نومبر 2022 - Page 3 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

کیا پاکستان میں سودی قرضوں کے طوفان نوح سے بچنے کیلئے کرپشن کشتی نوح ہے؟

کیا پاکستان میں سودی قرضوں کے طوفان نوح سے بچنے کیلئے کرپشن کشتی نوح ہے؟

مشرف نےIMFسے6ارب ڈالر قرضہ لیا ، زرداری نے مزید10ارب ڈالر قرضہ لیا اور نواز شریف نے30ارب ڈالر تک قرضہ پہنچادیا تھا

ریاست اور عوام نے مفت کینسر ہسپتال کے بانی اور چندوں کے اُستاد عمران خان کو منتخب کیا تو ساڑھے3سال میں48ارب ڈالر تک پہنچادیا

جنرل ایوب خان کو ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں لوگ اسلئے یاد کرتے تھے کہ انکے دور میں مہنگائی کم تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد پہلی مرتبہ بنیظیر بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا تو پاکستان نے پہلی مرتبہIMFسے قرضہ لیا۔ زرداری کے گھوڑوں کا خرچہ، سوئس اکاونٹ ، سرے محل اور دوبئی کی رہائش گاہ وغیرہ بعد کی جائیدادیں ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے اس کی حکومت ختم ہوئی۔ پھر نوازشریف نے اقتدار سنبھال لیا تو لندن فلیٹ سے لیکر دنیا بھر میں اپنی دولت بنائی۔ کرپشن ہی کے الزام اس کی حکومت گئی۔ ان دونوں کی دو دوبار کی حکومتوں میںIMFکے سودی قرضے بڑھ گئے۔ پرویزمشرف نے2004میںIMFسے پاکستان کو چھڑا دیا لیکن2008میں پھر6ارب ڈالرکا قرضہIMFسے لیا۔ زرداری اگر معیشت ٹھیک کرسکتا تھا تو یہ قرض ختم یا کم کردیتا لیکن اس نے10ارب ڈالر مزید لیکر پاکستان کو16ارب ڈالر کا مقروض کردیا۔ نوازشریف آیا تو اس نے مزید14ارب ڈالر لیکر پاکستان کوIMFکے سودی گردشی قرضے کے شکنجے میں30ارب ڈالر تک پھنسادیا۔ ہم نے اس وقت لکھ دیا تھا کہ دفاعی بجٹ سے بھی ڈیڑھ گنا سودی گردشی کا قرضہ بڑھ گیا ہے اور پاکستان دیوالیہ بن جائیگا۔ عمران خان نے چندوں سے کینسر ہسپتال کی طرح ملک چلانے کا وعدہ کیا تو اس نے کم مدت میں48ارب ڈالر تک قرضہ پہنچادیا تھا۔موجودہ حکومت نے عوام کے سامنے مہنگائی مارچ کئے اور حکومت پر خوب گولے برسائے ۔ اپنے زرخرید صحافی بھی پیچھے لگائے لیکن جب خود ساڑھے تین ماہ میں اتنی مہنگائی کرلی کہ لوگ عمران خان کے ساڑھے چار سال بھی بھول گئے۔ سیلاب زدگان کے فنڈز بھی لگتا ہے کہ بالکل کھا گئے ہیں۔ ایک مریم نواز تھی جو عمران خان کو ترکی بہ ترکی جواب دیتی تھی لیکن پنجاب کے ضمنی الیکشن میں شکست کے بعد دل شکستہ ہوکر قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن سے باہر بھاگ گئی۔ موجودہ حکومت نےIMFکا قرضہ مزید تیز رفتاری سے بہت بڑھا دیا ہے۔ احمقوں کی جنت میں رہنے والے سمجھتے ہیں کہ وہ معیشت بہتر کرلیںگے۔ پالیسی شاید یہ ہے کہ پیٹرول وڈیزل کی قیمت بڑے پیمانے پر بڑھا کر پھر معمولی کم کیا جائے اور جیو ٹی وی چینل میں خبریں لگائی جائیں کہ پیٹرول کی قیمت کم کرنے کا دھماکہ۔ ڈالر میں بارود پھٹ گیا اور پاکستانی روپیہ کے مقابلے میں نیچے آگیا۔ لوگ ابھی ان جھوٹی کہانیوں میں آنے والے نہیں ہیں۔ صحافی کبھی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلنے کی تھوڑی صلاحیت رکھتے تھے ، اب عوام کو یہ بالکل ایک کھلا مذاق لگتا ہے۔
سودی گردشی قرضہ بڑھے گا تو معیشت کیسے ٹھیک ہوگی اور مہنگائی پر قابو پانا کیسے ممکن ہوگا؟پرویزمشرف کے بعد6ارب ڈالر سے60ارب ڈالر تک سود پہنچے گا تو کتنے پیسے ادا کرنے پڑیںگے؟۔ نوازشریف نے30ارب ڈالر تک پہنچادیا تھا تو دفاع سے ڈیڑھ گنا صرف سودکی مد میں ادا کرنے والی رقم تھی اب تو دفاع سے تین گنا بڑھ گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایکس ٹینشن بھی اسلئے نہیں لے رہاہے کہ اس معاشی گھمبیر صورتحال میں کوئی دیوانہ ذمہ داریوں کو قبول کرے گا۔ جو سیاسی جماعتیں اقتدار کیلئے مررہی ہیں ان میں شرم نہیں۔
ریاست اور حکومت کا حجم اتنا بڑھ گیا کہ جب تک بھاری بھرکم سودی قرضہ نہ لیاجائے توہیرونچی کی طرح ہاتھ پھیلائے بغیر اس کا خرچہ بھی نہیں چلتا ہے۔ سب سے پہلے معاشی اور سیاسی استحکام ضروری ہے لیکن جب ریاست کی چولیںPDMکے بعد اب عمران خان نے ڈھیلی کردی ہیں تو ریاستی استحکام کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ جب اکیلا مولانا فضل الرحمن لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچ گیا تھا تو فوج کو زبردست دھمکیاں دیں اور لعن طعن کی ۔ جس پرDGISPRنے کہا تھا کہ ”آئندہ الیکشن میں ہم نہیں آئیںگے”۔ پہلے سیاسی جماعتوں کیلئے فوج کا نام لینا بھی ممکن نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اوریامقبول جان وغیرہ کی موجودگی میں لطیفہ سنایا کہ ایک عورت کے شوہر کا نام ”رحمت اللہ” تھا جس کو وہ ”منے کا ابا” کہتی تھی جب نماز پڑھتی تھی تو سلام پھیرتے وقت بھی کہتی تھی کہ ”السلام علیکم منے داابا”۔ جہاں سے نام لینا شروع ہوگیا تھا اور اس سے پہلے بھی خلائی مخلوق کا نام لینے سے بھی بلاول بھٹو ڈرتا تھا۔ پھر سلیکٹڈ کہنا شروع کردیا۔
ہم نے صحافت کا حق ادا کرتے ہوئے شہہ سرخی میںلکھا تھا” خلائی مخلوق لیٹرین کے گٹر سے لوٹے بھر بھر کر قومی اسمبلی میں پہنچارہی ہے”۔ISIنے مجھے بھی وارننگ دی تھی کہ ہمارے خلاف مت لکھو، ورنہ اخبار وغیرہ بند ہوجائے گا۔ پہلے بھی نقصان پہنچ چکا ہے۔ میں نے جواب دیا تھا کہ میرے اندر اتنی طاقت تو نہیں ہے کہ آپ سے لڑ سکوں لیکن اگر اخبار بند کردوگے تو ہم اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش ہوکر غم نہیں کھائیںگے اسلئے کہ جتنا ہم کرسکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں کریںگے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھاگ کر جان بچائی تھی اور اب ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی باہر بھی نہیں جاسکتا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے ریاست بہت کمزور نظر آتی ہے اور یہ مفاد پرستی ہے کہ اپنے مفاد کیلئے اس پر تنقید کرنا چھوڑ دو۔ اس پر تنقید سے ہی اس کو فائدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے شرعی مسائل تک خود کو محدود رکھو اور ہم بھی آپ سے تعاون کریںگے۔ میں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ اگر ریاست نے ساتھ دیا تو لوگ امام ابوحنیفہ اور بڑے بڑوں کو بھول جائیںگے اور مجھے بہت بڑا فقہی امام مان لیںگے لیکن یہ مفاد پرستی ہے اور اس کا مرتکب ہونا میرے ضمیر کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی تنقید کسی میڈیا میں نہیں ہے جتنی آپ کرتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ بتاؤ کہاں کیا بات غلط لکھی ہے؟۔ کہنے لگا کہ لکھتے تو بہت زبردست ہو۔ آخر میں پوچھا کہ ہماری طرف سے کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی ہے۔ میں نے کہا کہ فون آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب کسی کا آئے تو ہمیں بتانا اور پھر کبھی ایسا فون نہیں آیا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ غریدہ فاروقی کو مردوں میں نہیں جانا چاہیے اور جب وہ اپنی عزت کا خود خیال نہیں رکھتی ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔ عورتوں نے اس کا بالکل بجا طور پر بہت برا منایا لیکن عمران خان اپنی بات درست طریقے سے نہیں کہہ سکا تھا۔ عمران خان کا مطلب یہ تھا کہ غریدہ فاروقی تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے تو ان کو ہمارے جذباتی کارکنوں میں نہیں آنا چاہیے۔ کاش وہ اس بات کا بھی سوچ لیتے کہ فوج کے خلاف بات کرنے سے صحافیوں کو دور ہونا چاہیے ،اگر وہ فریق بنیںگے تو جذباتی لوگوں کی طرف سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ جس طرح کیپٹن صفدر اورمریم نواز کے مسئلے پر ایک فوجی افسر نے جذباتی ہوکر سندھ پولیس کے افسر کی بے عزتی کی تھی جس پر سندھ پولیس نے ایکشن لیا تو جنرل قمر جاویدباجوہ نے اس کو ہٹادیا۔
اگر شہباز گل اور اعظم سواتی پر درست انداز میں شکایت لگائی جاتی تو شاید اس کا ازالہ بھی کردیا جاتا لیکن صحافیوں نے ماحول میں ایسا بگاڑ پیدا کیا کہ عمران خان اور فوجی قیادت کو بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ کیسے معاملات بگڑ گئے ؟۔ نجم سیٹھی مسلسل ایک طرف عمران خان کا گراف گرانے کیلئے ن لیگ سے گٹھ جوڑ کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف عمران خان کو منصوبہ بندی سے اوپر چڑھانے کا الزام بھی لگاتا ہے ، جو صورتحال بھی ہوگی تو اپنے سابقہ کلپ دکھائے گا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو پہنچاہے۔ جھوٹ کی مدد سے الٹا نقصان پہنچتا ہے اور وہ بہت سے دوسرے صحافی بھی پہنچارہے ہیں۔
اعظم سواتی نے پٹھان غریب خاندان کیساتھ جو سلوک روا رکھا تھا یہ اس کی بد دعائیں ہیں کہ سچا یا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے خود کو زندہ لاش کہہ رہاہے۔ بلوچ و پشتون قوم پرستوں کو فوج کو ذلیل کرنے یا بچانے کی خاطر نہیں اپنے لئے واضح کرنا ہوگا کہ ان کے ساتھ تو جنسی زیادتی نہیں ہوئی ہے؟۔ اگر نہیں ہوئی ہے تو پھر اعظم سواتی اور شہباز گل کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ عمران ریاض اور سمیع ابراہیم نے مطیع اللہ جان پر جنسی تشدد کا الزام لگایا تھا لیکن اب وہ خود خوار ہیں۔
وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ عمران خان کہتا ہے کہ فوج نے مجھے بحال کردیا تو لڑائی ختم ہے لیکن یہ مسائل کا حل تو پھر بھی نہیں ہے۔ معاشی استحکام کی بنیاد عوام کو بھوک پیاس سے نجات دلانی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے ،ا سلامی تعلیمات کے مطابق مزارعین کو مفت زمینیں دی جائیں تو حکومت کو عشر سے بڑا کچھ ملے گا۔ جس سے کامریڈ اور مذہبی طبقہ دونوں ریاست کی تائید میں سرگرم نظر آئے گا۔ روس بھی اتنی بڑی پیش رفت دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہوگا۔ چند جاگیرداروں کی ناراضگی کے عوض بڑے پیمانے پر عوام خوشحال ہوجائے گی۔ ہم کوئی مزارع نہیں بلکہ اس کا اثر ہمارے گھر اور خاندان پر بھی پڑے گا۔ ابتداء تو اپنی ذات سے کرنی ہوتی ہے۔ عمران خان اس کا اعلان کردے تو پتہ چلے گاکہ ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہے یا نہیں؟۔ معراج محمد خان نے مجھے کہا تھا کہ تحریک انصاف کو بھی میں نے منشور بناکر دیا تھا آپ کو بھی بناکر دیتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ قرآن وسنت بذات خود بڑا منشور ہے اور ہمارا آئین بھی اس کا تقاضہ کررہا ہے۔ صرف عمل کرنے کی بات ہے۔ جاگیردار مزارعین کے ووٹ سے جیت کر آتے ہیں جب مزارعین آزاد ہونگے تو حقیقی آزادی کا سفر اس وقت شروع ہوگا اور ہم عمران خان کی سیاسی سرگرمیوں کیخلاف نہیں ۔ دس ماہ تک احتجاج جاری رکھنا ہے تو عوام کیلئے ٹینٹ لگادیں۔بیرون ملک سے چندے آئیں گے اور کافی لوگ اتنے عرصہ تک روٹی روزی کھائیں گے اور دیہاڑیاں لیںگے تو معیشت کا بوجھ کم ہوجائے گا۔ سیلاب زدگان کو بھی اپنے پاس بلالیں تاکہ سیاسی شعور کا دائرہ اندورن سندھ تک بھی پہنچ جائے۔ حکومت اور ریاست ستو پی کے سوئے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

