مارچ 2023 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

پاکستان نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کیوں فائدہ نہیں اٹھایا؟، اب بھی تقدیر بدل سکتی ہے

پاکستان نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کیوں فائدہ نہیں اٹھایا؟، اب بھی تقدیر بدل سکتی ہے

سعودی عرب کے پاس تیل کی دولت تھی اور اس کی وجہ سے وہ ہمیں زکوٰة ، خیرات دیتے تھے لیکن اگر ہم ایران سے تیل خریدتے تو جونقصان سودکی مد میں ہم نے اٹھالیا،وہ بہت زیادہ ہے

ہمارے پاس پانی کے بہاؤ کی دولت موجود تھی، جس سے بڑے پیمانے پر بجلی بناسکتے تھے اور اس سے پانی کی دولت میں کمی نہیں بلکہ اتنا اضافہ ہوتا کہ پورے پاکستان کی بنجر زمین آباد ہوتی

جن فوجی جرنیلوں ، سول بیوروکریٹ ،عدلیہ ججوں اور سیاستدانوں کے خاندان اور ان کی دولت ملک سے باہر ہے ،ان کو فوری طور پر ہٹایا جائے اورپینشن ختم کی جائے تو انقلاب آجائیگا!

پاکستان کے پاس پانی کے بہاؤ کی دولت تھی جس سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرکے پوری دنیا میں اس ملک کو بہت طاقتور ملک بنایا جاسکتا تھا۔ تیل وگیس اور سونے چاندی کے ذخائر ختم ہوسکتے ہیں لیکن پانی سے بجلی بنانے کی ترتیب وہ دولت ہے جس سے ایک قطرہ پانی بھی کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ ذخائر سے سمندر میں فالتو پانی گرنے سے بچتا ہے۔ زمین جب زرخیز بنتی ہے تو بارش زیادہ برستی ہے اور جب پانی زیادہ برستا ہے تو سمندر میں گرانے کی گنجائش بھی بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم پانی سے بڑے پیمانے پر بجلی بناتے تو آج دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ایسا گرتا کہ سورۂ رحمان کا وہ منظر دکھائی دیتا کہ
مرج البحرین یلتقےٰنoبینھما برزخ لا یبغےٰنoفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنOیخرج منھما اللؤ لؤ والمرجانOفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنOولہ الجوار المنشئٰت فی البحر کالاعلامOفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنOکل من علیھا فانOویبقٰی وجہ ذوالجلٰل و الاکرامOفای اٰلآ ء ربکماتکذبٰنO
ترجمہ :” اسی نے دو دریا رواں کئے ہیں جو آپس میں ملتے ہیں۔ دونوں میں آڑ ہے کہ اس سے تجاوز نہیں کرتے۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟۔دونوں دریاؤں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟۔اور جہاز بھی اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑ کی طرح کھڑے ہیں۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟۔ اور ان میں سے ہر چیز فنا ہونے والی ہے اور تمہارے رب کی وجاہت باقی رہے گی جو عظمت و جلال کا مالک ہے۔ تو تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟”۔
مسلمان آنکھ کے نہیں دل کے اندھے بن چکے ہیں۔ سورۂ رحمان میں ان تمام نعمتوں کا ذکر ہے جس کا تعلق جنت سے نہیں بلکہ دنیا سے ہے اور فنا ہونے والی ہیں۔ صحابہ کرام کے دور میں سمندر کے اندر پہاڑ جیسے بحری جہازوں کا تصور بھی نہیں تھا۔ حجاز مقدس کو اللہ نے دو ایسے دریاؤں سے نہیں نوازا ہے جیسے برصغیر پاک وہند میں گنگا وجمنا اور پنجاب کے پانچ دریا ہیں۔ اگر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا تو کراچی میں لیاری اور ملیر ندی خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ قرآن کی ان آیات کا منظر پیش کریںگی۔ اب تو کراچی کے ڈیفنس میں دو دریا کے نام سے بہت زبردست رات کے ہوٹل آباد ہیں لیکن لوگوں میں غربت کی وجہ سے وہاں کھانے کا رحجان کم ہوتا جارہاہے۔ جب یہ ملک ترقی کرے گا تو یہی دو دریا سورۂ رحمان کا منظر پیش کررہاہوگا۔ سمندر میں پہاڑ جیسے جہاز کھڑے نظر آئیںگے۔ لیاری اور ملیر ندی نہ صرف دو دریا کا منظر پیش کررہی ہوں گی بلکہ اس میں ہیرے اور مرجان بھی ملیںگے۔ البتہ یہ سب کچھ فانی ہوگا۔ نوازشریف اور بھٹو کے خاندان نے پنجاب اور سندھ پر ہمیشہ قیامت تک کیلئے اپنے اقتدار کا غلط خواب دیکھا ہے ، ہمیشہ قائم رہنے والی ایک ذات خدا کی ہے۔ کراچی کے مہاجروں نے اسلام کی خاطر پاکستان ہجرت کی تھی اور خواب کی تعبیرملے گی۔
ڈاکٹر تیمور رحمن کے سوشل میڈیا پر بیان کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ پاکستان کی ریاست کو کمزور کرنے کیلئے بینظیر بھٹو کو تیل سے بجلی بنانے کا منصوبہ دیاگیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے میزائل پروگرام پاکستان کو دیا اور سندھ کیلئے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ختم کرنے کو مفید سمجھ لیا لیکن اس سے پاکستان کی معیشت بیٹھ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ ملوں اور فیکٹریوں کو بھی سرکاری تحویل میں لیا تھا اور بینظیر بھٹو نے سرکاری املاک کو بھی پرائیوٹ کردیا۔ باپ بیٹی میں تضاد کیوں تھا؟۔ نیم ملا خطرہ ایمان نیم حکیم خطرہ جان کی طرح اسلامی سوشلزم بھی کسی کام کا نہیں تھا بلکہ زیادہ خطرناک تھا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھا تو پہلی مرتبہ بلوچ وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے کو ایک ساتھی سمیت اغواء کرکے شہید کیا گیاتھا۔ بلوچ رہنماخیربخش مری سے وسعت اللہ خان نے انٹرویو لیا تھا اور خیربخش مری نے ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کا جن الفاظ میں تذکرہ کیا ہے وہ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ پھر یہ پالیسی نوازشریف اور عمران خان تک جاری وساری رہی ہے جس سے ہمارے اداروں کی ساکھ بھی خراب ہوئی اور قوم بھی تباہ وبرباد ہوگئی۔ پرویزمشرف کیساتھ کون کون کھڑے تھے اس کو اس وقت کے گروپ فوٹوز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جب ولی خان کو صدارت کی پیشکش کی گئی تو اس نے کہا تھا کہ ” یہ ایسی کرسی ہے کہ جو بھی اس پر بیٹھا اس کی شلوار ادھر ہی رہ جاتی ہے۔ آخری عمرمیں اپنی عزت نہیں کھونا چاہتا ہوں”۔
سلیم صافی نے جناح سینٹر اسلام آباد میں غفار خان اور ولی خان کی یادگار کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن کی تقریر پر اپنا تجزیہ دیا تھا کہ ” جب مفتی محمود وزیر اعلیٰ بنادئیے گئے تو اب پختونخواہ کی گورنری بھی میاں افتخارحسین سے چھین کر حاجی غلام علی کو دیدی گئی”۔ سلیم صافی کا بنیادی تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور یہ لوگ مولانا مودودی کے بعد حاجی میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق تک کبھی کسی عالم دین کو جماعت اسلامی کا امیر بنانا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں۔ مولانا مودودی بھی پہلے داڑھی منڈا تھا۔ دارالعلوم دیوبندماہنامہ کے ایڈیٹر نے علماء کو دیکھا کہ اسلام جیسے دین کو نکاح ، طلاق، حلالہ ، میت کو غسل دینے اورسودی کاروبار کیلئے حیلے تراشنے تک محدود کررکھا ہے ۔ اسلئے ایک اپنی جماعت بناڈالی اور بڑی چوٹی کے علماء بھی ساتھ میں رکھے جنہوں نے بعد میں اختلاف کے باعث علیحدگی اختیار کرلی اور اس میں علماء ہی نہیں باقی دانشور بھی ان سے جدا ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے اسلام کی خاطر اقتدار تو حاصل نہیں کیا مگر ڈکٹیٹر کی صلیب پر لٹک گئی۔ جنرل ضیاء کا ریفرینڈم ، اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر ظالمو! قاضی آرہاہے!۔ تک اپنا سب کچھ کھو دیا ۔اب بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کا لبادہ اوڑھ کر ڈرامے کی آخری قسط ختم ہونے کے قریب لگ رہی ہے اور اس سے پہلے گرگٹ کی طرح بڑے رنگ بدلے ۔ کبھی یکم یوم مئی کے مقابلے میں ”یوم بدر” منانے کی کوشش کی اور پھر وہ وقت آیا کہ سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے لال ٹوپی پہن کر یوم مئی مزدروں کے ساتھ منایا مگر حاصل کیا ہوا؟۔
زیادہ عرصہ کی بات نہیں کہPDMنے آرمی چیف ،DGISIاور فوج سے آزادی کا طبل بجایا۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ اتنی بڑی تحریک کیلئے پھر نوازشریف کو بھی میدان میں آنا چاہیے۔ مریم نواز کو یہ بات اتنی بری لگی کہ اس پر پیپلزپارٹی کوPDMسے باہر پھینک دیا۔ حالانکہ اسی پیپلزپارٹی نے مریم نواز کی گستاخی کرنے پر فوج کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ جبPDMکا بیانیہ مہنگائی ، فوج کی مداخلت اور نئے الیکشن کا تھا تو وہ موقع بھی ان کے ہاتھ میں آگیا۔ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن سب نے مل کر دی تھی اور عمران خان اتناکہتا تھا کہ ہم ایک پیج پر ہیں کہDGISPRجنرل آصف غفور کو اس وقت وضاحت کرنا پڑی جب نوازشریف اڈیالہ جیل میں تھے اور مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا تھا کہ” فوج ہر اس سیاسی جماعت کیساتھ ہے جو جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے”۔ تاکہ فوج پر ایک پیج کا دھبہ ختم ہوجائے لیکن پھر سوشل میڈیا کی زرخرید ٹیموں نے معاملات میں مزید غلط فہمیاں پیداکرنے میں کردار ادا کیا اور جب عمران خان کے پاؤں سے آصف زرداری نے زمین نکالی تو اس کو اپنے بندوق کے نشانے پر رکھنے کا اعلان کیا۔ پھر امریکہ مخالف بیانیہ اور اسٹبیلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا۔PDMپھر اپنی تینوں منزلوں کی مہم جوئی سے پیچھے ہٹ گئی اور آئین اور انتخابات سے بھی بھاگ رہی ہے۔ ضمنی الیکشن میں شکست کھائی تو آئندہ ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے بھی انکار کیا اور جب گئی تو شکست ہوئی ۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین، رہنما اور کارکن قوم کا عظیم سرمایہ ہیں لیکن وہ اپنی غلطیوں کو سمجھ کر اعلانیہ توبہ کریں۔ اگر زرداری معصوم تھا تو شہباز شریف اپنی الزام تراشیوں پر مرغا بن جائے اور اگر نوازشریف پر پیپلزپارٹی نے ایون فیلڈ کے غلط کیس بنانے تھے تو مریم نواز خالی اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ قوم میں بڑا غصہ ہے۔ عمران خان کی مقبولیت نہیںPDMاور جماعت اسلامی سے نفرت کا نتیجہ ہے کہ لوگPTIکو سپورٹ کررہے ہیں۔ عمران خان اس سے پہلے زیادہ بڑی بڑھکیاں مارتا تھا لیکن کچھ نہیں کرسکا۔ اب کونساتیر مارے گا سب کو پتہ ہے لیکنPDMکے قائدین کی شکلوں سے لوگوں کو نفرت ہوگئی ہے۔
ہم نے نئی سیاسی جماعت کا اعلان بہت مجبوری میں کیا ہے۔ منشور ایسا ہونا چاہیے کہ اقتدار کے بغیر بھی مسئلے حل ہوں۔ نبی کریم ۖ نے اقتدار کے بغیر بھی اسلام کے مسائل حل کردئیے تھے اور اسی کے نتیجے میں مسلمانوں کو طویل اقتدار مل گیا۔ حجاز مقدس میںاسلام سے پہلے جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ، حضرت عمر فاروق اعظم اپنے کردار کی بدولت خلیفہ بن گئے۔ ورنہ پہلے اونٹ چرانے پر بھی مار پڑتی تھی۔ پھر اسلامی منشور کی وجہ سے ان کے سامنے مشرق ومغرب کی سپر طاقتوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ بیت المقدس کی چابی حوالے کی گئی تھی۔
ہم نے جنت جیسے پاکستان، ایران اور افغانستان کو اپنی عوام کیلئے جہنم بنادیا ہے۔ حجاز میں مکہ سے مدینہ تک پانی کا نالہ بھی نہیں تھا لیکن حجازی دنیا میں سب طرف بہترین ممالک کو فتح کرکے جنت کے مالک بن گئے تھے۔خاندانی یزید کے اقتدار کی ہوس یزید کے بیٹے معاویہ میں بھی نہیں تھی اور حضرت معاویہ کے بھائی یزید نے بھی اسلام کی خاطر زبردست کردار ادا کیا۔ دنیائے اسلام اب دونوں یزید اور معاویہ سے بے خبر ہیں جن کو اہل تشیع بھی مان سکتے ہیں۔
بنوا میہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسا ہیرہ بھی نکل آیا تھا جو بنی مروان سے تعلق رکھتا تھا۔ یزیدی لشکر کے سپاہ سالار حضرت حر علیہ السلام کا کرداربہت زبردست تھا۔ سیاسی جماعتوں میں اچھے اچھے قائدین اور رہنماؤں کے کردار کو اپنی قوم کا بہت بڑا اثاثہ سمجھنا چاہیے۔ سب مل جل کر پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالیں۔ آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر اپنے ادارے اور سیاسی جماعتوں کو معروف پر جمع کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ احسان نہ سمجھیں کہ آرمی چیف انہوں نے بنائے اور وہ نمک حرام نکلے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ آرمی چیف کے عہدے تک پہنچنے کیلئے ایک طویل محنت ہوتی ہے ۔ کوئی نامزد کرکے پاتال سے آسمان تک نہیں پہنچاتا ہے بلکہ جس جس میں ایک طرح کی اہلیت ہوتی ہے ان میں سے ایک کو نامزد کرنا پڑتا ہے۔چوہدری نثار اور پھر شاہد خاقان عباسی سے بھی برداشت نہیں ہوا کہ مریم نوازکے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں لیکن آرمی چیف کو سیلیوٹ کرنا پڑتا ہے اسلئے کہ اسکی ساری زندگی اسی ڈسپلن میں گزری ہوتی ہے۔ ظفراللہ جمالی کو ایک ووٹ کی برتری پر مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں وزیراعظم بنایا گیا۔ جمعیت علماء اسلام کی اپنی ذیلی جماعت سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق نے اپنا اکلوتا ووٹ ظفراللہ جمالی کو دیا تھا اور عمران خان نے اپنا اکلوتا ووٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا۔ پھر دشمنی کی کیا اوقات ہے؟۔مولانا فضل الرحمن نے اپنے اتحادی جمعیت علماء اسلام س کی بجائے ٹانک کے دفتر مرکزی مسجد جامع مسجد سفید (سپین جماعت) مولانا فتح خان کو تحریک انصاف کے ایوب خان بیٹنی کیلئے وقف کیا تھا۔ جو مولانا شیخ محمد شفیع ضلعی امیرجمعیت علماء اسلام س امیدوار برائےMPAکا الیکشن لڑرہے تھے۔ جب جنرل ظہیرالاسلام عباسی نے ہمارے سامنے ایوب بیٹنی سے کہا تھا کہ یہودی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو ہم نے بتایا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کا مرکز سپین جماعت (سفید جامع مسجد) اس کا دفتر تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے پشاور اورچارسدہ میں غلام احمد بلور اور اپنے مولانا قاسم کو ہارتے دیکھا ہے اسلئے وہ خود اسمبلی میں جانے کیلئے بھی الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ حالانکہ اب تو کوئی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بھی نہیں ہے۔ ہم مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیتے ہیں کہ جن ایشوز کو ہم نے اٹھایا ہے وہ ان کو اپنے منشور میں داخل کردیں اور حلالہ کی لعنت سے اپنے لوگوں کی جان چھڑائیں تو اپنا کھویا ہوا وقار واپس مل سکتا ہے۔ ہندوستان میں پرسنل لاء کے اندر مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا اسلئے ہے کہ علماء نے قرآن وسنت کے درست احکام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور مولانا اس میں اپنا زبردست کردار ادا کرسکتے ہیں جس سے افغان طالبان کو بھی دنیا تسلیم کرے گی اور پاکستان میں بھی اسلام کے مخالف ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ڈاکٹر اسرارنے شیعہ کی تائیدکی! علامہ یاسرنقوی

ڈاکٹر اسرارنے شیعہ کی تائیدکی! علامہ یاسرنقوی

علامہ سید یاسر نقوی:السلام علیکم۔ میں آج آپ کو تنظیم اسلامی کے ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں جس میں وہ اس مؤقف کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں جو14سو برس سے صرف مکتب تشیع کا خاصہ رہا ہے۔ آپ یہ ویڈیو کلپ دیکھئے ۔ ” مُلا کا معاملہ دو طرف سے ہے۔ مُلا ، فقہاء نے سب سے پہلے متغلب کی حکومت کو جائز قرار دیا۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی قوت کے بل پر آکر حکومت پر قبضہ کرلے وہ جائز ہے۔ اور حکمران کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ تمہیں کفر کا حکم نہ دے۔ کفر کا کیوں حکم دے گا وہ؟ وہ اپنے عیش اڑائے گا اپنے محل بنائے گا اپنی رنگ رلیاں کرے گا۔ یہ تصور ہے جو سنی اسلام کے اندر ان کی رگوں میں چلا گیا اور سن کردیا اسلام کو۔ استثنیٰ اگر ہے تو شیعہ اسلام میں، وہ تسلیم نہیں کرتے۔ چاہے کھڑے نہ ہوں مقابلہ نہ کریں۔ نفرت کرتے ہیں یہی ان کی پوری کی پوری تاریخ کے اندر ہے”۔
یہ وسیع القلبی فقط مکتب اہل بیت میں ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان ایک لمحے کیلئے بھی تعصب کی عینک اتار کر غور و فکر کرے تو حق اس کے سامنے خود بخود آشکار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حق تو حق ہوتا ہے جو کسی فرقے یا مسلک کے تابع نہیں۔ یاد رکھئے دو نظریات اسلام میں ایسے ہیں جو بعد رسول ۖ ظالم و جابر حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو قانونی حیثیت دینے اور مسلمانوں کو اپنا فکری غلام بنانے کیلئے ان پر مسلط کئے تھے۔ پہلا نظریہ تو یہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اشارہ فرمارہے ہیں کہ حاکم متغلب کی اطاعت کا نظریہ چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ اور دوسرا کف لسان کا عقیدہ جس کے متعلق میں اپنی پچھلی ویڈیو میں عرض کرچکا ہوں۔ یہی دو نظریات ہیں جو اسلامی معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ ہیں۔ سادہ الفاظ میں متغلب کی اطاعت واجب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی زور زبردستی سے، قہر و غلبے سے، قتل و غارت گری سے، دہشت گردی کرکے حکومت کو حاصل کرے چاہے وہ بدکار ، فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو، وہ امیر المؤمنین کہلائے گا۔ اور اس کی اطاعت عوام پر واجب ہوجائے گی۔ تاکہ حقیقت سے نا آشنا عوام حاکم کے اعمال پر نگاہ کئے بغیر اسے فوراً امام مان لیں۔ بعد رسول ۖ اس نظرئیے کو ایجاد کیا گیا اور بنو اُمیہ کے دور میں اس کو قانونی اور شرعی شکل دی گئی اور آج یہ ہمارے برادران اہل سنت کے مذہب کا حصہ بنا ہوا ہے اور بقول ڈاکٹر اسرار احمد کے سنیوں کے اس نظرئے نے اسلام کو سن کردیا ہے۔ آج کے سیاستدان عوام کو بیوقوف بناتے ہیں جو صدر اسلام میں اس آئیڈیا لوجی نے مسلمانوں کو ذہنی یرغمال بناکر انکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیا۔ ابی یعلی محمد الحسین حنبلی کا سن وفات458ہجری ہے انہوں نے اپنی کتاب ”الاحکام السلطانیہ” میں امام احمد بن حنبل کا ایک قول نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ جو غلبہ حاصل کرکے حکومت پر قابض ہوجائے مسلمانوں پر اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس کے پیچھے نماز جمعہ بھی پڑھی جائے گی اور انہوں نے اس بات کیلئے بڑی دلچسپ دلیل دی ہے کہ جس طرح سے عمر بن خطاب کے بیٹے عبد اللہ ابن عمر نے ناصرف یزید کی بیعت کرلی تھی بلکہ بعد کربلا جب کچھ صحابہ کرام نے یزیدکا فسق و فجور دیکھ کراس کی بیعت توڑ دی تب بھی عبد اللہ ابن عمر متغلب کی اطاعت کے باطل عقیدے کے تحت یزید کی بیعت پر قائم رہے۔ یعنی ابتداء ہی میں نحن مع الغلبہ کا نعرہ مسلمانوں نے لگادیا۔ اور یہ نظریہ رسول کی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہے۔ آج ہمارے ملک میں جو ظلم ہے یہ اسی نظام کا تسلسل ہے۔ کیا رسول اللہ ۖ کی بعثت کا مقصد مسلمانوں کے نزدیک صر ف یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرکے اقتدار پر قبضہ کرلے اور دوسرے اس کے سامنے سرنڈر کرلیں۔ آپ کوئی بھی فقہ کو اٹھا کر دیکھ لیں اس میں موجود ہوگا کہ جو لوگوں کو گمراہ کرے جب تک وہ گمراہی رہے گی گناہ اس گمراہ کرنے والے کا شمار ہوگا اور اسی طرح قیامت تک لعنت ہوگی ان پر جنہوں نے لوگوں کو علی علیہ السلام کے راستے سے بھٹکادیا۔ مکتبہ تشیع وہ واحد مسلک ہے جو ظالم و جابر کی اطاعت کو جائز نہیں سمجھتا۔14سو سال سے آپ نے ساری توانائیاں اس پر صرف کردیں کہ جو اللہ کا منتخب کردہ ہے اس کو آپ نہیں مانیں گے اور ملت آج اس کا نتیجہ بھگت رہی ہے جبکہ اللہ قرآن میں یہ کہہ رہا ہے کہ جانشین میں بناتا ہوں خلیفہ میں بناتا ہوں کسی اور کو میرا خلیفہ بنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔
برادران اہل سنت سے انتہائی مخلصانہ گزارش ہے کہ شیعہ سنی کی بحث کو چھوڑ دیں۔ رسو ل اللہ ۖ نے اس اُمت کو جاتے وقت جو آخری وصیت کی تھی جس کو شیعہ سنی سب نے تواتر قطعی سے لکھا ہے جو حدیث ثقلین ہے اس کو تو مانیں کہ پیغمبر ۖ نے فرمایا کہ”میں تمہارے درمیان قرآن اور اہل بیت چھوڑ کر جارہا ہوں جو ان دو سے متمسک رہے گا فقط وہ گمراہی سے بچے گا” ۔ یعنی قرآن اور اہل بیت ان دو کو تھامنا فقط گمراہی سے بچنے کی ضمانت ہے۔ تو شیعہ و سنی سے بالاتر ہوکر قرآن و اہل بیت کی آواز پر تو لبیک کہیں۔ یہی دنیا میں کامیابی اور فلاح کی ضمانت ہے۔ لیکن آج سوائے اہل بیت کے سب سے مسلمان دین لینے کو تیار ہیں۔ اور یہی مسلمانوں کی تباہی کا اصل سبب ہے۔ وزیر اعظم سے کہتا ہوں کہ واقعی ریاست مدینہ چاہیے تو کھولیں نہج البلاغہ۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات، مکتوبات ،اقوال کو پڑھیں کہ کس طرح سے ایک فلاحی ریاست کا پورا ایک مکمل اور کامل نظام بیان کیا ہے۔ مگر مسلمان تو اہل بیت سے کچھ سیکھنے کو آج بھی تیار نہیں جبھی تو ہم عالمی مالیاتی ادارے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ کاش بعد رسولۖ مسلمانوں نے اہل بیت کا دامن تھام لیا ہوتا حضرت فاطمة الزہرا علیہا السلام نے اپنے خطبے میں کیا کہا تھا اگر کہ تم نے علی علیہ السلام کی ولایت کو مانا ہوتا تو مولا علی علیہ السلام کیا کرتے ہر بھوکے کا پیٹ بھرتے اور ہر حق دار کو اس کا حق دیتے۔ میری اتنی گزارش ہے کہ اس فکری غلامی سے باہر نکل کر سیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا معذرت کے ساتھ کہ جو آپ کے ملاؤں نے آپ کو سکھایا ہے وہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ بس آپ کو ایک نصاب بناکر دے دیا گیا کہ بس اتنا سوچو اور اس سے آگے سوچو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ یہ جو آپ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ اہل بیت کی بات کرو گے تو شیعہ کا لیبل تم پر لگ جائے گا ، بھئی اگر آپ کو ہم سے عداوت ہے تو آپ کو اہل بیت سے دین لینے میں یہ کیوں رکاوٹ بن جاتی ہے؟۔ خدارا سوچیں۔ پڑھنے لکھنے کا دور ہے دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ خود چیزوں کا مطالعہ کریں۔ اور اس فکری غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیں تاکہ حق کو پہچان سکیں۔ اور اپنے ذہن سے خود سوچ کر اپنی راہ کو معین کریں۔

____علامہ سید یاسر نقوی کوعاجزانہ گزارشات____
حضرت علامہ سید یاسر نقوی صاحب!۔ خو گرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لو!۔
ڈاکٹر اسرارکے بیان سے ہم بھی بالکل متفق ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مکتب تشیع اپنی اس سوچ وفکر میں منفرد اور ممتاز ہے۔ ہمیں اس بات کا قطعی کوئی خوف نہیں ہے کہ کوئی ہمیں رافضی یا شیعہ کہے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اپنے مکتب علماء دیوبند سے صرف اس وجہ سے فتوے کھائے ہیں کہ ہم نے شیعہ کو کافر ماننے کا فتویٰ نہیں مانا اور ان کا اپنی طرف سے وہ دفاع کیا جس کی تاریخ میں کوئی مثال بھی نہیں ملتی ہے۔ آئندہ بھی انشاء اللہ ضرور کریںگے۔ اسلئے کہ پہلے بھی شیعہ کی مخالفت کے نام پر لوگوں نے کاروبار کیا ہے۔ ہم نہ شیعہ مسلک کے دفاع کیلئے کوئی کاروبار کرتے ہیں اور نہ ان کی مخالفت کرنا ہمارا کاروبار ہے اور اس کی حقیقت ہمارے جاننے والے شیعہ سنی مخالف وموافقت سب پر واضح ہے۔ البتہ دونوں کو اصلاح کی دعوت دیتے ہیں اور الحمد للہ ہمیں تاریخی کامیابی بھی ملی ہے۔ علامہ طالب جوہری، علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ عباس کمیلی، سید حیدر رضا، علامہ علی کرار نقوی،علامہ ادیب حسن رضوی، علامہ شہنشاہ نقوی کے بڑے بھائی علامہ عون نقوی کے علاوہ اہل تشیع کے بہت سارے علماء کے بیانات بھی ہمارے اخبار اور کتابوں کی زینت بنے ہیں۔سنی شیعہ دونوں اسلام کے مضبوط بازو ہیں اور ان کے اتحاد سے عالمی اسلامی خلافت کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔ علامہ سید جواد حسین نقوی بھی اس کیلئے بہت کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے اہل تشیع کی جو تعریف کھلے دل سے کی ہے اس پر ڈاکٹر صاحب خراج تحسین کے بہت مستحق ہیں کہ اپنے مخالف فرقے کی درست بات کرنے سے بھی نہیں گھبرائے لیکن علامہ سیدیاسر نقوی کی اس ذہنیت کا تماشابھی دیکھنے کے قابل ہے کہ ”یہ وسیع القلبی فقط مکتب اہل بیت میں ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان ایک لمحے کیلئے بھی تعصب کی عینک اتار کر غور و فکر کرے تو حق اس کے سامنے خود بخود آشکار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حق تو حق ہوتا ہے جو کسی فرقے یا مسلک کے تابع نہیں۔ یاد رکھئے دو نظریات اسلام میں ایسے ہیں جو بعد رسول ۖ ظالم و جابر حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو قانونی حیثیت دینے اور مسلمانوں کو اپنا فکری غلام بنانے کیلئے ان پر مسلط کئے تھے۔ پہلا نظریہ تو یہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اشارہ فرمارہے ہیں کہ حاکم متغلب کی اطاعت کا نظریہ چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ اور دوسرا کف لسان کا عقیدہ جس کے متعلق میں اپنی پچھلی ویڈیو میں عرض کرچکا ہوں”۔
اس ماحول اور ذہنیت کو دیکھ لیجئے کہ جس ڈاکٹر اسرار احمد نے اہل تشیع کی وہ تعریف کی ہے جس کا اہل تشیع خود بھی تصور نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس بیان کی بھی تائید کرنے کو اپنے مکتب کی وسیع القلبی کا خاصہ قرار دے رہے ہیں؟۔ جس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل ودماغ میں اس قدر تعصب بھرا ہواہے کہ اپنی تعریف کو پیش کرنا بھی وسیع القلبی قرار دیتا ہے؟۔ جس طرح علامہ اقبال نے ”جواب شکوہ” میں مسلمانوں کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ ” یہ تم ہو جسے دیکھ کر شرمائے یہود” ۔ اس سے زیادہ بڑا زور دار تھپڑ جی چاہتا ہے کہ شاندار کردار کے مالک حضرات اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے منہ پر رسید کردوں کہ ”یہ تم ہو جسے دیکھ کر شرمائے ہنود”۔ اپنی تعریف کرنے کو قبول کرنا بھی اگر وسیع القلبی ہے تو پھر کم ظرفی کی حدیں آخر کونسے بحیرہ مردار کے کنارے پر لگتی ہوں گی؟۔ اس سے ان کی وسیع القلبی نہیں کم ظرفی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
بخدا اگر شیعہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو علامہ یاسر نقوی کو بھی جواب دینے کی زحمت نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا پر علامہ حسن اللہ یاری جیسے انواع واقسام کے نمونے نمودار ہورہے ہیں جن سے اہل تشیع کے جان ومال کو خطرات ہیں۔
علامہ حسن اللہ یاری کہتا ہے کہ ” علی نے فرمایا: محمد کی نسبت ابوبکر کی طرف ہے لیکن یہ میرا بیٹا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ بظاہر جس خبیث جسم کے ذریعے ابوبکر کے انساب سے ہوتے ہوئے علی کی گود میں پہنچا ہے وہ اصل میں عالم ارواح سے ایک نور کی شکل میں علی کا بیٹا تھا لیکن بظاہر ابوبکر کا بیٹا ہے”۔
قرآن میں حضرت ابراہیم کاباپ بت فروش آذر کو بتایا گیا ہے مگر شیعہ کہتے تھے کہ وہ چچا تھے۔ انبیاء کے نسب میں کوئی مشرک نہیں ہوسکتا۔ حسن اللہ یاری کی منطق اور جہالت نے شیعہ فلسفہ ختم کردیا ۔ محمد جس طرح ابوبکر کے بیٹے تھے تو اس طرح علی کے نہ صرف سوتیلے بیٹے تھے بلکہ تربیت بھی علی نے کی تھی اسلئے اس کو خاص فلسفے کا رنگ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح سپاہ صحابہ کے قائد مولانا اعظم طارق کی ماں کو مولانا زکریا جامعہ انوارالقرآن گلبرگ فیڈر بی ایریا نے طلاق دی تھی اور پھر مولانا اعظم طارق کے والد چیچہ وطنی کے ایک ویلڈر نے اس سے نکاح کیا تھا۔ ایک مشہور عالم دین نے مولانا اعظم طارق سے کہا تھا کہ ” اپنے باپ کا نام لو۔ مولانا زکریا بڑے آدمی ہیں لیکن اتنے بڑے بھی نہیں کہ باپ نہ ہوں تو بھی اس کو باپ کہا جائے”۔ مولانا اعظم طارق پہلے کراچی اور پھر جھنگ منتقل ہوگئے اور اب تک اس کا بیٹا بھی وہیں رہتا ہے اسلئے ان کی اپنی جماعت کے کارکنوں کو بھی اصل ماجرے کا پتہ نہیں ہے۔ جب مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے اہل تشیع کو اپنا بھائی قرار دیا تھا تو مولانامحمد احمد لدھیانوی نے انہیں اپنے غصے کا نشانہ بنایا تھا ۔ حالانکہ جب شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگا تھا تو مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی اور ان کے دارالعلوم کراچی نے تائید نہیں کی تھی۔ مولانا حق نواز جھنگوی کی شہادت سے پہلے حاجی محمد عثمان پر جب بعض اکابر علماء نے فتویٰ لگایا تھا تو جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام درخواستی دونوں گروپ حاجی محمد عثمان کے حامی تھے اور سپاہ صحابہ کے بانی قائد مولانا حق نواز جھنگوی بھی جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن حصہ تھے۔
ان اکابر نے پھر حاجی محمد عثمان کے مغالطے میںسید عبدالقادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور مولانا محمد یوسف بنوری پر بھی فتوے لگائے۔ جن کا مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ان کو ذبح کردو، اگر ٹانگیں ہلائیںگے تو ان کے پاؤں ہم پکڑ لیںگے۔ مولانا انیس الرحمن درخواستی اس فتوے کے بعدحاجی محمد عثمان سے بیعت ہوئے تھے۔ جو انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی میں پڑھاتے تھے اور یہ سپاہ صحابہ کے مرکز ناگن چورنگی مسجد صدیق اکبر کے بالکل قریب ہے۔ مولانا اعظم طارق اکابر کے خلاف فتویٰ لیکر مفتی رشید احمد لدھیانوی کو سبق سکھانے کے غرض سے گئے لیکن جب وہاں اس کی جیب گرم ہوئی تو الٹا حاجی محمد عثمان کے خلاف اخبار میں بیان داغ دیا تھا۔
مولانا حق نواز جھنگوی نے الیکشن1988میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت سے لڑا تھا کیونکہ وہ پنجاب کے نائب صوبائی جمعیت علماء اسلام بھی تھے اور مولانا جھنگوی نے کہا تھا کہ مجھے شیعہ ووٹ نہیں دے۔ وہ جھنگ کی دونوں سیٹوں پر بیگم عابدہ حسین شیعہ سے ہار گئے تھے۔اپنے قاتلوں میں عابدہ حسین کو بھی نامزد کررکھا تھا۔ شہادت کے بعد مولانا فضل الرحمن نے بیگم عابدہ حسین اور نوازشریف دونوں کو نامزد کیا تھا۔ پھر1990کے الیکشن میں سپاہ صحابہ کے قائدمولانا ایصار الحق نے جھنگ کا الیکشن مولانا فضل الرحمن کے خلاف عابدہ حسین کیساتھ مل کر لڑا تھا۔ ایک سیٹ پر عابدہ حسین اور دوسرے پر ایصارا لحق کی کامیابی جھنگ میں شیعہ سنی اتحاد اور مولانا حق نواز جھنگوی کو خیرباد کا نتیجہ تھا۔
ہم سپاہ صحابہ کو خوش کرنے کیلئے نہیں کرتے کیونکہ وہ مولانا حق نواز جھنگوی کا مشن بھی چھوڑ چکے ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹرا سرار نے اہل تشیع کی جو تائید کی ہے وہ حضرت امام حسین کی قربانی کا صلہ ہے۔ باقی شیعہ یہ بھی سمجھتے ہیںکہ اگر اہل سنت والجماعت پر وہ تہمت لگائیں گے جس میں شیعہ اور ڈاکٹر اسرار احمد ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا نقصان بھی اہل تشیع کے مکتب کو پہنچے گا اسلئے کہ جس کوتاہی کو اہل سنت کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے تو پھراہل تشیع کے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کہاں جائیں گے؟۔ حضرت علی نے حضرت ابوبکر ،حضرت عمراور حضرت عثمان کی خلافت قبول کی۔امام حسن نے خلافت حضرت امیر معاویہ کے سپرد کردی۔ اگر حضرت امام حسین کو یزیدی لشکر واپس مدینہ جانے دیتے یا سرحد پر جانے دیتے یا یزید کے دربار میں لے کر جاتا تو کربلا کا سانحہ بھی پیش نہ آتا۔ باقی ائمہ کرام نے بھی مہدی غائب تک اسی طرح خاموشی کا راستہ اپنایا تھا جیسے اہل سنت نے اپنایا تھا۔ بلکہ اہل تشیع کا ایک امام تو باقاعدہ ایک عباسی خلیفہ کے داماد اور جانشین بھی تھے۔
حضرت حسین کے ایک پوتے امام زید نے امام حسین کے راستے پر چل کر جب اپنے ساتھیوں سمیت شہادت پیش کی تو امام ابوحنیفہ نے ان کو بدر ی صحابہ کی طرح اعلیٰ ترین جہاد کا تمغہ دیا تھا لیکن اہل تشیع کی عوام تو بہت دور کی بات تھی ائمہ اہل بیت نے بھی اس سے برأت کا اعلان کررکھا تھا۔ اسی طرح حسنی سیدکی قربانی عباسی دور میں نفس زکیہ کے نام سے ہوئی لیکن شیعہ امام کہتے تھے کہ جس نے حکمران کے خلاف خروج کیا وہ ہم سے نہیں ۔ ایک امام کا قول ہے کہ” جو بھی ہم میں سے قیام قائم امام مہدی سے پہلے خروج کرے وہ ایسے طائر کا بچہ ہوگا جس کی پرورش کسی غیر نے کی ہوگی”۔ایرانی انقلاب کے بانی امام خمینی اس قول کی زد میں آتے ہیں۔ جب شیعہ کو ایران میں موقع مل گیا تو کس طرح مخالفین کو بدترین انداز میں کچلا گیا؟۔ تویہ متغلب کی حکومت نہیں ؟، یا گنجے کو ناخن لگنے کی دیر ہوتی ہے؟۔ شیعہ علامہ حقائق سے منہ موڑیںگے تومنہ کی کھائیں گے۔
حضرت امیر معاویہ سے امام حسن نے صلح کی تھی لیکن جب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے رسول اللہ ۖ سے بغاوت کی تھی تو حضرت علی نے ابوسفیان کی بات کیوں نہیں مانی کہ حضرت ابوبکر سے خلافت چھین کر حضرت علی کے حوالے کردی جاتی؟۔ مدعی سست گواہ چست کا مذہب بنانے کے بجائے اہل تشیع ان اہل بیت کے کردار کو مان لیں جن کو اہل سنت دل ودماغ سے مانتے ہیں۔ جس دن سنیوں کا خوف شیعہ کے دل سے گیا تو شیعہ کھل کر ایسا فلسفہ پیش کریں گے کہ ائمہ اہل بیت میں سے بھی کسی کو نہیں چھوڑیںگے۔ جب سارا فلسفہ امامت ہی عذر اور تقیہ پر چلتے ہوئے غیبت پر پہنچ جاتا ہے تو بہادری کی کونسی بات رہ جاتی ہے؟۔ اب بھی امام مہدی غائب تشریف لاکر دنیا کو ظلم وجور سے نہیں بچاتے تو سنیوں کا کیا قصور ہے؟۔ ایران کو حکومت بھی ملی ہوئی ہے اور مہدی میں طاقت بھی ہے کہ ساری دنیا کی تمام قوتوں کو شکست دیں؟۔ کیا علی ، حسن ، حسین …… اور حسن عسکری میں نہیں تھی؟۔ تو پھر بارویں امام کی قوت پر کیوں بھروسہ رکھیں؟ اور اگر ان پر بھروسہ ہوتا تو امام خمینی نے کیوں مجبور ہوکر انقلاب برپا کرنا تھا؟۔ جب امام خمینی نے جرأت کرلی تو معصوم اماموں سے مرتبہ بڑھ نہیں گیا ہے؟۔
اسماعیلی شیعہ آغا خانی اور بوہرہ نے فاطمی حکومت قائم کی تھی تو وہ دوسرے سے مختلف تھے؟۔ جنہوں نے نہ صرف چھ اماموں کے بعد اپنی امامت جدا کرلی تھی بلکہ امام حسن کی امامت کا بھی انکار کیا تھا۔ حضرت امام زید نے بغاوت کی تھی لیکن وہ خلفاء راشدین کی عظمت کے قائل تھے۔ صرف حضرت علی کو زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن علی سے دو قدم آگے بڑھ کر ابوبکر وعمر کی مخالفت کے قائل نہ تھے اور چوپائے کے چار قدم بڑھ کر ان کو کافرومرتد اور مغلظات نہیں بکتے تھے۔ قرآن میں صحابہ کرام کی اکثریت کی تعریف ہے، شیعہ اگر سمجھتے ہیں کہ اہل بیت کے مؤقف سے چار قدم آگے بڑھ کر عزت کمائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ علامہ سنی کے دل فتح کرنے کے بجائے اپنے مسلک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف

رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف

ہندوپنڈت کا ہندوستان میں ایمان افروز بیان:حضرت محمد ۖ دنیا کے ایسے عظیم انسان تھے جو سب سے پہلے احکامات پر خود عمل کرتے تھے تب بتاتے تھے۔ قرآن مجید کی آیتوں کے ،اللہ کے احکامات کے ساتھ ہی آپ کا جیون تھا۔ قرآن مجید کی سورہ21آیت نمبر107میں اللہ کا حکم آیا کہ اے محمد ۖ ہم نے تمہیں ساری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ کی ایک صحابیہ نے کہا اے اللہ کے رسول اپنے مخالفین پر لعنت بھیجئے ان کیلئے بد دعا کیجئے۔ حضرت محمد ۖ نے کہا مجھے اللہ نے بدعا اور لعنت بھیجنے کیلئے نہیں بلکہ رحمت اور دیا کیلئے بھیجا ہے۔ بدر کی لڑائی میں73قیدی لائے گئے اور مسجد نبوی کے کھمبے میں باندھ دئیے گئے۔ آپ کے ایک صحابی آدھی رات میں اٹھے انہوں نے دیکھا کہ حضرت محمد ۖ مسجد نبوی میں بڑی بے چینی سے ٹہل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ نے آرام نہیں فرمایا؟۔ آپ نے کہا کہ مجھے ان قیدیوں کی تکلیف دیکھی نہیں جارہی۔ یہ نہیں سو پارہے تو میں کیسے سو سکتا ہوں؟۔ ایسے تھے رحمت۔ جو دشمن کی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتا ہو دنیا میں حضرت محمد ۖ کے سوا ایسا کوئی انسان نہیں تھا۔ قرآن مجید کی سورہ7آیت199میں اللہ کا حکم ہے کہ اے محمد! معافی کا طریقہ اپناؤ۔ اور بھلائی کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو۔ جبھی تو حضرت محمد ۖ ایک ہی لفظ جانتے تھے معافی معافی اور معافی۔ اور پوری زندگی اپنے ساتھیوں کو بھلائی کی نصیحت کرتے رہے اور جاہلوں سے کنارہ کرلیا۔ میں نے کیا کہا کہ مکہ کے اگنانیوں (جاہلوں) سے آپ کنارہ کرکے مدینہ چلے گئے۔ آپ کے خلاف جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ابوسفیان اس کا سینہ پتی (سپہ سالار) رہتے تھے۔ ابوسفیان کی سربراہی میں ہی احد کی لڑائی ہوئی تھی۔ جس میں آپ بہت بری طرح زخمی ہوئے۔ آپ ۖ کے بڑے بڑے صحابی شہید ہوئے۔ اس کے باوجود فتح مکہ والے دن آپ نے کہا کہ ابوسفیان کو معافی اور اس کے گھر میں جو داخل ہوجائے اسے بھی معافی۔ جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے اسے معافی اور جو عبادت گاہ میں داخل ہوجائے اسے بھی معافی۔ یعنی کسی نہ کسی بہانے سب کو معافی، معافی دینے کا بہانہ چاہیے تھا حضرت محمد ۖ کو، یعنی اس مکہ میں معافی دیا جہاں قدم قدم پر آپ کیلئے کانٹے بچھائے گئے۔ اس مکہ کے ایک ایک انسان کو آپ نے معاف کردیا۔ ایسے تھے حضرت محمد ۖ۔ لیکن ہر سال ہر جگہ سیرت کے جلسے ہوتے ہیں مجھ کو بھی بلایا جاتا ہے تو میں ایک ہی بات کہتا ہوں سیرت پر میں بول رہا ہوں مجھے اپنے دل پر ہاتھ رکھنا چاہیے کہ حضرت محمد ۖ کے جن احکامات کو جن سنتوں کو میں بتارہا ہوں کیا میں اس پر عمل کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو مجھ کو دیکھنا چاہیے اس کے بعد جو سننے والے ہیں ان کو دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ عمل کرتے ہیں؟۔ اگر نہیں کرتے ہیں تو اگر10فیصد بھی ان کو مان لیں تو سمجھ لیجئے کہ جلسہ کامیاب۔ اور سننے کے بعد تالی بجاکر چلے گئے وہ عملی طور پر کہیں بھی نہیں ہے تو جلسہ ناکام اور آپ بھی ناکام۔ حضرت محمد ۖ نے ہمیشہ لوگوں کو بھلائی سے جیتا جنگ سے نہیں جیتا۔ حضرت محمد ۖ کا نام جہاد سے جوڑ دیا جاتا ہے جنگ سے جوڑ دیا جاتا ہے یہ سب سے بڑاظلم اور نا انصافی ہوئی ہے آپ کے ساتھ۔
ہندو پنڈت کے بیان پر ایک مختصر تبصرہ اور تجزیہ
مسلمان شیعہ سنی کو چاہیے کہ اس بیان کو بالکل عام کریں اور اپنا یہ کریڈت نہیں قرار دیں کہ ہماری بہت وسیع القلبی ہے بلکہ ہندو پنڈت کے ایمان ، سچائی اور انسانیت کا اس کو زبردست نمونہ قرار دیں اور ان کو خراج تحسین پیش کریں۔ یقین جانو کہ ہندو ، یہودی اور عیسائیوں نے بھی اپنے اصلی مذہب میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس سے بڑھ کر مسلمانوں کی حالت زیادہ خراب اسلئے ہے کہ ان کے پاس قرآن بالکل محفوظ ہے اور نبیۖ کی سنت کافی حد تک مگر کتابوں میں محفوظ ہے اور اس کے باوجود بھی مسلمان فطرت سے اس قدر ہٹ گئے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے اچھے لوگ بھی اپنی انسانی اور ایمانی فطرت سے اتنے نہیں ہٹے ہیں۔
8عورت مارچ کے دن کو اگر عورتیں قرآن وسنت کے مقابلے میں من گھڑت فقہی مسائل کو اجاگر کریں تو پوری دنیا عورت کے حقوق کیلئے اسلام اور مسلمانوں کیساتھ کھڑی ہوگی۔ قرآن نے اسلئے مسلمانوں کیساتھ یہود، عیسائی اور صائبین کے ایمان اور عمل صالح کو مقبول قرار دیا ہے۔ آیت62البقرہ۔ آخرِ الذکر ہندو ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حکومت کو مزدور کی فکر نہیں ، یہ بین الاقوامی سرمایہ سے جڑی ہے!

حکومت کو مزدور کی فکر نہیں ، یہ بین الاقوامی سرمایہ سے جڑی ہے!

ڈاکٹر تیمور رحمان کا ٹریڈ یونین سے خطاب :دوستو! پاکستان میں اس وقت40فیصد مہنگائی ہے۔IMFسے قرضہ لے کرڈالر، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے سے تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھیں گی۔40فیصد مہنگائی کا مطلب ہے کہ مہینے میں جو30ہزار روپے کمارہا ہے اس کی40فیصد آمدنی ختم ہوگی۔ نتیجے میں لوگ غربت کی سطح سے بھی نیچے گریں گے۔22مرتبہ حکومتIMFکے پاس گئی۔1950سے اب تک چند ادوار کے علاوہ معاشی پالیسیIMFکے اپروول کے بعد بنی ۔ تین بڑے پہلو ہیں۔پہلی لبرالائزیشن یعنی ٹریڈ بیرئرز ختم کئے جائیں جس کا مطلب ہے کہ درآمدات اور برآمدات پر ڈیوٹی ختم کی جائے (جس سے حکومت وریاست کی طاقت ختم ہوگی)۔ دوسری ڈی لبرالائزیشن یعنی کمرشل بینکنگ پر تمام کنٹرول ختم کردیا جائے ( یہ بھی حکومت وریاست کی قوت کا خاتمہ ہے)اور تیسری سب سے اہم نجکاری کی پالیسی ہے۔ (اس سے بھی حکومت وریاست کی قوت کا خاتمہ ہوگا)1990کی دہائی سے یہ سبق سکھایا جارہا تھا کہ حکومتی ادارہ میں مزدور کام نہیں کرتا جس کی وجہ سے خسارہ ہوتا ہے اسلئے نجکاری کی جائے۔1990میں حکومت کے پاس250سے زائد صنعتی اور کمرشل ادارے منڈی میں بیچے جانے والی چیزیں تھیں۔172اداروں کی نجکاری کی گئی اور کہہ رہے ہیں کہ حکومت کا خسارہ پورا نہیں ہورہا۔ اب85حکومتی انڈسٹریاں بچ گئی ہیں۔ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ دو تہائی انڈسٹریاں منافع کماتی ہیں اور باقی بچتی ہیں ان میں90فیصد جو خسارہ حکومت کو ہورہا ہے وہ صرف10مختلف انٹرپرائزز سے ہورہا ہے۔ ان10میں سے5ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں جیسے الیکٹرک سپلائی کی کمپنی ہے۔ باقی5میں ایک نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہے۔ کمرشل اور ریگولیٹری ادارہ ہونے کی وجہ سے اس کی نجکاری نہیں ہوسکتی ۔ زرعی ترقیاتی بینک منافع کی طرف جارہا ہے، اس کی نجکاری بیوقوفی ہوگی۔ اسکے علاوہ پاکستان اسٹیل، ریلوے اورPIA۔ یہ نجکاری کی زد میں ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ ادارے جن میں ڈسٹری بیوشن کمپنیاں شامل ہیں جس میں کوئٹہ، پشاور، سرگودھا کے بجلی فراہم کرنے کے ادارے ہیں جو یا تو واپڈا یا پھرIPPسے بجلی خریدتے ہیں۔1994سے پہلے صرف واپڈا بجلی سپلائی کرتی تھی۔ پھر یہ بجلی بڑھانے کیلئے آزاد پاور پالیسی لیکر آئے جس کے تحتIPP(انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسر) نے کہا کہ ہم پلانٹ لگائیں گے مگر جو فیول خریدیں گے وہ آپ مقررہ ریٹ پر خرید کر دیں گے اور جو بجلی آپ لیں گے وہ بھی مقررہ ریٹ پر ہوگی اور یہ دونوں ریٹ ڈالر کیساتھ منسلک ہیں۔ تو یہ خسارہ1994کیIPPپالیسی کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے اور یہ بڑا پیسہ کمارہے ہیں ۔ جب یہ پلانٹ آپریشنل کردیں اور حکومت بجلی نہ خریدے تب بھی حکومت کو پیسے دینے پڑتے ہیںاور اس کا حکومت نے حل یہ نکالا ہے کہ جس طرح الیکٹرک کی نجکاری کی اسی طرح ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کردی جائے، واپڈا کی نجکاری کردی جائے۔ نتیجے میں بجلی اور مہنگی ہو گی۔85فیصد بجلی واپڈا نہیں آئی پی پیز بنارہے ہیں۔ پہلے زیادہ تر مال ریلویز لیکر جاتے پھر سڑکوں پر ٹرک چلائے تاکہ ریلوے کی یونین کمزور ہو۔ واپڈا کو کمزور کرنے کیلئے آئی پی پیز بنائے تاکہ بشیر بختیاراور خورشید احمد کی جدوجہد کو کمزور کردیا جائے یہ دو سب سے بڑی یونین ہیں پاکستان کے جن کے ارد گر د ساری یونین اکھٹے رہی ہیںایک ریلوے کی ایک واپڈہ کی۔ اگر یہ دونوں اکھٹے ہوتے تو پورا پاکستان جام کردیتے ان کو توڑنے کیلئے یہ پالیسی بنائی۔ نتیجے میں ملک تباہ و برباد ہوگیا۔ یونین کو تباہ و برباد کرنے کیلئے معیشت تباہ و بربادکردی اور بجلی اب اتنی مہنگی ہونے جارہی ہے کہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن جو کہ مالکوں کی ایسوسی ایشن ہے وہ روزانہ اخبار میں اپنی ملیں بند کرنے کا اشتہار دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنا سرمایہ دارانہ نظام خود تباہ کیا۔ حل یہ ہے کہ واپڈا کی نجکاری ہم بالکل بھی نہیں ہونے دیں ورنہ بجلی اور مہنگی ہوگی اور تمام چیزیں مہنگی ہوں گی۔ ریلوے اورPIAپر انوسٹمنٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ پسنجر کا مسئلہ نہیں، مال آگے پیچھے ریلوے پر جائیگا تو ٹرانسپورٹیشن کی لاگت کم ہوگی۔ ریلوے اور ٹرکوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ریلوے وہی چیز آدھی قیمت پر پہنچاتی ہے جو ٹرک ڈبل پر پہنچاتے ہیں۔ ٹرک کی اپنی قیمت کو چھوڑ کر انفرااسٹرکچر پر جو خرچہ ہوتا ہے وہ علیحدہ ہے۔ چین اپنی ریلوے کی بنیاد پرہی ترقی کررہا ہے۔ ریلوے ، واپڈا ،PIA، زرعی ترقیاتی بینک میں انوسٹمنٹ کریں ، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ٹھیک کریں۔بہترین مینجمنٹ لیکر آئیں، مزدوروں کا کوئی قصور نہیں دن رات ایک کرتے ہیں کھمبوں پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کرتے ہیں اور انہی بیچاروں کو سیفٹی اکوپمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے کرنٹ لگ جاتا ہے۔ ریلوے میں لوگ کس طرح کام کرتے ہیں کیا کیا حادثات نہیں ہوتے، اس حکومت کو نہ صرف مزدوروں کی بلکہ اپنی معیشت اور ملک کی کوئی پرواہ نہیں۔ کیونکہ ان کے سارے تانے بین الاقوامی سرمائے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں آپ کے ساتھ ان کا تعلق کمزور اور بین الاقوامی سرمائے کے ساتھ ان کا تعلق مضبوط ہے۔ کون بچاسکتا ہے اس پاکستان کو (نعرہ مزدور پاکستان)، یہ جو اس کمرے میں ٹریڈ یونین کی قیادت ہے بشمول میری پارٹی بشمول بائیں بازو کی پارٹی کے ہل نہیں سکتی جب تک کہ ٹریڈ یونین اور مزدور طبقہ نہ ساتھ ہو۔ کیونکہ یہ ایک اور طبقے کی، ایک اور نکتہ نظر ایک اور سیاست ، ایک اور ثقافت ، ایک اور سماج اور ایک نئے سویرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ کل ، مستقبل اور اس سماج کی نمائندگی کرتے ہیں جو کہ مساوات قائم کرسکے۔ قدم بڑھائیں، اتحاد بڑھائیں، آپ کی ضرورت ہے میدان عمل میں۔
فرمایا” خدا کی قسم مجھے تمہارے فقروافلاس کا اندیشہ نہیں لیکن یہ خطرہ ضرورہے کہ مال ودولت کی فراوانی تمہارے لئے ایسی ہوگی جیسے تم سے پہلے لوگوں میں ہوئی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس میں تم بھی منہمک ہوجاؤگے، جیسے وہ ہوئے وہ تمہیں بھی تباہ وبرباد کرے گی جیسے وہ تباہ وبرباد ہوگئے۔ (بخاری،کتاب الجہاد)مال کی فراوانی بہت سی گمراہیوں کی جڑ ہے لیکن اسلام نے مال حلال کو اللہ تعالیٰ کا فضل بتایا، صحیح ذرائع سے حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ عین حج بیت اللہ کے موقع پر بھی تجارت پر پابندی نہیں لگائی کیونکہ سعی وکسب کے بغیر کوئی مسلمان زندہ ہی نہیں رہ سکتا ، لیکن اسلام اور قرآن کی رو سے جو شخص جتنا زیادہ کمائے گا ، اتنا ہی زیادہ انفاق پر بھی مأمور ہوگا،اسلئے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی ، اتنی ہی زیادہ جماعت کی اجتماعی خوشحالی ہوتی جائے گی۔ بہرحال اسلامی قانون سے جتنا زیادہ مالدار ہوگا ،اتنے اس پر زیادہ حقوق ہوں گے، اتنی ہی اس کی مشغولیت بڑھ جائے گی۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

17سالہ بلوچ لڑکی کی لاش ، لاش مریم نواز، مولانا فضل الرحمن یا کسی عمران خان کی ہوتی تو پھرریڈلائن بنتی؟

17سالہ بلوچ لڑکی کی لاش ، لاش مریم نواز، مولانا فضل الرحمن یا کسی عمران خان کی ہوتی تو پھرریڈلائن بنتی؟

یہ سیاستدانوں، مذہبی جماعتوں، اسلام اور انسانیت کی لاش ہے ۔

ریاست ،حکومت اور اپوزیشن کی لاش کا جنازہ پڑھ لو!

لاش بارکھان سے کوئٹہ لائی گئی، وارث معلوم ہیں مگر نہیںآسکتے؟یہ بے غیرتی کی انتہاء ہے

ریاست، عدالت اور حکومت کہاں ہے؟۔ ایک لڑکی کے معلوم وارث کو انصاف نہیں دے سکتے تو نامعلوم کو کون انصاف دے گا؟۔ ریاست تو عادی مجرم ہے مگر بلوچ قوم پرست کہاں مرگئے؟

ایک لڑکی کو دھرنے کے بعد یوں لاوارث دفن کرنا اسلام اور مسلمانوں کی بے حرمتی کا جنازہ ہے۔ کوئٹہ،بلوچ ، پشتون ، بلوچستان اور پاکستان ، عالم اسلام اور تمام عالم انسانیت کا جنازہ ہے!

سیاسی ، ریاستی ، لسانی، جماعتی اور ہرقسم کے نعروں کی اوقات کا پتہ چل گیا۔ اب عوام کسی کیلئے روڈ بلاک کرتے ہوئے دیکھ لیں تو ان پر گاڑی دوڑانے والے بھی بالکل حق بجانب ہوں گے!

کیا ایک 17سالہ غریب بلوچ لڑکی کی مسخ شدہ لاش کا یہ حق نہیں ہے کہ اسکے وارث لے جائیں؟۔ خواتین کے حقوق کی بات اسلام آباد کی گلی کوچوں اور پارکوں تک ہے؟۔ بلوچ قوم پرستوں کو لڑکی کی عزت سے واسطہ نہیں ؟۔ بس مسنگ پرسن کا رونا ہے؟۔ سینیٹر مشتاق دھرنے میں جوش خطاب دکھاکر مرگیا؟۔ جماعت اسلامی جیسی منظم تنظیم ہے۔ ڈربھی نہیں لگتا ہے تو کم ازکم لاش کو لاوارث چھوڑنے کے بجائے وارث تک پہنچادیتے۔بارکھان جماعت اسلامی کا شاندار استقبال کرتا ، پشتون قوم کا سر فخر سے بلند ہوتا۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی عزت بحال ہوتی۔ امت مسلمہ میں مظلوم کی مدد کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا۔ مریم نواز بہادر مسلم لیگی لیڈر ہیں۔ بلوچی لباس پہن کر کوئٹہ سے بارکھان تک مسلم لیگ ن کی قیادت کرتی تو مسلم لیگ کو چار چاند لگ جاتے ،پنجابی پگ بھی فخر سے بلند ہوتا ۔ مولانا فضل الرحمن نئے نڈر ساتھی اسلم رئیسانی اور بلوچ علماء کیساتھ لاش کو اپنی قیادت میں وارثوں تک پہنچاتے تو افغان طالبان کہتے کہ پاکستان میں بھی جمعیت علماء اسلام کا بہت قابلِ فخر نیٹ ورک اور قیادت ہے۔ پیپلزپارٹی آتی۔ بلاول ، آصفہ اور آصف علی زرداری قیادت کا حق ادا کرتے ۔ اس لاش کو وارثوں تک باعزت پہنچاتے تو بینظیر بھٹو کے بلوچی گانے کا حق ادا ہوجاتا۔ منظور پشتین اور علی وزیر کی قیادت میںPTMکے باصلاحیت نوجوان آتے تو مظلوموں کا ساتھ دینے کا شرف مل جاتا۔ کوئی ایک بھی ایسی جماعت، شخصیت ، تنظیم ، رہنما اور قیادت نہیں جو اس سلسلے میں انسانیت کا حق ادا کرتا؟۔ بلوچ قوم کس چیز کیلئے آزادی مانگتے ہیں؟۔ ایک لاش کے معلوم وارثوں کیلئے بھی اپنے کارندے بروئے کار لاتے!۔ سیاسی جنگ میں جیل، لاشیں اور بہت کچھ ہوتا ہے لیکن یہ بلوچ غریب لڑکی غربت کی سزا کھارہی ہے؟۔اسلئے اس کا کوئی ولی وارث نہیں ہے؟۔ یہ پھر قوم پرستی نہیں کچھ اور ہے؟۔ حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمن اپنے کارندوں کو اس غریب کی لاش کیلئے نکالتے تو بہت اچھا ہوتا لیکن جن کو الیکشن جیتنا ہوتا ہے ان کی نظریں بہت محدود ہوتی ہیں۔ اگر تحریک لبیک والے نبی کریم ۖ کی ایک غریب امتی کی لاش کا درد لیکر نکلتے تو یہ بھی بہت بڑا انقلابی قدم ہوتا لیکن کہاں اور کس کی ایسی قسمت ہے؟۔
اگرMQMکے قائد الطاف حسین جوبن پر ہوتے تو متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت اور کارکنوں کو بھیج کر ضرور لاش کی حرمت کا پاس رکھتے۔ مہاجروں میں قربانی کا جو جذبہ ہم نے دیکھا، وہ کسی اور میں نہیں۔ ان کا ایمان اوراسلام دوسروں کے مقابلے بہترین ہے۔ جب مفتی محمد تقی عثمانی کی ہم نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی سرخی لگائی تھی تو ایم کیوایم کے بڑے ڈاکٹر فاروق ستار سے لیکر سیکٹر انچارج اور کارکنوں تک سب نے ایسے ایمانی جذبے کا ثبوت دیا تھا کہ دنیا کے طاقتور شخصیات کی فہرست میں2020میں نمبر1اور2022میں نمبر5آنے والے نے فوراً ہتھیار ڈال دیا تھا۔ کتابوں سے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کی باتیں باہر نکالنے کا اعلان روزنامہ اسلام اخبار میں کردیا۔ ایم کیوایم نے یہ نہیںدیکھا کہ کون پشتون اور کون مہاجرہے۔ حق پرستی کا حق ادا کرتے ہوئے بانیانِ پاکستان کی اولادوں کے خلاف بھی ایک پشتون کا ساتھ دے دیا۔ حالانکہ جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام، جمعیت علماء پاکستان اور سارے فرقوں اور مذہبی جماعتوں نے بھی توہین مذہب کے حق مفتی محمدتقی عثمانی کیلئے نرم گوشہ رکھا ہوا تھا۔ کچھ تو پشی کرکے ہمارے منہ پر اپنی لتھیڑی ہوئی دُم بھی ماردیتے لیکن ایم کیوایم کی وجہ سے اپنی دُم انہوں نے گھسیڑ رکھی تھی۔ جب صالح قوتیں میدان میں نکلیں گی تو انسانیت کا بول بالا ہوگا۔ ہم نے ایسے لوگوں کی ہمتیں دیکھی ہیں کہ طالبان نے جنازے پر خود کش حملے کی دھمکی دیدی لیکن عوام نے ان کی پرواہ نہیں کی۔ جب سیاسی قیادت انسانیت کیلئے آجائے اور ملک کی معاشی صورتحال کو غریبوں کی حد تک درست کرلے تو یہ مظالم نہیں ہوں گے۔ پاکستانی بہت اچھے ہیں لیکن قیادت کا فقدان ہے۔ سیاسی قیادت اعلیٰ اقدار کو قائم کرنے کے شعور کا نام ہے۔ بلوچ قوم پر دل دکھتا ہے کہ عزت واقدار میں صف اول کا مقام رکھنے والی قوم کی بیٹی کو کیوں اس طرح بارکھان سے کوئٹہ لاکر ایدھی کے حوالے کیا گیا؟۔ پسِ پردہ کیا عوامل ہیں۔ سردار عبدالرحمن کھیتران اور اسکے بیٹے انعام شاہ اور محمد خان مری کی کیا دشمنی تھی ؟۔ جس نے بلوچ قوم کی تاریخ کابہت بڑا داغ کوئٹہ ، بلوچ، پاکستان اور مسلمانوں کے چہرے پر مل دیا؟۔اس مسئلے کا اجتماعی حل مظلوموں کیلئے خشت اول ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کی محکم اور متشابہ آیات

قرآن کی محکم اور متشابہ آیات

” ہم نے نازل کیا کتاب کوہر چیز کو واضح کرنے کیلئے”۔متشابہ بھی واضح کرتی ہے ۔ومن یشتری لھوالحدیث.. اور جس نے لھوبات خریدی تاکہ گمراہ کرے …(سوشل میڈیا کی ٹیم)

اللہ نے فرمایا :” میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی ،بیشک یہ قسم ہے اگر تم جان لو عظیم۔بیشک یہ قرآن کریم ہے، کتاب مکنون میں ہے ۔اس کو نہیں چھوسکتے ہیںمگر پاک لوگ۔ یہ نازل ہے رب العالمین کی طرف سے ۔توکیا تم اس حدیث کو چھپانے کے مرتکب ہورہے ہو؟۔اور تم اس کو اپنا رزق بناتے ہو؟۔بیشک تم ہی اس کو جھٹلاتے ہو”۔ الواقعہ آیات:75تا82

قرآن کی وجہ سے ہی قوموںمیں عروج وزوال ہوتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے اطمینان ملتاہے لیکن ذکر سے مراد وظائف نہیں بلکہ قرآن ہے، صوفی خود دھوکہ کھاتاہے اور عقیدتمندوں کو بھی دیتا ہے ۔

حضرت علی نے فرمایا کہ ” اگر میں چاہوں تو سورۂ فاتحہ کی اتنی بڑی تفیسر لکھ دوں کہ چالیس اُونٹ اس کا وزن اُٹھائیں گے”۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضرت علی نے اس کی تفسیر کیوں نہیں لکھی؟۔ اس کا جواب حضرت علی نے یہ دیا ہے کہ ”لوگوں سے ان کی عقلی صلاحیت کے مطابق بات کرو”۔ جب قرآن کے متشابہات آیات کا تعلق زمانہ کے عروج سے تھا اور عروج کے بغیر لوگوں کی سمجھ میںباتیں نہیں آسکتی تھیں تو اس کے بتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ بلکہ الجھن مزید بڑھ سکتی تھی۔ رسول اللہ ۖ کے ساتھ عبداللہ بن عباس جب نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہوگئے تو نبیۖ نے اس کو اپنے ساتھ کھڑا کردیا۔ ابن عباس کچھ پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔ نبیۖ نے پوچھا کہ میں نے اپنے ساتھ کھڑا کیا اور آپ پیچھے ہوگئے؟۔ ابن عباس نے عرض کیا کہ مجھے ادب کا لحاظ ہوا، اسلئے تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوا۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” اللہ تجھے قرآن کی تأویل کا علم دے”۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سنت بن گئی کہ دو افراد باجماعت نماز پڑھیں پھر بھی مقتدی تھوڑا سا پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ آج زمانہ قرآن کی تفسیر کررہاہے لیکن جن لوگوں نے قرآن کی تفسیر کو اپنے رزق کا ذریعہ بنارکھا ہے وہ اس کو چھپانے کے مرتکب ہیں کیونکہ اگر انہوں نے عوام کو بتادیا تو ان کو اپنی روزی کا خطرہ لاحق ہوتاہے۔
اللہ نے ستاروں کی قسم کھاکر فرمایا کہ اگر تم جان لو تو یہ عظیم قسم ہے۔ ہماری کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں جس نے ایک لاکھ20ہزار نوری سال جگہ کو گھیر رکھا ہے۔ ایک سکینڈ میں روشنی جتنا فاصلہ طے کرتی ہے،ایک منٹ میں کتنا فاصلہ طے کرتی ہوگی؟۔پھر گھنٹہ میں اور ایک دن میں کتنا فاصلہ طے کرتی ہے؟، ایک سال میں کتنا فاصلہ ہوگا؟۔ ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال کا اندازہ کتنا عظیم ہے؟۔ دوسری کہکشاں میں غالباً دوگنا فاصلہ سے بھی زیادہ ہے ، اس طرح پھر اربوں کہکشاں ہیں۔1986میں صفر کے مہینے میں ایک دمدار ستارہ دکھائی دیا تھا اور وہ ہر75سال کے بعد دکھائی دیتا ہے ۔ اس سال2023میں صفر کے مہینے میں پھر ایک دمدار ستارہ نمودار ہوا ہے جو5ہزار سال کے بعد نکلتا ہے۔ اگر ستاروں کے واقع ہونے کی جگہوں کا پورا رازمعلوم ہوجائے تویہ کتنی بڑی بات ہوگی؟۔ ہماری کہکشاں میں بلیک ہول وہ ستارے ہیں جن کی کشش ثقل ایسی مضبوط ہے کہ روشنی کو بھی کھینچ لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کو بلیک ہول یعنی کالا سوراخ کہا جاتا ہے۔ ہمارا سورج ایک بونا ستارہ ہے اور اس سے کئی گنا بڑے بڑے ستارے جب بلیک ہول کی رینج میں آتے ہیں تو بلیک ہول ان کو نگل لیتا ہے۔ چونکہ قرآن نے ستاروں کی قسم کو عظیم قرار دینے کیساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ”اگر تم جان لو ” جس کا مطلب یہی ہے کہ قرآن نے اس قسم کو آنے والے زمانہ کیساتھ ہی جوڑ دیا تھا۔ جتنی معلومات دستیاب ہیں ان سے بھی اس قسم کی عظمت کا احساس اچھی طرح سے ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔
اللہ نے قرآن کو کریم یعنی عزت والی کتاب قرار دیا ہے جو کتاب مکنون میں ہے۔ جس کو نہیں چھوسکتے مگر پاک لوگ۔مکنون کے معنی تکوینی امور کے ہیں اور قدرتی امور جیسے نظام شمسی اور کائنات کے دیگر قدرتی امور اور فطری معاملات ہیں ان کو تکوین کہتے ہیں۔قرآن میں محکمات آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی۔ دونوں قسم کی آیات ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ہیں۔ مسلمان بہت بڑی بد قسمت قوم اسلئے بن چکی ہے کہ محکمات سے بھی ہم نے منہ پھیر لیا۔ متشابہات بھی زمانہ واضح کررہاہے لیکن ہم نے ان سے آنکھیں چمگادر کی طرح بند رکھی ہوئی ہیں۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا : انزلنا الحدید ”ہم نے لوہے کو اُتارا”۔ پھر جدید سائنس نے واضح کردیا کہ ” لوہا نظام شمسی کے باہر کسی اور ستارہ سے زمین پر اترا ہے”۔ اگر لوہا اتر اہے تو سونا ، چاندی، ہیرے ،جواہرات، یاقوت، مرجان اور مختلف دھات، ماربل وغیرہ بھی دوسرے ستاروں سے آسکتے ہیں۔ جہاں پر لاتعدادجنت اور جہنم کا تصور ہوسکتا ہے۔ حضرت آدم و حواء جنت سے آئے اور حجراسود اور طاؤس بھی جنت کے ہوسکتے ہیں۔ سائنس نے بہت ترقی کرلی لیکن زمین پر زندگی کے آغاز میں اب بھی بچکانہ خیالات پڑھائے جاتے ہیں ۔اسلئے کہ بیالوجی میںAاورBنظریات فرضی ہیں کہ گوشت میں کیڑے پیدا ہوگئے اور پھر تجربہ کیا تو کیڑے کے انڈے مکھی کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ پہلے اس نظرئیے پر عمل ہوا کہ جاندار سے بے جان پیدا ہوتا ہے اور اب دوسرے نظرئیے پر عمل ہے کہ جاندار سے بے جان پیدا نہیں ہوتے ہیں؟۔ جب پہلا نظریہ غلط ثابت ہوگیا تو پھر اس کو کیسے صحیح مان لیا گیا کہ بے جان سے جاندار پیدا ہوا؟۔
قرآن نے بہت بنیادی بات کہی کہ وجعلنا من الماء کل شئی حی ” اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ بنایا”۔ پانی سے زندگی کے آثار ممکن ہیں۔ انسان کو تسخیرکائنات کا نظریہ بھی قرآن نے دیا۔ سورج ، چاند، بادل ، لوہا ، جانور اور مختلف چیزوں کا نام لیکر اس کی تسخیر کا ذکر کیا۔ نبی ۖ نے دجال میں مختلف صلاحیتوں کی خبر دی۔ بارش، سبزہ اور مویشیوں کے دودھ پر کنٹرول تک کا بتایا۔ قرآن میں پانچ چیزوں کو غیب کی چابی بتایا۔ ان اللہ عندہ علم الساعة و ینزل الغیث و یعلم ما فی الارحام وماتدری نفس ماذا تکسب غدًا وبای ارض تموت ”بیشک اللہ کے پاس ساعة کا علم ہے۔ بارش برساتا ہے ۔ جانتا ہے جو ارحام میں ہے۔ کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کس زمین پر مرے گا”۔ پہلی چیز زمانے نے ثابت کردی کہ وقت کا علم غیب کی چابی ہے۔ دن رات سے پتہ چل گیا کہ زمین اپنے محور پر گھومتی ہے اور ماہ وسال سے پتہ چل گیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ نبیۖ نے معراج کے سفر میں کئی ماہ یا سال گزارنے کے بعد واپسی پر اپنا بستر گرم پایا ، کنڈی ہل رہی تھی تو مخالفین کی فضاؤں میں بھی ایمانی وقت کا ثبوت دیتے ہوئے جو دیکھا تھا جنت اور جہنم سب احوال بیان کردئیے۔ سورہ معارج میں اللہ نے فرمایا ” جس دن فرشتے اور روح چڑھتے ہیں تو اس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوتی ہے”۔ جس وقت کی پیمائش کو نبی ۖ نے غیب کی چابی قرار دیا تھا وہ قرآن وسیرت طیبہ میں موجود تھا۔ پھر وہ وقت آیا کہ آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کے ذریعے اس کو دو اور دو چار کی طرح ریاضی کے حساب سے بھی ثابت کردیا، غیب کی اس چابی سے علم کے کتنے دروازے کھلے ہیں؟۔ دوسری چیز بارش کا برسنا غیب کی چابی ہے۔ بارش سے آسمانی بجلی اور بجلی کی تسخیر سے دنیا میں علم کے کتنے روشن دروازے کھل گئے؟ ۔ تیسری چیز ارحام کا علم غیب کی چابی ہے۔ فارمی جانور، پرندے اور اناج پھل وغیرہ کے کمالات کے علاوہ ایٹم بم ، ایٹمی توانائی اور الیکٹرانک کی دنیا غیبی چابی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور زمانہ قرآن وسنت کی تفسیر کررہاہے لیکن ہم سمجھنے کی طرف عام لوگوں کو توجہ اسلئے نہیں دلاتے کہ پھر ہمارے پاس قرآن فہمی کا کونسا کمال رہ جائیگا؟۔ ہم نے قرآن کے خاص مفہوم میں اپنی مہارت بیان کرکے اپنا رزق بنایا ہوا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ تم ہی اس کو جھٹلانے کے مرتکب ہو۔ ومن یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ ”اور جو فضول بکواس خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے گمراہ کرے” کا آئینہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے زرخرید میڈیاکے نیٹ ورک ہیں۔ کتوں کادن رات بھونکنے کاتماشہ لگا ہے۔ قرآن کی ایک ایک آیت کی تفسیر مختلف شکل میں موجود ہے۔
کائنات مسلسل وسیع ہورہی ہے اور اس کی خبر بھی قرآن میں موجود ہے ۔ سائنسدان قرآن کے سائنسی حقائق دیکھ کر مسلمان ہورہے ہیں۔ غیر مسلم قرآن کی اخلاقی قدروں کو دیکھ کرمسلمان ہورہے ہیں لیکن مذہبی طبقات نے قرآن کا معاشرتی ڈھانچہ ایسا بگاڑ دیا ہے کہ خود مسلمانوں کے پاس قرآن کی کوئی قدرنہیں ہے۔ جمعہ کی نماز کا فرض ادا کرنے کیلئے لوگ جاتے ہیں لیکن مولوی کی تقریر نہیں سن سکتے ہیں اسلئے کہ اس میں کام کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔ محکمات بھی ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ہیں اور متشابہات بھی ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ہیں۔ متشابہ آیات کا تعلق سائنس اور زمانہ سے ہے مگرہم نے محکم آیات کو بھی کچل دیا ہے۔
ایک شخص نے ابن عباسسے پوچھا کہ کسی کو قتل کیا تو معافی مل سکتی ہے؟۔ ابن عباس نے فرمایا کہ بالکل بھی نہیں!۔ اور آیات کا حوالہ دیا جن میں ایک مؤمن کو جان بوجھ کر قتل پر اس کی جزاء جہنم ہے اور ایک جان کو بغیر کسی جان یا فساد کے قتل کرنا تمام لوگوں کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو ابن عباس نے فرمایاکہ ہاں ! اللہ معاف کرسکتا ہے۔ شرک کے علاوہ کوئی گناہ بھی اللہ معاف کردیتا ہے اور وہ آیت بھی تلاوت کردی جس میں قتل اور زنا کے بعد توبہ کرنے والوں کو نہ صرف معاف کرنے کی خوشخبری ہے بلکہ ان کے گناہوں کو نیکی میں بدل دینے کی وضاحت بھی ہے۔
اہل مجلس نے ابن عباس سے پوچھا کہ سوال ایک تھا اور جواب دونوں آپ نے بالکل مختلف دئیے۔ ابن عباس نے فرمایا کہ ” پہلے شخص کا مستقبل میں قتل کا ارادہ تھا اور اس کا تقاضہ تھا کہ ان آیات کا ذکر کرتا جس سے وہ اپنے مذموم مقصد سے رُک جائے۔ دوسرے شخص نے قتل کیا تھا اور اس کا ارادہ توبہ کا تھا ،اگر اس کو پہلی والی آیات سناتا تو مایوس ہوکر قتل کا سلسلہ جاری رکھتا اسلئے جن آیات سے اس کی اصلاح کا تقاضا تھا وہ اس کے سامنے پیش کردیں ۔
حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ” نبی ۖ ، ابوبکر اور عمر کے ابتدائی3سال تک اکٹھی تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی۔ پھر حضرت عمر نے اکٹھی3طلاق پر3کا فیصلہ جاری کردیا”۔ (صحیح مسلم) عبداللہ بن مبارک نے یہ روایت درست قرار دی ہے۔ دوسری طرف ابن عباس نے خود بھی اکٹھی3طلاق پر3کا فتویٰ دیا ہے۔ عام طور پر کم عقل لوگ اس کو قول اور فتوے کا تضاد سمجھتے ہیں لیکن عورت جب رجوع کیلئے راضی ہوتی تھی تو رجوع کا فتویٰ دیا جاتا تھا اور جب عورت صلح پر راضی نہیں ہوتی تھی تو رجوع کے خلاف فتویٰ دیا جاتا تھا۔ یہ قرآن کا واضح حکم ہے۔ کہ ” شوہر عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط باہمی اصلاح چاہتے ہوں”۔ (البقرہ آیت228)۔ سورةالبقرہ آیت229،231،232اور سورة الطلاق آیت1اور2میں بھی معروف طریقے اور باہمی رضامندی سے عدت میں اور عدت کی تکمیل کے بعدرجوع کی گنجائش ہے اور باہمی صلح کے بغیر ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کی گنجائش نہیں۔ آیت230البقرہ کا ابن عباس نے فرمایا کہ اس کا تعلق آیت229کیساتھ سیاق وسباق کے مطابق ہے۔ زادالمعاد میں علامہ ابن قیم نے باب الخلع جلد چہارم میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دی جائے اور پھروہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے رابطہ و صلح کا کوئی ذریعہ نہ چھوڑیں۔ جب صلح نہ کرنا چاہتے ہوں تو پھر شوہر کی طرف سے صرف غیرت کے نام پر ہی کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے ، اسلئے شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کیلئے اللہ نے الفاظ کا استعمال تگڑہ کیا ہے اور اس کی صورت بہرحال تمام ان حالات میں بنتی ہے جن میں عورت رجوع کیلئے راضی نہ ہو۔ لیکن جب رجوع کیلئے راضی ہو تو پھر اللہ نے عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد بار بار ترغیب دی ہے۔
صحیح بخاری میں حسن بصری سے روایت ہے کہ بعض علماء کے ہاں حرام کہنا تیسری طلاق ہے جو کھانے پینے کی اشیاء کی طرح نہیںہے کیونکہ کھانے پینے کی اشیاء قسم کے کفارہ کے بعد حلال ہوتی ہیں اور بیوی حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوتی۔
بخاری میں ایک روایت چھوڑ کراس سے متصل ابن عباسکی روایت ہے کہ ” حرام کہنے سے کچھ نہیںہوتا نہ قسم اور نہ طلاق۔ یہ سیرت نبیۖ ہے”۔
نبیۖ نے ماریہ قبطیہ جب خودپر حرام قرار دی تو سورہ تحریم نازل ہوئی ۔ ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے زادالمعاد میں حرام کے لفظ پر بیس اجتہادی اقوال نقل کئے کہ ” علی کے نزدیک 3 طلاق۔ عمر کے نزدیک ایک۔ عثمان کے نزدیک ظہار ……..”۔حالانکہ صحابہ نے قرآن کے برعکس لفظِ حرام پر ایسے متضاد اقوال کا اجتہاد کیسے کیا؟۔ بیوی راضی نہ تھی تو حضرت علی نے رجوع کا فتویٰ نہ دیااور بیوی صلح کیلئے راضی تھی تو حضرت عمر نے رجوع کا فتویٰ دیا۔کم عقل طبقے نے بعد میں حقائق کے منافی ان کے فتوؤں پر متضاد رنگ چڑھادیا۔
سورۂ تحریم کے شان نزول میں مولانا ابوالحسن علی ندوی نے لکھا کہ ” حضرت ماریہ قبطیہ کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔جب وہ آئیں تو نبیۖ نے حضرت حفصہ کے حجرے میں ان سے جماع کیا، جس پر حضرت حفصہ نے بہت سخت ناراضگی کا اظہار کیا، وہ غصے کی بہت تیز تھیں، حضرت عمر کی صاحبزادی تھیں۔ نبیۖ نے ان سے فرمایا کہ میں نے ماریہسے ہمیشہ کیلئے لاتعلقی اور اپنے اوپر حرام کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اب یہ بات راز میں رکھو”۔ حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ سے اس کا ذکر کیا اور پھر دونوں نے نبی ۖ کیساتھ مذاق کا منصوبہ بنایا۔دیگر ازواج مطہرات سے بھی اس پر عمل کی گزارش کی۔ چنانچہ نبیۖ جس زوجہ کے پاس جاتے ، وہ کہہ دیتی کہ منہ سے برگد کی بو آرہی ہے۔ نبیۖ فرماتے کہ میں نے شہد کھایا ہے۔ جب تسلسل کیساتھ ایک ہی بات سامنے آئی تو نبیۖ نے شہد کو اپنے اوپر حرام کردیا۔ سورۂ تحریم میں حضرت عائشہ و حضرت حفصہ کی ڈانٹ ہے اور توبہ کرنے کا مطالبہ ہے کہ تم اللہ کے رسول کو شکست نہیں دے سکتی ہو اسلئے کہ اللہ ، جبریل اور صالح مؤمنین نبیۖ کے طرفدار ہیں۔ اگر تم نے توبہ نہیں کی تو نبیۖ کیلئے تم سے بہتر کنواری اور غیر کنواری عورتیں آسکتی ہیں۔
قرآن وسنت سے ایک سبق تو یہ ملا کہ شوہر کو اتنا تند خو اور بد مزاج نہیں ہونا چاہیے کہ بیگم مذاق کا تصور بھی نہیں کرسکے۔ دوسرا یہ ملا کہ جب جھوٹ تسلسل کے ساتھ بولا جاتا ہے تو شریف لوگ بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسرا یہ ملا کہ حرام کے لفظ پر بعد میں جو کہانیاں بنائی گئی ہیں یہ علمی کتابی کیلئے ہدایت نہیں بلکہ گمراہی کا ذریعہ ہیں۔ چوتھا سبق یہ ملا کہ اللہ نے سچ فرمایا کہ ”رسول کہیںگے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔سورہ تحریم کی واضح آیت کو چھوڑ کر20متضاد اجتہادی اقوال پکڑنا کہاں کی دانش ہے؟۔
اجتہاد کسی متوازی دین کی اختراع کو نہیں کہتے ہیں۔ نبیۖ نے معاذبن جبل سے فرمایا :” لوگوں کے درمیان فیصلہ کس طرح کروگے؟۔ عرض کیا : قرآن سے !۔ نبیۖ نے فرمایا : اگر قرآن میں نہ ملے ؟۔ عرض کیا: نبیۖ کی سنت سے!۔ نبی ۖ نے فرمایا : اگر اس میں بھی نہ ملے تو؟۔ حضرت معاذ نے عرض کیا کہ پھر خود کوشش کروں گا؟۔ نبیۖ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے رسول ۖ کے رسول کو وہی توفیق بخشی جو وہ اس کو پسندہے”۔ عربی میں اجتہاد کا معنی کوشش کرنا ہے۔ قرآن میں اللہ نے طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت دی ہے۔ صحابہ کرام نے اپنی طرف سے قرآن کے واضح حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجتہاد کے نام پر حلال وحرام کے تضادات میں خود کو ملوث نہیں کیا تھا ۔ جب عورت رجوع کیلئے راضی ہوتی تو رجوع کا فتویٰ دیتے اور جب راضی نہ ہوتی تھی تو رجوع کو غلط قرار دیتے تھے۔ یہ کوشش قرآن کے مطابق تھی کوئی اجتہادی اختلافات نہ تھے۔
آج جامعہ دارالعلوم کراچی سے بھی حلالہ کے بغیر صلح کی صورت میں رجوع کا فتویٰ دینے کی خبریں ہیں لیکن تبلیغی جماعت آج تصاویر اور ویڈیو بنارہے ہیں اور نماز و آذان کا اہتمام لاؤڈ اسپیکر کے بغیر کررہے ہیں۔ اگر علماء پہلے سے فتویٰ جاری کرتے کہ دیوبند کا فتویٰ غلط تھا تو تبلیغی مشقت میں مبتلاء نہ ہوتے۔ حلالہ کے بغیر رجوع کا فتویٰ بھی میڈیا پر کھل کر سرے عام دینا چاہیے تاکہ عزتوں کے ڈھیر لگنے سے پہلے لوگ اپنی عزتوں کو محفوظ کرنے میں کردار ادا کریں۔قرآن کو صرف اپنے رزق کمانے کا نہیں بلکہ لوگوں کی عزتوں کا محافظ بناؤ۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے تمام مذہبی قائدین کے مقابلے میں ہمیں سب سے زیادہ عزت دی تھی لیکن انہوں نے یہ بات عوام میں پھیلا دی تھی کہ ” قرآن لوح محفوظ میں ہے ۔ ہمارے پاس جو قرآن ہے وہ اصل نہیں بلکہ فوٹو کاپی ہے۔ اسلئے کہ اس کو ہندو، یہودی اور سکھ وغیرہ ناپاک بھی ہاتھ لگاسکتے ہیں۔ اصل قرآن لوح محفوظ میں ہے جس کو فرشتوں کے علاوہ کوئی نہیں چھو سکتا ہے”۔ ہم نے ان پر واضح کردیا تھا کہ چھونے سے مراد ہاتھ لگانا نہیں ہے بلکہ جس طرح قرآن میں بیگم کو چھونے سے مراد مباشرت کرناہے اور بے عمل لوگوں کی مثال قرآن میں یہ ہے کہ ان کی مثال گدھا ہے جس نے ورق اٹھارکھے ہوں۔ پاک لوگ قرآن کو سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور یہی قرآن کو چھونا ہے۔ قرآن میں آیات محکمات ہیں اور دوسری متشابہات ہیں۔ محکم آیات تو بالکل واضح ہیں اور ان پر عمل کرنے سے انسانی معاشرہ عروج تک پہنچتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ یورپ میں مسلمان نہیں ہے لیکن اسلام پر عمل ہے۔ برصغیرپاک وہند میں مسلمان بہت ہیں لیکن اسلام پر عمل نظر نہیں آتا ہے۔ یورپ اسلئے ترقی وعروج کی منزلیں طے کرتے کرتے کہاں تک پہنچ گیا؟ اور ہم بھیک مانگنے کی آخری حد کو پہنچ گئے ہیں اسلئے کہ20فیصد منافع پر بھی سود نہیں مل رہاہے۔ اس سے بچنے کیلئے اگر ہم دورِ جدید کے صوفی پروفیسر احمد رفیق اختر سے وظیفہ لیںگے تو وہ کہے گا کہ قرآن کہتا ہے کہ ” خبردار ! اللہ کے ذکر سے اطمینان ملتا ہے” ۔ (القرآن) حالانکہ اس آیت کے سیاق وسباق میں ذکر سے مراد کوئی وظیفہ نہیں بلکہ قرآن ہے۔ بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ مچانے والے فوجی افسران ،سیاستدان اورصحافی پروفیسر صاحب سے ذکر کا وظیفہ پاکر سمجھتے ہیں کہ حرام کا مال ہضم کرنے کیلئے وظائف سے بھی ڈکاریں آتی ہیں بس انہی سے اطمینان مل جاتا ہے۔ قرآن کل حزب بما لدیھم فرحون ” ہرگروہ جس پر ہے خوش ہے”۔ ایسے خوشی اور اطمینان کی واضح الفاظ میں نفی کرتا ہے۔
اعمال صالح سے مراد نماز، روزہ ، حج اور عبادات نہیں ہیں بلکہ انسانی لحاظ سے حقوق اور فرائض ہیں۔ نماز کی ہر رکعت میں انسان اللہ کی تعریف بیان کرتا ہے اور اس سے صراط مستقیم کی ہدایت مانگتا ہے لیکن اس سے وہ بالکل غفلت میں ہوتا ہے۔ ایسے نمازیوں کیلئے تو قرآن میں ویل للمصلین ہلاکت کی اللہ نے خبر دی ہے۔جب تک ریاست اور حکومت کے ملازم اپنے فرائض اور عوام کے حقوق ادا نہیں کرتے ہیں تو پاکستان میں اعمال صالحہ کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ حافظ سید عاصم منیر آرمی چیف وہ روایتی نیک اور دیندار نہیں ہیں بلکہ حقوق و فرائض کے معاملے میں بہتر انسان ہیں جبھی تو اس عہدے تک پہنچے بھی ہیں اور پہنچنے میں آخری وقت بہت رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
حکومت، عدالت، صحافی اور سیاستدان آرمی چیف پر بوجھ نہ ڈالیں ،جب ان کو بھرپور سپورٹ مل جائے گی تو اپنے ادارے فوج کا وقار صاف کردار سے بحال کرنے میں مدد مل جائے گی۔ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج سے جتنا ہوسکتا تھا کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا جسکا کامریڈ لعل خان نے بھی اعتراف کیا تھا مگر وہ پانامہ لیکس کے بعد نوازشریف کے پارلیمنٹ میں جھوٹے بیان اور قطری خط کیساتھ کھڑا نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما ابصار عالم نے پاک فوج پر ادارے کی حیثیت سے جو الزامات لگائے ہیں وہ نوازشریف کے وزیراعظم کے دور ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر زیادہ ٹیکس جمع کرنے والی شخصیات کو ادارے تاوان کیلئے اغواء کرتے ہیں اور اس کا کیس سپریم کورٹ میں بھی چل رہاہے تو اس پر گرفت ہونی چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس نوازشریف، زرداری اور عمران خان نے اقتدار میں آنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کیا تو پھر ان سے کون کیا توقع رکھے گا؟۔ نوازشریف نے باہر بیٹھ کر جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ عمران خان اور زرداری وغیرہ بھی اس جرم میں شریک تھے۔ جسٹس کھوسہ نے پارلیمنٹ کے کورٹ میں گیند پھینکا تھا۔ مریم نواز نے عدلیہ اور فوج کو رائیونڈ کا مرغی فارم سمجھا ہے۔ یہی حال عمران خان کے یوٹیوبرز کا ہے۔ اداروں کو ٹھیک ہونا چاہیے مگربے توقیری کا نقصان ملک، قوم اور سلطنت سب کو ہوگا۔ نظام ناکام ہوچکا ،اس کو خوش اسلوبی سے بدلنا ہوگا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پر آج جتنے الزامات لگائے جارہے ہیں ،اگر اس کی ایکسٹینشن ہوجاتی تو پھر اس کو سب اپنا باپ قرار دیتے۔ اگر اس نے غلط کیا ہے تو سب سے زیادہ علی وزیر کا نام ہے؟۔ علی وزیر نے جو تقریر کی تھی وہ دوبارہ کرکے دکھائے۔ امجد شعیب کی گرفتاری صرف اس بات پر عمل میں لائی جاتی ہے کہ عمران خان کو سیاسی تجویز پیش کی ۔ علی وزیر نے تو بندوق سے مارنے کی دھمکیاں دی تھیں۔ اگر باجوہ نے یہ کہا تھا کہ علی وزیر کے اڈے کا مسئلہ ہے تو ہم نے اس بات کو ہدف تنقید بنایا تھا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ وانا میں علی وزیر کی مارکیٹ کے قریب ایک کرنل شہید کیا گیا تھا جس کی وجہ سے مارکیٹ گرادی گئی۔ فوج تو یہ کام کرتی ہے ۔
علی وزیر کامنظور پشتین اور محسن داوڑ کے مقابلے میں مؤقف زیادہ سخت تھا اور اس کو جنرل باجوہ نے مارکیٹ یا لاری اڈے سے جوڑا تھا تو غیر معقول بات نہیں تھی۔ اعظم سواتی ، شہباز گل، صحافی شاہداسلم اور جنرل امجد شعیب کیساتھ جو کچھ ہوا ہے اس میں علی وزیر کی تقریر کے مقابلے میں ان کے جرائم کچھ بھی نہیں تھے۔ صحافی شاہد اسلم پر تو صرف جنرل باجوہ کا آفیشل ڈیٹا لیک کرنے کا الزام تھا جس کو انعام بھی دینا چاہیے تھا کہ بروقت بتادیا۔ حالانکہ اس نے الزام کو مسترد کیا ہے۔ لیکن جس بہادری کا مظاہرہ کیا ہے اس کو داد نہیں ایوار ڈ ملنا چاہیے۔
سورہ رحمان میں اللہ نے فرمایا کہ ” اس نے آسمان کو اٹھایا اور میزان قائم کیا پس میزان میںسرکشی مت کرو، وزن کو قائم کرو اور میزان میں خسارہ مت کرو” ۔
کائنات کے توازن کو اللہ نے قائم کیا ہے اور دنیا کے عالمی نظام کا توازن انسانوں نے برقرار رکھنا ہے۔ نبیۖ نے ریاست مدینہ میں یہودونصاریٰ، منافقین اور نبوت کے دعویدار ابن صائد کیساتھ میثاق مدینہ میں توازن کا نظام برقرار رکھا تھا۔ جب تک آخری حدوں کو پار نہیں کیا تو ان کو برداشت کرتے تھے اور مشرکینِ مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ میں توازن کا معاہدہ کیا تھا۔ توازن کی بدولت سے مسلمانوں نے دنیا کی سپر طاقتوں کو ختم کیا تھا۔جسٹس عمر عطابندیال نے اس وقت بھی اچھا کیا تھا جب عمران خان وزیراعظم بن کر ریاست کے نظام کو چیلنج کر رہے تھے اور آج بھی اچھا کیا کہPDMکو آئین سے بھاگنے نہیں دیا ہے۔
مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ پر حملہ، جسٹس قیوم کو خرید کر اتنا نقصان اس ریاست کو نہیں پہنچایا جتنا آج عدالت کے حکم کی غلط تشریح سے پہنچارہی ہے۔ فائز عیسیٰ کی بیگم کے نام پراپرٹی اور نوازشریف کا پارلیمنٹ میں بیان و قطری خط کے حقائق کو زر خرید میڈیا کے ذریعے سے بدلنے کی کوشش نظام کو لے ڈوبے گی لیکن ہمیں اس نظام سے کیا لینا دینا اور کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟۔ البتہ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنا ایک مجبوری ہے۔ جس کو اسلام اور انسانیت کا اہم تقاضہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں سیاسی جماعتوں کے مفادات کی جنگ کی افادیت سے بھی کوئی انکار نہیں ہے۔ اگر آج سپریم کورٹ پر دباؤ نہ ڈالنا ہوتا تو ابصار عالم ، کامران خان اور نئے دور کا غازی کب فوجی افسران کی اس کرپشن کا ذکر کرتے جنہوں نے بقول ان کے ٹیکس کی ادائیگی دیکھ کر اغواء برائے تاوان کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس میں جو بھی ملوث ہو اور کورٹ کو جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔
جنرل امجد شعیب کو براڈ شیٹ میں زیر تفتیش لانے کی ضرورت تھی اسلئے کہ قوم کا بہت پیسہ ضائع ہواتھا اور قصورواروں کا اتہ پتہ نہیں چل سکا۔ ملک ریاض کو ساڑھے پانچ سو ارب معاف کرنے کا قصہ کیا ہے ؟۔ اس کو بھی منظر عام پر آناچاہیے۔ جن لوگوں نے دعا زہرہ کیس میں اغواء کے جھوٹے پروپیگنڈے کئے تھے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے شہباز شریف سے پوچھ لینا چاہیے کہ نوازشریف کی ضمانت دی تھی اور اب وزیراعظم بھی بن گئے ہو اور اپنی مرضی کا آرمی چیف بھی لائے ہو۔ جس کو چور اور ڈاکو کہتے تھے اس زرداری کو لٹکانے کی جگہ تم خود کہاں لٹک گئے ہو؟۔ عمران خان سے پہلے نوازشریف کی طرف سے ڈھیروں قرضے نے ملک کو ڈبودیا تھا۔ عمران خان نے نہلے پر دہلہ کیا تھا اورPDMنے قوم کو قربانی کاچیلہ بناکر دہلے سے بھی بدتر کردیا۔ اللہ اس قوم کو قرآن کی طرف جانے پر آمادہ کرکے انقلاب برپا کردے۔ آمین ثم آمین

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv