آئی ایس آئی کے چیف اختر عبدالرحمن (isi chief akhtar abdulrehman)کے صاحبزدے افغان جہاد میں پیسہ کمانے کی وجہ سے ہربرسرِ اقتدار کے ساتھ حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔ پرویزمشرف، نوازشریف، عمران خان کے بعد اگلی منزل جو بھی حکومت میں آئے اس کے ساتھ اقتدار میں شرکت ہے۔ جنرل ضیا الحق (genral ziaulhaq)نے بہت لوگوں کو جہاد میں جھونک دیا لیکن اسکے اپنے بیٹے سیاسی جماعتوں میں اپنی سیاست کرتے ہیں۔ جنرل حمید گل (genral hameed gul son abdullah gull)کے بیٹے عبداللہ گل کو ہی نہیں اس کی بیٹی تک کو بھی جہاد میں شہید ہونا چاہیے تھا لیکن مجال ہے کہ دوسروں کو جنت کا مختصر ترین راستہ دکھانے والا طبقہ کبھی خود بھی بھولے سے اپنی اولاد کو بھی اس سعادت کا موقع دے۔ اسامہ بن لادن نے زندگی افغانستان میں جہاد کرتے ہوئے گزاردی مگر جب امریکہ پیچھے آیا تو خڑوس کو ایبٹ آباد میں امریکہ نے قتل کیا یا اسے اٹھاکر لے گئے ہیں؟۔ یہ امریکی میڈیا سے صحیح خبر کبھی مل جائے گی۔ایمن الظواہری بھی غائب ہیں لیکن کتنے معصوم غریب لوگ جذبہ جہاد میں لڑمر کے شہادت کی منزل پر پہنچ چکے ہیں؟۔ ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔
سینٹر رضاربانی نے سینٹ میں کہا کہ ”امریکہ کو فضائی اڈے دینے کی مخالفت ہم سن رہے ہیں لیکن اب حال ہی میں ایک کارگو جہاز کابل سے کراچی میں لینڈ کرگیا ہے۔ جب امریکہ ائربیس دئیے گئے تھے تو ہماری ریاست میں کہیں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ وزرات خارجہ، داخلہ، دفاع اور (GHQ)کہیں بھی اسکے قانونی دستاویزات نہیں مل سکے تھے۔ اب تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر کام کیا جائے؟۔ اس سے پہلے بھی ہم اسکے نتائج بھگت چکے ہیںاور ہمیں کوئی اعتماد نہیں کہ کیا ہورہاہے؟ اسلئے کہ ہماری اس تاریخ سے عوام اور دنیا واقف ہے”۔ صحافی نے پوچھا کہ عمران خان نے امریکہ سے برابری کی سطح پر تعلق کا اظہار کیا کہ ہمارے( 150)ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں تو اسکا مطلب کیا لیا جائے؟۔تودفاعی تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب (general amjad shuaib)نے کہا کہ ”ہماری خواہش ہے کہ امریکہ ہم سے بات کرلے لیکن امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے”۔
ہماری معاشی، دفاعی ، اخلاقی اور انسانی پوزیشن مضبوط ہوتی تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ مجبوری نے ہمیں جس جگہ کھڑا کیا ہے تو اسکا بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاک فوج کی قیادت بھی آج کہتی ہے کہ پرویزمشرف اورسابقہ ادوار میں بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور اس نازک صورتحال میں ملک وقوم کی خاطر ہر قدم احتیاط سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔ (PTM)کا سب سے سخت گیر رہنما علی وزیر بھی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ملک جن حالات سے گزر رہاہے اس میں سیاسی ،معاشی اور دفاعی اعتبار سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے ہم احتساب کی بات کرتے ہیں۔ الطاف حسین بھائی کا بھی چند ہفتے پہلے ایک دردناک بیان آگیا کہ میں نے جس رات غلط بیان دیا تھا اسی رات ایک تحریری معافی نامہ لکھ کر دیا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید (dgisi faiz hameed)مجھے معاف کردیں۔
سوشل و الیکٹرانک میڈیاپر اپنا چکر چھوڑ کر وسیع البنیاد کام کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے ضرورت سے زیادہ اثاثے بناکر بیرون ملک میں اپنے خاندان بسائے ہیں وہ فوجی، جج ، سیاستدان، بیوروکریٹ یا جس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اس مشکل وقت میں پاکستان اپنے بچوں اور اثاثہ جات سمیت آئیں۔ سب کو کھلے عام معافی دی جائے۔ سبھی اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے اپنی پاکی بیان کرنے کی تسبیح چھوڑ کر اللہ کی پاکی بیان کریں۔ غلطیوں پر سیاست کرنے سے کامیابی ملتی تو ابلیس کو سب سے بڑا سیاستدان کہا جاسکتا تھا۔ وہ آج کہہ سکتا ہے کہ جب اسلام نے آخری دین کی حیثیت سے آدمی کو سجدے کرنے کی ممانعت کرنی تھی تو میں فرشتوں کا استاذ آج بھی جیتنے کے قابل ہوں اسلئے کہ میں نے سجدہ نہیں کیا۔ آخر کار آخری پیغمبرۖ کے دین نے میرے مقف کی ہی حمایت کی ہے۔ شیطان سب سے بڑا مذہبی مناظر اور سیاستدان ہے۔