علم و شعور کی بنیاد پر اختلاف رحمت ہے لیکن جاہل اختلاف کو دشمنی میں بدل دیتا ہے۔

علم و شعور کی بنیاد پر اختلاف رحمت ہے لیکن جاہل اختلاف کو دشمنی میں بدل دیتا ہے۔

پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ! اس کا ایک منفی پہلو ہے کہ سب بتوں کی نفی ہے اور دوسرا مثبت پہلو ہے کہ اللہ پاک کی معبودیت کا اقرارہے!

ہم نے پاکستان کی بنیاد ہندؤوں اور ہندوستان سے نفرت پر رکھی ہے جو منفی پہلوہے لیکن اسلام کو بطورنظام نہیں اپنا یاہے جوبڑا مثبت پہلو تھا

زرداری سے نواز شریف وشہباز شریف کی نفرت کے بعد اب دونوں سے عمران خان کی نفرت اور پھر عمران خان پر فائرنگ تک معاملہ پہنچ گیا۔

جب1948میں جہاد کشمیر پرپاکستانی انگریز آرمی چیف نے قائداعظم محمدعلی جناح کو جواب دیا کہ ”میں اپنے سینئر افسران اور بڑی تعداد کی فوج سے نہیں لڑ سکتا ” تو قائداعظم نے قبائل سے جہاد کی اپیل کردی۔ پنجاب کی عوام کو بزدل کہنا بہت بیوقوفی ہے۔ احمد خان کھرل سے بڑا عظیم سپوت خطے نے نہیں پیدا کیا ہے لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں ہیروز کا کوئی ذکر نہیں۔ پختون ہیروز بھی انگریز کے جانے کے بعد انگریز کی باقیات کا شکار ہوگئے۔1965میں بھی ہم نے جنگ جیتی نہیں تھی بلکہ پنجاب اور سندھ کی غیور عوام نے بڑے پیمانے پر دفاع کیا تھا۔1971کی جنگ میں تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرکے ہم نے مشرقی پاکستان گنوادیا تھا۔ صرف ایک کارگل کی جنگ میں ہماری فوج نے بہت زبردست فتح حاصل کرلی تھی جس میں کرنل شیرخان شہید کو نشان حیدر مل گیا تھا۔ باقی1948سے روس وامریکہ کے خلاف افغان جہاد تک ہماری فوج کا کوئی جہادی کارنامہ نہیں ۔ اگر اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنا ہے تو پھر فوج کو پولیس بنادیا جائے۔ یہ رائے عامہ ہے اور ہماری قوم ایسی بن چکی ہے کہ یہ پولیس کے ہاتھوں سدھرنے والی بھی نہیں ہے لیکن دوسری طرف فوج کی ٹریننگ دشمن کیلئے ہوتی ہے اور اپنی عوام پر فوجی رویہ مسلط کرنا دشمن بنانے کے مترادف ہے۔ ہمارا سارا سیاسی اشرافیہ بھی بقول شیخ رشید کے فوجی گملوں میں پلا ہوا ہے ۔ جلا دو،گرا دو اور راکھ کا ڈھیر بنادو۔ پارلیمنٹ پر لعنت ۔ یہ مشہور ڈائیلاگ اور عوامی مقبولیت کے نشانات ہیں۔ اس قوم کو انقلابی اور مثبت فکر دینے کی سخت ضرورت ہے۔
جب جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو غدار کہہ دیا تو اصلی مسلم لیگیوں کو فوج سے نفرت ہوگئی۔ وہ بنگلہ دیش کے مجیب الرحمن بن گئے۔ پھر فوج کے گملے سے ذوالفقار علی بھٹو برآمد ہوگئے۔ بھٹو نے بھی ڈکٹیٹر شپ کا رویہ اختیار کرلیا پھر جنرل ضیاء الحق تشریف لائے۔ پھر پیپلزپارٹی کے جیالوں اورMRDوالوں کو فوج سے نفرت ہوگئی۔ جعلی مسلم لیگی بنائے گئے اور جب جنرل ضیاء حادثے کا شکار ہوگئے تو پیپلزپارٹی کی حکومت آئی اور پھر اسلامی جمہوری اتحاد میں بڑے عناصر اکٹھے کئے گئے۔ پیپلزپارٹی اور نوازشریف ایک دوسرے کے حریف بن گئے۔ پھر پرویزمشرف کی آمد ہوئی اور فوج سے محبت رکھنے والوں کی باقیات کو بھی فوج سے نفرت ہونے لگی۔ پھر باری باری پیپلزپارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف کو لوگوں نے آزمایا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ موجودہ اتحاد کی حکومت آئی تو عوام کو سب سے نفرت ہوگئی۔ عمران خان نے پھر اپنی طرف سے نفرت کا جادو جگایا اور عوام اسکے پیچھے چل پڑی ہے۔ اب زیادہ تر لوگ کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتے۔ کوئی مستحکم پارٹی اور نظام نہیں۔ زرداری کیخلاف آگ اگلنے والا شہباز شریف عوام کے دلوں پر راج کرتا تھا اور اب کہتا ہے کہ وہ سنجیدہ بن چکاہے اور عمران خان نیازی نفرتوں کو ہوادے رہاہے؟۔کوئی شرم بھی ہوتی ہے کوئی حیاء بھی ہوتی ہے والی تقریر بھی عمران خان کو پارلیمنٹ میں یاد ہے؟۔
پنجاب میں بغیر مغز والی سری کو فوجی سری کہتے ہیں۔ جنرل امجد شعیب نے براڈ شیٹ میں کتنا گھناؤنا کردار اپنی کم عقلی سے ادا کیا تھا؟۔ سیاستدانوں کیلئے اساتذہ ، مرشد اور تربیت کی رہنمائی والے فوجی سپہ سالار ہوں گے تو ان کی تعلیم و تربیت کیا ہوگی؟۔ ریاست پر یلغار کرنے والے صحافی حضرات بھی فوجیوں کے شاگرد ہیں۔ ہمارے معاشرے میں استاذ، پروفیسر ، علماء ، مرشد اور لیکچرار کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے تو جہالتوں کا دور دورہ نہیں ہوگا تواور کیا ہوگا؟۔
ہندوستان میں فوج کی حیثیت ایک ادارے کی ہے اور اس نے اتنی ترقی کرلی کہ خود کو سپرطاقتوں میں شمار کرتا ہے۔فوج کی تربیت دشمن سے نمٹنے کیلئے ہوتی ہے۔ ہندوستان نے بنگلہ دیش پر قبضہ نہیں کیا تو پاکستان پر کیوں کریگا؟۔ کشمیر اور گلگت پر بھڑکیاں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہم مستقبل کو سنوارنے کیلئے ایسا نظام تشکیل دے سکتے ہیں کہ نہ صرف بھارت بلکہ عالم اسلام، چین ، روس اور مشرق ومغرب کی ہم قیادت کرسکتے ہیں۔ مولوی کا اسلام ناکارہ اور بہت خطرناک ہے لیکن اللہ کا اسلام دنیا کیلئے آج بھی بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ہم اپنی تعمیرنو علم وشعور کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔
پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالالہ الااللہ۔ لیکن اب تک صرف لاالہ تک بات چل سکی ہے ۔ ہم نے ہندومذہب کے بتوں ،سومنات کے مندر سے تعصبات کی حد تک کلمے کا پہلا حصہ پڑ ھا ہے اور ابھی تک الا اللہ کے نظام پر نہیں آئے ہیں۔ اگر الااللہ کے نظام کی طرف آتے تو جس طرح مشرکینِ مکہ نے اسلام قبول کیا تھا ،اسی طرح تمام ہندو بھی خود بخود اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرتے۔
قائداعظم کی پہلی بیگم فوت ہوگئی تو دوسری بیگم کی ضرورت پڑی۔39سالہ محمد علی جناح کا16سالہ رتن بائی پارسی لڑکی سے معاشقہ ہوا۔ پارسی مذہب کی تعلیمات میں یہ بات شامل ہے کہ کسی اہل کتاب سے ان کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ قائداعظم بھی پہلے پارسی بیگ گراؤنڈ سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر اس کا دادا آغا خانی شیعہ بن گیا۔ قائداعظم کے والد کا نام ذوالجناح کی وجہ سے پوجا جناح رکھا گیا جو بعد میں بگڑ کر پونجا جناح بن گیا۔ جیسے کراچی کو آج بھی ہمارے کچھ مہاجر بھائی کرانچی بولتے ہیں۔ جب رتن بائی کی عمر18سال کو پہنچی تو کورٹ میرج کرلیا اور کورٹ میرج میں محمد علی جناح سے اس کا نکاح نہیں ہوسکتا تھا اسلئے جناح کو تحریری طور پر لکھ کر دینا پڑگیا کہ میرا کسی کتاب مذہبی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ وجہ تھی کہ احراری طعنے دیتے تھے کہ ایک لڑکی کی خاطر اسلام کو چھوڑا۔ اسلام سے اس کا کیا تعلق ہے۔ رتن بائی نے باپ سے بغاوت کی تھی ،پارسیوں کے ہاں اس کا رشتہ ختم تھا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو آغا خانی مذہب کے پیشوانے بھی اس کا جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا۔ قائداعظم نے سر آغا خان سے سفارش کیلئے کہا لیکن آغا خان نے کہا کہ اس نے ٹھیک کیا ہے۔ پھر قائداعظم اس وجہ سے فرقہ واریت کے خلاف ہوگئے۔ جب قائداعظم کی بیٹی دینا جناح نے اپنے پارسی کزن سے کورٹ میرج کی تو قائداعظم نے بہت روکا لیکن ا س نے کہا کہ آپ نے بھی میری ماں کیساتھ کورٹ میرج کی تھی۔
پاکستان میں اسلامی نظام کے اثرات تو دور کی بات ہے کو ئی اشارات بھی دکھائی نہیں دئیے۔ مولوی خود بھی اسلام سے دور فرقہ واریت کا شکار تھے اور آج تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ اسلام کی درست تعلیمات پر عمل تو بہت دورکی بات ہے اس کی سمجھ بھی نہیں ہے۔ اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام سامنے آتا تو دنیا پاکستان کی امامت قبول کرتی۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کو5سو بااثر مسلم شخصیات میں چھٹا نمبر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس کو پہلا نمبر دینا چاہیے اسلئے کہ اس نے زکوٰة کو پہلے تحلیل کردیا اور پھر سود کو جواز بخش دیا۔ اگر کوئی دوسرا ایسا کرتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟۔ قائداعظم کے بعد عمران خان نے لاالہ الااللہ کا نعرہ لگایا ہے لیکن اب تیرا میرا رشتہ کیا؟۔” لڑکیاں ناچیں لڑکوں نے جھپٹا مارا” نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ75سالوں سے دھوکے کھائے جارہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کے حالات بہت زیادہ بدسے بدترین حد تک پہنچ سکتے ہیں۔
اگر ٹرانس جینڈر بل میں ایک ہیجڑے کو یہ اختیار دینا غلط ہے کہ وہ خود کو مرد کی طرف مائل محسوس کرتا ہے یا عورت محسوس کرتی ہے؟۔ ظاہر ہے کہ کسی مشین کے ذریعے تو 51فیصد مرد یا عورت کا پتہ نہیں چلے گا۔ پھر بھی چلو خلاف اسلام یہ سراسرکفر ہے تو پھر جماعت اسلامی بتائے کہ جب جنرل ضیاء الحق نے پوچھا تھا کہ ریفرینڈم میں اسلام چاہیے یا نہیں؟۔ تو کیا مسلمانوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسلام چاہیں یا نہیں؟۔ جماعت اسلامی اور بڑے مدارس نے اپنے اس فتوے سے اب تک توبہ کی ہے؟۔ جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن والے اس گناہ میں شریک نہیں تھے۔ ولی خان کہتا تھا کہ اسلام چاہیے یا نہیں؟ کیلئے پہلے جنرل ضیاء الحق کرسی پر اپنا ناجائز قبضہ چھوڑ دے۔ ہمیں اسلام چاہیے لیکن یہ نہیں کہ جہاد افغانستان میں ہو اور مالِ غنیمت منصورہ لاہور میں بٹ جائے۔
جماعت اسلامی کے مخلص لوگ بہت خوش ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے اچھا کیا ان کو بھی درست آئینہ دکھا دیا۔ پہلے یہ بھی کہا تھا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا بدلہ علماء سے سید عتیق گیلانی نے اتار دیا۔
ہمارا مقصد بالکل بھی انتقامی کاروائیاں نہیں ہیں۔ علامہ جواد حسین نقوی نے ڈاکٹر اسرار احمد کے مرکز لاہور میں شجاع الدین شیخ امیر تنظیم اسلامی،اوریا مقبول جان اور سینیٹر مشتاق احمد خان کو خوب دھویا۔ علامہ جواد حسین نقوی نے اس جمہوری نظام کو اسلام سے متصادم قرار دینے کیلئے بہت مؤثر دلائل دئیے لیکن یہ ان کی زبردست غلط فہمی ہے۔ اولی الامر سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ اولی الامر کو ایسا ہی ہونا چاہیے جس سے اختلاف کی گنجائش ہو۔ رسول اللہ ۖ سے بھی جن صحابہ کرام نے مختلف امور پر اختلاف کیا تھا ،اس کی نہ صرف گنجائش تھی بلکہ اللہ نے کئی جگہوں پر صحابہ کرام کی تائید بھی فرمائی ہے۔ سورہ مجادلہ ، بدر کے قیدیوں پر فدیہ اور سورہ عبس میں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ قرآن سے شیعہ سنی اسلئے روگردانی کرتے ہیں کہ بعض معاملات سے ان کے فرقے اور مسالک ملیامیٹ ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ فرقہ واریت سے ہٹ کر دین کی خدمت کریں۔
حضرت علی نے حضرت ابوبکر کی خلافت سے درست مشاورت کا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف کیا تھا۔ چونکہ انصار و قریش میں بھی تناؤ پیدا ہوا تھا اسلئے وسیع مشاورت کا موقع نہیں ملا۔ قرآن میں مشاورت کا حکم بھی ہے اور اس کی خبر بھی ہے۔ اولی الامر کیلئے مشاورت کا بہترین طریقہ کار جمہوری نظام ہے اور اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کے خلیفہ سوم کیلئے گنجائش تھی کہ منصب چھوڑ کر اپنی جان بچاتا لیکن حضرت عثمان نے خواب کی وجہ سے منصب نہیں چھوڑا تھا۔ جبکہ اہل تشیع کے دوسرے امام حضرت حسن کیلئے منصب چھوڑنے کی اہل تشیع کے نزدیک گنجائش نہیں تھی اور انہوں نے چھوڑ دیااسلئے آغا خانی اور بوہری شیعہ امام حسن کی امامت کو بھی نہیں مانتے ہیں۔
حضرت علی نے بھی اس وقت منصب خلافت کے فرائض انجام دینا شروع کئے جس وقت کچھ لوگوں نے مشاورت سے مسند پر بٹھادیا۔ جب تک دوسرے خلفاء تک تھے تو حضرت علی نے بڑے خلوص کیساتھ ساتھ دیا۔ جب حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد امام زین العابدین نے پیری مریدی کی طرح مسند سنبھال لیا تو صوفیاء نے بھی اس طرز پر خلافت باطنیہ کا سلسلہ شروع کیا۔ البتہ آغا خانیوں کے ائمہ کو خلافت فاطمیہ کا موقع مل گیا تھا۔ حسن بن صباح کی کہانی بھی مشہور ومعروف ہے۔ جس کے جانشین کی حکومت کو ہلاکو خان نے تاراج کیا تھا۔ دنیا میں موجودہ ریاستوں میں باطل نظام کا ڈھانچہ بھی جمہوریت سے ہی آسانی کیساتھ بدل سکتا ہے۔ انقلاب سے بنوامیہ کی جگہ بنوعباس آسکتے ہیں اور جمہوریت سے دلائل کی بنیاد پر خلافت راشدہ قائم ہوسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں کی موجودہ جمہوریت بھی ڈکٹیٹر شپ کی پیداوار اور ایک ڈھونگ ہے۔
جمعیت علماء اسلام ، جمعیت علماء پاکستان ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک وغیرہ تمام مذہبی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں۔ اسلام کا معاشی نظام اور قرآن وسنت میں عورت کے حقوق کا درست معاشرتی معاملہ عوام کے سامنے پیش کردیں۔ سول وملٹری بیوروکریسی ، تمام صوبوں کی عوام اور خطے کے ممالک کو ہمارا جمہوری اسلامی انقلاب بہت پسند آئے گا اور اس کے اثرات پوردی دنیا کو بھی ایسا متأثر کریں گے کہ خلافت علی منہاج النبوت کے قیام پر امریکہ، اسرائیل اور یورپی یونین بھی آمادہ ہوجائیںگے۔ عورت کے ٹھوس حقوق سے پوری دنیا میں عورت کا ووٹ اسلام کیلئے استعمال ہوگا۔
پہلے امریکہ کیخلاف اور طالبان کے حق میں پختونخوا ہ کے اندر بڑے جلوس نکلتے تھے۔ اب طالبان کیخلاف امن کے نام پر جلوس نکل رہے ہیں۔ پہلے مذہبی طبقہ جلوس نکالتا تھا اور اب قوم پرست طبقہ جلوس نکال رہا ہے۔ پہلے محسن داوڑ پر باجوڑ میں جماعت اسلامی والوں نے کرسیاں پھینکی تھیں اور اب سینیٹر مشتاق خان منظور پشتین کے ساتھ کہتا ہے کہ ریاست آدم خور ہے، پشتونوں کی قاتل ہے اور مورچے میں بیٹھے ہوئے طالبان اور قلعے میں بیٹھے ہوئے فوجی ایک ہیں۔ ہمارا اتنا مطالبہ ہے کہ لاہورکی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مولانا ہدایت الرحمن بلوچ آسکتے ہیں تو منصورہ لاہور میں بھی سینیٹر مشتاق قوم پرستوں کو ضرور بلائیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مہذب دنیا میں کوئی مقدس اور قانون سے بالاتر نہیں چاہے کوئی جج ہے یا وکیل یا فوجی! ماریہ جدون

مہذب دنیا میں کوئی مقدس اور قانون سے بالاتر نہیں چاہے کوئی جج ہے یا وکیل یا فوجی! ماریہ جدون

چاہے کوئی سیاستدان ہو ،سب کو برابر کی سزا ملنی چاہیے۔پوری دنیا کا اصول ہے ،اس کی بہت مثالیں ہیں :ماریہ جدون

اگر اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ساتھیوں کیساتھ مل کر قوانین بنائیںاور عوام کو الگ رکھیں تو قوم اور ادارے لے ڈوبتا ہے

السلام علیکم ۔ ناظرین یہ2014کا سال تھا جب امریکی ریاست اوہایو کی عدالت میں خاتون جج پریزی ہنٹر کو گھسیٹ کر ہتھکڑیاں لگا کر لایا جاتا ہے اور سخت قید بامشقت سزا سنادی جاتی ہے۔ الزام تھا کہ اسکے بھائی کے پاس آمدن سے زائد اثاثے تھے اور اثاثوں کو بنانے میں اس جج کے غیر قانونی فیصلوں کا عمل دخل تھا۔ جب اس جج کو عدالت سے گھسیٹ کر لے جایا جا رہا تھا تب امریکہ کے کسی جج نے یہ نہیں بولا کہ یہ امریکہ کے نظام انصاف پر حملہ ہے۔ تب یہ جج پریزی ہنٹر بھی چاہتی تو شاید اپنے ساتھ دس بارہ جج ملاتیں اور ایسے قانون بنالیتیں کہ اسکے بعد اگر امریکہ میں کوئی جج یا اس کی فیملی کوئی کرپشن کرتی تو اس کو پکڑا نہیں جاسکے گا۔ مگر خیر چھوڑیں۔( انگریزی میں جج اپنا فیصلہ سناتا ہے)
نمبر 1: آپ کو حکم ہے کہ اس عدالت کا وقت ضائع کرنے کا جرمانہ دینا ہوگا۔
نمبر2: آپ کو حکم ہے کہ آپ دوبارہ کوئی غیر قانونی حرکت نہیں کریں گی۔
نمبر3: آپ کو 6مہینے کی جیل سنائی جاتی ہے ۔ انسپکٹر پلیز مجرم کو لے جائیے۔
ناظرین یہ30نومبر2018امریکی ریاست فلوریڈا کا واقعہ ہے۔ جب منزل کاؤنٹی کے پہلے ضلعی جج ڈیوڈ کاکن کو سیکس ٹریفکنگ اور پراسیکوشن میں اپنے ایک رشتہ دار کی مدد کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ (اقرارجرم)
مجھے ایسے لگا کہ میں اس کی ہوس کی غلام ہوں اور وہ مجھے اس کام کے پیسے بھی دیتا تھا۔ اس واقعہ نے فلوریڈا کے عدالتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ تب فلوریڈا کے جج اور وکلا چاہتے تو احتجاج کرکے اپنے ساتھی جج کو بچانے کی کوشش کرسکتے تھے۔ مگر یقین کیجئے ایک کرپٹ جج کی حمایت میں کوئی ایک آواز تک نہ آئی۔
جج”جاروڈ کالکنز” کو سیکس کے کیس کی تباہ کن تفصیلات آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ اس جج کے اوپر جسم فروشی کے کاروبار میں شامل ہونے کا الزام ہے۔ امریکہ کے ہوگا کاؤنٹی کے جج لینس میسن کو جب12ستمبر2019میں بیوی کے قتل کے الزام میں35سال کی سخت قید بامشقت سنائی جاتی ہے تب بھی امریکہ کے وکلاء یا ججز کمیونٹی میں سے کوئی ایک بھی آواز اس قاتل جج کے لئے نہیں نکلتی۔ (فیصلہ)۔ آپ نے درخواست کی کہ آپ کے بچوں کو اس کیس سے دور رکھا جائے مگر ہم ایسا بالکل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح امریکی نیویارک اسٹیٹ کی جج لیتیسیا اسپیسیو کو ایک معمولی غلطی پر نہ صرف برطرف کردیا گیا بلکہ180دن جیل کی سزا بھی سنادی گئی۔ لیکن ہائے افسوس محترم جج کی توہین پر بھی امریکہ میں معمولی سی آواز بھی نہ اٹھ سکی۔ (فیصلہ) سابق جج لتیسیا اسٹیشیو سٹی کورٹ جج کو6مہینے قید کی سزا سنادی گئی۔ آسٹریلیا میں جج نے صرف ٹریفک قوانین کی پابندی نہیں کی تو اسکو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ سابقہ سپریم کورٹ جج جو خود نشے کی حالت میں گاڑی چلانے والوں کے خلاف قانون سازی کرتے تھے وہ خود نشے کی حالت میں گاڑی چلاتے پکڑے گئے تو انکے خلاف کاروائی کی گئی۔ یاد رہے دنیا کے بہت ممالک میں یہ قانون ہے کہ اگر کوئی جج کچھ غلطی کرے تو اسے عام آدمیوں سے زیادہ سخت سزا ملتی ہے۔ پچھلے سال امریکی ریاست مشی گن کی جج ٹریسا ویمن کو اپنی طلاق کے کاغذات میں رد و بدل کے الزام میں نہ صرف فوری گرفتار کرکے12گھنٹوں میں سزا سنا کر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ناظرین یہ سارے واقعات بیان کرنے کا مقصد آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ مہذب دنیا میں کوئی مقدس نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں یہ اصول ہے کوئی بھی مقدس نہیں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ چاہے کوئی سیاستدان ہے، چاہے کوئی فوجی ہے، چاہے کوئی وکیل ہے، چاہے کوئی جج ہے۔ کوئی بھی جرم کرتا ہے تو اسے برابر کی سزا ملنی چاہیے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوگا کہ اگر آپ اپنی کرپشن چھپانے کیلئے اپنے ساتھیوں سے ملکر قانون بنوالیں تو باقی عوام کیلئے ایک الگ قانون ہو تو یہ یاد رکھیں ایسے طرز عمل قوم اور ادارے دونوں لے ڈوبتے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہمارا مسئلہGHQحل کردے۔ وزیرستان

ہمارا مسئلہGHQحل کردے۔ وزیرستان

عوام کو فوج کی سکیورٹی کا ذمہ دار قرار دینا غلط ہے قومی جرگہ عالمزیب محسود

امن عوام کی ذمہ داری نہیں: ناخوشگوار واقعات پر عوام کو تنگ کرنا، چیک پوسٹوں پرظالمانہ رویہ اورعوام کو بندوق اٹھانے پر مجبور کرنا غیرقانونی ہے

عالم زیب خان محسود نے کہا کہ آج یہاں پر جنتہ تحصیل سراروغہ جنوبی وزیرستان میں ہم موجود ہیں۔ یہاں ہماری قوم کا جرگہ ہوا ہے اور یہ جرگہ اس حوالے سے تھا کہ چند دن پہلے یہاں پر ایک ناخوشگوار واقعہ سامنے آیا کہ یہاں پر آرمی اہلکاروں کے اوپر حملہ ہوا۔ تو پھر آرمی نے ان لوگوں کو بلا کر ان کو یہ کہا ہے کہ بھئی یہ تو آپ لوگ ہمارے ذمہ دار ہیں۔ آپ لوگوں نے یہ خیانت کی ہے آپ اس کا جواب ہمیں دیں۔ اس طرح کے واقعات اور بھی جگہوں پر سامنے آرہے ہیں۔ جس طرح کہ یہ ساری صورتحال مذاکرات کے بعد سامنے آئی ہے۔ اور اس پر ہمارے قومی جرگے ہوئے ہیں اور اس پر ہمارا قومی بیانیہ بنا ہے۔ اور وہ قومی بیانیہ ہم نے یہاں پر بھی پیش کیا ہے یہی بیانیہ یہاں پر ان کے جتنے بھی آرمی یونٹس ہیں اور ہمGHQتک بھی اپنی آواز پہنچانا چاہتے ہیں کہ یہاں پر لوگوں کے اوپر اس طرح کا تشدد کرنا یا یہ اجتماعی ذمہ داری ان کے اوپر ڈالنا یہ قطعاً غیر انسانی اور غیر قانونی ہے۔ سیکورٹی کی ذمہ داری یہاں پر آرمی کی ہے وہ اپنی ذمہ داری کو خود ہی انجام دے۔ یہاں پر لوگ اس کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے۔ یہاں پر ان کو یہ کہا جارہا ہے کہ آپ لوگ ہمارے خلاف بندوق اٹھائیں تو لوگوں کو اس طرح کی بات کہنا ، یہاں پر دنیا کو کیا سمجھایا جاتا ہے یہاں پر یہ ہمارے قبائلی عوام ہیں اور انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور دوسری طرف یہاں پر لوگوں کو کہہ رہے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے خلاف بندوق اٹھائیں۔ یا یہاں پر یہ کہنا کہ آپ لوگ ہمارے لئے بندوق اٹھائیں لوگوں کیساتھ لڑیں۔ دنیا میں کہاں پر ایسا ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو اس طرح کی ذمہ داری دے کر ان کو یہ کہنا کہ بھئی آپ لوگ ذمہ دار ہو آپ لوگ ہماری سیکورٹی کریں۔ سیکورٹی ادارے اسلئے ہوتے ہیں ان کو تنخواہ ہی اسلئے دی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کا زمین کا تحفظ کریں۔ باقی یہ لوگ آپ کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے۔ ان کے گھر بار بازار سب کچھ تباہ و برباد ہوچکے ہیں اور یہ اب آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کو تو تنخواہ بھی ملتی ہے آپ کو تو بجٹ بھی ملتے ہیں۔ہماری اتنی تباہی کرنے کے باوجود بھی یہاں پر اگر آپ امن قائم نہیں کرسکے تو یہ نااہلی تو آپ کی ہے۔ ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا آخر قصور کیا ہے؟۔ کب تک ہم اس طرح کی جہنم کی صورتحال میں رہیں گے۔ ہم نہ کوئی نیا کاروبار یہاں شروع کرسکتے ہیں۔ یہاں ہماری زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ تو آخر کب تک یہ سب کچھ چلے گا؟۔ سوال تو آپ سے بنتا ہے۔ یہاں پر اگر ایک فائر بھی ہوتا ہے اسکے ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ جواب دیں گے نا کہ آپ ہمیں جوابدہ اس کیلئے ٹھہراتے ہیں۔ اسکے بعد یہاں پر لوگوں کو یہ بھی کہا گیا کہ آپ کایہ جو علاقہ ہے پھر ہمارے لئے خالی کردیں۔ یہ قوم کا اجتماعی فیصلہ ہے اور دیگر جرگوں میں بھی یہ سامنے آیا ہے کہ اگر ہم سے یہاں اس طرح کا مطالبہ ہوتا ہے تو غیر قانونی اور غیر انسانی ہے۔ اس کیلئے اگر واقعی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک گاؤں یا ایک علاقے کو خالی کرنے سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو پھر ہمیں لکھ کر دیا جائے کہ انہوں نے جتنے بھی ملٹری آپریشن کئے ہیں اس میں یہ ناکام یا نااہل رہے ہیں۔ ہمیں لکھ کر دیں گے اسکے بعد ہم صرف ایک علاقہ نہیں بلکہ پورا وزیرستان آپ کیلئے خالی کردیں گے۔ تاکہ جو بھی آپ لوگ کرسکتے ہیں پھر آپ کریں۔ لیکن آپ ہمیں لکھ کر دیں گے جو دنیا کو آپ نے بتایا تھا کہ یہاں پر آپ کو ایک کارتوس تک نہیں مل سکتا تو پھر یہ سارے حالات کس طرح خراب ہورہے ہیں۔ یہ تو آپ کی نااہلی ہے پھر آپ ہمیں لکھ کر دیں کہ آپ جو کچھ ہمیں ماضی میں کہتے رہے وہ سب جھوٹ تھا یہاں پر علاقے میں کوئی امن و امان نہیں اور آپ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بالکل ناکام ہوئے ہیں۔ اسکے علاوہ جو یہاں پر لوگوں کو اب تنگ کیا جارہا ہے یہاں پر جیسے ایک چیک پوسٹ ہے وہاں پر ان کو یہ کہہ رہے ہیں کہ نہیں اب تو یہ کیمرہ بھی انہوں نے لگادیا ہے کہ یہاں پر ایک ایک بندہ آئیگا اور اپنا اپنا شناختی کارڈ دکھائے گا اور انٹری کروائے گا اور ساتھ میں یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر زنانہ بھی ہوگی تو ان کے پاؤں چیک کرکے ہمیں یہ بتائیں گے۔ پہلے تو یہ انتہائی بے غیرتی والی ان لوگوں کیلئے بات ہے کہ آپ اس طرح کے ان سے مطالبے کررہے ہیں۔ جو ان لوگوں کیلئے کبھی بھی قابل قبول نہیں ہوں گے۔ یہ بہت حساس معاملے کے اوپر آپ لوگ ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ اس کی حساسیت کو لیکر آپ لوگ پھر بھی یہاں پر امن و امان قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس طرح کا غیر انسانی سلوک بالکل بند کیا جانا چاہیے۔ یہاں کی چیک پوسٹوں پر کوئی دہشتگرد کوئی پاگل ہی ہوگا جو یہاں پر آکر انٹری کرکے دے گا۔ وہ جو طالب ہے یا جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے وہ کبھی بھی چیک پوسٹوں پر نہیں آتے، نا وہاں پر انٹری کرواتے ہیں۔ وہاں پر عام عوام بالکل نہتے لوگ آتے ہیں اور پھر آپ ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ ان کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ قانونی سسٹم میں آپ نے ان کو رکھا ہوا ہے۔ اس طرح کے چیک پوسٹوں کا کوئی معنی بنتا نہیں ۔ تو اس طرح کے واقعات کے بعد اس طرح کی سختی لوگوں کے اوپر کرنا جنہوں نے کچھ کیا ہوتا ہے وہ تو کھلے عام یہاں پر گھومتے ہیں۔ آپ تو خود بھی یہ کہتے ہو کہ ان کا سب کچھ ہمیں پتہ ہے کہ کہاں پر جارہے ہیں اور کہاں پر ہیں لیکن عام عوام کیلئے پھر آپ نے چیک پوسٹیں بنائی ہوئی ہیں ان کے گھروں میں آپ گھستے ہیں ان کو آپ زدوکوب کرتے ہیں تو یہ چیزیں، ڈرون ان کے گھروں کے اوپر چادر اور چار دیواری ، پردے کے جو مسئلے ہیں سامنے آرہے ہیں یہ کبھی بھی ماننے والی چیزیں نہیں ہیں ۔ جو صاحب اقتدار لوگ ہیں ان کو سوچنا چاہیے لوگوں کو بے وجہ تنگ کرنا بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اوریہ یہاں پر آج ہمارا فیصلہ ہوا ہے۔
محسود علاقے کے مسائل اور ان کا حل
انسان اپنی کوتاہی تسلیم نہیں کرتا تو اس کی جان نہیں چھوٹ سکتی ۔ نماز پڑھنے سے پہلے وضو اور وضو میں پہلے استنجاء کرنا پڑتا ہے۔ جب تک اپنا گند کوئی نہیں دھوئے تو نہ اس کی اپنی نماز ہوتی ہے اور نہ کسی اور کو نماز کی امامت کراسکتا ہے۔
غفار خان پر جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد نے کفر کا فتویٰ لگایا، جس پر ولی خان کی اخبارات میں سرخی چھپ گئی تھی کہ ” اگر تمہارے آباء کو ہمارے آباء مسلمان نہ کرتے تو آج تمہارا نام میاںطفیل محمد نہیں بلکہ طفیل سنگھ ہوتا”۔
پشتون قوم تعصبات پر اترتی ہے تو مولانا فضل الرحمن، مولانا بجلی گھر، ایمل ولی خان، منظور پشتین، شاعر گلامن پنجابی تہبند کو بے غیرتی سمجھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے سوتیلے بھائی مروت قوم کے بھانجے ہیں اور مروت قوم کا قومی لباس تہبند تھا۔ رسول اللہ ۖ نے زندگی بھر بچپن سے آخری لمحہ تک تہبند پہنا۔ بہت پیشین گوئیاں قرآن واحادیث میں ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی پنجابی تھے جو اس خطے کو کراچی سے کشمیر تک سندھ سمجھتے تھے جس میں دریا سندھ اور اس کی دوسری چار شاخیں پنجاب کے دریا ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، سرحد، کشمیر اور افغانستان سے اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی۔ المقام المحمود
اسلام کی نشاة ثانیہ کی خبرمیں پختون کا کردار نمایاں ہے، تعصبات کا عنصر خطرناک اور حساس ہے۔ رسول اللہ ۖ کی طرف سے حج وعمرے کیلئے آنے والوں کو اپنی اپنی شلواریں اُتار کر کعبہ میں تہبند پہنا پڑتا ہے ۔احرام اتنا مقدس ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاسپورٹ چھین لیا گیا تو مولانا نے70کلفٹن بینظیر بھٹو سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت ان کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔میں بنوری ٹاؤن میں پڑھتا تھا۔ یہ بات پھیلائی جارہی تھی کہ مولانا نے احرام کی توہین کردی ۔ میں نے کہا کہ ” یہ کیا کم عقلی ہے۔ جب مردوں نے احرام پہنے ہوتے ہیں تو عمرے و حج میںخواتین نہیں ہوتی ہیں؟”۔
پنجاب کے لوگ سندھی، بلوچ اور پشتون سے زیادہ مظلوم ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ والے مہاجر میں پھنس گئے تو پھر نام اور کام بدلنے کے باوجود دلدل سے نہیں نکل سکے۔ عوامی نیشنل پارٹی قوم پرستی کے دلدل میں پھنس گئی تو بہت محدود ہوگئی۔ حبیب جالب ،غوث بخش بزنجو اور بنگال کے مولانا بھاشانی اسمیں شامل تھے۔اب حال اسلام اور قوم پرستی کے تعصب کا طبل بجانے کے باوجود بھی اے این پی اور جمعیت علماء اسلام خیبر پختونخواہ کی ان تینوں سیٹوں سے مل کر بھی عمران خان نیازی سے ہار گئے جس نے اسمبلی میں جانا بھی نہیں تھا۔
وزیرستان کا محسود علاقہ پہلے بھی ایک مرتبہ دہشت گردی کا گڑھ تھا۔ عالم زیب خان شمل خیل ہے اور میرا ایک دوست مولانا محمد امیربھی شمل خیل ہے۔ جنتہ کا غالباً رہائشی ہے۔ افغانستان جانے والوں میں ایک وہ بھی تھا۔ مجھے اس نے طالبان کا پہلا تحریری منشور دکھایا تھا جس پر میں نے اختلاف بھی کیا تھا۔ تحریک طالبان سے پہلے اس نے پیشکش کی تھی وہ میرے مشن پردوسرے علماء سے مناظرے کرے گا۔ بیت اللہ محسود سے ملاقات کا پروگرام تھامگر پھر مجھ پر حملہ ہوا۔ وہ مولانا عبدالرحیم کے چچازاد ہیں۔ طالبان میں مختلف عناصر ہیں۔ جب ہمارا واقعہ ہوا تھا تو بیت اللہ محسود کی اجازت کے بغیر یہ کام کیا گیا تھا۔
میرے بھائی طالبان کے حامی تھے۔ مجھ پر حملہ کے بعد بھی انہی کو سپورٹ کرتے تھے۔ ہم پر حملہ ہوا تو اسکے بعدISIنے طالبان کی گاڑی میرے ماموں کے گھر سے پکڑ کر بارود سے اڑادی تھی۔ ہم سے کچھ فاصلے پر ہمارے عزیز ہیں۔ پیرکریم کے بیٹے طالبان ہیں اور بھتیجا مولانا آصف طالبان کے سامنے جہاد کے فضائل بیان کرتا ہے۔ اس کا داماد میرا ماموں زاد منظور پشتین کو اپنا مہدی کہتا ہے۔ فوج کو یہ پتہ نہیں کہ کس کی کس سے کیا رشتہ داری اور ہمدردی ہے؟۔ کریم کے بیٹے نے ہمیں بتایا تھا کہ حملہ عزیزپیر عبدالرزاق کے بیٹوں نے کرایا ہے۔ طالبان بھی جاسوسی کرنے کے نام پر ہمارے شہداء کے بدلے ان کو مارنا چاہتے تھے لیکن ہم نے نہیں مانا اسلئے کہ کمزور اور طاقتور میں تفریق غیرت کیخلاف تھا۔ طالبان نے قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کو قصاص میں قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر قاری نے گاؤں والوں سے کہا کہ ہم کمزور ہیں، آپ ساتھ کھڑے ہوجائیں تو ہمیں نشانہ نہیں بناسکتے ۔ پھر اپنامدعا پیش کیا کہ ملک خاندان اور اس کو فیملی کو ہم نے بیت اللہ محسود کے حکم پر قتل کیا تھا۔ اگر ہم بے گناہ کے قتل میں قصاص ہوں تو بیت اللہ محسود بھی تیار ہوجائے۔ جس کے بعد طالبان نے اپنا پینترا بدل دیا۔13افراد کے بدلے11افراد قتل کرنے کی پیشکش کی۔ اسلئے کہ 2 افراد حملہ کے موقع پر قتل ہوچکے تھے۔ ہماری دانست میں زیادہ تھے لیکن کچھ لوگ اپنی شناخت چھپارہے تھے۔11انہوں نے غریب غرباء پکڑ کر قتل کردینے تھے۔ پیرعبدالرزاق کی دوسری بیگم سے بیٹے ہمارے ساتھ تھے۔اب افغانستان سے طالبان آئے تو پیرکریم کے بیٹوں نے طالبان کی کانیگرم میں دعوت رکھی تھی ۔ میرے ماموں نے کہا تھا کہ ”میں دوافراد کا بدلہ لوں گا۔ ایک اپنے شہیدبھتیجے اور دوسرے بھانجے میرے شہید بھا ئی کا”۔ باقی رہتے ہیں9افراد۔ تو نامعلوم میں ایک ضرور شامل ہے۔ باقی بچے8افراد۔ میرے اپنے8بیٹے ہیں۔ بدلے تک نوبت پہنچی تو میرے بیٹے انشاء اللہ ضروربدلہ لیں گے۔
ٹانک میں ہمارے رشتہ دار ہیں جس کے ہاں ہمارے عزیز پیر عبدالرزاق کی ایک بیٹی بیاہی ہے۔ جب اسکے بیٹے نے شرانگیزی شروع کردی تو اپنے بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں سے ماردیا۔ اگر وہ نہ مارتے تو اپنے لوگوں سے اور فوج سے بھی دشمنی ، روز روز گھروں میں کودنے اور بے عزتی کا سلسلہ جاری رہتا۔ میں اپنے عزیزوں کوجانتاہوں تو مجھے فوج پر الزام تراشی کی ضرورت نہیں اور ان سے خود ہی نمٹ لوں گا۔ انشاء اللہ ۔اس طرح تمام محسود اپنا اپنا ملبہ جانتا ہے ۔ اگر کوئی مقامی اور بین الاقومی سازش ہے تو پہلے اپنا گند صاف کرو اور جن پر الزام تراشی ہے ان سے مطالبات کرنا ویسے بھی قرینِ قیاس نہیں ہے۔ فوج معاملہ حل نہیں کرسکتی یا کرنا نہیں چاہتی ہے تو دونوں صورتوں میں نقصان تو بہر حال اپنا ہے۔
محسود کی ایک رسم ہے کہ عورت کی عزت پر قتل کا بدلہ نہیں لیتے اور نامعلوم کو بھی نہیں مارتے۔ میرے پرناناکے قتل کو عورت کی عزت سے جوڑ دیا گیا تھا اور ماموں محمودشاہ بھی نامعلوم کے ہاتھوںقتل ہوا تھا۔محسود عام ا علان کریں کہ
1:جن طالبان نے قتل کیا تھا اور وہ کسی کے ہاتھ سے بھی قتل ہوئے ہیں تو حساب بالکل برابر ہے۔ نامعلوم قاتل نامعلوم کے کھاتے میں چلے گئے ہیں۔
2: جو پہلے کمزور تھے اور اپنے قتل یا عزت خراب کرنے کا بدلہ نہیں لے سکتے تھے اور طالبان کی شکل میں ان کے پاس طاقت آئی اور بدلہ لے لیا تو اچھا ہوا۔
3:جن طالبان نے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا ہے وہ کھلے دل سے مقتول کے لواحقین سے معافی مانگ لیں اور جو چاہے تو معاف کردے یا بدلہ لے لے۔
4: طالبان دہشت گردوں کی صورت میں جنہوں نے کسی سے قتل کا بدلہ لیا ہے یا اپنی عزتوں کا بدلہ لیا ہے تو اس پر طالبان کے سر پر عزت کی پگڑی نہیں ۔
5: جنہوں نے اپنی عزت لٹنے کا نام لئے بغیر بدلہ لیا ہے تو ان کی غیرت کا مسئلہ تھا اسلئے وہ طالبان اور دہشت گرد اپنے جرم میں بالکل معذور تھے۔
عالم زیب خان اور منظور پشتین وغیرہ تو میرے بیٹوں کے ہم عمر ہیں۔ ان کو سیاست اور قوم کی خیرخواہی کا الف ب بھی پتہ نہیں ۔ فوج پر بگاڑ کے الزام لگاؤگے تو ان سے مطالبات کرکے شر سے کیسے نکلوگے؟۔ ان کو نااہل کہنے کی جگہ اپنی اہلیت ثابت کرکے اپنی قوم اور فوج دونوں کو اس شر سے بچاؤ تو بات ہے۔
پاکستان میں کسی وقت محسود علاقہ پوری دنیا کا سب سے بڑا پُر امن علاقہ تھا اور مہمان اپنے آپ کو ہر طرح سے محفوظ پاتا تھا۔ آج اس کو پھر اپنے اقدار کے مطابق مثالی امن قائم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شخصیات اور جماعتوں کی لڑائیوں سے دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے اور نا پاکستان اور وزیرستان میں۔ ہر علاقے میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں۔ اچھے اور بروں کی تمیز کیلئے دنیا میں عدل و انصاف کے پیمانے بھی ہیں۔ دو فریق ایک دوسرے کیخلاف اپنی حد سے تجاوز کرسکتے ہیں لیکن جن کو فیصلے کیلئے کردار دیا جائے وہ دونوں کو اعتدال پر لاسکتے ہیں۔ صحافت کا کام حقائق بیان کرنا اور معاشرے میں عدل و انصاف کی بنیاد پر امن و امان کا قیام ہے۔ حال ہی میں عمران خان کے اوپر حملہ ہوا تو اس پر بھی جیو نیوز کی طرف سے ایسی رپورٹنگ کہ لوگ بھاگ رہے ہیں مناسب نہیں تھی۔ عمران خان کے حامیوں کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں انصاف کیلئے پر امن جدوجہد کو یقینی بنائیں اور کسی قسم کی افراتفری پھیلانا خود انکے اور سب کے مفاد میں نہیں۔ حکومت اپنا دل بڑا کرے اور سیاسی اعتدال کا قیام انتہائی ضروری ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کا بین الاقوامی اقبال مسیح جس کی رگ و پے میں فقط مستی کردار

پاکستان کا بین الاقوامی اقبال مسیح جس کی رگ و پے میں فقط مستی کردار

BLLF(باؤنڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ) کے بانی نے ہزاروں پاکستانی بچوں کو جبری مزدوری سے نجات دی
6سو روپے قرض کے عوض6سال کام بغاوت سے دنیا میں نام کمایا تو12سال کی عمر میں قتل

کیا آپ نے کبھی اقبال مسیح کا نام سنا ؟۔ یقینا نہیں سنا ہوگا۔ مگر اس عظیم پاکستانی گمنام ہیرو سے دنیا واقف ہے۔ اقوام متحدہ ہر سال اسکے نام سے ایوارڈ جاری کرتا ہے،اس کی زندگی پر کتابیں لکھی گئیں، اسکے نام پر دنیا میں کئی ادارے ہیں، یورپ کی سڑکوں پر موجود مجسمے اس کی عظمت کی عکاس ہیں۔ ہماری یہ ویڈیو اس عظیم پاکستانی کو خراج تحسین پیش کرنا ہے اور ہم آپ کو اقبال میسح کی اذیت ناک زندگی اور دردناک موت کی داستان سنائیں گے ۔ اقبال میسح1983میں ضلع شیخوپورہ کے نواحی شہر مریدکے میںایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا تھا اقبال کی والدہ ایک مقامی کارپٹ فیکٹری میں معمولی سی اجرت پر کام کرتی تھی اور یہی ملازمت اس گھرانے کے گزر بسر کا ذریعہ تھی۔ اقبال کی والدہ نے اسکے بڑے بھائی کی شادی کیلئے600روپے کا قرض ارشد نامی مقامی تاجر سے لے رکھا تھا،جو وہ بیماری کے باعث ادا نہ کرپائی اور بدلے میں اقبال کو فیکٹری مالک کے حوالے کرنا پڑا۔ صرف4سالہ اقبال کارپٹ فیکٹری میں مزدوری کرنے پر مجبور ہوگیا۔6سال تک کیلئے اقبال دن میں14گھنٹے تک کام کرتا رہا۔ مگر قرض تھا کہ جوں کا توں موجود رہا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اقبال مسیح نے زندگی کا بدصورت رُخ جھیلنا شروع کیا۔ چونکہ فیکٹری مالک صرف ایک وقت کا کھانا دیتا تھا اور پورا ہفتہ روزانہ14گھنٹے کام کرواتا تھا۔ مگر اقبال کے حوصلے بلند تھے اور ایک دن اس کے ذہن نے بغاوت کو جنم دیا سو وہ1990کو غلامی کی زنجیریں توڑ کر بھاگ نکلا۔ مگر چونکہ فیکٹری مالک اثر و رسوخ والا تھا سو پولیس کو رشوت دیکر جلد ہی اسے گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ دن پولیس کی قید میں ٹارچر کروانے کے بعد اسے دوبارہ فیکٹری میں کام کیلئے قید کردیا گیا۔ اس دور میں پاکستان میں کئی فیکٹری، کارخانوں میں بچوں سے کم عمری میں معمولی اجرت پر جبری مشقت کروائی جاتی تھی۔ مگر اقبال کی یہ کوشش رائیگاں گئی اور دوبارہ فیکٹری میں کام کرنا پڑا۔ اب کام کا بوجھ مزید بڑھا یا گیا۔ مگر اقبال تھا کہ غلامی سے نہ صرف خود بلکہ ہزاروں بچوں کو بھی آزاد کروانا چاہتا تھا۔ سال بعد اقبال دوبارہ بھاگنے میں کامیاب ہوا۔ اس دفعہ خوش قسمتی سے وہ چائلڈ لیبر کیخلاف سرگرم تنظیم کے پاس جا پہنچا جنہوں نے پاکستانی قانون کی روشنی میں غلامی سے نجات دلائی۔ اقبال مسیح نے لاہور کے اپنے جیسے تقریباً3ہزار ننھے مزدور بچوں کو بھی سرمایہ داروں کی قید سے آزاد کیا۔ اقبال مسیح نے10سال کی عمر میں بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نام باؤنڈڈ لیبرلبریشن فرنٹ(BLLF)تھا۔ اقبال10سالہ لیڈر، جس نے سرمایہ داروں کی فیکٹریوں بھٹوں سے ہزاروں بچوں کو آزاد کروایا۔ جس کی وجہ سے چائلڈ لیبر پر پابندی لگی۔ دنیا کو خبر ہوئی تو اقبال جو11سال کی عمر میں بھی4فٹ سے کم قد کا تھا کی دھوم مچ گئی۔1994میں اقبال کو امریکہ میں مدعو کیا گیا اورری بک یوتھ این ایکشن کے تحت چائلڈ ہیرو کے ایوارڈ سے نوازا گیا جسکے تحت سالانہ15ہزار امریکی ڈالرز کی تعلیمی اسکالر شپ دی گئی۔ جبکہ برانڈیز یونیورسٹی نے اقبال کو کالج کی عمر تک پہنچنے پر مفت تعلیم دینے کا اعلان کیا۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیموں نے اس ہیرو کو پہلے سویڈن پھر اسکے بعد امریکہ میں اسکول کے بچوں سے بات چیت کرنے کیلئے بلایا۔ جہاں مقامی اسکولوں کے طالب علموں نے اپنے جیب خرچ سے ایک فنڈ قائم کیا جو آج بھی پاکستان میں بچوں کے تقریباً20اسکول چلارہا ہے۔ اسی دوران اقبال نے2سالوں میں4سال کے برابر تعلیم حاصل کی۔ حالانکہ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے بہت ہی چھوٹا دکھائی دیتا تھا مگر اس کا عزم بہت بڑا تھا۔1995میں اقبال جب امریکہ سے واپس اپنے گاؤں رکھ پاؤلی پہنچا تو16اپریل1995کو جب وہ سائیکل چلارہا تھا تو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے اس ننھے ہیرو کی زندگی ختم کر ڈالی۔ یہ گناہ کن ظالموں سے سرزد ہوا کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کو اسی تاجر نے مار ڈالا تھا جسکے پاس وہ بچپن میں کام کرتا تھا۔ جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ کسی مقامی کسان کو اقبال مسیح کی نیک نامی ایک آنکھ نا بھائی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے اشرف نامی ہیروئن کے عادی شخص نے قتل کیا۔ اقبال کے قتل کی خبر معروف امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کے مین پیج پر شائع ہوئی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ دنیا ننھے ہیرو سے کتنی متاثر تھی۔ اقبال کی موت کے بعد کینیڈا کے مقامی نوجوانوں نے ”فری دا چلڈرن” نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ جبکہ” اقبال مسیح چلڈرن فاؤنڈیشن” کا بھی آغاز کیا گیا۔ جو جبری مزدوری کرنیوالے بچوںمیں علم کی روشنی لانے کیلئے کام کرتی ہے۔ کینیڈا میں آج بھی اقبال میسح کے نام سے چلڈرن رائٹس فنڈ ایشو ہوتا ہے۔2009میں امریکی کانگریس نے سالانہ” اقبال میسح ایوارڈ” کا آغاز کیا۔ جو دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے افراد میں سے ہر سال کسی ایک کو دیا جاتا ہے۔2014میں جب بھارتی شہری کیلاش کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا تو انہوں نے بھی اپنی تقریر میں اقبال مسیح کو خراج تحسین پیش کیا۔ اقبال مسیح کا تذکرہ اطالوی مصنف فرانسسکو کے ناولز میں بھی موجود ہے۔ اور اس کی زندگی پر کئی ڈاکیو مینٹریز بن چکی ہیں۔ لیکن کچھ نہ ملا تو وہ اسے اپنے ملک سے نہ ملا۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ اقبال مسیح کو جانتے ہی نہیں اور یقینا آپ نے بھی اقبال مسیح کا نام پہلی بار سنا ہوگا۔ کیونکہ ہم جس ملک میں بستے ہیں اس کا کنٹرول سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے اور اقبال آواز ہے جدوجہد کی، سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی ۔ اور یہ میڈیا اخبارات کبھی بھی اقبال کے بارے میں نہیں بولے اور نہ ہی بولیں گے۔ کیونکہ یہ سب سرمایہ داروں کی کمپنیز ہیں۔ پارلیمنٹ سے لے کر عدلیہ سے ہوتے ہوئے بیروکریسی کے دروازوں سے نکل کر میڈیا کے دفتروں تک ہر جگہ سرمایہ دار بیٹھا ہے۔ نہ جانے ہم لوگ کتنے ہی اقبال گنوا بیٹھے۔ اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

بہادر ارشد شریف شہید

پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کا بڑا نقصان ہوگا ، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور صحافی ملک و قوم کی رہنمائی کیلئے مثبت کردار ادا کریں ورنہ تو حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے

عمران خان پر قاتلانہ حملہ کرنیوالے کو قرار واقعی سزا دی جائے اور پس پردہ حقائق منظر عام پر لائے جائیں اور قاتل کو پکڑنے والے بہادر جوان کو خراج تحسین اور انعام سے نوازا جائے

شہید ارشد شریف پہلے صحافی ہیں جن کو اپنی شہادت کی وجہ سے ملکی ، قومی، حکومتی، عوامی، صحافتی، ریاستی اور بین الاقوامی سطح پر اتنی بڑی عزت ملی ہے جس سے صحافیوں کا حوصلہ بلند ہوا

ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابرافتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم نے پریس کانفرنس کرکے ارشد شریف کی شہادت کوARYکے مالک کے کھاتے میں ڈالا جس میں وہ مخلص یا جوابی الزام تراشی ہوسکتی ہے اسلئے کہ یہ ماحول بن گیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کایہ کہنا کہDGISIنے مجھ سے اجازت لیکر پریس کانفرنس کی ہے تو اس پر ہا ہاہاہا ہا……. ہی ہوسکتا ہے۔ اس کو یہ اعتراف جرم کرنا چاہیے تھا کہ نالائق اور نااہل حکومت نے ترجمانی کا حق ادا نہیں کیا اسلئے بے چاروں کو خود میدان میں اترنا پڑا ہے جس پر ہم شرمندہ ہیں۔
فوج سیاست کیلئے نہیں دشمن سے دفاع کیلئے ہوتی ہے۔ الزام تراشی کی وجہ سے تفتیشی ٹیم سےISIکا نمائندہ نکال دیاگیا۔ عمران ریاض، سمیع ابراہیم، صابر شاکر ، چوہدری غلام حسین بھی منظور پشتین، علی وزیر اور محسن داوڑ کی طرح اب محبانِ فوج نہیں تھے لیکن وہ قتل نہیںہوئے۔البتہ حامد میر اورابصار عالم کو گولیاں لگیں۔عمرشہزادشہیدہوا ،مطیع اللہ جان اغواء اور پٹ چکا، اسد علی طور پٹ چکا۔ ایاز امیر پٹے۔ ارشد شریف کی شہادت نے بڑی جگہ بنالی اور اس پر یقینا بہت تشویش، رنج ، غم و غصہ کی لہر بنتی ہے اسلئے کہ آلودہ فضاؤں میں معاملہ زیادہ حساس ہوتا ہے۔ارشد شریف شہید کے قاتلوں کا سراغ لگانا ضروری ہے لیکن اندھا دھن ایسی الزام تراشی کرنا جس سے ملک وقوم کو نقصان پہنچے اور کوئی بے گناہ زد میں آئے تو یہ انتہائی غلط ہے۔ صحافتی ، ریاستی، حکومتی اور اپوزیشن کی فضا آلودہ ہے ۔ کس کے گلے کی یہ ہڈی اور کس کا یہ فالودہ ہے؟۔ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹواورفاروق لغاری نے مرتضیٰ بھٹو کا قاتل آصف علی زرداری کو سمجھاتھا۔ زرد صحافت یا ریاست مکافاتِ عمل کا شکارہے؟ ،جائزہ لیں! ۔
صحافی وسعت اللہ خان نے کہا تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا اصل جھگڑا فوج سے نظریاتی نہیں بلکہ گھر یلو اور خاندانی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں فوج سے کہتی ہیں کہ جب ہم دو بیویاں تھیں تو تحریک انصاف کو کیوں لے آئے؟۔ مطیع اللہ جان نے نواز شریف کو فوج کے مقابلے میں نظریاتی کردار ایک بھٹو کے طور پر پیش کرنے کے سوال پریہ جواب وسعت اللہ خان نے دیا تھا۔
ارشد شریف پرGEOاورARYمیں سوکناہٹ کا مسئلہ ہے۔ اگریہ کہا جائے کہGEOکا کردار جمائماخان اورARYکا ریحام خان کی طرح بن گیا ہے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔اب فوجی حکام نے24نیوز کو اپنی پریس کانفرنس کیلئے مدعو کرکے بی بی بشریٰ کا درجہ دیا ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ24نیوز نے زیادہ آزادانہ صحافت کا کردار ادا کیا ہے۔
سوشل میڈیا چلانے والے انواع واقسام کے لوگ صرف طوائف کی طرح یوٹیوب پرپیسے کمانے کیلئے ہرقسم کے بے وسروپا جتن کرتے ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ ان کے پرکشش اورانتہائی سنسنی خیز عنوانات سے گناہ بے لذت حاصل کرنے کے بجائے ان لوگوں کو سنیں جو معتبر صحافی ہیں جیسے رؤف کلاسرا۔ رؤف کلاسرا کا تعلق لیہ شہر پنجاب سے ہے اور وہاں میں نے ابھرتی ہوئی جوانی کے کچھ سال گزارے ہیں۔ اس وقت پرائیوٹ سکول کا رواج نہیں تھا اور وہ ہم سے سینئر بھی تھے اور گورنمنٹ ہائی سکول بھی الگ الگ تھے۔ ارشد شریف کا نام رؤف کلاسرا کی وجہ سے پہلی مرتبہ ان لوگوں کی فہرست میں آیا جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اچھے ہی ہوں گے۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ارشد شریفARYپر فوجی حکام کی تعریفوں میں سر گرم رہتے ہیں اور روف کلاسرا کو مین اسٹریم میڈیا سے کیوں غائب کردیا گیا ہے؟۔ لیکن نیک گمان اپنی جگہ تھا۔
محمد مالک سے ایک ملاقات ہوئی ہے ۔ رؤف کلاسرا اپنے سوشل میڈیا کے چینل پر محمد مالک کو لیتے رہتے ہیں۔ رؤف کلاسرا کیساتھ محمدمالک کے شو کو معتبر سمجھ کر دیکھا تو اس میں تین قسم کے امکانات کا ذکر کیا گیا جن پر مسلسل الزامات لگ رہے ہیں۔ ایک ہماری اسٹیبلشمنٹ، دوسرےARYوالے اور تیسرے کینیا پولیس اور اس کی حکومت۔ جتنی بات کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے تو اس میں قتل کرنے والوں تک پہنچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ ارشد شریف کی اہلیہ نے ٹوئٹ کیا ہے کہ کینیا میں ارشد شریف کے میزبان وقارلوگوں کو تنگ نہیں کیا جائے۔ وقار نے کہا ہے کہ اگر ہمیں یہ کام کرنا ہوتا تو اس کے اور ہزاروں طریقے ہوسکتے تھے ، اس طرح کیوں کرتے؟۔ کینیا پولیس بدنام ہے ۔ اس کا اپنی ذمہ داری کو قبول کرنا بھی عجیب ہے۔ ہماری ریاست کیوں کسی کو قتل کرنے کی حد تک سازش میں ملوث ہوگی؟۔ کسی پر الزام لگانے کی ضرورت نہیں لیکن تحقیقات کے ذریعے جو اصل مجرم ہیں ان تک پہنچا جائے جو مشکل ہے۔
محمد مالک نے یہ سوال اٹھایا کہDGISIکا یہ کہنا سمجھ سے بالاتر ہے کہ ارشد شریف کو خطرہ نہیں تھا۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ کینیا میں اب ویزے کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ارشد شریف کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے کینیا مدعو کیا گیا تھا۔ محمد مالک نے کہا کہ کاشف عباسی کی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ اس کو دبئی حکام کی طرف سے جانے پر مجبور کیا گیا تھا؟۔ سوالات اٹھانا اور جوابات دیناکسی پر الزام تراشی کیلئے نہیں بلکہ اصل حقائق تک پہنچنے کیلئے ہونا چاہیے۔
خاتون کے جذبات اور کیڈٹ کالج کے فاضل ڈاکٹر کے جذبات بھی غلط وکالت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات اور واقعات کا ایک آئینہ ہیں۔
یہ تو ممکن ہے کہ ارشد شریف کی شہادت کسی گہری سازش کا نتیجہ ہو اور اس میں بین الاقوامی سے لیکر مقامی مافیاز سازش تک کچھ بھی بعیداز امکان نہیں ہے لیکن بڑے معروضی حقائق کو نظرانداز کرنا بھی صحافت کیساتھ بڑی زیادتی ہے۔
ہمیں شوق نہیں کہ پاکستان کے طاقتور ادارے فوج کی وکالت کا کردار ادا کریں لیکن حق بات کہنے میں عوامی جذبات کی جگہ فکر وشعور کی افزائش اور مشکلات میں پھنسے لوگوں کی درست مدد کرنا ضروری ہے۔ جن کو پاک فوج نے اپنے کاندھے پر چڑھاکر میڈیا میں آنے کی کلیرنس دی ہو تو ان کی طرف سے سیاسی جماعت کی طرح فریق بن کر فوج کے خلاف بیانیہ بنانا قابلِ غور ہے؟۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس کو قتل کرنا جرم نہیں ہے لیکن اتنی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے کہ جن طوطوں کی اپنے ہاتھوں سے آبیاری کی ہو ،اگر وہ اپنے محسن کو ایسے چوراہے پر گالیاں بکنا شروع کردیں تو جتنا ان کا بس چلے گا اتنا وہ اپنا زور بازو استعمال کرکے اس کو خاموش یا رویہ تبدیل کرنے پرمجبور کریں گے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ جہاں کہیں اس کو حادثہ ہوجائے تو اس کو اسی کھاتے میں ڈالا جائے۔ پاکستان میں کیس الگ بات ہے اور باہر الگ معاملہ ہے۔ دونوں کو ایسا جوڑ دینا کہ اس پر فیصلہ کیا جائے بہت بڑی زیادتی ہے۔
یہ ماحول کیوں بنا ہے؟۔ حامد میر نے جنرل رانی سے لیکر ارشد شریف کے قتل سے ایک دن پہلے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں یہاں تک کہا کہ منظور پشتین کو میڈیا پر کیوں نہیں آنے دیا جاتا ہے؟۔ اگر وہ دہشت گرد ہے تو پھر ہم سب دہشت گرد ہیں۔ ایک بلوچ شاعر سمیت کچھ افراد کی ضمانت وزیرقانون اعظم تارڑ ، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ اور ایڈوکیٹ مرتضیٰ نے دی تھی کہ ان کی لاش کو نہیں پھینکا جائے گا۔ اور اس وجہ سے بلوچ خواتین نے مسنگ پرسن کا50دنوں سے دھرنا ختم کیا تھا۔ جن کا مطالبہ تھا کہ ان قیدیوں کو رہا بھی مت کرو، عدالت میں بھی پیش مت کرو، بس صرف ان کی لاشیں مت گراؤ، لیکن ایک شاعر کی لاش کو پھینک کر ان سب لوگوں کے منہ پر تھپڑ مارا گیا ہے۔ بلوچ شاعر اور ارشدشریف میں یہ فرق ضرور تھا کہ بلوچ اپنے قوم کے حقوق کیلئے لڑرہاتھا اور ارشد شریف کی لڑائی نہ صرف عمران خان کیلئے تھی بلکہ رجیم چینج آپریشن میں عمران خان نے ہی امریکہ کیلئے جب میرجعفر اور میر صادق کسی کو قرار دیا تھا تو اگلے دن ہی وضاحت کردی تھی کہ نوازشریف اور زردای مراد ہیں۔ ارشد شریف نے ”وہ کون تھا؟” کے ایک پروگرام سے میرجعفر اور میر صادق جنرل قمر جاوید باجوہ اورجنرل ندیم انجم کو ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کی تھی۔ اس پر بھی انکے خلاف مقدمات نہیں بنے۔ البتہ شہبازگل اور مطیع اللہ جان کی طرف سے مجبور کرنے کے بعد جو سوالات کے جوابات دئیے تھے تو اس پر مقدمات قائم کئے گئے تھے۔ شہباز گل کیساتھ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا لیکن قتل تو نہیں کیا گیا، پھر ارشد شریف کو کیوں قتل کیا جاتا؟۔ مطیع اللہ جان کیساتھ بھی جو ہونا تھا وہ ہوا مگر قتل نہیں کیا گیا۔ پھر ارشدکے قتل کی سازش کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا مگر قتل ہوا اسلئے سوال پیدا ہوگیا۔
مشورہ ہے کہ جنرل عاصم منیر کی امامت میں کور کمانڈر ز دو رکعت نمازشکرانہ ادا کریں کہ عمران ریاض، سمیع ابراہیم، صابر شاکراور چوہدری غلام حسین وغیرہ مخالف کیمپ میں ہیں اسلئے کہ سب اپنے اپنے طرز پر نہ صرف ارشد شریف کے قتل کو جائز قرار دیتے بلکہ دنیا کے دوسرے کونے میں اس کو نمبر ون کا کارنامہ بھی کہتے۔ پاک فوج کو انہی لوگوں نے اپنے غلط ماحول کی وجہ سے اس حدکو پہنچادیا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد ان سے سخت بدظن ہے اور ان کو صفائی دینی پڑرہی ہیں اور یہ لوگ بھی شکر ادا کریں کہ تھوڑے بہت عتاب میں آگئے اور گناہ دھل گئے۔
شمالی وزیرستان میں ایک چیک پوسٹ پر پاک فوج کے جذباتی سپاہیوں نے فائرنگ کرکے16افراد شہید اور45افراد کو شدید زخمی کردیا تھا جن کو بعد میں معاوضے بھی دئیے گئے۔ ارشد شریف شہید نےARYنیوز پر خبردی کہ دو پارلیمنٹ کے ممبر علی وزیر اور محسن داوڑ نے چیک پوسٹ پر حملہ کردیا جس میں5سکیورٹی اہلکار زخمی اور کچھ حملہ آور مارے گئے۔ کیا ان لوگوں کے والدین نہ تھے؟ اور بیوی بچے ، خاندان اور دوست احباب نہیں تھے؟۔ ارشد شریف کے والد کی طبعی موت ہوئی تھی اور بھائی فوج میں ڈاکٹر تھے اور حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔ ایک گھر سے دو جنازے اُٹھانے والوں کا احساس بڑا احساس ہے ؟۔ ہمارے گھر پر حملہ ہوا تو13افراد کی شہادت ہوئی تھی۔ الجزیرہ کے علاوہ کوئی پاکستانی میڈیا چینل موقع پر نہیں آیا۔ اسلئے نہیں بتارہاہوں کہ کوئی گلہ شکوہ ہے کیونکہ
جو فقر ہوا تلخی دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
مجھ پر اس سے ایک سال پہلے 2006ء میں فائرنگ ہوئی جس جگہ پولیس کا ناکہ ہوتا تھا اور اس دن پولیس موقع سے غائب تھی۔ ڈارئیور والا دروازہ ایسا کٹ گیا تھا جیسے کلہاڑی سے چیر دیا ہو لیکن ہم تینوں افراد معجزانہ طور پر بچ گئے۔ ساتھ میں بیٹھے ہوئے فرنٹ پر میرے بھتیجے کے سرکے کچھ بال اڑ گئے تھے اور پچھلی نشت پر بیٹھے ہوئے عزیز کو تین گولیاں لگی تھیں لیکن بالکل ہلکے نشان تھے۔2007میں گھر پر حملہ ہوا تو بھتیجے ارشد کے سر کا بھیجا درخت پر چپک گیا تھا۔
کینیا پولیس پر سوالات اٹھانے سے پہلے ماڈل ٹاؤن لاہور میں14افراد کی شہادت پر کیا نتائج نکالے ہیں؟۔ کیا وہ انسان نہیں تھے؟۔ ہماری صحافت کا معیار وکالت اور دلالی نہیں ہونا چاہیے۔ ارشد شریف کی شہادت ایک بڑا سانحہ ہے۔ جنازے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے اور اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان سے بڑا جنازہ علامہ خادم حسین رضوی کا تھا۔جنکے ساتھ صحافی برادری ، فوجی حکام کے دستے اور تحریک انصاف کا جنون بھی نہیں تھا۔تاہم یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اپنے پرائے سبھی ان کے اخلاق اور کردار کے معترف تھے۔ اتنی عزت کسی کسی نصیب والے کو موت کے بعد ملتی ہے جومریم نواز کی طرح قابل عبرت نہیں بلکہ بہت قابلِ رشک ہے۔
میں رؤف کلاسرا کو صحافت کا دماغ اور ارشد شریف کو صحافت کا دل سمجھ رہا ہوں۔ دل سے کبھی عشق وجنون کی غلطی سرزد ہوتی ہے جو قابلِ گرفت نہیں بلکہ قابلِ درگزر ہوتی ہے۔ ارشد شریف کو پاک فوج سے عشق تھا اور ہمارے گھر کو طالبان سے عشق تھا۔ ارشد شریف کی شہادت نے فوج کے مورال کو خراب کردیا اور ہمارے گھر کے واقعے نے طالبان کو عوام کی نظروں سے گرادیا تھا۔ ہمارے واقعہ کو طالبان مان گئے تھے لیکن ان کے ہاتھ سے شریعت اور پشتو دونوں ہی نکل گئے اور میرا غالب یقین ہے کہ ارشد شریف کی شہادت میں پاک فوج کا بالکل بھی ایسا کردار نہیں ہے جس میں ان کو ملوث کرنے کی زبردست کوشش ہے۔
جب کسی بھی بے گناہ پر قتل کا غلط الزام لگ جائے تو مقتول سے ہمدردی کا رواج عام ہے لیکن بے گناہ پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ مشکل ہے۔2006میں جب مجھ پر حملہ ہوا تو مجھے پولیس افسر نے کہا کہ کس کیخلاف آپFIRدرج کروگے؟۔ میں نے کہا کہ ریاست کیخلاف ریاست کے تھانے میںFIRدرج کرنا کم عقلی کے سوا کیا ہے؟۔ اس نے وضاحت مانگی تو میں نے پوچھا کہ اسلحہ بردار نقاب پوش گھومتے ہیں تو ان پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں؟ ان کو ریاست نے اجازت نہیں دی ؟۔ تو اس نے کہا کہ میں ذاتی طور پر کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں، اپنے پہنچ رہے ہیں۔میرے بھائی ، ماموں ، ماموں زاد اور ایک پڑوسی تھوڑی دیر میں پہنچ گئے۔ پھر میں چند دن آنے والوں کیلئے بیٹھ گیا اور پھر دوبئی دوست کے ہاں گیا۔ پھر واپس آکر اپنے اخبار کا کام شروع کیا۔ جب2007میں واقعہ ہوا تو دوبئی گیا۔ طالبان کے اس حملے کے بعد میری خواہش تھی کہ بیرون ملک کسی جگہ سیاسی پناہ لے لوں۔ جرمنی ، فرانس، ناروے اور سویڈن جانے کا موقع بھی ملا لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ کہیں میری تگ ودو سے تحریک طالبان اور پاکستان کو نقصان نہ پہنچے اسلئے کہ نیٹو کی افواج نے نہ صرف افغانستان بلکہ عراق اور لیبیا کو بھی تباہ کردیا تھا۔ حالانکہ میری دانست میں فرانس وغیرہ کے خبرنامے پر ہمارے واقعہ کی خبر پڑی ہوئی تھی لیکن مجھے اس طرح پناہ نہیں لینی تھی کہ جان بچے اور اغیار اپنے فوائد اٹھائیں۔ پاکستان میں پاک فوج کے جرائم میں نواز شریف اور عمران خان کو بھی ڈال دیں تو اس کو ڈوب مرنا چاہیے لیکن تاہم یہ چندا فراد کی خواہش اور کم عقلی کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور قوم کے اجتماعی مفاد کیلئے پاک فوج کا بڑا رول ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہماری پولیس، عدالتیں ،سیاستیں اور زندگی میں ایک ریاست کے مزے ان کی مرہون منت ہیں۔ ریاست تومشرکینِ مکہ کی جیسی تیسی تھی لیکن رسول اللہ ۖ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ ان سے بھی کیا تھا۔ آج سعودی عرب کی ریاست نے جس طرح انسانی حقوق کو پامال کیا ہے تو وہ مشرکینِ مکہ کے دور سے بھی زیادہ بدتر ہے جس میں جان ،مال اور عزت کے علاوہ آزادی کو تحفظ نہیں دیا گیاہے۔ پاکستان میں آزادی کا جتنا تصور ہے وہ ہمارے صحافی اپنی دلالی اور وکالت کے ذریعے زیادہ خراب کرتے ہیں ورنہ اچھے اچھے صحافیوں کا کھل کر بولنا بہت بڑی غنیمت ہے۔ اگر سب کو اپنی وکالت اور چینل مالکان کی پالیسیوں کے مطابق بکنے دیا جائے تو بہت خرابی پیدا ہوگی۔ قرآن میں دو بڑے جرائم ہیں ۔ایک عورت پر ہاتھ ڈالنا اور دوسرا افواہ سازی سے معاشرے میں انتشار پیدا کرنا۔ دونوں کی سزا قتل ہے۔ کسی فرد پر بہتان سے زیادہ ریاست پر بہتان تراشی کا نقصان ہے لیکن ہمارے ہاں یہ تو ادنیٰ درجے کی بات بلکہ دلیری سمجھی جاتی ہے۔
ارشد شریف پہلے جس اعتماد کیساتھ فوج کی حمایت کررہے تھے آخر میں اس اعتماد کیساتھ مخالفت کررہے تھے۔ پہلے دل فوج کو دیا ہوا تھا اور پھر عمران خان کو دل دے دیا تھا۔ ان کی فکرسے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا جذبہ سچا تھا۔ اگر دوست احباب یہ مشورہ دیتے کہ ایاز امیر ، ابصار عالم اور مشتاق منہاس نے جب ن لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو صحافت کو خیرباد کہہ دیا۔ آپ بھی اگر سیاسی ڈگر اختیار کرنا چاہتے ہیں تو پھر صحافت چھوڑ دیں۔ صحافی کیلئے کسی سیاسی جماعت کی وکالت کرنا قانونی، اخلاقی اور شرعی اعتبار سے منع ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عرفان صدیقی جیسے صحافی ن لیگ کو سپورٹ کرتے ہیں تو جانبداری میں اس حد تک کہتے ہیں کہ رفیق تارڑ نے پانچ جرنیلوں کے سامنے استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا جس پر حامد میر نے صرف اتنا کہا تھا کہ” تارڑ نے”۔جب مظہر عباس سے ن لیگی جھرمٹ صحافیوں نے کہلوانا چاہاکہ بھٹو، نوازشریف اور عمران خان تینوں کرکٹرکو فوج سیاسی میدان میں لائی ہے تو مظہر عباس نے کہا کہ ” بھٹو صاحب کا بھی سیاست میں آنے سے پہلے ایک بیک گراؤنڈ تھا۔ عمران خان کا بھی ایک بیک گراؤنڈ تھا لیکن نوازشریف کو گورنر ہاؤس جنرل جیلانی کے پاس لایا گیا تو اس نے جم کے کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے تھے۔ پوچھا کہ کام کیا کرتے ہو؟۔ اور پھر اس کووزیر خزانہ بنادیا۔نوازشریف اور اس کے خاندان کو سیاست میں لانا اب تک میری سمجھ میں نہیں آیا ہے”۔ عمران خان کی کامیابی یا بگاڑ کا ایک بنیادی سبب شریف خاندان کی عجیب وغریب طرز سیاست بھی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv