پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کو اسلام کی قوت بچاسکتی ہے۔

turabul-haq-yousuf-ludhyanvi-shujaat-ali-qadri-janaza(2)

(مدرسہ نعیمیہ میں علامہ سید سعادت علی قادری اپنے بھائی سید شجاعت علی قادری کی میت کے انتظار میں (فروری 1993): بائیں سے مولانا ابرار احمد رحمانی ،علامہ شاہ تراب الحق قادری اور مولانا یوسف لدھیانوی ، علامہ سید سعادت علی قادری کے ساتھ۔ )

(نوٹ : یہ تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے جو آپ مندرجہ ذیل لنک پر چیک کرسکتے ہیں۔ )

https://en.wikipedia.org/wiki/File:Ulema_Janaza_Procession_Syed_Shujaat_Ali_Qadri.jpg

http://en.academic.ru/dic.nsf/enwiki/11775228
مولانا یوسف لدھیانویؒ اور علامہ شاہ تراب الحق قادریؒ کی تصویر حکومت اور عوام کی طرف سے شاہراہوں پر آویزاں کرنے کے لائق ہے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ نہ تو مولانا لدھیانویؒ بریلوی مکتب کو مشرک سمجھ کر ’’جہاں پالو قتل کردو‘‘ کا فتویٰ دیتے تھے اور نہ ہی علامہ تراب الحق قادریؒ دیوبندی کو گستاخ سمجھ کر انکے قتل کا فتویٰ دیتے تھے۔ کہاوت ہے کہ ہاتھی زندہ ہوتا ہے تو لاکھ کا ہوتاہے اور مرتاہے تو سوا لاکھ کا بن جاتاہے۔خوبی خامیاں سب میں ہوتی ہیں لیکن ان خفیہ گوشوں سے نقاب اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے قوم کا شعور بڑھ جائے۔

Attaur_Rehman_SissiPaleejo(2)

( بین الاصوبائی وزراء سیاحت اجلاس کے موقع پر وفاقی وزیر سیاحت مولانا عطاء الرحمن ، وزیر سیاحت آزاد کشمیر طاہر کھوکھر، وزیر سیاحت سندھ سسی پلیجو )

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان ؒ کا تعلق ملاعمرؒ کے شہر قندھار سے تھا۔ کسی سے نظرئیے اور عمل کا اختلاف نہ ہوتا تو عشرہ مبشرہ کے صحابہؓ نے بھی ایک دوسرے کو قتل نہ کیا ہوتا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے سیاسی اور جہادی لشکر کی قیادت فرمائی۔ آج مولانا الیاسؓ کی دعوت وتبلیغ نے مساجد کو رونق بخشی ہے اور مولانا الیاس قادری کی دعوت اسلامی نے مساجد کو نمازیوں سے بھرنے کی خدمت انجام دی۔ اللہ کرے کہ یہی لوگ مکہ مکرمہ کی طرح ساری عوام کو روزانہ مساجد میں لانے کے سنت طریقے کو اپنائیں ،خواتین اور بچے بھی باجماعت نماز میں آئیں۔

bukhari-ahmad-raza-molana-ilyaas(دائیں سے بائیں: اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ ، بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاسؒ اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ )

بھرچونڈی شریف دیوبندی بریلوی مکاتبِ فکر کے اکابرین ؒ کا مشترکہ مرکز تھا۔جس طرح سے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ مسجد نبویﷺ وکعبہ میں کون بیٹھا ہے، صلح حدیبیہ کے شرائط پر بھی زیارت کیلئے جاتے ہیں اس طرح تاریخی انقلابی مراکز کی اہمیت کو برقرار رکھناتھا، اگرعلامہ شاہ تراب الحق قادریؒ اور مولانا یوسف لدھیانویؒ بھرچونڈی شریف، امروٹ شریف، ہالیجی شریف اور خانپور شریف اکٹھے جایا کرتے تو دونوں فرقوں میں انتشارو افتراق کی کیفیت کے بجائے اتحادو اتفاق اور وحدت کا راستہ ہموار ہوجاتااور یہ آج کے دور میں ہوسکتاہے۔

Pir-Saien-Abdul-Khaliq-Bharchundi-sharif(پیر سائیں عبد الخالق سجادہ نشین بھرچونڈی شریف، ڈھرکی سندھ۔ ہماری جماعت پہلے گئی تھی ،سائیں نے خوشی کا اظہار فرماکر تعاون کا یقین دلایاتھا۔)

ہم نے پاکستان میں بہت علماء ومشائخ سے ملاقات کرکے اتحاد واتفاق اور وحدت کے جذبے کو تقویت دینے کی کوشش کی۔ عالمی مجلس ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا خان محمد کندیاں شریف نے فرمایا کہ اگر مولانا فضل الرحمن کو ساتھ کردیا تو بہت جلد کامیابی مل جائے گی مگر ہم نے کہا کہ نہیں وہ ملنا بھی چاہیں تو ہم نہیں ملائیں گے جس پر وہ زیادہ خوش ہوکر داد اور دعائیں دینے لگے۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی پیشکش تھی کہ ہمارے مدرسے کو اپنا مرکز بنالو، ہم نے معذرت کرلی کہ اپنی اجنبیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، جس پر بہت خوش ہوئے فرمایا کہ تمہاری پیشانی میں خلافت کی کامیابی کی جھلک دیکھ رہا ہوں۔ بیرشریف لاڑکانہ جمعیت علماء اسلام کے سابقہ امیر اور مولانا مراد ہالیجویؒ منزل گاہ سکھر بھی بہت تائید کرتے تھے۔ دیوبندی،بریلوی ، اہلحدیث اور شیعہ علماء کرام نے بڑے پیمانے پر ہماری تائیدکی لیکن ہم مشکل کا شکار ہوکر اس طرح سے چل نہ سکے۔ آج ہماری ریاست بھی فرقہ واریت ختم کرنا چاہتی ہے ۔ پاکستان کو اسلام کی قوت بچاسکتی ہے۔

Nawaz-Sharif-with-Afghan-War-Lords-hikmat-yaar(گلبدین حکمت یار اور نوازشریف کے درمیان کون صاحب ہیں؟۔ تاریخ کا ایک منظر، اب حالات بدل گئے ہیں یا کچھ نہیں بدلا ہے؟۔)

ہم نے اسلام کے نام پر پاکستان بنایا، اسلام کے نام پر امریکہ کی جنگ لڑی اور اسلام کے نام پر فرقہ واریت کو پروان چڑھایا، اسلام کے نام پر ایک مخصوص کاز کی وکالت کرکے ہماری مذہبی جماعتوں کو بہت زبردست پذیرائی مل گئی۔ اب اپنے مفادات کے خول سے نکل کریہ قربانی دینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان سے اسلامی نظام کے قیام کا عمل آئے۔ اسلام کی ایسی امامت کرنے سے گریز کرنا ہوگا کہ استنجاء بھی نہیں کیا ہو۔ سب سے پہلے خود احتسابی کرکے اپنی کمزوری کو دور کرنا ہوگا۔ اسلام ایک فطری دین ہے جس پر نہ صرف مسلم اُمہ بلکہ کفر کی دنیا بھی متفق ہوسکتی ہے۔ پاکستان میثاق مدینہ کے طرز پر وجود میں آیا تھا۔ نبیﷺ نے یہود، نصاریٰ، مشرکین اور منافقین سے معاہدہ کیا تھا کہ شہر اور علاقے کے تمام باشندوں کی جانوں اور عزتوں کی حفاظت مشترکہ ذمہ دار ی ہے۔ اس معاہدے کو دنیا کی کوئی طاقت بھی ایک وقتی سازش نہیں قرار دے سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کا وجود تو بہت بعد میں آیا ہے۔ نبیﷺ نے نبوت سے قبل مکہ میں جس حلف الفضول کو سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب قرار دیا، اس میں اسلام سے پہلے ہر مظلوم کی داد رسی تھی۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت سے عرب میں ایک نئے انقلاب کا آغاز ہورہاہے ، اگر ہم نے فرصت کے ان لمحات سے فائدہ اٹھایا تو ناراض طالبان ، بلوچ ، مہاجر، سندھی، پٹھان کے علاوہ افغانستان اور ایران بھی قریب آجائیں گے اور بنگلہ دیش بھی الحاق کا اعلان کردیگا۔ کشمیروفلسطین کو بھی ظلم سے نجات مل جائے گی۔

پاک فوج اور صحافت کے درمیان سرد جنگ اور اسکے نتائج کا متوازن جائزہ

پی ٹی وی کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی بڑے لاہوری ہیں، لاہور کو عروس البلاد کہا جاتاتھااور اب تختِ لاہورکی شہرت ہے، جہاں دربار ہوتاہے وہاں درباری بھی ہوتے ہیں، خصائل کیساتھ رذائل بھی ہوتے ہیں، پنجاب سے پاکستان میں سورج طلوع ہوتا ہے ، نمازکاقبلہ مغرب مگر سیاسی قبلہ ہمارامشرق میں واقع ہے، ہندوستان میں ایک بریلوی شہروہ تھاجو علم ودانش اور فکر وانقلاب کا مرکز تھا تو دوسرا الٹا بانس بریلی تھا، شاہ ولی اللہ ؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید ؒ کے مرشد سید بریلویؒ کا تعلق معروف شہر بریلی سے تھا جہاں کے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتابیں عربی ممالک کی عربی نصاب میں داخل ہیں۔ الٹے بانس بریلی سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاں بریلویؒ کا تعلق تھا۔
ہندوستان کے مشہور مذہبی دریا کے بارے میں الٹا گنگا بہنے کی کہاوت ہے، علامہ اقبالؒ نے ’’پنجابی مسلمان‘‘ کے عنوان سے لکھا کہ تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا۔ یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد، ہو کھیل مریدی کا تو ہرتاہے بہت جلد۔ کافی عرصہ ہوا کہ پنجاب کی زمین بانجھ ہوگئی ، عطاء الحق قاسمی کیساتھ صحافی حامد میر جس انداز میں گفتگو کررہے تھے کہ کیا تحقیق کا واقعی کوئی مسئلہ نہیں جو بھونک دیا، سو بھونک دیا۔ حقائق کو ردی کی ٹوکری کی طرح آگ کے شعلے میں جھونک دیا، بس سردی میں گرمی حاصل کرنے کی جو رِیت چلی ہے کوئی نہیں پوچھتا کہ حقیقت میں کیا بیت چلی ہے؟۔میر شکیل الرحمٰن نے کہا کہ ’’ حامد میر حکومت گراسکتاہے‘‘یہ بول مہنگا پڑا۔
حامد میر نے مہمان کی حیثیت سے لاہورمیں عطاء الحق قاسمی کی میزبانی میں محفل جمائی تھی۔ عقیدت ومحبت کے سارے رنگوں کو لٹیرے کی طرح تاریخ پر نقب لگاکر لوٹا جارہاتھا۔ حامد میر نے فوج کیخلاف قربانیوں کے تمغے گنوانا شروع کئے۔ پہلا کارنامہ یہ بتایا کہ ’’سندھ میں فوج کے تشدد پر ڈرامے کیلئے مجھے فوجی کا کردار دیا گیا، طالب علم تھا، میں نے فوجی کا کردار پر سچ مچ میں زور دار طریقے سے ڈنڈا برسانا شروع کیا تو خاتون چیخ پڑی کہ یہ کیا کررہے ہو؟۔ میں نے جواب دیا کہ اس طرح سے لوگوں کو پتہ چل جائیگا کہ فوج عوام پر کتنا تشدد کرتی ہے‘‘۔ حامد میر کی رام کہانی سن کر مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو یاد آیا ہوگا کہ نوازشریف معافی مانگ کر سعودیہ سے پہلے فوج کا تشدد برداشت کررہے تھے تو واقعی حامد میر نے ڈرامے میں اچھا کیاکہ فوجی تشدد کو اس ادا سے اجاگر کیا کہ اس کو سن کو مریم نواز کی طرف سے شاباش کی ٹویٹ بھی ضرورآئی ہوگی۔
دانیال عزیز ، طلال چوہدری اور پریزمشرف کے دور کے بعد لیگ کا شرف حاصل کرنیوالے رہنما ؤں اور کارکنوں میں بھی ذہنی پختگی آئی ہوگی کہ اب کے بار ظالم فوج کا ساتھ نہیں دیناہے اور اگر کوئی طعنے پر اتر آیا کہ مشرف کا ساتھ دیاتھا تو غم کی بات نہیں ضیاء سے لیکر اشفاق کیانی تک ن لیگ کی قیادت روح کی طرح ڈھانچے میں رہی ہے بس غلطی ہوئی تھی جو خواب کی طرح سعودیہ کی طرف رختِ سفر باندھا ،پھر وہ دور گزر گیا۔ حامد میر یہ کہتے تو ٹھیک ہوتا کہ پہلے میں بھی اس طرح کی ذہنیت رکھتا تھا، فوج کو بدنام کرنیوالے سندھی ڈرامے بازوں کو میں نے سچ مچ انتقام کا نشانہ بنایا۔ فوج کے بڑے باغی مولانا فضل الرحمن کو بھی GHQکی دہلیز پر لانے کے کارنامے میرے نامہ اعمال میں ہیں۔ روزنامہ اوصاف کا ایڈیٹر تھا تو ریکارڈ پر بھی لایا، پھر روزنامہ جنگ میں بھرتی ہوا تو ہندوستان سے ’’ایک آنٹی‘‘ کی کہانی لایا، جو اخبار کی زینت بنی، آنٹی نے اللہ کا واسطہ دیکر کہا کہ میری کوکھ سے ہندوؤں نے اپنے بچے جنوالئے، اللہ کا واسطہ دیتی ہوں کہ مجاہدین کے ذریعے میرا انتقام ضرور لینا۔ روزنامہ جنگ میں یہ کہانی چھپنے سے پہلے میں نے مفتی شامزئی کے حوالہ سے روزنامہ اوصاف کے اداریہ میں لکھا تھا کہ مجاہد تنظیمیں واشنگٹن سے رابطۂ عالمِ اسلامی مکہ مکرمہ کے ذریعے رقم تقسیم کرکے علماء کو خرید تی ہیں، پھر منظرنامہ بدلا ۔ اجمل قصاب نے ’’آنٹی‘‘ کا بدلہ لینے کیلئے بھارت کے اوپر زبردست حملہ کردیا۔ جیو ٹی چینل کو بھارت سے امن کی آشا کے نام پر خطیر رقم مل گئی۔ کیمرے کی آنکھ نے پنجاب کی سرزمین سے جیو کی اسکرین پردکھا دیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے تھا اور باقاعدہ یہ بھی دکھا دیا کہ خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ عوام کو روک رہے تھے اور صحافت کی نمائندگی کرنیوالے بہت بہادری سے اسکرین پر نشاندہی بھی کررہے تھے۔
کسی پر ایجنٹ کے الزامات لگانے کیلئے عدالت میں ثبوت دینا پڑتاہے، زرداری کی کرپشن کو ٹی وی چینلوں نے بہت اجاگر کیا لیکن 11سال جیل کاٹنے کے باوجود ثابت نہیں کرسکے، نواز شریف کی پانامہ لیکس من وسلویٰ کی طرح قوم پر نازل ہوئی لیکن ملکہ سبا کے تخت کی طرح قطر سے شہزادے کا خط بھی بڑی تیزی سے سامنے آگیا۔ اے آر وائی کو لندن میں نشریات بند کرنی پڑگئی۔ الزامات لگانے سے کام نہیں بنتا۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کیخلاف گواہی دینے والوں کو جان کے لالے پڑگئے تھے۔طاقتوروں پر الزام تراشی کی حوصلہ شکنی ہر دور میں ہوتی رہی ہے لیکن اس دور کا یہ اعزاز ہے کہ سچ نام کی کوئی چیز جھوٹ کی بہتات میں نظر نہیں آتی ہے، جمہوریت اور صحافت نے قوم کی اُمنگ بن کر قوم کے اچھے عزائم کو بھی شکست خوردہ بنادیاہے۔ پہلے حبیب جالب کی طرح کے لوگ ہردور میں عتاب کا نشانہ بنتے تھے ،اب رقم سے خدمات دستیاب ہیں۔ ہر ایک اُلو عقاب بنا پھرتا ہے۔اگر علامہ اقبال کا شاہین نایاب ہے تو اس منصب کیلئے اُلو کیوں بے تاب ہے؟۔
جب حامد میر کو گولیاں لگی تھیں تو بہت افسوس ہوا،اور کیوں نہ ہوتا کہ کسی درخت سے کوئی ہری بھری شاخ کٹے ، نبیﷺ نے حرم کیلئے حکم جاری فرمایا کہ کوئی درخت اور جنگلی گھاس بھی نہ کاٹے۔ آکسیجن زندگی کیلئے ضروری اور زندگی حلقہ احباب کی زینت ہے، زندگی اجڑے تو ماحول اجڑجاتا ہے ، قرآن نے ایک جان کے قتل کو کسی جان یا فساد کے بغیر پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ جب فرقہ واریت کو پروان چڑھایا جارہاتھا تو میں نے اگست2003ء کو جنگ فورم میں آواز اٹھائی تھی جسکو سپرٹ کیساتھ جگہ نہ ملی سکی ، رضا ربانی کی طرف سے یاد ماضی کے عذاب کو اجاگر کرنا حماقت ہے ، اگر دستخط سے انکارکرتے تو اسکی گردن کی چٹیہ سرکی چوٹی کا تاج بن کر ابھرتا۔فوج ملک کیلئے امید کی کرن ہے ، ڈان نیوز میں بھی مظلوم کی داد رسی نہ ہوسکی ۔ لوہا لوہے کو کاٹتاہے۔ کہا جاتاہے کہ ’’کلہاڑی میں درخت کا دستہ نہ ہوتا تو درخت نہ کٹتا‘‘،سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
ہمارا گھر طالبان نے اجاڑ دیا ،اگر ہمارے گھر سے انکو ایندھن نہ ملتا تو ہمارا گھر نہ جلتا۔فوج نے ماضی میں جو کیااس کی سزابھی خود بھگت لی لیکن اب جب فوج بدل گئی ہے تو اس پر رکیک حملے کرنے میں ملک وقوم کی تباہی ہے۔ حکومت اور صحافت کا فوج کیخلاف ایک گٹھ جوڑ نظر آتاہے۔

جمہوریت کی ناک چیئر مین سینٹ رضا ربانی

پہلی مرتبہ فوجی عدالتوں کا پارلیمنٹ سے توثیق کا معاملہ آیا تو پیپلزپارٹی رہنما سینٹر رضاربانی کی بھرائی ہوئی آواز کو بہت مقبولیت کا درجہ حاصل ہوا۔یہ مگر مچھ کے آنسو نہ تھے کہ رضا ربانی نے روتے ہوئے کہا کہ ’’میں پارٹی کی امانت سمجھ کر فوجی عدالت کے قیام کو ووٹ دے رہا ہوں‘‘۔ سینٹر رضا ربانی اپنی مقبول آواز کے ذریعے سے ہماری لولی لنگڑی، بہری اندھی اور موروثی گندی جمہوریت کی ناک بن گئے۔ قوم کو رضا ربانی پر بہت پیار آیا، ان کی عزت دوبالا ہوگئی۔ چیئرمین سینٹ کیلئے انکے نام کو ہی تقریباً بلامقابلہ پذیرائی مل گئی۔ جنرل راحیل شریف نے دفاعی تقریب کی رونمائی میں اپنے ساتھ بٹھاکر نمایاں حیثیت سے نوازنے میں بالکل بخل سے کام نہیں لیا۔
سینٹر رضاربانی ایک باکرداراور ایماندار شخصیت ہیں، نواز شریف نے سعیدالزمان صدیقی کو زرداری کے مقابلہ میں صدارتی امیدوار نامزد کیا ، اگر نوازشریف رفیق تارڑ کے بعد ممنون حسین کو صدر بنوانے کے بجائے محترم رضا ربانی کو صدر بنانے کیلئے نامزد کردیتے تو پاکستان میں جمہوری قدروں کو بہت تقویت مل جاتی۔ اگر پیپلزپارٹی پرویزمشرف کے دور میں جمالی اور شوکت عزیز کو موقع دینے کے بجائے متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنانے میں کردار ادا کرتی تو بھی جمہوریت کو استحکام ملتا، اسلئے کہ مولانا فضل الرحمن مشرف کے مقابلے میں پھر نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کا بھی وزیراعظم بنتا ، جس نے دونوں پارٹی کے قائدین کو جلاوطنی پر مجبور کیا تھا۔ جب ن لیگ وعمران خان نے پیپلزپارٹی اورپرویز مشرف کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا تو کتنا اچھا ہوتا کہ پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مولانا فضل الرحمن بھی نوازلیگ اور عمران خان کا ہی ساتھ دیتے؟۔کیا سیاسی کردار ہر دور میں جمہوریت کی ناک کٹوانے ہی کانام نہیں رہاہے؟۔
سینٹر رضاربانی نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میری بزدلی تھی یا کوئی لالچ مگر فوجی عدالت کیلئے میرا ووٹ دینا میری غلطی تھی ، اب اس غلطی کو نہیں دہراؤں گا۔ اگر چیئرمین سینٹ رضا ربانی اعتراف کرلیں کہ بزدلی کا تو سوال ہی ختم ہوگیا ہے اور یہ کنفرم ہے کہ مجھے پہلے بھی اور آج بھی عہدے کی لالچ نے مجبور کیا کہ میں فوجی عدالت کے حق میں اپنا کردار اداکروں۔ تو بہت ہی بہتر ہوگا۔ جب پہلے رضاربانی ایک ووٹ نہ بھی دیتے تو فرق نہیں پڑتا تھا، جاوید ہاشمی نے بھی پرویز مشرف کے ہاتھوں حلف اٹھانے سے انکار کیا ۔ ہاشمی کی قیادت ضیاء نواز تھی ، رضا ربانی جمہوریت کی ناک مگر کٹ گئی ۔ مولانا فضل الرحمٰن اقتدار کیلئے زرداری کاساتھ نہ دیتے ،نوازشریف و عمران خان کے احسان کا بدلہ اتارتے تو اقتدار کی جوتی نہیں جمہوریت کے تاجدار بنتے،شرم و حیاء کھوگئی ہے،اب پنجاب کے شیروں سے پختونخواہ کے چوہوں کی بات میں جوش اور ہوش سے بات آگئے نکل گئی۔

زنا و چوری کی سزا (منکرات)

مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں کہ منکرات اور جرائم کس مصیبت کا نام ہے۔ معروف میں اختلاف اور معروف کا نہ کرنا جرم سمجھا جانے لگاہے۔ جب یہ کہا جائے کہ زنا، قتل، رشوت، شراب، جواء، شرک اور تمام جرائم سے بڑا جرم نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ فون کی گھنٹیوں پر یہ پیغام عام ہو، کسی عالم دین، صحافی، میڈیا اور حکمران کو اسکے خلاف بات کرنے کی بھی جرأت نہ ہو تو اس سے زیادہ امت کا زوال کیا ہوسکتاہے؟۔ سیون شریف میں دھمال کرنے والے نمازی نہیں تھے تو اچھا ہوا کہ ان کو اس جرم کی سزا مل گئی؟۔ اکثریت نماز نہیں پڑھتی تو دہشت گرد صحیح کررہے ہیں کہ خود کش حملوں سے اڑا تے ہیں۔ اکثر میڈیا چینلوں پر جس شخصیت کو سب سے مقبول اور معتبر بناکر پیش کیا جارہاہے اگر اس کی آواز میں لوگوں کو مژدہ سنایا جائے تو رشوت ، سود، قتل، زنا، زنابالجبر اورہر طرح کے جرائم میں ملوث لوگ صرف نماز پڑھ کر بری الذمہ ہونگے؟۔ قرآن و سنت میں زنا بالجر اور قتل کی سزا قتل اور سنگساری ہے۔ زنا کی سزا 100کوڑے، بہتان کی سزا80کوڑے ہیں۔ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ بے نمازی کی سزانہیں۔
مولانا طارق جمیل عوام کے سامنے خطاب کریں کہ صحابہ کرامؓ نے اپنے خلاف گواہی دیکر سنگساری کی سزا کھائی۔ کسی نے زنا بالجبر کا ارتکاب کیاتوخود کو سنگساری کیلئے پیش کرکے دنیا میں صاف ہوکر قبر میں جائے۔ زنا کی سزا100کوڑے ہیں ،کچھ عرصہ گھر سے غائب ہونا گناہ کی تلافی نہیں بلکہ کوڑے لگنے سے قرآن میں بیان کردہ اللہ کے حکموں پر عمل ہوگا۔ یہ جھوٹی رٹ ہوگی کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی اور غیروں کے حکموں میں ناکامی کا یقین دلوں آجائے مگر جو لوگ زنا بالجبر ، زنا، قتل ، بہتان اور چوری کی سزائیں معاشرے میں رائج کرنا چاہتے ہوں ان کیخلاف غلط پروپیگنڈہ کیا جائے ۔ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ چوری کرو تو چلہ لگاؤ، زنا کرو،بہتان لگاؤ تو چار ماہ لگاؤ اور قتل کرو توسال لگاؤ اور زنابالجبر کرو تو ڈیڑھ سال لگاؤ۔ طالبان کے دور میں تبلیغی اجتماع ہوا کرتا تھا تو طالبان جنگ بندی کا اعلان کرتے۔ کچھ لوگ اپنے اوپر شرعی حدود نافذ کرنے کیلئے خود کو پیش کردیتے تو اسلام کا دنیا میں ڈنکا بج جاتا۔ جرائم پیشہ عناصر طالبان کا لبادہ اوڑھ لیں یا تبلیغی جماعت کا، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تبلیغی جماعت میں علماء کو بھی چھ نمبر سے باہر نکلنے نہیں دیا جاتا تو اللہ کے وہ احکام جو جرائم کے حوالہ سے قرآن میں ذکر ہیں ان پر عمل در آمد کیلئے ماحول کیسے بنے گا؟۔ تبلیغی جماعت میں سونے جیسے لوگوں کی کمی نہیں ۔
تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے رہنما اور کارکن بہت ساری الجھنوں میں پڑنے کے بجائے چیدہ چیدہ معروف احکام اور منکرات و جرائم کی سزائیں سکھا کر ماحول بنائیں تاکہ لوگ قرآن کی ان آیات سے آگاہ ہوں جن میں جرائم کی سزاؤں کا ذکر ہے۔ اگر لوگ صرف ان لوگوں کے طریقۂ کار سے راہِ راست پر آسکتے تھے تو پھر قرآن میں جرائم اور ان کی سزاؤں کے احکام کیوں ہوتے؟۔ اللہ کی طرف سے یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو عقیدت اور محبت ہے ، ان کیلئے قرآن کے احکام کا پیغام بہت مقبولیت کا باعث بنے گا۔ مذہبی سیاسی لوگوں میں بھی بہت قیمتی شخصیات ہیں اور اگر وہ قرآن کے احکام کامنشور عام کردیں، لوگوں میں شعور بیدار کریں، مظلوموں کی مدد کا جذبہ پیدا کریں تو مذہبی طبقات کے آپس میں ٹوٹے ہوئے دل جڑ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت قرآن سے محبت رکھتی ہے لیکن انکے پاس علم اور شعور نہیں ۔فرقہ وارانہ جذبے اور تعصب سے فائدہ اٹھانا اسلام نہیں۔ قرآن و سنت سے قریب کرنے کا طرزِ عمل روزِ محشرنبیﷺ کے سامنے سرخرو کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی یہ شکایت پہلے سے لکھ دی کہ رب ان قومی اتخذوا ھٰذا القران مھجورا ’’ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا‘‘۔ علماء دیوبند انگریز کیخلاف لڑ رہے تھے تو مولانا الیاسؒ نے اخلاص کیساتھ تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھ دی۔ جس طرح قرآن پڑھنے کیلئے نورانی قاعدے کو مقبولیت ملی لیکن قائدہ پڑھنے کو ہی منزل سمجھ لینا بڑی جہالت ہے۔ تبلیغی یہی کررہے ہیں۔
جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتیں کسی مخصوص فکر کو ترجیح دینے کے بجائے قرآن و سنت کو مساجد سے زندہ کرنا شروع کریں تو مذہب کے نام پر فتنہ وفساد ، اختلاف وانتشار، جھگڑے اور خلفشار کا خاتمہ ہوسکتاہے۔ جماعت اسلامی پہلے کئی رتبہ بڑے بحرانوں سے گزر چکی ہے، جمعیت علماء اسلام اور جمعیت علماء پاکستان کی دھڑی بندیاں بھی مخفی نہیں۔ تبلیغی جماعت کے مرکز بستی نظام الدین میں اختلاف جنگ میں بدل رہاہے۔ حاجی عبدالوہاب اور مولانا الیاسؒ کے پوتے مولانا سعد تبلیغی جماعت کے مرکزی شوریٰ کے دس ارکان میں آخری بچے ہیں جن میں انتشار کا آغاز ہوا ہے۔

توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم (منکرات)

مولانا منیراحمد قادری نے بریلوی مفتی سے فتویٰ لیکر نعلین مبارک کے نقش کو قرآن کی گستاخی قرار دیکرمسجد سے ہٹوایادیا۔ علامہ تراب الحق قادریؒ دوسروں کو گستاخ کہتے رہے۔ ایک مفتی نے علامہؒ پر توہینِ رسالت کا فتویٰ لگایا کہ نبیﷺ کیلئے داماد کا لفظ استعمال کیاہے اگر ہم فتوے کی جان نہ نکالتے تو تراب الحق قادری کو قتل کردیاجاتا۔ بخاری میں ہے کہ نبیﷺ کو دیکھا تو صحابہؓ نے جوتے اتار ے۔ نبیﷺ نے نماز کے بعد فرمایا کہ مجھے یاد آیا گند لگا تھا ، تم نے کیوں اُتارے؟۔ عرب جوتے سمیت نماز پڑھتے ہیں، نبی ﷺ نے معراج میں جوتے نہ اُتارے، قرآن میں ہے کہ موسیٰ ؑ کوکوہِ طور پر واخلع نعلیکجوتے اتارنے کا حکم ملا۔ نعل کا معنیٰ جوتا ہے، جیسے گھوڑے کا نعل ۔ اللہ نے زبان میں بدنیتی کا لحاظ رکھا، راعنا کے بجائے انظرنا کا حکم دیا ، راعی چرواہا اگرچہ برا لفظ نہیں، انبیاء کرامؓ نے جانور چرائے ہیں، نبی ﷺ نے فرمایا :کلکم راعی وکلکم مسؤل عن رعتہ ’’تم میں ہر ایک راعی ہے اور اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائیگا‘‘۔ رعیت زیادہ ہو توراعی معزز ہوگا۔ مذہبی طبقے نے الفاظ میں ادب کا لحاظ نہ کرنے پر اللہ کی سنت کا حق ادا کیا مگر غلو سے بچیں، ورنہ لفظِ نعلین پر گستاخی کا فتویٰ لگے گا۔ بریلوی نے دیوبندی کو اور دیوبندی نے جماعتِ اسلامی کو گستاخ قرار دیا تھا۔
اصل نعلین عرش جانے پر فخر ہو اور نقش ہو تو مسجد میں گستاخی؟۔ ایک فرقے کا ایک طبقہ مسجد بھردے اور دوسرا گستاخی قرار دے ؟۔ ایک صحابیؓ کی انگوٹھی کے نگینہ میں شیر کی تصویر تھی۔ رسول ﷺ کی رحمۃ للعالمینی کا تقاضہ ہے کہ دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکالا جائے ، مولانا طارق جمیل کی غلط بات کو تحفظ دینے کیلئے معتقدجان کی بازی لگانے کی ہمت نہیں رکھتے ورنہ قتل کرتے۔ غازی علم دینؒ اور ممتازی قادریؒ نے جان کی بازی لگانے کی جرأت کرلی۔ جج اپنے حکم سے انحراف کو گستاخی قرار دے مگر نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ حدیث قرطاس توانسانیت کو عروج کی منزل پر پہنچائے ۔
سلمان حیدر کا اغواء ایشوبنا، ڈاکٹر عامرلیاقت نے کہا کہ انڈیا میں ہے۔فوج نے کہا کہ ہم نے نہیں اٹھایا۔خبر آئی کہ اغواء کے بعد ویپ سائٹ پرپوسٹ لگائی گئی۔ اورمقبول جان نے کہا کہ سلمان حیدر کے ملوث ہونے کا نہیں کہہ سکتا، گھر پہنچا تو چوہدری نثار نے تحفظ دیا۔ بھاگاتو جج نے ایشو اٹھایا، یہ سوچا سمجھا منصوبہ نہ ہوکہ ’’ خبریں لگاگر بیرون ملک سیاسی پناہ لی جائے؟‘‘۔ دیکھنا پڑیگا کہ کسی پر غلط الزام لگاکر قتل نہ کیا جائے اور کوئی اس کا سیاسی فائدہ نہ اٹھائے ۔جب الطاف حسین کا غلغلہ تھا تو اس کی گستاخی پر کارکن اور بڑے رہنما بہت سیخ پا ہوتے۔سیاسی و مذہبی قیادتوں پر بھی جذبہ دکھتاہے۔یہ ہمارے ایمان کے علاوہ ماحول کی غیرت بھی ہے کہ نبیﷺ کی ادنیٰ گستاخی برداشت نہ کریں۔ ایک آدمی بیوی کیساتھ کسی کو دیکھ لے تو قرآن میں قانونی تحفظ اور لعان کا حکم ہے مگر مسلمان غیرت کھاکر اللہ کا قانون نہیں مانتا اور قتل کردیتاہے، اسکی تشہیر نہیں کرتا، ا سے گالی سمجھ کر مٹی ڈالتاہے۔ مجنون کا پیغام آتا تولیلیٰ دودھ بھیج دیتی، شک ہواتوچھری اور پیلٹ بھیجی کہ جسم کا گوشت چاہیے،کہنے لگاکہ میں دودھ پینے والامجنون ہوں ، گوشت والا وہ ہے، اصلی مجنون نے مختلف حصوں کا گوشت کاٹ کردیا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو دودھ پینے والا مجنون کوئی نہ تھا ، عاشقانِ رسول ﷺ کی کثرت تھی مگر قتل کی جرأت نہ کی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت، اوریا مقبول، مولانا فضل الرحمن اور مولانا الیاس قادری اگر عاصمہ جہانگیر، فرزانہ باری، ماروی سرمد، طاہرہ عبداللہ کو قتل کرکے خود پھانسی چڑھ گئے تو کوئی خواب وخیال میں بھی توہین کی جرأت نہ کریگا اوراگردودھ پینے والے مجنونوں کی سیاست ختم ہوگئی توبھی توہین رسالت کا باب بند ہوجائیگا۔ طائف کے بازار میں نبیﷺ نے پتھر کھائے۔ اللہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان سے غریب و بے بس طبقے کی عزتوں کو تحفظ دیدیا۔ مرزاغلام احمد قادیانی، غلام احمد پرویز اور دودھ پینے والے مجنونوں نے اسلام کے جسم سے روح نکال کر دنیا میں توہینِ رسالت کیلئے راہیں ہموار کردیں۔

زنا بالجبر (منکرات)

موت کا منظر کتاب میں ’’زنا بالجر کی سزا‘‘ کے عنوان سے وائل ابن حجرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے خاتون نے شکایت کی تو نبیﷺ نے اس شخص کو سنگسار کا حکم دیا ۔ ابوداؤدکی اس روایت کی تائید انسانی فطرت اور قرآن کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ اللہ نے مسلم خواتین کو حکم دیا کہ گھروں سے نکلیں تو شریفانہ لباس پہن لیں تاکہ پہچانی جائیں اور کوئی اذیت نہ دے۔ یہ عناصر مدینہ میں نہیں رہیں گے مگر کم عرصہ ، پہلے بھی ایسے لوگ تھے جنکے بارے میں یہ سنت رہی ہے کہ اینما ثقفوا فقتلوا تقتیلا ’’جہاں بھی پائے گئے تو قتل کردئیے گئے‘‘۔ سینٹ میں امسال ان خواتین کی رپورٹ پیش کی گئی جن سے زبردستی زیادتی کی گئی 2936کیس تو صرف پنجاب کے تھے۔ سندھ وغیرہ کی تعداد انکے علاوہ ہے۔ بہت بڑی بات یہ ہے کہ میڈیا پر خبر نشر ہوئی کہ سندھ رینجرز کو ایک خاتون نے مدد کیلئے پکارا، جس کا تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا۔ اس کو زبردستی اغوا کرکے بیچا جارہا تھا، جسکے پیچھے پورا گینگ تھا جن کا یہ دھندہ تھا۔ افسوس ہے کہ ایک دن سیاسی شخصیت میڈیا پر ببانگ دہل کہہ رہی تھی کہ فوجی عدالتوں میں صرف دہشتگردوں کیخلاف سماعت ہوئی ، اغواء وغیرہ کے چھوٹے معاملے فوجی عدالت کے حوالے نہیں کئے گئے، حالانکہ سب سے زیادہ سزا کے مستحق زبردستی سے عزتوں کے لٹیرے و اغواء کارہیں۔
کوئی غیرتمند انسان یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کی ماں ، بیٹی، بیوی اور بہن پر کوئی جبری ہاتھ ڈالے، اس کی عزت کوتار تار کردے۔ ہمارے اصحابِ حل و عقد کو کیا ہوگیا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کیساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں اور ان پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ سیاسی لیڈر حکومت کرنے کے بعد ایسے واقعات کو روکنے پر وجہ نہیں دیتے تب بھی کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں؟، تحریکِ انصاف انقلاب کی بات کرتی ہے لیکن اسکے جلسے میں لڑکیوں کو بدقماش لڑکے بھمبھوڑ لیتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کو بھی کنچے مارنے میں شرم محسوس نہیں کی جاتی۔ عمران خان کہہ دیتے کہ جنہیں ہیرو سمجھتا تھا وہ تو ہیرہ منڈی کی پیداوار نکلے جو اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں تو سخت پیغام جاتا۔ لوگوں کی غیرت جاگ جاتی۔ امریکہ میں بھی خواتین سے بیہودہ حرکت کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی لوگ انسانی ضمیروں کو جگانے اور مذہبی طبقات عوام میں اسلامی روح پھونکنے میں ناکام ہیں۔ معاشرے میں جبری جنسی زیادتیوں کے خلاف کوئی بھی غم و غصہ کا اظہار نہیں کرتاہے لیکن کسی مذہبی اور سیاسی رہنما کے بارے میں سخت لہجہ استعمال ہوجائے تو ان کی ساری رگیں پھڑک اٹھتی ہیں، یہ رویہ ہم نے بدلنا ہوگا۔ رسولﷺ نے فتح مکہ کے وقت کسی کو لونڈی اور غلام نہیں بنایا۔ متعہ کی اجازت دی۔ ایک مذہبی انسان کی یہ سوچ کتنی گھناؤنی ہوگی کہ ابوسفیانؓ اور امیر معاویہؓ کی بیگمات کو لونڈی بنانا ٹھیک سمجھے اور ابوجہل وابولہب کی بیواؤں سے متعہ کی اجازت کو زنا قرار دیا جائے؟۔ ایک مولوی اور نبیﷺ کے اسلام میں فرق ہے۔ نبیﷺ نے آل فرعون کی طرح بنی اسرائیل کی خواتین کو لونڈی نہیں بناناتھا۔ قرآن میں لونڈی کی شادی کرانے کا حکم ہے۔ گورنر سندھ زبیر صاحب کی یہ بات غلط ہے کہ جنرل راحیل شریف ایک عام آدمی تھا ، نوازشریف کی وجہ سے کراچی میں امن قائم ہوا ہے۔ اگر پاک فوج کے ذمہ لگایا جائے تو پنجاب میں جبری جنسی تشدد کا خاتمہ ہوگا۔ سندھ رینجرز نے بس میں ایک عورت کی آواز پر مدد کی ، ایک گینگ خواتین کو پختونخواہ سے اغواء کرکے بیچتا تھا، جمہوری حکومت میں غیرت ہوتی تو خبر سے عوام کو آگاہ کیا جاتا۔ جب ن لیگ کے رہنماؤں نے الطاف حسین کیخلاف صرف زبان کھولی تھی تو ایم کیوایم والوں نے خاندان کی خواتین کو استعمال کرکے سعودیہ میں پناہ کا الزام لگایا گیا، اب مراد سعید پر ن لیگ کے رہنماؤں نے سنگین الزام لگاکر اپنا بھڑوا بچہ قرار دیا۔سلیم بخاری نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھڑوے بیٹھے ہیں جس کی وسعت اللہ خان نے بھی خبرلی تھی۔

قصاص (منکرات)

اگر سوٹا لیکر کسی کوبال بچوں سمیت ایک مرتبہ گھر میں گھس کر پیٹ ڈالاجائے ، تو ان کو اندازہ لگ جائے کہ دہشتگردوں نے جنکے گھروں میں قتل وغارت کا بازار گرم کیا، اصل منکر وہی ہے، نماز نہ پڑھنا زنا، رشوت، قتل، شرک سے بڑا جرم نہیں۔وینا ملک، عامرخان اور دہشگردی کے ماحول کو سپورٹ کرنا غلط ہے۔ ہم پر آفت پڑی تو یقین ہوگیا کہ خلافت قائم ہوگی لیکن انکے ساتھ ایسا ہو تو شاید اسلام بھی چھوڑدیں۔یزید نے خود حسینؓ ، آپؓ کے کنبہ کے افراد اور ساتھیوں کو شہید نہ کیا، اس وقت گلوبٹ کا پولیس کی جھرمٹ میں گاڑیوں کے شیشے توڑنے کا منظر بھی نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ یزید ی لشکر کا سپاہ سالار حضرت حرؒ اپنے لشکر کو چھوڑ کر حضرت حسینؓ کیساتھ ملا تھا۔ اگر یزید ان کارندوں کو سزا دیتا تو تاریخ میں اتنی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ، یزید سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی رہنماؤں کا حال بھی موجودہ دور کے حکمران رہنماؤں سے مختلف نہیں تھا۔ حالانکہ یزید اور اسکے ساتھی قبروں میں بلبلا رہے ہونگے کہ کہاں ماڈل ٹاؤن لاہور کا میڈیا کے دور میں یہ واقعہ اور کہاں اس دور کے حالات؟۔ دہشت گرد مخالفین کو مارتے تھے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کہا کرتے تھے کہ ’’پنجاب میں حملہ نہیں کرنا چاہیے ، ہم آپ کیساتھ ہیں‘‘۔ دہشت گردوں کے حامی مذہبی لبادے والی بدترین بیکار مخلوق ابھی ہے۔
فوجی عدالت کی اسلئے ضرورت پیش آئی کہ دہشتگرد کو عام عدالتوں سے سزا نہیں ملتی تھی۔ قرآن کا یہ قانون دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان میں ان جرائم کی شرح بالکل زیرو ہوگی۔ اسلئے کہ قتل کے بدلے قتل کی سزا انصاف کا عین تقاضہ ہے۔ قتل کے بدلے میں پچیس سال قید کی سزا، ریاست، جیل، اس شخص، اسکے خاندان اور اسکے دشمنوں سے بھی زیادتی ہے۔ بعض قاتل خود کو قانون کے حوالہ کردیتے ہیں۔ لواحقین و مخالفین دونوں کیلئے اس کا خود کو قانون کے حوالہ کرنا اسلئے اذیت کا باعث بنتاہے کہ لوئر کورٹ، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک دھکے کھانا ، بھاری بھرکم رقم خرچ کرنا اور پیشیوں پر رسک لینا ایک لامتناہی آزمائش ہے۔ طالبان بنانے میں پیپلزپارٹی رہنما فرحت اللہ بابر کے بھائی نصیر اللہ بابر کے کردار کا سب کو پتہ ہے۔ طالبان پاکستان بھی پرویز مشرف نے عالمی قوتوں سے مل کر بنانے کا انکشاف کیا ۔ اگر طالبان اسلام کی سمجھ رکھتے اور اسلامی قوانین کو نافذ کردیتے تو پاکستان نہیں دنیا میں ان کا خیر مقدم کیا جاتا۔ طالبان نے اسلام کے نفاذ میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور پختون روایات کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی دہشتگردوں اور امریکہ کو سپورٹ کرنے کے معاملے پر پھر لڑ رہے ہیں۔ اگر فوجی عدالت کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں کیا جاتا تو یورپ کے دباؤ میں سزائے موت کا قانون بھی ختم ہوتا اور بڑے دہشتگردوں سے ڈیل کرتے یا سکیورٹی کا خرچہ کرکے خود کو بچانے کی کوشش کرتے اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جاتا۔
مشکوٰۃ شریف میں ایک خاتون کا دونوں ہاتھوں اور پیروں سے ناچنے کا ذکرہے ، اکابر صحابہؓ نے بھی مظاہرہ دیکھا ، رسول اللہﷺ بھی دیکھنے کھڑے ہوگئے۔ طرزِنبوت کی خلافت میں جبر کا ماحول نہیں ہوگا۔ کوئی انسان بھی اپنی بیوی سے زیادہ کسی بات پر غیرت نہیں کھا سکتا مگر اسلام نے 14 سو سال پہلے یہ قانون نازل کیا کہ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل نہیں کرسکتے۔ لعان کی آیات میں میاں بیوی کا ایکدوسرے کا جھوٹا کہنے کے کلمات کا طریقہ ہے۔ حضرت عویمرعجلانیؓ نے بیوی کیخلاف گواہی دی اور بیوی نے اپنے خاندان کی ناک بچانے کیلئے اسکو جھٹلایا۔ اسلام کسی کی غیرت کو بھی خراب نہیں کرتا، جو قتل کرے تو اسکو بدلے میں قتل سے بھی نہیں کترانا چاہیے۔ غیرت کے نام پر کسی کو قتل کرکے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے سے بڑی بے غیرتی کوئی نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے۔ کسی کو ناک کاٹنے پر ناک کاٹنے کی سزا دی جائے تو زندگی بھر نشے میں بھی اس ماحول کا کوئی فرد یہ جرم نہیں کرسکے گا۔ انصاف کیلئے بے چینی ختم ہو تو دہشتگردی ختم ہوجائیگی۔

حج (معروفات)

حج و عمرہ دلچسپ موضوع ہے کہ خلفاء راشدینؓ کے اختلاف کی ہماری کتابوں میں وضاحت ہے۔ مشرکین مکہ دورِ جاہلیت میں سمجھتے تھے کہ حج کے زمانہ میں عمرہ کرنا جائز نہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک حج کیا جس میں عمرہ کا احرام بھی ساتھ باندھ لیا۔ حضرت عمرؓ نے سمجھا کہ لوگ اس کو سنت سمجھ کر افضل کا یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ پابندی لگائی کہ حج کیساتھ عمرے کا احرام نہ باندھا جائے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ نماز کی سنتوں کے بعد اندرون سندھ، بلوچستان، پختونخواہ ، افغانستان اور دیگر علاقوں میں بعض دیوبندی اجتماعی دعا مباح سمجھ کر کرتے اور بعض بدعت سمجھ کر مخالفت کرتے ۔ کانیگرم جنوبی کانیگرم کے علماء نے نمازکی سنتوں کے بعد دعا نہ کرنے پر ایک پنج پیری عالم دین پر قادیانیت کے فتوے تک لگادئیے ۔ رسول اللہﷺ سے ایک وفد ملنے آیا،بڑی مونچھ اور داڑھی مونڈھ کر خوفناک چہرے والوں سے نبیﷺ نے پوچھا کہ تم نے چہروں کو کیوں مسخ کیاہے ؟، تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے دین کا یہ حکم ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ہمارے دین نے ہمیں مونچھ کم رکھنے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ‘‘۔ حدیث کا مطلب ان کو غلط طرزِ عمل سے آگاہ کرنا تھا۔ حضرت عمرؓ اس کو اچھی طرح سمجھتے تھے اسلئے اپنی بڑی مونچھ کو دین کے خلاف نہ سمجھا ۔ عربی مقولہ ہے الناس علی دین ملوکہم عوام الناس اپنے حکمرانوں کا طرزِ عمل اپناتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی وجہ سے بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں ، سرداروں اور علماء کرام کے ہاں بڑی مونچھ کی روایت پڑگئی تھی، ٹیپو سلطانؒ ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، علامہ اقبال وغیرہ کی تصایر عام ہیں۔ اگر حضرت علیؓ کی مستحکم حکومت قائم ہوتی تو پھر بہت پہلے سے سر منڈھانے کی روایت مسلمان حکمران ، علماء اور عوام الناس میں پڑ جاتی۔ اسلئے کہ حضرت علیؓ کے متعلق ہے کہ داڑھی چھوٹی اور سر کو مونڈھواتے تھے۔ بہر حال حج وعمرہ ایک ساتھ کے حوالہ سے حنفی مسلک کا جمہور سے اختلاف تھا۔ بخاری میں حضرت عثمانؓ کا روکنے اور حضرت علیؓ کا اعلانیہ مخالفت کا واقعہ ہے۔
حضرت عمرؓ کا ذہن تقلیدی نہیں اجتہادی تھا، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انکے کردار کو قرآن وسنت کیخلاف انحراف اور سازش قرار دیا جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کا ذہن بھی اجتہادی تھا اسلئے وہ حضرت عمرؓ کی تقلید پر زور دینے کے بجائے جس راہ کو حق اور ٹھیک سمجھتے تھے اسی کو اختیار کرلیتے ۔ جب حنفی مکتب کی طرف سے ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے دلائل دئیے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کیخلاف شیعہ اور حنفیوں میں کوئی فرق نہیں ۔ حضرت ابن عمرؓ سے کہا گیا کہ تمہارے والدؓ ایک ساتھ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کے مخالف تھے تو کہنے لگے کہ اپنے باپ کو نبیﷺ کی جگہ رسول تو نہیں مانتا۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا تھا کہ مجھے ڈر ہے کہ تم پر پتھر نہ برس جائیں کہ میں کہتا ہوں کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ کیا اور تم حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کا حوالہ دیتے ہو۔ صحیح مسلم میں حضرت عمران بن حصینؓ کے حوالہ سے تقیہ اختیار کرنے کا ذکر ہے اسلئے کہ وہ اس مؤقف پر ڈٹے تھے کہ حج و عمرہ کا احرام ایک ساتھ سنت اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ حکم ہے۔ بنی امیہ کے حکمران ضحاک نے ایک ساتھ حج وعمرے کو زبردست جہالت قرار دیا تو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے سمجھایا کہ ہم نے نبیﷺ کیساتھ ایک ساتھ حج و عمرے کا احرام باندھا ۔ حج و عمرہ پر اختلاف کی شدت خلوص کا مظہر تھامگریہ اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیلنے کی شروعات تھیں، خواتین کو مساجد سے روکنااس سے زیادہ بڑا قدم تھا ۔حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ’’ نبیﷺ موجودہوتے تو خواتین کو مساجد سے منع فرمادیتے‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے خلافت کیخلاف جہادی لشکر کی قیادت کی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘۔پھر گردنیں مارنے تک نوبت پہنچی لیکن ایکدوسرے پر کفر کے فتوے نہیں لگائے۔ امام حسنؓ نے صلح میں کردار ادا کیا۔ ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے اور خواتین کی جماعتوں کونکالنے سے زیادہ آسان سنت کے مطابق ماحول بناناہے جہاں خواتین وحضرات مکہ کی طرح اجتماعی نماز کا اہتمام کرکے مساجدکو آباد کریں ۔ٹی وی کی رونقیں اور شخصیات کا پروٹوکول مساجد کو آباد نہیں کرسکتی ہیں۔ گھر، محلہ اور مسجد سے سنت کے ماحول کاآغاز ہوگا تو معروف کا درست تصوربھی اجاگر ہوگا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ’’ قریش کی خواتین کو دنیا کی خواتین پر اسلئے فضلیت حاصل ہے کہ وہ اونٹ پربھی سواری کرلیتی ہیں‘‘۔ اونٹ کی سواری سے زیادہ ڈرائیونگ ہے، گاڑی چلاناعورت کیلئے شریعت کے منافی نہیں لیکن سعودیہ میں یہ پابندی لگائی گئی۔ جب خواتین پر مساجد میں پابندی لگ گئی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں، آج پھر سنت کی طرف آنا پڑے گا۔

روزہ (معروفات)

کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ایک نقارہ بجاکر اعلان کیا گیا کہ ’’ جس نے بھی روزہ نہ رکھا تو 500روپے جرمانہ ہوگا۔ کچھ جوانوں نے اسکی کھلے عام خلاف ورزی کی ، وہاں مغرب کے بعد گپ شپ کیلئے دعوت ہوتی تھی، روزے کیخلاف پابندی توڑنے کیلئے دن کی دعوت کا اہتمام ہوا۔ عوام میں انکو اسلام کادشمن تصور کیا جانے لگا، انکے بڑوں نے جرمانہ بھی ادا کیا اور اس اقدام کی وجہ سے شرمسار بھی ہوئے ، ان کو ڈانٹ ڈپٹ کر فرض بھی ادا کیا ہوگا۔ ان افراد میں اکثر یا سب شاید زندہ ہوں۔ ان لوگوں نے اپنے طور پر جو کیاسمجھ کر کیا؟، ہمارا انتہائی شریف پڑوسی تاج خان بھی ان میں شامل تھا، اس سے پوچھا کہ ’’ اس اقدام کی کیوں ضرورت پیش آئی؟‘‘۔ کیونکہ اس سے غلط حرکت متوقع نہیں ہوسکتی تھی تو اس نے کہا کہ ’’ میرا روزہ تھا، ہم نے یہ احتجاج اسلئے نوٹ کروایا تھا کہ روزے میں زبردستی اور جرمانے کا تصورغلط ہے‘‘۔ ایک مرتبہ شکار پور سندھ میں رمضان کا مہینہ گزارا، وہاں عوام کو کھلے عام دن دیہاڑے کھاتے پیتے دیکھ کر سمجھا کہ کھلے عام کھانے پینے والے ہندو ہیں پھر ایک مرتبہ گھر والی کے ایک رشتہ دار کو گلی میں سگریٹ پیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ دوسرے بھی مسلمان ہونگے۔ گرمی میں سفر کے دوران بھی مجھے روزہ رکھنے میں مشکل نہیں ہوتی تھی مگر جب دیکھا کہ مذہبی لوگ روزہ نہ رکھنے میں شرم کرتے ہیں توان کی جھجک دور کرنے کیلئے دورانِ سفر روزہ کھولنا شروع کیا۔ بنوں میں مسافروں کی بھی روزہ نہ رکھنے پر پٹائی لگ جاتی تھی۔ بہت ضروری ہے کہ اسلام میں غلو سے پرہیز کریں۔
علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’ فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کوہستانی‘‘۔ کانیگرم جنوبی وزیرستان کے جن لوگوں نے روزے پر جرمانے کیخلاف اپنا احتجاج نوٹ کروایا تھا انکا احتجاج اصحابِ کہف کے جوانوں کی طرح تاریخ میں رقم کرنے کے قابل ہے۔ نماز، زکوٰۃ ، روزہ اور حج میں زبردستی کے تصور نے اسلام کے معروف احکام کا چہرہ مسخ کیا۔ علامہ اقبالؒ نے جو تصورات پیش کئے، ان پر اسلامی جمہوری اتحاد کی سازش میں پیسے کھانے والے حکمران کہاں عمل کرسکتے ہیں؟۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ: ’’ایراں ہو عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدید بدل جائے ‘‘۔ نوازشریف سعودیہ سے اپنے احسانات کا بدلہ چکانے کیلئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا۔ ڈرپوک کتا بھونکے اور دور سے پاؤں پٹخے جائیں تو بھاگ جاتاہے۔ ہمارا حکمران طبقہ دنیا کے خوف سے پہلے تو بھونکتا نہیں اور بھونکے تو دور سے پیر پٹخنے کی آواز سن کر بھاگتاہے۔ جب امریکہ ہماری پشت پناہی کرتاہے تو پھر اسلام کیلئے ریاست، قوم، وطن اور عزت وناموس تک سب کچھ قربان کردیتے ہیں لیکن جب امریکہ راضی نہ ہو تو بھونکنے کی ہمت نہیں کرتے اور دُم ہلانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور کہیں آواز کی نوبت بھی آجائے تو مؤقف بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ۔یہودونصاریٰ ، امریکہ اوراسرائیل سے زیادہ اپنے بنائے ہوئے پھندوں سے نکلنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔بقول علامہ اقبال ’’سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس‘‘۔ فرقہ واریت کا ناسورہمیں صرف باتوں سے ختم نہیں کرنا ہوگا بلکہ قرآن وسنت اور فطرت و عقل کے مطابق لوگوں کو گمراہی سے نکالنا ہوگا۔ میرا تعلق کانیگرم جنوبی وزیرستان سے ہے جہاں کوئی نیا فرقہ نہیں۔ اکبربادشاہ کے دور میں ہندوستان میں مجدد الف ثانیؒ نے درباری کا کردار ادا نہیں کیا ، ہمارے کانیگرم کے پیرروشان بایزید انصاریؒ نے اکبر کیخلاف عملی جہاد کیا ،بادشاہوں کے خلاف لڑنے والی شخصیات کومتنازع بنانے میں درباریوں کا اہم کردار ہوتاہے۔ میرا کسی نئے فرقہ سے تعلق نہیں ، البتہ علماء دیوبندکے مدارس میں فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی ۔ بقولِ اقبال ’’ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے جنگیزی‘‘ ۔ دین میں سیاست نہ ہو تو وہ اسلام نہیں بدھ مت، ہندومت اور عیسائیت ہے مگراسلام نہیں ۔ اسلام میں سیاست نہ ہوتی تو مکہ سے مدینہ ہجرت کا حکم نہ ملتا ۔ خلفاء راشدینؓ کی سیاست قرآن وسنت کا بنیادی ڈھانچہ تھا، اسلئے ان کی اتباع کا حکم ہے۔

زکوٰۃ (معروفات)

سورۂ توبہ میں ان مشرکوں سے برأت کا اعلان ہے جن سے مسلمانوں نے عہدوپیمان کیا کہ وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اللہ نے کافروں کو ذلت سے دوچار کرناہے۔ حج اکبر کے دن لوگوں میں اعلان کرنا ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری ہے اور اسکے رسول(ﷺ) بھی بری ہیں۔ اگر تم توبہ کروتوتمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم پھر گئے، تو اللہ کو عاجز نہیں بناسکتے، کافروں کو بشارت دو درد ناک عذاب کی۔ مگر وہ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے معاہدوں کی کچھ خلاف ورزی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی۔ تو ان کی مدت تک ان سے عہدو پیمان کو پورا کرو، اللہ پسند کرتاہے پرہیز گاروں کو۔ جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں سے لڑو،جہاں ان کو پاؤاور ان کو پکڑو اور ان کو محصور کردو، اور ان کیلئے ہرگھات پر بیٹھوپھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑدو، اللہ غفور رحیم ہے اور اگر کوئی مشرکین میں سے پناہ مانگے تو اس کو پناہ دو،یہاں تک کہ اللہ کے کلام کو سن لے۔ پھر اس کو وہاں پہنچادو جہاں اس کو تحفظ حاصل ہو۔ یہ اسلئے کہ یہ وہ قوم ہے جو سمجھ نہیں رکھتے۔ مشرکوں سے اللہ اور اسکے رسول کا کیا عہد ہوسکتاہے؟۔ مگر جن لوگوں نے معاہدہ کیا مسجد حرام کے پاس اور پھر جب تک وہ قائم رہیں تو تم بھی قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند کرتاہے۔ (سورۂ توبہ)۔
قرآن سے صاف ظاہر ہے کہ آیات میں ان مشرکین کا ذکر ہے جنہوں نے حجاز مقدس میں معاہدے کئے اور توڑے، جہاں حرمت کے چار ماہ میں جنگی بندی ہوتی تھی، جو معاہدے کے پابند رہے اور کسی دشمن کو مدد فراہم نہیں کی ان سے معاہدے پورے مدت تک قائم رکھنے کی تاکید ہے اور جنہوں نے معاہدے توڑے ان کیلئے بھی حرمت کے مہینوں کو برقرار رکھا گیا۔ پھر اللہ نے فرمایا ہے کہ فقتلوھم حیث وجدتموھم ’’ان سے لڑو، جہاں ان کو پاؤ‘‘۔ دہشت گردوں نے آیت کا یہی جملہ دیکھ کر اللہ کا حکم سمجھا کہ مشرک جہاں ملے قتل کرو۔ حالانکہ اس سے لڑنا مراد ہے، قتل کرنا نہیں۔ اگلا جملہ واضح ہے کہ واخذوھم ’’ اور ان کو پکڑو، ان کا محاصرہ کرو اور ہر گھات پر ان کیلئے بیٹھو‘‘۔ دشمن کو قتل کرنے سے زیادہ مشکل پکڑ لینا ہے۔ اللہ کرے کہ مسلمان بلندی پر پہنچ جائیں، کشمیر کو اقوام متحدہ کے بغیر بھی آزاد کرسکیں اور ہندوستان کی چھ لاکھ فوج پکڑ کر لائیں تاکہ بنگلہ دیش کا بدلہ اُتاردیں۔ البتہ ان آیات سے ہندو اور دیگر مشرکین عیسائی وغیرہ مراد نہیں ۔ یہود گستاخ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے تھے اور عیسائی تثلیث کا مشرکانہ اعتقاد رکھتے تھے تب بھی اللہ نے ان کی خواتین سے شادی کی اجازت دی ،بیویاں بناکر قتل کرنا مقصد تو نہ تھا۔ بریلوی دیوبندی حنفی ہیں لیکن ایکدوسرے سے اتنا بغض رکھتے ہیں جتنا اسلام نے یہودو نصاریٰ سے بھی بغض رکھنے کی تعلیم نہیں دی۔ صحابہؓ نے یہودونصاریٰ کی خواتین سے شادیاں کیں لیکن متعصب علماء ومفتیان مسلمان فرقوں میں بھی نفرت پھیلانے کے مرتکب ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے خلوص میں شک نہ تھا مگر آپؓ نے یہودونصاریٰ کو مشرکین قرار دیکر ان کی خواتین سے شادی کی اجازت منسوخ قرار دی۔ علم وفہم کو عام کرنا ہوگا۔
فرمایا: ’’اگر کوئی مشرک پناہ لے تو اس کو پناہ دو، یہاں تک کہ اللہ کی آیات سن لے اور پھر جہاں اس کو امن ہو وہاں تک پہنچادو‘‘۔ ہندو سپاہی آیا تو پاکستان نے واپس کیا،حالانکہ کوئی صلح حدیبیہ کا معاہدہ نہ تھا مگرہم نے دشمن کیساتھ وہ سلوک روا رکھا جس پر دنیا کا کوئی ملک عمل نہیں کرتا ، بھارت نے اس پر تشدد بھی کیا ہوگا مگراس اقدام سے ان عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی جو اخلاقی معیار و قانون کی پاسداری نہ کریں۔مفتی محمد شفیعؒ اور علامہ غلام رسول سعیدیؒ کی تفاسیر میں حنفی مسلک کے نقطۂ نگاہ سے اختلاف ہے۔ مفتی شفیعؒ کا معارف القرآن دہشت گردوں کی ذہن سازی کا انتہائی غلط ذریعہ ہے۔ طالبان ، علماء ومفتیان نے میری کتاب ’’جوہری دھماکہ‘‘ کے بعدجس طرح تصویر کے مسئلہ پر مفتی محمد شفیع ؒ کا مؤقف مسترد کیا ، تشدد کے حوالہ سے بھی میرا مؤقف انشاء اللہ اپنائینگے۔