اکتوبر 2022 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

شہباز شریف منافقت چھوڑ دو۔ جن اقوام نے ہم پر ظلم کیا تھا تم نے ان کا ساتھ دیا!۔ جنرل مبین افغان

شہباز شریف منافقت چھوڑ دو۔ جن اقوام نے ہم پر ظلم کیا تھا تم نے ان کا ساتھ دیا!۔ جنرل مبین افغان

شہباز شریف نے اقوم متحدہ میں ظالموں کے سامنے ہمیں بدنام کیا لیکن کشمیر کیلئے نہیں بولا؟

جنرل مبین افغان : اگر ہم بھوک سے مریں یا سختیوں سے مریں آپ سے نہیں مانگتے۔ آپ ہمارے ساتھ تعاون نہ کرو۔ تم یہ منافقت نہ کرو کہ سارے معیوب الزامات کے بعد اقوام متحدہ میں یہ بات کرتے ہو کہ افغان طالبان کے اثاثے بحال کردو۔ افغانیوں کے پیسے آزاد کرو۔ ہمیں تمہاری آواز نہیں چاہیے تم رذالت اور منافقت نہ کرو۔ میں پاکستان کے علماء سے کہتا ہوں ، عوام سے کہتا ہوں ، بااختیار طبقہ سے کہتا ہوں کہ تمہاری پالیسی خطے کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔ تمہاری یہ زہریلی زبان پاگل وزیر اعظم کی طرف سے افغانستان کے حق میں خطرناک میسج ہے افغانوں کیلئے۔ یہ تمہارے اور افغانوں کے درمیان جنگ کا اعلان ہے۔ تم نے اقوام متحدہ میں ان ظالموں اورجابروں کے سامنے جنہوں نے ہمیں 20سال تک مارا ۔ ان کو راستہ تم نے دیا ، تیل تم نے دیا اور سہولت کاری تم نے کی۔ پھر ہمیں قربانی کا دنبہ مت بناؤ۔ ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں ظالموں کے حوالے نہ کرو۔ اب ہمارے زخموں پر مزید نمک نہ چھڑکو۔اب ہم میں برداشت نہیں ہے۔ ہم نے 40سال جنگ لڑی ہے۔ اب بھی ہمارے بچے بچے کے زخموں سے خون ٹپک رہا ہے ہمیں اپنا خون چاٹنے کیلئے چھوڑو۔ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اپنے زخموں پر مرہم رکھیں۔ہمیں مزید اپنی اقتصادی بہتری کیلئے استعمال نہ کرو۔ تمہاری یہ منافقت کی سیاست مزید افغانیوں کیلئے برداشت نہیں یہ فیصلہ تم نے کرنا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو یا پھر ہمارے دشمن۔ اگر شہباز شریف میں غیرت ہوتی تو اقوام متحدہ میں کشمیریوں کیلئے آواز اٹھاتا!۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تحریک طالبان پاکستان سیاسی جماعت ہے۔ تمہارا خیال ہے کہ یہ کاروباری ہیں؟۔ صحافی ہارون الرشید

تحریک طالبان پاکستان سیاسی جماعت ہے۔ تمہارا خیال ہے کہ یہ کاروباری ہیں؟۔ صحافی ہارون الرشید

ڈی ایس پی پولیس ، کیپٹن اور میجر کو پکڑلیا تو ان کو جرگہ نے رہائی دلادی!ہارون الرشید

پاک فوج کیخلاف لڑے تو سمندر ،زمین اور پہاڑوں کو انکے خلاف فوج گرم کرسکتی ہے

صحافی ہارون الرشید نے کہا کہ طالبان ایک سیاسی جماعت ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ کاروباری ہیں؟۔ ایک طالب نے کہا کہ اوپر اللہ نیچے پہاڑ ہیں۔ انکے ساتھ مذکرات میں یہ طے ہوا تھا کہ اسلحہ کے بغیر اپنے خاندان سے مل سکتے ہیں لیکن شاید یہ درپردہ اسلحہ سمیت آئے ہیں۔ دیر کیساتھ افغانستان کی سرحد لگتی ہے اور یہ سوات کے پہاڑی علاقہ میں موجود ہیں۔ ایک زخمی ڈی ایس پی دو فوجی افسر کیپٹن اور میجر کوطالبان نے گرفتار کیا تھا جن کو جرگہ کے ذریعے رہائی دلائی گئی۔ مولانا فضل الرحمن کے یہ ہم مسلک ہیں اسلئے متحدہ مجلس کی حکومت نے ان کو کھلے عام اسلحہ کیساتھ گھومنے کی اجازت دی تھی۔ خاتون میزبان اینکر نے پوچھا کہ مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی تھی کہ ہم فوج کے خلاف زمین گرم کردیںگے؟۔ تو اسکے جواب میں کہا کہ یہ گیدڑ بھبکی ہے۔ یہ مدارس کے ذریعے جلوس نکال سکتے ہیں ، مسلح جدوجہدکرنا انکے بس میں۔ فوج چاہے تو زمین،پہاڑ اور سمندر کو گرم کرسکتی ہے۔ پہلے بھی تین ماہ میں علاقہ خالی کرواکر طالبان کو مار بھگایا اور پھر لوگوں کو اپنے علاقوں میں واپس بھیج دیا تھا۔یہ محض الزام ہے کہ عمران اور صوبائی حکومت طالبان سے ملی ہوئی ہے۔ اگر بس چلے تو عمران خان پر یہ الزام بھی لگادیں گے کہ امریکہ ہیروئن سمگلنگ میں ملوث ہے۔ روس نے امریکہ پر الزام لگایا کہ داعش کو جہازوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کیا اور اس میں صداقت بھی ہے کہ داعش کو امریکہ نے سپورٹ کیا۔ افغان طالبان کو بھی داعش سے خطرہ ہے۔ ہارون الرشید کا یہ بیان وسط اگست میں الیکٹرانک میڈیا پر آیا تھا۔ سلیم صافی اور سلیم بخاری اور جنرل مبین کے بیان بھی دئیے ہیں تاکہ اہل علم ودانش کڑی سے کڑی ملاکر نتائج کیلئے تدبیر سوچیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مفتی نور ولی محسود نیشنلسٹ، مجاہد، قبائلی اور سیاسی رہنما، 20 گروپ حامی بنالئے۔

مفتی نور ولی محسود نیشنلسٹ، مجاہد، قبائلی اور سیاسی رہنما، 20گروپ حامی بنالئے۔

TTPکا نیا جنم ………..کیا پختونخواہ پھر دہشستان بن رہا ہے؟

افغان طالبان کنٹرول نہیں کرسکتے یا کرنا نہیں چاہتے؟۔ جرگہ جیو نیوز

سلیم صافی :اگر TTPاور افغان طالبان کا تعلق ہے تو افغان طالبان TTPکو روک نہیں سکتے ؟ ۔ یا روکنا نہیں چاہتے؟۔ یا ان کی کچھ مجبوری ہے؟۔
احسان ٹیپو محسود: آپ نے لکھا بھی ہے اور اپنے شو میں بھی اس پر بات کی ہے کہ دونوں کاآپس میں بہت قریبی تعلق ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہم چاروں اس کو کور کررہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال کہ 15اگست کے بعد TTPکے حملوں میں کمی آئی ہے یا مزید اضافہ ہوا ہے؟۔ اگر دیکھیں تو تحریک طالبان پاکستان کو کس نے منظم کیا ،مُلا داد اللہ اورحقانی نیٹ ورک نے۔ ( بیت اللہ محسود مُلا داد اللہ کیساتھ سیکرٹری کے طور پر کام کرتے تھے۔ نیک محمد کارغہ کیمپ کے انچارج تھے۔ سلیم صافی)۔ امارت اسلامی کی ہدایت سے ان کو وزیرستان بھیجا گیا کہ ہماری فیملیاں آئیں گی۔ نیک محمد کو کہ آپ نے ان کو پناہ دینی ہے۔ 2009ء میں میری ملاقات ہوئی تھی کوٹ کئی میں قاری حسین سے۔ وہاں عرب القاعد ہ کے لوگ تھے ، اُزبک اور پنجاب کے لوگ بھی تھے۔ افغان طالبان کے بھی سینئر لوگ بیٹھے تھے۔ قاری حسین نے دعوت دی کہ یہ میرے فدائین کا کیمپ ہے جو قریب تھا تو آپ آئیں کیونکہ ہم افغانستان کی طرف تشکیل کررہے ہیں۔
سلیم صافی: افغان طالبان کیلئے پہلے 3خود کش حملے آپ کے محسودوں نے کئے ۔ اب افغان طالبان ان کو کنٹرول نہیں کرسکتے یا کرنا نہیں چاہتے ہیں ؟ ۔
احسان ٹیپو محسود: میرے خیال میں جس طرح ہم نے افغان طالبان کو 20 سال تک سپورٹ دی ، حامد کرزئی یا اشرف غنی سے کچھ منوانا تھایا امریکیوں کے ساتھ ہم نے افغان طالبان کو پراکسی کے طور پر استعمال کیا تھا۔ لگتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان اس طرح اپنے مفاد یا مطالبات کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے آج کی جو تحریک طالبان ہے یہ 2007کی بیت اللہ محسود والی، حکیم اللہ والی اور فضل اللہ والی تحریک طالبان سے بالکل الگ ہے۔ اس میں نیشنل ازم بھی ہے ، اس میں سیاست بھی ہے ، اس میں عسکریت بھی اپنی جگہ موجود ہے ، مفتی نور ولی محسود یہ بیک وقت ایک جج بھی ہیں ، یہ عالم بھی ہے ، یہ جنگجو بھی ہے، یہ قبائلی مشر بھی ہے۔ یہ قبائلی سیاست اور خاص طور پر پاک افغان سیاست کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور اس نے گراؤنڈ پر یہ چیزیں ثابت بھی کی ہیں۔کچھ ایسی تنظیمیں جو ماضی میں TTPکا کبھی حصہ نہیں تھیں ان کو بھی شامل کرلیا ہے۔ لشکر جھنگوی کے لوگ پہلے آزادآپریٹ کرتے تھے۔ وہ انہوں نے TTPمیں شامل کرلئے ہیں۔ 19،20کے قریب وہ تنظیمیں جوبیت اللہ محسود نے TTPمیں شامل کرائیں تھیں اس سے بھی زیادہ تنظیمیں اب تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہوگئی ہیں۔
نظام الدین خان سینئر صحافی باجوڑ ایجنسی: میں ایک اضافہ کرنا چاہوں گا کہ تحریک طالبان کے اہداف ابھی بہت مختلف ہیں سیلاب پر بھی ان کا بیان آتا ہے اور کراچی میں بارشوں سے ٹریفک رکنے پر ان کی اسٹیٹمنٹ آتی ہیں۔ اور وہ شاید محسوس کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں سے زیادہ وہ پاکستان کی سیاست کو سمجھتے ہیں۔ وہ پاکستان کے تمام سوشل ایکٹی ویٹیز پر بھی اسٹیٹمنٹ دیتے ہیں۔
احسان ٹیپو محسود: یہ بیانات بھی وہ نظم و ضبط سے دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ فارن آفس کا مخصوص بندہ بیان دے بلکہ 5،6لوگ بیٹھتے ہیں، اسکریننگ کے بعد بیان جاری کرتے ہیں۔ جسکی وجہ سے انکے بیانات میں کافی وزن نظر آتا ہے۔
نظام الدین : اب ان کی ٹارگٹ آڈینس تبدیل ہوکر عام آدمی بن رہا ہے۔
سلیم صافی: طاہر خان صاحب آپ بتائیں کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ افغان طالبان یہ چاہیں گے کہ پاکستان میں کوئی گڑ بڑ ہو تو کیا کسی نے ان سے رجوع نہیں کیا؟ یا کوئی اور وجہ سے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔
طاہر خان: گذشتہ سال اگست میں قندھار میں شوریٰ کا اجلاس ہوا تھا یہ پہلی بڑی مجلس تھی جس میں ایک سفید کاغذ تقسیم ہواتھا اور اس میں سوڈان سے لے کر جو کہ میرے پاس ہے۔ اسکی سمری ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کو اپنے کام سے منع کرے۔ دوسرا یہ کہ دنیا کا پریشر جو بھی ہو ، حکومت جائے آپ نے کسی کا پریشر نہیں لینا ہے۔ وہاں پر یہ بیس بنایا گیا ہے۔ کیونکہ ان سب تنظیموں کو وہاں پر مجاہدین کہتے ہیں۔ (کیا وہ بیس نہیں ہے جو قطر ایگریمنٹ کیا امریکہ سے کہ افغان سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے تو کیا اس میں پاکستان نہیں آتا؟۔ سلیم صافی) ۔لیکن وہ تو نہیں مانتے کہ ہماری زمین استعمال ہورہی ہے۔ اب جو کُرم پر حملہ ہوا پاکستانی فوج کا بیان آیا ہے کہ افغان سرزمین استعمال ہوئی ہے تو وہاں سے بلال کریمی جو نائب ترجمان افغانستان ہیں بیان دیا کہ یہ پاکستانی فوجی وہاں کوئی چیک پوسٹ بنارہے تھے تو ہمارے لوگ گئے ہیں مذاکرات کیلئے تو انہوں نے کلیم کیا ۔ سراج الدین حقانی نے مجھے یہی بات کہی کہ ہماری یہ سوچ تھی کہ 20سال بعد افغانستان میں امن قائم ہوا ہے تو پاکستان میں بھی امن قائم ہونا چاہیے یہ امارت اسلامی افغانستان کی سوچ ہے۔ لیکن یہاں پرایک غلط فہمی ہے کہ ہماری حکومت اور ادارے چاہتے ہیں کہ سب کچھ انہوں نے ہی ہمارے لئے کرنا ہے ہم نے خود کچھ نہیں کرناہے۔ جب ملامنصور کی ہلاکت کی ویڈیو آئی تھی تو ملاعمر کا بہت سخت رد عمل آیا تھا اور بیت اللہ محسود کو پیغام دیاتھا کہ اس کے بھائی کو اپنے پاس نہیں چھوڑنا ہے۔یہ پہلے بھی میں نے کہا ہے کہ افغان طالبان کسی کیلئے نہ تو پاکستانی طالبان کو حوالے کریں گے نہ انکے خلاف کاروائی ایکشن لیں گے۔ ان کیلئے پاکستان کی اہمیت نہیں ہے بلکہ انکی نظر میں جو دین ہے اسلام ہے جہاد ہے پرانی دوستی ہے اس کی اہمیت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

غلط مہم سے 3خواجہ سرا قتل۔

غلط مہم سے 3خواجہ سرا قتل۔

نادرا کاریکارڈ ہے کسی نے جنس بدلی اور نہ بدل سکتا ہے شہزادی

جسکا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا وہ ناگوار گزرا،قمر زمان کائرہ

جماعت اسلامی ، علماء نے بلایا جس سے خطاب کرتے ہوئے شہزادی نے کہا کہ ایک منٹ میں بات کہنا ناممکن ہے کیونکہ بات ہمارے لئے ہورہی ہے۔ تو ہمیں وضاحت کا موقع بھی بھرپور دیا جائیگا۔ معذرت کیساتھ ہم آپ کی کہی ہوئی باتوں سے متفق نہیں کیونکہ اس بل کو صحیح سے پڑھا نہیں گیا۔ اس بل کے رولز میں بہت صاف لکھا ہے کہ مرد سے عورت آپ نہیں بن سکتے۔ نہ عورت سے آپ مرد بن سکتے ہیں۔ آپ ایکس کارڈ کی طرف جاسکتے ہیں ہمارے کارڈ کی طرف۔ آپ نے کہا کہ یہ LGBTIQ کا بل ہے۔ اس بل کو دوبارہ پڑھیں اس میں LGBTIQیا شادی کی تو گنجائش موجود ہی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کی باتیں ڈاکیومینٹیشن الگ ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے نادرا کا ذکر کیا میرے پاس نادرا کا ڈاکیومنٹ ہے ،آپ کو دے سکتی ہوں۔ نادرا کے ڈاکیومنٹ میں انکے پاس ایسا کوئی عمل درج نہیں کہ کسی عورت نے مرد کا کارڈ بنوایا یا مرد نے عورت کا کارڈ بنوایا۔ صرف ایک بات کہنا چاہوں گی کہ یہ LGBTIQکی اصطلاح تو 80 ایز کی ہے ہم تو 4ہزار سال پرانی ثقافت رکھتے ہیں۔ یہاں سندھ کے لوگ بیٹھے ہیں جہاں 4 ہزارسال قبل ہیجڑا کلچر موجود تھا۔ کیا ہماری کلچری ویلیوز نہیں ہیں؟۔ آپ لوگوں نے کہا اس ایکٹ کے ذریعے بڑا غلط ہوگا، میڈیکل ٹیسٹ ہوگا۔ سر آپ مجھے بتائیں کہ کیا آپ لوگوں کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا NICکیلئے؟ نہیں ناں۔ تو میرا کیوں ہو؟۔ اگر میرا ہو بھی تو بات آجاتی ہے مذہب پر تو یہ مذہب نہ آپ کا ہے نہ میرا ہے۔ اوپر سے ایک ہی آیا ہے اس میں رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ الحمد للہ میں بھی مسلمان ہوںلیکن ہمیں موجودہ صورتحال کو بھی تو دیکھنا ہوگا۔ پاکستان کس حال میں ہے یہ آپ نہیں جانتے؟۔ آپ نے کہا کہ ایک مرد پروفیسر ایک عورت پروفیسر ایک سرجن ہمارا ٹیسٹ کریگا۔ ٹیسٹ تو ہوتا ہی نہیں جینڈر کا۔ نالج کہاں ہے؟ٹیسٹ نہیں ہوتا معذرت کیساتھ ، پاکستان میں بہت سارے ٹیسٹ موجود ہی نہیں جو انٹر سیکس کے ہونے چاہئیں۔ میں امام خمینی کا وہ خطبہ آپ سب کو پڑھنے کو بولوں گی جو 1979میں انہوں نے دیا تھا۔ ایران میں تو یہ ساری باتیں بہت پہلے ہوگئی تھیں۔ ہم تو اب اس پر آئے ہیں۔ خدارا ان سب چیزوں کا جو اثر پڑ رہا ہے، میں مسلمان ہوں جمعہ کی نماز میں نے بچپن میں مسجد میں بھی ادا کی ہے۔ میں نے آج تک کبھی خواجہ سراؤں کا ذکر نہیں سنا۔ آپ کے نصاب میں آپ کے کری کولم میں خواجہ سراؤں کا ذکر نہیں ہوتا۔ آج سینیٹر مشتاق نے ٹوئٹر کیا کہ جمعہ کی نماز کے بعد سب لوگ مظاہرہ کریں۔ کیا ہمارا دین اسلام اتنا کمزور ہے کہ خواجہ سراؤں کے بل سے اس کو خطرہ ہوگا؟۔ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے تین لوگ مرچکے ہیں اس کیمپئن میں۔ قتل کیا گیا تین لوگوں کا۔ کراچی کے ایک انسان نے قتل کرنے کے بعد فرمایا کہ میں جہاد کررہا ہوں۔ ایسامؤقف نا پیش کریں۔ آپ ہمارے ساتھ مل کر ڈائیلاگ کریں اور دنیا کو بتائیں کہ احتجاج سے کام نہیں ہوتا ہے۔ بیٹھ کر بات کرنی ہوتی ہے۔ یہ جو کرنٹ سچویشن میں جو چیزیں موجود ہیں ان کیساتھ بات کرینگے حقائق کیساتھ بات کرینگے۔ ہمارے پاکستان میں آپ کہتے ہیں کہ جو ڈاکٹر ہمیں چیک کریگا میڈیکل ٹیسٹ ہوگا، سر میں نے بہت کوشش کی ہمارے پاس بہت سے میڈیکل ٹیسٹ موجود نہیں۔ ہمارے پاس ایکوپمنٹ ہی موجود نہیں ہیں۔ ایسا نہ کریں ہم لوگ دربدر ہوئے ہیں ساری زندگی بڑی مشکلوں سے گزاری ہے۔ اور آج آپ لوگوںنے کہا کہ ہم میدان میں اتریں گے ، ہمارے حقوق کیلئے تو آپ کبھی میدان میں نہیں اترے۔ ہمارے ساتھ بیٹھیں ایسا نہ کریں۔ آج صبح میں ان صاحب کیساتھ بیٹھی میں نے انکے ساتھ بات کی کچھ چیزیں میں نے ان سے سیکھیں۔ اسلام کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ خواجہ سرا بات نہ کرسکیں۔ آپ لوگ عالم ہیں میں یہاں بات کررہی ہوں۔ لیکن جب میں باہر ہوتی ہوں مجھ سے کوئی بات کرتا ہے مجھے پتہ ہوتا ہے کہ اس کی دینی تعلیم کم ہے میری اس سے زیادہ ہے میں نہیں بول پاتی کیونکہ میں خواجہ سرا ہوں مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جلادے گا۔ پلیز خدا کا خوف کریں۔ آج ان سے جب بات ہوئی تو دل خوش ہوا۔ ترامیم بل میں ہوسکتی ہے۔ لیکن جو یہ جنگ آپ لوگوں نے شروع کی اور جن لوگوں نے بھی شروع کی اسے روکنے میں تو مدد کریں۔ ہم خواجہ سرا بہت مظلوم طبقہ ہے۔
قمرالزماں کائرہ: ابھی ٹرانس جینڈر بل میں تھوڑی بہت ایڈجسٹمنٹ کی بات کی گئی کئی اطراف سے سوال اٹھا کہ اس کو لنک کیا جائے سیلف ڈکلیریشن نہ ہو بلکہ اس کو میڈیکل کیساتھ طلب کیا جائے۔ یہ ترمیم ہے اس پر اعتراض ہے۔ آزادی رائے ہے سب کا حق ہے۔ جو بل اس وقت موجود ہے اس میں تو گنجائش نہیں لیکن جو اعتراض کرنے والے ہیں انکے پاس بھی کوئی لاجک ہے۔ ان کی بات سننی چاہیے اگر ان کی بات میں وزن ہوا تو سنیں گے نہیں ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔ انٹروڈکشن ہوا ہے ابھی ایک پرائیویٹ ممبر نے ترمیمی قرارداد پیش کی۔ جس طرح غلط مہم جوئی کرکے معاشرے میں پھیلایا گیا ہے اس پر جس طرح گورنمنٹ کو گالیاں پڑ رہی ہیں اور جس طرح اس کو متعارف کرایا جارہا ہے اس کا کوئی عنوان، سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ۔ کوئی ایسی صورتحال نہیں۔ یہ بل تو 2018میں بن گیا تھا۔ لیکن کسی کو یاد آجاتا ہے پتہ چلتا ہے ہوش آتا ہے تو جو اپنا تعصب ہوتا ہے وہ اٹھ جاتا ہے میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ مایوسی کی باتیں کرنا چھوڑ دیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مرد مرد عورت عورت کا نکاح سچ مچ؟

مرد مرد عورت عورت کا نکاح سچ مچ؟

کیا28500میں صرف 17خواجہ سرااور باقی مردوں عورتوں نے اپنی اپنی جنس بدل لی؟

پیپلزپارٹی،ن،ق لیگ،PTI،MQMاور بالخصوص مولانا فضل الرحمن تنقیدکا بڑانشانہ

سینیٹر مشتاق کی جماعت اسلامی احتجاج کرتی تو پہلے لوگ آگاہ ہوجاتے مگر کیوں نہیں کیا؟

سینیٹر مشتاق احمد خان مفتی طارق مسعود کیساتھ
سینیٹر کیلئے 15ووٹ تھے ، جماعت اسلامی کا ANPسے اتحاد تھا، 12 بنے ۔ مشتاق کو پتہ تھا کہ 12سے منتخب ہوجائیگا۔ صادق سنجرانی بھی کم ووٹ پرچیئر مین منتخب ہوا ۔ ہمیشہ استعمال ہونے والی جماعت اسلامی بھی اقتدار کے خواب دیکھتی ہے۔ ٹرانس جینڈر محض بہانہ ہے اور یہودی بینکاری کو اسلامی بنانا اصل نشانہ ہے اور سب کو بدنام کرکے اقتدار تک پہنچنے کیلئے بلیک میلنگ کا زبردست حربہ ہے؟۔

خواجہ سراؤں کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھے تو انہوں نے عدالتوں میں اپنا کیس لڑا۔ 2009میں سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ اور حقوق کیلئے قانون سازی کا حکم دیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس بل کا تعلق صرف خواجہ سرا کے ساتھ ہے جس کوXکارڈ جاری کیا جاتا ہے تو وہ شادی نہیں کرسکتا۔ باقی تمام انسانی حقوق اس کو حاصل ہیں۔ ابھی تک کوئی ایسی جدید ٹیکنالوجی کی مشینیں بھی نہیں ہیں کہ جس سے پتہ چلے کہ 50%سے زیادہ مرد ہے یا عورت؟۔ اسلئے خواجہ سرا کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ جس طرح محسوس کرے تو وہ اپنے آپ کو مردوں یا عورتوں کے خانے میں ایک خواجہ سرا کی حیثیت سے ڈال سکتا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں 50،50فیصد والے کو مشکل خنسا کہتے ہیں۔ اسکی ایک مثال بڑی معزز شخصیت ابوالاسود دویلی کی تھی جس کی بیوی تھی اور بیوی سے بچے بھی تھے۔ اور اسکا شوہر بھی تھا اس سے بھی بچے تھے۔ قرآن و عربی زبان پر نقاط اور اعراب بھی اس کی ایجاد ہے۔ مشہور دیوبندی خطیب سید عبد المجید ندیم شاہ کی پہلی شادی خواجہ سرا سے ہوئی تھی ۔کبھی خواجہ سرا کی جنس مکمل بدل جاتی ہے ۔
علماء میت کے غسل ، نمازِ جنازہ ، نکاح اور طلاق کے مسائل کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے۔ فقہی مسئلہ:” ہجڑہ 50%سے زیادہ مرد ہو تو مردوں والا جنازہ اور عورت ہو تو عورتوں والا جنازہ پڑھا جائیگا۔ مگر خنسا مشکل کا کیسے ہوگا؟”۔جب ابو الاسود دویلی کا جنازہ ہوا۔ الھم اغفر لحینا ومیتنا ” اے اللہ ! مغفرت فرما ہمارے زندوں اور ہماری میت کی”۔آج تک نماز جنازہ کی یہی روایت پڑ گئی کہ دعا میں میت کا لفظ ہے جو مرد ، عورت ، ہجڑہ کیلئے مشترک ہے۔ ہجڑہ نیوٹرل عزت دار ہوتا تھا۔ آج نیوٹرل کا لفظ بھی بدنام ہوگیا ہے۔ نبی ۖ کے روضہ اور بادشاہوں کے گھروں پر ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ انگریز آیا تو ہجڑہ بے روزگار ، بے توقیر اور حقوق سے محروم ہوا۔ علماء نے جنازہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ مشکل سے حق ملنا شروع ہوا توبل کیخلاف بالکل ناجائز اور جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا۔
جب تک عمران خان کیXاور نیوٹرل سے بنی رہی تو اس بل کیخلاف کوئی آواز بلند نہیں کی گئی۔ اگر یہ جھوٹا پروپیگنڈہ سچا ہوتا تو سب سے پہلے اوریا مقبول جان اور سراج الحق کا منہ کالا کرکے گدھے پر گھمانا چاہیے تھا کہ اتنے خطرناک سازش کے ہوتے ہوئے عمران خان کے دور میں کیوں نہیں بولے؟۔ اب کس نے تمہاری دُم اٹھا کر شور مچانے کیلئے انگل دیا ہے؟۔ جماعت اسلامی کمزور طبقے پر زور آزمائی کرکے جمعیت علماء اسلام سمیت ساری سیاسی جماعتوں کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔ اصل معاملات سامنے آئے تو مذہبی ہجڑے شکل نہ دکھا سکیں گے۔ کیا کسی مشکل خنسا کا شوہر غامدی تو نہیں تھا جس سے جاوید احمد غامدی پیدا ہوا۔ اور اس مشکل خنسا کی بیگم سے جماعت اسلامی والے تو پیدا نہیں ہوئے ہیں؟۔
بانی جماعت اسلامی سیدمودودی نے روس کے مقابلے میں امریکہ کا سودی نظام اسلام کے قریب اور کم برائی قرار دیا تھا۔ روس میں ماں کے ساتھ زنا کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا کہ سود کا گناہ اپنی ماں سے 36مرتبہ زنا کے گناہ کے برابر ہے۔ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن نے یہ حدیث کیوں عوام کو نہیں سنائی ؟۔ سراج الحق نے بھی اتنے عرصہ تک یہ حدیث نہیں سنائی ؟۔ 75سالوں سے ملک پر سودکے نظام کو مسلط کیا گیا ہے ۔ امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق دور میں جماعت اسلامی ریاست کا سب سے بڑا چمچہ تھی، اس وقت جماعت اسلامی میں کچھ تو باکرداراور اچھے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ پھر کیوں یہ حدیث نہیں سنائی؟۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نوازشریف اور جماعت اسلامی کے چولی دامن کا ساتھ تھا مگر اس دور میں بھی یہ حدیث یاد نہیں آئی؟۔ مولانا سمیع الحق شہید کو سود کے خلاف آواز اٹھانے پر میڈم طاہرہ سکینڈل کا شکار کیا گیا ۔ حالانکہ طاہرہ سید کا سکینڈل بھی تھا۔ چلو ہم نے مان لیا کہ جھوٹ یا سچ ملک میں غلط قانون سازی ہوئی ؟۔
پھر اگر سود کو قانونی جواز ملتا ہے تو کیا یہ زیادہ برا نہیں ہے؟۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہوگی کہ سود کو شرعی حیلے سے جائز قرار دیا جائے ۔ پھر اس سے بھی انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ سود کو قانونی جواز بھی فراہم کیا جائے اور اس کو شرعی جواز بھی دیا جائے۔ شریعت کورٹ کے ذریعے جماعت اسلامی اس سازش میں لگی ہوئی ہے کہ ملک وقوم میں سود ی نظام کا نام اسلامی رکھ دیا جائے تو پھر جماعت اسلامی اقتدار کی سیڑھی تک پہنچ سکے گی۔ پاکستان کی عوام نے کوئی گھاس نہیں کھائی ہے کہ جماعت اسلامی کے فریب کا شکار ہوجائے۔ کل بھی یہ امریکہ اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے جعلی اسلام اور جہاد سے اپنی دنیاآباد کررہی تھی اور اب بھی اسی دھندے پر گامزن نظر آرہی ہے۔ اس نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہمیشہ جہاں تک بس چلتا تھا کرائے کے بدمعاشوں سے بھی کام چلایا ہے لیکن اب خواجہ سراؤں کا مقابلہ کرنے کی سکت بھی ان میں نہیں ہے۔ کراچی میں جو تین خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں ان کا مقدمہ سینٹر مشتاق، اسداللہ بھٹو، اوریا مقبول جان اور سراج الحق پر چلانا چاہیے ۔
رسول ۖ اور بنی ہاشم کی عظمت تھی مگرعوام کو مافوق الفطرت کاانتظار تھا۔ ومالھذا رسول یأکل طعام و یمشی فی الاسواق ” اور اس رسول کو کیا ہوا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں گھومتا ہے”۔ آج یہی تصور امام مہدی کا بن گیا۔ سید مودودی نے اپنی کتاب ”تجدیدو احیائے دین ” میںلکھا کہ ” غلط ہے کہ مہدی روحانی قوتوں کا بڑامالک ہوگا۔جس کی شناخت پرانے طرز کی پگڑی ، لباس اور دیگر علامات کو تاڑ کر کی جائے گی ۔ علماء اورصوفی بیٹھ کر فیصلہ کرینگے۔ وہ جدیدوں سے بڑھ کر جدید اپنی صلاحیت سے اپنی قیادت منوائے گا اور پہلے پہل علماء اورصوفی صاحبان اسکے خلاف شورش برپا کرینگے”۔ سیدمودودی کیخلاف لکھ دیاکہ ” مودودی کہتا ہے کہ مہدی پینٹ شرٹ پہنے گا”۔ ابن عربی نے لکھا کہ ” مہدی اصل اسلام کو ظاہر کرے گا تو علماء مخالفت کرینگے۔ دین خالص باقی اور باطل ادیان کا خاتمہ ہوگا۔وہ علماء کا عالم ہوگا مگر معروف علماء اور مدرسین میں شمار نہ ہوگا بلکہ عام آدمی کی طرح رہے گا۔ صوفی ہوگا مگر اس کا سلوک دوسروں سے مختلف ہوگا اوروہ یورپی لباس پہنے گاتو لوگوں کو بڑی حیرت ہوگی، جب وہ میری یہ پیش گوئی سنے گا تو خوش ہو گا”۔ عربی میڈیا پر مواد ہے۔
علماء لکھتے ہیں ” قرآن سورہ فاتحہ میں ہے۔ الفاتحہ بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ میں ب سے مراد حضرت محمدۖ کی ذات اور اسکا نقطہ توحید ہے اور شیعہ اس نقطے سے علی مراد لیتے ہیں”۔ گویا پورا دین اس نقطے میں ہے جو بعدمیں لگا اور پھر کہتے ہیں کہ بسم اللہ کا قرآن میں شامل ہونا صحیح ہونے کے باوجود مشکوک ہے اسلئے وہ جہری نمازوں میں بسم اللہ کو جہر سے نہیں پڑھتے۔ اور سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا فقہ کی معتبر شخصیات قاضی خان، شامی ، صاحبِ ہدایہ وغیرہ نے جائز قرار دیا ہے۔مفتی تقی عثمانی کی توبہ کے بعدمفتی سعیدخان نے بھی اپنی کتاب ”ریزہ الماس” اور مولانا الیاس گھمن نے ویڈیو پر یہی کہا ہے۔
دیوبندی مکتب کے مولانا خضر حیات بھکروی ویڈیو سے تبلیغ کرنا وہ جائز سمجھتا ہے یا نہیں؟۔ اگر عقیدے کی تبلیغ حرام سے جائز ہو تو سیاسی تبلیغ میں حلال وحرام پر بحث کیوں ؟ سیاست میںاولی الامر سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے MRD میں بینظیر بھٹو کیساتھ ضیائی مارشل لاء کیخلاف سیاسی جدوجہد کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کا مریم نواز سے پردہ نہیں تو بینظیر بھٹو سے بھی نہ تھا۔ علامہ شبیراحمد عثمانی کا فاطمہ جناح و بیگم راعنا لیاقت علی سے کونسا پردہ تھا ۔ طالبان قطر میں عورت کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ علماء دیوبندنے اندرا گاندھی سے پردہ کیا؟۔ رسول اللہ ۖ نے فتح مکہ پر سب کو معاف فرمایا تو ابوسفیانکی بیگم ہند نے امیر حمزہ کے کلیجے کو چبایا تھا اسلئے نبیۖ نے سامنے آنے سے منع کیا ،ورنہ منع نہ فرماتے۔ حضرت فاطمہ سے ابوسفیان نے اسلام قبول کرنے سے پہلے یہ استدعا کی تھی کہ نبی ۖ سے سفارش کریں کہ ” صلح حدیبیہ کا معاہدہ برقرار رکھا جائے ”۔اور لونڈی بھی عورت ہوتی ہے جس کا لباس وستر مختصر ہے۔
مولانا مودودی نے اپنی کتاب ” پردہ ” میں عورت کی آواز کو پردہ قرار دیا۔ پرویزمشرف دور میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا قانون بنا تو قاضی حسین احمد کی بیٹی سمیحہ راحیل قاضی اور سیدمنور حسن کی بیگم عائشہ منور رکن اسمبلی بن گئیں ۔ جب ان کی آواز شرعی پردہ ہے تو خطرہ ہوا کہ جماعتی خواتین نئے قانون سے فائدہ اٹھاکر جنس مردوں میں لکھوا سکتی ہیں؟۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسلئے سینٹ میں ترمیمی بل پیش کردیا ،تاکہ عورت خود کو مرد اور مرد خود کو عورت نہ بناسکے اور اپنوں کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔
شیرین مزاری نے سینیٹر مشتاق کی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”اس میڈیکل رپورٹ کی وجہ سے کرپشن کا دروازہ کھل جائیگا”۔ ہائی پروفائل کیس نواز شریف کا تھا، میڈیکل بورڈ نے قیدی کو فرار کروادیا۔ سینیٹر مشتاق مَیںکا لفظ استعمال کرکے طوفان کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ جمعیت علماء اسلام اور دیگر کو ساتھ ملا کر مؤثر بل پیش کرکے ترمیم کرانے میں مدد لے سکتا تھا ۔شریعت کورٹ نے جمعیت علماء اسلام کے وکیل کامران مرتضیٰ پر سوال اٹھادیاتھا۔
مذہب کوجماعت اسلامی سیاسی قوت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے لیکن عملی میدان میں اپنی جان بچاتی ہے۔ جس کی مثال 1948ء کا جہاد کشمیر تھا اوریہ فتویٰ تھا کہ جہاد کرنا ریاست کا کام ہے اور پھر ساری زندگی جہاد کے نام پر چندہ کھایا اور میجرمست گل خان کے ڈرامے رچائے۔ جہادِ افغانستان سے طالبان اور فیض آباد دھرنے تک کی مثالیں ہیں۔ سلمان تاثیر کے قتل اور ممتاز قادری کے بعد آسیہ بی بی کا ایشو انہوں نے کھڑاکیا۔ وقت آیا تو مولانا سمیع الحق کو قربانی کا بکرا بنایا اور علامہ خادم حسین رضوی کا جیل میں سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ ہوا تھا۔ جماعت اسلامی اصحاب کہف کے غار میں چھپ گئی تھی۔ اگر 2018ء سے مردوں کا مردوں اور عورتوں کا عورتوں سے جنس پرستی اور شادی کا قانون تھا تو جماعت اسلامی سڑکوں پرکیوں نہ نکلی ؟ اوریا مقبول جان نے عمران خان سے کیوں نہ کہا کہ ریاست مدینہ کا یہ قانون ختم کرو؟۔ افغان طالبان کو لانے کیلئے مرد کا مرد سے نکاح کا ڈرامہ رچایا گیا تھا اور اب اسی طرز پر کٹھ پتلی جماعتوں کے تسلط کی راہ ہموار کی جارہی ہے، حقیقی اسلام اور جمہوریت کو بلیک میل کرنیکی سازش سے ملک وقوم کو جو نقصان پہنچے گا وہ ہینڈلرز کے تصور میں نہیں آسکتا۔
اگر یہ قانون نافذ ہوتا توپھر جمعیت علماء اسلام اور وفاق المدارس کے مفتی عزیز الرحمن کی ویڈیو نشر ہونے پرنادرا میں جنس تبدیل کردیتا کہ ” وہ عورت ہے اورصابرشاہ کو گود میں بٹھانے کا مقدمہ خارج ہوجاتا ”۔ قومِ لوط پر عذاب غلط کاری کی وجہ سے آیا اور ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ جہاں جہاں کوئی غلط کام ہورہاہے تو اس کا تدارک اور علاج ہونا چاہیے۔
ٹرانس جینڈر کا قانون خواجہ سراؤں کو حقوق دینے کیلئے ہے اور اس کیلئے پہلی آواز قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کے حافظ حمدا للہ نے اٹھائی تھی۔ اگر اس میں کوئی قانونی سقم یا قانون کے غلط استعمال کا خوف ہے تو دیانتداری کیساتھ حقائق بیان کرتے ہوئے ترمیم کرنا چاہیے لیکن اس کو ایسی سازش کا نام دینا کہ پاکستان کی ریاست، پارلیمنٹ اور تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں بدنام ہوں انتہائی بڑی اور گھناؤنی سازش ہے۔ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے علاوہ جمعیت علماء اسلام سب اس کا حصہ ہیں اور اگر وہ اپنے خلاف گھناؤنی سازش کا مقابلہ حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھ کربھی نہیں کرسکتے تو ان کو سیاست کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھ جانا چاہیے۔ یہ انقلاب خوش آئند ہے۔
معاشرے میں قوم لوط کا عمل ہے۔ قانونی شکل زیادہ سنگین ہے۔ سود قانونی شکل میں ہے اور حیلہ سے اس کواسلامی قرار دینااورپھر قانونی شکل دینا بہت ہی زیادہ سنگین ہے۔ جس پرجماعت اسلامی لگی ہوئی ہے۔سراج الحق سودکو اپنی ماں کیساتھ 36مرتبہ زنا کے برابر کہتا ہے۔ اس سودکواسلامی اور قانون بنارہا ہے۔ جائز وناجائز اور حلال وحرام کا دارومدار قرآن وسنت پر ہے اور دین کی حفاظت علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ۖ نے فرمایا: ”علماء دین کے محافظ ہیں جب تک وہ دنیامیں گھس نہ جائیں اورحکمرانوں سے گٹھ جوڑ نہ کرلیںلیکن جب وہ دنیا میں گھس گئے اور حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کرلیا تو پھر ……………”۔
علماء نے زکوٰة سے تجارت شروع کی اور دنیا میں گھس گئے ،سودکو زکوٰة قرار دیکر حکمرانوں سے گٹھ جوڑ کرلیا۔ مفتی تقی عثمانی نے شادی بیاہ میں لفافے کے لین دین کو سود قرار دیا تھا ،پھر سودی نظام کو حیلہ سے جائز قرار دیا۔ جماعت اسلامی سودی نظام کو جواز فراہم کرنے کیلئے کسی خفیہ اشارے پر میدان میں اتری ہے۔ سوشل میڈیا میں خالد محمود عباسی نے بھی نشاندہی کی ہے جس کا شمار تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی کے خاص اور باخبر لوگوں میں ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کریڈٹ لے گی کہ مرد کا مرد، عورت کا عورت سے نکاح کی سازش کو ناکام بنادیا ۔ پھر کریڈٹ لے گی کہ سودی نظام کا خاتمہ کرکے غیر سودی اور اسلامی معاشی نظام اس نے نافذ کردیا تو ریاست کیساتھ مل کر اقتدار کے مزے اڑائے گی۔ نوازشریف اور عمران خان کی طرح جماعت اسلامی ہمیشہ ریاست کی چہیتی رہی ہے۔جماعت اسلامی کے صاحبزادہ ہارون الرشید نے کہاتھا کہ ” امریکہ نے حملہ کیا اور 88 حفاظ شہید کردئیے تو پاک فوج نے کہا کہ یہ حملہ ہم نے کیا۔ میں نے کہا کہ پاک فوج سفاک نہیں اسلئے امریکہ نے حملہ کیا ہے۔ طالبان نے بدلہ لیا اور اعلان کیا تو میں نے کہا کہ یہ دشمن کا کام ہے طالبان کا نہیں”۔ جماعت اسلامی طالبان اور فوج کے کردار پر پردہ ڈالنے کیلئے استعمال ہوتی رہی جس میں قوم کو بڑی تباہی وبربادی کاسامنا کرنا پڑا۔ اگر پاک فوج کے ترجمان نے غلط اقدام کا اعتراف جرم کیا اور اس سے بڑھ کر امریکہ کو بچانے کی کوشش کی تو اس کو ڈبل مجرم کہنا چاہیے تھا۔ دلالی کی کیا ضرورت تھی؟۔ اور جب طالبان حملہ کرکے بے گناہ لوگوں کو مارنے کا اعتراف جرم کررہے تھے تو طالبان کو بچانے کیلئے اس دلالی کا کیا فائدہ تھا کہ طالبان نہیں دشمنوں نے یہ کام کیا ؟۔ جماعت اسلامی کی منافقت نے پاکستان، پشتون قوم اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ایک مودودی سو نہیں ہزار یہودی اس منافقانہ کردار پر کوئی کہتا تو جائز تھا۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ” امریکہ کا ساتھ دینے پر افغان حکومت کیخلاف جہاد ہے اورامریکہ کا ساتھ دینے پر پاک فوج کے خلاف جہاد جائز نہیں” تو طالبا ن لیڈر حکیم اللہ محسود نے کہا کہ ” قاضی حسین احمدتم منافق ہو۔ تم مسلمان نہیں قوم پرست ہو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ افغان حکومت جرم کرے تو اس کے خلاف جہاد جائز ہے اور پاکستان کی فوج کرے تو ناجائز ہے۔ تم نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تمہارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ”۔ سلیم صافی نے سید منور حسن امیر جماعت اسلامی سے سوال پوچھا کہ پاک فوج جو امریکہ کے اتحادی ہیں، وہ شہید ہیں یا نہیں؟۔ منورحسن نے پہلوتہی کی ناکام کوشش کے بعد کہا کہ جب امریکی فوجی شہید نہیں تو ظاہر ہے کہ اسکے اتحادی پاک فوج بھی شہید نہیں ہوسکتے!۔اس فتوے کے بعد جماعت اسلامی کی امارت سے سید منورحسن کو ہٹادیا گیا۔اگر علماء بعد میں یہ فتویٰ دیتے کہ صرف امریکیوں کو مارو۔ افغانی حکومت اور پاکستانی حکومت کے مسلمانوں کو مت مارو تو آج یہ سب سرخرو ہوتے۔ افغان طالبان بھی افغان بھائی کا خون بہانے پر شرمندہ اور اپنے افغانیوں کی طرف سے انتہائی نفرت اور غلیظ گالیاں کھار ہے ہیں۔
سینیٹر مشتاق نے کہا کہ ”ہم علماء کے سپاہی ہیں” لیکن جماعت اسلامی نے کبھی کسی عالم کو اپنا امیر نہیں بنایا۔ جب سینیٹروں کی تعریف کی تو کسی عالم کا نام نہیں لیا بلکہ سینیٹرمشاہداللہ خان اور سینیٹر رضا ربانی کا نام لیا جوٹرانس جینڈر بل کے حامی ہیں۔ساری زندگی علماء حق کے اسلئے مخالف تھے کہ مولانا مودوی کو نہیں مانتے لیکن مولانا مودودی کو ماننا شروع کردیا تو ان کا باطل بھی حق بن گیا۔
مولانا فضل الرحمن نے کبھی روس کیخلاف لوگوں کو جہاد کی ترغیب نہ دی بلکہ یہ بیان اخبار کی زینت بناتھا کہ ” افغان جہاد پاکستان کیلئے سونے کی چڑیاہے”۔ ساری زندگی مفاد جماعت اسلامی نے اٹھایا ۔ طالبان کی حکومت بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر قائم کررہے تھے تو مولانا فضل الرحمن حکومتی اتحادی تھے لیکن غیرملکی دورے پر گئے۔ ہفت روزہ تکبیر کراچی نے لکھا تھا کہ جب ریاست کو مولانا فضل الرحمن کی ضرورت پڑی تو بیرون ملک گیا۔ ملاعمر سے مولانا نے صدر نجیب اللہ کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا تھاجس کا ملاعمر نے یہ جواب دیا تھا کہ ”میں بیرونی ایجنسی کے ہاتھ میں بے بس تھا”۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ”یہ جواب سن کر مجھے اس بے بسی پر شرمندگی ہوئی”۔ امریکی عزائم پر مولانا فضل الرحمن نے قوم کو بیدار کیا تو جماعت اسلامی پیچھے کھڑی ہوگئی ۔ شیعہ کے لٹریچر میں صحابہ سے نفرت کا سلسلہ شروع ہوا تو مولانا فضل الرحمن نے مولانا جھنگوی کا ساتھ دیا۔ سپاہ صحابہ نے دہشتگردی شروع کی تو مولانا نے کہا کہ یہ دہشتگرد بن چکی ہے۔ طالبان دہشتگرد بن گئے تو مولانا فضل الرحمن نے خراسان کے دجال کا لشکر قرار دیا۔ عمران خان نے ریاست کو تھریٹ دی تو مولانافضل الرحمن نے ڈنڈا بردارانصار اسلام کی بنفس نفیس قیادت کرکے ریاست کی حفاظت کی۔ جب تک اسلامی احکام کے حقائق سامنے نہیں لائے جائیں تو ڈرامہ بازی چلتی رہے گی۔ مولانا فضل الرحمن کھل کر حقائق بیان کرکے علماء کو بھی ان کی جہالت پر متنبہ کریں ورنہ آنے والی کل کوئی بھی مشکلات پر قابو پانے کے پھر قابل نہیں رہے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

شوہر کے فرائض اور بیوی کے حقوق کا معاشرتی رویہ حکمرانوں اور رعایا پر بھی زبردست اثر انداز ہوا ہے۔

شوہر کے فرائض اور بیوی کے حقوق کا معاشرتی رویہ حکمرانوں اور رعایا پر بھی زبردست اثر انداز ہوا ہے۔

1:عالمی سطح پربین الاقوامی جبری نظام سے عالم اسلام اور پاکستان کے مسلمان کیسے نکل کر سرخرو ہوسکتے ہیں؟

2: ہندوستان کے ہندو اور افغانستان قوم پرست طالبان کے درمیان پاکستان کس طرح سلامتی کے ساتھ پُر امن رہ سکتا ہے؟

3:سوات ، قبائلی علاقہ جات ، شمالی وزیرستان اور خاص طور پر محسود علاقہ جنوبی وزیرستان میں امن وامان کا قیام کیسے ممکن ہے؟ کیا یہ آئندہ دہشتگردی کا گڑھ بنے گا یاامن کا گہوارہ؟

تفصیل نمبر1:دنیا کو خوف ہے کہ اگر خلافت قائم ہوگئی تو خواتین لونڈیاں، مرد قتل یا غلام بنیںگے۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی4ہزار لونڈیاں تھیں۔ جن میں ہر رنگ ونسل کی لڑکیاں شامل تھیں۔ صحابہ وتابعین کی لونڈیاں تھیں ۔محمد شاہ رنگیلا نے اپنے محل کے زینے پر الف ننگ تڑنگ لڑکیاں کھڑی کی ہوتی تھیں اور ان کے سینے پکڑ پکڑ کر چڑھتا تھا۔ خلافت سے دنیا میں اندھیرا چھا جائیگا۔ دنیا کے خدشات کا جواب دئیے بغیر اسلام کی ترویج اور ہمارا نظام نہیں آسکتا۔ یہ باور کرانا ہوگا کہ تبلیغی جماعت،دعوت اسلامی، مذہبی سیاسی جماعتیں،انقلابِ ایران ، افغان طالبان اور سعودی عرب کواپنی اپنی حدود میں ہمارا تابع رہنا ہوگا۔ اللہ نے رسول اللہ ۖ سے فرمایا: ”یہود و نصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے حتی کہ آپ ان کی ملت کے تابع بن جاؤ” ۔ (القرآن )
ایک طرف عالمی قوتوں کے دہشتگرد ہیں جو ان کی جنگ لڑتے ہیں۔ جن سے خانہ کعبہ، افغان طالبان ، مساجد ، امام بارگاہیں ، بازار اور عوام محفوظ نہیں ۔ دوسری طرف وہ جماعتیں، تنظیمیں اور ممالک ہیں جن کا اسلام اقوام متحدہ اور دنیا کے تابع ہے۔جب نبیۖ سے فرمایاکہ یہودونصاریٰ آپ سے کبھی راضی نہ ہونگے حتی کہ آپ انکی ملت کے تابع بن جائیں، اس وقت یہودونصاریٰ کی دنیا میں مذہبی حیثیت تھی اور ان کے اقتدار کا دائرہ کار حجاز تک نہیں پہنچا تھا۔
اس وقت عیسائیوں کا مذہبی معاملہ یہ تھا کہ عورت کوطلاق نہیں ہوسکتی اسلام نے طلاق کے مسائل بیان کئے توعیسائیوں کیلئے قابلِ قبول نہ تھے۔3سو سال قبل برطانوی بادشاہ نے بیوی کو طلاق اور دوسری لڑکی سے معاشقہ کے بعد ایک اجتہادی فرقہ کھڑا کیا جس نے طلاق کو عیسائی شریعت میں جائز قرار دیا۔ اب عیسائی مذہب کے تابع نہیں ۔ بلکہ ملکی قوانین انسانی حقوق کی بنیاد پر جمہوریت کے تابع ہیں جو ان کی عوام نے بڑی مزاحمت کے نتیجے میںحاصل کئے ہیں۔
جو عیسائی نبی ۖ کا دین قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھے تو کیا مسخ شدہ دین کو قبول کرینگے؟۔ جو تین طلاق کے بعد رجوع پر قرآن وسنت کا حکم نہیں مانتے ؟ جب تک حلالہ کی لعنت سے اپنی بیگم کی عزت لُٹوانہ دیں رجوع نہیں کرتے۔ کیا ایسے مسلمانوں کے رحم وکرم پر یہودونصاریٰ اپنی خواتین چھوڑ سکتے ہیں؟۔ جو فرعون کی طرح ان کی خواتین کو لونڈیاں بناکر ان کی عزتوں کو تار تار کریں؟۔
خلفاء راشدین نے طاقت سے قیصر وکسریٰ مشرق ومغرب کی سپر طاقتوں کو شکست نہیں دی تھی بلکہ خواتین ،لونڈیوں ، غلاموں،مزارعین اور تمام کمزور طبقات کو ایسے انسانی، قانونی اور شرعی حقوق دئیے تھے کہ جس کی وجہ سے ان سپر بادشاہوں کے پاؤں سے زمین نکل گئی تھی۔ حضرت عمر ریت کے ٹیلوں پر تنہاء کہیں بھی سوجاتے اور قیصرو کسریٰ کو مسلح دستوں کے بغیر نیند نہیں آسکتی تھی۔
انسانی حقوق کی بحالی کیلئے اسلام نے چار اقدامات اُٹھائے تھے۔
1:غلام اور لونڈیاں بنانے کی انڈسٹریاں جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا۔
نبیۖ نے سود حرام ہونے کی آیت نازل ہونے کے بعد مزارعت کو سود قرار دیا۔ چار ائمہ مجتہدین اس پر متفق تھے کہ مزارعت سود اور حرام ہے۔ جب کسان کے ہاتھ اپنی محنت کی پوری کمائی آگئی تو کاشتکار کی قسمت جاگ اُٹھی۔ کسان میں قوت خرید پیدا ہوگئی تو یثرب کی وادی مدینہ بن گئی جو ایسا شہر تھا جہاں تاجر مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو سونا بن جاتا اسلئے کہ کسان کے ہاتھ میں قوت خرید کی طاقت آگئی تھی۔ جب شہر کی گلیاں بازار کامنظر پیش کر رہی تھیں تو نبی ۖ نے حکم دیا کہ سڑکوں کا اتنا فاصلہ رکھا جائے کہ دو مال بردار اونٹ آسانی کے ساتھ اس میں گزر سکیں۔ ایک طرف جاگیردانہ نظام سے غلامی کے خاتمے کی بنیاد پڑگئی اور دوسری طرف دنیا نے ترقی وتمدن کا نظارہ دیکھ لیا۔
بنوامیہ و بنو عباس نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اسلام کے معاشرتی و معاشی نظام کو متأثر کیا۔ دنیا میں سرمایہ دارانہ سودی نظام اور کمیونسٹ نظام تھے تو علماء حق نے کہا کہ ”کمیونزم کیپٹل ازم سے اسلام کے قریب ہے۔ کیپٹل ازم میں سود اور کمیونزم میں سود نہیں تھا ”۔1970میںجمعیت علماء اسلام پر دارالعلوم کراچی ، جماعت اسلامی اور امریکیCIAنے کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔علامہ اقبال نے کہا تھا:
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراء کے در ودیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
تحریک خلافت کے مولانا محمد علی جوہر کے اخبار کا نام ”کامریڈ” تھا ، مولانا ظفر علی خان کے اخبار کا نام ”زمیندار”تھا جو احراری تھے ۔ مولانا حسرت موہانی بھی سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں کمیونزم کے بہت دلدادہ تھے۔
مولانا یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین علماء حق کے علمبردار تھے ، مولانا فضل الرحمن قائد جمعیت علماء اسلام انکے علمی معاشی نظام کی خدمات کے معترف ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین قبلہ ایاز صاحب مولانا عبید اللہ سندھی سے عقیدت اورمفتی اعظم پاکستان مفتی محمود سے تربیت کے دلدادہ ہیں۔
2:غلام ولونڈی کاجانور کی مانند ملکیت کا تصور ایگریمنٹ میں بدل دیا۔
مفتی تقی عثمان نے کہا نبی کریم ۖ نے آخری جملہ ارشاد فرمایا : الصلوٰة و ما ملکت ایمانکم ایک تو نماز کا پورا خیال رکھنا ۔ دوسرا جو تمہارے ماتحت ہیں ان کا بہت خیال رکھنا۔ ماتحت میں نوکر بھی آگئے بیوی بھی آگئے بچے بھی آگئے۔
غلام ولونڈی جانور کی طرح ملکیت تھے۔ غلام عبد، لونڈی اَمة۔ قرآن نے گروی یا ایگریمنٹ کی حیثیت دی، ملکیت کا تصور ختم کیا۔ ملکت ایمانکم ملکیت نہیں ایگریمنٹ ہے ۔ ملکتفعل اَیمان جمع یمینکی مضاف اور کم مضاف علیہ ۔ مضاف و مضاف علیہ مل کر فاعل ہے۔فاعل یمین مؤنث ہے اسلئے فعلملکت مؤنث ہے۔ترجمہ: ”جسکے مالک تمہارے معاہدے ہیں”۔ ذاتی مالک اور معاہدے کا مالک ہونا جدا ہے۔ کرایہ دار گھر لے تو ایگریمنٹ کا مالک ہے مکان کا نہیں۔ لونڈی وغلام کی ملکیت کا تصور اسلام نے ختم کیا۔ ان کی جان ، مال اور عزت کو تحفظ دیا۔ انکے انسانی اعضاء کی قدر بحال کردی ۔ آنکھ، کان، ہاتھ ، پیر، دانت کے بدلے کا تصور دیا۔ انسانی اعضاء برابر قرار دئیے۔
3: لونڈی و غلام اور آزاد مرد و عورت میں نکاح وایگریمنٹ کی یکسانیت۔
قرآن میں واضح فرمایاکہ ” مؤمن غلام مشرک سے نکاح کیلئے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگتا ہو اور مؤمنہ لونڈی مشرکہ سے بہتر ہے اگر چہ وہ تمہیں اچھی لگتی ہو”۔اسی طرح طلاق شدہ و بیوہ خواتین کیساتھ اللہ نے غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا ارشاد فرمایا۔ جب آزاد عورت کا کسی غلام سے نکاح یا ایگریمنٹ کی کتابت ہو تو غلام کیساتھ مالی تعاون کرنے کا بھی صریح حکم دیا۔ بڑا المیہ ہے بقول علامہ انور شاہ کشمیری کے ”قرآن میں معنوی تحریفات تو بہت زیادہ ہیں لیکن لفظی تحریف بھی ہے ۔ یا انہوں نے مغالطہ سے ایسا کیا ہے یا جان بوجھ کر”۔ فیض الباری ۔ (فتاویٰ دیوبند پاکستان بحوالہ مفتی فرید صاحب)
رضاعت کبیر و رجم کی آیات بکری کے کھا نے سے ضائع ہونا تحریفِ لفظی نہیں تو کیاہے؟۔ علامہ مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین القرآن ” بنوری ٹاؤن نے چھاپی۔ جس میں تفصیل ہے۔توراة کی جعلی آیت رجم کی جگہ سورۂ نور میں 100کوڑے کی سزا آج بھی قابلِ عمل ہے۔ شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کے بارے میں عدالتی فیصلہ آیاکہ ” بڑھاپے کی وجہ سے اس میں بدکاری کی صلاحیت نہیں ہے” تو جعلی آیت الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما (جب بوڑھا اور بوڑھی زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کرو)کا غلط تصور ختم کریں۔
قرآن وسنت اور صحابہ سے آزاد خواتین کیلئے نکاح اور ایگریمنٹ ثابت ہے۔ نکاح میں تمام ذمہ داری شوہرپر ہے اور ایگریمنٹ میں جوبھی طے ہو۔ مشرقی روایات میں رکھیل اورداشتہ کا تصور تھا اور جدید دور میں مغرب نے گرل فرینڈز کا تصور دیا ۔اسلام نے قانونی حقوق اور شرعی حدود کا بھی تعین کردیاہے۔ آزاد عورت و لونڈی سے نکاح ہوسکتا ہے اور ایگریمنٹ بھی۔ یہ انوکھی بات ہے کہ اللہ نے نبی ۖ کی چچازاد ام ہانی سے نکاح کی ممانعت کردی تھی اسلئے کہ مسلمان ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی تھی۔ پھر نبیۖ کو آئندہ کسی عورت سے بھی نکاح کامنع کردیا چاہے کسی کا حسن پسندہو۔ لیکن اللہ نے ایگریمنٹ کی اجازت دی۔ علامہ بدر الدین عینی نے ام ہانی کو نبیۖ کی 28ازواج میں شمار کرکے غلطی کی ۔یہ ایگریمنٹ کا تعلق تھا۔ایک یہودن خاتون سے نبیۖ نے شب زفاف گزارنے کے بعد صبح دعوت ولیمہ کھلائی تو صحابہ نے آپس میں پوچھا کہ ایگریمنٹ ہوا یا نکاح ؟۔ جواب دیا گیا کہ اگر پروہ کروایا تو نکاح ورنہ ایگریمنٹ۔امہات المؤمنین کو پردے کا خاص حکم تھا اور ایگریمنٹ پراس کا اطلاق نہیں تھا۔ قرآن وسنت نے دنیا کو اتنا بدل دیا کہ حضرت صفیہ کوام المؤمنین کا شرف مل گیا اور محبوب چچا کی بیٹی نکاح سے محروم ایگریمنٹ والی بن گئیں۔ نبیۖ نے کزن حضرت زینب کا رشتہ غلام کا دھبہ رکھنے والے حضرت زید سے کردیا۔ رشتہ کامیاب نہ ہوسکا توام المؤمنین کے شرف سے نواز دیا۔ ابنت الجون کا واقعہ انسانی حقوق کیلئے حضرت یوسف کے قصہ سے زیادہ اہم ہے۔ نبیۖ نے نکاح کے بعد خلوت میں معمول کے مطابق رضامندی کا جائزہ لیا جس کو امہات نے ورغلایا تھا جس کی وجہ سے نبیۖ کو نادانستہ چھوڑنا پڑا تھا مگر اس واقعہ کو اتنا شرمناک رنگ دیا کہ نبیۖ کو نعوذ باللہ عورت کی رضا اور اسکے ولی کی اجازت کے بغیر صرف طلب کرنے پر نکاح کا جواز تھا۔ علامہ ابن حجر کی اس حماقت کو مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی نقل کیا۔
عورت اپنے حق کی جنگ لڑرہی ہے مگراسلام نے برابری سے زیادہ حقوق دئیے ۔کھرب، ارب، کروڑ ، لکھ پتی سے لیکر لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں رکھنے والے تک شوہروں پر اپنی اپنی وسعت کے مطابق حق مہر فرض ہے۔ عورت مرد کی مالی پوزیشن دیکھ کر شادی کرتی ہے۔ گھربار، رہن سہن، کھانا پینا ، سیرسپاٹے سے لیکر بچوں کی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھائی تک سب کچھ مدنظر ہوتا ہے۔ حق مہر کا درست تصور شوہر کی حیثیت کے مطابق ہے۔ وسعت والے پر زیادہ حق مہر بوجھ نہیں بنتا بلکہ ضمیر سے بوجھ اترنے کا ذریعہ ہے۔ عورت کی حرمت اسکے حوالہ ہوجاتی ہے ، اسکاجسم اسکے بچے جننے کیلئے ہوتا ہے ۔ جمائما نے عمران خان سے طلاق کے بعد بھی اس وقت تک خان کا لفظ اپنے نام سے نہیں ہٹایا جب تک عمران نے دوسری شادی نہیں کی ۔ حالانکہ جمائما کے اسکے بعد کئی فرینڈشپ بھی رہے۔ عربی میں بیگمات کو محصنات کہتے ہیں۔ کنواریوں کو فتیات۔ جب تک عورت طلاق یا بیوہ بننے کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کرتی تواس کی اپنے شوہر سے نسبت باقی رہتی ہے۔ آیت232البقرہ میں طلاق کی عدت کے کافی عرصہ گزرنے کے باوجود باہمی نکاح کیلئے سابق شوہر کی نسبت قائم رکھی گئی ہے مولوی جھوٹ کہتا ہے کہ میاں بیوی میں ایک فوت ہوتوپھر عورت کا نکاح قائم نہیں رہتا ۔پھر قبرکی تختی پر اپنی ماں کیساتھ اپنے باپ کی زوجہ کیوںلکھتاہے؟۔
قرآن میں والمحصنٰت من النساء الا ماملکت ایمانکم ” اور بیگمات سے حرام ہے مگر جن سے تمہارا ایگریمنٹ ہوجائے”۔ جیسے دوبہنوں کا نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ اسی طرح کسی محترم بیوہ یا طلاق شدہ کے نکاح سے بھی اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ عورت کی عزت اپنے عزتدار شوہر سے وابستہ ہوتی ہے۔ جب شوہر وفات پاجاتا ہے یا اس کو طلاق دیتا ہے تب بھی یہ نسبت کو کھو نا نہیں چاہتی ہے تو جس طرح دو بہنوں کو جمع کرنے سے اللہ نے منع کیاہے اور نبیۖ نے اس میں محرم رشتوں کو بھی شمار کیا ہے جیسے خالہ بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کا ایک نکاح میں جمع کرنا۔ کیونکہ سوکناہٹ سے قریبی رشتے میں بغض وکینہ کاپیدا کرنا انسانی فطرت سے تصادم ہے۔ دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا منع ہے تو نکاح پر نکاح کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟۔
اسلام غلط تفسیر وتشریحات میں گم ہونے کیلئے اللہ نے نہیں نازل فرمایا بلکہ قرآن کی تابندہ آیات سے قیامت تک کے انسان درست رہنمائی لیکر انسانیت کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار قائم کرسکتے ہیں۔ کسی محترم شوہر کی وفات کے بعد سے عورت کے نام کیساتھ بیگم کی طرح محصنہ کا لفظ لگتا ہے ۔انسان آخر انسان ہے ، جنسی خواہش کی تکمیل بھی ایک سخت ضرورت ہوسکتی ہے تو اسلئے ایگریمنٹ سے مقاصد پورے ہوسکتے ہیں ۔ایک یہ کہ مراعات اور اعزازات قائم رہیں اور دوسرے جائز جنسی خواہش کی تکمیل کیلئے کسی سے ایگریمنٹ بھی ہوسکتا ہے۔ جب مردوں کیلئے بہت ساری خواتین سے ایگریمنٹ کے جواز کیلئے منہ میں پانی آجاتاہے تو عورت کو ایک ایگریمنٹ کی اجازت کیوں بم لگتا ہے؟۔ ناداں! پھر ایگریمنٹ کس سے ہوگا؟۔ اگر کفار کی خواتین کو لونڈی اور مردوں کو جہاد کے ذریعے غلام بنانے کا تصور ہو تو پھر یہ خواتین خود پرقابو کرنے دیںگی یا نہیں؟ لیکن کافرغلام تمہاری خواتین کی عزتوں کو تار تار کرسکتے ہیں۔ کلبھوشن اور ابھی نندن کو گھر میں غلام بنانے کی ہمت کس میںتھی؟۔ غزوہ بدر میں 70 کفار قیدی پکڑے گئے مگر کسی کو بھی غلام نہیں بنایا گیا۔ نادان کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر نبیۖ نے صحابہ کرام کیلئے ایگریمنٹ کو جائز رکھا تو وہ متعہ زنا تھا اور اگر ابوسفیان اور اس کی بیگم کو پکڑ کر غلام اور لونڈی بنادیا جاتا تو وہ شرعی تھا؟۔
اگر جاگیردانہ نظام ختم کیا جاتا تو کارل مارکس کو قدر زاید کی بنیاد پر انقلاب کی ضرورت نہ پڑتی اور ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلامی کے نظام پر پابندی لگائی تھی لیکن اس سے بہت پہلے بنوامیہ وبنوعباس اور خلافت عثمانیہ دنیا میں غلامی کا نظام ختم کرچکے ہوتے۔سدھے ہوئے غلام اور لونڈی بنانے کا ذریعہ جنگ کا نظام نہیں ہوسکتا تھا بلکہ دنیامیںجاگیردارانہ نظام ہی اس کا واحد ذریعہ تھا۔ جب امریکہ نے افغانستان ، عراق اور لییبا کو تخت وتاراج کیا تو کسی کو غلام نہیں بنایا اور نہ کسی کو لونڈی بنایا ۔ البتہ مردوں کو قتل اور خواتین کی عزتیں لوٹ لیں۔
امریکہ وروس کی سپر طاقتیں اسلامی نظام کے مفقود ہونے کی وجہ سے آئی ہیں۔ اسلام نے سودی نظام اور جاگیردارانہ اور غلام ولونڈی میں ملکیت کا تصور بالکل کالعدم کردیا تھا جس سے دنیا میں آزادی اور خوشحالی کا ماحول بن سکتا تھا۔ عالمی قوتوں کے ذہن میں اسلام کا درست نقشہ پیش کرنا ہوگا تاکہ اپنی حکمت عملی سے وہ ہمارے ریاستی اداروں اور دہشتگردوں کے درمیان معصوم عوام کو ظلم کی بدترین چکیوں میں پیسنے کیلئے نہیں ڈالیں۔یہ اغیار کی سازش کے نتائج ہیں۔
ایک شخص کی دیت 100اُونٹ ہے اور ایک عضو ء کی قیمت آدھی دیت ہے۔ یہ غلط بات نہیں کہ جس دیانتدار ہاتھ کی قیمت 50اونٹ تھی جب خیانت کا مرتکب ہوا تو 10روپے ، 4آنے اور ایک ٹیڈی کی چوری پر خائن ہاتھ کٹے۔ فقہاء نے لکھ دیا کہ جس امام کے نزدیک جتنی رقم پر چور کا ہاتھ کٹتاہے ،اتنی قیمت میں شوہر بیوی کے ایک عضوء کا مالک بنتاہے۔ اس سے زیادہ عورت کی تذلیل کیا ہوسکتی ہے؟۔ حالانکہ حق مہر کا مقصد عورت کو تحفظ دینا ہے۔ اس گھٹیا خیال سے عورت کی جتنی تذلیل ہے، کوئی مہذب معاشرہ اس کا تصور بھی کرسکتا ہے؟۔ نبی کریمۖ نے بے سہارا عورت کا حق مہر لوہے کی انگوٹھی نہ ہونے پر قرآنی سورتوں کی تعلیم اسلئے رکھا کہ اسکے پاس کچھ تھا نہیں۔ البتہ اس کا ایک گھر تھا جو بیشک خالی تھا مگروہ طلاق دیتا تو گھر عورت کیلئے چھوڑنا پڑتااور اگر عورت خلع لیتی تو عورت کو گھر چھوڑنا پڑتا۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ شوہر طلاق دے سکتا ہے لیکن اس صورت میں گھر اور تمام منقولہ وغیرمنقولہ دی ہوئی اشیاء کو واپس نہیں لے سکتا اوروسعت کے مطابق حق مہر اسکے علاوہ ہے۔

تفصیل نمبر2:پاکستانیوں اور افغانیوں کاایکدوسرے سے شکوہ ہوگا ۔ ہندوستان اور پاکستان روایتی دشمن ہیں ۔ جب پاکستانی نماز پڑھتے ہیں تو دائیں طرف افغانستان ،ایران، روس سے آزاد ممالک کی طرف منہ کرکے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بھیجتے ہیں اور بائیں طرف منہ کرکے ہندوستان وغیرہ پر بھیجتے ہیں۔ بیت المقدس کے ارد گرد کو اللہ نے برکت والا قرار دیا ہے۔
بقیہ… ہندوستان کے ہندو اور افغانستان قوم پرست
مسلمان دورِ اول سے تیمور لنگ، مغل بادشاہوں اور خاندانِ غلامان تک جتنے انواع واقسام نے ہندوستان، ایران ، افغانستان اور پاکستان پر حکمرانی کی ہے تو سارے ممالک کو اسلام کے نام پر مسلم حکمرانوں سے ناراضگی ہوسکتی ہے۔ معروف کالم نویس اور اچھے خطیب سینئر صحافی حسن نثار نے کہا کہ ” سندھ پر محمد بن قاسم سے پہلے دو مرتبہ حملہ ہوچکا تھا جو ناکام رہاہے۔ یہ تیسری مرتبہ کا حملہ تھا۔ کسی عورت کی شکایت پر سندھ فتح کرنے کی بات یونہی کہانی ہے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ بنوامیہ کے مظالم سے اہل بیت کے جتنے افراد کو سندھ میں پناہ ملی تھی ،ان کو شہید کرنے کی غرض سے سندھ فتح کیا گیا ”۔ اس رائے میں کتنا وزن ہے ؟۔ مشرکینِ مکہ نے حبشہ کی ہجرت کے بعد مسلمانوں کا تعاقب کیا تھا لیکن عیسائی بادشاہ نجاشی نے مسلمانوں کو حوالہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ جب خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ نے اقتدار پر قبضہ کیا تو معاملہ نظریات کی لڑائی کی جگہ خاندانوں میں منتقل ہوگیا۔ پھر بنوعباس نے بنوامیہ کا تیا پانچا کیا اور آج عراق وشام کے درمیان ایک ایسا یزیدی فرقہ ہے جس میں اسلام سمیت دوسرے مذاہب کا مکسچر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یزید کے ماننے والے اس طرح کی شکل میں آگئے اور بعض کہتے ہیں کہ ایرانی مذہب یزداں کی طرف یہ منسوب ہیں۔ بہرحال جس مذہب کی بھی یہ باقیات ہیں وہ اپنی شکل رکھتے ہیں۔
اس خطے میں ہندوستان کو چھوڑ کر ایران، افغانستان، پاکستان مسلم ممالک ہیں اور سبھی کو مسلم حکمرانوں سے دور وقریب کے زمانے میں بڑی شکایات ہیں۔ اگرایران کے بادشاہ یزد گرد کی صاحبزادی محترمہ شہر بانوامام حسین کی بیگم بنائی گئی تھی تو بھی فاتح ایران حضرت عمر فاروق اعظم سے ایران کے لوگوں کی ایک قومی نفرت بھی ہوسکتی ہے۔ آج اگر کسی کٹر اہل تشیع حکمران کے بارے میں بھی یہ تصور کیا جائے کہ سعودی عرب اس پر زبردستی قبضہ کرلے اور اس کی بیٹی کو امامِ زمانہ کی بیگم ایک لونڈی کی طرح بنائے تو اس کی قومی غیرت جاگے گی اور اسلام کی یہ فتح بھی اس کیلئے قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ سندھ کے قوم پرست اور اسلام کو دل سے چاہنے والے بھی بنوامیہ کے حجاج بن یوسف ظالم سے نفرت اور سید قوم سے محبت رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی یاد میں جوکانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں تحریک انصاف کے رہنما سینئروکیل حامدخان نے بڑے سخت الزامات دہشت گردی کے حوالے سے بلوچستان کی عدالتی تحقیقات میں لگائے تھے۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے نام پر ن لیگ، تحریک انصاف، ایاز پلیجو، منظور پشتین وغیرہ کا ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کرنا شاید مقتدر حلقوں کو نہیں بھایاتھا۔ ایازپلیجو نے سندھ کی مظلوم ، شریف اور مہذب عوام کا مقدمہ بہت خوبی کیساتھ پیش کیا لیکن ایک شخصیت کا نام بھول گئے۔ شاہ عنایت شہید جو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے خلیفہ تھے۔ جس نے اپنے ہزاروں مریدوں کیساتھ یہ نعرہ لگایا تھا کہ ”جو فصل بوئے گا وہی کاٹے گا”۔ اور پھر ان کو اپنے ہزاروں مریدوں کیساتھ شہید کردیاگیا تھا۔ اگر اس عظیم شخصیت کی تحریک کامیاب ہوجاتی تو پھرکارل مارکس کو دنیا میں ایک نیا انقلابی نظریہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سندھ کی تاریخ کو ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی بڑے اچھے الفاظ میں پیش کیا ہے۔
آج ایرانی انقلاب کے خلاف 40سال بعد اپنی عوام مظاہرے کررہی ہے اور اس کا انجام کہاں تک پہنچے گا؟۔یہ کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ طالبان کے جنرل مبین نے بھی درست کہا تھا کہ جب تک عوام میں مقبولیت حاصل نہیں ہوتو افغانستان میں کسی کیلئے بھی حکومت کرنا ممکن نہیں ہے۔ افغان قوم پرستوں کوہی شاید اطمینان دلانے کیلئے جنرل مبین پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف سخت بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن صدر نجیب اللہ کی شہادت اور آپس کی جنگ وجدل کا کیا جواب دیںگے؟۔ یہ شاید بہت پیچیدہ قسم کے معاملات ہیں۔ ہندوستان کو بھی مسلمانوں سے بہت گلے شکوئے ہوسکتے ہیں اسلئے کہ اورنگزیب بادشاہ نے بھی اپنے بھائیوں کو قتل اور باپ کو قید کرکے اقتدار حاصل کیا تھا۔ باقیوں کی جن عیاشیوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ بھی تاریخی اعتبار سے ایک بڑا معمہ رہاہے۔ حکمرانوں کی تاریخ اور ان کے کردار پر تبصرے کرنے سے بہتر ہے کہ اس خطے میں ان اسلامی احکام کو زندہ کیا جائے جس کی وجہ سے اس خطے میں اچھے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور ایک بہت بڑے مثبت انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔
عیسائیوں میں مذہبی طلاق کی گنجائش نہیں تھی جس کی وجہ سے مرد عورت کو ایک بڑے عذاب کا سامنا تھا۔ آخرکار اسلام کی برکت سے انسانی حقوق بحال ہوگئے۔جو عوامی اور حکومتی سطح پر پوری دنیا نے قبول کئے ہیں۔ ہندو عورت کو ستی کیا جاتا تھا یعنی شوہر کی وفات کے بعد زندہ جلادیا جاتا تھا۔ انگریز نے زبردستی سے اپنے اقتدار میں اس کا خاتمہ کردیا۔ برصغیر پاک وہند میں حنفی مسلک والوں کی اکثریت تھی۔ جب کسی عورت کا شوہر گم ہوجاتا تھا تو اس کو80سال انتظار کا شرعی حکم تھا۔ ایک عورت نے مرتد ہوکر اسلام سے بغاوت کردی تو امام مالک کے مسلک پر 4سال انتظار کے بعد عورت کو شادی کی اجازت دی گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے حیلہ ناجزہ میں لکھاہے کہ ” اگر شوہر نے بیوی کو تین طلاق دیں اور پھر مکر گیا تو بیوی اس کیلئے حرام ہوگی۔لیکن بیوی کو جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیںگے اور گواہ نہ ہوئے تو خلع لے اور شوہر خلع نہ دے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ بس جماع کرتے ہوئے لذت نہ اٹھائے”۔ یہ صرف اس کتاب کا مسئلہ نہیں بلکہ آج بھی یہ فتوے جاری ہیں۔ کیا اس سے بدترین ظلم عورت پر ہوسکتاہے؟۔ ہمارے فقہاء یہودونصاریٰ کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ۔
جب عورت کو قرآن کے مطابق حق مہر سے تحفظ ملے گا، اس کو خلع کا حق مل جائے گا اور اس کو شریعت کے مطابق اختیار دیا جائے گا تو وہ اسلام کے دین پر بہت خوش ہوگی۔ ایک ایرانی نژاد امریکن خاتون نے اسلام میں عورت کے حق پر کتاب لکھ کر تہلکہ مچادیا ہے۔ ایک واقعہ لکھا ہے کہ ” مرد نے عورت سے شادی کی اور اسکے پیچھے کی راہ سے جماع کی لت تھی تو عورت کی جنسی تسکین نہیں ہوتی تھی ،جس کی وجہ سے اس نے خلع کا مطالبہ کیا۔ وہ خلع پر راضی نہیں تھا تو حق مہر سے زیادہ رقم دیکر خلع دینے پر راضی کیا”۔ اگر عورت کو تحفظ ملنے کے بجائے مرد کو نکاح کے بعد بلیک میلنگ کے بدترین قانونی راستے بھی مل جائیں تو پھر اس شریعت کی مقبولیت کیسے ہوسکتی ہے؟۔ اگر شیرشاہ سوری جیسے بڑے مخلص ڈاکٹر یہ رائے رکھتے ہیں کہ عورت کیلئے کم عمری میں شادی کرنے کے بعد مسائل پیدا ہوتے ہیں تو اس سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔مگر جب قرآنی آیت کی غلط تفسیر ، صحابہ اور بعض ائمہ مجتہدین کی رائے یہ ہو کہ شوہر عورت سے پیچھے کی طرف سے اپنی خواہش پوری کرسکتا ہے اور عورت کی مرضی کو عمل دخل نہ ہو توپھر عورت کس طرح اپنا جسم اپنی مرضی کی تحریک نہیں چلائے گی؟۔ احادیث اور تاریخ کی صحیح معلومات سے یہ ثابت ہے کہ اماںعائشہ کی عمر رخصتی کے وقت 19 سال تھی۔ لیکن جو علماء 9سال مانتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ 9سال میں بچی بالغ بن جاتی ہے تو بھی ان کی بڑی مہربانی ہے کہ بلوغت تک صبر کرنے کا معاملہ رکھتے ہیں لیکن پھر اس کا کیا جواب ہوگا کہ سارے ائمہ مجتہدین کی طرف منسوب ہے کہ بلوغت سے پہلے بچپن میں بھی بچی کی شادی ہوسکتی ہے اور باقاعدہ مسئلے مسائل میں اس بات کا ذکر ہے کہ ”جب بچی ثیبہ اور نابالغہ ہو”۔ جس کا مطلب ایسی چھوٹی بچی جس کیساتھ بلوغت سے پہلے جماع کی کاروائی کی گئی ہو۔ پھر اس پر مسالک ہیں کہ بالغ ہونے پر وہ بچی اپنا نکاح توڑ نے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں؟۔ اس پر بھی معروف اختلافی مسالک کے بڑے تضادات ہیں۔ بعض تو ثیبہ بچی کو طلاق کے بعد اپنی مرضی کا مالک بتاتے ہیں اور بعض ثیبہ بچی کو طلاق کے بعد اپنی مرضی کا مالک نہیں بلکہ ولی کی اجازت کا محتاج سمجھتے ہیں۔ بعض پھر بلوغت کے بعد بچی کو بھاگنے کاا ختیار دیتے ہیں اور بعض بیوہ وطلاق شدہ کو بھی نکاح میں ولی کی اجازت کا پابند سمجھتے ہیں اور کسی کے نزدیک عورت کا کسی بھی حالت میں کوئی اختیار نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے قانونی شادی کا تصور اسلئے رکھا ہے کہ طلاق کے بعد جائیداد برابر برابر تقسیم ہوجاتی ہے جبکہ ہمارے تو عورت اور مرد نانی نانا اور دادی دادا بننے کے بعد بھی بے نامی جائیداد کے مالک ہوتے ہیں اور شادی پر اس کا کوئی قانونی اثر بھی نہیں پڑتاہے۔ اسلام کے حقیقی قوانین جب اس خطے میں بن جائیں گے تو ایران، افغانستان اور پاکستان نہیں بلکہ ہندوستان پر بھی اس کے بڑے انقلابی اثرات پڑیںگے۔ کوئی لڑکا لڑکی اگر15سال یا19سال کے بعد شادی کرتے ہیں تو ملک کے قانون سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑتاہے۔ عورت 10بچے جن لے تب بھی اس کو گھر سے نکالا جاسکتا ہے اور اسکے بچے بھی چھن سکتے ہیں۔ ملک کے قوانین، معاشرتی اقدار اور شرعی مسائل عورت کو کسی قسم کا تحفظ نہیں دیتے بلکہ ایک سے ایک بدتر انداز میںجکڑلیتے ہیں۔ عدالت سے خلع مل جائے تو مولوی نہیں مانتااور مولوی بھی مان جائے تو ہمارے معاشرتی اقدار عورت کی ملکیت کو برقرار رکھتے ہیں۔
جب اصلی شادی میں عورت مرد کو نکاح کے فوائد نہیں ملتے ہیں توپھر سینیٹر مشتاق خان کو ٹرانس جینڈر بل سے کیوں یہ خطرہ اور خدشہ ہے کہ اس کا فائدہ اٹھاکر عورت اور مرد اپنی جنس بدل دیں گے اور مرد مرد اور عورت عورت سے شادی کرنے کی حماقت کریںگے؟۔ اقتدار کی منزل تک پہنچنے کیلئے ہتھکنڈہ استعمال کرنا الگ چیز ہے جو بنوامیہ اور بنوعباس کے اقتدار سے بھی بدتر ہے۔ جو مولانا مودودی خلافت وملوکیت میں حضرت امیر معاویہ کے اقتدار کی مخالفت کرتا تھااس کی جماعت اسلامی ڈکٹیٹر شپ کا بغل بچہ بن کر کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے؟۔ معذرت کیساتھ جب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے طرز حکمرانی پر مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” حضرت ابوبکر کے دور میں نبیۖ کے عمل سے کوئی اختلاف نہیں تھا اور حضرت عمر کے دور میں مال کی تقسیم میں طبقات پیدا کئے گئے ” تو پھر حضرت عمر اور حضرت معاویہ کے اقتدار میں کیا فرق رہتاہے اور یزید کے دور میں بھی بس کربلا کے شہداء کا واقعہ پیش نہ آتا تو مسئلہ نہیں تھا۔
یوں بچوں کے قتل سے بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
آج کے دور میں مدارس نے جس طرح فرقہ پرست عناصر پیدا کئے ہیں تو اس کی وجہ سے ایک ہی فرقہ والے اپنے ہی فرقہ والے سے پریشان ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے سے ماحول اور تاریخی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے نفرت کی فضاء قائم کی جارہی ہے۔ دعوت اسلامی کے مولانا الیاس قادری نے ربیع الاول میں راستے بند کرنے اور راتوں کو دیر تک جاگنے سے منع کردیا تو لوگوں کے دل و دماغ میں بات آئی کہ اپنی دوکان چل گئی تو اب دوسروں کی چلنے نہیں دیتے ہیں اور اگر دوکانداری کی بات نہ ہوتی تو اسلام کے درست احکام زندہ کئے جاتے۔

تفصیل نمبر3:محسود قوم نے افغان امریکہ جنگ میں قربانیاں دیں۔ پاکستان کو بھی محسود قوم سے مشکلات کا سامنا کرناپڑا۔ محسود قوم کو بھی بدترین تاریخی تذلیل کا سامنا کرنا پڑا ۔ آج پھرمحسود قوم چاروں طرف سے مشکلات میں پھنسی ہے۔
تاریخ نے قوموں کے وہ دور بھی دیکھے ہیں لمحوں نے خطاء کی ہے صدیوں نے سزاپائی
آج اگر محسود قوم نے صحیح فیصلہ نہ کیا توبڑی سزا کھا سکتی ہے۔
طالبان کی آمد کے تذکرے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی نالائق اسٹیبلشمنٹ نے محسود قوم کو بالخصوص اور تمام اقوام کو بالعموم فائدے کی جگہ بہت نقصانات پہنچائے ہیں۔ ہمارا تو پہلا مطالبہ یہی ہوگا کہ بنگلہ دیش کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہاں بڑے رینکوں کی بھرمار نہیں تو یہاں بھی ڈیزائن مختصر کرکے ریاست کا عوام پر بوجھ کم کیا جائے۔ مذہبی جماعتیں ،سیاستدان دہشت گرد بھی ان کی اپنی پیداوار ہیں۔ اپنے مفادات کی وجہ سے ملک وقوم کا بیڑہ غرق کرنے کے بجائے سیدھے طریقے سے اسلامی حقوق کا معاملہ جمہوری انداز میں حل کیا جائے اور ملک وقوم اور پاکستان کو انتہائی زوال سے بچایا جائے۔
محسود قوم کا نامزد نمائندہ گل ساخان شہید پہلے کہتا تھا کہ وزیرستان میں کوئی چور اور ڈاکو نہیں چھوڑوں گا۔ واقعی کچھ کام کرکے بھی دکھایا لیکن جب ہوا زیادہ بھرگئی تو پھر وہ بات بھی نہیں رہی اسلئے کہ قوم کا تعاون حاصل نہیں رہا اور آہستہ آہستہ عوام اور مختلف لوگوں کا اعتماد بھی قائم نہیں رہا تھا۔طالبان کا غوغا اٹھا تو وہ کہتا تھا کہ ایک امریکہ کو نہیں چھوڑتا اور دوسرا بیٹنی قوم کونہیں چھوڑتا۔پھر طالبان نے اپنا اقتدار قائم کیا تومحسود قوم طالبان کی دلدادہ بن گئی۔ جب مشکلات پیش آگئی ہیں اور بہت کچھ تجربات کرلئے تو آج خوف کے عالم میں کہتے ہیں کہ ہم طالبان اور فوج کسی سے بھی جنگ نہیں چاہتے ،بس امن چاہتے ہیں۔
جب یہ یقین ہے کہ طالبان اور فوج کی لڑائی میں ہمارا بہت برا حشر ہوگیا ہے اور ہم دونوں کا کچھ نہیں بگاڑسکتے ہیں۔ فوج سے امن قائم کرنے کا مطالبہ ہے لیکن طالبان کی بھی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ہیں تو اس معاملے کو کون اپنے انجام کو پہنچائے گا؟۔ حکیم پاک فوج ہے اور اس کے لونڈے طالبان ہیں لیکن اسی حکیم کے لونڈے سے دوا مانگ رہے ہیں جسکے سبب بیمار ہوگئے؟۔
وانا کے وزیر وں کی تاریخ الگ ہے۔ ازبک کو جگہ دی اور پھر لڑائی ہوئی تو اپنے قومی طالبان اور فوج کی مدد سے ازبک کو بھگادیا تھا اور آج ایک ہی پیج پر پاک فوج، طالبان اور وزیر قوم کے مشران کھڑے ہیں۔ شہزاد وزیر نے بہت مخلصانہ انداز میں بات کی ہے لیکن نتیجہ اس کا یہی نکلتا ہے کہ محسود قوم بھی وزیر کا راستہ اپنالے۔ طالبان اور فوج امن کی رٹ قائم کریں اور قوم اس کے آگے اپنا سر خم کردیں۔ الیکشن میں PTMکے سپوٹروں کو ووٹ مل جائے۔ لیکن محسود قوم کے حالات مختلف ہیں۔ جہاں طالبان نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کیا اور قوم کے افراد کو قتل کیا اور فوج کے جوانوں کو قتل کیا ہے۔ اسلئے اعتماد کی فضاء قائم کرنا بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ پہلے بھی بے شناخت طالبان کی طرف سے ان کو خطرات کا سامنا تھا اور آج بھی اس لشکر سے خوفزدہ ہیں لیکن منظقی اور اچھے انجام کی طرف بات پہنچے گی۔ پہلے قوم کی حمایت طالبان کو حاصل تھی ۔ آج عوام ان سے نفرت کرتی ہے۔ پہلے وزیرستان سے لاہور ، پنڈی اور کراچی تک جنگ کا میدان تھا۔ اب محسود طالبان کے سرکردہ امیر، لیڈروں اور کارکنوں کی پہچان ہے۔ طالبان سے عوام کو تکلیف پہنچے تو سخت ردعمل کا سامنا کرینگے۔
بادشاہی خان محسودنے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ان جرگوں میں آنا جانا کافی عرصے سے چھوڑ دیا تھا۔ یہاں پر ہماری فوج اور طالبان سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ پہلے امریکہ کی وجہ سے جب علماء نے جہاد کا فتویٰ دیا تو ہم نے قبول کیا لیکن اب امریکہ گیا ہے اور ہماری عوام مشکلات کی زندگی گزار رہی ہے۔ فوج، پولیس، طالبان، سلنڈر سب کے سب بندوق بردار ہیںمگر عوام مظلوم ہے۔ ہر طبقہ اس پر آنکھیں نکالتا ہے۔ اس کا ایک علاج یہ ہے کہ ہم علاقہ چھوڑ دیں اور دوسرا یہ ہے کہ عوام بھی بندوق اٹھالیں۔ علماء سے بھی رہنمائی لینی ہے کہ اب کس کیخلاف جہاد کا حکم ہے اور کون شہید ہے؟۔
عالم زیب خان محسود نے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کسی کو قتل کیا جاتا تھا تو قاتل اپنا نام اور قتل کی وجہ بتاتا۔ لیکن جب کسی لشکر کی طرف سے کوئی قتل کیا جائے تو قاتل نامعلوم ہوتا ہے۔ ہم مذاکرات کیخلاف نہیں تھے مگر جس صورتحال کا آج ہم سامنا کررہے ہیں ہمارے یہی خدشات تھے۔
PTMکے صدر رحمت شاہ محسود نے اپنے بیانات میں جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن ، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ،بلدیاتی منتخب ارکان اور کچہری کے قبائلی عمائدین کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے کہ یہ لوگ قوم کے مسائل کا حل نہیں نکالتے بلکہ اپنے مفادات اٹھارہے ہیں۔ کیا یہ مسائل کا حل ہے؟۔
وزیرستان کی تاریخ میں محسود قوم کی سب سے بڑی خوبی کسی اتفاق رائے سے قومی فیصلہ کرنا ہے۔ جس دن محسود قوم نے جماعتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کرلیا تو دنیا کی کوئی قوت ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی ہے۔ پہلے یہ باہمی مشاورت سے سب کو بولنے کا موقع دیتے ہیں اور پھر کسی ایک فیصلے پر پہنچ جاتے ہیں۔ آج ان میں مختلف شخصیات کی طرف سے انفرادی رائے میں خالی دوسروں سے اختلاف کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے۔
گل سا خان کو کراچی سے بلایا گیا تھا۔ پھر ڈکیتی کا ماحول قومی اتفاق رائے سے ختم ہوگیا۔ اگر قوم طالبان کے امیر مفتی نور ولی محسود کو کھڈے کھانچے سے بھی نکال کر امن کیلئے اپنا قائد نامزد کردے تو اس کو سیدھا چلنا پڑیگا۔ اگر محسود علاقے کو قوم نے چھوڑ کر دہشت گردوں کے حوالے کردیا تو نہ صرف محسود قوم بلکہ پورے خطے کو اسکے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے کہا تھا کہ ”اب مذہبی طبقے کا پشتون قوم پر کوئی اثر نہیں رہا ہے۔ لسانی تعصبات کو استعمال کرکے قربانی لی جائے گی۔ محسود علاقہ عالمی دہشت گردوں کا گڑھ بنایا جائیگا”۔ حکومت ، ریاست اور محسود قوم کو مشترکہ طور پر ایک اچھا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ورنہ مفادات کی سیاست چلتی رہے گی اور قوم مرتی رہے گی۔ جنوبی وزیرستان اسلام کے درست احکام سے پوری دنیا کیلئے ریاست مدینہ کی طرح نمونہ بن سکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv