پاکستان کی سر زمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز، طلاق کے مسائل کا حتمی حل اور دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کیلئے سنجیدہ اقدامات کا آئینہ
طلوع اسلام کے حوالہ سے اقبال نے کہا تھا:
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے
اُمت مسلمہ اس فضول بکواس میں لگی ہوئی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہوتی ہے یا تین طلاقیں ہوتی ہیں؟۔ قرآن وسنت اور صحابہ کے بعد اس مسئلے نے امت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔
گمراہی کی اس بنیاد نے قرآن اور عربی دونوں سے علمائ، مجتہدین، فقہاء اور محدثین کی نظریں بالکل ہٹادی ہیں۔ اگر کسی کا چہرہ خوشی سے کھل جائے تو عرب کہتے ہیں طلّق وجہہ اس کا چہرہ کھل گیا۔ میں عربی کھل کر بول سکتا ہوں۔ اتکلم العربیة بالطلاقة میں عربی کھل کر بولتا ہوں۔ نبی اکرمۖ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: انتم طلقاء تم آزاد ہو۔ یہ کوئی تذلیل نہیں عزت مراد تھی۔ لاثریب علیکم الیوم آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔
جب فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کی اولادوں نے اسلامی اقتدار مسند خلافت پر موروثی قبضہ کیا توپھر یزید ، مروان اور عبدالملک بن مروان وغیرہ نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے دادوں اور دادیوں کو نبیۖ کی طرف سے ”طلاق” دیدی گئی تھی۔
آج بھی مفتی فضل ہمدرد اور علامہ جواد نقوی اور کچھ دیگر شیعہ ، بریلوی اور دیوبندی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کو توہین کے طور پر ”طلقائ” یعنی ”طلاق شدہ ” کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ توہین نہیں عربی ادب وتہذیب کے اعلیٰ ترین الفاظ ہیں ۔
اذا قال لھم النبی رحمة للعالمین ۖ یا اہل مکہ الیوم انتم طلقاء فطلّقوا وجوھھم جب نبی رحمت للعالمینۖ نے ان سے فرمایاکہ اے مکہ والو آج تم آزاد ہو تو انکے چہرے کھل گئے۔
زمانہ جاہلیت میں عورت کے چھوڑنے کیلئے لفظ طلاق کا مذہبی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلئے فرمایا کہ ”میری آیات کو مذاق نہ بناؤ” ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا”۔
بنی امیہ کے دور میں یزیدی استبداد کے بعد ہی خلافت کی مسند کو بھی لونڈی بنادیا گیا اور عورت کی طلاق کا مسئلہ بھی جاہلیت کا دوبارہ پیش خیمہ بنادیا گیا۔ حضرت عمر نے بدبو دار ماحول سے حج کا عظیم اجتماع بچانے کیلئے حج وعمرہ کے اکٹھے احرام پر سختی کیساتھ پابندی لگائی ۔ حضرت عمران بن حصین نے اس کو بدعت سمجھ لیا اور کہا کہ اللہ نے قرآن میں اجازت نازل کی اور نبیۖ نے اس پر عمل کیا اور اس کے بعد کوئی ممانعت نہیں ہوئی اور جس نے اس پر پابندی لگائی تو اپنی رائے سے لگائی۔ پہلے ہم پر فرشتے نازل ہوتے تھے اور سنت پر عمل کی وجہ سے ہم سے راستوں میں مصافحہ کرتے تھے اور اب اس بدعت کے سبب برکات اٹھ گئے۔(صحیح مسلم)
جب بدمعاش اور ظالم گورنر ضحاک نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے سامنے کہا کہ ” حج وعمرہ کے احرام کو ایک ساتھ جاہل باندھتے ہیں”۔ تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ ” یہ بات مت کرو! میں نے خود رسول اللہ ۖ کو حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا ہے”۔ (صحیح مسلم)
جب حضرت عثمان نے اعلان کیا کہ حج وعمرے کا احرام کوئی بھی ایک ساتھ نہیں باندھے گا تو اس پر حضرت علی نے اعلانیہ حج وعمرے کا احرام باندھااور کہا کہ اب میں دیکھتا ہوں کہ کون اس سنت سے مجھے روک سکتا ہے”۔(صحیح بخاری)
حضرت عمر نے تین طلاق کا فیصلہ قرآن کے حکم پر کیا تھا اسلئے کہ بیوی راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے لیکن بنی امیہ کے ظالم طبقات نے بعد میں حقائق کا بالکل حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا تھا۔
سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں
غم زمانہ لگا ایسا تازیانہ ہمیں
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
جہاں سے ساتھ زمانے کو لے کے چلنا تھا
وہیں پہ چھوڑ گئی گردشِ زمانہ ہمیں
ملوک ہم نفساں دیکھ کر یہ دھیان آیا
کہ کاش پھر ملے دشمن وہی پرانا ہمیں
ہوائے صبح دل آزار اتنی تیز نہ چل
چراغ شام غریباں ہیں ہم بجھا نہ ہمیں
نگاہ پڑتی ہے پھر کیوں پرائی شمعوں پر
اگر عزیز ہے محسن چراغ خانہ ہمیں
قرآن کی آیت 227البقرہ میں پہلی بار طلاق کا ذکر ہے۔ ” اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا تو اللہ سننے والا جاننے والاہے”۔ عزم کو اللہ سنتا اور جانتا ہے تو یہ بہت بڑی دھمکی ہے کہ عزم تھا تو پھراظہار کیوں نہیں کیا؟۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے اور وہ کیوں؟۔ یہ سمجھنا ضروری ہے۔
اگر طلاق کا اظہار کی کیا توعورت کی عدت پھر تین ادوار یا تین ماہ ہے۔ (آیت:228البقرہ)
اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت پھر چار ماہ ہے ۔ (آیت:226البقرہ)اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ بڑھ گئی اور یہ دل کا گناہ ہے جس پر اللہ کی پکڑہے۔(آیت:225البقرہ)
اللہ کے نام پرصلح نہ کرنے کا فتویٰ دینے کی اللہ نے گنجائش نہیںچھوڑی ۔( آیت224البقرہ)
جاہلیت کے اندر جتنے غلط مذہبی رسوم تھے تو ان سب کا خاتمہ کردیا۔ جس کا تفصیل سے خاتمہ کیا۔
1: میاں بیوی کی صلح میں مذہب رکاوٹ بنتا تھا تو اللہ نے صلح میں رکاوٹ سے روک دیا۔
2:طلاق کا اظہار نہ کرنے پر لامحدود عدت کی جگہ چار مہینے مقرر کردی۔ اور اس میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا راستہ روک دیا۔
3: اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا خاتمہ اور ایک طلاق سے غیرمشروط رجوع کا رستہ روک دیا ہے۔
4: طلاق کا طریقہ بتایا کہ عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق ہوسکتی ہیں۔
5: جب رجوع کا پروگرام نہیں ہو تو عورت کیلئے دوسرے شوہر کی راہ میں رکاوٹ کا خاتمہ کردیا۔
6: عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع یا چھوڑنے کی وضاحت کردی۔
7: جب عورت ناراض ہوکرخلع لے چکی ہو اور بہت عرصہ گزر گیا ہو تو بھی رجوع کی گنجائش رکھی۔
ایک عربی سمجھنے والا یا قرآن کا اپنی زبان میں ترجمہ سمجھنے والا آیت 224البقرہ سے 232البقرہ تک دیکھ لے تو یہ ساری رہنمائی مل جائے گی ۔اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں خلاصہ بھی ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کے اختلافات کو کیا رنگ دے سکتے ہیں؟۔ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام کو اجنبیت کا شکار بنایا گیا ہے اور کوئی ایک آیت بھی عوام کیلئے مصیبت نہیں بلکہ نعمت ہے اور احادیث میں ان کے خلاف کوئی تضاد نہیں ۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اختلاف کا اصل پس منظر کیا ہے؟۔کس وجہ سے یہ پیدا ہوا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے جب ایک ساتھ تین طلاق پر فیصلہ دیا تو بہت بعد میں حضرت عمر کے اس فیصلے کو خلاف مصلحت قرار دیا گیا اسلئے کہ اگر میاں بیوی کا اکٹھی تین طلاق پر تنازع تھا تو قرآن کے مطابق رجوع تنازع کی وجہ سے نہیں ہوسکتا تھا لیکن عدت تک انتظار کی گنجائش تھی اور اس میں صلح کا راستہ بھی نکل سکتا تھا۔ اسلئے ایک طبقہ نے اس کو طلاقِ بدعت کا نام دیا اور دوسرے طبقے نے اس کو طلاق سنت کا نام دیا۔ طلاق بدعت کی دلیل نبیۖ کی اکٹھی تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار تھا۔ اور طلاق سنت کی دلیل لعان کے بعد تین طلاق پر نبیۖ کی طرف سے نکیر نہ کرنے کی دلیل تھی۔
مگر بعد والوں نے اس نزاع کو یہاں تک پہنچا دیا کہ قرآنی آیات کو دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ پھر ایک طبقہ نے کہا کہ اس طرح طلاق ہوتی نہیں اور دوسرے طبقے نے کہا کہ ہوجاتی ہے۔ اگر نہیں ہوتی تو پھر عورت کی عدت بھی شروع نہیں ہوگی اور اس کا دوسرے سے نکاح بھی درست نہیں ہوگا ؟۔ یہ بہت زیادہ خطرناک تھا اسلئے ٹھیک بات یہی ہے کہ طلاق ہوجاتی ہے ۔ البتہ اس کا یہ نتیجہ نکالنا بھی انتہائی غلط ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ۔جس کا نتیجہ پھر حلالہ کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اسلئے قرآن نے اس کی مکمل پیش بندی کررکھی ہے لیکن قرآن کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے معاشرہ بچ جاتا۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
بدل کے بھیس پھرآتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات ومنات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
قرآن نے حلالہ کی لعنت اور عورت کی حق تلفی کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔ شوہر اکٹھی 3 طلاق کے بعد باہمی اصلاح سے بھی رجوع نہیں کرسکتا تھا تو حلالہ کی لعنت سے عورت کی عزت تارتار کردی جاتی تھی لیکن رسول اللہ ۖ کے دل ودماغ میں بے انتہا غیرت تھی اسلئے حلالہ کے عمل کو لعنت، کرنے والے اور کرانے والے پر اللہ کی لعنت بھیج دی اور حلالہ کی لعنت میں ملوث دلے کو کرایہ کا سانڈ قرار دے دیا۔
رسول اللہ ۖ شریعت کے پابند تھے اسلئے اپنی طرف سے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا لیکن جاہلیت کا یہ عمل لعنت کے قابل قرار دیا اور عورت کیلئے اپنے شوہر اور بچوں تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ تھا تو مجبوراً کئی خواتین کو پہاڑی کی یہ مشکل ترین چوٹی سر کرنی پڑتی تھی اورکئی ساری زندگی بھر بیٹھی رہتی تھیں۔ دورِ جاہلیت کاعورت سے یہ سلوک ہندو معاشرے میں گائے کا پیشاب پینے سے بھی بہت بدسے بدترین تھا لیکن مذہب کے روپ میں جاری رکھا گیا تھا۔
رسول اللہ ۖ نے ظہار کے مسئلے پر سورہ مجادلہ نازل ہونے کے بعد اپنا مذہبی مؤقف تبدیل کیا تھا لیکن حلالہ کی لعنت کے حوالے سے نبی پاک ۖ کے قلب اقدس میں یہ تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس لعنت سے نجات عطا فرمائے۔ پھر اللہ نے اس حوالہ سے ایسی آیات نازل فرمائی کہ باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد حلالہ کے بغیر رجوع کا دروازہ کھول دیا۔ اتنی زیادہ آیات ہیں کہ آدمی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ امت مسلمہ کو دوبارہ شیطان ورغلانے میں کامیاب ہوسکتا تھا؟۔
لیکن اللہ نے خبر دی تھی کہ یہ قوم بھی قرآن چھوڑ دے گی۔ کیونکہ پہلے ایسا کوئی رسول و نبی نہیں گزرا جس کی تمنا میں شیطان نے اپنی تمنا ڈال کر معاملہ نہیں بگاڑا ہو۔ یہود کیلئے تورات میں یہی احکام تھے اورتمام انبیاء کی کتابوں میں بگاڑ کی اصلاح کے بعد شیطان کی ملاوٹ کا سامنا کرناپڑا تھا۔
مشرکین مکہ اور یہود نہ صرف اسلام کے دشمن تھے بلکہ ان کی پوری کوشش تھی کہ اللہ کے احکام دنیا میں مغلوب ہوجائیں اور آج کچھ علماء سو کی طرف سے اس کا بھرپورمظاہرہ دیکھنے کو مل رہاہے۔
اللہ نے فرمایا:” اور جنہوں نے ہماری آیات کو شکست دینے کی کوشش کی تو وہی جہنم والے ہیں۔ اور ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کسی رسول کو اور نہ کسی نبی کو مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی تمنا ملادی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان کا ڈالا ہوا ہوتاہے اور پھر اپنی آیات کو مستحکم کر دیتا ہے اور جاننے والا حکمت والاہے۔ تاکہ بنادے شیطان کے ڈالے ہوئے کو آزمائش ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہیں اور بیشک ظالم بہت دور کی بدبختی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور تاکہ جان لیں جن کو علم دیا گیا کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے تو اس پر ایمان لائیں اور اس کیلئے ان کا دل جھک جائے اور اللہ ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے”۔
(سورہ حج آیات51،52،53،54)
آج شیطان نے رسول اللہ ۖ کی تمنا میں اپنی تمنا داخل کرکے حلالہ کو شریعت کا لبادہ پہنادیا ہے۔ ایک طرف حلالہ کے مریض اور سخت دل لوگوں کیلئے یہ ایک آزمائش ہے جس میں کئی گرفتار ہیں تو دوسری طرف اللہ نے اہل علم اور اہل ایمان کو صراط مستقیم پر ڈالنے کا پروگرام بنادیا ہے۔ جس دن حلالہ کی لعنت کے مرتکب مریض اور سخت دلوں کو شکست ہوگی اور اہل علم اور اہل ایمان حق کیلئے جھک جائیں گے تو یہ انقلاب کا دن ہوگا۔ اللہ نے فرمایا:” اور منکر قرآن کی طرف سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک انقلاب آجائے یا ان پر بانجھ پن کا عذاب آجائے۔ اس دن بادشاہی اللہ کی ہوگی جو انکے درمیان فیصلہ کرے گا۔پس ایمان اورصالح والے نعمت والے باغات میں ہونگے اور جنہوں نے کفر کیا اور میری آیات کو جھٹلایا تو وہ لوگ ذلت والے عذاب میں ہونگے ”۔ ( الحج 55تا57)
اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے ضروری ہے کہ قرآن و احادیث صحیحہ کی درست تطبیق کی طرف علماء ومشائخ اور مذہبی طبقے کا رخ موڑ دیا جائے۔ ایک انسان کا بے گناہ قتل گویا تمام انسانیت کا قتل ہے اور ایک عورت کا حلالہ کے نام پر عزت کا لٹنا تمام عورتوں کی عزت لٹ جانے کے برابر ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق سے بغیر حلالہ کے رجوع کا مسئلہ جس اچھے انداز میں سمجھایا گیا تو اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔
حضرت ابن عباس نے متشابہ آیات کی تأویل کو سمجھنے کی کوشش کی ۔پھر فرمایا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ سورہ حج میں ہرسابقہ رسول اور نبی کی نیت میںشیطانی مداخلت مشکل مسئلہ تھا اسلئے کہ مثال نہیں تھی کہ شیطان نے رسول ۖ کی نیت میں مداخلت کی ہو۔ ابن عباس کی پرورش کفار مکہ کے آغوش میں ہوئی۔جہاں جھوٹ تھا کہ نبیۖ نے سورہ نجم میںلات و منات اور عزیٰ کی تعریف کی تھی اسلئے کہ کفار نے بے ساختہ آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو اپنی خفت مٹانے کیلئے کہا کہ ہم نے نبیۖ سے یہ سنا تو سجدہ کرلیا۔ اس جھوٹ سے حبشہ کے مہاجرین بھی واپس آگئے تھے جن میں سے کچھ پھر واپس گئے اور کچھ مکہ میں رُک گئے۔ ابن عباس نے سورہ حج کی آیت کو غلط فہمی کی بنیاد پر سورہ نجم سے ہی جوڑ دیا تھا جس سے مفسرین نے ٹھوکر کھائی ہے۔
سید مودودی نے تفہیم القرآن میں اس پر طویل بحث اور تفاسیر کا ذکر کیا مگر مسئلے کا حل نہ نکال سکے۔ حلالہ کی شیطانی مداخلت نے آیت کی تفسیر کردی ۔ قرآنی نور کے سامنے جہالت اور جاہلانہ شعلے کے ابا ”ابو جہل و ابولہب” کے بیٹے بھی سرنڈر ہوگئے۔ قرآن کا درست پیغام دنیا کے سامنے آئے تو نہ صرف فرقہ وارانہ تعصبات بلکہ عالم انسانیت کا پرچم بھی اسلامی خلافت کے آگے سرنگوں ہوگا۔ ہم اپنے نام سے کسی کو چندوں کی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دیتے ورنہ تو آج مذہبی بہروپیوں کی ہمارے ہاں بہت بھیڑ ہوتی۔وہ وقت دور نہیں کہ لوگ اب قرآن وسنت اور فطرت کی طرف آئیں۔ انشاء اللہ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv