پوسٹ تلاش کریں

پاکستان کی سر زمین سے اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز، طلاق کے مسائل کا حتمی حل اور دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کیلئے سنجیدہ اقدامات کا آئینہ

طلوع اسلام کے حوالہ سے اقبال نے کہا تھا:
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
اُفق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا کام تجھ سے دنیا کی امامت کا
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے

اُمت مسلمہ اس فضول بکواس میں لگی ہوئی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہوتی ہے یا تین طلاقیں ہوتی ہیں؟۔ قرآن وسنت اور صحابہ کے بعد اس مسئلے نے امت کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔

گمراہی کی اس بنیاد نے قرآن اور عربی دونوں سے علمائ، مجتہدین، فقہاء اور محدثین کی نظریں بالکل ہٹادی ہیں۔ اگر کسی کا چہرہ خوشی سے کھل جائے تو عرب کہتے ہیں طلّق وجہہ اس کا چہرہ کھل گیا۔ میں عربی کھل کر بول سکتا ہوں۔ اتکلم العربیة بالطلاقة میں عربی کھل کر بولتا ہوں۔ نبی اکرمۖ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: انتم طلقاء تم آزاد ہو۔ یہ کوئی تذلیل نہیں عزت مراد تھی۔ لاثریب علیکم الیوم آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے۔

جب فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کی اولادوں نے اسلامی اقتدار مسند خلافت پر موروثی قبضہ کیا توپھر یزید ، مروان اور عبدالملک بن مروان وغیرہ نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے دادوں اور دادیوں کو نبیۖ کی طرف سے ”طلاق” دیدی گئی تھی۔

آج بھی مفتی فضل ہمدرد اور علامہ جواد نقوی اور کچھ دیگر شیعہ ، بریلوی اور دیوبندی فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کو توہین کے طور پر ”طلقائ” یعنی ”طلاق شدہ ” کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ توہین نہیں عربی ادب وتہذیب کے اعلیٰ ترین الفاظ ہیں ۔

اذا قال لھم النبی رحمة للعالمین ۖ یا اہل مکہ الیوم انتم طلقاء فطلّقوا وجوھھم جب نبی رحمت للعالمینۖ نے ان سے فرمایاکہ اے مکہ والو آج تم آزاد ہو تو انکے چہرے کھل گئے۔

زمانہ جاہلیت میں عورت کے چھوڑنے کیلئے لفظ طلاق کا مذہبی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلئے فرمایا کہ ”میری آیات کو مذاق نہ بناؤ” ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائیگا”۔

بنی امیہ کے دور میں یزیدی استبداد کے بعد ہی خلافت کی مسند کو بھی لونڈی بنادیا گیا اور عورت کی طلاق کا مسئلہ بھی جاہلیت کا دوبارہ پیش خیمہ بنادیا گیا۔ حضرت عمر نے بدبو دار ماحول سے حج کا عظیم اجتماع بچانے کیلئے حج وعمرہ کے اکٹھے احرام پر سختی کیساتھ پابندی لگائی ۔ حضرت عمران بن حصین نے اس کو بدعت سمجھ لیا اور کہا کہ اللہ نے قرآن میں اجازت نازل کی اور نبیۖ نے اس پر عمل کیا اور اس کے بعد کوئی ممانعت نہیں ہوئی اور جس نے اس پر پابندی لگائی تو اپنی رائے سے لگائی۔ پہلے ہم پر فرشتے نازل ہوتے تھے اور سنت پر عمل کی وجہ سے ہم سے راستوں میں مصافحہ کرتے تھے اور اب اس بدعت کے سبب برکات اٹھ گئے۔(صحیح مسلم)

جب بدمعاش اور ظالم گورنر ضحاک نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے سامنے کہا کہ ” حج وعمرہ کے احرام کو ایک ساتھ جاہل باندھتے ہیں”۔ تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ ” یہ بات مت کرو! میں نے خود رسول اللہ ۖ کو حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھتے ہوئے دیکھا ہے”۔ (صحیح مسلم)

جب حضرت عثمان نے اعلان کیا کہ حج وعمرے کا احرام کوئی بھی ایک ساتھ نہیں باندھے گا تو اس پر حضرت علی نے اعلانیہ حج وعمرے کا احرام باندھااور کہا کہ اب میں دیکھتا ہوں کہ کون اس سنت سے مجھے روک سکتا ہے”۔(صحیح بخاری)

حضرت عمر نے تین طلاق کا فیصلہ قرآن کے حکم پر کیا تھا اسلئے کہ بیوی راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں ہے لیکن بنی امیہ کے ظالم طبقات نے بعد میں حقائق کا بالکل حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا تھا۔

سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں
غم زمانہ لگا ایسا تازیانہ ہمیں
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
جہاں سے ساتھ زمانے کو لے کے چلنا تھا
وہیں پہ چھوڑ گئی گردشِ زمانہ ہمیں
ملوک ہم نفساں دیکھ کر یہ دھیان آیا
کہ کاش پھر ملے دشمن وہی پرانا ہمیں
ہوائے صبح دل آزار اتنی تیز نہ چل
چراغ شام غریباں ہیں ہم بجھا نہ ہمیں
نگاہ پڑتی ہے پھر کیوں پرائی شمعوں پر
اگر عزیز ہے محسن چراغ خانہ ہمیں

قرآن کی آیت 227البقرہ میں پہلی بار طلاق کا ذکر ہے۔ ” اگر انہوں نے طلاق کا عزم کیا تو اللہ سننے والا جاننے والاہے”۔ عزم کو اللہ سنتا اور جانتا ہے تو یہ بہت بڑی دھمکی ہے کہ عزم تھا تو پھراظہار کیوں نہیں کیا؟۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے اور وہ کیوں؟۔ یہ سمجھنا ضروری ہے۔

اگر طلاق کا اظہار کی کیا توعورت کی عدت پھر تین ادوار یا تین ماہ ہے۔ (آیت:228البقرہ)

اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت پھر چار ماہ ہے ۔ (آیت:226البقرہ)اظہار نہیں کیا تو عورت کی عدت ایک ماہ بڑھ گئی اور یہ دل کا گناہ ہے جس پر اللہ کی پکڑہے۔(آیت:225البقرہ)

اللہ کے نام پرصلح نہ کرنے کا فتویٰ دینے کی اللہ نے گنجائش نہیںچھوڑی ۔( آیت224البقرہ)

جاہلیت کے اندر جتنے غلط مذہبی رسوم تھے تو ان سب کا خاتمہ کردیا۔ جس کا تفصیل سے خاتمہ کیا۔

1: میاں بیوی کی صلح میں مذہب رکاوٹ بنتا تھا تو اللہ نے صلح میں رکاوٹ سے روک دیا۔

2:طلاق کا اظہار نہ کرنے پر لامحدود عدت کی جگہ چار مہینے مقرر کردی۔ اور اس میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا راستہ روک دیا۔

3: اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا خاتمہ اور ایک طلاق سے غیرمشروط رجوع کا رستہ روک دیا ہے۔

4: طلاق کا طریقہ بتایا کہ عدت کے تین ادوار میں تین مرتبہ طلاق ہوسکتی ہیں۔

5: جب رجوع کا پروگرام نہیں ہو تو عورت کیلئے دوسرے شوہر کی راہ میں رکاوٹ کا خاتمہ کردیا۔

6: عدت کی تکمیل کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع یا چھوڑنے کی وضاحت کردی۔

7: جب عورت ناراض ہوکرخلع لے چکی ہو اور بہت عرصہ گزر گیا ہو تو بھی رجوع کی گنجائش رکھی۔

ایک عربی سمجھنے والا یا قرآن کا اپنی زبان میں ترجمہ سمجھنے والا آیت 224البقرہ سے 232البقرہ تک دیکھ لے تو یہ ساری رہنمائی مل جائے گی ۔اور سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں خلاصہ بھی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ علماء کے اختلافات کو کیا رنگ دے سکتے ہیں؟۔ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام کو اجنبیت کا شکار بنایا گیا ہے اور کوئی ایک آیت بھی عوام کیلئے مصیبت نہیں بلکہ نعمت ہے اور احادیث میں ان کے خلاف کوئی تضاد نہیں ۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اختلاف کا اصل پس منظر کیا ہے؟۔کس وجہ سے یہ پیدا ہوا؟۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر نے جب ایک ساتھ تین طلاق پر فیصلہ دیا تو بہت بعد میں حضرت عمر کے اس فیصلے کو خلاف مصلحت قرار دیا گیا اسلئے کہ اگر میاں بیوی کا اکٹھی تین طلاق پر تنازع تھا تو قرآن کے مطابق رجوع تنازع کی وجہ سے نہیں ہوسکتا تھا لیکن عدت تک انتظار کی گنجائش تھی اور اس میں صلح کا راستہ بھی نکل سکتا تھا۔ اسلئے ایک طبقہ نے اس کو طلاقِ بدعت کا نام دیا اور دوسرے طبقے نے اس کو طلاق سنت کا نام دیا۔ طلاق بدعت کی دلیل نبیۖ کی اکٹھی تین طلاق پر ناراضگی کا اظہار تھا۔ اور طلاق سنت کی دلیل لعان کے بعد تین طلاق پر نبیۖ کی طرف سے نکیر نہ کرنے کی دلیل تھی۔

مگر بعد والوں نے اس نزاع کو یہاں تک پہنچا دیا کہ قرآنی آیات کو دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ پھر ایک طبقہ نے کہا کہ اس طرح طلاق ہوتی نہیں اور دوسرے طبقے نے کہا کہ ہوجاتی ہے۔ اگر نہیں ہوتی تو پھر عورت کی عدت بھی شروع نہیں ہوگی اور اس کا دوسرے سے نکاح بھی درست نہیں ہوگا ؟۔ یہ بہت زیادہ خطرناک تھا اسلئے ٹھیک بات یہی ہے کہ طلاق ہوجاتی ہے ۔ البتہ اس کا یہ نتیجہ نکالنا بھی انتہائی غلط ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ۔جس کا نتیجہ پھر حلالہ کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اسلئے قرآن نے اس کی مکمل پیش بندی کررکھی ہے لیکن قرآن کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے معاشرہ بچ جاتا۔

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
بدل کے بھیس پھرآتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات ومنات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

قرآن نے حلالہ کی لعنت اور عورت کی حق تلفی کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔ شوہر اکٹھی 3 طلاق کے بعد باہمی اصلاح سے بھی رجوع نہیں کرسکتا تھا تو حلالہ کی لعنت سے عورت کی عزت تارتار کردی جاتی تھی لیکن رسول اللہ ۖ کے دل ودماغ میں بے انتہا غیرت تھی اسلئے حلالہ کے عمل کو لعنت، کرنے والے اور کرانے والے پر اللہ کی لعنت بھیج دی اور حلالہ کی لعنت میں ملوث دلے کو کرایہ کا سانڈ قرار دے دیا۔

رسول اللہ ۖ شریعت کے پابند تھے اسلئے اپنی طرف سے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا لیکن جاہلیت کا یہ عمل لعنت کے قابل قرار دیا اور عورت کیلئے اپنے شوہر اور بچوں تک پہنچنے کا یہی ایک راستہ تھا تو مجبوراً کئی خواتین کو پہاڑی کی یہ مشکل ترین چوٹی سر کرنی پڑتی تھی اورکئی ساری زندگی بھر بیٹھی رہتی تھیں۔ دورِ جاہلیت کاعورت سے یہ سلوک ہندو معاشرے میں گائے کا پیشاب پینے سے بھی بہت بدسے بدترین تھا لیکن مذہب کے روپ میں جاری رکھا گیا تھا۔

رسول اللہ ۖ نے ظہار کے مسئلے پر سورہ مجادلہ نازل ہونے کے بعد اپنا مذہبی مؤقف تبدیل کیا تھا لیکن حلالہ کی لعنت کے حوالے سے نبی پاک ۖ کے قلب اقدس میں یہ تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس لعنت سے نجات عطا فرمائے۔ پھر اللہ نے اس حوالہ سے ایسی آیات نازل فرمائی کہ باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے عدت کے اندر، عدت کی تکمیل پر اور عدت کی تکمیل کے عرصہ بعد حلالہ کے بغیر رجوع کا دروازہ کھول دیا۔ اتنی زیادہ آیات ہیں کہ آدمی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ امت مسلمہ کو دوبارہ شیطان ورغلانے میں کامیاب ہوسکتا تھا؟۔

لیکن اللہ نے خبر دی تھی کہ یہ قوم بھی قرآن چھوڑ دے گی۔ کیونکہ پہلے ایسا کوئی رسول و نبی نہیں گزرا جس کی تمنا میں شیطان نے اپنی تمنا ڈال کر معاملہ نہیں بگاڑا ہو۔ یہود کیلئے تورات میں یہی احکام تھے اورتمام انبیاء کی کتابوں میں بگاڑ کی اصلاح کے بعد شیطان کی ملاوٹ کا سامنا کرناپڑا تھا۔

مشرکین مکہ اور یہود نہ صرف اسلام کے دشمن تھے بلکہ ان کی پوری کوشش تھی کہ اللہ کے احکام دنیا میں مغلوب ہوجائیں اور آج کچھ علماء سو کی طرف سے اس کا بھرپورمظاہرہ دیکھنے کو مل رہاہے۔

اللہ نے فرمایا:” اور جنہوں نے ہماری آیات کو شکست دینے کی کوشش کی تو وہی جہنم والے ہیں۔ اور ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجا کسی رسول کو اور نہ کسی نبی کو مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں اپنی تمنا ملادی۔ پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان کا ڈالا ہوا ہوتاہے اور پھر اپنی آیات کو مستحکم کر دیتا ہے اور جاننے والا حکمت والاہے۔ تاکہ بنادے شیطان کے ڈالے ہوئے کو آزمائش ان لوگوں کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے اور ان کے دل سخت ہیں اور بیشک ظالم بہت دور کی بدبختی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور تاکہ جان لیں جن کو علم دیا گیا کہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے تو اس پر ایمان لائیں اور اس کیلئے ان کا دل جھک جائے اور اللہ ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے”۔

(سورہ حج آیات51،52،53،54)

آج شیطان نے رسول اللہ ۖ کی تمنا میں اپنی تمنا داخل کرکے حلالہ کو شریعت کا لبادہ پہنادیا ہے۔ ایک طرف حلالہ کے مریض اور سخت دل لوگوں کیلئے یہ ایک آزمائش ہے جس میں کئی گرفتار ہیں تو دوسری طرف اللہ نے اہل علم اور اہل ایمان کو صراط مستقیم پر ڈالنے کا پروگرام بنادیا ہے۔ جس دن حلالہ کی لعنت کے مرتکب مریض اور سخت دلوں کو شکست ہوگی اور اہل علم اور اہل ایمان حق کیلئے جھک جائیں گے تو یہ انقلاب کا دن ہوگا۔ اللہ نے فرمایا:” اور منکر قرآن کی طرف سے ہمیشہ شک میں رہیں گے یہاں تک کہ ان پر اچانک انقلاب آجائے یا ان پر بانجھ پن کا عذاب آجائے۔ اس دن بادشاہی اللہ کی ہوگی جو انکے درمیان فیصلہ کرے گا۔پس ایمان اورصالح والے نعمت والے باغات میں ہونگے اور جنہوں نے کفر کیا اور میری آیات کو جھٹلایا تو وہ لوگ ذلت والے عذاب میں ہونگے ”۔ ( الحج 55تا57)

اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے ضروری ہے کہ قرآن و احادیث صحیحہ کی درست تطبیق کی طرف علماء ومشائخ اور مذہبی طبقے کا رخ موڑ دیا جائے۔ ایک انسان کا بے گناہ قتل گویا تمام انسانیت کا قتل ہے اور ایک عورت کا حلالہ کے نام پر عزت کا لٹنا تمام عورتوں کی عزت لٹ جانے کے برابر ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق سے بغیر حلالہ کے رجوع کا مسئلہ جس اچھے انداز میں سمجھایا گیا تو اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔

حضرت ابن عباس نے متشابہ آیات کی تأویل کو سمجھنے کی کوشش کی ۔پھر فرمایا کہ ”قرآن کی تفسیر زمانہ کرے گا”۔ سورہ حج میں ہرسابقہ رسول اور نبی کی نیت میںشیطانی مداخلت مشکل مسئلہ تھا اسلئے کہ مثال نہیں تھی کہ شیطان نے رسول ۖ کی نیت میں مداخلت کی ہو۔ ابن عباس کی پرورش کفار مکہ کے آغوش میں ہوئی۔جہاں جھوٹ تھا کہ نبیۖ نے سورہ نجم میںلات و منات اور عزیٰ کی تعریف کی تھی اسلئے کہ کفار نے بے ساختہ آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو اپنی خفت مٹانے کیلئے کہا کہ ہم نے نبیۖ سے یہ سنا تو سجدہ کرلیا۔ اس جھوٹ سے حبشہ کے مہاجرین بھی واپس آگئے تھے جن میں سے کچھ پھر واپس گئے اور کچھ مکہ میں رُک گئے۔ ابن عباس نے سورہ حج کی آیت کو غلط فہمی کی بنیاد پر سورہ نجم سے ہی جوڑ دیا تھا جس سے مفسرین نے ٹھوکر کھائی ہے۔

سید مودودی نے تفہیم القرآن میں اس پر طویل بحث اور تفاسیر کا ذکر کیا مگر مسئلے کا حل نہ نکال سکے۔ حلالہ کی شیطانی مداخلت نے آیت کی تفسیر کردی ۔ قرآنی نور کے سامنے جہالت اور جاہلانہ شعلے کے ابا ”ابو جہل و ابولہب” کے بیٹے بھی سرنڈر ہوگئے۔ قرآن کا درست پیغام دنیا کے سامنے آئے تو نہ صرف فرقہ وارانہ تعصبات بلکہ عالم انسانیت کا پرچم بھی اسلامی خلافت کے آگے سرنگوں ہوگا۔ ہم اپنے نام سے کسی کو چندوں کی دکانیں کھولنے کی اجازت نہیں دیتے ورنہ تو آج مذہبی بہروپیوں کی ہمارے ہاں بہت بھیڑ ہوتی۔وہ وقت دور نہیں کہ لوگ اب قرآن وسنت اور فطرت کی طرف آئیں۔ انشاء اللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورتوں کیلئے قرآن میں اللہ ایسا فتویٰ دیتا ہے جس میں خطا کی کوئی گنجائش نہیں ہے

خلع وطلاق اور عورت کے مالی حقوق کامسئلہ

عورت کو خلع کا حق :

اللہ تعالی نے فرمایا : ” اے ایمان والو!تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم زبردستی سے عورتوں کے مالک بن بیٹھو۔ اور نہ ان کو اسلئے روکو کہ ان سے اپنا دیا ہوا بعض مال واپس لے لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کریں اور ان سے اچھا سلوک کرو ،اگر تم انہیں برا سمجھ رہے ہو تو ہوسکتا ہے کہ کسی چیز کو تم برا سمجھو اور اس میں اللہ بہت سارا خیر رکھ دے” ۔ (النساء 19)

اس آیت میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ اس کو مالی حقوق کا قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے۔ بنوامیہ ، بنوعباس اور خلافت عثمانیہ ، مغلیہ سلطنت ، خاندان غلاماں یا ممالیک نے حکومتوں کو بھی اپنی ذاتی وراثت اور لونڈی بنارکھا تھا تو عورت کو قرآن کے مطابق پھر کیا حقوق دینے تھے؟ اور زیادہ تر علماء سوء اور فقہاء رنگ وبو ان کاچربہ تھے۔

عورت کو اگر نہ صرف خلع کا حق قرآن کے عین مطابق مل جائے بلکہ شوہر کا دیا ہوا وہ مال بھی اس کی ملکیت رہے جس کو وہ اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے تو ساری دنیا کے آدھے نہیں پورے مسائل حل ہوں گے۔ دکان، مکان اور جائیداد عورت کودئیے ہوں تو ان سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا جو قرآن کی اس آیت سے بھی واضح ہے اور نبیۖ نے بھی یہ وضاحت فرمائی ہے کہ دیا ہوا باغ واپس کروادیا۔ اگر مفتی تقی عثمانی کی فتویٰ عثمانی میں نابالغ بچیوں پر نکاح کے مظالم دیکھ لئے تو فلسطین بھول جاؤ گے۔

طلاق میں عورت کے حقوق

اللہ نے فرمایاکہ ” اگر تم ایک عورت کے بدلے دوسری سے نکاح چاہتے ہو تو اور ان میں کسی ایک کو بہت سارا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتے۔ کیاتم وہ مال بہتان کے ذریعے اور کھلے گناہ سے واپس لوگے”۔ (النساء آیت20)

اس میں طلاق کے اندر تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد میں سے کچھ بھی واپس نہ لینے کا حکم ہے۔ بہتان کو ذریعہ بنانے سے روکا گیا ہے۔ خلع میں عورت جدائی چاہتی ہے اسلئے حقوق کم ہیں۔ طلاق مرد ہی دیتا ہے اسلئے پورے حقوق دئیے گئے ہیں۔

یہ بات اچھی ذہن نشیں بلکہ دل نشیں کرلیں کہ

عورت کا حق مہر اللہ نے مرد کی استطاعت کے مطابق رکھا ہے۔ البتہ مرد اپنی استطاعت کو چھپاتا ہے تو عورت کے اولیاء کو اپنے حق کی پاسداری کیلئے وکالت کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ یہ سب فضول اور بے بنیاد بکواس ہے کہ شرعی حق کی مقدار کیا ہے؟۔

اللہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہاتھ لگائے بغیر عورت کو طلاق دیدی تو بھی مقرر کردہ حق مہر کا آدھا اور متعین نہیں کیا ہو تو امیر اور غریب پر استطاعت کے مطابق متقی لوگوں پر فرض کیا گیا ہے۔

پھر سہولت دیتے ہوئے اللہ نے آدھے سے کمی و بیشی کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ عورت بھی کچھ چھوڑ سکتی ہے اور مرد بھی زیادہ سے زیادہ دے سکتا ہے۔ البتہ چونکہ مسئلہ خلع کا نہیں طلاق کا ہے ۔مردچھوڑنا چاہتا ہے اسلئے اللہ نے فرمایا کہ ”جس کے ہاتھ میں نکاح کا عقدہ ہے تو اس کو چاہیے کہ زیادہ دیدے اور ایک دوسرے پرآپس میں فضل کومت بھولو”۔

احمق فقہاء نے اس آیت کی بنیاد پرعورت سے خلع کاحق چھین لیا ہے کہ عقد نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے حالانکہ سورہ النسائ21 میں نسبت عورت کی طرف ہے وقد اخذن منکم میثاقًا غلیظًا ”اور انہوں نے تم سے پکا عہدوپیمان لیا”۔

سورہ بقرہ آیت229البقرہ میں خلع مراد نہیں ہوسکتا ہے ۔ صدر وفاق المدارس شیخ الاسلام مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں اس کو بہت مشکل اور ناقابل فہم قرار دیا ہے مگر سیدمودوی اور جاوید غامدی جیسے جاہلوں نے سلیس انداز میں اس کا ترجمہ خلع کرکے نہ صرف جاہلیت کا بہت بڑا ثبوت دیا بلکہ قرآن کے ذریعے امت کو گمراہ کیا۔

ہم نے بفضل تعالیٰ اصول فقہ کی تعلیم حضرت مولانا بدیع الزمان جیسے اساتذہ سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں نہ صرف رسمی طور پر حاصل کی ہے بلکہ نصاب کی غلطیوں کو آشکارا کرکے تائیدوحمایت اور زبردست حوصلہ افزائی کی ترغیب وتربیت اچھے انداز میں حاصل کی ہے۔ اگر علماء کرام نے حقائق کو قبول نہیں کیا تو جدید دانشور اسلام کی تفہیم پر ڈاکہ ڈالیںگے۔ جیسے مولوی جعلی پیر بن رہے ہیں ویسے دانشور جعلی علماء بن کر اسلام کا تختہ الٹ رہے ہیں۔
٭

ایک مجلس کی 3 طلاق 1یا 3؟، فیصلہ کن حل!

ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہے یا پھر تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟۔

جو اہل حدیث وغیرہ کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی3 طلاقیں ایک طلاق رجعی ہے تو ان کا مقصد درست لیکن علم کا لیول غلط ہے۔ قرآن وسنت میں طلاق کامسئلہ واضح ہے۔ ایک طلاق کے بعد بھی باہمی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ تین طلاق کے بعد بھی صلح کی شرط پر رجوع ہوسکتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ ایک طلاق رجعی ہے اور صلح کے بغیر رجوع ہے تو یہ قرآن وسنت اور فطرت کے بالکل منافی ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اکٹھی تین طلاق کے بعدصلح کے باوجود بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے تو یہ بھی قرآن کے خلاف ہے اور حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔

ایک طلاق کے بعد عورت عدت سے نکلے اور دوسرے شوہر سے نکاح کرے ،تب بھی پہلے شوہر کے پاس دو طلاقوں کی ملکیت باقی رہتی ہے۔ جب دوسرا شوہر طلاق دے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلا شوہر دوبارہ نکاح جدید سے تین طلاق کا مالک ہوگا یا پھر پہلے سے موجود انہی دو طلاق کا مالک ہوگا؟۔

امام ابوحنیفہ اور باقی ائمہ میں اس پراختلاف اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد میں اس پر اختلاف ہے۔ اکابر و اصاغر صحابہ نے یہ اختلاف کیا کہ پہلا شوہر نکاح جدید سے3 طلاق کا مالک ہوگا یا2 طلاق کا؟ لیکن یہ اختلاف نہیںاسلام کی اجنبیت کا آئینہ تھا۔

قرآن وسنت اور فطرت کامسئلہ ہوتا تو اختلاف کیسے ہوسکتا تھا؟۔ قرآن میں طلاق شدہ عورتوں کو ایک عدت میں3 ادواریا 3 ماہ کا پابند بنایا گیا مگر طلاقِ رجعی سے عورت کئی عدتیں گزارنے کی پابند ہوجاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے بیوی کو ایک طلاق دی اور پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلیا، پھر طلاق دی اور عدت کے آخر میں رجوع کرلیا تو دو عدتیں گزارنے کے بعد شوہر تیسری طلاق دے گا تو عورت تیسری عدت گزارنے پر مجبور ہوگی۔ اور اگر اس سے زیادہ تکلیف دینے کا پروگرام ہو تو طلاق رجعی سے وہ مزید بہت کھیل سکتا ہے اسلئے کہ رجوع کے بعد پھر عدت میں طلاق دینے کے بجائے مدتوں تک عورت کو رلا سکتا ہے۔ اگر عورت کو 10 افراد نے ایک ایک کرکے ایک ایک طلاق دی تو عورت پر 10شوہر کے 20 طلاق کی ملکیت کے بوجھ تلے بے چاری ٹیٹیں ہی مارتی رہے گی۔

ایک طلاق کے بعد عورت راضی نہیں تو بھی اس کے شوہر کو رجوع کا حق نہیں۔ بلکہ اگر طلاق کا اظہار نہیں کیا بلکہ ایلاء یا ناراضگی اختیار کی ہے تو بھی اس کے بعد چار ماہ کی عدت میں باہمی رضامندی سے ہی رجوع کرسکتا ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کے ایک مہینے بعد رجوع کیا تب بھی اللہ نے حکم دیا کہ رجوع نہیںہوسکتا ہے ، پہلے ان کو طلاق کا اختیار دو اور پھر وہ راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے۔ دو بار طلاق کے بعد بھی معروف طریقے سے رجوع کا یہ مقصد ہے کہ باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتاہے۔

اکٹھی تین طلاق کے بعد بھی اللہ نے رجوع کا تعلق طلاق کے عدد کیساتھ نہیں رکھا بلکہ

اللہ نے فرمایا کہ ” عدت کے تین ادوار ہیں اور عدت کے تین مراحل میں تین مرتبہ کی طلاق ہے” جو آیت228،229البقرہ اور سورہ طلاق کی پہلی آیت سے واضح ہے اوررجوع کی گنجائش اصلاح اور معروف طریقے سے ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ ”تم ان کو انکے گھروں مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ،ہوسکتا ہے کہ اللہ صلح کی کوئی نئی صورت پیدا کردے ”۔

حلالہ کی بھوک کا مارا ہوا مفتی اکٹھی تین طلاق سے ساری آیات پر حکم تنسیخ پھیر دیتا ہے اور لعنت کے عمل سے پورا مسلم معاشرہ تباہ کردیتا ہے۔

جب قرآن نے رہنمائی فرمائی ہے کہ عورتوں کے حساس معاملات میں اللہ تعالیٰ بذات خود فتویٰ دیتا ہے جس کی کتاب سے عوام پر تلاوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جہاں شک وشبہ اور غلطی کا احتمال نہیں ہوتا ہے۔ جب معاملہ اس بات پر آجائے کہ فلاں کے نزدیک طلاق ہے اور فلاں کے نزدیک نہیں ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ ہے اور فلاں کے نزدیک حلالہ نہیں ہے۔ فلاں کے نزدیک پہلی طلاق واقع ہوگی اور فلاں کے نزدیک تیسری تو پھر یہ طلاق کی واضح آیات اور اللہ کے احکام کے ساتھ کھلا مذاق ہے اور یہ اتنا غیراہم مسئلہ نہیں تھا کہ اللہ آنے والی مخلوق کے ذمہ چھوڑتا اور نبیۖ سے کہتا کہ طلاق کا فتویٰ آپ نے نہیں اللہ نے دینا ہے۔ اگر اصول فقہ کو سمجھا جائے تو بھی معاملہ حل ہوگا۔
٭

قرآن ، سنت اور صحابہ کرامایک پیج پر ہی تھے

صحاح ستہ احادیث کی کتابیں 200سال بعد مرتب کی گئی ہیںجبکہ قرآن صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی تین نسلوں میں صبح شام، دن رات اور سفر وحضر میں تلاوت کیا جارہاتھا۔ صحیح بخاری نہیں صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ۖ ، ابوبکر کے دور اورعمر کے ابتدائی سالوں تک اکٹھی تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا، پھر حضرت عمر نے تین طلاق جاری کردئیے۔

حضرت عمر کے مخالفین نے اس فیصلے کو عمر کے خلاف چارٹ شیٹ میں شامل کردیا کہ اس کی وجہ سے قرآن وسنت اور اہل بیت کا مذہب ملیامیٹ کردیا گیا اور طلاقِ بدعت سے امت میں حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھول دیا۔ اہل سنت نے حضرت عمر کے دفاع میں کہا کہ اکٹھی تین طلاق منعقد ہوجاتی ہیں۔ حنفی اور مالکی مسالک نے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، ناجائز اور گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقع ہوجاتی ہیں۔ شافعی مسلک نے کہا کہ یہ سنت، جائز اور مباح ہیں۔ امام احمد بن حنبل والے متذبذب تھے اسلئے ایک قول سے اکٹھی تین طلاق کو بدعت، گناہ اور ناجائز قرار دیا اور دوسرے قول سے جائز، سنت اور مباح قرار دے دیا۔ لیک ٹینکی سے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، داؤد ظاہری ، اہل حدیث ، حنفی علماء علامہ عبدالحی لکھنوی،علامہ تمنا عمادی اور ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے لوگ نکل کر آگئے اور پھدک پھدک کر کچھ نہ کچھ چھلانگیں لگانی شروع کردیں۔

اگر ایک طرف قرآن ، احادیث، صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین و محدثین کا اجماع ہو اور دوسری طرف حضرت ابن عباس کی اس ایک روایت کا سہارا ہو تو اہل حدیث کے حافظ زبیر علی زئی ، انجینئر محمد علی مرزا اور سعودی حکومت بھی ایک روایت کے سہارے پر چلنے کے بجائے اپنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں۔

یہ حدیث نہیں ابن عباس کی طرف منسوب ایک تاریخی فیصلے کی بات ہے۔ اہل حدیث رفع الیدین کی روایات پر جتنا زور دیتے ہیں ،اتنا تین طلاق کی احادیث سے دوڑ لگاتے ہیں۔ مسلم میںابن عباس سے متعہ کے جاری رہنے کی بھی حضرت عمر تک اسی طرح کی روایت ہے مگر وہ اہلحدیث نہیں مانتے۔

سوال یہ ہے کہ حضرت عمر نے ٹھیک یا غلط فیصلہ کیا تھا؟۔ حضرت عمر سے فتویٰ نہیں پوچھا بلکہ عدالتی فیصلہ لیا گیا۔ ایک شخص نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اور تنازعہ عمرفاروق اعظم کی عدالت میں پہنچ گیا تو پتہ یہ چلا کہ بیوی رجوع پر آمادہ نہیں ہے اور شوہر چھوڑنا نہیں چاہتا ہے۔ اگر حضرت عمر یہ فیصلہ شوہر کے حق میں دیتے تو قرآن وسنت اور انسانیت سبھی غرق ہوجاتے ۔نبی ۖ نے اس کا راستہ روکنے کیلئے فرمایا کہ مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے تو تین نہیں ایک طلاق پر بھی تنازعہ کے بعد یہی فیصلہ درست تھا۔ پاکستان کے شیعہ ایران اور دنیا بھر کے شیعہ کو توبہ کروائیں تو بڑااچھا ہوگا۔ لیکن اگر عورت بھی رجوع کیلئے راضی ہو اور مرد بھی رجوع کرنا چاہتا ہو اور پھر بھی سود خور مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن اپنی بے گناہ خواتین کو قرآن وسنت کے خلاف مجبور کریں کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تو ہمارے ریاستی ادارے جو مجرم کو سزائیں دیتے ہیں وہ ان کو پکڑیں اور قرار واقعی سزا دیں۔

حضرت علی کے پاس بھی ایک کیس آیا تھا جب شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو علی نے رجوع نہ کرنے کاہی فیصلہ دیا تھا۔ جاہلوں نے اس کو نام دیا کہ حضرت علی کے نزدیک حرام کا لفظ تین یا تیسری طلاق ہے اور حضرت عمر کے نزدیک حرام کا لفظ ایک طلاق ہے۔ حالانکہ حضرت عمر نے دیکھا کہ عورت رجوع کیلئے راضی ہوگئی تو رجوع کا فیصلہ دے دیا۔ بے غیرتوں نے حرام کے لفظ پر مسالک کے انبار لگادئیے لیکن قرآن کی سورہ تحریم کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

اسلئے رسول اللہ ۖ قیامت کے دن اُمت کی شکایت کریں گے۔ وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھٰذاالقراٰن مھجورا ”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب ! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔(الفرقان) افلا یتدبرون القراٰن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافًا کثیرًا(النسائ:82

” کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے۔اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف (تضادات) وہ پاتے”۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علماء حق کی بڑی تعداد نے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کا علمی مسئلہ قبول کیا۔ الحمدللہ

تمام فقہائے کرام امام ابو حنیفہ ، امام جعفر صادق اور امام مالک، امام شافعی،امام احمد بن حنبلاس پر متفق تھے کہ فقہ کا پہلا اصول قرآن ہے ۔ قرآن کی آیت سے متصادم کوئی حدیث قابل قبول نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ ودیگر اہل سنت کے ائمہ اپنے اصول قرآن اور احادیث کو سمجھتے ہیں اور اہل تشیع قرآن و اہل بیت ہی کو شریعت کا بنیادی منبع سمجھتے ہیں۔

اگر اہل سنت کی کوئی غلطی ثابت ہوگئی تو قیامت نہیں آئے گی اسلئے کہ دوسری صدی ہجری میں بھی چار فقہی امام کے علاوہ بہت سارے ائمہ تھے جن کا ایک دوسرے سے بنیادی اختلاف تھا مگر شیعہ کے ائمہ اہل بیت حضرت علی سے مہدی غائب اور ان کے غیبت صغریٰ میں خلیفہ اول عثمان عمری اور خلیفہ دوم محمد بن عثمان عمری تک ڈھائی سے تین سو سال کا ایک طویل زمانہ ہے ۔اگر وہ اس میں بھی قرآن کی بنیادی تعلیمات کو اپنی شیعہ قوم کو نہیں سمجھا سکے توپھر یہ بہت بڑی قیامت برپا کردے گی۔ اہل سنت کی احادیث صحاح ستہ تیسری صدی ہجری کی ہیں اور اہل تشیع کی صحاح اربعہ چوتھی صدی ہجری کی ہیں۔

سیاسی اعتبار سے امیر معاویہ نے امام حسن اور امام حسین کے تعاون سے 20سالہ اقتدار کیاتھااور فاطمی خلفاء کے مقابلے میں اثناعشریہ کے ائمہ نے عباسی خلفاء کا ساتھ دیا اور مامون الرشید نے امام رضا کو اپنا جانشین اور داماد بھی بنایا ،ایک مزارہے۔

اصول فقہ کا سبق: حتی تنکح زوجًا غیرہ ” یہاں تک کہ عورت کسی اور سے نکاح کرے”۔

اس میں عورت کو آزادی کا پروانہ دیا گیا ہے۔ اپنی مرضی سے جس کیساتھ اور جہاں مفاد ہو تو نکاح کرسکتی ہے۔ ہم اس پر ابھی بڑے لیول کی بات کو نظرانداز کردیتے ہیں اسلئے کہ موٹی موٹی باتوں کا بھی احاطہ نہیں ہوسکے گا۔ کیا معاشرے میں طلاق کے بعد عورت کو آزادی دینے کا حق مل گیا؟۔ جب لیڈی ڈیانا کو طلاق دی گئی تو پیریس فرانس میں بھی اس کی حادثاتی موت کو طلاق دینے والے شہزادہ چارلس پر کیس کیا گیا کہ آزادی سے نکاح کو روکنے کیلئے غیرت سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

آج بھی طلاق کے باوجود بہت ساری خواتین کو آزادی سے نکاح کرنے کا حق نہیں دیا جاتا ہے اور صحابہ کرام کے دور میں حضرت سعد بن عبادہ کے حوالہ سے بھی بخاری میں ایک حدیث ہے۔

ایک طرف قرآن آزادی کا پروانہ عورت کو دیتا ہے تو دوسری طرف اس کی روح پر عمل نہیں ہوتاہے اور اس کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کو متنازع بنادیا گیا ہے۔ فقہ حنفی نے شوہر سے آزادی کو فراموش کرتے ہوئے مقابلہ میں یہ حدیث مسترد کردی کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے اور باطل ہے”۔ اسی طرح کی تقریباً200احادیث ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح نہیں ہے اسلئے جمہور ائمہ اہل سنت ، محدثین اور فقہاء حضرت طلاق شدہ عورت کو نکاح کیلئے اپنے ولی کی اجازت کا پابند سمجھتے ہیںلیکن حنفی حدیث کو قرآن کی اس آیت سے متصاد م اور ناقابل عمل سمجھتے ہیں۔

جب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں پڑھتا تھا تو ہمارے استاذ مولانا بدیع الزمان تھے جو مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا عطاء الرحمن کے بھی استاذ تھے۔ میں نے عرض کیا کہ ”حنفی مسلک کی اصل یہ ہے کہ جب قرآن اور حدیث میں تطبیق ہوسکے تو تطبیق کی جائے بلکہ بڑی ضعیف حدیث کو بھی ممکن ہو تو اس کو رد کرنے کے بجائے تطبیق کردی جائے ۔ اس آیت میں طلاق شدہ کی بات ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔ اسلئے کہ کنواری اور طلاق شدہ کے شرعی احکام بھی مختلف ہیں”۔ استاذ کو میری بات میں بہت وزن لگا اور حوصلہ افزائی فرمائی کہ اس مسئلے کو اپنی تعلیم مکمل کرکے حل کرسکتے ہیں۔

طلاق شدہ کے مقابلے میں قرآن کے اندر بیوہ کو واضح الفاظ میں خود مختار بنادیا گیا ہے۔ جس سے جمہور ائمہ فقہ اور محدثین کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ اور بیوہ پر حدیث میں کوئی پابندی نہیں ہے اور ولی کا تعلق کنواری لڑکی سے ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد اس کا سرپرست اس کا شوہر بنتا ہے اور طلاق شدہ اور بیوہ خود مختار بن جاتی ہے۔

اس بحث سے قارئین اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ حنفی مسلک کا عورت کی آزادی و خود مختاری میں بڑا کردار ہے اور عدالتوں میں جتنی کورٹ میرج کا سلسلہ ہے یہ حنفی مسلک کا فیض ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے۔ لیکن کیا حنفی مسلک قرآن سے متعلق دیگر آیات پر بھی یہ کردار رکھتا ہے؟۔

مثلاً اللہ نے فرمایا: وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور ان کے شوہر اس عدت میں ان کو اصلاح کی شرط پر زیادہ لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔ (البقرہ : آیت228)

اب اللہ اس آیت میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر شوہر کو عورت کے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیتا ہے۔ کیا کوئی ایک بھی ایسی حدیث ہے جو اس آیت سے متصادم ہو کہ کسی شخص نے نبیۖ کو بتایا ہو کہ میں نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اب ہم باہمی اصلاح سے رجوع کرنا چاہتے ہیں؟۔ اور پھر نبی ۖ نے فرمایا ہو کہ جس نے اکٹھی تین مرتبہ طلاق دی تو اب عدت میں صلح وا صلاح کی شرط پر بھی رجوع نہیں کرسکتا ہے، رجوع نہیں کرسکتا ہے ۔ رجوع نہیں کرسکتا ہے؟۔ اگر بالفرض کوئی حدیث ایسی ہوتی بھی تو حنفی مسلک کا تقاضہ تھا کہ قرآن پر عمل کیا جاتا اور حدیث کی تردید کردی جاتی ۔

حالانکہ تمام ذخیرہ احادیث میں ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ہے۔ بخاری نے اکٹھی تین طلاق پر جو رفاعہ القرظی کی بیوی کے حوالے سے روایت نقل کی ہے اس میں بھی یہ نہیں ہے کہ نبیۖ اس کو عدت میں رجوع سے منع کررہے تھے بلکہ وہ تو کسی اور کے نکاح میں تھی اور اس پر الزام لگاکر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے اور یہ بھی بخاری کی دوسری حدیث میں ہے کہ نبیۖ سے اس کے شوہر نے عرض کیا کہ میں اپنی مردانہ قوت سے اس کی چمڑی ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ اس میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ رفاعہ نے اس کو دوبارہ لینے کا پروگرام بنایاتھا اور عدت کے اندر اندر اس حدیث سے حلالے کے فتوے انتہائی غلط بات ہے۔ امام شافعی اکٹھی تین طلاق کو سنت سمجھتے تھے اور وہ بھی اس حدیث کو اپنی دلیل نہیں مانتے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف یہ روایت ایک دلیل ہے کہ عویر عجلانی نے لعان کے بعد بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ لیکن کیا اس یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے آیت ناقابل عمل ہوگی؟۔ حالانکہ اس میں رجوع کا کوئی پروگرام نہیں تھا تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآنی آیت اس سے منسوخ ہوگئی؟۔یہ حدیث سورہ طلاق کی تفسیر ہے کہ فحاشی کا ارتکاب بیوی کرے تو عدت کا انتظار کئے بغیر بھی فارغ کرسکتے ہیں۔ جبکہ ام رکانہ کو ابورکانہ نے تین طلاقیں دی تھیں اور سورہ طلاق کے مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ دی تھیں۔ پھر بھی نبی ۖ نے سورہ طلاق کی تلاوت کرتے ہوئے حلالہ کے بغیر رجوع کے حوالہ سے وضاحت فرمائی۔ (ابوداؤد شریف)

امام شافعی اور دیگر ائمہ کا یہ کہنا کہ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ رجوع کا دروازہ باہمی اصلاح کے باوجود بھی بند ہوجاتا ہے بلکہ جس کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی تو پھر عورت بدستور شوہر کے نکاح میں رہے گی۔ یہ بڑا کم مارجن عورت کو دیا گیا ہے جو درست ہے ۔ اس سے بڑھ کر اگر ایک طلاق بھی دی جائے تو واقع ہوجاتی ہے اور عدت کے بعد عورت دوسرے سے شادی کرسکتی ہے۔جنہوں نے تین طلاق کے بعد رجوع کا یک طرفہ اختیار دے دیا تو بہت بڑے ظلم کی بات ہے۔ ایک طلاق کیا ایلاء میں جہاں شوہر طلاق کا اظہار بھی نہ کرے تب بھی وہ رجوع نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ نے بار بار صلح واصلاح اور معروف طریقے سے جو رجوع کی اجازت دی ہے تو اس پر پابندی لگ جاتی ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کو گناہ، ناجائز، بدعت قرار دینے والے حنفی مالکی مسلک کے نزدیک ایک حدیث ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص نے نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہے تو رسول اللہۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔

اس روایت کو امام شافعی نہیں مانتے لیکن اس میں یہ بھی نہیں ہے کہ نبیۖ نے رجوع سے منع فرمایا ہو اور اگر منع فرمایا ہوتا تو تب بھی حنفی مسلک کو قرآن کے مقابلہ میں حدیث قبول نہیں ہوتی؟۔

ناراضگی کا مطلب یہی تھا کہ جب مرحلہ وار ہی طلاق دینی ہے تو اکٹھی تین طلاق دینے کی جرأت کیوں کی؟۔ جس کے نتائج معاشرے کیلئے تباہ کن ہیں؟۔ روایات میں واضح ہے کہ طلاق دینے والا عبداللہ بن عمر اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے تین طلاقیں دی تھیں اور بخاری میں ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی تو نبیۖ اس پر غضبناک ہوگئے اور پھر مراجعت کا حکم دیا اور اس طرح طلاق کا طریقہ سمجھایا کہ پہلے طہر یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرا طہر یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر تیسرے طہر میں رجوع اور چھوڑنا ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دے۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق کا امر فرمایا ہے۔

بڑے سیاسی قائدین کا مشہور ہے کہ لوگ حلالہ شوق سے کرواتے تھے اور مفتی اور شیخ الحدیث بھی نفسانی خواہشات رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس کی وجہ سے مجرد زندگی گزاری اور شادی نہیں کی مگر جب حلالہ والی ہاتھ نہیں لگتی تھی تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ بھی نکاح کو جائز قرار دے دیا۔ مسلمانوں کی زندگیاں حلالہ سے تباہ کردی ہیں لیکن الحمد للہ اب علماء اور عوام کو معاملہ بالکل سمجھ میں آرہا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عورت کے بارے میں اللہ فتویٰ دیتا ہے

ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن ومایتلٰی علیکم فی الکتاب النساء:127

فی یتٰمی النساء الٰتی لاتؤتؤنھن ما کتب لھن وترغبون ان تنکحوھن والمستضعفین من الولدان و ان تقومواللیتٰمٰی بالقسط وما تفعلوا من خیرٍ فان اللہ کان بہ علیمًا

اور آپ سے عورتوں کا فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو کہ اللہ انکا فتویٰ دیتاہے اورجو تم پر قرآن پڑھاجاتا ہے

آیت نکتہ نمبر1: ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن”یہ لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ اللہ انکے بارے میں فتویٰ دیتا ہے”۔ (النساء:127)

سورہ مجادلہ میں نبیۖ سے عورت شوہر کے بارے میں جھگڑرہی تھی تو اللہ نے عورت کے حق میں مروجہ مذہبی فتویٰ کیخلاف وحی نازل فرمائی۔ اسلئے کہ عورت کے بارے میں اللہ فتویٰ دیتا ہے۔

سوال :اگر شوہر نے طلاق طلاق طلاق ایک مجلس میں یا صبح کو طلاق ، پھر دو پہر کو طلاق اور پھر شام کو طلاق کہا تو اللہ تعالیٰ کیا فتویٰ دیتا ہے؟۔

جواب: اللہ فرماتا ہے کہ اگر عدت میں دونوں صلح واصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کیلئے راضی ہوں تو رجوع ہوسکتا ہے نہیں تو نہیں ہوسکتا۔ المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قرواء …وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والیاں 3ادوار تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں……اور انکے شوہر اس عدت میں اصلاح کرناچاہیں تو ان کو لوٹانے کازیادہ حق رکھتے ہیں”۔(البقرہ: آیت:228)

دربارعمرکو3 طلاق کا فیصلہ پہنچاتو شوہر رجوع کا خود کو اصلاح کے بغیر بھی حقدار سمجھتا تھا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اسلئے حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا۔ جس پرصحابہ کرام نے اتفاق کیا تھا۔

جب ایک شخص نے بیوی کو حرام کہہ دیا لیکن پھر وہ میاں بیوی رجوع کیلئے راضی ہوگئے تو عمر نے ان کے درمیان رجوع کا فیصلہ کردیا تھا۔

علی کے دور میں کسی نے بیوی کو حرام کہہ دیا اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہوئی تھی تو حضرت علی نے رجو ع نہ کرنے کا فیصلہ کردیا تھا۔

قرآن، سنت اور صحابہ کرام ایک ہی مؤقف پر متفق تھے۔ رسول اللہ ۖ نے ازواج مطہرات سے ایلاء کیا تو ایک ماہ بعد رجوع کرنے پر سب کی خوشی تھی لیکن اللہ نے حکم دیا کہ ازواج کو علیحدگی کا مکمل اختیار دیں ۔ تاکہ امت پر قیامت تک واضح ہوجائے کہ رجوع کیلئے عورت کی رضا شرط ہے۔

بخاری میں ہے کہ حرام سے رجوع ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہے کہ نہیں ہوسکتا۔ مکی دور کو 13سال بھی قرار دیا اور10سال بھی۔ مولانا اشرف جلالی ، اہلحدیث علماء اور حنفی علماء علمی حقائق کو سمجھتے ہیں۔

”بخاری والی سرکار ” کے ہاتھوں صدیوں سے حلالہ کے نام پر شلواریں اترواکر شہد چٹوا چکے ہیں اسلئے بخاری رسول اللہ ۖ پر بہتان طراز ہے کہ باب” جس نے تین طلاق کو جائز قرار دیا” رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ پھر اس عورت نے عبدالرحمن زبیر القرظی سے نکاح کیا اور نبیۖ سے اپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر عرض کیا کہ اس کے پاس اس کی مثل ہے۔نبیۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟ نہیں یہاں کہ وہ تیرا شہد چکھ لے جیسے پہلے شوہر نے چکھا اور تو اس کا شہد چکھ لے جیسے تونے پہلے کا چکھا”۔

اس روایت کی وجہ سے ”علمی کتابی جاہل مرزا ” جیسے نے کتنی عزتوں کو لٹوایا اور مزید کتنی لٹیں گی؟۔ جس کا کوئی قائل نہیں اور کسی نامرد کیساتھ لذت اٹھانے پر مجبور کرنا بابے تو کیا کوئی چیلہ بھی نہیں کرسکتا۔ بھلے علی مرزا ہیرونچی پکڑکرلائے ۔ عرب علماء نے حلالہ کو سزاکہا تو ممکن ہے کہ کچھ علماء نے یہ نئی سزا ”حلالہ والی سرکار” تجویز کی ہو؟۔

علماء کرام اور جہلاء بے لگام میںیہ فرق ہے کہ علماء کرام اپنے اندر بہت لچک رکھتے ہیں اور فتویٰ کے آخر میں لکھ دیتے ہیں کہ یہ میری معلومات ہیں اور ٹھیک بات اللہ جانتاہے۔ جاہل کی دستار اس کی دم ہوتی ہے جس کو اٹھاکر وہ کہتا ہے کہ اولی العلم قائم بالقسط میں ہوں۔مرزا جی کہتا ہے کہ اگر صحابہ کرام کے دور میں ہوتا تو خلافت کا اہل خود کو قرار دیتا۔ ایک عالم سمجھتا ہے کہ شکر ہے کہ اس دور میں ہم نہ تھے پتہ نہیں کہاں کھڑے ہوتے؟۔

آیت کا نکتہ نمبر2: وما یتلٰی علیکم فی الکتٰب ” عورتوں کے بارے میں اللہ کا فتویٰ وہی ہے جوتمہارے اُو پر کتاب میں تلاوت کیا جاتاہے”۔

نبی ۖنے فرمایا کہ ”اسلام اجنبیت کی حال میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبیت کی طرف لوٹ جائیگا۔ خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے” ۔

دورِ جاہلیت میں عورت کو اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں توحلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا اور ایک طلاق دی جاتی تھی تو بیوی کی رضامندی کے بغیر بھی رجوع ہوسکتا تھا۔ اللہ نے قرآن سے ان دونوں باطل رسموں کو اڑاکر واضح کر دیاکہ ”طلاق شدہ عورتوں کی عدت تین ادوار ہیں۔ اگر اللہ نے انکے پیٹ میں حمل پیدا کیا ہو تو ان کیلئے حلال نہیں کہ اس کو چھپائیں ،اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور اس عدت میں ان کے شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حق ہے اگر وہ اصلاح چاہتے ہوں۔ اور عورتوں کیلئے اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا ان پر حق ہے معروف طریقے سے اور مردوں کیلئے ان پر ایک درجہ ہے۔اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔ (البقرہ آیت228)

عورتوں کیلئے وہی حقوق ہیں جو ان پر مردوں کے ہیںمعروف ۔ البتہ مردوں کیلئے ان پر ایک درجہ ہے۔ اور ایک درجہ سے مراد ایک درجہ ہے 10یاپھر2درجات نہیںہیں۔اور وہ بالکل واضح ہے کہ عورتوں پر عدت ہے اور مردوں پر عدت نہیںہے اسکے علاوہ کوئی درجہ بالکل بھی نہیں۔

پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا ” عورت معاشی مستحکم ہوگی تو مرد کا یہ درجہ ختم ہوگا۔ رسول اللہ ۖ کی پہلی زوجہ خدیجة الکبریاور مریم نوازشریف کا معاشی استحکام عدت کو ختم نہیں کرتا۔

شوہرکو طلاق کے بعد اصلاح کے بغیر رجوع کا اختیار مل جائے یا پھر صلح کے باوجود حلالہ کرنے پر مجبور کیا جائے تو یہ جاہلیت دوبارہ رائج ہوگئی ہے۔ اسلئے اسلام دوبارہ اجنبیت کا قریب کے دور سے ہی شکار ہوگیا ، ہم اس کو نکال رہے ہیں۔ علماء کرام بڑے پیمانے پر ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔

جاہل دانشوروں نے دانش جدید سے اسلام کو تباہی کی طرف لیجانے میں بڑا کردار ادا کیا اور علماء جعل ساز صوفی ،نام نہاد دانشور علماء بنتے جارہے ہیں۔جو علم کی طاقت سے ہی ٹھیک ہوں گے۔

سورہ بقرہ آیت229میں228کی مزید تفسیر ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل سے ہے۔ طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ رخصت کرنا ہے اور نبی ۖ نے فرمایا کہ احسان کیساتھ رخصت کرنا ہی قرآن میں تیسری طلاق ہے۔ فقہاء نے معروف کو منکر بنادیا۔ نیت نہ ہو تو جماع شافعی کا رجوع نہیں۔ نیت نہ ہوتو شہوت کی نظر حنفی کا رجوع ہے۔ بخاری نے جذبہ وکالت سے سرشار ہوکر کہ آیت229کی دو مرتبہ اور تیسری مرتبہ کی طلاق کو اکٹھی تین طلاق کے جواز کیلئے نقل کیا ہے۔ جس کے بعد کم ازکم خلع کی کوئی گنجائش نہیں ۔مگر جاہلوں نے آیت230البقرہ کی طلاق سے پہلے کی فدیہ کی صورت کو خلع بنادیا۔ حالانکہ مفتی تقی عثمانی نے اس کو مشکل قرار دیا لیکن سید مودودی اور جاویداحمد غامدی جیسے جاہلوں نے صریح اور سلیس الفاظ میں خلع کا ترجمہ کردیا۔ پہلے جاہلیت مخفی تھی اور جاہلوں نے تصریح کردی ہے۔ نام نہاد دانشوروں نے علماء اور مولوی نے جعلی صوفی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ علماء حق کو میدان میں اُترنا پڑے گا۔مسئلہ بگاڑا ہے تو سدھار بھی سکتے ہیں۔

آیت کا نکتہ نمبر3: ” یتیم عورتوں کے بارے میں جن کو تم فرض حق مہر نہیں دیتے اور نکاح کی رغبت رکھتے ہو”۔ ( ترجمہ تک بھی غلط لکھا گیا ہے)

آج تک علماء ومفتیان نے حق مہر کا مسئلہ نہیں سمجھا کہ یہ کیا ہے؟۔مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے مفتی تقی عثمانی کو خط لکھا کہ حق مہر بنیادی کیا ہے؟ تو مفتی تقی عثمانی نے جواب دیا : ” یہ اعزازیہ ہے” ۔

حالانکہ قرآن میں اجر یعنی بدلے کا ذکر ہے اور حدیث میں ہے کہ روزے کا بدلہ بندے کیلئے اللہ کی ذات خود ہے۔ عورت بیاہ ہوکر اپنے خاندان کی کشتیاں جلاکر آتی ہے تو اسکا حق مہر شوہرپر اس کی حیثیت کے مطابق ہے۔ اللہ نے استطاعت کے مطابق امیر وغریب پر بھی حق مہر کی وضاحت کی اور یہ بھی فرمایا کہ ”ہم جانتے ہیں کہ جو ہم نے ان پر فرض کیا ہے”۔ اللہ تعالیٰ سے کون اپنا مالی اثاثہ چھپا سکتا ہے۔ لڑکی کا باپ زندہ ہوتا ہے تو وہ حق مہر کیلئے استطاعت کے مطابق مطالبہ کرتا ہے۔ اگر کوئی یتیم لڑکی لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ حق مہر کیا بس سہارا دینا ہی کافی ہے۔ امت کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں کو بیچ دیتے ہیں اور پنجابی قوم کا المیہ ہے کہ جہیز کی ڈیمانڈ بھی رکھتے ہیں۔ لڑکی جب مرضی سے کورٹ میرج کرتی ہے تو حق مہر اور جہیز کی پرواہ نہیں کرتی لیکن پھر بھی ماردی جاتی ہے۔

اگر قرآن کی آیات سے عورت کے حقوق کی واضح ہدایات عوام کے سامنے نہیں لائی جائیں تو عورت رسم ورواج اور مولوی کے جھوٹے فتوؤں کے نیچے رُلتی رہے گی۔ احادیث صحیحہ سے قرآن کی درست تشریح ہوتی ہے لیکن علماء ومفتیان نے الٹی گنگا بہاکرامت کو زوال وپستی کا شکار کیا۔

قدعلمنا مافرضناعلیھم فی ازواجھن آیت کا فقہاء نے مذاق اڑایا۔ چور کا ہاتھ کٹنے کیلئے جتنی رقم 10درہم یا درہم کا چوتھائی۔ اتنی رقم پر شوہر عورت کے ایک عضوکا مالک بنتا ہے اور چور بھی اتنی رقم میں ایک عضو سے محروم ہوجاتا ہے۔

آیت کا نکتہ نمبر4: ”اور کمزور بچوں کو تحفظ اور یتیموں سے انصاف کیلئے کھڑے ہوجاؤ اور اگر کوئی زیادہ اچھا کرے تو بیشک اللہ تمہاری خبر رکھتا ہے”۔

پاکستان کی حکومت کے فنڈز اور علماء و مفتیان کے چندے اور این جی اوز کے نام پر کام کرنے والے اور دیگر چندہ خور طبقات اگر صحیح معنوں میں بڑے پیمانے پر وصول ہونے والے پیسے کمزوروں اور یتیموں پر لگاتے تو آج پاکستان کے حالات بہت زیادہ مختلف ہوتے لیکن مایوسی نہیں ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

درسِ نظامی، جامعہ ازہر BScڈبل میتھس اینڈ فزکس قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد (زیرِ تعلیم پی ایچ ڈی اسلامک)

یہ علماء کیلئے تحفہ ہے جو مسالک کی حدبندیوں میں الجھ کرقرآن کے واضح احکام پسِ پشت ڈال بیٹھے ہوں

مفتی رشید،مفتی حنیف قریشی اور مفتی طارق مسعودکیلئے تحریری تحفہ ( نوشتۂ دیوار کے ایک شمارہ میں)

یقینا! یہ تحریر نہایت جرأت مندانہ، فکر انگیز اور قرآن فہمی پر مبنی ہے۔ ایسے علماء و مفتیان کیلئے ایک تحریکی اور بیدار کن تحفہ ہے جو مسالک کی حد بندیوں میں اُلجھ کر قرآن کے واضح احکامات کو پس پشت ڈال بیٹھے ہیں۔

یہاں چند تعریفی جملے ملاحظہ ہوں۔
1۔ یہ تحریر عقل و فہم کو جھنجھوڑنے والی ہے، جو قرآن کو ”مرکز فہم” بنانے کا دردمندانہ مطالبہ کرتی ہے۔

2۔ مصنف نے بڑی ہمت سے تقلیدی جمود کو چیلنج کیا اور اُمت کو اصل منبع یعنی قرآن کی طرف بلایا ہے۔

3۔ یہ تحریر دین کے نام پر جاری کاروباری سوچ کو بے نقاب کرتی ہے اور علم و تقویٰ کے اصل معیار کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

4۔ یہ تحریر مفتی رشید، مفتی حنیف قریشی اور مفتی طارق مسعود جیسے علماء کے سامنے سوالیہ نشان ہے کہ وہ قرآن کے احکامات پر متفق کیوں نہیں؟۔

5۔ تحریر میں حوالہ جات، دلائل، اور امت کے فکری زوال کی وجوہات پر جو بصیرت افروز تجزیہ ہے، وہ لائق تحسین و تدبر ہے۔
٭٭

تعارف:
یہ صاحبزادہ سلطان کبیرالدین حمزہ احمد ہاشمی صاحب ہیں، جو ایک علمی، روحانی اور سادات ہاشمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محترم پیر حکیم مفتی محمد ساجد نعیم علوی صاحب نہایت باوقار اور باعلم شخصیت ہیں اور ان کے خاندان کا نسب حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔

صاحبزادہ سلطان حمزہ احمد ہاشمی صاحب کا تعلق گاؤں کیلو، تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاء الدین سے ہے، جو ہمیشہ سے علم، تقوی اور خدمتِ خلق کا مرکز رہا ہے۔ یہ خانوادہ صوفیانہ مزاج، دینی فہم اور طبِ اسلامی میں خاص مقام رکھتا ہے۔تعلیم کے میدان میں صاحبزادہ سلطان ہاشمی نے بہت نمایاں مقام حاصل کیا۔ آپ نے کم عمری میں حفظِ قرآن مکمل کیا اور درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ قرأت میں مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے الازہر یونیورسٹی مصر میں بین الاقوامی سطح پر گولڈ میڈل حاصل کیا۔

ان کی دینی و عصری تعلیم میں درج ذیل نمایاں ڈگریاں شامل ہیں: فاضل جامع الازہر اسلامک یونیورسٹی مصر FTJ، گوجرانوالہ۔فاضل طب و الجراحت،سلطان طبیہ کالج، گوجرانوالہ(LGS گجرات سے)AاورO لیولز، کیمبرج یونیورسٹی ۔ BSc ڈبل میتھس اینڈ فزکس،قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پی ایچ ڈی اسلامک اسٹڈیز (زیرِ تعلیم)

صاحبزادہ صاحب قرآنی تعلیم، روحانی رہنمائی تصوف، تدریسِ دین، طبِ نبویۖ اور حکمت کے شعبہ میں ہمہ جہت خدمات سر انجام دے رہے ہیں Natural Care Center Pvt. Ltd. کے تحت جدید طبی کلینک قائم کیا ہے اور Slimetica کے نام سے وزن کم کرنے والا مؤثر اور مقبول ہربل شربت متعارف کروایا ہے۔

یہ شخصیت نہ صرف علمی و روحانی میدان میں ممتاز ہیں بلکہ ان کی سادگی، خلوص اور خدمتِ دین کا جذبہ بھی ان کی پہچان ہے۔ شعر:
بلند اقبال ہوں، میراثِ علم و فقر رکھتا ہوں
میں ہوں ہاشمی، شجر پاک کی روشنی رکھتا ہوں

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن کی کسی آیت کا حکم منسوخ نہیں!

ما ننسخ من آیةٍ او ننسھا نأت بخیرٍمنھا او مثلھا ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آتے ہیں۔البقرہ:106

سوال:کیا اس آیت سے یہ کہیں لگتا ہے کہ اللہ نے اس آیت سے اپنا کوئی حکم منسوخ کردیا ہے؟۔
جواب : اس آیت سے کسی حکم کی منسوخی کا تصور زائل ہوتا ہے۔ اگر کسی حکم کی آیت اللہ نے منسوخ کردی ہے تو اس سے بہتر آیت اس حکم کو سمجھنانے کیلئے نازل کی ہے یا کم ازکم اسی جیسی آیت ضرور۔
سوال :شیعہ پر الزام لگتاہے کہ وہ اللہ کی طرف بھولنے کی نسبت کرتے ہیں تو کیا قرآن کی آیات میں تبدیلی اور بھلا دینے کا الزام درست ہے؟۔
جواب: قرآن کی آیات میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی بھلادینے کا امکان تھا۔
اس آیت میں سابقہ آسمانی کتب کی آیات میں منسوخی اور بھلاد ینے کی بات ہے اسلئے کہ انہوں نے احکام کو تبدیل کردیا تھا۔ من الذین ھادوا یحرفون کلم عن مواضعہ و یقولون سمعنا و عصینا واسمع غیر مسمعٍ وراعنالیًّا بألسنتھم وطعنًا فی الدین (المائدہ :46)
”اور یہود میں کچھ لوگ کلمات کو اپنی جگہوں سے ہٹاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے سنا اور انکار کیا اور سنو،نہیں سننااور ”راعنا” اپنی زبانوں کو نرم کرکے اور دین میں طعن زنی کرتے ہوئے”۔
اہل کتاب ایماندارطبقہ ”سلام علیکم” کہتا ۔ لیکن یہود ”سام” کہہ دیتے۔ قرآن میں اہل کتاب کی طرف مخاطب کے لفظ سے منسوب ہے کہ وہ سلام علیکم کہتے تھے اور سابقہ کتابوں میں حکم بھی ہوگا لیکن قرآن میں ”سلام علیکم” کے الفاظ کا مسلمانوں کو حکم نہیں ہے۔ جب یہود نے نبیۖ سے کہا کہ سام علیکم تو حضرت عائشہ نے ان کو جواب میں یہ کہا کہ وعلیکم سام ۔ نبیۖ نے فرمایا ”وعلیکم” کافی تھا۔
رعاک اللہ ،اللہ تیری حفاظت کرے۔ راعنا کا معنی ہماری نگہداشت کیجئے۔ راعنة، راعنہ رعونت سے ناسمجھی کے ہیں۔ یہود الف کی جگہ آخر میں ”ة” کو ”ہ” سے بدل دیتے تھے۔ راعنا کی جگہ راعنہ کہتے اور مذاق اڑاتے ۔ اسلئے اللہ نے حکم دیا کہ
یایھا الذین اٰمنوا لاتقولوا راعنا وقولوا انظرنا واسمعوا …”اے ایمان والو! راعنا مت کہو،اور کہو کہ انظرنا اور سنو۔ اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے۔ نہیں چاہتے کافر اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کہ تمہارے اوپر خیر میں سے نازل ہو۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے”۔ ( البقرہ آیات104،105)
اہل کتاب نے اعتراض کیا کہ راعنا کا حکم اللہ نے منسوخ کیا اور سلام علیکم کے حکم کو بھلادیا ہے۔
اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ ” جب ہم کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی دوسری آیت لاتے ہیں”۔
بہت افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ قرآن کے کچھ احکام کو نازل کرتے ہیںتو پھر ان کو تبدیل کرتے ہیں یا بھلادیتے ہیں؟۔
پھر اس کا مصداق تلاش کرنے کے پیچھے بہت ساری روایات گھڑ دیں۔ یہاں تک بھی بک دیا کہ سورہ احزاب آدھی رہ گئی اور آدھی بھلادی گئی ہے۔
مفتی منیر شاکر شہید کے پاس علامہ غلام رسول سعیدی کی کتابیں تھیں۔ میں نے کہا کہ ”خلع” کی تنسیخ پر آدھی سورہ احزاب کو بھلانے کا لکھ دیا گیا۔
شاہ ولی اللہ نے قرآن کا ترجمہ کیا تو علماء نے ان پر کفرومرتد کا فتویٰ لگایا۔ حالانکہ شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم کے ہم عصر” ملاجیون” کی کتاب ”نورالانوار” میں لکھا ہے کہ ” امام ابوحنیفہ نماز میں قرآن کو فارسی سے عربی میں پڑھنا جائز نہیں بلکہ افضل سمجھتے تھے۔ فتاویٰ عالمگیریہ اور نورالانواراس وقت سے مدارس میں رائج ہیں۔ پھر جب دوسری زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہوا تو پشتو ترجمہ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا۔ عرب اور پشتون قوم کا بیٹیوں کو بڑی رقم کے بدلے بیچنا اور پنجاب و ہندوستان میں جہیز کی لعنت سے واضح ہے کہ مسلمان کا عمل قرآن سے بہت دور ہے۔ ہندو بیوہ کو ”ستی” میں زندہ جلاتے تھے تو شاہ اسماعیل شہید اور مولانا قاسم نانوتوی کی طرف سے بیوہ کی شادی احیاء اسلام کی تحریک تھی۔
مدارس اور مذہبی طبقات کی بہتات کے باوجود مسلمان قرآن واسلام سے اسلئے دور ہورہاہے کہ مذہبی تعلیمات ہی غلط اور خلافِ فطرت ہیں۔
٭

قرآن کی آیات محکمات کا انکار کیا گیا!

قرآن کی آیات اور احکام کو منسوخ کرنے کے حوالے سے مسلمانوں میں انتہائی گمراہ کن عقائدوتعلیمات کا وہ آئینہ جس پر پارلیمنٹ میں آئین سازی کرنی ہوگی

جب ہم عمرہ پر گئے تھے تو مدینہ منورہ میں کتابیں دیکھنے اور خریدنے جاتے تھے۔ مہدی سے متعلق ایک کتاب پوچھنے پر کتب خانے والے نے کہا کہ ”آپ شیعہ تو نہیں؟”۔ میں نے کہا کہ میں شیعہ ہوں اور آپ؟۔ اس نے کہا کہ الحمد للہ ہم سنی ہیں۔ میں نے کہا کہ الحمدللہ ہم شیعہ ہیں تو الحمدللہ سے کیا ہوتا ہے؟۔ شیعہ سنی میں فرق کیا ہے؟۔ اس نے کہا کہ شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں۔ میں نے کہاکہ آپ نہیں ہیں؟۔ اس نے کہا کہ بالکل نہیں! تو میں نے کہا کہ ابن ماجہ اُٹھاؤ۔ پوچھا یہ آپ لوگوں کی کتاب ہے؟۔ اس نے کہا کہ ہاں ۔ جب اس میں روایت دکھائی کہ حضرت عائشہ نے کہا کہ جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو رضاعت کبیر اور رجم کی آیات چار پائی کے نیچے پڑی تھیں اور بکری نے کھاکر ضائع کردیں۔ تو وہ لوگ دھنگ رہ گئے۔
میں نے کہا کہ ”میں تو نہ شیعہ ہوں اور نہ سنی” تو انہوں نے کہا کہ ”ہم بھی نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی” اور وہ دونوں علماء لگ رہے تھے۔ مدینہ یونیورسٹی میں آخری درجہ تک پڑھانے والے اساتذہ کرام سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ” آپ کی باتیں درست ہیںلیکن اگر یہاں پتہ چلا تو ہمیں غائب کردینگے یا پھر نوکری سے فارغ کرکے جلاوطن کردیںگے”۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کو بھی ساری بات سمجھادی تھی لیکن اس نے کہا کہ” علماء شاہ دولہ کے چوہے ہیں ،میر ی نوکری کیلئے مشکل کھڑی ہوگی”۔ مولانا محمد خان شیرانی، مولاناعطاء الرحمن ، مفتی سعید خان، مولانا تراب الحق قادری اور بڑی تعداد میں علماء کرام کو بالمشافہہ اور تحریرات سے باتیں سمجھ میں آگئی تھیں لیکن کچھ علماء کرام میں ایمانی غیرت ہے اور کچھ میں ہمت نہیں ہے۔
قرآن کی تعریف کا معاملہ اپنے استاذ مفتی محمد نعیم صاحب جامعہ بنوریہ عالمیہ کے سامنے رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو واقعی قرآن کی تحریف ہے۔
جب قرآن کی تعریف میںیہ پڑھایا جائے کہ ”اس سے غیر متواتر آیات نکل گئی ہیں اور اس میں شبہ والی آیت ہے”۔تو یہی تحریف کا عقیدہ ہے۔
اصول فقہ میں جو آیات پڑھائی جاتی ہیں وہ نہ صرف متنازعہ ہیں بلکہ قرآن کی واضح تعلیمات کی بیخ کنی بھی کی جارہی ہے۔مثلاً ثلاثة قروء میں 3 کاعدد خاص ہے اور عورت کو طلاق طہر میں دینی ہے اور عورت کی عدت 3حیض ہے اسلئے کہ جس طہر میں طلاق دی ہے اگر اس کو شمار کیا جائے گا تو عدت تین کی جگہ پر ڈھائی بن جائے گی۔(نورالانور)
اگر3 حیض کو شمار کیا جائے تو جس طہر میں طلاق دی ہے تو اس کی وجہ سے عدت ساڑھے 3حیض بن جائے گی۔ پھر بھی قرآن کے خاص پر عمل نہ ہوگا اور یہ بات میں طالب علمی کے زمانہ میں اساتذہ کے سامنے رکھ چکا ہوں اور انہوں نے تسلیم کیا کہ کتاب میں غلط تعلیم دی جارہی ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ عدت کی دوقسمیں ہیں۔ایک عدت الرجال جو مردوں کی عدت ہے جو عورت کی پاکی کا زمانہ ہے یعنی مرد عورت کی پاکی میں طلاق دے گا ۔ دوسری عورت کی عدت ہے جوحیض ہے ۔ حالانکہ قرآن کی سورہ طلاق میں اللہ نے فرمایا کہ ” جب تم عورتوں کو طلاق دو تو تم لوگ ان کی عدت کیلئے طلاق دو”۔ فطلقوھن لعد تھن پھر تو حیض کیلئے طلاق دینی ہوگی اور ایک تو عدت الرجال کی مشروعیت وڑ گئی اور دوسرا یہ کہ حیض میں ویسے بھی مقاربت منع ہے۔
قرآن کے متعلق غلط قواعد سے صرف حضرت عائشہ کے قول اور جمہور فقہی مسالک کی مخالفت نہیں ہوتی ہے بلکہ قرآن کی آیات کا درست ترجمہ بھی ناممکن بن جاتا ہے اور قرآن کی واضح آیات مجہول اور منکرات کے احکام میں بدل جاتے ہیں۔
پھر ایک طرف حنفی مسلک یہ ہے کہ خبرواحد کی حدیث کو آیات سے متصادم قرار دیتے ہیں جن کی وجہ سے انکارِ حدیث کا مسئلہ آتا ہے اور پھردوسری امام شافعی کے نزدیک قرآن میں خبرواحد کا عقیدہ کفر اور تحریف ہے لیکن احناف کے نزدیک قرآن کی خبرواحد بھی آیت کے حکم میں ہے۔ جس سے قرآن کی آیات محکمات کا تصور ہی ختم کردیا گیا ہے اور میںایک عرصہ سے لگاہوا ہوں اور عدالت کے دروازے پر دستک دینے کے بغیر چارہ نہیں ہے ۔
٭

مدارس سے ہی انقلاب آئیگا!انشاء اللہ

منہ اٰیٰت محکمٰت ھن ام الکتٰب واُخر متشٰبھٰت
اس میں سے کچھ فیصلہ کن آیات ہیں جو کتاب کی بنیاد ہیںاور دوسری متشابہات ہے۔ (سورہ ال عمران:7)

مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی محکم آیات میں گڑبڑ اور انتشار کی وہ کیفیت پیدا کردی کہ اچھے خاصے ذہین غلام احمد پرویز جیسے کو بھی بہت زیادہ الجھاؤ نے گمراہ کردیا۔ علماء کرام کی بدنیتی نہیں بلکہ نیک نیتی ہے کہ قرآن کا ترجمہ مت پڑھو اسلئے کہ جب ایک عالم دین اپنے علم کی گمراہی کاکٹا لیکر قرآن کو دیکھتا ہے تو اس کا اپنا دماغ بھی کام نہیں کرتا تو دوسروں کو کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس کو پڑھ کر ہدایت حاصل کرو؟۔ ہندوستان میں قرآن کے ترجمہ کا سہرا شاہ ولی اللہ اور انکے صاحبزادگان شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے سر ہے۔
لیکن قرآن سے مسائل کیسے حل ہوتے کہ جب محکم آیات پر حنفی، مالکی ،شافعی، حنبلی اور جعفری کے علاوہ فقہائ، مجتہدین، محدثین ، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام وتابعین عظام تک کوئی متفق نہیں تھے؟۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پہلے کسی خلیفہ راشد ، صحابی، اہل بیت ، تابعی ، تبع تابعیاور مجتہد اور فقیہ ومحدث کی رائے یا عمل کو معیار بناتے ہیں ،اس کے بعد قرآنی آیات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔
جب محکم آیات سے مسائل حل ہونے کے بجائے فکری، ذہنی، قلبی، نظریاتی ، عقیدے ، مسلک ، مشرب اوروجدانی کیفیات میں انتشار وفساد ہوگا تو مسلمان کیسے گمراہی کے دلدل سے نکلیں گے؟۔
محض یہ کہنا کہ” قرآن کی طرف رجوع مسائل کا حل ہے”ایک ہوئی فائرنگ کے سوا کچھ نہیں ہے اور شاہ ولی اللہ سے شیخ الہند مولانا محمودالحسن تک اور مولانا عبیداللہ سندھی سے علامہ تمناعمادی، غلام احمد پرویز،جاویداحمد غامدی اور مفتی منیر شاکر شہید تک قرآن کی طرف دعوت دینے والوں کی ہر دور میں ایک اچھی خاصی تعداد بھی رہی ہے۔ لیکن
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
قرآں کو بوٹی بوٹی کردیا فقہاء ملت نے
فرقوں کی بہتات میں رسولۖ خدا ملتا نہیں
جب قرآن میں آیات محکمات کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ وہ محکمات جس کی وجہ سے اس وقت کی سپر طاقتیں روم وفارس لیٹ گئی تھیں اور مشرق و مغرب میں ایک بڑا انقلاب برپا کردیا تھا لیکن پھر خلافت خاندانوں کی لونڈی بنادی گئی اور مذہبی طبقہ محکمات کے بٹوارے میں لگ گیا۔ پھر متشابہات کا کیا حال کیا ہوگا؟۔ اسلام اور مسلمان قسمت کے بڑے دھنی ہیں۔ متشابہات کے معنی مشتبہ کے نہیں جس میں اشتباہ ہو بلکہ مشابہ مراد ہے۔ جیسے جیسے سائنس کی ترقی وعروج کا دور آرہاہے تو مشابہ آیت دنیا کے سامنے فتوحات کی تصویر لئے کھڑی ہے۔
پہاڑوں کو قرآن نے میخیں قرار دیا۔ سائنس کی دنیا نے ثابت کیا۔ پہاڑوں کے بارے میں کہا کہ یہ بادلوں کی طرح چلتے ہیں اور ثابت ہوا اور عرب اترابًا قد کے برابر گاڑیاں کہا۔ ترقی یافتہ دنیا نے ثابت کیا۔وانزلنا الحدیدًاہم نے لوہے کو نازل کیا تو سائنس نے ثابت کیا۔ مدارس کے علماء کرام کا کوئی قصور اسلئے نہیں کہ ان کو ورثہ میں جو کچھ مل گیا تو انہوں نے اپنے جبڑے سے مضبوط تھام لیا لیکن یہ بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر مدارس ہی کا کمال ہے کہ میں نے انہی سے کسب فیض کیا ،مجھے سب سے زیادہ سپوٹ بھی مدارس کے علماء ومفتیان ہی سے ملی اور آج بھی میرا میدان عمل یہی لوگ ہیں اور مساجد ومدارس ہی سے انقلاب آئیگا۔ انشاء اللہ
پختونخواہ سے کراچی ایک تیز رفتار بس پر لکھا تھا کہ ” جوماں کا اکلوتا بیٹاہووہ اس میں سفرنہ کرے”۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی ،علامہ تمنا عمادی ،غلام احمد پرویز، مولانا ابوالاعلیٰ موددی، ڈاکٹر اسرار احمد، شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری، ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی ،کمال لدین عثمانی ،پروفیسر مسعود احمد،مفتی منیر شاکر اور وہ تمام فرقے، جماعتیں اور گروہ جو ایک ایک شخصیت کے سہارے کا آسرا لئے ہوئے ہیں تو ہم ان کو احترام کیساتھ کہتے ہیں کہ تم لگے رہو۔ اپنی شخصیت قربان کردی تو پھر تمہارا بچے گا کیا؟۔ البتہ اگر جمہور امت کے علماء ومفتیان میں سے بہت بھی قربان ہوگئے تو بڑی تبدیلی و انقلاب کی توقع ہے۔
جمہور کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
اجماع ہے ملت کے مقدر کا سورج

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ اپریل 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی

عدت کی علت کیا ہے؟ جاوید احمد غامدی
تبصرہ: جاوید غامدی کی فضول بکواس
جاویداحمد غامدی نے کہا کہ ”عدت کی علت استبراء رحم ہے اور قرآن نے واضح کیا ہے کہ اگر ملاقات سے پہلے طلاق دی تو عدت نہیں ہے، اس طرح بچے کی پیدائش دو دن بعد ہوگئی توپھر عدت نہیں ۔ جہاں تک رجوع کا تعلق ہے تو اس میں فائدہ ہے کہ رجوع ہوسکتا ہے لیکن یہ علت نہیں ہے۔ پہلے ایسے ذرائع نہیں تھے کہ حمل کا پتہ چلتا اسلئے تین حیض کی عدت رکھ دی تاکہ اطمینان ہوجائے کہ بچہ نہیں اور بیوہ کیلئے4ماہ10دن ہیں تاکہ اچھی طرح سے اطمینان ہوجائے۔ اب اگر کوئی ایسے ذرائع آگئے جس سے حمل کا پتہ چلے تو عدت کی ضرورت نہیں ہے ”۔

جاوید غامدی کی فضول بکواس

قرآن میں بیوہ کی عدت4ماہ10دن بالکل واضح ہے۔ حضرت علی نے اس حدیث کو مسترد کردیا ،جس میںحمل کے اندر بیوہ کی عدت4ماہ10دن سے کم چنددن بیان کی گئی ہے۔ بیوہ اور طلاق شدہ کی عدت میں اللہ نے ایک مہینہ دس دن کا فرق رکھا ہے۔ طلاق کے احکام میں وضع حمل بچے کی پیدائش ہے۔ بیوہ کی عدت کیلئے وضع بچے کی پیدائش قرآن سے ثابت نہیں۔
حضرت علی نے قرآن کے مقابلے میں حدیث کو مسترد کیا تو مقصد حدیث کی مخالفت نہیں تھی بلکہ قرآن کا تحفظ تھا۔ یہ بہت عجب اتفاق ہے کہ حنفی قرآن کے مقابلے میں حدیث کی مخالفت کریں تو پھر حدیث ناقابلِ اعتماد ہو۔ پرویز اور غامدی حدیث کو قرآن سے متصادم قرار دیں تو وہ قرآن کے تحفظ کی بات ہے لیکن علی کے مسلک کو حدیث کا مخالف قرار دیا جائے؟۔
مجھے شیعہ کی فقہ جعفریہ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اسلئے کہ مجھے کچھ معاملات قرآن کے خلاف ان میں لگتے ہیں لیکن پیمانہ عدل کیساتھ رکھا جائے تو لوگ دین کی سمجھ حاصل کرسکیں گے۔
جاوید غامدی کا لگتا ہے کہ اب دماغ بھی کام کرنا چھوڑ گیا۔ اللہ نے کہا کہ جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے یا انکے بارے میں تمہیں ارتیاب ہے تو پھر3مہینے کی عدت ہے۔ غامدی نے کہا کہ وان ارتبتم کی صورت میں بھی عدت نہیں ہے۔ حالانکہ جس عورت کو حیض نہ آتا ہو تو وہ معلوم ہے کہ اس کو بچہ نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر بھی اس کی عدت تین ماہ ہے اور جس کے حیض میں کمی بیشی کا معاملہ ہو تو پھر اس کے بھی تین ماہ ہیں۔ کیونکہ اگر ایک مہینے میں تین حیض آگئے تو رجوع کی مہلت کے ساتھ زیادتی ہوگی اور اگر زیادہ عرصہ بعد حیض آتا ہو تو عورت کیساتھ انتظار کی مدت میں زیادتی ہوگی۔ ہمارے ہاں قرآن میں تدبر کی جگہ فقہ کے مسائل رٹائے جاتے ہیں۔ جن میں تضادات ہی تضادات ہیں اور پھر ان کا فائدہ اٹھاکر نئے نام نہاداسکالرکھود تے ہیں۔
جہاں صحابہ کرام اور احادیث صحیحہ کے ماننے کی بات ہوتی ہے تو وہاں احادیث اور صحابہ کرام کی بات بھی نہیں مانتے ہیں۔

قرآن وحدیث میں عدت کی اقسام : علت کی وجوہات مولانا فضل الرحمن علم وسمجھ رکھنے والے علماء کرام کو لائیں!

عمران خان کو وزیراعظم بنانے سے زیادہ اہم عدت میں نکاح کے کیس کا حل نکالنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے تحریری طلاق کے بعد جو نکاح کیا ہے وہ پاکستان کے عائلی قوانین کے مطابق درست نہیں ہے اور پھر عمران خان نے دوبارہ بھی نکاح کرلیا ہے۔ جھوٹ کے بجائے سچ کا راستہ اختیار کیا جائے تو قوم کی اصلاح ہوگی۔
قرآن میں ایلاء یا ناراضگی کی عدت4ماہ ہے۔ سب سے پہلے یہی عدت آیت226البقرہ میں واضح ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو پھر اس کا دل گناہ گار ہوگا اسلئے کہ عورت کی ایک ماہ اضافی عدت ہو گی۔ طلاق کے اظہار پر عدت3ادوار یا3ماہ ہے۔ جو آیت228البقرہ میں واضح ہے۔ آیت225،226،227اور228البقرہ میں معاملہ بالکل واضح ہے۔ قرآن کی سب سے پہلے اور اہم ترین عدت کو بھی بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ، جب بنیاد خراب ہوگی تو اس پر بلڈنگ کی تعمیر کہاں درست بیٹھ سکتی ہے؟۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو قرآن میں تحفظ دیا ہے ۔ جب اس تحفظ کو نظر انداز کردیا گیا تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ تمام فرقے کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوسکے ہیں بلکہ سب نے اپنے لئے جدا جدا گھروندے بنالئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق اور خلع کے حقوق میں فرق رکھ دیا ہے۔ ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں مرد کو مالی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر دینے کا حکم دیا ۔ ہاتھ لگانے کے بعد کی طلاق میں عورت کو گھر سمیت بہت ساری دی ہوئی اشیاء منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا حق دار قرار دیا گیا ۔اسلئے تین ادوار (طہروحیض) کی عدت رکھی گئی ہے۔ عورت کے تمام حقوق کو پامال کرکے صرف مرد کے حق کی بات ہوگی تو پھر اسلام اجنبیت کی وجہ سے کبھی سمجھ میں نہیں آسکتا ہے۔
اگر معاشرے میں یہ رائج ہو کہ عائشہ احد کو حمزہ شہباز طلاق دے۔ حمزہ شہباز مالی وسعت کے مطابق حق مہر اور گھر وغیرہ کا پابند ہو تو پھر عائشہ احد کو عدت تک انتظار کا پابند بنانا بھی سمجھ میں آجائیگا۔اگر عائشہ احد نے خلع لیا ہو تو پھر اسکے مالی حقوق بھی طلاق سے بہت کم ہوں گے۔ صرف دیا ہوامکمل حق مہراور منقولہ اشیاء کو اپنے ساتھ لے جاسکے گی ۔ طلاق میں منقولہ اورغیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں سے شوہر کو دستبردار ہونا پڑے گا۔سورہ النساء کی آیت19،20اور21میں دونوں چیزیں واضح ہیں۔
جس دن افغان طالبان یا پاکستان کے مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کرلی تو پوری دنیا اسلام قبول کرے یا نہیںکرے مگر مغرب، مشرق، شمال اور جنوب کی ساری دنیا اسلام کے معاشرتی نظام پر متفق ہوجائے گی۔ خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ خاور مانیکا سے بشریٰ بی بی نے طلاق مانگی تھی اور یہی خلع ہے۔ سعودی عرب میں بھی خلع کی عدت ایک ماہ ہے لیکن ہمارے نام نہاد حنفی فقہاء نے خلع اور طلاق کی عدت میں حدیث صحیح کے فرق کو مسترد کرتے ہوئے قرآن کے منافی قرار دیا ہے ۔ حالانکہ خلع اور طلاق دوبالکل ہی الگ الگ معاملات ہیں۔مالی حقوق میں بھی فرق ہے اور عدت میں بھی فرق ہے۔ حنفی مسلک کی سب سے بڑی بنیاد یہی ہے کہ پہلے قرآن وحدیث میں تطبیق کی جائے۔ قرآن و حدیث میں تضادات نہیں ہیں لیکن حنفی فقہاء نے کم عقلی کی بنیاد پر تراش خراش کرکے نکالے ہیں۔
امام اعظم ابوحنیفہ زندگی میں جیل کے اندر تھے اور پھر ان کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ اگر نبی ۖ نے کسی بھی عورت کو بیوہ ہونے کے چند دن بعد نکاح کی اجازت دی ہے تو پھر اس کو خلع کا حق دیا ہے ، جس میں مالی حقوق بھی کم ہوتے ہیں۔ قرآن میں4ماہ10دن کی عدت طلاق کے حقوق کیلئے ہوگی جس میں عورت کے حقوق زیادہ ہیں۔
اسلام اور انسانیت کا فطری دائرہ بالکل ایک ہے۔ جب پیرعلاء الدین کی بیوہ عورت نے دوسری جگہ شادی کی اجازت مانگی تو اس سے کہا گیا کہ علاء الدین کا کچھ قرضہ ہے وہ اتارنا ہوگا۔ اس کی بیوہ پر پابندی لگائی گئی کہ برکی قبائل سے وہ شادی نہیں کرسکتی ہے۔ جبکہ میرے بھتیجے سید ارشد حسین شاہ گیلانی شہید نے بھی پیر علاء الدین کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ اس کی بیوہ کونہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اس کے حقوق سے زیادہ مال واسباب کا مالک بنادیا۔
جب تک عورت کے اسلامی حقوق سمجھ میں نہیں آئیں گے اور اس پر عمل نہیں ہوگا تو مسلمان غلامی کی زندگی سے آزادی کبھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ جن کی عورتوں کو بھی آزادی حاصل نہ ہو تو لونڈیوں کی اولاد کہاں سے آزاد پیدا ہوسکتی ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے طلاق سے رجوع کی علت بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے کی بار بار وضاحت کی ہے لیکن علماء کے دماغ میں ”حتی تنکح زوجًا غیرہ ” اٹک گیا ہے۔ کئی کتابوں اور مضامین کے باوجود بھی ان کا دماغ نہیں کھل رہاہے۔ حالانکہ قرآن بالکل واضح ہے۔
قرآن نے حلالہ کی لعنت سے نکالا ہے اس میں کسی کو دھکیلا نہیں ہے۔ صرف اس صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے کہ جب یہ طے ہوجائے کہ دونوں نے رجوع کرنا ہی نہیں ہے لیکن جب لیڈی ڈیانا سے لیکر بیوہ عورتوں پر بھی پابندی لگائی جائے کہ اپنی مرضی سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ آیت عورت کیلئے بہت بڑی نعمت تھی جس کوناسمجھ علماء ومفتیان نے زحمت بنادیا ہے۔ مسلمان حلالہ کی وجہ سے غیرتمند اور بے غیرتوں میں تقسیم ہونگے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ جون اسپیشل ایڈیشن2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟

طلاق کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقے کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی؟

جب شوہر کا عورت سے نکاح ہوجاتا ہے تو اس رشتے کی باریکی اور مضبوطی کا تعلق دو طرفہ بنیادوں پر اللہ نے رکھاہے۔
شوہر کا انتقال ہوجائے تو عورت عدت پوری ہونے کے بعد زندگی بھر اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ اس کی قبر پر اسکے شوہر کے نام کی تختی لگتی ہے کہ زوجہ فلاں۔ جنت میں بھی قرآن کہتا ہے کہ لوگ اپنی ازواج اور اولاد کے ساتھ ہوں گے۔
لیکن اگر عورت عدت پوری ہونے کے بعد کسی اور شوہر سے نکاح کرلیتی ہے تو اس کا بھی عورت کو مکمل اختیار دیا گیا ہے اور اس کے بعد وہ دوسرے شوہر کی بیوی بن جائے گی۔ پہلے سے اس کا تعلق قائم نہیں رہے گا۔ قرآن وحدیث اور صحابہ سے ان چیزوں کا بھرپور ثبوت ملتا ہے لیکن مذہبی طبقات نے اس معاملے کو اپنی جہالتوں سے بہت بگاڑ دیا تھا، جس کی اصلاح ایک حد تک ہماری تحریرات سے الحمدللہ اب ہوچکی ہے۔
قرآن میں پہلی بار عدت کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت226اور طلاق کا پہلی بار ذکر سورہ بقرہ کی آیت227میں ہے۔
انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ ”پہلا امپریشن ہی آخری امپریشن ہوتا ہے”۔ فقہاء اور مسالک کے علمبرداروں نے پہلے ذکر کا ستیاناس کرکے رکھ دیا ہے۔ قصور قرآن کا نہیں ہے بلکہ جہالت کے اندھیرے میں پھنسے ہوئے ائمہ کا قصور تھا۔
اللہ نے طلاق سے پہلے طلاق کا مقدمہ بیان کردیاہے۔ سورہ البقرہ آیت:224میں واضح کردیا ہے کہ ”تم اپنے عہدو پیمان کو رکاوٹ نہ بناؤ کہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور عوام کے درمیان صلح کراؤ”۔ جب عوام الناس کے درمیان اللہ کے نام پر صلح کیلئے رکاوٹ بننا ممنوع ہے تو پھر جب میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں تو اللہ اور مذہب کو کیسے رکاوٹ بناسکتے ہیں؟۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے کسی بھی حال میں میاں بیوی کے درمیان کوئی ایسا فتویٰ نہیں دیا ہے جس میں وہ صلح چاہتے ہوں اور اللہ اور مذہب اس میںرکاوٹ بنتا ہو۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ البقرہ آیت230میں اللہ نے کیوں فرمایا ہے کہ ”پھر اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کیساتھ نکاح کرلے”۔
اس کا جواب سیدھے سادے الفاظ میں بالکل واضح ہے کہ جب تک سیاق وسباق کو نہ دیکھا جائے تو آیت کا مفہوم سمجھ میں کبھی نہیں آسکتا ہے۔البقرہ آیات231اور232میں یہ واضح ہے کہ ”جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ گئی تو معروف طریقے سے رجوع کرو یا معروف طریقے سے اس کو چھوڑ دو۔ ان کو اسلئے مت روکو تاکہ تم ان کو ضرر پہنچاؤ”۔ اور ” جب تم نے عورتوں کو طلاق دی اور اپنی عدت کو پہنچ گئی تو ان کو مت روکو کہ اپنے شوہروں سے نکاح کریں ،اگر وہ آپس میں معروف طریقے سے راضی ہوں”۔
جب اللہ تعالیٰ آیت230کے بعد کی دو آیات میں حلالہ کے بغیر عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع کی اجازت دیتا ہے تو پھر آیت230کا معاملہ اور پس منظر کیا ہے؟۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے آیت228البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر شوہروں کو ان کے لوٹانے کا زیادہ حقدار قرار دیا تھا۔ جب عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے تو پھر درمیان کی بات بھی حقائق سمجھ کر دیکھنے کی کوشش کریں تو ذرا تدبر سے معاملہ سمجھ آجائے گا۔
سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دے دی ہے۔ جس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔
جہاں تک آیت230البقرہ کا تعلق ہے تو اس سے پہلے آیت229میں بھرپور وضاحت ہے کہ
” طلاق دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ ان کو دیا کہ اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر جب دونوں کو یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ عورت کی طرف سے اس چیز کو فدیہ کردیا جائے۔ یہ اللہ کے حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو اور جو ان سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔
اگر اس وضاحت کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو پھر کوئی ابہام بھی باقی نہیں رہتا ہے۔ اس آیت میں چند وضاحتیں یہ ہیں۔
البقرہ228میں عدت کے تین مراحل واضح ہیں۔البقرہ آیت229میں تین مراحل میں تین مرتبہ طلاق واضح ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان اور علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی اپنی بخاری کی شرح میں یہ حدیث لکھ دی ہے کہ نبی ۖ سے صحابی نے پوچھا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے۔ جس کے جواب میں نبی ۖ نے فرمایا کہ آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کے بعد احسان کے ساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے۔ علاوہ ازیں بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کو بتایا کہ عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی ہے ۔ جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوگئے اور عبداللہ سے رجوع کیلئے کہا اور فرمایا کہ طہر کی حالت میں اپنے پاس رکھویہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر یعنی پاکی کے دن آجائیں اور پھر حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت آجائے تو اگر طلاق دینی ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو اور رجوع کرنا ہو تو اس میں رجوع کرلو۔ یہی وہ ہے عدت ہے جس میں اس طرح اللہ نے طلاق کا امر دیا ہے۔ یہ کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے لیکن بخاری نے ان میں صرف غضبناک کے الفاظ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اگر صحیح بخاری کی تمام کتابوں میں غضبناک ہونے کے الفاظ کا ذکر ہوتا تو اس کا نتیجہ کچھ اور نکلتاکیونکہ اس سے مسئلے کی وضاحت میں بھرپور مدد ملتی
محمود بن لبید کی روایت ہے کہ رسول اللہۖ کو ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے تو اس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو۔ جبکہ میں تمہارے درمیان میں موجود ہوں۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کروں؟۔
اس روایت سے احمق لوگ یہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر ایک ساتھ تین طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا تھا تو نبی ۖ غضبناک نہ ہوتے بلکہ رجوع کا حکم دیتے۔ حالانکہ اس سے زیادہ مضبوط روایت میں ہے کہ نبی ۖ نے غضبناک ہونے کے باوجود بھی رجوع کا حکم دیاتھا جو بخاری میں ہے اور محمود بن لبید کی روایت بخاری ومسلم میں نہیں ہے۔ روایات میں یہ بھی موجود ہے کہ قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے اور یہی واقعہ ہے جس میں عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔
محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط روایت صحیح مسلم میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھ سے ایک مستند شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں۔20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص نے کہا کہ عبداللہ بن عمر نے ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں لوگوں کا رحجان بدل گیا تھا۔رحجان کی تبدیلی کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت کے2سال بعد ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔جس پر اہل علم کے مناظرانہ اور مسلکانہ وفرقہ وارانہ رنجشوں کی وجہ سے امت مسلمہ میں زبردست قسم کی تقسیم آگئی۔
پھر حضرت علی کے شاگردوں کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آگئی کہ کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے۔ جس پر حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جس میں ایک ساتھ تین طلاق کے واقع کرنے پر اتفاق ہوگیا تھا اور حضرت عمر و حضرت علی کے ماننے والے ایک ہوگئے ۔
کاش! یہ لوگ روایات اور اقوال کی طرف دیکھنے کی جگہ قرآن کے بنیادی آیات سے بھی کچھ استفادہ کرنے کی کوشش کرتے۔ لیکن قرآن کو روایات میں کھو دیا گیا۔ خلفاء راشدین کی طرف منسوب کیا گیا کہ اگر بیوی کو حرام کہہ دیا جائے تو پھر سب کا فتویٰ اور فیصلہ الگ الگ تھا۔ حضرت عمر ایک طلاق رجعی قرار دیتے تھے۔ حضرت علی تین طلاق مغلظہ قرار دیتے تھے اور حضرت عثمان اس کو ظہار کے حکم کے مترادف کہتے تھے۔
علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے” زادالمعاد” میں چار خلفاء راشدین اور چار ائمہ مجتہدین کے علاوہ حرام کے لفظ پر دوسرے فقہاء کیساتھ20اجتہادات کا ذکر کیا ہے۔اس کا ذکر صحیح بخاری میں حسن بصری نے کیا ہے کہ ” بیوی کو حرام کہا تو جو نیت کی جائے۔ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے۔ جس کے بعد عورت حلال نہیں ہوتی جیساکہ کھانے پینے کی اشیاء کو حرام قرار دینے کے بعد کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجاتی ہیں”۔ بخاری میں ایک روایت چھوڑ کر حضرت ابن عباس کے قول کو بھی نقل کیا گیا ہے کہ بیوی کو حرام قرار دینے پر کچھ بھی واقع نہیں ہوتا نہ طلاق ، نہ قسم اور نہ کفارہ اور یہی رسول اللہ ۖ کی سیرت کا تقاضہ ہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ کیلئے فرمایا کہ مجھ پر حرام ہے اور اس کا سورہ تحریم میں ذکر ہے مگر یہ توفیق مسالک کے انبار لگانے والوں کو بخاری سمیت کسی کو بھی نہیں ملی ہے کہ قرآن کی سورہ تحریم کا حوالہ دے دیتے اور بس کرتے۔
آیت کا دوسرا حصہ ہے۔ جس میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ نے فرمایا ہے کہ ” اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ بھی ان کو دیا کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ اللہ کی حدود پر دونوں قائم نہیں رہ سکیں گے۔ جب تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر عورت کی طرف سے اس کو فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیںہے اور یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو ان حدود سے تجاوز کرے گا تو یہی لوگ ظالم ہیں”۔ آیت229
اس میں واضح ہے کہ تیسرے مرحلے میں طلاق کا فیصلہ کیا تو تمہارے لئے حلال نہیں کہ ان کو جوکچھ بھی دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو۔ یعنی شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتے مگر کوئی ایسی چیز ہو جو رابطے کا ذریعہ ہو اور اس کی وجہ سے دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ وہ واپس نہیں کی گئی تو پھر وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے یعنی اس چیز کی وجہ سے رابطہ اور تعلق بن سکتا ہے اور دونوں کے جنسی تعلقات کا اندیشہ ہو۔ مثلاً شوہر نے موبائل کی ایک سم دی ہے اور وہ سم شوہر کیلئے واپس لینا حلال نہیں ہے مگر وہ دونوں اور فیصلہ کرنے والے خدشہ رکھتے ہیں کہ اگر یہ ”سم” واپس نہیں کی گئی تو اس کی وجہ سے گڑ بڑ ہوسکتی ہے ۔ پھر اس سے بچنے کیلئے وہ ”سم” عورت کی طرف سے دینے میں کوئی حرج دونوں پر نہیں۔ علاوہ ازیں مکان یا کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جس پر سب کا اتفاق ہوجائے کہ یہ خطرناک ہے۔
حنفی مسلک نے بھی اپنے اصول فقہ میں اسی صورتحال کی بنیاد سے اگلی آیت230البقرہ کی طلاق کو جوڑ دیا ہے اور یہی بات علامہ ابن قیم نے ابن عباس کے حوالے سے بھی لکھ دی ہے اپنی کتاب ”زاد المعادجلد4باب خلع” میں اور اسی بنیاد پر علامہ تمناعمادی نے اپنی کتاب ”الطلاق مرتان” لکھ دی ہے۔ لیکن اس سے خلع مراد لینا غلط ہے اسلئے کہ دو اور تین مرتبہ کی طلاق کے بعد خلع کی کوئی صورت نہیں بنتی ہے۔ حدیث میں تو خلع کی عدت بھی ایک حیض ہے۔ طلاق مرد کی طرف سے ہے اور خلع عورت کی طرف سے ہے۔
آیت230میں طلاق کی وہ صورت ہے کہ جس میں یہ طے ہوجائے کہ دونوں نے صلح نہیں کرنی ہے اور آئندہ رابطے کیلئے بھی کوئی صورت نہیں چھوڑنی ہے۔ اور یہی صورتحال ہی تمام آیات میں واضح طور پر موجود ہے۔ چنانچہ آیت228البقرہ میں اصلاح کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت229میں معروف کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر اصلاح اور معروف کی شرط کے بغیر شوہر رجوع کرے گا تو اس پر رجوع کرنے کے بجائے اسی طرح حلال نہ ہونے ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔ اور اگر اصلاح اور معروف کی شرط ہو تو عدت میں بھی رجوع کی وضاحت ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی سورہ البقرہ کی آیات231،232میں رجوع کی وضاحت موجود ہے اور اسی کا خلاصہ سورہ طلاق کی پہلی دو آیات میں بھی موجود ہے۔
احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ عبداللہ بن عباس نے ٹھیک فرمایا کہ حضرت عمر کے دور سے پہلے تین طلاق کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ طلاق ایک فعل ہے ، جس طرح روزہ دن میں ایک مرتبہ رکھا جاتا ہے اور نکاح ایک بار میں ایک ہی ہوسکتا ہے اسی طرح عدت کے ایک مرحلے میں ایک ہی مرتبہ طلاق ہوسکتی ہے ۔ روزہ اور کھانے پر ہزار بار بھی کہا جائے تو ایک ہی روزہ اور ایک ہی مرتبہ کھانا کھانا مراد ہوگا۔ حضرت عمر نے فیصلہ اسلئے دیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور حضرت علی نے حرام کے لفظ پررجوع نہ کرنے کا فتویٰ اسلئے دیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ حضرت ابن عباس کے جن شاگردوں نے ایک ساتھ کو تین طلاق قرار دیا تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی اور جن شاگردوں نے تین طلاق کو ایک قرار دیا تو اس میں رجوع کیلئے عورت راضی ہوتی تھی۔
طلاق کا اظہار تو بڑی بات ہے جب نبی ۖ نے ایلاء کیا اور آپ ۖ کو معلوم تھا کہ رجوع پر امہات المؤمنین بہت ہی خوش ہوجائیں گی لیکن اللہ نے فرمایا کہ رجوع نہیں کرسکتے۔ پہلے ان کو طلاق کا اختیار دے دو اور پھر وہ چاہیں تو رجوع ہوسکتا ہے۔ یہ صرف قرآن میں عورتوں کے حق کی رہنمائی کیلئے تھا۔
طلاق ونکاح کے نام پرمسالک اور فرقہ واریت نے جس طرح کے بدبودار لیٹرین اور گند کیا ہے اگر عوام کو پتہ چلے گا تو بڑے بڑوں کی بالکل خیر نہیں ہوگی۔ جب حضرت عمر سے کہا گیا کہ عبداللہ بن عمر ہی کو اپنا جانشین بنالو۔ تو حضرت عمر نے کہا کہ اس کو طلاق کے مسئلے کا پتہ نہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کے قابل اس کو سمجھوں گا؟۔ یہ خلافت کیلئے نااہل ہے۔
ابوسفیان اور حضرت عمر میں اس کے علاوہ بھی بہت فرق تھا لیکن جب امام حسن اور امیر معاویہ نے آپس میں صلح کرلی تو شیعہ سنی اہل بیت وصحابہ پر نہیں لڑیں۔ یزیداور مروان بن حکم کے دور میں حضرت حسین اور عبداللہ بن زبیر جب شہید کئے گئے تو حکمران غیر صحابی اور شہداء صحابی تھے۔ صحابہ کی توقیر دل میں ہو تو حسین و عبداللہ بن زبیر کے مقابلے میں یزید ومروان کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی ہے۔ البتہ یزید ومروان سے زیادہ قرآن کے مقابلے میں مسالک اور فرقے بنانے والے مجرم ہیں۔ پہلے تو لوگ بہت سادہ تھے ۔ ملاجیون اور اس کو ماننے والا طبقہ سادگی کے باعث اچھے لوگ تھے۔ اب تو سودی بینکاری کو جواز بخشنے والے اور زکوٰة کو کالعدم قرار دینے کے فتوے والوں کو چالاک وعیار لوگ پہنچانتے بھی ہیں مگر ………….؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی

نکاح کے بارے میں قرآن وسنت کے درست تصورات اور مذہبی طبقات کے اختلافات کے حل کی طرف پیش قدمی

قرآن میں غلام کو ”عبد” اور لونڈی کو”اَمة” کہا گیا ۔ عبد اور لونڈی کو بھی نکاح کا حق دیا گیا ہے۔ بلکہ طلاق شدہ وبیوہ کا جس طرح نکاح کرانے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح غلاموں اور لونڈی کے نکاح کرانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
قرآن نے غلام اور لونڈی کا اسٹیٹس تبدیل کردیا ہے اور مالکانہ حق کی جگہ ملک یمین کا تصور دیا ہے۔ جس کا مطلب ایک ایگریمنٹ ہے۔ جتنے میں غلام یا لونڈی کو خریدا گیا ہے تو اس پر حق ملکیت کا تصور باطل قرار دیا گیا۔اسلئے کہ انسان جانور کی طرح کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت گروی کی قرار دی گئی ہے۔ جب بھی مطلوبہ رقم میسر ہوگی تو لونڈی اور غلام کو آزادی مل جائے گی لیکن دنیا میں غلام بنانے کے طریقے سبھی حرام قرار دئیے گئے۔ جن میںسود، مزارعت،، جنگوں میں غلام بنانا، جوا،بردہ فروشی اور بدمعاشی وغیرہ شامل ہیں۔
نکاح اور ملکت ایمانکم میں فرق یہ ہے کہ نکاح میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اور ملکت ایمانکم ایگریمنٹ ہے جس کا اطلاق غلام اور لونڈی پر بھی ہوتا ہے اور آزاد عورت اور آزاد مرد کا ایک وقتی تعلق بھی ہوسکتا ہے۔ تجارتی معاہدہ بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں جہاں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہاں سیاق اور سباق کو دیکھ کر پتہ چل سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟۔
مثلاً سورہ نساء کی ابتداء میں اللہ نے فرمایا: فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنٰی وثلاث ورباع وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم ”پس نکاح کرو،عورتوں میں سے جن کو چاہو،دودو، تین تین، چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ انصاف نہیں کرسکوگے تو ایک یا جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں”۔ (النساء آیت3)
یہاں لونڈی اور غلام مراد نہیں بلکہ مستقل نکاح کی جگہ وقتی ایگریمنٹ ہے۔ جس میں مالی اور جنسی اتنی طاقت نہ ہو کہ وہ ایک سے زیادہ عورتوں کے ساتھ عدل کرسکے تو پھر ایک عورت یا ایگریمنٹ پر گزارہ کرے۔حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ صحابہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ کیا ہم خود کو خصی بنالیں؟۔ نبیۖ نے منع کیا اور ایک یا دو چادر کے بدلے ایگریمنٹ کی اجازت دے دی اور فرمایا : لاتحرموا ما احل اللہ لکم من الطیبٰت ”حرام مت کرو جن پاک چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے”۔(صحیح بخاری)
جس میں ایک بیوی رکھنے کی بھی صلاحیت نہ ہو تو وہ اس طرح ایگریمنٹ پر گزارہ کرسکتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود کی بیگم نہیں تھی اور حضرت عثمان نے کسی عورت سے نکاح کی پیشکش کردی تو عبداللہ بن مسعود نے اس کا انکار کردیا۔ مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس پاکستان نے بخاری کی شرح میں اس پیشکش کو مسترد کرنے کی وجہ انتہائی غلط لکھ دی ہے کہ قرآن کو جمع کرنے کے مسئلے پر ناراض تھے کہ ان کو شریک کیوں نہیں کیا گیا۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ لکھتے کہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ جب بازار میں دودھ ملتا ہو تو بھینس رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ قرآن کی تحریف کو تقویت دینا انتہائی بڑے درجے کا کفر ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے لکھ دیا ہے کہ ” صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی نے کہا کہ ” رسول اللہ ۖ نے ایک دو گتوں کے درمیان قرآن کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا ہے”۔ اور یہ بخاری نے شیعوں کے مؤقف کو رد کرنے کیلئے لکھ دیا ہے کہ تم قرآن کی تحریف کے قائل ہو لیکن تمہارے علی تحریف کے قائل نہیں تھے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ علی کی یہ بات غلط ہے ۔ قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ (کشف الباری :مولانا سلیم اللہ خان)
مولانا سلیم اللہ خان کی اس بکواس کو اس کے نالائق اور جاہل شاگردوں نے مرتب کرکے بہت غلطی کی ہے اور اس کی اعلانیہ تردید اور اس سے توبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ البتہ صحیح بخاری میں امام ابوحنیفہ کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایک ساتھ تین طلاق کی روایت غلط نقل کی گئی ہے۔اسی طرح سے فتح خیبر کے حوالہ سے گھریلو گدھوں اور متعہ کی حرمت شیعہ کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کیلئے نقل کی گئی ہے جس کوبخاری کے اندر کے تضاد کی وجہ سے رد کرنا ضروری ہے اسلئے کہ متعہ کو جواز فراہم کرنے والی روایت مرفوع ، زیادہ معتبر اورواضح ہے اور فتح خیبر تک گھریلو گدھوں کا کھانا بھی انتہائی غلط ہے۔
عبداللہ بن مسعود پر الگ مصحف کا الزام بھی غلط ہے جس شخص نے ابن مسعود کے مصحف کی زیارت کی اور اس میں اس نے سورہ فاتحہ اور آخری دوسورتوں کو نہیں پایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلا اور آخری صفحہ پھٹ کر ضائع ہوچکا تھا۔ جیسا مساجد میں بہت قرآن ہوتے ہیں لیکن اس پر کہانیاں گھڑی گئی ہیں۔ جہاں تک فما اسمتعتم منھن کے ساتھ الی اجل مسمی کے اضافے کی بات ہے تو وہ عبداللہ بن مسعود نے جلالین اور تفسیرابن عباس کی طرح تفسیر لکھ دی ہے۔ اگر یہ اضافی آیت ہوتی تو حنفی مسلک کے نزدیک خبر واحد کی آیت بھی آیت ہی کے حکم میں ہے ،پھر تو احناف کے نزدیک متعہ جائز ہونا چاہیے اسلئے کہ خبرواحد کی آیت سے ثابت ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے ۔
آج اگر ہم لکھ دیں کہ عبداللہ بن مسعود، بخاری ومسلم، اصول فقہ میں قرآن کی تعریف ، مولانا انورشاہ کشمیری کے فیض الباری اور مسلک حنفی میں قرآن کی تحریف ثابت ہے تو لوگ ڈنڈے لیکر پیچھے پڑجائیں گے کہ تم تحریف کے قائل ہو؟۔ مگر جب ہم ان کی تردید کررہے ہیں تو کوئی حمایت نہیں کرتا ؟۔
بیوہ کو خاوند کے مال کا1/8ملتا ہے نبیۖ نے درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑی تو حضرت عائشہ و دیگرنبی ۖ کی ازواج مطہرات اپنے اپنے حجروں کی مالک بن گئی تھیں۔اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ گھر کی مالکن عورت ہی ہوتی ہے۔ فرمایا: لاتخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن الا ان یاتین بفاحشة مبینة ” ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیںمگر جب وہ کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں”۔ سورۂ طلاق
سویڈن قانون کے مطابق جب میاں بیوی میں جدائی ہو تو ان کا مشترکہ گھر دونوں میں تقسیم ہوگا۔ ہم سویڈن میں ایک شخص کے مہمان تھے جس کی بیوی سے جدائی ہوگئی تھی اور اس نے بتایا کہ اس نے سارا گھر بیوی کو دے دیا اسلئے کہ عورت پر اسے رحم آیا اور قانون کے مطابق اس نے اپنا حق نہیں لیا۔
اسلام میں عورت پر یہ احسان نہیں ہے کہ اس کو طلاق دی جائے اور گھر اس کیلئے اور اس کے بچوں کیلئے چھوڑد یا جائے۔ بلکہ یہ طلاق کے بعد عورت کا اپنا حق ہے۔ اس نے جب نکاح کرلیا تو اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مرد کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے ایسے حقوق رکھے ہیں کہ جب انسانیت کو پتہ چل جائے تو پھرسارا انسانی معاشرہ ہی بدل جائے گا۔ گھر بھی اسی کا ہے۔ خرچہ بھی شوہر ہی کی ذمہ داری ہے۔ شوہر کی وسعت کے مطابق حق مہر بھی اس کا حق ہے۔ آج پوری دنیا کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ فقہاء نے لکھ دیا ہے کہ بیوی کا علاج معالجہ شوہر کے ذمے فرض نہیں ہے۔ حالانکہ کھانے پینے کی طرح علاج معالجے کی اہمیت ہے اور اس کیلئے بیوی کس کے پاس جائے ؟۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے بڑا کمال کردیا کہ اپنے اکابر ین سے انحراف کرکے لکھ دیا ہے کہ ”علاج کرنا بھی شوہر کی اخلاقی ذمہ دای ہونی چاہیے”۔
مولانا محمد منظور نعمانی کے بیٹے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی خط لکھ کر مفتی تقی عثمانی سے پوچھتے ہیں کہ ”حق مہر کی شریعت میں حیثیت کیا ہے؟”۔ جس کے جواب میں لکھ دیا کہ ” یہ اعزازیہ ہے”۔ اعزاز میں تو ایک چونی کا انعام بھی بہت ہوتا ہے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ” جس کے نزدیک چور کا ہاتھ جتنی رقم میں کٹتا ہے ، اتنی کم ازکم رقم حق مہر میں دینی فرض ہے۔اسلئے کہ جتنی رقم میں چور اپنے ایک عضوء سے محروم ہوتا ہے اتنی رقم میں شوہر اپنی بیوی کے ایک عضوء کا مالک بنتا ہے”۔
حالانکہ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ امیر پر اپنی وسعت اور غریب پر اپنی حیثیت کے مطابق حق مہر فرض ہے۔ جب کسی صحابی نے نبی ۖ سے اس عورت کا رشتہ مانگا تھا جس نے خود کو نبیۖ کیلئے ہبہ کردیا تھا تو نبی ۖ نے مالی حیثیت پوچھ لی اور اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ ایک لوہے کی انگوٹھی سے بھی حق مہر ادا ہوسکتا ہے بلکہ اس صحابی کی پوری ملکیت یہی تھی۔ اور وہ ایک گھر کا مالک تھا۔ اس کے باوجود اللہ نے فرمایا کہ نبی کے علاوہ کسی اور کا یہ حق نہیں کہ کوئی عورت خود کو اس کوہبہ کردے۔
ایک آدمی کھرب پتی ہے یا ارب پتی ہے یا کروڑ پتی ہے یا لکھ پتی ہے یا مسکین ہے۔ تو اگر اس نے نکاح کرلیا اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی تو اپنی حیثیت کے مطابق اس پر حق مہر کا نصف دینا فرض ہے۔ یہ اس کی مرضی پر نہیں بلکہ اس کی مالی حیثیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے۔
بیوہ کو1/8ملتا ہے اور وہ گھر کی مالکن بھی بنتی ہے تو حق مہر اس کی حیثیت کے مطابق سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ عام حالات میں بیوی خود کواپنے شوہر کے مال کا مالک سمجھتی ہے اور وہ ایک حد تک مالک ہوتی بھی ہے ۔ لیکن جب جھگڑا یا طلاق کا مسئلہ آتا ہے تو اس کو ہر چیز سے محروم کردیا جاتا ہے۔
قرآن وسنت اور فطرت نے جو حقوق ایک بیوی کو دئیے ہیں وہ طلاق کی صورت میں ہر چیز سے محروم کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اسکے بچے بھی چھن جاتے ہیں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔ یہ قرآن وسنت اور اسلام نہیں ہے بلکہ علماء وفقہاء کے خود ساختہ مسالک ، فرقے اور مذاہب ہیں۔
مسلمانوں میں رائج نکاح میں جب عورت کو نکاح کے حقوق حاصل نہیں ہیں تو اس کو کیا نام دیا جاسکتا ہے؟۔ یہ جائز ہے یا ناجائز حرام کاری ہے؟۔ اللہ نے واضح کیا ہے کہ طلاق کے بعد شوہر کیلئے حلال نہیں ہے کہ عورت سے کچھ بھی واپس لے،اگرچہ اس کو بہت سارا مال دیا ہو اور نہ ہی مال واپس لینے بہتان طرازی کرنے کی اس کو اجازت ہے۔ (النسائ:20)
ہمارے ہاں رائج نکاح پر نکاح کا نہیں بلکہ ایگریمنٹ کا اطلاق ہوتا ہے اسلئے کہ نکاح کے قانونی حق سے عورت بالکل محروم ہوتی ہے۔ اسلام سے قبل لونڈی کیساتھ بھی وہ ناجائز نہیں ہوتا تھا جو علماء ومفتیان نے نکاح کے نام پر عورت کے ساتھ زیادتیوں کی اجازت دی ہے۔ بیوی سے شوہر کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق ۔ پھر اپنی بات سے مکر جاتا ہے تو اس پر بیوی کو حرام قرار دیا گیا ہے اور بیوی کیلئے وہ شوہر حرام قرار دیا گیا ہے اسلئے عورت کو خلع لینے کا حکم ہے لیکن اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت اس کے ساتھ حرامکاری کی مباشرت کرے لیکن لذت نہیں اٹھائے۔ دوسری طرف یہ بکواس مسئلہ بھی بتایا ہے کہ اگر چندازواج میں سے کسی ایک کو طلاق دیدی جائے اور یہ تعین نہ ہو کہ کس عورت کو طلاق دی ؟۔ تو باری باری سب سے مباشرت کرے ، جس میں زیادہ لذت ہوگی وہی طلاق ہوگی اسلئے کہ حرام میں لذت زیادہ ہوتی ہے۔
نکاح ، طلاق اور خلع کے مسائل میں قرآنی آیات سے انحراف کرکے وہ گل کھلائے ہیں،جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنا فضل کیا ہے اور دین کی سمجھ دی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی سے بھی اس دور میں ملاقاتیں کی تھیں اور قبلہ ایاز صاحب سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں سرکاری سطح پر سبھی فرقوں اور مسالک کی نمائندگی ہوتی ہے اور اس میں مزید اچھے لوگوں کو بھی دعوت دے کر آج مسائل کا حل کرسکتے ہیں۔
ایلاء کی عدت چار ماہ اور طلاق کی عدت تین ماہ ہے۔ بیوہ کی عدت 4ماہ10دن اور خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ طلاق میں عورت سے دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء واپس نہیں لے سکتے ہیں لیکن خلع میں عورت کو گھر چھوڑنا پڑتا ہے اور غیر منقولہ دی ہوئی جائیداد سے بھی دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
مذاق اور سنجیدگی میں طلاق اس وقت معتبر ہے کہ جب وہ رجوع کیلئے راضی نہ ہو اسلئے کہ طلاق میں اس کے زیادہ حقوق ہیں۔ طلاق صریح اور طلاق کنایہ کے تمام الفاظ بھی عورت کے حق کو تحفظ دینے کیلئے ہیں۔ اگر شوہر نے ایلاء کیا جس میں کوئی صریح طلاق نہیں ہوتی ہے تو شوہر یکطرفہ رجوع نہیں کرسکتا ہے بلکہ رجوع سے پہلے عورت کو طلاق کا اختیار دینا ضروری ہے۔ اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ اسے پکڑے گا اسلئے کہ یہ دل کا گناہ ہے اور اس کی وجہ سے عورت3کی جگہ4ماہ تک انتظار کرے گی۔ اس ایک ماہ کی زیادہ عدت پر بھی شوہر کی پکڑ ہوگی۔
جب طلاق کا اقدام یا علیحدگی کے اسباب شوہر نے پیدا کئے ہوں گے تو عورت کو طلاق کے حقوق ملیں گے اور جب خلع عورت کی طرف سے ہوگا تو پھر عورت کو گھر اور منقولہ جائیداد سے دستبرداری اختیار کرنی پڑے گی۔ اگر قرآن وسنت کے یہ قوانین مسلمان معاشرے میں رائج ہوتے تو مغرب اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بیوی و شوہر کیلئے جمہوریت کی قانون سازی نہیں کرنی پڑتی۔ عیسائیوں میں 3سو سال پہلے تک طلاق کی شرعی اجازت نہیں تھی۔ عیسائیوں نے قرآن سے ہی متاثر ہوکر اپنے ہاں طلاق کیلئے قانون سازی کردی ہے۔
اگر مسلمانوں میں نکاح اور ایگریمنٹ کے حقوق واضح ہوتے تو عیسائی اور ترقی یافتہ ممالک کے لوگ اسلام ہی کو رائج کرتے۔ نکاح کے بعد طلاق و خلع کے حقوق جدا ہوتے اور اگریمنٹ میں بھی عورت کسی ایک شخص کے ساتھ پابند ہوتی۔ جس سے اولاد کی شناخت کو تحفظ ملتا اور عدت کی پابندی سے ایڈز وغیرہ کی بیماریاں بھی دنیا میں نہیں پھیل سکتی تھیں۔
قرآن وحدیث سے بھی مذہبی طبقہ ناواقف ہے اور نکاح وطلاق اور خلع کے احکام کے بارے میں بھی غفلت میں ہے۔ جس دن مذہبی طبقے کا رخ پھر گیا تو بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ مئی2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟

تبلیغی جماعت کہتی ہے کہ لاالہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین مگر حلالہ کی کیاکامیابی ہے؟

تبلیغی جماعت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم بتاتی ہے ” اللہ کے حکمو ں میں کامیابی اور غیروں کے حکموں میںناکامی کا یقین آجائے ۔ نبی ۖ کے طریقوں میں کامیابی اور غیروں کے طریقوں میں ناکامی کا یقین ہمارے دلوں آجائے”۔
تبلیغ کی بدولت مدارس اور خانقاہیں آباد ہیں ۔ چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔ بہت سارے خواجہ سراؤں کو عزت ،انسانیت اور دین کی خدمت کا موقع ملا ہے۔ کچھ خرابیاں انسانوں کی اجتماعیت میں افراد سے سرزد ہوجاتی ہیں ۔ نبیۖ کے دور میں ذوالخویصرہ، ابن صائد ، رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اور بے ایمان قسم کے اعرابی بھی تھے تو انکی وجہ سے صحابہ کی مقدس جماعت کو برا کہنا کتنا برا ہے؟۔
علماء دیوبندنے مدارس، آزادی، تبلیغ اورخانقاہی نظام میں اسلام کی بہت خدمت کی ہے ۔ ہماری تعلیم وتربیت بھی علماء دیوبند سے منسلک ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا : وعصٰی اٰدم ربہ ”اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی”۔ تاکہ قیامت تک انسان کو اپنی غلطی کو صحیح کہنے پر اصرار نہ کرے ۔بہتر ہے کہ اپنی اصلاح پر زیادہ اور دوسروں کی تردید پر کم توجہ دی جائے ۔ نبی ۖ نے صحابہ کرام کے تزکیہ ،کتاب و حکمت کی تعلیم میں نبوت کا فرض اداکیاتھا۔
چمن کے مولانانے تبلیغی جماعت کے خلاف کہا کہ ” رائیونڈ کے فاضل نے گواہی دی ہے کہ یہ اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم پیغمبروں والا کام کرتے ہیں۔ ایک تبلیغی نے کہا کہ انبیاء سے زیادہ ہم تکالیف اٹھاتے ہیں ۔ یہ لوگ قادیانیوں سے بدتر ہیں۔ ایسی بے غیرت جماعت مسلمانوں کی تاریخ میں بھی نہیں گزری ہے”۔ان بیچاروں کو حلالہ کی لعنت کا شکار بناکر بے غیرت بنایا گیا جو علماء کا قصور ہے۔ ایک اہلحدیث عالم نے بھی گل چاہت معاویہ کی ویڈیو کا کلپ دکھایا کہ ” میرے ساتھ پیغمبری راستے میں زیادتی کی گئی ، جن میں بڑے اکابر بھی شامل تھے لیکن ان کا نام نہیں لوں گا”۔ پھر دیوبندیوں کو برا بھلا کہہ دیا۔
تبلیغی جماعت کے کارکنوں سے علماء کے مدارس، مساجد، مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی تعداد کم نہیں ہے لیکن انہوں نے کونسا تیر مارا ہے؟۔ جو فرائض اور واجبات علماء ومفتیان نے بتائے ہیں تبلیغی جماعت اس پر عمل کرتی ہے۔غسل، وضو اورنماز کے فرائض ، واجبات ، سنتیںاور مستحبات علماء ومفتیان پڑھ کر بالکل بھول جاتے ہیں لیکن تبلیغی جماعت کے کارکن بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ علماء دیوبندجن چیزوں کو بدعات قرار دیتے ہیں تبلیغی جماعت نے نہ صرف عوام الناس بلکہ فضلاء دیوبند کو بھی ان بدعات سے روکنے کی بڑھ چڑھ کر کوشش کی۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے ایک ضخیم کتاب لکھ ڈالی کہ” سنت نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے”۔ ہمارے آبائی شہر کانیگرم جنوبی وزیرستان میں جب دیوبندی عالم مولانا شاداجان نے سنت کے بعد دعا کو بدعت قرار دیا تومولانامحمد زمان نے اس پر قادیانی کا فتوی لگایا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولوی اشرف خان ہماری مسجد کے امام سنتوں کے بعد اجتماعی دعا مانگتے تھے۔
ہماری مسجد کا نام ”درس” تھا اسلئے کہ میرے اجداد طلبہ کو یہاں درس دیتے تھے۔ اب تبلیغی جماعت نے رائیونڈ میں اس کو گلزار مدینہ کے نام سے متعارف کیا ہے۔جب میں نے وہاں تقریر کی کہ تبلیغی جماعت فضائل کی تعلیم دیتی ہے۔ اس کا طریقہ کار چار مہینے، چلہ، سہ روزہ، جمعرات کا اجتماع اور گشت وغیرہ ایک مستحسن عمل ہے ۔ یہ فرض ، واجب اور کوئی سنت نہیں ہے تو تبلیغی جماعت کا امیر گل ستار اُٹھا اور کہنے لگا کہ مفتی زین العابدین نے کہا کہ ” تبلیغی جماعت کا کام فرض عین ہے”۔ اس پر یہ طے ہوا کہ علماء کرام کی محفل بلاکر فیصلہ کیا جائے گا اور پھر میری غیر موجودگی کی خبر پاکر شہر کے علماء کو بلایا گیا۔ جب وہ ہماری مسجد میں جمع ہوگئے تو میں بھی ٹیپ ریکارڈر ساتھ لیکر اپنے ساتھیوں کیساتھ پہنچ گیا۔ جس سے وہ گھبرا گئے اسلئے کہ انہوں نے یکطرفہ ٹریفک کا کھیل سمجھ رکھا تھا۔ بہر حال وہ بہت لمبی بات ہوجائے گی۔ علماء نے میری طرف سے لکھ دیا کہ” میں نے آخری مہدی کا دعویٰ نہیں کیا ہے اور تبلیغی جماعت کا کام مستحسن ہے”۔ جس پر سب نے دستخط کئے۔ جب حاجی محمد عثمان کے خلاف تبلیغی جماعت نے پروپیگنڈہ شروع کیا کہ آپ تبلیغی جماعت کے خلاف ہیں تو دارالعلوم کراچی سے مفتی تقی عثمانی اور جامعة الرشید کے مفتی عبدالرحیم و مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے دارلافتاء ناظم آباد سے تبلیغی جماعت کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ فتویٰ لینے والے تبلیغی جماعت کراچی کے امیر بھائی امین کے بیٹے مولانا زبیر شیخ الحدیث مولانا زکریا کے خلیفہ تھے مگر انہوں نے عبداللہ کے نام سے فتویٰ لیا تھا۔ جب تبلیغی جماعت کے مرکزی مدنی مسجد کے امام نے ہمارے ساتھیوں سے ملاقات کی تو اس بیچارے کو امامت سے نکال دیا گیا تھا۔ ہماری تبلیغی جماعت سے ہمدردیاں ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ۔
کئی تبلیغی جماعت کے افراد نے حلالہ کے حوالہ سے ہمارا فتویٰ دیکھ کر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور حلالہ کے بغیر رجوع بھی کرلیا ہے۔ سیدھے سادے لوگوں کی عزتیں حلالہ کے نام پر لٹوانے کے بجائے تبلیغی جماعت کو اعلانیہ اللہ کے احکام کی تبلیغ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن کے واضح احکام میں صلح اور معروف کی شرط پر حلالہ کے بغیر بار بار رجوع کی گنجائش واضح ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv