پوسٹ تلاش کریں

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
تبصرہ: جاوید غامدی کی فضول بکواس
جاویداحمد غامدی نے کہا کہ ”عدت کی علت استبراء رحم ہے اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ اگر ملاقات سے پہلے طلاق دی تو عدت نہیں ہے، اس طرح بچے کی پیدائش دو دن بعد ہوگئی توپھر عدت نہیں ۔ جہاں تک رجوع کا تعلق ہے تو اس میں فائدہ ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے لیکن یہ علت نہیں ہے۔ پہلے ایسے ذرائع نہیں تھے کہ حمل کا پتہ چلتا اسلئے تین حیض کی عدت رکھ دی تاکہ اطمینان ہوجائے کہ بچہ نہیں اور بیوہ کیلئے4ماہ10دن ہیں تاکہ اچھی طرح سے اطمینان ہوجائے۔ اب اگر کوئی ایسے ذرائع آگئے جس سے حمل کا پتہ چلے تو عدت کی ضرورت نہیں ہے ”۔

جاوید غامدی کی فضول بکواس

قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن بالکل واضح ہے۔ حضرت علی نے اس حدیث کو مسترد کردیا ،جس میںحمل کے اندر بیوہ کی عدت4ماہ10دن سے کم چنددن بیان کی گئی ہے۔ بیوہ اور طلاق شدہ کی عدت میں اللہ نے ایک مہینہ دس دن کا فرق رکھا ہے۔ طلاق کے احکام میں وضع حمل بچے کی پیدائش ہے۔ بیوہ کی عدت کیلئے وضع بچے کی پیدائش قرآن سے ثابت نہیں۔
حضرت علی نے قرآن کے مقابلے میں حدیث کو مسترد کیا تو مقصد حدیث کی مخالفت نہیں تھی بلکہ قرآن کا تحفظ تھا۔ یہ بہت عجب اتفاق ہے کہ حنفی قرآن کے مقابلے میں حدیث کی مخالفت کریں تو پھر حدیث ناقابلِ اعتماد ہو۔ پرویز اور غامدی حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیں تو وہ قرآن کے تحفظ کی بات ہے لیکن علی کے مسلک کو حدیث کا مخالف قرار دیا جائے؟۔
مجھے شیعہ کی فقہ جعفریہ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اسلئے کہ مجھے کچھ معاملات قرآن کے خلاف ان میں لگتے ہیں لیکن پیمانہ عدل کیساتھ رکھا جائے تو لوگ دین کی سمجھ حاصل کرسکیں گے۔
جاوید غامدی کا لگتا ہے کہ اب دماغ بھی کام کرنا چھوڑ گیا۔ اللہ نے کہا کہ جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے یا انکے بارے میں تمہیں ارتیاب ہے تو پھر3مہینے کی عدت ہے۔ غامدی نے کہا کہ وان ارتبتم کی صورت میں بھی عدت نہیں ہے۔ حالانکہ جس عورت کو حیض نہ آتا ہو تو وہ معلوم ہے کہ اس کو بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر بھی اس کی عدت تین ماہ ہے اور جس کے حیض میں کمی بیشی کا معاملہ ہو تو پھر اس کے بھی تین ماہ ہیں۔ کیونکہ اگر ایک مہینے میں تین حیض آگئے تو رجوع کی مہلت کے ساتھ زیادتی ہوگی اور اگر زیادہ عرصہ بعد حیض آتا ہو تو عورت کیساتھ انتظار کی مدت میں زیادتی ہوگی۔ ہمارے ہاں قرآن میں تدبر کی جگہ فقہ کے مسائل رٹائے جاتے ہیں۔ جن میں تضادات ہی تضادات ہیں اور پھر ان کا فائدہ اٹھاکر نئے نام نہاداسکالرکھود تے ہیں۔
جہاں صحابہ کرام اور احادیث صحیحہ کے ماننے کی بات ہوتی ہے تو وہاں احادیث اور صحابہ کرام کی بات بھی نہیں مانتے ہیں۔

قرآن وحدیث میں عدت کی اقسام : علت کی وجوہات مولانا فضل الرحمن علم وسمجھ رکھنے والے علماء کرام کو لائیں!

عمران خان کو وزیراعظم بنانے سے زیادہ اہم عدت میں نکاح کے کیس کا حل نکالنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے تحریری طلاق کے بعد جو نکاح کیا ہے وہ پاکستان کے عائلی قوانین کے مطابق درست نہیں ہے اور پھر عمران خان نے دوبارہ بھی نکاح کرلیا ہے۔ جھوٹ کے بجائے سچ کا راستہ اختیار کیا جائے تو قوم کی اصلاح ہوگی۔
قرآن میں ایلاء یا ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ سب سے پہلے یہی عدت آیت226البقرہ میں واضح ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو پھر اس کا دل گناہ گار ہوگا اسلئے کہ عورت کی ایک ماہ اضافی عدت ہو گی۔ طلاق کے اظہار پر عدت3ادوار یا3ماہ ہے۔ جو آیت228البقرہ میں واضح ہے۔ آیت225،226،227اور228البقرہ میں معاملہ بالکل واضح ہے۔ قرآن کی سب سے پہلے اور اہم ترین عدت کو بھی بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ، جب بنیاد خراب ہوگی تو اس پر بلڈنگ کی تعمیر کہاں درست بیٹھ سکتی ہے؟۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو قرآن میں تحفظ دیا ہے ۔ جب اس تحفظ کو نظر انداز کردیا گیا تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ تمام فرقے کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوسکے ہیں بلکہ سب نے اپنے لئے جدا جدا گھروندے بنالئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق رکھ دیا ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں مرد کو مالی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر دینے کا حکم دیا ۔ ہاتھ لگانے کے بعد کی طلاق میں عورت کو گھر سمیت بہت ساری دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا حق دار قرار دیا گیا ۔اسلئے تین ادوار (طہروحیض) کی عدت رکھی گئی ہے۔ عورت کے تمام حقوق کو پامال کرکے صرف مرد کے حق کی بات ہوگی تو پھر اسلام اجنبیت کی وجہ سے کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا ہے۔
اگر معاشرے میں یہ رائج ہو کہ عائشہ احد کو حمزہ شہباز طلاق دے۔ حمزہ شہباز مالی وسعت کے مطابق حق مہر اور گھر وغیرہ کا پابند ہو تو پھر عائشہ احد کو عدت تک انتظار کا پابند بنانا بھی سمجھ میں آجائیگا۔اگر عائشہ احد نے خلع لیا ہو تو پھر اسکے مالی حقوق بھی طلاق سے بہت کم ہوں گے۔ صرف دیا ہوامکمل حق مہراور منقولہ اشیاء کو اپنے ساتھ لے جاسکے گی ۔ طلاق میں منقولہ اورغیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں سے شوہر کو دستبردار ہونا پڑے گا۔سورہ النساء کی آیت19،20اور21میں دونوں چیزیں واضح ہیں۔
جس دن افغان طالبان یا پاکستان کے مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کرلی تو پوری دنیا اسلام قبول کرے یا نہیںکرے مگر مغرب، مشرق، شمال اور جنوب کی ساری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام پر متفق ہوجائے گی۔ خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ خاور مانیکا سے بشریٰ بی بی نے طلاق مانگی تھی اور یہی خلع ہے۔ سعودی عرب میں بھی خلع کی عدت ایک ماہ ہے لیکن ہمارے نام نہاد حنفی فقہاء نے خلع اور طلاق کی عدت میں حدیث صحیح کے فرق کو مسترد کرتے ہوئے قرآن کے منافی قرار دیا ہے ۔ حالانکہ خلع اور طلاق دوبالکل ہی الگ الگ معاملات ہیں۔مالی حقوق میں بھی فرق ہے اور عدت میں بھی فرق ہے۔ حنفی مسلک کی سب سے بڑی بنیاد یہی ہے کہ پہلے قرآن وحدیث میں تطبیق کی جائے۔ قرآن و حدیث میں تضادات نہیں ہیں لیکن حنفی فقہاء نے کم عقلی کی بنیاد پر تراش خراش کرکے نکالے ہیں۔
امام اعظم ابوحنیفہ زندگی میں جیل کے اندر تھے اور پھر ان کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ اگر نبی ۖ نے کسی بھی عورت کو بیوہ ہونے کے چند دن بعد نکاح کی اجازت دی ہے تو پھر اس کو خلع کا حق دیا ہے ، جس میں مالی حقوق بھی کم ہوتے ہیں۔ قرآن میں4ماہ10دن کی عدت طلاق کے حقوق کیلئے ہوگی جس میں عورت کے حقوق زیادہ ہیں۔
اسلام اور انسانیت کا فطری دائرہ بالکل ایک ہے۔ جب پیرعلاء الدین کی بیوہ عورت نے دوسری جگہ شادی کی اجازت مانگی تو اس سے کہا گیا کہ علاء الدین کا کچھ قرضہ ہے وہ اتارنا ہوگا۔ اس کی بیوہ پر پابندی لگائی گئی کہ برکی قبائل سے وہ شادی نہیں کرسکتی ہے۔ جبکہ میرے بھتیجے سید ارشد حسین شاہ گیلانی شہید نے بھی پیر علاء الدین کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ اس کی بیوہ کونہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اس کے حقوق سے زیادہ مال واسباب کا مالک بنادیا۔
جب تک عورت کے اسلامی حقوق سمجھ میں نہیں آئیں گے اور اس پر عمل نہیں ہوگا تو مسلمان غلامی کی زندگی سے آزادی کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ جن کی عورتوں کو بھی آزادی حاصل نہ ہو تو لونڈیوں کی اولاد کہاں سے آزاد پیدا ہوسکتی ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کی علت بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے کی بار بار وضاحت کی ہے لیکن علماء کے دماغ میں ”حتی تنکح زوجًا غیرہ ” اٹک گیا ہے۔ کئی کتابوں اور مضامین کے باوجود بھی ان کا دماغ نہیں کھل رہاہے۔ حالانکہ قرآن بالکل واضح ہے۔
قرآن نے حلالہ کی لعنت سے نکالا ہے اس میں کسی کو دھکیلا نہیں ہے۔ صرف اس صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے کہ جب یہ طے ہوجائے کہ دونوں نے رجوع کرنا ہی نہیں ہے لیکن جب لیڈی ڈیانا سے لیکر بیوہ عورتوں پر بھی پابندی لگائی جائے کہ اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ آیت عورت کیلئے بہت بڑی نعمت تھی جس کوناسمجھ علماء ومفتیان نے زحمت بنادیا ہے۔ مسلمان حلالہ کی وجہ سے غیرتمند اور بے غیرتوں میں تقسیم ہونگے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟

طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟

جب شوہر کا عورت سے نکاح ہوجاتا ہے تو اس رشتے کی باریکی اور مضبوطی کا تعلق دو طرفہ بنیادوں پر اللہ نے رکھاہے۔
شوہر کا انتقال ہوجائے تو عورت عدت پوری ہونے کے بعد زندگی بھر اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ اس کی قبر پر اسکے شوہر کے نام کی تختی لگتی ہے کہ زوجہ فلاں۔ جنت میں بھی قرآن کہتا ہے کہ لوگ اپنی ازواج اور اولاد کے ساتھ ہوں گے۔
لیکن اگر عورت عدت پوری ہونے کے بعد کسی اور شوہر سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کا بھی عورت کو مکمل اختیار دیا گیا ہے اور اس کے بعد وہ دوسرے شوہر کی بیوی بن جائے گی۔ پہلے سے اس کا تعلق قائم نہیں رہے گا۔ قرآن وحدیث اور صحابہ سے ان چیزوں کا بھرپور ثبوت ملتا ہے لیکن مذہبی طبقات نے اس معاملے کو اپنی جہالتوں سے بہت بگاڑ دیا تھا، جس کی اصلاح ایک حد تک ہماری تحریرات سے الحمدللہ اب ہوچکی ہے۔
قرآن میں پہلی بار عدت کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت226اور طلاق کا پہلی بار ذکر سورہ بقرہ کی آیت227میں ہے۔
انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ”پہلا امپریشن ہی آخری امپریشن ہوتا ہے”۔ فقہاء اور مسالک کے علمبرداروں نے پہلے ذکر کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ قصور قرآن کا نہیں ہے بلکہ جہالت کے اندھیرے میں پھنسے ہوئے ائمہ کا قصور تھا۔
اللہ نے طلاق سے پہلے طلاق کا مقدمہ بیان کردیاہے۔ سورہ البقرہ آیت:224میں واضح کردیا ہے کہ ”تم اپنے عہدو پیمان کو رکاوٹ نہ بناؤ کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور عوام کے درمیان صلح کراؤ”۔ جب عوام الناس کے درمیان اللہ کے نام پر صلح کیلئے رکاوٹ بننا ممنوع ہے تو پھر جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں تو اللہ اور مذہب کو کیسے رکاوٹ بناسکتے ہیں؟۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے کسی بھی حال میں میاں بیوی کے درمیان کوئی ایسا فتویٰ نہیں دیا ہے جس میں وہ صلح چاہتے ہوں اور اللہ اور مذہب اس میںرکاوٹ بنتا ہو۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ البقرہ آیت230میں اللہ نے کیوں فرمایا ہے کہ ”پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ نکاح کرلے”۔
اس کا جواب سیدھے سادے الفاظ میں بالکل واضح ہے کہ جب تک سیاق وسباق کو نہ دیکھا جائے تو آیت کا مفہوم سمجھ میں کبھی نہیں آسکتا ہے۔البقرہ آیات231اور232میں یہ واضح ہے کہ ”جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ گئی تو معروف طریقے سے رجوع کرو یا معروف طریقے سے اس کو چھوڑ دو۔ ان کو اسلئے مت روکو تاکہ تم ان کو ضرر پہنچاؤ”۔ اور ” جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور اپنی عدت کو پہنچ گئی تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں ،اگر وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں”۔
جب اللہ تعالیٰ آیت230کے بعد کی دو آیات میں حلالہ کے بغیر عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی اجازت دیتا ہے تو پھر آیت230کا معاملہ اور پس منظر کیا ہے؟۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے آیت228البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہروں کو ان کے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا تھا۔ جب عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے تو پھر درمیان کی بات بھی حقائق سمجھ کر دیکھنے کی کوشش کریں تو ذرا تدبر سے معاملہ سمجھ آجائے گا۔
سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دے دی ہے۔ جس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔
جہاں تک آیت230البقرہ کا تعلق ہے تو اس سے پہلے آیت229میں بھرپور وضاحت ہے کہ
” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ ان کو دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کردیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔
اگر اس وضاحت کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو پھر کوئی ابہام بھی باقی نہیں رہتا ہے۔ اس آیت میں چند وضاحتیں یہ ہیں۔
البقرہ228میں عدت کے تین مراحل واضح ہیں۔البقرہ آیت229میں تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق واضح ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں یہ حدیث لکھ دی ہے کہ نبی ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے۔ جس کے جواب میں نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کے بعد احسان کے ساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے۔ علاوہ ازیں بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کو بتایا کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے ۔ جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوگئے اور عبداللہ سے رجوع کیلئے کہا اور فرمایا کہ طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھویہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر یعنی پاکی کے دن آجائیں اور پھر حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت آجائے تو اگر طلاق دینی ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو اور رجوع کرنا ہو تو اس میں رجوع کرلو۔ یہی وہ ہے عدت ہے جس میں اس طرح اللہ نے طلاق کا امر دیا ہے۔ یہ کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے لیکن بخاری نے ان میں صرف غضبناک کے الفاظ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اگر صحیح بخاری کی تمام کتابوں میں غضبناک ہونے کے الفاظ کا ذکر ہوتا تو اس کا نتیجہ کچھ اور نکلتاکیونکہ اس سے مسئلے کی وضاحت میں بھرپور مدد ملتی
محمود بن لبید کی روایت ہے کہ رسول اللہۖ کو ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے تو اس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو۔ جبکہ میں تمہارے درمیان میں موجود ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کروں؟۔
اس روایت سے احمق لوگ یہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا تھا تو نبی ۖ غضبناک نہ ہوتے بلکہ رجوع کا حکم دیتے۔ حالانکہ اس سے زیادہ مضبوط روایت میں ہے کہ نبی ۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود بھی رجوع کا حکم دیاتھا جو بخاری میں ہے اور محمود بن لبید کی روایت بخاری ومسلم میں نہیں ہے۔ روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے اور یہی واقعہ ہے جس میں عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔
محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط روایت صحیح مسلم میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھ سے ایک مستند شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں۔20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں لوگوں کا رحجان بدل گیا تھا۔رحجان کی تبدیلی کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت کے2سال بعد ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔جس پر اہل علم کے مناظرانہ اور مسلکانہ وفرقہ وارانہ رنجشوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں زبردست قسم کی تقسیم آگئی۔
پھر حضرت علی کے شاگردوں کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آگئی کہ کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے۔ جس پر حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جس میں ایک ساتھ تین طلاق کے واقع کرنے پر اتفاق ہوگیا تھا اور حضرت عمر و حضرت علی کے ماننے والے ایک ہوگئے ۔
کاش! یہ لوگ روایات اور اقوال کی طرف دیکھنے کی جگہ قرآن کے بنیادی آیات سے بھی کچھ استفادہ کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن قرآن کو روایات میں کھو دیا گیا۔ خلفاء راشدین کی طرف منسوب کیا گیا کہ اگر بیوی کو حرام کہہ دیا جائے تو پھر سب کا فتویٰ اور فیصلہ الگ الگ تھا۔ حضرت عمر ایک طلاق رجعی قرار دیتے تھے۔ حضرت علی تین طلاق مغلظہ قرار دیتے تھے اور حضرت عثمان اس کو ظہار کے حکم کے مترادف کہتے تھے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے” زادالمعاد” میں چار خلفاء راشدین اور چار ائمہ مجتہدین کے علاوہ حرام کے لفظ پر دوسرے فقہاء کیساتھ20اجتہادات کا ذکر کیا ہے۔اس کا ذکر صحیح بخاری میں حسن بصری نے کیا ہے کہ ” بیوی کو حرام کہا تو جو نیت کی جائے۔ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے۔ جس کے بعد عورت حلال نہیں ہوتی جیساکہ کھانے پینے کی اشیاء کو حرام قرار دینے کے بعد کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجاتی ہیں”۔ بخاری میں ایک روایت چھوڑ کر حضرت ابن عباس کے قول کو بھی نقل کیا گیا ہے کہ بیوی کو حرام قرار دینے پر کچھ بھی واقع نہیں ہوتا نہ طلاق ، نہ قسم اور نہ کفارہ اور یہی رسول اللہ ۖ کی سیرت کا تقاضہ ہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ کیلئے فرمایا کہ مجھ پر حرام ہے اور اس کا سورہ تحریم میں ذکر ہے مگر یہ توفیق مسالک کے انبار لگانے والوں کو بخاری سمیت کسی کو بھی نہیں ملی ہے کہ قرآن کی سورہ تحریم کا حوالہ دے دیتے اور بس کرتے۔
آیت کا دوسرا حصہ ہے۔ جس میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے۔ جب تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر عورت کی طرف سے اس کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیںہے اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو ان حدود سے تجاوز کرے گا تو یہی لوگ ظالم ہیں”۔ آیت229
اس میں واضح ہے کہ تیسرے مرحلے میں طلاق کا فیصلہ کیا تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ ان کو جوکچھ بھی دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ یعنی شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتے مگر کوئی ایسی چیز ہو جو رابطے کا ذریعہ ہو اور اس کی وجہ سے دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ وہ واپس نہیں کی گئی تو پھر وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے یعنی اس چیز کی وجہ سے رابطہ اور تعلق بن سکتا ہے اور دونوں کے جنسی تعلقات کا اندیشہ ہو۔ مثلاً شوہر نے موبائل کی ایک سم دی ہے اور وہ سم شوہر کیلئے واپس لینا حلال نہیں ہے مگر وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے خدشہ رکھتے ہیں کہ اگر یہ ”سم” واپس نہیں کی گئی تو اس کی وجہ سے گڑ بڑ ہوسکتی ہے ۔ پھر اس سے بچنے کیلئے وہ ”سم” عورت کی طرف سے دینے میں کوئی حرج دونوں پر نہیں۔ علاوہ ازیں مکان یا کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جس پر سب کا اتفاق ہوجائے کہ یہ خطرناک ہے۔
حنفی مسلک نے بھی اپنے اصول فقہ میں اسی صورتحال کی بنیاد سے اگلی آیت230البقرہ کی طلاق کو جوڑ دیا ہے اور یہی بات علامہ ابن قیم نے ابن عباس کے حوالے سے بھی لکھ دی ہے اپنی کتاب ”زاد المعادجلد4باب خلع” میں اور اسی بنیاد پر علامہ تمناعمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” لکھ دی ہے۔ لیکن اس سے خلع مراد لینا غلط ہے اسلئے کہ دو اور تین مرتبہ کی طلاق کے بعد خلع کی کوئی صورت نہیں بنتی ہے۔ حدیث میں تو خلع کی عدت بھی ایک حیض ہے۔ طلاق مرد کی طرف سے ہے اور خلع عورت کی طرف سے ہے۔
آیت230میں طلاق کی وہ صورت ہے کہ جس میں یہ طے ہوجائے کہ دونوں نے صلح نہیں کرنی ہے اور آئندہ رابطے کیلئے بھی کوئی صورت نہیں چھوڑنی ہے۔ اور یہی صورتحال ہی تمام آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ چنانچہ آیت228البقرہ میں اصلاح کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت229میں معروف کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر اصلاح اور معروف کی شرط کے بغیر شوہر رجوع کرے گا تو اس پر رجوع کرنے کے بجائے اسی طرح حلال نہ ہونے ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور اگر اصلاح اور معروف کی شرط ہو تو عدت میں بھی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی سورہ البقرہ کی آیات231،232میں رجوع کی وضاحت موجود ہے اور اسی کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے۔
احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ عبداللہ بن عباس نے ٹھیک فرمایا کہ حضرت عمر کے دور سے پہلے تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ طلاق ایک فعل ہے ، جس طرح روزہ دن میں ایک مرتبہ رکھا جاتا ہے اور نکاح ایک بار میں ایک ہی ہوسکتا ہے اسی طرح عدت کے ایک مرحلے میں ایک ہی مرتبہ طلاق ہوسکتی ہے ۔ روزہ اور کھانے پر ہزار بار بھی کہا جائے تو ایک ہی روزہ اور ایک ہی مرتبہ کھانا کھانا مراد ہوگا۔ حضرت عمر نے فیصلہ اسلئے دیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور حضرت علی نے حرام کے لفظ پررجوع نہ کرنے کا فتویٰ اسلئے دیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ حضرت ابن عباس کے جن شاگردوں نے ایک ساتھ کو تین طلاق قرار دیا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اور جن شاگردوں نے تین طلاق کو ایک قرار دیا تو اس میں رجوع کیلئے عورت راضی ہوتی تھی۔
طلاق کا اظہار تو بڑی بات ہے جب نبی ۖ نے ایلاء کیا اور آپ ۖ کو معلوم تھا کہ رجوع پر امہات المؤمنین بہت ہی خوش ہوجائیں گی لیکن اللہ نے فرمایا کہ رجوع نہیں کرسکتے۔ پہلے ان کو طلاق کا اختیار دے دو اور پھر وہ چاہیں تو رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ صرف قرآن میں عورتوں کے حق کی رہنمائی کیلئے تھا۔
طلاق ونکاح کے نام پرمسالک اور فرقہ واریت نے جس طرح کے بدبودار لیٹرین اور گند کیا ہے اگر عوام کو پتہ چلے گا تو بڑے بڑوں کی بالکل خیر نہیں ہوگی۔ جب حضرت عمر سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عمر ہی کو اپنا جانشین بنالو۔ تو حضرت عمر نے کہا کہ اس کو طلاق کے مسئلے کا پتہ نہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کے قابل اس کو سمجھوں گا؟۔ یہ خلافت کیلئے نااہل ہے۔
ابوسفیان اور حضرت عمر میں اس کے علاوہ بھی بہت فرق تھا لیکن جب امام حسن اور امیر معاویہ نے آپس میں صلح کرلی تو شیعہ سنی اہل بیت وصحابہ پر نہیں لڑیں۔ یزیداور مروان بن حکم کے دور میں حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر جب شہید کئے گئے تو حکمران غیر صحابی اور شہداء صحابی تھے۔ صحابہ کی توقیر دل میں ہو تو حسین و عبداللہ بن زبیر کے مقابلے میں یزید ومروان کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی ہے۔ البتہ یزید ومروان سے زیادہ قرآن کے مقابلے میں مسالک اور فرقے بنانے والے مجرم ہیں۔ پہلے تو لوگ بہت سادہ تھے ۔ ملاجیون اور اس کو ماننے والا طبقہ سادگی کے باعث اچھے لوگ تھے۔ اب تو سودی بینکاری کو جواز بخشنے والے اور زکوٰة کو کالعدم قرار دینے کے فتوے والوں کو چالاک وعیار لوگ پہنچانتے بھی ہیں مگر ………….؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی

نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی

قرآن میں غلام کو ”عبد” اور لونڈی کو”اَمة” کہا گیا ۔ عبد اور لونڈی کو بھی نکاح کا حق دیا گیا ہے۔ بلکہ طلاق شدہ وبیوہ کا جس طرح نکاح کرانے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح غلاموں اور لونڈی کے نکاح کرانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
قرآن نے غلام اور لونڈی کا اسٹیٹس تبدیل کردیا ہے اور مالکانہ حق کی جگہ ملک یمین کا تصور دیا ہے۔ جس کا مطلب ایک ایگریمنٹ ہے۔ جتنے میں غلام یا لونڈی کو خریدا گیا ہے تو اس پر حق ملکیت کا تصور باطل قرار دیا گیا۔اسلئے کہ انسان جانور کی طرح کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت گروی کی قرار دی گئی ہے۔ جب بھی مطلوبہ رقم میسر ہوگی تو لونڈی اور غلام کو آزادی مل جائے گی لیکن دنیا میں غلام بنانے کے طریقے سبھی حرام قرار دئیے گئے۔ جن میںسود، مزارعت،، جنگوں میں غلام بنانا، جوا،بردہ فروشی اور بدمعاشی وغیرہ شامل ہیں۔
نکاح اور ملکت ایمانکم میں فرق یہ ہے کہ نکاح میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اور ملکت ایمانکم ایگریمنٹ ہے جس کا اطلاق غلام اور لونڈی پر بھی ہوتا ہے اور آزاد عورت اور آزاد مرد کا ایک وقتی تعلق بھی ہوسکتا ہے۔ تجارتی معاہدہ بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں جہاں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہاں سیاق اور سباق کو دیکھ کر پتہ چل سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟۔
مثلاً سورہ نساء کی ابتداء میں اللہ نے فرمایا: فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنٰی وثلاث ورباع وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم ”پس نکاح کرو،عورتوں میں سے جن کو چاہو،دودو، تین تین، چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو ایک یا جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں”۔ (النساء آیت3)
یہاں لونڈی اور غلام مراد نہیں بلکہ مستقل نکاح کی جگہ وقتی ایگریمنٹ ہے۔ جس میں مالی اور جنسی اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ عدل کرسکے تو پھر ایک عورت یا ایگریمنٹ پر گزارہ کرے۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ صحابہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی بنالیں؟۔ نبیۖ نے منع کیا اور ایک یا دو چادر کے بدلے ایگریمنٹ کی اجازت دے دی اور فرمایا : لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبٰت ”حرام مت کرو جن پاک چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔(صحیح بخاری)
جس میں ایک بیوی رکھنے کی بھی صلاحیت نہ ہو تو وہ اس طرح ایگریمنٹ پر گزارہ کرسکتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی بیگم نہیں تھی اور حضرت عثمان نے کسی عورت سے نکاح کی پیشکش کردی تو عبداللہ بن مسعود نے اس کا انکار کردیا۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے بخاری کی شرح میں اس پیشکش کو مسترد کرنے کی وجہ انتہائی غلط لکھ دی ہے کہ قرآن کو جمع کرنے کے مسئلے پر ناراض تھے کہ ان کو شریک کیوں نہیں کیا گیا۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ لکھتے کہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ جب بازار میں دودھ ملتا ہو تو بھینس رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ قرآن کی تحریف کو تقویت دینا انتہائی بڑے درجے کا کفر ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا ہے کہ ” صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے کہا کہ ” رسول اللہ ۖ نے ایک دو گتوں کے درمیان قرآن کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا ہے”۔ اور یہ بخاری نے شیعوں کے مؤقف کو رد کرنے کیلئے لکھ دیا ہے کہ تم قرآن کی تحریف کے قائل ہو لیکن تمہارے علی تحریف کے قائل نہیں تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ علی کی یہ بات غلط ہے ۔ قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ (کشف الباری :مولانا سلیم اللہ خان)
مولانا سلیم اللہ خان کی اس بکواس کو اس کے نالائق اور جاہل شاگردوں نے مرتب کرکے بہت غلطی کی ہے اور اس کی اعلانیہ تردید اور اس سے توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ البتہ صحیح بخاری میں امام ابوحنیفہ کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایک ساتھ تین طلاق کی روایت غلط نقل کی گئی ہے۔اسی طرح سے فتح خیبر کے حوالہ سے گھریلو گدھوں اور متعہ کی حرمت شیعہ کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے نقل کی گئی ہے جس کوبخاری کے اندر کے تضاد کی وجہ سے رد کرنا ضروری ہے اسلئے کہ متعہ کو جواز فراہم کرنے والی روایت مرفوع ، زیادہ معتبر اورواضح ہے اور فتح خیبر تک گھریلو گدھوں کا کھانا بھی انتہائی غلط ہے۔
عبداللہ بن مسعود پر الگ مصحف کا الزام بھی غلط ہے جس شخص نے ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی اور اس میں اس نے سورہ فاتحہ اور آخری دوسورتوں کو نہیں پایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلا اور آخری صفحہ پھٹ کر ضائع ہوچکا تھا۔ جیسا مساجد میں بہت قرآن ہوتے ہیں لیکن اس پر کہانیاں گھڑی گئی ہیں۔ جہاں تک فما اسمتعتم منھن کے ساتھ الی اجل مسمی کے اضافے کی بات ہے تو وہ عبداللہ بن مسعود نے جلالین اور تفسیرابن عباس کی طرح تفسیر لکھ دی ہے۔ اگر یہ اضافی آیت ہوتی تو حنفی مسلک کے نزدیک خبر واحد کی آیت بھی آیت ہی کے حکم میں ہے ،پھر تو احناف کے نزدیک متعہ جائز ہونا چاہیے اسلئے کہ خبرواحد کی آیت سے ثابت ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے ۔
آج اگر ہم لکھ دیں کہ عبداللہ بن مسعود، بخاری ومسلم، اصول فقہ میں قرآن کی تعریف ، مولانا انورشاہ کشمیری کے فیض الباری اور مسلک حنفی میں قرآن کی تحریف ثابت ہے تو لوگ ڈنڈے لیکر پیچھے پڑجائیں گے کہ تم تحریف کے قائل ہو؟۔ مگر جب ہم ان کی تردید کررہے ہیں تو کوئی حمایت نہیں کرتا ؟۔
بیوہ کو خاوند کے مال کا1/8ملتا ہے نبیۖ نے درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑی تو حضرت عائشہ و دیگرنبی ۖ کی ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں کی مالک بن گئی تھیں۔اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ گھر کی مالکن عورت ہی ہوتی ہے۔ فرمایا: لاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن الا ان یاتین بفاحشة مبینة ” ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیںمگر جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ سورۂ طلاق
سویڈن قانون کے مطابق جب میاں بیوی میں جدائی ہو تو ان کا مشترکہ گھر دونوں میں تقسیم ہوگا۔ ہم سویڈن میں ایک شخص کے مہمان تھے جس کی بیوی سے جدائی ہوگئی تھی اور اس نے بتایا کہ اس نے سارا گھر بیوی کو دے دیا اسلئے کہ عورت پر اسے رحم آیا اور قانون کے مطابق اس نے اپنا حق نہیں لیا۔
اسلام میں عورت پر یہ احسان نہیں ہے کہ اس کو طلاق دی جائے اور گھر اس کیلئے اور اس کے بچوں کیلئے چھوڑد یا جائے۔ بلکہ یہ طلاق کے بعد عورت کا اپنا حق ہے۔ اس نے جب نکاح کرلیا تو اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مرد کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے ایسے حقوق رکھے ہیں کہ جب انسانیت کو پتہ چل جائے تو پھرسارا انسانی معاشرہ ہی بدل جائے گا۔ گھر بھی اسی کا ہے۔ خرچہ بھی شوہر ہی کی ذمہ داری ہے۔ شوہر کی وسعت کے مطابق حق مہر بھی اس کا حق ہے۔ آج پوری دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ فقہاء نے لکھ دیا ہے کہ بیوی کا علاج معالجہ شوہر کے ذمے فرض نہیں ہے۔ حالانکہ کھانے پینے کی طرح علاج معالجے کی اہمیت ہے اور اس کیلئے بیوی کس کے پاس جائے ؟۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے بڑا کمال کردیا کہ اپنے اکابر ین سے انحراف کرکے لکھ دیا ہے کہ ”علاج کرنا بھی شوہر کی اخلاقی ذمہ دای ہونی چاہیے”۔
مولانا محمد منظور نعمانی کے بیٹے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی خط لکھ کر مفتی تقی عثمانی سے پوچھتے ہیں کہ ”حق مہر کی شریعت میں حیثیت کیا ہے؟”۔ جس کے جواب میں لکھ دیا کہ ” یہ اعزازیہ ہے”۔ اعزاز میں تو ایک چونی کا انعام بھی بہت ہوتا ہے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ” جس کے نزدیک چور کا ہاتھ جتنی رقم میں کٹتا ہے ، اتنی کم ازکم رقم حق مہر میں دینی فرض ہے۔اسلئے کہ جتنی رقم میں چور اپنے ایک عضوء سے محروم ہوتا ہے اتنی رقم میں شوہر اپنی بیوی کے ایک عضوء کا مالک بنتا ہے”۔
حالانکہ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ امیر پر اپنی وسعت اور غریب پر اپنی حیثیت کے مطابق حق مہر فرض ہے۔ جب کسی صحابی نے نبی ۖ سے اس عورت کا رشتہ مانگا تھا جس نے خود کو نبیۖ کیلئے ہبہ کردیا تھا تو نبی ۖ نے مالی حیثیت پوچھ لی اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ ایک لوہے کی انگوٹھی سے بھی حق مہر ادا ہوسکتا ہے بلکہ اس صحابی کی پوری ملکیت یہی تھی۔ اور وہ ایک گھر کا مالک تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے فرمایا کہ نبی کے علاوہ کسی اور کا یہ حق نہیں کہ کوئی عورت خود کو اس کوہبہ کردے۔
ایک آدمی کھرب پتی ہے یا ارب پتی ہے یا کروڑ پتی ہے یا لکھ پتی ہے یا مسکین ہے۔ تو اگر اس نے نکاح کرلیا اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی تو اپنی حیثیت کے مطابق اس پر حق مہر کا نصف دینا فرض ہے۔ یہ اس کی مرضی پر نہیں بلکہ اس کی مالی حیثیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے۔
بیوہ کو1/8ملتا ہے اور وہ گھر کی مالکن بھی بنتی ہے تو حق مہر اس کی حیثیت کے مطابق سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ عام حالات میں بیوی خود کواپنے شوہر کے مال کا مالک سمجھتی ہے اور وہ ایک حد تک مالک ہوتی بھی ہے ۔ لیکن جب جھگڑا یا طلاق کا مسئلہ آتا ہے تو اس کو ہر چیز سے محروم کردیا جاتا ہے۔
قرآن وسنت اور فطرت نے جو حقوق ایک بیوی کو دئیے ہیں وہ طلاق کی صورت میں ہر چیز سے محروم کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اسکے بچے بھی چھن جاتے ہیں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔ یہ قرآن وسنت اور اسلام نہیں ہے بلکہ علماء وفقہاء کے خود ساختہ مسالک ، فرقے اور مذاہب ہیں۔
مسلمانوں میں رائج نکاح میں جب عورت کو نکاح کے حقوق حاصل نہیں ہیں تو اس کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟۔ یہ جائز ہے یا ناجائز حرام کاری ہے؟۔ اللہ نے واضح کیا ہے کہ طلاق کے بعد شوہر کیلئے حلال نہیں ہے کہ عورت سے کچھ بھی واپس لے،اگرچہ اس کو بہت سارا مال دیا ہو اور نہ ہی مال واپس لینے بہتان طرازی کرنے کی اس کو اجازت ہے۔ (النسائ:20)
ہمارے ہاں رائج نکاح پر نکاح کا نہیں بلکہ ایگریمنٹ کا اطلاق ہوتا ہے اسلئے کہ نکاح کے قانونی حق سے عورت بالکل محروم ہوتی ہے۔ اسلام سے قبل لونڈی کیساتھ بھی وہ ناجائز نہیں ہوتا تھا جو علماء ومفتیان نے نکاح کے نام پر عورت کے ساتھ زیادتیوں کی اجازت دی ہے۔ بیوی سے شوہر کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق ۔ پھر اپنی بات سے مکر جاتا ہے تو اس پر بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور بیوی کیلئے وہ شوہر حرام قرار دیا گیا ہے اسلئے عورت کو خلع لینے کا حکم ہے لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت اس کے ساتھ حرامکاری کی مباشرت کرے لیکن لذت نہیں اٹھائے۔ دوسری طرف یہ بکواس مسئلہ بھی بتایا ہے کہ اگر چندازواج میں سے کسی ایک کو طلاق دیدی جائے اور یہ تعین نہ ہو کہ کس عورت کو طلاق دی ؟۔ تو باری باری سب سے مباشرت کرے ، جس میں زیادہ لذت ہوگی وہی طلاق ہوگی اسلئے کہ حرام میں لذت زیادہ ہوتی ہے۔
نکاح ، طلاق اور خلع کے مسائل میں قرآنی آیات سے انحراف کرکے وہ گل کھلائے ہیں،جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنا فضل کیا ہے اور دین کی سمجھ دی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی سے بھی اس دور میں ملاقاتیں کی تھیں اور قبلہ ایاز صاحب سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں سرکاری سطح پر سبھی فرقوں اور مسالک کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس میں مزید اچھے لوگوں کو بھی دعوت دے کر آج مسائل کا حل کرسکتے ہیں۔
ایلاء کی عدت چار ماہ اور طلاق کی عدت تین ماہ ہے۔ بیوہ کی عدت 4ماہ10دن اور خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ طلاق میں عورت سے دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء واپس نہیں لے سکتے ہیں لیکن خلع میں عورت کو گھر چھوڑنا پڑتا ہے اور غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
مذاق اور سنجیدگی میں طلاق اس وقت معتبر ہے کہ جب وہ رجوع کیلئے راضی نہ ہو اسلئے کہ طلاق میں اس کے زیادہ حقوق ہیں۔ طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے تمام الفاظ بھی عورت کے حق کو تحفظ دینے کیلئے ہیں۔ اگر شوہر نے ایلاء کیا جس میں کوئی صریح طلاق نہیں ہوتی ہے تو شوہر یکطرفہ رجوع نہیں کرسکتا ہے بلکہ رجوع سے پہلے عورت کو طلاق کا اختیار دینا ضروری ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ اسے پکڑے گا اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت3کی جگہ4ماہ تک انتظار کرے گی۔ اس ایک ماہ کی زیادہ عدت پر بھی شوہر کی پکڑ ہوگی۔
جب طلاق کا اقدام یا علیحدگی کے اسباب شوہر نے پیدا کئے ہوں گے تو عورت کو طلاق کے حقوق ملیں گے اور جب خلع عورت کی طرف سے ہوگا تو پھر عورت کو گھر اور منقولہ جائیداد سے دستبرداری اختیار کرنی پڑے گی۔ اگر قرآن وسنت کے یہ قوانین مسلمان معاشرے میں رائج ہوتے تو مغرب اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بیوی و شوہر کیلئے جمہوریت کی قانون سازی نہیں کرنی پڑتی۔ عیسائیوں میں 3سو سال پہلے تک طلاق کی شرعی اجازت نہیں تھی۔ عیسائیوں نے قرآن سے ہی متاثر ہوکر اپنے ہاں طلاق کیلئے قانون سازی کردی ہے۔
اگر مسلمانوں میں نکاح اور ایگریمنٹ کے حقوق واضح ہوتے تو عیسائی اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اسلام ہی کو رائج کرتے۔ نکاح کے بعد طلاق و خلع کے حقوق جدا ہوتے اور اگریمنٹ میں بھی عورت کسی ایک شخص کے ساتھ پابند ہوتی۔ جس سے اولاد کی شناخت کو تحفظ ملتا اور عدت کی پابندی سے ایڈز وغیرہ کی بیماریاں بھی دنیا میں نہیں پھیل سکتی تھیں۔
قرآن وحدیث سے بھی مذہبی طبقہ ناواقف ہے اور نکاح وطلاق اور خلع کے احکام کے بارے میں بھی غفلت میں ہے۔ جس دن مذہبی طبقے کا رخ پھر گیا تو بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟

تبلیغی جماعت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم بتاتی ہے ” اللہ کے حکمو ں میں کامیابی اور غیروں کے حکموں میںناکامی کا یقین آجائے ۔ نبی ۖ کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں آجائے”۔
تبلیغ کی بدولت مدارس اور خانقاہیں آباد ہیں ۔ چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔ بہت سارے خواجہ سراؤں کو عزت ،انسانیت اور دین کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ کچھ خرابیاں انسانوں کی اجتماعیت میں افراد سے سرزد ہوجاتی ہیں ۔ نبیۖ کے دور میں ذوالخویصرہ، ابن صائد ، رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور بے ایمان قسم کے اعرابی بھی تھے تو انکی وجہ سے صحابہ کی مقدس جماعت کو برا کہنا کتنا برا ہے؟۔
علماء دیوبندنے مدارس، آزادی، تبلیغ اورخانقاہی نظام میں اسلام کی بہت خدمت کی ہے ۔ ہماری تعلیم وتربیت بھی علماء دیوبند سے منسلک ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا : وعصٰی اٰدم ربہ ”اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی”۔ تاکہ قیامت تک انسان کو اپنی غلطی کو صحیح کہنے پر اصرار نہ کرے ۔بہتر ہے کہ اپنی اصلاح پر زیادہ اور دوسروں کی تردید پر کم توجہ دی جائے ۔ نبی ۖ نے صحابہ کرام کے تزکیہ ،کتاب و حکمت کی تعلیم میں نبوت کا فرض اداکیاتھا۔
چمن کے مولانانے تبلیغی جماعت کے خلاف کہا کہ ” رائیونڈ کے فاضل نے گواہی دی ہے کہ یہ اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم پیغمبروں والا کام کرتے ہیں۔ ایک تبلیغی نے کہا کہ انبیاء سے زیادہ ہم تکالیف اٹھاتے ہیں ۔ یہ لوگ قادیانیوں سے بدتر ہیں۔ ایسی بے غیرت جماعت مسلمانوں کی تاریخ میں بھی نہیں گزری ہے”۔ان بیچاروں کو حلالہ کی لعنت کا شکار بناکر بے غیرت بنایا گیا جو علماء کا قصور ہے۔ ایک اہلحدیث عالم نے بھی گل چاہت معاویہ کی ویڈیو کا کلپ دکھایا کہ ” میرے ساتھ پیغمبری راستے میں زیادتی کی گئی ، جن میں بڑے اکابر بھی شامل تھے لیکن ان کا نام نہیں لوں گا”۔ پھر دیوبندیوں کو برا بھلا کہہ دیا۔
تبلیغی جماعت کے کارکنوں سے علماء کے مدارس، مساجد، مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی تعداد کم نہیں ہے لیکن انہوں نے کونسا تیر مارا ہے؟۔ جو فرائض اور واجبات علماء ومفتیان نے بتائے ہیں تبلیغی جماعت اس پر عمل کرتی ہے۔غسل، وضو اورنماز کے فرائض ، واجبات ، سنتیںاور مستحبات علماء ومفتیان پڑھ کر بالکل بھول جاتے ہیں لیکن تبلیغی جماعت کے کارکن بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ علماء دیوبندجن چیزوں کو بدعات قرار دیتے ہیں تبلیغی جماعت نے نہ صرف عوام الناس بلکہ فضلاء دیوبند کو بھی ان بدعات سے روکنے کی بڑھ چڑھ کر کوشش کی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ایک ضخیم کتاب لکھ ڈالی کہ” سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے”۔ ہمارے آبائی شہر کانیگرم جنوبی وزیرستان میں جب دیوبندی عالم مولانا شاداجان نے سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تومولانامحمد زمان نے اس پر قادیانی کا فتوی لگایا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولوی اشرف خان ہماری مسجد کے امام سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مانگتے تھے۔
ہماری مسجد کا نام ”درس” تھا اسلئے کہ میرے اجداد طلبہ کو یہاں درس دیتے تھے۔ اب تبلیغی جماعت نے رائیونڈ میں اس کو گلزار مدینہ کے نام سے متعارف کیا ہے۔جب میں نے وہاں تقریر کی کہ تبلیغی جماعت فضائل کی تعلیم دیتی ہے۔ اس کا طریقہ کار چار مہینے، چلہ، سہ روزہ، جمعرات کا اجتماع اور گشت وغیرہ ایک مستحسن عمل ہے ۔ یہ فرض ، واجب اور کوئی سنت نہیں ہے تو تبلیغی جماعت کا امیر گل ستار اُٹھا اور کہنے لگا کہ مفتی زین العابدین نے کہا کہ ” تبلیغی جماعت کا کام فرض عین ہے”۔ اس پر یہ طے ہوا کہ علماء کرام کی محفل بلاکر فیصلہ کیا جائے گا اور پھر میری غیر موجودگی کی خبر پاکر شہر کے علماء کو بلایا گیا۔ جب وہ ہماری مسجد میں جمع ہوگئے تو میں بھی ٹیپ ریکارڈر ساتھ لیکر اپنے ساتھیوں کیساتھ پہنچ گیا۔ جس سے وہ گھبرا گئے اسلئے کہ انہوں نے یکطرفہ ٹریفک کا کھیل سمجھ رکھا تھا۔ بہر حال وہ بہت لمبی بات ہوجائے گی۔ علماء نے میری طرف سے لکھ دیا کہ” میں نے آخری مہدی کا دعویٰ نہیں کیا ہے اور تبلیغی جماعت کا کام مستحسن ہے”۔ جس پر سب نے دستخط کئے۔ جب حاجی محمد عثمان کے خلاف تبلیغی جماعت نے پروپیگنڈہ شروع کیا کہ آپ تبلیغی جماعت کے خلاف ہیں تو دارالعلوم کراچی سے مفتی تقی عثمانی اور جامعة الرشید کے مفتی عبدالرحیم و مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے دارلافتاء ناظم آباد سے تبلیغی جماعت کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ فتویٰ لینے والے تبلیغی جماعت کراچی کے امیر بھائی امین کے بیٹے مولانا زبیر شیخ الحدیث مولانا زکریا کے خلیفہ تھے مگر انہوں نے عبداللہ کے نام سے فتویٰ لیا تھا۔ جب تبلیغی جماعت کے مرکزی مدنی مسجد کے امام نے ہمارے ساتھیوں سے ملاقات کی تو اس بیچارے کو امامت سے نکال دیا گیا تھا۔ ہماری تبلیغی جماعت سے ہمدردیاں ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ۔
کئی تبلیغی جماعت کے افراد نے حلالہ کے حوالہ سے ہمارا فتویٰ دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور حلالہ کے بغیر رجوع بھی کرلیا ہے۔ سیدھے سادے لوگوں کی عزتیں حلالہ کے نام پر لٹوانے کے بجائے تبلیغی جماعت کو اعلانیہ اللہ کے احکام کی تبلیغ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن کے واضح احکام میں صلح اور معروف کی شرط پر حلالہ کے بغیر بار بار رجوع کی گنجائش واضح ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟

خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟

مہوش نے پشاور سٹریٹ چائلڈ بھیک مانگتے بچوں ،بچیوں کیلئے ادارہ کھولا۔6سالہ بچی کوباپ فروخت کرنا چاہتا تھا تو ماں نے انکے حوالے کردی۔ مفتی تقی عثمانی کے” فتاویٰ عثمانی جلد دوم”میں ہے کہ باپ نابالغ بچی کو نکاح کے نام پر کسی کو دے سکتا ہے۔ بچی بالغ ہوجائے تب بھی وہ چھٹکارا نہیں پاسکتی۔ سندھ کی یتیم اُم رُباب سالوں سے مقتولین باپ اور چچوں کیلئے انصاف مانگ رہی ہے۔
خلع عورت اور طلاق مرد کا حق ہے۔ ریاست نے عورت کو خلع کا حق دیا۔ علماء ومفتیان یہ حق نہیں دیتے ۔عدالتوں سے خلع لینے والی خواتین کو معاشرتی اور شرعی مسائل کا سامنا ہے۔ ہم بار باریہ مسئلہ اسلئے اٹھارہے ہیں کہ معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف نے لی ہے۔ جس دن عوام اورتمام مکاتب فکر کے علماء حق نے یہ معاملہ اٹھایا تو بڑا انقلاب برپا ہو گا۔ اللہ نے قرآن میں فرمایاکہ
”اے ایمان والو! تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم عورتوں( بیگمات) کے زبردستی سے مالک بن بیٹھو اور نہ ان کو( خلع سے) روکوتا کہ جو تم نے ان کو دیا ہے ان میں سے بعض واپس لے لو مگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھو۔ اگر وہ تمہیں بری لگتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں بری لگے اور اللہ اس میں خیر کثیر بنادے ”۔( النساء :آیت19)
اس آیت میں عورت کو خلع کا حق ہے۔ عورت کو شوہر پسند نہیں تو اس کیساتھ رہنے پر مجبور نہیں۔ عورت چاہے تو شوہر کو چھوڑ سکتی ہے ۔ خلع میں حق مہر سمیت جو چیزیں شوہر نے دی ہیں وہ ساتھ لے جاسکتی ہیں مگر کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں تو بعض چیزوں سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ اس آیت سے دوسری خواتین مراد لینا انتہائی درجہ کی جہالت ہے اسلئے کہ ان کا مالک بننا، دی ہوئی چیزوں سے محروم نہ کرنا مگر کھلی فحاشی میں؟۔ اس سے دوسری خواتین کا کیا تعلق بنتاہے؟۔
جب عورت خلع لیکر جارہی ہو تو شوہر کو برا لگتا ہے اور بدسلوکی کا اندیشہ رہتا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ”ان سے اچھا سلوک کرو، اگر وہ بری لگتی ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز بری لگے اور اس میں تمہارے لئے اللہ خیر کثیر پیدا کرے”۔
اگر غور کیا جائے تو قرآن کے ایک ایک لفظ میں بڑی حکمت ہے۔ اللہ نے انسان کیلئے اس کی منکوحہ بیگم میں سب سے بڑی بات عزت کی رکھی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو اس کی عزت پر بات نہیں آتی۔ گھر کاسکون تباہ نہیں ہوتا۔
خلع میں حق مہر نہیں لیکن مکان اور غیرمنقولہ جائیداد سے دستبرداری ہے۔ شرعی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر واپس کرنا ہوگا۔ حالانکہ قرآن میں واضح ہے کہ خلع کی صورت میں شوہر کی دی ہوئی چیزوں کو بھی لیجانے سے روکنے کی گنجائش نہیں ۔ طلاق میں منقولہ و غیرمنقولہ تمام دی ہوئی اشیاء میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ۔ سورہ النساء کی20،21میں بھرپور وضاحت ہے۔من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ ”کچھ یہود ی کلمات کو اپنی جگہوں سے بدلتے تھے”۔ (النساء :آیت46) علماء نے یہود کی پیروی میں قرآن کی معنوی تحریف کلمات کو اپنی جگہ سے ہٹانے کا ارتکاب کرلیا۔ چنانچہ سورہ النساء آیت19کی جگہ سورہ بقرہ آیت229سے خلع مراد لیا ۔ حالانکہ اس سے طلاق مراد ہے خلع مراد نہیں ہوسکتاہے۔ اسرائیل فلسطین پر ظلم کرتاہے، حکمران ظلم کا تدارک نہیں کرے تو مجرم بنتا ہے۔ اُم رُباب انصاف کیلئے ٹھوکریںکھا رہی ہے۔ سب کی اتنی اوقات کہاں ہے؟۔GHQکا محمد بن قاسم سندھی بچی کی دادرسی کیلئے پہنچ گیا۔ یہود سے زیادہ مجرم علماء ہیں جو اسلام کو مسخ اورخواتین کا حق غصب کر تے ہیں، آئین قرآن و سنت کا پابند ہے۔ شرعی وغیر شرعی عدالتوں کے جج اور علماء ومفتیان قرآن وسنت سے جاہل ہیں۔ خلع میں مالی معاملہ یوں ہے کہ اگر عورت خلع لے تو اسکے مالی حقوق کم ہیں جبکہ طلاق میں زیادہ مالی حقوق ہیں۔حق مہرکا تعلق اللہ نے خلع وطلاق سے نہیں رکھا ہے بلکہ عورت کو ہاتھ لگانے سے رکھا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی توپھر آدھا حق مہر ہے ۔ عورت کی اتنی بڑی عزت وحرمت اللہ نے رکھی ہے اور ہاتھ لگانے کے بعد طلاق دی تو پورا حق مہر اور دی ہوئی تمام اموال وجائیداد ۔ لعان بھی مالی معاملہ ہے۔ اگر عورت کو کچھ دی ہوئی چیزوں سے کھلی فحاشی میں محروم کرنا ہے تو پھر لعان کرنا ہوگا۔ اسلام پر عمل ہوگا تو پوری دنیا میں میاں بیوی کے حقوق اسلامی و فطری بنانا لوگ شروع ہوجائیں گے جو انقلاب ہوگا۔
اگر شرعی عدالت کے جج نے خلع کا فیصلہ مولوی کی شریعت پر کیا ہے تب بھی وہ جاہل ہے اسلئے کہ علماء ومفتیان کہتے ہیں کہ خلع لینے کیلئے عورت کا عدالت میں جانا شریعت کے خلاف ہے۔ عورت عدالت سے خلع نہیں لے سکتی ہے ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی عبدالسلام چاٹگامی نے عدالت سے خلع کے مقدمہ کو درست قرار دیا تھا جس کا علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی حوالہ دیا ہے اور مفتی عبدالسلام چاٹگامی اسلامی بینکاری کے نام پر سودی نظام کے بھی خلاف تھے۔
موجودہ بنوری ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ اسلاف سے پھرگئی ۔ مدرسہ کاروبار اورگمراہی کا مرکز بنادیا۔ اگر مولانا امداداللہ نے اسلامی بینکاری کانفرنس میں مفتی تقی عثمانی کی تائید کی تو ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید،مفتی نظام الدین شہید، مفتی عبدالسلام چاٹگامی، مفتی سعید احمد جلالپوری شہید کے فتوے کہاں گئے؟۔ مولانا سید محمد بنوری شہید کی شہادت پر خراج تحسین پیش نہیں کیا؟۔ حالانکہ شیعہ کافرفتوے کی مخالفت اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت میں مولانا بنوری شہید کا کلیدی کردار تھا، جامعہ بنوری ٹاؤن نے بنوری شہیدکا مؤقف اپنایا۔ مولانا فضل محمد نے لکھا کہ ”مولانا عطاء الرحمن سے میری کبھی بھی تلخی نہیں ہوئی ہے”۔ حالانکہ اس کیلئے جرأت درکار تھی جو مولانا فضل محمد میں نہیں تھی۔اب فلسطین کے مسئلے پر اسلام آباد کانفرنس بریلوی، دیوبندی ،اہلحدیث اتحاد نہیں تھا بلکہ شیعہ مخالف قوتوں کی عالمی سازش تھی۔ تاکہ مسئلہ فلسطین کی آڑ میں ایران اور سعودی عرب یا حماس و حزب اللہ کے درمیان تفریق کیلئے راستہ ہموار ہو؟۔
مولانا اشرف علی تھانوی تک نے حیلہ ناجزہ میں لکھ دیا ہے جس کو دارالعلوم کراچی والے اپنے علمی اثاثہ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ” اگر شوہر نے ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں اور پھر مکر گیا۔ بیوی کے پاس گواہ نہیں تھے تو خلع لینا فرض ہوگا اور شوہر مال کے بدلے بھی خلع نہ دے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہے اور اس صورت میں عورت مباشرت کی پابند ہے لیکن لذت نہ اٹھائے”۔
بنوری ٹاؤن کراچی سے بھی ابھی حال ہی میں فتویٰ جاری ہواہے کہ خلع مالی معاملہ ہے۔ عورت مال کے بدلے میں اپنی جان چھڑاسکتی ہے۔ کاش ! مجھے طالب علمی کے زمانے میں اسباق سے بہت زیادہ دلچسپی ہوتی اور اس وقت ان گمراہانہ مسائل تک پہنچ جاتا تو مولانا بدیع الزمان اور بڑے اچھے اساتذہ کرام کی موجودگی میں ان مسائل سے رجوع بھی ہوجاتا لیکن میری غلطی اور کم نصیبی تھی۔ میرے کلاس فیلو مولانا عبدالرحمن قریشی نے کہا تھا کہ ”اگر آپ تعلیم پر توجہ دیں۔ تصوف کے ذکر اذکار ، سیاست اور انقلابی زندگی کے عمل سے کنارہ کش ہوجائیں تو تعلیمی میدان میں بڑا انقلاب برپا ہوجائے گا۔ اس وقت اساتذہ کی طرف سے حق بات کی تائید بھی ملتی تھی۔ اب تو معاملہ بہت ہی بدل چکا ہے۔
عرب اور پشتون اپنی بیٹیوں کو بیچ دیتے ہیں اور مذہبی طبقے میں زیادہ عرب ہیں یا ہمارے پٹھان ہیں۔ جب لڑکی کو بیچ دیا جائے گا تو خلع کو بھی مالی معاملہ ہی سمجھا جائے گا۔ جب چھوٹی بچیاں بھی بیچنے کا رواج ہوگا تو شرعی مسائل سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجائے گی۔ ہمارے خاندان میں شروع سے الحمد للہ لڑکیوں کو بیچنے کی روایت نہیں ہے اسلئے ہمارے اجداد نے علماء ومشائخ ہونے کے باوجود بھی سیاسی طور پر امیر امان اللہ خان کی حمایت کی تھی۔ افغانستان کے طالبان کی طرف سے لڑکیوں کو بیچنے کے خلاف فیصلہ میڈیا پر آیا تھا۔ اگر افغان طالبان کی طرف سے افغانستان کے اقتصادی مسائل کا حل نکالا گیا لیکن شرعی مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو بھی ان سے اقتدار چھن جائے گا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی حفاظت اچھی لگتی ہے۔ اگر طالبان نے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کردیا تو پھر یہ یاد رکھ لیں کہ پاکستان میں بھی اسلام کا آغاز ہوجائے گا۔ اسلام کو مذہبی طبقے کی وجہ سے دنیا میں پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔ جنرل مبین کے ناچتے ویڈیو سے کچھ مسئلہ نہیں،اصل بات اسلام کے لبادے میں قرآن سے انحراف کا مسئلہ ہے۔

نوٹ: مکمل تفصیلات جاننے کیلئے اس کے بعد عنوان ” عمران کا نکاح عدت میں نہیں مگر علماء و مفتیان عدت میں نکاح تڑوا کر عورتوںکی عزتیں لوٹتے ہیں مولانا فضل الرحمن اور
علماء کرام فیصلہ کریں! ” ”یتیم بچیوں کو ہراساں…جنسی استعمال…بنی گالہ میں کالے جادو میں ذبح کی بدلتی ہوئی کہا نی :افشاء لطیف کی زبانی”
اور ” بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں”کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں

بشریٰ بی بی قرآن وسنت کی دوعدتیں گزار چکی تھیں

عدتِ ایلاء عدتِ طلاق عدتِ وفات عدتِ خلع

1: عدتِ ایلائ: للذین یؤلون من نساء ھم تربص اربعة اشہر فان فاء وا فان اللہ غفور رحیمOجو لوگ اپنی عورتوں سے ایلاء کریں ان کیلئے چار ماہ کا انتظار ہے پس اگروہ مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔البقرہ:226
ایلاء کی عدت4ماہ واضح ہے۔ بیوی سے قسم کھائی یا لاتعلقی وناراضگی رکھی۔ (تفہیم القرآن: سیدمودودی) اگر طلاق کا عزم ہو تو یہ دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتاجانتا اور اس پر پکڑتا ہے ۔ جوالبقرہ آیات225،227میں واضح ہے۔ اسلئے کہ اگر طلاق کا اظہار کیا تو پھر عورت کی عدت3ماہ ہوتی ۔ اس عزم کو چھپانا دل کا وہ گناہ ہے، جس کے نتیجہ میں عورت کا انتظارایک مہینے بڑھ جاتا ہے۔
جمہور فقہائ کے ہاں4ماہ گزرنے کے بعدبھی ایلاء میں نکاح قائم ہے۔ جب تک اظہار نہ ہو، طلاق نہیں ہوگی۔ جس سے قرآنی آیات میں عدت کی ساری اہمیت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔امام اعظم ابوحنیفہ زندہ باد کا نعرہ لگے گا۔
جمہور کے نزدیک شوہر نے اپنا حق استعمال نہیں کیا اسلئے طلاق نہیں ہوئی ۔ حنفیوں کے نزدیک شوہر نے4ماہ تک صلح نہیں کی تو طلاق کا حق استعمال کرلیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کے حق کو دونوں نے نظر انداز کردیا۔ اللہ نے عورت کو اذیت سے بچانے کیلئے ایلاء میں4ماہ کی عدت رکھی جس میں قسم یا ناراضگی کی صورت میں بھی طلاق کی طرح ایک عدت کے بعد عورت کو آزادی ملتی ہے۔
رسول ۖ نے ایلاء کے ایک ماہ بعدرجوع کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ رجوع کا حق نہیں عورتوں کو طلاق کا اختیار دو۔ ازواج النبی رجوع پر راضی نہ ہوتیں تو4ماہ عدت سے فارغ ہوجاتیں۔یہ واضح سبق تھا کہ ایلاء میں عورت کا اختیار ہے۔
2:عدتِ طلاق: والمطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء ”اورطلاق والیوں کی عدت3ادوار ہیں”۔ (سورة البقرہ :آیت228)
ایلاء کے بعد اللہ نے طلاق کی عدت کو واضح کیا۔ عورت کو حیض آتا ہو تو عدت3ادوارہے اور حیض کی جگہ قائم مقام پھر عدت3مہینے بالکل واضح ہے۔
3:عدتِ وفات: والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجًا یتربصن بانفسھن اربعة اشھرٍو عشرًاO”اور جو لوگ تم میں فوت ہوں اور بیگمات چھوڑیں تو وہ خود کو انتظار میں رکھیں4ماہ10دن تک۔ (البقرہ آیت:234)
4:عدت ِ خلع: ثابت بن قیس کی بیوی نے خلع لیا تو نبیۖ نے ایک حیض کی عدت کا حکم دیا۔ (سنن ترمذی حدیث1185) ربیع بنت معوذ بن غفراء نے عثمان کے دورمیں خلع لیا تو حضرت عثمان سے کہا کہ بنت معوذ نے آج خلع لیا تو کیاوہ منتقل ہو ؟۔تو حضرت عثمان نے کہا کہ ”جی ہاں! منتقل ہو۔نہ تو ان کے درمیان وراثت ہے اور نہ ایک حیض کے سواء کوئی عدت ۔صرف حیض آنے تک وہ نکاح نہیں کرسکتی۔کہ اس کو حمل نہ ہواہو”۔(سنن نسائی حدیث نمبر 3497)

نوٹ: مکمل تفصیلات جاننے کیلئے اس کے بعد عنوان ” عمران کا نکاح عدت میں نہیں مگر علماء و مفتیان عدت میں نکاح تڑوا کر عورتوںکی عزتیں لوٹتے ہیں مولانا فضل الرحمن اور
علماء کرام فیصلہ کریں! ”
”یتیم بچیوں کو ہراساں…جنسی استعمال…بنی گالہ میں کالے جادو میں ذبح کی بدلتی ہوئی کہا نی :افشاء لطیف کی زبانی”
اور ”خلع میں عدالت و مذہبی طبقے کا قرآن وسنت سے انحراف؟”کے تحت آرٹیکل پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتیٰ تنکح زوجاً غیرہ فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا ان ظنا ان یقیما حدود اللہ و تلک حدود اللہ یبینھا لقوم یعلمونOآیت230البقرہ
پس اگر اس نے طلاق دے دی تو پھر اس کے لئے حلال نہیں ہے اس کے بعد یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے ، پس اگر وہ اس کو طلاق دے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کریں اگر انہیں گمان ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم رہ سکیں گے، اور یہ وہ اللہ کے حدود ہیں جس کو اللہ بیان کرتا ہے اس قوم کیلئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔

آیت230سے حلالہ مراد نہیں بلکہ آیت229میں3مرتبہ طلاق کے بعد وہ صورتحال واضح ہے جس میں طے ہو کہ صلح کی گنجائش نہیں ہے۔صلح نہ ہونے کی صورت میں عورت کی جان خلاصی کیلئے زور دار الفاظ کااستعمال بڑامعجزہ تھا۔

جبکہ ان دونوں آیات سے پہلے آیت228میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کی بھرپور وضاحت ہے اور ان دونوں آیات کے بعد آیات232-231میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی سے اصلاح کی شرط پر رجو ع کی وضاحت ہے۔ جس کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی فیصلہ کن طریقے سے بالکل واضح ہے۔

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حلالہ کی رسم کو ختم کرنا تھا تو پھر آیت230میں ایسے الفاظ کے استعمال کی کیا ضرورت تھی؟۔ بہت زبردست سوال ہے اور اس کا جواب بھی تسلی اور اطمینان سے سمجھ لیجئے گا۔
اگر اسلامی تاریخ میں مثبت اور منفی نتائج کو دیکھ لیں تو ایک ساتھ تین طلاق کے نتائج عورت کے حق میں بہت بہتر نکلیں ہیں اسلئے کہ حلالہ سے متأثرین اور مجرحین کی تعداد بالکل آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اکٹھی تین طلاق کے الفاظ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور وہ یہی چاہتی تھیں کہ وہ شوہر سے الگ ہوجائیں ۔
اصل مسئلہ عورت کے حقوق کا تھا اور عورت کے حق کی وضاحت ہی کیلئے آیت230کی وضاحت بہت ضروری تھی ،اگر یہ نہ ہوتی تو پھر کوئی راستہ بھی نہ ہوتا کہ عورت کی جان شوہر سے کبھی چھوٹ جاتی۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے واضح کیا کہ طلاق کے بعد عورت کی عدت کے تین مراحل ہیں اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش ہے اور اس عدت میں ان کے شوہروں کو باہمی اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق حاصل ہے۔ اتنی وضاحت کے باوجود بھی اصلاح وصلح کی شرط کو نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی طبقات نے ایک طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی اور یہ عورت کی بہت بڑی حق تلفی ہے ۔
پھر آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دیدی۔ لیکن مذہبی طبقات نے پھر معروف واصلاح کی شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر کو غیرمشروط رجوع کی اجازت دے دی۔ باہمی اصلاح اور معروف کی شرط کوبالکل نظرانداز کیا۔
پھر آیت230میں طلاق کے بعد حلال نہ ہونے کا ذکر کردیا تو حلالہ سمجھ کر مذہبی طبقے کی بانچھیں کھل گئیں۔ اگر اس میں یہ جملہ نہ ہوتا تو عورت کے حقوق کی طرف کبھی توجہ بھی نہ جاتی۔ اتنے زبردست الفاظ سے عورت کے حق کو تحفظ دلانا مقصود تھا لیکن مذہبی طبقے نے ان کی عزتیں لوٹ لیں۔
آیت231میں واضح ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے۔ مذہبی طبقہ اتنا ناعاقبت اندیش تھا کہ بجائے یہ سوچنے کے کہ اللہ نے آیت228میں اصلاح، آیت229میں معروف کی شرط پر رجوع کی اجازت دی تو کچھ اس پر غور کرتے کہ اس سے مراد باہمی رضامندی ، صلح واصلاح سے رجوع مراد ہوسکتا ہے؟۔لیکن پھر بھی انہوں نے اس آیت سے دلیل پیش کی کہ ”رجوع شوہر کا اختیار ہے”۔
آیت232میں اندھوں کی آنکھیں ،بہروں کے کان اور ناسمجھوں کے دل کھولنے کیلئے مزید وضاحت کردی کہ اگر تم نے اپنی عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ گئیں تو اگر وہ اپنے شوہروں سے نکاح کرنا چاہتی ہوں معروف طریقے سے باہمی رضامندی کے ساتھ تو ان کے درمیان رکاوٹ کھڑی مت کرو۔
ان ساری آیات کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے۔ کوئی ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہیں کہ نبی ۖ نے میاں بیوی کی رضا مندی کے باوجود بھی صلح سے منع کیا ہو۔ اگر کوئی بے شرم یہ بات پکڑ کر بیٹھ جائے کہ ”اللہ نے قرآن میں نماز کے قریب جانے سے روکا ہے ”اور اس وجہ سے نماز پڑھنے کی تمام آیات کا انکار کرے تو پھرکیا کیا جاسکتا ہے؟۔
بخاری میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالے کی روایت من گھڑت ہے اسلئے کہ بخاری میں یہ واقعہ اور جگہوں پر نقل ہے ،جن میں الگ مراحل کی طلاق ثابت ہے اور دوسرا یہ کہ عورت نے جس طرح نامرد کا الزام لگایا تھا تو شوہر نے اپنی مردانگی کی وضاحت کی تھی اور یہ باہمی اختلاف مارپیٹ کا مسئلہ تھا ،اس میں حلالے کا کوئی دور دور بھی واسطہ نہیں بنتاہے۔
آیت میں یہ ہے کہ ”اگر دوسرا شوہر طلاق دے تو پہلے شوہر سے اس وقت رجوع میں کوئی حرج نہیں کہ جب دونوں کو گمان ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیں گے”۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا شوہر اتنی جاذبیت نہیں رکھتا ہو کہ پہلے سے شادی کے بعد بھی جنسی تعلقات کا خدشہ رہے۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت230سے پہلے ”سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

سورہ بقرہ آیت229کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!

الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اٰتیتموھن شیئا الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعد حدود اللہ فاؤلٰئک ھم الظالمونO
طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف کے ساتھ روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر یہ کہ ان دونوں کو خوف ہو اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میںدونوں پر کوئی حرج نہیں۔ یہ اللہ کے حدود ہیں پس ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرے تو بیشک وہی لوگ ظالم ہیں۔ آیت229البقرہ

آیت میں نیلی لکھائی کے اندر یہ واضح ہے کہ دئیے ہوئے مال میں سے کوئی چیز واپس عورت سے لینا اس وقت جائز ہے کہ جب ان دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ یعنی عورت کی طرف سے وہی چیز فدیہ کی جائے گی جو شوہر نے اس کو اپنی طرف سے دی ہے۔

علماء کرام ، حکمران ، دانشور، پروفیسر، طلباء اور عوام تھوڑا تدبر فرمائیں! کیا قرآن کی یہ آیت بالکل واضح نہیں کہ شوہر کی طرف سے دی ہوئی کوئی چیز تیسری طلاق کے بعد واپس لینا جائز نہیں؟۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی تقی عثمانی کے اُستاذمولانا سلیم اللہ خان نے اپنی شرح صحیح بخاری ”کشف الباری” اور تنظیم المدارس کے صدر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے اُستاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی شرح صحیح بخاری ”نعم الباری” میں رسول اللہ ۖ کی یہ حدیث لکھی ہے کہ رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”سورہ بقرہ آیت229میں تسریح باحسان یعنی احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہی تیسری طلاق ہے”۔
اس تیسری طلاق کا فیصلہ کرنے کے بعد جب اللہ نے یہ واضح فرمادیا ہے کہ شوہر نے جو کچھ بھی بیوی کودیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔ ان الفاظ سے عورت کے ان مالی حقوق کا تحفظ واضح ہے جو شوہر کی طرف سے ان کو ملے ہیں۔ سورہ النساء آیت21-20میں بھی یہی واضح ہے کہ شوہر کو طلاق کا حق حاصل ہے مگر اگر بیوی کو بہت سارا مال بھی دیا ہے تو اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے۔
پھر آیت229میں یہ واضح ہے کہ ”اگر دونوں میاں بیوی کو یہ خوف ہو کہ تیسری طلاق کے بعد دی ہوئی وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو اللہ کے حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر وہ دی ہوئی چیز واپس کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ”۔ یعنی جومال واپس لیناحلال نہیں وہ ایک خاص مجبوری کی وجہ سے جائز ہے۔
اب پاکستان کی حکومت کی مرکزی کابینہ اور ساری صوبائی حکومتیں اس بات کے اوپر غور کریں کہ کیا اس آیت سے ”خلع” مراد ہوسکتا ہے؟۔
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعدبڑا مالی تحفظ دے دیا ہے۔ پھرخلع سے عورت کو بلیک میل کرنا کتنا بڑا جرم ہے؟۔یہ جرم علامہ شبیر احمد عثمانی، سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا وحید الدین خان اورجاوید احمد غامدی سبھی نے کیا۔ اس کی وجہ مدارس کی تعلیم ہے۔ امام شافعی کے نزدیک تین طلاق کے درمیان یہ خلع جملہ معترضہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک دو مرتبہ طلاق کے بعد اس خلع سے تیسری مرتبہ طلاق منسلک ہے۔ حالانکہ یہ اختلاف قرآن و حدیث اور عقل وفطرت کے بالکل منافی ہے۔
فقہ کے امام کہتے ہیں کہ ”جب صحیح حدیث آجائے تو ہماری رائے کو دیوار پر دے مارو”۔ صحیح حدیث میں تیسری طلاق کی وضاحت پہلے سے اس آیت ہی میں موجود ہے۔ تیسری مرتبہ کی طلاق کے بعد خلع مراد لینا تو انتہائی درجے کی حماقت ہے لیکن اگر دو مرتبہ طلاق کے بعد خلع مراد لیا جائے پھر تیسری مرتبہ کی طلاق ہو تو یہ بھی انتہائی درجے کی حماقت ہے۔ کیونکہ خلع اور طلاق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق سے پہلے خلع مراد لینا حماقت کی آخری انتہاء ہے۔
بالفرض اگر حنفی مؤقف تسلیم کرلیا جائے تو پھر تیسری طلاق کا تعلق بھی خلع کے ساتھ ہوگا۔ علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” میں اس مؤقف کو ہی واضح کیا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے علامہ تمنا عمادی قرآن کی تفسیر کا درس دیتے تھے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے اور علماء نے اس کو گوشہ گمنامی میں دفن کردیا ۔ علماء حق کو حلالہ سے سروکار نہیں تھا اور درباری مفتیان کا یہ بڑاخصوصی شغف رہا تھا۔

نوٹ: سورہ بقرہ کی آیت229کے بعد ”سورہ بقرہ آیت230کا درست ترجمہ اور تفسیر دیکھئے!” کے عنوان کے تحت پوسٹ ضرور پڑھیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے

اگر ترقی یافتہ دنیا میں عورت کے حقوق کے حوالے سے قرآن کا صور پھونکا جائے تو بڑا انقلاب آئے گا۔

توراة میں تحریف کرنے والے یہود کو قرآن نے گدھا قرار دیا اور یہ اُمت بھی ان کے نقش قدم پر چلے گی

قرآن میں طلاق واقعی ایک بڑا حساس معاملہ ہے لیکن کیوں؟۔
اگر عورت کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی جائے تب بھی آدھا حق مہر فرض بن جاتا ہے۔ اگر مقرر نہ کیا ہو تو امیر پر اس کی وسعت کے مطابق اور غریب پر اس کی وسعت کے مطابق دینا ضروری ہے۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر عورت نصف سے کچھ کم بھی لے تو حرج نہیں۔ اور مرد نصف سے زیادہ بھی دے تو حرج نہیں لیکن مناسب یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے وہ زیادہ دے اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل کرنا مت بھولو۔
قرآن کی ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر شوہر کی وسعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مہر اتنا ہونا چاہیے کہ جب مرد اس کو ادا کرے تو اس کو اچھی خاصی کلفت کا سامنا ہو۔ یہاں تک کہ عورت سے یہ توقع رکھے کہ وہ اپنے حق میں سے کچھ معاف کرے۔ اگر اعزازیہ ہوگا ایک کروڑ پتی آدمی پانچ دس ہزار یا50ہزار، لاکھ مہر دے گا تو اس میں کیا سوچ بچار ہوگی کہ کون معاف کرے کون نہیں؟۔ اور جب معاملہ طلاق کا ہے اور طلاق مرد ہی کی طرف سے ہوتی ہے تو اللہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ جس کے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے اس کو چاہیے کہ وہ رعایت لینے کے بجائے رعایت دے۔ کیونکہ عورت کے خلع کا معاملہ نہیں ہے۔ ان بیوقوفوں نے اس سے یہ اخذ کرلیا کہ طلاق صرف شوہر کا حق ہے اور خلع عورت کا حق نہیں ہے۔ حالانکہ یہاں چونکہ معاملہ خلع کا نہیں طلاق کا تھا اسلئے گرہ کی نسبت شوہر کی طرف کی گئی ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو طلاق کے مقابلے میں اس کے حقوق بہت کم ہوجاتے ہیں۔
البتہ حق مہر تو بہر صورت اس کا حق ہوتا ہے۔ خلع میں گھر اور جائیداد وغیرہ چھوڑنے پڑتے ہیں اور طلاق میں سب دی ہوئی چیزوں کی مالک عورت ہی ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے آسان ترجمہ قرآن میںصریح آیات کیخلاف بالکل غلط تفسیر لکھی ہے۔ حق مہر اعزازیہ نہیں ،آئیے میں بتاتا ہوں کہ کیا ہے؟۔
بیمہ اردو میں انشورنس کو کہتے ہیں۔ جب تاجر پرانے دور میں مال کے بدلے میں ایک پرچی لکھتے تھے جو اس قیمت کی ضمانت ہوتی تھی اس کو بیمہ کہا جاتا تھا۔ حق مہر دو قسم کا ہوتا ہے ایک معجل جو فوری طور پر ادا کردیا جاتا ہے اور دوسرا موجل جس میں بیمہ کی طرح گارنٹی ہوتی ہے۔ اس حق مہر کی حیثیت کو ختم کیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب شوہر چاہتا ہے تو عورت سے خدمت لے کر مدتوں بعد چھوڑ دیتا ہے اور اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے گھر کی ایسی کہانیاں ہیں کہ بھتیجے نے اپنی بیگم کو طلاق دے دی ۔ پھر مرید نی سے اس کی شادی کرائی۔ پھر اس نے ان بچوں کو پالا پوسا اور بڑا کیا ، خدمت کی اور پھر ایسا وقت آیا کہ بچوں کی حقیقی ماں کا دوسرا شوہر فوت ہوگیا تو اس کو دوبارہ لائے اور مریدنی کو گھر سے نکال بھگادیا۔ اگر حق مہر کو اعزازیہ سمجھنے کے بجائے ایک زبردست گارنٹی قرار دیا جاتا تو عورتوں کے ساتھ اس طرح کی زیادتی نہ ہوتی۔ جب عورت کے خلع کا حق چھین لیا گیا تو اس کے نتیجے میں فقہ کے مسائل ناقابل حل ہوگئے۔ مثلاً مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی زوجہ کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیدیں۔ پھر مکر گیا۔ اب اگر اس کی بیگم کے پاس دو گواہ نہ ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے جھوٹی قسم کھالی تو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” میں لکھا ہے کہ عورت خلع لے گی لیکن اگر شوہر خلع نہ دے تو عورت حرامکاری پر مجبور ہوگی۔ یہ فقہ کی ان کتابوں کا حال ہے جن میں باقی سب کچھ ہے لیکن فقہ نہیں۔ اسلئے کہ فقہ سمجھ کا نام ہے اور سمجھ انسانوں میں ہوتی ہے گدھوں میں نہیں۔ قرآن نے تورات میں تحریف کرنے والے علماء کی مثال گدھوں سے دی ہے۔ حدیث میں یہ خبر ہے کہ یہ اُمت بھی سابقہ اُمتوں کے نقش قدم پر چلے گی۔
بہشتی زیور مولانا اشرف علی تھانوی کی وہ کتاب ہے جو اکثر گھروں میں بھی ہے۔ اور مفتی تقی عثمانی نے بھی اس کی بہت زیادہ تعریف لکھی ہے۔ اگر مفتی تقی عثمانی نے اپنی بیگم سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق ۔ تو بہشتی زیور کے مطابق عورت پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ لیکن اگر مفتی تقی عثمانی کا ارادہ ایک طلاق کا ہوگا تو پھر ایک طلاق واقع ہوگی اور فتویٰ یہ دیا جائے گا کہ بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں ہیں۔ بہشتی زیور کے مطابق بیگم کو فتویٰ دیا جائے گا کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ اب ایک طرف وہ خاتون مفتی تقی عثمانی کے نکاح میں ہوگی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ اس پر حرام ہوچکی ہے۔ اس صورت میں تو حلالہ بھی نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ پہلا نکاح بدستور موجود ہے۔ یہ ہے قرآن کی تعلیم سے انحراف کا نتیجہ۔ اگر خلع کا حق عورت کا مان لیا جاتا تو ایسی تذلیل کیسے ہوتی؟۔ آنے والے دور میں بہت لوگ بہت کچھ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پوچھیں گے۔ اس سے پہلے پہلے قرآن کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ایک عورت نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ میں خود کو ہبہ کرتی ہوں۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ۖ ! اگر آپ کو ضرورت نہیں تو مجھے دیجئے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کے پاس دینے کیلئے کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ کچھ بھی نہیں۔ نبی ۖ نے حکم فرمایا کہ گھر میں دیکھ کر آؤ، جو کچھ بھی مل جائے۔ وہ واپس آیا اور عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ملا۔ کوئی لوہے کی انگوٹھی تک بھی اس کے پاس نہیں تھی۔ پھر نبی ۖ نے فرمایا کہ آپ کو قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہیں؟۔ صحابی نے کہا کہ ہاں۔ نبی ۖ نے حکم دیا کہ اس عورت کو یہ سورتیں یاد کراؤ۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے انتہائی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا ہے کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر بن سکتی ہے۔ حالانکہ اگر لوہے کی انگوٹھی مل جاتی تو یہ اس شخص کا کل سرمایہ تھا۔ یہ دلّے اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ عورت کا حق مہر کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک زبردست گارنٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے نبی ! یہ آپ ہی کیلئے خاص ہے کہ کوئی عورت خود کو ہبہ کردے۔ قرآن نے اس بات پر پابندی لگادی کہ کوئی عورت خود کو ہبہ بھی کرے تو اس کا حق مہر نہیں مار سکتا ہے۔ جس دن ترقی یافتہ دنیا میں قرآن کا یہ صور پھونکا جائے گا کہ نکاح میں مرد کا کوئی حق نہیں ہے اور عورت کیلئے شوہر کی وسعت کے مطابق ایک معقول گارنٹی ہے۔ سارا خرچہ بھی اصولاً شوہر ہی کے ذمہ ہے۔ خلع کا حق بھی عورت کو حاصل ہے اور خلع میں بھی مرد کی طرف سے دی ہوئی چیزوں اور حق مہر کا تحفظ اس کو ملے گا۔ البتہ دیا ہوا گھر اوردی ہوئی جائیداد سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ اور طلاق کی صورت میں گھر تو ہوگا عورت کا اور اس کے علاوہ دی ہوئی جائیداد اور تمام اشیاء کی بھی وہ مالک ہوگی۔ کاش قرآن و سنت کے مطابق مسلمان عورتوں کے حقوق اجاگر کریں اور دنیا کو فتح کریں۔

****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
اور ”ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے” ضرور دیکھیں۔
****************

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف

درسِ نظامی اور فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں جعل ساز علماء ومفتیان نے جھوٹ کی آخری سرحد پار کردی ہے۔ اسلئے کہ ”قرآن سے مراد وہ پانچ سو آیات ہیں جو فقہی احکام سے متعلق ہیں” ۔جن کا فقہ واصول فقہ کی کتابوں میں کوئی نشان تک بھی نہیں ہے۔بس صرف500آیات کا خالی نام ہے لیکن کونسی آیات ہیں ؟ اور کہاں کہاں ہیں؟۔ یہ کسی کتاب میں نہیں اور نہ کسی عالم ، مفسر، محدث اور مفتی کو اس گم شدہ معلومات کے ذخیرے کا کوئی پتہ ہے۔ بس ایک رٹ لگار کھی ہے۔
اصول فقہ اور فتویٰ کی کتابوںمیں چندمنتشر قرآنی آیات کے ٹکڑوں کو بہت انداز میں جوڑ کر اس کے انتہائی غلط نتائج نکالتے ہیں۔ خود تو بے راہ روی کا شکار تھے ،مذ ہب اہل بیت سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور حدث وحادثے سے بننے والے اہل حدیث کو بھی بدترین گمراہی میں ڈال دیا ہے۔ اگر قارئین ان مذہبی طبقات کو سمجھ لیں تو شیعہ ،دیوبندی ، بریلوی ،اہلحدیث ، پرویزی، غامدی، ڈاکٹر نائیک ذاکری اور انجینئر محمد علی مرزا جہلمی سب کے سب اپنی اپنی فکر سے توبہ کرکے اصلی مسلک حنفی کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ انشاء اللہ العزیز اور قادیانی تو مینار پاکستان پر لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کریں گے کہ مرزا غلام احمد قادیانی بالکل جھوٹا اور کذاب تھا۔ قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آسکتاہے۔
اگر قرآنی آیات ، نبی ۖ کی احادیث اور امام ابوحنیفہ کے اصلی مسلک کو سمجھ لیا تو اہل حدیث اور شیعہ حضرات کہیں گے کہ حضرت عمر کے فاروق اعظم ہونے کیلئے اور کچھ نہیں صرف مسئلہ طلاق کا حل بھی کافی ہے ۔
جس کو چراغ سحر سمجھ کر بجھادیا تھا ہم یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی
دورِ جاہلیت میں حلالہ کی لعنت کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق ہی کیساتھ تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ایک طلاق کے بعد عدت میں شوہر رجوع کا سلسلہ جاری رکھ سکتا تھا۔ تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد عورت کو دی ہوئی چیزوں سے محروم کیا جاتا تھا۔ چوتھا مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد بھی عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ مسائل تو بہت تھے ، جس میں آج پھر امت مسلمہ کو اسی دورِ جاہلیت میں دھکیل دیا گیا لیکن یہاں قرآن وسنت اور فقہ حنفی کے اہداف سے امت مسلمہ کو قرآن کی طرف رجوع کی دعوت دیتا ہوں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی ،مولانا محمدانور شاہ کشمیری، علامہ سیدمحمد یوسف بنوری، مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود کی بھی یہی خواہش تھی۔
طلاق سے متعلق قرآنی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں تصویر کے دورُخ ہیں۔ تصویر کا پہلا رُخ یہ ہے کہ طلاق کے بعد میاں بیوی باہمی اصلاح وصلح اور معروف طریقے سے رجوع چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے پورا پورا زور اس بات پر ہی دیا ہے کہ عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ بالکل بھی بند نہیں کیا ہے ۔ایک ایک آیت اس کی دلیل ہے اور کسی ایک حدیث سے بھی ذخیرہ حدیث میں اس کی تردید نہیں ہوتی ہے۔ حضرت عمر اور حضرت علی میں اس مسئلے پر کوئی اختلاف بالکل بھی نہیں تھا۔ تمام صحابہ کرام واہل بیت عظام اس پربالکل متفق اور متحد تھے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب شوہر طلاق دے اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ جب کوئی شوہر پھر بھی اس طلاق کے بعد اپنا اختیار اور حق جتائے تو اس کی طرف یہ فتویٰ متوجہ ہوتا ہے کہ وہ عورت اب اس کیلئے قطعی طور پر حلال نہیں ہے ،یہاں تک کہ وہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے اور پھر جب وہ اپنی مرضی سے طلاق دے دے تو بھی اس صورت میں آپس کے رجوع کی اجازت ہوگی کہ جب ان کو گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیںگے۔ اگر بالفرض دونوں کیلئے اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا گمان ہو تو پھر ان کے لئے اس کے بعد بھی رجوع کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلا شوہر بہت مالدار ہو لیکن خصی ہو اور دوسرا شوہر غریب ہو لیکن مردانہ قوت کا مالک ہو۔ اگر دونوں پڑوس میں رہتے ہوں۔ اگر نامرد مالدار سے نکاح ہوجائے اور مردانہ قوت کے مالک غریب سے رابطے کی کوئی سبیل نکلتی ہو اور اللہ کے حدود ٹوٹنے کا خطرہ ہو تو پھر ان کو گمان ہوسکتا ہے کہ اللہ کے حدود کو پامال بھی کرسکتے ہیں تونکاح جائز نہ ہوگا۔ تصویر کے دوسرے رُخ میں یہ طے ہے کہ جب طلاق کے بعد پہلے شوہر سے صلح کرنے کا کوئی پروگرام نہ ہو تو پھر کسی صورت میں بھی صلح نہیں ہوسکتی ہے ۔
تصویر کا پہلا رُخ سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232کے علاوہ سورہ طلاق میں بھی یہ پورا نقشہ اچھی طرح سے بہت وضاحتوں کے ساتھ سمجھا دیا گیا ہے۔ عام تعلیم یافتہ اور ان پڑھ بھی اس کا ترجمہ سن کر معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن میں کوئی تضادات نہیں ہیں اور سمجھنے کیلئے بہت آسان ہے۔
تصویر کا دوسرا رُخ سورۂ بقرہ کی آیت229اور230کو اچھی طرح تدبر کیساتھ دیکھ کرسمجھ سکتے ہیں۔ جس میں تین مرتبہ مرحلہ وار طلاق کے بعد واضح کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کودیا ہے کہ ان میں سے کچھ واپس لیں مگر یہ کہ جب دونوں کوخوف ہو کہ وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی یہ خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تو معاملہ دونوں کے درمیان اللہ کے حدود کو توڑنے تک پہنچ سکتا ہے تو پھر وہ چیز عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ان سے تجاوز مت کرو، اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ پھر اگر اس کو طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ البقرہ:230-229
اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں کا مالک بنادیا ہے اور اس کے حق کی حفاظت کو واضح کیا ہے لیکن اگر کوئی ایسی چیز ہو جس سے اس کی عزت محفوظ نہ رہے تو دی ہوئی چیز میں سے اس چیز کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کہ اس کی عزت سے تو وہ چیز زیادہ قیمتی نہیں ہے۔
علماء ومفتیان تو تقلیدی مرض کا شکار تھے اسلئے قرآن کے متن کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا لیکن مولانا مودودی، علامہ وحیدالزمان اور جاوید غامدی بھی اس جہالت کا شکار ہوگئے کہ جہاں اللہ نے عورت کے مالی حق کی حفاظت میں شوہر کے دئیے ہوئے مال کا بھی مالک قرار دیا ہے وہاں یہ خلع مراد لے کر عورت کی بلیک میلنگ کا ذریعہ بنادیا ہے۔ درسِ نظامی کے علماء ومفتیان بہت فخر کریں گے کہ مدارس کی تعلیم سے ایک طالب علم نے امت مسلمہ کو کشتی نوح فراہم کردی۔ سینٹر مشتاق خان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ فوج کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر بولنا شروع کریں۔ ان کو جماعت اسلامی کی غلط فکر کے سامنے ڈٹنے کی جرأت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ اب ایک مافیا بن چکا ہے اور مولوی کے سامنے جماعت مرغی بن کر کھڑی ہے۔
قرآن کے عظیم مقاصد کے خلاف سارا معاملہ صحیح بخاری نے بگاڑ دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ اور بدعت ہے اور شافعی کے نزدیک مباح وسنت ہے۔ بخاری نے رفاعة القرظی کی بیگم کو طلاق دینے کی روایت کوامام شافعی کی حمایت اور امام ابوحنیفہ کی مخالفت میں نقل کیا جس سے تأثر پیدا ہوا کہ نعوذ باللہ نبی ۖ نے نامرد سے حلالے کا حکم دیا۔ حالانکہ بخاری نے دوسری جگہ نقل کیا ہے کہ اس شخص نے نامرد ہونے کو جھٹلایا تھا اور رفاعة نے طلاق بھی الگ الگ مراحل میں دی تھی۔ تمام روایات درج ہوتیں تو مغالطہ نہ ہوتا۔

نوٹ: ” اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف” کے عنوان کے تحت کے یہ تبصرہ کیا گیا ہے۔مکمل آرٹیکل پڑھنے کیلئے یہ آرٹیکل بھی ضرور پڑھیں۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv