editorials Archives - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

طلاق کا تعلق محض الفاظ نہیں بلکہ عمل وعزم سے ہے

لا یؤاخذکم باالغو فی ایمانکم ولکن بماکسبت قلوبکم Oللذین یؤلنون من النساء ھم تربص اربعۃ اشہر فان فاؤا فان اللہ غفور رحیمOوان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیمOاللہ تمہیں نہیں پکڑتا لغو قسموں سے مگر جو تمہارے دلوں نے (گناہ)کمایا،اس پر۔Oجو لوگ اپنی عورتوں سے قسم کھالیتے ہیں ان کے لئے 4ماہ ہیں، پس اگر آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہےOاور اگر ان کا عزم طلاق کا تھا تو سننے جاننے والا ہے۔سورۃالبقرۃ
ان آیات میں یہ وضاحت ہے کہ عورت کو چھوڑنے (طلاق دینے) کا تعلق لغو قسم سے نہیں بلکہ دل کے عزم اور طلاق کے عمل سے ہے۔طلاق کے عزم کا اظہار نہ کیا تو بھی زیادہ سے زیادہ انتظار 4 ماہ کا ہے ، اسلئے کہ پھر عورت کی حق تلفی ہوگی۔ شوہر طلاق کے عزم کا اظہار نہ کریگا تو عورت زندگی بھر بیٹھی رہے گی؟۔ اللہ نے ایسا ظالمانہ معاشرتی نظام نہیں بنایا ۔ ایلاء عورت سے ناراضگی کی قسم کو کہتے ہیں، یہ بالکل واضح ہے کہ طلاق کا تعلق لغو الفاظ سے نہیں، طلاق کے عزم کا اظہار بھی ضروری نہیں بلکہ عمل ہی کافی ہے۔ آیات میں واضح ہے کہ طلاق کا عزم ہو مگر اظہار نہ کیا جائے تو اس دل کے گناہ پر اللہ کی پکڑ ہوگی اسلئے کہ طلاق کے عزم کا اظہار ہو تو انتظار کی مدت 4ماہ کی بجائے3ماہ ہوگی۔تبیانا لکل شئی (قرآن ہرچیز واضح کرتاہے)
ان آیات سے واضح ہے کہ نکاح و طلاق میں شوہر اور بیوی دونوں کا حق ہے، دورِ جاہلیت کی طرح یہ تعلق لغو قسم سے بھی نہیں ٹوٹتا ، شوہر نہ ملنے کی قسم کھالے تو بیوی فوری طور سے قانوناً الگ نہیں ہوتی بلکہ ناراض ہونے کی حالت میں 4ماہ کا انتظار ضروری ہے، اس مدت یا عدت میں دونوں راضی ہوگئے تو اللہ غفور رحیم ہے اور اگر نہ بن سکی تو عورت اس سے زیادہ انتظار کی پابند نہیں۔البتہ عزم کا اظہار نہ کرنے پر شوہر کی اللہ کے ہاں اس وقت پکڑ ہوگی جب طلاق کا عزم ہو، اسلئے کہ پھر عزم کا اظہار کرتا تو عورت کو اس سے کم 3ماہ کی عدت اور انتظار کی تکلیف گزارنی پڑتی۔
امام ابوحنیفہؒ کے مسلک میں چار ماہ انتظارکے بعد عورت طلاق ہوجائے گی۔ جمہور ائمہ کے نزدیک جب تک طلاق کے عزم کا اظہار نہ ہو عورت زندگی بھرانتظار کریگی۔ علامہ ابن قیمؒ نے جمہور کے حق میں اور احناف کیخلاف دلائل دئیے لیکن قرآن میں اتنا بڑا تضاد کیسے ہوسکتا ہے کہ حنفی مسلک میں چارماہ کاعمل طلاق قرار دیا جائے اور جمہورکے نزدیک چارماہ کا انتظار ہی غلط ثابت ہو ؟۔ میاں بیوی چار ماہ کے بعد باہمی رضامندی سے ملنے پر راضی لیکن ان کو طلاق کا فیصلہ سنادیا جائے اور عورت الگ ہونا چاہتی ہو تب بھی انتظار پر مجبور ہو۔ یہ افراط و تفریط اور غلو ہے۔
یہ اختلاف رحمت نہیں زحمت ہے، یہ امت مسلمہ کو اس مذہبی گمراہ ذہنیت کا شکار کرتی ہے جس سے اسلام نے نکالا ۔ اس مسلکی اختلاف و تضاد کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق کی وضاحت اور حد ود مقرر کردئیے ، شوہر کا حق یہ ہے کہ بیوی اس کی ناراضگی کے باوجود ایک مخصوص عدت تک انتظار کی پابند ہے۔ طلاق کے عزم کا اظہارنہ کرنے کی صورت میں انتظار کی مدت یا عدت اظہارکے مقابلہ میں بڑھ جاتی ہے، شوہر اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور اس کو راضی نہیں کرتایا پھر وہ راضی ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتی ہے تو 4ماہ انتظار کافی ہے۔
چونکہ فقہاء کرام اس دور کی پیداوار تھے جب خلافت کا نظام موروثی امارت میں تبدیل ہوچکا تھا، انہوں نے عورت کے حق کو ہی بالکل فراموش کردیا،وہ آیات کا فیصلہ صرف شوہر کے حق کو مدِ نظر رکھ کر کررہے تھے، اسلئے طلاق ہونے ،نہ ہونے کے فتویٰ میں تضاد آگیا۔اگر ان کے پیشِ نظر عورت کا حق بھی ہوتا تو یہ اختلاف کے شکار نہ بنتے۔ قانون میں طاقتور اور کمزور دونوں کے حقوق متعین ہوتے ہیں،عورت کمزور ہوتی ہے، اسکے حقوق کا خاص طور سے خیال رکھنا ضروری تھا۔ قرآن میں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے وضاحت فرمائی کہ 8سال کام کرنا ہوگا اور اگر10سال پورے کئے تو یہ آپکی طرف سے احسان ہوگا۔ مزدور، ملازم اور افسر کو کچھ گھنٹے روزانہ مقررہ وقت کیمطابق کام ، پھرمرضی کا مالک ہے۔ معمولات اور انسانی فطرت سے سبق لیتے تو قرآن کے قانون میں تضاد کی ضرورت نہ پڑتی۔
عورت کو طلاق کے عزم کے اظہار تک چار ماہ اور حدود وقیود سے بڑھ کر جمہور فقہاء کا مسلک تو قرآن کے الفاظ اور انسانی فطرت کے بالکل منافی تھا ، حنفی مؤقف مقابلے میں بہتر اور قرآں فہمی کے تقاضہ سے مطابقت رکھتا تھا، تاہم عورت کے حق کو مدِ نظر رکھا جاتا تو چار ماہ کے گزرتے طلاق ہونے کا فتویٰ دینے کی بجائے قانون کی وضاحت کی جاتی کہ عورت چارماہ کی مدت کے بعد پابند تو نہیں لیکن وہ چاہے تو چارماہ کے بعد بھی باہمی رضامندی سے ازدواجی زندگی بحال رکھ سکتی ہے۔کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ اب طلاق پڑگئی ہے ، دوبارہ نکاح کا معاہدہ کرنا پڑیگا۔
ناراضگی کی صورت میں عورت کو 4ماہ کے انتظار کا حکم ہے اور عدتِ وفات میں4ماہ 10دن انتظار کا حکم ہے۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے گدھوں کو اس بات کی سمجھ ہونی چاہیے کہ اللہ نے شوہر کی ناراضگی میں 4ماہ کی عدت کیوں رکھی ہے جو عدتِ وفات سے بھی دس دن کم ہے؟۔ اور طلاق کے اظہار پر 3ماہ کی عدت رکھی ہے۔ کھل کر طلاق کے اظہار کے بعد عورت کے انتظار کا زمانہ سب سے کم ہے، اسلئے کہ عورت دوسری جگہ شادی کرسکے، ناراضگی کی صورت میں انتظار کی مدت زیادہ ہے تاکہ مصالحت کیلئے زیادہ وقت ملے اور وفات کی صورت میں شوہر کا طلاق میں کوئی کردار نہیں ہوتا اسلئے اس میں انتظار کی مدت زیادہ ہے۔
عدت شوہرکے حق کی انتہاء ہے ،عورت انتظار کی پابند ہے اور اسکے بعد عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ عورت اگر اپنے حق سے دستبردار ہوکر عدتِ وفات کے بعد بھی دوسری شادی نہ کرنا چاہے تو ساری زندگی وفات اور روز محشر وجنت تک یہ نکاح کا تعلق قائم رہتا ہے۔ یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وابنیہ ’’ اس قیامت کے دن انسان بھاگے گا اپنے بھائی سے، اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے‘‘۔ جنت میں بھی وہ اور انکی بیویاں ساتھ ہونگے۔فقہاء نے یہ غلط مسلک بنا یا کہ وفات ہوتو شوہر بیوی کی طلاق ہوجاتی ہے، ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے،مہاجر،سندھی، بلوچ ، پنجابی اور پختون عوام میں اس پر عمل بھی ہوتا ہے ۔ان علماء سے یہ پوچھا کہ جب تمہارے باپ کی وفات کے بعد تمہاری ماں کو طلاق ہوگئی تو پندرہ بیس سال بعد تمہاری ماں فوت ہوگئی پھراسکی قبر پر زوجہ مفتی اعظم کا کتبہ کیوں لگایا؟۔
جس طرح وفات کی عدت کے بعد عورت اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تووہ آزاد ہے اور اپنے حق سے دست بردار ہوکر اپنے شوہر کے نام پر بیٹھی رہنا چاہے تو اس کا حق ہے، پاکستانی حکومت کے علاوہ دنیا بھر کے عام قوانین بھی یہی ہیں، فقہاء نے عورت کے حق کی بجائے طلاق کی انوکھی منطق کی ایجاد کررکھی ہے کہ حمل کی صورت میں آدھے سے زیادہ بچہ پیدا ہوا تو رجوع نہیں ہوسکتااور کم پیداہوا ہے تو رجوع ہوسکتا ۔اللہ جانے گونگے شیطان کب گرفت میں آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو تسکین کو پہنچانے کیلئے عدت کا تصور رکھا ہے اور باہمی رضامندی سے بار بار رجوع کی وضاحت فرمائی ، عدت کے بعد بھی یہ تصور غلط ہے کہ طلاق واقع ہوگی اور عدت سے پہلے تو ہے ہی غلط۔ البتہ عدت کے بعد عورت چاہے تو دوسری شادی کرلے اور چاہے تو باہمی رضامندی سے ازدواجی تعلق کو بحال کردے۔اللہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ عدت کو تکمیل کے بعد بھی عورت کو اسکے شوہر سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ اپنی نسبت قائم رکھے تو وہ بیوی ہے۔ عتیق گیلانی

تین طلاق کا تعلق صرف طہرو حیض کی عدت سے ہے

المطقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثہ قروء ۔۔۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاو لھن مثل الذی علیھن بالمعروف ولرجال علیھن درجۃ ۔۔۔O الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیتموھن شءًا الا ان یخافا الایقیما حدوداللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ۔۔۔Oفان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔۔۔Oواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ۔۔۔ Oواذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ۔۔۔ ذلک ازکیٰ لکم ۔۔۔
سورۂ بقرہ کی ان آیات کا ترجمہ کسی بھی مسلک وفرقہ کے عالمِ دین کا دیکھ لیں،
علماء ومفتیان نے ان آیات کی تمام معروف باتوں کو بھی منکر میں بدل دیا ہے۔
(ا): طلاق میں عدت کے 3ادوار کا تعلق طہروحیض سے ہے اور 3 مرتبہ طلاق کا تعلق بھی اسی صورتحال کیساتھ ہے۔ حمل کی صورت میں عدت بچے کی پیدائش ہے، اس میں عدت کے تین ادوار اور تین مرتبہ طلاق کا کوئی تصور بھی نہیں۔
نبیﷺ نے ابن عمرؓ کایہ واضح قرانی صورتحال نہ سمجھنے پر غضبناک ہو کرسمجھایا کہ ’’ طہر میں روکے رکھو یہانتک کہ حیض آئے، پھر طہر میں روکے رکھو یہانتک کہ حیض آئے۔ پھر طہر میں چاہو تو روکے رکھو اور چاہو تو ہاتھ لگانے سے پہلے چھوڑدو، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق کا امر فرمایا ہے۔ (بخاری)۔ یہی صورتحال سورۂ البقرہ ، سورۂ طلاق اور دیگر قرآنی آیات میں وضاحت کیساتھ موجود ہے۔جیض نہ آتا ہو،یا اس میں ارتیاب ہو تو تین ماہ کی عدت ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تو کوئی عدت کا حق نہیں جس کی گنتی کرائی جائے۔
جب عبداللہ بن عمرؓ نے مغالطہ کھایا تو بعد میں آنے والے بزرگانِ دین کی غلط فہمی بڑی بات نہ تھی لیکن اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی اس وضاحت کومدِ نظر رکھاجاتا تو علماء ومفتیان، غلام احمد پرویز، جاویداحمد غامدی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی مغالطہ نہ کھاتے۔ 3طلاق کو ملکیت قرار دیکر مضحکہ خیز صورتحال کو مختلف سمت میں اتنا پھیلایا گیا ہے کہ ایک انتہائی درجہ کا کم عقل انسان بھی پیٹ پکڑ کر ہنسنے پر مجبور ہوگا، اس کی نسبت بڑے بڑوں کی طرف کی گئی ہے مگر قرآن وسنت سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے؟ اور جب نبیﷺ سے من گھڑت احادیث منسوب تو دوسروں پر کیاکچھ نہ ہوگا؟۔
گنتی طلاق نہیں بلکہ عدت ہی کی ہوتی ہے، حیض کی صورت میں طہر کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق خود بخود ہوجاتی ہے،آخری مرتبہ سے پہلے دو مرتبہ طلاق کی خبر مرضی پر منحصر نہیں کہ ایک طلاق دی تو باقی دوطلاق کی ملکیت عدت کے بعد تک رہے یہاں تک کہ عورت کی دوسری جگہ شادی اور پھر وہاں سے طلاق ہو تویہ بحث کی جائے کہ پہلاشوہر نئے سرے سے 3طلاق کا مالک ہوگایا پہلے سے موجود2 کا؟۔
(ب): رجوع کاتعلق صلح وباہمی رضامندی کیساتھ ہے لیکن عدت کے اندر شوہر ہی صلح کی شرط پر رجوع کرسکتا ہے اور عدت کے بعد عورت دوسری جگہ شادی کا حق رکھتی ہے اور باہمی رضامندی سے دونوں ازدواجی تعلق کو بحال کرسکتے ہیں جس میں اللہ نے رکاوٹ ڈالنے سے روکا ہے۔ قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔سورہ بقرہ آیت226,228,229,231,232اور سورۂ طلاق آیت1,2۔
اللہ تعالیٰ نے ازدواجی تعلق کے بعد نکاح کومیثاقِ غلیظ قرار دیا ہے، جس کا معنیٰ مضبوط معاہدہ ہے، فقہاء نے قرآن کی ضدمیں من گھڑت اصطلاح طلاقِ مغلظ کے منکر کو معروف کے مقابلہ میں کھڑا کردیا۔ معروف تو یہ تھا کہ جس نکاح میں ازدواجی تعلق قائم کیا گیا ہو ، وہ میثاق غلیظ( مضبوط معاہدہ) ہے جس کو توڑنے کیلئے عدت درکار ہے جوصلح و رجوع کا لازمی پریڈ ہے مگر اسکے مقابلہ میں طلاق مغلظ کا منکر وجود میں لایا گیا جس میں منہ سے کوئی لفظ پھسلنے سے نکاح کا مضبوط تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس میں انواع واقسام کے صریح اور کنایہ الفاظ ہیں جن پر اختلافات بھی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ اللہ نے کسی صریح و کنایہ لفظ کی بجائے طلاق کو عدت وعمل قرار دیا،رجوع کا تعلق الفاظ کی بجائے باہمی رضامندی، صلح اور عدت سے جوڑ دیا ہے۔
(ج): اللہ تعالیٰ نے بار بار جس طرح کے عمل کی وضاحت فرمائی ہے اور فقہاء نے اسکے باوجود اس عمل کو معروف سے منکر میں بدل ڈالا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ بار بار قرآن میں معروف طریقہ سے رجوع کا حکم دیا گیا ہے۔ مدارس کا ہی قصور نہیں بلکہ جدید مذہبی تعلیمات والے زیادہ بڑے گدھے ہوتے ہیں، رجوع کا معروف طریقہ تو عام آدمی سمجھتا ہے کہ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا، پھر صلح کرلی گئی۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادکے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ نے ’’تین طلاق‘‘ پر مصنف حبیب الرحمن کی ایک کتاب شائع کی ہے۔ جس میں رجوع کے حوالہ سے لکھا ہے ’’ حنفی مسلک میں رجوع کیلئے نیت شرط نہیں ، اگر عدت کے دوران شہوت کی نظر غلطی سے بھی پڑگئی تو رجوع ثابت ہوگا، شوہر رجوع نہ کرنا چاہے اور نظر پڑی تو مسئلہ گھمبیر ہوجائیگا، ایسی صورت میں شوہر دستک دے تو نظر پڑنے پر شوہر ذمہ دار نہ ہوگا۔ اور شافعی مسلک یہ ہے کہ مباشرت بھی کرلی جائے تو رجوع نہ ہوگا جب تک نیت رجوع کی نہ ہو‘‘۔ تین طلاق: حبیب الرحمن ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی۔
معروف کو منکر میں بدلنے کیلئے ہمارے فقہاء نے (سکہ رائج الوقت ہے) یہود کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، جدید تعلیم والوں کی وجہ گمراہی کے قلعے مدارس کسی رعایت کے قابل نہیں، اصل گمراہی تو انہی کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہے۔ معتبر کتابوں میں لکھا ہے کہ ’’ رجوع اس وقت بھی ثابت ہوگا ، جب نیند میں ایک دوسرے کو شہوت سے چھو لیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہوت عورت کی معتبر ہوگی یا مرد کی ؟، جواب یہ ہے کہ دونوں کی معتبر ہوگی‘‘۔ کیا یہ قرآن اور معاشرہ میں موجود معروف کے مقابلہ میں منکر رجوع نہیں ہے؟۔ یقیناًہے اور فقہاء نے الف سے ی تک معروف کو منکر بنایا۔
(د): سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ فلاتحل لہ من بعدحتی تنکح زوجا غیرہ ’’پھر اگر طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہانتک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔ اس کا کیا مطلب ہے؟۔
جواب یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں کوئی رسمِ بد ہوتی ہے تو اس کو ملحوظِ خاطر رکھ کر حل تجویز کیاجاتا ہے، شوہر بیوی کو طلاق دینے کے بعد بھی اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا، بخاری میں انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ کے حوالہ سے بھی وضاحت ہے، نبیﷺ کی ازواج مطہراتؓ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ آپ کی وفات کے بعد نکاح نہ کرو، اس آپﷺ کی اذیت ہوتی ہے، آج بھی یہ رسم قبائل میں موجود ہے کہ طلاق کے بعد بھی اپنی مرضی سے شادی میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، لیڈی ڈیانا کو بھی طلاق کے باوجود اپنی مرضی سے دودی الفہد سے شادی کو برداشت کرنے کی بجائے ماردیا گیا، شہبازشریف اور غلام مصطفی کھر کو تہمینہ درانی سے شادی کرنے پر نذیر ناجی اوراطہر عباس نے نشانہ بنایا تھا۔ریحام خان طلاق پر دوبارہ پاکستان آمد میں جان کا خطرہ محسوس کرنے کا برملا اظہار کررہی تھی۔
میاں بیوی میں سے ایک نیکوکار اور دوسرا بدکار ہو تو بدکاروں کی بدکاروں سے یا مشرکوں سے نکاح اور مؤمنوں پر حرام قرار دینے کی بات کی گئی ہے جو ’’حلال نہیں‘‘ سے زیادہ سخت لفظ ہے تاہم اس آیت سے پہلے جو صورتحال ذکر کی گئی ہے اس کو بھی نظر اندازکرنا معروف کے مقابلہ میں منکر کو وجود بخشنا ہے جس کی تفصیل دیکھ لو۔ عتیق گیلانی

حلالہ کے حوالہ سے غلط فتویٰ اور ایسی طلاق کی وضاحت

الطلاق مرتٰن بامساک بمعروف اوتسریح باحسان ولایحل لکم ان تأخذوا مما اٰتیموھن شےءًاالا ان یخافاان لایقیما حدوداللہ ،فان خفتم الا یقیما حدوداللہ فلا جناح علیھافیما افتدت بہ ،تلک حدوداللہ فلا تعتدوھا ومن یتعدحدوداللہ فأولئک ھم الظٰلمونOفان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ۔۔۔ ’’طلاق دو مرتبہ ہے، پھر معروف طریقہ سے رجوع ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے، اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم ان سے لو جو کچھ بھی ان کو تم نے دیا ہے مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس میں جو عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کی حدود ہیں،ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوزکرتا ہے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں، پس اگر اس نے پھر طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرلے‘‘۔
ان آیات میں واضح طور پر دو مرتبہ طلاق کے بعد ایک صورت معروف طریقہ سے رجوع کرنے کی ہے، اگر معروف رجوع کی بجائے فقہاء کے منکر رجوع کا پتہ عوام کو چل جائے تو علماء ومفتیان کے علم وعقل پر تعجب کااظہار کرینگے اور دوسری صورت احسان کیساتھ رخصت کرنے کی ہے، احسان کیساتھ رخصت یہ ہے کہ طلاق کے بعد ان کو انکے حق سے زیادہ دیا جائے۔ اگر اس طرح سے تیسری طلاق کے بعد بھی انکو رخصت کیا جائے اور عدت کی تکمیل پر دو عادل گواہ بھی مقرر کئے جائیں تب بھی اللہ نے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے جس کی تفصیل سورۂ طلاق میں موجود ہے۔ پڑھے لکھے لوگ ہی نہیں علماء ومفتیان بھی ان پر غور کرلیں۔
علاوہ ازیں ایک مزید خاص قسم کی طلاق جسکے بعد حلال نہ ہونے کو واضح کیا گیا ہے جس کا مقدمہ بھی اللہ تعالیٰ نے وضاحت کیساتھ بیان فرمادیا ہے وہ کیا ہے؟۔ رخصت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا کہ’’ تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی انکو دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ دونوں کو خوف ہو کہ اس چیز کو واپس کئے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے‘‘۔ ذرا غور کیجئے کہ علیحدگی کا فیصلہ اس انداز سے ہورہا ہے کہ دونوں باہوش وحواس سمجھ رہے ہیں کہ دونوں کے درمیان رابطے کی کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے کہ ایک دوسرے کے راز سے آشنا کے ملنے کی کوئی صورت نکلے تو اللہ کی حدود پامال ہونے کا خدشہ ہو۔ ویسے تو دی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز واپس لینا حلال نہیں مگر دوسرے بڑے حرام میں پڑنے سے بچنے کیلئے اس چیز کا واپس کرنا مجبوری کی حالت میں حلال بن جائے۔
بسا اوقات میاں بیوی ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے پر جذباتی یا سنجیدہ طور سے پہنچ جاتے ہیں۔ دونوں اپنی راہ الگ کرلیتے ہیں تو بھی ان کا یہ فیصلہ ایسا وقعت نہیں رکھتا ، اسلئے اللہ نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ فیصلہ کرنے والوں کو بھی حصہ دار بنایا تاکہ میاں بیوی کا جذباتی یا باہوش و حواس فیصلہ اس ملعون عمل کا ذریعہ نہ بن سکے، چنانچہ اللہ نے مزید حدود قیود کی وضاحت کرتے ہوئے فیصلہ کرنے والوں کو بھی علیحدگی کے اس عمل میں برابر شریک ہونے کی شرط لگادی فرمایا’’ اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر گناہ نہیں کہ( دی ہوئی چیزوں) میں سے کوئی چیز عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے‘‘۔
یہ تو اپنی جگہ پر بہت بڑی حیرت کی بات ہے کہ حلالہ کے حوالہ سے اللہ نے جو حدود مقرر کئے ہیں ان کو کس طرح سے پامال کیا جارہا ہے۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جس قرآن سے دلیل نقل کی جاتی ہے اسکے سیاق وسباق کو بھی عوام کے سامنے لایا جاتا۔ ان حد بندیوں کا ذکر ہوتاجن سے حلال نہ ہونے اور دوسری جگہ نکاح کو ضروری قرار دیا جاتا۔ قرآن کودرست طریقہ سے پیش کیا جائے تو لوگ قرآن اور انسانیت کی عظمت کا اعتراف کرینگے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن اور وفاق المدارس کی میرے پاس اصول فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ کی سند ہے جو درس نظامی میں شامل ہے، اسمیں حنفی مسلک کے مؤقف کی یہ وضاحت ہے کہ ’’ اس طلاق فان طلقہا فلاتحل لہ میں ’’ف‘‘ تعقیبِ بلامہلت کیلئے آتا ہے، لہٰذا لامحالہ اس کا تعلق دومرتبہ طلاق کے بعد سے براہِ راست نہیں بلکہ عورت کی طرف سے فدیہ دینے کی ہی صورت سے ہے‘‘۔اگر’’نورالانوار‘‘ کا مؤقف غلط ہے تو عام اعلان کیا جائے۔
حنفی مؤقف قرآن کریم کے حوالہ سے بڑا حساس ہے، قرآن کے مقابلہ میں تو واضح احادیث کیخلاف بھی مدارس میں حنفی مؤقف پڑھایا جاتا ہے۔ اصولِ فقہ کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ ہمیں مولانا بدیع الزمانؒ نے پڑھائی تھی اور ’’اصول الشاشی‘‘ بھی انہوں نے پڑھائی تھی۔حنفی مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک میں بھی قرآن کو حدیث پر ترجیح ہے لیکن حنفی مسلک دوسروں کے مقابلہ میں بہت ممتاز ہے۔ مولانا بدیع الزمانؒ ایک عالم دین ، ایک مفسر،ایک محدث ،ایک فقیہ اور ایک ولی کامل بھی تھے۔ انہوں نحو ،ترجمۂ قرآن اور تفسیر بھی پڑھائی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ روزانہ ایک رکوع کاترجمہ وتفسیردیکھ لیا کریں بے سمجھے زیادہ تلاوت سے یہ بہتر رہے گا۔
اصول فقہ شروع کرنے سے پہلے سمجھا جایا تھا کہ قرآن و حدیث میں تضاد ہو تو پہلے انکے درمیان تطبیق کی کوشش کرنی ہوگی اور تطبیق نہ ہوسکے تو قرآن پر عمل کیا جائیگا اور حدیث کو ترک کردیا جائیگا۔ پھر جب اصول الشاشی کا پہلا سبق شروع ہوا، جس میں قرآن کی آیت حتی تنکح زوجاً غیرہ کے مقابلہ میں من نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحہا باطل باطل باطل کا درس دیا گیا ہے کہ قرآن کی آیت میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت کی گئی ہے کہ یہاں تک کہ وہ نکاح کرے۔ جس سے عورت کا خود مختار ہونا ثابت ہوتا ہے لیکن حدیث میں اس کی نفی کی گئی ہے کہ جس نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے،ان دونوں میں سے کوئی ایک مؤقف ہی درست ہوسکتا ہے، حدیث کی تطبیق نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا حدیث کو ترک کردیا جائیگا اور قرآن پر عمل ہوگا۔ (اصول الشاشی)
میں نے اسی وقت زمانہ طالب علمی میں عرض کیا تھا کہ قرآن کی آیت سے اس حدیث کی تطبیق ہوسکتی ہے ۔ آیت میں طلاق شدہ عورت مراد ہے جسکے احکام بھی کنورای سے مختلف ہوتے ہیں، حدیث سے کنواری مراد لی جائے کیونکہ شادی کے بعد عورت کا سرپرست اس کا شوہر ہوتاہے اور طلاق شدہ یا بیوہ ہونے کے بعد وہ خود مختار ہوجاتی ہے۔ استاذؒ کے پاس کوئی معقول جواب نہ تھا ۔بات آئندہ پر رہ گئی تھی۔
مفتی نعیم صاحب بھی میرے استاذ ہیں ، معید پیرزادہ دنیا ٹی وی میں پروگرام کا آخر دیکھ سکا جس میں مفتی صاحب نے ایک معروف وکیل خاتون کاحوالہ دیاکہ اس نے کہا کہ ’’ یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کے دوران لڑکا لڑکی خود ہی پسند کا رشتہ کرلیں تو والدین کی ذمہ داری بھی ختم ہوجاتی ہے، وہ معاشرہ قائم کیا جارہا ہے جو خالص مغربی تہذیب والا ہے، اگر اسلامی اور مغربی تہذیب دونوں سے آشنا لوگوں کو بلواکر قانون سازی کی جائے تو بہتر ہوگا‘‘۔ اگر مفتی صاحب حنفی مؤقف کو حدیث پر ترجیح دینے کی تعلیم دیتے ہیں تو خاتون وکیل رہنما اور مدرسہ کی تعلیم میں ویسے بھی ہم آہنگی ہے۔حالانکہ قرآن و سنت میں جس طرح کا متوازن معاشرہ کرنے کی وضاحت تھی اس معروف کو منکر بنانے میں سب بڑا کردار علماء ومفتیان کا عمل وکردار ہی نہیں بلکہ جہالت، گمراہی،انا پرستی، کفرسازی کا وہ تعلیمی نصاب ہے جو یہ بیچارے سمجھتے نہیں۔ عتیق گیلانی

بہشتی زیور اور بہار شریعت میں طلاق کے مسئلہ پر روگردانی

جن علماء ومفتیان کے نصاب تعلیم درسِ نظامی میں اللہ کی کتاب کا حلیہ بگاڑ کر رکھا گیا، وہ سود، طلاق اور دوسرے معاملات کی درست تشریح وتعبیر کرنے کی کوئی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔ علماء ومفتیان کی شکل میں جو جاہل طبقہ اللہ والوں کا گزرا ہے ان کو میں عالم ومفتی کی حیثیت سے نہیں مانتا، البتہ صالحین سمجھ کر ان لوگوں سے ضرور محبت کرتا ہوں۔ان سے بغض وعناد رکھ کر اذیت دوں تو اللہ کیساتھ اعلانِ جنگ ہوگا
احب الصالحین ولست منہم لعل اللہ یرزقنی صلاحا
میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں مگر ان میں سے نہیں ، ہوسکتا ہے کہ اللہ میری اصلاح فرمادے۔ حاجی محمد عثمانؒ سے حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ اور مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے شیخ الہند مولانا محمودالحسنؒ تک اولیاء اللہ کا جوسلسلہ فقہ کے امام حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ اور دیگر اماموں اور تابعین میں مدینہ کے سات فقہاء اور صحابہ کرامؓ حضرت فاروق اعظمؓ اور صدیق اکبرؓکے توسل سے جو سلسلہ رسول ﷺ سے ملتا ہے، میں حق چار یارخلفاء راشدینؓکو حفظ مراتب کیساتھ ،چاروں فقہی امام کو برحق سمجھتے ہوئے خود کو انکے فیضان سے استفادے کا محتاج سمجھتا ہوں۔
تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی والے دیوبندی بریلوی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مخلص ہونے کے باوجود علم سمجھ کر جہالتوں کے دلدل میں پھنسے رہتے ہیں، حضرت مولانا الیاسؒ نے خلوص کیساتھ تبلیغ کا کام شروع کرکے اخلاص کا ایک شجرہ طیبہ لگایا اور آج اس بیج کے پھل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایاتھا کہ ’’دین خیرخواہی کا نام ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’ایمان اخلاص ہے‘‘۔ متقدمین علماء چاروں امام کے نزدیک قرآن سکھانے اور عبادت پرمعاوضہ جائز نہ تھا، متأخرین نے جائز قرار دیا مگر ہردور میں تاریخ کے وہ درخشندہ ستارے رہے ہیں جنہوں نے معاوضہ وصول کرنے کی بجائے بہت تکالیف اور مصیبتیں برداشت کرکے دین کی تبلیغ کی تھی اور ان میں چاروں فقہی امام، محدثین ، ائمہ اہلبیت، امام غزالی، مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ اور بہت بڑی تعداد میں غیرمعروف اجنبی ہستیاں بھی شامل ہیں۔
جہاں فتویٰ فروشان اسلام اور مذہب کو دھندہ بنانے والوں کی کمی نہ تھی وہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے ٹمٹماتے ہوئے شمعوں کو دلوں کی کڑہن سے سینہ بہ سینہ منتقل کرنے والا سلسلہ حق ہردور میں موجود رہا ہے، یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ صحابیؓ کا ذاتی کردار کیا رہا ہے مگر جن آنکھوں نے نبیﷺ کی زیارت کی تھی، ان کی عقیدت واحترام کیلئے صاحبِ ایمان ہونا کافی ہے، اگر ذوالخویصرہ جیسے کسی گستاخ سے عقیدت ومحبت نہیں ہوسکتی تو جن کی نظر میں کسی کا کردار ذوالخویصرہ کی طرح یا اس سے بھی بدتر ہو، ان پر عقیدت و احترام کو لازم قرار دینا کوئی فرض نہیں۔
حضرت عمرؓ کی طرف علماء ومفتیان نے یہ منسوب کیا ہے کہ پہلے کوئی بیوی سے تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہتاتو اگر اس کی نیت ایک طلاق کی ہوتی تو اس کی بات قبول کرلی جاتی اور اس کو بیوی سے رجوع کی اجازت مل جاتی مگر پھر حضرت عمرؓ کے دور میں لوگ خائن ہوگئے، تین طلاق کی نیت ہوتی تب بھی کہتے کہ ایک طلاق کی نیت تھی، اسلئے حضرت عمرؓ نے اپنے دور کے دوسال بعد حکم جاری کردیا کہ ’’جو ایک مجلس میں طلاق طلاق طلاق کہے گا، اس کو رجوع کی اجازت نہ ہوگی‘‘۔ اگر واقعی یہی معاملہ تھا ۔اس پر صحابہ کرامؓ، چاروں امام بالخصوص حضرت امام ابوحنیفہؒ اور تمام دیوبندی بریلوی اکابر کا اجماع ہوچکا ہے تو بسم اللہ مجھے بھی کسی اختلافِ رائے اور تنازعہ کھڑا کرنے کا شوق نہیں ہے اور نہ ایسی حیثیت کہ لوگ میری مان لیں۔
لیکن اگر اس سے دیوبندی مکتبۂ فکر کی مشہور کتاب مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ’’بہشتی زیور‘‘ اور بریلوی مکتبۂ فکر کی مشہور کتاب’’بہار شریعت‘‘ کو اتفاق نہ ہو تو پھر مجھے حضرت عمرؓ اور اسلاف کو بدظنی سے بچانے میں کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں ؟۔ یہ مسئلہ ان دونوں مشہور کتابوں میں ہے کہ ’’ اگر شوہر نے طلاق طلاق طلاق کہہ دیا تو بیوی کو تین طلاقیں ہوجائیں گی لیکن اگر نیت ایک طلاق کی ہوگی تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی، شوہر کو رجوع کا حق ہے مگر بیوی پھر بھی سمجھے کہ تین طلاق ہوچکی ہیں‘‘۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس بات پر حضرت عمرؓ نے فیصلہ کردیا، اجماع کا تصور بھی قائم ہوگیا، پھر اللہ کے ولیوں کو انحراف کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟، کیا چاروں امامؒ اور سلف صالحینؒ یہ تصور بھی کرسکتے تھے کہ شوہر کو طلاق سے رجوع و نکاح کے برقرار رکھنے کا فتویٰ دیا جائے اور بیوی کو تین طلاق کا فتویٰ دیا جائے؟۔
اس قدر حماقت و بیوقوفی تو گاؤں دیہاتوں میں رہنے والے ان پڑھ چرواہے بھی نہ کریں گے۔ 1000سال پہلے ابوالعلاء معریٰ ایک عربی عالم گزرے ہیں کہتے ہیں کہ’’ لوگوں کی دوقسمیں ہیں ایک وہ جن کے پاس عقل ہے مگر انکا کوئی دین نہیں،دوسرے وہ جنکا دین ہے مگر انکے پاس کوئی عقل نہیں‘‘۔ جب اسلامی علوم پر زوال اور انحطاط کا دور آیا تو مولانا ابوالکلام آزادؒ کے بقول ’’ اس دور کی تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا گیا، جو عقلمند لوگوں کو بھی کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام میں طلاق کے ہر پہلو کو قرآن میں واضح کردیااور پھر نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث سے اس کی وضاحت بھی فرمادی جسکے بعد عقل کیلئے کوئی بھٹکنے کی گنجائش نہ تھی مگر نہ جانے کہاں کہاں غیرفطری طور سے کم عقلی اور بیوقوفی کے گھوڑے نہیں ڈھینچو ڈھینچوکی انتہائی خراب آوازیں نکال کرگدھے دوڑائے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’’ جتے دی کھوتی اتے ان کھلوتی‘‘ جہاں کی گدھی تھی اس جگہ آکر کھڑی ہوگئی۔ امت مسلمہ کو جن جہالت کے اندھیروں سے اسلام نے نکالا تھا، قریب کے دور میں اسلام کو پھر اجنبی بنادیا گیا اور امت اسی اندھیر نگری کا شکار ہوئی۔
حضرت عمرؓ نے ایک ایسے دور میں جب خواتین پر غلامی کی زنجیریں دوبارہ کسنا شروع کردی گئیں، قرآن و سنت کی روح کے عین مطابق عورت کے حق میں فیصلہ کر دیا تھا۔ مشہور مقولہ ہے کہ میاں بیوی راضی تو کیا کریگا قاضی۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہو تو قرآن و سنت میں اس کا حل موجود ہے۔ شوہر نے کہہ دیا کہ تجھے تین طلاق یایہ کہ تجھے طلاق طلاق طلاق، پھر بیوی ساتھ میں رہنے کیلئے راضی نہیں تو شریعت میں کیا تصور ہے اور عقل وفطرت کا کیا تقاضہ ہے کہ کیا فیصلہ ہونا چاہیے؟۔ حضرت عمرؓ کا فیصلہ 100،200نہیں بلکہ 300فیصد درست تھا، اسلئے کہ محض طلاق دینے کے بعد بھی عورت راضی نہ ہو تو شوہر کو قرآن نے رجوع کا کوئی حق نہیں دیا ہے۔
وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا ’’اورانکے شوہروں ہی کو اس عدت میں لوٹانے کا حق ہے بشرط یہ کہ صلح کا پروگرام ہو‘‘۔یہ بڑا المیہ ہے کہ عدت میں صلح کی شرط پر شوہر کو رجوع کا حقدار قرار دیاگیا لیکن علماء و مفتیان اور فقہاء و محدثین نے صلح کی شرط بھوسہ سمجھ کر کھالی،صلح کے بغیر بھی رجوع کا حق دیا۔ حضرت عمرؓ کی عظمت کو دنیا سلام کرتی ہے، شیعہ بھی انشاء اللہ ضرورکریں گے۔حضرت عمرؓ کا یہ اقدام قرآن کی روح کے مطابق عورت کے حق کا تحفظ تھا۔
حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ کا اس بات سے اتفاق نہ تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد صلح پر بھی پابندی لگائی جائے، مگر عورت راضی نہ ہوتی تھی تو انہوں نے بھی یہی فیصلہ اور فتویٰ دیا کہ ’’شوہر ایک ساتھ تین طلاق دینے کے بعد عورت کو نہیں لوٹا سکتا، اسلئے کہ حکومت عورت کیساتھ کھڑی تھی‘‘۔ یہ کسی مجبوری کا فتویٰ نہیں تھا بلکہ قرآن وسنت کی روح کے مطابق تھا، اسلئے کہ عدت میں صلح نہ ہوسکے تو عورت پھر دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے، ائمہ مجتہدینؒ اور امام ابوحنیفہؒ نے بھی اسی وجہ سے طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دیا مگر یہ تو وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا کہ میاں بیوی کے راضی ہونے کے باجود بھی عدت میں رجوع کی اجازت نہ ہو گی اور حلالہ پر مجبور کیاجائیگا۔

دارلعلوم کراچی کے علماء ومفتیان اور عثمانی برادری کی قابلیت

عوام سمجھتے ہونگے کہ شاہی خاندانوں کی طرح علم کی مسند پر بیٹھنے والے مشہورو معرف علمی خانوادے بھی علم وسمجھ کے بہت بڑے پہاڑ تھے۔انکو معلوم نہیں کہ جب نبی کریم ﷺ نے اپنی وراثت خاندان واہلبیت ، درہم ودینار اور بادشاہت وگدی نشین کی روایت کو قرار دینے کی بجائے ’’علم‘‘ کوہی اپنی وراثت اور انبیاء کرام کی وراثت قرار دیا۔لوگوں کو کیا معلوم ہے کہ خاندانی بادشاہت سے زیادہ اپنا بدترین دھندہ اور کاروباربناکر اسلامی علوم کا بیڑہ غرق کردیا گیا۔ علم کاروبار اور وراثت نہیں بلکہ اس کے ذریعہ سے انسانی معاشرہ اپنا فرض پورا کرتا ہے، فرض کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے۔ قرآن وسنت اور فقہ وفتویٰ کمرشل ہوا تو دنیا کی ہر چیز کمرشل کردی گئی۔ یہ سیاستدانوں اور این جی اوز کا کمرشل ہونا بھی غلط ہے مگر جس قوم نے دین ومذہب کو کمرشل کردیا ہو ، اسکے اندر اخلاقی قدریں کہاں سے پنپ سکیں گی؟، منبر ومحراب کے بعد جہاد اور خود کش حملے بھی کمرشل کردئیے گئے۔
میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ شیعہ واہلحدیث بھی راہوں سے ہٹے ہوئے ہیں لیکن دیوبندی بریلوی جس مسلکِ حنفی اور حضرت عمر فاروقؓ کے حوالہ سے تین طلاق کے دعویدار ہیں، یہ لوگ نہ صرف قرآن وسنت سے اس معاملہ میں ہٹ گئے ہیں بلکہ حضرت عمرؓ، اجماعِ امت اور حضرت امام ا بوحنیفہؒ کے علاوہ مسلک سے بھی دھیرے دھیرے ہٹ کر گمراہی کے آخری کنارے پر پہنچ گئے ہیں، میں خود بھی پہلے اس کا شکار تھا اور اب دوسروں کو بھی سمجھانے کی صلاحیت قرآن و سنت اور فقہ و فہم کی برکت سے رکھتا ہوں، اہل تشیع اور اہل حدیث ہمارے پیچھے چلیں گے انشاء اللہ۔
مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی نے ’’ زبردستی کی طلاق‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’ ہر عاقل بالغ شوہر کی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، خواہ وہ غلام ہو یا اس پر زبردستی کی جائے،اس کی طلاق صحیح ہے۔ نہ کہ اس کا صرف اقرار طلاق، اور بحر الرائق میں ہے کہ زبردستی سے مراد زبان سے طلاق کی ادائیگی ہے، اگر اس پر مجبور کیا جائے کہ اپنی عورت کو طلاق لکھے اور اس نے لکھ دی تو طلاق نہ ہوگی(ردالمختار، کتاب طلاق)
ایک شخص کو پٹائی اور قید کے ذریعہ طلاق لکھنے پر مجبور کیا گیا، اس نے طلاق لکھ دی تو اس کی عورت پر طلاق نہ ہوگی۔(عالمگیری ، باب الطلاق باب الکتابت)۔
طلاق میں بنیادی چیز مرد کا اپنے اختیار کا مختارانہ استعمال ہے۔اگر کوئی شخص ریوالورکی نوک پرطلاق دلواتا ہے تو مرد اپنی جان بچانے کیلئے بڑے نقصان کے مقابلہ میں چھوٹے نقصان ۔۔۔طلاق۔۔۔کو اختیار کرتا ہے، ا سکی اگرچہ مرضی شامل نہیں ہے مگر اختیار شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت میں صرف تحریر جو اقرار طلاق ہے ، اس سے طلاق واقع نہ ہوگی۔
اسلامی قانون (نکاح ، طلاق، وراثت ،صفحہ:210,211) مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی۔ ناشردارالاشاعت کراچی ۔ملنے کے پتے، دارالاشاعت اردو بازار کراچی، مکتبہ دارالعلوم کورنگی کراچی۔ ادارہ معارف کورنگی ، ادارہ اسلامیات انار کلی لا ہور۔ کتاب کاتعارف، مصنف کا علمی مقام، خاندانی پسِ منظر اور اساتذہ و سرپرتوں کی فہرست علمی خدمات ، عوام وخواص میں شہرت درج ہے۔سوال یہ ہے کہ تحریری طلاق کو زبردستی کی صورت میں اقرار قرار دینا اور اس کا غیرمؤثر ہونا اس وجہ سے درست ہے کہ فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ عالمگیریہ کا حوالہ دیا گیا ہے؟۔
اللہ نے معاہدے کو معتبر قرار دینے کیلئے فلیکتب لکھنے کا حکم دیا ہے مگر یہ گدھے کی اولاداپنے درسِ نظامی میں بیوقوفی کایہ درس دیتے ہیں کہ لکھی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن، اللہ کی کتاب نہیں۔ المکتوب فی المصاحف سے مراد سات قاریوں کے قرآن ہیں، کیونکہ لکھائی محض نقوش ہیں جو لفظ ہے نہ معنیٰ۔ عربی میں کتاب کا لفظ لکھائی سے مأخوذ ہے ، اردو میں کتابت کا لفظ بھی عربی سے لیاگیا ہے۔ جیسے اردو میں لکھائی کی وجہ سے کتاب کا نام’’ لکھت‘‘ ہوتا اور کوئی بیوقوف اور گدھے کا بچہ کہتا کہ لکھت کتاب نہیں کیونکہ لکھائی لفظ ہے نہ معنیٰ۔ یہ علماء و مفتیان کا کہنا ہے کہ اللہ کی کتاب پر ہاتھ رکھ قسم کھائی جائے تو قسم نہیں ہوتی البتہ زباں سے کہا جائے کہ’’ اللہ کی کتاب کی قسم‘‘ تو قسم منعقد ہوگی اور کفارہ بھی ادا کرنا پڑیگا۔
قرآن میں کتاب کی تعریف ہے الذین یکتبوں الکتاب بایدیھم ثم یقولوں ھذا من عنداللہ’’ جو لوگ اپنے ہاتھوں سے کتاب کو لکھ دیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے‘‘۔ اللہ نے پہلی وحی میں علم بالقلم قلم کے ذریعہ علم سکھانے کی بات ہے۔ اللہ نے قلم اور سطروں لکھے کی قسم کھائی ہے والقلم ومایسطرون ۔جاہل مشرک بھی کتاب کو سمجھتے تھے،اکتتبھا بکرۃ واصیلا کہتے تھے،یہ علماء ومفتیان اُلوکے پٹھے دنیا بھر کے چندے کھاکھاکر قرآن ہی کا نہیں انسانی عقل وفطرت کا انکار کرتے ہوئے انتہائی ہٹ دھرمی وڈھٹائی کیساتھ اس کفریہ تعلیم اور بیوقوفی پر قائم ہیں۔ مولانا فضیل الرحمن ہلال عثمانی نے زبردستی کی طلاق میں تحریر کو اقرارلکھ کر مغالطہ کھایا ہے، نقش قرار دیکر الفاظ ومعانی کی نفی کرتا تو زبردستی کیا رضامندی میں بھی معتبر نہ ہوتی، اسلئے کہ جب قرآن کے الفاظ یہ گدھے لفظ ومعنیٰ نہیں مانتے تو پھر کونسی تحریر کی کوئی شرعی حیثیت ہوسکتی ہے؟۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی فقہ کی کتابوں میں سب سے معتبر نام ’ہدایہ‘ کے مصنف کی طرف سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے اس شرط پر جائز قرار دینے کا حوالہ دیا تھا کہ یقین ہوکہ علاج ہوجائیگا۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے اس پر اضافہ کیا کہ حرام سے علاج میںیقین کی شرط کے حوالہ سے احقر(گدھے سے زیادہ بدترحقیر) نے امام ابویوسفؒ کی کتابوں کامطالعہ کیا مگر’’ مجھے کہیں یہ یقین کی شرط نہیں ملی‘‘۔
ہماری طرف سے اخبار ضربِ حق کراچی میں اس پر بھرپور احتجاج کے بعد مفتی محمدتقی عثمانی نے روزنامہ اسلام اور ہفت روزہ ضرب مؤمن میں اعلانیہ طورسے اپنی کتابوں’’ تکملہ فتح الملہم‘‘ اور ’’ فقہی مقالات جلد چہارم‘‘ سے یہ عبارت شکریہ سے نکالنے کا اعلان کردیا مگر پھر فتاویٰ شامیہ سے یہ عبارت کون نکالے گا؟۔ اور اصل بات یہ ہے کہ صاحبِ ھدایہ نے سورۂ فاتحہ کو ناک سے نکلنے والی نکسیرخون اور پیشاب سے علاج کیلئے یقین کی شرط پر جائز کیسے قرار دیا؟۔ صاحب ہدایہ مفتی تقی عثمانی کی طرح نالائق نہ تھاکہ لگام سے چلتا اور ڈنڈے سے راہ بدلتا، وہ فقہ واصولِ فقہ کو سمجھتا تھا، جب قرآن پر تحریری شکل میں اللہ کے کلام کا اطلاق نہ ہوتو سورۂ فاتحہ بھی تحریری شکل میں لفظ ہوگی نہ معنیٰ ۔ پھر علاج میں یقین کی شرط پر اسکے نزدیک لکھنے میں حرج نہ تھا۔ دم تعویذ والے ہندؤ کی اولاد بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ مندروں میں بت پرستی کے علاج کے یقین اور انگریزی ادویات کے یقین کا کوئی جوڑ آپس میں نہیں مگر شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے تعویذ کے یقین اور دواکے یقین کے درمیان اتنابڑا فرق بھی نہ سمجھا،امام ابویوسفؒ نے حرام سے علاج کیلئے دواؤں میں ظاہر ہے کہ یقین کی شرط کا ذکر نہ کیا تھا،تعویذات کی دنیا تو یقین و گمان کے تخمینے پر ہی چلتی ہے۔ جس مفتی تقی عثمانی کی موٹی عقل اتنا کام نہ کرتی ہو، وہ اس قابل ہے کہ سودی نظام کو اس کے ڈھینچو ڈھینچو پر جائز قرار دیا جائے؟۔
آج حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت کے پاس اقتدار ہوتا تو ان علماء ومفتیان کے چوتڑوں کو لوہے کے سریہ گرم کرکے داغا جاتا کہ خبردار اگر تمہیں اسلام کا نام استعمال کرنے کی جرأت ہو ئی۔ بقول علامہ اقبالؒ کے کہ
انہوں کے نام قبروں کی تجارت کرکے کیا نہ بیچوگے صنم مل جائیں گر پتھرکے
یہ تو ہندؤں سے بھی بدتر ہیں۔ انقلابی طالبان کو حقائق کا پتہ چلتا تومجھے مارنے کی بجائے ناجائز حلالہ پر عزتیں لوٹنے والوں کو عدالتیں لگاکر الٹا ذبح کردیتے۔

پانامہ لیکس چھوڑئیے اسحاق ڈار کے ذریعہ ملک کو تباہ کیا گیا…

پاکستان اسلام کی بنیاد پر بناہے، اسلام پاکستان کا مستقبل ہے، پاکستان اسلام کی بنیاد پر ہی ترقی کرسکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ اعداد کے مطابق 2009,2010ء میں اندرونی قرضے کا سود576.77ارب روپیہ تھا، جو صرف 5سال بعد 2015,2016میں یہ سود دگنے سے بڑھ کر.676. 1168رب روپیہ ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی 63سالہ تاریخ میں مجموعی طور سے جتنے قرضہ پر جو سود دیا جارہا تھا ، صرف پانچ سالہ دور میں اس سے وہ قرض کتنا بڑھ گیا ہے جس میں اسکے دگنا سے بھی زیادہ سود دیا جارہا ہے۔ یہ وہ سود ہے جو اندرونِ ملک قرضہ پردیا جارہا ہے، بیرونی قرضہ اور اس پر سود اسکے علاوہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اندورنِ ملک سے اتنا بڑا قرضہ کیسے لیا ہے؟، اس کا اثر قوم، ملک، سلطنت زندہ بادپائندہ باد پر کیا پڑیگا؟۔ اگر عوام کو یہ بات سمجھ میں آگئی تو قومی ترانہ میں زندہ باد پائندہ باد کی بجائے قوم ملک سلطنت کامرثیہ گاگا کروزیراعظم کو مارآستین سمجھ کر کہیں گے کہ’’ گزندہ باد،شرمندہ باد‘‘۔ پرویزمشرف نے مفت میں حبیب بینک کو بیچا تھاتو بھی ہمارے اخبار کی شہ سرخی تھی، پھر اسٹیل مل کو بیچا جارہا تھا، تب بھی ہم نے شہ سرخی لگائی تھی، اسوقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سب سے بڑی نیکی اور کارنامہ یہی تھا کہ پرویزمشرف کو سپریم کورٹ نے روک دیا تھا۔ جس پی آئی اے کو نوازشریف کھڑا کرنے کی بات کررہے تھے اس کو پرائیویٹ کردیا گیا، بندے بھی مارے گئے اور پی آئی اے بھی نہ بچ سکی۔
ایک انتہائی اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں نوازشریف کا نہیں، انکے بچوں کا نام تھا، وزیراعظم نے کہا تھا کہ ’’ میرا بچوں سے کیا تعلق ہے؟، وہ بالغ اور خود جوابدہ ہیں، جو چور ہوتا ہے ، وہ اپنا نام کھل کر ظاہرنہیں کرتا‘‘۔ پھر ایک ڈرامہ رچایا گیا کہ وزیراعظم کا نام بھی ہے، نہیں ہے، پانامہ نے معافی مانگ لی، نہیں مانگی، اپوزیشن اور حکومت کی مداری پارٹی قیادت نے جھاگ کی طرح شور اٹھایا، پھر یہ ختم ہوجائیگا، سرکاری پیسہ جو عوام کی ٹیکس سے بنتا ہے، وزیراعظم کے بچوں کی صفائی کیلئے خرچ کیا گیا۔ تحریک انصاف اس پر آواز اُٹھاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ تم غریبوں کی زکوٰۃ ، خیرات، صدقات کے پیسوں سے کاروبار کرتے ہو، اپنی ماں شوکت خانم کی بجائے ہسپتال غریبوں کے نام پررکھتے، عمران خان نے شوکت خانم میں دو دفعہ علاج کیا تو بھی غلط تھا، اربوں روپے کے مالک پر تو زکوٰۃ نہیں ہوتی اور زکوٰۃ کی رقم کاروبار میں کیسے استعمال کی؟۔ بنی گالا بھی بیوی نے آف شور کمپنی سے خرید کردیا تھا تو عوام حکومت اور اپوزیشن کے ایکدوسرے پرالزامات میں خود کوبھول جاتی ہے۔
پہلے امیروں کو انکم ٹیکس دینا پڑتا تھا، جس کی کم آمدنی ہوتی تھی، وہ قانونی طور پر ٹیکس سے آزاد ہوتا تھا،پھر پرویزمشرف کے دور میں سیل ٹیکس کا آغاز کردیا گیا، جو امیر غریب سب کیلئے برابر ہے کیونکہ ضروریات کی چیزیں سب کو خریدنی پڑتی ہیں، پرویزمشرف نے پروگرام بنایا تھا کہ 15%سے اس کو5%پر لائیں گے مگر اب تو مختلف اشیاء پر بہت زیادہ بڑھادیا گیا ہے، پیٹرول پر45%ہے، پرویزمشرف کی نسبت3گنا بڑھا کر نوازشریف تقریر میں کہتا ہے کہ ’’مہنگائی کی کمر توڑ دی ہے‘‘ تو ڈھورڈنگر عوام تالیاں بجاتے ہیں،سیاسی مشیروں، وزراء اور ممبران اسمبلی میں اپوزیشن والے بھی حقائق سے بے خبر رہتے ہیں۔ پانامہ لیکس سے بڑی خبریں ملک ہی میں دیگر ہیں مگر سیاستدانوں کو خبر نہیں تو عوام بیچاروں کا کیا قصور ہوسکتا ہے؟۔
عوام کو پتہ چلتا کہ پی آئی اے اور سٹیل مل وغیرہ کی طرح ائرپورٹ اور سڑک بیچے جارہے ہیں تو حکمرانوں کو عوامی جلسوں میں جانے کی جرأت بھی نہ ہوتی۔ہمارا بے شعور معاشرہ شاہی سیاسی خانوادوں اور شخصیات کے رحم وکرم پر ہی آسرے میں بیٹھ کر خوابِ خرگوش کے مزے اڑا رہا ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر اسلامی بینکاری کے نام سے کراچی ائرپورٹ کو 300ارب میں گروی رکھ چکا ہے، حکومت اور اسلامی بینکوں کے درمیان M-2لاہور تااسلام آبادموٹروے اور کراچی ائرپورٹ میں سے ایک کو گروی رکھ اس رقم کو سودی قرضہ کی مد میں لینے پر بحث کی گئی، اسلامی بینکوں کے ڈائریکٹروں نے کراچی ائرپورٹ لینے پر اتفاق کیا۔ جب حکومت بھاری بھرکم سود کی ادائیگی سے عاجز آجائیگی تو شور شرابے کی نوبت بھی نہ ہوگی اور کراچی ائرپورٹ اسلام کے نام پرسودی کاروبار کرنے والوں کے خود بخود حوالہ ہوجائیگا۔ پھر وہ اسکو مہنگے داموں ٹکڑوں میں بیچ بیچ کر سود خوری کا پیسہ پورا کریں گے۔ چیف آف آرمی جنرل راحیل شریف کورکمانڈزکانفرنس بلاکر تمام معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں ورنہ پھر سیاستدان حکمران کہیں گے کہ دفاع کیلئے ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑاتھا،جب ملک ہی نہ رہیگا تو دفاع کس چیز کا کریں گے؟۔
جس طرح نوازشریف اپنے بچوں کی بیرون ملک دولت سے لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے، اسی طرح سے عوام اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی بے خبر ہوگی اور پورا ملک ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔ شریف خاندان بڑا ’’وار داتیہ‘‘ ہے، دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگانے والے چھپے رستم نکلے۔ اگر رینجرز اور فوج نے امتیازی سلوک یا اپنا الو سیدھا کرکے کرپشن کے خلاف ڈرامہ ہی کرنا ہے، ڈاکٹر عاصم حسین کو اندرونِ خانہ جیب کترے کی طرح لوٹ کر نظام کی ناکامی کو بنیاد قرار دینا ہے تو سوبسم اللہ۔ وقت کیساتھ ساتھ عوامی شعور بڑھے گا، پھر مخلص افسر اور سپاہی بھی قابو میں نہ رہیں گے اور باشعور طبقہ اٹھے گا اور حکمرانوں، سیاستدانوں کے علاوہ کرپٹ ریاستی عناصرکو بھی کوئی بچا نہ سکے گا۔ سپاہی جان ان کیلئے دیتے ہیں جن کے پاس اعلیٰ اخلاقی، اسلامی یا وطن پرستی کے جذبات ہوں ، بے حسی میں کوئی بھی اچھا جذبہ پنپ نہیں سکتا ہے۔
معصوم، فرشتہ اور بے گناہ تو کوئی بھی نہ ہوگامگر وزیراعظم کے شریف خاندان کو جس شرافت کیساتھ کرپشن اور چوری سینہ زوری کی سوجھی ہے، لگتا یہ ہے کہ ان سے تو قوم کو چھٹکارا مل ہی جائیگا مگر فوج میں اپنی عوام کیساتھ سیاست تو دور کی بات ہے، اچھے طریقہ سے جنگ کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی، کیونکہ ان کی تربیت دشمن سے نمٹنا ہوتا ہے اپنوں سے نہیں۔کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں بڑی قربانیوں کے باوجود وہ نتائج نہ مل سکے جس کی توقع تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود جیسے لوگ بولتے نہیں بھونکتے ہیں، نوازشریف پر 36کروڑ روپے کی گھڑی کے خریدنے کا الزام لگایاگیا، جبکہ اس کی قیمت36لاکھ ہے۔دنیا کی وکالت کا موجودہ نظام بے گناہی بھی ثابت کردیگا کہ ایک صفر بڑھانا کوئی اضافہ نہیں اور سیاستدان بجا طور سے کہہ سکتا ہے کہ صفر صفر ہوتا ہے چاہے آگے سے اضافہ ہو یا پیچھے سے۔
ایک دوسرے پر الزام تراشی، کرپشن، بداخلاقی اور بد تہذیبی کا سفر جاری رکھنے کی بجائے حقائق کی طرف آنا ہوگا۔ نوازشریف نے پاکستان کو کیا دیا؟ مگر پاکستان نے نوازشریف کو بہت کچھ دیا ۔ سیاست کی قیمت اپنے خاندان اور دوستوں کو بنانا ہو تو پیپلزپارٹی کے بھٹو خاندان نے جو قربانیاں دی ہیں ، اسکے مقابلہ میں نوازشریف کو خالی چٹکی نوچی گئی ہے۔ عمران خان نیازی شاید اتنا بھی نہ برداشت کرسکے بلکہ جنرل نیازی کی طرح اپنا ہتھیار بڑے اہتمام کیساتھ دشمن کے آگے ڈال دے، آدھا ملک گنوانے کے علاوہ فوج کو بھی تاریخی بے عزتی سے دو چار کردے۔ عزت کردار سے آتی ہے، اسلام کردار کا دین ہے اور کردار ہی سے دنیا میں عزت ملتی ہے۔ سیاستدانوں کو اپنے کردار سے اپنی قوم اور اداروں کو عزت دلانی ہوگی۔ دنیا اور ہمارے اردگرد ماحول کے تیور بدل رہے ہیں، کردار نہ ہو تو خود کا خود بھی ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ ہمارے پاس وقت کم رہ گیا ہے ، پاکستان کا استحکام اچھے کردار کیساتھ اتحاد واتفاق اور یگانگت کا متقاضی ہے، ہمارا حال قابلِ رحم ہے۔

پاکستان نے اپنی عزت خود کرانی ہوگی مگر کیسے؟

ڈرائیور لوگ گدھے کو تھانیدار کہتے ہیں اسلئے کہ گدھا دوسرے جانوروں کی طرح سڑک چھوڑ کر راستہ نہیں دیتا بلکہ سر جھکا کر ، کان لٹکاکر ، دُم ہلاکر راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات کے متعلق یہودی علماء کے رویہ کو گدھے سے تعبیر کیا جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کردی،نبیﷺ نے فرمایا :یہ امت یہود اور نصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلے گی، یہود نے حکومتی امور میں توراۃ کے احکام بدل ڈالے اور نصاریٰ نے اپنی کتاب میں تصوف کے احکام بدل ڈالے۔احبار و رہبان حلال و حرام کا جو فیصلہ کرتے تھے اس کو ان کی عوام مان لیتی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے احبار ورہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا تھا۔
آج ہماری قوم بت پرستی کے کئی شعبہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جس بت پرپیسہ زیادہ لگے وہ بڑا بن جاتا ہے،سول اور فوجی بیوروکریسی میں اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں مگر انکا کام مشین کے پُرزوں کی طرح ہوتا ہے، اصل کام سیاستدان کا ہوتاہے جو سماجی معاشرے میں پروان چڑھ کر قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ سیاستدان کا کام عوام کو نظریاتی شعوراور قوم کوبلند معیار دینا ہوتا ہے۔ ہمارا مستقبل بلاول بھٹو زرداری ، مریم نواز کے علاوہ تحریک انصاف کے سلیمان عمران سے وابستہ ہے، اسلئے کہ پارٹی میں نظریہ سے زیادہ شخصیت کی اہمیت ہے ، پہلے پارٹی میں قائد اہم ہوتاہے پھر اسکے فرزند کی اہمیت ہوتی ہے، پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے۔
نبی کریمﷺ کی واحد نرینہ اولاد اللہ نے بچپن میں اُٹھالی، اپنے غلام کواپنا منہ بولا بیٹا بنایا تواللہ نے فرمایاکہ ماکان محمد آباء احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین’’ اور محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر اللہ کے رسول اور انبیاء کے سلسلہ کے آخری مہر،نگینہ یا نبی۔ جسکے بعد وحی اور نبوت کا سلسلہ نہیں‘‘ ۔ اسلام کی تاریخ کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ مقرر ہوئے اور دوسرے حضرت عمرؓ نامزد ہوئے، حضرت عثمانؓ کو چندا فرادکی نامزد شوریٰ نے چن لیا اور حضرت علیؓ بھی ہنگامی حالات میں خلافت کی مسند پر بیٹھے ۔سب کا تعلق الگ الگ خاندانوں اور قبیلوں سے تھا۔ پھر خاندانوں نے مسند پر قبضہ کرنا شروع کیا۔
قائداعظم کی اکلوتی بیٹی تواپنی مرضی سے بھاگ گئی تھی اسلئے نواسوں کو اہمیت نہ مل سکی، اکلوتی بہن فاطمہ جناح کو جنرل ایوب خان نے فوجی مضبوط بیگ گراؤنڈ کی وجہ سے سیاست میں ابھرنے کا موقع نہ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے فوج کی سیاسی کوکھ سے نکل کر سیاست شروع کی تو ڈکٹیٹر شپ کے مزاج سے بھی جان نہ چھوٹ سکی اور آخرکار اسی کی نذر بھی ہوئے۔ میاں شریف مرحوم برادران7بھائی تھے جو اتفاق مل کے مالک تھے، بھٹو نے سارے پاکستان میں سوشلزم کے زیراثر فیکٹریوں اور ملوں کو ضبط کرکے قومی تحویل میں لیا تو اس کی زد میں یہ لوگ بھی آئے۔ نواز شریف نے پہلے اصغر خان اور پھر جنرل ضیاء الحق کیساتھ مل کر سیاست شروع کی تو پیپلزپارٹی سے اقتدار کی رقابت اپنی جگہ مگر سیاست کاروبار میں بدل گئی۔
پاک فوج نے جو سیاسی تحفے قیادت کی شکل میں قوم کو دئیے ہیں، کسی سے محبت اور کسی سے نفرت کی تفریق کے بغیر پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے۔ اگر پاکستانی قوم کا مستقبل قائداعظم کے نواسوں کے ہاتھ میں نہیں تو بھٹو اور پھر نواز شریف یا گولڈسمتھ کے نواسوں کے پاس کیوں جائے؟۔رسول اللہﷺ کے نواسے حضرت حسنؓ نے قوم کو متحد کرکے اقتدار کی قربانی دی ۔ حضرت حسینؓ نے یزیدیت اورموروثیت کے خلاف کربلا میں قربانی دی۔ زرداری، نوازشریف اورعمران خان کا اقتدار کے سوا کیا نظریہ ہوسکتا ہے؟۔ لوٹا کریسی، کرپشن، میڈیا کی سیاسی قدآوری نہ ہو تو گلی محلہ کے لوگ ان لوگوں کے کسی نظریہ سے متأثر نہ ہوں۔ طوطا مینا کی طرح کچھ بولنے کی رٹ لگاتے ہیں جو اپنے دل ودماغ نہیں بلکہ ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں الیکشن کے ذریعہ آزاد امیدواروں کوعوام جتوائیں ، سیاسی پارٹیوں سے پہلے نجأت پائیں ، پھر کوئی عوامی جمہوری سسٹم بن سکتا ہے، امریکہ میں جمہوری سسٹم کے ذریعہ بارک حسین اوبامہ منتخب ہوسکتا ہے مگر ہمارے ہاں معین قریشی سے شوکت عزیز اور ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نوازشریف تک مختلف رنگ روپ، نسل قوم سے تعلق رکھنے والے ملک کے وزیراعظم بننے کے باوجود پاکستان کے لوگوں کو ایسا سیاسی شعور نہ دے سکے جہاں علامہ اقبال ؒ کے افکار کی ذرا بھی جھلک دکھائے، یہ ایک ہنگامہ تھا جو طالبان نے ریاست اورعوام کی بھرپور حمایت سے برپا کردیا تھاجو اسلامی و سیاسی شعور دینے کی بجائے وقت کی بے رحم موجوں کی نذر بھی ہوگیاہے۔
بے تحاشا رقم خرچ کرکے سیاسی ریلیوں اور دھرنوں سے کوئی انقلاب آتا توبڑی بات ہوتی مگر یہ تماشے عوام بہت دیکھ چکے ، فوجی انقلاب سے بھی عوام بدظن ہیں لیکن تمام سیاسی جماعتوں کے کرپٹ عناصر کو بلاامتیاز پکڑا جائے تو عوام خوش ہوں گے۔ جن لوگوں کے دل ودماغ میں عہدوں کی ہوس صرف اسلئے ہو کہ اسکی اوقات بدل جائے تو عوام ان کو بالکل مسترد کرسکتے ہیں، جو لوگ فوج کے سہارے سے خود کو آگے بڑھانے کی امید رکھتے ہوں ان کو بھی بلاامتیاز مسترد کردیا جائے۔ مایوسی کی طرف جانے سے قبل ریاست کو مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ زرداری کے جگری یار ذوالفقار مرزا، الطاف بھائی کے لے پالک مصطفی کمال، نوازشریف کا دوست ذوالفقارکھوسہ اور دوست محمد کھوسہ وغیرہ کیا تبدیلی لائیں گے؟۔
عمران خان گالیاں دیتا تھا کہ بے غیرت لوٹے جماعتیں بدل بدل کر آجاتے ہیں مگر اپنی جماعت کے جگ، گلاس کو ہٹاکر دوسروں کی لیٹرینوں سے لوٹے اٹھاکر سجالئے ہیں۔ دوسروں کو رشتہ داری کے طعنے دینے والے نے اپنی طلاق شدہ بیوی کی لندن میں بھی سیاسی رشتہ داری کا خیال رکھا۔ لوگوں کے ذہن میں ایکدوسرے سے نفرت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ثابت ہوں گے۔ نوجوانوں اور قوم کے جذبات سے کھیلنا کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔قوم کوایسا نظریہ چاہیے جس میں کرپٹ سیاسی سسٹم اور فوج کی پشت پناہی سے آگے آنے کی بجائے لوگوں کو اپنے عمل وکردار سے قوم کی خدمت کا موقع مل جائے۔
اوبامہ انتظامیہ پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینا چاہتی تھی مگر امریکی گانگریس نے پاکستان کی فوجی امداد روک دی جس کی وجہ سے ایف سولہ نہیں خرید سکتے ہیں اور ہماری معیشت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پاس گروی اور دفاع امریکہ پر منحصر ہوتوکشکول توڑنے والے بین الاقوامی شاہی ملنگ پاکستان کو پتہ نہیں کس ترقی کے سفرپر لے گئے ہیں؟۔مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ ’’ افغانستان کی طالبان قیادت پاکستان میں ہے‘‘۔ بھارتی لابی نے امریکی کانگرس کو قائل کیا کہ پاکستان کو فوجی مدد نہ دی جائے، امریکی کانگرس نے اعلان کردیا کہ پاکستان ہمارے ساتھ ڈبل سٹنڈر گیم کھیل رہا ہے، اسلئے دفاعی امداد روک دی۔
پاکستان دنیا کا واحد وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں قدرتی طور پر ضرورت سے زیادہ پانی میسر ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہم خشک سالی میں کربلا کی کیفیت میں ہوتے ہیں اور سیلابوں کے دور میں طوفان نوح کا سامنا کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر دریا کو چھوٹے چھوٹے ڈیموں کی طرح رکھا جائے تو زیر زمین پانی بھی میٹھا ہوگا زرخیز پاکستان کا منظر بھی دیکھنے کو ملے گا کربلا اور طوفان نوح کے عذاب سے بھی بچیں گے ماحولیاتی آلودگی کا بھی یہ قوم زبردست مقابلہ کر سکے گی۔ کراچی سے لاہور پائپ لائن بچھانے کے بجائے ایران سے سوئی تک ہنگامی بنیادوں پر گیس لائی جائے اور انڈیا کو بھی گیس اور پاکستان سے راہداری دی جائے تو اس کی گردن ہمارے ہاتھ میں ہوگی اور کشمیر کو آزاد کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کاش کوئی کچھ تو سمجھے خدا کرے۔