پوسٹ تلاش کریں

بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ

یقضة بلا عنوان وھجمة علی شیطان
من اتخذاِلٰہ وحید الھوائِ
ھزَّ جمجمة رَصِید الرَمَائِ
کل قرض ینفع ھوالربا
لوباسم الاسلام جدید الکرائ
اعطی الربح صُورَة السودائِ
ذمّ العُلمائُ قَصِید الِاجرَاء
حلّل ارباح و اکل الزکوٰة
ارمل القوم فقید الغذائ
فاز ابوحنیفہ اسیر فی سجن
ثرثر ابویوسف وطید الخرسائ
جاز الفاتحة بالبول کتابًا
تداول بینھم تھدید الاستنجائ
قھقر المفتی تقی من ضربتی
فیدغمہ شدید العصائ
درّسوا کلام اللہ لیس مکتوبًا
فکتب بالقذرحفید النَھدائ
وُلِدَ الخبیث دبرًا بدبر
جرو الکلب تخلید البغائ
فمثلہ کمثل کلب یلھث
ھو بَعلَم ولید باعورائ
ان شاء لرفعہ اللہ لکن
اخلد الی الارض عمید الجلائ
قسا قلبہ رشاطلبہ فاترک جلبہ
فھداےة اللہ بعیدالاشقیائ
فضیحة الشیخ ما فضیلة الشیخ
اجیرالبَنوکِ عبید الشَرَائ
صنع العَظمَة الکَاذِبَة
حاشیة الملوک تفنید العلمائ
فتن المؤمنین ثم لم یتب
فلہ عذاب جہنم غرید الاعدائ
ما رفع العلم الا بقبض العلمائ
اتخذوا رئیساً نشید الجہلائ
الاسلام عادی فصار الغریب
فطوبٰی بشارة عدید الغربائ
لایبقی من القراٰن الارسمہ
فالتحلیل باقٍ سعید الافتائ؟
من طَلَّقَ زوجتہ ثلاث
فطَلبُہا غلط رید الکَحلَائ
کَفَی الرِسَالةُ الخَطَیِّة
تمحص عنہا قعید الخفائ
یتعد الظٰلمون حدود اللہ
ماالحلالة الا عقید الزنائ
اَدخَلَ علیھا ذَاقَت الزَلَاء
فلیقطعوا ورید النسائ
المدارس فی عصرنا مصانع
کم حُلَّلت زِید الحَسَنَائ
عَلَی التِیسِ المُستَعَارِ لَعنَة
اتخذوااربابًا تقلید الفُضَلَائ
اَشرَقَتِ الَارضُ بنورربھا
اَلخَفَاشُ ندید الطِرمِسَائ
اَلرُجعَةُ بلا اعداد والحساب
اُتلو اٰےَاتِ اکلید الطُلَقَائِ
فِتنَتان للناس فی القراٰن
اولٰی رُؤےَاالنبی معید الِاسرَائ
والثانیة فیہ الشَّجَرَةُ المَلعُونَة ُ
یقیم بھا اللہ تمھید الخلفائ
قال لَا تَقرَبَا ھٰذہ الشَّجَرة
عصٰی آدم ربہ مستفید الحوائ
حب الشھوٰت من النساء
الرجال بھٰذا رشید الضعفائ
یجتنبوا کبائرالاثم والفواحش
الا اللمم اکید الاتقیائ
الذین قتلوا وزنوا ثم تابوا
بدل سیئة بحسنة فرید الجزائ
لایمکن القاء الشیطٰن فی وحی
لکن اَلقَی فی رد ید الأسوائ
ھواجتبٰکم وجاھدوافی اللہ
حق جہادہ علیکم شھید الشہدائ
سَلَام عَلَی اَسَاتِذَتِی جمیعًا
ورحمة اللہ تعالیٰ سدید النجبائ
بالاخص بجَامِعةِ بِنَورِی تَاؤن
اُسست بالتقوٰی مفید الطلبائ
الکنز لاتضیع والحق لاتبیع
الباطل لاتطیع مرید السفہائ
ان اللہ اشترٰی منا اموالنا
وانفسنابالجنة نرید الوفائ
الذین یکفّرون باٰیات اللہ
ترفرف لھم لدید اللوائ
البیعة للہ وخلقہ عیالہ
لسائر الناس تحدید البلائ
منع الحسین بیعة الجبروالخوف
فی کل مکان ھنا یزید الغوغائ
تناول الحسن عن الخلافة
تخلخل الامیة حصید السعدائ
ترک معاویہ ابن یزید امارتہ
عمر بنی مروان محید الاعتنائ
کمثل الحمار یحمل اسفارا
زفیر شھیق لھید ھٰؤلاء
العصر یبحث عن ابراھیمہ
اصنام انعام توحید العَلائ
علیکم بالعلم علیکم بالعتیق
ولاتفرقوا توکید الی اللقائ

"بیداری کسی عنوان کے بغیر اور شیطان پر ایک حملہ” جس نے بنالیا ہے اپنا معبوداکلوتے ہوا (خواہش)کو۔کھوپڑی ہل گئی ہے سود ی بیلنس سے۔
ہر وہ قرض جو نفع دے وہ سود ہے۔اگرچہ اسلام کے نام پر کرائے کا جدید( ترین حیلہ ) ہو۔ سود کو بہت بھونڈی شکل دی ۔علماء نے سرزنش کردی، کاروائی کرتے ہوئے میانہ روی سے۔اس نے حلال کردیا سود اور کھا گیا زکوٰة۔ قوم کا توشہ ختم ہوگیا غذا تک کے مفقود ہونے سے ۔ ابوحنیفہکامیاب ہوا جیل کی قید میں،ابویوسف نے جھک ماری بک بک والوں کو پختہ کرکے۔ جائز کہا سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا ، اس مسئلہ کو آپس میںپہنچایا ،استنجے کا خطرہ بھی پیدا ہوا ۔ مفتی تقی پیچھے لوٹا میری ضرب لگانے سے، تو اسکا بھیجہ (دماغ)نکا ل کررکھ دیا لاٹھی کی سختی نے۔ پڑھاتے ہیں کہ کلام اللہ لکھائی نہیںہے توگند سے لکھا ابھری پستانوںوالیوں کے پوتے نے پیدا ہوا ہے خبیث پچھواڑے سے پچھواڑا ملانے پر،کتے کا بچہ ہے ہمیشہ کی بدکاری سے۔تواس کی مثال کتے کی مثال ہے جو ہانپا ہے(قرآن میں)۔ وہ(عالم) بَعلَم بن باعوراء تھا ۔اگر وہ چاہتا تو اللہ اس کو بلند کردیتامگراس نے زمین میں ہمیشگی اختیار کی کھلی صدارت کیساتھ۔اسکا دل سخت ،اسکی طلب رشوت، اس کو کھینچ لانا چھوڑ و۔اللہ کی ہدایت بدبختوں سے دورہے۔ شیخ کی انتہائی رسوائی کوئی فضلیت نہیں ہے، بینکوں کا مزدورہے، سودی لین دین کا غلام ہے ۔اس نے جھوٹی عظمت بنانے کا ڈھونگ رچایا ہے۔درباری ہے، علماء کو جھٹلانے والاہے۔ مؤمنوں کو فتنے میں ڈالااور پھر توبہ نہ کی، اس کیلئے جہنم کا عذاب ہے، دشمنوں کاگانا گاتا ہے۔علم نہیں اُٹھتا ہے مگرعلماء کی فوتگی سے ۔اب بنالیا ہے لوگوں نے سربراہ جاہلوں کی آواز کو ۔ اسلام فطری ہے پس بن گیا ہے اجنبی۔ تو خوشخبری بشارت ہے گنے چنے منتخب اجنبیوں کیلئے۔ قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا مگر اسکا رسم الخط،پھر حلالہ کرنے کی سعادت باقی ہے ؟۔جو بیگم کو 3طلاق دے تو غلط ہے اس (خاتون) کو بلانا سرمگین آنکھوں والیوں کی تلاش میں۔ تحریری استفتاء کافی ہے۔ غلط اس عورت سے تفتیش کرنافتویٰ کی طلب میں خفیہ ہم نشین بناکر۔ ظالموں نے اللہ کے حدود پامال کردئیے، حلالہ کچھ نہیںہے مگر معاہدے کرنے والے کا زنا۔ اس میں ڈالتا ہے تو ہلکے سرین والی مزا چکھ لیتی ہے تو پھرضرورعورتوں کی شہہ رگ کاٹ لیں۔ مدارس ہمارے زمانے میں فیکٹریاں ہیں۔ توکتنی حلال کرلی ہیں حسینہ سے زیادتی کرکے ۔ کرائے کے سانڈ پر لعنت ہو ،انہوں نے رب بنایاہے فارغ التحصیل علماء فضلاء کی تقلید کو۔ اللہ کی زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھی۔ چمگادڑ سخت تاریک رات کی نظیرو مثال ہے۔ رجعت کسی عدد اور حساب کے بغیر ہے، تلاوت کرو آیات کو چابیاں ہیں طلاق والوں کیلئے۔ لوگوں کیلئے دو آزمائش ہیں قرآن میں۔پہلی نبیۖ کاخواب ہے جومعاون ہے معراج کا۔اور دوسری اس (قرآن)میں شجرہ ملعونہ ہے۔اسکے ذریعے اللہ قائم کرے گا خلفاء کا مقدمہ۔ فرمایا:دونوں اس درخت کے قریب نہ جاؤ،آدم نے اپنے رب کا عصیان کیا حواء کا استفادہ۔ عورتوں کی شہوات سے محبت فطری ہے۔مرد حضرات اس کی وجہ سے ضعفاء کے باہوش ہیں۔اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہ وفواحش سے مگرکچھ نہ کچھ۔یہ محکم وثابت ہے اتقیاء کی صفت۔ جو قتل وزنا کرتے ہیں پھر توبہ کرتے ہیں تو بدل دیتاہے( اللہ) گناہ نیکی میں، نرالی جزاء ہے۔ شیطان کاوحی میں القاء ممکن نہیں اوروہ ڈال دیتا ہے اپنا حیلہ بدشکلوں کے بُرے کرتوتوںمیں۔ اس نے تمہیں منتخب کیا اوراللہ کیلئے جہاد کرو، جہاد کا حق ادا کرو،تم پر گواہ ہیں شہداء کے شہیدۖ سلام ہو میرے تمام اساتذ ہ پر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ۔اصیل لوگوں میں معقول وپختہ تھے۔ خاص طور سے جامعہ بنوری ٹاؤن پر جس کی بنیاد تقویٰ پررکھی گئی ہے، فائدہ مندہے طلباء کیلئے خزانہ ضائع نہیں کیا جاتااور حق کو بیچا نہیں جاتا،باطل کی اتباع نہیں ہوتی بیوقوفوں کے مرید۔ بیشک اللہ نے خرید لئے ہم سے ہمارے اموال و جانیں جنت پر، ارادہ ہے کہ فرض پورا کریں جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں (حلالہ کی لعنت سے) ان کیلئے لہرا رہا ہے جانی دشمنی کا جھنڈا۔ بیعت اللہ کیلئے ہے اوراللہ کی مخلوق اس کی عیال ہے۔یہ تمام انسانیت کیلئے بلا پر قابو پانا ہے۔ منع کردیا حسین نے زبردستی اورخوف کی بیعت کو۔ ہر جگہ یہاں پرشورو غل کا یزید موجود ہے۔دستبرداری اختیار کرلی حسن نے خلافت سے۔جھول ہے امیہ میں نیک بختوں کو کٹی فصل بنایا۔معاویہ بن یزید نے اپنی امارت ترک کی،عمر بنو مروان نے الگ راستہ اختیار کیا توجہ حاصل کی گدھے کی طرح کتابیں لادی ہیں ۔ڈھینچوکی ابتداء وانتہائ،بوجھ سے نڈھال یہی لوگ ہیں۔ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔بت ہیں،حیوان ہیں، توحید (لاالہ الا اللہ)بلند ہے۔تم پر علم کی اتباع اور عتیق کی اتباع لازم ہے اور تفرقے میں نہیں پڑو! تاکیدآئندہ ملاقات تک

یر رجوع کا حکم ہے مگر گدھے بالکل نہیں سمجھتے۔ سورۂ بنی اسرائیل :60دوآزمائش ہیں،ایک معراج النبیۖ کا خواب کہ دین غالب ہوگا۔ جس پر ایمان ہے لیکن غامدی کا یقین نہیں۔ دوسری آزمائش حلالہ کی لعنت ہے۔ قرآن پر غورہوگا۔ غیرت جاگ جائے گی۔نئی روح بیدار ہوگی ۔ خلافت راشدہ کیلئے راستہ ہموار ہوگا۔ قرآن میں شجرۂ نسب کی قربت سے منع کیا گیا،فرمایا کہ شیطان تمہیں ننگا نہ کرے، جیسے تمہارے والدین کو ننگا کرکے جنت سے نکلوادیاتھا۔ عورتوں سے شہوانی چاہت مردوں کی فطرت میں ودیعت ہے۔اگر مواقع ملنے پربچت ہو تو یہ مردوں کا کمزوری پر قابو پانے میں کمال ہے ۔ اچھوں کیلئے بھی فواحش سے بچنے کے باوجود خالی جگہ رکھی۔ اللہ نے فرمایا:فلا تزکوا انفسکم ”اپنے نفسوں کی پاکی کا دعویٰ مت کرو۔ بنی آدم کیلئے قرآن میں اتنا پیکج ہے کہ جب وہ توبہ کریں تو نہ صرف گناہوں کو معاف کیا جائیگا بلکہ گناہوں کے بدلے میںنیکیاںبھی ملیں گی آیت سورۂ حج میں انبیاء کی تمنا یہ تھی کہ حلالہ کی لعنت نہ ہو۔ بعد میں بدشکلوں ردی مال نے شیطان کی مداخلت سے انبیاء کی تمنا کا خون کیا۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ” اللہ (کی کتاب )میں جہاد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیاتاکہ رسول ۖ تم پر اور تم لوگوں پر گواہ بنو”۔ پنجاب، پختونخواہ، بلوچستان، سندھ سے تعلق رکھنے والے تمام اساتذہ کو دل کی گہرائیوں سے سلام۔ بڑے اصلی اور نسلی اچھے لوگ تھے۔ علامہ سیدمحمدیوسف بنوری بہت عظیم تھے، ان کی قیادت میں ختم نبوت کا مشن پورا ہوا۔سود کیخلاف زبردست مزاحمت جامعہ نے کی ہے۔مفتی محمد شفیع نے مفتی تقی و رفیع کیلئے دارالعلوم میں ناجائز گھر خریدے۔ بیٹے سودکافتویٰ بیچتے ہیں ،داماد شادی بیاہ کے لفافوں کو سود کہتاہے ۔ اگر حلالہ ،سود کے جواز اور مدارس کے غلط نصاب کیخلاف آواز اٹھانے پر مالی جانی نقصان ہوتو اللہ نے ہمارے ساتھ جنت کا سودا کیاہے ۔ آیات کو جھٹلاکر حلالہ کے نام پرعزتوں سے کھلواڑ ہے،غیرتمند لوگوں کو پتہ چل رہاہے اور حلالہ کے مرتکبوں کے خلاف خون کھول رہاہے۔ مؤمن اللہ کیلئے خود کوبیچ چکا ۔ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ۔ ایک عزت بچانے کیلئے محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کیا ، مدارس کو کون فتح کرے گا؟۔ حسین نے زبردستی کی بیعت سے امان نہیں مانگی۔یہاں پر شور وغل کا یزید ہرجگہ ہے اور حسین کے کردار کی بہت زیادہ سخت ضرورت ہے۔ امام حسن نے امت کو متحد کیا۔ بنی امیہ نے معاملہ امارت میں بدل ڈالا۔ حجاج کہتا تھا کہ لوگو! سروں کی فصل پک چکی ،کٹائی کا موسم آگیا۔ یزید کا بیٹا معاویہ با ضمیر تھا ۔ عمربن عبدالعزیز نے خلافت راشدہ قائم کی ۔بنویزید وبنومروان میں اچھے تھے تو علماء کی اولاد میں بھی ہونگے۔ مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم ہندوستان نے علماء کا بہت بڑا اجلاس بلاکر کہا تھاکہ مدارس کا نصاب علماء کو کوڑھ دماغ بنانے کیلئے کافی ہے۔ علماء کرام ومفتیان عظام نے اگر لاالہ اللہ کی حقیقی صدا بلند کرتے ہوئے مساجد سے حق کی تعلیم شروع کردی توجلد اسلامی انقلاب آجائیگا۔سنن داری سے عبداللہ بن مسعودکے قول کو مولانا یوسف لدھیانوی نے عصر حاضر میں نقل کیا، علم کی اتباع سے تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی۔ نوشتہ دیوار کراچی۔ شمارہ اگست 2022۔

 

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

مشرق سے دجال نکلے گا جس کے مقابلے میں امام حسن علیہ السلام کی اولاد سے سید گیلانی ہوگا! علامہ طالب جوہری

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

لغت میں خراسان مشرق کو کہتے ہیںاور عرب سے افغانستان،ایران،پاکستان مشرق کی جانب ہیں۔احادیث صحیحہ میںخراسان سے مہدی نکلنے کا بھی ذکر ہے اور دجال کے نکلنے کا بھی ذکر ہے!

جب دہشتگردوں نے ہمارے گھر پر حملہ کرکے13افراد کو شہید کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کیلئے آمد کے موقع پر طالبان کو خراسان کادجال قرار دیا لیکن میڈیا نے خبرسنسر کردی تھی

امریکی صدر جوبائیڈن نے اسلام اور مہدی مخفی کا عید الفطر کی مناسبت سے ایک تقریب میں ذکر کیا تو انگریزی، عربی ، اردو سوشل میڈیا میں پذیرائی مل گئی۔ شیعہ عالم دین علامہ یاسر نقوی نے کہا کہ ”امریکی صدر تک نے مہدیٔ غائب کا ذکر کیا۔ جوبائیڈن نے کہا کہ گھرمیں تقابلِ ادیان کی کتابیں ہیں۔ ایک پروفیسر نے اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا اور خفیہ مہدی کا زیادہ معلوم نہیں ۔ کافر نے فطری امام کا نام لیا اور سنی تعصب سے مہدی غائب کا ذکر نہیں کرتے ۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن غیر متعصبانہ علمی حقائق کا تذکرہ کرنا چاہیے”۔ عربی عالم نے کہا کہ” خفی مہدی سے غیرفطری غائب امام مراد نہیں بلکہ سنی امام مہدی مراد ہیں جوانسانوں اور جنات شیاطین کی نظروں سے مخفی ہیں”۔ شیخ محی الدین ابن عربی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے عربی عالم نے کہا کہ ” مہدی کا عوام کی نظروں سے اوجھل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ”لوگ واضح اسلامی احکام کو نہیں سمجھیں گے”۔
میرا عزیز پیر سید زبیرشاہ امریکیوں کا گائیڈ تھا۔ اسامہ بن لادن کیلئے کانیگرم جنوبی وزیرستان بھی امریکی ٹیم لایا تھا۔ سوات میں اس کی طالبان کے ہاتھوں گرفتار ی کی خبر آئی اور ساتھ میں ایک سومرو صحافی بھی تھا جو تاجر کے بھیس میں امریکہ کیلئے جاسوسی کررہے تھے۔ میڈیا پر گرفتاری کی خبر چلتے ہی تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان حاجی عمر نے کہا کہ فوری طور پر چھوڑ دیں گے۔ جس سے امریکہ اورTTPکے تعلق کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میرے ایک اور عزیز نے بتایا کہ وہ زبیرشاہ کیساتھ اسلام آباد میں امریکہ کے کسی بنگلے نما آفس میں گیا اور وہاں اس نے ہمارے نقش انقلاب کو دیکھا تھا جس میں گیارہ افراد کی تصاویر تھیں اور بارویں کا چہرہ مخفی تھا۔ شیعہ نے بارہ اماموں کا نقشہ بنایا ہوگا۔ صدر جوبائیڈن نے مخفی امام کا ذکر شاید اسی حوالے سے کیاہوگا۔
پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک حضرت عیسیٰ اور حضرت خضر کی زندگی کا تصور ہے تو کیا حرج ہے کہ شیعہ کے امام کو ہزارسال سے غائب مانا جائے؟ ۔ میں نے اپنی کتابوں میں سنی وشیعہ کتابوں سے بہت واضح دلائل دئیے کہ مہدی آخری امیر سے پہلے گیارہ ائمہ اہل بیت حکومت کریں گے اور ان پر امت متفق بھی ہو گی۔ عیسیٰ کا نزول ، مہدی کی آمداوردجال کا خروج ہوگاتو پتہ چل جائیگا کہ شیعہ یاسنی مؤقف درست ہے؟۔ پہلے اتحادو اتفاق اور وحدت کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے ۔ایک دوسرے کے دلائل سننا ،سمجھنا اور ان کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ فرقہ وارانہ انتشار، قتل وغارتگری اور ایکدوسرے کیلئے عدم برداشت کا رویہ کسی کیلئے بھی کوئی فائدہ مند نہیں۔شیعہ کہتے ہیں کہ” خلافت راشدہ کے دور میں حضرت علی کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ آخرکا ر مدینہ چھوڑ کر کوفہ منتقل ہونا پڑا۔ امام حسن نے مجبوری میں امیرمعاویہ کیلئے منصب چھوڑ دیا اور امام حسین کوشہیدکیا گیا اور باقی ائمہ اہل بیت نے خاموشی اختیار کرلی اور آخری غائب ہوگئے ”تو جب پہلے گیارہ نے کچھ نہ کیا تو بارویں امام سے امید کون لگائے گا؟۔اسلئے امام خمینی نے انتظار کی گھڑیاں ختم کرکے انقلاب برپا کردیا۔ حالانکہ شیعہ حدیث میں تھا کہ ”ہمارے قائم سے پہلے جس نے خروج کیا وہ ایسے طاہر کا بچہ ہوگا جو دوسروں کے ہاتھ میں کھیل رہا ہوگا”۔ فاطمی خلافت بھی آغاخانیوں اور بوہریوں کے آباء واجداد نے قائم کی تھی لیکن شیعہ امامیہ ان کے خلاف تھے۔ امامیہ شیعہ امام کا لفظ بارہ ائمہ کے علاوہ کسی کیلئے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسجد کے امام کو پیش نماز کہتے ہیں۔ایرانی انقلاب شیعہ مسلک سے بہت بڑاانحراف بھی تھا ۔بقیہ صفحہ3نمبر2

بقیہ… علامہ طالب جوہری اورکئی دجال و امام مہدی
علامہ طالب جوہری کی کتاب ” ظہور مہدی” میں قیام قائم سے پہلے کئی قیام قائم کا ذکر ہے۔ ایک روایت ہے کہ مشرق سے دجال کے مقابلے میں قائم قیام کریگا جو حسن کی اولاد سے ہوگا۔ کسی روایت میں حسین کی اولادہے لیکن زیادہ روایات میں حسن کی اولاد کا ذکر ہے ،جس سے” سید گیلانی” مراد ہیں۔ علماء کرام علامہ طالب جوہری کی1987ء میں لکھی ہوئی کتاب میں مشرق کے دجال ، حسن کی اولاد میں سیدگیلانی کے حوالے سے معلومات مسلمانوں کے سامنے کھل کر بتادیں۔ بنو امیہ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ میں موروثی خلافت کا تصور تھا تو فاطمی خلافت اور بارہ ائمہ اہلبیت کا جواز بھی تھا۔ ا
امام ابوحنیفہ کے نزدیک غسل کے تین فرائض تھے ۔ کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، پورے جسم پر پانی بہانا۔ امام شافعی کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنافرض نہیں۔ جبکہ امام مالک کے نزدیک مل مل کر دھونا بھی فرض ہے۔ الغرض کسی بھی فرض پر تینوں کا اتفاق نہیں ہے۔ امام جعفر صادق فرائض کا یہ اجتہاد اور اختلافات کو نہیں مانتے تھے لیکن کسی تسلی بخش جواب سے ان لوگوں کو قائل بھی نہیں کرسکے تھے ۔ جب اہلبیت کے ائمہ کا سلسلہ نہیں رہا تو شیعہ نے بھی اجتہادکا سلسلہ شروع کیا جو اہل تشیع میں آپس کے بھی اختلاف کا باعث بن گیا۔
قرآن میں اللہ نے جنابت سے غسل کا حکم دیا ۔دوسری جگہ پر وضو کے بعد فرمایا کہ ”اگر تم جنبی ہو تو پھر اچھی طرح سے طہارت حاصل کرلو”۔ وضو کے مقابلے میںنہانا یا غسل کرنا ہی اچھی طرح سے طہارت حاصل کرنا ہے۔ قرآن کو نظر انداز کیا گیا تو لایعنی فرائض کے اجتہادی اختلافات پیداکئے گئے۔
حنفی شافعی اختلاف اجتہاد تک محدود نہیں بلکہ احناف کے نزدیک قرآن سے نام نہادمتصادم خبر واحد کی صحیح حدیث معتبر نہیں اور خبر واحد کی قرآنی آیت معتبر ہے۔ جبکہ شافعی کے نزدیک قرآن سے باہر کی آیات پر اعتقاد رکھنا کفر ہے جو معتبر نہیں۔ خبر واحد کی حدیث معتبر ہے اور اس کو قرآن سے متصادم قرار دینا غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اساتذہ کرام کی تعلیم اور مرشد کی تربیت سے اللہ نے یہ قابلیت دی ہے کہ امت مسلمہ کو تضادات سے نکال سکتا ہوں۔ اگر علماء کرام اور مشائخ عظام نے موقع دیا تو بے دین طبقہ بھی مذہب کے بنیادی اور معاشرتی مسائل کو عالم انسانیت کیلئے بڑا پیکیج سمجھ کر قبول کریں گے اور اسی سے اسلام کی نشاة ثانیہ بھی ہوگی۔
قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون لایستون ”کہہ دیجئے کہ کیا برابر ہوسکتے ہیں علم والے اور جو علم نہیں رکھتے؟۔ وہ برابر نہیںہیں”۔
بعض شیعہ دوٹوک کہتے ہیں کہ علی سے لڑنے والا مسلمان نہیں ہوسکتا، حضرت حسن کو جس نے صلح پر مجبور کیا وہ مسلمان نہیں تھا اور حضرت حسین کو جنہوں نے شہید کردیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل بیت کے مخالف دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ جو لوگ شیعہ سنی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان پر وہ برستے ہیں کہ تم بھی حق چھپانے کے مرتکب ہورہے ہو اور بقول عمران خان کے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔
شیعہ گمراہی کی وجہ حفظ مراتب کا لحاظ نہ رکھنا ہے۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے ایک شیعہ سے کہا کہ تم نے غلط کہا کہ نبی کریم ۖ عرش پر گئے تو علی سے ملاقات ہوگئی ۔ یہ شرک ہے اور ہم مشرک نہیں۔ یہ کہو کہ عرش پر رسول سے اللہ نے علی کے لہجے میں بات کی۔ جس پر اہل محفل نے خوب داد بھی دیدی۔ اگر مان گئے کہ حدود کو پامال کررہے ہیں تو یہ خوش آئند ہے۔ سنیوں کا خطیب کہتا ہے ”جب نبیۖ معراج پر گئے ، جبریل نے کہا کہ اسکے بعد میں نہیں جاسکتا ، میرے پر جل جائیں گے۔ براق آگے جانے کو تیار نہ تھا تو سید عبدالقادر جیلانی غوث پاک نے حضورۖ کو اپنا کندھا پیش کردیا اور نبیۖ غوث پاک کے کندھے پر اللہ سے ملنے عرش پر گئے تھے”۔
جب قرآن میں اتنی بڑی رعایت لکھ دی گئی کہ ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصٰرٰی والصّٰبئین من امن باللہ والیوم الاٰخر وعمل صالحًافلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولاھم یحزنونO
”بیشک جو لوگ مسلمان ہیں، جو لوگ یہودی ہیں اور نصاریٰ ہیں اور الصابئین ہیں جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر اور اچھے عمل کئے تو ان کیلئے اجر ہے اور ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (البقرہ آیت62)
یہ آیت اور اس طرح کی دوسری آیات اسلامی نظام کو دنیا میں غلبہ دلانے اور قابلِ قبول بنانے کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔صائبین حضرت نوح کی امت ہندو ہیںجو مشرکین مکہ سے زیادہ گئے گزرے تھے جو خود کو دین ابراہیمی پر سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام ، تابعیناور تبع تابعین میں تیسری صدی ہجری تک تقلید کی کوئی روایت نہیں تھی۔ چوتھی صدی ہجری میں تقلید ایک شرعی فریضہ بن گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے تقلید کو چوتھی صدی ہجری کی بدعت قرار دیا۔ ان کی کتاب کے اردو ترجمہ ”بدعت کی حقیقت” پر علامہ سید محمد یوسف بنوری نے تائیدی تقریظ لکھ دی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید نے بدعت کی دوقسمیں اعتقادی بدعت اور عملی بدعت لکھیں کہ اعتقادی منافق کافر اور عملی منافق مسلمان ہے جس میں منافق کی علامات ہوں۔ حدیث میں مذمت اعتقادی بدعتی کی ہے۔ عملی بدعتی کی اس طرح مذمت نہیں اور تقلید عملی بدعت ہے۔
اکابر دیوبند نے شاہ اسماعیل شہید کی تائید کی لیکن جب مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حرمین کے علماء کا فتویٰ لگوا دیا کہ ”یہ لوگ تقلید کو بدعت سمجھتے ہیں ” تو علماء دیوبند نے اس کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کتاب لکھ ڈالی کہ وہ حنفی مسلک کے مقلد اور چاروں مسالک کو برحق مانتے ہیں اور چاروں تصوف کے سلسلوں کو مانتے ہیں اور خود چشتی مشرب والے ہیں۔
تقلید کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ جب غسل وغیرہ کے فرائض میں اختلا ف ہوا تو پھر کسی ایک کی تقلید کرنی تھی۔ اجتہاد کی صلاحیت سے محروم طبقے پر تقلید فرض کردی گئی ۔ بریلوی عالم دین مولانا امجد علی نے اپنی کتاب ”بہار شریعت” میں لکھا ہے کہ ”یہ اجتہادی فرائض ہیں۔ دلیل کیساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دلیل کے بغیر ان کو تسلیم نہ کرنا گمراہی ہے”۔ دلیل کے ساتھ ان فرائض کو ختم کرنے کا فرض کس نے ادا کرنا ہے؟۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ ” ہمارے پاس اتنا علم نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ کس کی بات درست اور کس کی غلط ہے۔ امام مہدی آئیں گے تو صائب رائے کو بتائیں گے ، ان کی بات حق ہوگی اور ان کے مخالف کی بات باطل ہوگی”۔ اہل تشیع بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت کی بات ٹھیک اور ان کے مخالفین کی بات غلط تھی۔ اہل تشیع اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی بات میں عقیدے کا اختلاف نہیں شخصیات کا اختلاف ہے لیکن دونوں میں زمینی حقائق کا بڑا فرق ہے۔
حقائق سے مفتی رفیع عثمانی کی بات درست ہے۔ مہدی کے دور میں دین اجنبی ہوگا اور مہدی اجنبیت کا پردہ اٹھائے گا جبکہ صحابہ کرام کے دور میں دین اجنبی نہیں تھا بلکہ اولی الامر کے امور کے اختلاف کا مسئلہ تھا۔ حضرت یوسف کو بھائیوں نے غائب کردیا تو یہ اعتقاد واقتدار کا نہیں بلکہ حسد کا مسئلہ تھا۔
اولی الامر سے قرآن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور اولی الامر کی حیثیت سے نبی ۖ نے اپنے ساتھ اختلاف کا جواز رکھا تھا ،اللہ نے قرآن میں اس گنجائش کی تائید فرمائی ہے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے اپنے شوہر کے بارے میں مجادلہ کیا تو اللہ نے سورہ مجادلہ میں عورت کی تائید فرمائی۔ شیعہ نبیۖ سے اختلاف کی گنجائش کا اعتقاد رکھتے ہیںمگر حضرت علی کیلئے اس اختلاف کی گنجائش نہیں رکھتے اور یہ چھوٹی موٹی گمراہی نہیں بلکہ فقد ضل ضلالا بعیدًاہے۔ نبیۖ سے اختلاف کی قرآن نے گنجائش دی ہو اور حضرت علی سے شیعہ اختلاف کی گنجائش نہ رکھتے ہوں تو شیعہ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ اس پر وہ کیا زورِ خطابت اور داد تحسین اپنے گمراہ لوگوں سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یا حق کی بات کہہ کر جوتے کھانے سے ڈرتے ہیں؟۔ یہ ان پر چھوڑدیتے ہیں۔
غزوہ بدر کے قیدیوں پر عمر و سعد نے مشورہ دیا کہ ہر ایک اپنے قریبی رشتہ دار کو تہہ تیغ کردے تو علی ، ابوبکر، عثمان اور دیگر کا مشورہ تھا کہ فدیہ لیکر چھوڑ دیا جائے۔ نبی ۖ نے اکثریت کی رائے پر فیصلہ کیا تواللہ نے فرمایا کہ ” نبی کیلئے مناسب نہیں کہ اسکے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب خون بہادیتے اور تم دنیا چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے”۔ اس شیعہ خطیبوں کو اپنی عوام کے سامنے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اگر عمر کی جگہ علی نے مشورہ دیا ہوتا تو کتوں کی طرح لمبی لمبی زبانیں نکال کر صحابہ کرام کے خلاف بھونکنا شروع کرتے کہ تمہاری بات نبی ۖ نے مان لی تو اللہ نے مسترد کردیا۔ تم دنیا کے طلبار گار اور اللہ آخرت چاہتا ہے۔ جیب گرم ہونے کی توقع نہیں تو پھر آیات کی وضاحت بھی اپنے عوام کے سامنے نہیں کرتے ہیں۔
شیعہ افغانستان اور پاکستان میں مسلم اقلیت ہیں لیکن کچھ لوگ ان کو کافر بنانے کے پیچھے پڑگئے ۔ ان کی قتل و غارتگری پر ہمیں رحم آتا ہے لیکن فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے شیعہ خطیبوں کو ان مظلوموں پر کوئی رحم نہیں آتا ہے ،اسلئے تسلسل کیساتھ اہل سنت کے جذبات بھڑکاتے ہوئے اپنامفاد حاصل کرتے ہیں اور شیعوں کو قتل کروانے میں مدد دیتے ہیں۔
علامہ مجلسی کی کتاب ”بحار الانوار” کے حوالے سے ایک ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جس کا خلاصہ ہے کہ ” انگریز نے بحرین کا بادشاہ ایک متعصب ناصبی کو بنایا تھا جو اہل بیت اور شیعوں کا سخت دشمن تھا اور اس کا وزیر اس سے بھی زیادہ سخت دشمن تھا۔ ایک انار لایا گیا جس پر کلمہ اور ابوبکر وعمر اور عثمان خلیفہ رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ بادشاہ حیران ہوگیا اور وزیر نے کہا کہ شیعہ بڑے گمراہ ہیں ، یہ بھی نہیں مانیں گے۔ ان کا علاج یہ ہے کہ اس کا کوئی معقول جواب دیں ۔ یا پھر تین باتوں میں سے ایک پر عمل کا اختیار ہمیں دیں۔ 1: اپنا مسلک چھوڑ کر سنی بن جائیں۔ 2: کافر بن کر جزیہ دیں۔ 3: انکے مردوں کو قتل، عورتوں کو لونڈی بنائیں گے اور ان کے اموال غنیمت جان کر تقسیم کریں گے۔
جب شیعہ کے سامنے یہ تجاویز پیش کی گئیں تو انہوں نے چند دنوں کی مہلت مانگ لی۔ شیعوں نے نیک وتقویٰ داروں کو جمع کیا اور10افراد کا انتخاب کیا۔ ان میں سے پھر 3افراد چن لئے۔ پہلے ایک کو صحراء میں بھیجا کہ رات کو امام مہدی سے مدد طلب کرو۔ اس نے پوری رات عبادت اور آہ وزاری میں گزاردی مگرمایوس لوٹ آیا۔ پھر دوسرے نے بھی رات گزار دی مگر نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر تیسرے نے امام کو اپنی مشکل میں پکارا تو امام نے جواب دیا اور کہا کہ بادشاہ سے کہو کہ وزیر کے گھر پر اس سوال کا جواب دیں گے۔ وزیر کے گھر میں فلاں کمرے کو دیکھو، وہاں اس جگہ چھپا ہوا ایک سانچہ مل جائے گا جو انار کو اس کے ابتدائی دنوں میں پہنایا جاتا ہے اور جب انار بڑا ہوتا ہے تو اس کی یہ شکل نکل آتی ہے۔ جب بادشاہ نے موقع دیا اور یہ راز کھل گیا تو اس نے شیعوں کا کلمہ پڑھ لیا اور شیعہ بن گیا۔
کوئٹہ میں ہزارہ برداری اور افغانستان وپاکستان میں آج بھی شیعہ حضرات کیلئے بڑے خطرات ہیں اور متفقہ لائحہ عمل کی سب کو ضرورت ہے۔ مختلف مواقع پر حضرت خضر کی بات سے بھی استفادہ لیا جاتا ہے۔ ہمارے کلاس فیلو مفتی منیر احمد اخون مفتی اعظم امریکہ نے بھی خضر سے چند سکے پانے کا ویڈیو میں ذکر کیا ہے اور مفتی زرولی خان سے بھی کوئی تذکرہ فرمایاہے۔
جب قرآن میں اللہ نے ایک شرعی مسئلے پر نبیۖ کے مقابلے میں ایک عورت کی تائید فرمائی ۔ قیدیوں سے فدیہ لینے پر نبیۖ اور صحابہ کی اکثریت کے مقابلے میں عمر و سعد کی تائید فرمائی تو کیا علی نبیۖ سے زیادہ تھے؟۔ حضرت ہارون نے بنی اسرائیل کو شرک کرتے دیکھ کر نہیں روکا تو حضرت موسیٰ نے ان کو سر اور داڑھی سے پکڑلیا کہ منع کیوں نہ کیا؟۔ حضرت ہارون نے عرض کیا کہ میری وجاہت نہیں کہ منع کرنے سے منع ہوتے۔ بلکہ یہ دوگروہ میں تقسیم ہوکر لڑنے لگ جاتے ۔ایک گروہ بات مان لیتا اور دوسرے کو بھی زبردستی سے منواتا۔ پھر آپ کہتے کہ بنی اسرائیل میں تفریق کیوں ڈالی ؟۔ حضرت موسیٰ نے شرک کو بڑی نافرمانی سمجھ لیا اور حضرت ہارون نے ان میں تفریق وانتشار کو شرک سے زیادہ بڑی برائی سمجھا تھا۔
امت مسلمہ کی بدقسمتی یہی ہے کہ ایک طرف شرک کا مسئلہ بنتا ہے تو دوسری طرف تفریق وانتشار کا۔ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے اپنے ساتھی کو شرک سے منع کیا لیکن اگر کوئی ایسا شخص یہی کام کرتا جس کی اتنی وجاہت نہ ہوتی تو انتشار پھیل جاتا۔ یہودی نے علی سے پوچھا کہ نبیۖ کے وصال کے بعد تمہارا خلافت پر جھگڑا ہوا؟۔ حضرت علی نے فرمایا کہ ”خلافت فروعی مسئلہ تھا، دریائے نیل سے پیر خشک نہ تھے تو تم نے حضرت موسیٰ کے ہوتے ہوئے سامری کے بچھڑے کواپنا معبود بنالیا”۔
شیعہ آپس کے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرتے ہیں تو علی نے زیادہ خوش اسلوبی کیساتھ مسائل حل کئے تھے۔ امام بارگاہوں پر قبضے اور خطابت پر پیسے بٹورنے میں ایکدوسرے سے بغض و عناد رکھنے والے صحابہ کو اپنے او پر قیاس کرتے ہیں۔ حضرت علی کی اولادمیں بارہ ائمہ اہل بیت کو اقتدار ملے گا۔ پہلے بارہ ائمہ اہل بیت کسی درجے کسی سے کم نہ تھے۔ بنی فاطمہ کو اقتدار ملا تو حجراسود خانہ کعبہ سے اٹھالے گئے تھے۔ اگر ان بارہ افراد کو اقتدار ملتا تو بعض معاملات میں ان سے اختلاف کی گنجائش ہوتی اسلئے کہ قرآن میں رسول اللہۖ کے بھی واقعات ہیں۔ سورۂ مجادلہ کا واقعہ، قیدیوں پر فدیہ لینے کا واقعہ، ایک نابینا ابن مکتوم کی آمد پر چین بہ جبیں ہونے کا واقعہ، غزوہ احد میں سخت انتقام لینے کا واقعہ، کل کسی بات کا وعدہ کرنے پر انشاء اللہ نہ کہنے کا واقعہ۔ اس طرح حضرت علی اور ائمہ اہلبیت کے بھی واقعات ہوتے لیکن اقتدار کا موقع نہ ملا۔ جنت ملتی ہے تو بنی آدم کیلئے کوئی نہ کوئی واقعہ جنت سے نکلنے کا ذریعہ بنتا ہے اوریہ عبودیت کا تقاضہ ہے جو الٰہ نہیں اور نہ بن سکتے ہیں۔
اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان لگا تو کم صحابہ نے قرآن کے مطابق کہا کہ ”یہ بہتان عظیم ہے”۔ حضرت علی کا کردار شیعہ نے اس پر واضح نہ کیا۔ کیا آیات کا انکار ہے؟۔ اتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض الکتاب ”کیا تم بعض کتاب کو مانتے ہواور بعض کو نہیں مانتے ہو؟”۔ اتلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق انتم تعلمون ”کیا تم حق کو باطل کیساتھ خلط ملط کرتے ہواور حق کو چھپاتے ہو اور تم جانتے بھی ہو”۔( القرآن)
حضرت عثمان کی شہادت کی جھوٹی خبر پر صلح حدیبیہ سے پہلے آیات نازل ہوئیں۔ نبیۖ نے بدلہ کیلئے بیعت لی، اس وقت لڑنا نہیں تھا بلکہ لڑنا اس وقت تھا جب حضرت عثمان کو باغیوں نے مسندِ خلافت پر شہید کردینا تھا۔ اس بیعت سے پیچھے ہٹنے کے لوازمات بھی اللہ نے بیان فرمائے۔ حضرت حسن و حسین نے دوازے پر پہرہ دیا اور سوتیلے بھائی محمد بن ابی ابکر نے گھر میں کود کر حضرت عثمان کو داڑھی سے پکڑا۔ پالا علی نے اور بیٹا ابوبکر کا تھا۔اس تضاد کا حل کس کے پاس ہے؟۔
ہارون کی داڑھی میںہاتھ ڈالنے پر موسیٰ کو تبرا ، گالی گلوچ اور سب وشتم کا نشانہ نہیں بناتے تو محمد بن ابی بکرکی تربیت پر حضرت علی پر بھی سب وشتم نہیں ہونا چاہیے تھا اور شیعہ خود بھی تشریح نہیں کرسکتے کہ یہ کیا ماجراء تھا کہ حضرت حسن وحسین نے پہرہ دیاتو سوتیلے بھائی نے کاروائی ڈالی تھی؟۔ جس طرح سگے اور سوتیلے بھائی بٹ گئے اسی طرح علی کے قریبی پرانے اور نئے ساتھیوں نے حضرت علی کے خلاف جنگ کا محاذ کھول دیا۔ خوارج پہلے شیعانِ علی تھے۔ امام حسن کے ساتھی ورشتہ داروں نے دھوکہ دیکر صلح پر مجبور کیا تو حضرت حسین کہاں تھے؟۔ تاریخ کی سچی جھوٹی باتوں کو اس طرح نہیں لیا جائے کہ قرآن وسنت اور مسلمانوں کا اجماعی معاملہ اور اجتماعی کردار ختم ہوجائے۔
مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا احمدرضا خان بریلوی نے لکھاکہ” اگر شوہر کہے کہ تجھے3طلاق تو3طلاقیں واقع ہوگئیں۔ دوگواہ نہ ہوں تب بھی بیوی حرام ہے۔ شوہر اپنی بات سے مکر جائے تب بھی بیوی حرام ہے لیکن اگرمکرگیا تو عورت کو2گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر عورت کے پاس2گواہ نہ ہوئے تو بیوی اسکے نکاح میں رہے گی اور بیوی کو چاہیے کہ ہر قیمت پر خلع لے لیکن اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہیں تو بیوی نکاح میں حرام کاری پر مجبور ہوگی اور مباشرت میں لذت نہیں اٹھائے ورنہ تو گناہگار ہوگی”۔ اس بکواس کا کون دفاع کرسکتا ہے؟۔ مجھے یقین ہے کہ بریلوی دیوبندی فقہ کی بنیاد اس سے دھڑام سے گر جائے گی اور وہ اس پر بہت خوش بھی ہوں گے۔ کیونکہ وہ اختلاف کی گنجائش اور غلطی کااصولی عقیدہ رکھتے ہیں۔
شیعہ کے نزدیک طہر میں طلاق کے صیغے ادا کرنے پر2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر دوسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر تیسرے طہر میں طلاق کے صیغے اور2گواہ بنانے ہونگے۔ پھر یہ طلاق ایسی ہوگی کہ اسکے بعد عورت پہلے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔ بظاہر شیعہ کا مسئلہ فطرت ،اسلام اور انسانیت کے قریب لگتا ہے لیکن اگر مدلل انداز میں ثابت کیا جائے کہ انسانیت، اسلام اور فطرت کے یہ خلاف ہے تو شیعہ دلائل سمجھ کر مشکل سے اپنا مسلک چھوڑ نے کا اعلان کرینگے۔ کیونکہ تقلید کی روش نے اجتہادی غلطیو ں پر یقین کا سبق نہیں دیا اور انہوں نے اس کو اپنے عقیدے کیساتھ منسلک کردیا ہے۔
سورۂ طلاق کی پہلی آیت میں عدت کے مطابق تین مراحل میں عملی طلاق دینے کاحکم ہے۔ جہاں الفاظ اور صیغوں پر گواہ مقرر کرنے کی بات نہیں۔دوسری آیت میں عدت کی تکمیل پر معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنے اور اپنے میں سے2عادل گواہ بنانے کا حکم ہے۔ شیعہ نے سنی کے مقابلے میں طلاق کا مسئلہ زیادہ سخت کیا لیکن اس کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں ۔ کیونکہ قرآن میں فیصلہ کن مرحلے کے بعد بالکل آخر میں گواہوں کی بات ہے ۔شیعہ کے کسی امام معصوم کی طرف مسلک کی نسبت ہوئی تو ان کیلئے یہ اس سے انحراف اور قرآن وسنت وفطرت کی طرف آنے میں بڑی مشکل پیش آئے گی مگرپھر وہ آئیں گے ضرور،انشاء اللہ۔
حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا حکم اسلئے جاری کیا کہ جب بیوی راضی نہ ہو تو ایک طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں سورۂ بقرہ کی آیت228اوردیگر آیات میں رجوع کیلئے صلح، معروف طریقہ اور باہمی رضامندی کی بار بار وضاحت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عورت راضی ہوتو عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعدبھی رجوع کی گنجائش کھلے الفاظ میں واضح ہے اور جب عورت راضی نہ ہو تو کسی طلاق کے بعد بھی اللہ نے کسی آیت میں بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ۔ قرآن کے فطری مؤقف کے مطابق حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا اور ائمہ اربعہ نے ٹھیک فتویٰ دیا تھا کہ عورت کی طرف سے صلح نہ ہونے کی شرط پر اکٹھی تین طلاق پر رجوع کی گنجائش نہیں۔
اجتہاد خلفاء راشدین میں اختلاف کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت علینے ”حرام ”کا لفظ کہنے پرتین طلاق کا فتویٰ دیا تھا اور حضرت عمر نے ایک طلاق کا ۔ قرآن کے منافی یہ لوگ اپنی طرف سے حلال وحرام کے فتوے کیسے دیتے؟۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین کی طرف اتنے بڑے اختلاف کی نسبت گمراہ کن ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق ضعیف روایات کی بھی تطبیق ہونی چاہیے ، اس اختلاف میں تطبیق ہے۔ حضرت عمر سے فتویٰ پوچھا گیا تو بیوی رجوع کیلئے راضی تھی اسلئے قرآن کے مطابق رجوع کا فتویٰ دیااور حضرت علی نے دیکھا کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تو قرآن کے مطابق فتویٰ دیا تھا۔
خلع اور طلاق میں عورت کے حقوق میں کمی وبیشی کا مسئلہ ہے اسلئے جب عورت طلاق کا دعویٰ کرے اور شوہر اس کا انکار کردے تو فیصلہ حلف اور گواہی پر ہوگا۔ عورت گواہ پیش کرے تو طلاق کے حقوق ملیں گے اور عورت کے پاس گواہ نہ ہوں اور شوہر حلف اٹھالے تو عورت کو خلع کے حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر تین طلاق دے اور پھر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو اور ایک طلاق رجعی قرار دیا جائے تو یہ قرآن کی واضح آیات کے بالکل منافی اور خواتین کے حقوق پر بہت بڑا ڈاکا ہوگا اسلئے کہ اس نے اپنے شوہر سے جان چھڑانی ہے اور قرآن نے اسکو صلح نہ کرنے کا اختیار دیا ہوا ہے اور مولوی اس کو ایک طلاق رجعی کہہ کر عورت کے بالکل واضح حق کو غصب کررہاہے۔
دو مرتبہ طلاق رجعی کا حق بھی قرآن نے نہیں دیا ہے اسلئے کہ شوہر ایک طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گا اور پھر طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے گااور پھر تیسری طلاق دے گا تو عورت کو تین عدتوں تک انتظار پر مجبور کرنے کا قانونی حق رکھے گا۔ اللہ نے عورت کو ایک عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی نے اپنے مذہب سے اس کو تین عدتوں پر مجبور کرنے کا شوہروں کو ناجائز حق دے رکھاہے۔ اگر اکٹھی تین طلاق کو ایک رجعی طلاق قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف عورت کے حقوق کی زبردستی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ دوسرے بھی لامحدود اور ناقابل حل مسائل کے انبار کھڑے ہوجاتے ہیں۔
ہم نے اپنی کتابوں1:” ابر رحمت”۔2:”تین طلاق کی درست تعبیر”۔3:” تین طلاق سے رجوع کا خوشگوار حل ”۔4:”عورت کے حق” میں بہت تفصیل کیساتھ بہترین انداز میں یہ مسائل تشفی بخش طریقے سے سمجھائے ہیں اور اپنے ماہنامہ اخبار کے بہت مضامین میں بار بار امت مسلمہ کی جان ان غلط کہانیوں سے چھڑانے کی کوشش کی ہے جس کی تائید دیوبندی ، بریلوی اور اہلحدیث کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی کی ہے۔
یہاں پر اہل تشیع اور اہل سنت کے اتحاد واتفاق اور وحدت کی غرض سے کچھ احادیث وروایات کا تذکرہ کردیتا ہوں اسلئے کہ کافی عرصہ سے اس موضوع پر دلائل نہیں دئیے ہیں جس کی وجہ سے اہل تشیع کے بعض علامہ صاحبان امت کو لڑارہے ہیں۔
اہل تشیع نے اپنی کتاب میں لکھا: ” یہ روایت مشہور ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں ،مَیں ہوں اور بیچ میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ”۔ قحطانی نے کہا ہے کہ ہم کلام کو اس بات پر محمول کرسکتے ہیں بایں طور پر کہ اس مہدی سے مراد مہدی عباسی مراد لیں نہ کہ اسے مہدی آخر زمان ” ۔ (الصراط السوی فی احوال المہدی ص357) مہدی عباسی کی وجہ سے یہ امت ہلاکت سے نہیں بچی تھی اسلئے کوئی ایسا فرد مراد لینا ہوگا جو امت کو ہلاکت سے بچانے کا ذریعہ ہو۔ امت کی ہلاکت جب درمیانہ زمانے سے شروع ہو تو اہل بیت کو نبیۖ نے کشتی نوح قرار دیا ہے۔ درمیانہ زمانے کے مہدی کا تعلق اہل بیت سے ہی ہوگا۔ علامہ طالب جوہری نے مشرق کے دجال کے مقابلے پر امام حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد لیا ہے تو عباسی مہدی سے سید گیلانی اہل تشیع کیلئے زیادہ قابل قبول ہونا چاہیے ۔درمیانہ زمانے کے امام مہدی کے مقابلے میں کج رو جماعت ہوگی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا: خوشخبری سناؤ۔ خوشخبری سناؤ۔ میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے یہ پتہ نہیں کہ آخری دور والے زیادہ کامیاب ہونگے یا پہلے دور والے؟۔ یا اس کی مثال ایک باغ کی طرح ہے کہ ایک سال اس کا پھل ایک جماعت والے کھائیں اور دوسرے سال اس کا پھل دوسری جماعت کے افراد کھائیں۔ شاید کہ آخری جماعت کی چوڑائی اور گہرائی زیادہ ہو ۔ اور حسن انتظام زیادہ اچھا ہو۔ پس وہ کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جسکا اول میں ہوں، اسکا درمیان مہدی اور مسیح اسکا آخر ہے؟ لیکن درمیانہ زمانے میں ایک کج رو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں اور مَیں اس کے طریقے پر نہیں ہوں۔ ( مشکوٰة باب ثواب ہذہ الامة ) مولانا فضل الرحمن نے خراسانی دجال کا لشکرTTPکو قرار دیا تھا ۔جسکے سرپرست تبلیغی جماعت والے تھے اوران کی روپ میں چھپ کاروائی بھی کرتے تھے۔
اہل تشیع نے لکھا ہے کہ ” جس روایت میں مہدی کے بعد چھ افراد اولاد حسن اور پانچ افراد اولاد حسین کا ذکر ہے کہ مہدی کے بعد وہ مالک زمین اور بادشاہ ہوں گے ۔ یہ غلط واہیات ہے اور احادیث صحیحہ کا مخالف ہے ۔ مہدی آخر میں آئیں گے اور عیسیٰ ان کی اقتداء کرینگے ۔ لہٰذا ان کے بعد کسی اور بادشاہ کا آنا خلاف فرض ہے”۔( الصراط السوی فی احوال المہدی357)
اگر درمیانہ زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد اہل بیت کی حکومت مان لی جائے جس پر امت کا اتفاق ہو تو پھر شیعہ سنی کیلئے ان کو اور اپنی مستند کتابوں کو قبول کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے واضح احکام سے علم حاصل ہوتا ہے اور علم گمراہی اور ہٹ دھرمی سے بچنے کا زبردست ذریعہ ہے اور شیعہ سنی، بریلوی دیوبندی ، حنفی اہل حدیث پہلے اس کی طرف توجہ کریں اور معاشرے کو اس جہالت سے نکالنے میں اپنا بہترین کردار ادا کریں تو طالوت کی طرح اقتداربھی مل جائیگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
اخبار نوشتہ دیوار کراچی۔ خصوصی شمارہ مئی 2022

