featured Archives - Page 5 of 47 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

ڈی آئی خان میں لڑکی کو ننگا کیا گیا، پنجاب و سندھ میں کیا نہ ہوا؟ اگر پی ٹی ایم ان کیلئے کھڑی ہوتی تو…..


منظور پشتین نے قائداعظم یونیورسٹی میں فیس بک پر کہاکہ ’’وٹس ایپ کھولوں تو بہت پیغامات ہیں کہ خواتین سے زیادتی اور لڑکوں کو بھی نہ چھوڑاگیا‘‘۔ چوتڑ تک بال کس کام کیلئے رکھے؟۔ٹانک سے پختون لیڈی ڈاکٹر رضیہ کو اغواء کیا۔ ماردھاڑ لوٹ مار اور ظلم پر فخرتھا۔ ڈی آئی خان میں لڑکی کو ننگا کیاگیا، پنجاب و سندھ میں کیا نہ ہوا؟، اگرPTMان کیلئے کھڑی ہوتی تو اپنی عزت کا طبلہ بجانے یا اپنی غیرت کا جنازہ نکالنے کی قیمت پرکم ازکم آج چپہ چپہ سے پوری قوم انکے ساتھ کھڑی ہوتی۔

کیسے شوہر کی بیوی ماں اور بھابھی بنوں؟ حلالہ کے نام پر میرا مذاق ہے. شبینہ انڈیا

بھارتی میڈیا پر اس خاتون نے بتایا ہے، ویڈیو دیکھ لی جائے کہ اس کی 2009ء میں شادی ہوئی، 2011ء کو ایک ساتھ تین طلاق دی گئی اور پھر سسر شوہر کے باپ نے حلالہ کیا۔شوہر سے دوبارہ نکاح ہوا، 2017ء میں پھر طلاق ہوئی ۔اب کہتے ہیں کہ بھائی سے حلالہ کرو۔ ایک خاتون کس طرح اپنے شوہر کی کبھی ماں، کبھی بیوی اور کبھی بھابی بن سکتی ہے، حلالہ عورت کیساتھ زیادتی ہے، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ قارئین یہ یاد رکھیں کہ سماء ٹی وی پر بھی سید قطب کے پروگرام میں مولانا جمیل آزاد نے کہاتھا کہ مجبوری میں سسر سے شادی ہوسکتی ہے اور یہ پروگرام رمضان کے افطار سے پہلے ہوا، پھر نشر بھی ہوتا رہا۔ اس بے غیرتی کا دھندہ جاری رہا تو علماء کا حال کیا ہوگا؟۔ ہم نے بار ہاواضح کیامگر علماء ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں ،کتنی بے حسی ہے؟۔

پی ٹی ایم کیلئے کامیابی کا زینہ ایم ٹی ایم ہے

PTM کی بنیاد مظلومیت ہے،یہ MTMہو تو جان آئے۔ چند افراد ہر شہر میں پہنچتے ہیں مگر عوام ساتھ نہیں دیتی ۔ پنجابی تعصب کی بدبو شامل ہو تو انسانیت و اسلام کی مٹھاس نکل جاتی ہے۔ بلوچ تعصب نہیں اسٹیبلشمنٹ کیخلاف قربانی دیتے تو پاکستان پر انکا راج ہوتا۔ غیرتمند قبائل پر جبری زیادتی ہو تی تو کلہاڑی کاوار ہوتا۔ طالبان کی آڑ میں وہ غلطیاں فوج نے کیں کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہے ۔ڈی آئی خان وبنوں جیل کوتوڑا گیاتو فوج سے عوام ہتھیار چھین لیتی کہ ملک وقوم کی حفاظت بے غیرت تم نہیں ہم کرسکتے ہیں۔قصور میں جبری زیادتی کا ریکارڈ میڈیا سامنے لایا مگر ریاست کو کوئی غیرت نہ آئی۔ بے غیرت جرنیل اور سیاستدانوں نے قوم کا بیڑہ غرق کیاہے۔

پی ٹی ایم کے عالم زیب اور مردان کے قیدی

عالم زیب محسوداور مردان میں قید ہونیوالے پروفیسراختر وزیر وغیرہ نے نظریاتی سیاست کو زندہ کردیا ،حقیقی جمہوری سیاست کا زندہ ہونا ملک وقوم کیلئے خوش آئند ہے۔ طالبان اور فوجی آپریشن کے متأثرین کیلئے خونِ جگر سے انسانی حقوق کیلئے کھڑے ہونیوالوں کا بڑا کمال ہے کہ حقیقی دردِ دل رکھتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ہردورِ حکومت کے درباری اور اتحادی سیاستدانوں نے سیاست کو بدنام کردیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو چا ہیے کہ اس قیادت کو قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے بہت بڑی سطح پر اُبھرنے کا موقع دیں۔ فوج اور اس کی کٹھ پتلی سیاسی قیادت ملک وقوم کو کسی مصیبت سے نہیں بچا سکتی ہے۔لسانی تعصبات مظلومیت کیساتھ کھڑے ہوگئے تو پاکستان بخرے ہوگا۔

پیپلزپارٹی ، ن لیگ اورعمران خانی حکومت؟

کوئی اقتدار میں آیا تو استبدادی جبر کی رضاو ایماء پر آیا۔ عمران خان نے پرویز مشرف کے ریفرینڈم سے منہ کی کالک دھونے کیلئے ابھی ندی میں پیرصحیح گیلے نہ کئے کہ نیازی نے ہتھیار ڈالااوراداروں کو مضبوط کرنے کی بانسری بجائی۔سیاسی جدوجہد اداروں کے استبداد سے گلو خلاصی ،حقوق اور عوام کو اختیارات منتقل کرنے کیلئے ہوئی ۔ دوسرے اسلئے تو کرپٹ تھے کہ اسٹیبلیشمنٹ سے گٹھ جوڑ تھا۔ عوام نہیں کرپٹ جرنیلوں اور ججوں نے سیاستدانوں سے مل کرملک وقوم کو لوٹا ۔ نیازی اورہردور میں قبلے کارُخ بدلنے والے نام نہاد لیڈرقوم اور اداروں کا بیڑہ غرق کرنے لئے چت پڑے ہیں۔یہ ایک ساہیوال کا واقعہ ان سے نہیں سنبھل رہا،اگر پختون قوم اٹھی تو نئی تاریخ رقم ہوگی۔

مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دینے کا مطالبہ کرتی ہوں: وزیرستان کی خاتون حیات کی والدہ

(وزیرستان )زبان میں لکنت 12 سالہ حیات کہتاہے کہ میرے بھائی ، والد کو فوجی اٹھاکر لے گئے۔ یہ کہتا ہوں کہ فوجی گھر میں بار بار نہ آئیں۔ والد اور بھائی کو لیکر گئے ، ان کو سزا دیں اگر وہ مجرم ہوں۔ فوجی آتے ہیں، کہتے ہیں کہ چار پائی لاؤ، رضائی لاؤ اور تکیہ لاؤ۔ میں کہتا ہوں کہ وہ گھر پر نہ آئیں۔ وہ پردہ کی آواز بھی نہیں لگاتے اور بار بار آتے ہیں۔ ہم ان سے بہت تنگ ہیں۔ حا مد میرنے پاک فوج کے ترجمان سے پوچھا کہ حیات کے حوالہ سے جوپروپیگنڈہ کیا جاتاہے، حقیقت کیا ہے؟۔ تو عوام حامد میر پر بھی غصہ ہے۔
حیات کی آواز مقبول ہوگئی، پشتو میں اس پر اشعار بنائے گئے، پختونوں کے دلوں میں آگ پیدا کی، فوج سے نفرت کا ہتھیار مل گیا۔ جلسے جلوس اور سوشل میڈیا کے علاوہ نجی محفلوں میں گفتگو ہوتی ہے۔
حیات خان کی والدہ کے پاس سابقہ ایم این اے اور PTMکی حمایت کیوجہ سے ANPسے نکالی گئی بشریٰ گوہر چند خواتین کیساتھ پہنچ گئی اور اس کی آواز کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچادیا۔
حیات خان کی والدہ نے کہا کہ میرا یہ ایک چھوٹا بیٹا ہے، فوجی بندوقیں تان کر میرے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔ ڈر کے مارے میری بہوئیں لرز جاتی ہیں اورگر کر لوٹ پوٹ ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جب تک یہاں سے واپس نہ جائیں گے کہ شریعت نہ آئے، بھلے رات گزار لیں۔ لیکن میں شریعت کو کہاں سے لاؤں؟۔
مجھے سارا وزیرستان بھی دیدیا جائے تو میں نہیں لوں گی، میری چاہت ہے کہ قانون کے مطابق ان کو سزادی جائے۔ میں ان فوجیوں کو چہرے سے پہچانتی ہوں اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتی ہوں کہ ایسا ہوا اور انکو سامنے لائیں اور وہ بھی قسم کھائیں کہ خوف سے میری بہوئیں اسطرح ڈرکے مارے گرگر کر لوٹ پوٹ نہیں ہوئیں۔ بشریٰ گوہر نے چاہا کہ وہ کوئی الزام بھی لگائے مگر وہ خاتون اسی کو دہراتی رہی۔ بشریٰ گوہر نے کہا کہ ہم آپ کیلئے کیا کریں اور کیا پیغام پہنچائیں تو اس نے فوجی دریا خان جس کی بلی آنکھیں اور محمد وغیرہ کا نام لیا کہ ان کو وہ سزا دی جائے جو مسلمان کہیں۔ ملک صاحبان کی موجودگی میں خواتین کو سرعام نکالا گیا، ہاتھ کھڑے کروائے گئے اور کہا کہ میری بیوی نہیں، عورت پسند کرنی ہے۔ بے غیرت ملکوں سے پوچھ سکتے ہو کہ ایسا تھا یا نہیں؟
تبصرہ : پیر عبدالواحد شاہ
حیات خان کی والدہ محترمہ کو فوجی اور ملک بے غیرت لگتے ہیں مگراپنا بیٹا بے غیرت نہیں لگتا؟ ۔ سندھ کا شارُخ جتوئی دوبئی فرار ہوگیا مگر باپ پکڑا گیا تو واپس آگیا اور پھانسی کی کال کوٹھری میں موت کا منتظر ہے۔ شریعت کو غیرت کرنی چاہیے کہ گھر کی چاردیواری پامال ہورہی ہے، والدہ کو سوشل میڈیا پر آنا پڑا تو وہ خود کو حوالے کیوں نہیں کرتا؟۔ ٹانک میں بیٹے کو والدین نے خود گولی مار کر قتل کیا، ماں نے بیٹے کے خون سے منہ دھویا مگر بدمعاشی چلنے نہ دی ۔ زبردستی سے عزت لوٹنے کی سزا قرآن میں قتل نبیﷺنے اس پر سنگسار کرنے کا حکم دیا۔اگر فوجی مجرم ثابت ہوبلکہ کالی بھیڑیں کہیں ملوث ہوں تو عبرتناک سزادی جائے تاکہ پاک فوج پر یہ سیاہ دھبے نہ رہیں۔

کوئی مسلمان ملک مسلمانوں کیلئے اتنی بڑی عظیم نعمت نہیں جتنا پاکستان ہے. مفتی تقی عثمانی

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کا اہم خطاب: 69سال پہلے اللہ نے بظاہر انتہائی نا مساعد حالات میں برصغیر کے مسلمانوں کو ہمالیہ کے دامن میں پھیلا وسیع و عریض سرسبز و شاداب ملک محض اپنے فضل و کرم سے ایسے موقع پر عطا فرمایا جب غیر اسلامی طاقتیں پورا زور خرچ کر رہی تھیں کہ یہ ملک وجود میں نہ آئے اللہ نے غیب سے مسلمانان بر صغیر کی مدد فرمائی اور دنیا کے نقشے پر پہلی بار ایسی ریاست قائم ہوئی جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ ابھی آپ نے دل آویز ترانہ سنا جو 1944میں یعنی پاکستان بننے سے تین سال قبل مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرکے شاعر نے کہا تھا۔ اسکا ہر بند اس جملے پر ختم ہورہا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔بچپن کی وہ فضا یاد ہے جب ہندوستان کی فضاؤں میں نعرے گونجا کرتے تھے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ یہ نعرے کہ لے کے رہیں گے پاکستان، بنکے رہے گا پاکستان۔اللہ نے پھر اپنے فضل سے یہ ملک عطا فرمایا۔یوں تو انسان کے فرائض میں ہے کہ اللہ و رسول کے بعد وطن سے وفادار ہو لیکن جوملک اسلام کے نام پر بنا اس کی وفاداری، محبت اور تعمیر و ترقی کی کوشش اسلام اور دین کا فریضہ بھی ہے ۔
پاکستان وجود میں آیا بلکہ وجود سے پہلے کفر کی طاقتوں نے پروپیگنڈہ مہم شروع کی۔ نعرہ لگا کہ پاکستان اگر بن جائیگا تو یہ ناکام ملک اور ناکام ریاست ہوگی ۔ بھوکا پاکستان اور ننگا پاکستان ۔ آنکھوں سے دیکھا کہ والد ماجد مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کیساتھ ہجرت میں آرہے تھے ، سرحد پرکسٹم چوکی آنے والوں کے سامان میں جو بے سلا کپڑا دیکھتی تو اس کو ضبط کرلیتی تا کہ کپڑا پاکستان نہ جاسکے۔ بھوکا ، ننگا پاکستان کو عملی جامہ پہنایا جارہا تھامگر اللہ کے فضل سے پاکستان بنا، بے وسیلہ ملک تھا ، اسکے پاس پیسے نہ تھے ، اسکے پاس دفتروں میں بیٹھ کر کام کے آلات نہ تھے ، ببول کے کانٹوں سے بال پن کا کام لیا جاتا، کھلی بیرکوں میں دفاتر قائم کئے۔ اللہ نے انعامات سے نوازا، وہ نعرہ کہ ’’بھوکا پاکستان ننگا پاکستان‘‘ دفن ہوگیا،پاکستان بننے کے بعد مستقل پروپیگنڈہ ہے، برائیوں پر مشتمل جملے عوام کی نوک زباں پررہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ ہوگیا ، پاکستان میں فلاں معاملہ ہے، عجیب ہے کہ پاکستان میں رہنے والے اور جو باہر دور ملک میں مقیم ہیں پاکستان کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے کہ گرانی ہے ، بد امنی ہے ، اسلامی نظام نافذ نہ ہوا، لوگوں کی جان مال اور آبرو محفوظ نہیں۔ یہ جملے زبانوں پر رہتے ہیں اور مجلسیں اس سے گرم کی جاتی ہیں لیکن یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ باوجود ان تمام بد عنوانیوں کے جو ہم آج ملک میں دیکھ رہے ہیں ، جو نقصانات ہم نے اٹھائیں، اسکے باجود آج اعتماد سے کہتا ہوں کہ پوری دنیا کے نقشے میں اتنازیادہ مستحکم اور اتنا زیادہ مفید ملک مسلمانوں کیلئے کوئی اور نہیں جتنا پاکستان ہے۔ میں نے دنیا کے بڑے بڑے تمام ممالک کا سفر کیا اور اسلامی ممالک میں کوئی ملک نہیں جہاں جانے کا اتفاق نہ ہو،قریب سے نہ دیکھا ہو، حالات کا جائزہ نہ لیا ہو، سب حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں الحمد للہ پورے اعتماد کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی مسلمان ملک مسلمانوں کیلئے اتنی بڑی عظیم نعمت اور فائدے والا نہیں جتنا پاکستان ہے۔
پاکستان سے باہر الحمد للہ اسلامی ممالک بہت ہیں لیکن یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے کہ اسکے بنیادی دستور میں اللہ کی حاکمیت کو دستور کا سب سے بنیادی پتھر قرار دیا ہے۔ یہ بات تمام مسلمان ممالک کسی میں نہیں ملے گی یہاں تک کہ سعودی عرب میں بھی کیونکہ کوئی دستور نہیں۔ لہٰذا اسکے اندر اس تصریح کیساتھ یہ نہیں کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کو حاصل ہے اور یہاں جو حکومت کوئی ہوگی وہ اللہ کی حاکمیت کے اقرار کے ماتحت ہوگی۔ یہ اعزاز اور کسی ملک کو حاصل نہیں جتنا اللہ نے اس ملک کو عطا فرمایا۔ یہ اعزاز بھی کسی اور کو حاصل نہیں کہ جس میں وضاحت کیساتھ یہ بات طے کی گئی ہو کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کیخلاف نہ بنایا جائیگا۔ موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے ڈھانچے میں بدلا جائیگا، صراحت کیساتھ کسی ملک میں یہ دفعہ موجود نہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دستور میںیہ ہے کہ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ کسی قانون کو قرآن و سنت کیخلاف دیکھے تو وہ عدالت میں اسلامی قانون کا دعویٰ کرے اور عدالت قبول کرے تو عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے اس قانون کو فسخ اورمنسوخ کرکے اسکی جگہ اسلامی قانون کو نافذ کرنے کا حکم جاری کرے۔ حکومت ، عوام اور افسوس ہے کہ دینی حلقوں کی بے حسی کی وجہ سے یہ دفعہ معطل ہے، فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ آج یہ تہیہ کرلیں کہ اس دفعہ کو برسر کار لائیں گے تو الحمد للہ راستہ کھلاہے، لہٰذاجو پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلامی نظام کیلئے بغیر ہتھیار چارہ نہیں بالکل غلط جھوٹا ہے، اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کا الحمد للہ راستہ ہے، شرط یہ ہے کہ بے حسی ختم اورشعور پیدا کریں اوراس دفعہ کو بروئے کار لائیں۔ میں 17سال وفاقی شرعی عدالت، سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بنچ میں کام کرتا رہا اور الحمد للہ ہم نے 200 قوانین عدالت کے ذریعے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا حکم جاری کیا، وہ قوانین بدلے مگر افسوس کہ دینی حلقوں کی طرف سے فائدہ اٹھانے کیلئے درخواست دائر نہ ہوئی۔ ہاتھ جوڑے منتیں کیں کہ آپ خدا کیلئے اس دفعہ سے فائدہ اٹھانے کیلئے درخواستیں دائر کریں مگر افسوس کہ کوئی درخواست ہماری طرف سے دائر نہ ہوئی۔ بے دینوں اور ملحدین کی طرف سے آئیں ۔ اس پر فیصلے دئیے گئے اور 200کے قریب ہم نے بدلے ۔
کہا جاتا ہے کہ گرانی ہے، اگر آپ دوسری دنیا سے مقابلہ کرکے دیکھیں تو پاکستان سستا ترین ملک ہے۔ کسی بھی مسلمان ملک میں تحریر و تقریر کی وہ آزادی نہیں کہ ضمیر کیمطابق جس طرح چاہے اظہار کر سکے، پابندیاں ہیں اور لوگوں کے گلے گھٹے ہوئے ہیں ۔
بھائیو،بزرگو! غلط پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اللہ کاشکر ادا کرو۔ اس شکر کا اہم حصہ یہ ہے کہ مایوسی پھیلانے کے بجائے امید کے چراغ روشن کرو ۔ اور ملک کی تعمیر و ترقی میں ہر شخص جس شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنا کردار ادا کرے۔ اور وہ یہ سمجھے کہ ملک کی خدمت درحقیت اسلام کی خدمت ہے اور اسلام کی خدمت عظیم صدقہ جاریہ ہے اور اس کیلئے زندگی بھر ثواب کا ذریعہ بنے گا۔
والدماجد نے ملک کیلئے نہ صرف جدوجہد بلکہ عظیم قربانیاں دیں۔ دار العلوم کراچی قائم کیا یہ محض رسمی کاروائی نہ تھی کہ جس طرح اور مدرسے قائم ہیں بلکہ اسکے پیچھے عظیم مقصد یہ تھا کہ اس میں ایسے افراد تیار کئے جائیں جو ملت کی رہنمائی کرسکیں او راس میں اللہ کے دین کے علوم بھی پڑھائے جائیں اور ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی تیار کئے جائیں کہ جو علوم عصریہ کے اندر مہارت رکھتے ہوں اور ہر شعبہ زندگی میں ملک کی خدمت کرسکیں، کوشش ہے کہ والد کی آرزو اور تمنا کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
تبصرہ : مدیر منتظم نوشتۂ دیوارنادر شاہ
شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے اپنی تقریر میں جو باتیں کی ہیں،ان کا ترکی بہ ترکی جواب دینا مناسب ہے۔ 1: اگر پاکستان کے مخالف کفر کی طاقتیں تھیں تو مفتی شفیع کے اساتذہ پر کھل کر کفر کا فتویٰ لگائیے۔جو دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے بھارت کی حمایت کررہے تھے۔ 2: پاکستان وجود میں آیا تو ختم نبوت کیلئے نعرہ لگانے پر بھی پابندی لگ گئی تھی جو انگریز دور میں بھی نہیں لگی تھی۔ مفتی اعظم پاکستان اور شیخ الاسلام کے منصبوں پر جو فائز تھے وہ ختم نبوت اور ملک میں آزادی کیلئے تحریک والوں پر کفر کے فتوے لگارہے تھے۔ پاکستان کا اسلامی آئین انہی شخصیات کی وجہ سے اس وقت وجود میں آیا جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا احمد علی لاہوریؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبداللہ درخواستیؒ ، مولانا ہزارویؒ ، مولاناعبیداللہ انورؒ ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ ، شورش کاشمیریؒ ، مولانا ابوالحسنات احمد قادریؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ سب ہی نے قربانیاں دی ہیں مگر آپ کا بزرگ طبقہ اسلام اور آزادی کیلئے قربانی دینے والوں پر فتوے لگارہاتھا۔ علامہ اقبال نے کہا:
ملاکو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
3: کس اسلام کی آپ بات کرتے ہیں؟۔ مفتی محمودؒ اور تمام علماء ومفتیان کا فتویٰ یہ تھاکہ جب بینک میں اصل سرمایہ محفوظ ہے تو زکوٰۃ کی کٹوتی کا تصور سودی رقم سے نہیں ہوسکتا ہے لیکن آپ نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے اپنے باپ کی جگہ مفتی محمودؒ کی بات بھی نہ مانی۔ پھر اپنے استاذ مولانا سلیم اللہ خانؒ سمیت تمام مدارس کو مسترد کرکے معاوضہ لیکر سودی نظام کو اسلامی قرار دینے کی خباثت کی۔ کوئی آپ سے نہیں پوچھ سکتا ہے کہ شادی بیاہ کی رسم میں لفافے پر سود اور اسکے 70گناہوں سے زیادہ کے اندر کم ازکم گناہ اپنی ماں کیساتھ زنا کا فتویٰ جاری کرنے والے نے حیلے سے سود کو کیسے اسلامی قرار دیا ؟۔ اسلئے کہ جب تم نے ذاتی مکانات مدرسہ میں لئے تو اسکے خلاف فتویٰ پر اپنے ہی استاذ مفتی رشید احمد لدھیانوی کی زبردست پٹائی لگوائی تھی۔ حالانکہ وقف مال کی خرید اور فروخت نہیں ہوسکتی اور نہ ایک شخص خرید نے اور بیچنے والا ہوسکتا ہے۔ اگر اپنے استاذ کو نہ بھگاتے تو ڈنڈا بازی کے ماہر مفتی رشید کم از کم رمل کا طریقہ تو سکھادیتا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جو آپ نے رمل کرکے دکھایاہے کہ شاید آپ کو رقص کرنے کا بھوت چڑھ گیاہے۔
4: دارالعلوم کراچی کے اردگرد غریبوں کی بستیوں میں کبھی موٹر سائیکل پر غمی شادیوں میں شرکت کرتے تو تحریک چلانے کے قابل بھی ہوتے اور سنت بھی زندہ ہوجاتی۔ نبیﷺ کی سنت یہ تھی کہ اونٹ، گھوڑے اور گدھے پر بھی سواری فرمالیتے تھے اور غریب صحابہؓ کے ولیمہ اور جنازہ میں شرکت فرماتے۔ جنہوں نے ملک میں آزادی یا اسلام نافذ کرنیکی جدوجہد کی ہے وہ غریب عوام کے غریب خانوں میں دسترخوانوں پر شرکت کرتے تھے اور غرباء کیلئے ان کے دروازے کھلے ہوتے تھے۔
5: شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے اس ملک میں آزادی اور اسلام کو نقصان پہنچایا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے ریفرینڈم میں عوام کو اختیار دیا کہ وہ اعتماد کریں یا نہ کریں لیکن تم نے ووٹ دینے کو زبردستی فرض قرار دیا۔ ملک نے سود کو جائز نہیں قرار دیا اور تم نے قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا درخواستیؒ نے جس زکوٰۃ کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل کہا تھا تو مدارس اور دینی حلقے تمہارے خلاف ہی تحریک چلارہے تھے۔ وہ کیونکر تیری عدالت میں حاضری دیتے؟۔ آپ کے اپنے بھائی کو چاہیے تھا کہ تیرے دربار میں اسلامی دفعات کیلئے حاضر ہوجاتا۔ کسی اور سے گلہ کیوں؟۔
6: جس قیمت پر مدرسہ میں تم نے گھر لیاتھا اور آج اس کی جواصل قیمت ہے ،اگر نیلام کیا جائے تو دارالعلوم کراچی سے حلالہ کیلئے نکلنے والے فتوؤں کی لعنت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ عیاش لوگ ڈبل قیمت پر لے لیں گے۔یہ آپ کی ہٹ دھرمی ہے کہ طلاق کا مسئلہ واضح ہونے کے بعد بھی آپ لوگوں کی عزتوں سے کھلواڑ کو نہیں روکتے۔ عزتوں کی حفاظت کوئی بڑا مسئلہ آپ کیلئے اسلئے نہیں کہ حلالہ نے ضمیر کو خراب کردیاہے، آپ کے دوست شیخ نذیر احمد نے امدادالعلوم فیصل آباد میں طلبہ سے جبری جنسی تشدد کیا اور اس کیساتھ بیٹے لڑے تو آپ نے تصفیہ کردیا تھا۔

اسلام دنیا کو انسانیت کے حقوق سکھانے نازل ہواتھا! اداریہ شمارہ جنوری 2019

ایرانی نژاد امریکی شیعہ خاتون نے عورت کے حقوق پر اسلام کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مسلمانوں کے موجودہ حالات کے پیش نظر اس کا نکتہ نظر سو فیصد درست ہے لیکن چونکہ اسلام اجنبی بن چکا ہے اسلئے اسلام کے بارے میں مغالطہ کھایا ہے۔ اس خاتون نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’اسلام میں عورت کی حیثیت ایک مملوکہ اور لونڈی کی ہے ۔ عورت شوہر سے نکاح کرلیتی ہے تو عورت کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔ ایران میں ایک عورت نے 40 ہزار تمن حق مہرکے عوض نکاح کیا تو اس کے شوہر کو لواطت کی لت پڑی تھی۔ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی تو اس نے خلع کا مطالبہ کیا ۔ شوہر نے خلع سے انکار کیا تو اس نے 50ہزار تمن کی پیشکش کی جس پر شوہر طلاق دینے کیلئے راضی ہوا۔ لونڈی کی حیثیت مملوکہ کی ہوتی ہے اسلئے اس سے نکاح کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ازدواجی تعلق ویسے ہی جائز ہوتا ہے۔ متعہ کے نام پر عورت سے لوگ خواہشات پوری کرتے ہیں مگر اس سے نکاح نہیں کرتے اور بہت گرا ہوا سمجھتے ہیں۔ اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے‘‘۔ ایرانی نژاد امریکی خاتون نے جو لکھا وہ معلومات کے مطابق تھا۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ البتہ اسلام ایسا نہیں ہے۔
جب عورت لونڈی ہوا کرتی تھی تو اسلام نے اس کی ملکیت کا خاتمہ کرکے وہ حیثیت دی جو ایک گروی فرد کی ہوتی ہے۔ جس طرح جانور اور مال و اشیاء کسی کی ملکیت ہوسکتے تھے اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کو بھی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اسلام نے ملکت ایمانکم ’’جسکے مالک تمہارے معاہدے ہیں‘‘ میں بدل دیا تھا۔ اس لفظ کا اطلاق حلیف قبیلہ اور کاروباری شراکت دار پر بھی ہوتا ہے۔ جس کیساتھ باقاعدہ نکاح کے بجائے ایرانی متعہ یا سعودی مسیار کی طرح ایگریمنٹ ہو تو اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسلام نے حق مہر کو نکاح کی سیکورٹی کیلئے ضروری قرار دیا ہے۔ اگر مغرب میں آدھی جائیداد کے بجائے باہمی رضامندی سے حق مہر کا تعین کیا جائے تو بہت سے رشتے نکاح کرتے نظر آئیں گے۔
امریکہ و یورپ اور برطانیہ و آسٹریلیا سمیت تمام نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں ایک لڑکی کے ساتھ بیک وقت کئی افراد کی دوستی قانونی طور پر درست ہے۔ جسکے نتیجے میں مرد اپنی اولاد کے یقینی ہونے پر شک کرتا ہے۔ عمران خان نے جس کی وجہ سے امریکی عدالتوں کا سامنا کیا تھا۔ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے کہ باپ اپنے بچے کا منکر ہو اور عدالت کے ذریعے وہ بچے کو اپنا بچہ کہنے پر مجبور ہو۔ اسلام عورتوں کو کسی ایک سے رشتے کا پابند بنا کر بے راہروی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر خواتین کو لونڈی بنانے کے بجائے یہ اجازت دی کہ جو ایگریمنٹ کرنا چاہے وہ ایگریمنٹ کرسکتا ہے۔ جبری طور پر لونڈی بنانے کے مقابلے میں باہمی رضامندی سے ایگریمنٹ کا طریقہ اسلام کا دنیا پر احسان عظیم ہے۔ اگر اسلامی قوانین کی حقیقت دنیا کے سامنے آگئی تو یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی معاشرتی انقلاب آئے گا۔
اسلام نے عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں بھی آدھا حق مہر فرض کردیا ہے۔ ہاتھ لگانے کے بعد پورے حق مہر کے تعین میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ہے۔ قرآن نے بار بار یہ بھی واضح کردیاہے کہ طلاق کی صورت میں حق مہر کے علاوہ بھی جو کچھ دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے ، چاہے خزانے ہی کیوں نہ دئیے ہوں۔ یہ مسلمانوں کیلئے افسوس اور بے غیرتی کا مقام ہے کہ عورتوں سے بچے جنوانے کے باوجود جب ان کو طلاق دیتے ہیں تو جو حق مہر مقرر ہوتا ہے وہ دینے سے بھی انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خلع کی صورت میں بھی واضح کردیا ہے کہ عورتوں کے زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو۔ اور نہ ان کو جانے سے اسلئے روکو کہ بعض دی ہوئی چیزوں کو واپس لے لو۔ جب خلع کی صورت میں حق مہر اور دی ہوئی چیزیں واپس لینا جائز نہیں تو طلاق میں یہ گنجائش کیسے نکل سکتی ہے کہ اس کے حق مہر پر بھی قبضہ جمالیا جائے؟ ۔
مغرب اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ قانون ہے کہ طلاق مرد دے یا عورت مگر دونوں کے درمیان آدھی آدھی جائیداد تقسیم کی جائیگی۔ یہ غیر فطری اورنا انصافی کا معاملہ ہے۔ جرم ایک کرے اور سزا دونوں کو ملے۔ اسلام میں معاملہ انصاف کے عین مطابق ہے۔ اگر شوہر طلاق کا فیصلہ کرتا ہے تو عورت کو حق مہر اور تمام دی ہوئی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کے علاوہ ہر دی ہوئی چیز دے دی جائے گی لیکن اگر عورت نے خلع کا فیصلہ کیا ہو تو حق مہر اورمنقولہ مال و اشیاء وہ لے جاسکتی ہے لیکن گھر ، زمین اور دکانیں وغیرہ وہ اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ عورت خلع کا فیصلہ بھی خود کرے اور شوہر کو مکان و جائیداد سے بھی بے دخل کردے۔ البتہ اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو پھر وہ اپنے لئے الگ راستہ ناپے گا۔
مسلمان خواتین کی حق تلفی کا رونا آسمان کے فرشتے بھی روتے ہونگے اور نبی ﷺ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد فرمائیں گے و قال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھٰذا القرآن مہجوراً ’’اوررسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قو انفسکم و اھلیکم ناراً ’’اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ‘‘۔ بیوی اور بچے رعایا کی طرح ہی ہوتے ہیں اور ان کی حق تلفی کی گئی تو قیامت کے دن اللہ پوچھے گا۔ مسلمانوں کے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ دوسری قوموں کی طرف سے مظالم کا رونا رو رو کر بد حال ہوچکے ہیں مگر خود جو مظالم کرتے ہیں اسکا ذرا بھی احساس نہیں رکھتے ہیں۔ اسلام دنیا میں انسانیت کے حقوق بحال کرنے کیلئے نازل ہوا ہے۔
مسلمانوں نے اپنے گھر سے ابتداء کرنی ہے اور پھر پوری دنیا کو مظالم سے بچانا ہے۔ عالمی اسلامی خلافت کا قیام اس وقت ممکن ہے کہ جب پوری دنیا کو یہ یقین آجائے کہ مسلمان دنیا کے مسیحا بن کر آرہے ہیں۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ چین کو اپنے لئے روس سے زیادہ خطرہ قرار دے اور ہمارے ہاں کے بہروپیا امریکہ کی خواہشات پر چلنے کا نام لینے کے بجائے یہ کہنا شروع کریں کہ چین ظالم ہے اور اس سے بدلہ لینا ہے تو اس سے بدرجہا ہماری ریاست کے کرتے دھرتے بہتر ہوں گے جو برملا کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے مفاد میں اپنے فیصلے کرنے ہیں۔
اگر دنیا کو یقین ہو کہ مسلمانوں نے سب کی ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بیویوں کو لونڈیاں بنانا ہے تو وہ مسلمانوں کی تذلیل کیلئے طرح طرح کے اقدامات ہی کریں گے۔ اگر مسلمانوں نے اسلام کی درست تصویر پیش کی اور اپنے عمل سے اس آئینے کا عکس دکھایا تو نہ صرف مسلمان معاشرہ خوشیوں کی برسات دیکھے گا بلکہ دنیا بھی ہمارے معاشرتی نظام کیلئے دل و جان سے ترسے گی۔ کوئی خوشامد کام آئیگی اور نہ کوئی آپس کی دشمنی بلکہ حق کی بالادستی واحد نسخہ ہے۔ عتیق گیلانی

سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کیلئے طلاق کے مسئلے کا حل! اداریہ شمارہ جنوری 2019

پاکستان کے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سے اگر اسلام ، حقوق نسواں اور کسی طور پر انسانیت کیلئے کچھ نہیں ہوتا تو وہ ہندوستان دشمنی میں ہی سہی لیکن مسلمانوں پر رحم کرے۔ طلا ق کا مسئلہ ہم اپنی کتابوں ’’ابر رحمت ‘‘ ، ’’تین طلاق کی درست تعبیر‘‘ اور ’’ تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل‘‘ میں پیش کرچکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 228میں طلاق شدہ خواتین کیلئے عدت کے تین مراحل تک انتظار کا حکم فرمایا اور عدت کے دوران باہمی صلح سے رجوع کی بھی وضاحت کردی۔ قرآن میں ایسا تضاد ممکن نہیں کہ اگلی آیت میں ہی دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ کی طلاق سے رجوع کا دروازہ بند کیا جائے۔ یہ حافظہ تو چوہے کا بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 229البقرہ میں مرحلہ وار دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسرے مرحلے میں معروف طریقے سے رجوع یااحسان کے ساتھ رخصت کرنے کی وضاحت فرمائی ہے۔ اگر تیسرے مرحلے میں معروف رجوع کرلیا تو رات گئی بات گئی لیکن اگر تیسرے مرحلے میں احسان کیساتھ چھوڑنا ہوا تو پھر اللہ نے مزید وضاحت کردی ہے کہ اس صورت میں تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لو ، مگر یہ کہ دونوں کا اس بات پر اتفاق ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ اوراگر( اے فیصلہ کرنے والو ! ) تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (البقرہ: آیت 229)
اس آیت میں خلع کا کوئی تصور بھی نہیں ہوسکتا لیکن نصاب اور تفسیر کی کتابوں میں بدقسمتی سے اس سے خلع مراد لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ طلاق کی وہ صورت ہے کہ جب میاں بیوی دونوں اور فیصلہ کرنے والے اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان دونوں میں نہ صرف جدائی ناگزیر ہے بلکہ آئندہ رابطے کا بھی کوئی راستہ نہ چھوڑا جائے۔ اس طلاق کے بعد سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع کرلیا جائے تو ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ مردانہ مزاج کا یہ فطری تقاضہ ہوتا ہے کہ کسی صورت میں بھی طلاق کے بعد وہ اپنی سابقہ بیگم کو کسی دوسرے کیساتھ ازدواجی تعلق میں برداشت نہیں کرسکتا۔ اس معاشرتی برائی کے خاتمے کیلئے اللہ تعالیٰ نے متصل آیت 230البقرہ میں یہ واضح کردیا کہ فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ ’’پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے‘‘۔ اس کا معنیٰ مروجہ حلالہ اور دورِ جاہلیت کی لعنت نہیں بلکہ یہ اس رسم بد کا خاتمہ ہے کہ شوہر خود بسانا بھی نہ چاہے اور دوسرے سے بھی نکاح نہ کرنے دے۔ دوسری صورت اس کی یہ ہے کہ عورت پہلے شوہر سے ازدواجی تعلق پر راضی نہ ہو تو اس کیلئے یہ حکم زبردست نسخہ کیمیا ہے۔ یہ بہت بڑی عجیب سی بات ہے کہ حلالہ کی لعنت کے رسیہ علماء و فقہا نے تمام حدود و قیود کو توڑ کر حلالہ کی رسم بد کو رائج کرنے کیلئے قرآنی آیات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ نہ تو عدت میں آیت کو دیکھا کہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ مرحلہ وار طلاقوں کی آیت کو دیکھا اور نہ ہی یہ دیکھا کہ باہوش و حواس جدائی کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
قرآن میں بنیادی بات باہمی رضامندی سے رجوع کی وضاحت ہے لیکن بدقسمت اُمت مسلمہ نے باہمی رضامندی کی آیت کو ایک گالی بنادیا ہے۔ جسے معاشرے میں ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘کی پھبتی سے متعارف کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ایک ساتھ تین طلاق کو اپنی تہذیب و تمدن کا ایسا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ اس سے رجوع کا کوئی دور دور تک بھی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اُمت قرآن سے دور ہوگئی ہے اور ہندوستان میں پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے علاوہ ٹی وی کے ہر چینل اور پبلک مقامات پر گالیاں ہی گالیاں کھارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کوانسانیت سربلند کرنے کیلئے نازل فرمایا تھا مگر مسلمانوں نے اسلام کی حقیقت کو چھوڑ کر خود کو دنیا میں ذلت سے دوچار کیا۔
شوہر و بیوی میں جدائی کے تین طریقے ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ دونوں کو جدائی مقصود ہو۔ اس کی وضاحت سورہ بقرہ کی آیت 230میں موجود ہے۔ اور دوسرا یہ کہ بیوی جدائی نہ چاہتی ہو اور شوہر نے طلاق دی ہو تو عدت کی تکمیل پر بھی اللہ نے سورہ بقرہ آیت 231میں شوہر کو معروف طریقے سے جدا یا معروف طریقے سے چھوڑنے کی وضاحت کردی ہے۔ اگر بیوی صلح نہ کرنا چاہتی ہو تو شوہر عدت میں بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ بیوی نے ناراض ہوکر طلاق لی ہو لیکن عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد پھر اپنے شوہر سے رجوع کرنا چاہتی ہو تو اللہ نے سورہ بقرہ آیت 232میں رجوع کی وضاحت کی ہے ۔ جب دونوں باہمی رضامندی سے رجوع کرنا چاہتے ہوں ۔
سورہ بقرہ کی اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی دو آیات میں بھی یہی وضاحت فرمائی ہے۔ مسلمانوں نے قرآن کی قدر نہیں کی اور اس کی وجہ سے آج بھارت میں مودی سرکار اور ہندوؤں کے ہاتھوں بھی ذلت سے دوچار ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو چاہیے کہ اس اہم ترین مسئلے پر خود نوٹس لیکر پاکستانیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے گھروں کو ٹوٹنے سے بچائیں ۔ اسلام میں حلالے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عدت میں رجوع ہوسکتا ہے ، مولوی نے دجال سے بدتر ہوکر دونوں آنکھیں بند کرلیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے نبی ﷺ کی حدیث اپنی کتاب ’’علامات قیامت اور نزول مسیح‘‘ میں نقل کی جس میں حکمرانوں اور رہنماؤں کو دجال سے زیادہ بدتر اور خطرناک قرار دیا ہے۔دجال کی جو خاصیات بیان کی گئی ہیں ان میں گھروں کو اس طرح تباہ اور عزتوں کو اس طرح پامال کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی کتاب ’’عصر حاضر حدیث نبوی ﷺ کے آئینہ میں‘‘ جو تفصیلات مساجد کے ائمہ اور مدارس کے مفتیان کے حوالے سے موجود ہیں وہ بڑا لمحہ فکریہ ہیں۔ اگر پاکستان کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے گھر اور عزتوں کو نہیں بچایا تو ان کی کسی شرافت ، دیانت ، امانت اور صداقت کا جھوٹا پروپیگنڈہ کام نہیں آئیگا۔ یہ اپنی ساکھ کھوچکے ہیں اور لوگوں نے ان کی کسی خوشی پر خوش نہیں ہونا ہے اور نہ ان کے کسی غم کا کوئی غم کھانا ہے۔ بدلے ہوئے پاکستان میں آرمی کا کردار اس وقت نمایاں حیثیت سے یاد رکھا جائے گا کہ جب اس اہم مسئلے پر پاکستان کی عوام کو اس مشکل سے نکالیں گے جس مشکل میں مذہبی طبقے نے ڈالا ہے۔ اگر یہ کٹھ پتلی علماء و مفتیان سے بھی خوف کھائیں گے تو ان کی بہادری ملک کو کسی بھی آزمائش میں کام نہیں آئے گی۔ سپریم کورٹ مسلمانوں اور انسانوں کے حقوق کا پاس رکھتی ہے تو قرآن کے واضح احکام کی روشنی میں از خود نوٹس کے ذریعے ایک لارجر بنچ تشکیل دے۔ چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل محترم قبلہ ایاز صاحب بھی اپنے ایمان کو بچانے کیلئے کردار ادا کریں ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی….

حقیقی اسلام کے بغیر مسلمان کبھی ہدایت نہیں پاسکتے! اداریہ شمارہ جنوری 2019

سعودی عرب ، ایران اور افغانستان میں اسلامی قوانین کے نام پر حکومتوں کا سلسلہ رہا ہے۔ مسلمان یورپ و امریکہ اور برطانیہ و آسٹریلیا میں جس قدر انسانی حقوق رکھتا ہے اس کاتصور بھی سعودیہ و ایران اور طالبان کی اسلامی حکومتوں میں نہیں کرسکتا تھا۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاستوں اور حکومتوں میں اسلام کا جو خول نظر آتا ہے وہ اسلام کی حقیقی تصویر کو پیش کرتا ہے یا نہیں ؟ یہ قابل غور ہے۔
دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے پہلا اور آخری علمبردار صرف اور صرف اپنا اسلام ہی تو ہے۔ وہ اسلام جس نے حجاز کے خطے سے نمودار ہوکر دنیا کی دو بڑی سپر طاقتوں قیصرروم اور کسریٰ ایران کی حکومتوں کو شکست فاش دی۔ یہ کارنامہ تو انسانی حقوق کی بحالی کی وجہ سے ہی انجام پایا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا تو روئے زمین پر کسی نے ان سپر طاقتوں کی احیاء کیلئے ذرا نام تک نہیں لیا لیکن جب سقوط بغداد سے بنو عباس کی خلافت کا دھڑن تختہ ہوا تو فاتح ترک قوم نے اسلام قبول کرکے دوبارہ خلافت عثمانیہ قائم کردی۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی خلافت سمٹتے سمٹتے دنیا سے ملیا میٹ ہوگئی اور تاج برطانیہ کے اقتدار نے دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر خطہ زمین پر روس و امریکہ دو سپر طاقت بن کر ابھرے اور مسلم ریاستیں اور حکومتیں آج سرنگوں ہیں ؟، کیا سعودی اور عرب بادشاہتوں میں محنت مزدوری کرنیوالے لوگ اپنے حقوق کو محفوظ سمجھتے ہیں؟۔ کیا مسلمان گھروں کی زینت ، شوہروں کا سکون ، مائیں جن کے قدموں کے نیچے جنت ہے ان کمزور خواتین اور بے بس رعایا کو ہم نے حقوق دے رکھے ہیں؟۔ اللہ کی ذلت اور پھٹکار اسلئے مسلمانوں پر برس رہی ہے کہ وہ خواتین کو انکے حقوق سے محروم کرنے میں دنیا کی سب سے بڑی لعنتی قوم ہے۔ پہلے مشرکین مکہ تھے جن کا قصہ تاریخ کے اوراق تک رہ گیا ہے۔ پھر ہندوستان کی ہندو برادری تھی جو ہمیشہ فاتحین کے قدموں میں روندے گئے اور اب مسلم اُمہ ہے جو دنیا میں آخری حد تک اپنی ذلت و پھٹکار دیکھنے کے باوجود ہوش کے ناخن نہیں لیتی۔ آخر کب تک مسلمان اپنے عروج کی طرف واپس لوٹیں گے؟۔
مسلم سلاطین نے 8 سو برس تک ہندوستان پر حکومت کی مگریتیم بچوں کی ممتا کو زندہ جلانے سے بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جس برصغیر پاک و ہند میں یتیم بچوں کی ماں کو ’’ستی‘‘ کی رسم میں زندہ جلادیا جاتا ہو ، اس میں آزادی کی لہر دوڑانے کیلئے کوئی عظیم سپوت کہاں سے پیدا ہوتا؟۔ جہاں حنفی مسلک نے اپنا ڈیرہ ڈال رکھا تھا اور جب کسی خاتون کا شوہر گم ہوجاتا تو اس کیلئے 80سال تک انتظار کی آگ میں جلتے رہنے کا حکم تھا۔ مولوی طاقتور کے سامنے لیٹ کر بھیگی بلی بن جاتا ہے اور کمزور پر اپنی طاقت خوب جماتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی بیگم جمائما خان نے اسلام قبول کرکے پھر یہودی کلچر اپنالیا مگر کسی مولوی میں اس کے خلاف مرتد اور واجب القتل بننے کے فتوے کی جرأت نہیں ہوئی۔ کسی غریب کی عورت اسلام قبول کرکے مرتد بن جاتی تو اس کا جینا دوبھر کردیا جاتا۔ برطانیہ کا اقتدار تھا تو ایک مسلمان عورت کا شوہر گم ہوگیا تھا، علماء و مفتیان کا فتویٰ تھا کہ وہ حنفی مسلک کے مطابق 80سال تک انتظار کرے گی ۔ اس عور ت نے عیسائیت قبول کرکے اسلام کو چھوڑ دیا ۔ مولوی میں فتویٰ لگانے کی جرأت نہیں تھی تو فتوے کو بدل ڈالا ۔ حنفی مسلک کے بجائے مالکی مسلک پر 4سال تک انتظار کا حکم دیا ۔
فقہی مسالک میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں اختلافات اور تضادات کی بنیادی وجہ قرآن و سنت کے فطری احکامات سے انحراف ہے۔ اسلام نے شوہر کو طلاق کا حق دیا ہے تو پہلے عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ فقہاء نے قرآنی آیت سے مغالطہ کھایا اور بیدہ عقدۃ النکاح ’’جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے‘‘سے مراد یہ لے لیا کہ طلاق کا گرہ صرف شوہر کا حق ہے۔ حالانکہ قرآن نے اس سے زیادہ واضح الفاظ میں نکاح کی نسبت خواتین کی طرف بھی کی ہے و اخذن منکم میثاقاً غلیظاً ’’اور انہوں نے تم سے پکا عہد و پیمان لے لیا ہے‘‘۔ سورہ النساء آیت 19میں پہلے عورت کو شوہر کی جبری ملکیت سے باہر قرار دیکر خلع کا حق دیا گیا ہے اور پھر آیت 20اور 21النساء میں شوہر کو طلاق کا حق دیا گیا ہے۔
شوہر کی گمشدگی کا مسئلہ آیا تو قرآن کی طرف رجوع کرنا تھا۔ عورت کو ایلاء یا ناراضگی پر 4ماہ کا انتظار ہے(سورۂ بقرہ آیت226)اگر پہلے سے طلاق کا عزم تھا تو اللہ کی پکڑبھی ہے جو آیت225 ، 227البقرہ میں واضح ہے، اسلئے کہ عزمِ طلاق کا اظہار کیا تو 4ماہ نہیں3 طہروحیض یا3 ماہ کا انتظار ہے۔جس کی وضاحت آیت 228 البقرہ میں ہے۔ ایک ماہ کا اضافہ اللہ نے جرم قرار دیا تو 80سال اور 4سال کے انتظار کا اجہتاد کونسے باغ کی مولی ہے؟۔جبکہ عدتِ وفات 4ماہ 10دن ہے۔ قرآن نے خاص عمر کے بعد عورت کو کپڑے اتارنے کی اجازت دی کہ جب نکاح کی رغبت نہ ہو۔ پھر زینت کی جگہوں کو چھپانے کا حکم دیا تاکہ کوئی فائدہ اٹھاکر زینت کی نمائش نہ کرتی پھرے۔ ماں کے پیٹ میں نکاح ہو اور شوہر گم ہو تب بھی 80سال بعدعورت نکاح کے قابل نہیں رہتی ہے۔
آج بھارت کی سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے طلاق ثلاثہ اور حلالہ کی بنیاد پر مسلم خواتین کے انسانی حقوق کا معاملہ اٹھایا ہے ۔ تطلیقات ثلاثہ کے موضوع پر 4،5، 6نومبر 1973کو اسلاملک ریسرچ سینٹر احمد آباد کی طرف سے ایک سیمینار مولانا مفتی عتیق الرحمن صدر آل انڈیا مجلس مشاورت کی صدارت میں ہوا، جس میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی ایڈیٹر ماہنامہ برہان دہلی ، مولانا سید احمد عروج قادری ایڈیٹر ماہنامہ زندگی رامپور، مولانا مختار احمد ندوی صدر جمعیت اہل حدیث بمبئی، مولانا سید حامد علی سیکریٹری جماعت اسلامی ہند، مولانا محفوظ الرحمن قاسمی اُستاذ مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ، مولانا شمس پیرزادہ امیر جماعت اسلامی مہاراشٹرنے شرکت کی۔ یہ کتابی شکل میں ’’ایک مجلس کی تین طلاق‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ مولانا سید احمد عروج قادری نے ایک ساتھ تین طلاق منعقد ہونے پر زور دیا اور باقی علماء کرام و مفتیان عظام کی رائے ایک ساتھ تین طلاق منعقد ہونے کے بالکل منافی تھی۔ اس سیمینار کو بہت جرأتمندانہ اقدام قرار دیا گیا۔ اسکے بعد ہندوستان کے معاشرے میں ایک تبدیلی کا آغاز ہوا ، اگر اس وقت دوسرے مدعو علماء و مفتیان بھی شرکت کرنے کی جرأت کرتے اور ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے سے اس مشکل کا حل نکالا جاتا تو آج ہندوستان کے مسلمانوں کو اتنی ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
ہم نے بار بار بہت واضح انداز میں تین طلاق اور حلالہ کے بغیر رجوع کا یہ بہت بڑا اور بنیادی مسئلہ حل کیا ہے اور بڑی تعداد میں علماء کرام ، مفتیان عظام و دانشور حضرات اور عوام الناس کو اچھی طرح سے سمجھ میں آیا ہے لیکن اسکے باوجود بھی بڑے علماء و مفتیان اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے اور مسلمانوں کیساتھ ساتھ اپنے اوپر رحم کھانا چاہیے۔ ہمارا یہ کوئی ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ بہت بڑے رسک پر ہم نے اللہ کے فضل سے مسئلہ اٹھایا۔