سول وملٹری بیوروکریسی میں اچھے اور برے ہرطرح کے لوگ ہوسکتے ہیں ، سیاستدانوں میں بھی اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں اور ہرطبقے میں ہی اچھے اور برے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہوسکتی ہے۔ شیطان روتا تھا کہ اللہ نے کسی کو زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کرنا ہے اور کوئی اس بغض میں اندھا ہوکر راندہ بارگاہ الہی بھی ہوسکتا ہے۔ آدم پر فرشتوں نے اعترا ض کیا تھا لیکن جب وقت آیا تو فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان راندہ بارگاہ ہوگیا۔سب سے زیادہ مذہبی طبقہ قرآن وسنت کے نظام کی رٹ لگاتا تھا لیکن ایسا نہ ہو کہ شیطان کی طرح سب سے پہلے کافر بھی یہ بن جائیں اور مولانا عبیداللہ سندھی (molana ubaidullah sindhi)نے لکھا ” جو علما دیوبند اپنے استاذ مولانا محمود الحسن شیخ الہند کی بات مان کر قرآن کی طرف متوجہ ہونے سے اسلئے انکار کررہے ہیں امام مہدی کا ظہور ہوگا تو ہمارا نصاب درست ہوگا لیکن جب امام مہدی کا ظہور ہوگا تو تم مخالفین کی صفوں میں کھڑے ہوگے”۔
ہماری خانقاہ میں ایک شخص نے اپنا مشاہدہ بتایا تھا کہ ” شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے مولانا الیاس بانی تبلیغی جماعت کو ایک تاج دیا تھا اور مولانا الیاس نے وہ تاج ہمارے مرشد حاجی عثمان کے سر پر رکھاتھا”۔ دیوبندی علما کے اصل وارث حضرت مفتی محمد حسام اللہ شریفی سے لیکر ٹانک کے اکابر علما تک سب ہمارے ساتھ تھے۔ جب سردار امان الدین شہید (sardar amanuddin)نے ہمارے جلسے میں تبلیغی جماعت کی مخالفت کی تھی تو میں نے تبلیغی جماعت میں جانیکی انکو دعوت دی تھی۔ وزیرستان میں مولانا نور محمد شہیداور مولانا اکرم اعوان کیساتھ سردار امان الدین شہید نے مجھے بھی جلسہ عام میں بلوایا تھا مگر اسوقت وزیرستان میں بغیرماں باپ والے طالبان نہیں تھے۔ تصویر کی مخالفت کا مولوی طبقہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔مجھے جب علما کی وجہ سے مذہبی مسئلہ سمجھ کر تصاویر کی مخالفت کرنی پڑرہی تھی تووزیرستان کے اس جلسے میں بھی اپنی ویڈیو نہیں بننے دی اور ڈاکٹر اسرار احمد (doctor israr)کے ہاں بھی جب پہلی مرتبہ کانفرنس میں شرکت کی تو ڈاکٹراسرار احمد نے اعلان کیا کہ سید عتیق الرحمن گیلانی کی کوئی تصویر نہیں اتاریں۔ مولانا راحت گل نے پشاور یونیورسٹی کے پاس راحت آباد میں میری وجہ سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ مولانا فضل الرحمن، قاضی حسین احمد، مولانا اکرم اعوان، ڈاکٹر اسرا راحمد، صوفی محمد، مولانا سمیع الحق اور ایک شخصیت کا نام بھول رہا ہوں اور مجھے بلایا لیکن سب نے اپنے نائبوں کی فوج ظفر موج کو بھیج دیا اور خود شرکت کرنے سے گریز کیا۔ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور مولانا گوہرالرحمن تھے، صوفی محمد کے نائب امیر مولانا محمد عالم تھے، جمعیت علما اسلام ف اور س ، ڈاکٹر اسرار اور مولانا اکرم اعوان کے صوبائی رہنما تھے۔ اگر اس وقت تمام مذہبی لیڈرشپ جمع ہوکر اپنی اور امت کی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوتی تو پاکستان میں مذہب کے نام پر تباہ کاریوں کا کوئی سلسلہ نہ ہوتا مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ اخبارات میں میری تصویر اور میرا بیان بہت بڑا لگ گیا لیکن میری ایک بات بھی نہیں دی اور اپنی طرف سے بیان گھڑ کر میری طرف منسوب کردیا۔ اختر خان نے تحریک انصاف کو ریاست کا گماشتہ قرار دیا ہے لیکن باری باری یہ سب اپنی ضرورت کے وقت کتیوں کی طرح آوارہ کتوں کے ریوڑ کے آگے لگ جاتی ہیں۔
مجھے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک شیعہ نے میرے حسنِ سلوک کی وجہ سے کہاتھا کہ میں سنی بننا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیںہے جو اختلافات فقہ جعفریہ کیساتھ ہماری فقہ کے ہیں وہ ہماری اپنی فقہ مسالک میں بھی ایکدوسرے کیساتھ ہیں۔ صحابہ کرام کے خلاف برا بھلا کہنے سے گریز کریں ، باقی اپنے گھر میں اپنے لئے مسئلہ نہ بنائیں۔پھر مجھے جیل کے اندر بھی جیل کی چکیوں میں اس وجہ سے جانا پڑگیا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اسٹوڈنٹ سے میں نے کہا تھاکہ پختون کہتے ہیں کہ ”پختون کا قانون ، خون کا بدلہ خون” لیکن آپ اسلام کے نام پرگروہ بندی کرکے کالجوں و یونیورسٹیوں میں کیوں لڑتے ہیں؟۔ اس نے مجھ پر الزام لگادیا کہ ”میں نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور جیل سپر ڈنٹ سے بھی چغلی لگائی”۔ میں نے اپنی تحریر میں ثبوت لکھ دیا تھا اور اس نے اس کو ہی نبوت بنادیا تھا۔ میری وضاحت کے باوجود اس نے میرے خلاف سازش تیار کی اور جب جیل سپرڈنٹ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتایاکہ مہدی کے معنی یہ ہیں کہ جو گمراہ نہ ہو اور کوئی بھی خود کو گمراہ نہیں سمجھتا ہے لیکن میری حمایت کرنے والا جیل کا مولوی بہت مشکل میں نظر آرہا تھا۔ مجھے اس کی اپنے سے زیادہ فکر تھی۔ مجھے ریمانڈ لکھ کر ڈاکٹر جہانزیب گنڈہ پور کے پاس بھیج دیا۔ جب ڈاکٹر نے میری بات سن لی تو ریمانڈ( OK)کرنے کے بجائے یہ لکھ دیا کہ ” اسکے مخالفین کو جیل میں بند کرکے سزا دینی چاہیے”۔ وہ (40FCR)کا دور تھا۔ کسی عدالت میں جر م چیلنج نہیں ہوسکتا تھا۔ مجھے چکی میں بھیج دیا گیا تو ایک اہل تشیع حنیف ماما پاڑہ چنار نے بحث شروع کردی اور مجھے اس کو جاہل سمجھ کر بحث میں الجھنا فضول لگتا تھا اور اس سے کہا کہ ہمارا اپنا عقیدہ ہے ۔ ہم خلفا راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بھی مہدی سمجھتے ہیں۔ تمہارا مہدی غائب کا اپنا عقیدہ ہے لیکن جب وہ باز نہیں آرہا تھاتو میں نے کہہ دیا کہ میرے پاس علم نہیں ۔ اس نے کہاکہ پھر تو آپ جاہل ہو؟۔ میں نے کہا کہ آپ کی بات مان لی میں جاہل ہوں۔ قرآن کہتاہے کہ جاہل مخاطب ہو تو اس کو سلام کرکے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ آپ بڑے جاہل نہیں کہ ایک جاہل سے بحث بازی کے مرتکب ہورہے ہیں؟۔ پھر بعد میں اسکے بہت اچھے رویے کی وجہ سے اچھی دوستی ہوگئی۔ اس نے کہا کہ آپ مہدی کی بات ہمارے لئے چھوڑ دیں تاکہ امت کو متحد کیا جاسکے اور میں نے اس کی بات مان کر تحریری بیان لکھ دیا۔ پھر جیل سے رہائی ملی تو اپنا مشن خلافت کے قیام کیلئے راستہ ہموار کرنے کا مشن جاری رکھا۔ علامہ طالب جوہری(allama talib johri) سے ملاقات ہوئی تو اس نے ذاکرین کو بھڑکانے کیلئے کہا کہ آپ مہدی موعود سے مل رہے ہو۔ میں نے کہا کہ آپ نے لکھاہے کہ ”مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص ہوگا اور اس سے مراد سید گیلانی ہے۔ علامہ نے میری بات سن لی تو اسکی سٹی گم ہوگئی ۔ میں نے مناسب نہیں سمجھا اور مشکل سوالات کھڑے نہیںکئے جس سے علامہ صاحب گھبرا گئے تھے اور پھر اس نے مجھے ملاعمر کی تائید کا کہا مگر میں نے اپنے فکری اختلاف کی وجہ سے ایک چڑھتے سورج کی پوجا کو منافقت سے تعبیر کیا۔ اسلام شخصیات سے بالاتر عقیدہ توحید کی دعوت دیتا ہے لیکن مسلمان آج مسلک پرستی کا شکارہیں۔ نظام عدل کا قیام صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسانوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-01-syed atiq ur rehman gillani_nawaz sharif zarbehaq.com_maryam nawaz zarbehaq.com(1)CADV_talib johri _mulla umer_mehdi )

It would be beneficial if presidentship of Wifaq Ul Madaris Pakistan be assigned to both Ulmaa, namely Molana Imdadullah and Molana Asmat.

وفاق المدارس پاکستان کی صدارت مولانا امداد اللہ اور مولانا عصمت اللہ جیسے علماء کو دی جائے جو اپنی صلاحیتوں صحیح استعمال کرکے وفاق کے زیر انتظام مدارس میں کردار سازی کو یقینی بنائیں۔بدفعلی اور بدکرداری کو جڑ سے ختم کریں !

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

وفاق المدارس (wifaqulmadaris)پاکستان کی صدارت مولانا امداد اللہ اور مولانا عصمت اللہ (molana asmatullah)جیسے علماء کو دی جائے جو اپنی صلاحیتیں صحیح استعمال کرکے وفاق کے زیر انتظام مدارس میں کردار سازی کو یقینی بنائیں۔بدفعلی اور بدکرداری کو جڑ سے ختم کریں !
تحریر:سید عتیق الرحمان گیلانی
حکومت، اہل علاقہ اور طلبہ کے سرپرستوں کی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جوآزادانہ طریقے سے ماحول کا جائزہ لیکر مدارس میں اگر کوئی خرابی ہو تو اسے ٹھیک کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں!
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن(binori town) کراچی کردار سازی میں (A1)ہے۔ اچھے مدارس میں طلبہ اور ساتذہ کو غلط حرکت پر فوراًنکال دیتے ہیں۔قاری حنیف جالندھری (qari hanif jalandhri)کو برطرف کردیا جائے
شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن (mufti azizurreman)نے ایک تو بدفعلی کا ارتکاب کیا اور پھر وضاحتی تحریری بیان ویڈیو میں پڑھ کرخودسنادیا تو اپنے آپ کو مزید پھنسابھی دیاہے۔ جب یہ ویڈیو سامنے آئی تھی اور مجھے پہلی بار ساتھی نے دکھائی تو مجھے یہ گمان ہوا کہ فاعل مفتی عزیرالرحمن اور مفعول صابر شاہ(sabir shah) نے بھاری پیسہ لیکر علماء و مفتیان کو بدنام کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ پھر جب مجھے اپنے بھتیجے نے بتایا کہ اس نے اپنا وضاحتی بیان بھی دیا ہے اور اس میں اقرارِ جرم کیا ہے تو بھی میں اپنے مؤقف پر ڈٹ گیا کہ اعترافِ جرم سازش کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ جب مجھے یہ بتایا گیا کہ وہ جمعیت علماء اسلام اور مجلس ختم نبوت (majlis khatme nabuwat)کے رہنمااور مدرسہ کے اہم عہدے پر فائز ہیں تو میں نے کہا کہ پیسہ کی خاطر جو باروداپنی پشت میں دباکر دھماکے کرتے ہیں،سود (sood)کو جائز قرار دیتے ہیں، اپنی بیگمات کو چلاتے ہیںتو کیا مذہبی طبقات کی بدنامی میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے پیسہ لیکر بدفعلی کی ویڈیو نہیں بناسکتے ؟۔
بعید نہیں کہ مفتی عزیز الرحمن نے بھاری معاوضہ لیکر ڈرامہ رچایا ہو۔ معاوضہ لیکر پشت میں بارود چھپاکر خود کش حملے کئے جائیںاور سودی نظام(soodi nizam) کو جائز قرار دیا جائے توبے شرم لوگ ایسی شرمناک ویڈیو بھی بناسکتے ہیں۔ فوجی افسران ملک کے راز بیچ سکتے ہیں اور سزائے موت کھاسکتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر شپ کھلے عام جھوٹ بک سکتی ہے جس کا کام کردار کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے تو سب کچھ ہوسکتاہے!
ہمارا عدالتی نظام (court law)ویڈیو کو اعترافِ جرم نہیں سمجھتا۔ وزیراعظم نوازشریف (nawaz sharif)نے بہت ڈھٹائی کیساتھ پارلیمنٹ میں ایون فیلڈ (aeven field)لندن کے فلیٹ خریدنے کے اعداد وشمار بتائے کہ (2005ئ) میں سعودی(saudia) اور دوبئی (dubai)کی اراضی اور مل بیچ کر فلیٹ (2006ئ) میںخریدے۔ جوعدالت میں تمام ثبوتوں کیساتھ پیش کرسکتا ہوں۔ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں سوالات کے جواب سے انکار کردیا۔پھر معاملہ عدالتوں میں چلا۔ پھر اپنے بیان سے مکرگیا اور قطری خط لکھنے کا ارتکاب کیا اور پھر قطری خط سے بھی آخر لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ اس کے تمام کیسوں کو ختم کرکے وزیرا عظم کے عہدے پر بحالی کا اہل قرار دیا جائے اور اس کی یہ رٹ بڑی مقبول بن جائے کہ ”مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو”۔
اگر شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن عدالت سے بری ہوکر آئیگا تو رٹ لگائے گا کہ ”مجھے کیوں نکالا، داڑھی کو عزت دو”(darhi ko izzat do)؟۔ جامعہ منظور الاسلامیہ، جمعیت علماء اسلام اور وفاق المدارس پاکستان(pakistan) اس کو منصبِ دلبری پربحال کردیں گے؟۔ سیاست میں شرم وحیاء ، غیرت و حمیت اور اقدار وروایات کو طاقِ نسیاں میں رکھا گیا ہے لیکن مذہبی طبقے (religious)پر بھی اس کا اتنا بڑا اثر پڑا ہے کہ اس شرمناک ویڈیو کے بعد اتنی بے شرمی سے اپنے معمولات کا مفتی عزیز الرحمن نے اسطرح سے اظہارکردیا جیسے میاں بیوی کے آپس کا کوئی کھیل ہو۔ اپنی صفائی میں اس نے وفاق المدارس (wafaqulmadaris)کے جنرل سکریٹری قاری حنیف جالندھری(qari hanif jalandhri) اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے فیصلے کو جس طرح سے پیش کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ذمہ دار علماء ومفتیان بھی بے شرمی اور بے خبری کی چادر تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی(mufti taqqi usmani) اور دیگر علماء کو چاہیے تھا کہ قاری حنیف جالندھری کو بھی فوری طور پربرطرف کردیتے۔
اللہ نے فرمایا (:الذین یجتبون کبٰئرالاثم والفواحش الااللمم ان ربک واسع المغفرة ھو اعلم بکم اذا انشاَ کم من الارض واذ انتم اجنة فی بطون اُمھٰتکم فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰی O ‘)’ جو لوگ بڑے گناہوں اور فحاشی(fahashi) سے اجتناب کرتے ہیں مگر کسی خاص دور یا اوقات میں تو اللہ وسیع مغفرت والا ہے۔وہ اس وقت سے تمہیں جانتا ہے جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جنین تھے۔ پس اپنے نفسوں کی پاکی بیان نہ کرو، وہ جانتا ہے کہ کون کتنا پرہیز گار ہے”۔ (سورہ النجم آیت:32)
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پاکدامنی کے دعوے سے ویسے بھی منع کیا ہے لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ایک ایسی سزا کا ذکر ہے کہ اگر دومرد جنس پرست بدفعلی کریں تو ان کو اذیت دینے کا حکم دیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم دیا ہے۔ قانون کی بہترین کتاب قرآن(quran) ہے لیکن علماء نے فقہ کی چادر تان کر قرآن سے انحراف کیا ہواہے!
حضرت آدم و حواء سے لیکر دنیا میں آنے والے قیامت تک تمام انسانوں کا ظاہر اور باطن اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ اللہ نے وارننگ دی ہے کہ اپنے نفسوں کی پاکی بیان مت کرو۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اس کی مغفرت وسیع ہے۔ انسان کسی کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتا ہے تو اس کی طرف چار انگلیاں لوٹتی ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہر گز بھی نہیں کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والوں کیلئے کوئی رورعایت کا برتاؤ کیا جائے۔ پاکستان میں ایسی بدفعلی کی سزا 10سال یا عمر قید ہے۔ فقہاء نے دیوارکے نیچے یا پہاڑ سے گراکرقتل کی سزا کا حکم دیا ، جس پر طالبان کے دور میں دیوار گراکر قتل کرنے پر عمل بھی ہوا ہے۔
قرآن میں دومردوں کایہ حکم ہے کہ والذٰن یأ تےٰنھا منکم فاٰ ذوا ھما فان تابا واصلحا فاعرضوا عنھما ان اللہ کان توابًارحیماًO”اور جو تم میں سے دو مرد بدفعلی کریں تو دونوں کو اذیت دیدو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے اعراض کرو۔اللہ تواب رحیم ہے”(۔ النسائ: آیت16 )
ویڈیو سے ظاہر ہے کہ مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ دونوں رضامندی سے اس قبیح فعل کے مرتکب ہوئے ہیں اور دونوں کو ذلت آمیز اذیت دی جائے۔پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں تو ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جس اللہ نے اس کو حرام قرار دیا ہے ،اسی نے اذیت دینے اور توبہ و اصلاح کا موقع دینے اور پیچھے نہ پڑنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔
محترمہ ہدیٰ(huda bhurgari) بھرگڑی نے مفتی عزیزالرحمن کے اسکنڈل (mufti aziz scandle)پر اپنا زبردست بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں بہت اچھی تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ دوپٹہ نہیں پہنے اور بہت بڑی سفیدداڑھی پر نہ جاؤ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ” یہود(yahood) کی طرح سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ جس سے مخصوص مذہبی لبادہ ہی مراد ہے۔ یہودونصاریٰ اور سکھ وہندو کے مذہبی پیشواؤں نے بھی لبادوں میں دین کو چھپایا ہوا تھا۔
ملحدوں کے ہاں انسان ایک جانور ہے تو پھر جانوروں میں اتنی زبردست سپرٹ بھی مذہبی طبقے نے رکھی ہے کہ اس جرم کو جرم سمجھا جاتا ہے اور ملحدیں (mulhid)بھی بغلیں بجا بجاکر کہتے ہیں کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے؟۔ یہ اسلام(islam) اور مذہبی طبقے کی برکات ہیں کہ غیرت وحمیت ، شرم وحیاء اور ضمیر وروح بھی کوئی اوقات رکھتے ہیں۔ فیس بک پر ہدیٰ بھرگڑی نے اس پر بہت اچھی تجاویز پیش کی ہیں۔ بلاشبہ مذہب کے ٹھیکہ داروں کے کسی فرد کی طرف سے ایسی شرمناک ویڈیو کا آجانا بھی بہت افسوس کا مقام ہے۔ اگر بدفعلی میں جبر ثابت ہو تو مفتی عزیز الرحمن کو سنگسار کرنے کی عبرتناک سزا دی جائے۔طالبان(taliban) کو یہ عادت ڈالی جاتی ہے تو وہ اپنا ضمیر کھودیتے ہیںاور حوروں کی تلاش میں اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرکے دہشت گردی کے مرتکب بن جاتے ہیں۔ مولانا منظور مینگل (molana manzoor mengle)کی خاموشی بنتی ہے یا نہیں؟ ،وہ بتائے کہ صابرشاہ کا جسم اس کی مرضی یا استاذشیخ الحدیث کی مرضی؟۔
جس طرح انسانوں کا لباس اہمیت رکھتاہے اس سے زیادہ مذہب اہمیت کا حامل ہے۔ آج ایک شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن پر انسانیت کا سیخ پا ہونا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ سفید اور صاف ستھرے کپڑوں پر سیاہ داغ بہت نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکر سکول ،کالج اور یونیورسٹیوں(college) تک کیا نہیں ہوتا ہے ؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریپ کا چند دنوں مسلسل شکار رہا مگرزبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر معاشرے پر دھبہ لگنے کی وجہ سے جرم بن گیا تھا۔ یہ بات سوفیصد درست ہے کہ مدارس اسلام کے نام پر بنے ہیں مگر پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ بھی تو ہے۔ پاکستان میں سب سے بڑا مقدس اورمضبوط ادارہ پاک فوج ہے۔ جب کسی فوجی پرکوئی جرم ثابت ہوجاتا ہے تو پاک فوج کے اس اہلکار کو عدالتوں میں سزا نہیں دی جاتی بلکہ فوج کا اپنا قانون ہے تاکہ رازداری باقی رہے۔ جب کوئی فوجی ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو اس کو بحال کرکے سزا دی جاتی ہے اور جب جنرل قمر جاوید باجوہ (genral qamar javaid bajwa)کو ایکس ٹینشندی جارہی تھی تو اندھی ڈولفن عدالت کو پتہ چل گیا کہ جس قانون کے تحت فوج اقتدار پر قبضہ کرتی رہی ، عدالت نے اسی اندھے قانون کے تحت توسیع دی۔
اگر فوج کے اعلیٰ افسران جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے جائیں اور ان کو سزا ہوجائے تو پوری فوج پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔اگر کوئی بڑامولوی بھی غلط کام کرتا ہوا پکڑا جائے تو پورے مذہبی طبقے کو بدنام نہیں کرنا چاہیے۔ فوج نے اپنی تنخواہیں اور دفاعی بجٹ لینا ہوتا ہے لیکن علماء کے مدارس عوام کے رحم وکرم پر چلتے ہیں۔اگر فوج بدنام ہوجائے تو اس کی تنخواہ بند نہیں ہوگی لیکن اگر علماء بدنام ہوگئے تو ان کے سارے فنڈز بند ہوجائیںگے اور مفت تعلیم، رہائش اور قرآن و سنت (quran o sunnat)کے تحفظ سے یہ امت محروم ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں سے بھی اپنے دین کے تحفظ کا کام لیتا ہے۔ مفتی عزیز الرحمن نے صابرشاہ کو ورغلایا یا صابر شاہ نے مفتی عزیز الرحمن کو ورغلایا اور ممکن ہے کہ یہ دھندہ دوسری جگہوں پر بھی ہو مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کردارسازی اور تعلیم وتربیت اور تزکیہ کے اس عظیم نظام کو بدنام کرکے مدارس ومساجد کو کھنڈرات میں تبدیل کیا جائے۔
نماز، ناظرہ قرآن، قرآنی تراجم وتفاسیر، احادیث اور عربی کے علاوہ تمام مذہبی معاملات ان مدارس کے مرہونِ منت ہیںاور یہ ہم پر بڑا احسان ہے۔
اس کے نصابِ تعلیم وتربیت اور نگرانی کے طریقۂ کار میں زبردست تبدیلی کی سخت ضرورت ہے۔ صدروفاق المدارس پاکستان ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی بڑی بزرگی اوربڑی شخصیت اپنی جگہ پر لیکن وفاق المدارس پاکستان کی صدارت کی ذمہ داری مولانا امداداللہ ناظم تعلیمات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی(jamia binori town karachi) جیسے علماء زیادہ احسن انداز میں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن سے مدرسے کی ذمہ داری اسوقت تک واپس لی جائے جب تک وہ وفاق المدارس(wifaqul madaris) کی صدارت کررہے ہوںتاکہ وفاق کے زیر اہتمام مدارس کی نگرانی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، اسی طرح دارالعلوم کراچی میں مفتی عصمت اللہ شاہ (mufti asmatullah shah)ہیں اور دیگر مدارس میں باکردار وباصلاحیت افراد کو باری باری یہ ذمہ داریاں سونپ دی جائیں تو مدارس میں احتساب کا درست نظام قائم ہوسکتا ہے۔ورنہ پھر انکا حال بھی تبلیغی جماعت کی طرح ہوگا جورائیونڈ(raiwand) اور نظام الدین میں امیر پر متفق نہیں ہوسکتے۔
مفتی عزیز پر انسانیت کا سیخ پا ہونابہت کھلاثبوت ہے کہ سفید کپڑوں پرسیاہ داغ نمایاں نظر آتا ہے۔زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکرسکول، کالج ، یونیورسٹیوں تک میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریب کا مسلسل شکار رہا مگر زبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر جرم بن گیا ۔پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ تھا؟ فوج (army)کو سزا دینے کیلئے ریٹائرڈمنٹ کے بعد بحالی…….؟
(syed atiq ur rehman gilllani)(navishta e dewar)(zarbehaq)

خاص خاص ہیڈ لائن:

اگر دو مرد ہم جنس پرستی کا ارتکاب کریں تو قرآن میں ان کو اذیت دینے کا حکم دیا گیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
. If two male members are involved in homo sexual practice than as per Quran decision, they should be punished tortured and if they avoid to let off this sin, it is ordered not to chase/follow them.

بعید نہیں کہ مفتی عزیز الرحمن نے بھاری معاوضہ لیکر ڈرامہ رچایا ہو۔ معاوضہ لیکر پشت میں بارود چھپاکر خود کش حملے کئے جائیںاور سودی نظام کو جائز قرار دیا جائے توبے شرم لوگ ایسی شرمناک ویڈیو بھی بناسکتے ہیں۔ فوجی افسران ملک کے راز بیچ سکتے ہیں اور سزائے موت کھاسکتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر شپ کھلے عام جھوٹ بک سکتی ہے جس کا کام کردار کی بنیاد پر ووٹ لینا ہوتا ہے تو سب کچھ ہوسکتاہے!

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پاکدامنی کے دعوے سے ویسے بھی منع کیا ہے لیکن رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد ایک ایسی سزا کا ذکر ہے کہ اگر دومرد جنس پرست بدفعلی کریں تو ان کو اذیت دینے کا حکم دیا ہے اور پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم دیا ہے۔ قانون کی بہترین کتاب قرآن ہے لیکن علماء نے فقہ کی چادر تان کر قرآن سے انحراف کیا ہواہے!

محترمہ ہدیٰ بھرگڑی نے مفتی عزیزالرحمن کے اسکنڈل پر اپنا زبردست بیان ریکارڈ کروایا ہے جس میں بہت اچھی تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ دوپٹہ نہیں پہنے اور بہت بڑی سفیدداڑھی پر نہ جاؤ۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ” یہود کی طرح سفید داڑھیاں مت چمکاؤ”۔ جس سے مخصوص مذہبی لبادہ ہی مراد ہے۔ یہودونصاریٰ اور سکھ وہندو کے مذہبی پیشواؤں نے بھی لبادوں میں دین کو چھپایا ہوا تھا۔

مفتی عزیز پر انسانیت کا سیخ پا ہونابہت کھلاثبوت ہے کہ سفید کپڑوں پرسیاہ داغ نمایاں نظر آتا ہے۔زندہ دلانِ لاہور کی گلی کوچوں، بازاروں اور ہوٹلوں سے لیکرسکول، کالج ، یونیورسٹیوں تک میں کیا کچھ نہیں ہوتا؟۔ بلی کا بچہ اجتماعی ریب کا مسلسل شکار رہا مگر زبانیں گنگ تھیںاور اسکی تشہیر جرم بن گیا ۔پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ تھا؟ فوج کو سزا دینے کیلئے ریٹائرڈمنٹ کے بعد بحالی…….؟

A dispute was raised and exploited by a group on the statement of Malala but why they keep silent on scandal of Aziz-ur-Rehman?

ملالہ کے بیان پر طوفان برپا کرنے والا طبقہ مفتی عزیز الرحمن کے اسکینڈل پر کیوں اپنی دُم گھسیڑکر بیٹھ گیا؟ جب تک علماء اپنے نصاب کو درست نہ کریں تو مدارس کی بدنامی کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن دنیا کے حریص خاموش ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سیاسی، مذہبی، جماعتی ، تنظیمی اور مساجد ومدارس کے علماء ومفتیان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسلام کے بہترین نظام کو قربانی کے کٹہرے میں بہت بری طرح کھڑا کیا۔
قرآن وسنت نے تمام مذاہب کے باطل عقائد ونظریات اور مسائل کی اصلاح کرکے انقلاب برپا کردیا تھا لیکن مدارس کے نصابِ تعلیم نے پھر سے باطل عقائد ومسائل پیدا کررکھے ہیں

اس اخبار میں علماء کے نصاب و کردار پر تیر چلائے جاتے ہیں لیکن ہمارا مقصد بغض وعناد اور دشمنی نہیں۔ کالج یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ سے زیادہ مدارس کے علماء و طلبہ میں صلاحیت ہے۔ مفتی سید عدنان کا کا خیل نے مشاہد حسین سید اور عوام کے سامنے کس طرح پرویزمشرف کے سامنے اپنی صلاحیت کا اظہار کردیا تھا؟۔ مفتی محمود نے قومی اتحاد اور مولانا فضل الرحمن نےPDMکی قیادت کی؟۔ طالبان نے امریکہ کو شکست دی۔ ایٹمی پاکستان کے پرویزمشرف اور جنرل محمود مرغا بن کر دانے چگ رہے تھے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ اوریا مقبول جان اور سوشل میڈیا کا وہ طبقہ کہتا ہے جو فوج پر دنیا میں نمبر1ہونیکا اتنا یقین رکھتاہے جتنااللہ کی واحدانیت پر وہ حقیقی یا مصنوعی ایمان کادعویٰ کرتا ہے۔اور یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے عرب کے بدؤوںکا فرمایا تھا کہ ”اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ تم اسلام لائے ہو اسلئے کہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن)
جنرل حمیدگل سے لیکر چھوٹے موٹے بہت سے لوگ طالبان کا کہتے تھے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور پاکستان کا اسلام اعرابیوں کی طرح ہے ، جن کے دلوں میں 70سالوں سے زیادہ عرصہ ہوا کہ ایمان داخل نہ ہوسکا ہے اور اس کے بعد ہم دولت کیلئے کتنی جنگیں لڑتے رہیں گے۔
ہماری سوچ کا زاویہ مختلف ہے۔ ایمان و عمل کیلئے بنیادی بات علم کی اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کے ذریعے سے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور حکمت سکھانے کا اہتمام کیا اور اس شعور وآگہی کی بدولت انہوں نے دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا ۔ قرآن کے نزول سے پہلے بہت سی برائیاں مذہب کے نام سے تھیں جن کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اصلاح فرمائی۔ ظہار کا حکم مذہب نے ہی بگاڑ دیا تو ایک عورت نے اپنے شوہر کے حق کیلئے رسول اللہ ۖ سے مجادلہ کیا ۔ جس پر سورۂ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں اور مذہبی فتویٰ غلط قراردیا گیا۔ دنیا میں عیسائی، ہندو سمیت کئی مذاہب میں طلاق کا کوئی جواز نہیں تھا یا پھر ایک ساتھ تین طلاق سمیت بہت ساری خرابیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس کی اصلاح فرمائی۔ زنا اورقوم لوط کے عمل کی شکل اور سزاؤں میں بھی بہت بگاڑ آچکا تھا۔ سود کی حرمت بھی ختم کردی گئی تھی اور جاگیردانہ نظام اور جنگوں میں لونڈیاں بنانے کا بھی نظام جاری تھا۔
اللہ نے ایک ایک کرکے تمام برائیوں کا وحی کے ذریعے خاتمہ قرآن میں محفوظ کیا۔ توارة میں بوڑھے مرد عورت کے زنا پر رجم کا حکم تھا ۔قرآن نے زنا پر 100کوڑے اور جبری زنا پر قتل کا حکم دیا بخاری میں ہے کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعدنبی ۖ نے سنگساری کی سزا پر عمل نہیں کیا لیکن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہۖ کا وصال ہوا تو رجم کی آیات اور رضاعت کبیر یعنی بڑے آدمی کو عورت کے دودھ پلانے کی آیات کو بکری نے کھاکر ضائع کیا۔قرآنی آیت یہ بتائی جاتی ہے کہ الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما …. ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ اب مفتی عزیز الرحمن کو بوڑھا قرار دیکر کہا جارہاہے کہ یہ معذور ہے اس میں بدکاری کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
جعلی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اگر جوان شادی شدہ ہوں تو بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بوڑھوں میں100کوڑے سہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہو اور تورات میںیہ حکم ہو کہ ” ان کو کوڑے مارنا سزائے موت کے مترداف ہے اسلئے ان پر لعنت بھیج کر چھوڑدو”۔ جب قوم لوط میں ہم جنس پرستی کا رحجان تھا تو اللہ نے اجتماعی عذاب نازل کرکے ان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیا لیکن اس پر قرآن میں سزائے موت یا بہت لمبی چوڑی سزا نہیں ہے بلکہ اذیت دی جائے اور پھر توبہ واصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
جب قرآنی آیات بناکر ابن ماجہ میں پیش کی جارہی ہوں تو صحیح مسلم کی یہ روایت بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے قرآن پر زیادتی کا مرتکب سمجھیںگے تو قرآن میں رجم کا حکم لکھ دیتا”۔ ایک طرف ابن ماجہ میں بکری کے کھا جانے سے آیات کا ضائع ہونا اور دوسری طرف مسلم میں حضرت عمر کی بات میں کتنا کھلا تضاد ہے؟۔ جب آیات کے مقابلے میں آیات ایجاد کی جائیں، احادیث اور صحابہ کبار کے اقوال ایجاد کئے جائیں تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟۔ اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ” اگر آدمی کسی عورت کا دودھ بڑی عمر میں پی لے تو اس کا اس عورت سے پردہ نہیں رہے گا لیکن اگر وہ شادی کرنا چاہے تو ان کی آپس میں شادی ہوسکے گی”۔ اگر دیکھ لیا جائے کہ مسلک پرست عناصر نے کس طرح متعہ ، رجم اور بڑے کے دودھ کی آیات تک گڑھ دی ہیں۔ پھر متضاد احادیث گڑھ دی ہیں جس طرح بیوی کیساتھ پیچھے سے بھی جماع کرنے کے حوالہ سے حدیثیں تک بھی گڑھ دی گئیں ہیں۔
گورنربصرہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن تک اسلام کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر اختلافات وتضادات کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ روز روز کوئی بیل یہ نہیں بول سکے کہ مینارِ پاکستان پر لٹکادو اور نہ یہ بول سکے کہ شرعی گواہوں کے تصورات کا کیا کیا معیار ہے؟۔ پنجاب کا ایک معروف خطیب دوسرے ہم مسلک خطیب کیلئے کہا کرتا تھا کہ” وہ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی۔الحمدللہ میں نہ فاعل ہوں اور نہ مفعول ”۔ سبوخ سید نے بھی کسی مسلک کے مناظر اورہم مسلکوں کی پشت پناہی اور دوسری کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین ازواج مطہرات کیلئے قرآن میںدُگنی سزا کا ذکر کیا ہے اور لونڈی وایگریمنٹ والوں سے نکاح کے بعد فحاشی میں مبتلاء ہونے پر آدھی سزا کا حکم دیا۔ سنگساری اور قتل کو دگنا اور آدھا نہیں کیا جاسکتا لیکن مولوی تقلید کی وجہ سے صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اگر اسلام کو ان علماء کے چنگل سے آزاد کیا جائے جو مزارعت سے سودتک کو اسلامی قراردینے کے معاملات میں ہردور میں ملوث رہے ہیں تو انقلاب سالوں، مہینوں نہیں چند ہفتوں اور دنوں کے فاصلے پر ہے۔
عورت کے حقوق سے لیکر بدنام زمانہ گناہگاروں کے حقوق تک جس طرح اسلام نے انسانیت کی عزت وتوقیر اور سزا وجزاء کا سلسلہ رکھا ہے تو اس پر مسلمان ، کافر، ملحدین اور دنیا کے تمام انسان اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس مجھے لگتا ہے کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اگر جلد اچھے فیصلے نہیں کئے تو پھر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین سے بھی زیادہ خطرناک حالات کا سامنا ہم سب کو کرنا پڑسکتا ہے۔ ایکدوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنے کھلے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دست بستہ معافی مانگنے کا وقت آگیا ہے۔
قوم پرستی، مسلک پرستی، سیاست پرستی ، ریاست پرستی اور مفادات پرستی کے سلسلے بعد میں بھی چل سکتے ہیں لیکن ایسے وقت میں اپنی جان اور اپنی قوم کیلئے امن وامان مانگنا ضروری ہے۔ بلوچوں، پشتونوں، مہاجروں اور سندھیوں نے پہلے جو مشکلات دیکھی ہیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔ پنجاب کی عوام کیساتھ پہلے بھی وہی ناانصافی ہوئی ہے جو دوسروں نے دیکھ لی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں نے مرچیں کھانے کے باوجود اتنی زیادہ تیزی کبھی نہیں دکھائی جتنی دوسری قوموں نے کئی مرتبہ دکھائی ہے۔
عورت کو اپنے شوہر اور ماں باپ کی طرف سے وہ تحفظ مل جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو دنیا اسلامی نظام کی طرف آجائے۔ حضرت داود کی 99بیگمات تھیں اور سویں کی بھی خواہش کی جو ایک مجاہد اوریا کی بیگم تھی۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے 4ہزار لونڈیاں تھیں اور اسلام نے چار تک شادیوں کی اجازت دی اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ برصغرپاک و ہند میں اسلام کی روح پھر بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے۔ مصر کے اسلامی اسکالر نے النساء میں عورتوں کیساتھ مردوں کو بھی شامل کرنے کا تصور پیش کردیا ہے۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھاکہ ”کسی عورت سے شادی ہوتو اسکے سابقہ شوہر کے بیٹے سے بدفعلی پراحناف کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ”۔(کشف الباری)
نکاح و حرمت مصاہرت کی تفصیلات عوام کے سامنے آجائیں تو مفتی عزیز الرحمن کو بھول کر پہلے نصاب تعلیم کو درست کرنا ہی ضروری سمجھیں گے۔ ہم مسلسل متوجہ کررہے ہیں لیکن انکے کانوں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا یوٹیوب پر بیان آیا جس میں قاری حنیف جالندھری وغیرہ بھی موجود تھے کہ ”جب قادیانیوں کے حق میں سینٹ کے اندر بل پاس کیا جارہاتھا جو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تو مجھے خوف تھا کہ مجھے چیئرمین سینیٹ کی غیرموجودگی میں ڈپٹی کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیںگے مگر الحمدللہ بل پاس نہیں ہوا۔ پھر حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا۔ ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں”۔
مولانا حیدری کے بیان سے مفتی عزیز الرحمن کی طرح اعتراف جرم ثابت ہورہاتھا۔ ممکن ہے کہ مولانا صاحبان سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے اسلام بیچ کر اپنے اثاثے بیرون ملک بنارہے ہوں کیونکہ اتنے بھولے تو یہ حضرات نہیں ہیں۔ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھنا ضروری ہے۔