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

حقیقی جمہوری اسلام اور اسلامی جمہوری پاکستان کے نام سے تاریخ ، شخصیات ، پارٹیاںاور موجودہ سیاسی حالات :حقائق کے تناظرمیں

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

عربی میں عبد غلام کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کوکسی دوسرے کی غلامی کیلئے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اپنی خلافت کیلئے پیدا کیا ہے۔ زمین میں انسانوں کی خلافت کیا ہے؟۔ بیوی بچوں ، جانور، پرندے اور درخت کھیتی وغیرہ کی پرورش کی ذمہ داری اُٹھاناروئے زمین میںاسلامی خلافت کا ایک چھوٹا ساآئینہ ہے۔ حضرت عمرفاروق اعظم نے فرمایا کہ ” اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی پیاس سے مرجائے تو اس گناہ کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے”۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر نے ایک چڑیا کو دیکھ کر فرمایا کہ ” یہ کتنی خوش قسمت ہے کہ جوابدہی کے غم سے آزاد ایک جگہ سے دوسری جگہ اُڑتی پھرتی ہے”۔ اپنے بال بچوں کی ذمہ داری اٹھانا کتنا مشکل ہے لیکن پورے ملک وقوم کی ذمہ داری اٹھانا پھر کتنا مشکل کام ہے؟۔
اگر موجودہ جمہوری سیاست میں اسلام کی روح ہوتی تو کیا اقتدار کے حصول کیلئے قائدین اس طرح اپنی الٹی سیدھی حرکتیں کرکے مررہے ہوتے؟۔ حضرت سعد بن عبادہ انصار کے سردارنے خلیفہ بننا چاہا تو حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے بہت خطرناک رحجان کو دیکھ کرثقیفہ بنی سعدمیں یہ اقدام اٹھانے سے روک دیاتھا اورہنگامی بنیاد پر حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر حضرت عمر نے بیعت کرلی۔ جس کے بعد انصار و مہاجرین کی اکثریت بھی ان کی خلافت پر متفق ہوگئی۔ حضرت سعد بن عبادہ نے آخری عمر تک نہیں مانا اور حضرت علی وابن عباس اور اہل بیت کے افراد کو بھی اس اقدام پرایک عرصہ تک بہت سخت قسم کے تحفظات تھے۔
پھر حضرت عمر نامزدہوئے اور حضرت عثمان کا انتخاب چند برگزیدہ ہستیوں نے کثرت رائے سے کردیا۔حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علیکا فیصلہ بھی ہنگامی صورتحال میں کیاگیا تھا۔ چاروں خلفاء راشدین کی نامزدگی جمہوری نظام کے تحت نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے فیصلے مشاورت سے ہواکرتے تھے۔پھر اس کے بعد خلافت کا نظام خاندانی اقتدار میں بدل گیا۔ پھربنوامیہ کی حکومت جبر سے ختم کی گئی اور ان کے افراد کو عبرتناک انجام تک پہنچایا گیا۔ پھر بنوعباس کا بھی کافی عرصہ بعد حشر نشر کیا گیا اور پھرسلطنت عثمانیہ کا قیام عمل میں آیا اور پھر اس کا بھی خاتمہ 1924ء میں کردیا گیا۔ برطانیہ وامریکہ اور مغرب نے جمہوری نظام کا آغاز کیا جس میں خون خرابے کے بغیر انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جاتا ہے۔
کیا جمہوری نظام غیراسلامی ہے؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ” اہل غرب ہمیشہ حق پر قائم رہیں گے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے”۔ (صحیح مسلم )
مغرب نے دنیا کو جس طرح کا جمہوری نظام دیا ،اگرجمہوری روح کے مطابق اسلامی دنیا میں اس پر عمل ہوجائے تو یہی اسلام کا تقاضہ ہے۔ جب دنیا میں پرامن انتقال اقتدار کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا تو انقلابی جدوجہد میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہوجاتی تھی۔ ایرانی بادشاہت خونریزی سے ختم ہوئی اور عرب و دیگر بادشاہتوں کو تصادم اور خونریزی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں انتقال اقتدار کیلئے جمہوریت ہے اور ڈکٹیٹروں نے ریفرینڈم بھی کرائے ہیں۔ مکہ خونی تصادم کے بغیرفتح ہوا تھا اور اس سے پہلے صلح حدیبیہ کا زبردست معاہدہ ہوا تھا۔
خلافت راشدہ کے دور میں جمہوری نظام نہیں تھا لیکن جمہوریت کی روح موجود تھی ۔ حضرت عثمان اورحضرت علی کی شہادت کے بعدآخری خلیفۂ راشد امام حسن نے حضرت امیرمعاویہ کے حق میں دستبردار ی اختیار کرلی اور پھر امارت کا دور شروع ہوا۔ جس کے بعد جب تک خاندانوں کو نیست ونابود کرکے نہیں رکھ دیا جاتا تھا اس وقت تک خاندانی بادشاہتوں کا سلسلہ جاری رکھا جاتا تھا۔
آج پاکستان میں جمہوریت ہے مگر جماعتوں میں جمہوریت کی روح نہیں ہے۔ ڈکٹیٹروں کی پیداوار قیادتوں سے جمہوری مزاج اور جمہوری نظام کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے؟۔ خاندانوں اور خانوادوں کی سیاست ہے اور اس سے بدتر حالت قائدین اور قیادتوں کی ہے۔پاکستان بننے کے بعد قائداعظم گورنر جنرل بن گئے اور قائدملت وزیراعظم بن گئے اور اپنی بیگم راعنا لیاقت علی خان کو اعزازی فوجی جرنیل کا عہدہ دے دیا۔ پھر کون کون اور کس طرح وزیراعظم بن گیا؟۔ اس کی ایک بہت بھیانک اور مخدوش تاریخ ہے۔ سول و ملٹری بیوروکریسی کا اقتدار پر قبضہ تھا۔ آخر کار جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ عوام پہلے انگریز کے جس نظام اور جن لوگوں کی غلام تھی تو انگریز سرکار کے تشریف لے جانے کے بعد اس کی باقیات کا قبضہ جوں کا توں تھا۔
جنرل ایوب خان کے مقابلے میں مادرملت فاطمہ جناح نے الیکشن لڑا تھا تو مشرقی ومغربی پاکستان کی زیادہ تر سیاسی و قومی جماعتوں نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا لیکن اس کو دھاندلی سے شکست دے دی گئی تھی۔ جنرل ایوب خان کی کوکھ سے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا تھا۔ پھر جب جنرل یحییٰ خان نے الیکشن کرایا تو مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن کی پارٹی نے اکثریت حاصل کرلی لیکن بھٹو نے جرنیلوں کیساتھ مل کر مجیب الرحمن کو جمہوری بنیاد پر قتدارسپرد نہیں کیا جس کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بننے کا سانحہ پیش آیا تھا۔ پھر بھٹو نے پاکستان میں سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا منصب سنبھال لیا ۔ بنگلہ دیش میں پاک فوج سے ہتھیار ڈالوانے سے پہلے اقوام متحدہ کی فوج بھی تعینات ہوسکتی تھی لیکن بھٹو نے پاک فوج کو ذلیل کرکے اقتدار پر اکیلا مسلط ہونے کیلئے اقوام متحدہ کی اسمبلی میںاس قراردادکے کاغذ پھاڑ دئیے تھے۔ جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کی جگہ بھارت نے بنگلہ دیش پر قبضہ کرکے پاک فوج اور سول بیوروکریسی کے 93ہزار قیدی بنالئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام پارٹیوں کی مدد سے ایک اسلامی جمہوری آئین تشکیل دیا تھا لیکن اس کوخود معطل کرکے بھی رکھ دیا تھا۔ لاڑکانہ سے کوئی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ بھٹو کے مقابلے میںاپنے کاغذات بھی کوئی داخل کراتا۔ جماعت اسلامی کے جان محمد عباسی نے انتخابی دنگل میں لاڑکانہ سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو اس کو بھٹو نے کمشنر خالد کھرل کے ذریعے اغواء کیا تھا۔ یہ وہ خالد کھرل تھا جس کے دادا نے برصغیر پاک وہند کے سب سے بڑے انگریز مخالف انقلابی قائد احمد خان کھرل کی مخبری کرکے نقدی اور سرکاری اراضی کا انعام کمایا تھا۔
بھٹو نے پنجاب وسندھ کو قابو کیا ۔ پہلے پنجاب اور ہندوستان کے مہاجروں کا عوام پر راج ہوتا تھا۔ بھٹو نے ہندوستانی مہاجروں کی سول بیوروکریسی کی ایک بڑی تعداد کو جبری ریٹائرڈ کرکے سندھ اور پنجاب کے اقتدار کی بنیاد رکھ دی تھی۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے صوبوں میں اپنااقتدار حاصل کیا تھا۔ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام نے زیادہ بڑی اکثریت حاصل کرلی تھی اور خیبرپختونخواہ میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی۔ جس میں خان عبدالولی خان، محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی ، بلوچ قیادت نواب خیربخش مری، سردارعطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجوتمام قوم پرست تھے۔ لیکن قوم پرستوں نے جمہوریت کے سر کے بال اور جمعیت علماء اسلام نے اسلام کی داڑھی مونڈھ دی تھی اسلئے کہ جہاں بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کو اسلام کے نام پر عوام نے بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے سردار عطاء اللہ مینگل کو وزیرااعلیٰ بنادیا گیا تھا اور جہاں سرحد(خیبرپختونخواہ )میں نیشنل عوامی پارٹی کو قوم پرستی کے نام پر بھاری اکثریت سے جتوایا تھا وہاں اقلیت والے مولانا مفتی محمود کو وزیراعلیٰ بنادیا گیا تھا۔جس سے اسلام اور جمہوریت دونوں کی بیخ کنی کی گئی تھی۔اگر وزیراعلیٰ بلوچستان جمعیت علماء اسلام سے بنادیا جاتا تو بلوچستان ہمیشہ کیلئے اسلام اور جمعیت علماء کا قلعہ بن جاتالیکن جعل سازی اور سودابازی کے ذریعے بلوچ قوم پرست سردارعطاء اللہ مینگل کو بنایا گیا تو آج تک بلوچستان کی سیاست ، حکومت اور بلوچ عوام اس کے مضراثرات کے متأثرین ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ سرحد(خیبر پختونخواہ) اس وقت مفتی محمود کی جگہ کسی قوم پرست کو بنادیا جاتا تو خیبر پختونخواہ سازشی علماء اور دہشت گردوں کی جگہ قوم پرستوں کا مرکز بن جاتا۔
پنجاب مسلم لیگ بلکہ موسم لیگ اور سندھ پیپلزپارٹی کا قلعہ ہوسکتا ہے تو پھر بلوچستان اسلام اور جمعیت علماء اسلام اور خیبر پختونخواہ قوم پرستوں کا مرکز کیوں نہیں بن سکتا تھا؟۔ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ اپوزیشن کی سیاست کا مرکز تھے ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی نام نہاد جھوٹی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تو قوم پرستوں کے سہارے کھڑے وزیراعلیٰ مفتی محمود کو بھی استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ پھر بھٹو کے مقابلے میں قومی اتحاد کے نو ستاروں کی تحریک چلی تھی جس میں جعلی قوم پرست اورجعلی اسلام پرست شامل تھے اور اس کوتحریکِ نظام مصطفی کا نام دیا گیاتھا۔ مولانا غلام غوث ہزاروی پہلے جمعیت علماء اسلام کے قائد کی حیثیت سے ایک مودودی سو یہودی کے نعرے لگواتے تھے لیکن پھر اس کی توپوں کا رُخ مفتی محمود کی طرف ہوگیا تھااور ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دے رہے تھے۔بعض علماء اس 9قومی ستاروں کے اتحادکو ان 9افراد کا ٹولہ قرار دے رہے تھے جن کا قرآن میں ذکر ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلارہے تھے۔
پھر جب اس قومی تحریک کے نتیجے میں مارشل لاء لگا تو کچھ عرصے تک جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا گیا لیکن پھر جماعت اسلامی مارشل لائی بن گئی اور کچھ دیگر جماعتوں نےMRDکے نام سے بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی ۔ جمعیت علماء اسلام کا فضل الرحمن گروپ اسکا حصہ بن گیا اور درخواستی گروپ مخالف بن گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے مولانا غلام غوث ہزاروی کی قبر پر اپنے باپ کے رویے پر معافی مانگی تھی کہ بھٹو کیخلاف جماعت اسلامی کیساتھ ہم غلط استعمال ہوگئے تھے۔ پھر جب جنرل ضیاء الحق حادثے کا شکار ہوگئے تو MRD میں شامل جماعتوں نے1988ء کے الیکشن میں فیصلہ کیا کہ قائدین کو اسمبلی تک پہنچانے کیلئے کسی کو بھی کھڑا نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن ، ولی خان وغیرہ کوسب نے مل کر جتوایا تھا لیکن بینظیر بھٹو کیخلاف ڈاکٹر خالد محمود سومرونے جمہوری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن لڑا تھا،جس سے مولانا فضل الرحمن کی ناک کٹ گئی تھی۔ ڈاکٹر خالد سومرو ایک طرف جے یوآئی کا نمائندہ تھا تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد پر پیپلزپارٹی کیخلاف قوم پرستوں کا مہرہ تھا۔ مفتی محمود اور ولی خان بھائی بھائی تھے تو ڈاکٹر خالد سومرو اور سندھی قوم پرست بھائی بھائی کیوں نہیں بن سکتے تھے؟۔پھر بینظیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو مسلم لیگ سے وزیراعظم عمران خان کے موجودہ سسر کے باپ غلام محمد مانیکا وغیر ہ بک گئے تھے۔ پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے نیشنل پیپلزپارٹی ، جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور جمعیت علماء اسلام درخواستی گروپ وسپاہ صحابہ وغیرہ نے حصہ لیا اور جب اگلی باری پھر پیپلزپارٹی کی آئی تو مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کا حصہ بن گئے تھے۔
PDMمیں پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام ساتھ تھے تو بھی گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں مریم نواز سمیت PDMکے تمام قائدین نے شرکت کی تھی لیکن مولانا فضل الرحمن نے علامہ راشد محمود سومرو کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ ایک طرف جمعیت کے سومرو برادران لاڑکانہ میں تحریک انصاف کے اتحادی تھے تو دوسری طرف عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان میں باپ کی اتحادی تھی۔ پیپلزپارٹی کی چاہت تھی کہ شہبازشریف کو وزیراعظم اور پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنایا جائے لیکن ن لیگ نے اس سے راہِ فرار اختیار کرنے کیلئے اسمبلیوں سے استعفیٰ اوراسلام آباد لانگ مارچ کے بعد دھرنا دینے کا بہانہ بناکرپیپلزپارٹی اور اے این پی کو PDMسے آوٹ کردیا تھا۔
پھر جمعیت علماء اسلام اور ن لیگ نے اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے کی ایک لمبی مدت کے بعد23مارچ کی تاریخ دیدی۔ جس میں PDM نے لانگ مارچ کیساتھ دھرنا بھی دینا تھا اور اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے تھے۔ جب مارچ آگیا تو پھرPDMنے اپنے وعدوں سے مکر جانے کیلئے جھوٹا شوشہ چھوڑ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کیلئے ہمارے نمبر پورے ہیں۔پیپلزپارٹی سے بھی رابطہ کرلیااور چوہدری برادران سے بھی رابطے کرلئے لیکن اصل مقصد لانگ مارچ، اسلام آباد دھرنے اور استعفیٰ دینے کے وعدوں سے توجہ ہٹانی تھی۔ مسلم لیگ ن نے میڈیا ٹیم کے ذریعے سے یہ افواہیں چھوڑ دیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو 3طلاق دیدئیے ہیں اور ن لیگ سے درپردہ حلالہ بھی ہوگیا ہے اسلئے مریم نواز خاموشی سے اپنی حکومت آنے کا انتظار کررہی ہیں۔دوسری طرف تحریک عدم اعتماد سے گھبرا کر عمران خان نے اول فول بکنا شروع کردیا۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کی بات پر حسن نثار جیسے صحافیوں نے کہا کہ فوج بالکل غیرجا نبدار نہ رہے، ہماری جمہوریت اس کی متحمل نہیں یہاں خریدوفروخت کی چھانگا مانگا میں منڈیاں لگتی ہیں۔ وزیراعظم عمران نے کہا کہ ”غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے”۔ پہلے کہاتھا کہ ایمپائر کی انگلی اٹھے گی ، پھر کہا کہ ایمپائر سے مراد اللہ تھا۔ اب کہہ سکتے ہیں کہ ”غیر جانبدار جانور سے آرمی چیف نہیں ڈائنوسار مراد تھا”۔
قائداعظم گورنر جنرل تو آرمی چیف انگریز ، وزیرقانون ہندو اوروزیر خارجہ قادیانی اور پاکستان کا آئین اسلامی اور جمہوری نہیں تھا۔ پھر جنرل ایوبی کوکھ سے ذوالفقار علی بھٹو قائدعوام اور محمد خان جونیجو قائدِ جمہوریت کہلایا ۔ جنرل ضیاء الحق کی کوکھ سے جنم لینے والا نوازشریف جمہوری قائد بن گیا ۔عمران خان کو ٹی وی کے اسکرین پر مرغا بن کر اعلان کرنا چاہیے کہ اپنے بچوں کی ماں جمائما خان کو چھوڑ کر پرائے بچوں کی ماں بشریٰ بی بی کو اپنی بیگم بنایااور یہ جائز تھا لیکن اپنے ٹائیگروں کو چھوڑ کر دوسرے کے بھگوڑوں کو ٹکٹ دینا بہت بڑی غلطی تھی۔ معافی مانگتا ہوں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جمہوری قیادت ناکام کیوں؟

جمہوری قیادت ناکام کیوں؟

پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل اور قائد ملت لیاقت علی خان کو چاہیے تھا کہ انتخابات کراتے اور عوام سے منتخب قیادت سامنے آتی۔ گدھے کو کہا گیا کہ مارتا کہاں پر ہوں اور آواز کہاں سے نکلتی ہے؟ جن لوگوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تقسیم ہند کو ووٹ دیا تھا انہی کے ذریعے سے جمہوری قیادت سامنے آنی چاہیے تھی۔ قائدین سے محمد علی بوگرہ ، آئی آئی چندریگر، حسین شہید سہروردی اور سکندر مرزا تک کسی نے بھی عوامی رائے سے قیادت کا انتخاب نہ کیا۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو جمہوریت کی سوجھی اور فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرادیا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کو علماء و مفتیان نے بھی سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ فقہ کے نام پر خرافات در خرافات کی نقب لگانے والوں کی تقلید کی۔ اسلام کے معاشی نظام سے بھی کوئی سبق سیکھنے کے بجائے حیلہ سازی کا مشق ستم جاری رکھا۔ آج اسلامی انقلابی نظام آسمانوں سے دستک دے رہا ہے اور زمین کا فریبی نظام دنیا سے ملیا میٹ ہورہا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی آواز کو دبانا بغاوت قرار دیا۔ ایمان مزاری مقدمہ

(نوٹ: خبر کے آخر میں تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ پڑھئے۔ یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا بڑا فیصلہ
چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کا مقدمہ ان کے خلاف ہونا چاہیے جو طلبہ کی آواز کو دباتے ہیں۔یہاں پر ایک آئین ہے،عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بیٹھنے پر درج FIR کے مطابق یکم مارچ کوپولیس پر پتھر برسائے۔ کیمپ دادشاہ، ایمان مزاری ،قمربلوچ اور200طلبہ بلوچ اسٹودنٹ کونسل نے لگایا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ایمان مزاری سمیت بلوچ طلبہ کی گرفتاری سے روک دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان طلبہ کی آواز دبائی، یہاں پر ایک آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کرے گی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی اور وکیل ایمان مزاری کی درخواست پر پولیس کو آئندہ سماعت تک گرفتاریوں سے روک دیا۔وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب پر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ اور ایمان مزاری سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے خلاف ایمان مزاری نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔جس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی آر درج ہوئی ہے؟ جس پر ایمان مزاری کی وکیل نے آگاہ کیا کہ ہماری معلومات کے مطابق ایف آئی آر درج کر کے سیل کر دی گئی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایس ایس پی صاحب اس عدالت کے دائرہ اختیار میں کیا ہو رہا ہے، احتجاج کرنے والے بلوچستان کے طلبا کی بات سنی جانی چاہیے۔طلبا کے احتجاج پر آپ بغاوت کے مقدمے درج کر دیتے ہیں، بغاوت کے مقدمے تو ان کے خلاف ہونے چاہئیں جنہوں نے ان کی آواز دبائی۔ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ طلبہ کے احتجاج میں پولیس کے تین اہلکار زخمی ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ اس کی حدود میں کسی کی آواز دبائی جائے، کسی کی بھی بالخصوص بلوچستان کے طلبا کی آواز دبانے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے مزیدکہا کہ طلبہ کی آواز دبانا درحقیقت بغاوت ہے، ساتھ ہی استفسار کیا کہ کتنے طلبا زخمی ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ یہ عدالت ایک کمیشن تشکیل دے، یہاں پر آئین ہے اور عدالت تنقیدی آوازیں دبانے کی کوشش برداشت نہیں کریگی، ایس ایس پی صاحب آپ اس کیس میں کسی کو گرفتار نہیں کرینگے۔ ضروری نہیں کہ پولیس ہر ایک کو گرفتار کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔بعدازاں سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ تینوں افسران 7 مارچ کو عدالت کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ عدالت نے آئندہ سماعت تک پولیس کو مقدمے میں گرفتاریوں سے روک دیا اور صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سے معاونت طلب کر لی۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی وکیل ایمان مزاری نے اندراج مقدمہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے FIRکی کاپی فوراً فراہم کرنے اور اسکا آپریشن معطل کرنے کی استدعا کی اور استدعا کی گئی کہ FIRسیل کرنا اور کاپی فراہم نہ کرنا قانون کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا جائے اور FIRکی کاپی اور وقوعہ کا تمام ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔درخواست میں ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ سیل کی گئی FIRکا آپریشن معطل کیا جائے تاکہ کوئی زیر التوا کیس کے دوران ہراساں نہ کرے۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیاکہ بلوچ طلبا پر پریس کلب کے سامنے پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور پھر مجھ سمیت سب پرFIR درج کی۔ان کا کہنا تھا کہ پریس کلب کے باہر طلبہ جبری گمشدگیوں کیخلاف اور اپنے حقوق کیلئے احتجاج کر رہے تھے، آزادی رائے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج میں گئی تھی۔ پریس کلب کے باہر پولیس نے پرامن طلبہ پر لاٹھی چارج کیا پھر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ FIRمیں بغاوت کی دفعات شامل ہیں، پولیس FIRکی کاپی فراہم کرنے سے بھی انکاری ہے اور مجھے گرفتاری کا بھی خدشہ ہے۔ درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا۔
اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنے پر بیٹھے طلبہ پر FIR درج کی گئی تھی،FIR کے مطابق مظاہرین نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے اور کیمپ کے باہر پولیس پر پتھر برسائے، کیمپ داد شاہ، ایمان مزاری اور قمر بلوچ کی سربراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل نے لگایا تھا جس میں 200 طلبہ شریک تھے۔طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کیخلاف احتجاج کررہے تھے۔
مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس کے انتباہ کے باوجود مظاہرین نے ٹینٹ لگایا جو پولیس کو بزور طاقت اپنے قبضے میں لینا پڑا جسکے نتیجے میں جھڑپ ہوئی۔بعد ازاں طلبہ پولیس کو دھکیلتے ہوئے چائنا چوک پہنچے اور دھرنا دے دیا جہاں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین گتھم گتھا ہوگئے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے موقع پر پہنچ کر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے طلبہ سے مذاکرات کیے۔پولیس اور طلبہ کی جھڑپ کے دوران 6 طالب علم اور انسداد فسادات یونٹ کے 2 افسران بھی زخمی ہوئے۔

تبصرہ ٔ نوشتہ دیوار( تیزوتند)قدوس بلوچ
یہ ہمارے ببر شیر قدوس بلوچ کی زندگی کا آخری تبصرہ ہے۔ قدوس بلوچ کی زندگی پرامن احتجاج کے ذریعے ظالم کے خلاف مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے سے عبارت ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے ظالم بادشاہوں کیخلاف پہلے مرحلے میں پرامن طریقے سے کلمہ حق بلند کرنے کے ذریعے سے جدوجہد کی تھی اور نبی کریم ۖ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ زندگی بھر کیلئے کیا تھا لیکن مشرکینِ مکہ نے اس کو توڑ دیا۔ فتح مکہ میں حضرت خالد بن ولید کے ذریعے قیس عبدالرشید کی قیادت میں پختون قبائل کے لشکر نے بھی مدد کی تھی لیکن جب خالد بن ولید کے ظالمانہ طرزِ عمل کا پتہ چلا تو نبی کریمۖ نے تین دفعہ آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ ”اے اللہ !میں خالد کے فعل سے بری ہوں”۔ پختونخواہ کے کوہ سلیمان کی چوٹی سلیمان تخت پر قیس عبدالرشید کی قبر آج بھی موجود ہے۔
قدوس بلوچ کی زندگی تضادات کا بالکل بھی شکار نہیں تھی۔ وہ بلوچوں کیلئے اگر مسلح جدوجہد کے حامی ہوتے تو زبانی جمع خرچ سے حمایت کرنے کے بجائے سرماچاروں کیساتھ بذات خود بھی شریک ہوتے اور اپنے بچوں اور احباب کو بھی شریک کرنے کی پوری کوشش کرتے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا تھا کہ ” افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے”۔ بلوچ اسلام کیلئے کبھی عرب گئے تھے لیکن امام حسین کی شہادت سے بد دل ہوگئے تھے۔ آج بھی عرب میں البلوشی کے نام سے بلوچ موجود ہیں جن کا بڑا نمایاں تاریخی کردار ہے۔عراق کے عرب البوشی نے ہی پہلی مرتبہ سرعام بازاروں میں کربلا کے شہداء کیلئے اس احتجاج کی جرأت کی تھی ورنہ تو پہلے چاردیو اریوں کے اندر احتجاج ہوتا تھا۔
منظور پشتین نے آواز لگائی کہ ”جو بھی ظلم کرے ، ہم اس کے خلاف ہیں”۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ بھی مسلح جدوجہد چھوڑ کر اپنے حق کیلئے بہت پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ قدوس بلوچ کا پروگرام تھا کہ 15مارچ سے اسلام آباد میں اپنی تحریک کے ساتھیوں اور احباب کیساتھ مشن کیلئے مستقل کام کریں۔ قدوس بلوچ نے بلوچ اسٹودنٹ کی طرف سے پرامن جدوجہد کے نتیجے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو ایک بہت مثبت پیش رفت قرار دیا ۔ آپ نے یہ مہینہ انقلاب کیلئے فیصلہ کن بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ اپنے بھانجے احسن بلوچ کو بھی دعوت دی کہ اسلام آباد میں ڈیرہ لگانے کیلئے ساتھ چلوگے۔
قدوس بلوچ کی علالت کے سبب عورت مارچ سے پہلے نوشتۂ دیوار کراچی کیلئے لاہور ، اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں باقاعدہ جماعتیں نکالنے کا کام نہیں ہوسکا۔ امید تھی کہ قدوس بلوچ صحت یاب ہوکر جماعت کی قیادت بھی کریں گے۔ ہمارے ساتھی جمہوری طریقے سے امیر منتخب ہوتے ہیں اور جب تک اس کی کوئی شکایت یا سست روی کا رویہ سامنے نہیں آئے تو اس کو عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے۔ قدوس بلوچ کی خواہش تھی کہ بلوچ اپنے اور پرائے ظالم کی کھل کر مخالفت کریں تاکہ منزل آسان ہو اور بے گناہ مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ صحافت کے ذریعے مخصوص طبقے کی حمایت اور مخالفت صحافت کے تقدس پر بہت بڑا دھبہ ہے۔ اچھی صحافت سے ملکوں اور قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پشاور شیعہ مسجد میں دہشت گردی کے بعد انجینئر محمد علی مرزا کے چینل پر دیوبندی عالم دین کا بیان

پشاور شیعہ مسجد میں دہشت گردی کے بعد انجینئر محمد علی مرزا کے چینل پر دیوبندی عالم دین کا بیان

دیوبندی عالم کیساتھ مرزا محمد علی نے اپنے چینل پر مفتی محمد تقی عثمانی کی تصویر بھی لگائی ہوئی ہے۔جسکا کہنا تھا کہ پشاور بم دھماکے میں ہماری ہمدردیاں شیعوں کیساتھ ہیں لیکن وہ کافرہیں!
سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، آئین پاکستان اور سعودی عرب میں حرم کے حدود میں داخل ہونے والے شیعہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟۔لوگوںکو ضرور آگاہ کیا جانا چاہیے؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

علامہ سید جواد نقوی جامعہ عروة الوثقٰی لاہور کے ہاں دیوبندیوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدر کے فرزندعلامہ زاہدالراشدی، بریلوی اور اہلحدیث جاتے ہیں۔ ایک طرف شیعہ شدت پسند عناصر علامہ سید جواد نقوی پر شیعہ سے خارج ہونے اور دیوبندی ہونے کا فتویٰ لگارہے ہیں تو دوسری جانب دیوبندی شدت پسند عناصر کا رویہ شیعوں کے معاملے میں سخت ہے۔ جب سپاہ صحابہ کے شدت پسندوں کے عروج کا دور تھا تو جمعیت علماء اسلام کے تمام دھڑے اور اکثر دیوبندی مکتب کے مدارس مولانا حق نواز جھنگوی اور مولانا ایثارالحق قاسمی کیساتھ کھڑے تھے۔بنوری ٹاؤن اور مدارس کا متفقہ فتویٰ آج بھی موجودہے۔
ہواؤں کا رُخ دیکھ کر بدلنے والے علماء ومفتیان کے تیورحالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں لیکن شیعہ شدت پسندوں اور دیوبندی شدت پسندوں کو ایک مؤقف پر اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک غلط فہمیاں دور نہیں ہوتی ہیں توکم ازکم دہشتگردی کے خلاف اتفاق رائے بہت ضروری ہے کیونکہ دہشت گرد مسلک وفرقے سے بالاتر سبھی کونشانہ بناتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے محسود اور وزیر علماء ایم این ایز مولانا نور محمد وزیر اور مولانا معراج الدین محسود کو شیعہ نے نہیں دیوبندی دہشتگردوں نے نشانہ بنایا تھا۔اگر شیعہ کافر ہیں تو آئین پاکستان پر ان کی اتفاق رائے ضروری تھی؟ اور آج اسلامی نظریاتی کونسل میں دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث علماء اہل تشیع کیساتھ کیوں بیٹھتے ہیں؟۔ کیاقادیانیوں کیساتھ بھی بیٹھ جائیں گے؟۔ اگرشیعہ کافر ہیں تو حرم کے حدود میں کافروں کا داخلہ ممنوع ہے۔ پھر کیوں شیعوں پر حرم کے حدود پابندی نہیں ہے؟۔ مولانا حق نواز جھنگوی نے مولانا فضل الرحمن کے پلیٹ فارم سے شیعہ کا فر کا نعرہ نہیں لگایا۔ مولاناحق نواز جھنگوی کے بعد سپاہ صحابہ جے یو آئی ف سے علیحدہ ہوگئی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے شیعہ بیگم عابدہ حسین کی حمایت سے مولانا ایثار الحق قاسمی نے وہ سیٹ جیت لی جس پر بیگم عابدہ حسین نے مولانا حق نوازجھنگوی کو شکست دی تھی۔ کیا اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے سپاہ صحابہ کا اہل تشیع کے ساتھ اتحاد درست تھا؟۔ ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل میں شیعہ سنی ایک پلیٹ فارم پر کیوں متحد تھے؟۔ کیا قادیانی بھی ہوسکتے ہیں؟۔ اتحاد تنظیمات المدارس میں دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ کیوں اکٹھے ہوگئے تھے؟۔
علامہ سیدجواد نقوی کہتے ہیں کہ ”مشرک شیعہ نصیری کافر ہیں۔ ان کو شیعوں کی صفوں سے نکالو”۔ دارالعلوم دیوبند کے قاری طیب نے رسول ۖ سے استدعا کی تھی کہ میرے دیوبندی دشمن سے انتقام لے لو تو کیا ا ن پر شرک وکفر کا فتویٰ لگتا ہے، بریلویوں پر لگتا ہے؟۔ کس کس پر لگتا ہے بتائیے گاضرور!
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ سارے فرقہ پرستوں کا ایکدوسرے کو کافر کہنے پر اتفاق ہے لیکن ریاستی ایجنسیاں اس کا نوٹس نہیں لیتی ہیں۔ شیعہ پر کفر کا فتویٰ تین وجوہات سے لگایا گیاتھا۔ قرآن کی تحریف، صحابہ کی تکفیر اور عقیدۂ امامت۔ جب تک بڑے پیمانے پر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر قرآن سے متعلق سنی شیعہ دونوں طرف کی مستندکتابوں پر بحث نہیں ہوگی تو کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔
شیعہ سنی اختلافات بہت پرانے ہیں۔ سپاہِ صحابہ وسپاہ محمد نے اتنے شیعہ سنی علماء وعوام کو نہیں مارا ہے جتنے حضرت علی کے دور میں جنگ جمل وصفین میں قتل و غارتگری ہوئی تھی۔پہلے دور میں ہمارا عقیدہ ہے کہ ان جنگوں میں خلوص تھا لیکن آج فرقہ پرستی کا ماحول، ذاتی مفادات اور عالمی قوتوں کی مداخلت کا بھی معاملہ ہے۔ درسِ نظامی میں قرآن وسنت کی تعریف اور احکام میں حنفی ، شافعی اور مالکی مسالک کے درمیان فرق کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو پھر اصلاح کی طرف لوٹنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔ علامہ جواد نقوی اپنوں کو ذوالجناح و زنجیر سے نکال رہے ہیں ۔ ہم بھی ذرا سوچیں تو سہی!۔ مالکی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں اور شافعی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا بھی حصہ ہے اور سورۂ فاتحہ کا بھی۔ حنفی مسلک میں خبر آحاد کی آیات قرآن کا حصہ اور شافعی مسلک میں قرآن پر اضافہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔ حنفی مسلک میں بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے لیکن اس میں شبہ ہے جس کی وجہ سے اس کامنکر کافر نہیں ۔ اگر بسم اللہ مشکوک ہو اور قرآن کے باہر آیات کو مانا جائے تو قرآن میں شک اور کمی بیشی کا عقیدہ پیدا ہوتاہے۔اگر قرآن پر صحابہ کے اختلاف کا عقیدہ رکھا جائے توپھر سنی شیعہ کس بات پر لڑیںگے؟۔کیا سنی مل بیٹھ کر قرآن اور اسکے واضح احکام پرا تفاق اور عمل کیلئے تیار ہیں؟۔جب سنی اپنی خرافات کو چھوڑ کر قرآن پر عمل کرینگے تو شیعہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

شیخ رشید وزیر داخلہ ، عمران خان وزیر اعظم ہو تو پھر ملک کا یہ حال ہوگا۔ آرمی چیف کو مولانا فضل الرحمن کا فون

شیخ رشید وزیر داخلہ ، عمران خان وزیر اعظم ہو تو پھر ملک کا یہ حال ہوگا۔ آرمی چیف کو مولانا فضل الرحمن کا فون

پارلیمنٹ ، PTVپر حملہ کرنے والوں کو عدالت نے عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا کردیا ہے جن میں صدر مملکت بھی شامل تھے اوراب کیا سندھ ہاؤس پر دھاوا بولنے والوں نے بھی ہمت پکڑ لی ؟

مولانا فضل الرحمن اپوزیشن میں اہم کردار ادا کررہے ہیں جس کے فوائد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کیایہ اس خواب کی تعبیربھی ہوسکتی ہے؟

رسول اللہ ۖ کا خواب مولانا فضل الرحمن کی شکل وصورت میں آمد اور بیٹھ کرروئی سے گند صاف کرنے کی کیا تعبیر ہے؟۔ پچھلی بار مولانا فضل غفور نے کسی عالم دین کا خواب بیان کیا، جس پر موافق ومخالف علماء نے کہرام برپا کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے حضرت آدم علیہ السلام سے ٹیلی فونک گفتگو کا خواب بھی بیان کیا۔ آدم نے پوچھا کہ چاہتے کیا ہو؟۔ مولانا نے جواب دیا کہ ”امن ”۔
وزیرداخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ” مولانا فضل الرحمن نے تیل میں ڈنڈے بھگو کر رکھے ہیں، ایک عالم دین ہیں، ماؤزے تنگ نہیں۔ مولا جٹ نہ بنیں”۔ ڈنڈے کا جواب ڈنڈے اور پتھر کا جواب پتھر سے دینے پر قرآن نے کہا ہے کہ ”جتنی انتقامی کاروائی کا نشانہ تمہیں مخالف بنائیں تم بھی اتنا کرسکتے ہو”۔
مولانا فضل الرحمن حلیہ وزبان سے نبی کریم ۖ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُمت پر موت کی کیفیت ہے اور میت کا گند روئی سے صاف کیا جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے مخالفین کہتے ہیں کہ ملا کا کام میت کو غسل دینا اور عبادات ہیں تو سیاست میں یہ کیوں آئے ہیں؟۔ مولانا کے حامی کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک کا سہرا مولانا فضل الرحمن کے سر پر سج گیا ہے۔ میرے بھائی پیر نثار احمد شاہ پہلے مولانا فضل الرحمن کے عقیدتمند اور کارکن تھے اور اب عمران خان سے خیر کی اُمید رکھتے ہیں۔ کسی کا اپنے مفاد کیلئے ساتھ دیا اور نہ کسی کے کہنے پر چلتے ہیں۔
اگر اس وقت عمران خان کا میں کارکن ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کیلئے مجھے گریبان سے پکڑتے کیونکہ جب عمران خان سیاست میں نہیں تھے تو اخبار میں اسلام کے حوالے عمران خان کے اچھے مضامین دیکھ کراس نے پیشگوئی کی تھی کہ ”یہودی لابی اس کو سیاست میں لاکر اقتدار پر مسلط کرے گی”۔ لیکن آج اگر عمران خان کیخلاف مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا تو ممکن ہے کہ میرے گریبان میں ہاتھ ڈال دے۔ جلیل القدر پیغمبر موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کو داڑھی اور سرکے بالوں سے پکڑاتھا تو ہماری کیا اوقات ہے؟۔ نبی کریم ۖ نے انصار کے اوس وخزرج اور انصار ومہاجرین کو بھائی بھائی بنادیا۔ مؤمنین ومنافقین کو بھی لڑنے نہ دیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بیٹے مخلص صحابہ تھے۔ تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے مشرک عیسائی اور حضرت عیسیٰ و مریم کیخلاف گستاخانہ عقائد رکھنے والے یہود کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی۔ تزکیہ ،کتاب و حکمت کی تعلیم، بدرو احد، حنین وخیبر ، صلح حدیبیہ وفتح مکہ اور میثاق مدینہ سے دنیا کو وہ پیغام پہنچایا کہ مشرق ومغرب کی سپر طاقتیں اس قوم کے سامنے سر نگوں ہوگئیں جو پہلے ان پڑھ اور جہالتوں سے مالامال تھی۔آج ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ پڑھے لکھے طبقے کو بھی جہالت وہٹ دھرمی کی طرف دھکیل کر اپنی مشکلات کا خیال رکھے بغیر اپنے تھوڑے سے وقتی اور غیر یقینی مفادات کی بھینٹ چڑھارہے ہیں۔
خان حکومت اتحادیوں اور لوٹوں سے بنی تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر، باہرندیم افضل چن اور ترین گروپ کے علاوہ حفیظ شیخ کا سینیٹ الیکشن ہارنا بھی حکومت کا اخلاقی جواز ختم کرنے کیلئے کافی تھا۔ اپنوں کی وفاداری بدلیں اور اتحادیوں کے پاس جانے کی سبکی بھی اٹھانی پڑی۔ اگر عمران خان نے پھر بھی ہتھکنڈے استعمال کرنا نہیں چھوڑے تو ٹائیگروں میں اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ دودھ کے دھلے دوسرے سیاستدان بھی نہیں البتہ اس حکومت کی مخالفت پر کمر کس لینا جس کی پشت پناہی ہو۔ مولانا فضل الرحمن کو بڑا کریڈٹ جاتا ہے۔
نیوٹرل کوجانور کہنا بزدلی اور بدمعاشی سے اقتدارپر جمے رہنا حماقت ہے۔ مولانا کیوجہ سے خانی توپوں کا نشانہ اسٹیبلشمنت کے بجائے سیاستدان بن گئے۔ استحکامِ پاکستان نبیۖ کا فیضان اور فیضان کے مظہرمولانا فضل الرحمن ہیں؟۔

عقیدت مندعلماء کی طرف سے ویڈیوپیغام
خواب دیکھا کہ نبی کریم ۖ مولانا فضل الرحمن کی شکل میں موجود ہیں
میں تو اس کو چھپارہا تھا لیکن ساتھیوں کے اصرارپر بیان کررہا ہوںتاکہ دوسرے بھی مطلع ہوں۔ دودن پہلے رات ساڑھے چار بجے کے وقت یہ خواب دیکھا کہ نبی کریم ۖ مولانا فضل الرحمن قائدJUIکی شکل و صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ آپ ۖ کھڑے ہیں لیکن شکل و صورت کپڑے لباس سب مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ پھر وہ نیچے بیٹھ جاتے ہیں انکے ہاتھ میں بہت ساری روئی ہے اور نیچے زمین پر کوئی گند پڑا ہوا ہے اس روئی سے اس گند کو صاف کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں اس گند کو صاف کرونگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

امت کے زوال کی دو وجوہات ہیں، ایک قرآن سے دوری اور دوسری امت کا فرقہ واریت میں بٹ جانا۔

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

پاکستان، بھارت، امریکہ، برطانیہ اور دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں، بادشاہتوں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے اپنے اپنے طرز پر حکومت کرکے انسانیت کو تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچادیا۔ روس نے یوکرین پر قبضہ کیا تو اس میں امریکہ ونیٹو کا بھی زبردست کردار ہے۔ انسانی آبادی پر گرائے گئے بموں کے جلتے شعلوں سے آسمان لرز رہاہے۔ زمین دہک رہی ہے اور انسانیت جل رہی ہے۔ اب دنیا کو تباہی وبربادی سے بچانے کی صلاحیت صرف اسلامی نظام میں ہے مگر اسلامی نظام عام مسلمانوں کو تو بہت دور کی بات ہے علماء ومفتیان کے علم وفکر سے بھی بالاتر نظر آتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مولانا رشیداحمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنا ایک ہونہار شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن پیدا کیا۔ شیخ الہندؒ نے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ، مولاناشبیر احمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد الیاس، مولانا سیدانورشاہ کشمیری، مولانا عبیداللہ سندھی اورمولانا عزیر گل جیسے نامور شاگرد پیدا کئے تھے۔ پھر جب شیخ الہند مالٹا میں قید ہوئے تو جیل میں قرآن کریم کی طرف توجہ کرنے کا موقع مل گیا۔ جب1920ء میں آزاد ہوکر ہندوستان آگئے تو شیخ الہند کی رائے بالکل بدل چکی تھی۔ امت کے زوال کے دو اسباب بتائے۔ایک قرآن سے دوری اور دوسری فرقہ واریت میں امت کی تقسیم۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ ”فرقہ واریت کی لعنت بھی قرآن سے دوری کے سبب ہے“۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہندکے مشن کیلئے کام کیا مگرشیخ الہند کے دیگر شاگردوں نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ پھر مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی آخر میں کہا کہ ”میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی ہے اسلئے کہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی وکالت میں اپنی زندگی ضائع کردی ہے“۔
پاک وہندکے معروف علماء ومفتیان مولانا سیدمحمدیوسف بنوری،مفتی محمد شفیع،مولانا شمس الحق افغانی، مولاناسیدمحمدمیاں، مولاناادریس کاندہلوی، مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک،مولانا قاری محمد طیب، مولانا محمد طاہر پنج پیری،مفتی محمود شیخ الہند ؒ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔ جن میں مولانا مفتی محمد حسام اللہ شریفی حیات ہیں۔ شیخ الہند ؒ اور مولانا کشمیری ؒ نے اپنی آخری عمر میں فرمایا کہ ”قرآن وسنت کی خدمت کرنے کے بجائے فقہ کی وکالت میں زندگی ضائع کرد ی۔ مفتی اعظم مفتی محمد شفیع نے فرمایا کہ ”مدارس بانجھ ہوگئے ہیں۔ شیخ الہند مولوی کہلاتے تھے لیکن ان کے پاس علم تھا اور آج مولانا، علامہ اور بڑے بڑے القاب والے ہیں لیکن ان کے پاس علم نہیں ہے“۔ آج مفتی محمد شفیع کاایک بیٹا شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور دوسرابیٹا مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی ہے۔پہلے اندھوں میں کانا راجہ ہوتے تھے اوراب آندھیوں کی طرح ہر چیز جاہل طبقوں کی طرف سے ملیامیٹ ہورہی ہے۔ سودی بینکاری میں اصل رقم سلامت اور اضافی سود ملنے کے بعد بھی زکوٰۃ کی ادائیگی کا فتویٰ دیدیا گیا۔ مثلاً بینک میں 10لاکھ پرایک لاکھ سالانہ سود بن گیا۔ اس میں 25ہزار روپیہ زکوٰۃ کے نام پر کٹ گئے اور10لاکھ اصل رقم بھی محفوظ رہی اور مزید75ہزار سود بھی مل گیا۔ مفتی محمودؒ نے زندگی کے آخری لمحے مفتی تقی اور مفتی رفیع عثمانی کو جامعہ نیوٹاؤن کراچی میں طلب کیا کہ بینکوں کے سودسے زکوٰۃ کی کٹوتی کا فتویٰ غلط ہے اور اس میں نہ سمجھ میں آنے والی راکٹ سائنس نہیں تھی۔
جب مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن نے پہلے عمران خان کی حکومت کو گرانے سے انحراف کیا تھا توہم نے نشاندہی کی تھی۔PDMنے23مارچ تک اسلام آباد پہنچنے کیلئے ایک لمبی تاریخ دی تھی،اب جب اس کا وقت قریب آگیا ہے تو عدمِ اعتماد کا شوشہ صرف اسلئے چھوڑ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ڈر سے ن لیگ اور جمعیت علماء اسلام اصل میں لانگ مارچ سے بھاگ رہی ہیں۔ جن صحافیوں نے جھوٹ بول بول کر فضاء بنانے کی کوشش کی تھی کہ ن لیگ کا حلالہ ہوچکا ہے اور اب وہ خاتون اول بن کر امید سے ہے تو یہ کرائے کے صحافی کا اصل کردار بہت خطرناک ہے۔ میڈیا کو مکمل آزادی ہونی چاہیے لیکن کرائے کے صحافیوں کو آئینہ دکھانے کی بھی بہت سخت ضرورت ہے۔ شاہد خاقان عباسی، مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز متحرک ہوجاتے تو سیاست میں ہلچل مچ سکتی تھی لیکن یہ صرف اور صرف23مارچ کے لانگ مارچ سے جان چھڑانے میں لگے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

کراچی سے ایک پائیدار اسلامی جمہوری انقلاب آسکتاہے

کراچی سے ایک پائیدار اسلامی جمہوری انقلاب آسکتاہے

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

ڈاکٹر فاروق ستار اور اس کا گروپ، ایم اکیو ایم بہادر آباد، ایم کیوا یم حقیقی، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن، پیپلزپارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی، سندھ کی تمام مقامی پارٹیاں اور مہاجر،پنجابی، پشتون، بلوچ، سرائیکی، ہزارے وال،کشمیری اور پاکستان کے چپے چپے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد کراچی میں پرامن طریقے سے اپنے روزگار کیلئے رہتی ہے۔ اگر یہاں اخوت اوربھائی چارے کا ماحول پیدا کیا گیا تو مقتدر قوتوں کو بھی عوام کے مفاد میں اپنی مفادپرستی سے ہاتھ اُٹھانے پڑیں گے۔ یہاں بجلی، گیس، پانی ، ٹوٹی ہوئی سڑکوں، تعلیم اور علاج کے علاوہ قبضہ مافیا ز کے بہت سارے مسائل ہیں۔ ہلڑ بازی اور لڑائی سے مسائل بڑھ سکتے ہیں لیکن کم نہیں ہوسکتے ہیں۔ کون کس کو ماموں بنارہاہے؟ ۔ اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے پیپلزپارٹی سے کامیاب معاہدہ کیا لیکن گیم سندھ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے جس پرمعاہدہ کرنے والے عمل در آمد نہیں کراسکتے ہیں۔ اب عدالت نے ایم کیو ایم کی درخواست پر سندھ حکومت کے خلاف فیصلہ دیا ہے کہ شہری حکومت میں صوبائی حکومت مداخلت نہیں کرسکتی۔
ڈکٹیٹر شپ نے بھی روشنی اور امن وامان کے شہر کراچی کو ہتھوڑا گروپ سے لیکر بیت الحمزہ کے نام سے ٹارچر سیل بنانے اور گرانے تک پتہ نہیں کیا کیا دیا؟۔ اب پھر عوام کے اندر تعصبات کا کیڑا جگانے کی ناکام کوشش ہورہی ہے لیکن اب عوام کا کسی پر بھی اعتماد نہیں ہے کیونکہ عوام کیلئے کسی نے بھی کچھ نہیں کیا ہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار، حافظ نعیم الرحمن، ایم کیوایم متحدہ اور ایم کیوایم حقیقی کے اصحاب حل وعقد کے علاوہ تمام پارٹیوں اور قومیتوں کے سرکردہ لوگ بیٹھ جائیں۔ ماؤں ،بہنوں، بیٹیوں اور بیگمات کی عزتوں کے تحفظ کیلئے سب سے پہلے کراچی شہر سے حلالہ کی لعنت کے خاتمے کیلئے بڑے بڑے مدارس میں میٹنگ رکھ کر فیصلہ کن کردار ادا کریں۔ اسلام، مذہب اور معاشرے کی سمت درست ہوجائے گی تو پھر دوسرے مسائل کی طرف بھی توجہ جائے گی۔ جماعت اسلامی سندھ کے دفتر فیڈرل بی ایریا میں اتحادالعلماء سندھ کے صدر مولانا عبدالرؤف سے ملاقات کیلئے حاضری دی تھی تو ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی سے بھی سرسری دعا سلام ہوئی تھی۔ مولانا عبدالرؤف کے داماد مفتی محمود شاہ نے پیشکش کی تھی کہ حلالہ کے بغیر رجوع کیلئے ایک مدرسہ قائم کرلیتے ہیں لیکن مجھے گروہی کام میں دلچسپی نہیں ہے۔ اسلام ایک اجتماعی دین ہے اور سواداعظم کے نام سے لوگوں نے اپنے چہرے سیاہ کئے ہیں لیکن ایسا کام نہیں کیا کہ اس کی وجہ سے امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی جماعت عوام کا رُخ درست جانب موڑ سکے۔ ویسے اعظم کے معنی اکثر کے نہیں ہیں اسلئے کہ عربی میں اکثر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قرآن نے اکثریت کو معیار بنانے کی مخالفت کی ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”میری امت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے اور وہ سب پر غالب ہونگے”۔
جس کو اہل حق ہونے کا یقین ہوتا ہے تو وہ صلح حدیبیہ کی شرائط پر بھی صلح کرتا ہے اور فاتح مکہ بن کر بھی اپنے دشمنوں کو عزت بخش دیتا ہے لیکن جو اندرسے بڑا کمزور ہوتا ہے وہ گروہ پرستی اور طبقات پرستی کے تعصبات کو ہوا دینے میں عافیت ڈھونڈتا ہے۔ انگریز نے لڑاؤ اور حکومت کی پالیسی بنائی اور آج بھی اس کی باقیات اپنی سوچ سے تائب ہونے کیلئے تیار نہیں ہے لیکن اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ سلیم صافی نے چند جنرلوں امجد شعیب ، اعجاز اعوان اور اسد خٹک کی بیٹھک کرائی اور تینوں نے اپنا اپنا نکتہ نظر پیش کیا ۔ امجد شعیب نے فوج کے خلاف سخت پروپیگنڈے کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اس بات کی طرف نہیں دیکھا کہ جب سروس روڈ ، پبلک پارک اور سرکاری تعلیمی اداروں پر فوج کے ادارے قبضہ کریں تو عام آدمی کی زبان پر بھی حقائق آئیں گے اور جو غلط وکالت کریگا وہ بھی مسترد ہوگا۔ اعجاز اعوان نے بہت اچھی باتیں کیں کہ اشرافیہ کا تعلق جس طبقے سے بھی ہو اسکی بے تحاشاہوس زر نے قوم کو اس حد تک پہنچادیا ہے۔ اسد خٹک نے عام آدمی کے نام سے سیاسی پارٹی بنانے کی خبر دی ہے۔
قرآن کی سورۂ واقعہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو بڑے بڑے ہاتھ مارنے پر مسلسل اصرار میں مگن ہوں اور ان کا دنیا میں حشر نشر بھی بتایا ہے۔ سورہ دھر میں ایک انقلاب عظیم اور ملک عظیم کی خبر ہے اور ایک بدنما بیماری کا ذکر بھی ہے۔ کرونا کے حوالے سے مولانا سلیم اللہ خان نے صحیح بخاری کی حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اب قرآنی اور اسلامی انقلاب کی راہ میں عوام اور سیاسی پارٹیاں نہیں بلکہ مذہبی لوگ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے۔ جمعیت علماء اسلام ایک بڑی مذہبی جماعت ہے اور بریلوی ، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث بڑے بڑے فرقے ہیں۔ سب اسلام چاہتے ہیں لیکن ایمان لانے کو تیار نہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

پاکستان احیائے اسلام کا مرکز ہے اور یہاں بسنے والی قومیں قیادت کی حقدار ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی

اسلام کی نشاة ثانیہ کا مرکز اور یہاں بسنے والی قومیں امامت کی حقدار
مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنی تفسیر المقام المحمود کی سورة القدر کی تفسیرمیں بہت بڑاانکشاف کردیا تھا؟

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

مولانا عبیداللہ سندھی نے کراچی کو اسلامی تحریک کا مرکز بنانے کا مشورہ دیا اور اگر کراچی میں یہ ممکن نہ ہو تو شکارپور سندھ کو مرکز بنانے کی تجویز رکھی تھی۔ آپ کا مشن اپنے استاذ اسیرمالٹا شیخ الہندمحمود الحسن کی تلقین پر قرآن کی طرف رجوع اور فرقہ واریت کا خاتمہ تھا۔ قرآن کے آخری پارہ عم کی تفسیر المقام المحمود میں سورة القدر کی تفسیر میں مولانا عبیداللہ سندھی نے زبردست انکشاف کیا ہے کہ
”سندھ، بلوچستان، کشمیر، پنجاب، فرنٹیئراور افغانستان میں جس قدر قومیں بستی ہیں یہ سب کی سب امامت کی حقدار ہیں۔ اسلام کی نشاة ثانیہ یہیں سے ہوگی ۔ اگر پوری دنیا کو بھی ہمارے مقابلے پر ہندو لے آئیں تو اس خطے سے ہم دستبردار نہیں ہوں گے۔ کیونکہ اب اسلام کی نشاة ثانیہ عرب نہیں عجم سے ہوگی اور عجم کا مرکزی حصہ یہی ہے۔ سندھ کا احادیث میں ذکر ہے اور پنجاب کے پانچوں دریا اور دریائے کابل وغیرہ اس کا حصہ ہیں۔ حنفی مسلک کی بنیاد قرآنی تعلیمات ہیں اور امام ابوحنیفہ ائمہ اہل بیت کے شاگرد تھے اسلئے ایران بھی یہاں کی قیادت کو قبول کرلے گا”۔(المقام المحمود)
مولانا عبیداللہ سندھی نے جلاوطنی کی زندگی گزاری ،تحریک ریشمی رومال کا آپ حصہ تھے جس میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور آپ کے شاگرد مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عزیر گل مالٹا جیل پہنچائے گئے تھے۔1920میں شیخ الہند مالٹا جیل سے رہاہوکر ہندوستان واپس آگئے اور جیل میں قرآن کی طرف رجوع کا احساس پیدا ہوا تھا۔ دارالعلوم دیوبند اور مدارس نے آپ کی نصیحت اور وصیت کو نظرانداز کردیا کہ درسِ نظامی کو چھوڑ کر قرآن کی طرف رجوع اور فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جائے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے شیخ الہند کے مشن کیلئے سکول وکالج کے طلبہ پر توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ شیخ الہند نے1920میں حکیم اجمل خان کی یونیورسٹی کا افتتاح کیا، اسی سن میں وفات پاگئے۔ جمعیت علماء ہند سیاسی ڈگر پر کانگریس اور جمعیت علماء اسلام مسلم لیگ کیساتھ ہوگئی اور مولانا انور شاہ کشمیری نے دارالعلوم دیوبند کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔مولانا الیاسنے تبلیغ شروع کردی۔ مدارس اور تبلیغی جماعت کے کارکنوں نے اپنے اپنے حساب سے دین کی خدمت اور فرقہ واریت کے بیج بونے میں بھی زبردست کردار ادا کیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی کی تحریک دھری کی دھری رہ گئی۔ مولانا انورشاہ کشمیری نے عمرکے آخری حصہ میں مولانا سندھی سے معافی مانگ لی اور یہ بھی واضح فرمایا کہ”میں نے مدرسے کی تدریس میں ساری عمر ضائع کردی، کیونکہ قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ فقہ کی فضول وکالت میں اپنی ساری زندگی ضائع کردی”۔
مولانا محمدالیاس نے عوام کے اندر دین کے فضائل کے ذریعے زبردست تحریک چلائی لیکن مدارس اور خانقاہوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کے رجوع کا سلسلہ جاری ہونے کے باوجود کوئی خاطر خواہ نتیجہ اسلئے نہیں نکل سکا کہ قرآن کی طرف رجوع کے بجائے مولانا انور شاہ کشمیری کے طرز پر زندگی ضائع کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ علامہ سید محمدیوسف بنوری نے اپنے مدرسے کی بنیاد تقوے پر رکھی لیکن نصاب کی تبدیلی کا انقلاب برپا کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حضرت حاجی محمد عثمان نے فرقہ وارنہ تشخص کے خاتمے کیلئے مسجد کانام الٰہیہ رکھا۔ مدرسے کانام محمدیہ رکھا، خانقاہ کانام چشتیہ ، یتیم خانہ کا نام سیدنا اصغر بن حسین رکھا اور خدمت گاہ کا نام قادریہ رکھا۔ ہزاروں مکاشفے دیکھنے والوں میں علماء کرام، تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگانے والے اور اہلحدیث حضرات بھی شامل تھے۔
ایک مکاشفہ یہ بھی بیان ہوا کہ حضرت شیخ الہندمحمود الحسن نے مولاناالیاس کے ہاتھ سے حاجی محمد عثمان کی تاج پوشی کردی۔ مولاناسید محمد یوسف بنوری کی حاجی محمد عثمان سے دوستی تھی۔ مفتی احمدالرحمن ، مفتی ولی حسن ٹونکیحاجی عثمان کے ہاں آتے تھے۔ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر اور میرے استاذمولاناشیرمحمد کہتے تھے کہ ”مفتی ولی حسن میرے استاذہیں لیکن اپنے دشمن مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی اور مفتی رشید لدھیانوی کے ہاتھوں اپنے دوست حاجی محمد عثمان کے خلاف استعمال ہوگئے”۔ بڑے معروف مدارس کے علماء و مفتیان حاجی محمدعثمان سے بیعت تھے اور8بریگڈئیر،ایک کور کمانڈر نصیر اختر اورمیجر جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ بھی بیعت تھے۔ جس کو پھر بھاگنے کے بعد پرویزمشرف کے دور میں آرمی چیف بننے پرانتہائی ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اگر دارالعلوم کراچی1970میں جمعیت علماء اسلام کے خلاف سازش نہ کرتی تو جمعیت علماء پاکستان کیساتھ مل کر اقتدار میں بھی آسکتی تھی۔ اس فتوے کا اثر آج بھی جمعیت علماء اسلام کے خلاف مذہبی حلقوں میں موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم کے مقابلے میں مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا عبداللہ درخواستی کی جماعت امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں پاکستان کو اسلامی نظام دے سکتی تھی۔کیونکہ یہ لوگ مولانا عبیداللہ سندھی سے عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی نے امریکہ ہی کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ آخر کار مذہبی سیاسی قیادت سے بدظن مدارس نے جماعت اسلامی کے شانہ بشانہ امریکی جہاد کا بیڑہ بھی اٹھالیا ۔ جماعت اسلامی کرائے کے مجاہد کی ماں اور جنرل ضیاء الحق اس کا باپ تھا اور امریکہ اس کا دادا تھا۔ جب امریکہ نے عاق کردیا ۔ جنرل ضیاء فوت ہوگیاتو مولانا فضل الرحمن سوتیلا باپ بن گیا۔ جماعت اسلامی کچھ عرصہ متحدہ مجلس عمل میں جمعیت علماء اسلام کیساتھ رہی اورپھر اپنے سارے ڈھانچے کے باوجود ایک کونے میں سمٹ گئی۔ ابMQMکے ساتھ ملکر کراچی میں بلدیاتی نظام کے نام پر توانائی حاصل کرنے میں لگی ہے۔
ملی یکجہتی کونسل میں اسکے پارٹنر جمعیت علماء اسلام س کا وجود محدود ہوگیا ہے اور اسلامی جمہوری اتحادمیں اسکے پارٹنر مسلم لیگ ن پر جمعیت علماء اسلام نے اپنا اثر جمالیا ہے۔متحدہ مجلس عمل کو چھوڑ کر تحریک انصاف کیلئے بھی جماعت اسلامی نے بیساکھی کا کردار ادا کیا تھا لیکن اب وہ آخری حربے کے طور پر الطاف حسین کے دریتیم کوکسی اشارے پر استعمال کرنا چا ہے گی۔ پہلے احتجاجی دھرنے کے بڑے بڑے بینروں پر جماعت اسلامی نے نام تک بھی نیک نامی کی وجہ سے درج نہیں کیا تھا لیکن جب پیپلزپارٹی کے رہنما سعید غنی نے بڑا طعنہ دیا تو پھر جماعت اسلامی لکھ دیا گیا۔ بہروپ بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا ،اصلیت اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ مشعال خان کے بہیمانہ قتل پر سراج الحق کا اسلام کچھ اور تھا اور سری لنکن شہری کے قتل پر کچھ اور تھا۔ سلیم صافی جیو گروپ کے ناطے نوازشریف سے تعلق اور مولانا فضل الرحمن سے ہمدردی کے باوجود سخت سوالات کرلیتا ہے لیکن جب سراج الحق نے سری لنکن شہری پر اپنا مؤقف دیا تو سلیم صافی نے صحافت کا حق ادا کرتے ہوئے مشعال خان کے بارے میں رویہ کا سوال نہیں اٹھایا۔ جو صحافت، اسلام اور پشتو غیرت کا کوئی تقاضہ نہیں ہے لیکن جماعت اسلامی سے پرانی یاری کا حق ادا ہورہاہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دار العلوم دیوبند کے ماننے والوں نے جب سود کو جائز قرار دیا ہے تو پھر لڑائی کس بات پر ہے؟۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv